تفہیم القرآن

سورة البَقَرَة

نام اور وجہ تسمیہ

اس سورت کا نام "بقرہ" اس لیے ہے کہ اس میں ایک جگہ گائے کا ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید کی ہر سورت میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کئے جا سکتے۔ عربی زبان اگرچہ لغت کے اعتبار سے نہایت مالدار ہے مگر بہرحال ہے تو انسانی زبان ہی۔ انسان جو زبانیں بولتا ہے وہ اس قدر تنگ اور محدود ہیں کہ وہ ایسے الفاظ یا فقرے فراہم نہیں کر سکتیں جو ان وسیع مضامین کے لئے جامع عنوان بن سکتے ہوں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے قرآن کی بیشتر سورتوں کے لیے عنوانات کے بجائے نام تجویز فرمائے جو محض علامت کا کام دیتے ہیں۔ اس سورت کو بقرہ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں گائے کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ "وہ سورت جس میں گائے کا ذکر آیا ہے "۔

زمانۂ نزول

اس سورت کا بیشتر حصہ ہجرت مدینہ کے بعد مدنی زندگی کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوا ہے اور کمتر حصہ ایسا ہے جو بعد میں نازل ہوا اور مناسبت مضمون کے لحاظ سے اس میں شامل کر دیا گیا۔ حتیٰ کہ سود کی ممانعت کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وہ بھی اس میں شامل ہیں حالانکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی کے بالکل آخری زمانے میں اتری تھیں۔ سورت کا خاتمہ جن آیات پر ہوا ہے وہ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہو چکی تھیں مگر مضمون کی مناسبت سے ان کو بھی اس سورت میں ضم کر دیا گیا۔

شان نزول

اس سورت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس کا تاریخی پس منظر اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے :

 

    * ہجرت سے قبل جب تک مکہ میں اسلام کی دعوت دی جاتی رہی خطاب بیشتر مشرکین عرب سے تھا جن کے لئے اسلام کی اواز ایک نئی اور غیر مانوس آواز تھی۔ اب ہجرت کے بعد سابقہ یہودیوں سے پیش آیا جن کی بستیاں مدینے سے بالکل متصل ہی واقع تھیں۔ یہ لوگ توحید، رسالت، وحی، آخرت اور ملائکہ کے قائل تھے،  اس ضابطۂ شرعی کو تسلیم کرتے تھے جو خدا کی طرف سے ان کے نبی موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا اور اصولاً ان کا دین وہی اسلام تھا جس کی تعلیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دے رہے تھے لیکن صدیوں کے مسلسل انحطاط نے ان کو اصل دین سے بہت دور ہٹا دیا تھا۔ ان کے عقائد میں بہت سے غیر اسلامی عناصر کی آمیزش ہو گئی تھی جن کے لئے تورات میں کوئی سند موجود نہ تھی۔ ان کی عملی زندگی میں بکثرت ایسے رسوم اور طریقے رواج پا گئے تھے جو اصل دین میں نہ تھے اور جن کے لیے تورات میں کوئی ثبوت نہ تھا۔ خود تورات کو انہوں نے انسانی کلام کے اندر خلط ملط کر دیا تھا اور خدا کا کلام جس حد تک لفظاً یا  معنیً محفوظ تھا اس کو بھی انہوں نے اپنی من مانی تاویلوں اور تفسیروں سے مسخ کر رکھا تھا۔ دین کی حقیقی روح ان میں سے نکل چکی تھی اور ظاہری مذہبیت کا محض ایک بے جان ڈھانچہ باقی تھا جس کو وہ سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ ان کے علماء اور مشائخ، ان کے سردارانِ قوم اور ان کے عوام، سب کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی حالت بگڑ گئی تھی اور اپنے اس بگاڑ سے ان کو اتنی محبت تھی کہ وہ کسی اصلاح کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے۔ صدیوں سے مسلسل ایسا ہو رہا تھا کہ جب کوئی اللہ کا بندہ انہیں دین کا سیدھا راستہ بتانے آتا تو وہ اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے اور ہر ممکن طریقے سے کوشش کرتے تھے کہ وہ کسی طرح اصلاح میں کامیاب نہ ہو سکے۔ یہ لوگ حقیقت میں بگڑے ہوئے مسلمان تھے جن کے ہاں بدعتوں اور تحریفوں،  موشگافیوں اور فرقہ بندیوں،  استخواں گیری و مغز افگنی، خدا فراموشی و دنیا پرستی کی بدولت انحطاط اس حد کو پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنا اصل نام "مسلم" تک بھول گئے تھے،  محض "یہودی" بن کر رہ گئے تھے اور اللہ کے دین کو انہوں نے محض نسل اسرائیل کی آبائی وراثت بنا کر رکھ دیا تھا۔ پس جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ ان کو اصل دین کی طرف دعوت دیں چنانچہ سورۂ بقرہ کے ابتدائی پندرہ سولہ رکوع اسی دعوت پر مشتمل ہیں ان میں یہودیوں کی تاریخ اور ان کی اخلاقی و مذہبی حالت پر جس طرح تنقید کی گئی ہے اور جس طرح ان کے بگڑے ہوئے مذہب و اخلاق کی نمایاں خصوصیات کے مقابلے میں حقیق دین کے اصول پہلو بہ پہلو پیش کیے گئے ہیں،  اس سے یہ بات بالکل آئینے کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ایک پیغمبر کی امت کے بگاڑ کی نوعیت کیا ہوتی ہے،  رسمی دینداری کے مقابلے میں حقیقی دینداری کس چیز کا نام ہے،  دینِ حق کے بنیادی اصول کیا ہیں اور خدا کی نگاہ میں اصل اہمیت کن چیزوں کی ہے۔

 

    * مدینہ پہنچ کر اسلامی دعوت ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی مکے میں تو معاملہ صرف اصول دین کی تبلیغ اور دین قبول کرنے والوں کی اخلاقی تربیت تک محدود تھا مگر جب ہجرت کے بعد عرب کے مختلف قبائل کے وہ سب لوگ جو اسلام قبول کر چکے تھے،  ہر طرف سے سمٹ کر ایک جگہ جمع ہونے لگے اور انصار کی مدد سے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑ گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمدن، معاشرت، معیشت، قانون اور سیاست کے متعلق بھی اصول ہدایات دینی شروع کیں اور یہ بتایا کہ اسلام کی اساس پر یہ نیا نظامِ زندگی کس طرح تعمیر کیا جائے۔ اس سورت کے آخری ۲۳ رکوع زیادہ تر انہی ہدایات پر مشتمل ہیں جن میں اکثر ابتدا ہی میں بھیج دی گئی تھیں اور بعض متفرق طور پر حسب ضرورت بعد میں بھیجی جاتی رہیں

 

    * ہجرت کے بعد اسلام اور کفر کی کشمکش بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ ہجرت سے پہلے اسلام کی دعوت خود کفر کے گھر میں دی جا رہی تھی اور متفرق قبائل میں سے جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے وہ اپنی اپنی جگہ رہ کر ہی دین کی تبلیغ کرتے رہو جواب میں مصائب اور مظالم کے تختۂ مشق بنتے تھے مگر ہجرت کے بعد جب یہ منتشر مسلمان مدینہ میں جمع ہو کر ایک جتھا بن گئے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی آزاد ریاست قائم کر لی تو صورتحال یہ ہو گئی ایک طرف ایک چھوٹی سی بستی تھی اور دوسری طرف تمام عرب اس کا استیصال کر دینے پر تلا ہوا تھا۔ اب اس مٹھی بھر جماعت کی کامیابی کا ہی نہیں بلکہ اس کے وجود و بقا کا انحصار بھی اس بات پر تھا کہ اولاً وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مسلک کی تبلیغ کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا ہم عقیدہ بنانے کی کوشش کرے۔ ثانیاً وہ مخالفین کا برسرِ باطل ہونا اس لئے ثابت کر دے کہ کسی ذی عقل انسان کو اس میں شبہ نہ رہے۔ ثالثاً بے خان و ماں ہونے اور تمام ملک کی عداوت و مزاحمت سے دوچار ہونے کی بنیاد پر فقر و فاقہ اور ہمہ وقت بے امنی و بے اطمینانی کی جو حالت ان پر طاری ہو گئی تھی اور جن خطرات میں چاروں طرف سے گھر گئے تھے ان میں وہ ہراساں نہ ہوں،  بلکہ پورے صبر و ثبات کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کریں اور اپنے عزم میں ذرا تزلزل نہ آنے دیں۔ رابعاً وہ پوری دلیری کے ساتھ ہر اس مسلح مزاحمت کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں جو ان کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے کسی طاقت کی طرف سے کی جائے اور اس بات کی ذرا پروا نہ کریں کہ مخالفین کی تعداد اور ان کی مادی طاقت کتنی زیادہ ہے۔ خامساً ان میں اتنی ہمت پیدا کی جائے کہ اگر عرب کے لوگ اس نئے نظام کو، جو اسلام قائم کرنا چاہتا تھا، فہمائش سے قبول نہ کریں،  تو انہیں جاہلیت کے فاسد نظام زندگی کو بزور مٹا دینے میں بھی تامل نہ ہو۔اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں ان پانچوں امور کے متعلق ابتدائی ہدایات دی ہیں۔

 

    * دعوت اسلامی کے اس مرحلے میں ایک نیا عنصر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گیا تھا اور یہ منافقین کا عنصر تھا۔ اگرچہ نفاق کے ابتدائی آثار مکہ کے آخری زمانے میں بھی نمایاں ہونے لگے تھے مگر وہاں صرف اس قسم کے منافق پائے جاتے تھے جو اسلام کے برحق ہونے کے تو معترف تھے اور ایمان کا اقرار بھی کرتے تھے لیکن اس ک لئے تیار نہ تھے کہ اس حق کی خاطر اپنے مفاد کی قربانی اور اپنے دنیوی تعلقات کا انقطاع اور ان مصائب و شدائد کو بھی برداشت کر لیں جو اس مسلک حق کو قبول کرنے کے ساتھ ہی نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ مدینہ پہنچ کر اس قسم کے منافقین کے علاوہ چند اور قسم کے منافق بھی اسلامی جماعت میں پائے جانے لگے۔ ایک قسم کے منافق وہ تھے جو قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض فتنہ برپا کرنے کے لیے جماعت مسلمین میں داخل ہو جاتے تھے۔ دوسری قسم کے منافق وہ تھے جو اسلامی جماعت کے دائرۂ اقتدار میں گھر جانے کی وجہ سے اپنا مفاد اسی میں دیکھتے تھے کہ ایک طرف مسلمانوں میں بھی اپنا شمار کرائیں اور دوسری طرف مخالفینِ سے بھی ربط رکھیں تاکہ دونوں طرف کے فوائد سے متمتع ہوں اور دونوں طرف کے خطرات سے محفوظ رہیں۔ تیسری قسم ان لوگوں کی تھی جو اسلام اور جاہلیت کے متردد تھے۔ انہیں اسلام کے برحق ہونے پر کامل اطمینان نہ تھا مگر چونکہ ان کے قبیلے اور خاندان کے بیشتر لوگ مسلمان ہو چکے تھے اس لئے یہ بھی مسلمان ہو گئے۔ چوتھی قسم میں وہ لوگ شامل تھے جو امرِ حق کی حیثیت سے تو اسلام کے قائل ہو چکے تھے مگر جاہلیت کے طریقے اور اوہام اور رسومات چھوڑنے اور اخلاقی پابندیاں قبول کرنے اور فرائض و ذمہ داریوں کا بار اٹھانے سے ان کا نفس انکار کرتا تھا۔

 

سورہ بقرہ کے نزول کے وقت ان مختلف اقسام کے منافقین کے ظہور کی محض ابتدا تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صرف اجمالی اشارات فرمائے بعد میں جتنی جتنی ان کی صفات اور حرکات نمایاں ہوتی گئیں اسی قدر تفصیل کے ساتھ بعد کی سورتوں میں ہر قسم کے منافقین کے متعلق ان کی نوعیت کے لحاظ سے الگ الگ ہدایات بھیجی گئیں۔

ترجمہ و تفسیر

الف،لام،میم ۱ یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ۲ ہے۔ہدایت ہے اُن پرہیزگاروں کے ۳ لئے  جو غیب پر ایمان لاتے ۴ ہیں،نماز قائم کرتے ہیں ۵،جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۶، جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں ۷، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۸، ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے ) انکار کر دیا،۹ اُن کے لئے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو،بہر حال وہ ماننے والے نہیں۔ اللہ نے اُن کے دلوں اور ان کے کانوں پر مُہر لگا دی ہے ۱۰ اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ ؏١

 

۱-یہ حرُوف ِ مُقَطعَات قرآن مجید کی بعض سُورتوں کے آغاز میں پائے جاتے ہیں۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا ہے اُس دَور کے اسالیبِ بیان میں اس طرح کے حُرُوف ِمُقطعات کا استعمال عام طور پر معروف تھا۔ خطیب اور شعراء دونوں اِس اُسْلوب سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ اب بھی کلامِ جاہلیّت کے جو نمونے محفوظ ہیں ان میں اس کی مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ اِس استعمال عام کی وجہ سے یہ مُقطعات کوئی چیستا ں نہ تھے جس کو بولنے والے کے سوا کوئی نہ سمجھتا ہو، بلکہ سامعین بالعموم جانتے تھے کہ ان سے مراد کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے خلاف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم عصر مخالفین میں سے کسی بے بھی یہ اعتراض کبھی نہیں کیا کہ یہ بے معنی حروف کیسے ہیں جو تم بعض سُورتوں کی ابتداء میں بولتے ہو۔ اور یہی وجہ ہے کہ صحابۂ  کرام سے بھی ایسی کوئی روایت منقول نہیں ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کے معنی پوچھے ہوں۔ بعد میں اُسلوب عربی زبان میں متروک ہوتا چلا گیا اور اس بنا پر مفسّرین کے لیے ان کے معانی متعیّن کرنا مشکل ہو گیا۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ نہ تو ان حُرُوف کا مفہُوم سمجھنے پر قرآن سے ہدایت حاصل کرنے کا انحصار ہے۔ اور نہ یہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے معنی نہ جانے گا تو اس کے راہِ راست پانے میں کوئی نقص رہ جائے گا۔ لہٰذا ایک عام ناظر کے لیے کچھ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کی تحقیق میں سرگرداں ہو۔

۲-اس کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ ’’بیشک یہ اللہ کی کتاب ہے۔‘‘ مگر ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایسی کتاب ہے جس میں شک کی کوئی بات نہیں ہے۔ دُنیا میں جتنی کتابیں اُمورِ مابعد الطبیعت اور حقائق ِ ماوراء ادراک سے بحث کرتی ہیں وہ سب قیاس و گمان پر مبنی ہیں، اس لیے خود ان کے مصنّف بھی اپنے بیانات کے بارے میں شک سے پاک نہیں ہو سکتے خواہ وہ کتنے ہی یقین کا اظہار کریں۔ لیکن یہ ایسی کتاب ہے جو سراسر علمِ حقیقت پر مبنی ہے،  اس کا مصنف وہ ہے جو تمام حقیقتوں کا علم رکھتا ہے،  اس لیے فی الواقع اس میں شک کے لیے کوئی جگہ نہیں،  یہ دُوسری بات ہے کہ انسان اپنی نادانی کی بنا پر اس کے بیانات میں شک کریں۔

۳-یعنی یہ کتاب ہے تو سراسر ہدایت و رہنمائی،  مگر اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی میں چند صفات پائی جاتی ہوں۔ ان میں سے اوّلین صِفت یہ ہے کہ آدمی ’’ پرہیزگار‘‘ ہو۔ بَھلائی اور بُرائی میں تمیز کرتا ہو۔ بُرائی سے بچنا چاہتا ہو۔ بَھلائی کا طالب ہو اور اس پر عمل کرنے کا خواہش مند ہو۔ رہے وہ لوگ، جو دُنیا میں جانوروں کی طرح جیتے ہوں جنہیں کبھی یہ فکر لاحق نہ ہوتی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ صحیح بھی ہے یا نہیں،  بس جدھر دنیا چل رہی ہو، یا جدھر خواہشِ نفس دھکیل دے،  یا جدھر قدم اُٹھ جائیں،  اسی طرف چل پڑتے ہوں، تو ایسے لوگوں کے لیے قرآن میں کوئی رہنمائی نہیں ہے۔

۴-یہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے کے لیے دُوسری شرط ہے۔ ’’غیب‘‘ سے مُراد وہ حقیقتیں ہیں جو انسان کے حواس سے پوشیدہ ہیں اور کبھی براہِ راست عام انسانوں کے تجربہ و مشاہدہ میں نہیں آتیں۔ مثلاً خدا کی ذات و صفات،  ملائکہ، وحی، جنّت، دوزخ وغیرہ۔ اِن حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا اور اس اعتماد پر ماننا کہ نبی ان کی خبر دے رہا ہے،  ایمان بالغیب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ان غیر محسوس حقیقتوں کو ماننے کے لیے تیار ہو صرف وہی قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ رہا وہ شخص جو ماننے کے لیے دیکھنے اور چکھنے اور سُونگھنے کی شرط لگائے،  اور جو کہے کہ میں کسی ایسی چیز کو نہیں مان سکتا جو ناپی اور تولی نہ جا سکتی ہو تو وہ اس کتاب سے ہدایت نہیں پا سکتا۔

۵-یہ تیسری شرط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صرف مان کر بیٹھ جانے والے ہوں وہ قرآن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد فوراً ہی عملی اطاعت کے لیے آمادہ ہو جائے۔ اور عملی اطاعت کی اوّلین علامت اور دائمی علامت نماز ہے۔ ایمان لانے پر چند گھنٹے بھی نہیں گزرتے کہ مُؤَذِّن نماز کے لیے پکارتا ہے اور اسی وقت فیصلہ ہو جاتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے والا اطاعت کے لیے بھی تیار ہے یا نہیں۔ پھر یہ مُؤَذِّن روز پانچ وقت پکارتا رہتا ہے،  اور جب بھی انسان اس کی پکار پر لبّیک نہ کہے اسی وقت ظاہر ہو جاتا ہے کہ مدّعی ایمان اطاعت سے خارج ہو گیا ہے۔ پس ترکِ نماز دراصل ترکِ اطاعت ہے،  اور ظاہر بات ہے کہ جو شخص کسی کی ہدایت پر کاربند ہونے کے لیے ہی تیار نہ ہو اُس کے لیے ہدایت دینا اور نہ دینا یکساں ہے۔

یہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اقامتِ صلوٰۃ ایک جامع اِصلاح ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرے،  بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی طور پر نماز کا نظام باقاعدہ قائم کیا جائے۔ اگر کسی بستی میں ایک ایک شخص انفرادی طور پر نماز کا پابند ہو، لیکن جماعت کے ساتھ اِس فرض کے ادا کرنے کا نظم نہ ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں نماز قائم کی جا رہی ہے۔

۶-یہ قرآن کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھانے کے لیے چوتھی شرط ہے کہ آدمی تنگ دل نہ ہو، زر پرست نہ ہو، اس کے مال میں خدا اور بندوں کے جو حقوق مقرر کیے جائیں اُنہیں ادا کرنے کے لیے تیار ہو، جس چیز پر ایمان لایا ہے اس کی خاطر مالی قربانی کرنے میں بھی دریغ نہ کرے۔

۷-یہ پانچویں شرط ہے کہ آدمی اُن تمام کتابوں کو برحق تسلیم کرے جو وحی کے ذریعے سے خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان سے پہلے کے انبیاء پر مختلف زمانوں اور ملکوں میں نازل کیں۔ اس شرط کی بنا پر قرآن کی ہدایت کا دروازہ اُن سب لوگوں پر بند ہے جو سرے سے اس ضرورت ہی کے قائل نہ ہوں کہ انسان کو خدا کی طرف سے ہدایت ملنی چاہیے،  یا اس ضرورت کے تو قائل ہوں مگر اس کے لیے وحی و رسالت کی طرف رجوع کرنا غیر ضروری سمجھتے ہوں اور خود کچھ نظریات قائم کر کے انہی کو خدائی ہدایت قرار دے بیٹھیں،  یا آسمانی کتابوں کے بھی قائل ہوں،  مگر صرف اُس کتاب یا اُن کتابوں پر ایمان لائیں جنہیں ان کے باپ دادا مانتے چلے آئے ہیں، رہیں اُسی سر چشمے سے نکلی ہوئی دُوسری ہدایات تو وہ اُن کو قبول کرنے سے انکار کر دیں۔ ایسے سب لوگوں کو الگ کر کے قرآن اپنا چشمۂ  فیض صرف اُن لوگوں کے لیے کھولتا ہے جو اپنے آپ کو خدائی ہدایت کا محتاج بھی مانتے ہوں، اور یہ بھی تسلیم کرتے ہوں کہ خدا کی یہ ہدایت ہر انسان کے پاس الگ الگ نہیں آتی بلکہ انبیاء اور کتبِ آسمانی کے ذریعے سے ہی خلق تک پہنچتی ہے،  اور پھر وہ کسی نسلی و قومی تعصّب میں بھی مُبتلا نہ ہوں بلکہ خالص حق کے پرستار ہوں، اس لیے حق جہاں جہاں جس شکل میں بھی آیا ہے اس کے آگے سر جھکا دیں۔

۸-یہ چھٹی اور آخری شرط ہے۔ ’’آخرت‘‘ ایک جامع لفظ ہے جس کا اطلاق بہت سے عقائد کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ اس میں حسبِ ذیل عقائد شامل ہیں:

(۱) یہ کہ انسان اِس دُنیا میں غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اپنے تمام اعمال کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔

(۲) یہ کہ دُنیا کا موجودہ نظام ابدی نہیں ہے بلکہ ایک وقت پر، جسے صرف خدا ہی جانتا ہے،  اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

(۳) یہ کہ اس عالم کے خاتمے کے بعد خدا ایک دُوسرا عالم بنائے گا اور اس میں پوری نوعِ انسانی کو جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک زمین پر پیدا ہوئی تھی، بیک وقت دوبارہ پیدا کرے گا، اور سب کو جمع کر کے ان کے اعمال کا حساب لے گا، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا پورا بدلہ دے گا۔

(۴) یہ کہ خدا کے اس فیصلے کی رُو سے جو لوگ نیک قرار پائیں گے وہ جنّت میں جائیں گے اور جو لوگ بد ٹھہریں گے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔

(۵) یہ کہ کامیابی و ناکامی کا اصلی معیار موجودہ زندگی کی خوشحالی و بدحالی نہیں ہے،  بلکہ در حقیقت کامیاب انسان وہ ہے جو خدا کے آخری فیصلے میں کامیاب ٹھہرے،  اور ناکام وہ ہے جو وہاں ناکام ہو۔

عقائد کے اِس مجموعے پر جن لوگوں کو یقین نہ ہو وہ قرآن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے،  کیونکہ ان باتوں کا انکار تو درکنار، اگر کسی کے دل میں ان کی طرف سے شک اور تذبذب بھی ہو، تو وہ اس راستہ پر نہیں چل سکتا جو انسانی زندگی کے لیے قرآن نے تجویز کیا ہے۔

۹-یعنی وہ چھ کی چھ شرطیں، جِن کا ذکر اُوپر ہوا ہے،  پوری نہ کیں، اور ان سب کو،  یا اِن میں سے کسی ایک کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

۱۰-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے مُہر لگا دی تھی، اِس لیے اُنہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کیا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب اُنہوں نے اُن بنیادی اُمور کو رد کر دیا جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے،  اور اپنے لیے قرآن کے پیش کردہ راستہ کے خلاف دُوسرا راستہ پسند کر لیا،  تو اللہ نے اُن کے دِلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی۔ اِس مُہر لگنے کی کیفیت کا تجربہ ہر اُس شخص کو ہو گا جسے کبھی تبلیغ کا اتفاق ہوا ہو۔ جب کوئی شخص آپ کے پیش کردہ طریقے کو جانچنے کے بعد ایک دفعہ رد کر دیتا ہے،  تو اس کا ذہن کچھ اس طرح مخالف سمت میں چل پڑتا ہے کہ پھر آپ کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی، آپ کی دعوت کے لیے اس کے کان بہرے،  اور آپ کے طریقے کی خوبیوں کے لیے اس کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، اور صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اس کے دل پر مُہر لگی ہوئی ہے۔

 

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں،حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں،مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعُور نہیں ہے ۱۱۔ ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا ۱۲ دیا،اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں،اس کی پاداش میں ان کے لئے درد ناک سزا ہے۔ جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو، تو اُنہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ خبردار!حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعُور نہیں۔ اور جب ان سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان ۱۳ لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان ۱۴ لائیں؟ خبردار ! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں،مگر یہ جانتے نہیں ہیں۔ جب یہ اہلِ ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، اور جب علیٰحدگی میں اپنے شیطانوں ۱۵ سے ملتے ہیں،تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمھارے ساتھ ہیں اور اُن لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں۔ اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسّی دراز کیے جاتا ہے،  اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بد لے گمراہی خرید لی ہے،  مگر یہ سودا ان کے لئے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہر گز صحیح راستے پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اُس نے سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نورِ بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ ۱۶ یہ بہرے ہیں،گونگے ہیں،اندھے ۱۷ ہیں،یہ اب نہ پلٹیں گے۔ یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ اندھیر ی گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے،  یہ بجلی کے کڑاکے سُن کے اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں اُنگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔۱۸ چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اُچک لے جائے گی۔جب ذرا کچھ روشنی انہیں محسُوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دُور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں ۱۹۔اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل سَلب کر لیتا،۲۰ یقیناً وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ؏۲

 

۱۱-یعنی وہ اپنے آپ کو اس غلط فہمی میں مُبتلا کر رہے ہیں کہ ان کی یہ منافقانہ روش ان کے لیے مفید ہو گی، حالانکہ دراصل یہ ان کو دُنیا میں بھی نقصان پہنچائے گی اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں ایک منافق چند روز کے لیے لوگوں کو دھوکا دے سکتا ہے مگر ہمیشہ اس کا دھوکا نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کی منافقت کا راز فاش ہو کر رہتا ہے۔ اور پھر معاشرے میں اس کی کوئی ساکھ باقی نہیں رہتی۔ رہی آخرت، تو وہاں ایمان کا زبانی دعویٰ کوئی قیمت نہیں رکھتا اگر عمل اس کے خلاف ہو۔

۱۲-بیماری سے مراد منافقت کی بیماری ہے۔ اور اللہ کے اس بیماری میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ منافقین کو ان کے نفاق کی سزا فوراً نہیں دیتا بلکہ انہیں ڈھیل دیتا ہے اور اس ڈھیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافق لوگ اپنی چالوں کو بظاہر کامیاب ہوتے دیکھ کر اور زیادہ مکمل منافق بنتے چلے جاتے ہیں۔

۱۳-یعنی جس طرح تمہاری قوم کے دُوسرے لوگ سچائی اور خلوص کے ساتھ مسلمان ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی اگر اسلام قبول کرتے ہو تو ایمانداری کے ساتھ سچے دل سے قبول کرو۔

۱۴-وہ اپنے نزدیک ان لوگوں کو بے وقوف سمجھتے تھے جو سچائی کے ساتھ اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو تکلیفوں اور مشقّتوں اور خطرات میں مُبتلا کر رہے تھے۔ ان کی رائے میں یہ سراسر احمقانہ فعل تھا کہ محض حق اور راستی کی خاطر تمام ملک کی دُشمنی مول لے لی جائے۔ ان کے خیال میں عقل مندی یہ تھی کہ آدمی حق اور باطل کی بحث میں نہ پڑے،  بلکہ ہر معاملے میں صرف اپنے مفاد کو دیکھے۔

۱۵-شیطان عربی زبان میں سرکش،  متمرّد اور شوریدہ سر کو کہتے ہیں۔ انسان اور جِنّ دونوں کے لیے یہ لفظ مستعمل ہوتا ہے۔ اگر چہ قرآن میں یہ لفظ زیادہ تر شیاطین جِنّ کے لیے آیا ہے،  لیکن بعض مقامات پر شیطان صفت انسانوں کے لیے بھی یہ استعمال کیا گیا ہے اور سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جا تا ہے کہ کہاں شیطان سے انسان مُراد ہیں اور کہاں جِنّ۔ اِس مقام پر شیاطین کا لفظ اُن بڑے بڑے سرداروں کے لیے استعمال ہوا ہے،  جو اس وقت اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔

۱۶-مطلب یہ ہے کہ جب ایک اللہ کے بندے نے روشنی پھیلائی اور حق کو باطل سے،  صحیح کو غلط سے،  راہِ راست کو گمراہیوں سے چھانٹ کر بالکل نمایاں کر دیا،  تو جو لوگ دیدہ ٴ بینا رکھتے تھے،  ان پر تو ساری حقیقتیں روشن ہو گئیں، مگر یہ منافق،  جو نفس پرستی میں اندھے ہو رہے تھے،  ان کو اس روشنی میں کچھ نظر نہ آیا۔’’ اللہ نے نورِ بصارت سلب کر لیا‘‘ کے الفاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ان کے تاریکی میں بھٹکنے کی ذمہ داری خود ان پر نہیں ہے۔ اللہ نورِ بصیرت اسی کا سلب کرتا ہے،  جو خود حق کا طالب نہیں ہوتا، خود ہدایت کے بجائے گمراہی کو اپنے لیے پسند کرتا ہے،  خود صداقت کا روشن چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ جب اُنہوں نے نورِ حق سے منہ پھیر کر ظلمتِ باطل ہی میں بھٹکنا چاہا تو اللہ نے انہیں اسی کی توفیق عطا فرما دی۔

۱۷-حق بات سُننے کے لیے بہرے،  حق گوئی کے لیے گونگے،  حق بینی کے لیے اندھے۔

۱۸-یعنی کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس کر وہ اپنے آپ کو کچھ دیر کے لیے اس غلط فہمی میں تو ڈال سکتے ہیں کہ ہلاکت سے بچ جائیں گے مگر فی الواقع اس طرح وہ بچ نہیں سکتے کیونکہ اللہ اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ ان پر محیط ہے۔

۱۹-پہلی مثال اُن منافقین کی تھی جو دل میں قطعی منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دُوسری مثال اُن کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعفِ ایمان میں مبتلا تھے،  کچھ حق کے قائل بھی تھے،  مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھی برداشت کر جائیں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مُراد مشکلات و مصائب کا وہ، ہُجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آ رہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے تو یہ چل پڑتے ہیں،  اور جب مشکلات کے دَلْ بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّبات ِ جاہلیت پر ضرب پڑتی ہے،  تو ٹھِٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔

۲۰-یعنی جس طرح پہلی قسم کے منافقین کا نورِ بصیرت اس نے بالکل سَلب کر لیا، اسی طرح اللہ ان کو بھی حق کے لیے اندھا بہرا بنا سکتا تھا۔ مگر اللہ کا یہ قاعدہ نہیں ہے کہ جو کسی حد تک دیکھنا اور سُننا چاہتا ہو، اسے اُتا بھی نہ دیکھنے سُننے دے۔ جس قدر حق دیکھنے اور حق سُننے کے لیے یہ تیار تھے،  اسی قدر سماعت و بصارت اللہ نے ان کے پاس رہنے دی۔

 

لوگو،۲۱ بندگی اختیار کرو اپنے اُس ربّ کی جو تمھارا اور تم سے پہلے لوگ ہو گزرے ہیں اُن سب کا خالِق ہے،  تمھارے بچنے کی توقع اِسی ۲۲ صورت سے ہو سکتی ہے۔ وُہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اُوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمھارے لیے رزق بہم پہنچایا۔پس تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابِل نہ ٹھہراؤ۔ ۲۳ اور اگر تمھیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے، یہ ہماری ہے یا نہیں،تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ،اپنے سارے ہم نواؤں کو بُلا لو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لے لو،اگر تم سچے ہو تو یہ کام کر کے دکھاؤ۔ ۲۴ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، اور یقیناً کبھی نہیں کر سکتے، تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر ۲۵، جو مہیّا کی گئی ہے منکرینِ حق کے لیے۔ اور اے پیغمبر،جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں،انہیں خوشخبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں،جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ان باغوں کے پھل صورت میں دُنیا کے پھلوں سے مِلتے جُلتے ہوں گے۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دُنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے۔ان ۲۶ کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی،اور ۲۷ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے۔ ہاں،  اللہ اس سے ہر گز نہیں شرماتا کہ مچھّر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے۔۲۸ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں،وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے ربّ ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہے،  وہ انہیں سُن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے۔۲۹ اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کر تا ہے،  جو فاسق ہیں ۳۰، اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں،۳۱ اللہ نے جسے جوڑنے کا حکم دیا ہے اُسے کاٹتے ہیں،۳۲ اور زمین میں فساد بر پا کرتے ہیں۔۳۳ حقیقت میں یہ لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔ تم اللہ کے ساتھ کفر کا رویّہ کیسے اختیار کرتے ہو،حالانکہ تم بے جان تھے، اُس نے تم کو زندگی عطا کی،پھر وہی تمھاری جان سَلب کرے گا، پھر وہی تمہیں دوبارہ زندگی عطا کرے گا،پھر اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔ وہی تو ہے جس نے تمھارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں،پھر اُوپر کی طرف توجّہ فرمائی اور سات آسمان ۳۴ استوار کیے۔اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ۳۵ ؏۳

 

۲۱-اگرچہ قرآن کی دعوت تمام انسانوں کے لیے عام ہے،  مگر اس دعوت سے فائدہ اُٹھانا یا نہ اُٹھانا لوگوں کی اپنی آمادگی پر اور اس آمادگی کے مطابق اللہ کی توفیق پر منحصر ہے۔ لہٰذا پہلے انسانوں کے درمیان فرق کر کے واضح کر دیا گیا کہ کس قسم کے لوگ اس کتاب کی رہنمائی سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور کس قسم کے نہیں اُٹھا سکتے۔ اِس کے بعد اب تمام نوعِ انسانی کے سامنے وہ اصل بات پیش کی جاتی ہے،  جس کی طرف بُلانے کے لیے قرآن آیا ہے۔

۲۲-یعنی دُنیا میں غلط بینی و غلط کاری سے اور آخرت میں خدا کے عذاب سے بچنے کی توقع۔

۲۳-یعنی جب تم خود بھی اِس بات کے قائل ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ یہ سارے کام اللہ ہی کے ہیں، تو پھر تمہاری بندگی اسی کے لیے خاص ہونی چاہیے،  دُوسرا کون اس کا حق دار ہو سکتا ہے کہ تم اس کی بندگی بجا لاؤ ؟ دُوسروں کو اللہ کا مدِّ مقابل ٹھہرانے سے مُراد یہ ہے کہ بندگی و عبادت کی مختلف اقسام میں سے کسی قسم کا رویّہ خدا کے سوا دُوسروں کے ساتھ برتا جائے۔ آگے چل کر خود قرآن ہی سے تفصیل کے ساتھ معلوم ہو جائے گا کہ عبادت کی وہ اقسام کون کون سی ہیں جنہیں صِرف اللہ کے لیے مخصوص ہونا چاہیے اور جن میں دُوسروں کی شریک ٹھہرانا وہ ’’ شرک‘‘ ہے،  جسے روکنے کے لیے قرآن آیا ہے۔

۲۴-اِس سے پہلے مکّے میں کئی بار یہ چیلنج دیا جا چکا تھا کہ اگر تم اِس قرآن کو انسان کی تصنیف سمجھتے ہو، تو اس کے مانند کوئی کلام تصنیف کر کے دکھا ؤ۔ اب مدینے پہنچ کر پھر اس کا اِعادہ کیا جا رہا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ یونس، آیت ۴۸ و سُورۂ ہُود،  آیت ۱۳۔ بنی اسرائیل،  آیت ۸۸۔ الطور، آیت ۲۳۔۳۴)

۲۵-اِس میں یہ لطیف اشارہ ہے کہ وہاں صرف تم ہی دوزخ کا ایندھن نہ بنو گے،  بلکہ تمہارے وہ بُت بھی وہاں تمہارے ساتھ ہی موجود ہوں گے جنہیں تم نے اپنا معبُود و مسجُود بنا رکھا ہے۔ اس وقت تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ خدائی میں یہ کتنا دخل رکھتے تھے۔

۲۶-یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے،  جِن سے وہ نا مانوس ہوں۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دُنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا۔ مگر مزے میں دُنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہو گی۔

۲۷-عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے،  جس کے معنی ہیں ’’جوڑے ‘‘۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ’’زوج ‘‘ ہے اور بیوی کے شوہر ’’زوج‘‘۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دُنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے،  تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں وہ اِس بُرے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا۔

۲۸-یہاں ایک اعتراض کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے۔ قرآن میں متعدّد مقامات پر توضیح مدّعا کے لیے مکڑی،  مکھّی، مچھّر وغیرہ کی جو تمثیلیں دی گئی ہیں،  اُن پر مخالفین کو اعتراض تھا کہ یہ کیسا کلامِ الٰہی ہے،  جس میں ایسی حقیر چیزوں کی تمثیلیں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ اگر یہ خدا کا کلام ہوتا تو اس میں یہ فضولیات نہ ہوتیں۔

۲۹-یعنی جو لوگ بات کو سمجھنا نہیں چاہتے،  حقیقت کی جستجو ہی نہیں رکھتے،  اُن کی نگاہیں تو بس ظاہری الفاظ میں اٹک کر رہ جاتی ہیں اور وہ ان چیزوں سے اُلٹے نتائج نکال کر حق سے اَور زیادہ دُور چلے جاتے ہیں۔ بر عکس اس کے جو خود حقیقت کے طالب ہیں اور صحیح بصیرت رکھتے ہیں، ان کو اُنہی باتوں میں حکمت کے جوہر نظر آتے ہیں اور ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ ایسی حکیمانہ باتیں اللہ ہی کی طرف سے ہو سکتی ہیں۔

۳۰-فاسق: نافرمان، اطاعت کی حد سے نِکل جانے والا۔

۳۱-بادشاہ اپنے ملازموں اور رعایا کے نام جو فرمان یا ہدایت جاری کرتا ہے،  ان کو عربی محاورے میں عہد سے تعبیر کیا جاتا ہے،  کیونکہ ان کی تعمیل رعایا پر واجب ہوتی ہے۔ یہاں عہد کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اللہ کے عہد سے مراد اس کا وہ مستقل فرمان ہے،  جس کی رُو سے تمام نوعِ انسانی صرف اسی کی بندگی،  اطاعت اور پرستش کرنے پر مامور ہے۔ ’’مضبُوط باندھ لینے کے بعد‘‘ سے اشارہ اس طرف ہے کہ آدم کی تخلیق کے وقت تمام نوعِ انسانی سے اس فرمان کی پابندی کا اقرار لے لیا گیا تھا۔ سُورہ ء اعراف،  آیت ۱۷۲ میں اس عہد و اقرار پر نسبتًہ زیادہ تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

۳۲-یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے،  اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے،  ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدّن و اخلاق کی پوری دُنیا پر،  جو دو آدمیوں کے تعلق سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلّقات تک پھیلی ہوئی ہے،  صرف یہی ایک جملہ حاوی ہو جاتا ہے۔ روابط کو کاٹنے سے مُراد محض تعلّقاتِ انسانی کا اِنقطاع ہی نہیں ہے،  بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صُورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی، وہ سب اسی ذیل میں آ جائیں گی، کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے،  جو قطعِ روابط کا ہے،  یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظامِ اخلاق و تمدّن کی بردباری۔

۳۳-ان تین جُملوں میں فسق اور فاسق کی مکمل تعریف بیان کر دی گئی ہے۔ خدا اور بندے کے تعلق اور انسان اور انسان کے تعلق کو کاٹنے یا بگاڑنے کا لازمی نتیجہ فساد ہے،  اور جو اس فساد کو برپا کرتا ہے،  وہی فاسق ہے۔

۳۴-سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے،  اس کا تعیّن مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان، یا با لفاظِ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصوّرات قائم کرتا رہا ہے،  جو برابر بدلتے رہے ہیں۔ لہٰذا اُن میں سے کسی تصوّر کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہُوم متعین کرنا صحیح نہ ہو گا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماوراء جس قدر کائنات ہے،  اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے،  یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے،  وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔

۳۵-اس فقرے میں دو اہم حقیقتوں پر مُتنبّہ فرمایا گیا ہے۔ ایک یہ کہ تم اس خدا کے مقابلے میں کفر و بغاوت کا رویّہ اختیار کرنے کی جُرأت کیسے کرتے ہو جو تمہاری تمام حرکات سے باخبر ہے،  جس سے تمہاری کوئی حرکت چھپی نہیں رہ سکتی۔ دوسرے یہ کہ جو خدا تمام حقائق کا عِلم رکھتا ہے،  جو درحقیقت علم کا سرچشمہ ہے،  اس سے منہ موڑ کر بجز اس کے کہ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکو اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ جب اس کے سوا علم کا اور کوئی منبع ہی نہیں ہے،  جب اس کے سوا اور کہیں سے وہ روشنی نہیں مل سکتی جس میں تم اپنی زندگی کا راستہ صاف دیکھ سکو، تو آخر اُس سے رُوگردانی کرنے میں کیا فائدہ تم نے دیکھا ہے ؟

 

۳۶ پھر ذرا اس وقت کا تصوّر کرو جب تمہارے ربّ نے فرشتوں ۳۷ سے کہا تھا کہ ’’میں زمین میں ایک خلیفہ ۳۸ بنانے والا ہوں‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟ ۳۹ آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۴۰‘‘ فرمایا ’’ میں جانتا ہوں،جو کچھ تم نہیں جانتے ۴۱‘‘ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے ۴۲،  پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا ’’ اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’ نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں،  جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔۴۳ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘ پھر اللہ نے آدم سے کہا ’’تم اِنہیں اِن چیزوں کے نام بتاؤ۔‘‘ جب اُس نے ان کو اُن سب کے نام بتا دیے ۴۴،تو اللہ نے فرمایا ’’میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں،جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو،  وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھُپاتے ہو، اُسے بھی میں جانتا ہوں۔‘‘ پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھُک جاؤ، تو سب ۴۵ جھُک گئے،  مگر ابلیس ۴۶ نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا۔۴۷
پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ’’تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا ۴۸، ورنہ ظالموں ۴۹ میں شمار ہو گے۔ آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی تر غیب دیکر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹایا اور انہیں اس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے۔ہم نے حکم دیا کہ ’’اب تم سب یہاں سے اُتر جاؤ،تم ایک دوسرے کے دُشمن ۵۰ ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے۔‘‘ اس وقت آدم نے اپنے ربّ سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی ۵۱، جس کو اس کے ربّ نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔۵۲ ہم نے کہا کہ ’’تم سب یہاں سے اُتر جاؤ۔۵۳ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے،  تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیر وی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا،  اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ۵۴، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں،جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘۵۵ ؏۴

