تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الطّلاَق

نام

اس سورہ کا نام ہی الطلاق نہیں ہے ، بلکہ یہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے ، کیونکہ اس طلاق ہی کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اسے سورۃ النسا ْ  القصری بھی کہا ہے ، یعنی جھوٹی سورہ نسا ْ۔

زمانۂ نزول

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صراحت فرمائی ہے ، اور سورہ کے مضمون کی اندرونی شہادت بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ اس کا نزول لازماً سورہ بقرہ کی ان آیات کے بعد ہوا ہے جن میں طلاق پہلی مرتبہ دیئے گئے تھے ۔ اگر چہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس کا زمانہ نزول کیا ہے لیکن بہر حال روایات سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ جب سورہ بقرہ کے احکام کو سمجھنے میں لوگ غلطیاں کرنے لگے ، اور عملاً بھی ان سے غلطیوں کا صدور ہونے لگا، تب اللہ تعالی نے ان کی اصلاح کے لیئے یہ ہدایت نازل فرمائیں۔ 

موضوع اور مضمون

اس سورہ کے احکام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ہدایات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے جو طلاق اور عدت کے متعلق اس سے پہلے قرآن مجید میں بیان ہو چکی ہیں:

اَطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ، فَاِمْسَکٌ  ؍بِمَعْرُوْ فٍ اَوْتَسْرِیْح؍ٌ بِاِحْسِانٍ (البقرہ۔ ۲۲۹) ’’طلاق دو بار ہے ، پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے  رخصت کر دیا جائے ‘‘

وَالْمُطَلَّقٰ تُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُ وْ ءٍ۔۔۔۔۔ وَبُعُوْلَتھُُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّ ھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْ ا اِصْلَا حاً (البقرہ۔ ۲۲۸ )۔ ’’ اور مطلقہ عورتیں (طلاق کے بعد ) تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے شوہر اس مدت میں ان کو (اپنی زوجیت میں ) واپس لے لینے کے حق دار ہیں اگر وہ اصلاح پر آمادہ ہوں‘‘۔

فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ مِنْ؍ بَعْدُ حَتٰی تَنْکِحَ زَوْ جاً  غَیْرَ ہٗ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (البقرہ۔ ۱۳۰)۔

’’پھر اگر وہ (تیسری بار) اس کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی یہاں تک کہ اس عورت کا نکاح کسی اور سے ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘۔

اِذٰا نَکَحْتُمُ الْمُؤٰ مِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْ ھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْ ھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ  مِنْ عِدَّ ۃٍ تَعْتَدُّ وْ نَھَا (الاحزاب۔ ۴۹)۔ ’’ جب تم مومن عورتوں سے نکا ح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو‘‘۔

وَالَّذِیْنَ یُتَوَ فَّوْ نَ مِنْکُمْ وَ یَذَ رُوْ نَ اَزْوَاجاً یَّتَبَّرَبَّصْنَ بِاَ نْفُسِھِنَّ اَرْ بَعَۃَ اَشْھُرِ وَّ عَشْراً (البقرہ۔۲۳۴)۔’’ اور تم میں سے جو لوگ مر جائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں  چار مہینے دس دن تک اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘۔

ان آیات میں جو قواعد مقرر کیے گئے تھے وہ یہ تھے :

۱)۔ ایک مرد زیادہ سے زیادہ اپنی بیوی کو تین طلاق دے سکتا ہے ۔

۲)۔ ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق رہتا ہے اور عدت گزر جانے کے بعد وہی مرد و عورت پھر نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اس کے لیے تحلیل کی کوئی شرط نہیں ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے دے تو عدت کے اندر رجوع کا حق ساقط ہو جاتا ہے ، اور دوبارہ نکاح بھی اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہو جائے اور وہ کبھی اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے دے ۔

۳)۔ مدخولہ عورت، جس کو حیض آتا ہو، اس کی عدت یہ ہے کہ اسے طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آ جائے ۔ ایک طلاق یا دو طلاق کی صورت میں اس عدت کے معنی یہ ہیں کہ عورت ابھی تک اس شخص کی زوجیت میں ہے اور وہ عدت کے اندر اس سے رجوع کر سکتا ہے ۔ لیکن اگر مرد تین طلاق دے چکا ہو تو یہ عدت رجوع کی گنجائش کے لیے نہیں  ہے بلکہ صرف اس لیے ہے کہ اس کے ختم ہونے سے پہلے عورت کسی اور شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔

۴)۔ غیر مدخولہ عورت، جسے ہاتھ  لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی جائے ، اس کے لیے کوئی عدت نہیں ہے ۔ وہ چاہے تو طلاق کے بعد فوراً نکاح کر سکتی ہے ۔

۵)۔ جس عورت کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار مہینے دس دن ہے ۔

اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ سورہ طلاق ان قواعد میں سے کسی قاعدے کو منسوخ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے ، بلکہ دو مقاصد کے لیے نازل ہوئی ہے ۔

ایک یہ کہ مرد کو طلاق کا جو اختیار دیا گیا ہے اس استعمال کرنے کے ایسے حکیمانہ طریقے بتائے جائیں جن سے حتی الامکان علیٰحدگی کی نوبت نہ آنے پائے ، اور علیٰحدگی ہو تو بدرجہ آخر ایسی حالت میں ہو جبکہ باہمی موافقت کے سارے امکانات ختم ہو چکے ہوں۔ کیونکہ خدا کی شریعت میں طلاق کی گنجائش صرف ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر رکھی گئی ہے ، ورنہ اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند فرماتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان جو ازدواجی تعلق قائم ہو چکا ہو وہ پھر کبھی ٹوٹ جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ مَا احَلَ اللہ شیئاً ابغضَ الیہ من الطلاق۔’’ اللہ نے کسی ایسی چیز کو حلال نہیں کیا ہے جو طلاق سے بڑھ کر اسے ناپسند ہو‘‘(ابو داؤد)۔ اور  ابغض الحلال الی اللہ عزّ و جَل الطلاق۔ ’’ تمام حلال چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ نا پسند طلاق ہے ‘‘۔ (ابو داؤد)۔

دوسرا مقصد یہ ہے کہ سورہ بقرہ کے احکام کے بعد جو مزید مسائل جواب طلب باقی رہ گئے تھے ان کا جواب دے کر اسلام کے عائلی قانون کے اس شعبہ کی تکمیل کر دی جائے ۔ اس سلسلے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جن مدخولہ عورتوں کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، طلاق کی صورت میں ان کی عدت کیا ہو گی۔ اور جو عورت حاملہ ہو اسے اگر طلاق دے دی جائے یا اس کا شوہر مر جائے تو اس کی عدت کی مدت کیا ہے ۔ اور مختلف قسم کی مطلقہ عورتوں کے نفقہ اور سکونت کا انتظام کس طرح کیا جائے ۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
       اے نبی ﷺ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت  کے لیئے طلاق دیا کرو (۱)۔ اور عدت کا زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو (۲)، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ۔ (زمانہ عدت میں ) نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ خود نکلیں، (۳) الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں (۴)۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا۔ تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی )کوئی صورت پیدا کر دے (۵) پھر جب وہ اپنی (عدت کی ) مدت کے خاتمہ پر پہنچیں تو یا انہیں بھلے طریقے سے (اپنے نکاح میں ) روک ر کھو، یا بھلے طریقے پر ان سے جدا ہو (۶) جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحب عدل(۷) ہوں۔ اور (اے گواہ بنے والو ) گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لیئے ادا کرو۔
یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ، ہر اس شخص کو جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو(۸)۔ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر(۹) دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو(۱۰)۔ جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیئے وہ کافی ہے ۔ اللہ اپنا کام پورا کرے کے رہتا ہے (۱۱)۔ اللہ نے ہر چیز کے لیئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی  ہے ۔
اور تمہاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں ان کے معاملہ میں اگر تم لوگوں کو کوئی شک لاحق ہے تو (تمھیں معلوم ہو کہ) ان کی عدت تین مہینے ہے (۱۲)۔ اور یہی حکم ان کا ہے ۔ جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو (۱۳)۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ ان کا وضع حمل ہو (۱۴) جائے ۔ جو شخص اللہ سے ڈرے اس کے معاملہ وہ سہولت پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اس نے تمہاری طرف نازل کیا ہے ۔ جو اللہ ڈرے گا اللہ اس کی برائیوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کو بڑا اجر دے (۱۵)گا۔
ان کو (زمانہ عدت میں ) اسی جگہ رکھو  جو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمھیں میسر ہو۔ اور انہیں تنگ کرنے کے لیئے ان کو نہ ستاؤ (۱۶)۔
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے (۱۷)۔ اور پھر اگر وہ تمہارے لیے (بچے کو ) دودھ پلائیں تو ان کی اجرت انہیں دو، بھلے طریقے سے (اجرت کا معاملہ ) باہمی گفت و شنید سے طے کر لو (۱۸)۔ لیکن اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی اور عورت دودھ پلالے (۱۹) گی۔ خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے ، اور جس کو رزق  کم دیا گیا ہو وہ اسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے ۔ اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اسے مکلف نہیں کرتا۔ بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ  دستی بھی عطا فرما دے ۔  ؏۱

 

۱۔ یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی  نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بلکہ جب تمہیں  بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں:

ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز  کرنے کے لیے طلاق دو، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس ے ان کی عدت شروع ہوتی ہو۔ یہ بات سورہ بقرہ آیت ۲۲۸ میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے ۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جائے ، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سسے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجائے چار حیض بن جائے ۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طُہر میں طلاق نہ  دی جائے جس میں شوہر اس سے مباشرت کر چکا ہو، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں،اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہو گی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہو گی۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے ۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جائے ۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طُہر میں دی جائے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو۔ غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بُعد پیدا ہو جاتا ہے ، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہ کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو جائے تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بے بس ہوتے ہیں، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجائے اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کر لیا جائے تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آ جائے اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے ۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جائے تو مر اور عورت، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے ۔ حمل کا علم ہو جانے کی صرت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے ، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بے سوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔

یہ تو ہے ’’ عدت کے لیے ‘‘ طلاق دینے پہلا مطلب، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو، بلکہ ایک، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تا کہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے ۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جائے تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے ، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہو سکتا ہے ، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کر لیں۔

طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے ، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کر چکا ہو، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہو جائے ۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے ۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جائے تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہو گی‘‘(ابن جریر)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ’’ عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ‘‘۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتِل بن حَیان، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے (ابن کثیر) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں ’’ طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کر چکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے یا نہیں ‘‘ (ابن کثیر)۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین، دونوں کہتے ہیں ’’ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جائے ، یا پھر اس حالت میں دی جائے جبکہ حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘ (ابن جریر)۔

اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے پنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمرؓ نے جا کر حضورؐ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ’’ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کر لے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو، پھر اسے حیض آئے  اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہو جائے ، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے ‘‘۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘

اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع  دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضورؐ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا’’  اَیُلْعَبُ بکتابِ اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہر کم؟‘‘ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘‘ اس حرکت پر حضورؐ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، و بقی تسع مأ ۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً، ان شاء اللہ عذَّبہ، وان شاء غفر لہٗ ’’ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہو گئی، اور ۹۹۷ ظلم اور عُدوان کے طور پر باقی رہ گئے جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل وار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضورؐ نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے  کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کر سکتا تھا؟ حضورؐ نے جواب دیا : لا، کانت تبین منک و کانت معصیۃً ’’ نہیں، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا ‘‘۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک۔’’ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی‘‘۔

صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضورؐ کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مُؤطّا میں ہے کہایک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’ پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ آپ نے فرمایا صد قوا، ھو مثل ما یقولون،’’ لوگوں نے سچ کہا،مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ‘‘۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو ۹۹ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان۔ ’’تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں، باقی سب زیادتیاں ہیں‘‘۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ حضرت عثمانؓ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بانت  منک بثلاث ‘‘۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علیؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث و ا قسم سائرھن علی نسائک۔’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر‘‘۔ ابو داؤد  اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباسؓ کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے ، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا’’ تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے ، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس، یا ابن عباس۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایک اور روایت جسے مؤطاء اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے ،اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے جواب  دیا ’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی ۹۷ سے تُو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی اور تُو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے  نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا ‘‘ امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً۔ ’’ تیرے چچا نے اللہ کی نا فرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔‘‘ ابو داؤد اور مؤطاء میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابو ہریرہؓ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل۔ ’’ تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ وے چھوڑ دیا‘‘۔ زمْخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے ۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام رائے ، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعیؒ سے نقل کیا ہے ، یہ تھی کہ ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض۔ ’’ صحابہ رجی اللہ عنہیم اسبات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں‘‘۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں: کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ۔ ’’ ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے ‘‘

ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہائے اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم صل میں نقل کرتے ہیں۔

۱)۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں: احسن،ح۔صَن اور بِدْعی۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو،صرف ایک صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے ۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے ۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ،۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے ، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے ، یا حیض کی حالت میں طلاق دے ، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہو۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گناہگار ہو گا۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے ۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو،یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جا سکتی ہے ، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے ۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جائے ، اور احسن یہ ہے  کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، عمدۃ القاری)۔

امام مالکؒ کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ سُنی، بدعی مکروہ، اور بدعی حرام۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جائے ۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جائے جس میں آدمی مباشرت کر چکا ہو، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں،یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں۔ اور بِد عی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ۔ (حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر۔ احکام القرآن لابن العربی)۔

امام احمد بن حنبلؒ کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جائے ، پھر اسے چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے ۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جائے ، یا ایسے طہر میں طلاق دی جائے جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، یا حاملہ ہو، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے ۔ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبلؒ)۔

امام شافعیؒ کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فر ق کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مد خو ل عورت جس کو حیض آتا ہو ‘ سے حیض کی حالت میں طلا ق دینا ‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے  ا یسے  طُہر میں طلا ق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور  عورت کا حاملہ ہونا ظا ہر نہ ہو‘ بدعت  اور حرام ہے ۔ رہی طلا قو ں کی تعداد، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں، نے یا  ایک ہی طْہر میں دی جائیں،یا الگ الگ طُہروں میں دی جائیں، بہر حال یہ سنّت کے خلاف  نہیں ہے ۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو،یا حیض آیا ہی  نہ ہو،یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو،اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ (مغنی المحتاج)۔

         (۲)کسی طلاق کے بدعت، مکروہ، حرام، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو۔ چاروں مذاہب میں طلاق، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے ، بہر حال واقع ہو جاتی ہے ، اگر چہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے ۔

سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی  حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہی رائے امامیہ کی ہے ۔ اور اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لیئے یہ غیر مؤثر ہے ۔ حالانکہ اپر جو احادیث ہم نقل کر آئے ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اور اکابر صحابہ ؓ نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگر چہ گناہ گار قرار دیا ہے ، مگر اس کی طالق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔

طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طالق واقع ہوتی ہے ، اور اسی رائے کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے ۔ ان کی اس رائے کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا " کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا "؟ انہوں نے جواب دیا ہاں (بخاری و مسلم ) اور مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ " رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد، اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ  نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیئے سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کر دیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا "

لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی ﷺ اور اکابر صحابہ ؓ سے منقول ہوئی ہیں، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کر دی ہیں۔ تیسرے ، خود ابن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا، لیکن نہ اس وقت، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر  ؓ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کر سکتے تھے ؟ اور سارے صحابہ ؓ اس سکوت بھی پر اختیار کر سکتے تھے ؟ مزید براں رکا نہ بن عبید یز ید کے قصے میں ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام شافعی ؒ دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکا نہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول ﷺ نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی؟ (یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے ان کی زبان سے نکلی تھیں، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لیئے جدا کر دینا مقصود نہ تھا ) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ  بیان دیا تو آپ  نے ان کو رجوع کا حق دے دیا۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی، اس لیئے تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیئے اس کی زبان سے نکلی تھیں۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ امام نودی اور امام سیکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پا یا جاتا ہے  جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں۔ مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا " ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ  کے عہد اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جا تا تھا " اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کر دیتا ہے ۔

 (۳) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول ﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا،اس لیئے فقہا ء کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے ۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا  جائے گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جائے گا (عمدۃ القاری)۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے ۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیئے مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے ، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے ، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کرنا مستحب ہے ۔ لیکن امام مالک ؒ  اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازیِ پولیس ہے ۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ، بہر حال حاکم  کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آئے تو وہ اسے رجوع پر مجبور کر ے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈلتا رہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے ۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے ۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ "میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کر دی " اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہو گا جس کے بعد مرد کے لیئے اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہو گا، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے (حاشیہ الدسوتی) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کر لیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیئے مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں  سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے ۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیئے دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف ز بانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے ، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے (حاشیہ الدسوتی)۔

(۴) رجوعی طلاق دینے والے کے لیئے رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے ؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر؟ امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے ۔یہ  رائے چاروں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود ؓ عبد اللہ بن عباس ؓ ابی بن کعب، معاز بن جبل، ابو الدردا، عبادہ بن صامت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہے ۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول ﷺ کے ۱۳ صحابیوں سے ملے ہیں، اور ان سب کی رائے یہی تھی۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے ۔

اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے ، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہو جاتا ہے ۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہو گا، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہو گی (مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہو گی جب تک عورت غسل نہ کرے ، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جائے ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ ؒ اور  امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہو گا، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہو جائے گا (ہدایہ ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کر لے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا (لانصاف )

(۵) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کر سکتا ہے ، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید (سورہ بقرہ، آیت ۲۲۸) میں فرما یا گیا ہے وَبُعُلَتھُُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں " اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں۔ با لفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیئے عورت کی رضا ضروری ہو۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہو سکتا ہے ، عمل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو، رجوع قرار نہیں دیا جا ئے گا، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے ۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیر دی جائے گی۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے (مغنی المحتاج)۔

مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل، دونوں سے ہو سکتا ہے ۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، رجوع ہو جائے گا، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی یت سے کہے گئے ہوں۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو، یا مباشرت، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جا سکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو (حاشیتہ الدسوتی۔ احکام القرآن لابن العربی )

حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے ۔ ربا رجوع بالفعل، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کر لے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے ، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ، فتح القدیر، عمدۃ القاری، الانصاف )

 (۶)طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جائے تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر ر جوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جا سکتا ہے ۔الّا یہ کہ اُس عورت  کا نکاح کسی اور شخص  سے ہو، وہ نکاح صحیح نوعیت کاہو،دوسرا شوہر اُس عورت سے مباشرت بھی کر چکا ہو،پہر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جائے ۔اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، اور اس دوسرے  شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی، پھر اس نے اسے طلاق دے دی، اب کیا اس عورت کا اپنے ساق شوہر سے دوبارہ نکاح  ہو سکتا ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا: لا، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول۔’’ نہیں، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو چکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا’’۔ رہ سازشی نکاح، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا، تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے ، اور امام ابو حنفیہؒ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہو جائے گی، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ،’’اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘(ترمذی، نسائی)۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا الا اخبر کم بالتیس المستعار؟ ’’ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کرائے کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ ’’ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا حوالمحلل، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔’’ وہ تحلیل کرنے والا ہے ۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جائے ‘‘(ابن ماجہ۔ دارقطنی)۔

