تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الفُرقان

نام

پہلی ہی آیت تَبَاَرَکَ الَّذِیْ نَزَّ لَ الْفُرْقَانَ سے ماخوذ ہے ۔ یہ بھی قرآن کی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے نہ کہ عنوان مضمون کے طور پر ۔ تاہم مضمون سورہ کے ساتھ یہ نام ایک قریبی مناسبت رکھتا ہے جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہو گا۔ 

زمانۂ نزول

انداز بیان اور مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس زمانہ نزول بھی وہی ہے جو سورہ مومنون وغیرہ کا ہے ، یعنی زمانہ قیام مکہ کا دور متوسط۔ ابن جریر اور امام رازی نے ضحاک بن مزاجِ اور مقاتل بن سلیمان کی یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت سورہ نساء سے 8 سال پہلے اتری تھی۔ اس حساب سے بھی اس کا زمانہ نزول وہی دور متوسط قرار پاتا ہے ۔ (ابن جریر، جلد 19، صفحہ 28 ۔30 ۔ تفسیر کبیر ، جلد 6 ، صفحہ 358 ) ۔ 

موضوع و مباحث

اس میں ان شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ، اور آپ کی پیش کر دہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے ۔ ان میں سے ایک ایک کا جچا تلا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعوت حق سے منہ موڑنے کے برے نتائج بھی صاف صاف بتائے گئے ہیں ۔ آخر میں سورہ مومنون کی طرح اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو ، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا۔ ایک طرف اس سیرت و کردار کے لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیم سے اب تک تیار ہوئے ہیں اور آئندہ تیار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ دوسری طرف وہ نمونہ اخلاق ہے جو عم اہل عرب میں پایا جاتا ہے اور جسے بر قرار رکھنے کے لیے جاہلیت کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔ اب خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں نمونوں میں سے کے پسند کرتے ہو؟ یہ ایک غیر مفوکظ سوال تھا جو عرب کے ہر باشندے کے سامنے رکھ دیا گیا، اور چند سال کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس کا جو جواب دیا وہ جریدہ روز گار پر ثبت ہو چکا ہے ۔

