تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الانشقاق

نام

پہلی  ہی آیت کے لفظ  اِنْشَقَّتْ سے ماخوذ ہے۔  اِنْشِقاق مصدر ہے جس کے معنی پھٹ جانے کے ہیں  اور اس کا نام کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں  آسمان کے پھٹنے کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

یہ بھی مکّہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں  میں  سے ہے۔  اس کے مضمون کی داخلی شہادت یہ بتا رہی ہے کہ ابھی ظلم و ستم کا دور شروع نہیں  ہوا تھا، البتہ قرآن کی دعوت کو مکّہ میں  بر ملا جھُٹلا یا جا رہا تھا اور لوگ یہ ماننے سے انکار کر رہے تھے کہ کبھی قیامت بر پا ہو گی اور اُنہیں  اپنے خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا پڑے گا۔

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع قیامت اور آخرت ہے۔

پہلی پانچ آیتوں  میں  نہ صرف قیامت کی کیفیت بیان کی گئی ہے بلکہ اس کے بر حق ہونے کی دلیل بھی دے دی گئی ہے۔  اُس کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ اُس روز آسمان پھٹ جائے گا، زمین پھیلا کر ہموار میدان بنا دی جائے گی، جو کچھ زمین کے پیٹ میں  ہے (یعنی مردہ انسانوں  کے اجزائے بدن اور ان کے اعمال کی شہادتیں ) سب کو نکال کر وہ باہر پھینک دے گی، حتی کہ اس کے اندر کچھ باقی نہ رہے گا۔ اور اس کی دلیل یہ دی گئی ہے کہ آسمان و زمین کے لیے اُن کے رب کا حکم یہی ہو گا اور چونکہ دونوں  اُس کی مخلوق ہیں  اس لیے وہ اس کے حکم سے سرتابی نہیں  کر سکتے،  اُن کے لیے حق یہی ہے کہ وہ اپنے رب کے حکم کی تعمیل کریں۔

اس کے بعد آیت ۶ سے ۱۹ تک بتایا گیا ہے کہ انسان کو خواہ اِس کا شعور ہو یا نہ ہو،  بہرحال وہ اُس منزل کی طرف چار و ناچار چلا جا رہا ہے جہاں  اُسے اپنے رب کے آگے پیش ہونا ہے۔  پھر سب انسان دو حصوں  میں  بٹ جائیں  گے۔  ایک،  وہ جن کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں  دیا جائے گا۔ وہ کسی سخت حساب فہمی کے بغیر معاف کر دیے جائیں  گے۔  دوسرے وہ جن کا نامہ اعمال پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ وہ چاہیں  گے کہ کسی طرح انہیں  موت آ جائے،  مگر مرنے کے بجائے وہ جہنم میں  جھونک دیے جائیں  گے۔  ان کا یہ انجام اس لیے ہو گا کہ وہ دنیا میں  اِس غلط فہمی پر مگن رہے کہ کبھی خدا کے سامنے جواب دہی کے لیے حاضر ہونا نہیں  ہے۔  حالانکہ ان کا رب ان کے سارے اعمال کو دیکھ رہا تھا اور کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ ان اعمال کی باز پرس سے چھوٹ جائیں۔  اُن کا دنیا کی زندگی سے آخرت کی جزا وسزا تک درجہ بدرجہ پہنچنا اُتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج ڈوبنے کے بعد شفق کا نمودار ہونا، دن کے بعد رات کا آنا اور اس میں  انسان اور حیوانات کا اپنے اپنے بسیروں  کی طرف پلٹنا، اور چاند کا ہلال سے بڑھ کر ماہِ  کامل بننا یقینی ہے۔