 

۳۶-اُوپر کے رکوع میں بندگیِ ربّ کی دعوت اِس بُنیاد پر دی گئی تھی کہ وہ تمہارا خالق ہے،  پروردگار ہے،  اُسی کے قبضہ ء قدرت میں تمہاری زندگی و موت ہے،  اور جس کائنات میں تم رہتے ہو،  اس کا مالک و مدبّر وہی ہے،  لہٰذا اس کی بندگی کے سوا تمہارے لیے اور کوئی دُوسرا طریقہ صحیح نہیں ہو سکتا۔ اب اس رکوع میں وہی دعوت اس بُنیاد پر دی جا رہی ہے کہ اس دُنیا میں تم کو خدا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے،  خلیفہ ہونے کی حیثیت سے تمہارا فرض صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس کی بندگی کرو، بلکہ یہ بھی ہے کہ اس کی بھیجی ہوئی ہدایت کے مطابق کام کرو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے ازلی دشمن شیطان کے اشاروں پر چلے،  تو بدترین بغاوت کے مجرم ہو گے اور بدترین انجام دیکھو گے۔

اس سلسلے میں انسان کی حقیقت اور کائنات میں اس کی حیثیت ٹھیک ٹھیک بیان کر دی گئی ہے اور نوعِ انسانی کی تاریخ کا وہ باب پیش کیا گیا ہے جس کے معلوم ہونے کا کوئی دُوسرا ذریعہ انسان کو میسر نہیں ہے۔ اس باب سے جو اہم نتائج حاصل ہوتے ہیں، وہ اُن نتائج سے بہت زیادہ قیمتی ہیں جو زمین کی تہوں سے متفرق ہڈیاں نکال کر اور انہیں قیاس و تخمین سے ربط دے کر آدمی اخذ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

۳۷-مَلَک کے اصل معنی عربی میں ’’پیامبر‘‘ کے ہیں۔ اسی کا لفظی ترجمہ فرستادہ یا فرشتہ ہے۔ یہ محض مجرّد قوتیں نہیں ہیں، جو تشخُّص نہ رکھتی ہوں، بلکہ یہ شخصیت رکھنے والی ہستیاں ہیں، جن سے اللہ اپنی اِس عظیم الشان سلطنت کی تدبیر و انتظام میں کام لیتا ہے۔ یُوں سمجھنا چاہیے کہ یہ سلطنتِ الٰہی کے اہل کار ہیں جو اللہ کے احکام کو نافذ کرتے ہیں۔ جاہل لوگ انہیں غلطی سے خدائی میں حصّہ دار سمجھ بیٹھے اور بعض نے انہیں خدا کا رشتہ دار سمجھا اور ان کو دیوتا بنا کر ان کی پرستش شروع کر دی۔

۳۸-خلیفہ: وہ جو کسی کی مِلک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے،  بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پُورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے،  یا اصل مالک کے سوا کسی اَور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے،  تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہوں گے۔

۳۹-یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا۔ فرشتوں کی کیا مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں۔ وہ ’’خلیفہ‘‘ کے لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیرِ تجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنتِ کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہو سکتی ہے،  اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دیے جائیں، تو سلطنت کے جس حصّے میں بھی ایسا کیا جائے گا، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا۔ اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے۔

۴۰-’’اس فقرے سے فرشتوں کا مدّعا یہ نہ تھا کہ خلافت ہمیں دی جائے،  ہم اس کے مستحق ہیں،  بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ حضور کے فرامین کی تعمیل ہو رہی ہے،  آپ کے احکام بجا لانے میں ہم پوری طرح سرگرم ہیں، مرضی ِ مبارک کے مطابق سارا جہان پاک صاف رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھ آپ کی حمد و ثنا اور آپ کی تسبیح و تقدیس بھی ہم خدامِ ادب کر رہے ہیں، اب کمی کسی چیز کی ہے کہ اس کے لیے ایک خلیفہ کی ضرورت ہو؟ ہم اس کی مصلحت نہیں سمجھ سکے۔ (تسبیح کا لفظ ذو معنی ہے۔ اس کے معنی پاکی بیان کرنے کے بھی ہیں اور سرگرمی کے ساتھ کام اور انہماک کے ساتھ سعی کرنے کے بھی۔ اسی طرح تقدیس کے بھی دو معنی ہیں، ایک تقدیس کا اظہار و بیان،  دُوسرے پاک کرنا)۔

۴۱-یہ فرشتوں کے دُوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلب ہے۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں۔

۴۲-انسان کے علم کی صُورت دراصل یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعے سے اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسمائے اشیاء پر مشتمل ہیں۔ آدم کو سارے نام سکھانا گویا ان کو تمام اشیاء کا عِلم دینا تھا۔

۴۳-ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر فرشتے اور فرشتوں کی ہر صنف کا علم صرف اسی شعبے تک محدُود ہے جس سے اس کا تعلق ہے۔ مثلاً ہوا کے انتظام سے جو فرشتے متعلق ہیں،  وہ ہوا کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں، مگر پانی کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔ یہی حال دُوسرے شعبوں کے فرشتوں کا ہے۔ انسان کو ان کے برعکس جامع عِلم دیا گیا ہے۔ ایک ایک شعبے کے متعلق چاہے وہ اُس شعبے کے فرشتوں سے کم جانتا ہو، مگر مجموعی حیثیت سے جو جامعیّت انسان کے علم کو بخشی گئی ہے،  وہ فرشتوں کو میسّر نہیں ہے۔

۴۴-یہ مظاہر ہ فرشتوں کے پہلے شبہہ کا جواب تھا۔ گویا اس طریقے سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ میں آدم کو صرف اختیارات ہی نہیں دے رہا ہوں،  بلکہ علم بھی دے رہا ہوں۔ اس کے تقرر سے فساد کا جو اندیشہ تمہیں ہوا وہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دُوسرا پہلو صلاح کا بھی ہے اور وہ فساد کے پہلو سے زیادہ وزنی اور زیادہ بیش قیمت ہے۔ حکیم کا یہ کام نہیں ہے کہ چھوٹی خرابی کی وجہ سے بڑی بہتری کو نظر انداز ک کر دے۔

۴۵-’’اِس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقۂ  کائنات میں جس قدر فرشتے مامور ہیں، ان سب کو انسان کے لیے مطیع و مُسَخّر ہو جانے کا حکم دیا گیا۔ چونکہ اس علاقے میں اللہ کے حکم سے انسان خلیفہ بنایا جا رہا تھا، اس لیے فرمان جاری ہوا کہ صحیح یا غلط،  جس کام میں بھی انسان اپنے اُن اختیارات کو،  جو ہم اسے عطا کر رہے ہیں، استعمال کرنا چاہے اور ہم اپنی مشیت کے تحت اسے ایسا کر لینے کا موقع دے دیں، تو تمہارا فرض ہے کہ تم میں سے جس جس کے دائرۂ عمل سے وہ کام متعلق ہو، وہ اپنے دائرے کی حد تک اس کا ساتھ دے۔ وہ چوری کرنا چاہے یا نماز پڑھنے کا ارادہ کرے،  نیکی کرنا چاہے یا بدی کے ارتکاب کے لیے جائے،  دونوں صُورتوں میں جب تک ہم اسے اس کی پسند کے مطابق عمل کرنے کا اِذن دے رہے ہیں، تمہیں اس کے لیے سازگاری کرنی ہو گی۔ مثال کے طور پر اِس کو یوں سمجھیے کہ ایک فرماں روا جب کسی شخص کو اپنے ملک کے کسی صُوبے یا ضلع کا حاکم مقرر کرتا ہے،  تو اس علاقے میں حکومت کے جس قدر کارندے ہوتے ہیں، ان سب کا فرض ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کریں، اور جب تک فرمانروا کا منشا یہ ہے کہ اسے اپنے اختیارات کے استعمال کا موقع دے،  اس وقت تک اس کا ساتھ دیتے رہیں، قطع نظر اس سے کہ وہ صحیح کام میں ان اختیارات کو استعمال کر رہا ہے یا غلط کام میں۔ البتہ جب جس کام کے بارے میں بھی فرماں روا کا اشارہ ہو جائے کہ اسے نہ کرنے دیا جائے،  تو وہیں ان حاکم صاحب کا اقتدار ختم ہو جاتا ہے اور انہیں ایسا محسُوس ہونے لگتا ہے کہ سارے علاقے کے اہل کاروں نے گویا ہڑتال کر دی ہے۔ حتّٰیٰ کہ جس وقت فرمانروا کی طرف سے ان حاکم صاحب کو معزُولی اور گرفتاری کا حکم ہوتا ہے،  تو وہی ماتحت و خُدّام جو کل تک ان کے اشاروں پر حرکت کر رہے تھے،  ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال کر انہیں کشاں کشاں دارُ الفاسقین کی طرف لے جاتے ہیں۔ فرشتوں کو آدم کے لیے سر بسجُود ہو جانے کا جو حکم دیا گیا تھا اُس کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی۔ ممکن ہے کہ صرف مُسَخّر ہو جانے ہی کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہو۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اس انقیاد کی علامت کے طور پر کسی ظاہری فعل کا بھی حکم دیا گیا ہو، اور یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

۴۶-اِبْلِیسْ: لفظی ترجمہ’’ انتہائی مایوس‘‘۔ اِصطلاحاً یہ اُس جِن کا نام ہے جس نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کر کے آدم اور بنی آدم کے لیے مطیع و مُسَخّر ہونے سے انکار کر دیا اور اللہ سے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی کہ اسے نسلِ انسانی کو بہکانے اور گمراہیوں کی طرف ترغیب دینے کا موقع دیا جائے۔ اسی کو ’’الشَیطان‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ درحقیقت شیطان اور ابلیس بھی محض کسی مجرّد قوت کا نام نہیں ہے،  بلکہ وہ بھی انسان کی طرح ایک صاحبِ تشخّص ہستی ہے۔ نیز کسی کو یہ غلط فہمی بھی نہ ہونی چاہیے کہ یہ فرشتوں میں سے تھا۔ آگے چل کر قرآن نے خود تصریح کر دی ہے کہ وہ جِنّوں میں سے تھا، جو فرشتوں سے الگ، مخلوقات کی ایک مستقل صِنف ہیں۔

۴۷-اِن الفاظ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالباً ابلیس سجدے سے انکار کرنے میں اکیلا نہ تھا، بلکہ جِنّوں کی ایک جماعت نافرمانی پر آمادہ ہو گئی تھی اور ابلیس کا نام صرف اِس لیے لیا گیا کہ وہ ان کا سردار اور اس بغاوت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ وہ کافروں میں سے تھا‘‘۔ اِس صُورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جِنّوں کی ایک جماعت پہلے سے ایسی موجود تھی جو سرکش و نافرمان تھی،  اور ابلیس کا تعلق اسی جماعت سے تھا۔ قرآن میں بالعموم ’’شیاطین‘‘ کا لفظ اِنہی جِنّوں اور ان کی ذرّیّت (نسل) کے لیے استعمال ہوا ہے،  اور جہاں شیاطین سے مُراد انسان مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہ ہو، وہاں یہی شیاطینِ جن مُراد ہوتے ہیں۔

۴۸-اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین، یعنی اپنی جائے تقرّر پر خلیفہ کی حیثیت سے بھیجے جانے سے پہلے ان دونوں کو امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا تاکہ ان کے رُجحانات کی آزمائش ہو جائے۔ اس آزمائش کے لیے ایک درخت کو چُن لیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اس کے قریب نہ پھٹکنا، اور اس کا انجام بھی بتا دیا گیا کہ ایسا کرو گے تو ہماری نگاہ میں ظالم قرار پا ؤ گے۔ یہ بحث غیر ضروری ہے کہ وہ درخت کونسا تھا اور اس میں کیا خاص بات تھی کہ اس سے منع کیا گیا۔ منع کرنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس درخت کی خاصیّت میں کوئی خرابی تھی اور اس سے آدم و حوّا کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اصل غرض اس بات کی آزمائش تھی کہ یہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں کس حد تک حکم کی پیروی پر قائم رہتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے کسی ایک چیز کا منتخب کر لینا کافی تھا۔ اسی لیے اسی لیے اللہ نے درخت کے نام اور اس کی خاصیت کا کوئی ذکر نہیں فرمایا۔

اس امتحان کے لیے جنت ہی کا مقام سب سے زیادہ موزوں تھا۔ دراصل اسے امتحان گاہ بنانے کا مقصُود یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کر نا تھا کہ تمہارے لیے تمہارے مرتبۂ  انسانیت کے لحاظ سے جنت ہی لائق و مناسب مقام ہے۔ لیکن شیطانی ترغیبات کے مقابلے میں اگر تم اللہ کی فرمانبرداری کے راستے سے منحرف ہو جا ؤ، تو جس طرح ابتدا میں اس سے محرُوم کیے گئے تھے اسی طرح آخر میں بھی محرُوم ہی رہو گے۔ اپنے اِس مقامِ لائق،  اپنی اِس فردو سِ گم گشتہ کی بازیافت تم صرف اسی طرح کر سکتے ہو کہ اپنے اس دُشمن کا کامیابی سے مقابلہ کرو جو تمہیں فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔

۴۹-ظالم کا لفظ نہایت معنی خیز ہے۔’’ظلم‘‘ دراصل حق تلفی کو کہتے ہیں۔ ظالم وہ ہے جو کسی کا حق تلف کرے۔ جو شخص خدا کی نافرمانی کرتا ہے،  وہ درحقیقت تین بڑے بُنیادی حقوق تلف کرتا ہے۔ اوّلاً خدا کا حق، کیونکہ وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے۔ ثانیاً اُن تمام چیزوں کے حقوق جن کو اس نے اس نافرمانی کے ارتکاب میں استعمال کیا۔ اس کے اعضائے جسمانی، اس کے قوائے نفس، اس کے ہم معاشرت انسان، وہ فرشتے جو اس کے ارادے کی تکمیل کا انتظام کرتے ہیں، اور وہ اشیاء جو اس کام میں استعمال ہوتی ہیں، ان سب کا اس پر یہ حق تھا کہ وہ صرف ان کے مالک ہی کی مرضی کے مطابق ان پر اپنے اختیارات استعمال کرے۔ مگر جب اس کی مرضی کے خلاف اس نے ان پر اختیارات استعمال کیے،  تو درحقیقت ان پر ظلم کیا۔ ثَالثًا خود اپنا حق،  کیونکہ اس پر اس کی ذات کا یہ حق ہے کہ وہ اسے تباہی سے بچائے،  مگر نافرمانی کر کے جب وہ اپنے آپ کو اللہ کی سزا کا مستحق بناتا ہے،  تو دراصل اپنی ذات پر ظلم کرتا ہے۔ انہی وجُوہ سے قرآن میں جگہ جگہ گناہ کے لیے ظلم اور گناہ گار کے لیے ظالم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

۵۰-یعنی انسان کا دشمن شیطان، اور شیطان کا دشمن انسان۔ شیطان کا دشمن انسان ہونا تو ظاہر ہے کہ وہ اسے اللہ کی فرماں برداری کے راستے سے ہٹانے اور تباہی میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ رہا انسان کا دشمن شیطان ہونا، تو فی الواقع انسانیت تو اس سے دُشمنی ہی کی مقتضی ہے،  مگر خواہشاتِ نفس کے لیے جو ترغیبات وہ پیش کرتا ہے،  ان سے دھوکا کھا کر آدمی اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اس طرح کی دوستی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حقیقتًہ دشمنی دوستی میں تبدیل ہو گئی،  بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک دُشمن دُوسرے دُشمن سے شکست کھا گیا اور اس کے جال میں پھنس گیا۔

۵۱-یعنی آدم کو جب اپنے قصُور کا احساس ہوا اور انہوں نے نافرمانی سے پھر فرماں برداری کی طرف رجوع کرنا چاہا، اور ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اپنے ربّ سے اپنی خطا معاف کرائیں، تو انہیں وہ الفاظ نہ ملتے تھے جن کے ساتھ وہ خطا بخشی کے لیے دُعا کر سکتے۔ اللہ نے ان کے حال پر رحم فرما کر وہ الفاظ بتا دیے۔

توبہ کے اصل معنی رُجوع کرنے اور پلٹنے کے ہیں۔ بندہ کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ سرکشی سے باز آگیا، طریقِ بندگی کی طرف پلٹ آیا۔ اور خدا کی طرف سے توبہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے شرمسار غلام کی طرف رحمت کے ساتھ متوجّہ ہو گیا، پھر سے نظرِ عنایت اس کی طرف مائل ہو گئی۔

۵۲-قرآن اِس نظریّے کی تردید کرتا ہے کہ گناہ کے نتائج لازمی ہیں، اور وہ بہر حال انسان کو بھُگتنے ہی ہوں گے۔ یہ انسان کے اپنے خود ساختہ گمراہ کُن نظریّات میں سے ایک بڑا گمراہ کُن نظریہ ہے،  کیونکہ جو شخص ایک مرتبہ گناہ گارانہ زندگی میں مبتلا ہو گیا، اُس کو یہ نظریّہ ہمیشہ کے لیے مایوس کر دیتا ہے اور اگر اپنی غلطی پر متنبّہ ہونے کے بعد وہ سابق کی تلافی اور آئندہ کے لیے اِصلاح کرنا چاہے،  تو یہ اس سے کہتا ہے کہ تیرے بچنے کی اب کوئی اُمّید نہیں،  جو کچھ تُو کر چکا ہے اس کے نتائج بہرحال تیری جان کے لاگو ہی رہیں گے۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ بَھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا دینا بالکل اللہ کے اختیار میں ہے۔ تمہیں جس بَھلائی پر انعام ملتا ہے وہ تمہاری بَھلائی کا طبیعی نتیجہ نہیں ہے کہ لازماً مترتب ہو کر ہی رہے،  بلکہ اللہ پورا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے معاف کر دے اور چاہے سزا دے دے۔ البتہ اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت اس کی حکمت کے ساتھ ہم رشتہ ہے۔ وہ چونکہ حکیم ہے اس لیے اپنے اختیارات کو اندھا دھُند استعمال نہیں کرتا۔ جب کسی بَھلائی پر انعام دیتا ہے تو یہ دیکھ کر ایسا کرتا ہے کہ بندے نے سچی نیت کے ساتھ اس کی رضا کے لیے بَھلائی کی تھی۔ اور جس بَھلائی کو رَد کر دیتا ہے،  اُسے اس بنا پر رَد کرتا ہے کہ اس کی ظاہری شکل بَھلے کام کی سی تھی، مگر اندر اپنے ربّ کی رضا جوئی کا خالص جذبہ نہ تھا۔ اسی طرح وہ سزا اُس قصُور پر دیتا ہے جو باغیانہ جسارت کے ساتھ کیا جائے اور جس کے پیچھے شرمساری کے بجائے مزید ارتکاب ِ جُرم کی خواہش موجود ہو۔ اور اپنی رحمت سے معافی اُس قصُور پر دیتا ہے،  جس کے بعد بندہ اپنے کیے پر شرمندہ اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح پر آمادہ ہو۔ بڑے سے بڑے مجرم،  کٹّے سے کٹّے کافر کے لیے بھی خدا کے ہاں مایوسی و نا امیدی کا کوئی موقع نہیں بشرطیکہ وہ اپنی غلطی کا معترف، اپنی نافرمانی پر نادم، اور بغاوت کی روش چھوڑ کر اطاعت کی رَوش اختیار کر نے کے لیے تیار ہو۔

۵۳-اِس فقرے کا دوبارہ اعادہ معنی خیز ہے۔ اُوپر کے فقرے میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم نے توبہ کی اور اللہ نے قبول کر لی۔ اِس کے معنی یہ ہوئے کہ آدم اپنی نافرمانی پر عذاب کے مستحق نہ رہے۔ گنا ہ گاری کا جو داغ ان کے دامن پر لگ گیا تھا وہ دھو ڈالا گیا۔ نہ یہ داغ ان کے دامن پر رہا، نہ ان کی نسل کے دامن پر اور نہ اس کی ضرورت پیش آئی کہ معاذ اللہ ! خدا کو اپنا اکلوتا بھیج کر نوعِ انسانی کا کفّارہ ادا کرنے کے لیے سُولی پر چڑھوانا پڑتا۔ برعکس اس کے اللہ نے آدم علیہ السّلام کی توبہ ہی قبول کرنے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اس کے بعد انہیں نبوّت سے بھی سرفراز کیا تاکہ وہ اپنی نسل کو سیدھا راستہ بتا کر جائیں۔ اب جو جنت سے نکلنے کا حکم پھر دُہرایا گیا، تو اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ قبولِ توبہ کا یہ مقتضی نہ تھا کہ آدم کو جنت ہی میں رہنے دیا جاتا اور زمین پر نہ اُتارا جاتا۔ زمین ان کے لیے دارُالعذاب نہ تھی، وہ یہاں سزا کے طور پر نہیں اُتارے گئے،  بلکہ انہیں زمین کی خلافت ہی کے لیے پیدا کیا گیا تھا۔ جنت اُن کی اصلی جائے قیام نہ تھی۔ وہاں سے نکلنے کا حکم اُن کے لیے سزا کی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اصل تجویز تو ان کو زمین ہی پر اُتارنے کی تھی۔ البتہ اس سے پہلے اُن کو اُس امتحان کی غرض سے جنت میں رکھا گیا تھا، جس کا ذکر اُوپر حاشیہ نمبر ۴۸ میں کیا جا چکا ہے۔

۵۴-آیات جمع ہے آیت کی۔ آیت کے اصل معنی اس نشانی یا علامت کے ہیں جو کسی چیز کی طرف رہنمائی کرے۔ قرآن میں یہ لفظ چار مختلف معنوں میں آیا ہے۔ کہیں اس سے مراد محض علامت یا نشانی ہی ہے۔ کہیں آثارِ کائنات کو اللہ کی آیات کہا گیا ہے،  کیونکہ مظاہرِ قدرت میں سے ہر چیز اُس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس ظاہری پردے کے پیچھے مستُور ہے۔ کہیں اُن معجزات کو آیات کہا گیا ہے جو انبیاء علیہم السّلام لے کر آتے تھے،  کیونکہ یہ معجزے دراصل اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ یہ لوگ فرمانروائے کائنات کے نمائندے ہیں۔ کہیں کتاب اللہ کے فقروں کو آیات کہا گیا ہے،  کیونکہ وہ نہ صرف حق اور صداقت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں،  بلکہ فی الحقیقت اللہ کی طرف سے جو کتاب بھی آتی ہے،  اس کے محض مضامین ہی میں نہیں،  اس کے الفاظ اور اندازِ بیان اور طرزِ عبادت تک میں اس کے جلیل القدر مُصنّف کی شخصیت کے آثار نمایاں طور پر محسُوس ہوتے ہیں۔۔۔۔ ہر جگہ عبارت کے سیاق و سباق سے بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں ’’آیت‘‘ کا لفظ کس معنی میں آیا ہے۔

۵۵-یہ نسلِ انسانی کے حق میں ابتدائے آفرینش سے قیامت تک کے لیے اللہ کا مستقل فرمان ہے اور اسی کو تیسرے رکوع میں اللہ کے ’’عہد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ انسان کا کام خود راستہ تجویز کرنا نہیں ہے،  بلکہ بندہ اور خلیفہ ہونے کی دو گو نہ حیثیتوں کے لحاظ سے وہ اس پر مامُور ہے کہ اُس راستے کی پیروی کرے جس اس کا ربّ اس کے لیے تجویز کرے۔ اور اس راستے کے معلوم ہونے کی دو ہی صورتیں ہیں : یا تو کسی انسان کے پاس براہِ راست اللہ کی طرف سے وحی آئے،  یا پھر وہ اُس انسان کا اتباع کرے جس کے پاس وحی آئی ہو۔ کوئی تیسری صُورت یہ معلوم ہونے کی نہیں ہے کہ ربّ کی رضا کس راہ میں ہے۔ اِن دو صُورتوں کے ماسوا ہر صُورت غلط ہے،  بلکہ غلط ہی نہیں، سراسر بغاوت بھی ہے،  جس کی سزا جہنّم کے سوا اور کچھ نہیں۔

قرآن مجید میں آدم کی پیدائش اور نَوعِ انسانی کی ابتدا کا یہ قصّہ سات مقامات پر آیا ہے،  جن میں سے پہلا مقام یہ ہے اور باقی مقامات حسبِ ذیل ہیں: الاعراف، رکوع ۲۔ بنی اسرائیل، رکوع ۷۔ الکہف، رکوع ۷، طٰہٰ، رکوع ۷۔ صٓ، رکوع ۵۔ بائیبل کی کتاب ِ پیدائش، باب اوّل، دوم و سوم میں بھی یہ قصّہ بیان ہوا ہے۔ لیکن دونوں کا مقابلہ کرنے سے ہر صاحبِ نظر انسان محسُوس کر سکتا ہے کہ دونوں کتابوں میں کیا فرق ہے۔

آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت اللہ اور فرشتوں کی گفتگو کا ذکر تلمود میں بھی آیا ہے،  مگر وہ بھی اس معنوی روح سے خالی ہے جو قرآن کے بیان کردہ قصہ میں پائی جاتی ہے بلکہ اس میں لطیفہ بھی پایا جاتا ہے کہ جب فرشتوں نے اللہ سے پوچھا،  انسانوں کو آخر کیوں پیدا کیا جا رہا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے جواب دیا۔ ’’تاکہ ان میں نیک لوگ پیدا ہوں‘‘ بد لوگوں کا ذکر اللہ نے نہیں کیا ورنہ فرشتے انسان کی تخلیق کی منظوری نہ دیتے۔

 

اے بنی اسرائیل ۵۶! ذرا خیال کرو اس نعمت کا جو میں نے تم کو عطا کی تھی،  میرے ساتھ تمہارا جو عہد تھا اُسے تم پورا کرو، تو میرا جو عہد تمہارے ساتھ تھا اُسے میں پورا کروں اور مجھ ہی سے ڈرو۔ اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ۔یہ اس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ۔تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو ۵۷ اور میرے غضب سے بچو۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔۵۸ نماز قائم کرو،  زکوٰۃ  دو ۵۹، اور جو لوگ میرے آگے جھُک رہے ہیں اُن کے ساتھ تم بھی جھُک جاؤ۔ تم دُوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔کیا تم عقل سے بالکل کام نہیں لیتے ؟ صبر اور نماز سے ۶۰ مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرمانبردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے  جو سمجھتے ہیں کہ آخر کار انہیں اپنے ربّ سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ جانا ہے۔۶۱ ؏۵

 

۵۶-اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا۔ یہ حضرت یعقوبؑ  کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحاقؑ  کے بیٹے اور حضرت ابراہیمؑ  کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا ہے اور موقع موقع سے اُن لوگوں کو بھی خطاب کیا گیا ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر ایمان لائے تھے۔ اس تقریر کو پڑھتے ہوئے حسبِ ذیل باتوں کو خاص طَور پر پیش ِ نظر رکھنا چاہیے :

اوّلاً، اِس کا منشا یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں کی اُمت میں جو تھوڑے بہت لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جن میں خیر و اصلاح کا عنصر موجود ہے،  اُنہیں اُس صداقت پر ایمان لانے اور اُس کام میں شریک ہونے کی دعوت دی جائے جس کے ساتھ محمد ؐ اُٹھائے گئے تھے۔ اس لیے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ قرآن اور نبی ؐ وہی پیغام اور وہی کام لے کر آیا ہے جو اس سے پہلے تمہارے انبیا اور تمہارے پاس آنے والے صحیفے لائے تھے۔ پہلے یہ چیز تم کو دی گئی تھی تاکہ تم آپ بھی اس پر چلو اور دُنیا کو بھی اس کی طرف بُلانے اور اس پر چلانے کی کوشش کرو۔ مگر تم دنیا کی رہنمائی تو کیا کرتے،  خود بھی اس ہدایت پر قائم نہ رہے اور بگڑتے چلے گئے۔ تمہاری تاریخ اور تمہاری قوم کی موجودہ اخلاقی و دینی حالت خود تمہارے بگاڑ پر گواہ ہے۔ اب اللہ نے وہی چیز دے کر اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے اور وہی خدمت اس کے سپرد کی ہے۔ یہ کوئی بیگانہ اور اجنبی چیز نہیں ہے،  تمہاری اپنی چیز ہے۔ لہٰذا جانتے بُوجھتے حق کی مخالفت نہ کرو، بلکہ اسے قبول کر لو۔ جو کام تمہارے کرنے کا تھا، مگر تم نے نہ کیا،  اسے کرنے کے لیے جو دوسرے لوگ اُٹھے ہیں،  ان کا ساتھ دو۔

ثانیاً، اس کا منشا عام یہودیوں پر حُجّت تمام کرنا اور صاف صاف ان کی دینی و اخلاقی حالت کو کھول کر رکھ دینا ہے۔ ان پر ثابت کیا جا رہا ہے کہ یہ وہی دین ہے،  جو تمہارے انبیا لے کر آئے تھے۔ اُصولِ دین میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے،  جس میں قرآن کی تعلیم تورات کی تعلیم سے مختلف ہو۔ ان پر ثابت کیا جا رہا ہے کہ جو ہدایت تمہیں دی گئی تھی اس کی پیروی کرنے میں،  اور جو رہنمائی کا منصب تمہیں دیا گیا تھا اس کا حق ادا کرنے میں تم بُری طرح ناکام ہوئے ہو۔ اس کے ثبوت میں ایسے واقعات سے اِستِشْہاد کیا گیا ہے جن کی تردید وہ نہ کر سکتے تھے۔ پھر جس طرح حق کو حق جاننے کے باوجود وہ اس کی مخالفت میں سازشوں،  وسوسہ اندازیوں،  کج بحثیوں اور مکّاریوں سے کام لے رہے تھے،  اور جن ترکیبوں سے وہ کوشش کر رہے تھے کہ کسی طرح محمد ؐ کا مشن کامیاب نہ ہونے پائے،  ان سب کی پردہ دری کی جا رہی ہے،  جس سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کی ظاہری مذہبیّت محض ایک ڈھونگ ہے،  جس کے نیچے دیانت اور حق پرستی کے بجائے ہٹ دھرمی، جاہلانہ عصبیت اور نفس پرستی کام کر رہی ہے اور حقیقت میں وہ یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ نیکی کا کوئی کام پھل پھُول سکے۔ اِس طرح اتمامِ حجّت کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک طرف خود اس قوم میں جو صالح عنصر تھا، اُس کی آنکھیں کھُل گئیں، دُوسری طرف مدینے کے عوام پر اور بالعموم مشرکینِ عرب پر ان لوگوں کا جو مذہبی و اخلاقی اثر تھا، وہ ختم ہو گیا،  اور تیسری طرف خود اپنے آپ کو بے نقاب دیکھ کر ان کی ہمتیں اتنی پست ہو گئیں کہ وہ اس جُرأت کے ساتھ کبھی مقابلے میں کھڑے نہ ہو سکے جس کے ساتھ ایک وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے اپنے حق پر ہونے کا یقین ہو۔

ثالثاً، پچھلے چار رکوعوں میں نوعِ انسانی کو دعوتِ عام دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا تھا،  اسی کے سلسلے میں ایک خاص قوم کی معین مثال لے کر بتایا جا رہا ہے کہ جو قوم خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت سے منہ موڑتی ہے،  اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اس توضیح کے لیے تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو منتخب کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دُنیا میں صرف یہی ایک قوم ہے جو مسلسل چار ہزار برس سے تمام اقوامِ عالم کے سامنے ایک زندہ نمونہ عبرت بنی ہوئی ہے۔ ہدایت الٰہی پر چلنے اور نہ چلنے سے جتنے نشیب و فراز کسی قوم کی زندگی میں رُو نما ہو سکتے ہیں اور سب اس قوم کی عبرتناک سرگزشت میں نظر آ جاتے ہیں۔

رابعاً، اس سے پیروانِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو سبق دینا مقصُود ہے کہ وہ اس انحطاط کے گڑھے میں گرنے سے بچیں جس میں پچھلے انبیا کے پیرو گر گئے۔ یہودیوں کی اخلاقی کمزوریوں،  مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں میں سے ایک ایک کی نشان دہی کر کے اس کے بالمقابل دینِ حق کے مقتضیات بیان کیے گئے ہیں تاکہ مسلمان اپنا راستہ صاف دیکھ سکیں اور غلط راہوں سے بچ کر چلیں۔ اس سلسلے میں یہُود و نصاریٰ پر تنقید کرتے ہوئے قرآن جو کچھ کہتا ہے اس کو پڑھتے وقت مسلمانوں کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث یاد رکھنی چاہیے جس میں آپ ؐ نے فرمایا ہے کہ تم بھی آخر کار پچھلی اُمتوں ہی کی روش پر چل رہو گے حتّیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بِل میں گھُسے ہیں، تو تم بھی اسی میں گھُسو گے۔ صحابہ ؓ نے پُوچھا: یا رسول اللہ،  کیا یہُود و نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ ؐ نے فرمایا، اور کون؟ نبی اکرم ؐ کا ارشاد محض ایک تَوبِیخ نہ تھا بلکہ اللہ کی دی ہوئی بصیرت سے آپ یہ جانتے تھے کہ انبیا کی اُمتوں میں بگاڑ کن کن راستوں سے آیا اور کن کن شکلوں میں ظہُور کرتا رہا ہے۔

۵۷-تھوڑی قیمت سے مُراد وہ دُنیوی فائدے ہیں جن کی خاطر یہ لوگ اللہ کے احکام اور اس کی ہدایات کو رد کر رہے تھے۔ حق فروشی کے معاوضے میں خواہ انسان دنیا بھر کی دولت لے لے،  بہر حال وہ تھوڑی قیمت ہی ہے،  کیونکہ حق یقیناً اس سے گراں تر چیز ہے۔

۵۸-اِس آیت کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اہلِ عرب بالعمُوم ناخواندہ لوگ تھے اور ان کے مقابلے میں یہودیوں کے اندر ویسے بھی تعلیم کا چرچا زیادہ تھا، اور انفرادی طور پر ان میں ایسے ایسے جلیل القدر عالم پائے جاتے تھے جن کی شہرت عرب کے باہر تک پہنچی ہوئی تھی۔ اس وجہ سے عربوں پر یہودیوں کا علمی رُعب بہت زیادہ تھا۔ پھر ان کے علما اور مشائخ نے اپنے مذہبی درباروں کی ظاہری شان جما کر اور اپنی جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں کا کاروبار چلا کر اس رُعب کو اور بھی زیادہ گہرا اور وسیع کر دیا تھا۔ خصُوصیت کے ساتھ اہلِ مدینہ ان سے بے حد مرعوب تھے،  کیونکہ ان کے آس پاس بڑے بڑے یہودی قبائل آباد تھے،  رات دن کا ان سے میل جول تھا،  اور اس میل جول میں وہ ان سے اُسی طرح شدت کے ساتھ متاثر تھے جس طرح ایک اَ ن پڑھ آبادی زیادہ تعلیم یافتہ، زیادہ متمدّن اور زیادہ نمایاں مذہبی تشخّص رکھنے والے ہمسایوں سے متاثر ہوا کرتی ہے۔ ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے آپ کو نبی کی حیثیت سے پیش کیا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی، تو قدرتی بات تھی کہ اَ ن پڑھ عرب اہل ِ کتاب یہودیوں سے جا کر پُوچھتے کہ آپ لوگ بھی ایک نبی کے پیرو ہیں اور ایک کتاب کو مانتے ہیں،  آپ ہمیں بتائیں کہ یہ صاحب جو ہمارے اندر نبوّت کا دعویٰ لے کر اُٹھے ہیں، اِن کے متعلق اور ان کی تعلیم کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے۔ چنانچہ یہ سوال مکّے کے لوگوں نے بھی یہودیوں سے بارہا کیا، اور جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینے تشریف لائے،  تو یہاں بھی بکثرت لوگ یہُودی علما کے پاس جا جا کر یہی بات پُوچھتے تھے۔ مگر ان علما ء نے کبھی لوگوں کو صحیح بات نہ بتائی۔ ان کے لیے یہ کہنا تو مشکل تھا کہ وہ توحید، جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں غلط ہے،  یا انبیاء اور کتب آسمانی اور ملائکہ اور آخرت کے بارے میں جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں،  اس میں کوئی غلطی ہے،  یا وہ اخلاقی اُصول،  جن کی آپ تعلیم دے رہے ہیں، ان میں سے کوئی چیز غلط ہے۔ لیکن وہ صاف صاف اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ جو کچھ آپ ؐ پیش کر رہے ہیں، وہ صحیح ہے۔ وہ نہ سچائی کی کھُلی کھُلی تردید کر سکتے تھے،  نہ سیدھی طرح اس کو سچائی مان لینے پر آمادہ تھے۔ ان دونوں راستوں کے درمیان انہوں نے طریقہ یہ اختیار کیا تھا کہ ہر سائل کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف،  آپ ؐ کی جماعت کے خلاف، اور آپ ؐ کے مشن کے خلاف کوئی نہ کوئی وسوسہ ڈال دیتے تھے،  کوئی الزام آپ ؐ چسپاں کر دیتے تھے،  کوئی ایسا شوشہ چھوڑ دیتے تھے جس سے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں،  اور طرح طرح کے اُلجھن میں ڈالنے والے سوالات چھیڑ دیتے تھے تاکہ لوگ ان میں خود بھی اُلجھیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ ؐ کے پیرووں کو بھی اُلجھانے کی کوشش کریں۔ ان کا یہی رویّہ تھا، جس کی بنا پر ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ حق پر باطل کے پردے نہ ڈالو، اپنے جھوٹے پروپیگنڈے اور شریرانہ شبہات و اعتراضات سے حق کو دبانے اور چھُپانے کی کوشش نہ کرو، اور حق و باطل کو خلط ملط کر کے دُنیا کو دھوکا نہ دو۔

۵۹-نماز اور زکوٰۃ ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہے ہیں۔ تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی۔ مگر یہودی ان سے غافل ہو چکے تھے۔ نماز با جماعت کا نظام ان کے ہاں تقریباً بالکل درہم برہم ہو چکا تھا۔ قوم کی اکثریت انفرادی نماز کی بھی تارک ہو چکی تھی، اور زکوٰۃ دینے کے بجائے یہ لوگ سُود کھانے لگے تھے۔

۶۰-یعنی اگر تمہیں نیکی کے راستے پر چلنے میں دُشواری محسُوس ہوتی ہے تو اس دُشواری کا علاج صبر اور نماز ہے،  ان دو چیزوں سے تمہیں وہ طاقت ملے گی جس سے یہ راہ آسان ہو جائے گی۔

صَبر کے لُغوی معنی روکنے اور باندھنے کے ہیں اور اس سے مراد ارادے کی و ہ مضبُوطی،  عَزْم کی وہ پختگی اور خواہشاتِ نفس کا وہ اِنضباط ہے،  جس سے ایک شخص نفسانی ترغیبات اور بیرونی مشکلات کے مقابلے میں اپنے قلب و ضمیر کے پسند کیے ہوئے راستے پر لگاتار بڑھتا چلا جائے۔ ارشاد ِ الٰہی کا مدّ عا یہ ہے کہ اس اخلاقی صِفَت کو اپنے اندر پرورش کرو اور اس کو باہر سے طاقت پہنچانے کے لیے نماز کی پابندی کرو۔

۶۱-یعنی جو شخص خدا کا فرماں بردار نہ ہو اور آخرت کا عقیدہ نہ رکھتا ہو،  اس کے لیے تو نماز کی پابندی ایک ایسی مصیبت ہے،  جسے وہ کبھی گوارا ہی نہیں کر سکتا۔ مگر جو برضا و رغبت خدا کے آگے سرِ اطاعت خم کر چکا ہو اور جسے یہ خیال ہو کہ کبھی مر کر اپنے خدا کے سامنے جانا بھی ہے،  اس کے لیے نماز ادا کرنا نہیں، بلکہ نماز کا چھوڑنا مشکل ہے۔

 

اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میری اُس نعمت کو،  جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور اس بات کو کہ میں نے تمہیں دنیا کی ساری قوموں پر فضیلت عطا کی تھی ۶۲ اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا،  نہ کسی کی طرف سے سفارش قبول ہو گی،  نہ کسی کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے گا، اور نہ مجرموں کو کہیں سے مدد مِل سکے گی۔۶۳ ۶۴ یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے تم کو فرعونیوں ۶۵ کی غلامی سے نجات بخشی۔اُنہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا،تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے ربّ کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی ۶۶۔ یاد کرو وہ وقت،  جب ہم نے سمندر پھاڑ کر تمہارے لیے راستہ بنایا، پھر اُس میں سے تمہیں بخیریت گزروا دیا،  پھر وہیں تمہاری آنکھوں کے سامنے فرعونیوں کو غرقاب کیا۔ یاد کرو،  جب ہم نے موسیٰؑ  کو چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر بُلایا، ۶۷ تو اس کے پیچھے تم بچھڑے کو اپنا معبُود بنا بیٹھے۔۶۸ اُس وقت تم نے بڑی زیادتی کی تھی،

 

۶۲-یہ اُس دَور کی طرف اشارہ ہے جب کہ تمام دُنیا کی قوموں میں ایک بنی اسرائیل کی قوم ہی ایسی تھی، جس کے پاس اللہ کا دیا ہوا علمِ حق تھا اور جسے اقوامِ عالم کا امام و رہنما بنا دیا گیا تھا، تاکہ وہ بندگیِ ربّ کے راستے پر سب قوموں کو بُلائے اور چلائے۔

۶۳-بنی اسرائیل کے بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ تھی کہ آخرت کے متعلق ان کے عقیدے میں خرابی آ گئی تھی۔ وہ اس قسم کے خیالاتِ خام میں مبتلا ہو گئے تھے کہ ہم جلیل القدر انبیا کی اولاد ہیں، بڑے بڑے اَولیا، صُلحا اور زُہاد سے نسبت رکھتے ہیں، ہماری بخشش تو اُنہیں بزرگوں کے صدقے میں ہو جائے گی، ان کا دامن گرفتہ ہو کر بھلا کوئی سزا کیسے پا سکتا ہے۔ اِنہیں جھُوٹے بھروسوں نے ان کو دین سے غافل اور گناہوں کے چکّر میں مبتلا کر دیا تھا۔ اس لیے نعمت یاد دلانے کے ساتھ فوراً ہی ان کی اِن غلط فہمیوں کو دُور کر دیا گیا ہے۔

