تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الانشراح

نام

پہلے ہی فقرے کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

اس کا مضمون سورۂ ضحیٰ  سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ یہ دونوں  سُورتیں  قریب قریب ایک ہی زمانے اور ایک جیسے حالات میں  نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں۔  حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ  فرماتے ہیں  کہ یہ مکّۂ معظمہ میں  والضحیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے۔

موضوع اور مضمون

اس کا مقصد و مدعا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلّی دینا ہے۔  نبوّت سے پہلے حضور ؐ کو کبھی اُن حالات سے سابقہ پیش نہ آیا تھا جن کا سامنا نبوّت کے بعد دعوتِ اسلامی کا آغاز کرتے ہی یکایک آپؐ کو کرنا پڑا۔ یہ خود آپؐ کی زندگی میں  ایک انقلابِ عظیم تھا جس کا کوئی اندازہ آپؐ کو قبلِ نبوت کی زندگی میں  نہ تھا۔ اسلام کی تبلیغ آپؐ  نے کیا شروع کی کہ دیکھتے دیکھتے وہی معاشرہ آپ ؐ کا دشمن ہو گیا جس میں  آپ ؐ پہلے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔  وہی رشتہ دار،  دوست،  اہلِ قبیلہ اور اہلِ محلہ آپؐ  کو گالیاں  دینے لگے جو پہلے آپ ؐ کو ہاتھو ہاتھ لیتے تھے۔  مکّہ میں  کوئی آپؐ کی بات سننے کا روادار نہ تھا۔  راہ چلتے آپ پر آوازے کسے جانے لگے۔  قدم قدم پر آپ ؐ  کے سامنے مشکلات ہی مشکلات تھیں۔  اگرچہ رفتہ رفتہ آپؐ کو اِن حالات،  بلکہ اِن سے بھی بدرجہا زیادہ سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت پڑ گئی، لیکن ابتدائی زمانہ آپ ؐ کے لیے نہایت دل شکن تھا۔ اِسی بنا پر آپ ؐ کو تسلی دینے کے لیے پہلے سُورۂ ضحیٰ نازل کی گئی اور پھر اِس سورت کا نزول ہوا۔

اِس میں  اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ ؐ کو  بتایا ہے کہ ہم نے آپ ؐ کو تین بہت بڑی نعمتیں  عطا کی ہیں  جن کی موجودگی میں  کوئی وجہ نہیں  کہ آپ ؐ دل شکستہ ہوں۔  ایک شرح صدر کی نعمت۔ دوسری نعمت کہ آپ کے اوپر سے ہم نے وہ بھاری بوجھ اتار دیا جو نبوّت سے پہلے آپ ؐ کی کمر توڑے ڈال رہا تھا۔ تیسری رفعِ ذِکر کی نعمت جو آپ ؐ سے بڑھ کر تو درکنار آپ ؐ کے برابر بھی کبھی کسی بندے کو نہیں  دی گئی۔ آگے چل کر ہم نے اپنے حواشی میں  وضاحت کر دی ہے کہ اِن تینوں  نعمتوں  سے مراد کیا ہے اور یہ کتنی بڑی نعمتیں  ہیں۔

اِس کے بعد ربِّ کائنات اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطمینان  دلاتا ہے کہ مشکلات کا یہ دور،  جس سے آپ ؐ کو سابقہ پیش آ رہا ہے،  کوئی بہت لمبا دور نہیں  ہے بلکہ اِس تنگی کے ساتھ ہی ساتھ فراخی کا دور بھی لگا چلا آ رہا ہے۔  یہ وہی بات ہے جو سورۂ ضحیٰ میں  اِس طرح فرمائی گئی تھی کہ آپ ؐ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے  دور سے بہتر ہو گا اور عنقریب آپ ؐ کا ربّ  آپ ؐ کو وہ کچھ دے گا جس سے آپ ؐ کا دل خوش ہو جائے گا۔

