تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الجنّ

نام

’’الجن‘‘اس سورہ کا نام بھی ہے اور اس کے مضامین کا عنوان بھی، کیونکہ اس میں  جِنوں  کے قرآن سُن کر جانے اور اپنی قوم میں  اسلام کی تبلیغ کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

بخاری اور مسلم میں   حضرت  عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عُکاظ تشریف لے جا رہے تھے،  راستے میں  نَخلہ کے مقام پر آپ ؐ  نے صبح کی نماز پڑھائی، اُس وقت جِنوں  کا یک گروہ اُدھر سے گزر رہا تھا، تلاوت کی آواز سُن کر وہ ٹھیر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اِسی واقعہ کا ذکر اس سورہ میں  کیا گیا ہے۔

اکثر مفسرین نے اس روایت کی بنا پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور ؐ کے مشہور سفر طائف کا واقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلے سن ۱۰ نبوی میں  پیش آیا تھا۔ لیکن یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہیں  ہے۔  طائف کے اُس سفر میں  جِنوں  کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اُس کا قصّہ سورہ اَحقاف آیات ۲۹۔۳۲ میں  بیان کیا گیا ہے۔  اُن آیات پر ایک نگاہ ڈالنے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس موقع پر جو جن قرآن مجید سُن کر ایمان لائے تھے وہ پہلے سے حضرت موسیٰ اور سابق کتبِ آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کے برعکس اِس سورہ کی آیات۲۔۷ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس موقع پر قرآن سننے والے جِن مشرکین اور منکرین آخرت و رسالت میں  سے تھے۔  پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اُس سفر کے متعلق  ابنِ عباس فرما رہے ہیں  کہ اِس میں  چند صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔  مزید برآں  روایات اِس بات پر بھی متفق ہیں  کہ اُس سفر میں  جِنوں  نے قرآن اُس وقت سنا تھا جب حضور ؐ طائف سے مکہ واپس تشریف لاتے ہوئے نخلہ میں  ٹھیرے تھے۔  اور اِس سفر میں  ابنِ عباس کی روایت کہ مطابق جِنوں  کے قرآن سننے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب آپ مکہ سے عُکاظ تشریف لے جا رہے تھے۔  اِن وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورہ اَحقاف اور سورہ جن میں  ایک ہی واقعہ کا ذکر نہیں  کیا گیا ہے بلکہ یہ دو الگ واقعات تھے جو دو مختلف سفروں  میں  پیش آئے تھے۔

جہاں  تک سورہ اَحقاف کا تعلق ہے،  اُس میں جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں  روایات متفق ہیں  کہ وہ سن ۱۰ نبوی کے سفر طائف میں  پیش آیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دوسرا واقعہ کس زمانے میں  پیش آیا،  اس کا کوئی جواب ہمیں  ابن عباس ؓ کی روایت سے نہیں  ملتا،  نہ کسی اور تاریخی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عُکاظ کے بازار میں  کب تشریف لے گئے تھے۔  البتہ اس سورہ کی آیات ۸۔۱۰ پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ اِن آیات میں  بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی بِعثت سے پہلے جن عالمِ بالا کی خبریں  معلوم کرنے کے لیے آسمان میں  سُن گُن لینے کا  کوئی نہ کوئی موقع پا لیتے تھے،  مگر اس کے بعد یکا یک انہوں  نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں  کے سخت پہلے لگ گئے ہیں   اور شہابوں  کی بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کہیں  اُن کو  ایسی جگہ نہیں  ملتی جہاں  ٹھیر کر وہ کوئی بھِنَک پا سکیں۔  اِ سے اُن کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین میں  ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لیے یہ سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔  غالباً  اُسی وقت  سے جنوں  کے بہت سے گروہ اِس تلاش میں  پھرتے رہے ہوں  گے اور اُن میں  سے ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی زبانِ مبارک سے قرآن سُن کر یہ رائے قائم کی ہو گی کہ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر جنوں   پر عالمِ بالا کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ 