ترجمہ و تفسیر

1۔ اصل میں لفظ تَبَارَکَ استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم کسی ایک لفظ تو در کنار ایک فقرے میں بھی ادا ہونا مشکل ہے ۔ اس کا مادہ ب ر ک ہے جس سے دو مصدر بَرَکَۃ اور بُرُ و ک نکلے ہیں ۔ بَرَکۃ میں افزونی ، فراوانی ، کثرت اور زیادتی کا تصور ہے اور بُرُوک میں ثبات ، بقاء اور لزوم کا تصور ۔ پھر جب اس مصدر سے تَبَارَکَ کا صیغہ بنایا جاتا ہے تو باب تفاعُل کی خصوصیت، مبالغہ اور اظہار کمال، اس میں اور شامل ہو جاتی ہے اور اس کا مفہوم انتہائی فراوانی، بڑھتی اور چڑھتی افزوفی، اور کمال درجے کی پائیداری ہو جاتا ہے ۔ یہ لفظ مختلف مواقع پر مختلف حیثیتوں سے کسی چیز کی فراوانی کے لیے ، یا اس کے ثبات و دوام کی کیفیت بیان کرنے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی اس سے مراد بلندی میں بہت بڑھ جانا ہوتا ہے ۔ جیسے کہتے ہیں تبارکت النخلۃ یعنی فلاں کھجور کا درخت بہت اونچا ہو گیا ۔ اِصْمَعِی کہتا ہے کہ ایک بدو ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا تَبَارَکْتُ عَلَیْکُمْ ۔ ’’ میاں تم سے اونچا ہو گیا ہوں ‘‘۔ کبھی اسے عظمت اور بزرگی میں بڑھ جانے کے لیے بولتے ہیں ۔ کبھی اس کو فیض رسانی اور خیر اور بھلائی میں بڑھے ہوۓ ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔ کبھی اس سے پاکیزگی و تقدس کا کمال مراد ہوتا ہے ۔ اور یہی کیفیت اس کے معنی ثبوت و لزوم کی بھی ہے ۔ موقع و محل اور سیاق و سباق بتا دیتا ہے کہ کس جگہ اس لفظ کا استعمال کس غرض کے لیے کیا گیا ہے ۔ یہاں جو مضمون آگے چل کر بیان ہو رہا ہے اس کو نگاہ میں رکھا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ کے لیے تَبَارَکَ ایک معنی میں نہیں ، بہت سے معنوں میں استعمال ہوا ہے : 
1: بڑا محسن اور نہایت با خیر، اس لیے کہ اس نے اپنے بندے کو فرقان کی عظیم الشان نعمت سے نواز کر دنیا بھر کو خبردار کرنے کا انتظام فرمایا ۔ 
2 : نہایت بزرگ و با عظمت ، اس لیے کہ زمین و آسمان کی بادشاہی اسی کی ہے ۔ 
3 : نہایت مقدس و منزَّہ ، اس لیے کہ اس کی ذات ہر شائبۂ شرک سے پاک ہے ۔ نہ اس کا کوئی ہم نجس کہ ذات خداوندی میں اس کا نظیر و مثیل ہو، اور نہ اس کے لیے فنا و تغیر کہ اسے جا نشینی کے لیے بیٹے کی حاجت ہو۔ 
4 : نہایت بلند و برتر، اس لیے کہ بادشاہی ساری کی ساری اسی کی ہے اور کسی دوسرے کا یہ مرتبہ نہیں کہ اس کے اختیارات میں اس کا شریک ہو سکے ۔ 
5 : کمال قدرت کے اعتبار سے برتر ، اس لیے کہ وہ کائنات کی ہر چیز کو پیدا کرنے والا اور ہر شے کی تقدیر مقرر کرنے والا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، المومنون، حاشیہ 14 ۔ الفرقان، حاشیہ 19)۔

2 ۔ یعنی قرآن مجید ۔فرقان مصدر ہے مادہ ف ر ق سے ، جس کے معنی ہیں دو چیزوں کو الگ کرنا، یا ایک ہی چیز کے اجزاء کا الگ الگ ہونا ۔ قرآن مجید کے لیے اس لفظ کا استعمال یا تو فارِق کے معنی میں ہوا ہے ، یا مفروق کے معنی میں یا پھر اس سے مقصود مبالغہ ہے ، یعنی فرق کرنے کے معاملے میں اس کا کمال اتنا بڑھا ہوا ہے کہ گویا وہ خود ہی فرق ہے ۔ اگر اسے پہلے اور تیسرے معنی میں لیا جاۓ تو اس کا صحیح ترجمہ کسوٹی، اور فیصلہ کن چیز ، اور معیارِ فیصلہ ( Criterion) کے ہوں گے ۔ اور اگر دوسرے معنی میں لیا جاۓ تو اس کا مطلب الگ الگ اجزاء پر مشتمل ، اور الگ الگ اوقات میں آنے والے اجزاء پر ، مشتمل ، چیز کے ہوں گے ، قرآن مجید کو ان دونوں ہی اعتبارات سے ’’ الفرقان‘‘ کہا گیا ہے ۔

 

3 ۔ اصل میں لفظ نَزَّلَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں بتدریج، تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنا ۔ اس تمہیدی مضمون کی مناسبت آگے چل کر آیت 32 (رکوع3) کے مطالعہ سے معلوم ہو گی جہاں کفار مکہ کے اس اعتراض پر گفتگو کی گئی ہے کہ ’’ یہ قرآن پورا کا پورا ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ‘‘؟