آخر میں  حضور ؐ کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ابتدائی دور کی اِن سختیوں  کا مقابلہ کرنے کی طاقت آپ کے اندر ایک ہی چیزسے پیدا ہو گی، اور وہ یہ ہے کہ جب اپنے مشاغل سے آپ فارغ ہوں  تو عبادت کی مشقت و ریاضت میں  لگ جائیں  اور ہر چیز سے بے نیاز ہو کر صرف اپنے ربّ سے لَو لگائیں۔  یہ وہی ہدایت ہے جو زیادہ تفصیل کے ساتھ حضور ؐ کو سورۂ مزّمِّل آیات ۱ تا ۹ میں  دی گئی ہے۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 (اے نبیؐ ) کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں  دیا؟ 1 اور تم پر سے وہ بھاری بوجھ اُتار دیا جو تمہاری کمر توڑ ڈال رہا تھا۔ 2 اور تمہاری خاطر تمہارے ذِکر کا آوازہ بلند کر دیا۔ 3 پس حقیقت یہ ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔  بے شک تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے۔  4 لہٰذا جب تم فارغ ہو تو عبادت کی مشقت میں  لگ جاؤ اور اپنے ربّ ہی کی طرف راغب ہو۔ 5 ؏۱

 

1: اِس سوال سے  کلام کا آغاز،  اور پھر بعد  کا مضمون یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اُس زمانے میں  اُن شدید مشکلات پر سخت پریشان تھے جو دعوتِ اسلامی کا کام شروع کرنے کے بعد ابتدائی دور میں  آپ کو پیش آ رہی تھیں۔  اِن حالات میں  اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو مخاطَب کر کے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا  کہ اے نبی، کیا ہم نے یہ اور یہ عنایات تم پر نہیں  کی ہیں ؟ پھر اِن ابتدائی مشکلات پر تم پریشان کیوں  ہوتے ہو؟ سینہ کھولنے کا لفظ قرآن مجید میں  جن مواقع پر آیا ہے اُن  پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے دو معنی ہیں۔  (۱) سورۂ اَنعام آیت ۱۲۵ میں  فرمایا فَمَنْ یُّرِدِ اللہُ اَنْ یَّھْدِ یَہ ٗ یَشْرَحْ صَدْ رَ ہٗ لِلْاِسْلَامِ  ’’پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ ہدایت بخشنے کا ارادہ فرماتا ہے  اُ س کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ ‘‘  اور سورۂ زُمَر آیت ۲۲ میں  فرمایا اَفَمَنْ شَرَ حَ اللہُ صَدْرَ ہٗ لَلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلیٰ نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہ ۔  ’’تو کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا ہو پھر وہ اپنے ربّ کی طرف سے ایک روشنی پر چل  رہا ہو۔ ۔۔۔۔۔‘‘۔ اِن دونوں  مقامات پر شرح صدر سے مراد ہر قسم کے ذہنی خَلْجَان اور تردُّد سے پاک ہو کر اِس بات پر پوری طرح مطمئن ہو جا نا ہے کہ اسلام کا راستہ ہی بر حق ہے اور وہی عقائد،  وہی اصولِ اخلاق و تہذیب و تمدّن، اور وہی احکام و ہدایات بالکل صحیح ہیں  جو اسلام نے انسان کو دیے ہیں۔  (۲) سورۂ شُعراء آیت ۱۳-۱۲  میں  ذکر آیا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ  کو جب اللہ تعالیٰ نبوت کے منصبِ  عظیم پر مامور کر کے فرعون اور اس کے عظیم سلطنت سے جا ٹکرا نے کا حکم دے رہا تھا تو انہوں  نے عرض کیا رَبِّ  اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ۔ ’’میرے رب، میں  ڈرتا ہوں   کہ وہ  لوگ مجھے جھُٹلا دیں  گے اور میرا سینہ تنگ  ہو رہا ہے۔ ‘‘ اور سُورۂ طٰہٰ  آیات ۲۶-۲۵ میں  بیان کیا گیا ہے کہ اِسی موقع پر حضرت موسیٰ ؑ  نے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی کہ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْ لِیْٓ اَمْرِیْ۔ ’’ میرے رب میرا سینہ میرے لیے کھول دے اور میرا کام میرے  لیے آسان کر دے۔ ‘‘ یہاں  سینے کی تنگی  سے مراد یہ ہے کہ نبوّت جیسے کارِ عظیم کا بار سنبھالنے اور تن تنہا کفر کی ایک جابر و قاہر طاقت سے ٹکّر لینے کی آدمی کو ہمّت نہ پڑ رہی ہو۔ اور شرحِ صدر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کا حوصلہ بلند ہو جائے،  کسی بڑی سے بڑی مہم  پر جانے اور کسی سخت سے سخت کام کو انجام دینے میں  بھی اسے تامُّل نہ ہو، اور  نبوّت کی عظیم ذمّہ داریاں  سنبھالینے  کی اس میں  ہمت پید اہو جائے۔  غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اِس آیت میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا سینہ کھول دینے سے یہ دونوں  معنی مراد ہیں۔  پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم مشرکین عرب، نصاریٰ، یہود، مجوس، سب کے مذہب کو غلط سمجھتے تھے،  اور حَنِیفیّت پر بھی مطمئن نہ تھے جو عرب کے بعض قائلینِ توحید میں  پائی جاتی تھی،  کیونکہ یہ ایک مبہم عقیدہ تھا  جس میں  راہِ راست کی کوئ تفصیل نہ  ملتی تھی (اس کی تشریح  ہم تفہیم القرآن، جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ ۵ میں   کر چکے ہیں)، لیکن آپ کو چونکہ خود یہ معلوم نہ تھا کہ راہِ  راست کیا ہے،  اس لیے آپ سخت ذہنی خَلْجان میں  مبتلا تھے۔  نبوّت عطا کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اِس خلجان کو دُور کر دیا اور  وہ راہِ  راست کھول کر آپ کے سامنے رکھ دی جس سے آپ کو کامل اطمینانِ  قلب حاصل ہو گیا۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے اِ س کا مطلب یہ ہے کہ  نبوت عطا کر نے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ حوصلہ،  وہ ہمّت،  وہ اولو العزمی اور وہ وسعتِ قلب عطا فر مادی جو اِس منصبِ عظیم کی ذمّہ داریاں  سنبھالنے کے لیے درکار تھی۔ آپ اُس وسیع علم کے حامل ہو گئے جو آپ کے سوا کسی انسان کے ذہن میں  سمانہ سکتا  تھا۔ آپ کو وہ حکمت نصیب ہو گئی جو بڑے سے بڑے بگاڑ کو دُور کرنے اور سنوار دینے کی اہلیت رکھتی تھی۔ آپ اِس قابل ہو گئے کہ جاہلیت  میں  مستغرق اور جہالت کے اعتبار سے انتہائی اکھّڑ معاشرے میں  کسی سر و سامان اور ظاہراً کسی پُشت پنا ہ طاقت کی مدد کے بغیر اسلام کے علمبردار بن کر کھڑے ہو جائیں،  مخالفت اور دشمنی  کے  کسی بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرنے سے نہ ہچکچائیں ،  اس راہ میں  جو تکلیفیں  اور مصیبتیں  بھی پیش آئیں  ان کو صبر کے ساتھ برداشت  کر لیں،  اور کوئی طاقت آپ کو اپنے موقف سے نہ ہٹا سکے۔  یہ شرحِ صدر کی بیش بہا دولت جب اللہ نے آپ کو عطا کر دی ہے تو آپ اُن مشکلات پر دل گرفتہ کیوں  ہوتے ہیں  جو آغازِ کار کے اِس مرحلے میں  پیش آ رہی ہیں۔  بعض مفسرین نے شرح صدر کو شقِّ  صدر کے معنی میں  لیا ہے اور اس آیت کو اُس معجزہْ شقِّ صدر کا ثبوت قرار دیا ہے جو احادیث کی روایات میں  بیان ہوا ہے۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معجزے کے ثبوت کا مدار احادیث کی روایات ہی پر ہے۔  قرآن سے اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش صحیح نہیں  ہے۔  عربی زبان کے لحاظ سے شرحِ  صدر کو کسی طرح بھی شقِّ صدر کے معنی  میں  نہیں  لیا جا سکتا۔  علامۂ آلوسی  روح المعانی میں  فرما تے ہیں  کہ حمل الشرح فی الاٰ یۃ علیٰ شق الصدر ضعیف عند المحققین  ’’محققین کے نزدیک اس آیت میں  شرح کو شقِّ صدر پر  محمول کرنا ایک کمزور بات ہے۔ ‘‘

