تفہیم القرآن

سورة إبراهیم

نام

آیت ۳۵ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورت میں حضرت ابراہیم کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورت جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

عام انداز بیاں مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۂ رعد سے قریب زمانے ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً آیت ۱۳ کے الفاظ

’    انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یہ تو تمہیں ہماری ملت میں واپس آنا ہو گا ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے ‘

کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کر دینے پر تل گئے تھے۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویے پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ    ہم ظالموں کو ہلاک کر کے رہیں گے اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ    ہم ان ظالموں کو ختم کرنے کے بعد تم ہی کو اس سرزمین میں آباد کریں گے۔اسی طرح آخری رکوع کے تیور بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ 

مرکزی مضمون و مدعا

جو لوگ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کو فہمائش بلکہ تنبیہ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورت میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جا چکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی، عناد، مزاحمت، شرارت اور ظلم و جور میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔ 

ترجمہ و تفسیر

ا۔ ل۔ ر، اے محمد ؐ، یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تا کہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاؤ، ان کے ربّ کی توفیق سے، اُس خدا کے راستے ۱ پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمُود ۲ ہے  اور زمین اور آسمانوں کی ساری موجودات کا مالک ہے۔ اور سخت تباہ کُن سزا ہے قبولِ حق سے انکار کرنے والوں کے لیے  جو دُنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں،۳ جو اللہ کے راستے سے لوگوں کو روک رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ راستہ (ان کی خواہشات کے مطابق)ٹیڑھا ہو جائے۔ ۴ یہ لوگ گمراہی میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔ ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسُول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ اُنہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ ۵ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، ۶ وہ بالا دست اور حکیم ہے۔ ۷ہم اِس سے پہلے موسیٰ ؑ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں۔ اُسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لا اور انہیں تاریخِ الٰہی ۸ کے سبق آموز واقعات سُنا کر نصیحت کر۔ اِن واقعات میں بڑی نشانیاں ہیں ۹ ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ ۱۰یاد کرو جب موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا ’’اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر کیا ہے۔ اُس نے تم کو فرعون والوں سے چھُڑایا جو تم کو سخت تکلیفیں دیتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ بچا رکھتے تھے۔ اس میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی۔ ؏ ١
 

۱-یعنی تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لانے کا مطلب شیطانی راستوں سے ہٹا کر خدا کے راستے پر لانا ہے، دوسرے الفاظ میں ہر وہ شخص جو خدا کی راہ پر نہیں ہے وہ دراصل جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے، خواہ وہ اپنے آپ کو کتنا ہی روشن خیال سمجھ رہا ہو اور اپنے زعم میں کتنا ہی نور علم سے منور ہو۔ بخلاف ا س کے جس نے خدا کا راستہ پا لیا وہ علم کی روشنی میں آگیا، چاہے وہ ایک اَن پڑھ دیہاتی ہی کیوں نہ ہو۔

پھر یہ جو فرمایا کہ تم اِن کو اپنے رب کے اذن یا اُس کی توفیق سے خدا کے راستے پر لاؤ، تو اس میں دراصل اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی، مبلّغ، خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو، راہِ راست پیش کر دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ کسی کو اس راستہ پر لے آنا اُ س کے بس میں نہیں ہے۔ اِس کا انحصار سراسر اللہ کی توفیق اور اُس کے اذن پر ہے۔ اللہ کسی کو توفیق دے تو وہ ہدایت پا سکتا ہے، ورنہ پیغمبر جیسا کام مبلغ اپنا پورا زور لگا کر بھی اس کو ہدایت نہیں بخش سکتا۔ رہی اللہ کی توفیق، تو اس کا قانون بالکل الگ ہے جسے قرآن میں مختلف مقامات پر وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہدایت کی توفیق اُسی کو ملتی ہے جو خود ہدایت کا طالب ہو، ضد اور ہٹ دھرمی اور تعصب سے پاک ہو، اپنے نفس کا بندہ اور اپنی خواہشات کا غلام نہ ہو، کھلی آنکھوں سے دیکھے، کھلے کانوں سے سُنے، صاف دماغ سے سوچے، اور معقول بات کو بے لاگ طریقہ سے مانے۔

۲- ’’حمید‘‘ کا لفظ اگر چہ محمُود ہی کا ہم معنی ہے، مگر دونوں لفظوں میں ایک لطیف فرق ہے۔ محمُود کسی شخص کو اُسی وقت کہیں گے جبکہ اس کی تعریف کی گئی ہو یا کی جاتی ہو۔ مگر حمید آپ سے حمد کا مستحق ہے، خواہ کوئی اس کی حمد کرے یا نہ کرے۔ اس لفظ کا پورا مفہوم ستودہ صفات، سزاوارِ حمد اور مستحقِ تعریف جیسے الفاظ سے ادا نہیں ہو سکتا، اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’اپنی ذات میں آپ محمود‘‘ کیا ہے۔

۳-یا بالفاظ دیگر جنہیں ساری فکر بس دنیا کی ہے، آخرت کی پروا نہیں ہے۔ جو دنیا کے فائدوں اور لذتوں اور آسائشوں کی خاطر آخرت کا نقصان تو مول لے سکتے ہیں، مگر آخرت کی کامیابیوں اور خوشحالیوں کے لیے دنیا کا کوئی نقصان، کوئی تکلیف اور کوئی خطرہ، بلکہ کسی لذت سے محرومی تک برداشت نہیں کر سکتے۔ جنہوں نے دنیا اور آخرت دونوں کا موازنہ کر کے ٹھنڈے دل سے دنیا کو پسند کر لیا ہے اور آخرت کے بارے میں فیصلہ کر چکے ہیں کہ جہاں جہاں اس کا مفاد دنیا کے مفاد سے ٹکرائے گا وہاں اُسے قربان کرتے چلے جائیں گے۔

۴-یعنی وہ اللہ کی مرضی کے تابع ہو کر نہیں رہنا چاہتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین اُن کی مرضی کا تابع ہو کر رہے۔ اُن کے ہر خیال، ہر نظریے اور ہر وہم و گمان کو اپنے عقائد میں داخل کرے اور کسی ایسے عقیدے کو اپنے نظامِ فکر میں نہ رہنے دے جو اُن کی کھوپڑی میں نہ سماتا ہو۔ اُن کی ہر رسم، ہر عادت، اور ہر خصلت کو سند جواز دے اور کسی ایسے طریقے کی پیروی کا اُن سے مطالبہ نہ کرے جو انہیں پسند نہ ہو۔ وہ اِن کا ہاتھ بندھا غلام ہو کہ جدھر جدھر یہ اپنے شیطانِ نفس کے اتباع میں مڑیں اُدھر وہ بھی جائے، اور کہیں نہ تو وہ انہیں ٹوکے اور نہ کسی مقام پر انہیں اپنے راستے کی طرف موڑنے کی کوشش کرے۔ وہ اللہ کی بات صرف اُسی صورت میں مان سکتے ہیں جبکہ وہ اِس طرح کا دین ان کے لیے بھیجے۔

۵-اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو نبی جس قوم میں بھیجا ہے اُس پر اُسی قوم کی زبان میں اپنا کلام نازل کیا تا کہ وہ قوم اسے اچھی طرح سمجھے، اور اسے یہ عذر پیش کرنے کا موقع نہ مل سکے کہ آپ کی بھیجی ہوئی تعلیم تو ہماری سمجھ ہی میں نہ آتی تھی پھر ہم اس پر ایمان کیسے لاتے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض معجزہ دکھا نے کی خاطر کبھی یہ نہیں کیا کہ رسول تو بھیجے عرب میں اور وہ کلام سنائے چینی یا جاپانی زبان میں۔ اس طرح کے کرشمے دکھانے اور لوگوں کی عجائب پسندی کو آسودہ کرنے کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تعلیم و تلقین اور تفہیم و تبیین کی اہمیت زیادہ رہی ہے جس کے لیے ضروری تھا کہ ایک قوم کو اسی زبان میں پیغام پہنچایا جائے جسے وہ سمجھتی ہو۔

۶-یعنی باوجود اِس کے کہ پیغمبر ساری تبلیغ و تلقین اُسی زبان میں کرتا ہے جسے ساری قوم سمجھتی ہے، پھر بھی سب کو ہدایت نصیب نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ کسی کلام کے محض عام فہم ہونے سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ سب سننے والے اسے مان جائیں۔ ہدایت اور ضلالت کا سر رشتہ بہر حال اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہتا ہے اپنے اِس کلام کے ذریعہ سے ہدایت عطا کرتا ہے، اور جس کے لیے چاہتا ہے اسی کلام کو الٹی گمراہی کا سبب بنا دیتا ہے۔