          آخر میں  اُن کفار کو درد ناک سزا کی خبر دے دی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکنے کے بجائے الٹی تکذیب کرتے ہیں،  اور اُن لوگوں  کو بے حساب اجر کا مژدہ سنا دیا گیا ہے جو ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے ربّ کے فرمان کی تعمیل کرے گا 1 اور اُس کے لیے حق یہی ہے (کہ اپنے ربّ کا حکم مانے )۔ اور جب زمین پھیلا دی جائے گی 2 اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک  کر خالی ہو جائے گی 3 اور اپنے ربّ کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اُس کے لے ا حق یہی ہے ( کہ اس کی تعمیل کرے )۔4 اے انسان، تُو کشاں  کشاں  اپنے ربّ کی طرف چلا جا رہا ہے 5 اور اُس سے ملنے والا ہے۔  پھر جس کا نامۂ اعمال اُس کے سیدھے ہاتھ میں  دیا گیا، اُس سے ہلکا حساب لیا جائے گا 6 اور وہ اپنے لوگوں  کی طرف خوش خوش پلٹے گا۔ 7 رہا  وہ شخص جس کا  نامۂ اعمال اُس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا 8 تو وہ موت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں  جا پڑے گا۔ وہ اپنے گھر والوں  میں  مگن تھا۔ 9 اُس نے سمجھا تھا کہ اسے کبھی پلٹنا نہیں  ہے۔  پلٹناکیسے نہ تھا، اُس کا ربّ اُس کے کرتُوت دیکھ رہا تھا۔ 10
پس نہیں،  میں  قسم کھاتا ہوں  شفق کی،  اور رات کی اور جو کچھ وہ سمیٹ لیتی ہے،  اور چاند کی جب کہ وہ ماہِ کامل ہو جاتا ہے،  تم کو ضرور درجہ بدرجہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف گزرتے چلے جانا ہے۔  11 پھر اِن لوگوں  کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ ایمان نہیں  لاتے اور جب قرآن اِن کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں  کرتے ؟ 12     السجدة
بلکہ یہ منکرین تو اُلٹا جھُٹلاتے ہیں،  حالانکہ جو کچھ یہ ( اپنے نامۂ اعمال میں ) جمع کر رہے ہیں  اللہ اُسے خوب جانتا ہے۔  13 لہٰذا اِن کو دردناک عذاب کی بشارت دے دو۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں  اور جنہوں  نے نیک عمل کیے ہیں  ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔  ؏۱

 

1: اصل میں  اَذِنَتْ لِرَبّھِاَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں  جن کے لفظی معنی ہیں ’’وہ اپنے رب کا حکم سنے گا‘‘۔لیکن عربی زبان میں  محاورے کے طور پر اَذِنَ لَہٗ کے معنی صرف یہی نہیں  ہوتے کہ اس نے حکم سُنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سرتابی نہ کی۔

2: زمین کے پھیلا دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ سمندر اور دریا پاٹ دیے جائے گے،  پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے بکھیر دیے جائیں  گے،  اور زمین کی ساری اونچ نیچ برابر کر کے اسے ایک ہموار میدا ن بنا دیا جائے گا۔ سورہ طٰہٰ میں  اس کیفیت  کو یوں  بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ’’اُسے چٹیل میدان بنا دے گا جس میں  تم کو ئی بَل اور سَلُوَٹ نہ پاؤ گے۔ ‘‘(آیات۱۰۶۔۱۰۷)۔ حاکم نے مُستَدْر ک میں  عمدہ سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ کے حوالہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ’’قیامت کے روز زمین ایک دسترخوان کی طرح پھیلا کر بچھا دی جائے گی، پھر انسانوں  کے لیے اس پر صرف قدم رکھنے کی جگہ ہو گی‘‘۔ اِس بات کو سمجھنے کے لیے یہ حقیقت نگاہ میں  رہنی چاہیے کہ اُس دن تمام انسانوں  کو جو ا ولِ روزِ آفر نیش سے قیامت تک پیدا ہوئے ہوں  گے،  بیک وقت زندہ کر کے عدالتِ الٰہی میں  پیش کیا جائے گا۔ اتنی بڑی آبادی کو جمع کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ سمندر، دریا، پہاڑ، جنگل،  گھاٹیاں  اور پست و بلند علاقے سب کے سب ہموار کر کے پورے کرہ زمین کو ایک میدان بنا دیا جائے تاکہ اس پر ساری نوع انسانی کے افراد کھڑے ہونے کی جگہ پا سکیں۔

3: مطلب یہ ہے کہ جتنے مرے ہوئے انسان اس کے اندر پڑے ہوں  گے سب کو نکال کر وہ باہر ڈال دے گی، اور اسی طرح اُن کے اعمال کی جو شہادتیں  اُس کے اندر موجود ہوں  گی وہ سب بھی پوری کی پوری باہر آ جائیں  گی، کوئی چیز بھی اُس میں  چھپی اور دبی ہوئی نہ رہ جائے گی۔