جن کی حقیقت

اس  سورے کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جِنوں  کی حقیقت کیا ہے تا کہ ذہن کسی اُلجھن کے شکارہ نہ ہوں۔  موجودہ زمانے کے بہت سے لوگ اِس غلط فہمی میں  مبتلا ہیں  کہ جِن کسی حقیقی چیز کا نام نہیں  ہے بلکہ  یہ بھی پُرانے زمانے کے اَوہام و خُرافات میں  سے ایک بے بنیاد خیا ل ہے۔  یہ رائے اُنہوں  نے کچھ اِ س بنا پر قائم نہیں  کی ہے کہ کائنات کی ساری حقیقتوں  کو وہ جان چکے ہیں  اور اُنہیں  یہ معلوم  ہو گیا ہے کہ جِن کہیں  موجود نہیں  ہیں۔  ایسے علم کا دعویٰ وہ خود بھی نہیں  کر سکتے۔  مگر اُنہوں  نے بلا دلیل یہ فرض کر لیا ہے کہ کائنات میں  بس وہی کچھ موجود ہے جو اُن کو محسوس ہوتا ہے۔  حالانکہ انسان کے محسوسات کا دائرہ اِس عظیم کائنات کی وسعت کے مقابلہ میں  وہ نسبت بھی نہیں  رکھتا جو سمندر کے مقابلے میں  قطرے کی نسبت ہے۔  یہاں  جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ محسوس نہیں  ہے  وہ موجود نہیں  ہے،  اور جو موجود ہے اسے لازماً محسوس ہونا چاہیے،  وہ دراصل خود اپنے ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے۔  یہ طرزِ فکر اختیار کر لیا جائے تو ایک جِن ہی کیا، انسان کسی ایسی حقیقت کو بھی نہیں  مان سکتا جو براہِ راست اُس کے تجربے اور مشاہدے میں  نہ آتی ہو اور اُس کے لیے خدا تک کا وجود قابلِ تسلیم نہیں  ہے کجا کہ وہ کسی اور غیر محسوس حقیقت کا تسلیم کرے۔

مسلمانوں  میں  سے جو لوگ اِس طرز فکر سے متاثر ہیں،  مگر قرآن کا انکار بھی نہیں  کر سکتے انہوں  نے جِن اور ابلیس اور شیطان کے متعلق قرآن کے صاف صاف بیانات کو طرح طرح کی تاویلات کا تختہ مشق بنا یا ہے۔  وہ کہتے ہیں  کہ اِس سے مراد کوئی ایسی پوشیدہ مخلوق نہیں  ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہو، بلکہ کہیں  تو اس سے مراد انسان کی اپنی بہیمی قوتیں  ہیں  جنہیں  شیطان کہا گیا ہے،  اور کہیں  اس سے مراد وحشی اور جنگلی اور پہاڑی قومیں  ہیں،  اور کہیں  اس سے مراد وہ لوگ ہیں  جو چھُپ چھُپ کر قرآن سنا  کرتے تھے۔  لیکن قرآن مجید کے ارشادات اس معاملہ میں  اس قدر صاف اور صریح ہیں  کہ اِن تاویلات کے لیے اُن کے اندر کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں  ہے۔

قرآن میں  ایک جگہ نہیں ،  بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہیں۔  مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ اعراف، آیت ۳۷۔ہود، ۱۱۹۔حٰم السجدہ، آیات۲۵، ۲۹۔ الاحقاف، ۱۸۔الذّاریات، ۵۶۔الناس، ۶۔ اور سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت  دیتی ہے کہ جنوں  کو انسانوں  کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں  چھوڑتی۔

سورہ اعراف، آیت۱۲۔سورہ حجر، آیات۲۶۔۲۷، اور سورہ رحمان، آیات۱۴۔۱۵ میں  صاف صاف بتایا گیا ہے کہ انسان کا مادہ تخلیق مٹی ہے اور جِنوں  کا مادہ تخلیق آگ۔

سورہ حِجر آیت۲۷ میں  صراحت کی گئی ہے کہ جن انسان سے پہلے پیدا کیے گئے تھے۔  اسی بات پر قصہ آدم و ابلیس شہادت دیتا ہے جو قرآن میں سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے وقت ابلیس موجود تھا۔ نیز سورہ کہف آیت۵۰ میں  بتایا گیا ہے کہ ابلیس جِنوں  میں  سے ہے۔

سورہ اعراف آیت ۲۷ میں  بالفاظِ صریح یہ کہا گیا ہے کہ جن انسانوں  کو دیکھتے ہیں  مگر انسان اُن کو نہیں  دیکھتے۔

سورہ حِجر آیات۱۶۔۱۸، سورہ صافّات، آیات۶۔۱۰، اور سورہ ملک آیت ۵ میں  بتا یا گیا  ہے کہ جِن اگرچہ عالمِ بالا کی طرف پرواز کر سکتے ہیں ،  مگر ایک حدسے آگے نہیں  جا سکتے۔  اُس سے اوپر جانے کی کوشش کریں  اور ملاء اعلیٰ کی باتیں  سننا چاہیں  تو انہیں  روک دیا جاتا ہے۔  چوری چھُپے سُن گُن لیں  تو شہاب ثاقب ان کو مار بھگاتے ہیں۔  اِس سے مشرکین عرب کے اِس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جِن غیب کا علم رکھتے ہیں  یا خدائی کے اَسرار تک انہیں  کوئی رسائی حاصل ہے۔  اِسی غلط خیال کی تردید سورہ سبا آیت ۱۴ میں  بھی کی گئی ہے۔