۲۔ اس حکم کا خطاب مروں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے  خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جائے کہ کب طلاق دی گئی ہے ، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے ۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طلاق دی جائے تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جائے ، اور یہ بھی یاد رکھا جائے کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے ، اور حساب لگا کر دیکھا جائے کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے ، کب تک وہ باقی ہے ، اور کب وہ ختم ہو گئی۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کوکب تک رجوع کا حق ہے ۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے ، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے ، کب تک وہ عورت کا وارث ہو گا اور عورت اس کی وارث ہو گی، کب عورت اس سے جدا ہو جائے گی اور اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جائے گا۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جائے تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہو گی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ، حاملہ اور غیر حاملہ، بے حیض اور با حیض، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا  شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی۔

۳۔ یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے ، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے ۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے ، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس ے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کیس وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے ، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے ۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے ، یا عورت نا سمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی  ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف)۔

فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ  رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جائے ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے ۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا،اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جائے گی۔

۴۔ اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری، عامر شعبی، زید بن اسلم، ضحاک، مجاہد، عکرمہ، ابن زید، حما د اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد کاری ہے ۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے ، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آئے ، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے ۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے ، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آئے ۔ عبد اللہؓ بن عمر، سدی، ابن السائب، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جاتا ہے ، یعنی ان کی رائے میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ  میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجائے خود فاحشۃ مبینۃ(صریح برائی کا ارتکاب)ہے ، اور یہ ارشاد کہ ’’ وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں‘‘ کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ ’’ تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بد تمیز بنو‘‘ ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق ’’ الّا یہ‘‘ کا تعلق ’’ان کو گھروں سے نہ نکالو‘‘ کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہو گا۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق’’ اور نہ وہ خود نکلیں‘‘ کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی۔

۵۔ یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی، اور ان لوگوں کی رائے کو بھی غلط ثابت کر دیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود، یعنی سنت کے بتائے ہوئے طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے ، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پائے ، اور جو طلاق بہر حال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے ، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ۔

اس مقام پر ایک مرتبہ پھر سورہ بقرہ کی آیات ۲۲۸ تا ۲۳۰ اور سورہ طلاق کی زیر بحث آیات کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ۔ سورہ بقرہ میں طلاق کا نصاب تین کا نصاب تین بتایا گیا ہے ، جن میں سے دو کے بعد رجوع کا حق، اور عدت گزر جانے کے بعد بلا تحلیل دوبارہ نکاح کر لینے کا حق باقی رہتا ہے ، اور تیسری طلاق دے دینے سے یہ دونوں حق ساقط ہو جاتے ہیں۔ سور طلاق کی یہ آیات اس حکم میں کسی ترمیم و تنسیخ کے لیے نازل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہیں کہ بیویوں کو طلاق دینے کے جو اختیارات مردوں کو دیے گئے ہیں ان کو استعمال کرنے کی دانشمندانہ صورت کیا ہے جس کی پیروی اگر کی جائے تو گھر بگڑنے سے بچ سکتے ہیں، طلاق دے کر پچھتانے کی نوبت پیش نہیں آسکتی، موافقت پیدا ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع باقی رہتے ہیں، اور اگر بالآخر  علیٰحدگی ہو بھی جائے تو یہ آخری چارہ کار کھلا رہتا ہے کہ پھر مل جانا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کے ساتھ اپنے ان اختیارات کو غلط طریقے سے استعمال کر بیٹھے تو وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا اور تلافی کے تمام مواقع کھو بیٹھے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو تین سو روپے دے اور کہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں، ان کو تم اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مختار ہو۔ پھر وہ اسے نصیحت کرے کہ اپنے اس مال کو جو میں نے تمہیں دے دیا ہے ، اس طرح احتیاط کے ساتھ بر محل اور بتدریج استعمال کرنا تاکہ تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکو، ورنہ میری نصیحت کے خلاف تم بے احتیاطی کے ساتھ اسے بے موقع خرچ کرو گے یا ساری رقم بیک وقت خرچ کر بیٹھو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور پھر مزید کوئی رقم میں تمہیں برباد کرنے کے لیے نہیں دوں گا۔ یہ ساری نصیحت ایسی صورت میں بے معنی ہو جاتی ہے جب کہ باپ نے پوری رقم سرے سے اس کے ہاتھ میں  چھوڑی ہی نہ ہو، وہ بے موقع خرچ کرنا چاہے تو رقم اس کی جیب سے نکلے ہی نہیں، یا پورے تین سو خرچ کر ڈالنے پر بھی ایک سو ہی اس کے ہاتھ سے نکلیں اور دو سو بہر حال اس کی جیب میں پڑے رہیں۔ صورت معاملہ اگر یہی ہو تو اس نصیحت کی آخر حاجت کیا ہے ؟

۶۔ یعنی ایک یا دو طلاق دینے کی صورت میں  عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے فیصلہ کر لو کہ آیا عورت کو اپنی زوجیت میں رکھنا ہے یا نہیں۔ رکھنا ہو تو نباہنے کی غرض سے رکھو، اس غرض سے نہ رکھو کہ اس کو ستانے کے لیے رجوع کر لو  اور اپھر طلاق دے کر اس کی عدت لمبی کرتے رہو۔ اور اگر رخصت کرنا ہو تو شریف آدمیوں کی طرح کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر رخصت کرو، مہر یا اس کا کوئی حصہ باقی ہو تو ادا کر دو، اور حسب توفیق کچھ نہ کچھ متعہ طلاق کے طور پر دو، جیسا کہ سورہ بقرہ آیت ۲۴۱ میں ارشاد ہوا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۸۶)۔

۷۔ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ اس سے مراد طلاق پربھی گواہ بنانا ہے اور رجوع پر بھی (ابن جریر)۔ حضرت عمران بن حصین سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور پھر اس سے رجوع کر لیا، مگر نہ طلاق پر کسی کو گواہ بنایا نہ رجوع پر۔ انہوں نے جواب دیا’’ تم نے طلاق بھی سنت کے خلاف دی اور رجوع بھی سنت کے خلاف کیا۔ طلاق اور رجعت اور فرقت پر گواہ بنانا، ان افعال کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے کہ اگر گواہ نہ بنایا جائے تو نہ طلاق واقع ہو، نہ رجوع صحیح ہو اور نہ فرقت، بلکہ یہ حکم اس احتیاط کے لیے دیا گیا ہے کہ فریقین میں سے کوئی بعد میں کسی واقعہ کا انکار نہ کر سکے ، اور نزاع پیدا ہونے کی صورت میں بآسانی فیصلہ ہو سکے ، اور شکوک و شبہات کا دروازہ بھی بند ہو جائے ۔ یہ حکم بالکل ایسا ہی ہے جیسے فرمایا: وَاَشْھِدُوْآاِذَا تَبَا یَعْتُمْ، ’’ جب تم آپس میں بیع کا کوئی معاملہ طے کرو تو گواہ بنا لو‘‘(بقرہ۔ ۲۸۲)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیع پر گواہ بنانا فرض ہے اور اگر گواہ نہ بنایا جائے تو بیع صحیح نہ ہو گی، بلکہ یہ ایک حکیمانہ ہدایت ہے جو نزاعات کا سد باب کرنے کے لیے دی گئی ہے اور اس پر عمل کرنے ہی میں بہتری ہے ۔ اسی طرح طلاق اور رجوع کے معاملہ میں بھی صحیح بات یہی ہے کہ ان میں سے ہر فعل گواہیوں کے بغیر بھی قانوناً درست ہو جاتا ہے ، لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی کیا جائے ، اسی وقت یا اس کے بعد دو صاحب عدل آدمیوں کو اس پر گواہ بنا لیا جائے ۔

۸۔ یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ اوپر جو ہدایات دی گئی ہیں وہ نصیحت کی حیثیت رکھتی ہیں نہ کہ قانون کی۔ آدمی سنت کے خلاف طلاق دے بیٹھے ، عدت کا شمار محفوظ نہ رکھے ، بیوی کو بلا عذر معقول گھر سے نکال دے ، عدت کے خاتمے پر رجوع کرے تو عورت کو ستانے کے لیے کرے اور رخصت کرے تو لڑائی جھگڑے کے ساتھ کرے ، اور طلاق، رجوع، مفارقت، کسی چیز پر بھی گواہ نہ بنائے ، تو اس سے طلاق اور رجوع اور مفارقت کے قانونی نتائج میں کوئی فرق واقع نہ ہ گا۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی نصیحت کے خلاف عمل کرنا اس بات کی دلیل ہو گا کہ اس کے دل میں اللہ اور روز آخر پر صحیح ایمان موجود نہیں ہے جس کی بنا پر اس نے وہ طرز عمل اختیار کیا جو ایک سچے مومن کو اختیار نہ کرنا چاہیے ۔