۶۴-یہاں سے بعد کے کئی رکوعوں تک مسلسل جن واقعات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں،  وہ سب بنی اسرائیل کی تاریخ کے مشہور ترین واقعات ہیں،  جنہیں اس قوم کا بچّہ بچّہ جانتا تھا۔ اسی لیے تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک ایک واقعہ کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔ اس تاریخی بیان میں دراصل یہ دکھانا مقصُود ہے کہ ایک طرف یہ اور یہ احسانات ہیں جو خدا نے تم پر کیے،  اور دُوسری طرف یہ اور یہ کرتُوت ہیں جو ان احسانات کے جواب میں تم کرتے رہے۔

۶۵-’’اٰلِ فِرْعَو ْن‘‘ کا ترجمہ ہم نے اس لفظ سے کیا ہے۔ اس میں خاندانِ فراعنہ اور مصر کا حکمراں طبقہ دونوں شامل ہیں۔

۶۶-آزمائش اس امر کی کہ اس بھٹّی سے تم خالص سونا بن کر نکلتے ہو یا نِری کھوٹ بن کر رہ جاتے ہو۔ اَور آزمائش اس امر کی کہ اتنی بڑی مصیبت سے اس معجزانہ طریقہ پر نجات پانے کے بعد بھی تم اللہ کے شکر گزار بندے بنتے ہو یا نہیں۔

۶۷-مصر سے نجات پانے بے بعد جب بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینا میں پہنچ گئے،  تو حضرت موسیٰؑ  کو اللہ تعالیٰ نے چالیس شب و روز کے لے ی کوہ ِ طور پر طلب فرمایا تاکہ وہاں اس قوم کے لیے،  جواب آزاد ہو چکی تھی، قوانین شریعت اور عملی زندگی کی ہدایات عطا کی جائیں۔ ( ملاحظہ ہو بائیبل، کتابِ خروج،  باب ۲۴ تا ۳۱)

۶۸-گائے اور بیل کی پرستش کا مرض بنی اسرائیل کی ہمسایہ اقوام میں ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ مصر اور کَنْعان میں اس کا عام رواج تھا۔ حضرت یوسفؑ  کے بعد بنی اسرائیل جب انحطاط میں مبتلا ہوئے اور رفتہ رفتہ قبطیوں کے غلام بن گئے تو انہوں نے جن جملہ اور امراض کے ایک یہ مرض بھی اپنے حکمرانوں سے لے لیا تھا۔ ( بچھڑے کی پرستش کا یہ واقعہ بائیبل کتابِ خروج،  باب ۳۲ میں تفصیل کے ساتھ درج ہے )

 

مگر اس پر بھی ہم نے تمہیں معاف کر دیا کہ شاید اب تم شکر گزار بنو۔ یاد کرو (ٹھیک اُس وقت جب تم یہ ظلم کر رہے تھے ) ہم نے موسیٰؑ  کو کتاب اور فرقان ۶۹ عطا کی تاکہ تم اس کے ذریعے سے سیدھا راستہ پاسکو۔ یاد کرو جب موسیٰؑ  (یہ نعمت لیے ہوئے پلٹا، تو اُس ) نے اپنی قوم سے کہا کہ ’’لوگو، تم نے بچھڑے کو معبُود بنا کر اپنے اُوپر سخت ظلم کیا ہے، لہٰذا تم لوگ اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو ۷۰،  اسی میں تمہارے خالِق کے نزدیک تمہاری بہتری ہے۔‘‘ اُس وقت تمہارے خالِق نے تمہاری توبہ قبول کر لی کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے اور رحم فرمانے والا ہے۔ یاد کرو جب تم نے موسیٰؑ  سے کہا تھا کہ ہم تمہارے کہنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک کہ اپنی آنکھوں سے علانیہ خدا کو (تم سے کلام کرتے ) نہ دیکھ لیں۔اس وقت تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک زبردست صاعقے نے تم کو آ لیا۔ تم بے جان ہو کر گر چکے تھے، مگر پھر ہم نے تم کو جِلا اُٹھایا،  شاید کہ اس احسان کے بعد تم شکر گزار بن جاؤ ۷۱۔ ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا ۷۲،  من و سلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی ۷۳ اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا، وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اُوپر ظلم کیا۔ پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ ’’یہ بستی ۷۴ جو تمہارے سامنے ہے اس میں داخل ہو جاؤ اس کی پیداوار جس طرح چاہو مزے سے کھاؤ مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونا اور کہتے جانا حِطَّةٌ،  ۷۵ ہم تمہاری خطاؤں سے درگزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔‘‘ مگر جو بات کہی گئی تھی،  ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا۔آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا۔یہ سزا تھی اُن نافرمانیوں کی،جو وہ کر رہے تھے۔  یاد کرو،  جب موسیٰؑ  نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو۔چنانچہ اُس سے بارہ چشمے پھوٹ ۷۶ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ اُس کے پانی لینے کی ہے۔اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہُوا رزق کھاؤ پیو،اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔یاد کرو،  جب تم نے کہا تھا کہ ’’اے موسیٰؑ،  ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کر سکتے۔ اپنے ربّ سے دُعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ،ترکاری،گیہوں،لہسن،پیاز،دال وغیرہ پیدا کریں۔‘‘ تو موسیٰؑ  نے کہا ’’کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟اچھا ۷۷، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو وہاں مل جائے گا۔‘‘ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلّت و خواری اور پستی و بدحالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھِر گئے۔ یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات ۷۸ سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے۔۷۹ یہ نتیجہ تھا اُن کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدودِ شرع سے نکل نکل جاتے تھے۔ ؏۷

 

۶۹-فُرقَان: وہ چیز جس کے ذریعہ سے حق اور باطل کا فرق نمایاں ہو۔ اُردو میں اس کے مفہُوم سے قریب تر لفظ’’کَسوَٹی‘‘ ہے۔ یہاں فرقان سے مُراد دین کا وہ علم اور فہم ہے،  جس سے آدمی حق اور باطل میں تمیز کرتا ہے۔

۷۰-یعنی اپنے اُن آدمیوں کو قتل کرو جنہوں نے گوسالے کو معبُود بنایا اور اس کی پرستش کی۔

۷۱-یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرار داد پر جب حضرت موسیٰؑ  طُور پر تشریف لے گئے تھے،  تو آپؑ  کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستّر نمائندے بھی لے کر آئیں۔ پھر جب اللہ تعالی ٰ نے موسیٰؑ  کو کتاب اور فُرقان عطا کی، تو آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالی ٰ کا غضب نازل ہوا اور اُنہیں سزا دی گئی۔ لیکن بائیبل کہتی ہے کہ :

’’انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اس کے پا ؤ ں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبُوترا تھا،  جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔

اور اس نے بنی اسرائیل کے شُرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔‘‘(خرُوج، باب ۲۴۔ آیت ۱۰-۱۱)

لُطف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰؑ  نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے،  تو اُس نے فرمایا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔( دیکھو خرُوج، باب ۳۳- آیت ۱۸-۲۳)

۷۲-یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دھُوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسّر نہ تھی، ہم نے ابر سے تمہارے بچا ؤ کا انتظام کیا۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر، سر چھُپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے۔ اُس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدّت تک آسمان کو اَبر آلود نہ رکھا جاتا،  تو یہ قوم دھُوپ سے ہلاک ہو جاتی۔

۷۳-مَنّ و سَلْویٰ وہ قدرتی غذائیں تھیں، جو اس مہاجرت کے زمانے میں اُن لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں۔ مَنّ دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی،  جو اوس کی طرح گِرتی اور زمین پر جم جاتی تھی۔ اور سَلْویٰ بٹیر کی قسم کے پرندے تھے۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پُوری کی پُوری قوم محض انہی غذا ؤ ں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑی، حالانکہ آج کسی نہایت متمدّن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آ پڑیں، تو اُن کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ ( مَنّ اور سَلْویٰ کی تفصیلی کیفیّت کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل،  کتاب خرُوج، باب ۱۶- گنتی، باب ۱۱، آیت ۷-۹، ۳۱-۳۲ و یشوع،  باب ۵- آیت ۱۲)

۷۴- یہ ابھی تک تحقیق نہیں ہو سکا ہے کہ اس بستی سے مُراد کونسی بستی ہے۔ جس سلسلۂ  واقعات میں یہ ذکر ہو رہا ہے وہ اس زمانے سے تعلق رکھتا ہے،  جبکہ بنی اسرائیل ابھی جزیرہ نمائے سینا ہی مین تھے۔ لہٰذا اغلب یہ ہے کہ اسی جزیرہ نما کا کوئی شہر ہو گا۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ اِس مراد شِطَیم ہو، جو یَرِیْحُو کے بالمقابل دریائے اُرْدُن کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ اس شہر کو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰؑ  کی زندگی کے اخیر زمانے میں فتح کیا اور وہاں بڑی بد کاریاں کیں جن کے نتیجے میں خدا نے ان پر وبا بھیجی اور ۲۴ ہزار آدمی ہلاک کر دیے۔ ( گنتی-باب ۲۵، آیت ۱-۸)

۷۵-یعنی حکم یہ تھا کہ جابر و ظالم فاتحوں کی طرح اَکڑتے ہوئے نہ گھُسنا، بلکہ خدا ترسوں کی طرح منکسرانہ شان سے داخل ہونا، جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم فتح مکّہ کے موقع پر مکّہ میں داخل ہوئے۔ اور حِطَّۃ ٌ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ خدا سے اپنی خطا ؤ ں کی معافی مانگتے ہوئے جانا، دوسرے یہ کہ لوٹ مار اور قتلِ عام کے بجائے بستی کے باشندوں میں درگذر اور عام معافی کا اعلان کرتے جانا۔

۷۶-وہ چٹان اب تک جزیرہ نمائے سینا میں موجود ہے۔ سیّاح اسے جا کر دیکھتے ہیں اور چشموں کے شگاف اس میں اب بھی پائے جاتے ہیں۔ ۱۲ چشموں میں یہ مصلحت تھی کہ بنی اسرائیل کے قبیلے بھی ۱۲ ہی تھے۔ خدا نے ہر ایک قبیلے کے لیے الگ چشمہ نکال دیا تاکہ ان کے درمیان پانی جھگڑا نہ ہو۔

۷۷-یہ مطلب نہیں ہے کہ مَنّ و سلویٰ چھوڑ کر،  جو بے مشقّت مِل رہا ہے،  وہ چیزیں مانگ رہے ہو، جِن کے لیے کھیتی باڑی کرنی پڑے گی، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس بڑے مقصد کے لیے یہ صحرا نوردی تم سے کرائی جا رہی ہے،  اس کے مقابلے میں کیا تم کو کام و دہن کی لذّت اتنی مرغوب ہے کہ اُس مقصد کے چھوڑنے کے لیے تیار ہو اور ان چیزوں سے محرُومی کچھ مدّت کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتے ؟ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو گنتی، باب ۱۱، آیت ۹-۴)

۷۸-آیات سے کفر کرنے کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ خدا کی بھیجی ہوئی تعلیمات میں سے جو بات اپنے خیالات یا خواہشات کے خلاف پائی،  اس کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ دوسرے یہ کہ ایک بات کو یہ جانتے ہوئے کہ خدا نے فرمائی ہے،  پوری ڈھٹائی اور سرکشی کے ساتھ اس کی خلاف ورزی کی اور حکم ِ الٰہی کی کچھ پروا نہ کی۔ تیسرے یہ کہ ارشادِ الٰہی کے مطلب و مفہُوم کو اچھی طرح جاننے اور سمجھنے کے باوجود اپنی خواہش کے مطابق اسے بدل ڈالا۔

۷۹-’’بنی اسرائیل نے اپنے اِس جُرم کو اپنی تاریخ میں خود تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم بائیبل سے چند واقعات یہاں نقل کرتے ہیں:

(۱) حضرت سلیمانؑ  کے بعد جب بنی اسرائیل کی سلطنت تقسیم ہو کر دو ریاستوں (یروشلم کی دولت یہودیہ اور سامریہ کی دولت اسرائیل ) میں بٹ گئی تو ان میں باہم لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور نوبت یہاں تک آئی کہ یہودیہ کی ریاست نے اپنی ہی بھائیوں کے خلاف دمشق کی ارامی سلطنت سے مدد مانگی۔ اس پر خدا کے حکم سے حنانی نبی نے یہودیہ کے فرمانروا آسا کو سخت تنبیہ کی۔ مگر آسا نے اس تنبیہ کو قبول کرنے کے بجائے خدا کے پیغمبر کو جیل بھیج دیا( ۲- تواریخ، باب ۱۷- آیت ۷-۱۰)

(۲) حضرت الیاس (ایلیاہ Elliah ) علیہ السّلام نے جب بَعْل کی پرستش پر یہودیوں کو ملامت کی اور از سرِ نَو توحید کی دعوت کا صُور پھُونکنا شروع کیا تو سامریہ کا اسرائیلی بادشاہ اخی اب اپنی مشرک بیوی کی خاطر ہاتھ دھو کر ان کی جان کے پیچھے پڑ گیا، حتّیٰ کہ انہیں جزیرہ نمائے سینا کے پہاڑوں میں پناہ لینی پڑی۔ اس موقع پر جو دُعا حضرت الیاسؑ  نے مانگی ہے،  اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا۔۔۔۔۔۔ تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں،  سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔‘‘(۱-سلاطین – باب ۱۹-آیت ۱-۱۰)

(۳) ایک اور نبی حضرت میکا یا ہ کو اسی اخی اب نے حق گوئی کے جُرم میں جیل بھیجا اور حکم دیا کہ اس شخص کو مصیبت کی روٹی کھلانا اور مصیبت کا پانی پلانا۔ (۱-سلاطین-باب ۲۲-آیت ۲۶-۲۷)

(۴) پھر جب یہُودیہ کی ریاست میں علانیہ بُت پرستی اور بدکاری ہونے لگی اور زکریا ہ نبی نے اس کے خلاف آواز بلند کی، تو شاہ یہُوداہ یوآس کے حکم سے انہیں عین ہیکل ِ سلیمانی میں ’’مَقْدِس‘‘ اور ’’قربان گاہ‘‘ کے درمیان سنگسار کر دیا گیا(۲- تواریخ، باب ۲۴-آیت ۲۱)

(۵) اس کے بعد جب سامریہ کی اسرائیلی ریاست اَشُوریُوں کے ہاتھوں ختم ہو چکی اور یروشلم کی یہودی ریاست کے سر پر تباہی کا طوفان تُلا کھڑا تھا،  تو ’’یرمیاہ‘‘ نبی اپنی قوم کے زوال پر ماتم کرنے اُٹھے اور کوچے کوچے انہوں نے پکارنا شروع کیا کہ سنبھل جا ؤ،  ورنہ تمہارا انجام سامریہ سے بھی بدتر ہو گا۔ مگر قوم کی طرف سے جو جواب مِلا وہ یہ تھا کہ ہر طرف سے ان پر لعنت اور پھٹکار کی بارش ہوئی،  پیٹے گئے،  قید کیے گئے،  رسّی سے باندھ کر کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیے گئے تاکہ بھُوک اور پیاس سے وہیں سُوکھ سُوکھ کر مر جائیں اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ قوم کے غدّار ہیں،  بیرونی دشمنوں سے ملے ہوئے ہیں۔ (یرمیاہ،باب ۱۵، آیت ۱۰- باب ۱۸، آیت ۲۰-۲۳- باب ۲۰، آیت ۱-۱۸- باب ۳۶ تا باب ۴۰)

(۶) ایک اور نبی حضرت عاموس کے متعلق لکھا ہے کہ جب انہوں نے سامریہ کی اسرائیلی ریاست کو اس کی گمراہیوں اور بدکاریوں پر ٹوکا اور ان حرکات کے بُرے انجام سے خبردار کیا تو انہیں نوٹس دیا گیا کہ ملک سے نکل جا ؤ اور باہر جا کر نبوت کرو(عاموس،  باب ۷- آیت ۱۰-۱۳)

(۷) حضرت یحیٰی (یُوحنا) علیہ السّلام نے جب ان بد اخلاقیوں کے خلاف آواز اُٹھائی جو یہودیہ کے فرمانروا ہیر و دیس کے دربار میں کھُلم کھُلا ہو رہی تھیں،  تو پہلے وہ قید کیے گئے،  پھر بادشاہ نے اپنی معشوقہ کی فرمائش پر قوم کے اس صالح ترین آدمی کا سر قلم کر کے ایک تھال میں رکھ کر اس کی نذر کر دیا۔ (مرقس، باب ۶، آیت ۱۷-۲۹)

(۸) آخر میں حضرت عیسیٰؑ  پر بنی اسرائیل کے علماء اور سردارانِ قوم کا غصّہ بھڑکا کیونکہ وہ انہیں ان کے گناہوں اور ان کی ریا کاریوں پر ٹوکتے تھے اور ایمان و راستی کی تلقین کرتے تھے۔ اس قصُور پر ان کے خلاف جھُوٹا مقدمہ تیار کیا گیا،  رومی عدالت سے ان کے قتل کا فیصلہ حاصل کیا گیا اور جب رُومی حاکم پیلاطس نے یہُود سے کہا کہ آج عید کے روز میں تمہاری خاطر یسُوع اور برابّا ڈاکو، دونوں میں سے کس کو رہا کروں، تو ان کے پُورے مجمع نے بالاتفاق پکار کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے اور یسُوع کو پھانسی پر لٹکا۔ ( متی، باب ۲۷- آیت ۲۰-۲۶)

یہ ہے اس قوم کی داستانِ جرائم کا ایک نہایت شرمناک باب جس کی طرف قرآن کی اس آیت میں مختصراً اشارہ کیا گیا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جس قوم نے اپنے فُسّاق و فُجّار کو سرداری و سربراہ کاری کے لیے اور اپنے صُلَحا و اَبْرار کو جیل اور دار کے لیے پسند کیا ہو، اللہ تعالیٰ اس کو اپنی لعنت کے لیے پسند نہ کرتا تو آخر اَور کیا کرتا۔

 

یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی،جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اُس کے ربّ کے پاس ہے اور اُس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔۸۰ یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طور کو تم پر اُٹھا کر تم سے پُختہ عہد لیا تھا اور کہا ۸۱ تھا کہ ’’جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اُسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں اُنہیں یاد رکھنا۔ اسی ذریعے سے توقع کی جا سکتی ہے کہ تم تقوٰیٰ کی روش پر چل سکو گے ‘‘۔مگر اُس کے بعد تم اپنے عہد سے پھر گئے۔اُس پر بھی اللہ کے فضل اور اُس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے۔ پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصّہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سَبت ۸۲ کا قانون توڑا تھا۔ہم نے اُنہیں کہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حالت میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے۔ ۸۳ اس طرح ہم نے اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنا کر چھوڑا۔ پھر وہ واقعہ یاد کرو جب موسیٰؑ  نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے۔کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو ؟ موسیٰؑ  نے کہا : میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کرو۔ بولے اچھا، اپنے ربّ سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے۔ موسیٰؑ  نے کہا اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو۔ لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اُس کی تعمیل کرو۔ پھر کہنے لگے اپنے ربّ سے یہ اور پوچھ دو کہ اُس کا رنگ کیسا ہو۔ موسیٰؑ  نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہئے،  جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے۔ پھر بولے اپنے ربّ سے صاف صاف پوچھ کر بتاؤ کیسی گائے مطلوب ہے،  ہمیں اُس کی تعیین میں اشتباہ ہو گیا۔ اللہ نے چاہا تو ہم اس کا پتہ پالیں گے۔ موسیٰؑ  نے جواب دیا: اللہ کہتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہے جس سے خدمت نہیں لی جاتی،  نہ زمین جوتتی ہے نہ پانی کھینچتی ہے،  صحیح سالم اور بے داغ ہو۔اس پر وہ پکار اُٹھے کہ ہاں، اب تم نے ٹھیک پتہ بتایا ہے۔ پھر اُنہوں نے اُسے ذبح کیا،  ورنہ وہ ایسا کرتے معلوم نہ ہوتے تھے۔۸۴ ؏۸

 

۸۰-سلسلۂ  عبارت کو پیش ِ نظر رکھنے سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی تفصیلات بیان کرنا مقصُود نہیں ہے کہ کن کن باتوں کو آدمی مانے اور کیا کیا اعمال کرے تو خدا کے ہاں اجر کا مستحق ہو۔ یہ چیزیں اپنے اپنے موقع پر تفصیل کے ساتھ آئیں گی۔ یہاں تو یہُود یوں کے اِس زعمِ باطل کی تردید مقصُود ہے کہ وہ صرف یہودی گروہ کو نجات کا اجارہ دار سمجھتے تھے۔ وہ اِس خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ ان کے گروہ سے اللہ کا کوئی خاص رشتہ ہے جو دُوسرے انسانوں سے نہیں ہے،  لہٰذا جو ان کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے وہ خواہ اعمال اور عقائد کے لحاظ سے کیسا ہی ہو، بہر حال نجات اس کے لیے مقدّر ہے،  اور باقی تمام انسان جو ان کے گروہ سے باہر ہیں وہ صرف جہنّم کا ایندھن بننے کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لیے فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہاں اصل چیز تمہاری یہ گروہ بندیاں نہیں ہیں بلکہ وہاں جو کچھ اعتبار ہے،  وہ ایمان اور عملِ صالح کا ہے۔ جو انسان بھی یہ چیز لے کر حاضر ہو گا وہ اپنے ربّ سے اپنا اجر پائے گا۔ خدا کے ہاں فیصلہ آدمی کی صفات پر ہو گا نہ کہ تمہاری مردم شماری کے رجسڑوں پر۔

۸۱-اس واقعے کو قرآن میں مختلف مقامات پر جس انداز سے بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہو تی ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل میں یہ ایک مشہور و معرُوف واقعہ تھا۔ لیکن اب اس کی تفصیلی کیفیت معلوم کرنا مشکل ہے۔ بس مجملاً یوں سمجھنا چاہیے کہ پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صُورتِ حال پیدا کر دی گئی تھی کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا پہاڑ ان پر آ پڑے گا۔ ایسا ہی کچھ نقشہ سُورۂ اعراف آیت ۱۷۱ میں کھینچا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ اعراف، حاشیہ نمبر ۱۳۲)

۸۲-سَبْت،  یعنی ہفتے کا دن۔ بنی اسرائیل کے لیے یہ قانون مقرر کیا گیا تھا کہ وہ ہفتے کو آرام اور عبادت کے لیے مخصُوص رکھیں۔ اس روز کسی قسم کا دُنیوی کام،  حتّیٰ کہ کھانا پکانے کا کام بھی نہ خود کریں، نہ اپنے خادموں سے لیں۔ اس باب میں یہاں تک تاکیدی احکام تھے کہ جو شخص اس مقدس دن کی حُرمت کو توڑے،  وہ واجب القتل ہے (ملاحظہ ہو خُروج،  باب ۳۱،  آیت ۱۲-۱۷)۔ لیکن جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و دینی انحطاط کا دَور آیا تو وہ علی الا علان سَبْت کی بے حرمتی کرنے لگے حتّیٰ کہ اُن کے شہروں میں کھُلے بندوں سَبْت کے روز تجارت ہونے لگی۔

۸۳-اس واقعے کی تفصیل آگے سُورہ اعراف رکوع ۲۱ میں آتی ہے۔ ان کے بندر بنائے جانے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جسمانی ہیئت بگاڑ کر بندروں کی سی کر دی گئی تھی اور بعض اس کے یہ معنی لیتے ہیں کہ ان میں بندروں کی سی صفات پیدا ہو گئی تھیں۔ لیکن قرآن کے الفاظ اور اندازِ بیان سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسخ اخلاقی نہیں بلکہ جسمانی تھا۔ میرے نزدیک قرینِ قیاس یہ ہے کہ ان کے دماغ بعینہ اسی حال پر رہنے دیے گئے ہوں گے جس میں وہ پہلے تھے اور جسم مسخ ہو کر بندروں کے سے ہو گئے ہوں گے۔

۸۴-چونکہ ان لوگوں کو اپنی ہمسایہ قوموں سے گائے کی عظمت و تقدیس اور گا ؤ پرستی کے مرض کی چھُوت لگ گئی تھی اس لیے ان کو حکم دیا گیا کہ گائے ذبح کریں۔ ان کے ایمان کا امتحان ہی اسی طرح ہو سکتا تھا کہ اگر وہ واقعی اب خدا کے سوا کسی کو معبُود نہیں سمجھتے،  تو یہ عقیدہ اختیار کرنے سے پہلے جس بُت کو معبُود سمجھتے رہے ہیں اُسے اپنے ہاتھ سے توڑ دیں۔ یہ امتحان بہت کڑا امتحان تھا۔ دلوں میں پُوری طرح ایمان اُترا ہوا تھا، اس لیے اُنہوں نے ٹالنے کی کوشش کی اور تفصیلات پُوچھنے لگے۔ مگر جتنی جتنی تفصیلات وہ پُوچھتے گئے اتنے ہی گھِرتے چلے گئے یہاں تک کہ آخر کار اسی خاص قسم کی سنہری گائے پر، جسے اس زمانے میں پرستش کے لیے مختص کیا جاتا تھا، گویا اُنگلی رکھ کر بتا یا گیا کہ اِسے ذِبح کرو۔ بائیبل میں بھی اس واقعے کی طرف اشارہ ہے،  مگر وہاں یہ ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل نے اس حکم کو کس کس طرح ٹالنے کی کوشش کی تھی۔ (ملاحظہ ہو گنتی،  باب ۱۹- آیت ۱-۱۰)

 

اور تمھیں یاد ہے وہ واقعہ جب تم نے ایک شخص کی جان لی تھی، پھر اُس کے بارے میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر قتل کا الزام تھوپنے لگے تھے اور اللہ نے فیصلہ کر لیا تھا کی جو کچھ تم چھُپاتے ہو،  اسے کھول کر رکھ دے گا۔ اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصّے سے ضرب لگاؤ۔ دیکھو، اسطرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تا کہ تم سمجھو ۸۵۔ مگر ایسی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے،  پتھروں کی طرح سخت،  بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے،  کیونکہ پتھروں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں،  کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نِکل آتا ہے،  اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے۔ اللہ تمھارے کرتُوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ اے مسلمانو!اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ۸۶ ؟حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خُوب سمجھ بُوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔۸۷  (محمد رسول اللہ پر ) ایمان لانے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انھیں مانتے ہیں، اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلیے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ بے وقُوف ہو گئے ہو ؟ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمھارے رب کے پاس تمھارے مقابلے میں انھیں حُجّت میں پیش کریں؟۸۸

 

۸۵-اِس مقام پر یہ بات تو بالکل صریح معلوم ہوتی ہے کہ مقتول کے اندر دوبارہ اتنی دیر کے لیے جان ڈالی گئی کہ وہ قاتل کا پتہ بتا دے۔ لیکن اس غرض کے لیے جو تدبیر بتائی گئی تھی، یعنی ’’لاش کو اس کے ایک حصّے سے ضرب لگا ؤ، ‘‘ اس کے الفاظ میں کچھ ابہام محسُوس ہوتا ہے۔ تا ہم اس کا قریب ترین مفہُوم وہی ہے جو قدیم مفسرین نے بیان کیا ہے،  یعنی یہ کہ اُوپر جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا، اسی کے گوشت سے مقتول کی لاش پر ضرب لگانے کا حکم ہوا۔ اس طرح گویا بیک کرشمہ دو کار ہوئے۔ ایک یہ کہ اللہ کی قدرت کا ایک نشان انہیں دکھایا گیا۔ دُوسرے یہ کہ گائے کی عظمت و تقدیس اور اس کی معبُودیّت پر بھی ایک کاری ضرب لگی کہ اس نام نہاد معبُود کے پاس اگر کچھ بھی طاقت ہوتی، تو اسے ذبح کرنے سے ایک آفت برپا ہو جانی چاہیے تھی، نہ کہ اس کا ذبح ہونا اُلٹا مفید ثابت ہوتا۔

۸۶-یہ خطاب مدینے کے اُن نَو مسلموں سے ہے جو قریب کے زمانے ہی میں نبی عربی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لائے تھے۔ ان لوگوں کے کان میں پہلے سے نبوّت،  کتاب، ملائکہ، آخرت،  شریعت وغیرہ کی جو باتیں پڑی ہوئی تھیں، وہ سب انہوں نے اپنے ہمسایہ یہودیوں ہی سے سُنی تھیں۔ اور یہ بھی انہوں نے یہودیوں ہی سے سُنا تھا کہ دُنیا میں ایک پیغمبر اور آنے والے ہیں،  اور یہ کہ جو لوگ ان کا ساتھ دیں گے وہ ساری دُنیا پر چھا جائیں گے۔ یہی معلومات تھیں جن کی بنا پر اہلِ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوّت کا چرچا سُن کر آپ ؐ کی طرف خود متوجہ ہوئے اور جُوق در جُوق ایمان لائے۔ اب وہ متوقع تھے کہ جو لوگ پہلے ہی سے انبیا اور کُتب آسمانی کے پیرو ہیں اور جن کی دی ہوئی خبروں کی بدولت ہی ہم کو نعمتِ ایمان میسّر ہوئی ہے،  وہ ضرور ہمارا ساتھ دیں گے،  بلکہ اس راہ میں پیش پیش ہوں گے۔ چنانچہ یہی توقعات لے کر یہ پُر جوش نَو مسلم اپنے یہودی دوستوں اور ہمسایوں کے پاس جاتے تھے اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے تھے۔ پھر جب وہ اس دعوت کا جواب انکار سے دیتے تو منافقین اور مخالفینِ اسلام اس سے یہ استدلال کرتے تھے کہ معاملہ کچھ مشتبہ معلوم ہوتا ہے،  ورنہ اگر یہ واقعی نبی ہوتے تو آخر کیسے ممکن تھا کہ اہلِ کتاب کے علما اور مشائخ اور مقدس بزرگ جانتے بُوجھتے ایمان لانے سے منہ موڑتے اور خواہ مخواہ اپنی عاقبت خراب کر لیتے۔ اِس بنا پر بنی اسرائیل کی تاریخی سرگزشت بیان کرنے کے بعد اب ان سادہ دل مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ جن لوگوں کی سابق روایات یہ کچھ رہی ہیں ان سے تم کچھ بہت زیادہ لمبی چوڑی توقعات نہ رکھو، ورنہ جب ان کے پتھر دلوں سے تمہاری دعوتِ حق ٹکرا کر واپس آئے گی، تو دل شکستہ ہو جا ؤ گے۔ یہ لوگ تو صدیوں کے بگڑے ہوئے ہیں۔ اللہ کی جن آیات کو سُن کو تم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے،  انہی سے کھیلتے اور تمسخر کرتے ان کی نسلیں بیت گئی ہیں۔ دینِ حق کو مسخ کر کے یہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال چکے ہیں اور اسی مسخ شدہ دین سے یہ نجات کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا فضول ہے کہ حق کی آواز بلند ہوتے ہی یہ ہر طرف سے دَوڑے چلے آئیں گے۔

۸۷-’’ایک گروہ‘‘ سے مُراد ان کے علما اور حاملینِ شریعت ہیں۔’’ کلام اللہ‘‘ سے مُراد تورات،  زَبور اور وہ دُوسری کتابیں ہیں جو اِن لوگوں کو ان کے انبیا کے ذریعے سے پہنچیں۔’’تحریف ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بات کو اصل معنی و مفہُوم سے پھیر کر اپنی خواہش کے مطابق کچھ دُوسرے معنی پہنا دینا، جو قائل کے منشا کے خلاف ہوں۔ نیز الفاظ میں تغیّر و تبدّل کرنے کو بھی تحریف کہتے ہیں۔۔۔۔ علما ء بنی اسرائیل نے یہ دونوں طرح کی تحریفیں کلام الٰہی میں کی ہیں۔

۸۸-یعنی وہ آپس میں ایک دُوسرے سے کہتے تھے کہ تورات اور دیگر کتبِ آسمانی میں جو پیشین گوئیاں اِس نبی کے متعلق موجود ہیں،  یا جو آیات اور تعلیمات ہماری مقدّس کتابوں میں ایسی ملتی ہیں جن سے ہماری موجودہ روش پر گرفت ہو سکتی ہو، انہیں مسلمانوں کے سامنے بیان نہ کرو، ورنہ یہ تمہارے ربّ کے سامنے ان کو تمہارے خلاف حُجّت کے طَور پر پیش کریں گے۔ یہ تھا اللہ کے متعلق ان ظالموں کے فسادِ عقیدہ کا حال۔ گویا وہ اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ اگر دُنیا میں وہ اپنی تحریفات اور اپنی حق پوشی کو چھُپا لے گئے،  تو آخرت میں ان پر مقدّمہ نہ چل سکے گا۔ اِسی لیے بعد کے جُملۂ  معترضہ میں ان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کیا تم اللہ کو بے خبر سمجھتے ہو۔

 

اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں،  اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ ان میں ایک دوسرا گروہ امیّوں کا ہے،  جو کتاب کا علم رکھتے نہیں،  بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں۔۸۹ پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کیلے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ۹۰۔ اُن کے ہاتھوں کا یہ لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجبِ ہلاکت۔ وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہر گز چھُونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سزا مِل جائے تو مِل جائے ۹۱۔ اِن سے پوچھو،  کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے،  جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کر سکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمّے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے ؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھُوئے گی؟ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکّر میں پڑا رہے گا،وہ دوزخی ہے اور دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وُہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ؏۹

 

۸۹-یہ ان کے عوام کا حال تھا۔ علمِ کتاب سے کورے تھے۔ کچھ نہ جانتے تھے کہ اللہ نے اپنی کتاب میں دین کے کیا اُصُول بتائے ہیں، اخلاق اور شرع کے کیا قواعد سکھائے ہیں اور انسان کی فلاح و خُسران کا مدار کن چیزوں پر رکھا ہے۔ اس علم کے بغیر وہ اپنے مفروضات اور اپنی خواہشات کے مطابق گھڑی ہوئی باتوں کو دین سمجھے بیٹھے تھے اور جھُوٹی توقّعات پر جی رہے تھے۔

۹۰-یہ اُن کے علما کے متعلق ارشاد ہو رہا ہے۔ ان لوگوں نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ کلامِ الٰہی کے معانی کو اپنی خواہشات کے مطابق بدلا ہو، بلکہ یہ بھی کیا کہ بائیبل میں اپنی تفسیروں کو، اپنی قومی تاریخ کو، اپنے اوہام اور قیاسات کو، اپنے خیالی فلسفوں کو، اور اپنے اجتہاد سے وضع کیے ہوئے فقہی قوانین کو کلامِ الٰہی کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور یہ ساری چیزیں لوگوں کے سامنے اس حیثیت سے پیش کیں کہ گویا یہ سب اللہ ہی کی طرف سے آئی ہوئی ہیں۔ ہر تاریخی افسانہ، ہر مُفَسِّر کی تاویل، ہر مُتَکلِّم کا الٰہیاتی عقیدہ، اور ہر فقیہ کا قانونی اجتہاد،  جس نے مجمُوعۂ کتبِ مقدّسہ (بائیبل) میں جگہ پالی، اللہ کا قَول (Word of God ) بن کر رہ گیا۔ اُس پر ایمان لانا فرض ہو گیا اور اس سے پھرنے کے معنی دین سے پھر جانے کے ہو گئے۔

۹۱-یہ یہودیوں کی عام غلط فہمی کا بیان ہے،  جس میں ان کے عامی اور عالم سب مُبتلا تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کچھ کریں،  بہرحال چونکہ ہم یہُودی ہیں،  لہٰذا جہنّم کی آگ ہم پر حرام ہے اور بالفرض اگر ہم کو سزا دی بھی گئی، تو بس چند روز کے لیے وہاں بھیجے جائیں گے اور پھر سیدھے جنّت کی طرف پلٹا دیے جائیں گے۔

 

یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ،  یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا،  نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ پھر ذرا یا د کرو، ہم نے تم سے مضبُوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دُوسرے کا خون نہ بہانہ اور نہ ایک دُوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا،  تم خود اس پر گواہ ہو۔ مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پِٹے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں،  تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کالیں دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا، تو کیا تم کتاب کے ایک حصّے پر ایمان لاتے ہو اور دُوسرے حصّے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟۹۲ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں،  ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے،  جو تم کر رہے ہو۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں،  جنہوں نے آخرت بیچ کر دُنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ اِن کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں کو ئی مدد پہنچ سکے گی۔ ؏١۰

 

۹۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خَزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِ جنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہُودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہو جاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بُوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہُودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہُودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے،  تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انہیں چھُڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لیے دین کو جائز ٹھہرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اِس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے،  مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے۔

 

ہم نے موسیٰؑ  کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسُول بھیجے،  آخر کار عیسیٰ ابنِ مر یم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور رُوحِ پاک سے اس کی مدد کی۔۹۳ پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسُول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سر کشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا! وُہ کہتے ہیں، تمہارے دل محفوظ ہیں۔نہیں ۹۴،  اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے،  اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے،  اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟ باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے،  مگر جب وہ چیز آ گئی جسے وہ پہچان بھی گئے،  تو انھوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔۹۵ خدا کی لعنت ان منکرین پر، کیسا بُرا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں  ۹۶ کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے،  اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل ( وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا!۹۷ لہٰذا اب یہ غضب با لائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کیلئے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں ’’ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں،  جو ہمارے ہاں (یعنی نسل ِ اسرائیل میں ) اُتری ہے۔‘‘اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے،  اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا،ان سے کہو : اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ) کیوں قتل کرتے رہے ؟ تمہارے پاس موسیٰؑ  کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبُود بنا بیٹھے۔ پھر ذرا اُس میثاق کو یاد کرو، جو طور کو تمھارے اُوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سُن لیا، مگر مانیں گے نہیں۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو : اگر تم مومن ہو،  تو یہ عجیب ایمان ہے،  جو ایسی بُری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ اِن سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصُوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنّا کرو ۹۸، اگر تم اس خیال میں سچے ّ ہو تو یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنّا نہ کریں گے،  اس لیے کہ اپنے ہاتھوں جو کچھ کما کر انھوں نے وہاں بھیجا ہے، اس کا اقتضا یہی ہے (کہ وہاں جانے کی تمنّا نہ کریں) اللہ ان ظالموں کے حال سے خوب واقف ہے۔ تم انہیں سب سے بڑھ کر جینے کا حریص ۹۹ پاؤ گے حتّیٰ کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیے،  حالانکہ لمبی عمر بہر حال اُسے عذاب سے تو دُور نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں، اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ ؏١١

 

۹۳-’’ رُوحِ پاک‘‘ سے مُراد علمِ وحی بھی ہے،  اور جبریل بھی جو وحی کا علم لاتے تھے اور خود حضرت مسیحؑ  کی اپنی پاکیزہ رُوح بھی،  جس کو اللہ نے قدسی صفات بنایا تھا۔ ’’روشن نشانیوں‘‘ سے مُراد وہ کھلی کھلی علامات ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر صداقت پسند طالب ِ حق انسان یہ جان سکتا تھا کہ مسیح علیہ السّلام اللہ کے نبی ہیں۔

۹۴-یعنی ہم اپنے عقیدہ و خیال میں اتنے پختہ ہیں کہ تم خواہ کچھ کہو، ہمارے دلوں پر تمہاری بات کا اثر نہ ہو گا۔ یہ وہی بات ہے جو تمام ایسے ہٹ دھرم لوگ کہا کرتے ہیں جن کے دل و دماغ پر جاہلانہ تعصّب کا تسلّط ہوتا ہے۔ وہ اسے عقیدے کی مضبُوطی کا نام دے کر ایک خوبی شمار کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بڑھ کر آدمی کے لیے کوئی عیب نہیں ہے کہ وہ اپنے موروثی عقائد و افکار پر جم جانے کا فیصلہ کر لے،  خواہ ان کا غلط ہونا کیسے ہی قوی دلائل سے ثابت کر دیا جائے۔

۹۵-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد سے پہلے یہُودی بے چینی کے ساتھ اُس نبی کے منتظِر تھے جس کی بعثت کی پیشین گوئیاں ان کے انبیا نے کی تھیں۔ دُعائیں مانگا کرتے تھے کہ جلدی سے وہ آئے تو کفار کا غلبہ مِٹے اور پھر ہمارے عُروج کا دَور شروع ہو۔ خود اہلِ مدینہ اس بات کے شا ہد تھے کہ بعشتِ محمدی ؐ سے پہلے یہی ان کے ہمسایہ یہُودی آنے والے نبی کی اُمّید پر جِیا کر تے تھے اور ان کا آئے دن کا تکیہ ء کلام یہی تھا کہ’’ اچھا، اب تو جس جس کا جی چاہے ہم پر ظلم کر لے،  جب وہ نبی آئے گا تو ہم ان سب ظالموں کو دیکھ لیں گے۔‘‘ اہلِ مدینہ یہ باتیں سُنے ہوئے تھے،  اسی لیے جب انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات معلوم ہوئے تو انہوں نے آپس میں کہا کہ دیکھنا،  کہیں یہ یہُودی تم سے بازی نہ لے جائیں۔ چلو، پہلے ہم ہی اس نبی پر ایمان لے آئیں۔ مگر ان کے لیے یہ عجیب ماجرا تھا کہ وہی یہُودی،  جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گِن رہے تھے،  اس کے آنے پر سب سے بڑھ کر اس کے مخالف بن گئے۔

اور یہ جو فرمایا کہ’’ وہ اس کو پہچان بھی گئے ‘‘، تو اس کے متعدّد ثبوت اُسی زمانے میں مل گئے تھے۔ سب سے زیادہ معتبر شہادت اُمّ المومنین حضرت صَفِیّہ کی ہے،  جو خود ایک بڑے یہُودی عالم کی بیٹی اور ایک دُوسرے عالم کی بھتیجی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینے تشریف لائے،  تو میرے باپ اور چچا دونوں آپ ؐ سے ملنے گئے۔ بڑی دیر تک آپ سے گفتگو کی۔ پھر جب گھر واپس آئے،  تو میں نے اپنے کانوں سے ان دونوں کو یہ گفتگو کرتے سُنا:

چچا: کیا واقعی یہ وہی نبی ہے،  جس کی خبریں ہماری کتابوں میں دی گئی ہیں؟

والد: خدا کی قسم،  ہاں۔

چچا: کیا تم کو اس کا یقین ہے ؟

والد: ہاں۔

چچا: پھر کیا ارادہ ہے ؟

والد: جب تک جان میں جان ہے اس کی مخالفت کروں گا اور اس کی بات چلنے نہ دوں گا۔

( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)

۹۶-اِس آیت کا دُوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’ کیسی بُری چیز ہے،  جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔‘‘ یعنی فلاح و سعادت اور اپنی نجات کو قربان کر دیا۔

۹۷-یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والا نبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا،  جسے وہ اپنے مقابلے میں ہیچ سمجھتے تھے،  تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہو گئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنے فضل سے خود جسے چاہا،  نواز دیا،  تو وہ بگڑ بیٹھے۔

۹۸-یہ ایک تعریض اور نہایت لطیف تعریض ہے اُن کی دُنیا پرستی پر۔ جن لوگوں کو واقعی دارِ آخرت سے کوئی لگا ؤ ہوتا ہے،  وہ دُنیا پر مَرے نہیں جاتے اور نہ موت سے ڈرتے ہیں۔ مگر یہُودیوں کا حال اس کے برعکس تھا اور ہے۔

۹۹-اصل میں عَلیٰ حَیٰوۃٍ کا لفظ ارشاد ہوا ہے،  جس کے معنی ہیں کسی نہ کسی طرح کی زندگی۔ یعنی انہیں محض زندگی کی حرص ہے،  خواہ وہ کسی طرح کی زندگی ہو، عزّت اور شرافت کی ہو یا ذلّت اور کمینہ پن کی۔

 

ان سے کہو کہ جو کوئی جبریل سے عداوت رکھتا ہو ۱۰۰، اسے معلوم ہو نا چاہیے کہ جبریل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے ۱۰۱، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے ۱۰۲ اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔۱۰۳

۱۰۰-یہُودی صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ پر ایمان لانے والوں ہی کو بُرا نہ کہتے تھے، بلکہ خدا کے برگزیدہ فرشتے جبریل کو بھی گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ رحمت کا نہیں، عذاب کا فرشتہ ہے۔

۱۰۱-یعنی اس بنا پر تمہاری گالیاں جبریل پر نہیں بلکہ خداوندِ برتر کی ذات پر پڑتی ہیں۔

۱۰۲-مطلب یہ ہے کہ یہ گالیاں تم اسی لیے تو دیتے ہو کہ جبریل یہ قرآن لے کر آیا ہے اور حال یہ ہے کہ یہ قرآن سراسر تورات کی تائید میں ہے۔ لہٰذا تمہاری گالیوں میں تورات بھی حصّے دار ہوئی۔

۱۰۳-اِ س میں لطیف اشارہ ہے اس مضمون کی طرف کہ نادانو، اصل میں تمہاری ساری ناراضی ہدایت اور راہِ راست کے خلاف ہے۔ تم لڑ رہے ہو اُس صحیح رہنمائی کے خلاف،  جسے اگر سیدھی طرح مان لو، تو تمہارے ہی لیے کامیابی کی بشارت ہو۔

 

(اگر جبریل سے ان کی عداوت کا سبب یہی ہے،  تو کہہ دو کہ) جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبریل اور میکائیل کے دشمن ہیں،  اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں۔ اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔ کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کو ئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجو د تھی،  تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پسِ  پشت ڈالا،  گویا کہ وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے،  جو شیاطین سلیمانؑ  کی سلطنت کا نام لے کر پیش کیا کرتے تھے ۱۰۴، حالانکہ سلیمانؑ  نے کبھی کفر نہیں کیا،  کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگو ں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ اور پیچھے پڑے اس چیز کے جو بابل میں دو فرشتوں،  ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی،  حالانکہ وہ (فرشتے ) جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے،  تو پہلے صاف طور پر متنبہّ کر دیا کرتے تھے کہ ’’دیکھ،  ہم محض ایک آزمائش ہیں،  تُو کفر میں مبتلا نہ ہو  ۱۰۵ ‘‘ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جُدائی ڈال دیں ۱۰۶۔ ظاہر تھا کہ اذنِ  الٰہی کہ بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے،  مگر اس کے با وجود وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو خود ان کے لیے نفع بخش نہیں،  بلکہ نقصان دہ تھی اور انھیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا،  اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بُری متاع تھی جس کے بدلہ انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، کاش انھیں معلوم ہو تا اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا جو بدلہ ملتا،  وہ ان کے لیے زیادہ بہتر تھا کاش انہیں کو ئی خبر ہوتی۔ ؏ ١۲

 

۱۰۴-شیاطین سے مراد شیاطینِ جِنّ اور شیاطینِ اِنس دونوں ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں۔ جب بنی اسرائیل پر اخلاقی و مادّی انحطاط کا دَور آیا اور غلامی، جہالت، نَکبَت و اِفلاس اور ذِلَّت و پستی نے ان کے اندر کوئی بلند حوصلگی و اُولوا العزمی نہ چھوڑی، تو ان کی توجہّات جادُو ٹونے اور طلسمات و ’’عملیات‘‘ اور تعویذ گنڈوں کی طرف مبذول ہونے لگیں۔وہ تو ایسی تدبیریں ڈھونڈنے لگے،  جن سے کسی مشَقّت اور جدّوجہد کے بغیر محض پھُونکوں اور منتروں کے زور پر سارے کام بن جایا کریں۔ اس وقت شیاطین نے ان کو بہکانا شروع کیا کہ سلیمانؑ  کی عظیم الشان سلطنت اور ان کی حیرت انگیز طاقتیں تو سب کچھ چند نقوش اور منتروں کا نتیجہ تھیں، اور وہ ہم تمہیں بتائے دیتے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر اِن چیزوں پر ٹوٹ پڑے اور پھر نہ کتاب اللہ سے ان کو کوئی دلچسپی رہی اور نہ کسی داعی حق کی آواز انہوں نے سُن کر دی۔

۱۰۵-اس آیت کی تاویل میں مختلف اقوال ہیں، مگر جو کچھ میں نے سمجھا ہے ہو یہ ہے کہ جس زمانے میں بنی اسرائیل کی پُوری قوم بابل میں قیدی اور غلام بنی ہوئی تھی، اللہ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو انسانی شکل میں ان کی آزمائش کے لیے بھیجا ہو گا۔ جس طرح قومِ لُوط کے پاس فرشتے خوبصورت لڑکوں کی شکل میں گئے تھے،  اسی طرح ان اسرائیلیوں کے پاس وہ پیروں اور فقیروں کی شکل میں گئے ہوں گے۔ وہاں ایک طرف انہوں نے بازارِ ساحری میں اپنی دکان لگائی ہو گی اور دُوسری طرف وہ اتمامِ حُجَّت کے لیے ہر ایک کو خبردار بھی کر دیتے ہوں گے کہ دیکھو، ہم تمہارے لیے آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں، تم اپنی عاقبت خراب نہ کرو۔ مگر اس کے باوجود لوگ ان کے پیش کردہ عملیات اور نقوش اور تعویذات پر ٹوٹے پڑتے ہوں گے۔

فرشتوں کے انسانی شکل میں آ کر کام کرنے پر کسی کو حیرت نہ ہو۔ وہ سلطنتِ الٰہی کے کار پرداز ہیں۔ اپنے فرائضِ منصبی کے سلسلے میں جس وقت جو صُورت اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اختیار کر سکتے ہیں۔ ہمیں کیا خبر کہ اس وقت بھی ہمارے گرد و پیش کتنے فرشتے انسانی شکل میں آ کر کام کر جاتے ہوں گے۔ رہا فرشتوں کا ایک ایسی چیز سِکھانا جو بجائے خود بُری تھی، تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے پولیس کے بے وردی سپاہی کسی رشوت خور حاکم کو نشان زدہ سِکّے اور نوٹ لے جا کر رشوت کے طور پر دیتے ہیں تاکہ اسے عین حالتِ ارتکابِ جُرم میں پکڑیں اور اس کے لیے بے گناہی کے عذر کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

۱۰۶-مطلب یہ ہے کہ اس منڈی میں سب سے زیادہ جس چیز کی مانگ تھی وہ یہ تھی کہ کوئی ایسا عمل یا تعویذ مِل جائے جس سے ایک آدمی دُوسرے کی بیوی کو اس سے توڑ کر اپنے اوپر عاشق کر لے۔ یہ اخلاقی زوال کا وہ انتہائی درجہ تھا، جس میں وہ لوگ مبتلا ہو چکے تھے۔ پست اخلاقی کا اس سے زیادہ نیچا مرتبہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک قوم کے افراد کا سب سے زیادہ دلچسپ مشغلہ پرائی عورتوں سے آنکھ لڑانا ہو جائے اور کسی منکوحہ عورت کو اس کے شوہر سے توڑ کر اپنا کر لینے کو وہ اپنی سب سے بڑی فتح سمجھنے لگیں۔

ازدواجی تعلق در حقیقت انسانی تمدّن کی جڑ ہے۔ عورت اور مرد کے تعلق کی درستی پر پورے انسانی تمدّن کی درستی کا اور اس کی خرابی پر پورے انسانی تمدّن کی خرابی کا مدار ہے۔ لہٰذا وہ شخص بدترین مُفْسِد ہے جو اُس درخت کی جڑ پر تیشہ چلاتا ہو جس کے قیام پر خود اُس کا اور پوری سوسائٹی کا قیام منحصر ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ابلیس اپنے مرکز سے زمین کے ہر گوشے میں اپنے ایجنٹ روانہ کرتا ہے۔ پھر وہ ایجنٹ واپس آ کر اپنی اپنی کارروائیاں سُناتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے : میں نے فلاں شر کھڑا کیا۔ مگر ابلیس ہر ایک سے کہتا جاتا ہے کہ تُو نے کچھ نہ کیا۔ پھر ایک آتا ہے اور اطلاع دیتا ہے کہ میں ایک عورت اور اس کے شوہر میں جُدائی ڈال آیا ہوں۔ یہ سُن کر ابلیس اس کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تُو کام کر کے آیا ہے۔ اس حدیث پر غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ بنی اسرائیل کی آزمائش کو جو فرشتے بھیجے گئے تھے،  انہیں کیوں حکم دیا گیا کہ عورت اور مرد کے درمیان جدائی ڈالنے کا ’’عمل‘‘ ان کے سامنے پیش کریں۔ دراصل یہی ایک ایسا پیمانہ تھا جس سے ان کے اخلاقی زوال کو ٹھیک ٹھیک ناپا جا سکتا تھا۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ۱۰۷ ؛ رَاعِنَا نہ کہا کرو،  بلکہ اُنظُرنَا کہو اور توجّہ سے بات کو سنو ۱۰۸، یہ کافر تو عذابِ الیم کے مستحق ہیں۔ یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے،  خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں،  ہرگز یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو، مگر اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے چن لیتا ہے اور وہ بڑا فضل فرما نے والا ہے۔ ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں،  اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی ۱۰۹۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ؟

 

۱۰۷-اس رکُوع اور اس کے بعد والے رکوع میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی اختیار کرنے والوں کو اُن شرارتوں سے خبردار کیا گیا ہے جو اسلام اور اسلامی جماعت کے خلاف یہُودیوں کی طرف سے کی جا رہی تھیں، اُن شبہات کے جوابات دیے گئے ہیں جو یہ لوگ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے،  اور اُن خاص خاص نکات پر کلام کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے ساتھ یہُودیوں کی گفتگو میں زیرِ بحث آیا کرتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینے پہنچے اور ان اطراف میں اسلام کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی،  تو یہُودی جگہ جگہ مسلمانوں کو مذہبی بحثوں میں اُلجھانے کی کوشش کرتے تھے،  اپنی موشگافیوں اور تشکیکات اور سوال میں سے سوال نکالنے کی بیماری اِن سیدھے اور سچے لوگوں کو بھی لگانا چاہتے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آ کر پُر فریب مکّارانہ باتیں کر کے اپنی گھٹیا درجے کی ذہنیّت کا ثبُوت دیا کرتے تھے۔

۱۰۸-یہُودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں آتے،  تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ذُو معنی الفاظ بولتے،  زور سے کچھ کہتے اور زیرِ لب کچھ اور کہہ دیتے،  اور ظاہری ادب آداب برقرار رکھتے ہوئے درپردہ آپ کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے۔ قرآن میں آگے چل کر اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ یہاں جس خاص لفظ کے استعمال سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے،  یہ ایک ذُو معنی لفظ تھا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو کے دَوران میں یہُودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش آتی کہ ٹھیریے،  ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجیے،  تو وہ رَاعِنَا کہتے تھے۔اس لفظ کا ظاہری مفہوم تو یہ تھا کہ ذرا ہماری رعایت یہ کیجیے یا ہماری بات سُن لیجیے۔ مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔ مثلاً عبرانی میں اس سے مِلتا جُلتا ایک لفظ تھا، جس کے معنی تھے ’’سُن، تُو بہرا ہو جائے ‘‘۔ اور خُود عربی میں اس کے ایک معنی صاحبِ رعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔ اور گفتگو میں یہ ایسے موقع پر بھی بولا جاتا تھا جب یہ کہنا ہو کہ تم ہماری سُنو، تو ہم تمہاری سُنیں۔ اور ذرا زبان کو لچکا دے کر رَاعِیْنَا بھی بنا لیا جاتا تھا، جس کے معنی ’’اے ہمارے چرواہے ‘‘ کے تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو اور اس کے بجائے اُ نْظُرْ نَا کہا کرو۔یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیے یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔ پھر فرمایا کہ ’’توجّہ سے بات کو سُنو‘‘، یعنی یہُودیوں کو تو بار بار یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بات پر توجّہ نہیں کرتے اور ان کی تقریر کے دَوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں،  مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سننی چاہییں تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے۔

۱۰۹-یہ ایک خاص شُبہ کا جواب ہے جو یہُودی مسلمانوں کے دلوں میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اگر پچھلی کتابیں بھی خدا کی طرف سے آئی تھیں اور یہ قرآن بھی خدا کی طرف سے ہے،  تو اُن کے بعض احکام کی جگہ اِس میں دُوسرے احکام کیوں دیے گئے ہیں؟ ایک ہی خدا کی مختلف وقتوں میں مختلف احکام کیسے ہو سکتے ہیں ؟ پھر تمہارا قرآن یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہُودی اور عیسائی اُس تعلیم کے ایک حصّے کو بھُول گئے جو انہیں دی گئی تھی۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی تعلیم اور وہ حافظوں سے محو ہو جائے ؟ یہ ساری باتیں وہ تحقیق کی خاطر نہیں،  بلکہ اس لیے کرتے تھے کہ مسلمانوں کو قرآن کے مِن جانب اللہ ہونے میں شک ہو جائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مالک ہوں، میرے اختیارات غیر محدُود ہیں، اپنے جس حکم کو چاہوں منسُوخ کر دوں اور جس چیز کو چاہوں، حافظوں سے محو کر دوں۔ مگر جس چیز کو میں منسُوخ کرتا ہوں، اس سے بہتر چیز اس کی جگہ پر لاتا ہوں، یا کم از کم وہ اپنے محل میں اتنی ہی مفید اور مناسب ہوتی ہے جتنی پہلی چیز اپنے محل میں تھی۔

 

کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین اور آسمان کی فرماں روائی اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے ؟ پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبے کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰؑ  سے کیے جا چکے ہیں؟۱۱۰ حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا،  وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف پلٹا لے جائیں۔ اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لیے ان کی یہ خواہش ہے۔ اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو ۱۱۱ یہاں تک کہ اللہ خود ہی اپنا فیصلہ نافذ کر دے۔ مطمئن رہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ تم اپنی عاقبت کے لیے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے،  اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے۔ جو کچھ تم کرتے ہو، وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا ( عیسائیوں کے خیال کے مطابق ) عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ۱۱۲۔ ان سے کہو،  اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ در اصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے،  نہ کسی اور کی۔ حق یہ ہے کہ جو اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے،  اس کے لیے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ ؏١۳

 

۱۱۰-یہُودی موشگافیاں کر کر کے طرح طرح کے سوالات مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے تھے اور انہیں اکساتے تھے کہ اپنے نبی سے یہ پوچھو اور یہ پوچھو اور یہ پوچھو۔ اس پر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متنبہ فرما رہا ہے کہ اس معاملے میں یہُودیوں کی روش اختیار کرنے سے بچو۔ اسی چیز پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی مسلمانوں کو بار بار متنبہ فرمایا کرتے تھے کہ قیل و قال سے اور بال کی کھال نکالنے سے پچھلی اُمّتیں تباہ ہو چکی ہیں، تم اس سے پرہیز کرو۔ جن سوالات کو اللہ اور اس کے رسُول نے نہیں چھیڑا،  ان کو کھوج میں نہ لگو۔ بس جو حکم تمہیں دیا جاتا ہے اس کی پیروی کرو اور جن اُمور سے منع کیا جاتا ہے،  ان سے رُک جا ؤ،  دُور از کار باتیں چھوڑ کر کام کی باتوں پر توجہ صرف کرو۔

۱۱۱-یعنی ان کے عناد اور حسد کو دیکھ کر مشتعل نہ ہو، اپنا توازن نہ کھو بیٹھو، ان سے بحثیں اور مناظرے کرنے اور جھگڑنے میں اپنے قیمتی وقت اور اپنے وقار کو ضائع نہ کرو، صبر کے ساتھ دیکھتے رہو کہ اللہ کیا کرتا ہے۔ فضولیات میں اپنی قوتیں صرف کرنے کے بجائے خدا کے ذکر اور بھلائی کے کاموں میں انہیں صرف کرو کہ یہ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز ہے نہ کہ وہ۔

۱۱۲-یعنی دراصل یہ ہیں تو محض ان کے دل کی خواہشیں اور آرزوئیں،  مگر وہ انہیں بیان اس طرح کر رہے ہیں کہ گویا فی الواقع یہی کچھ ہونے والا ہے۔

 

یہودی کہتے ہیں : عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں۔ عیسا ئی کہتے ہیں : یہودیوں کے پاس کچھ نہیں حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں۔ اور اسی قسم کے دعوے ان لوگو ں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں ہے ۱۱۳۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کر دے گا۔ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے در پے ہو؟ ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں ۱۱۴۔ ان کے لیے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رُخ کرو گے،  اسی طرف اللہ کا رُخ ہے ۱۱۵ اللہ بڑی وسعت والا ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔۱۱۶ ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں کی تمام موجودات اس کی مِلک ہیں۔ سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے،  اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے،  اس کے لیے بس یہ حکم دیتا ہے کہ ’’ ہو جا ‘‘ اور وہ ہو جاتی ہے۔ نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ۱۱۷ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں ) کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔۱۱۸ یقین لانے والو ں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں۔۱۱۹  جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے،  وہ اُسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس پر سچّے دل سے ایمان لاتے ہیں۔۱۲۲ اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہّ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اُٹھانے والے ہیں۔ ؏١۴

 

۱۱۳-یعنی مشرکینِ عرب۔

۱۱۴-یعنی بجائے اس کے کہ عبادت گاہیں اس قسم کے ظالم لوگوں کے قبضہ و اقتدار میں ہوں اور یہ اُن کے متولّی ہوں، ہونا یہ چاہیے کہ خدا پرست اور خدا ترس لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار ہو اور وہی عبادت گاہوں کے متولّی رہیں، تاکہ یہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں بھی،  تو انہیں خوف ہو کہ شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔۔۔۔ یہاں ایک لطیف اشارہ کفارِ مکّہ کے اِس ظلم کی طرف بھی ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے اُن لوگوں کو جو اسلام لا چکے تھے،  بیت اللہ میں عبادت کرنے سے روک دیا تھا۔

۱۱۵-یعنی اللہ نہ شرقی ہے،  نہ غربی۔ وہ تمام سمْتوں اور مقاموں کا مالک ہے،  مگر خود کسی سمت یا کسی مقام میں مقید نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی عبادت کے لیے کسی سمْت یا کسی مقام کو مقرر کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ وہاں یا اس طرف رہتا ہے۔ اور نہ یہ کوئی جھگڑنے اور بحث کرنے کے قابل بات ہے کہ پہلے تم وہاں یا اس طرف عبادت کرتے تھے،  اب تم نے اس جگہ یا  سمْت کو کیوں بدل دیا۔

۱۱۶-یعنی اللہ تعالیٰ محدُود، تنگ دل، تنگ نظر اور تنگ دست نہیں ہے،  جیسا کہ تم لوگوں نے اپنے اوپر قیاس کر کے اسے سمجھ رکھا ہے،  بلکہ اس کی خدائی بھی وسیع ہے اور اس کا زاویۂ  نظر اور دائرۂ فیض بھی وسیع اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کا کونسا بندہ کہاں کس وقت کس نیت سے اس کو یاد کر رہا ہے۔

۱۱۷-اُن کا مطلب یہ تھا کہ خدا، یا تو خود ہمارے سامنے آ کر کہے کہ یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے احکام ہیں، تم لوگ ان کی پیروی کرو،  یا پھر ہمیں کوئی ایسی نشانی دکھائی جائے،  جس سے ہمیں یقین آ جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہے۔

۱۱۸-یعنی آج کے گمراہوں نے کو ئی اعتراض اور کوئی مطالبہ ایسا نہیں گھڑا ہے،  جو ان سے پہلے کے گمراہ پیش نہ کر چکے ہوں۔ قدیم زمانے سے آج تک گمراہی کا ایک ہی مزاج ہے اور وہ بار بار ایک ہی قسم کے شبہات اور اعتراضات اور سوالات دُہراتی رہتی ہے۔

۱۱۹-یہ بات کہ خدا خود آ کر ہم سے بات کیوں نہیں کرتا، اس قدر مہمل تھی کہ اس کا جواب دینے کی حاجت نہ تھی۔ جواب صرف اس بات کا دیا گیا ہے کہ ہمیں نشانی کیوں نہیں دکھائی جاتی۔ اور جواب یہ ہے کہ نشانیاں تو بے شمار موجود ہیں،  مگر جو جاننا چاہتا ہی نہ ہو،  اسے آخر کونسی نشانی دکھائی جا سکتی ہے۔

۱۲۰-یعنی دُوسری نشانیوں کا کیا ذکر، نمایاں ترین نشانی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی شخصیّت ہے۔ آپ ؐ کے نبوّت سے پہلے کے حالات، اور اُس قوم اور ملک کے حالات جس میں آپ ؐ پیدا ہوئے،  اور وہ حالات جن میں آپ نے پرورش پائی اور ۴۰ برس زندگی بسر کی، اور پھر وہ عظیم الشان کارنامہ جو نبی ؐ ہونے کے بعد آپ نے انجام دیا،  یہ سب کچھ ایک ایسی روشن نشانی ہے جس کے بعد کسی اور نشانی کی حاجت نہیں رہتی۔

(اس سے بڑھ کر نشانی کیا ہو گی کہ ) ہم نے تم کو علمِ حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا۔۱۲۰ اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں،  ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو۔ یہودی اور عیسائی تم سے ہر گز راضی نہ ہو نگے،  جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ ۱۲۱ صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے۔ ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پس آ چکا ہے،  تم نے اُن کی خواہشات کی پیروی کی،  تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لیے نہیں ہے۔

۱۲۱-مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی ناراضی کا سبب یہ تو ہے نہیں کہ وہ سچے طالبِ حق ہیں اور تم نے ان کے سامنے حق کو واضح کر نے میں کچھ کمی کی ہے۔ وہ تو اس لیے تم سے ناراض ہیں کہ تم نے اللہ کی آیات اور اس کے دین کے ساتھ وہ منافقانہ اور بازی گرانہ طرزِ عمل کیوں اختیار نہ کیا، خدا پرستی کے پردے میں وہ خود پرستی کیوں نہ کی،  دین کے اُصُول و احکام کو اپنے تخیلات یا اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے میں اُس دیدہ دلیری سے کیوں نہ کام لیا،  وہ ریاکاری اور گندم نمائی و جو فروشی کیوں نہ کی، جو خود ان کا اپنا شیوہ ہے۔ لہٰذا انھیں راضی کرنے کی فکر چھوڑ دو، کیونکہ جب تک تم ان کے سے رنگ ڈھنگ نہ اختیار کر لو، دین کے ساتھ وہی معاملہ نہ کرنے لگو، جو خود یہ کرتے ہیں، اور عقائد و اعمال کی اُنہیں گمراہیوں میں مُبتلا نہ ہو جاؤ،  جن میں یہ مبتلا ہیں، اُس وقت تک ان کا تم سے راضی ہونا محال ہے۔

۱۲۲-یہ اہلِ کتاب کے صالح عنصر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ دیانت اور راستی کے ساتھ خدا کی کتاب کو پڑھتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ کتاب اللہ کی رُو سے حق ہے،  اُسے حق مان لیتے ہیں۔

 

۱۲۳ اے بنی اسرائیل! یاد کرو میری وہ نعمت، جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا، اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی۔ اور ڈرو اس دن سے،  جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی، اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ  کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا ۱۲۴ اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا : ’’میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں‘‘۔ ابراہیمؑ  نے عرض کیا : ’’اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ‘‘؟ اس نے جواب دیا:’’میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ‘‘۱۲۵۔ اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے ) کو لوگوں کے لیے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیمؑ جہاں عبادت کے لیے کھڑا ہو تا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو، اور ابراہیمؑ  اور اسماعیلؑ  کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اورسجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔۱۲۶ اور یہ کہ ابراہیمؑ  نے دعا کی : ’’اے میرے رب،  اس شہر کو امن کا شہر بنا دے اور اس کے باشندو ں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں،  انھیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔‘‘ جو اب میں اس کے رب نے فرمایا ’’اور جو نہ مانے گا،  دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا، ۱۲۷ مگر آخر کار اسے عذابِ جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے۔ ‘‘ اور یا د کرو ابراہیمؑ  اور اسماعیلؑ  جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے،  تو دعا کرتے جاتے تھے،  ’’اے ہمارے رب،  ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے،  تُو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم (مطیع فرمان) بنا،  ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو،  ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا،  اور ہماری کوتاہیو ں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔اور اے رب،  ان لوگوں میں خود انھیں کی قوم سے ایک ایسا رسول اٹھائیو،  جو انھیں تیری آیات سنائے،  ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوارے ۱۲۸۔ تُو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔‘‘ ۱۲۹ ؏١۵
 

۱۲۳-یہاں سے ایک دُوسرا سلسلہ ء تقریر شروع ہو تا ہے،  جسے سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل اُمور کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے :

(۱)حضرت نوحؑ  کے بعد حضرت ابراہیمؑ  پہلے نبی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی عالمگیر دعوت پھیلانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ انہوں نے پہلے خود عراق سے مصر تک اور شام و فلسطین سے ریگستانِ عرب کے مختلف گوشوں تک برسوں گشت لگا کر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری (یعنی اسلام) کی طرف لوگوں کو دعوت دی۔ پھر اپنے اس مِشن کی اشاعت کے لیے مختلف علاقوں میں خلیفہ مقرر کیے۔ شرق اُردن میں اپنے بھتیجے حضرت لُوطؑ  کو،  شام و فلسطین میں اپنے بیٹے اسحاقؑ  کو، اور اندرُونِ عرب میں اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ  کو مامور کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکّے میں وہ گھر تعمیر کیا،  جس کا نام کعبہ ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ ا س مِشن کا مرکز قرار پایا۔

(۲)حضرت ابراہیمؑ  کی نسل سے دو بڑی شاخیں نکلیں: ایک حضرت اسماعیلؑ  کی اولاد جو عرب میں رہی۔ قریش اور عرب کے بعض دُوسرے قبائل کا تعلق اسی شاخ سے تھا۔ اور جو عرب قبیلے نسلاً حضرت اسماعیلؑ  کی اولاد نہ تھے وہ بھی چونکہ اُن کے پھیلائے ہوئے مذہب سے کم و بیش متاثر تھے،  اس لیے وہ اپنا سلسلہ انہی سے جوڑتے تھے۔ دُوسرے حضرت اسحاقؑ  کی اولاد، جن میں حضرات یعقوبؑ ،  یوسفؑ ،  موسیٰؑ ،  داؤدؑ ،  سلیمانؑ ،  یحییٰؑ ،  عیسیٰؑ  اور بہت سے انبیا علیہم السّلام پیدا ہوئے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے،  حضرت یعقوبؑ  کا نام چونکہ اسرائیل تھا اس لیے یہ نسل بنی اسرائیل کے نام سے مشہور ہوئی۔ اُن کی تبلیغ سے جن دُوسری قوموں نے اُن کا دین قبول کیا، انہوں نے یا تو اپنی انفرادیّت ہی اُن کے اندر گم کر دی، یا وہ نسلاً تو اُن سے الگ رہے،  مگر مذہباً اِن کے متِبع رہے۔ اسی شاخ میں جب پستی و تنزّل کا دَور آیا، تو پہلے یہُودیّت پیدا ہوئی اور پھر عیسائیت نے جنم لیا۔

(۳)حضرت ابراہیمؑ  کا اصل کام دُنیا کو اللہ کی اطاعت کی طرف بُلانا اور اللہ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کے مطابق انسانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی کا نظام درست کرنا تھا۔ وہ خود اللہ کے مطیع تھے،  اس کے دیے ہوئے علم کی پیروی کرتے تھے،  دنیا میں اُس علم کو پھیلاتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ سب اِنسان مالکِ کائنات کے مطیع ہو کر رہیں۔ یہی خدمت تھی، جس کے لیے وہ دُنیا کے امام و پیشوا بنائے گئے تھے۔ اُن کے بعد یہ امامت کا منصب اُن کی نسل کی اُس شاخ کو مِلا، جو حضرت اسحاقؑ  اور حضرت یعقوبؑ  سے چلی اور بنی اسرائیل کہلائی۔ اسی میں انبیا پیدا ہوتے رہے،  اسی کو راہِ راست کا علم دیا گیا، اسی کے سپر د یہ خدمت کی گئی کہ اس راہِ راست کی طرف اقوامِ عالم کی رہنمائی کرے،  اور یہی وہ نعمت تھی، جسے اللہ تعالیٰ بار بار اس نسل کے لوگوں کو یاد دلا رہا ہے۔ اس شاخ نے حضرت سلیمانؑ  کے زمانے میں بیت المَقْدِس کو اپنا مرکز قرار دیا۔ اس لیے جب تک یہ شاخ امامت کے منصب پر قائم رہی،  بیت المقدس ہی دعوت اِلی اللہ کا مرکز اور خدا پرستوں کا قبلہ رہا۔

(۴)پچھلے دس رکوعوں میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے اُن کی تاریخی فردِ قرار دادِ جُرم اور ان کی وہ موجودہ حالت، جو نزولِ قرآن کے وقت تھی، بے کم و کاست پیش کر دی ہے اور ان کو بتا دیا ہے کہ تم ہماری اُس نعمت کی انتہائی ناقدری کر چکے ہو جو ہم نے تمہیں دی تھی۔ تم نے صرف یہی نہیں کیا کہ منصبِ امامت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا،  بلکہ خود بھی حق اور راستی سے پھر گئے،  اور اب ایک نہایت قلیل عنصرِ صالح کے سوا تمہاری پُوری اُمت میں کوئی صلاحیّت باقی نہیں رہی ہے۔

(۵)اس کے بعد اب انھیں بتایا جا رہا ہے کہ امامت ابراہیمؑ  کے نُطفے کی میراث نہیں ہے بلکہ یہ اس سچّی اطاعت و فرماں برداری کا پھل ہے،  جس میں ہمارے اُس بندے نے اپنی ہستی کو گم کر دیا تھا، اور اس کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں،  جو ابراہیمؑ  کے طریقے پر خود چلیں اور دُنیا کو اس طریقے پر چلانے کی خدمت انجام دیں۔ چونکہ تم اس طریقے سے ہٹ گئے ہو اور اس خدمت کی اہلیت پُوری طرح کھو چکے ہو، لہٰذا تمہیں امامت کے منصب سے معزُول کیا جا تا ہے۔

(۶)ساتھ ہی اشاروں اشاروں میں یہ بھی بتا دیا جاتا ہے کہ جو غیر اسرائیلی قومیں موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السّلام کے واسطے سے حضرت ابراہیمؑ  کے ساتھ اپنے تعلق پر فخر کرتے ہیں، محض نس و نسب کے فخر کو لیے بیٹھے ہیں۔ ورنہ ابراہیمؑ  و اسماعیلؑ  کے طریقے سے اب ان کو دُور کا واسطہ بھی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا ان میں سے بھی کوئی امامت کا مستحق نہیں ہے۔

(۷)پھر یہ بات ارشاد ہوتی ہے کہ اب ہم نے ابراہیمؑ  کی دُوسری شاخ، بنی اسماعیلؑ  میں و ہ رسُول ؐ پیدا کیا ہے،  جس کے لیے ابراہیمؑ  اور اسماعیلؑ  نے دُعا کی تھی۔ اس کا طریقہ وہی ہے،  جو ابراہیمؑ ،  اسماعیلؑ ،  اسحاقؑ ،  یعقوبؑ  اور دُوسرے تمام انبیا کا تھا۔ وہ اور اس کے پیرو تمام ان پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہیں جو دنیا میں خدا کی طرف سے آئے ہیں اور اسی راستہ کی طرف دُنیا کو بُلاتے ہیں جس کی طرف سارے انبیا دعوت دیتے چلے آئے ہیں۔ لہٰذا اب امامت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو اس رسول کی پیروی کریں۔

(۸)تبدیلِ  امامت کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی قدرتی طور پر تحویلِ قبلہ کا اعلان ہونا بھی ضروری تھا۔ جب تک بنی اسرائیل کی امامت کا دَور تھا، بیت المقدس مرکزِ دعوت رہا اور وہی قبلۂ  اہلِ حق بھی رہا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیرو بھی اس وقت تک بیت المقدس ہی کو قبلہ بنائے رہے۔ مگر جب بنی اسرائیل اس منصب سے باضابطہ معزُول کر دیے گئے،  تو بیت المقدس کی مرکزیّت آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ لہٰذا اعلان کیا گیا کہ اب وہ مقام دینِ الٰہی کا مرکز ہے،  جہاں سے اِس رسُول کی دعوت کا ظہُور ہوا ہے۔ اور چونکہ ابتدا میں ابراہیمؑ  کی دعوت کا مرکز بھی یہی مقام تھا، اس لیے اہلِ کتاب اور مشرکین،  کسی کے لیے بھی تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ قبلہ ہونے کا زیادہ حق کعبے ہی کو پہنچتا ہے۔ ہٹ دھرمی کی بات دُوسری ہے کہ وہ حق کو حق جانتے ہوئے بھی اعتراض کیے چلے جائیں۔

۱۲۴-قرآن میں مختلف مقامات پر اُن تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے،  جن سے گزر کر حضرت ابراہیمؑ  نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا تھا کہ انہیں بنی نوعِ انسان کا امام و رہنما بنایا جائے۔ جس وقت سے حق ان پر منکشف ہوا، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں، جن سے انسان محبّت کرتا ہے،  اُن میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی،  جس کو حضرت ابراہیمؑ  نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو۔ اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں،  جن سے آدمی ڈرتا ہے،  اُن میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا،  جسے انہوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو۔

۱۲۵-یعنی یہ وعدہ تمہاری اولاد کے صرف اُس حصّے سے تعلق رکھتا ہے جو صالح ہو۔ ان میں سے جو ظالم ہوں گے،  اُن کے لیے یہ وعدہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ گمراہ یہُودی اور مشرک بنی اسمٰعیل اس وعدے کے مصداق نہیں ہیں۔

۱۲۶-پاک رکھنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ کُوڑے کرکٹ سے اُسے پاک رکھا جائے۔ خدا کے گھر کی اصل پاکی یہ ہے کہ اس میں خدا کے سوا کسی کا نام بلند نہ ہو۔ جس نے خانۂ  خدا میں خدا کے سوا کسی دُوسرے کو مالک،  معبُود، حاجت روا اور فریاد رس کی حیثیت سے پکارا، اس نے حقیقت میں اُسے گندا کر دیا۔ یہ آیت ایک نہایت لطیف طریقے سے مشرکینِ قریش کے جُرم کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ ظالم لوگ ابراہیمؑ  اور اسماعیلؑ  کے وارث ہونے پر فخر تو کرتے ہیں،  مگر وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اس حق کو پامال کر رہے ہیں۔ لہٰذا جو وعدہ ابراہیمؑ  سے کیا گیا تھا، اس سے جس طرح بنی اسرائیل مستثنیٰ ہو گئے ہیں، اسی طرح یہ مشرک بنی اسمٰعیل بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔

۱۲۷-حضرت ابراہیمؑ  نے جب منصبِ امامت کے متعلق پوچھا تھا، تو ارشاد ہوا تھا کہ اس منصب کا وعدہ تمہاری اولاد کے صرف مومن و صالح لوگوں کے لیے ہے،  ظالم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ  رزق کے لیے دُعا کر نے لگے،  تو سابق فرمان کو پیشِ نظر رکھ کر اُنہوں نے صرف اپنی مومن اولاد ہی کے لیے دُعا کی، مگر اللہ تعالیٰ نے جواب میں اس غلط فہمی کو فوراً رفع فرما دیا اور انہیں بتایا کہ امامتِ صالحہ اَور چیز ہے اور رزقِ  دُنیا دُوسری چیز۔ امامتِ صالحہ صرف مومنینِ صالح کو ملے گی، مگر رزقِ دُنیا مومن و کافر سب کو دیا جائے گا۔ اس سے یہ بات خود بخود نِکل آئی کہ اگر کسی کو رزقِ دُنیا فراوانی کے ساتھ مِل رہا ہو، تو وہ اس غلط فہمی میں نہ پڑے کہ اللہ اس سے راضی بھی ہے اور وہی خدا کی طرف سے پیشوائی کا مستحق بھی ہے۔

۱۲۸-زندگی سنوارنے میں خیالات، اخلاق،  عادات، معاشرت، تمدّن، سیاست، غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے۔

۱۲۹-اس سے یہ بتانا مقصُود ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہُور دراصل حضرت ابراہیمؑ  کی دُعا کا جواب ہے۔

 
اب کو ن ہے،  جو ابراہیمؑ  کے طریقے سے نفرت کرے ؟ جس نے خود اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو،  اس کے سوا کو ن یہ حرکت کر سکتا ہے ؟ ابراہیمؑ  تو وہ شخص ہے،  جس کو ہم نے دنیا میں اپنے کا م کے لیے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہو گا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا، ’’مسلم ہو جا ۱۳۰، ‘‘ تو اس نے فوراً کہا ’’میں مالک کائنات‘‘ کا ’’مسلم ہو گیا‘‘۔اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوبؑ  ۱۳۱ اپنی اولاد کو کر گیا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’میرے بچو، اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند کیا ہے۔۱۳۲ لہٰذا مرتے دم تک تم مسلم ہی رہنا۔‘‘ پھر کیا تم اس وقت موجو د تھے جب یعقوبؑ  اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا؟ اس نے مر تے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا ’’بچو!میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ ‘‘ ان سب نے جواب دیا ’’ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے،  جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراہیمؑ ،  اسماعیلؑ  اور اسحاقؑ  نے خدا مانا ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں۔۱۳۳‘‘وہ کچھ لوگ تھے،  جو گزر گئے۔ جو کچھ انھوں نے کمایا۔ وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے، وہ تمہارے لیے ہے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔۱۳۴ یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو تو راہ راست پاؤ گے۔ عیسا ئی کہتے ہیں : عیسائی ہو،  تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو: ’’نہیں،  بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیمؑ  کا طریقہ۔ اور ابراہیمؑ  مشرکوں میں سے نہ تھا۔۱۳۵‘‘ مسلمانو! کہو کہ ’’ہم ایمان لائے او راس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیمؑ ،  اسماعیلؑ ،  اسحاقؑ ،  یعقوبؑ  اور اولاد یعقوبؑ  کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰؑ  اور عیسیٰؑ ؑ  اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں ۱۳۶۔‘‘ پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں،  جس طرح تم لائے ہو،  تو ہدایت پر ہیں،  اور اگر اس سے منہ پھیریں،  تو کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔ لہٰذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ کہو:’’اللہ کا رنگ اختیار کرو۔۱۳۷ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں۔‘‘ اے نبی! ان سے کہو: ’’کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو ؟ حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔۱۳۸ ہمارے اعمال ہمارے لیے تمہارے اعمال تمہارے لیے،  اور ہم اللہ ہی کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں۔۱۳۹ یا پھر کیا تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیمؑ ،  اسماعیلؑ ،  اسحاقؑ ،  یعقوبؑ  اور اولاد یعقوبؑ  سب کے سب یہودی تھے یا نصرانی تھے ؟ کہو ’’تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟۱۴۰ اس شخص سے بڑا ظالم اور کو ن ہو گا، جس کے ذمے اللہ کی طرف سے ایک گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے ؟ تمہاری حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے۔۱۴۱ وہ کچھ لوگ تھے،  جو گزر چکے۔ ان کی کمائی ان کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہو گا۔  ؏١٦
 

۱۳۰-مُسْلِم: وہ جو خدا کے آگے سرِ اطاعت خَم کر دے،  خدا ہی کو اپنا مالک، آقا،  حاکم اور معبُود مان لے،  جو اپنے آپ کو بالکلیہ خدا کے سپرد کر دے اور اُس ہدایت کے مطابق دنیا میں زندگی بسر کرے،  جو خدا کی طرف سے آئی ہو۔ اس عقیدے اور اس طرزِ عمل کا نام’’ اسلام‘‘ ہے اور یہی تمام انبیا کا دین تھا جو ابتدائے آفرینش سے دنیا کے مختلف ملکوں اور قوموں میں آئے۔

۱۳۱-حضرت یعقوبؑ  کا ذکر خاص طور پر اُس لیے فرمایا کہ بنی اسرائیل براہِ راست انھیں کی اولاد تھے۔

۱۳۲-دین، یعنی طریقِ زندگی، نظام حیات،  وہ آئین جس پر انسان دنیا میں اپنے پُورے طرزِ فکر اور طرزِ عمل کی بنا رکھے۔

۱۳۳-بائیبل میں حضرت یعقوبؑ  کی وفات کا حال بڑی تفصیل سے لکھا گیا ہے،  مگر حیرت ہے کہ اس وصیّت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ تَلْموُد میں جو مفصّل وصیّت درج ہے،  اس کا مضمون قرآن کے بیان سے بہت مشابہ ہے۔ اس میں حضرت یعقوبؑ  کے یہ الفاظ ہمیں ملتے ہیں:

’’خداوند اپنے خدا کی بندگی کرتے رہنا،  وہ تمہیں اُسی طرح تمام آفات سے بچائے گا، جس طرح تمہارے آبا ؤ اجداد کو بچاتا رہا ہے۔۔۔۔۔ اپنے بچوں کو خدا سے محبت کرنے اور اس کے احکام بجا لانے کی تعلیم دینا تاکہ ان کی مُہلتِ زندگی دراز ہو، کیوں کہ خدا ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے،  جو حق کے ساتھ کام کرتے ہیں، اور اس کی راہوں پر ٹھیک ٹھیک چلتے ہیں۔‘‘ جواب میں اُن کے لڑکوں نے کہا: ’’جو کچھ آپ نے ہدایت فرمائی ہے ہم اس کے مطابق عمل کریں گے۔ خدا ہمارے ساتھ ہو!‘‘ تب یعقوبؑ  نے کہا ’’اگر تم خدا کی سیدھی راہ سے دائیں یا بائیں نہ مڑو گے،  تو خدا ضرور تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘

۱۳۴-یعنی اگرچہ تم اُن کی اولاد سہی، مگر حقیقت میں تمہیں ان سے کوئی واسطہ نہیں۔ اُن کا نام لینے کا تمہیں کیا حق ہے جبکہ تم اُن کے طریقے سے پھر گئے۔ اللہ کے ہاں تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے،  بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم خود کیا کرتے رہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’’جو کچھ اُنہوں نے کمایا، وہ اُن کے لیے ہے اور جو کچھ تم کما ؤ گے،  وہ تمہارے لیے ہے، ‘‘ یہ قرآن کا خاص اندازِ بیان ہے۔ ہم جس چیز کو فعل یا عمل کہتے ہیں، قرآن اپنی زبان میں اسے کسب یا کمائی کہتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اپنا ایک اچھا یا بُرا نتیجہ رکھتا ہے،  جو خدا کی خوشنودی یا ناراضگی کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ وہی نتیجہ ہماری کمائی ہے۔ چونکہ قرآن کی نگاہ میں اصل اہمیّت اسی نتیجے کی ہے،  اس لیے اکثر وہ ہمارے کاموں کو عمل و فعل کے الفاظ سے تعبیر کرنے کے بجائے ’’کسب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔

۱۳۵-اس جواب کی لطافت سمجھنے کے لیے دو باتیں ذہن میں رکھیے :

ایک یہ کہ یہُودیّت اور عیسائیت دونوں بعد کی پیداوار ہیں۔ ’’یہُودیّت‘‘ اپنے اِس نام اور اپنی مذہبی خصُوصیات اور رسُوم و قواعد کے ساتھ تیسری چوتھی صدی قبل مسیح میں پیدا ہوئی۔ اور ’’عیسائیت ‘‘ جن عقائد اور مخصُوص مذہبی تصوّرات کے مجمُوعے کا نام ہے وہ تو حضرت مسیحؑ  کے بھی ایک مُدت بعد وجود میں آئے ہیں۔ اب یہ سوال خود بخود پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی کے برسرِ ہدایت ہونے کا مدار یہُودیّت یا عیسائیت اختیار کرنے ہی پر ہے،  تو حضرت ابراہیمؑ  اور دُوسرے انبیا اور نیک لوگ، جو اِن مذہبوں کی پیدائش سے صدیوں پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کو خود یہُودی اور عیسائی بھی ہدایت یافتہ مانتے ہیں، وہ آخر کس چیز سے ہدایت پاتے تھے ؟ ظاہر ہے کہ وہ ’’یہُودیّت‘‘ اور ’’عیسائیت‘‘ نہ تھی۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ واضح ہو گئی کہ انسان کے ہدایت یافتہ ہونے کا مدار اُن مذہبی خصُوصیّات پر نہیں ہے،  جن کی وجہ سے یہ یہُودی اور عیسائی وغیرہ مختلف فرقے بنے ہیں، بلکہ دراصل اس کا مدار اُس عالمگیر صراطِ مستقیم کے اختیار کرنے پر ہے،  جس سے ہر زمانے میں انسان ہدایت پاتے رہے ہیں۔

دُوسرے یہ کہ خود یہُود و نصاریٰ کی اپنی مقدس کتابیں اس بات پر گواہ ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ  ایک اللہ کے سوا کسی دُوسرے کی پرستش،  تقدیس،  بندگی اور اطاعت کے قائل نہ تھے اور ان کا مشن ہی یہ تھا کہ خدائی کی صفات و خصُوصیات میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ ٹھیرایا جائے۔ لہٰذا یہ بالکل ظاہر ہے کہ یہُودیت اور نصرانیت دونوں اُس راہِ راست سے منحرف ہو گئی ہیں، جس پر حضرت ابراہیمؑ  چلتے تھے،  کیونکہ ان دونوں میں شرک کی آمیزش ہو گئی ہے۔

۱۳۶-پیغمبروں کے درمیان تفریق نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُن کے درمیان اس لحاظ سے فرق نہیں کرتے کہ فلاں حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا یا یہ کہ ہم فلاں کو مانتے ہیں اور فلاں کو نہیں مانتے۔ ظاہر ہے کہ خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر بھی آئے ہیں، سب کے سب ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہِ راست کی طرف بُلانے آئے ہیں۔ لہٰذا جو شخص صحیح معنی میں حق پرست ہے،  اُس کے لیے تمام پیغمبروں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ جو لوگ کسی پیغمبر کو مانتے اور کسی کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں اُس پیغمبر کے بھی پیرو نہیں ہیں، جسے وہ مانتے ہیں،  کیونکہ انہوں نے دراصل اُس عالمگیر صراطِ  مستقیم کو نہیں پایا ہے،  جسے حضرت موسیٰؑ  یا عیسیٰؑ  یا کسی دُوسرے پیغمبر نے پیش کیا تھا، بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ اُن کا اصل مذہب نسل پرستی کا تعصّب اور آبا و اجداد کی اندھی تقلید ہے،  نہ کہ کسی پیغمبر کی پیروی۔

۱۳۷-اس آیت کے دو ترجمے ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ ’’ہم نے اللہ کا رنگ اختیار کر لیا‘‘، دوسرے یہ کہ ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو‘‘۔ مسیحیّت کے ظہُور سے پہلے یہُودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص اُن کے مذہب میں داخل ہوتا، اُسے غُسل دیتے تھے اور اِس غُسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گناہ دھُل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔ یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کر لی۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اِسطباغ (بپتسمہ) ہے اور یہ اصطباغ نہ صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اُن کے مذہب میں داخل ہوتے ہیں، بلکہ بچّوں کو بھی دیا جاتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے،  اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے ؟ اللہ کا رنگ اختیار کرو، جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا،  بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے۔

۱۳۸-’’یعنی ہم یہی تو کہتے ہیں کہ اللہ ہی ہم سب کا ربّ ہے اور اسی کی فرمانبرداری ہونی چاہیے۔ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر تم ہم سے جھگڑا کرو؟ جھگڑے کا اگر کوئی موقع ہے بھی، تو وہ ہمارے لیے ہے،  نہ کہ تمہارے لیے،  کیونکہ اللہ کے سوا دُوسروں کو بندگی کا مستحق تم ٹھیرا رہے ہو نہ کہ ہم‘‘۔

’اَ تُحَآ جُّوْنَنَا فِی اللہِ‘‘ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’کیا تمہارا جھگڑا ہمارے ساتھ فِیْ سَبِیْلِ اللہ ہے ‘‘؟ اِس صُورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اگر واقعی تمہارا یہ جھگڑا نفسانی نہیں ہے،  بلکہ خدا واسطے کا ہے،  تو یہ بڑی آسانی سے طے ہو سکتا ہے۔

۱۳۹-یعنی تم اپنے اعمال کے ذمّے دار ہو اور ہم اپنے اعمال کے۔ تم نے اگر اپنی زندگی کو تقسیم کر رکھا ہے اور اللہ کے ساتھ دُوسروں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرا کر ان کی پرستش اور اطاعت بجا لاتے ہو،  تو تمہیں ایسا کرنے کا اختیار ہے،  اس کا انجام خود دیکھ لو گے۔ ہم تمہیں زبردستی اس سے روکنا نہیں چاہتے۔ لیکن ہم نے اپنی بندگی، اطاعت اور پرستش کو بالکل اللہ ہی کے لیے خالص کر دیا ہے۔ اگر تم تسلیم کر لو کہ ہمیں بھی ایسا کرنے کا اختیار ہے،  تو خواہ مخواہ کا یہ جھگڑا آپ ہی ختم ہو جائے۔

۱۴۰-یہ خطاب یہُود و نصاریٰ کے اُن جاہل عوام سے ہے جو واقعی اپنے نزدیک یہ سمجھتے تھے کہ یہ جلیل القدر انبیا سب کے سب یہودی یا عیسائی تھے۔

۱۴۱-یہ خطاب اُن کے علما سے ہے،  جو خود بھی اس حقیقت سے ناواقف نہ تھے کہ یہودیت اور عیسائیت اپنی موجودہ خصوصیّات کے ساتھ بہت بعد میں پیدا ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود وہ حق کے اپنے ہی فرقوں میں محدُود سمجھتے تھے اور عوام کو اسی غلط فہمی میں مبتلا رکھتے تھے کہ انبیا کے مدّتوں بعد جو عقیدے،  جو طریقے اور جو اجتہادی ضابطے اور قاعدے ان کے فقہا،  صوفیہ اور متکلّمین نے وضع کیے،  انہیں کی پیروی پر انسان کی فلاح اور نجات کا مدار ہے۔ ان علما سے جب پوچھا جاتا تھا کہ اگر یہی بات ہے،  تو حضرت ابراہیمؑ ،  اسحاقؑ ،  یعقوبؑ  وغیرہ انبیا علیہم السّلام آخر تمہارے اِن فرقوں میں سے کس سے تعلق رکھتے تھے،  تو وہ اس کا جواب دینے سے گریز کرتے تھے،  کیونکہ ان کا علم انہیں یہ کہنے کی تو اجازت نہ دیتا تھا کہ ان بزرگوں کا تعلق ہمارے ہی فرقے سے تھا۔ لیکن اگر وہ صاف الفاظ میں یہ مان لیتے کہ یہ انبیا نہ یہُودی تھے،  نہ عیسائی،  تو پھر ان کی حجّت ہی ختم ہو جاتی تھی۔

 

نادان لوگ ضرور کہیں گے :اِنہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے تھے،  اس سے یکایک پھر گئے ؟۱۴۲ اے نبیؐ،  ان سے کہو: ’’مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھاتا ہے۔۱۴۳ اِسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’’اُمّتِ وَسَط ‘‘بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو۔۱۴۴ پہلے جس طرف تم رُخ کرتے تھے،  اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کو ن اُلٹا پھر جاتا ہے۔۱۴۵ یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت،  مگر اُن لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا،  جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے،  اللہ تمہارے اس ایمان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے۔ یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اُسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجدِ حرام کی طرف رُخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو،  اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔۱۴۶ یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی،  خُوب جانتے ہیں کہ(تحویلِ قبلہ کا ) یہ حکم ان کے ربّ ہی کی طرف سے ہے اور بر حق ہے،  مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں،اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔تم ان اہلِ کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ،  ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں، اور نہ تمہارے لیے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دُوسرے کے قبلے کی پیروی کے لیے تیار نہیں، اور اگر تم نے اس علم کے بعد،  جو تمہارے پاس آ چکا ہے،  ان کی خواہشات کی پیروی کی،  تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔۱۴۷جِن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے،  وہ اس مقام کو(جسے قبلہ بنایا گیا ہے ) ایسا پہچانتے ہیں، جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں،۱۴۸ مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے۔ یہ قطعی  ایک امرِ حق ہے تمہارے ربّ کی طرف سے،  لہٰذا اس کے متعلق تم ہر گز کسی شک میں نہ پڑو۔ ؏١۷

 

۱۴۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہجرت کے بعد مدینۂ  طیّبہ میں سولہ یا سترہ مہینے تک بیت المَقْدِس کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ پھر کعبے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم آیا، جس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

۱۴۳-یہ ان نادانوں کے اعتراض کا پہلا جواب ہے۔ اُن کے دماغ تنگ تھے،  نظر محدُود تھی، سمت اور مقام کے بندے بنے ہوئے تھے۔ ان کا گمان یہ تھا کہ خدا کسی خاص سمت میں مُقَیّد ہے۔ اس لیے سب سے پہلے ان کے جاہلانہ اعتراض کی تردید میں یہی فرمایا گیا کہ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ کسی سمت کو قبلہ بنانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ اسی طرف ہے۔ جِن لوگوں کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے،  وہ اس قسم کی تنگ نظریوں سے بالاتر ہوتے ہیں اور ان کے لیے عالمگیر حقیقتوں کے ادراک کی راہ کھُل جاتی ہے۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۱۱۵، نمبر ۱۱۶)

۱۴۴-یہ اُمّتِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت کا اعلان ہے۔ ’’اسی طرح‘‘ کا اشارہ دونوں طرف ہے : اللہ کی اُس رہنمائی کی طرف بھی، جس سے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی قبول کرنے والوں کو سیدھی راہ معلوم ہوئی اور وہ ترقی کرتے کرتے اِس مرتبے پر پہنچے کہ ’’ اُمّتِ وَسَط‘‘ قرار دیے گئے،  اور تحویلِ قبلہ کی طرف بھی کہ نادان اسے محض ایک سَمْت سے دُوسری سَمْت کی طرف پھرنا سمجھ رہے ہیں، حالانکہ دراصل بیت المقدس سے کعبے کی طرف سَمْت قبلہ کا پھرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو دُنیا کی پیشوائی کے منصب سے باضابطہ معزُول کیا اور اُمّتِ محمدیہ کو اس پر فائز کر دیا۔

’’اُمتِ وَسَط‘‘ کا لفظ اس قدر وسیع معنویت اپنے اندر رکھتا ہے کہ کسی دُوسرے لفظ سے اس کے ترجمے کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مراد ایک ایسا اعلیٰ اور اشرف گروہ ہے،  جو عدل و انصاف اور توسّط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیان صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔

پھر یہ جو فرمایا کہ تمہیں ’’اُمّتِ وَسَط‘‘ اس لیے بنایا گیا ہے کہ ’’تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسُول تم پر گواہ ہو‘‘ تو اس سے مراد یہ ہے کہ آخرت میں جب پوری نوعِ انسانی کا اکٹھا حساب لیا جائے گا،  اُس وقت رسُول ہمارے ذمّہ دار نمائندے کی حیثیت سے تم پر گواہی دے گا کہ فکرِ صحیح اور عملِ صالح اور نظامِ عدل کی جو تعلیم ہم نے اُسے دی تھی،  وہ اس نے تم کو بے کم و کاست پوری کی پوری پہنچا دی اور عملاً اس کے مطابق کام کر کے دکھا دیا۔ اس کے بعد رسُول کے قائم مقام ہونے کی حیثیت سے تم کو عام انسانوں پر گواہ کی حیثیت سے اُٹھنا ہو گا اور یہ شہادت دینی ہو گی کہ رسُول نے جو کچھ تمہیں پہنچایا تھا، وہ تم نے انہیں پہنچانے میں،  اور جو کچھ رسُول نے تمہیں دکھایا تھا وہ تم نے انہیں دکھانے میں اپنی حد تک کوئی کوتاہی نہیں کی۔

اس طرح کسی شخص یا گروہ کا اس دُنیا میں خدا کی طرف سے گواہی کے منصب پر مامور ہونا ہی درحقیقت اس کا امامت اور پیشوائی کے مقام پر سرفراز کیا جانا ہے۔ اس میں جہاں فضیلت اور سرفرازی ہے وہیں ذمّہ داری کا بہت بڑا بار بھی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح رسُول صلی اللہ علیہ و سلم اس اُمّت کے لیے خدا ترسی،  راست روی، عدالت اور حق پرستی کی زندہ شہادت بنے،  اسی طرح اِس اُمّت کو بھی تمام دُنیا کے لیے زندہ شہادت بننا چاہیے،  حتّیٰ کہ اس کے قول اور عمل اور برتا ؤ،  ہر چیز کو دیکھ کر دُنیا کو معلوم ہو کہ خدا ترسی اس کا نام ہے،  راست روی یہ ہے،  عدالت اس کو کہتے ہیں اور حق پرستی ایسی ہوتی ہے۔ پھر اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ جس طرح خدا کی ہدایت ہم تک پہنچانے کے لیے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذمّہ داری بڑی سخت تھی، حتّیٰ کہ اگر وہ اِس میں ذرا سی کوتاہی بھی کرتے تو خدا کے ہاں ماخوذ ہوتے،  اُسی طرح دُنیا کے عام انسانوں تک اس ہدایت کو پہنچانے کی نہایت سخت ذمّہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ہم خدا کی عدالت میں واقعی اس بات کی شہادت نہ دے سکے کہ ہم نے تیری ہدایت،  جو تیرے رسُول کے ذریعے سے ہمیں پہنچی تھی،  تیرے بندوں تک پہنچا دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے،  تو ہم بہت بُری طرح پکڑے جائیں گے اور یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دَور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دُنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں، اُن سب کے لیے ائمۂ  شر اور شیاطینِ انس و جِنّ کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخوذ ہوں گے۔ ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دُنیا میں معصیت،  ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا، تو تم کہاں مر گئے تھے۔

۱۴۵-یعنی اس سے مقصُود یہ دیکھنا تھا کہ کون لوگ ہیں جو جاہلیّت کے تعصّبات اور خاک و خون کی غلامی میں مبتلا ہیں، اور کون ہیں جو اِن بندشوں سے آزاد ہو کر حقائق کا صحیح ادراک کرتے ہیں۔ ایک طرف اہلِ عرب اپنے وطنی و نسلی فخر میں مبتلا تھے اور عرب کے کعبے کو چھوڑ کر باہر کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا ان کی اِس قوم پرستی کے بُت پر ناقابلِ برداشت ضرب تھا۔ دُوسری طرف بنی اسرائیل اپنی نسل پرستی کے غرور میں پھنسے ہوئے تھے اور اپنے آبائی قبلے کے سوا کسی دُوسرے قبلے کو برداشت کرنا ان کے لیے محال تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ بُت جن لوگوں کے دلوں میں بسے ہوئے ہوں، وہ اُس راستے پر کیسے چل سکتے تھے،  جس کی طرف اللہ کا رسُول انہیں بُلا رہا تھا۔ اس لیے اللہ نے ان بُت پرستوں کو سچّے حق پرستوں سے الگ چھانٹ دینے کے لیے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا تاکہ جو لوگ عربیّت کے بُت کی پرستش کرتے ہیں، وہ الگ ہو جائیں۔ پھر اس قبلے کو چھوڑ کر کعبے کو قبلہ بنایا تاکہ جو اسرائیلیت کے پرستار ہیں، وہ بھی الگ ہو جائیں۔ اِس طرح صرف وہ لوگ رسُول کے ساتھ رہ گئے،  جو کسی بُت کے پرستار نہ تھے،  محض خدا کے پرستار تھے۔

۱۴۶-یہ ہے وہ اصل حکم،  جو تحویلِ قبلہ کے بارے میں دیا گیا تھا۔ یہ حکم رجب یا شعبان ۲ ہجری میں نازل ہوا۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بِشْر بن بَراء بن مَعْرُور کے ہاں دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ وہاں ظہر کا وقت آگیا اور آپ لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھا چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے سے یہ آیت نازل ہوئی اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں جماعت کے تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رُخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطرافِ مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ بَراء بن عازِب کہتے ہیں کہ ایک جگہ منادی کی آواز اس حالت میں پہنچی کہ لوگ رکوع میں تھے۔ حکم سنتے ہی سب کے سب اسی حالت میں کعبے کی طرف مُڑ گئے۔ اَنس بن مالک کہتے ہیں کہ بنی سَلمَہ میں یہ اطلاع دُوسرے روز صبح کی نماز کے وقت پہنچی۔ لوگ ایک رکعت پڑھ چکے تھے کہ ان کے کانوں میں آواز پڑی: ’’خبردار رہو، قبلہ بدل کر کعبے کی طرف کر دیا گیا ہے ‘‘۔ سنتے ہی پوری جماعت نے اپنا رُخ بدل دیا۔

خیال رہے کہ بیت المقدس مدینے سے عین شمال میں ہے اور کعبہ بالکل جنوب میں۔ نماز با جماعت پڑھتے ہوئے قبلہ تبدیل کرنے میں لامحالہ امام کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہو گا اور مقتدیوں کو صرف رُخ ہی نہ بدلنا پڑا ہو گا،  بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنی پڑی ہوں گی۔ چنانچہ بعض روایات میں یہی تفصیل مذکور بھی ہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ’’ ہم تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں ‘‘ اور یہ کہ’’ ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو‘‘، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا حکم آنے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اِس کے منتظر تھے۔ آپ خود یہ محسوس فرما رہے تھے کہ بنی اسرائیل کی امامت کا دَور ختم ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ بیت المقدس کی مرکزیّت بھی رخصت ہوئی۔ اب اصل مرکزِ ابراہیمی کی طرف رُخ کرنے کا وقت آگیا ہے۔

مسجدِ حرام کے معنی ہیں حُرمت اور عزّت والی مسجد۔ اس سے مُراد وہ عبادت گاہ ہے،  جس کے وسط میں خانۂ  کعبہ واقع ہے۔

کعبے کی طرف رُخ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہ دُنیا کے کسی کونے میں ہو، اُسے بالکل ناک کی سیدھ میں کعبے کی طرف رُخ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کرنا ہر وقت ہر شخص کے لیے ہر جگہ مشکِل ہے۔ اسی لیے کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے،  نہ کہ کعبے کی سیدھ میں۔ قرآن کی رُو سے ہم اس بات کے لیے ضرور مُکَلف ہیں کہ حتّی الامکان صحیح سَمْتِ کعبہ کی تحقیق کریں، مگر اس بات پر مُکَلف نہیں ہیں کہ ضرور بالکل ہی صحیح سَمْت معلوم کر لیں۔ جس سمت کے متعلق ہمیں امکانی تحقیق سے ظنِ غالب حاصل ہو جائے کہ یہ سَمْتِ کعبہ ہے،  اُدھر نماز پڑھنا یقیناً صحیح ہے۔ اور اگر کہیں آدمی کے لیے سَمْتِ قبلہ کی تحقیق مشکل ہو،  یا وہ کسی ایسی حالت میں ہو کہ قبلے کی طرف اپنی سَمْت قائم نہ رکھ سکتا ہو (مثلاً ریل یا کشتی میں ) تو جس طرف اسے قبلے کا گمان ہو، یا جس طرف رُخ کرنا اس کے لیے ممکن ہو، اسی طرف وہ نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ اگر دورانِ نماز میں صحیح سمتِ  قبلہ معلوم ہو جائے یا صحیح سَمْت کی طرف نماز پڑھنا ممکن ہو جائے،  تو نماز کی حالت ہی میں اس طرف پھر جانا چاہیے۔

۱۴۷-’’مطلب یہ ہے کہ قبلے کے متعلق جو حُجَّت و بحث یہ لوگ کرتے ہیں، اُس کا فیصلہ نہ تو اِس طرح ہو سکتا ہے کہ دلیل سے انہیں مطمئن کر دیا جائے،  کیونکہ یہ تعصّب اور ہٹ دھرمی میں مُبتلا ہیں اور کسی دلیل سے بھی اُس قبلے کو چھوڑ نہیں سکتے،  جسے یہ اپنی گروہ بندی کے تعصّبات کی بنا پر پکڑے ہوئے ہیں۔ اور نہ اس کا فیصلہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ تم ان کے قبلے کو اختیار کر لو، کیونکہ ان کا کوئی ایک قبلہ نہیں ہے،  جس پر یہ سارے گروہ متفق ہوں اور اسے اختیار کر لینے سے قبلے کا جھگڑا چُک جائے۔ مختلف گروہوں کے مختلف قبلے ہیں۔ ایک کا قبلہ اختیار کر کے بس ایک ہی گروہ کو راضی کر سکو گے۔ دُوسروں کا جھگڑا بدستور باقی رہے گا۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پیغمبر کی حیثیت سے تمہارا یہ کام ہے ہی نہیں کہ تم لوگوں کو راضی کرتے پھرو اور ان سے لین دین کے اُصُول پر مصالحت کیا کرو۔ تمہارا کام تو یہ ہے کہ جو علم ہم نے تمہیں دیا ہے،  سب سے بے پروا ہو کر صرف اُسی پر سختی کے ساتھ قائم ہو جا ؤ۔ اس سے ہٹ کر کسی کو راضی کرنے کی فکر کرو گے،  تو اپنے پیغمبری کے منصب پر ظلم کرو گے اور اُس نعمت کی ناشکری کرو گے،  جو دُنیا کا امام بنا کر ہم نے تمہیں بخشی ہے۔

۱۴۸-یہ عرب کا محاورہ ہے۔ جس چیز کو آدمی یقینی طور پر جانتا ہو اور اُس کے متعلق کسی قسم کا شک و اشتباہ نہ رکھتا ہو، اُسے یُوں کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کو ایسا پہچانتا ہے،  جیسا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے۔ یعنی،  جس طرح اُسے اپنے بچّوں کو پہچاننے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا، اسی طرح وہ بِلا کسی شک کے یقینی طور پر اس چیز کو بھی جانتا ہے۔ یہُودیوں اور عیسائیوں کے علما حقیقت میں یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ کعبے کو حضرت ابراہیمؑ  نے تعمیر کیا تھا اور اس کے برعکس بیت المقدس اس کے ۱۳ سو برس بعد حضرت سلیمانؑ  کے ہاتھوں تعمیر ہوا اور اُنہی کے زمانے میں قبلہ قرار پایا۔ اس تاریخی واقعے میں ان کے لیے ذرہ برابر کسی اشتباہ کی گنجائش نہ تھی۔

 

ہر ایک کے لیے ایک رُخ ہے،  جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔۱۴۹ جہاں بھی تم ہو گے،  اللہ تمہیں پا لے گا۔ اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو،  وہیں سے اپنا رُخ(نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل بر حق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو،  اپنا رُخ مسجدِ حرام ہی کی طرف پھیرا کرو،  اور جہاں بھی تم ہو، اُسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجّت نہ ملے۔۱۵۰ ہاں جو ظالم ہیں،  اُن کی زبان کسی حال میں بند نہ ہو گی۔ تو اُن سے تم نہ ڈرو،  بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اور اس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں ۱۵۱ اور اس توقع پر  ۱۵۲ کہ میرے اس حکم کی پیروی سے تم اسی طرح فلاح کا راستہ پاؤ گے  جس طرح (تہیں اس چیز سے فلاح نصیب ہوئی کہ ) میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا،  جو تمہیں میری آیات سناتا ہے،  تمہارے زندگیوں کو سنوارتا ہے،  تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے،  اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے،  جو تم نہ جانتے تھے۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو،  میں تمہیں یاد رکھوں گا، اور میرا شکر ادا کرو،  کفرانِ نعمت نہ کرو۔ ؏١۸
 

۱۴۹-پہلے فقرے اور دُوسرے فقرے کے درمیان ایک لطیف خلا ہے،  جسے سامع خود تھوڑے سے غور و فکر سے بھر سکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز جسے پڑھنی ہو گی، اسے بہرحال کسی نہ کسی سمت کی طرف رُخ کرنا ہی ہو گا۔ مگر اصل چیز وہ رُخ نہیں ہے،  جس طرف تم مُڑتے ہو، بلکہ اصل چیز وہ بھلائیاں ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے تم نماز پڑھتے ہو۔ لہٰذا سَمْت اور مقام کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں فکر بھلائیوں کے حصُول ہی کی ہونی چاہیے۔

۱۵۰-یعنی ہمارے اس حکم کی پُوری پابندی کرو۔ کبھی ایسا نہ ہو کہ تم میں سے کوئی شخص مقررہ سَمْت کے سوا کسی دُوسری سَمْت کی طرف نماز پڑھتے دیکھا جائے۔ ورنہ تمہارے دُشمنوں کو تم پر یہ اعتراض کرنے کا موقع مل جائے گا کہ کیا خوب اُمّتِ وَسَط ہے،  کیسے اچھے حق پرستی کے گواہ بنے ہیں، جو یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ یہ حکم ہمارے ربّ کی طرف سے آیا ہے اور پھر اس کی خلاف ورزی بھی کیے جاتے ہیں۔

۱۵۱-نعمت سے مُراد وہی امامت اور پیشوائی کی نعمت ہے،  جو بنی اسرائیل سے سَلْب کر کے اس اُمت کو دی گئی تھی۔ دُنیا میں ایک اُمّت کی راست روی کا یہ انتہائی ثمرہ ہے کہ وہ اللہ کے اَمِرتَشْرِیْعِی سے اقوامِ عالم کی رہنما و پیشوا بنائی جائے اور نَوعِ انسانی کو خدا پرستی اور نیکی کے راستے پر چلانے کی خدمت اس کے سپرد کی جائے۔ یہ منصب جس اُمت کو دیا گیا،  حقیقت میں اُس پر اللہ کے فضل و انعام کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ یہاں یہ فرما رہا ہے کہ تحویلِ قبلہ کا یہ حکم دراصل اس منصب پر تمہاری سرفرازی کا نشان ہے،  لہٰذا تمہیں اس لیے بھی ہمارے اس حکم کی پیروی کرنی چاہیے کہ ناشکری و نافرمانی کرنے سے کہیں یہ منصب تم سے چھین نہ لیا جائے۔ اس کی پیروی کر و گے،  تو یہ نعمت تم پر مکمل کر دی جائے گی۔

۱۵۲-یعنی اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے یہ اُمید رکھو۔ یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ کا اپنی شانِ  بے نیازی کے ساتھ کسی نوکر سے یہ کہہ دینا کہ ہماری طرف سے فلاں عنایت و مہربانی کے اُمیدوار رہو، اس بات کے لیے بالکل کافی ہوتا ہے کہ وہ ملازم اپنے گھر شادیانے بجوا دے اور اسے مبارکبادیاں دی جانے لگیں۔

 

۱۵۳ اے لوگو جو ایمان لائے ہو صبر اور نماز سے مدد لو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔۱۵۴ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں،  انہیں مُردہ نہ کہو،  ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں،  مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا ۱۵۵۔ اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر،  فاقہ کشی،  جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے،  تو کہیں کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جا نا ہے ۱۵۶،‘‘ انھیں خوشخبری دے دو۔ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رو ہیں۔یقیناً صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے، ۱۵۷ اس کے لیے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سعی کر لے ۱۵۸ اور جو برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔۱۵۹ جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں در آں حال یہ کہ ہم انھیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں،  یقین جانو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔۱۶۰ البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے اسے بیان کرنے لگیں،  ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا در گزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔جن لوگوں نے کفر کا رویہ ۱۶۱ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے،  نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انھیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اس رحمٰن اور رحیم کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ ؏١۹

 

۱۵۳-منصب امامت پر مامور کرنے کے بعد اب اس اُمّت کو ضروری ہدایات دی جا رہی ہیں۔ مگر تمام دُوسری باتوں سے پہلے انہیں جس پات پر متنبہ کیا جا رہا ہے،  وہ یہ ہے کہ یہ کوئی پھُولوں کا بستر نہیں ہے،  جس پر آپ حضرات لِٹائے جا رہے ہوں۔ یہ تو ایک عظیم الشّان اور پُر خطر خدمت ہے،  جس کا بار اُٹھانے کے ساتھ ہی تم پر ہر قسم کے مصائب کی بارش ہو گی، سخت آزمائشوں میں ڈالے جا ؤ گے،  طرح طرح کے نقصانات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور جب صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ ان تمام مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے خدا کی راہ میں بڑھے چلے جا ؤ گے،  تب تم پر عنایات کی بارش ہو گی۔

۱۵۴-یعنی اِس بھاری خدمت کا بوجھ اُٹھانے کے لیے جس طاقت کی ضرورت ہے،  وہ تمہیں دو چیزوں سے حاصل ہو گی۔ ایک یہ کہ صبر کی صفت اپنے اندر پرورش کرو۔ دُوسرے یہ کہ نماز کے عمل سے اپنے آپ کو مضبُوط کرو۔ آگے چل کر مختلف مقامات پر اس امر کی تشریحات ملیں گی کہ صبر بہت سے اہم ترین اخلاقی اوصاف کے لیے جامع عنوان ہے۔ اور حقیقت میں یہ وہ کلیدِ  کامیابی ہے،  جس کے بغیر کوئی شخص کسی مقصد میں بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح آگے چل کر نماز کے متعلق بھی تفصیل سے معلوم ہو گا کہ وہ کِس کِس طرح افرادِ مومنین اور جماعتِ مومنین کو اس کارِ عظیم کے لیے تیار کرتی ہے۔

۱۵۵-موت کا لفظ اور اس کا تصوّر انسان کے ذہن پر ایک ہمّت شکن اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے اس بات سے منع کیا گیا کہ شُہداء فی سبیل اللہ کو مُردہ کہا جائے،  کیونکہ اس سے جماعت کے لوگوں میں جذبۂ  جہاد و قتال اور رُوحِ جاں فروشی کے سرد پڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے بجائے ہدایت کی گئی کہ اہلِ ایمان اپنے ذہن میں یہ تصوّر جمائے رکھیں کہ جو شخص خدا کی راہ میں جان دیتا ہے،  وہ حقیقت میں حیاتِ جاوداں پاتا ہے۔ یہ تصوّر مطابقِ واقعہ بھی ہے اور اس سے رُوحِ شجاعت بھی تازہ ہوتی اور تازہ رہتی ہے۔

۱۵۶-کہنے سے مُراد صرف زبان سے یہ الفاظ کہنا نہیں ہے،  بلکہ دل سے اس بات کا قائل ہونا ہے کہ ’’ہم اللہ ہی کے ہیں‘‘، اس لیے اللہ کی راہ میں ہماری جو چیز بھی قربان ہوئی، وہ گویا ٹھیک اپنے مَصْرَف میں صرف ہوئی، جس کی چیز تھی اسی کے کام آ گئی۔ اور یہ کہ’’ اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹنا ہے ‘‘، یعنی بہرحال ہمیشہ اس دُنیا میں رہنا نہیں ہے۔ آخر کار، دیر یا سویر،  جانا خدا ہی کے پاس ہے۔ لہٰذا کیوں نہ اس کی راہ میں جان لڑا کر اس کے حضُور حاضر ہوں۔ یہ اس سے لاکھ درجہ بہتر ہے کہ ہم اپنے نفس کی پرورش میں لگے رہیں اور اسی حالت میں،  اپنی موت ہی کے وقت پر کسی بیماری یا حادثے کے شکار ہو جائیں۔

۱۵۷-ذُولحجّہ کی مقرر تاریخوں میں کعبے کی جو زیارت کی جاتی ہے،  اس کا نام حج ہے اور ان تاریخوں کے ماسوا دُوسرے کسی زمانے میں جو زیارت کی جائے،  وہ عُمْرَہ ہے۔

۱۵۸-‘‘صَفَا اور مَرْوَہ مسجدِ حرام کے قریب دو پہاڑیاں ہیں، جن کے درمیان دَوڑنا منجملہ اُن مَناسِک کے تھا، جو اللہ تعالیٰ نے حج کے لیے حضرت ابراہیمؑ  کو سکھائے تھے۔ بعد میں جب مکّے اور آس پاس کے تمام علاقوں میں مُشرکانہ جاہلیّت پھیل گئ، تو صَفَا پر ’’اِساف‘‘ اور مَرْوَہ پر ’’نائلہ‘‘ کے استھان بنا لیے گئے اور ان کے گرد طواف ہونے لگا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے سے اسلام کی روشنی اہلِ عرب تک پہنچی،  تو مسلمانوں کے دلوں میں یہ سوال کھٹکنے لگا کہ آیا صَفَا اور مَرْوَہ کی سَعْی حج کے اصلی مناسک میں سے ہے یا محض زمانۂ  شرک کی ایجاد ہے،  اور یہ کہ سَعْی سے کہیں ہم ایک مشرکانہ فعل کے مرتکب تو نہیں ہو جائیں گے۔ نیز حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ مدینہ کے دِلوں میں پہلے ہی سے سعی بین الصّفا و المَرْوَہ کے بارے میں کراہت موجود تھی، کیونکہ وہ مَناۃ کے معتقد تھے اور اساف و نائلہ کو نہیں مانتے تھے۔ اِنہی وجوہ سے ضروری ہوا کہ مسجدِحرام کو قبلہ مقرر کر نے کے موقع پر اُن غلط فہمیوں کو دُور کر دیا جائے جو صَفَا اور مَرْوَہ کے بارے میں پائی جاتی تھیں،  اور لوگوں کو بتا دیا جائے کہ ان دونوں مقامات کے درمیان سعی کرنا حج کے اصلی مَنَاسِک میں سے ہے اور یہ کہ ان مقامات کا تقدس خدا کی جانب سے ہے،  نہ کہ اہلِ جاہلیّت کی من گھڑت۔

۱۵۹-یعنی بہتر تو یہ ہے کہ یہ کام دلی رغبت کے ساتھ کرو، ورنہ حکم بجا لانے کے لیے تو کرنا ہی ہو گا۔

۱۶۰-علمائے یہود کا سب سے بڑا قصُور یہ تھا کہ اُنہوں نے کتاب اللہ کے علم کی اشاعت کرنے کے بجائے اس کو ربّیوں اور مذہبی پیشہ وروں کے ایک محدُود طبقے میں مقید کر رکھا تھا اور عامّۂ  خلائق تو درکنار،  خود یہُود عوام تک کو اس کی ہوا نہ لگنے دیتے تھے۔ پھر جب عام جہالت کی وجہ سے ان کے اندر گمراہیاں پھیلیں، تو علما نے نہ صرف یہ کہ اصلاح کی کوئی کوشش نہ کی،  بلکہ وہ عوام میں اپنی مقبولیّت برقرار رکھنے کے لیے ہر اُس ضلالت اور بدعت کو، جس کا رواج عام ہو جاتا،  اپنے قول و عمل سے یا اپنے سکوت سے اُلٹی سندِ جواز عطا کرنے لگے۔ اسی سے بچنے کی تاکید مسلمانوں کو کی جا رہی ہے۔ دُنیا کی ہدایت کا کام جس اُمّت کے سپرد کیا جائے،  اُس کا فرض یہ ہے کہ اس ہدایت کو زیادہ سے زیادہ پھیلائے،  نہ یہ کہ بخیل کے مال کی طرح اسے چھپا رکھے۔

۱۶۱-’’کفر‘‘ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا، قبول کرنا، تسلیم کر لینا۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا،  رد کر دینا، انکار کرنا۔ قرآن کی رُو سے کفر کے رویّہ کی مختلف صُورتیں ہیں:

ایک یہ کہ انسان سرے سے خدا ہی کو نہ مانے،  یا اُس کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم نہ کرے اور اس کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک اور معبُود ماننے سے انکار کر دے،  یا اسے واحد مالک اور معبُود نہ مانے۔

دُوسرے یہ کہ اللہ کو تو مانے مگر اُس کے احکام اور اُس کی ہدایات کو واحد منبعِ علم و قانون تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔

تیسرے یہ کہ اُصُولاً اس بات کو بھی تسلیم کر لے کہ اسے اللہ ہی کی ہدایت پر چلنا چاہیے،  مگر اللہ اپنی ہدایات اور اپنے احکام پہنچانے کے لیے جن پیغمبروں کو واسطہ بنا تا ہے،  انہیں تسلیم نہ کرے۔

چوتھے یہ کہ پیغمبروں کے درمیان تفریق کرے اور اپنی پسند یا اپنے تعصّبات کی بنا پر ان میں سے کسی کو مانے اور کسی کو نہ مانے۔

پانچویں یہ کہ پیغمبروں نے خدا کی طرف سے عقائد، اخلاق اور قوانینِ حیات کے متعلق جو تعلیمات بیان کی ہیں اُن کو، یا اُن میں سے کسی چیز کو قبول نہ کرے۔

چھٹے یہ کہ نظریّے کے طور پر تو ان سب چیزوں کو مان لے مگر عملاً احکامِ الٰہی کی دانستہ نافرمانی کرے اور اس نافرمانی پر اصرار کرتا رہے،  اور دُنیوی زندگی میں اپنے رویّے کی بنا اطاعت پر نہیں بلکہ نا فرمانی ہی پر رکھے۔

یہ سب مختلف طرزِ فکر و عمل اللہ کے مقابلے میں باغیانہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک رویّے کو قرآن کفر سے تعبیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامات پر قرآن میں کفر کا لفظ کفرانِ نعمت کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور شکر کے مقابلے میں بولا گیا ہے۔ شکر کے معنی یہ ہیں کہ نعمت جس نے دی ہے انسان اس کا احسان مند ہو، اس کے احسان کی قدر کرے،  اس کی دی ہوئی نعمت کو اسی کی رضا کے مطابق استعمال کرے،  اور اُس کا دل اپنے مُحسن کے لیے وفاداری کے جذبے سے لبریز ہو۔ اس کے مقابلے میں کفر یا کفرانِ نعمت یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنے مُحسن کا احسان ہی نہ مانے اور اسے اپنی قابلیت یا کسی غیر کی عنایت یا سفارش کا نتیجہ سمجھے،  یا اُس کی دی ہوئی نعمت کی ناقدری کرے اور اسے ضائع کر دے،  یا اُس کی نعمت کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے،  یا اس کے احسانات کے باوجود اس کے ساتھ غدر اور بے وفائی کرے۔ اس نوع کے کفر کو ہماری زبان میں بالعمُوم احسان فراموشی،  نمک حرامی، غدّاری اور ناشکرے پن کے الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

 

 (اس حقیقت کو پہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو )جو لوگ عقل سے کا م لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں،  رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،  ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں،  بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں،  اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں،  بے شمار نشانیاں ہیں۔ ۱۶۲ (مگر وحدتِ خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی ) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں ۱۶۳ اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ ۱۶۴ کاش،  جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انھیں سوجھنے والا ہے وہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے،  مگر سزا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے،  کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بے زاری ظاہر کر رہے ہیں،  ہم ان سے بے زار ہو کر دکھا دیتے۔ ۱۶۵ یوں اللہ ان لوگو ں کے وہ اعمال،  جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔  ؏۲۰
 