۷-یعنی لوگوں کا بطور خود ہدایت پا لینا یا بھٹک جانا تو اس بنا پر ممکن نہیں ہے کہ وہ کاملاً خود مختار نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی بالا دستی سے مغلوب ہیں۔ لیکن اللہ اپنی اس بالا دستی کو اندھا دھند استعمال نہیں کرتا کہ یونہی بغیر کسی معقول وجہ کے جسے چاہے ہدایت بخش دے اور جسے چاہے خواہ مخواہ بھٹکا دے۔ وہ بالا دست ہونے کے ساتھ حکیم و دانا بھی ہے۔ اُس کے ہاں سے جس کو ہدایت ملتی ہے معقول وجوہ سے ملتی ہے۔ اور جس کو راہِ راست سے محروم کر کے بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے وہ خود اپنی ضلالت پسندی کی وجہ سے اس سلوک کا مستحق ہوتا ہے۔

۸- ’’ایّام‘‘ کا لفظ عربی زبان میں اصطلاحاً یادگار تاریخی واقعات کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد تاریخِ  انسانی کے وہ اہم ابواب ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کی قوموں اور بڑی بڑی شخصیتوں کو اُ ن کے اعمال کے لحاظ سے جزا یا سزا دی ہے۔

۹-یعنی ان تاریخی واقعات میں ایسی نشانیاں موجود ہیں جن سے ایک آدمی توحیدِ  خداوندی کے برحق ہونے کا ثبوت بھی پا سکتا ہے اور اس حقیقت کی بھی بے شمار شہادتیں فراہم کر سکتا ہے کہ مُکافات کا قانون ایک عالمگیر قانون ہے، اور وہ سراسر حق اور باطل کے علمی و اخلاقی امتیاز پر قائم ہے، اور اُ سکے تقاضے پورے کرنے کے لیے ایک دوسرا عالَم، یعنی عالَمِ آخرت ناگزیر ہے۔ نیز ان واقعات میں وہ نشانیاں بھی موجود ہیں جن سے ایک آدمی باطل عقائد و نظریات پر زندگی کی عمارت اُٹھانے کے بُرے نتائج معلوم کر سکتا ہے اور اُن سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔

۱۰-یعنی یہ نشانیاں تو اپنی جگہ موجود ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانا صرف اُنہی لوگوں کا کام ہے جو اللہ کی آزمائشوں سے صبر اور پامردی کے ساتھ گزرنے والے، اور اللہ کی نعمتوں کو ٹھیک ٹھیک محسوس کر کے اُن کا صحیح شکریہ ادا کرنے والے ہوں۔ چھچھورے اور کم ظرف اور احسان نا شناس لوگ اگر ان نشانیوں کا ادراک کر بھی لیں تو ان کی یہ اخلاقی کمزوریاں اُنہیں اِس ادراک سے فائدہ اُٹھانے نہیں دیتیں۔

 

اور یاد رکھو، تمہارے ربّ نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے ۱۱ تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کُفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔ ۱۲‘‘اور موسیٰؑ ’’ اگر تم کُفر کرو اور زمین کے سارے رہنے والے بھی کافر ہو جائیں تو اللہ بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ ۱۳‘‘کیا تمہیں ۱۴ اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قومِ نوح ؑ، عاد، ثمود اور ان کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے ؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھُلی کھُلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو انہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے ۱۵ اور کہا کہ ’’جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اُس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ ۱۶‘‘اُن کے رسولوں نے کہا ’’ کیا خُدا کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے ؟۱۷ وہ تمہیں بُلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔ ‘‘ ۱۸ انہوں نے جواب دیا ’’تم کچھ نہیں ہو مگر ویسے ہی انسان جیسے ہم ہیں۔ ۱۹ تم ہمیں اُن ہستیوں کی بندگی سے روکنا چاہتے ہو جن کی بندگی باپ دادا سے ہوتی چلی آ رہی ہے۔ اچھا تو لاؤ کوئی صریح سَنَد۔ ‘‘ ۲۰ان کے رسولوں نے ان سے کہا ’’واقعی ہم کچھ نہیں ہیں مگر تم ہی جیسے انسان لیکن اللہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے۔ ۲۱ اور یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ تمہیں کوئی سَنَد لا دیں۔ سَنَد تو اللہ ہی کے اِذن سے آ سکتی ہے اور اللہ ہی پر اہلِ ایمان کو بھروسہ کرنا چاہیے۔ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسہ کریں جب کہ ہماری زندگی کی راہوں میں اُس نے ہماری رہنمائی کی ہے ؟ جو اذیّتیں تم لوگ ہمیں دے رہے ہو اُن پر ہم صبر کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کا بھروسہ اللہ ہی پر ہونا چاہیے۔ ‘‘ ؏ ۲
 

۱۱-یعنی اگر ہماری نعمتوں کا حق پہچان کر ان کا صحیح استعمال کرو گے، اور ہمارے احکام کے مقابلہ میں سرکشی و استکبار نہ برتو گے، اور ہمارا احسان مان کر ہمارے مطیع فرمان بنے رہو گے۔

۱۲-اس مضمون کی تقریر بائیبل کی کتابِ اِستثناء میں بڑی شر ح و بسط کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔ اس تقریر میں حضرت موسیٰؑ اپنی وفات سے چند روز پہلے بنی اسرائیل کو ان کی تاریخ کے سارے اہم واقعات یاد دلاتے ہیں۔ پھر توراۃ کے اُن تمام احکام کو دُہراتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو بھیجے تھے۔ پھر ایک طویل خطبہ دیتے ہین جس میں بتاتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنے رب کی فرمانبرداری کی تو کیسے کیسے انعامات سے نوازے جائیں گے اور اگر نافرمانی کی روش اختیار کی تو اس کی کیسی سخت سزا دی جائے گی۔ یہ خطبہ کتاب استثناء کے ابواب نمبر ۴ – ۶ – ۸ – ۱۰ – ۱۱ اور ۲۸ تا ۳۰ میں پھیلا ہوا ہے اور اس کے بعض بعض مقامات کمال درجہ موثر و عبرت انگیز ہیں۔ مثال کے طور پر اُس کے چند فقرے ہم یہاں نقل کرتے ہیں جن سے پورے خطبے کا اندازہ ہو سکتا ہے :

 ’’سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا کے ساتھ محبت رکھ۔ اور یہ باتیں جن کا حکم آج میں تجھے دیتا ہوں تیرے دل پر نقش رہیں۔ اور تُو اِن کو اپنی اولاد کے ذہن نشین کرنا اور گھر بیٹھے اور راہ چلتے اور لیٹتے اور اُٹھتے ان کا ذکر کرنا‘‘۔ ( باب ۶۔ آیات ۴ – ۷)

 ’’پس اے اسرائیل! خداوند تیرا خدا تجھ سے اس کے سو ا کیا چاہتا ہے کہ تُو خداوند اپنے خدا کا خوف مانے اور اس کی سب راہوں پر چلے اور اُس سے محبت رکھے اور اپنے سارے دل اور ساری جان سے خداوند اپنے خدا کی بندگی کرے اور خداوند کے جو احکام اور آئین میں تجھ کو آج بتاتا ہوں اُن پر عمل کرے تاکہ تیری خیر ہو۔ دیکھ آسمان اور زمین اور جو کچھ زمین میں ہے یہ سب خداوند تیرے خدا ہی کا ہے ‘‘۔ (باب ۱۰۔ آیات ۱۲ – ۱۴)۔

 ’’اور اگر تو خداوند اپنے خدا کی بات کو جان فشانی سے مان کر اس کے اِن سب حکموں پر جو آج کے دن میں تجھے دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو خداوند تیرا خدا دنیا کی سب قوموں سے زیادہ تجھ کو سرفراز کرے گا۔ اور اگر تُو خداوند اپنے خدا کی بات سنے تو یہ سب برکتیں تجھ پر نازل ہو ں گی اور تجھ کو ملیں گی۔ شہر میں بھی تو مبارک ہو گا اور کھیت میں مبارک۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے دشمنوں کو جو تجھ پر حملہ کریں تیرے روبرو شکست دلائے گا۔۔۔۔۔۔ خداوند تیرے انبار خانوں میں اور سب کاموں میں جن میں تُو ہاتھ ڈالے برکت کا حکم دے گا۔۔۔۔۔۔ تجھ کو اپنی پاک قوم بنا کر رکھے گا اور دنیا کی سب قومیں یہ دیکھ کر کہ تُو خداوند کے نام سے کہلاتا ہے تجھ سے ڈر جائیں گی۔ تو بہت سی قوموں کو قرض دے گا پر خود قرض نہیں لے گا اور خداوند تجھ کو دُم نہیں بلکہ سَر ٹھیرائے گا اور تو پشت نہیں بلکہ سرفراز ہی رہے گا‘‘۔ (باب ۲۸۔ آیات ۱ – ۱۳)۔