۹۔ سیاق کلام  خود بتا رہا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے کام کرنے کا مطلب سنت کے مطابق طلاق دینا، عدت کا ٹھیک ٹھیک حساب رکھنا، بیوی کو گھر سے نہ نکالنا، عدت کے اختتام پر عورت کو روکنا ہو تو نباہ کرنے کی نیت سے رجوع کرنا اور علیحدگی ہی کرنی ہو تو بھلے آدمیوں کی طرح اس کو رخصت کر دینا، اور طلاق، رجوع یا مفارقت، جو بھی ہو، اس پر وہ عادل آدمیوں کو گواہ بنا لینا ہے ۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو اس طرح تقویٰ سے کام لے گا اس کے لیے ہم کوئی مخرج(یعنی مشکلات سے نکلنے کا راستہ) نکال دیں گے ۔ اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو شخص ان امور میں تقویٰ سے کام نہ لے گا وہ اپنے لیے خود ایسی الجھنیں اور مشکلات پیدا کر لے گا جن سے نکلنے کا کوئی راستہ اسے نہ مل سکے گا۔

ان الفاظ پر غور کیا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک طلاق بدعی سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی اور جو لوگ بیک وقت یا ایک ہی طہر میں دی ہوئیں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے ہیں، ان کی رائے صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ اگر طلاق بدعی واقع ہی نہ ہو تو سرے سے کوئی الجھن پیش نہیں آتی جس سے نکلنے کے لیے کسی مخرج کی ضرورت ہو۔ اور اگر تین طلاق اکٹھی دے بیٹھنے سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہو، تب بھی مخرج کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس صورت میں آخر وہ پیچیدگی کیا ہے جس سے نکلنے کے لیے کسی راستے کی حاجت پیش آئے ؟

۱۰۔ مراد یہ ہے کہ عدت کے دوران میں مطلقہ بیوی کو گھر میں رکھنا، اس کا خرچ برداشت کرنا، اور رخصت کرتے ہوئے اس کو مہر یا متعہ طلاق دے کر رخصت کرنا بلا شبہ آدمی پر مالی بار ڈالتا ہے ۔ جس عورت سے آدمی دل برداشتہ ہو کر تعلقات منقطع کر لینے پر آمادہ ہو چکا ہو، اس پر مال خرچ کرنا تو اسے ضرور ناگوار ہو گا۔ اور اگر آدمی تنگ دست بھی ہو تو یہ خرچ اسے اور زیادہ کھلے گا۔ لیکن اللہ سے ڈرنے والے آدمی کو یہ سب کچھ برداشت کرنا چاہیے ۔ تمہارا دل تنگ ہو تو ہو، اللہ کا ہاتھ رزق دینے کے لیے تنگ نہیں ہے ۔ اس کی ہدایت پر چل کر مال خرچ کرو گے تو وہ ایسے راستوں سے تمہیں رزق دے گا جدھر سے رزق ملنے کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے ۔

۱۱۔ یعنی کوئی طاقت اللہ کے حکم کو نافذ ہونے سے روکنے والی نہیں ہے ۔

۱۲۔ یہ ان عورتوں کا حکم ہے جن کو حیض آنا قطعی بند ہو چکا ہو اور کبرسنی کی وجہ سے وہ سن ایاس میں داخل ہو چکی ہوں۔ ان کی عدت اس روز سے شمار ہو گی جس روز انہیں طلاق دی گئی ہو۔ اور تین مہینوں سے مراد تین قمری مہینے ہیںَ اگر قمری مہینے کے آغاز میں طلاق دی گئی ہو تو بالاتفاق رویت ہلال کے لحاظ سے عدت شمار ہو گی، اور اگر مہینے کے بیچ میں کسی وقت طلاق دی گئی ہو تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ۳۰ دن کا مہینہ قرار دے کر ۳ مہینے پورے کرنے ہوں گے (بدائع الصنائع)۔

رہیں وہ عورتیں جن کے حیض میں کسی نوع کی بے قاعدگی ہو، ان کے بارے میں فقہاء کے درمیان اختلافات ہیں۔

حضرت سعید بن السیب کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کو طلاق دی گئی ہو، پھر ایک دو مرتبہ حیض آنے کے بعد اس کا حیض بند ہو گیا ہو، وہ ۹ مہینے انتظار کرے ۔ اگر حمل ظاہر ہو جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ ۹ مہینے گزرنے کے بعد وہ مزید تین مہینے عدت گزارے ، پھر وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کے لیے حلال ہو گی۔

ابن عباس، قتادہ اور عکرمہ کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال بھر حیض نہ آیا ہو اسکی عدت تین مہینے ہے ۔

طاؤس کہتے ہیں کہ جس عورت کو سال میں ایک مرتبہ حیض آئے اس کی عدت تین حیض ہے ۔ یہی رائے حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، اور حضرت زیدؓ بن ثابت سے مروی ہے ۔

امام مالک کی روایت ہے کہ ایک صاحب حبان نامی تھے جنہوں نے اپنی بیوی کو ایسے زمانے میں طلاق دی جبکہ وہ بچے کو دودھ پلا رہی تھیں اور اس پر ایک سال گزر گیا مگر انہیں حیض نہ آیا۔ پھر وہ صاحب انتقال کر گئے ۔ مطلقہ بیوی نے وراثت کا دعویٰ کر دیا۔ حضرت عثمانؓ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا۔ انہوں نے حضرت علیؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت سے مشورہ طلب کیا۔ دونوں بزرگوں کے مشورے سے حضرت عثمانؓ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت وارث ہے ۔ دلیل یہ تھی کہ نہ وہ ان عورتوں میں سے ہے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں اور نہ ان لڑکیوں میں سے ہے جن کو ابھی حیض نہیں آیا، لہٰذا وہ شوہر کے مرنے تک اپنے اس حیض پر تھی جو اسے پہلے آیا تھا اور اس کی عدت باقی تھی۔

حنفیہ کہتے ہیں کہ جس عورت کا حیض بند ہو گیا ہو، مگر اس کا بند ہونا سن ایام کی وجہ سے نہ ہو کہ آئندہ اس کے جاری ہونے کی امید نہ رہے ،اس کی عدت یا تو حیض ہی سے ہو گی اگر وہ آئندہ جاری ہو، یا پھر اس عمر کے لحاظ سے ہو گی جس میں عورتوں کو حیض آنا بند ہو جاتا ہے اور اس عمر کو پہنچنے کے بعد وہ تین مہینے عدت گزار کر نکاح سے آزاد ہو گی۔ یہی قول امام شافعیؓ، امام ثوری اور امام لیث کا ہے ۔ اور یہی مذہب حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت کا ہے ۔

امام مالک نے حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن عباس کے قول کو اختیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ عورت پہلے ۹ مہینے گزارے گی۔ اگر اس دوران میں حیض جاری نہ ہو تو پھر وہ تین مہینے اس عورت کی سی عدت گزارے گی جو حیض سے مایوس ہو چکی ہو۔ ابن القاسم نے امام مالک کے مسلک کی توضیح یہ کی ہے کہ ۹ مہینے اس روز سے شمار ہوں گے جب آخری مرتبہ اس کا حیض ختم ہوا تھا نہ کہ اس روز سے جب اسے طلاق دی گئی۔ (یہ تمام تفصیلات احکام القرآن للجصاص  اور بدائع الصنائع للکاسانی سے ماخوذ ہیں)۔

امام احمد بن حنبل کا مذہب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جس کی عدت حیض کے اعتبار سے شروع ہوئی تھی، عدت کے دوران میں آئسہ ہو جائے تو اسے حیض والی عورتوں کے بجائے آئسہ عورتوں والی عدت گزارنی ہو گی۔ اور اگر اس کو حیض آنا بند ہو جائے اور معلوم نہ ہو سکے کہ وہ کیوں بند ہو گیا ہے تو پہلے وہ حمل کے شبہ میں ۹ مہینے گزارے گی اور پھر اسے تین مہینے عدت کے پورے کرنے ہوں گے ۔ اور اگر یہ معلوم ہو کہ حیض کیوں بند ہوا ہے ، مثلاً کوئی بیماری ہو یا دودھ پلا رہی ہو یا ایسا ہی کوئی اور سبب ہو تو وہ اس وقت تک عدت میں رہے گی جب تک یا تو حیض آنا شروع نہ ہو جائے اور عدت حیضوں کے لحاظ سے شمار ہو سکے ، یا پھر وہ آئسہ ہو جائے اور آئسہ عورتوں کی سی عدت گزار سکے (الانصاف)۔

۱۳۔ حیض خواہ کم سنی کی وجہ سے نہ آیا ہو، یا اس وجہ سے کہ بعض عورتوں کو بہت دیر میں حیض آنا شروع ہوتا ہے ، اور شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی عورت کو عمر بھر نہیں آتا، بہر حال تمام صورتوں میں ایسی عورت کی عدت وہی ہے جو آئسہ عورت کی عدت ہے ، یعنی طلاق کے وقت سے تین مہینے ۔

اس جگہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ قرآن کی تصریح کے مطابق عدت کا سوال اس عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کر چکا ہو، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں(الاحزاب، ۴۹)۔  اس لیے ایسی لڑکیوں کی عدت بیان کرنا جنہیں حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، صریحاً اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کر دینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے ۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ جس چیز کو قرآن نے جائز قرار دیا ہو اسے ممنوع قرار دینے کا کسی مسلمان کو حق نہیں پہنچتا۔

جس لڑکی کو ایسی حالات میں طلاق دی گئی ہو کہ اسے ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، اور پھر عدت کے دوران میں اس کو حیض آ جائے ، تو وہ پھر اسی حیض سے عدت شروع کرے گی اور اس کی عدت حائضہ عورتوں جیسی ہو گی۔