2: مفسرین میں  سے بعض نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ نبوّت  سے پہلے ایّام جاہلیّت میں  نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے کچھ قصور ایسے ہو گئے تھے جن کی فکر آپ کو سخت گراں  گزر رہی تھی اور یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مطمءن کر دیا کہ آپ کے وہ قصور ہم نے معاف کر دیے۔  لیکن ہمارے نزدیک  یہ معنی لینا سخت غلطی ہے۔   اول تو لفظ وزْر کے معنی لازماً گناہ  ہی کے نہیں  ہیں  بلکہ یہ لفظ بھاری بوجھ کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔  اس لیے کوئی وجہ نہیں  کہ اس کو خواہ مخواہ بُرے معنی میں  لیا جائے۔  دوسرے حضور ؐ کی نبوت سے پہلے کی زندگی بھی اس قدر پاکیزہ تھی کہ قرآن میں  مخالفین کے سامنے اُس کو ایک چیلنج کے طور پر پیش کیا گیا تھا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کفّار  کو مخاطب کر کے یہ کہوایا گیا کہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عّمْراً مِّنْ قَبْلِہ۔  ’’ میں  اِس قرآن کو پیش کرنے سے پلے تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ‘‘(یونس آیت ۱۶)۔  اور حضور ؐ اِس کردار کے انسان بھی نہ تھے کہ لوگوں  سے چھُپ کر آپ ؐ نے کوئی گناہ کیا ہو۔ معاذ اللہ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ تو اُس سے ناواقف نہ ہو سکتا تھا کہ جو شخص کوئی چھُپا ہوا داغ اپنے دامن پر لیے ہوئے ہوتا اُس سے خلقِ خدا کے سامنے برملا وہ بات کہواتا جو سورۂ یونس کی مذکورۂ بالا آیت میں  اس نے کہوائی ہے۔  پس درحقیقت اِ س آیت میں  وِزْر کے صحیح معنی بھاری بوجھ کے ہیں  اور اس سے مراد رنج و غم اور فکر و پریشانی کا وہ بوجھ ہے جو اپنی قوم کی جہالت و جاہلیت کو دیکھ دیکھ کر آپ کی حسّاس طبیعت پر پڑ رہا تھا۔ آپ کے سامنے بُت پُوجے جا رہے تھے۔  شرک اور مشرکانہ اوہام و رسوم کا بازار گرم تھا۔ اخلا ق کی گندگی اور بے حیائی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔  معاشرت میں  ظلم اور معاملات میں  فساد عام تھا۔ زور داروں   کی زیادتیوں  سے بے زور پِس  رہے تھے۔  لڑکیاں  زندہ دفن کی جا رہی تھیں۔  قبیلوں  پر قبیلے چھاپے  مار رہے تھے اور بعض اوقات سَو سَو برس تک انتقامی لڑائیوں  کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔ کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی جب تک کہ اس کی پشت پر کوئی مضبوط جتّھا نہ ہو۔  یہ حالت دیکھ کر آپ کُڑھتے تھے مگر اِس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی صورت آپ کو نظر نہ آتی تھی۔ یہی فکر آپ کی کمر توڑ ڈال رہی تھی جس کا بارِ گراں  اللہ تعالیٰ  نے ہدایت کا راستہ دکھا کر آپ کے اوپر سے اتار دیا اور نبوّت کے منصب پر سرفراز ہوتے ہی آپ کو معلوم ہو گیا کہ توحید اور آخرت اور رسالت پر ایمان ہی وہ شاہ کلید ہے جس سے انسانی زندگی کے ہر بگاڑ کا قفل کھولا جا سکتا ہے اور سزندگی کے ہر پہلو میں  اصلاح کا راستہ صاف کیا جا سکتا ہے۔  اللہ تعالیٰ کی اِس رہنمائی نے آپ کے ذہن کا سارا بوجھ ہلکا کر دیا اور آپ پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ اِس ذریعہ سے آپ نہ صرف عرب بلکہ پوری نوع انسانی کو اُن خرابیوں  سے نکال سکتے ہیں    جن میں  اُس وقت عرب سے باہر کی بھی ساری دنیا مبتلا تھی۔