سورہ بقرہ،  آیات۳۰۔۳۴ اور سورہ کہف آیت۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اور انسان جِنون سے افضل مخلوق ہیں۔  اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتیں  جنوں  کو بھی بخشی گئی ہیں  جن کی ایک مثال ہمیں  سورہ نمل آیت ۷ میں  ملتی ہے،  لیکن اسی طرح بعض طاقتیں  حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہیں،  اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں  ہیں  کہ جانوروں  کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔

قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جِن انسان کی طرح ایک با اختیار مخلوق  ہے اور اُس کو طاعت و معصیت اور کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے۔  اِس  پر ابلیس کا قصہ اور سورہ اَحقاف اور سورہ جن میں  بعض جِنوں  کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے۔

قرآن میں  بیسیوں  مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اُسی وقت سے شیاطینِ جِن انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہیں،  مگر وہ اپس پر مُسلّط ہو کر زبردستی اُس سے کوئی کام کر ا لینے کی طاقت نہیں  رکھتے،  بلکہ وہ اُس کے دل میں  وَسوَسے ڈالتے ہیں،  اُس کو بہکاتے ہیں  اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہیں۔  مثال کے طور پر حسبِ ذیل آیات ملاحظہ ہوں :ں  النساء، ۱۱۷تا ۱۲۰۔الاعراف، ا اتا۱۷۔ابراہیم، ۲۲۔الحجر۳۰تا۴۲۔النحل، ۹۸تا۱۰۰۔بنی اسرائیل، ۶۱تا۶۵۔

قرآن میں  یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشرکینِ عرب زمانہ جاہلیت میں  جِنوں  کو خدا کا شریک ٹھیراتے تھے،  اُن کی عبادت کرتے تھے،  اور اُن کا نسب خدا سے ملاتے تھے۔  ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۱۰۰۔سبا، آیات۴تا۴۱۔ الصّٰفّٰت، ۱۵۸۔

اِن تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جِن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہیں  اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہیں۔  اُن کی پُر اسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں  نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں  کے متعلق بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائم کر رکھے ہیں،  حتیٰ کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے،  مگر قرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا ہیں  اور کیا نہیں  ہیں۔ 

موضوع اور مباحث

اس  سورہ میں  پہلی آیت سے لے کر آیت ۱۵ تک یہ بتایا گیا ہے کہ جِنوں  کے ایک گروہ نے قرآن سُن کر اُس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جِنوں  سے کیا کیا باتیں  کہیں۔  اِس سلسلے میں  اللہ تعالیٰ نے اُن کی ساری گفتگو نقل نہیں  کی ہے،  بلکہ صرف وہ خاص خاص باتیں  نقل فرمائی ہیں  جو قابلِ ذکر  تھیں۔  اسی لیے طرزِ بیان ایک مسلسل گفتگو کا سا نہیں  ہے،  بلکہ اُن کے مختلف فقروں  کو اِس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انہوں  نے یہ کہا اور یہ کہا۔جِنوں  کی زبان سے نکلے ہوئے اِن فقروں  کو اگر آدمی بغور پڑھے تو بآسانی یہ بات سمجھ میں  آ جاتی ہے کہ اُن کے ایمان لانے کے اِس واقعے اور اپنی قوم کے ساتھ اُن کی اِس گفتگو کا ذکر قرآن میں  کس غرض کے لیے کیا گیا ہے۔  ہم نے اپنے حواشی میں  ان کے اقوال کی جو تشریحات کی ہیں  وہ اس کا مقصد سمجھنے میں  مزید مددگار ہوں  گی۔