۱۴۔ اس امر پر تمام اہل علم کا اجماع ہے کہ مطلقہ حاملہ کی عدت وضع حمل تک ہے ۔ لیکن اس امر میں اختلاف واقع ہو گیا ہے کہ آیا یہی حکم اس عورت کا بھی ہے جس کا شوہر زمانہ حمل میں وفات پا گیا ہو؟ یہ اختلاف اس وجہ سے ہوا ہے کہ سورہ بقرہ آیت  ۲۳۴ میں اس عورت کی عدت ۴ مہینے دس دن بیان کی گئی ہے جس کا شوہر وفات پا جائے ، اور وہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ حکم آیا تمام بیوہ عورتوں کے لیے عام ہے یا ان عورتوں کے لیے خاص ہے جو حاملہ نہ ہوں۔

حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ان دونوں آیتوں کو ملا کر یہ استنباط کرتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ کی  حد تو وضع حمل تک ہی ہے ، مگر بیوہ حاملہ کی عدت آخر الَاَجلَین ہے ، یعنی مطلقہ کی عدت اور حاملہ کی عدت میں سے جو زیادہ طویل ہو وہی اس کی عدت ہے ۔ مثلاً اگر اس کا بچہ ۴ مہینے دس دن سے پہلے پیدا ہو جائے تو اسے چار مہینے دس سن پورے ہونے تک عدت گزارنی ہو گی۔اور اگر اس کا وضع حمل اس وقت تک نہ ہو تو پھر اس کی عدت اس وقت پوری ہو گی جب وضع حمل ہو جائے ۔ یہی مذہب امامیہ کا ہے ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ سورہ طلاق کی یہ آیت سورہ بقرہ کی آیت کے بعد نازل ہوئی ہے ، اس لیے بعد کے حکم نے پہلی آیت کے حکم کو غیر حاملہ بیوہ کے لیے خاص کر دیا ہے اور ہر حاملہ کی عدت وضع حمل تک  مقرر کر دی ہے ، خواہ وہ مطلقہ ہو یا بیوہ۔ اس مسلک کی رو سے عورت کا وضع حمل چاہے شوہر کی وفات کے فوراً بعد ہو جائے یا ۴ مہینے دس دن سے زیادہ طول کھینچے ، بہر حال بچہ پیدا ہوتے ہیں وہ عدت سے باہر ہو جائے گی۔ اس مسلک کی تائید حضرت ابی بن کعب کی یہ روایت کرتی ہے وہ فرماتے ہیں، جب سورہ طلاق کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کیا یہ مطلقہ اور بیوہ دونوں کے لیے ہے ؟ حضورؐ نے جواب دیا ہاں۔ دوسری روایت میں حضورؐ نے مزید تصریح فرمائی : اجل کل حامل ان تضع مافی بطنہا، ’’ ہر حاملہ عورت کی عدت کی مدت اس کے  وضع حمل تک ہے ‘‘ (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم۔ابن حجر کہتے ہیں کہ اگر چہ اس کی سند میں کلام کی گنجائش ہے ، لیکن چونکہ یہ متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے اس لیے ماننا پڑتا ہے کہ اس کی کوئی اصل ضرور ہے )۔ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر اس کی مضبوط تائید سبیعہ اسلمیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں پیش آیا تھا۔ وہ بحالت حمل بیوہ ہوئی تھیں اور شوہر کی وفات کے چند روز بعد (بعض روایات میں ۲۰ دن، بعض میں ۲۳ دن، بعض میں ۲۵ دن، بعض میں ۴۰ دن اور بعض میں ۳۵ دن بیان ہوئے ہیں) ان کا وضع حمل ہو گیا تھا۔ حضورؐ سے ان کے معاملہ میں فتویٰ پوچھا گیا تو آپ نے ان کو نکاح  کی اجازت دے دی۔ اس واقعہ کو بخاری و مسلم نے کئی طریقوں سے حضرت ام  سلمہ سے روایت کیا ہے ۔ اسی واقعہ کو بخاری، مسلم، امام احمد، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ نے مختلف سندوں کے ساتھ حضرت مسور بن مخرمہ سے بھی روایت کیا ہے ۔ مسلم نے خود سبیعہ اسلمیہ کا یہ بیان نقل کیا ہے  کہ میں حضرت سعد بن خولہ کی بیوی تھی۔ حجۃ الوداع کے زمانے میں میرے شوہر کا انتقال ہو گیا جبکہ میں حاملہ تھی۔ وفات کے چند روز بعد میرے ہاں بچہ پیدا ہو گیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ تم چار مہینے دس دن سے پہلے نکاح نہیں کر سکتیں۔ میں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ نے فتویٰ دیا کہ تم وضع حمل ہوتے ہی حلال ہو چکی ہو، اب چاہے تو دوسرا نکاح کر سکتی ہو۔ اس روایت کو بخاری نے بھی مختصراً نقل کیا ہے ۔

صحابہ کی کثیر تعداد سے یہی مسلک منقول ہے ۔ امام مالک، امام شافعی، عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبد الہ بن عمر سے حاملہ بیوہ کا مسئلہ پوچھا گیا تو انہوں نے کہا اس کی عدت وضع حمل گی ہے ۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب بولے کہ حضرت عمر نے تو یہاں تک کہا تھا کہ اگر شوہر ابھی دفن بھی نہ ہوا ہو ا بلکہ اس کی لاش اس کے بستر پر ہی ہو اور اس کی بیوی کے ہاں بچہ ہو جائے تو وہ دوسرے نکاح کے لیے حلال ہو جائے گی۔ یہی رائے حضرت ابو ہریرہؓ، حضرت ابو مسعودؓ بدری اور حضرت عائشہؓ کی ہے ، اور اسی کا ائمہ اربعہ اور دوسرے اکابر فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔

شافعیہ کہتے ہیں کہ اگر حاملہ کے پیٹ میں ایک سے زیادہ بچے ہوں تو آخری بچے کی ولادت پر عدت ختم ہو گی۔بچہ خواہ مردہ ہی پیدا ہو، اس کی ولادت سے عدت ختم ہو جائے گی۔ اسقاط حمل کی صورت میں اگر دائیاں اپنے فن کی رو سے یہ کہیں کہ یہ محض خون کا لوتھڑا نہ تھا بلکہ اس میں آدمی کی صورت پائی جاتی تھی، یا یہ رسولی نہ تھی بلکہ آدمی کی اصل تھی تو ان کا قول قبول کیا جائے گا اور عدت ختم ہو جائے گی(مغنی المحتاج)۔حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک بھی اس کے قریب قریب ہے ، مگر اسقاط کے معاملہ میں ان کا مذہب یہ ہے کہ جب تک انسانی بناوٹ ظاہر نہ پائی جائے ، محض دائیوں کے اس بیان پر کہ یہ آدمی ہی کی اصل ہے ، اعتماد نہیں کیا جائے گا اور اس سے عدت ختم نہ ہو گی(بدائع الصنائع۔ الانصاف )۔ لیکن موجودہ زمانے میں طبی تحقیقات کے ذریعہ سے یہ معلوم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ جو چیز ساقط ہوئی ہے وہ واقعی انسانی حمل کی نوعیت رکھتے تھی یا کسی رسولی یا جمے ہوئے خون کی قسم سے تھی، اس لیے اب جہاں ڈاکٹروں سے رائے حاصل کرنا ممکن ہو وہاں یہ فیصلہ بآسانی کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز کو اسقاط حمل کہا جاتا ہے وہ واقعی اسقاط تھا یا نہیں اور اس سے عدت ختم ہوئی یا نہیں۔ البتہ جہاں ایسی طبی تحقیق ممکن نہ ہو وہاں حنابلہ اور حنفیہ کا مسلک ہی زیادہ مبنی بر احتیاط ہے اور جاہل دائیوں پر اعتماد کرنا مناسب نہیں ہے ۔

۱۵۔ یہ اگر چہ ایک عمومی نصیحت ہے جس کا اطلاق انسانی زندگی کے تمام حالات پر ہوتا ہے ، لیکن اس خاص سیاق و سباق میں اسے ارشاد فرمانے کا مقصد مسلمانوں کو خبردار کرنا ہے کہ اوپر جو احکام بیان کیے گئے ہیں، ان سے خواہ تمہارے اوپر کتنی ہی ذمہ داریوں کا بوجھ پڑتا ہو، بہر حال خدا سے ڈرتے ہوئے ان کی پیروی کرو، اللہ تمہارے کام آسان کرے گا، تمہارے گناہ معاف کے گا اور تمہیں بڑا اجر دے گا۔ ظاہر ہے کہ جن مطلقہ عورتوں کی عدت تین مہینے مقرر کی گئی ہے ان کا زمانہ عدت ان عورتوں کی بہ نسبت طویل تر ہو گا جن کی عدت تین حیض مقرر کی گئی ہے ۔ اور حاملہ عورت کا زمانہ عدت تو اس سے بھی کئی مہینے زیادہ ہو سکتا ہے ۔ اس پورے زمانے میں عورت کی سکونت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری اٹھانا، جبکہ آدمی اسے چھوڑ دینے کا ارادہ کر چکا ہو، لوگوں کو ناقابل برداشت بار محسوس ہو گا۔ لیکن جو بار اللہ سے ڈرتے ہوئے ، اللہ کے احکام کی پیروی میں اٹھایا جائے ، اللہ کا وعدہ ہے کہ اپنے فضل سے وہ اس کو ہلکا کر دے گا اور اس کی اتنی بھاری جزا دے گا جو دنیا میں اٹھائے ہوئے اس تھوڑے سے بار کی بہ نسبت بہت زیادہ گراں قدر ہو گی۔