۱۶۲-یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے،  محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظام میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کو خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو۔

۱۶۳-یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں اُن میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں،  اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا اُن میں سے بعض حقوق یہ لوگ اُن دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلۂ اسباب پر حکمرانی،  حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت پر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اُسی کو مقتدرِ اعلیٰ مانیں، اُسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جھُکائیں، اُسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں، اُسی کو مدد کے لیے پکاریں، اُسی پر بھروسہ کریں، اُسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اُسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے،  ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے، ان کو امر و نہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختار سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رُجوع کریں۔ جو شخص خدا کی اِن صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے،  اور اُس کے اِن حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اُسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ اِن صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔

۱۶۴-یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کر لے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔

۱۶۵-یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشوا ؤ ں اور لیڈروں اور اُن کے نادان پیرو ؤ ں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مُبتلا ہو کر پچھلی اُمتّیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں۔

 

لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انھیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔۱۶۶ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں۔۱۶۷ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔۱۶۸ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہیں کی پیروی کیے چلے جائیں گے ؟ یہ لوگ جنھوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔۱۶۹ یہ بہرے ہیں،  گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔۱۷۰ اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے ، کہ مردار نہ کھاؤ، خون سے اور سُور کے گوشت سے پرہیز کرو، اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سِوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔۱۷۱ ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے ، تو اس پر کچھ گناہ نہیں ، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔۱۷۲ حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں ، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں ۱۷۳۔قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انھیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، ۱۷۴ اور ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ یہ لوگ ہیں جنھوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا۔ کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب بر داشت کرنے کے لیے تیار ہیں!یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلافات نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ ؏۲١
 

۱۶۶-یعنی کھانے پینے کے معاملے میں اُن تمام پابندیوں کو توڑ ڈالو جو توہمّات اور جاہلانہ رسموں کی بنا پر لگی ہوئی ہیں۔

۱۶۷-یعنی ان وہمی رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ خیال کہ یہ سب مذہبی اُمور ہیں جو خدا کی طرف سے تعلیم کیے گئے ہیں، دراصل شیطانی اِغوا کا کرشمہ ہے۔ اس لیے کہ فی الواقع ان کے مِن جانب اللہ ہونے کی کوئی سَنَد موجود نہیں ہے۔

۱۶۸-یعنی ان پابندیوں کے لیے ان کے پاس کوئی سَنَد اور کوئی حجّت اس کے سوا نہیں ہے کہ باپ دادا سے یُوں ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ نادان سمجھتے ہیں کہ کسی طریقے کی پیروی کے لیے یہ حجّت بالکل کافی ہے۔

۱۶۹-اس تمثیل کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ان لوگوں کی حالت اُن بے عقل جانوروں کی سی ہے جن کے گلّے اپنے اپنے چرواہوں کے پیچھے چلے جاتے ہیں اور بغیر سمجھے بُوجھے ان کی صدا ؤ ں پر حرکت کرتے ہیں۔ اور دُوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ کرتے وقت ایسا محسُوس ہوتا ہے کہ گویا جانوروں کو پکارا جا رہا ہے جو فقط آواز سُنتے ہیں،  مگر کچھ نہیں سمجھتے کہ کہنے والا اُن سے کیا کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے الفاظ ایسے جامع استعمال فرمائے ہیں کہ یہ دونوں پہلو اِن کے تحت آ جاتے ہیں۔

۱۷۰-یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات، اور زمانۂ  جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے،  ربّیوں اور پادریوں نے،  جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھا ؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُ الخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رُخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور اُن توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہلِ جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اُس کا اُن پابندیوں پر قائم رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اُس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے۔

۱۷۱-اس کا اطلاق اُس جانور کے گوشت پر بھی ہوتا ہے جسے خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اُس کھانے پر بھی ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کِسی اَور کے نام پر بطور نذر کے پکایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور ہو یا غلّہ یا اور کوئی کھانے کی چیز،  دراصل اس کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اللہ ہی نے وہ چیز ہم کو عطا کی ہے۔ لہٰذا اعترافِ نعمت صدقہ و نذر و نیاز کے طور پر اگر کسی کا نام ان چیزوں پر لیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کا نام ہے۔ اس کے سوا کسی دُوسرے کا نام لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم خدا کے بجائے یا خدا کے ساتھ اس کی بالاتری بھی تسلیم کر رہے ہیں اور اس کو بھی مُنعِم سمجھتے ہیں۔

۱۷۲-اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ واقعی مجبُوری کی حالت ہو۔ مثلاً بھُوک یا پیاس سے جان پر بن گئی ہو، یا بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے سوا اور کوئی چیز میسّر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل میں موجود نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے،  مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند قطرے یا چند گھونٹ اگر جان پچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے۔

۱۷۳-مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں میں یہ جتنے غلط توہّمات پھیلے ہیں اور باطل رسموں اور بے جا پابندیوں کی جو نئی نئی شریعتیں بن گئی ہیں ان سب کی ذمّہ داری ان علما پر ہے جن کے پاس کتابِ الٰہی کا علم تھا مگر انہوں نے عامۂ  خلائق تک اس علم کو نہ پہنچایا۔ پھر جب لوگوں میں جہالت کی وجہ سے غلط طریقے رواج پانے لگے تو اس وقت بھی وہ ظالم منہ میں گھُنگنیاں ڈالے بیٹھے رہے۔ بلکہ ان میں سے بہتوں نے اپنا فائدہ اسی میں دیکھا کہ کتاب اللہ کے احکام پر پردہ ہی پڑا رہے۔

۱۷۴-یہ دراصل ان پیشوا ؤ ں کے جھُوٹے دعووں کی تردید اور ان غلط فہمیوں کا رد ہے جو اُنہوں نے عام لوگوں میں اپنے متعلق پھیلا رکھی ہیں۔ وہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، اور لوگ بھی ان کے متعلق ایسا ہی گمان رکھتے ہیں کہ ان کی ہستیاں بڑی پاکیزہ اور مقدس ہیں اور جو اُن کا دامن گرفتہ ہو جائے گا اس کی سفارش کر کے وہ اللہ کے ہاں اُسے بخشوا لیں گے۔ جواب میں اللہ فرماتا ہے ک ہ ہم انھیں ہر گز منہ نہ لگائیں گے اور نہ انھیں پاکیزہ قرار دیں گے۔

 

نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، ۱۷۵ بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر،  مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے،  نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اسے وفا کریں، اور تنگدستی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص ۱۷۶ کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے،  غلام قاتل ہو تو غلام ہی قتل کیا جائے، اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص ۱۷۷ لیا جائے۔ ہاں اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو،۱۷۸ تو معروف طریقے ۱۷۹ کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہو نا چاہیے اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے، ۱۸۰ اس کے لیے درد ناک سزا ہے ـ عقل و خرد رکھنے والو!تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔۱۸۱ امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔۱۸۲پھر جنھوں نے وصیت سنی اور بعد میں اسے بدل ڈالا، تو اس کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہو گا۔ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ البتہ جس کو یہ اندیشہ ہو کہ وصیت کرنے والے نے نا دانستہ یا قصداً حق تلفی کی ہے،  اور پھر معاملے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان وہ اصلاح کرے،  تو اس پر کچھ گناہ نہیں ہے،  اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏۲۲
 

۱۷۵-مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے کو تو محض بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے،  دراصل مقصُود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ مذہب کی چند ظاہری رسموں کو ادا کر دینا اور صرف ضابطے کی خانہ پُری کے طور پر چند مقرر مذہبی اعمال انجام دینا اور تقویٰ کی چند معروف شکلوں کا مظاہرہ کر دینا وہ حقیقی نیکی نہیں ہے،  جو اللہ کے ہاں وزن اور قدر رکھتی ہے۔

۱۷۶-قِصَاص، یعنی خُون کا بدلہ،  یہ کہ آدمی کے ساتھ وہی کیا جائے،  جو اُس نے دُوسرے آدمی کے ساتھ کیا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قاتل نے جس طریقے سے مقتول کو قتل کیا ہو، اُسی طریقے سے اس کو قتل کیا جائے،  بلکہ مطلب صرف یہ ہے کہ جان لینے کا جو فعل اُس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے وہی اُس کے ساتھ کیا جائے۔

۱۷۷-جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا طریقہ یہ تھا کہ ایک قوم یا قبیلے کے لوگ اپنے مقتول کے خون کو جتنا قیمتی سمجھتے تھے،  اتنی ہی قیمت کا خُون اُس خاندان یا قبیلے یا قوم سے لینا چاہتے تھے جس کے آدمی نے اُسے مارا ہو۔ محض مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لے لینے سے ان کا دل ٹھنڈا نہ ہوتا تھا۔ وہ اپنے ایک آدمی کا بدلہ بیسیوں اور سینکڑوں سے لینا چاہتے تھے۔ ان کا کوئی معزّز آدمی اگر دُوسرے گروہ کے کسی چھوٹے آدمی کے ہاتھوں مارا گیا ہو، تو وہ اصلی قاتل کے قتل کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ قاتل کے قبیلے کا بھی کوئی ویسا ہی معزّز آدمی مارا جائے یا اُس کے کئی آدمی اُن کے مقتول پر سے صدقہ کیے جائیں۔ برعکس اس کے اگر مقتول اُن کی نگاہ میں کوئی ادنیٰ درجے کا شخص اور قاتل کوئی زیادہ قدر و عزّت رکھنے والا شخص ہوتا،  تو وہ اس بات کو گوارہ نہ کرتے تھے کہ مقتول کے بدلے میں قاتل کی جان لی جائے۔ اور یہ حالت کچھ قدیم جاہلیّت ہی میں نہ تھی۔ موجودہ زمانے میں جن قوموں کو انتہائی مہذّب سمجھا جاتا ہے،  اُن کے باقاعدہ سرکاری اعلانات تک میں بسا اوقات یہ بات بغیر کسی شرم کے دُنیا کو سُنائی جاتی ہے کہ ہمارا ایک آدمی مارا جائے گا تو ہم قاتل کی قوم کے پچاس آدمیوں کی جان لیں گے۔ اکثر یہ خبریں ہمارے کان سُنتے ہیں کہ ایک شخص کے قتل پر مغلوب قوم کے اتنے یرغمالی گولی سے اُڑائے گئے۔ ایک ’’مہذّب‘‘ قوم نے اِسی بیسویں صدی میں اپنے ایک فرد ’’سرلی اسٹیک‘‘ کے قتل کا بدلہ پوری مصری قوم سے لے کر چھوڑا۔ دُوسری طرف اِن نام نہاد مہذب قوموں کی باضابطہ عدالتوں تک کا یہ طرزِ عمل رہا ہے کہ اگر قاتل حاکم قوم کا فرد ہو اور مقتول کا تعلق محکوم قوم سے ہو، تو ان کے جج قصاص کا فیصلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی خرابیاں ہیں،  جن کے سدِ باب کا حکم اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ مقتول کے بدلے میں صرف قاتل ہی کی جان لی جائے قطع نظر اس سے کہ قاتل کون ہے اور مقتول کون۔

۱۷۸-’’بھائی‘‘ کا لفظ فرما کر نہایت لطیف طریقے سے نرمی کی سفارش بھی کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے اور دُوسرے شخص کے درمیان باپ ماری کا بیر ہی سہی، مگر ہے تو وہ تمہارا انسانی بھائی۔ لہٰذا اگر اپنے ایک خطا کار بھائی کے مقابلے میں انتقام کے غصّے کو پی جا ؤ،  تو یہ تمہاری انسانیت کے زیادہ شایانِ شان ہے۔۔۔۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اسلامی قانونِ تعزیرات میں قتل تک کا معاملہ قابلِ راضی نامہ ہے۔ مقتول کے وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ قاتل کو معاف کر دیں اور اس صورت میں عدالت کے لیے جائز نہیں کہ قاتل کی جان ہی لینے پر اصرار کرے۔ البتہ جیسا کہ بعد کی آیت میں ارشاد ہوا،  معافی کی صُورت میں قاتل کو خوں بہا ادا کرنا ہو گا۔

۱۷۹-’’مَعْرُوْف‘‘ کا لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ صحیح طریقِ کار ہے،  جس سے بالعمُوم انسان واقف ہوتے ہیں، جس کے متعلق ہر وہ شخص،  جس کا کوئی ذاتی مفاد کسی خاص پہلو سے وابستہ نہ ہو، یہ بول اُٹھے کہ بے شک حق اور انصاف یہی ہے اور یہی مناسب طریقِ عمل ہے۔ رواجِ عام( Common Law ) کو بھی اسلامی اصطلاح میں ’’عرف‘‘ اور ’’معروف‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ ایسے تمام معاملات میں معتبر ہے،  جن کے بارے میں شریعت نے کوئی خاص قاعدہ مقرر نہ کیا ہو۔

۱۸۰-(مثلاً) یہ کہ مقتول کا وارث خوں بہا وصُول کر لینے کے بعد پھر انتقام لینے کی کوشش کرے،  یا قاتل خوں بہا ادا کرنے میں ٹال مٹول کرے اور مقتول کے وارث نے جو احسان اس کے ساتھ کیا ہے،  اس کا بدلہ احسان فراموشی سے دے۔

۱۸۱-یہ ایک دُوسری جاہلیّت کی تردید ہے،  جو پہلے بھی بہت سے دماغوں میں موجود تھی اور آج بھی بکثرت پائی جاتی ہے۔ جس طرح اہلِ جاہلیّت کا ایک گروہ انتقام کے پہلو میں افراط کی طرف چلا گیا، اسی طرح ایک دُوسرا گروہ عفو کے پہلو میں تفریط کی طرف گیا ہے اور اس نے سزائے موت کے خلاف اتنی تبلیغ کی ہے کہ بہت سے لوگ اس کو ایک نفرت انگیز چیز سمجھنے لگے ہیں اور دُنیا کے متعدّد ملکوں نے اسے بالکل منسُوخ کر دیا ہے۔ قرآن اسی پر اہلِ عقل کو مخاطب کر کے تنبیہ کر تا ہے کہ قصاص میں سوسائیٹی کی زندگی ہے۔ جو سوسائیٹی انسانی جان کا احترام نہ کرنے والوں کی جان کو محترم ٹھیراتی ہے،  وہ دراصل اپنی آستین میں سانپ پالتی ہے۔ تم ایک قاتل کی جان بچا کر بہت سے بے گناہ انسانوں کی جانیں خطرے میں ڈالتے ہو۔

۱۸۲-یہ حکم اُس زمانے میں دیا گیا تھا،  جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصّے بذریعۂ  وصیّت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیمِ وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سُورۂ نساء میں آنے والا ہے )، تونبی صلی اللہ علیہ و سلم نے احکامِ میراث کی توضیح میں حسبِ ذیل دو قاعدے بیان فرمائے :

ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیّت نہیں کر سکتا، یعنی جن رشتے داروں کے حصّے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں، ان کے حصّوں میں نہ تو وصیّت کے ذریعے سے کوئی کمی یا بیشی کی جا سکتی ہے،  نہ کسی وارث کو میراث سے محرُوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصّے کے علاوہ کوئی چیز بذریعۂ  وصیّت دی جا سکتی ہے۔

دُوسرے یہ کہ وصیّت کُل جائداد کے صرف ایک تہائی حصّے کی حد تک کی جا سکتی ہے۔

اِن دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسبِ قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے اُن غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیّت کرنی چاہیے،  جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاجِ اعانت پاتا ہو، یا رفاہِ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے۔ بعد کے لوگوں نے وصیّت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعمُوم وصیّت کا طریقہ منسُوخ ہی ہو کر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے،  جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے،  تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں،  جو میراث کے بارے میں لوگوں کو اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً اُن پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو،  تم پر روزے فرض کر دیے گئے،  جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔۱۸۳ چند مقرر دنوں کے روزے ہیں۔ اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو،  یا سفر پر ہو تو دُوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں(پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے زیادہ بھلائی کرے ۱۸۴،  تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو،  تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔ ۱۸۵ رمضان وہ مہینہ ہے،  جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے،  جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے،  اُس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو،  تو وہ دُوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔۱۸۶ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے،  سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے،  اُس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔۱۸۷ اور اے نبیؐ،  میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو  اُنھیں بتا دو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے،  میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں ۱۸۸ یہ بات تم اُنھیں سُنا دو شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔۱۸۹تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے۔۱۹۰ اللہ کو معلوم ہو گیا کہ تم لوگ چُپکے چُپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے،  مگر اُس نے تمہارا قصُور معاف کر دیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لُطف اللہ نے تمہارے لیے جائز کر دیا ہے،  اُسے حاصل کرو۔۱۹۱ نیز راتوں کو کھاؤ پیو ۱۹۲ یہاں تک کہ تم کو سیاہیِ شب کی دھاری سے سپیدہ ٴ صبح کی دھاری نمایا ں نظر آ جائے۔۱۹۳ تب یہ سب کام چھوڑ کر رات تک اپنا روزہ پُورا کرو۔۱۹۴ اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو،  تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔۱۹۵ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا۔۱۹۶ اس طرح اللہ اپنے احکام لوگوں کے لیے بصراحت بیان کرتا ہے،  توقع ہے کہ وہ غلط رویے ّ سے بچیں گے۔ اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دُوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دُوسروں کے مال کا کوئی حصہّ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔۱۹۷ ؏۲۳
 

۱۸۳-اسلام کے اکثر احکام کی طرح روزے کی فرضیّت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتداء میں مسلمانوں کو صرف ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی، مگر یہ روزے فرض نہ تھے۔ پھر سن ۲ ہجری میں رمضان کے روزوں کا یہ حکم قرآن میں نازل ہوا، مگر ا س میں اتنی رعایت رکھی گئی کہ جو لوگ روزے کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور پھر بھی وہ روزہ نہ رکھیں، وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا کریں۔ بعد میں دُوسرا حکم نازل ہوا اور یہ عام رعایت منسُوخ کر دی گئی۔ لیکن مریض اور مسافر اور حاملہ یا دُودھ پلانے والی عورت اور ایسے بڈھے لوگوں کے لیے،  جن میں روزے کی طاقت نہ ہو، اس رعایت کو بدستور باقی رہنے دیا گیا اور انہیں حکم دیا گیا کہ بعد میں جب عذر باقی نہ رہے تو قضا کے اتنے روزے رکھ لیں جتنے رمضان میں اُن سے چھُوٹ گئے ہیں۔

۱۸۴-یعنی ایک سے زیادہ آدمیوں کو کھانا کھلائے،  یا یہ کہ روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے۔

۱۸۵-یہاں تک وہ ابتدا ئی حکم ہے،  جو رمضان کے روزوں کے متعلق سن ۲ ہجری میں جنگِ  بدر سے پہلے نازل ہوا تھا۔ اس کے بعد کی آیات اس کے ایک سال بعد نازل ہوئیں اور مناسبتِ مضمون کی وجہ سے اسی سلسلۂ  بیان میں شامل کر دی گئیں۔

۱۸۶-‘‘سفر کی حالت میں روزہ رکھنا یا نہ رکھنا آدمی کے اختیارِ  تمیزی پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جو صحابہ ؓ سفر میں جایا کرتے تھے،  اُن میں سے کوئی روزہ رکھتا تھا اور کوئی نہ رکھتا تھا اور دونوں گروہوں میں سے کوئی دُوسرے پر اعتراض نہ کرتا تھا۔ خود آنحضرت ؐ نے بھی کبھی سفر میں روزہ رکھا ہے اور کبھی نہیں رکھا ہے۔ ایک سفر کے موقع پر ایک شخص بد حال ہو کر گِر گیا اور اس کے گِرد لوگ جمع ہو گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حال دیکھ کر دریافت فرمایا: کیا معاملہ ہے ؟ عرض کیا گیا روزے سے ہے۔ فرمایا: یہ نیکی نہیں ہے۔ جنگ کے موقع پر تو آپ حکماً روزے سے روک دیا کرتے تھے تاکہ دشمن سے لڑنے میں کمزوری لاحق نہ ہو۔ حضرت عمر ؓ کی روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دو مرتبہ رمضان میں جنگ پر گئے۔ پہلی مرتبہ جنگِ بدر میں اور آخری مرتبہ فتح مکّہ کے موقع پر، اور دونوں مرتبہ ہم نے روزے چھوڑ دیے۔ ابنِ عمر ؓ کا بیان ہے کہ فتحِ مکّہ کے موقع پر حضُور ؐ نے فرما دیا تھا کہ انہ یوم قتال فا فطر و ا۔ دُوسری روایات میں یہ الفاظ ہیں کہ انکم قد د نو تم من عد و کم فا فطر و ا ا قو ی لکم۔ یعنی دشمن سے مقابلہ درپیش ہے،  روزے چھوڑ دو تاکہ تمہیں لڑنے کی قوت حاصل ہو۔

عام سفر کے معاملے میں یہ بات کہ کتنی مسافت کے سفر پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے،  حضُور ؐ کے کسی ارشاد سے واضح نہیں ہوتی اور صحابہ ء کرام ؓ کا عمل اس باب میں مختلف ہے۔ صحیح یہ ہے کہ جس مسافت پر عرفِ عام میں سفر کا اطلاق ہوتا ہے اور جس میں مسافرانہ حالت انسان پر طاری ہوتی ہے،  وہ افطار کے لیے کافی ہے۔

یہ امر مُتَّفَق علیہ ہے کہ جس روز آدمی سفر کی ابتدا کر رہا ہو، اُس دن کا روزہ افطار کر لینے کا اُس کو اختیار ہے۔ چاہے تو گھر سے کھانا کھا کر چلے،  اور چاہے تو گھر سے نکلتے ہی کھا لے۔ دونوں عمل صحابہ ؓ سے ثابت ہیں۔

یہ امر کہ اگر کسی شہر پر دشمن کا حملہ ہو، تو کیا لوگ مقیم ہونے کے باوجُود جہاد کی خاطر روزہ چھوڑ سکتے ہیں، علما کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ بعض علما اس کی اجازت نہیں دیتے۔ مگر علّامہ ابن تیمیّہ نے نہایت قوی دلائل کے ساتھ فتویٰ دیا تھا کہ ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔

۱۸۷-یعنی اللہ نے صرف رمضان ہی کے دنوں کو روزوں کے لیے مخصُوص نہیں کر دیا ہے،  بلکہ جو لوگ رمضان میں کسی عذرِ شرعی کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں، اُن کے لیے دُوسرے دنوں میں اُس کی قضا کر لینے کا راستہ بھی کھول دیا ہے تا کہ قرآن کی جو نعمت اُس نے تم کو دی ہے،  اس کا شکر ادا کرنے کے قیمتی موقع سے تم محرُوم نہ رہ جا ؤ۔

یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ رمضان کے روزوں کو صرف عبادت اور صرف تقویٰ کی تربیت ہی نہیں قرار دیا گیا ہے،  بلکہ اُنھیں مزید براں اُس عظیم الشان نعمتِ ہدایت پر اللہ تعالیٰ کا شکریہ بھی ٹھیرایا گیا ہے،  جو قرآن کی شکل میں اُس نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک دانشمند انسان کے لیے کسی نعمت کی شکر گزاری اور کسی احسان کے اعتراف کی بہترین صُورت اگر ہو سکتی ہے،  تو وہ صرف یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس مقصد کی تکمیل کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرے،  جس کے لیے عطا کرنے والے نے وہ نعمت عطا کی ہو۔ قرآن ہم کو اس لیے عطا فرمایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کا راستہ جان کر خود اس پر چلیں اور دُنیا کو اس پر چلائیں۔ اس مقصد کے لیے ہم کو تیار کرنے کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔ لہٰذا نزُولِ قرآن کے مہینے میں ہماری روزہ داری صرف عبادت ہی نہیں ہے،  اور صرف اخلاقی تربیت بھی نہیں ہے،  بلکہ اس کے ساتھ خود اِس نعمتِ قرآن کی بھی صحیح اور موزوں شکر گزاری ہے۔

۱۸۸-یعنی اگر چہ تم مجھے دیکھ نہیں سکتے اور نہ اپنے حواس سے مجھ کو محسوس کر سکتے ہو،  لیکن یہ خیال نہ کرو کہ میں تم سے دُور ہوں۔ نہیں، میں اپنے ہر بندے سے اتنا قریب ہوں کہ جب وہ چاہے،  مجھ سے عرض معرُوض کر سکتا ہے،  حتّیٰ کہ دل ہی دل میں وہ جو کچھ مجھ سے گزارش کرتا ہے میں اُسے بھی سُن لیتا ہوں اور صرف سُنتا ہی نہیں، فیصلہ بھی صادر کرتا ہوں۔ جن بے حقیقت اور بے اختیار ہستیوں کو تم نے اپنی نادانی سے الٰہ اور ربّ قرار دے رکھا ہے،  اُن کے پاس تو تمہیں دَوڑ دَوڑ کر جانا پڑتا ہے اور پھر بھی نہ وہ تمہاری شنوائی کر سکتے ہیں اور نہ ان میں یہ طاقت ہے کہ تمہاری درخواستوں پر کو ئی فیصلہ صادر کر سکیں۔ مگر میں کائنات بے پایاں کا فرماں روا ے مطلق، تمام اختیارات اور تمام طاقتوں کا مالک، تم سے اتنا قریب ہوں کہ تم خود بغیر کسی واسطے اور وسیلے اور سفارش کے براہِ راست ہر وقت اور ہر جگہ مجھ تک اپنی عرضیاں پہنچا سکتے ہو۔ لہٰذا تم اپنی اس نادانی کو چھوڑ دو کہ ایک ایک بے اختیار بناوٹی خدا کے در پر مارے مارے پھرتے ہو۔ میں جو دعوت تمہیں دے رہا ہوں،  اس پر لبیک کہہ کر میرا دامن پکڑ لو، میری طرف رُجوع کرو، مجھ پر بھروسہ کرو اور میری زندگی و اطاعت میں آ جا ؤ۔

۱۸۹-یعنی تمہارے ذریعے سے یہ حقیقتِ حال معلوم کر کے اُن کی آنکھیں کھُل جائیں اور وہ اس صحیح رویّے کی طرف آ جائیں،  جس میں ان کی اپنی ہی بھلائی ہے۔

۱۹۰-یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا،  بلکہ دونوں کا باہمی تعلق و اتّصال بالکل غیر منفک ہوتا ہے،  اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق بھی ہے۔

۱۹۱-ابتدا میں اگرچہ اس قسم کا کوئی صاف حکم موجود نہ تھا کہ رمضان کی راتوں میں کوئی شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے،  لیکن لوگ اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ ایسا کر نا جائز نہیں ہے۔ پھر اس کے ناجائز یا مکروہ ہونے کا خیال دل میں لیے ہوئے بسا اوقات اپنی بیویوں کے پاس چلے جاتے تھے۔ یہ گویا اپنے ضمیر کے ساتھ خیانت کا ارتکاب تھا اور اس سے اندیشہ تھا کہ ایک مجرمانہ اور گناہ گارانہ ذہنیت اُن کے اندر پرورش پاتی رہے گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے اس خیانت پر تنبیہ فرمائی اور پھر ارشاد فرمایا کہ یہ فعل تمہارے لیے جائز ہے۔ لہٰذا اب اسے بُرا فعل سمجھتے ہوئے نہ کرو، بلکہ اللہ کی اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے قلب و ضمیر کی پوری طہارت کے ساتھ کرو۔

۱۹۲-اس بارے میں بھی لوگ ابتداءً غلط فہمی میں تھے۔ کسی کا خیال تھا کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد سے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے اور کوئی یہ سمجھتا تھا کہ رات کو جب تک آدمی جاگ رہا ہو، کھا پی سکتا ہے۔ جہاں سو گیا، پھر دوبارہ اُٹھ کر وہ کچھ نہیں کھا سکتا۔ یہ احکام لوگوں نے خود اپنے ذہن میں سمجھ رکھے تھے اور اس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی تکلیفیں اُٹھاتے تھے۔ اِس آیت میں انہی غلط فہمیوں کو رفع کیا گیا ہے۔ اس میں روزے کی حد طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک مقرر کر دی گئی اور غروبِ آفتاب سے طلوع فجر تک رات بھر کھانے پینے اور مباشرت کرنے کے لیے آزادی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سحری کا قاعدہ مقرر فرما دیا تاکہ طلُوعِ فجر سے عین پہلے آدمی اچھی طرح کھا پی لے۔

۱۹۳-اسلام نے اپنی عبادات کے لیے اوقات کا وہ معیار مقرر کیا ہے جس سے دُنیا میں ہر وقت ہر مرتبۂ  تمدّن کے لو گ ہر جگہ اوقات کی تعیین کر سکیں۔ وہ گھڑیوں کے لحاظ سے وقت مقرر کرنے کے بجائے اُن آثار کے لحاظ سے وقت مقرر کرتا ہے جو آفاق میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ مگر نادان لوگ اس طریقِ توقیت پر عموماً یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قُطبَین کے قریب، جہاں رات اور دن کئی کئی مہینوں کے ہوتے ہیں، اوقات کی یہ تعیین کیسے چل سکے گی۔ حالانکہ یہ اعتراض دراصل علمِ جغرافیہ کی سرسری واقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت میں نہ وہاں چھ مہینوں کی رات اُس معنی میں ہوتی ہے اور نہ چھ مہینوں کا دن،  جس معنی میں ہم خطِ استوا کے آس پاس رہنے والے لوگ دن اور رات کے لفظ بولتے ہیں۔ خواہ رات کا دَور ہو یا دن کا بہرحال صبح و شام کے آثار وہاں پُوری باقاعدگی کے ساتھ اُفق پر نمایاں ہوتے ہیں اور اُنہی کے لحاظ سے وہاں کے لوگ ہماری طرح اپنے سونے جاگنے اور کام کرنے اور تفریح کرنے کے اوقات مقرر کرتے ہیں۔ جب گھڑیوں کا رواج عام نہ تھا، تب بھی فن لینڈ،  ناروے اور گرین لینڈ وغیرہ ملکوں کے لوگ اپنے اوقات معلوم کرتے ہی تھے اور اس کا ذریعہ یہی اُفق کے آثار تھے۔ لہٰذا جس طرح دُوسرے تمام معاملات میں یہ آثار ان کے لیے تعیینِ اوقات کا کام دیتے ہیں اسی طرح نماز اور سحر و افطار کے معاملے میں بھی دے سکتے ہیں۔

۱۹۴-رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے،  وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے۔ اور ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروبِ آفتاب سے شروع ہوتی ہے۔ لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کر لینا چاہیے۔ سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصّے میں اُفق کے مشرقی کنارے پر سفیدۂ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اُوپر بڑھنے لگے،  تو سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور جب دن کے آخری حصّے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آ جاتا ہے۔ آج کل لوگ سحری اور افطار،  دونوں کے معاملے شدّتِ احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدّد برتنے لگے ہیں۔ مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہو جاتا ہو۔ سحر میں سیاہی شب سے سپیدۂ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھُلی ہو تو وہ جلدی سے اُٹھ کر کچھ کھا پی لے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آ جائے تو فوراً چھوڑ نہ دے،  بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے۔ اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروبِ آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سُورج ڈوبتے ہی بلال ؓ کو آواز دیتے تھے کہ لا ؤ ہمارا شربت۔ بلال ؓ عرض کرتے کہ یا رسُول اللہ: ابھی تو دن چمک رہا ہے۔ آپ ؐ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اُٹھنے لگے،  تو روزے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

۱۹۵-معتکف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی رمضان کے آخری دس دن مسجد میں رہے اور یہ دن اللہ کے ذکر کے لیے مختص کر  دے۔ اس اعتکاف کی حالت میں آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے مسجد سے باہر جا سکتا ہے،  مگر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو شہوانی لذتوں سے روکے رکھے۔

۱۹۶-یہ نہیں فرمایا کہ ان حدوں سے تجاوز نہ کرنا، بلکہ یہ فرمایا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس مقام سے معصیت کی حد شروع ہوتی ہے،  عین اسی مقام کے آخری کناروں پر گھومتے رہنا آدمی کے لیے خطرناک ہے۔ سلامتی اس میں ہے کہ آدمی سرحد سے دُور ہی رہے تاکہ بھُولے سے بھی قدم اس کے پار نہ چلا جائے۔ یہی مضمون اُس حدیث میں بیان ہوا ہے،  جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ لِکل ملکٍ حِمیٰ و ان حمی اللہ محار مہ، فمن رتع حول الحمی، یوشک ان یقع فیہ۔ عربی زبان میں حِمیٰ اُس چراگاہ کو کہتے ہیں، جسے کوئی رئیس یا بادشاہ پبلک کے لیے ممنوع کر دیتا ہے۔ اس استعارے کو استعمال کرتے ہوئے حضور ؐ فرماتے ہیں کہ ’’ہر بادشاہ کی ایک حِمیٰ ہوتی ہے اور اللہ کی حِمیٰ اُس کی وہ حدیں ہیں، جن سے اس نے حرام و حلال اور طاعت و معصیت کا فرق قائم کیا ہے۔ جو جانور حِمیٰ کے گِرد ہی چرتا رہے گا، ہو سکتا ہے کہ ایک روز وہ حِمیٰ کے اندر داخل ہو جائے۔‘‘ افسوس ہے کہ بہت سے لوگ جو شریعت کی رُوح سے ناواقف ہیں،  ہمیشہ اجازت کی آخری حدوں تک ہی جانے پر اصرار کرتے ہیں اور بہت سے علما و مشائخ بھی اسی غرض کے لیے سندیں ڈھونڈ کر جواز کی آخری حدیں انھیں بتایا کرتے ہیں، تاکہ وہ اُس باریک خطِ امتیاز ہی پر گھُومتے رہیں، جہاں اطاعت اور معصیت کے درمیان محض بال برابر فاصلہ رہ جاتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت لوگ معصیت اور معصیت سے بھی بڑھ کر ضلالت میں مبتلا ہو رہے ہیں، کیونکہ ان باریک سرحدی خطوط کی تمیز اور ان کے کنارے پہنچ کر اپنے آپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں ہے۔

۱۹۷-اس آیت کا ایک مفہُوم تو یہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دُوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دُوسرے شخص کا ہے،  تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جا ؤ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکمِ عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دِلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جا ؤ گے۔ عند اللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: انما ان بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ۔ فمن قضیت لہ بشی ء من حق اخیہ، فا نما ا قضی لہ قطعۃ من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لا ؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سُن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے۔

 

لوگ تم سے چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہو : یہ لوگوں کے لیے تاریخوں کی تعیین کی اور حج کی علامتیں ہیں۔۱۹۸ نیز ان سے کہو : یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ تم اپنے گھروں میں پیچھے کی طرف سے داخل ہوتے ہو۔نیکی تو اصل میں یہ ہے کہ آدمی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ لہٰذا تم اپنے گھروں میں دروازے ہی سے آیا کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ شاید کہ تمھیں فلاح نصیب ہو جائے۔۱۹۹ اور تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو، جو تم سے لڑتے ہیں،۲۰۰ مگر زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔۲۰۱ ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا ان سے مقابلہ پیش آئے اور انھیں نکالو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے،  اس لیے کہ قتل اگرچہ بُرا ہے،  مگر فتنہ اس سے زیادہ بُرا ہے۔۲۰۲ اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں،  تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چوکیں، تو تم بھی بے تکلف انھیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ۲۰۳ تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔۲۰۴ پھر اگر وہ باز آ جائیں،  تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔۲۰۵ماہِ حرام کا بدلہ ماہِ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہو گا۔۲۰۶ لہٰذا جو تم پر دست درازی کرے،  تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو۔ البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور یہ جان رکھو کہ اللہ انھیں لوگوں کے ساتھ ہے،  جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔۲۰۷ احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنوں کو پسند کرتا ہے۔۲۰۸اللہ کی خوشنودی کے لیے جب حج اور عمرے کی نیت کر و، تو اسے پورا کرو، اور اگر کہیں گھِر جاؤ تو جو قربانی میسر آئے،  اللہ کی جناب میں پیش کرو ۲۰۹ اور اپنے سر نہ مونڈو جب تک کہ قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔۲۱۰ مگر جو شخص مریض ہو یا جس کے سر میں کوئی تکلیف ہو اس بناء پر اپنا سر منڈوا لے،  تو اسے چاہیے کہ فدیہ کے طور پر روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے۔۲۱۱ پھر اگر تمہیں امن نصیب ہو جائے ۲۱۲(اور تم حج سے پہلے مکہ پہنچ جاؤ )،  تو جو شخص تم میں سے حج کا زمانہ آنے تک عمرے کا فائدہ اٹھائے،  وہ حسب مقدور قربانی دے،  اور اگر قربانی میسر نہ ہو،  تو تین روزے حج کے زمانے میں اور سات گھر پہنچ کر،  اس طرح پورے دس روزے رکھ لے۔ یہ رعایت ان لوگو ں کے لیے ہے،  جن کے گھر بار مسجد حرام کے قریب نہ ہوں۔۲۱۳ اور اللہ کے ان احکام کی خلاف ورزی سے بچو اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ ؏۲۴

 

۱۹۸-چاند کا گھٹنا بڑھنا ایک ایسا منظر ہے،  جس نے ہر زمانے میں انسان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا ہے اور اس کے متعلق طرح طرح کے اوہام و تخیلات اور رسوم دُنیا کی قوموں میں رائج رہے ہیں اور اب تک رائج ہیں۔ اہلِ عرب میں بھی اس قسم کے اوہام موجود تھے۔ چاند سے اچھے یا بُرے شگون لینا، بعض تاریخوں کو سعد اور بعض کو نحس سمجھنا، کسی تاریخ کو سفر کے لیے اور کسی کو ابتدائے کار کے لیے اور کسی کو شادی بیاہ کے لیے منحوس یا مسعود خیال کرنا اور یہ سمجھنا کہ چاند کے طلوع و غروب اور اس کی کمی بیشی اور اس کی حرکت اور اس کے گہن کا کوئی اثر انسانی قسمتوں پر پڑتا ہے،  یہ سب باتیں دُوسری جاہل قوموں کی طرح اہلِ عرب میں بھی پائی جاتی تھیں اور اس سلسلے میں مختلف توہم پرستانہ رسمیں اُن میں رائج تھیں۔ انہی چیزوں کی حقیقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کی گئی۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ گھٹتا بڑھتا چاند تمہارے لیے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک قدرتی جنتری ہے،  جو آسمان پر نمودار ہو کر دُنیا بھر کے لوگوں کو بیک وقت ان کی تاریخوں کا حساب بتاتی رہتی ہے۔ حج کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرما یا کہ عرب کی مذہبی، تمدّنی اور معاشی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر تھی۔ سال کے چار مہینے حج اور عمرے سے وابستہ تھے۔ اِن مہینوں میں لڑائیاں بند رہتیں، راستے محفوظ ہوتے اور امن کی وجہ سے کاروبار فروغ پاتے تھے۔

۱۹۹-منجملہ ان توہّم پرستانہ رسموں کے،  جو عرب میں رائج تھیں، ایک یہ بھی تھی کہ جب حج کے لیے احرام باندھ لیتے تو اپنے گھروں میں دروازے سے داخل نہ ہوتے تھے،  بلکہ پیچھے سے دیوار کُود کر یا دیوار میں کھڑکی سی بنا کر داخل ہوتے تھے۔ نیز سفر سے واپس آ کر بھی گھروں میں پیچھے سے داخل ہوا کرتے تھے۔ اس آیت میں نہ صرف اس رسم کی تردید کی گئی ہے،  بلکہ تمام اوہام پر یہ کہہ کر ضرب لگائی گئی ہے کہ نیکی دراصل اللہ سے ڈرنے اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کا نام ہے۔ اُن بے معنی رسموں کو نیکی سے کوئی واسطہ نہیں،  جو محض باپ دادا کی اندھی تقلید میں برتی جا رہی ہیں اور جن کا انسان کی سعادت و شقاوت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۲۰۰-یعنی جو لوگ خدا کے کام میں تمہارا راستہ روکتے ہیں، اور اس بنا پر تمہارے دُشمن بن گئے ہیں کہ تم خدا کی ہدایت کے مطابق نظامِ زندگی کی اصلاح کرنا چاہتے ہو، اور اس اصلاحی کام کی مزاحمت میں جبر و ظلم کی طاقتیں استعمال کر رہے ہیں، ان سے جنگ کرو۔ اس سے پہلے جب تک مسلمان کمزور اور منتشر تھے،  ان کو صرف تبلیغ کا حکم تھا اور مخالفین کے ظلم و ستم پر صبر کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی۔ اب مدینے میں ان کی چھوٹی سی شہری ریاست بن جانے کے بعد پہلی مرتبہ حکم دیا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس دعوتِ اصلاح کی راہ میں مسلح مزاحمت کرتے ہیں، ان کو تلوار کا جواب تلوار سے دو۔ اس کے بعد ہی جنگِ  بدر پیش آئی اور لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

۲۰۱-یعنی تمہاری جنگ نہ تو اپنی اغراض کے لیے ہو، نہ اُن لوگوں پر ہاتھ اُٹھا ؤ،  جو دینِ حق کی راہ میں مزاحمت نہیں کرتے،  اور نہ لڑائی میں جاہلیّت کے طریقے استعمال کرو۔ عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں اور زخمیوں پر دست درازی کرنا، دشمن کے مقتولوں کا مُثلہ کرنا، کھیتوں اور مویشیوں کو خواہ مخواہ برباد کرنا اور دُوسرے تمام وحشیانہ اور ظالمانہ افعال ‘‘حد سے گزرنے ’’ کی تعریف میں آتے ہیں اور حدیث میں ان سب کی ممانعت وارد ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ قوت کا استعمال وہیں کیا جائے،  جہاں وہ ناگزیر ہو، اور اُسی حد تک کیا جائے،  جتنی اس کی ضرورت ہو۔

۲۰۲-یہاں فتنے کا لفظ اُسی معنی میں استعمال ہوا ہے،  جس میں انگریزی کا لفظ ( Persecution ) استعمال ہوتا ہے،  یعنی کسی گروہ یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دُوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیا ہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہہ انسانی خون بہانا بہت بُرا فعل ہے،  لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دُوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کو قبولِ حق سے بجبر روکے اور اصلاح و تغیر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے،  تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت بُرائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزورِ شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے۔