 ’’لیکن اگر تو ایسا نہ کرے کہ خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہے ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی لعنتی ہو گا اور کھیت میں بھی لعنتی۔۔۔۔۔۔ خداوند اُن سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور پھِٹکار اور اضطراب کو تجھ پر نازل کرے گا۔۔۔۔۔۔ وبا تجھ سے لپٹی رہے گی۔۔۔۔۔۔ آسمان جو تیرے سر پر ہے پیتل کا اور زمین جو تیرے نیچے ہے لوہے کی ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔ خداوند تجھ کر تیرے دشمنوں کے آگے شکست دلائے گا۔ تو ان کے مقابلہ کے لیے تو ایک ہی راستہ سے جائے گا مگر ان کے سامنے سات سات راستوں سے بھاگے گا۔۔۔۔۔۔ عورت سے منگنی تو تُو کرے گا لیکن دوسرا اس سے مباشرت کرے گا۔ تُو گھر بنائے گا لیکن اس میں بسنے نہ پائے گا۔ تُو تاکستان لگائے گا پر اس کا پھل نہ کھا سکے گا۔ تیرا بیل تیری آنکھوں کے سامنے ذبح کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔ بھوکا اور پیاسا اور ننگا اور سب چیزوں کا محتاج ہو کر تو اپنے اُن دشمنوں کی خدمت کرے گا جن کو خداوند تیرے برخلاف بھیجے گا اور غنیم تیری گردن پر لوہے کا جواز رکھے گا جب تک وہ تیرا ناس نہ کر دے۔۔۔۔۔۔ خداوند تجھ کو زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں پراگندہ کر دے گا‘‘۔ (باب ۲۸۔ آیات ۱۵ – ۶۴)

۱۳-اس جگہ حضرت موسیٰ اور اُن کی قوم کے معاملہ کی طرف یہ مختصر اشارہ کرنے سے مقصود اہلِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ اللہ جب کسی قوم پر احسان کرتا ہے اور جواب میں وہ قوم نمک حرامی اور سرکشی دکھاتی ہے تو پھر ایسی قوم کو وہ عبرتناک انجام دیکھنا پڑتا ہے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے بنی اسرائیل دیکھ رہے ہیں۔ ا ب کیا تم بھی خدا کی نعمت اور اس کے احسان کا جواب کفرانِ نعمت سے دے کر یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟

یہاں یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کی قدر کر نے کا یہاں قریش سے مطالبہ فرما رہا ہے وہ خصُوصیت کے ساتھ اُس کی یہ نعمت ہے کہ اُس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کو اُن کے درمیان پیدا کیا اور آپ کے ذریعہ سے اُن کے پاس وہ عظیم الشان تعلیم بھیجی جس کے متعلق حضور ؐ بار بار قریش سے فرمایا کرتے تھے کہ کلمۃ واحدۃ تعطو نیھا تملکون بھا العرب و تدین لکم بھا العجم ‘‘۔ میر ی ایک بات مان لو، عرب اور عجم سب تمہارے تابع ہو جائیں گے ‘‘۔

۱۴-حضرت موسیٰ کی تقریر اوپر ختم ہو گئی۔ اب براہِ راست کفارِ مکہ سے خطاب شرو ع ہوتا ہے۔

۱۵-ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِن کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانو ں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے۔

۱۶- ’’یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ یہ دعوتِ حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اُس کی مخالفت۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اُسے رد کریں اور کتنا ہی زور اُس کی مخالفت میں لگائیں، دعوت کی سچائی، اس کی معقول دلیلیں، اُس کی کھری کھری اور بے لاگ باتیں، اُس کی دل موہ لینے والی زبان، اس کے داعی کی بے داغ سیرت، اُس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب، اور اپنے صدقِ مقال کے عین مطابق اُن کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مِل جُل کر کٹَّے سے کٹّے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں۔ داعیانِ حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے۔

۱۷-رسولوں نے یہ بات اس لیے کہی کہ ہر زمانے کے مشرکین خدا کی ہستی کو مانتے تھے اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ زمین اور آسمانوں کا خالق وہی ہے۔ اسی بنیاد پر رسولوں نے فرمایا کہ آخر تمہیں شک کس چیز پر ہے ؟ ہم جس چیز کی طرف تمہیں دعوت دیتے ہیں وہ اِس کے سوا اور کیا ہے کہ اللہ فاطر السمٰوات والارض تمہاری بندگی کا حقیقی مستحق ہے۔ پھر کیا اللہ کے بارے میں تم کو شک ہے ؟

۱۸-مدّتِ مقرر سے مراد افراد کی موت کا وقت بھی ہو سکتا ہے اور قیامت بھی۔ جہاں تک قوموں کا تعلق ہے ان کے اُٹھنے اور گرنے کے لیے اللہ کے ہاں مدت کا تعیّن اُن کے اوصاف کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ ایک اچھی قوم اگر اپنے اندر بگاڑ پیدا کر لے تو اس کی مہلتِ عمل گھٹا دی جاتی ہے اور اسے تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اور ایک بگڑی ہوئی قوم اگر اپنے بُرے اوصاف کو اچھے اوصاف سے بدل لے تو اس کی مہلت عمل بڑھا دی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ قیامت تک بھی دراز ہو سکتی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ رعد کی آیت نمبر ۱۱ اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کے حال کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہ بدل دے۔

۱۹-اُن کا مطلب یہ تھا کہ تم ہر حیثیت سے بالکل ہم جیسے انسان ہی نظر آتے ہو۔ کھاتے ہو، پیتے ہو، سوتے ہو، بیوی بچے رکھتے ہو، بھوک، پیاس، بیماری، دُکھ، سردی، گرمی، ہر چیز کے احساس میں اور ہر بشری کمزوری میں ہمارے مشابہ ہو۔ تمہارے اندر کوئی غیر معمولی پن ہمیں نظر نہیں آتا جس کی بنا پر ہم یہ مان لیں کہ تم کوئی پہنچے ہوئے لوگ ہو اور خدا تم سے ہم کلام ہوتا ہے اور فرشتے تمہارے پاس آتے ہیں۔

۲۰-یعنی کوئی ایسی سند جسے ہم آنکھوں سے دیکھیں اور ہاتھوں سے چھوئیں اور جس سے ہم کو یقین آ جائے کہ واقعی خدا نے تم کو بھیجا ہے اور یہ پیغام جو تم لائے ہو خدا ہی کا پیغام ہے۔

۲۱-یعنی بلا شبہہ ہم ہیں تو انسان ہی مگر اللہ نے تمہارے درمیان ہم کو ہی علمِ حق اور بصیرتِ  کاملہ عطا کرنے کے لیے منتخب کیا ہے۔ اس میں ہمارے بس کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو اللہ کے اختیارات کا معاملہ ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو جو کچھ چاہے دے۔ ہم نہ یہ کر سکتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے پاس آیا ہے وہ تمہارے پاس بھجوا دیں اور نہ یہی کر سکتے ہیں کہ جو حقیقتیں ہم پر منکشف ہوئی ہیں اُن سے آنکھیں بند کر لیں۔

 

آخرِ کار منکرین نے اپنے رسُولوں سے کہہ دیا کہ ’’یا تو تمہیں ہماری ملّت میں واپس آنا ہو گا ۲۲ ورنہ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال دیں گے۔ ‘‘ تب اُن کے ربّ نے اُن پر وحی بھیجی کہ ’’ہم اِن ظالموں کو ہلاک کر دیں گے۔۔۔ اور ان کے بعد تمہیں زمین میں آباد کریں گے۔ ۲۳ یہ انعام ہے اس کا جو میرے حضُور جواب دہی کا خوف رکھتا ہو اور میری وعید سے ڈرتا ہو۔ ‘‘اُنہوں نے فیصلہ چاہا تھا (تو یُوں اُن کا فیصلہ ہوا) اور ہر جبّار دشمنِ  حق نے منہ کی کھائی۔ ۲۴پھر اُس کے بعد آگے اُس کے لیے جہنّم ہے۔ وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا،جسے وہ زبردستی حلق سے اُتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اُتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اُس پر چھائی رہے گے مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اُس کی جان کو لاگُو رہے گا۔ جن لوگوں نے اپنے ربّ سے کُفر کیا ہے اُن کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو۔ وہ اپنے کیے کا کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے۔ ۲۵ یہی پرلے درجے کی گُم گشتگی ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق کو حق پر قائم کیا ہے ؟۲۶ وہ چاہے تو تم لوگوں کو لے جائے اور ایک نئی خلقت تمہاری جگہ لے آئے۔ ایسا کرنا اُس پر کچھ بھی دُشوار نہیں ہے۔ ۲۷اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے ۲۸ تو اُس وقت ان میں جو دُنیا میں کمزور تھے وہ اُن لوگوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے ’’دُنیا میں ہم تمہارے تابع تھے، اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی دکھا دیتے۔ اب تو یکساں ہے خواہ ہم جزَع فزَع کریں یا صبر، بہر حال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ۲۹‘‘ ؏ ۳
 