3: یہ بات اُس زمانہ میں  فرمائی گئی تھی جب کوئی شخص یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ جس فردِ فرید کے ساتھ گنتی کے چند آدمی ہیں  اور وہ بھی صرف شہر مکّہ تک محدود ہیں  اُس کا آوازہ دنیا بھر میں  کیسے بلند ہو گا اور کیسی ناموَری اس کو حاصل ہو گی۔  لیکن اللہ تعالیٰ نے اِن حالات میں  اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  کو یہ خوشخبری سنائی اور پھر عجیب طریقہ سے اس کو پورا کیا۔ سب سے پہلے آُ کے رفعِ ذِکر کا کام اُس نے خود آپ کے دشمنوں  سے لیا۔ کفّارِ مکّہ نے آپ کو زک دینے کے لیے جو طریقے اختیار  کیے اُن میں  سے ایک یہ تھا کہ حج کے موقع پر جب تمام عرب سے لوگ کھِنچ کھِنچ کر اُن کے شہر میں  آتے تھے،  اُس زمانہ میں  کفّار کے وفود حاجیوں  کے ایک ایک ڈیرے پر جاتے اور لوگوں  کو خبر دار کرتے کہ یہاں  ایک خطرناک شخص محمد صلی اللہ علیہ و سلم نامی ہے جو لوگوں  پر ایسا جادو کرتا ہے کہ باپ بیٹے،  بھائی بھائی اور شوہر اور بیوی میں  جدائی پڑ جاتی ہے،  اس لیے ذرا اُس سے بچ کر رہنا۔ یہی باتیں  وہ اُن سب لوگوں  سے بھی کہتے تھے جو حج کے سوا دوسرے دنوں  میں  زیارت یا کسی کاروبار کے سلسلے میں  مکّہ آتے تھے۔  اِس طرح اگرچہ وہ حضور ؐ  کو بدنام کر رہے تھے،  لیکن اِس کا نتیجہ یہ  ہوا  کہ عرب کے گوشے گو شے  میں  آپ کا نام پہنچ گیا اور مکّہ کے گوشۂ گمنامی سے نکار کر خود دشمنوں  نے آپ کو تمام ملک کے قبائل سے متعارف کرا دیا۔ اس کے بعد یہ بالکل فطری امر تھا کہ لوگ یہ معلوم کریں  کہ وہ شخص ہے کون؟ کیا کہتا ہے ؟ کیسا آدمی ہے ؟ اُس کے ’’جادو‘‘ سے متاثر ہونے والے کون لوگ ہیں  اور ان پر اس کے ’’جادو‘‘ کا آخر کیا  اثر  پڑا ہے ؟  کفّارِ مکّہ کا پروپیگنڈا جنتا جنتا بڑھتا چلا گیا لوگوں  میں  یہ جستجو بھی بڑھتی چلی گئی۔ پھر جب اِس جستجو کے نتیجے میں  لوگوں  کو آپ کے اخلاق اور آپ کی سیرت و کردار کا حال معلوم ہوا، جب لوگوں  نے قرآن سنا اور انہیں  پتہ چلا کہ وہ تعلیمات کیا ہیں  جو آپ پیش فرما رہے ہیں  ،  اور جب دیکھنے والوں  نے یہ دیکھا کہ جس چیز کو جادو کہا جا رہا ہے اس سے مُتاثر ہونے والوں  کی زندگیاں  عرب کے عام لوگوں  کی زندگیوں  سے کس قدر مختلف ہو گئی ہیں ،  تو وہی بدنامی نیک نامی سے بدلنی شروع ہو گئی، حتیٰ کہ ہجرت کا زمانہ آنے تک  نوبت یہ پہنچ گئی کہ دور و نزدیک کے عرب قبائل میں   شاید ہی کوئی قبیلہ ہو جس میں  کسی نہ کسی شخص یا کنبے نے اسلام قبول نہ کر لیا ہو، اور جس میں  کچھ نہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے اور آپ کی دعوت سے ہمدردی  و دلچسپی رکھنے والے پیدا ہو گئے ہوں۔  یہ حضور ؐ کے رفعِ ذکر کا پہلا مرحلہ تھا۔ اس کے بعد ہجرت سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوا جس میں  ایک طرف منافقین، یہود، اور تمام عرب  کے اکابر مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو بدنام کرنے میں  سرگرم تھے،  اور دوسری طرف مدینۂ طیبہ کی اسلامی ریاست خداپرستی و خدا ترسی،  زہد و تقویٰ، طہارتِ اخلاق، حسنِ معاشرت، عدل و انصاف، انسانی مساوات، مالداروں  کی فیاضی، غریبوں  کی خبر گیری، عہد و پیمان کی پاسداری اور معاملات میں  راستبازی کا وہ عملی نمونہ پیش کر رہی تھی جو لوگوں  کے دلوں  کو مسخّر کرتا چلا جا رہا تھا۔ دشمنوں  نے جنگ کے ذریعہ سے حضور ؐ کے اِس بڑھتے ہوئے اثر کو مٹانے کی کوشش کی،  مگر آپ کی قیادت میں  اہلِ ایمان کی جو جماعت تیار ہوئی تھی  اس نے اپنے نظم و ضبط، اپنی شجاعت، اپنی موت سے بے خوفی، اور حالت جنگ تک میں  اخلاقی حدود کی پابندی سے اپنی برتری اس طرح ثابت کر دی کہ سارے عرب نے ان کا لوہا مان لیا۔ ۱۰ سال  کے اندر حضور ؐ کا رفعِ ذِکر اِس طرح ہوا کہ وہی ملک جس میں  آپ کو بدنام کرنے کے لیے مخالفین نے اپنا سارا زور لگا دیا تھا، اُس کا گوشہ گوشہ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً ارَّسُوْلُ اللہ کی صدا سے گونج اٹھا۔ پھر تیسرے مرحلے کا افتتاح  خلافتِ  راشدہ کے دور سے ہوا جب آپ کا نامِ مبارک تمام روئے زمین میں  بلند ہونا شروع ہو گیا۔ یہ سلسلہ آج تک بڑھتا ہی جا رہا ہے اور انشاء اللہ قیامت تک بڑھتا چلا جائے گا۔ دنیا میں  کوئی جگہ ایسی نہیں  ہے کہاں  مسلمانوں  کی کوئی بستی موجود ہو اور دن میں  پانچ  مرتبہ اذان  میں  بآواز بلند محمد صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی رسالت کا اعلان نہ ہو رہا ہو، نمازوں  میں  حضور ؐ پر درود نہ بھیجا جا رہا ہو، جمعہ کے خطبوں  میں  آپ کا ذکرِ خیر نہ کیا جا رہا ہو، اور سال کے بارہ مہینوں  میں  سے  کوئی دن اور دن کے ۲۴ گھنٹوں   میں  سے کوئی وقت ایسا نہیں  ہے جب روئے زمین میں  کسی نہ کسی جگہ حضور ؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ یہ قرآن کی صداقت کا ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ جس وقت نبوت کے ابتدائی دور میں  اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ اُس وقت کوئی شخص بھی یہ اندازہ نہ کر سکتا تھا کہ یہ رفعِ ذِکر اس شان سے اور اِتنے بڑے پیمانے پر ہو گا۔ حدیث میں  حضرت ابو سعید خُدرِی کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا، ’’ جبریل ؑ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا میرا ربّ اور آپ کا رب پوچھتا ہے کہ میں  نے کس طرح تمہارا رفعِ ذِکر کیا؟ میں  عرض کیا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔  انہوں  نے کہا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ تمہارا بھی ذکر کیا جائے گا‘‘(ابن جریر، ابن ابی حاتم، مُسند ابو یعلیٰ، ابن المُنذِر، ابن حِبّان، ابن مردویہ، ابو نُعَیم)۔ بعد کی پوری تاریخ شہادت  دے رہی ہے کہ یہ بات حرف بحرف پوری ہوئی۔