۲۰۳-یعنی تم جس خدا پر ایمان لائے ہو، اس کی صفت یہ ہے کہ بدتر سے بدتر مجرم اور گناہ گار کو بھی معاف کر دیتا ہے،  جبکہ وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آ جائے۔ یہی صفت تم اپنے اندر بھی پیدا کرو۔ تخلّقو ا با خلاق اللہ۔تمہاری لڑائی انتقام کی پیاس بجھانے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے دین کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہو۔ جب تک کوئی گروہ راہِ خدا میں مزاحم رہے،  بس اُسی وقت تک اس سے تمہاری لڑائی بھی رہے،  اور جب وہ اپنا رویہ چھوڑ دے،  تو تمہارا ہاتھ بھی پھر اُس پر نہ اُٹھے۔

۲۰۴-یہاں فتنہ کا لفظ اُوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ’’ فتنے ‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ’’دین‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام ِ زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اُس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت،  جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے،  فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظر یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانونِ الٰہی کے مطیع بن کر رہیں۔

۲۰۵-باز آ جانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آ جانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آ جانا ہے۔ کافر، مشرک، دہریے،  ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے،  رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اُسے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسبِ موقع اور حسب ِ امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا،  جب تک کفّار اپنے اس فتنے سے باز نہ آ جائیں۔

اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آ جائیں، تو ’’ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو‘‘،  تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظامِ باطل کی جگہ نظامِ حق قائم ہو جائے،  تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہلِ حق بالکل حق بجانب ہوں گے،  جنہوں نے اپنے دَورِ اقتدار میں نظامِ حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کر دی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنینِ صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو اُن کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فائدہ اُٹھایا ہے،  جن سے بڑھ کر عفو و درگزر کسی کے شایانِ شان نہ تھا۔ چنانچہ جنگِ بدر کے قیدیوں میں سے عُقْبہ بن ابی مُعَیط اور نَضْر بن حارث کا قتل اور فتح ِ مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفوِ عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔

۲۰۶-اہلِ عرب میں حضرت ابراہیمؑ  کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ، ذی الحجّہ اور مُحَرَّم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عُمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا،  اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین ِ کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اِس بنا پر اِن مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا، یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہِ حرام کی حُرمت کا لحاظ کفار کریں، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں،  تو پھر مسلمان بھی ماہِ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔

اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آ گئی تھی کہ اہلِ عرب نے جنگ و جدل اور لُوٹ مار کی خاطر نَسِی کا قاعدہ بنا رکھا تھا، جس کی رُو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے،  تو کسی حرام مہینے میں اُس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دُوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پُورا کر دیتے تھے۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفّار اپنے نَسِی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں، تو اُس صُورت میں کیا کیا جائے۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے۔

۲۰۷-اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مُراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے ا ور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے،  تو یہ تمہارے لیے دُنیا میں بھی موجب ِ ہلاکت ہو گا اور آخرت میں بھی۔ دُنیا میں تم کفّار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت بار پرس ہو گی۔

۲۰۸-احسان کا لفظ حُسن سے نِکلا ہے،  جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو، اُسے بس کر دے۔ اور دُوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے،  اپنی پُوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے،  جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے۔ اور دُوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے،  جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگا ؤ درکار ہوتا ہے۔

۲۰۹-یعنی اگر راستے میں کوئی ایسا سبب پیش آ جائے،  جس کی وجہ سے آگے جانا غیر ممکن ہو اور مجبوراً رُک جانا پڑے،  تو اُونٹ، گائے،  بکری میں سے جو جانور بھی میسّر ہو، اللہ کے لیے قربان کر دو۔

۲۱۰-اس امر میں اختلاف ہے کہ قربانی کے اپنی جگہ پہنچ جانے سے کیا مراد ہے۔ فقہائے حنفیہ کے نزدیک اس سے مراد حرم ہے،  یعنی اگر آدمی راستہ میں رُک جانے پر مجبُور ہو، تو اپنی قربانی کا جانور یا اس کی قیمت بھیج دے تاکہ اس کی طرف سے حُدودِ حرم میں قربانی کی جائے۔ اور امام مالک اور شافعی رحمہما اللہ کے نزدیک جہاں آدمی گھِر گیا ہو، وہیں قربانی کر دینا مراد ہے۔

سر مونڈنے سے مراد حجامت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک قربانی نہ کر لو حجامت نہ کرا ؤ۔

۲۱۱-حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس صورت میں تین دن کے روزے رکھنے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

۲۱۲-یعنی وہ سبب دُور ہو جائے،  جس کی وجہ سے مجبُوراً تمہیں راستے میں رُک جانا پڑا تھا۔ چونکہ اُس زمانے میں حج کا راستہ بند ہونے اور حاجیوں کے رُک جانے کی وجہ زیادہ تر دشمنِ اسلام قبیلوں کی مزاحمت ہی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُوپر کی آیت میں ’’گھِر جانے ‘‘ اور اس کے بالمقابل یہاں ’’امن نصیب ہو جانے ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ لیکن جس طرح ’’گھِر جانے ‘‘ کے مفہوم میں دشمن کی مزاحمت کے علاوہ دُوسرے تمام موانع شامل ہیں، اسی طرح ’’امن نصیب ہو جانے ‘‘ کا مفہُوم بھی ہر مانع و مزاحم چیز کے دُور ہو جانے پر حاوی ہے۔

۲۱۳-عرب جاہلیّت میں یہ خیال کیا جا تا تھا کہ ایک ہی سفر میں حج اور عُمرہ دونوں ادا کرنا گناہِ عظیم ہے۔ ان کی خود ساختہ شریعت میں عُمرے کے لیے الگ اور حج کے لیے الگ سفر کرنا ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس قید کو اُڑا دیا اور باہر سے آنے والوں کے ساتھ یہ رعایت فرمائی کہ وہ ایک ہی سفر میں عُمرہ اور حج دونوں کر لیں۔ البتہ جو لوگ مکّہ کے آس پاس میقاتوں کی حُدود کے اندر رہتے ہوں انھیں اس رعایت سے مستثنیٰ کر دیا کیونکہ ان کے لیے عُمرہ کا سفر الگ اور حج کا سفر الگ کرنا کچھ مشکل نہیں۔

حج کا زمانہ آنے تک عُمرے کا فائدہ اُٹھانے سے مُراد یہ ہے کہ آدمی عُمرہ کر کے اِحرام کھول لے اور اُن پابندیوں سے آزاد ہو جائے،  جو احرام کی حالت میں لگائی گئی ہیں۔ پھر جب حج کے دن آئیں، تو ازسرِ نو احرام باندھ لے۔

 

حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیّت کرے،  اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل ۲۱۴،  کوئی بد عملی،۲۱۵ کوئی لڑائی جھگڑے کی بات ۲۱۶ سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے،  وہ اللہ کے علم میں ہو گا۔ سفرِ حج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاؤ۔ اور سب سے بہتر زادِ راہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوشمندو ! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔۲۱۷ اور اگر حج کے ساتھ ساتھ تم اپنے ربّ کا فضل بھی تلاش کرتے جاؤ۔ تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔۲۱۸ پھر جب عرفات سے چلو، تو مشعرِ حرام (مزدلفہ) کے پاس ٹھیر کر اللہ کو یاد کرو اور اُس طرح یاد کرو۔ جس کی ہدایت اس نے تمہیں دی ہے،  ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔۲۱۹ پھر جہاں سے اور سب لوگ پلٹتے ہیں وہیں سے تم بھی پلٹو اور اللہ سے معافی چاہو،۲۲۰ یقیناً وہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ پھر جب اپنے حج کے ارکان ادا کر چکو، تو جس طرح پہلے اپنے آبا و اجداد کا ذکر کرتے تھے،  اُسی طرح اب اللہ کا ذکر و، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔۲۲۱ (مگر اللہ کو یاد کرنے والے لوگوں میں بھی بہت فرق ہے ) اُن میں سے کوئی تو ایسا ہے،  جو کہتا ہے کہ اے ہمارے ربّ،  ہمیں دنیا ہی میں سب کچھ دے دے۔ ایسے شخص کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اور کوئی کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی، اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ یہ گنتی کے چند روز ہیں،  جو تمہیں اللہ کے یاد میں بسر کرنے چاہئیں۔ پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھیر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں۔۲۲۲ بشرطیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہوں۔۔۔۔ اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے۔انسانوں میں کوئی تو ایسا ہے،  جس کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، اور اپنی نیک نیتی پر وہ بار بار خدا کو گواہ ٹھیراتا ہے ۲۲۳، مگر حقیقت میں وہ بد ترین دشمن ِ حق ہوتا ہے۔۲۲۴جب اسے اقتدار حاصل ہو جاتا ہے ۲۲۵، تو زمین میں اس کی ساری دوڑ دھوپ اس لیے ہو تی ہے کہ فساد پھیلائے،  کھیتوں کو غارت کرے اور نسل ِ انسانی کو تباہ کرے۔۔۔۔حالانکہ اللہ (جسے وہ گواہ بنا رہا تھا) فساد کو ہر گز پسند نہیں کرتا اور جب اس سے کہا جا تا ہے کہ اللہ سے ڈر،  تو اپنے وقار کا خیال اس کو گناہ پر جما دیتا ہے۔ ایسے شخص کے لیے تو بس جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔دوسری طرف انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے،  جو رضائے الٰہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہر بان ہے۔اے ایمان لانے والوں! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ ۲۲۶ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔جو صاف صاف ہدایات تمہارے پاس آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغزش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔۲۲۷ (ان ساری نصیحتوں اور ہدایتوں کے بعد بھی لوگ سیدھے نہ ہو ں،  تو ) کیا اب وہ اس کے منتظر ہیں کہ اللہ بادلوں کا چتر لگائے فرشتوں کے پرے ساتھ لیے خود سامنے آ موجود ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے ؟۲۲۸۔۔۔۔آخر کار سارے معاملات پیش تو اللہ ہی کے حضور ہونے والے ہیں۔ ؏۲۵
 

۲۱۴-احرام کی حالت میں میاں اور بیوی کے درمیان نہ صرف تعلقِ زن و شو ممنوع ہے،  بلکہ اُن کے درمیان کوئی ایسی گفتگو بھی نہ ہونی چاہیے،  جو رغبتِ شہوانی پر مبنی ہو۔

۲۱۵-تمام معصیت کے افعال اگرچہ بجائے خود ناجائز ہیں، لیکن احرام کی حالت میں ان کا گناہ بہت سخت ہے۔

۲۱۶-حتیٰ کہ خادم کو ڈانٹنا تک جائز نہیں۔

۲۱۷-جاہلیّت کے زمانے میں حج ے لیے زادِ راہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دُنیا دارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دُنیا کا سامان لیے بغیر جائے گا۔ اس آیت میں اُن کے اِس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زادِ راہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے۔ اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہو کر بُرے اعمال کر تا ہے،  وہ اگر زادِ راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے،  تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہو گا اور اپنے اُس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا، جس کے لیے وہ سفر کر رہا ہے۔ لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں، تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزّت ہو گی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو۔

۲۱۸-یہ بھی قدیم عربوں کا ایک جاہلانہ تصوّر تھا کہ سفر ِ حج کے دَوران میں کسبِ معاش کے لیے کام کرنے کو وہ بُرا سمجھتے تھے،  کیونکہ اُن کے نزدیک کسبِ معاش ایک دُنیا دارانہ فعل تھا اور حج جیسے ایک مذہبی کام کے دَوران میں اس کا ارتکاب مذموم تھا۔ قرآن اس خیال کی تردید کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ایک خدا پرست آدمی جب خدا کے قانون کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی معاش کے لیے جدوجہد کرتا ہے،  تو دراصل اپنے ربّ کا فضل تلاش کرتا ہے اور کوئی گناہ نہیں، اگر وہ اپنے ربّ کی رضا کے لیے سفر کرتے ہوئے اس کا فضل بھی تلاش کرتا جائے۔

۲۱۹-یعنی جاہلیّت کے زمانے میں خدا کی عبادت کے ساتھ جن دُوسرے مشرکانہ اور جاہلانہ افعال کی آمیزش ہوتی تھی ان سب کو چھوڑ دو اور اب جو ہدایت اللہ نے تمہیں بخشی ہے،  اس کے مطابق خالصتًہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو۔

۲۲۰-‘‘حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کے زمانے سے عرب کا معرُوف طریقۂ  حج یہ تھا کہ ۹ ذی الحجہ کو مِنیٰ سے عَرَفات جاتے تھے اور رات کو وہاں سے پلٹ کر مُزْ دلفہ میں ٹھیرتے تھے۔ مگر بعد کے زمانے میں جب رفتہ رفتہ قریش کی برہمنیّت قائم ہو گئی،  تو انہوں نے کہا: ہم اہل ِ حرم ہیں، ہمارے مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ عام اہلِ عرب کے ساتھ عرفات تک جائیں۔ چنانچہ انہوں اپنے لیے یہ شانِ امتیاز قائم کی کہ مُزْدلفہ تک جا کر ہی پلٹ آتے اور عام لوگوں کو عرفات تک جانے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر یہی امتیاز بنی خُز َاعہ اور بنی کِنَانہ اور اُن دُوسرے قبیلوں کو بھی حاصل ہو گیا،  جن کے ساتھ قریش کے شادی بیاہ کے رشتے تھے۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ جو قبیلے قریش کے حلیف تھے،  اُن کی شان بھی عام عربوں سے اُونچی ہو گئی اور انہوں نے بھی عرفات جانا چھوڑ دیا۔ اسی فخر و غرور کا بُت اس آیت میں توڑا گیا ہے۔ آیت کا خطابِ خاص قریش اور ان کے رشتے دار اور حلیف قبائل کی طرف ہے اور خطابِ عام اُن سب کی طرف ہے،  جو آئندہ کبھی اس قسم کے امتیازات اپنے لیے مخصُوص کرنا چاہیں۔ اُن کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اَور سب لوگ جہاں تک جاتے ہیں،  انھیں کے ساتھ جا ؤ،  اُنھیں کے ساتھ ٹھیرو، انھیں کے ساتھ پلٹو، اور اب تک جاہلیّت کے فخر و غرور کی بنا پر سنت ِ ابراہیمی کی جو خلاف ورزی تم کرتے رہے ہو، اس پر اللہ سے معافی مانگو۔

۲۲۱-اہلِ عرب حج سے فارغ ہو کر مِنیٰ میں جلسے کرتے تھے،  جن میں ہر قبیلے کے لوگ اپنے باپ دادا کے کارنامے فخر کے ساتھ بیان کرتے اور اپنی بڑائی کی ڈینگیں مارتے تھے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ان جاہلانہ باتوں کو چھوڑ و، پہلے جو وقت فضُولیات میں صَرف کرتے تھے اب اُسے اللہ کی یاد اور اس کے ذِکر میں صَرف کرو۔ اِس ذِکر سے مراد زمانۂ قیامِ مِنیٰ کا ذِکر ہے۔

۲۲۲-یعنی ایّامِ تشریق میں منیٰ سے مکّے کی طرف واپسی خواہ ۱۲ ذی الحجہ کو ہو یا تیرھویں تاریخ کو، دونوں صُورتوں میں کوئی حرج نہیں۔ اصل اہمیّت اس کی نہیں کہ تم ٹھیرے کتنے دن، بلکہ اس کی ہے کہ جتنے دن بھی ٹھیرے ان میں خدا کے ساتھ تمہارے تعلق کا کیا حال رہا۔ خدا کا ذکر کرتے رہے یا میلوں ٹھیلوں میں لگے رہے۔

۲۲۳-یعنی کہتا ہے : خدا شاہد ہے کہ میں محض طالب خیر ہوں، اپنی ذاتی غرض کے لیے نہیں،  بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے یا لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کر رہا ہوں۔

۲۲۴-’’اَلَدُّ الْخِصَام‘‘ کے معنی ہیں ’’وہ دُشمن جو تمام دُشمنوں سے زیادہ ٹیڑھا ہو‘‘۔ یعنی جو حق کی مخالفت میں ہر ممکن حربے سے کام لے۔ کسی جھُوٹ، کسی بے ایمانی، کسی غدر و بد عہدی اور کسی ٹیڑھی سے ٹیڑھی چال کو بھی استعمال کرنے میں تامّل نہ کرے۔

۲۲۵-’’ذَا تَوَلّٰی‘‘ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ہم نے متن میں اختیار کیا ہے اور دُوسرا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ یہ مزے مزےِ کی دل لبھانے والی باتیں بنا کر ’’جب وہ پلٹتا ہے ‘‘، تو عملاً یہ کرتُوت دکھاتا ہے۔

۲۲۶-یعنی کسی استثنا کے بغیر اپنی پُوری زندگی کو اسلام کے تحت لے آ ؤ۔ تمہارے خیالات،  تمہارے نظریّات،  تمہارے عُلوم، تمہارے طور طریقے،  تمہارے معاملات،  اور تمہاری سعی و عمل کے راستے سب کے سب بالکل تابعِ اسلام ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اپنی زندگی کو مختلف حِصّوں میں تقسیم کر کے بعض حِصّوں میں اِسْلام کی پَیروی کرو اور بعض حصّوں کو اس کی پَیروی سے مستثنیٰ کر لو۔

۲۲۷-یعنی وہ زبردست طاقت بھی رکھتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اپنے مجرموں کو سزا کس طرح دے۔

۲۲۸-یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ ان سے ایک اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس دُنیا میں انسان کی ساری آزمائش صرف اس بات کی ہے کہ وہ حقیقت کو دیکھے بغیر مانتا ہے یا نہیں اور ماننے کے بعد اتنی اخلاقی طاقت رکھتا ہے یا نہیں کہ نافرمانی کا اختیار رکھنے کے باوجود فرماں برداری اختیار کرے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انبیا کی بعثت میں،  کتابوں کی تنزیل میں،  حتّیٰ کہ معجزات تک میں عقل کے امتحان اور اخلاقی قوت کی آزمائش کا ضرور لحاظ رکھا ہے اور کبھی حقیقت کو اس طرح بے پردہ نہیں کر دیا ہے کہ آدمی کے لیے مانے بغیر چارہ نہ رہے۔ کیونکہ اس کے بعد تو آزمائش بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور امتحان میں کامیابی و ناکامی کا کوئی مفہوم ہی باقی نہیں رہتا۔ اسی بنا پر یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اُس وقت کا انتظار نہ کرو، جب اللہ اور اس کی سلطنت کے کارکُن فرشتے خود سامنے آ جائیں گے،  کیونکہ پھر تو فیصلہ ہی کر ڈالا جائے گا۔ ایمان لانے اور اطاعت میں سر جھُکا دینے کی ساری قدر و قیمت اُسی وقت تک ہے،  جب تک حقیقت تمہارے حواس سے پوشیدہ ہے اور تم محض دلیل سے اس کو تسلیم کر کے اپنی دانشمندی کا اور محض فہمائش سے اس کی پیروی و اطاعت اختیار کر کے اپنی اخلاقی طاقت کا ثبوت دیتے ہو۔ ورنہ جب حقیقت بے نقاب سامنے آ جائے اور تم بچشمِ سر دیکھ لو کہ یہ خدا اپنے تختِ جلال پر متمکّن ہے،  اور یہ ساری کائنات کی سلطنت اس کے فرمان پر چل رہی ہے،  اور یہ فرشتے زمین و آسمان کے انتظام میں لگے ہوئے ہیں، اور یہ تمہاری ہستی اُس کے قبضۂ  قدرت میں پوری بے بسی کے ساتھ جکڑی ہوئی ہے،  اس وقت تم ایمان لائے اور اطاعت پر آمادہ ہوئے،  تو اس ایمان اور اطاعت کی قیمت ہی کیا ہے ؟ اس وقت تو کوئی کٹّے سے کٹّا کافر اور بد تر سے بدتر مجرم و فاجر بھی انکار و نافرمانی کی جرأت نہیں کر سکتا۔ ایمان لانے اور اطاعت قبول کرنے کی مُہلت بس اُسی وقت تک ہے جب تک کہ پردہ کشائی کی وہ ساعت نہیں آتی۔ جب وہ ساعت آ گئی، تو پھر نہ مُہلت ہے نہ آزمائش،  بلکہ وہ فیصلے کا وقت ہے۔

 

بنی اسرائیل سے پوچھو: کیسی کھلی کھلی نشانیاں ہم نے انھیں دکھائی ہیں(اور پھر یہ بھی ان ہی سے پوچھ لو کہ ) اللہ کی نعمت پانے کے بعد جو قوم اس کو شقاوت سے بدلتی ہے اسے اللہ کیسی سخت سزا دیتا ہے۔۲۲۹ جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے،  ان کے لیے دنیا کی زندگی بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے۔ ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں، مگر قیامت کے روز پرہیز گار لوگ ہی ان کے مقابلے میں عالی مقام ہوں گے۔ رَہا دنیا کا رزق،  تو اللہ کو اختیار ہے،  جسے چاہے بے حساب دے۔ ابتداء میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے ) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کجروی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے،  اور ان کے ساتھ کتاب ِ بر حق نازل کی تا کہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے،  ان کا فیصلہ کرے۔۔۔۔(اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتداء میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں،) اختلاف ان لوگوں نے کیا،  جنہیں حق کا علم دیا چکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے ۲۳۰۔۔۔۔ پس جو لوگ انبیاؑ پر ایمان لے آئے،  انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا۔ اللہ جسے چاہتا ہے،  راہِ راست دکھا دیتا ہے۔ پھر کیا ۲۳۱ تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوُ نہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے،  جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے ؟ ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے،  حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے سا تھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔۔۔۔ اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر،  رشتے داروں پر، یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے،  اللہ اس سے باخبر ہو گا۔ تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے،  تم نہیں جانتے۔ ؏۲٦
 

۲۲۹-اس سوال کے لیے بنی اسرائیل کا انتخاب دو وجُوہ سے کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ آثار قدیمہ کے بے زبان کھنڈروں کی بہ نسبت ایک جیتی جاگتی قوم زیادہ بہتر سامانِ عبرت و بصیرت ہے۔ دُوسرے یہ کہ بنی اسرائیل وہ قوم ہے،  جس کو کتاب اور نبوّت کی مشعل دے کر دُنیا کی رہنمائی کے منصب پر مامور کیا گیا تھا، اور پھر اس نے دُنیا پرستی، نفاق اور علم و عمل کی ضلالتوں میں مُبتلا ہو کر اس نعمت سے اپنے آپ کو محرُوم کر لیا۔ لہٰذا جو گروہ اس قوم کے بعد امامت کے منصب پر مامور ہوا ہے،  س کو سب سے بہتر سبق اگر کسی کے انجام سے مِل سکتا ہے،  تو وہ یہی قوم ہے۔

۲۳۰-ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بُنیاد پر ’’مذہب‘‘ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دُنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اُس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہے اور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدّت تک نسلِ آدم راہِ راست پر قائم رہی اور ایک اُمّت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیا ے کرام کو مبعوث کرنا شروع کیا۔ یہ انبیاؑ  اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی اُمّت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہِ حق کو واضح کر کے اُنھیں پھر سے ایک اُمّت بنا دیں۔

۲۳۱-اُوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پُوری داستان کی داستان ہے،  جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے،  کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سُورتوں میں ( جو سُورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیاؑ  جب کبھی دُنیا میں آئے،  انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جوکھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھُولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس ’’اٰ مَنَّا‘‘ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے،  اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے۔

 

لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے ؟ کہو: اس میں لڑنا بہت برا ہے،  مگر راہِ خُدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خُدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔۲۳۲ وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتیٰ کہ اگر ان کا بس چلے،  تو تمہیں اس دین سے پھیر لے جائیں۔ (اور یہ خوب سمجھ لو کہ ) تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔۲۳۳ بخلاف اس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے ۲۳۴، وہ رحمت ِ الٰہی کے جائز امید وار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انھیں نوازنے والا ہے۔ پوچھتے ہیں : شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں،  مگر ان کا گناہ ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔۲۳۵ پوچھتے ہیں : ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں ؟ کہو : جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔پوچھتے ہیں: یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ؟ کہو : جس طرز عمل میں ان کے لیے بھلائی ہو،  وہی اختیار کرنا بہتر ہے۔۲۳۶ اگر تم اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترک رکھو، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر وہ تمہارے بھائی بند ہی تو ہیں۔ برائی کرنے والے اور بھلائی کرنے والے،  دونوں کا حال اللہ پر روشن ہے۔اللہ چاہتا تو اس معاملہ میں تم پر سختی کرتا مگر وہ صاحب اختیار ہونے کے ساتھ صاحب حکمت بھی ہے۔ تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا،  جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے،  اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں۔ ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو۔ یہ لوگ تمہیں آگ کر طرف بلاتے ہیں ۲۳۷ اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے،  اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے،  توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ ؏۲۷
 

۲۳۲-یہ بات ایک واقعہ سے متعلق ہے۔ رجب سن ۲ ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آٹھ آدمیوں کا ایک دستہ نَخْلہ کی طرف بھیجا تھا( جو مکّے اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ) اور اس کو ہدایت فرما دی تھی کہ قریش کی نقل و حرکت اور اُن کے آئندہ ارادوں کے متعلق معلومات حاصل کرے۔ جنگ کی کوئی اجازت آپ ؐ نے نہیں دی تھی۔ لیکن ان لوگوں کو راستے میں قریش کا ایک چھوٹا سا تجارتی قافلہ مِلا اور اس پر انہوں نے حملہ کر کے ایک آدمی کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں کو اُن کے مال سمیت گرفتار کر کے مدینے لے آئے۔ یہ کاروائی ایسے وقت ہوئی، جب کہ رجب ختم اور شعبان شروع ہو رہا تھا اور یہ امر مشتبہ تھا کہ آیا حملہ رجب (یعنی ماہِ حرام ) ہی میں ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن قریش نے،  اور ان سے درپردہ ملے ہوئے یہُودیوں اور منافقین ِ مدینہ نے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنے لیے اس واقعہ کو خوب شہرت دی اور سخت اعتراضات شروع کر دیے کہ یہ لوگ چلے ہیں بڑے اللہ والے بن کر اور حال یہ ہے کہ ماہِ حرام تک میں خُونریزی سے نہیں چُوکتے۔ اِنہی اعتراضات کا جواب اس آیت میں دیا گیا ہے۔ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ بلا شبہہ ماہِ حرام میں لڑنا بڑی بُری حرکت ہے،  مگر اس پر اعتراض کرنا اُن لوگوں کے منہ کو تو زیب نہیں دیتا،  جنھوں نے ۱۳ برس مسلسل اپنے سینکڑوں بھائیوں پر صرف اس لیے ظلم توڑے کہ وہ ایک خدا پر ایمان لائے تھے،  پھر ان کو یہاں تک تنگ کیا کہ وہ جلا وطن ہونے پر مجبُور ہو گئے،  پھر اس پر بھی اکتفا نہ کیا اور اپنے ان بھائیوں کے لیے مسجدِ حرام تک جانے کا راستہ بھی بند کر دیا۔ حالانکہ مسجدِ حرام کسی کی مملوکہ جائداد نہیں ہے اور پچھلے دو ہزار برس میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو اُس کی زیارت سے روکا گیا ہو۔ اب جن ظالموں کا نامۂ  اعمال اِن کرتُوتوں سے سیاہ ہے،  ان کا کیا منہ ہے کہ ایک معمولی سی سرحدی جھڑپ پر اس قدر زور شور کے اعتراضات کریں، حالانکہ اس جھڑپ میں جو کچھ ہوا ہے وہ نبی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اور اس کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ اسلامی جماعت کے چند آدمیوں سے ایک غیر ذمہ دارانہ فعل کا ارتکاب ہو گیا ہے۔

اس مقام پر یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ جب یہ دستہ قیدی اور مالِ غنیمت لے کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا،  تو آپ نے اسی وقت فرما دیا تھا کہ میں نے تم کو لڑنے کی اجازت تو نہیں دی تھی۔ نیز آپ نے ان کے لائے ہوئے مالِ غنیمت میں سے بیت المال کا حصّہ لینے سے بھی اِنکار فر ما دیا تھا، جو اس بات کی علامت تھی کہ ان کی یہ لُوٹ ناجائز ہے۔ عام مسلمانوں نے بھی اس فعل پر اپنے ان آدمیوں کو سخت ملامت کی تھی اور مدینے میں کوئی ایسا نہ تھا، جس نے انھیں اس پر داد دی ہو۔

۲۳۳-مسلمانوں میں بعض سادہ لوح لوگ،  جن کے ذہن پر نیکی اور صُلح پسندی کا ایک غلط تصور مسلّط تھا، کفّارِ مکّہ اور یہُودیوں کے مذکورۂ بالا اعتراضات سے متاثر ہو گئے تھے۔ اس آیت میں انھیں سمجھایا گیا ہے کہ تم اپنی ان باتوں سے یہ اُمید نہ رکھو کہ تمہارے اور ان کے درمیان صفائی ہو جائے گی۔ اُن کے اعتراضات صفائی کی غرض سے ہیں ہی نہیں۔ وہ تو در اصل کیچڑ اُچھالنا چاہتے ہیں۔ انھیں یہ بات کَھل رہی ہے کہ تم اِس دین پر ایمان کیوں لائے ہو اور اس کی طرف دُنیا کو دعوت کیوں دیتے ہو۔ پس جب تک وہ اپنے کُفر پر اَڑے ہوئے ہیں اور تم اس دین پر قائم ہو، تمہارے اور ان کے درمیان صفائی کسی طرح نہ ہو سکے گی۔ اور ایسے دُشمنوں کو تم معمُولی دُشمن بھی نہ سمجھو۔ جو تم سے مال و زر یا زمین چھیننا چاہتا ہے،  وہ کمتر درجے کا دُشمن ہے۔ مگر جو تمہیں دینِ حق سے پھیرنا چاہتا ہے،  وہ تمہارا بدترین دُشمن ہے۔ کیونکہ پہلا تو صرف تمہاری دُنیا ہی خراب کرتا ہے،  لیکن یہ دُوسرا تمہیں آخرت کے اَبدی عذاب میں دھکیل دینے پر تُلا ہوا ہے۔

۲۳۴-جہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دینا۔ یہ محض جنگ کا ہم معنی نہیں ہے۔ جنگ کے لیے تو ’’قِتَال‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جِھَاد اس سے وسیع تر مفہُوم رکھتا ہے اور اس میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے۔ مجاہد وہ شخص ہے،  جو ہر وقت اپنے مقصد کی دھُن میں لگا ہو، دماغ سے اس کے لیے تدبیریں سوچے،  زبان و قلم سے اسی کی تبلیغ کرے،  ہاتھ پا ؤ ں سے اسی کے لیے دَوڑ دھُوپ اور محنت کرے،  اپنے تمام امکانی وسائل اُس کو فروغ دینے میں صَرف کر دے،  اور ہر اُس مزاحمت کا پُوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے جو اس راہ میں پیش آئے،  حتّیٰ کہ جب جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی دریغ نہ کرے۔ اس کا نام ہے ’’جہاد‘‘۔ اور جہاد فی سبیل اللہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس غرض کے لیے کیا جائے کہ اللہ کا دین اس کی زمین پر قائم ہو اور اللہ کا کلمہ سارے کلموں پر غالب ہو جائے۔ اس کے سوا اور کوئی غرض مجاہد کے پیشِ نظر نہ ہو۔

۲۳۵-یہ شراب اور جُوے کے متعلق پہلا حکم ہے،  جس میں صرف اظہار ِ ناپسندیدگی کر کے چھوڑ دیا گیا ہے،  تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی۔ پھر شراب اور جُوے اور اس نوعیت کی تمام چیزوں کو قطعی حرام کر دیا گیا۔(ملاحظہ ہو سُورۂ نساء، آیت ۴۳ و سُورۂ مائدہ، آیت ۹۰)

۲۳۶-اس آیت کے نزول سے پہلے قرآن میں یتیموں کے حقوق کے حفاظت کے متعلق بار بار سخت احکام آ چکے تھے اور یہاں تک فرما دیا گیا تھا کہ ‘‘یتیم کے مال کے پاس نہ پھٹکو۔’’ اور یہ کہ ‘‘جو لوگ یتیموں کا مال ظلم کے ساتھ کھاتے ہیں، وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں۔’’ ان شدید احکام کی بنا پر وہ لوگ، جن کی تربیت میں یتیم بچے تھے،  اس قدر خوف زدہ ہو گئے تھے کہ انہوں نے ان کا کھانا پینا تک اپنے سے الگ کر دیا تھا اور اس احتیاط پر بھی انہیں ڈر تھا کہ کہیں یتیموں کے مال کا کوئی حصّہ ان کے مال میں نہ مِل جائے۔ اسی لیے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ ان بچوں کے ساتھ ہمارے معاملے کی صحیح صُورت کیا ہے۔

۲۳۷-یہ ہے علّت و مصلحت اُس حکم کی جو مشرکین کے ساتھ شادی بیاہ کا تعلق نہ رکھنے کے متعلق اُوپر بیان ہوا تھا۔ عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے،  بلکہ وہ ایک گہرا تمدّنی،  اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آئندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہو گا،  وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہو جائے گی، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجون مرکّب اُس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی نا پسند کریں،  مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو وہ محض اپنے جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نا دانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہو جائے۔ اگر بالفرض ایک فردِ مومن کسی فرد ِ مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہو جائے،  تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان،  اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے۔

 

پوچھتے ہیں: حیض کا کیا حکم ہے ؟ کہو: وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔۲۳۸ اس میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ، جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہو جائیں ۲۳۹۔پھر جب وہ پاک ہو جائیں، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔۲۴۰ اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے،  جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں۔ تمہیں اختیار ہے،  جس طرح چاہو، اپنی کھیتی میں جاؤ ۲۴۱، مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو ۲۴۲ اور اللہ کی ناراضی سے بچو۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے۔ اور اے نبیؐ ! جو تمہاری ہدایت کو مان لیں انہیں فلاح و سعادت کا مژدہ سنا دو۔ اللہ کے نام کو ایسی قسمیں کھانے کے لیے استعمال نہ کرو، جن سے مقصود نیکی اور تقویٰ اور بندگان خدا کی بھلائی کے کاموں سے باز رہنا ہو۔۲۴۳ اللہ تمہاری باتیں سن رہا ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا،۲۴۴ مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے ۲۴۵۔ اگر انھوں نے رجوع کر لیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔۲۴۶اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ۲۴۷ ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔۲۴۸جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو،  وہ تین مرتبہ ایّام ِ ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خَلق فرمایا ہو، اسے چھپائیں۔ انھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے،  اگر وہ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ ان کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اس عدّت کے دوران میں انھیں پھر اپنی زوجیّت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔۲۴۹ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔ ؏۲۸

 

۲۳۸-اصل میں اَذیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے،  جس کے معنی گندگی کے بھی ہیں اور بیماری کے بھی۔ حیض صرف ایک گندگی ہی نہیں ہے،  بلکہ طبی حیثیت سے وہ ایک ایسی حالت ہے،  جس میں عورت تندرستی کی بہ نسبت بیماری سے قریب تر ہوتی ہے۔

۲۳۹-قرآن مجید اس قسم کے معاملات کو استعاروں اور کنایوں میں بیان کرتا ہے۔ اس لیے اس نے ’’الگ رہو‘‘ اور ’’قریب نہ جا ؤ ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حائضہ عورت کے ساتھ ایک فرش پر بیٹھنے یا ایک جگہ کھانا کھانے سے بھی احتراز کیا جائے اور اسے بالکل اچھُوت بنا کر رکھ دیا جائے،  جیسا کہ یہُود اور ہنُود اور بعض دُوسری قوموں کا دستور ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حکم کی جو توضیح فرما دی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حالت میں صرف فعلِ مباشرت سے پرہیز کرنا چاہیے،  باقی تمام تعلقات بدستور برقرار رکھے جائیں۔

۲۴۰-یہاں حکم سے مراد حکم ِ شرعی نہیں ہے،  بلکہ وہ فطری حکم مراد ہے،  جو انسان اور حیوان،  سب کی جبلّت میں ودیعت کر دیا گیا ہے اور جس سے ہر متنفس بالطبع واقف ہے۔

۲۴۱-یعنی فطرۃ اللہ نے عورتوں کو مَردوں کے لیے سیر گاہ نہیں بنایا ہے،  بلکہ ان دونوں کے درمیان کھیت اور کسان کا سا تعلق ہے۔ کھیت میں کسان محض تفریح کے لیے نہیں جاتا، بلکہ اس لیے جاتا ہے کہ اس سے پیداوار حاصل کرے۔ نسلِ انسانی کے کسان کو بھی انسانیت کی کھیتی میں اس لیے جانا چاہیے کہ وہ اس سے نسل کی پیداوار حاصل کرے۔ خدا کی شریعت کو اِس سے بحث نہیں کہ تم اس کھیت میں کاشت کس طرح کرتے ہو، البتہ اس کا مطالبہ تم سے یہ ہے کہ جا ؤ کھیت ہی میں، اور اس غرض کے لیے جا ؤ کہ اس سے پیداوار حاصل کرنی ہے۔

۲۴۲-جامع الفاظ ہیں، جن سے دو مطلب نکلتے ہیں اور دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔ ایک یہ کہ اپنی نسل برقرار رکھنے کی کوشش کرو تاکہ تمہارے دُنیا چھوڑنے سے پہلے تمہاری جگہ دُوسری کام کرنے والے پیدا ہوں۔ دُوسرے یہ کہ جس آنے والی نسل کو تم اپنی جگہ چھوڑنے والے ہو، اس کو دین، اخلاق اور آدمیّت کے جوہروں سے آراستہ کرنے کی کوشش کرو۔ بعد کے فقرے میں اس بات پر بھی تنبیہ فرما دی ہے کہ اگر ان دونوں فرائض کے ادا کرنے میں تم نے قصداً کوتاہی کی، تو اللہ تم سے باز پرس کرے گا۔

۲۴۳-احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص نے کسی بات کی قَسم کھائی ہو اور بعد میں اس پر واضح ہو جائے کہ اِس قَسم کے توڑ دینے ہی میں خیر اور بھلائی ہے،  اسے قَسم توڑ دینی چاہیے اور کفّارہ ادا کرنا چاہیے۔ قَسم توڑنے کا کفّارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا یا انہیں کپڑے پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا یا تین دن کے روزے رکھنا ہے۔( ملاحظہ ہو سُورہ مائدہ،  آیت ۸۹)

۲۴۴-یعنی بطور تکیہ کلام کے بلا ارادہ جو قسمیں زبان سے نکل جاتی ہیں، ایسی قسموں پر نہ کفارہ ہے اور نہ ان پر مواخذہ ہو گا۔

۲۴۵-اِصطلاحِ شرع میں اس کو ایلاء کہتے ہیں۔ میاں اور بیوی کے درمیان تعلقات ہمیشہ خوش گوار تو نہیں رہ سکتے۔ بگاڑ کے اسباب پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔ لیکن ایسے بگاڑ کو خدا کی شریعت پسند نہیں کرتی کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ قانونی طور پر رشتۂ ازدواج میں تو بندھے رہیں، مگر عملاً ایک دُوسرے سے اس طرح الگ رہیں کہ گویا وہ میاں اور بیوی نہیں ہیں۔ ایسے بگاڑ کے لیے اللہ تعالیٰ نے چار مہینے کی مدّت مقرر کر دی کہ یا تو اس دَوران میں اپنے تعلقات درست کر لو، ورنہ ازدواج کا رشتہ منقطع کر دو تاکہ دونوں ایک دُوسرے سے آزاد ہو کر جس سے نباہ کر سکیں، اس کے ساتھ نکاح کر لیں۔

آیت میں چونکہ ’’قَسم کھا لینے ‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، اس لیے فقہائے حنفیہ اور شافعیہ نے اس آیت کا منشا یہ سمجھا ہے کہ جہاں شوہر نے بیوی سے تعلق زن و شو نہ رکھنے کی قَسم کھائی ہو، صرف وہیں اس حکم کا اطلاق ہو گا، باقی رہا قسم کھائے بغیر تعلق منقطع کر لینا، تو یہ خواہ کتنی ہی طویل مدّت کے لیے ہو، اس آیت کا حکم اُس صُورت پر چسپاں نہ ہو گا۔ مگر فقہائے مالکیہ کی رائے یہ ہے کہ خواہ قَسم کھائی گئی ہو یا نہ کھائی گئے ہو، دونوں صُورتوں میں ترکِ تعلق کے لیے یہی چار مہینے کی مُدّت ہے۔ ایک قول امام احمد کا بھی اسی کی تائید میں ہے۔( بدایۃ المجتہد، جلد دوم،  ص ۸۸،  طبع مصر، سن ۱۳۳۹ ھ)

حضرت علی ؓ اور ابنِ عباس ؓ اور حسن بصری کی رائے میں یہ حکم صرف اُس ترکِ تعلق کے لیے ہے،  جو بگاڑ کی وجہ سے ہو۔ رہا کسی مصلحت سے شوہر کا بیوی کے ساتھ جسمانی رابطہ منقطع کر دینا، جبکہ تعلقات خوشگوار ہوں، تو اس پر یہ حکم منطبق نہیں ہوتا۔ لیکن دُوسرے فقہا کی رائے میں ہر وہ حلف جو شوہر اور بیوی کے درمیان رابطۂ جسمانی کو منقطع کر دے،  ایلاء ہے اور سے چار مہینے سے زیادہ قائم نہ رہنا چاہیے،  خواہ ناراضی سے ہو یا رضا مندی سے۔

۲۴۶-بعض فقہا نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ اگر وہ اس مدّت کے اندر اپنی قسم توڑ دیں اور پھر سے تعلقِ زن و شو قائم کر لیں تو ان پر قسم توڑنے کا کفّارہ نہیں ہے،  اللہ ویسے ہی معاف کر دے گا۔ لیکن اکثر فقہا کی رائے یہ ہے کہ قسم توڑنے کا کفارہ دینا ہو گا۔ غفورٌ رحیم کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کفارہ سے تمہیں معاف کر دیا گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہارے کفارے کو قبول کر لے گا اور ترکِ تعلق کے دَوران میں جو زیادتی دونوں نے ایک دُوسرے پر کی ہو، اسے معاف کر دیا جائے گا۔

۲۴۷-حضرات عثمان، ابن مسعود، زید بن ثابت وغیرہم کے نزدیک رُجوع کا موقع چار مہینے کے اندر ہی ہے۔ اس مدّت کا گزر جانا خود اِس بات کی دلیل ہے کہ شوہر نے طلاق کا عزم کر لیا ہے،  اس لیے مدّت گزرتے ہی طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی اور وہ ایک طلاق ِ بائن ہو گی، یعنی دَورانِ عدّت میں شوہر کو رُجوع کا حق نہ ہو گا۔ البتہ اگر وہ دونوں چاہیں،  تو دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔ حضرات عمر،  علی، ابنِ عباس اور ابنِ عمر سے بھی ایک قول اسی معنی میں منقول ہے اور فقہائے حنفیہ نے اسی رائے کو قبول کیا ہے۔