۲۲-اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام منصبِ نبوت پر سرفراز ہونے سے پہلے اپنی گمراہ قوموں کی ملّت میں شامل ہوا کرتے تھے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبوت سے پہلے چونکہ وہ ایک طرح کی خاموش زندگی بسر کرتے تھے، کسی دین کی تبلیغ اور کسی رائج الوقت دین کی تردید نہیں کرتے تھے، اِس لیے اُن کی قوم یہ سمجھتی تھی کہ وہ ہماری ہی مِلّت میں ہیں، اور نبوت کا کام شروع کر دینے کے بعد اُن پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ مِلّت آبائی سے نِکل گئے ہیں۔ حالانکہ وہ نبوت سے پہلے بھی کبھی مشرکین کی مِلّت میں شامل نہ ہوئے تھے کہ اس سے خروج کا الزام اُ ن پر لگ سکتا۔

۲۳-یعنی گھبراؤ نہیں، یہ کہتے ہیں کہ تم اس ملک میں نہیں رہ سکتے، مگر ہم کہتے ہیں کہ اب یہ اِس سرزمین میں نہ رہنے پائیں گے۔ اب تو جو تمہیں مانے گا وہی یہاں رہے گا۔

۲۴-ملحوظِ خاطر رہے کہ یہاں اِس تاریخی بیان کے پیرایہ میں دراصل کفارِ مکہ کو اُن باتوں کا جواب دیا جا رہا ہے جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا کرتے تھے۔ ذکر بظاہر پچھلے انبیاء اور ان کی قوموں کے واقعات کا ہے مگر چسپاں ہو رہا ہے وہ اُن حالات پر جو اس سورہ کے زمانۂ نزول میں آ رہے تھے۔ اس مقام پر کفار مکہ کو، بلکہ مشرکینِ  عرب کو گویا صاف صاف متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مستقبل اب اُس رویے پر منحصر ہے جو دعوتِ محمدیہ کے مقابلے میں تم اختیار کرو گے۔ اگر اسے قبول کر لو گے تو عرب کی سرزمین میں رہ سکو گے، اور اگر اسے رد کر دو گے تو یہاں سے تمہارا نام و نشان تک مِٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ اس بات کو تاریخی واقعات نے ایک ثابت شدہ حقیقت بنا دیا۔ اس پیشین گوئی پر پورے پندرہ برس بھی نہ گزرے تھے کہ سر زمین عرب میں ایک مشرک بھی باقی نہ رہا۔

۲۵-یعنی جن لوگوں نے اپنے رب کے ساتھ نمک حرامی، بے وفائی، خود مختاری اور نافرمانی و سرکشی کی روش اختیار کی، اور اطاعت و بندگی کا وہ طریقہ اختیار کرنے سے انکار کر دیا جس کی دعوت انبیاء علیہم السلام لے کر آئے ہیں، اُن کا پورا کارنامۂ حیات اور زندگی بھر کا سارا سرمایۂ عمل آخر کار ایسا لاحاصل اور بے معنی ثابت ہو گا جیسے ایک راکھ کا ڈھیر تھا جو اکٹھا ہو ہو کر مدّتِ دراز میں بڑا بھاری ٹیلہ سا بن گیا تھا، مگر صرف ایک ہی دن کی آندھی نے اس کو ایسا اڑا یا کہ اُس کا ایک ایک ذرہ منتشر ہو کر رہ گیا۔ اُن کی نظر فریب تہذیب، اُن کا شاندار تمدن، اُن کی حیرت انگیز صنعتیں، اُن کی زبردست سلطنتیں، اُن کی عالیشان یونیورسٹیاں، اُن کے علوم و فنون اور ادبِ لطیف و کثیف کے اتھاہ ذخیرے، حتیٰ کہ اُن کی عبادتیں اور اُن کی ظاہری نیکیاں اور اُن کے بڑے بڑے خیراتی اور رفاہی کارنامے بھی، جن پر وہ دنیا میں فخر کرتے ہیں، سب کے سب آخر کار راکھ کا ایک ڈھیر ہی ثابت ہوں گے جسے یومِ  قیامت کی آندھی بالکل صاف کر دے گی اور عالمِ آخرت میں اُس کا ایک ذرہ بھی اُن کے پاس اس لائق نہ رہے گا کہ اُسے خدا کی میزان میں رکھ کر کچھ بھی وزن پا سکیں۔

۲۶-یہ دلیل ہے اُس دعوے کی جو اوپر کیا گیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اِس بات کو سُن کر تمہیں تعجب کیوں ہوتا ہے ؟ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ یہ زمین و آسمان کا عظیم الشان کارخانۂ تخلیق حق پر قائم ہوا ہے نہ کہ باطل پر ؟ یہاں جو چیز حقیقت اور واقعیت پر مبنی نہ ہو، بلکہ ایک بے اصل قیاس و گمان پر جس کی بنا رکھ دی گئی ہو، اُسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہو سکتی۔ اُس کے لیے قرار ثبات کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اُس کے اعتماد پر کام کرنے والا کبھی اپنے اعتماد میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص پانی پر نقش بنائے اور ریت پر قصر تعمیر کرے وہ اگر یہ امید رکھتا ہے کہ اس کا نقش باقی رہے گا اور اُس کا قصر کھڑا رہے گا تو اس کی یہ اُمید کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اور ریت کی حقیقت نہیں کہ وہ عمارتوں کے لیے مضبوط بنیاد بن سکے۔ لہٰذا سچائی اور حقیقت کو نظر انداز کر کے جو شخص باطل امیدوں پر اپنے عمل کی بنیاد رکھے اُسے ناکام ہونا ہی چاہیے۔ یہ بات اگر تمہاری سمجھ میں آتی ہے تو پھر یہ سُن کر تمہیں حیرت کس لیے ہوتی ہے کہ خدا کی اِس کائنات میں جو شخص اپنے آپ کو خدا کی بندگی و اطاعت سے آزاد فرض کر کے کام کرے گا یا خدا کے سوا کسی اَور کی خدائی مان کر (جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے ) زندگی بسر کرے گا، اس کا پورا کارنامۂ زندگی ضائع ہو جائے گا؟ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خود مختار ہو یا خدا کے سوا کسی اور کا بندہ ہو، تو اس جھوٹ پر، اس خلافِ  واقعہ مفروضہ پر، اپنے پورے نظامِ فکر و عمل کی بنیاد رکھنے والا انسان تمہاری رائے میں پانی پر نقش کھینچنے والے احمق کا سا انجام نہ دیکھے گا تواُ س کے لیے اور کس انجام کی تم توقع رکھتے ہو؟

۲۷- دعوے پر دلیل پیش کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فقرہ نصیحت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایک شبہہ کا ازالہ بھی ہے جو اوپر کی دو ٹوک بات سُن کر آدمی کے دل میں پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک شخص پوچھ سکتا ہے کہ اگر بات وہی ہے جو اِن آیتوں میں فرمائی گئی ہے تو یہاں ہر باطل پرست اور غلط کار آدمی فنا کیوں نہیں ہو جاتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نادان! کیا تُو سمجھتا ہے کہ اسے فنا کر دینا اللہ کے لیے کچھ دشوار ہے ؟ یا اللہ سے اس کا کوئی رشتہ ہے کہ اس کی شرارتوں کے باوجود اللہ نے محض اقربا پروری کی بنا پر اُسے مجبوراً چھوٹ دے رکھی ہو؟ اگر یہ بات نہیں ہے، اور تُو خود جانتا ہے کہ نہیں ہے، تو پھر تجھے سمجھنا چاہیے کہ ایک باطل پرست اور غلط کار قوم ہر وقت اس خطرے میں مبتلا ہے کہ اسے ہٹا دیا جائے اور کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ کام کرنے کا موقع دے دیا جائے۔ اس خطرے کے عملاً رُو نما ہونے میں اگر دیر لگ رہی ہے تو اس غلط فہمی کے نشے میں مست نہ ہو جا کہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مہلت کے ایک ایک لمحے کو غنیمت جان اور اپنے باطل نظامِ فکر و عمل کی ناپائیداری کو محسوس کر کے اسے جلدی سے جلدی پائیدار بنیادوں پر قائم کر لے۔