 ۱۶۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ مطلّقہ کو اگر  رجعی طلاق دی گئی ہو تو شوہر پراس کی سکو نت اور اس کے نفقہ کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے ۔اور اس امر پر بہی اتفاق ہے کہ اگر عورت حاملہ ہو،تو خو ا ہ اسے رجعی طلاق دی گئی ہویا قطعی طور پرا لگ کر دینے والی بہر حال اس کے وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کی نفقہ کا ذمہ دار شو ہر ہو گا۔اس کے بعد اختلاف اس امر میں ہو ا ہے کہ آیا غیر حاملہ مطلّقۂ  مَبتُوتہ(یعنی جسے  قطعی طور پرا لگ کر دینے والی طلاق دی گئی ہو ) سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ؟یا صرف سکونت کا حق ر کہتی ہے ؟یا دو نو ں  میں سے کسی کی بہی حق دار نہیں ہے ؟

ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ سکونت اور نفقہ دونوں کی حق دار ہے ۔یہ رائے حضرت عمر،حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت علی بن حسین(امام زین العابد ین)،قاضی شُر یح اور ابراہیم  نخعی کی ہے ۔اسی کو حنفیہ نے اختیار کیا ہے ،اور امام سُفیان ثوری اور حسن بن صالح کا بھی یہی مذہب ہے ۔ اس کی تائید و ارقطنی کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضرت جاب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : المطلقۃ ثلاثا لھا السکنٰی واجفقۃ، ’’ جس عورت کو تین طلاقیں دی جاچکی ہوں اس کے لیے زمانہ عدت میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے ’’۔

اس کی مزید تائید ان روایات سے ہوتی ہے جن میں بتایا  گیا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو حضرت عمر نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ ایک عورت کے قول پر اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ترک نہیں کر سکتے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر کے علم میں لازماً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ سنت ہو گی کہ ایسی عورت کے لیے نفقہ اور سکونت کا حق ہے ۔بلیہ ابراہیم نخعی کی ایک روایت میں تو یہ تصریح ہے کہ حضرت عمر نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کو رد کرتے ہوئے فرمایا تھا سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بقول  لھا السکنٰی و انفقۃ، ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ ایسی عورت کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی‘‘ امام ابو بکر جصاص احکام القرآن میں  اس مسئلے پر مفصل بحث کرتے ہوئے اس مسلک کے حق میں پہلی دلیل یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً فرمایا ہے فَطَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ، ’’ ان کو ان کی عدت کے لیے طلاق دو‘‘ اس فرمان الہٰی کا اطلاق اس شخص پر بھی تو ہوتا ہے جو دو طلاق پہلے دے کر رجوع کر چکا ہو اور اب اسے صرف ایک ہی طلاق دینے کا حق باقی ہو۔ دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طلاق دینے کا جب یہ طریقہ بتایا کہ ’’ آدمی یا تو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو یا ایسی حالت میں طلاق دے جبکہ عورت کا حاملہ ہونا ظاہر ہو چکا ہو‘‘ تو اس میں آپ نے پہلی، دوسری، یا آخری طلاق کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’ ان کو اسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو‘‘ ہر قسم کی طلاق سے متعلق مانا جائے گا۔ تیسیر دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ حاملہ مطلقہ خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اس کی سکونت اور اس کا نفقہ شوہر پر واجب ہے ۔ اور غیر  حاملہ رجعیہ کے لیے بھی یہ دونوں حقوق واجب ہیں۔ اس سے معلوم ہو ا کہ کونت اور نفقہ کا وجوب در اصل حمل کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ دونوں قسم کی عورتیں شرعاً شوہر کے گھر میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اب اگر یہی حکم مبتوتہ غیر حاملہ کے بارے میں بھی ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی سکونت اور اس کا نفقہ مرد کے ذمہ نہ ہو۔

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے سکونت کا حق تو ہے مگر نفقہ کا حق نہیں ہے ۔ یہ مسلک سعید بن المسیب، سلیمان بن یسار، عطاء، شعبی، اوزاعی، لیث اور ابو عبید رحمہم اللہ کا ہے ،اور امام شافعی اور امام مالک نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ لیکن مغنی المحتاج میں امام شافعی کا مسلک اس سے مختلف بیان ہوا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے ۔

تیسرا گروہ کہاتا ہے کہ مطلقہ مبتوتہ کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ یہ مسلک حسن بصری، حماد، ابن ابی لیلیٰ، عمرو بن دینار، طاؤس، اسحاق بن راہویہ، اور ابو ثور کا ہے ۔ابن جریر نے حضرت ابن عباس کا بھی یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل اور امامیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔اور مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ تجب سکنٰی لمعتدۃِ طلاقٍ او حاملٍ ولا بائن............ ولحائل البائن لا نفقۃ لھا ولا کسوۃ۔’’ طلاق کی بنا پر جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کے لیے سکونت کا حق واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا نہ ہو، مگر بائنہ کے لیے واجب نہیں ہے ............ اور غیر حاملہ بائنہ کے لیے نہ نفقہ ہے اور نہ کپڑا‘‘۔ اس مسلک کا استدلال ایک تو قرآن مجید کی اس آیت سے ہے کہ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللہُ یُحْدِ ثُ بَعْدَ ذٰ لِکَ اَمْراً، تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے ‘‘۔اس سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ بات مطلقہ رجعیہ کے حق ہی میں درست ہو سکتی ہے نہ کہ مبتوتہ کے حق میں۔ اس لیے مطلقہ کو گھر میں رکھنے کا حکم بھی رجعیہ ہی کے لیے خاص ہے ۔ دوسرا استدلالفاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے جسے کتب حدیث میں بکثرت صحیح سندوں کے ساتھ روایت کیا گیا ہے ۔

یہ فاطمہؓ بن قیس الفہریہ اولین مہاجرات میں سے تھیں، بڑی عاقلہ سمجھی جاتی تھیں، اور حضرت عمرؓ کی شہادت کے موقع پر اصحاب شوریٰ کا اجتماع انہی کے ہاں ہوا تھا۔ یہ پہلے ابو عمرو بن حفص ؓ المحیرۃ المخزُومی کے نکاح میں تھیں، پھر ان کے شوہر نے ان کو تین طلاقیں دے کر الگ کر دیا، اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح حضرت اسامہ بن زید سے کیا۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ ان کو شوہر ابو عمرو پہلے ان کو دو طلاق دے چکے تھے ۔ پھر جب حضرت علی کے ساتھ وہ یمن بھیجے گئے تو انہوں نے وہاں سے باقی ماندہ تیسری طلاق بھی ان کو بھیج دی۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ابو عمرو ہی نے اپنے رشتہ داروں کو پیغام بھیجا تھا کہ عدت کے زمانے میں ان کو گھر میں رکھیں اور ان کا خرچ برداشت کریں۔ اور بعض میں یہ ہے کہ انہوں نے خود نفقہ و سکونت کے حق کا مطالبہ کیا تھا۔ بہر حال جو صورت بھی ہو، شوہر کے رشتہ داروں نے ان کا حق ماننے سے انکار کر دیا۔ اس پر یہ دعویٰ لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچیں، اور حضورؐ نے فیصلہ فرمایا کہ نہ تمہارے لیے نفقہ ہے نہ سکونت۔ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے فرمایا: الما النفقہ و السکنٰی للمرأۃ علیٰ زوجھا ما کانت لہۂ علیھا رجعۃ، فاذالم یکن لہ علیہحا رجعۃ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ عورت کا نفقہ اور اس کی سکونت تو شوہر پر اس صورت میں واجب ہے جب کہ شوہر کو اس پر رجوع کا حق ہو۔ مگر جب رجوع کا حق نہ ہو تو نہ نفقہ ہے نہ سکونت‘‘(مسند احمد)۔ طبرانی اور نسائی نے بھی قریب قریب یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے آخری الفاظ یہ ہیں فاذا کانت لا تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ فلا نفقۃ ولا سکنٰی۔’’ لیکن جب وہ اس کے لیے اس وقت تک حلال نہ ہو جب تک اس کے سوا کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے تو پھر اس کے لیے نہ نفقہ ہے نہ سکونت’’۔ یہ حکم بیان کرنے کے بعد حضورؐ نے ان کو پہلے ام شریک کے  گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا اور بعد میں فرمایا کہ تم ابن ام مکتوم کے ہاں رہو۔

لیکن اس حدیث کو جن لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ان کے دلائل یہ ہیں:

اولاً، ان کو شوہر کے رشتہ داروں کا گھر چھوڑنے کا حکم اس لیے دیا گیا تھا کہ وہ بہت تیز زبان تھیں اور شوہر کے رشتہ دار ان کی بد مزاجی سے  تنگ تھے ۔ سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ ’’ ان خاتون نے اپنی حدیث بیان کر کے لوگوں کو فتنے میں ڈال دیا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ زبان دراز تھیں، اس لیے ان کو ابن ام مکتوم کے ہاں رکھا گیا‘‘(ابو داؤد)۔ دوسری روایت میں سعید بن المسیب کا یہ قول منقول ہوا ہے کہ انہوں نے اپنے شوہر کے رشتہ داروں سے زبان درازی کی تھی اس لیے انہیں اس گھر سے منتقل ہونے کا حکم دیا گیا تھا (جصاص)۔ سلیمان بن یسار کہتے ہیں ’’ ان کا گھر سے نکلنا در اصل بد مزاجی کی وجہ سے تھا’’ (ابو داؤد)۔