4: یہ صراحت نہیں  کی گئی کہ جب یہ  اور یہ واقعات ہوں  گے تو کیا ہو گا،  کیونکہ  بعد کا یہ مضمون اُس کو آپ سے آپ ظاہر کر دیتا ہے کہ اے انسان تو اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے،  اُس کے سامنے حاضر ہونے والا ہے،  تیرا نامہ اعمال تجھے دیا جانے والا ہے،  اور جیسا تیرا نامہ اعمال ہو گا اس کے مطابق تجھے جزا یا سزا ملنے والی ہے۔

5: یعنی وہ ساری تگ و دَو اور دوڑ دھوپ جو تو دنیا میں  کر رہا ہے،  اُس کے متعلق چاہے تو یہی سمجھتا ہے کہ یہ صرف دنیا کی زندگی تک ہے اور دنیوی اغراض کے یے ہے،  لیکن درحقیقت تو شعوری یا غیر شعوری طور پر جا رہا ہے اپنے رب ہی کی طرف اور آخرکار وہیں  تجھے پہنچ کر رہنا ہے۔

6: یعنی اُس سے سخت حساب فہمی نہ کی جائے گی۔ اُس سے یہ نہیں  پوچھا جائے گا کہ فلاں  فلاں  کام تونے کیوں  کیے تھے اور تیرے پاس اُن کاموں  کے لیے کیا عذر ہے۔  اُس کی بھلائیوں  کے ساتھ اُس کی برائیاں  بھی اُس کے نامہ اعمال میں  موجود ضرور ہوں  گی، مگر بس یہ دیکھ کر کہ بھلائیوں  کا پلڑا برائیوں  سے بھاری ہے،  اس کے قصوروں  سے درگزر کیا جائے گا اور اسے معاف کر دیا جائے گا۔ قرآن مجید میں  بد اعمال لوگوں  سے سخت حساب فہمی کے لیے سُوءُ الْحِسابِ (بری طرح حساب لینے ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں  (الرعد، آیت۱۸)، اور نیک لوگوں  کے بارے میں  فرمایا گیا ہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں  جن سے ہم ان کے بہتر اعمال قبول کر لیں  گے اور ان کی برائیوں  سے درگزر کریں  گے ‘‘(الاحقاف، آیت۱۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے اِس کی جو تشریح فرمائی ہے اُسے امام احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نَسائی، ابو داؤد، حاکم، ابن جریر، عبد بن حُمَید اور بن مردویہ نے مختلف الفاظ  میں  حضرت عائشہؓ  نے نقل کیا ہے۔  ایک روایت میں  ہے کہ حضورؐ نے فرمایا’’جس سے بھی حساب لیا گیا وہ مارا گیا‘‘۔حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم، کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں  فرمایاکہ’’جس کا نامہ اعمال اس کے سیدھے ہاتھ میں  دیا گیا اس سے ہلکا حساب لیا جائے گا‘‘؟حضورؐ نے جواب دیا ’’وہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے،  لیکن جس سے پوچھ گچھ کی گئی وہ مارا گیا‘‘۔ایک اور روایت میں  حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں  کہ میں  نے ایک مرتبہ حضورؐ کو نماز میں  یہ دعا مانگتے ہوئے سنا کہ ’’خدایا مجھ سے حساب لے ‘‘۔آپ نے جب سلام پھیرا تو میں  نے اس کا مطلب پوچھا۔ آپ نے فرمایا ’’ہلکے حساب سے مراد یہ ہے کہ بندے کے نامہ اعمال کو دیکھا جائے گا اور اُس سے درگزر کیا جائے گا۔ اے عائشہؓ، اُس روز جس سے حساب فہمی کی گئی وہ مارا گیا‘‘۔

7: اپنے لوگوں  سے مراد آدمی کے وہ اہل و عیال، رشتہ دار اور ساتھی ہیں  جو اُسی کی طرح معاف کیے گئے ہوں  گے۔