۲۸-بَرَزُو کے معنی محض نکل کر سامنے آنے اور پیش ہونے ہی کے نہیں ہیں بلکہ اس میں ظاہر ہونے اور کھل جانے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ بے نقاب ہو کر سامنے آ جانا کیا ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے تو بندے ہر وقت اپنے رب کے سامنے بے نقاب ہیں۔ مگر آخرت کی پیشی کے دن جب وہ سب کے سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہوں گے تو انہیں خود بھی معلوم ہو گا کہ ہم اس احکم الحاکمین اور مالک یوم الدین کے سامنے بالکل بے نقاب ہیں، ہمارا کوئی کام بلکہ کوئی خیال اور دل کے گوشوں میں چھپا ہوا کوئی ارادہ تک اس سے مخفی نہیں ہے۔

۲۹-یہ تنبیہ ہے اُن سب لوگوں کے لیے جو دنیا میں آنکھیں بند کر کے دوسروں کے پیچھے چلتے ہیں یا اپنی کمزوری کو حجت بنا کر طاقتور ظالموں کی اطاعت کرتے ہیں۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ آج جو تمہارے لیڈر اور پیشوا اور افسر اور حاکم بنے ہوئے ہیں، کل ان میں سے کوئی بھی تمہیں خدا کے عذاب سے ذرہ برابر بھی نہ بچا سکے گا۔ لہٰذا آج ہی سوچ لو کہ تم جس کے پیچھے چل رہے ہو یا جس کا حکم مان رہے ہو وہ خود کہاں جا رہا ہے اور تمہیں کہاں پہنچا کر چھوڑے گا۔

 

اور جب فیصلہ چُکا دیا جائے گا تو شیطان کہے گا ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے جو وعدے تم سے کیے تھے وہ سب سچے تھے اور میں نے جتنے وعدے کیے اُن میں سے کوئی بھی پُورا نہ کیا، ۳۰ میرا تم پر کوئی زور تو تھا نہیں، میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنے راستے کی طرف تمہیں دعوت دی اور تم نے میری دعوت پر لبّیک کہا۔ ۳۱ اب مجھے ملامت نہ کرو، اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ یہاں نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری۔ اس سے پہلے جو تم نے مجھے خدائی میں شریک بنا رکھا تھا ۳۲ میں اُس سے بری الذّمہ ہوں، ایسے ظالموں کے لیے تو دردناک سزا یقینی ہے۔ ‘‘بخلاف اس کے جو لوگ دُنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ وہاں وہ اپنے ربّ کے اِذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں اُن کا استقبال سلامتی کی مبارکباد سے ہو گا۔ ۳۳کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمۂ طیّبہ ۳۴ کو کس چیز سے مثال دی ہے ؟ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمّی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ۳۵،ہر آن وہ اپنے ربّ کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے۔ ۳۶ یہ مثالیں اللہ اِس لیے دیتا ہے کہ لوگ اِن سے سبق لیں۔ اور کلمہ خبیثہ ۳۷ کی مثال ایک بد ذات درخت کی سی ہے جو زمین کی سطح سے اُکھاڑ پھینکا جاتا ہے، اُس کے لیے کوئی استحکام نہیں ہے۔ ۳۸ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قولِ ثابت کی بنیاد پر دُنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، ۳۹ اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے۔ ۴۰ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ ؏ ۴
 

۳۰-یعنی تمہارے تمام گلے شکوے اس حد تک تو بالکل صحیح ہیں کہ اللہ سچا تھا اور میں جھوٹا تھا۔ اس واقعے سے مجھے ہر گز انکار نہیں ہے۔ اللہ کے وعدے اور اس کی وعیدیں، تم دیکھ ہی رہے ہو کہ ان میں سے ہر بات جوں کی توں سچی نکلی۔ اور میں خود مانتا ہوں کہ جو بھروسے میں نے تمہیں دلائے، جن فائدوں کے لالچ تمہیں دیے، جن خوشنما توقعات کے جال میں تم کو پھانسا اور سب سے بڑھ کر یہ یقین جو تمہیں دلایا کہ اول تو آخرت واخرت کچھ بھی نہیں ہے، سب محض ڈھکوسلا ہے، اور اگر ہوئی بھی تو فلاں حضرت سے تصدق سے تم صاف بچ نکلو گے، بس ان کی خدمت میں نذر و نیاز کی رشوت پیش کرتے رہو اور پھر جو چاہو کرتے پھرو، نجات کا ذمہ اُن کا، یہ ساری باتیں جو میں تم سے کہتا رہا اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے کہلواتا رہا، یہ سب محض دھوکا تھا۔

۳۱-یعنی اگر آپ حضرات ایسا کوئی ثبوت رکھتے ہو کہ آپ خود راہِ راست پر چلنا چاہتے تھے اور میں نے زبردستی آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو غلط راستے پر کھینچ لیا، تو ضرور اسے پیش فرمائیے، جو چور کی سزا سو میری۔ لیکن آپ خود مانیں گے کہ واقعہ یہ نہیں ہے۔ میں نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا کہ دعوتِ حق کے مقابلے میں اپنی دعوتِ باطل آپ کے سامنے پیش کی، سچائی کے مقابلہ میں جھوٹ کی طرف آپ کو بلایا، نیکی کے مقابلہ میں بدی کی طرف آپ کو پکارا۔ ماننے ا اور نہ ماننے کے جملہ اختیارات آپ ہی حضرات کو حاصل تھے۔ میرے پاس آپ کو مجبور کرنے کی کوئی طاقت نہ تھی۔ اب اپنی اس دعوت کا ذمہ دار تو بلا شبہہ تو میں خود ہوں اور اس کی سزا بھی پا رہا ہوں۔ مگر آپ نے جوا س پر لبیک کہا اس کی ذمہ داری آپ مجھ پر کہاں ڈالنے چلے ہیں۔ اپنے غلط انتخاب اور اپنے اختیار کے غلط استعمال کی ذمہ داری تو آپ کو خود ہی اُٹھانی چاہیے۔

۳۲- ’’یہاں پھر شرکِ اعتقادی کے مقابلہ میں شرک کی ایک مستقل نوع یعنی شرکِ عملی کے وجود کا ایک ثبوت ملتا ہے۔ ظا ہر بات ہے کہ شیطان کو اعتقادی حیثیت سے تو کوئی بھی نہ خدائی میں شریک ٹھیراتا ہے اور نہ اس کی پرستش کرتا ہے۔ سب اُس پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ البتہ اس کی اطاعت اور غلامی اور اس کے طریقے کی اندھی یا آنکھوں دیکھے پیروی ضرور کی جا رہی ہے، اور اُسی کو یہاں شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کوئی صاحب جواب میں فرمائیں کے یہ تو شیطان کا قول ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نقل فرمایا ہے۔ لیکن ہم عرض کریں گے کہ اول تو اس کے قول کی اللہ تعالیٰ خود تردید فرما دیتا اگر وہ غلط ہوتا۔ دوسرے شرکِ عملی کا صرف یہی ایک ثبوت قرآن میں نہیں ہے بلکہ اس کی متعدد ثبوت پچھلی سورتوں میں گزر چکے ہیں اور آگے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر یہودیوں اور عیسائیوں کو یہ الزام کہ وہ اپنے احبار اور رُہبان کو اربابٌ من دون اللہ بنائے ہوئے ہیں (التوبہ۔ آیت ۱۳۷)۔ خواہشاتِ نفس کی بندگی کرنے والوں کے متعلق یہ فرمانا کہ انہوں نے اپنی خواہشِ نفس کو خدا بنا لیا ہے (الفرقان۔ آیت نمبر ۴۳)۔ نافرمان بندوں کے متعلق یہ ارشاد کہ وہ شیطان کی عبادت کرتے رہے ہیں (یٰسین۔ آیت ۶۰)۔ انسانی ساخت کے قوانین پر چلنے والوں کو ان الفاظ میں ملامت کہ اذنِ  خداوندی کے بغیر جن لوگوں نے تمہارے لیے شریعت بنائی ہے وہ تمہارے ’’شریک‘‘ ہیں (الشوریٰ۔ آیت نمبر ۲۱)۔ یہ سب کیا اُسی شرکِ عملی کی نظیریں نہیں ہیں جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے ؟ ان نظیروں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ کوئی شخص عقیدۃً کسی غیراللہ کو خدائی میں شریک ٹھیرائے۔ اس کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ وہ خدائی سند کے بغیر، یا احکامِ  خداوندی کے علی الرغم، اُس کی پیروی اور اطاعت کرتا چلا جائے۔ ایسا پیرو اور مطیع اگر اپنے پیشوا اور مطاع پر لعنت بھیجتے ہوئے بھی عملاً یہ روش اختیار کر رہا ہو تو قرآن کی روح سے وہ اُس کو خدائی میں شریک بنائے ہوئے ہے، چاہے شرعاً اُس کا حکم بالکل وہی نہ ہو جو اعتقادی مشرکین کا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انعام، حاشیہ نمبر ۸۷ و ۱۰۷۔ الکہف حاشیہ ۵۰)۔