سُوْرَةُ الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :4

4 ۔ یعنی خبر دار کرنے والا ، متنبہ کرنے والا، غفلت اور گمراہی کے برے نتائج سے ڈرانے والا ۔ اس سے مراد فرقان بھی ہو سکتا ہے ، اور وہ ’’بندہ‘‘ بھی جس پر فرقان نازل کیا گیا۔ الفاظ ایسے جامع ہیں کہ دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں ، اور حقیقت کے اعتبار سے چونکہ دونوں ایک ہیں ، اور ایک ہی کام کے لیے بھیجے گۓ ہیں ، اس لیے کہنا چاہیے کہ دونوں ہی مراد ہیں ۔ پھر یہ جو فرمایا کہ سارے جہان والوں کے لیے نذیر ہو، تو اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کسی ایک ملک کے لیے نہیں ، پوری دنیا کے لیے ہے ، اور اپنے ہی زمانے کے لیے نہیں ، آنے والے تمام زمانوں کے لیے ہے ۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے ۔ مثلاً فرمایا : یٰٓاَ یُّھَالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً، ’’ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں ‘‘ (الاعراف، آیت 158) ۔ وَاُوْ حِیَ اِلَیَّ ھٰذَالْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ ، ’’ میری طرف یہ قرآن بھیجا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے میں تم کو خبردار کروں اور جس جس کو بھی یہ پہنچے ‘‘ (الانعام آیت 19) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْراً وَّ نَذِیْراً ، ’’ ہم نے تم کو سارے ہی انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبر دار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (سبا آیت 28) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَاِالَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ، ’’ اور ہم نے تم کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے ‘‘ (الانبیاء، آیت 107 ) اور اسی مضمون کو خوب کھول کھول کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احادیث میں بار بار بیان فرمایا ہے کہ بُعثت الی الاحمر والا سود ، ’’ میں کالے اور گورے سب کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘۔ اور کان النبی یبعث الیٰ قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ ، ’’ پہلے ایک نبی خاص طور پر اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا ، اور میں عام طور پر تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ‘‘ (بخاری و مسلم) اور و ارسلت الی الخلق کافۃ و خُرِم بی النبیون، ’’ میں ساری خلقت کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ختم کر دیے گۓ میری آمد پر انبیاء‘‘(مسلم) ۔

 

5 ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کے لیے ہے ‘‘ ، یعنی وہی اس کا حق دار ہے اور اسی کے لیے وہ مخصوص ہ، کسی دوسرے کو نہ اس کا حق پہنچتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا ا میں کوئی حصہ ہے ۔

6 ۔ یعنی نہ تو کسی سے اس کا کوئی نسبی تعلق ہے ، اور نہ کسی کو اس نے اپنا متبنیٰ بنایا ہے ۔ کوئی ہستی کائنات میں ایسی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نسلی تعلق یا تبنیت کے تعلق کی بنا پر اس کو معبودیت کا استحقاق پہنچتا ہو۔ اس کی ذات یکتاۓ محض ہے ، کوئی اس کا ہم جنس نہیں ، اور کوئی خدائی خاندان نہیں ہے کہ معاذ اللہ، ایک خدا سے کوئی نسل چلی ہو اور بہت سے خدا پیدا ہوتے چلے گۓ ہوں ۔ اس لیے وہ تمام مشرکین سراسر جاہل و گمراہ ہیں جنہوں نے فرشتوں ، یا جنوں ، یا بعض انسانوں کو خدا کی اولاد سمجھا اور اس بنا پر انہیں دیوتا اور معبود قرار دے لیا ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی نری جہالت و گمراہی میں مبتلا ہیں جنہوں نے نسلی تعلق کی بنا پر نہ سہی ، کسی خصوصیت کی بنا پر ہی سہی ، اپنی جگہ یہ سمجھ لیا کہ خداوند عالم نے کسی شخص کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے ۔ ’’ بیٹا بنا لینے ‘‘ کے اس تصور کو جس پہلو سے بھی دیکھا جاۓ یہ سخت غیر معقول نظر آتا ہ، کجا کہ یہ ایک امر واقعہ ہو۔ جن لوگوں نے یہ تصور ایجاد یا اختیار کیا ان کے گھٹیا ذہن ذات الہٰی کی بر تری کا تصور کرنے سے عاجز تھے ۔ انہوں نے اس ذات بے ہمتا و بے نیاز کو انسانوں پر قیاس کیا جو یا تو تنہائی سے گھبرا کر کسی دوسرے کے بچے کو گود لے لیتے ہیں ، یا جذبات محبت کے وفور سے کسی کو بیٹا بنا لیتے ہیں ، یا متبنّیٰ بنانے کی اس لیے ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی تو ان کا وارث اور ان کے نام اور کام کو زندہ رکھنے والا ہو۔ یہی تین وجوہ ہیں جن کی بنا پر انسانی ذہن میں تَبْنِیت کا خیال پیدا ہوتا ہے ، اور ان میں سے جس وجہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاۓ ، سخت جہالت اور گستاخی اور کم عقلی ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ۔ یونس ، حواشی 66 تا 68 ) ۔