ثانیاً، ان کی روایت کو حضرت عمر نے اس زمانے میں رد کر دیا تھا جب بکثرت صحابہ موجود تھے اور اس معاملہ کی پوری تحقیقات ہو سکتی تھی۔ ابراہیم نَخعی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر کو فاطمہؓ کی یہ حدیث پہنچی تو انہوں نے فرمایا لسنا بتاوکی اٰیۃ فی کتاب اللہ و قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لقسل امأۃ لعلھا اوھمت سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول لھا السکنٰی و لنفقۃ۔ ’’ ہم کتاب اللہ کی ایک آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قول کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے جسے شاید کچھ وہم ہوا ہے ۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ مبتونہ کے لیے سکونت کا حق بھی ہے اور نفقہ کا بھی ‘‘(جصاص)۔ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں اسود بن یزید کے پاس کوفہ کی مسجد میں بیٹھا تھا۔ وہاں شعبی نے فاطمہ بنت قیس کی حدیث کا ذکر کیا۔ اس پر حضرت اسود نے شعبی کو کنکریاں کھینچ ماریں اور کہا کہ حضرت عمر کے زمانے میں جب فاطمہ کی یہ روایت پیش کی گئی تھی تو انہوں نے کہا تھا ’’ ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے رد نہیں کر سکتے ، معلوم نہیں اس نے یاد رکھا یا بھول گئی۔ اس کے لیے نفقہ اور سکونت ہے ، اللہ کا حکم ہے لَا تُخءرِجُوْھُنَّ مِنْ؍بُیُوْتِھِنَّ‘‘ یہ روایت باختلاف الفاظ مسلم، ابو داؤد، ترمذی اور نسائی میں منقول ہوئی ہے ۔

ثالثاً، مروان کے زمانہ حکومت میں جن مطلقہ مبتوتہ کے متعلق ایک نزاع چل پڑی تھی، حضرت عائشہؓ نے فاطمہ بنت قیس کی روایت پر سخت اعتراضات کیے تھے ۔ قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کیا آپ کو فاطمہ کا قصہ معلوم نہیں ہے ؟ انہوں نے جواب دیا’’ فاطمہ کی حدیث کا ذکر نہ کرو تو اچھا ہے ‘‘ (بخاری) بخاری نے دوسری روایت جو نقل کی ہے اس میں حضرت عائشہ کے الفاظ یہ ہیں’’ فاطمہ کو کیا ہو گیا ہے ، وہ خدا سے ڈرتی نہیں؟‘‘ تیسری روایت میں حضرت عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فرمایا’’ فاطمہ کے لیے یہ حدیث بیان کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ‘‘۔ حضرت عروہ ایک اور روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے فاطمہ پر سخت ناراضی اک اظہار فرمایا اور کہا ’’ وہ دراصل ایک خالی مکان میں تھیں جہاں کوئی مونِس نہ تھا اس لیے ان کی سلامتی کی خاطر حضورؐ نے ان کو گھر بدل دینے کی ہدایت فرائی تھی‘‘۔

رابعاً، ان خاتون کا نکاح بعد میں اسامہؓ بن زید سے ہوا تھا، اور محمد بن اسامہ کہتے ہیں کہ جب کبھی فاطمہ اس حدیث کا ذکر کرتیں میرے والد، جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اٹھا کر ان پر دے مارتے تھے (جصاص)۔ ظاہر ہے کہ حضرت اسامہ کے علم میں سنت اس کے خلاف نہ ہوتی تو وہ اس حدیث کی روایت پر اتنی ناراضی کا اظہار نہیں کر سکتے تھے ۔

۱۷۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ مطلقہ، خواہ رجعیہ ہو یا مبتوتہ، اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک اس کی سکونت اور اس کے نفقہ کا ذمہ دار شوہر ہے ۔ البتہ اختلاف اس صورت میں ہے جبکہ حاملہ کا شوہر مر گیا ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ طلاق دینے کے بعد مرا ہو، یا اس نے کوئی طلاق نہ دی ہو اور عورت زمانہ حمل میں بیوہ ہو گئی ہو۔ اس معاملہ میں فقہاء کے مسالک یہ ہیں:

۱)۔ حضرت علیؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا قول ہے کہ شوہر کے مجموعی ترکہ میں اس کا نفقہ واجب ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ، قاضی شریح، ابو العالیہ، شعبی اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی قول منقول ہے ، اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے (آلوسی۔جصاص)۔

۲)۔ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا دوسرا قول یہ نقل کیا ہے کہ اس پر اس کے پیٹ کے بچہ کے حصے میں سے خرچ کیا جائے اگر میت نے کوئی میراث چھوڑی ہو۔ اور اگر میراث نہ چھوڑی ہو تو میت کے وارثوں کو اس پر خرچ کرنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ (البقرہ، آیت ۲۳۳)۔

۳)۔ حضرت جابرؓ بن عبد اللہ، حضرت عبداللہ بن الزبیرؓ، حضرت حسن نصری، حضرت سعید بن المُسَیَّب اور حضرت عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ متوفیٰ شوہر کے مال میں اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی ایک تیسرا قول یہی منقول ہوا ہے (جصاص)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شوہر کے ترکہ میں سے اس کو جو میراث کا حصہ ملا ہو اس سے وہ اپنا خرچ پورا کر سکتی ہے ، لیکن شوہر کے مجموعی ترکے پر اس کا نفقہ عائد نہیں ہوتا جس کا بار تمام وارثوں پر پڑے ۔

۴)۔ ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ اس کا نفقہ متوفی شوہر کے مال میں اسی طرح واجب ہے جس طرح اس کے مال میں کسی کا قرض واجب ہوتاہے (جصاص)۔ یعنی مجموعی ترکہ میں سے جس طرح قرض ادا کیا جاتا ہے اسی طرح اس کا نفقہ بھی ادا کیا جائے ۔

۵)۔ امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ، امام محمدؒ اور امام زُفرؒ کہتے ہیں کہ میت کے مال میں اس کے لیے نہ سکونت کا حق ہے نہ نفقہ کا۔ کیونکہ موت کے بعد میت کی کوئی ملکیت ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد تو وہ وارثوں کا مال ہے ۔ ان کے مال میں حاملہ بیوہ کا نفقہ کیسے واجب ہو سکتا ہے (ہدایہ، جصاص)۔ یہی مسلک امام احمدؒ بن حنبل کا ہے (الانصاف)۔

۶)۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ اس کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ، البتہ اسے سکونت کا حق ہے (مُغنی المحتاج)۔ ان کا اسدلال حضرت ابو سعید خدریؓ کی بہن فریعہ بنت مالک کے اس واقعہ سے ہے کہ ان کے شوہر جب قتل کر دیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو حکم دیا کہ شوہر کے گھر ہی میں عدت گزاریں( ابو داؤد، نسائی، ترمذی)۔ مزید برآں ان کا استدلال دارقُطنی کی اس روایت سے ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: للحامل المتوفی عنھا زوجھا نفقۃ۔ ’’بیوہ حاملہ کے لیے کوئی نفقہ نہیں ہے ‘‘۔ یہی مسلک امام مالکؒ کا بھی ہے (حاشیۃ الد سوقی)۔

۱۸۔ اس ارشاد سے کئی اہم باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ عورت اپنے دودھ کی مالک ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ وہ اس کی اجرت لینے کی مجاز نہیں ہو سکتی تھی۔ دوسرے یہ کہ جب وہ وضع حمل ہوتے ہی اپنے سابق شوہر کے نکاح سے باہر ہو گئی تو بچے کو دودھ پلائے گی ور اس پر اجرت لینے کی حق دار ہو گی۔ تیسرے یہ کہ باپ بھی قانوناً مجبور نہیں ہے کہ بچے کی ماں ہی سے اس کو دودھ پلوائے ۔چوتھے یہ کہ بچے کا نفقہ باپ پر عائد ہوتا ہے ۔ پانچویں یہ کہ بچے کو دودھ پلانے کی اولین حق دار ماں ہے اور دوسری عورت سے رضاعت کا کام اسی صورت میں لیا جا سکتا ہے جبکہ ماں خود اس پر راضی نہ ہو، یا اس کی اجرت مانگے جس کا ادا کرنا باپ کی مقدرت میں نہ ہو۔ اسی سے چھٹا قاعدہ یہ نکلتا ہے کہ اگر دوسری عورت کو بھی وہی اجرت دینی پڑے جو بچے کی ماں مانگتی ہو تو ماں کا حق اولیٰ ہے ۔

فقہاء کی آراء اس مسئلے میں یہ ہیں:

ضحاک کہتے ہیں کہ ’’ بچے کی ماں اسے دودھ پلانے کی زیادہ حق دار ہے ۔ مگر اسے اختیار ہے کہ چاہے دودھ پلائے یا نہ پلائے۔ البتہ اگر بچہ دوسری عورت کی چھاتی قبول نہ کرے تو ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا‘‘۔ اسی سے ملتی جلتی رائے قتادہ اور ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کی ہے ۔ ابراہیم نخعی یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ اگر دوسرے عورت رضاعت کے لیے نہ مل رہی ہو تب بھی ماں کو اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے گا’‘ (ابن جریر)۔

ہدایہ میں ہے ، ’’ اگر ماں باپ کی علیٰحدگی کے وقت چھوٹا بچہ دودھ پیچا ہو تو ماں پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہی اسے دودھ پلائے ۔ البتہ اگر دوسری عورت نہ ملتی ہو تو وہ رضاعت پر مجبور کی جائے گی۔ اور اگر باپ یہ کہے کہ میں بچے کی ماں کو اجرت دے کر اس سے دودھ پلوانے کے بجائے دوسری عورت سے اجرت پریہ کام لوں گا، اور ماں دوسری عورت ہی کے برابر اجرت مانگ رہی ہو، یا بلا اجرت ہی اس خدمت کے لیے راضی ہو، تو اس صورت میں ماں کا حق مقدم رکھا جائے گا۔ اور اگر بچے کی ماں زیادہ اُجرت مانگ رہی ہو تو باپ کو اس پر مجبور نہیں کیا جائے گا’’۔