۳۳-تَحیّہ کے لغوی معنی ہیں دعائے درازی ٔ عمر۔ مگر اصطلاحاً عربی زبان میں یہ لفظ اس کلمۂ خیر مقدم یا کلمۂ استقبال کے لیے بولا جاتا ہے جو لوگ آمنا سامنا ہونے پر سب سے پہلے ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ہم معنی لفظ یا تو ’’سلام‘‘ ہے، یا پھر علیک سلیک۔ لیکن پہلا لفظ استعمال کرنے سے ترجمہ ٹھیک نہیں ہوتا اور دوسرا لفظ مبتذل ہے، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ’’استقبال ‘‘ کیا ہے۔

تَحیتھُمْ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے استقبال کا طریقہ یہ ہو گا، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کا اس طرح استقبال ہو گا۔ نیز سلامٌ میں دعائے سلامتی کا مفہوم بھی ہے اور سلامتی کی مبارکباد کا بھی۔ ہم نے موقع کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ مفہوم اختیار کیا ہے جو ترجمہ میں درج ہے۔

۳۴-کلمۂ طیبہ کے لفظی معنی ’’پاکیزہ بات‘‘ کے ہیں، مگر اِس سے مراد وہ قولِ حق اور عقیدۂ  صالحہ جو سراسر حقیقت اور راستی پر مبنی ہو۔ یہ قول اور عقیدہ قرآن مجید کی رُو سے لازماً وہی ہو سکتا ہے جس میں توحید کا اقرار، انبیاء اور کتب آسمانی کا اقرار، اور آخرت کا اقرار ہو، کیونکہ قرآن اِنہی امور کو بنیاد ی صداقتوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔

۳۵-دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین سے لے کر آسمان تک چونکہ سارا نظامِ کائنات اُسی حقیقت پر مبنی ہے جس کا اقرار ایک مومن اپنے کلمہ طیبہ میں کرتا ہے، اس لیے کسی گوشے میں بھی قانونِ فطرت اس سے نہیں ٹکراتا، کسی شے کی بھی اصل اور جبلّت اُس سے اِبا نہیں کرتی، کہیں کوئی حقیقت اور صداقت اُس سے متصادم نہیں ہوتی۔ اِسی لیے زمین اور اُس کا پورا نظام اُس سے تعاون کرتا ہے، اور آسمان اور اُس کا پورا عالم اُس کا خیر مقدم کرتا ہے۔

۳۶-یعنی وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اِسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے، اُس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ وہ فکر میں سلجھاؤ، طبیعت میں سلامت، مزاج میں اعتدال، سیرت میں مضبوطی، اخلاق میں پاکیزگی، روح میں لطافت، جسم میں طہارت و نظافت، برتاؤ میں خوشگواری، معاملات میں راست بازی، کلام میں صداقت شعاری، قول و قرار میں پختگی، معاشرت میں حسنِ سلوک، تہذیب میں فضیلت، تمدن میں توازن، معیشت میں عدل و مُواساۃ، سیاست میں دیانت، جنگ میں شرافت، صلح میں خلوص اور عہدو پیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے، وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کر لے تو کندن بن جائے۔

۳۷- ’’یہ لفظ کلمہ طیبہ کی ضد ہے جس کا اطلاق اگرچہ ہر خلافِ حقیقت اور مبنی بر غلط قول پر ہو سکتا ہے، مگر یہاں اُس سے مراد ہر وہ باطل عقیدہ ہے جس کو انسان اپنے نظامِ زندگی کی بنیاد بنائے، عام اِس سے کہ وہ دہریت ہو، الحاد و زندقہ ہو، شرک و بت پرستی ہو، یا کوئی اور ایسا تخیل جو انبیاء کے واسطے سے نہ آیا ہو۔

۳۸-دوسرے الفاظ میں اِ س کا مطلب یہ ہوا کہ عقیدہ باطل چونکہ حقیقت کے خلاف ہے اس لیے قانونِ فطرت کہیں بھی اُس سے موافقت نہیں کرتا۔ کائنات کا ہر ذرہ اُس کی تکذیب کرتا ہے۔ زمین و آسمان کی ہر شے اس کی تردید کرتی ہے۔ زمین میں اُس کا بیج بونے کی کوشش کی جائے تو ہر وقت وہ اُسے اگلنے کے لیے تیار رہتی ہے۔ آسمان کی طرف اس کی شاخیں بڑھنا چاہیں تو وہ انہیں نیچے دھکیلتا ہے۔ انسان کو اگر امتحان کی خاطر انتخاب کی آزادی اور عمل کی مہلت نہ دی گئی ہوتی تو یہ بد ذات درخت کہیں اُگنے ہی نہ پاتا۔ مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے ابنِ آدم کو اپنے رجحان کے مطابق کام کرنے کا موقع عطا کیا ہے، اس لیے جو نادان لوگ قانونِ فطرت سے لڑ بھڑ کر یہ درخت لگانے کی کوشش کرتے ہیں، اُن کے زور مارنے سے زمین اُسے تھوڑی بہت جگہ دے دیتی ہے، ہوا اور پانی سے کچھ نہ کچھ غذا بھی اسے مل جاتی ہے، اور فضا بھی اس کی شاخوں کے پھیلنے کے لیے با دلِ ناخواستہ کچھ موقع دینے پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ لیکن جب تک یہ درخت قائم رہتا ہے کڑوے، کسیلے، زہریلے پھل دیتا رہتا ہے، اور حالات کے بدلتے ہی حوادث کا ایک جھٹکا اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔

کلمہ طیبہ اور کلمات خبیثہ کے اس فرق کو ہر وہ شخص بآسانی محسوس کر سکتا ہے جو دنیا کی مذہبی، اخلاقی، فکری اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ آغازِ تاریخ سے آج تک کلمہ طیبہ تو ایک ہی رہا ہے، مگر کلماتِ خبیثہ بے شمار پیدا ہو چکے ہیں۔ کلمہ طیبہ کبھی جڑ سے نہ اکھاڑا جا سکا، مگر کلماتِ خبیثہ کی فہرست ہزاروں مردہ کلمات کے ناموں سے بھری پڑی ہے، حتیٰ کہ اُن میں سے بہتوں کا حال یہ ہے کہ آج تاریخ کے صفحات کے سوا کہیں اُن کا نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔ اپنے زمانے میں جن کلمات کا بڑا زور شور رہا ہے آج اُن کا ذکر کیا جائے تو لوگ حیران رہ جائیں کہ کبھی انسان ایسی ایسی حماقتوں کا بھی قائل رہ چکا ہے۔

پھر کلمہ طیبہ کو جب، جہاں، جس شخص یا قوم نے بھی صحیح معنوں میں اپنایا اُس کی خوشبو سے اُس کا ماحول معطر ہو گیا اور اُس کی برکتوں سے صرف اُسی شخص یا قوم نے فائدہ نہیں اُٹھایا، بلکہ اُس کے گرد و پیش کی دنیا بھی اُن سے مالامال ہو گئی۔ مگر کسی کلمہ خبیث نے جہاں جس انفرادی یا اجتماعی زندگی میں بھی جڑ پکڑی اُس کی سڑاند سے سارا ماحول متعفن ہو گیا۔ اور اُس کے کانٹوں کی چبھن سے نہ اس کا ماننے والا امن میں رہا، نہ کوئی ایسا شخص جس کو اُس سے سابقہ پیش آیا ہو۔

اس سلسلہ میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں تمثیل کے پیرایہ میں اُسی مضمون کو سمجھایا گیا ہے جو آیت ۱۸ میں یوں بیان ہوا تھا کہ ’’اپنے ربّ سے کفر کرنے والوں کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اُڑا دیا ہو‘‘۔ اور یہی مضمون اِس سے پہلے سورۂ رعد آیت ۱۷ میں ایک دوسرے انداز سیلاب اور پگھلائی ہوئی دھاتوں کی تمثیل میں بیان ہو چکا ہے۔