7 ۔ اصل میں لفظ مُلک استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں بادشاہی ، اقتدار اعلیٰ، اور حاکمیت (Sovereignty) کے لیے بولا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی ساری کائنات کا مختار مطلق ہے اور فرمانروائی کے اختیارات میں ذرہ برابر بھی کسی کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ یہ چیز آپ سے آپ اس بات کو مستلزم ہے کہ پھر معبود بھی اس کے سوا کوئی نہیں ہے ۔ اس لیے کہ انسان جس کو بھی معبود بناتا ہے یہ سمجھ کر بناتا ہے کہ اس کے پاس کوئی طاقت ہے جس کی وجہ سے وہ ہمیں کسی قسم کا نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے اور ہماری قسمتوں پر اچھا یا برا اثر ڈال سکتا ہے ۔ بے زور اور بے اثر ہستیوں کو ملجا و ماویٰ بنانے کے لیے کوئی احمق سے احمق انسان بھی کبھی تیار نہیں ہو سکتا۔ اب اگر یہ معلوم ہو جاۓ کہ اللہ جل شانہ کے سوا اس کائنات میں کسی کے پاس بھی کوئی زور نہیں ہے ، تو پھر نہ کوئی گردن اس کے سوا کسی کے آگے اظہار عجز و نیاز کے لیے جھکے گی، نہ کوئی ہاتھ اس کے سوا کسی کے آگے نذر پیش کرنے کے لیے بڑھے گا ل، نہ کوئی زبان اس کے سوا کسی کی حمد کے ترانے گاۓ گی یا دعا و التجا کے لیے کھلے گی، اور نہ دنیا کے کسی نادان سے نادان آدمی سے بھی کبھی یہ حماقت سرزد ہو سکے گی کہ وہ اپنے حقیقی خدا کے سوا کسی اور کی طاعت و بندگی بجا لاۓ ، یا کسی کو بذات خود حکم چلانے کا حق دار مانے ۔ اس مضمون کو مزید تقویت اوپر کے اس فقرے سے پہنچتی ہے کہ ’’آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور اسی کے لیے ہے ‘‘ ۔

8 ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہر چیز کو ایک اندازۂ خاص پر رکھا ‘‘، ’’ یا ہر چیز کے لیے ٹھیک ٹھیک پیمانہ مقرر کیا‘‘۔ لیکن خواہ کوئی ترجمہ بھی کیا جاۓ ، بہر حال اس سے پورا مطلب ادا نہیں ہوتا۔ پورا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہ کائنات کی ہر چیز کو وجود بخشا ہے ، بلکہ وہی ہے جس نے ایک ایک چیز کے لیے صورت، جسامت ، قوت و استعداد، اوصاف و خصائص ، کام اور کام کا طریو ، بقاء کی مدت، عروج و ارتقاء کی حد، اور دوسری وہ تمام تفصیلات مقرر کی ہیں جو اس چیز کی ذات سے متعلق ہیں ، اور پھر اسی نے عالم وجود میں وہ اسباب و وسائل اور مواقع پیدا کیے ہیں جن کی بدولت ہر چیز یہاں اپنے اپنے دائرے میں اپنے حصے کا کام کر رہی ہے ۔ 
اس ایک آیت میں توحید کی پوری تعلیم سمیٹ دی گئی ہے ۔ قرآن مجید کی جامع آیات میں سے یہ ایک عظیم الشان آیت ہے جس کے چند الفاظ میں اتنا بڑا مضمون سمو دیا گیا ہے کہ ایک پوری کتاب بھی اس کی وسعتوں کا احاطہ کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتی ۔ حدیث میں آتا ہے کہ : کان النبی صلی اللہ علیہ و سلم اذا افصح الغلام من بنی عبدالمطلب علمہ ھٰذہ الاٰیۃ ،’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ قاعدہ تھا کہ حضور کے خاندان میں جن کسی بچے کی زبان کھل جاتی تھی تو آپ یہ آیت اسے سکھاتے تھے ‘‘(مُصَنَّفْ عبدالرزاق و مُصَنَّفِ ابن ابی شَیبہ ، بروایت عمر و بن شعیب عن ابیہ عن جدہٖ)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے ذہن میں توحید کا پورا تصور بٹھانے کے لیے یہ آیت ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس کے بچے جب ہو شیار ہونے لگیں تو آغاز ہی میں ان کے ذہن پر یہ نقش ثبت کر دے ۔