4: اس بات کو دو مرتبہ دُہرایا گیا ہے تا کہ حضور ؐ کو پوری طرح تسلی دے دی جائے کہ جن سخت حالات سے آپ اِس وقت گزر رہے ہیں  یہ زیادہ دیر رہنے والے نہیں  ہیں  بلکہ ان کے بعد قریب ہی میں  اچھے حالات آنے والے ہیں ۔  بظاہر یہ بات متناقض معلوم ہوتی ہے کہ تنگی کے ساتھ فراخی ہو، کیونکہ یہ دونوں  چیزیں  بیک وقت جمع نہیں   ہوتیں ۔  لیکن تنگی کے بعد فراخی کہنے کے بجائے تنگی کے ساتھ فراخی کے الفاظ اس معنی میں  استعمال کیے گئے ہیں  کہ فراخی کا دور اِس قدر قریب ہے کہ گویا  وہ اس کے ساتھ ہی چلا آ رہا ہے۔

5: فارغ ہونے سے مراد اپنے مشاغل سے فارغ ہونا ہے،  خواہ وہ دعوت  و تبلیغ کے مشاغل ہوں  یا اسلام قبول کرنے والوں  کی تعلیم و تربیت کے مشاغل، یا اپنے گھر بار اور دنیوی کاموں  کے مشاغل۔  حکم کا  منشا یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو اپنا فارغ وقت عبادت کی ریاضت و مشقت میں  صرف کرو اور ہر طرف سے توجہ ہٹا کر صرف اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