۱۹۔ اس میں ماں اور باپ دونوں کے لیے عتاب کا ایک پہلو ہے ۔ انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی تلخیوں کی بنا پر، جن کے باعث بالآخر طلاق تک نوبت پہنچی تھی، دونوں بھلے طریقہ سے آپس میں بچے کی رضاعت کا معاملہ طے نہ کریں تو یہ اللہ کو پسند نہیں ہے ۔ عورت کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تو زیادہ اجرت مانگ کر مرد کو تنگ کرنے کی کوشش کرے گی تو بچے کی پرورش کچھ تیرے ہی اوپر موقوف نہیں ہے ، کوئی دوسری عورت اسے دودھ پلالے گی۔ اور مرد کو بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر تو ماں کی مامتا سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے تنگ کرنا چاہے گا تو یہ بھلے آدمیوں کا سا کام نہ ہو گا۔ قریب قریب یہی مضمون سورہ بقرہ، آیت ۲۳۳ میں زیادہ تفصیل کے ساتھ ارشاد ہوا ہے ۔

 

کتنی (۲۰) ہی بستیاں ہیں جنہوں نے اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے سر تابی کو تو ہم نے ان سے سخت محاسبہ کیا اور ان کو بری طرح سزا دی۔ انہوں نے اپنے کیے کا مزا کچھ لیا اور ان کا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا ہے ، اللہ نے (آخرت میں ) ان کے لیئے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے ۔ پس اللہ سے ڈرو اے صاحب عقل لوگو جو ایمان لائے ہو۔ اللہ نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کر دی ہے ، ایک ایسا رسو ل (۲۱) جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سنا تا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے (۲۲)۔ جو کوئی اللہ پر ایمان لائے ار نیک عمل کرے ، اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ اللہ نے ایسے شخص کے لیئے  بہترین رزق رکھا ہے ۔ اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور زمین کی قسم سے بھیا انہی کے مانند (۲۳)۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا رہتا ہے ۔ (یہ بات تمھیں اس لیئے بتائی جا رہی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ، اور یہ کہ اللہ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ع

 

۲۰۔ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے رسول اور اس کی کتاب کے ذریعہ سے جو احکام ان کو دیے گئے ہیں ان کی اگر وہ نافرمانی کریں گے تو دنیا اور آخرت میں کس انجام سے دوچار ہوں گے ، اور اگر اطاعت کی راہ اختیار کریں گے تو کیا جزا پائیں گے ۔

۲۱۔ مفسرین میں سے بعض نے نصیحت سے مراد قرآن لیا ہے ، اور رسول سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں، یعنی آپ کی ذات ہمہ تن نصیحت تھی۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے ، کیونکہ پہلی تفسیر کی رو سے فقرہ یوں بنانا پڑے گا کہ ’’ ہم نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے اور ایک ایسا رسول بھیجا ہے ‘‘ قرآن کی عبارت میں اس تبدیلی کی آخر ضرورت کیا ہے جب کہ اس کے بغیر ہی عبارت نہ صرف پوری طرح بامعنی ہے بلکہ زیادہ پر معنی بھی ہے ۔

۲۲۔ یعنی جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لائے ۔اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے ۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسولؐ نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے ۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے ۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ کے آکری حصہ میں درج کیا ہے ۔ لیکن جو اصحاب علم چاہیں وہ دنیا کے مذہبی اور لادینی قوانین سے قرآن و سنت کے اس قانون کا مقابلہ کر کے خود دیکھ لیں۔

۲۳۔ ’’ اُنہی کے مانند‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جتنے آسمان بنائے اُتنی ہی زمینیں بھی بنائیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے متعدد آسمان اس نے بنائے ہیں ویسی ہی متعدد زمینیں بھی بنائی ہیں۔ اور ’’ زمین کی قسم سے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح یہ زمین جس پر انسان رہتے ہیں، اپنی موجودات کے لیے فرش اور گہوارہ بنی ہوئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کائنات میں اور زمینیں بھی تیار کر رکھی ہیں جو اپنی اپنی آبادیوں کے لیے فرش اور گہوارہ ہیں۔ بلکہ بعض مقامات پر تو قرآن میں یہ اشارہ بھی کر دیا گیا ہے کہ جاندار مخلوقات صرف زمین ہی پر نہیں ہیں، عالم بالا میں بھی پائی جاتی ہیں (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم۔الشوریٰ، آیت ۲۹، حاشیہ ۵۰)۔بالفاظ دیگر آسمان میں یہ جو بے شمار تارے اور سیارے نظر آتے ہیں، یہ سب ڈھنڈار پڑے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زمین کی طرح ان میں بھی بکثرت ایسے ہیں جن میں دنیائیں آباد ہیں۔

قدیم مفسرین میں سے صرف ابن عباسؓ ایک ایسے مفسر ہیں جنہوں نے اس دور میں اس حقیقت کو بیان کیا تھا جب آدمی اس کا تصور تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا کہ کائنات میں اس زمین کے سوا کہیں اور بھی ذی عقل مخلوق بستی ہے ۔ آج اس زمانے کے سائنس دانوں تک کو اس کے امر واقعہ ہونے میں شک ہے ، کجا کہ ۱۴ سو برس پہلے کے لوگ اسے بآسانی باور کر سکتے ۔ اسی لیے ابن عباس رضی اللہ عنہ عام لوگوں کے سامنے یہ بات کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں اس سے لوگوں کے ایمان متزلزل نہ ہو جائیں۔ چنانچہ مجاہد کہتے ہیں کہ ان سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ’’ اگر میں اس کی تفسیر تم لوگوں سے بیان کروں تو تم کافر ہو جاؤ گے اور تمہارا کفر یہ ہو گا کہ اسے جھٹلاؤ گے ‘‘۔ قریب قریب یہی بات سعید بن جبیر سے بھی منقول ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’ کیا بھروسا کیا جا سکتا ہے کہ اگر میں تمہیں اس کا مطلب بتاؤں تو تم کافر نہ ہو جاؤ گے ‘‘۔(ابن جریر۔ عبد بن حمید)۔ تاہم ابن جریر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے ، اور شعب الایمان اور کتاب الاسماء و الصفات میں بیہقی نے ابو الضحٰی کے واسطے سے باختلاف الفاظ ابن عباس کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ : فی کلِّ ارضٍ نبیٌّ کنبیِّکم و اٰدمُ کَاٰ دَمَ و نوحٌ کنوجٍ و ابراہیم کا ابراھیم و عیسیٰ کعیسیٰ‘‘۔ ان میں سے ہر زمین میں نبی ہے تمہارے نبیؐ جیسا اور آدم ہے تمہارے آدمؑ جیسا اور نوح ہے تمہارے نوحؑ جیسا، اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیمؑ جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰؑ جیسا‘‘۔ اس روایت کو ابن حجرؒ نے فتح لاباری میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی نقل کیا ہے ۔ اور امام ذہنی نے کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے البتہ میرے علم میں ابو الضحٰی کے سوا کسی نے اسے روایت نہیں کیا ہے ، اس لیے یہ بالکل شاذ روایت ہے ۔ بعض دوسرے علماء نے اسے کذب اور موضوع قرار دیا ہے اور ملا علی قاری نے اس کو موضوعات کبیر(ص ۱۹) میں موضوع کہتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر یہ ابن عباس ہی کی روایت ہے تب بھی اسرائیلیات میں سے ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے رد کرنے کی اصل وجہ لوگوں کا اسے بعید از عقل و فہم سمجھنا ہے ، ورنہ بجائے خود اس میں کوئی بات بھی خلاف عقل نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ آلوسی اپنی تفسیر میں اس پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’ اس کو صحیح ماننے میں نہ عقلاً کوئی چیز مانع ہے نہ شرعاً۔ مراد یہ ہے کہ ہر زمین میں ایک مخلوق ہے جو ایک اصل کی طرف اسی طرح راجع ہوتی ہے جس طرح بنی آدم ہماری زمین میں آدم علیہ السلام کی طرف راجع ہوتے ہیں۔ اور ہر زمین میں ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو اپنے ہاں دوسروں کی بہ نسبت اسی طرح ممتاز ہیں جس طرح ہمارے ہاں نوح اور ابراہیم علیہ السلام ممتاز ہیں‘‘۔ آگے چل کر علامہ موصوف کہتے ہیں’’ ممکن ہے کہ زمینیں سات سے زیادہ ہوں اور اسی طرح آسمان بھی صرف سات ہی نہ ہوں۔ سات کے عدد پر، جو عدد تام ہے ، اکتفا کرنا اس بات کو مستلزم نہیں کہ اس سے زائد کی نفی ہو‘‘۔ پھر بعض احادیث میں ایک ایک آسمان کی درمیانی مسافت جو پانچ پانچ سو برس بیان کی گئی ہے اس کے متعلق علامہ موصوف کہتے ہیں : ھومن باب التقریب لِلا فْھام، یعنی اس سے مراد ٹھیک ٹھیک مسافت کی پیمائش بیان کرنا نہیں ہے ، بلکہ مقصود بات کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ وہ لوگوں کی سمجھ سے قریب تر ہو۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال میں امریکہ کے رانڈ کارپوریشن(Rand Corporation) نے فلکی مشاہدات سے اندازہ لگایا ہے کہ زمین جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے صرف اسی کے اندر تقریباً ۶۰ کروڑ ایسے سیارے پائے جاتے ہیں جن کے طبعی حالات ہماری زمین سے بہت کچھ ملتے چلتے ہیں اور امکان ہے کہ ان کے اندر بھی جاندار مخلوق آباد ہو (اکانومسٹ، لندن۔ مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۶۹ء)۔