9 ۔ جامع الفاظ ہیں جو ہر قسم کے جعلی معبودوں پر حاوی ہیں ۔ وہ بھی جن کو خدا نے پیدا کیا اور انسان ان کو معبود مان بیٹھا، مثلاً فرشتے ، جِن،انبیاء، اولیاء، سورج، چاند، سیارے ، درخت ، دریا، جانور وغیرہ ۔ اور وہ بھی جن کو انسان خود بناتا ہے اور خود ہی معبود جا لیتا ہے ، مثلاً پتھر اور لکڑی کے بُت ۔

10 ۔ حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے ایک بندے پر فرقان اس لیے نازل کیا کہ حقیقت تو تھی وہ اور لوگ اس سے غافل ہو کر پڑ گۓ اس گمراہی میں ، لہٰذا ایک بندہ نذیر بنا کر اٹھایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو اس حماقت کے برے نتائج سے خبردار کرے ، اور اس پر بتدریج یہ فرقان نازل کرنا شروع کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ حق کو باطل سے اور کھرے کو کھوٹے سے الگ کر کے دکھا دے ۔

11 ۔ دوسرا ترجمہ ’’بڑی بے انصافی ی بات ‘‘ بھی ہو سکتا ہے ۔

 

12 ۔ یہ وہی اعتراض ہے جو اس زمانے کے مستشرقین مغرب قرآن مجید کے خلاف پیش کرتے ہیں ۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عصر دشمنوں میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ تم بچپن میں بحیرا راہب سے جب ملے تھے اس وقت یہ سارے مضامین تم نے سیکھ لیے تھے ۔ اور نہ یہ کہا کہ جوانی میں جن تجارتی سفروں کے سلسلے میں تم باہر جایا کرتے تھے اس زمانے میں تم نے عیسائی راہبوں اور یہودی ربّیوں سے یہ معلومات حاصل کی تھیں ۔ اس لیے کہ ان سارے سفروں کا حال ان کو معلوم تھا۔ یہ سفر اکیلے نہیں ہوۓ تھے ، ان کے اپنے قافلوں کے ساتھ ہوۓ تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان میں کچھ سیکھ آنے کا الزام ہم لگائیں گے تو ہمارے اپنے ہی شہر میں سیکڑوں زبانیں ہم کو جھٹلا دیں گی۔ اس کے علاوہ مکے کا ہر عام آدمی پوچھے گا کہ اگر یہ معلومات اس شخص کو بارہ تیرہ برس کی عمر ہی میں بحیر اسے حاصل ہو گئی تھیں ، یا 25 برس کی عمر سے ، جب کہ اس نے تجارتی سفر شروع کیے تھے ، حاصل ہونی شروع ہو گئی تھیں ، تو آخر یہ شخص کہیں باہر تو نہیں رہتا تھا، ہمارے ہی درمیان رہتا بستا تھا، کیا وجہ ہے کہ چالیس برس کی عمر تک اس کا یہ سارا علم چھپا رہا اور کبھی ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ایسا نہ نکلا جو اس علم کی غمازی کرتا؟ یہی وجہ ہے کہ کفار مکہ نے اتنے سفید جھوٹ کی جرأت نہ کی اور اسے بعد کے زیادہ بے حیا لوگوں کے لیے چھوڑ دیا ۔ وہ جو بات کہتے تھے وہ نبوت سے پہلے کے متعلق نہیں بلکہ دعواۓ نبوت کے زمانے کے متعلق تھی ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ شخص ان پڑھ ہے ۔ خود مطالعہ کر کے نئی معلومات حاصل کر نہیں سکتا ۔ پہلے اس نے کچھ سیکھا نہ تھا۔ چالیس برس کی عمر تک ان باتوں میں سے کوئی بات بھی نہ جانتا تھا جو آج اس کی زبان سے نکل رہی ہیں ۔ اب آخر یہ معلومات آ کہاں ے رہی ہیں ؟ ان کا سرچشمہ لامحالہ کچھ اگلے لوگوں کی کتابیں ہیں جن کے اقتباسات راتوں کو چپکے چپکے ترجمہ اور نقل کراۓ جاتے ہیں ، انہیں کسی سے یہ شخص پڑھوا کر سنتا ہے ، اور پھر انہیں یاد کر کے ہمیں دن کو سنا تا ہے ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں وہ چند آدمیوں کے نام بھی لیتے تھے جو اہل کتاب تھے ، پڑھے 6 لکھے تھے ، اور مکہ میں رہتے تھے ، یعنی عدّ اس (حُوَیطِب بن عبد العزّیٰ کا آزاد کر دہ غلام) یَسَار (علاء بن الحضرمی کا آزاد کردہ غلام) اور جَبرْ (عامر بن ربیعہ کا آزاد کر دہ غلام ) ۔ 
بہ ظاہر بڑا وزنی اعتراض معلوم ہوتا ہے ۔ وحی کے دعوے کو رد کرنے کے لیے نبی کے مآخذِ علم کی نشان دہی کر دینے سے بڑھ کر اور کونسا اعتراض وزنی ہو سکتا ہے ۔ مگر آدمی پہلی ہی نظر میں یہ دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ جواب میں سے کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہہ کر بات ختم کر دی گئی کہ تم صداقت پر ظلم کر رہے ہو، صریح بے انصافی کی بات کہہ رہے ہو، سخت جھوٹ کا طوفان اُٹھا رہے ہو، یہ تو اس خدا کا کلام ہے جو آسمان و زمین کا بھید جانتا ہے ۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سخت مخالفت کے ماحول میں ایسا زوردار اعتراض پیش کیا جاۓ اور اس کو یوں حقارت سے رد کر دیا جاۓ ؟ کیا واقعی یہ ایسا ہی پوچ اور بے وزن اعتراض تھا ، کہ اس کے جواب میں بس ’’جھوٹ اور ظلم‘‘ کہہ دینا کافی تھا؟ آخر وجہ کیا ہے کہ اس مختصر سے جواب کے بعد نہ عوام نے کسی تفصیلی اور واضح جواب کا مطالبہ کیا، نہ نۓ نۓ ایمان لانے والوں کے دلوں میں کوئی شک پیدا ہوا، اور نہ مخالفین ہی میں سے کسی کو یہ کہنے کی ہمت ہوئی کہ دیکھو، ہمارے اس وزنی اعتراض کا جواب بن نہیں پڑ رہا ہے اور محض جھوٹ اور ظلم کہہ کر بات ٹالی جا رہی ہے ؟۔ 
اس گتھی کا حل ہمیں اسی ماحول سے مل جاتا ہے جس میں مخالفین اسلام نے یہ اعتراض کیا تھا:
پہلی بات یہ تھی کہ مکے کے وہ ظالم سردار جو ایک ایک مسلمان کو مارتے کوٹتے اور تنگ کرتے پھر رہے تھے ، ان کے لیے یہ بات کچھ بھی مشکل نہ تھی کہ جن جن لوگوں کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ پرانی پرانی کتابوں کے ترجمے کر کر کے محمدؐ کو یاد کرایا کرتے ہیں ، ان کے گھروں پر اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر پر چھاپے مارتے اور وہ سارا ذخیرہ برآمد کر کے پبلک کے سامنے لا رکھتے جو ان کے زعم میں اس کام کے لیے فراہم کیا گیا تھا۔ وہ عین اس وقت چھاپا مار سکتے تھے جب کہ یہ کام کیا جا رہا ہو اور ایک مجمع کو دکھا سکتے تھے کہ لو دیکھو، یہ نبوت کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔ بلالؓ کو تپتی ہوئی ریت پر گھسیٹنے والوں کے لیے ایسا کرنے میں کوئی آئین و ضابطہ مانع نہ تھا، اور ایسا کر کے وہ ہمیشہ کے لیے نبوت محمدی کے خطرے کو مٹا سکتے تھے ۔ مگر وہ بس زبانی اعتراض ہی کرتے رہے اور ایک دن بھی یہ فیصلہ کن قدم اٹھا کر انہوں نے نہ دکھایا ۔ 