۳۹-یعنی دنیا میں اُن کو اِس کلمہ کی وجہ سے ایک پائدار نقطۂ نظر، ایک مستحکم نظامِ فکر، اور ایک جامع نظریہ ملتا ہے جو ہر عُقدے کو حل کر نے اور ہر گُتھی کو سلجھانے کے لیے شاہِ کلید کا حکم رکھتا ہے۔ سیرت کی مضبوطی اور اخلاق کی اُستواری نصیب ہوتی ہے جسے زمانہ کی گردشیں متزلزل نہیں کر سکتیں۔ زندگی کے ایسے ٹھوس اصول ملتے ہیں جو ایک طرف اُن کے قلب کو سکون اور دماغ کو اطمینان بخشتے ہیں اور دوسری طرف انہیں سعی و عمل کی راہوں میں بھٹکنے، ٹھوکریں کھانے، اور تلوُّن کا شکار ہونے سے بچاتے ہیں۔ پھر جب وہ موت کی سرحد پار کر کے عالم آخرت کے حدود میں قدم رکھتے ہیں تو وہاں کسی قسم کی حیرانی اور سراسیمگی و پریشانی اُن کو لاحق نہیں ہوتی۔ کیونکہ وہاں سب کچھ ان کی توقعات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ وہ اُس عالم میں اِس طرح داخل ہوتے ہیں گویا اُس کی راہ و رسم سے پہلے ہی واقف تھے۔ وہاں کوئی مرحلہ ایسا پیش نہیں آتا جس کی اُنہیں پہلے خبر نہ دے دی گئی ہو اور جس کے لیے انہوں نے قبل از وقت تیار ی نہ کر رکھی ہو۔ اِ س لیے وہاں ہر منزل سے وہ پوری ثابت قدمی کے ساتھ گزرتے ہیں۔ ان کا حال وہاں اُس کافر سے بالکل مختلف ہوتا ہے جسے مرتے ہی اپنی توقعات کے سراسر خلاف ایک دوسری ہی صورت حال سے اچانک سابقہ پیش آتا ہے۔

۴۰-یعنی جو ظالم کلمۂ طیّبہ کو چھوڑ کر کسی کلمۂ خبیثہ کی پیروی کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے ذہن کو پراگندہ اور اُن کی مساعی کو پریشان کر دیتا ہے۔ وہ کسی پہلو سے بھی فکر و عمل کی صحیح راہ نہیں پا سکتے۔ ان کا کوئی تیر بھی نشانے پر نہیں بیٹھتا۔

 

تم نے دیکھا اُن لوگوں کو جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اُسے کُفرانِ نعمت سے بدل ڈالا اور (اپنے ساتھ ) اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا۔۔۔۔ یعنی جہنّم، جس میں وہ جھُلسے جائیں گے اور وہ بدترین جائے قرار ہے۔۔۔۔ اور اللہ کے کچھ ہمسر تجویز کر لیے تا کہ وہ اُنہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں۔ اِ ن سے کہو، اچھا مزے کر لو، آخر کار تمہیں پلٹ کر جانا دوزخ ہی میں ہے۔ اے نبی ؐ، میرے جو بندے ایمان لائے ہیں اُن سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اُس میں سے کھُلے اور چھُپے (راہِ خیر میں) خرچ کریں ۴۱ قبل اِس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی اور نہ دوست نوازی ہو سکے گی۔ ۴۲ اللہ وہی تو ہے ۴۳ جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اُس کے ذریعہ سے تمہاری رزق رسانی کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ جس نے کشتی کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ سمندر میں اُس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لیے مسخّر کیا،جس نے سُورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخّر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لیے مسخّر کیا۔ ۴۴جس نے وہ سب کچھ تمہیں دیا جو تم نے مانگا۔ ۴۵ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو کر نہیں سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔ ؏ ۵

 

۴۱-مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کی روش کفار کی روش سے مختلف ہونی چاہیے۔ وہ تو کافرِ  نعمت ہیں۔ انہیں شکر گزار ہونا چاہیے اور اس شکر گزاری کی عملی صورت یہ ہے کہ نماز قائم کریں اور خدا کی راہ میں اپنے مال خرچ کریں۔

۴۲-یعنی نہ تو وہاں کچھ دے دلا کر ہی نجات خریدی جا سکے گی اور نہ کسی کی دوستی کام آئے گی کہ وہ تمہیں خدا کی پکڑ سے بچا لے۔

۴۳-یعنی وہ اللہ جس کی نعمت کا کفران کیا جا رہا ہے، جس کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا جا رہا ہے، جس کے ساتھ زبردستی کے شریک ٹھیرائے جا رہے ہیں، وہ وہی تو ہے جس کے یہ اور یہ احسانات ہیں۔

۴۴- ’’تمہارے لیے مسخر کیا‘‘ کو عام طور پر لوگو غلطی سے ’’تمہارے تابع کر دیا‘‘ کے معنی میں لے لیتے ہیں، اور پھر اس مضمون کی آیات سے عجیب عجیب معنی پیدا کرنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض لوگ تو یہاں تک سمجھ بیٹھے کہ اِن آیات کی رو سے تسخیر سمٰوات و ارض انسان کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ انسان کے لیے ان چیزوں کو مسخر کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسے قوانین کا پابند بنا رکھا ہے جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نافع ہو گئی ہیں۔ کشتی اگر فطرت کے چند مخصوص قوانین کی پابند نہ ہوتی تو انسان کبھی بحری سفر نہ کر سکتا۔ دریا اگر مخصوص قوانین میں جکڑے ہوئے نہ ہوتے تو کبھی اُن سے نہریں نہ نکالی جا سکتیں۔ سورج اور چاند اور روز و شب اگر ضابطوں میں کسے ہوئے نہ ہوتے تو یہاں زندگی ہی ممکن نہ ہوتی کجا کہ ایک پھلتا پھولتا انسانی تمدن وجود میں آ سکتا۔

۴۵-یعنی تمہاری فطرت کی ہر مانگ پوری کی، تمہاری زندگی کے لیے جو جو کچھ مطلوب تھا مہیا کیا، تمہارے بقا اور ارتقاء کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب فراہم کیے۔

 

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم ؑ نے دُعا کی تھی ۴۶ کہ ’’پروردگار، اِس شہر ۴۷ کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بُت پرستی سے بچا۔ پروردگار، اِن بُتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے ۴۸ ( ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گُمراہ کر دیں، لہٰذا اُن میں سے ) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقیناً تُو درگزر کرنے والا مہربان ہے۔ ۴۹پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اِس لیے کیا ہے کہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تُو لوگوں کے دِلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے ۵۰، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔ پروردگار، تُو جانتا ہے جو کچھ ہم چھُپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں‘‘ ۵۱۔۔۔۔ اور ۵۲ واقعی اللہ سے کچھ بھی چھُپا ہوا نہیں ہے، نہ زمین میں نہ آسمانوں میں۔۔۔۔  ’’ شکر ہے اُس خدا کا جس نے مجھے اِس بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹے دیے، حقیقت یہ کہ میرا ربّ ضرور دُعا سُنتا ہے۔ اے میرے پروردگار، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اُٹھا جو یہ کام کریں)۔ پروردگار، میری دُعا قبول کر۔ پروردگار، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اُس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہو گا۔ ‘‘ ۵۳؏ ٦

 

۴۶-عام احسانات کا ذکر کرنے کے بعد اب اُن خاص احسانات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے قریش پر کیے تھے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے باپ ابراہیمؑ نے یہاں لا کر کن تمناؤں کے ساتھ تمہیں بسایا تھا، اُس کی دعاؤں کے جواب میں کیسے کیسے احسانات ہم نے تم پر کیے، اور اب تم اپنے باپ کی تمناؤں اور اپنے رب کے احسانات کا جواب کن گمراہیوں اور بداعمالیوں سے دے رہے ہو۔

۴۷-یعنی مکہ۔

۴۸-یعنی خدا سے پھیر کر اپنا گرویدہ کیا ہے۔ یہ مجازی کلام ہے۔ بت چونکہ بہتوں کی گمراہی کے سبب بنے ہیں اس لیے گمراہ کرنے کے فعل کو ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔

۴۹-یہ حضرت ابراہیمؑ کی کمال درجہ نرم دلی اور نوع انسانی کے حال پر ان کی انتہائی شفقت ہے کہ وہ کسی حال میں بھی انسان کو خدا کے عذاب میں گرفتار ہوتے نہیں دیکھ سکتے بلکہ آخر وقت تک عفو و درگزر کی التجا کرتے رہتے ہیں۔ رزق کے معاملہ میں تو انہوں نے یہاں تک کہہ دینے میں دریغ نہ فرمایا کہ وَارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللہِ وَالْیَوْ مِ الْاٰ خِرِ (البقرہ۔ آیت ۱۲۶)۔ لیکن جہاں آخرت کی پکڑ کا سوال آیا وہاں ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ جو میرے طریقے کے خلاف چلے اُسے سزا دے ڈالیو، بلکہ کہا تو یہ کہا کہ اُن کے معاملہ میں کیا عرض کروں، تُو غفورٌرَّحیم ہے۔ اور یہ کچھ اپنی ہی اولاد کے ساتھ اس سراپا رحم و شفقت انسان کا مخصوص رویہ نہیں ہے بلکہ جب فرشتے قومِ لوط جیسی بدکار قوم کو تباہ کرنے جا رہے تھے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ بڑی محبت کے انداز میں فرماتا ہے کہ ’’ابراہیم ہم سے جھگڑنے لگا‘‘ (ہود، آیت ۷۴)۔ یہی حال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان کے رو در رو عیسائیوں کی گمراہی ثابت کر دیتا ہے تو وہ عرض کرتے ہیں کہ ’’اگر حضور ان کو سزا دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ بالا دست اور حکیم ہیں‘‘ (المائدہ، آیت ۱۱۸)

۵۰-یہ اُسی دُعا کی برکت ہے کہ پہلے سارا عرب مکّہ کی طرف حج اور عمرے کے لیے کھنچ کر آتا تھا، اور اب دنیا بھر کے لوگ کھچ کھچ کر وہاں جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی اُسی دعا کی برکت ہے کہ ہر زمانے میں ہر طرح کے پھل، غلّے، اور دوسرے سامانِ رزق وہاں پہنچتے رہتے ہیں، حالانکہ اس وادیِ غیر ذی زرع میں جانوروں کے لیے چارہ تک پیدا نہیں ہوتا۔

۵۱-یعنی خدا یا جو کچھ میں زبان سے کہہ رہا ہوں وُہ بھی تُو سُن رہا ہے اور جو جذبات میرے دل میں چھُپے ہوئے ہیں اُن سے بھی تُو واقف ہے۔

۵۲-یہ جملہ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے قول کی تصدیق میں فرمایا ہے۔

۵۳-حضرت ابراہیمؑ نے اس دعائے مغفرت میں اپنے باپ کو اُس وعدے کی بنا پر شریک کر لیا تھا جو اُنہوں نے وطن سے نکلتے وقت کیا تھا کہ سَاَ اْتَغْفِرُ لَکَ رَبی، (مریم۔ آیت ۴۷)۔ مگر بعد میں جب اُنہیں احساس ہوا کہ کہ وہ تو اللہ کا دشمن تھا تو انہوں نے اُس سے صاف تبرّی فر ما دی۔ (التوبہ۔ آیت ۱۱۴)۔

 

اب یہ ظالم لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ کو تم اُس سے غافل نہ سمجھو۔ اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب حال یہ ہو گا کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی ہیں،سر اُٹھائے بھاگے چلے جا رہے ہیں، نظریں اُوپر جمی ہیں ۵۴ اور دل اُڑے جاتے ہیں۔ اے محمد ؐ، اُس دن سے تم انہیں ڈراؤ جب کہ عذاب انہیں آلے گا۔ اُس وقت یہ ظالم کہیں گے کہ ’’اے ہمارے ربّ، ہمیں تھوڑی سے مہلت اَور دیدے، ہم تیری دعوت کو لبّیک کہیں گے اور رسُولوں کی پیروی کریں گے۔ ‘‘ (مگر اُنہیں صاف جواب دے دیا جائے گا)کہ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اِس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ہم پر تو کبھی زوال آنا ہی نہیں ہے ؟حالانکہ تم اُن قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنہوں نے اپنے اُوپر آپ ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے اُن سے کیا سلوک کیا اور اُن کی مثالیں دے دے کر ہم تمہیں سمجھا بھی چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں، مگر اُن کی ہر چال کا توڑ اللہ کے پاس تھا اگرچہ اُن کی چالیں ایسی غضب کی تھیں کہ پہاڑ اُن سے ٹل جائیں۔ ۵۵پس اے نبی ؐ، تم ہر گز یہ گمان نہ کرو کہ اللہ کبھی اپنے رسُولوں سے کیے ہوئے وعدے کے خلاف کرے گا۔ ۵۶ اللہ زبردست ہے اور انتقام لینے والا ہے۔ ڈراؤ انہیں اُس دن سے جب کہ زمین اور آسمان بدل کر کچھ سے کچھ کر دیے جائیں گے ۵۷ اور سب کے سب اللہ واحد قہّار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔ اُس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ زنجیروں میں ہاتھ پاؤں جکڑے ہوں گے تارکول ۵۸ کے لباس پہنے ہوئے ہوں گے اور آگ کے شعلے اُن کے چہروں پر چھائے جا رہے ہوں گے۔ یہ اِس لیے ہو گا کہ اللہ ہر متنفّس کو اُس کے کیے کا بدلہ دے گا۔ اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لیے، اور یہ بھیجا گیا ہے اِس لیے کہ ان کو اس کے ذریعہ سے خبردار کیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں خدا بس ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آ جائیں۔ ؏ ۷

 

۵۴-یعنی قیامت کا جو ہولناک نظارہ اُن کے سامنے ہو گا اُس کو اِس طرح ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے ہوں گے گویا کہ ان کے دیدے پتھرا گئے ہیں، نہ پلک جھپکے گی، نہ نظر ہٹے گی۔

۵۵-یعنی تم یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ تمہاری پیش رو قوموں نے قوانینِ الٰہی کی خلاف ورزی کے نتائج سے بچنے اور انبیاء کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کیسی کیسی زبردست چالیں چلیں، اور یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اللہ کی ایک ہی چال سے وہ کس طرح مات کھا گئے۔ مگر پھر بھی تم حق کے خلاف چالبازیاں کر نے سے باز نہ آئے اور یہی سمجھتے رہے کہ تمہاری چالیں ضرور کامیاب ہوں گی۔

۵۶-اس جملے میں کلام کا رُخ بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، مگر دراصل سنانا آپ کے مخالفین کو مقصود ہے۔ انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اللہ نے پہلے بھی اپنے رسولوں سے جو وعدے کیے تھے وہ پورے کیے اور اُن کے مخالفین کو نیچا دکھایا۔ اور اب جو وعدہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے کر رہا ہے اسے پورا کرے گا اور اُن لوگوں کو تہس نہس کر دے گا جو اُس کے مخالفت کر رہے ہیں۔

۵۷-اس آیت سے اور قرآن کے دوسرے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت میں زمین و آسمان بالکل نیست و نابود نہیں ہو جائیں گے بلکہ صرف موجودہ نظامِ طبیعی کو درہم برہم کر ڈالا جائے گا۔ اُس کے بعد نفخِ صورِ اول اور نفخِ صور آخر کے درمیان ایک خاص مدت میں، جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، زمین اور آسمانوں کی موجودہ ہیئت بدل دی جائے گی اور ایک دوسرا نظامِ طبیعت، دوسرے قوانینِ فطرت کے ساتھ بنا دیا جائے گا۔ وہی عالمِ آخرت ہو گا۔ پھر نفخِ صور آخر کے ساتھ ہی تمام وہ انسان جو تخلیقِ آدم سے لے کر قیامت تک پیدا ہوئے تھے، از سرِ نو زندہ کیے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے۔ اسی کا نام قرآن کی زبان میں حشر ہے جس کے لغوی معنی سمیٹنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں۔ قرآن کے اشارات اور حدیث کے تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ حشر اسی زمین پر برپا ہو گا، یہیں عدالت قائم ہو گی، یہیں میزان لگائی جائے گی اور قضیۂ زمین برسرِ زمین ہی چکایا جائے گا۔ نیز یہ بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہماری وہ دوسری زندگی جس میں یہ معاملات پیش آئیں گے محض روحانی نہیں ہو گی بلکہ ٹھیک اُسی طرح جسم و روح کے ساتھ ہم زندہ کیے جائیں گے جس طرح آج زندہ ہیں، اور ہر شخص ٹھیک اُسی شخصیت کے ساتھ وہاں موجود ہو گا جسے لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو ا تھا۔

۵۸-بعض مترجمین و مفسرین نے قَطیران کے معنی گندھک اور بعض نے پگھلے ہوئے تانبے کے بیان کیے ہیں، مگر درحقیقت عربی میں قَطیران کا لفظ زِفت، قیر، رال، اور تارکول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