          اس کے بعد آیت ۱۶ سے ۱۸ تک لوگوں  کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آ جائیں  اور راہِ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلیں  تو ان پر نعمتوں  کی بارش ہو گی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے مُنہ موڑنے کا انجام یہ ہو گا کہ وہ سخت عذاب سے دو چار ہوں گے۔  پھر آیت ۱۹ سے ۲۳ تک کفارِ مکّہ کو اس بات  پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اِس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں،  حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے۔  پھرآیات۲۴۔۲۵ میں  کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یاومددگار دیکھ کر اسے دبا لینے کی کوشش کر رہے ہیں،  لیکن ایک وقت آئے گا جب انہیں  معلوم ہو جائے گا کہ اصل میں  بے یار و مدد گار کون ہے۔  وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہیں  ہے،  مگر بہرحال اسے آنا ضرور ہے۔  آخر میں  لوگوں  کو بتایا گیا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔  رسول کو صرف وہ علم حاصل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے دینا چاہتا ہے۔  یہ علم اُن امور سے متعلق ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی انجام دہی کے لیے  ضروری ہوتے ہیں۔  اور یہ علم ایسے محفوظ طریقہ سے دیا جاتا ہے جس میں  کسی بیرونی مداخلت کا امکان نہیں  ہوتا۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 اے نبیؐ،  کہو، میری طرف وحی بھیجی  گئی ہے کہ جِنّوں  کے ایک گروہ نے غور سے سُنا 1 پھر (جا کر  اپنی قوم کے لوگوں  سے)کہا:’’ ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سُنا ہے 2 راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لیے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہیں  اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں  کریں  گے۔ ‘‘ 3 اور یہ کہ’’ ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے،  اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہیں  بنایا ہے۔ ‘‘ 4
اور یہ کہ’’ ہمارے نادان لوگ 5 اللہ کے بارے میں  بہت خلافِ حق باتیں  کہتے رہے ہیں۔ ‘‘اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے میں  جھوٹ نہیں  بول سکتے۔ ‘‘ 6 اور یہ کہ’’انسانوں  میں  سے کچھ لوگ جِنوں  میں  سے کچھ لوگوں  کی پناہ مانگا کرتے تھے،  اِس طرح اُنہوں  نے جِنّوں  کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔‘‘ 7 اور یہ کہ’’انسانوں  نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسُول بنا کر نہ بھیجے گا۔‘‘ 8
اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں  سے پَٹا پڑا ہے اور شہابوں  کی  بارش ہو رہی ہے۔ ‘‘ اور یہ کہ ’’پہلے ہم سُن گُن لینے کے لیے آسمان میں  بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے،  مگر اب جو چوری چھُپے سُننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں  ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔ ‘‘ 9
اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ میں  نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں  کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا ربّ اُنہیں  راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔ ‘‘ 10 اور یہ کہ ’’ہم میں  سے کچھ لوگ صالح ہیں  اور کچھ اس سے فرو تر ہیں،  ہم مختلف طریقوں  میں  بٹے ہوئے ہیں۔ ‘‘ 11 اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین میں  ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہیں  اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہیں۔ ‘‘ 12 اور یہ کہ ’’ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سُنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔  اب جو کوئی بھی اپنے ربّ پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔‘‘ 13
اور یہ کہ ’’ہم میں  سے کچھ مسلم(اللہ کے اطاعت گزار)ہیں  اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں  نے اسلام (اطاعت کا راستہ)اختیار کر لیا انہوں  نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہیں  وہ جہنّم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ ‘‘ 14
15 اور (اے نبیؐ ) کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ) لوگ اگر راہِ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم اُنہیں  خوب سیراب کرتے،  16 تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں۔  17 اور جو اپنے ربّ کے ذکر سے منہ موڑے گا 18 اس کا ربّ اسے سخت عذاب میں  مبتلا کر دے گا۔ اور یہ کہ مسجدیں  اللہ کے لیے ہیں،  لہٰذا اُن میں  اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ 19 اور یہ کہ جب اللہ بندہ 20 اُس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹُوٹ پڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔    ؏۱
 

1: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو نظر نہیں  آرہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہیں،  بلکہ بعد میں  وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کواس واقعہ کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اِس قصّے کو بیان کرتے  ہوئے صراحت فرماتے ہیں  کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے جِنوں  کے سامنے قرآن نہیں  پڑھا تھا، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا ‘‘(مسلم۔  ترمذی۔ مُسند احمد۔ ابنِ جریر)۔

2: اصل الفاظ میں  قُرُاٰناً عَجَبًا۔ قرآن کے معنی ہیں۔ ’’پڑھی جانے والی چیز‘‘ اور یہ لفظ غالباً جِنوں  نے اِسی معنی میں  ا ستعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اُس وقت اُن کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سُن رہے ہیں  اس کا نام قرآن ہی ہے۔  عَجَب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان میں  بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لے ل بولا جاتا ہے۔  پس جِنوں  کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سُن کر آئے ہیں  جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔            اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جِن نہ صرف یہ کہ انسانوں  کی باتیں  سنتے ہیں  بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے بھی ہیں۔  اگر چہ یہ ضروری نہیں  ہے کہ تمام جِن تمام انسانی زبانیں  جانتے ہوں۔  ممکن ہے کہ اُن میں  سے جو گروہ زمین کے جس علاقے میں  رہتے ہوں  اُسی علاقے کے لوگوں  کی زبان سے وہ واقف ہوں۔  لیکن قرآن کے اِس بیان سے بہر حال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جِن جنہوں  نے اُس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اتنی اچھی جانتے تھے کہ انہوں  نے اِس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اُس کے بلند پا یہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا۔