8: سورہ اَلْحَاقّہ میں  فرمایا گیا ہے کہ جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں  ہاتھ میں  دیا جائے گا۔  اور یہاں  ارشاد ہوا ہے اُ س کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ غالباً اِ س کی صورت یہ ہو گی کہ وہ شخص اِ س بات سے تو پہلے ہی مایوس ہو گا کہ اُسے دائیں  ہاتھ میں  نامہ اعمال ملے گا، کیونکہ اپنے کرتوتوں  سے وہ خوب واقف ہو گا اور اسے یقین ہو گا کہ مجھے نامہ اعمال بائیں  ہاتھ میں  ملنے والا ہے۔  البتہ سار ی خلقت کے سامنے بائیں   ہاتھ میں  نامہ اعمال لیتے ہوئے اُسے خِفّت محسوس ہو گی، اس لیے وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر لے گا۔ مگر اِس تدابیر سے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ اپنا کچّا چٹھا اپنے ہاتھ میں  لینے سے بچ جائے۔  وہ تو بہر حال اسے پکڑا یا ہی جائے گا خواہ وہ ہاتھ آگے بڑھا کر لے یا پیٹھ کے پیچھے چھپا لے۔

9: یعنی اُس کا حال خدا کے صالح بندوں  سے مختلف تھا جن کے متعلق سورہ طور (آیت ۲۶) میں  فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں  میں  خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے،  یعنی ہر وقت اُنہیں  یہ خوف لاحق رہتا تھا کہ کہیں  بال بچوں  کی محبت میں  گرفتار ہو کر ہم اُن کی دنیا بنانے کے لیے اپنی عاقبت بر باد نہ کر لیں۔  اِس کے بر عکس اُس شخص کا حال یہ تھا کہ اپنے گھر میں  وہ چین کی بنسری بجا رہا تھا اور خوب بال بچوں  کو عیش کر ا رہا تھا، خواہ وہ کتنی ہی حرام خوریاں  کر کے اور کتنے ہی لوگوں  کے حق مار کر یہ سامانِ عیش فراہم کرے،  اور اس لطف و لذت کے لیے خدا کی باندھی ہوئی حدوں  کو کتنا ہی پامال کرتا رہے۔

10: یعنی یہ خدا کے انصاف اور اس کی حکمت کے خلاف تھا کہ جو کرتوت وہ کر رہا تھا ان کو وہ نظر انداز کر دیتا اور اسے اپنے سامنے بلا کر کوئی باز پرش اس سے نہ کرتا۔1: اصل میں  اَذِنَتْ لِرَبِّھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں  جن کے لفظی معنی ہیں ’’وہ اپنے رب کا حکم سنے گا‘‘۔لیکن عربی زبان میں  محاورے کے طور پر اَذِنَ لَہٗ کے معنی صرف یہی نہیں  ہوتے کہ اس نے حکم سُنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سرتابی نہ کی۔

12: یعنی ان کے دل میں  خدا کا خوف پیدا نہیں  ہوتا اور یہ اُس کے آگے نہیں  جھکتے۔  اِس مقام پر سجدہ کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے عمل سے ثابت ہے۔  امام مالک، مسلم اور نسائی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے  بارے میں  یہ روایت نقل کی ہے کہ انہوں  نے نماز میں  یہ سورہ  پڑھ کر اِس مقام پر سجدہ کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے یہاں  سجدہ کیا ہے۔  بخاری، مسلم، ابو داؤد اور نسائی نے ابورافع کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ نے  عشا کی نماز میں  یہ سورہ پڑھی اور سجدہ کیا۔ میں  نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہوں  نے فرمایا کہ میں  نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور حضورؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا ہے،  اس لیے میں  مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں  گا۔ مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ وغیرہ ہم نے ایک اور روایت نقل کی ہے جس میں  حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں  کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے پیچھے اِس سورہ میں  اور اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ میں  سجدہ کیا ہے۔ 1: اصل میں  اَذِنَتْ لِرَبِّھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں  جن کے لفظی معنی ہیں ’’وہ اپنے رب کا حکم سنے گا‘‘۔لیکن عربی زبان میں  محاورے کے طور پر اَذِنَ لَہٗ کے معنی صرف یہی نہیں  ہوتے کہ اس نے حکم سُنا بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس نے حکم سن کر ایک تابع فرمان کی طرح اس کی تعمیل کی اور ذرا سرتابی نہ کی۔