دوسری بات یہ تھی کہ اس سلسلے میں وہ جن لوگوں کے نام لیتے تھے وہ کہیں باہر کے نہ تھے ، اسی شہر مکہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی قابلیتیں کسی سے چھپی ہوئی نہ تھیں ۔ ہر شخص جو تھوڑی سی عقل بھی رکھتا تھا، یہ دیکھ سکتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو چیز پیش کر رہے ہیں وہ کس پاۓ کی ہے ، کس شان کی زبان ہے ، کس مرتبے کا ادب ہے ، کیا زور کلام ہے ، کیسے بلند خیالات اور مضامین ہیں ، اور وہ کس درجے کے لوگ ہیں جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محمدؐ ان سے یہ سب کچھ حاصل کر کر کے لا رہے ہیں ۔ اسی وجہ سے کسی نے بھی اس اعتراض کو کوئی وزن نہ دیا ۔ ہر شخص سمجھتا تھا کہ ان باتوں سے بس دل کے جلے پھپھولے پھوڑے جا رہے ہیں اور نہ اس قول میں کسی شبہ کے قابل بھی جان نہیں ہے ۔ جو لوگ ان اشخاص سے واقف نہ تھے وہ بھی آخر اتنی ذرا سی بات تو سوچ سکتے کہ اگر یہ لوگ ایسی ہی قابلیت رکھتے تھے تو آخر انہوں نے خود اپنا چراغ کیوں نہ جلایا؟ ایک دوسرے شخص کے چراغ کو تیل مہیا کرنے کی انہیں ضرورت کیا پڑی تھی؟ اور وہ بھی چپکے چپکے کہ اس کام کی شہرت کا ذرا سا حصہ بھی ان کو نہ ملے ؟ 
تیسری بات یہ تھی کہ وہ سب اشخاص ، جن کا اس سلسلے میں نام لیا جا رہا تھا، بیرونی ممالک سے آۓ ہوۓ غلام تھے جن کو ان کے مالکوں نے آزاد کر دیا تھا۔ عرب کی قبائلی زندگی میں کوئی شخص بھی کسی طاقت ور قبیلے کی حمایت کے بغیر نہ جی سکتا تھا۔ آزاد ہو جانے پر بھی غلام اپنے سابق مالکوں کے سِلاء (سرپرستی) میں رہتے تھے اور ان کی حمایت ہی معاشرے میں ان کے لیے زندگی کا سہارا ہوتی تھی۔ اب یہ ظاہر بات تھی کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کی بدولت ، معاذ اللہ، ایک جھوٹی نبوت کی دکان چلا رہے تھے تو یہ لوگ کسی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ تو اس سازش میں آپ کے شریک نہ ہو سکتے تھے ۔ آخر ایسے شخص کے وہ مخلص رفیق کار اور سچے عقیدت مند کیسے ہو سکتے تھے جو رات کو انہی سے کچھ باتیں سیکھتا ہو اور دن کو دنیا بھی کے سامنے یہ کہہ کر پیش کرتا ہو کہ یہ خدا کی طرف سے مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ۔ اس لیے ان کی شرکت کسی لالچ اور کسی غرض ہی کی بنا پر ہو سکتی تھی۔ مگر کون صاحب عقل و ہوش آدمی یہ باور کر سکتا تھا کہ یہ لوگ خود اپنے سر پرستوں کو ناراض کر کے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے قوم کی دشمنی کے ہدف آدمی کے ساتھ مل جاتے اور اپنے سرپرستوں سے کٹ جانے کے نقصان کو ایسے مصیبت زدہ آدمی سے حاصل ہونے والے کسی فائدے کی امید پر گوارا کر لیتے ؟ پھر یہ بھی سوچنے کی بات تھی کہ انکے سرپرستوں کو یہ موقع تو آخر حاصل ہی تھا کہ مار کوٹ کر ان سے سازش کا اقبال کرا لیں ۔ اس موقع سے انہوں نے کیوں نہ فائدہ اٹھایا اور کیوں نہ ساری قوم کے سامنے خود انہی سے یہ اعتراف کروا لیا کہ ہم سے سیکھ سیکھ کر یہ نبوت کی دکان چمکائی جا رہی ہے ؟ 
سب سے عجیب بات یہ تھی کہ وہ سب محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لاۓ اور اس ضرب المثل عقیدت میں شامل ہوۓ جو صحابہ کرام آنحضورؐ کی ذات مقدس سے رکھتے تھے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ بناؤٹی اور سازشی نبوت پر خود ہی لوگ ایمان لائیں اور گہری عقیدت کے ساتھ ایمان لائیں جنہوں نے اس کے نانے کی سازش میں کود حصہ لیا ہو؟ اور بالفرض اگر یہ ممکن بھی تھا تو ان لوگوں کو ہل ایمان کی جماعت میں کوئی نمایاں مرتبہ تو ملا ہوتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نبوت کا کاروبار تو چلے عَدّاس اور یَسار اور جبر کے بل بوتے پر، اور نبی کے دست بنیں ابوبکر ور عمر اور ابو عبیدہ۔ 
اسی طرح یہ بات بھی بڑی تعجب انگیز تھی کہ اگر چند آدمیوں کی مدد سے راتوں کو بیٹھ بیٹھ کر نبوت کے اس کاروبار کا مواد تیار کیا جاتا تھا تو وہ زید بن حارثہ، علی بن ابی طالب، ابو بکر صدیق اور دوسرے ان لوگوں سے کس طرح چھپ سکتا تھا جو شب و روز محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ لگے رہتے تھے ؟ اس الزام میں براۓ نام بھی شائبہ صداقت ہوتا تو کیسے ممکن تھا کہ یہ لوگ اس قدر خلوص کے ساتھ حضور پر ایمان لاتے اور آپ ہی نے وزن تھا۔ اس لیے قرآن میں اس کو کسی وزنی اعتراض کی حیثیت سے ، جواب دینے کی خاطر نقل نہیں کیا گیا ہے ، بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا بلکہ یہ بتانے کی خاطر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ دیکھو، حق کی دشمنی میں یہ لوگ کیسے اندھے ہو گۓ ہیں، اور کس قدر صریح جھوٹ اور بے انصافی پر اتر آۓ ہیں ۔

13 ۔ اس جگہ یہ فقرہ بڑا معنی خیز ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا شان ہے خدا کی رحیمی و غفاری کی، جو لوگ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ایسے ایسے جھوٹ کے طوفان اٹھاتے ہیں ان کو بھی ہو ملت دیتا ہے اور سنتے ہی عذاب کا کوڑا نہیں برسا دیتا ۔ اس تنبیہ کے ساتھ اس میں ایک پہلو تلقین کا بھی ہے کہ ظالمو، اب بھی اگر اپنے عناد سے باز آ جاؤ اور حق بات کو سیدھے طرح مان لو تو جو کچھ آج تک کرتے رہے ہو وہ سب معاف ہو سکتا ہے