  3: اس سے کئی باتیں  معلوم ہوئیں۔  ایک یہ کہ جن اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب ہونے کے منکر نہیں  ہیں۔  دوسرے یہ کہ ان میں  بھی مشرکین پائے جاتے ہیں  جو مشرک انسانوں  کی طرح اللہ کے ساتھ دوسروں  کو خدائی میں  شریک ٹھیراتے ہیں ،  چنانچہ جِنوں  کی یہ قوم جس کے افراد قرآن سُن کر گئے تھے مُشرک ہی تھی۔تیسرے یہ کہ نبوت اور کتبِ آسمانی کے نزول کا سلسلہ جِنوں  کے ہاں  جاری نہیں  ہوا ہے،  بلکہ ان میں  سے جو جِن بھی ایمان لاتے ہیں  وہ انسانوں  میں  آنے والے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی کتابوں  پر ہی ایمان لاتے ہیں۔  یہی بات سورہ احقاف آیات۲۹۔۳۱ سے بھی معلوم ہوتی ہے جن میں  بتایا گیا ہے کہ وہ جِن جنہوں  نے اُس وقت قرآن سُنا تھا، حضرت موسیٰ کے پیرووں  میں  سے تھے اور انہوں  نے قرآن سُننے کے بعد اپنی قوم کو دعوت دی تھی کہ اب جو کلام خدا کی  طرف سے پچھلی کتبِ آسمانی کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔ سورہ رحمان بھی اِسی بات پر دلالت کرتی ہے،  کیونکہ اس کا پُورا مضمون ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہس و سلم کی دعوت کے مخاطب انسان اور جِن دونوں  ہیں۔

 4: اِس سے دو باتیں  معلوم ہوئیں۔  ایک یہ کہ یہ جِن یا تو عیسائی جِنوں  میں  سے تھے،  یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس میں  اللہ تعالیٰ کو بیوی بچوں  والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اُس وقت رسول اللہ علیہ و سلم نماز میں  قرآن پاک کا کوئی ایسا حصّہ پڑھ رہے تھے جسے سُن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہو گئی اور انہوں  نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بلند و برتر ذات کی طرف بیوی بچوں  کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے۔

5: اصل میں  لفظ سَفِیْھُنَا استعمال کیا گیا ہے جو ک فرد کے لیے بھی  بولا جا سکتا ہے اور ایک گروہ کے لیے بھی۔اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی میں  لیا جائے تو مراد ابلیس ہو گا۔ اور اگر ایک گروہ کے  معنی میں  لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جِنوں  میں   بہت سے احمق اور بے عقل لوگ ایسی باتیں  کہتے تھے۔

6: یعنی اُن کی غلط باتوں  سے ہمارے گمراہ ہونے  وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہیں  سکتے تھے کہ انسان یا جن اللہ کے بارے میں  جھوٹ گھڑنے کی جرأت بھی کر  سکتے ہیں،  لیکن اب یہ قرآن سُن کر ہمیں  معلوم ہو گیا کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے۔

7: ابن عباس ؓ کہتے ہیں  کہ جاہلیت کے زمانے میں  جب عرب کسی سُنسان وادی میں  رات گزارتے تھے تو پُکار کر کہتے ’’ہم اِس وادی کے مالک جِن کی پناہ مانگتے ہیں ‘‘۔ عہدِ جاہلیت کی دوسری روایات میں  بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے۔  مثلاً اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدّو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لیے بھیجتے جہاں  پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اُس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں  اُترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے ’’کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہیں  تا کہ یہاں  ہم ہر آفت سے محفوظ رہیں ‘‘۔ ان لوگوں  کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے میں  ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں  کوئی ٹھیر جائے تو وہ جن یا تو خود ستا تا ہے یا دوسرے جِنوں  کو ستانے دیتا ہے۔  اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جِن اشارہ کر رہے ہیں۔  اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے اُلٹا ہم سے ڈرنا شروع کر دیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں  کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا، ان کا کبر و غرور اور کفر و ظلم اور زیادہ بڑھ گیا، اور وہ گمراہی میں  زیادہ جری ہو گئے۔

 8: اصل الفاظ ہیں  اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللہ ُ اَحَدًا۔ اِس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔  ایک وہ جو ہم نے ترجمہ میں  اختیار کیے ہیں۔  دوسرے یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہیں  اس لیے ان کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ انسانوں  کی طرح جِنوں  میں  بھی رسالت اور آخرت دونوں  کا انکار پا یا جاتا تھا۔  لیکن آگے کے مضمون کی مناسبت سے پہلا مفہوم ہی زیادہ قابلِ تر جیح ہے،  کیونکہ اس میں  یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے لوگوں  کو بتاتے ہیں  کہ تمہارا یہ خیال غلط نکلا کہ اللہ کسی رسول کو مبعوث کرنے والا  نہیں  ہے،  آسمانوں  کے دروازے ہم پر اسی وجہ سے بند کیے گئے ہیں  کہ اللہ نے ایک رسول بھیج دیا ہے۔

 9: یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا  پر یہ جِن اِس تلاش میں  نکلے تھے کہ آخر زمین پر ایسا کیا معاملہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبروں  کو محفوظ رکھنے کے لیے اس قدر سخت انتظامات کیے گئے ہیں  کہ اب ہم عالمِ بالا  میں  سُن گُن لینے کا کوئی موقع نہیں  پاتے اور جدھر بھی جاتے ہیں  مار بھگائے جاتے ہیں۔

10: اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ بالا میں  اِس قسم کے غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں  میں  کیے جاتے تھے۔  ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الٰہی یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جِن اُس کی بھِنَک پا کر اپنے دوست انسانوں  کو خبردار نہ کر دیں۔  دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں  کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے اِن انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھیجے جا رہے ہیں  اُن میں  نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کر سکیں  اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کر سکیں  کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہیں۔  پس جِنوں  کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے اسمان میں  یہ چوکی پہرے دیکھے اور شہابوں  کی اِس بارش کا مشاہدہ کیا تو ہمیں   یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ ان دونوں  صورتوں  میں  سے کون سی صورت در پیش ہے۔  آیا اللہ تعالیٰ نے زمین میں  کسی قوم پر یکایک عذاب نازل کر دیا ہے ؟ یا کہیں  کوئی رسول مبعوث ہوا ہے ؟ اسی تلاش میں  ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہمیں  معلوم ہو گیا کہ اللہ نے عذاب نازل نہیں  کیا ہے بلکہ خلق کو راہِ راست دکھانے کے لیے ایک رسول مبعوث فرما دیا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی۸تا ۱۲۔جلد چہارم، الصّافّات، حاشیہ۷، جلد ششم، المُلک، حاشیہ۱۱)۔

11:  یعنی اخلاقی حیثیت سے بھی ہم میں  اچھے اور بُرے دونوں  طرح کے جِن پائے جاتے ہیں ،  اور اعتقادات میں  بھی ہمارا کوئی ایک مذہب نہیں  ہے بلکہ ہم مختلف گروہوں  میں  منقسم ہیں۔  یہ بات کہہ کر یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے جِنوں  کو یہ سمجھا نا چاہتے ہیں  کہ ہم راہِ راست معلوم کرنے کے یقیناً محتاج ہیں۔  اِس سے ہم بے نیاز  نہیں  ہو سکتے۔

12: مطلب یہ ہے کہ ہمارے اِسی خیال نے ہمیں  نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے بے خوف نہ تھے اور ہمیں  یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکیں  گے،  اس لیے جب وہ کلام ہم نے سُناجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جر أ ت نہ کر سکے کہ حق معلوم ہو جانے کے بعد بھی اُنہی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں  نے ہم میں  پھیلا رکھے تھے۔

13: حق تلفی سے مراد  یہ ہے کہ اپنی نیکی پر وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اُس سے کم دیا جائے۔  اور ظلم یہ ہے کہ اُسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے اور جو قصور اس سے سر زد ہوں  ان کی زیادہ سزا دے ڈالی جائے۔  یا بلا قصور ہی کسی کو عذاب دے دیا جائے۔  کسی ایمان لانے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں  اِس قسم کی کسی بے انصافی کا خوف نہیں  ہے۔

14: سوال کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی رُو سے جن تو خود آتشیں  مخلوق ہیں ،  پھر جہنم کی آگ سے ان کو کیا تکلیف ہو  سکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے تو آدمی بھی مٹی سے بنا ہے،  پھر اگر اسے مٹی کا ڈھیلا کھینچ مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں  لگتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پُورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں  سے بنا ہے،  مگر جب اُن سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود میں  آ جاتا ہے تو وہ ان مادوں  سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں  سے بنی ہوئی دوسری چیزیں  اس کے لیے اذیت کا ذریعہ بن جاتی  ہیں۔  ٹھیک اسی طرح جِن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے اعتبار سے آتشیں  مخلوق ہیں،  لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحبِ احساس مخلوق وجود میں  آ جاتی ہے تو وہی آگ اس کے لیے تکلیف کی موجب بن جاتی ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۵)۔

15: اوپر جِنوں  کی بات ختم ہو گئی۔ اب یہاں  سے اللہ تعالیٰ کے اپنے ارشادات شروع ہوتے ہیں۔

16: یہ وہی بات ہے جو سورہ نوح میں  فرمائی گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگو تو وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں  بر سائے گا(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سورہ نوح، حاشیہ۱۲)۔ پانی کی کثرت کو نعمتوں  کی کثرت کے لیے بطورِ کنا یہ استعمال کیا گیا ہے،  کیونکہ پانی ہی آبادی کا انحصار ہے۔  پانی نہ ہو تو سرے سے کوئی بستی بس ہی نہیں  سکتی، نہ انسان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو سکتی ہیں،  اور نہ انسان کی صنعتیں  چل سکتی ہیں۔

17: یعنی یہ دیکھیں  کہ وہ نعمت پا کر بھی شکر گزار رہتے ہیں  یا نہیں،  اور ہماری دی ہوئی نعمت کا صحیح استعمال کرتے ہیں  یا غلط۔

18: ذکر سے مُنہ موڑنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت کو قبول نہ کرے،  اور یہ بھی کہ وہ اللہ کا ذکر سننا ہی گوارا نہ کرے،  اور یہ بھی کہ وہ اللہ کی عبادت سے رُوگردانی کرے۔

19: مفسرین نے بالعموم’’مساجد‘‘کو عبادت گاہوں  کے معنی میں  لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں  میں  اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔  حضرت حسن بصری کہتے ہیں  کہ زمین پوری کی پوری عباد ت گاہ ہے اور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر  کہیں  بھی شرک نہ کیا جائے۔  ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہے کہ جعلت فی الارض مسجد اوطھورا۔’’میرے لیے پُوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ‘‘۔ حضرت سعید بن جُبَیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لیے ہیں  جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے،  یعنی ہاتھ،  گھٹنے،  قدم اور پیشانی۔ اِس تفسیر کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔  اِن پر اللہ کے سوا کسی اور کے لیے سجدہ نہ کیا جائے۔

20: اللہ کے بندے سے مراد یہاں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم ہیں۔

 

 اے نبیؐ،  کہو کہ’’میں  تو اپنے ربّ کو پکارتا ہوں  اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں  کرتا۔‘‘ 21 کہو’’میں  تم لوگوں  کے لیے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں  نہ کسی بھلائی کا۔‘‘ کہو’’مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہیں  بچا سکتا اور نہ میں  اُس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں۔  میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں  ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔  22 اب جو بھی اللہ اور اس کے رسُول کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنّم کی آگ ہے اور ویسے لوگ اس میں  ہمیشہ رہیں  گے۔ ‘‘ 23
(یہ لوگ اپنی اِس روش سے باز نہ آئیں  گے ) یہاں  تک کہ جب اُس چیز کو دیکھ لیں  گے جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہیں  معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہیں  اور کس کا جتھا تعداد میں  کم ہے۔  24 کہو’’ میں  نہیں  جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لیے کوئی لیب  مدّت مقرر فرماتا ہے۔  25 وہ عالم الغیب ہے،  اپنے غیب پر کسی کو مطلّع نہیں  کرتا، 26 سوائے اُس رسُول کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لیے ) پسند کر لیا ہو، 27 تو اُس کے آگے اور پیچھے وہ محافظ لگا دیتا ہے۔  28 تاکہ وہ جان لے کہ انہوں  نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے،  29 اور اُن کے پُورے ماحول کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گِن رکھا ہے۔ ‘‘ 30 ؏۲

 

21: یعنی خدا کو پکارنا تو کوئی قابلِ اعتراض کام نہیں  ہے جس پر لوگوں  کو اس قدر غصّہ آئے،  البتہ بری بات اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص خدا کے ساتھ کسی اور کو خدائی میں  شریک ٹھیرائے،  اور یہ کام میں  نہیں  کرتا بلکہ وہ لوگ کرتے ہیں  جو خدا کا نام سُن کر مجھ  پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔

22: یعنی میرا یہ دعویٰ ہر گز نہیں  ہے کہ خدا کی خدائی میں  میرا کوئی دخل ہے،  یا لوگوں  کی قسمتیں  بنانے اور بگاڑنے کا کوئی اختیار مجھے حاصل ہے۔  میں  تو صرف ایک رسول ہوں  اور جو خدمت میرے سپرد کی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں  ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغامات تمہیں  پہنچا دوں۔  باقی رہے خدا ئی اختیارات، تو وہ سارے کے سارے اللہ ہی کے ہاتھ میں  ہیں۔  کسی دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار، مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہیں۔  اللہ کی نافرمانی کروں  تو اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں  پناہ نہیں  لے سکتا، اور اللہ کے دامن کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ میرے لیے نہیں  ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ۷)۔

23: اس کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ ہر گنا ہ اور معصیت کی سزا ابدی جہنم ہے،  بلکہ جس سلسلہ کلام میں  یہ بات فرمائی گئی ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے اس کے لیے ابدی جہنم کی سزا ہے۔

24: اِس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے میں  قریش کے جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی دعوت الی ٰ اللہ کو سنتے ہی آپ پر ٹوٹ پڑتے تھے وہ اس زعم میں  مبتلا تھے کہ اُن کا جتھا بڑا زبر دست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے ساتھ چند مٹھی بھر آدمی ہیں  اس لیے وہ بآسانی آپ کو دبا لیں  گے۔  اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ آج یہ لوگ رسول کو بے یار و مدد گار اور اپنے آپ کو کثیر التعداد دیکھ کر حق کی آواز کو دبانے کے لیے بڑے دلیر ہو رہے ہیں،  مگر جب وہ بُرا وقت آ جائے گا جس سے اِن کو ڈرایا جا رہا ہے تو ان کو پتہ چل جائے گا کہ بے یارو مددگار حقیقت میں  کون ہے۔

25: اندازِ بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک سوال کا جواب ہے جو سوال نقل کیے بغیر دیا گیا ہے۔  غالباً اوپر کی بات سُن کر مخالفین نے طنز اور مذاق کے طور پر سوال کیا ہو گا کہ وہ وقت جس کا ڈراوا آپ دے رہے ہیں  آخر کب آئے گا؟ اس کے جواب میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں  سے کہو،  اُس وقت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کی تاریخ مجھے نہیں  بتائی گئی۔ یہ بات اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جلدی آنے والا ہے یا اس کے لیے ایک طویل مدت مقرر کی گئی ہے۔

26: یعنی غیب کا پُورا علم اللہ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے،  اور یہ مکمل علمِ غیب وہ کسی کو بھی نہیں  دیتا۔

27: یعنی رسول بجائے خود عالم الغیب نہیں  ہوتا کہ بلکہ اللہ تعالیٰ جب اس کورسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق میں  سے جن چیزوں  کا علم وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے۔

28: محافظوں  سے مرد فرشتے ہیں ۔  مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ سے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی نگہبانی کرنے کے لیے ہر طرف فرشتے مقرر کر دیتا ہے تا کہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنچ جائے اور اس میں  کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے۔  یہ وہی بات ہے جو اوپر آیات ۸۔ ۹ میں  بائن ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کی بعثت کے بعد جِنوں  نے اپنے لیے عالمِ بالا تک رسائی کے تمام دروازے بند پائے اور انہوں  نے دیکھا کہ سخت چوکی پہرے لگ گئے ہیں  جن کے باعث کہیں  ذا سی سُن گُن لینے کا موقع بھی اُن کو نہیں  ملتا۔

29: اس کے تین معنی ہو سکتے ہیں ۔  ایک یہ کہ رسول یہ جان لے کر فرشتوں  نے اُس کو اللہ تعالیٰ کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ہیں۔  دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لے کر فرشتوں  نے اپنے رب کے پیغامات اس کے رسول تک صحیح صحیح پہنچا دیے ہیں۔  تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لے کہ رسولوں  نے اس کے بندوں  تک اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے۔  آیت کے الفاظ اِن تینوں  معنوں  پر حاوی ہیں  اور بعید نہیں  کہ تینوں  ہی مراد ہوں۔  اس کے علاوہ یہ آیت دو مزید باتوں  پر بھی دلالت کرتی ہے۔  پہلی بات یہ کہ رسول کو وہ علمِ غیب عطا کیا جاتا ہے جو فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لیے اس کو دینا ضروری ہوتا ہے۔  دوسری بات یہ کہ جو فرشتے نگہبانی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں  وہ صرف اِس بات کی نگہبانی نہیں  کرتے کہ رسول تک وحی محفوظ طریقے سے پہنچ جائے بلکہ اِس بات کی نگہبانی بھی کرتے ہیں  کہ رسول اپنے رب کے پیغامات اس کے بندوں  تک بے کم و کاست پہنچا دے۔

30: یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں  پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس طرح محیط ہے کہ اگر بال برابر بھی اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں  تو فوراً گرفت میں  آ جائیں۔  اور جو پیغامات اللہ تعالی ٰ بھیجتا ہے ان کا حرف حرف گِنا ہوا ہے،  رسولوں  اور فرشتوں  کی یہ مجال نہیں  ہے کہ ان میں  ایک حرف کی کمی بیشی بھی کر سکیں۔