سعید بن مُسَیِّب،  مکحُول، زُہری وغیرہ حضرات اس رائے سے یہاں تک تو متفق ہیں کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد خود بخود طلاق واقع ہو جائے گی، مگر اُن کے نزدیک وہ ایک طلاق رجعی ہو گی، یعنی دَورانِ عِدّت میں شوہر کو رجوع کر لینے کا حق ہو گا اور رجوع نہ کرے تو عدّت گزر جانے کے بعد دونوں اگر چاہیں،  تو نکاح کر سکیں گے۔

بخلاف اس کے حضرت عائشہ ؓ،  ابو الدَّرْدَاء اور اکثر فقہائے مدینہ کی رائے یہ ہے کہ چار مہینے کی مدّت گزرنے کے بعد معاملہ عدالت میں پیش ہو گا اور حاکمِ عدالت شوہر کو حکم دے گا کہ یا تو اس عورت سے رُجوع کرے یا اُسے طلاق دے۔ حضر عمر ؓ،  حضرت علی ؓ اور ابنِ عمر ؓ کا ایک قول اس کی تائید میں بھی ہے اور امام مالک و شافعی نے اسی کو قبول کیا ہے۔

۲۴۸-یعنی اگر تم نے بیوی کو ناروا بات پر چھوڑ ا ہے،  تو اللہ سے بے خوف نہ رہو، وہ تمہاری زیادتی سے ناواقف نہیں ہے۔

۲۴۹-اس آیت کے حکم میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک جماعت کے نزدیک جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر نہا نہ لے،  اس وقت تک طلاق بائن نہ ہو گی اور شوہر کو رُجوع کا حق باقی رہے گا۔ حضرات ابوبکر ؓ،  عمر ؓ،  علی ؓ،  ابنِ عباس ؓ،  ابو موسیٰ اشعری، ابنِ مسعود اور بڑے بڑے صحابہ ؓ کی یہی رائے ہے اور فقہائے حنفیہ نے اِسی کو قبول کیا ہے۔ بخلاف اِس کے دُوسری جماعت کہتی ہے کہ عورت کو تیسری بار حیض آتے ہی شوہر کا حقِ رجوع ساقط ہو جاتا ہے۔ یہ رائے حضرات عائشہ ؓ،  ابنِ عمر ؓ،  اور زید بن ثابت ؓ کی ہے اور فقہائے شافعیہ و مالکیہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ مگر واضح رہے کہ یہ حکم صرف اس صُورت سے متعلق ہے،  جس میں شوہر نے عورت کو ایک یا دو طلاقیں دی ہوں۔ تین طلاقیں دینے کی صُورت میں شوہر کو حقِ رُجوع نہیں ہے۔

 

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔۲۵۰ اور رخصت کرتے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو،  اس میں سے کچھ واپس لے لو۔۲۵۱ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے،  تو ان دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔۲۵۲ یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔ پھر اگر( دو بار طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، اِلّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔۲۵۳ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِ الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجوع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنھیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے،  جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام ) جانتے ہیں اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدّت پوری ہونے کو آ جائے،  تو یا بھلے طریقے سے انہیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ ۲۵۴ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اس نے تم پر نازل کی ہے،  اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ ۲۵۵ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔ ؏۲۹
 

۲۵۰-اس مختصر سی آیت میں ایک بہت بڑی معاشرتی خرابی کی، جو عرب جاہلیّت میں رائج تھی،  اِصلاح کی گئی ہے۔ عرب میں قاعدہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کو بے حدّو حساب طلاق دینے کا مجاز تھا۔ جس عورت سے اس کا شوہر بگڑ جاتا اُس کو وہ بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا، تاکہ نہ تو وہ غریب اس کے ساتھ بس ہی سکے اور نہ اس سے آزاد ہو کر کسی اَور سے نکاح ہی کر سکے۔ قرآن مجید کی یہ آیت اسی ظلم کا دروازہ بند کرتی ہے۔ اس آیت کی رُو سے ایک مرد ایک رشتۂ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ طلاقِ رجعی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رُجوع کر چکا ہو، وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہو جائے گی۔

طلاق کا صحیح طریقہ، جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے،  یہ ہے کہ عورت کو حالتِ طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے۔ اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو، جبکہ عورت ایّامِ ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں ہے،  بلکہ ایّام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے،  تو دُوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دے دے،  ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے۔ اِس صُورت میں شوہر کو حق حاصل رہتا ہے کہ عدّت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رُجوع کر لے،  اور عدّت گزر بھی جائے،  تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضامندی سے دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کو رجوع کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اِس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے۔ رہی یہ صُورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، جیسا کہ آج کل جُہلا کا عام طریقہ ہے،  تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے اور حضرت عمر ؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا، آپ اس کو دُرّے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود،  ائمۂ  اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہو جاتی ہے۔

۲۵۱-یعنی مَہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ،  جو شوہر اپنی بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز بھی واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اُصُولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو، جسے وہ دُوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ و تحفہ کے طور پر دے چکا ہو، واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتّے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے،  جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصُو صیّت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت ہی شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رُخصت کر تے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا۔ اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے،  اُسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رُخصت کرے۔ جیسا کہ آگے آیت ۲۴۱ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔

۲۵۲-شریعت کی اصطلاح میں اسے ’’ خُلع‘‘ کہتے ہیں، یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلا کر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر ہی میں کوئی معاملہ طے ہو جائے،  تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہو گا۔ لیکن اگر عدالت میں معاملہ جائے،  تو عدالت صرف اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اُس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اُس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ اس کی تحقیق ہو جانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے،  تجویز کرے،  اور اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گا۔ بالعمُوم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فدیہ اسے دلوایا جائے۔

خُلع کی صُورت میں جو طلاق دی جاتی ہے،  وہ رجعی نہیں ہے،  بلکہ بائنہ ہے۔ چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے،  اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رُجوع کر سکے۔ البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دُوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چائیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے۔

جمہور کے نزدیک خُلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہے۔ مگر ابو داوٗد،  ترمذی اور ابنِ ماجہ وغیرہ میں متعدّد روایات ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی عدّت ایک ہی حیض قرار دی تھی اور اسی کے مطابق حضرت عثمان ؓ نے ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا (ابنِ کثیر، جلد اوّل، ص ۲۷۶)۔

۲۵۳-احادیثِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کر نے کے خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ناجائز فِعل ہے۔ ایسا نکاح،  نکاح نہ ہو گا، بلکہ محض ایک بدکاری ہو گی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لیے حلال نہ ہو گی۔ حضرت علی ؓ اور ابنِ مسعُود اور ابو ہریرہ ؓ اور عُقّبہ بن عامر ؓ کی مُتّفقَہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

۲۵۴-’’یعنی ایسا کرنا درست نہیں ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دے اور عدّت گزرنے سے پہلے محض اس لیے رُجوع کر لے کہ اسے پھر ستانے اور دق کرنے کا موقع ہاتھ آ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہدایت فرماتا ہے کہ رُجوع کرتے ہو تو اس نیت سے کرو کہ اب حُسنِ سلوک سے رہنا ہے۔ ورنہ بہتر ہے کہ شریفانہ طریقے سے رُخصت کر دو۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۵۰)

۲۵۵-یعنی اس حقیقت کو فراموش نہ کر دو کہ اللہ نے تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے کر دُنیا کی رہنمائی کے عظیم الشان منصب پر مامور کیا ہے۔ تم ’’اُمّتِ وَسَط‘‘ بنائے گئے ہو۔ تمہیں نیکی اور راستی کا گواہ بنا کر کھڑا کیا گیا ہے۔ تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ حیلہ بازیوں سے آیاتِ الٰہی کا کھیل بنا ؤ،  قانون کے الفاظ سے رُوحِ قانون کے خلاف ناجائز فائدے اُٹھا ؤ اور دُنیا کو راہِ راست دکھانے کے بجائے خود اپنے گھروں میں ظالم اور بد راہ بن کر رہو۔

 

جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ عدّت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیرِ تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جب کہ وہ معروف طریقے سے با ہم مناکحت پر راضی ہوں۔ ۲۵۶ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لانے والے ہو۔ تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو۔ اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ جو باپ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد پوری مدّت رضاعت تک دودھ پیے،  تو مائیں اپنے بچّوں کو کامل دو سال دودھ پلائیں۔۲۵۷ اس صورت میں بچّے کے باپ کو معروف طریقے سے انہیں کھانا کپڑا دینا ہو گا۔ مگر کسی پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بار نہ ڈالنا چاہیے،  نہ تو ماں کو اس وجہ سے تکلیف میں ڈالا جائے کہ بچّہ اس کا ہے،  اور نہ باپ ہی کو اس وجہ سے تنگ کیا جائے کہ بچّہ اس کا ہے۔۔۔۔ دودھ پلانے والی کا یہ حق جیسا بچّے کے باپ پر ہے،  ویسا ہی اس کے وارث پربھی ہے ۲۵۸۔۔۔۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضا مندی اور مشورے سے دودھ چھڑانا چاہیں، تو ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور اگر تمہارا خیال اپنی اولاد کو کسی غیر عورت سے دودھ پلوانے کا ہو، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کا جو کچھ معاوضہ طے کرو، وہ معروف طریقے پر ادا کر دو۔ اللہ سے ڈرو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو،  سب اللہ کی نظر میں ہے۔تم میں سے جو لوگ مر جائیں،  ان کے پیچھے اگر ان کی بیویاں زندہ ہوں، تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے،  دس دن روکے رکھیں۔ ۲۵۹ پھر جب ان کی عدّت پوری ہو جائے،  تو انہیں اختیار ہے،  اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے جو چاہیں، کریں۔ تم پر اس کی کوئی ذمّے داری نہیں۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ زمانۂ عدّت میں خواہ تم ان بیوہ عورتوں کے ساتھ منگنی کا ارادہ اشارے کنایے میں ظاہر کر دو، خواہ دل میں چھپائے رکھو، دونوں صورتوں میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تو تمہارے دل میں آئے گا ہی۔ مگر دیکھو! خفیہ عہد و پیمان نہ کرنا۔ اگر کوئی بات کرنی ہے،  تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقدِ نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو، جب تک کہ عدّت پوری نہ ہو جائے،  خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بُرد بار ہے،  چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر فرماتا ہے۔ ؏۳۰
 

۲۵۶-یعنی اگر کسی عورت کو اس شوہر نے طلاق دے دی ہو اور زمانۂ  عِدّت کے اندر اس سے رجُوع نہ کیا ہو، پھر عدّت گزر جانے کے بعد وہ دونوں آپس میں دوبارہ نکاح پر راضی ہوں،  تو عورت کے رشتے داروں کو اس میں مانع نہ ہونا چاہیے۔ نیز اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہو اور عورت عدّت کے بعد اس سے آزاد ہو کر کہیں دُوسری جگہ اپنا نکاح کرنا چاہتی ہو تو اُس سابق شوہر کو ایسی کمینہ حرکت نہ کرنی چاہیے کہ اس کے نکاح میں مانع ہو اور یہ کوشش کرتا پھرے کہ جس عورت کو اس نے چھوڑا ہے،  اُسے کوئی نکاح میں لانا قبول نہ کرے۔

۲۵۷-یہ اُس صُورت کا حکم ہے،  جبکہ زوجین ایک دُوسرے سے علیٰحدہ ہو چکے ہوں، خواہ طلاق کے ذریعے یا خُلع یا فسخ اور تفریق کے ذریعے سے،  اور عورت کی گود میں دُودھ پیتا بچّہ ہو۔

۲۵۸-یعنی اگر باپ مر جائے،  تو جو اس کی جگہ بچہ کا ولی ہو،  اُسے یہ حق ادا کرنا ہو گا۔

۲۵۹-یہ ’’عِدّتِ وفات‘‘ اُن عورتوں کے لیے بھی ہے جن سے شوہروں کی خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ البتہ حاملہ عورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ اس کی عِدّت ِ وفات وضعِ حمل تک ہے،  خواہ حمل شوہر کی وفات کے بعد ہی ہو جائے یا اِس میں کئی مہینے صرف ہوں۔

’’اپنے آپ کو روکے رکھیں‘‘ سے مُراد صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اس مُدّت میں نکاح نہ کریں، بلکہ اس سے مراد اپنے آپ کو زینت سے بھی روکے رکھنا ہے۔ چنانچہ احادیث میں واضح طور پر یہ احکام ملتے ہیں کہ زمانۂ  عدّت میں عورت کو رنگین کپڑے اور زیور پہنّے سے،  مہندی اور سُرمہ اور خوشبو اور خضاب لگانے سے،  اور بالوں کی آرائش سے پرہیز کرنا چاہیے۔ البتّہ اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا اس زمانے میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے یا نہیں۔ حضرات عمر ؓ،  عثمان ؓ،  ابنِ عمر ؓ،  زید بن ثابت ؓ،  ابنِ مسعود، اُم سَلَمہ، سعید بن مُسَیِّب، ابراہیم نَخعی، محمد بن سیرین اور ائمۂ اربعہ رحمہمُ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ زمانۂ  عِدّت میں عورت کو اُسی گھر میں رہنا چاہیے جہاں اس کے شوہر نے وفات پائی ہو۔ دن کے وقت کسی ضرورت سے وہ باہر جا سکتی ہے،  مگر قیام اس کا اس کا اُسی گھر میں ہونا چاہیے۔ اِس کے برعکس حضرت عائشہ ؓ،  ابنِ عبّاس ؓ،  حضرت علی ؓ،  جابر بن عبداللہ،  عطاء، طاؤس، حسن بصری،  عمر بن عبدالعزیز ؓ اور تمام اہلِ الظاہر ا س بات کے قائل ہیں کہ عورت اپنی عدّت کا زمانہ جہاں چاہے گزار سکتی ہے اور اس زمانے میں سفر بھی کر سکتی ہے۔

 

تم پر کچھ گناہ نہیں، اگر اپنی عورتوں کو طلاق دے دو قبل اس کے کہ ہاتھ لگانے کی نوبت آئے یا مہر مقرر ہو۔ اس صورت میں انھیں کچھ نہ کچھ دینا ضرور چاہیے۔۲۶۰ خوش حال آدمی اپنی مقدرت کے مطابق اور غریب اپنی مقدرت کے مطابق معروف طریقہ سے دے۔ یہ حق ہے نیک آدمیوں پر۔ اور اگر تم نے ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی ہو،  لیکن مہر مقرر کیا جا چکا ہو، جس کے اختیار میں عقدِ نکاح ہے،  نرمی سے کام لے ( اور پورا مہر دے دے )،  اور تم (یعنی مرد) نرمی سے کام لو، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ آپس کے معاملات میں فیّاضی کو نہ بھولو۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔۲۶۱ اپنی نمازوں کی نگہداشت ۲۶۲ رکھو، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسِن صلوٰۃ کی جامع ہو۔۲۶۳ اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو، جیسے فرماں بردار غلام کھڑے ہوتے ہیں۔ بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو، خواہ سوار، جس طرح ممکن ہو،  نماز پڑھو۔ اور جب امن میسّر آ جائے،  تو اللہ کو اس طریقے سے یاد کرو، جو اس نے تمہیں سکھا دیا ہے،  جس سے تم پہلے ناواقف تھے۔ تم میں ۲۶۴ سے جو لوگ وفات پائیں اور پیچھے بیویاں چھوڑے جائیں، ان کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیّت کر جائیں کہ ایک سال تک ان کو نان و نفقہ دیا جائے اور وہ گھر سے نہ نکالی جائیں۔پھر اگر وہ خود نکل جائیں، تو اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے وہ جو کچھ بھی کریں، اس کی کوئی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے ، اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے۔ اسی طرح جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، انھیں بھی مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر۔ اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کرو گے۔ ؏۳١
 

۲۶۰-اس طرح رشتہ جوڑنے کے بعد توڑ دینے سے بہرحال عورت کو کچھ نہ کچھ نقصان تو پہنچتا ہی ہے،  اس لیے اللہ نے حکم دیا ہے کہ حسبِ مقدرت اس کی تلافی کرو۔

۲۶۱-یعنی انسانی تعلقات کی بہتری و خوشگواری کے لیے لوگوں کا باہم فیّاضانہ برتا ؤ کرنا ضروری ہے۔ اگر ہر ایک شخص ٹھیک ٹھیک اپنے قانونی حق ہی پر اَڑا رہے،  تو اجتماعی زندگی کبھی خوشگوار نہیں ہو سکتی۔

۲۶۲-قوانینِ تمدّن و معاشرت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اس تقریر کو نماز کی تاکید پر ختم فرماتا ہے،  کیونکہ نماز ہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر خدا کا خوف،  نیکی و پاکیزگی کے جذبات اور احکامِ الٰہی کی اطاعت کا مادہ پیدا کرتی ہے اور اُسے راستی پر قائم رکھتی ہے۔ یہ چیز نہ ہو تو انسان کبھی الٰہی قوانین کی پابندی پر ثابت قدم نہیں رہ سکتا اور آخر کار اسی نافرمانی کی رَو میں بہہ نکلتا ہے جس پر یہُودی بہہ نکلے۔

۲۶۳-‘‘اصل میں لفظ ’’صَلوٰۃ الْوُسْطیٰ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے مراد بعض مفسّرین نے صبح کی نماز لی ہے،  بعض نے ظہر، بعض نے مغرب اور بعض نے عشا۔ لیکن ان میں سے کوئی قول بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول نہیں ہے۔ صرف اہلِ تاویل کا استنباط ہے۔ سب سے زیادہ اقوال نمازِ عصر کے حق میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اِسی نماز کو صلوٰۃ وسطیٰ قرار دیا ہے۔ لیکن جس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ جنگِ احزاب کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مشرکین کے حملے نے اس درجہ مشغول رکھا کہ سُورج ڈوبنے کو آگیا اور آپؐ نمازِ عصر نہ پڑھ سکے۔ اُس وقت آپؐ نے فرمایا کہ ’’خدا ان لوگوں کی قبریں اور ان کے گھر آگ سے بھر دے،  انہوں نے ہماری صلوٰۃ وسطیٰ فوت کرا دی۔‘‘ اِس سے یہ سمجھا گیا کہ آپ ؐ نے نمازِ عصر کو صلوٰۃِ وسطیٰ فرمایا ہے،  حالانکہ اس کا یہ مطلب ہمارے نزدیک زیادہ قرینِ صواب ہے کہ اس مشغولیت نے اعلیٰ درجے کی نماز ہم سے فوت کرا دی، نا وقت پڑھنی پڑے گی، جلدی جلدی ادا کرنی ہو گی، خشوع و خضوع اور اطمینان و سکون کے ساتھ نہ پڑھ سکیں گے۔

وسطیٰ کے معنی بیچ والی چیز کے بھی ہیں اور ایسی چیز کے بھی جو اعلیٰ اور اشرف ہو۔ صلوٰۃِ وسطیٰ سے مراد بیچ کی نماز بھی ہو سکتی ہے اور ایسی نماز بھی جو صحیح وقت پر پُورے خشوع اور توجّہ اِلی اللہ کے ساتھ پڑھی جائے،  اور جس میں نماز کی تمام خوبیاں موجود ہوں۔ بعد کا فقرہ کہ ’’اللہ کے آگے فرمانبردار بندوں کی طرح کھڑے ہو‘‘، خود اس کی تفسیر کر رہا ہے۔

۲۶۴-سلسلۂ تقریر اُوپر ختم ہو چکا تھا، یہ کلام اس کے تتمے اور ضمیمے کے طور پر ہے۔

 

۲۶۵ تم نے ان لوگوں کے حال پر بھی کچھ غور کیا، جو موت کے ڈر سے اپنے گھر بار چھوڑ کر نکلے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں تھے ؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ۔ پھر اس نے ان کو دوبارہ زندگی بخشی۔۲۶۶ حقیقت یہ ہے کہ اللہ انسان پر بڑا فضل فرمانے والا ہے،  مگر اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔ مسلمانو! اللہ کی راہ میں جنگ کرو اور خوب جان رکھو کہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ تم میں کون ہے جو اللہ کو قرض ِ حَسَن دے ۲۶۷ تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کرے ؟ گھٹانا بھی اللہ کے اختیار میں ہے اور بڑھا نا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے۔پھر تم نے اس معاملے پر بھی غور کیا، جو موسیٰؑ  کے بعد سردار ان بنی اسرائیل کو پیش آیا تھا؟ انہوں نے اپنے نبی سے کہا: ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔۲۶۸ نبی نے پوچھا: کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ تم کو لڑائی کا حکم دیا جائے اور پھر تم نہ لڑو۔ وہ کہنے لگے : بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم راہ ِ خدا میں نہ لڑیں، جبکہ ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا اور ہمارے بال بچے ہم سے جُدا کر دیے گئے ہیں مگر جب ان کو جنگ کا حکم دیا گیا،  تو ایک قلیل تعداد کے سوا وہ سب پیٹھ موڑ گئے،  اور اللہ ان میں سے ایک ایک ظالم کو جانتا ہے۔ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت ۲۶۹ کو تمہارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ یہ سن کر وہ بولے : ‘‘ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا؟ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے ’’۔ نبی نے جواب دیا: ‘‘اللہ نے تمہارے مقابلے میں اسی کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغ و جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے،  اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے ’’۔ اس کے ساتھ ان کے نبی نے ان کو یہ بھی بتایا کہ ’’خدا کی طرف سے اس کے بادشاہ مقرر ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے عہد میں وہ صندوق تمہیں واپس مل جائے گا، جس میں آلِ موسیٰؑ  اور آلِ ہارونؑ کے چھوڑے ہوئے تبّرکات ہیں، اور جس کو اس وقت فرشتے سنبھالے ہوئے ہیں۔‘‘۲۷۰ اگر تم مومن ہو، تو یہ تمہارے لیے بہت بڑی نشانی ہے۔ ؏۳۲
 

۲۶۵-یہاں سے ایک دُوسرا سلسلۂ تقریر شروع ہوتا ہے،  جس میں مسلمانوں کو راہِ خدا میں جہاد اور مالی قربانیاں کرنے پر اُبھارا گیا ہے اور انھیں اُن کمزوریوں سے بچنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، جن کی وجہ سے آخر کار بنی اسرائیل زوال و انحطاط سے دوچار ہوئے۔ اس مقام کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان اس وقت مکّے سے نکالے جا چکے تھے،  سال ڈیڑھ سال سے مدینے میں پناہ گزیں تھے،  اور کفّار کے مظالم سے تنگ آ کر خود بار بار مطالبہ کر چکے تھے کہ ہمیں لڑنے کی اجازت دی جائے۔ مگر جب اُنھیں لڑائی کا حکم دے دیا گیا،  تو اب ان میں بعض لوگ کَسمَسا رہے تھے،  جیسا کہ چھبّیسویں رکوع کے آخر میں ارشاد ہوا ہے۔ اِس لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے دو اہم واقعات سے اُنھیں عبرت دلائی گئی ہے۔

۲۶۶-یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعۂ خروج کی طرف ہے۔ سُورہ مائدہ کے چوتھے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے۔ دشت و بیاباں میں بے خانماں پھر رہے تھے۔ خود ایک ٹھکانے کے لیے بے تاب تھے۔ مگر جب اللہ کے ایما سے حضرت موسیٰؑ  نے ان کو حکم دیا کہ ظالم کنعانیوں کو ارضِ فلسطین سے نکال دو اور اس علاقے کو فتح کر لو، تو انہوں نے بُزدلی دِکھائی اور آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔ آخر کار اللہ نے انھیں چالیس سال تک زمین میں سرگرداں پھرنے کے لیے چھوڑ دیا یہاں تک کہ ان کی ایک نسل ختم ہو گئی اور دُوسری نسل صحرا ؤ ں کی گود میں پل کر اُٹھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے اُنھیں کنعانیوں پر غلبہ عطا کیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی معاملے کو موت اور دوبارہ زندگی کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔

۲۶۷-’’قرضِ حسن‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’اچھا قرض‘‘ ہے اور اس سے مراد ایسا قرض ہے،  جو خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ کسی کو دیا جائے۔ اس طرح جو مال راہِ خدا میں خرچ کیا جائے،  اُسے اللہ تعالیٰ اپنے ذمّے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ میں نہ صرف اصل ادا کر دوں گا،  بلکہ اس سے کئی گُنا زیادہ دُوں گا۔ البتہ شرط یہ ہے کہ وہ ہو قرضِ حَسَن،  یعنی اپنی کسی نفسانی غرض کے لیے نہ دیا جائے،  بلکہ محض اللہ کی خاطر اُن کاموں میں صرف کیا جائے،  جن کو وہ پسند کر تا ہے۔

۲۶۸-یہ تقریباً ایک ہزار برس قبلِ مسیح کا واقعہ ہے۔ اُس وقت بنی اسرائیل پر عَمالِقہ چیرہ دست ہو گئے تھے اور انہوں نے اسرائیلیوں سے فلسطین کے اکثر علاقے چھین لیے تھے۔ سموئیل نبی اس زمانے میں بنی اسرائیل کے درمیان حکومت کرتے تھے،  مگر وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔ اس لیے سردارانِ بنی اسرائیل نے یہ ضرورت محسُوس کی کہ کوئی اور شخص اُن کا سربراہ کار ہو، جس کی قیادت میں وہ جنگ کر سکیں۔ لیکن اُس وقت بنی اسرائیل میں اس قدر جاہلیّت آ چکی تھی اور وہ غیر مسلم قوموں کے طور طریقوں سے اتنے متاثّر ہو چکے تھے کہ خلافت اور پادشاہی کا فرق اُن کے ذہنوں سے نکل گیا تھا۔ اس لیے اُنھوں نے درخواست جو کی، وہ خلیفہ کے تقرر کی نہیں، بلکہ ایک بادشاہ کے تقرر کی تھی۔ اس سلسلے میں بائیبل کی کتاب سموئیل اوّل میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، وہ حسبِ ذیل ہیں:

’’سموئیل زندگی بھر اسرائیلیوں کی عدالت کرتا رہا۔۔۔۔۔ تب سب اسرائیلی بزرگ جمع ہو کر رامہ میں سموئیل کے پاس آئے اور اس سے کہنے لگے کہ دیکھ، تُو ضعیف ہے اور تیرے بیٹے تیری راہ پر نہیں چلتے۔ اب تُو کسی کو ہمارا بادشاہ مقرر کر دے،  جو اور قوموں کی طرح ہماری عدالت کرے۔۔۔۔۔ یہ بات سموئیل کو بُری لگی اور سموئیل نے خداوند سے دُعا کی اور خدا نے سموئیل سے کہا کہ جو کچھ یہ لوگ تجھ سے کہتے ہیں تُو اس کو مان کیونکہ انہوں نے تیری نہیں بلکہ میری حقارت کی ہے کہ میں اُن کا بادشاہ نہ رہوں۔۔۔۔۔ اور سموئیل نے ان لوگوں کو، جو اس سے بادشاہ کے طالب تھے،  خداوند کی سب باتیں کہہ سُنائیں اور اس نے کہا کہ جو بادشاہ تم پر سلطنت کرے گا، اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ وہ تمہارے بیٹوں کو لے کر اپنے رتھوں کے لیے اور اپنے رسالے میں نوکر رکھے گا اور وہ اس کے رتھوں کے آگے دَوڑیں گے اور وہ ان کو ہزار ہزار کے سردار اور پچاس پچاس کے جمعدار بنائے گا اور بعض سے ہل جتوائے گا اور فصل کٹوائے گا اور اپنے لیے جنگ کے ہتھیار اوررتھوں کے ساز بنوائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو گُندھن اور باورچن اور نان پُز بنائے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں اور زیتون کے باغوں کو،  جو اچھے سے اچھے ہوں گے،  لے کر اپنے خدمت گاروں کو عطا کرے گا اور تمہارے کھیتوں اور تاکستانوں کا دسواں حصّہ لے کر اپنے خواجوں اور خادموں کو دے گا اور تمہارے نوکر چاکر اور لونڈیوں اور تمہارے شکیل جوانوں اور تمہارے گدھوں کو لے کر اپنے کام پر لگائے گا اور وہ تمہاری بھیڑ بکریوں کا بھی دسواں حصّہ لے گا۔ سو تم اس کے غلام بن جا ؤ گے اور تم اُس دن اس بادشاہ کے سبب سے،  جسے تم نے اپنے لیے چُنا ہو گا فریاد کرو گے،  پر اس دن خداوند تم کو جواب نہ دے گا۔ تو بھی لوگوں نے سموئیل کی بات نہ سُنی اور کہنے لگے نہیں، ہم تو بادشاہ چاہتے ہیں، جو ہمارے اُوپر ہو تاکہ ہم بھی اور قوموں کی مانند ہوں اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری طرف سے لڑائی کرے۔۔۔۔ خداوند نے سموئیل کو فرمایا، تُو اُن کی بات مان لے اور ان کے لیے ایک بادشاہ مقرر کر۔‘‘ (باب ۷ آیت ۱۵ تا باب ۸ آیت ۲۲)

’’پھر سموئیل لوگوں سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ جب تم نے دیکھا بنی عمون کا بادشاہ ناحس تم پر چڑھ آیا،  تو تم نے مجھ سے کہا کہ ہم پر کوئی بادشاہ سلطنت کرے،  حالانکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا بادشاہ تھا۔ سو اب اِس بادشاہ کو دیکھو،  جسے تم نے چُن لیا او رجس کے لیے تم نے درخواست کی تھی۔ دیکھو خداوند نے تم پر بادشاہ مقرر کر دیا ہے۔ اگر تم خداوند سے ڈرتے اور اس کی پرستش کرتے اور اس کی بات مانتے رہو اور خداوند کے حکم سے سرکشی نہ کرو اور تم اور وہ بادشاہ بھی،  جو تم پر سلطنت کرتا ہے،  خداوند اپنے خدا کے پیرو بنے رہو، تو خیر،  پر اگر تم خداوند کی بات نہ مانو، بلکہ خداوند کے حکم سے سرکشی کرو، تو خداوند کا ہاتھ تمہارے خلاف ہو گا، جیسے وہ تمہارے باپ دادا کے خلاف ہوتا تھا۔۔۔۔۔ اور تم جان لو گے اور دیکھ بھی لو گے کہ تم نے خداوند کے حضُور اپنے لیے بادشاہ مانگنے سے کتنی بڑی شرارت کی۔۔۔۔۔ اب رہا میں،  سو خدا نہ کرے کہ تمہارے لیے دُعا کرنے سے باز آ کر خداوند کا گنہگار ٹھیروں، بلکہ میں وہی راہ،  جو اچھی اور سیدھی ہے،  تم کو بتا ؤ ں گا۔‘‘(باب ۱۲۔ آیت ۱۲ تا ۲۳)

کتاب سموئیل کی اِن تصریحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بادشاہت کے قیام کا یہ مطالبہ اللہ اور اُس کے نبی کو پسند نہ تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ قرآن مجید میں اِس مقام پر سردارانِ بنی اسرائیل کے اس مطالبے کی مذمت کیوں نہیں کی گئی،  تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس قصّے کا ذکر جس غرض کے لیے کیا ہے،  اس سے یہ مسئلہ غیر متعلق ہے کہ اُن کا مطالبہ صحیح تھا یا نہ تھا۔ یہاں تو یہ بتانا مقصُود ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر بُزدل ہو گئے تھے اور ان میں کس قدر نفسانیت آ گئی تھی اور ان کے اندر اخلاقی انضباط کی کتنی کمی تھی،  جس کے سبب سے آخر کار وہ گِر گئے۔ اور اس ذکر کی غرض یہ ہے کہ مسلمان اس سے عبرت حاصل کریں اور اپنے اندر یہ کمزوریاں پرورش نہ کریں۔

۲۶۹-بائیبل میں اس کا نام ساؤل لکھا ہے۔ یہ قبیلہ بن یمین کا ایک تیس سالہ نوجوان تھا۔ ‘‘بنی اسرائیل میں اس سے خوبصورت کوئی شخص نہ تھا اور ایسا قد آور تھا کہ لوگ اس کے کندھے تک آتے تھے۔’’ اپنے باپ کے گمشدہ گدھے ڈھونڈنے نکلا تھا۔ راستے میں جب سموئیل نبی کی قیام گاہ کے قریب پہنچا،  تو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اشارہ کیا کہ یہی شخص ہے جس کو ہم نے بنی اسرائیل کی بادشاہی کے لیے منتخب کیا ہے۔ چنانچہ سموئیل نبی اسے اپنے گھر لائے،  تیل کی کُپی لے کر اُس کے سر پر اُنڈیلی اور اُسے چُوما اور کہا کہ ‘‘خداوند نے تجھے مسح کیا تاکہ تُو اُس کی میراث کا پیشوا ہو۔’’ اس کے بعد اُنہوں نے بنی اسرائیل کا اجتماعِ عام کر کے اُس کی بادشاہی کا اعلان کیا (۱-سموئیل، باب ۹،  ۱۰)

یہ بنی اسرائیل کا دوسرا شخص تھا جس کو خدا کے حکم سے ‘‘مسح’’ کر کے پیشوائی کے منصب پر مقرر کیا گیا۔ اس سے پہلے حضرت ہارون سردار کاہن (Chief Priest) کی حیثیت سے مسح کیے گئے تھے،  اس کے بعد تیسرے ممسُوح یا مسیح حضرت دا ؤدؑ  ہوئے،  اور چوتھے مسیح حضرت عیسیٰؑ۔  لیکن طالوت کے متعلق ایسی کوئی تصریح قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ وہ نبوّت کے منصب پر بھی سرفراز ہوا تھا۔ محض بادشاہی کے لیے نامزد کیا جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ اُسے نبی تسلیم کیا جائے۔

۲۷۰-بائیبل کا بیان اس باب میں قرآن سے کسی حد تک مختلف ہے۔ تاہم اس سے اصل واقع کی تفصیلات پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صندوق،  جسے بنی اسرائیل اصطلاحاً ’’عہد کا صندوق‘‘ کہتے تھے،  ایک لڑائی کے موقع پر فلسطینی مشرکین نے بنی اسرائیل سے چھین لیا تھا، لیکن یہ مشرکین کے جس شہر اور جس بستی میں رکھا گیا،  وہاں وبائیں پھُوٹ پڑیں۔ آخر کار اُنہوں نے خوف کے مارے اُسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر گاڑی کو ہانک دیا۔ غالباً اِسی معاملے کی طرف قرآن اِن الفاظ میں اشارہ کرتا ہے کہ اُس وقت وہ صندوق فرشتوں کی حفاظت میں تھا، کیونکہ وہ گاڑی بغیر کسی گاڑی بان کے ہانک دی گئی تھی اور اللہ کے حکم سے یہ فرشتوں ہی کا کام تھا کہ وہ اُسے چلا کر بنی اسرائیل کی طرف لے آئے۔ رہا یہ ارشاد کہ ‘‘اِس صندوق میں تمہارے لیے سکونِ قلب کا سامان ہے ’’، تو بائیبل کے بیان سے اس کی حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنی اسرائیل اس کو بڑا متبرک اور اپنے لیے فتح و نصرت کا نشان سمجھتے تھے۔ جب وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا،  تو پُوری قوم کی ہمّت ٹُوٹ گئی اور ہر اسرائیلی یہ خیال کرنے لگا کہ خدا کی رحمت ہم سے پھِر گئی ہے اور اب ہمارے بُرے دن آ گئے ہیں۔ پس اُس صندوق کا واپس آنا اس قوم کے بڑی تقویت ِ قلب کا موجب تھا اور یہ ایک ایسا ذریعہ تھا،  جس سے اُن کی ٹُوٹی ہوئی ہمّتیں پھِر بن سکتی تھیں۔

’’آلِ موسی ٰؑ  اور آلِ ہارونؑ  کے چھوڑے ہوئے تبرّکات‘‘ جو اس صندوق میں رکھے ہوئے تھے،  ان سے مُراد پتھر کی وہ تختیاں ہیں،  جو طُورِ سینا پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ  کو دی تھیں۔ اس کے علاوہ تورات کو وہ اصل نسخہ بھی اُس میں تھا، جسے حضرت موسیٰؑ  نے خود لکھوا کر بنی لاوی کے سپرد کیا تھا۔ نیز ایک بوتل میں مَن بھی بھر کر اُس میں رکھ دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کے اُس احسان کو یاد کریں، جو صحرا میں اُس نے اُن کے باپ دادا پر کیا تھا۔ اور غالباً حضرت موسیٰؑ  کا وہ عصا بھی اس کے اندر تھا، جو خدا کے عظیم الشان معجزات کا مظہر بنا تھا۔

 

پھر جب طالوت لشکر لے کر چلا، تو اس نے کہا:’’ایک دریا پر اللہ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے۔ جو اس کا پانی پیے گا، وہ میرا سا تھی نہیں۔ میرا سا تھی صرف وہ ہے جو اس سے پیاس نہ بجھائے،  ہاں ایک آدھ چُلّو کوئی پی لے ‘‘مگر ایک گروہ قلیل کے سوا وہ سب اس دریا سے سیراب ہوئے۔ ۲۷۱ پھر جب طالوت اور اس کے سا تھی مسلمان دریا پار کر کے آگے بڑھے،  تو انہوں نے طالوت سے کہہ دیا کہ آج ہم میں جالوت اور اس کے لشکروں کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے۔۲۷۲ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں ایک دن اللہ سے ملنا ہے،  انھوں نے کہا: ‘‘بار ہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اللہ صبر کرنے والوں کا سا تھی ہے۔’’ اور جب وہ جالوت اور اس کے لشکروں کے مقابلہ پر نکلے،  تو انہوں نے دعا کی:’’اے ہمارے رب ! ہم پر صبر کا فیضان کر،  ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔آ خر کار اللہ کے اذن سے انھوں نے کافروں کو مار بھگایا اور داؤدؑ  ۲۷۳ نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت سے نوازا اور جِن جِن چیزوں کا چاہا، اس کو علم دیا۔۔۔۔ اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا،۲۷۴ لیکن دنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ اس طرح دفع فساد کا انتظام کرتا رہتا ہے )۔ یہ اللہ کی آیات ہیں، جو ہم ٹھیک ٹھیک تم کو سُنا رہے ہیں اور تم یقیناً ان لوگوں میں سے ہو، جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے ) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے۔ ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہمکلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے،  اور آخر میں عیسیٰؑ  ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روحِ پاک سے اس کی مدد کی۔ اگر اللہ چاہتا،  تو ممکن نہ تھا کہ ان رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے،  وہ آپس میں لڑتے۔ مگر( اللہ کی مشیّت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبّراً اختلاف سے روکے،  اس وجہ سے ) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی۔ ہاں اللہ چاہتا، تو وہ ہر گز نہ لڑتے،  مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔۲۷۵ ؏۳۳

 

۲۷۱-ممکن ہے اس سے مراد دریائے اُرْدُن ہو یا کوئی اور ندی یا نالہ۔ طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کو لے کر اس کے پار اُترنا چاہتا تھا،  مگر چونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کی قوم کے اندر اخلاقی انضباط بہت کم رہ گیا ہے،  اس لیے اس نے کار آمد اور ناکارہ لوگوں کو ممیز کرنے کے لیے یہ آزمائش تجویز کی۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی پیاس تک ضبط نہ کر سکیں، اُن پر کیا بھروسہ کیا جا سکتا ہے کہ اُس دشمن کے مقابلے میں پا مردی دکھائیں گے جس سے پہلے ہی وہ شکست کھا چکے ہیں۔

۲۷۲-غالباً یہ کہنے والے وہی لوگ ہوں گے،  جنہوں نے دریا پر پہلے ہی اپنی بے صبری کا مظاہرہ کر دیا تھا۔

۲۷۳-داؤد علیہ السّلام اُس وقت ایک کم سن نوجوان تھے۔ اتفاق سے طالوت کے لشکر میں عین اس وقت پہنچے،  جبکہ فلسطینیوں کی فوج کا گراں ڈیل پہلوان جالوت (جولِیَت) بنی اسرائیل کی فوج کو دعوتِ مبارزت دے رہا تھا اور اسرائیلیوں میں سے کسی کی ہمّت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلے کو نکلے۔ حضرت داؤد یہ رنگ دیکھ کر بے محابا اس کے مقابلے پر میدان میں جا پہنچے اور اس کو قتل کر دیا۔ اس واقعے نے اُنھیں تمام اسرائیلیوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیا، طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی اور آخر کار وہی اسرائیلیوں کے فرمانروا ہوئے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو سموئیل اوّل۔ باب ۱۷،  ۱۸)

۲۷۴-یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حدِ خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے،  مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے،  تو کسی دُوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔ اگر کہیں ایسا ہوتا کہ ایک قوم اور ایک پارٹی ہی کا اقتدار زمین میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا اور اس کی قہر مانی لازوال ہوتی، تو یقیناً ملک خدا میں فسادِ عظیم برپا ہو جاتا۔

۲۷۵-مطلب یہ ہے کہ رسُولوں کے ذریعے سے علم حاصل ہو جانے کے بعد جو اختلاف لوگوں کے درمیان رُونما ہوئے اور اختلافات سے بڑھ کر لڑائیوں تک جو نوبتیں پہنچیں، تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ معاذ اللہ خدا بے بس تھا اور اس کے پاس ان اختلافات اور لڑائیوں کو روکنے کا زور نہ تھا۔ نہیں، اگر وہ چاہتا،  تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انبیا کی دعوت سے سرتابی کر سکتا اور کفر و بغاوت کی راہ چل سکتا اور اس کی زمین میں فساد برپا کر سکتا۔ مگر اس کی مشیّت یہ تھی ہی نہیں کہ انسانوں سے ارادہ و اختیار کی آزادی چھین لے اور انھیں ایک خاص روش پر چلنے کے لیے مجبُور کر دے۔ اس نے امتحان کی غرض سے انہیں زمین پر پیدا کیا تھا،  اس لیے اس نے ان کو اعتقاد و عمل کی راہوں میں اِنتخاب کی آزادی عطا کی اور انبیا کو لوگوں پر کوتوال بنا کر نہیں بھیجا کہ زبردستی انھیں ایمان و اطاعت کی طرف کھینچ لائیں، بلکہ اس لیے بھیجا کہ دلائل اور بیّنات سے لوگوں کو راستی کی طرف بُلانے کی کوشش کریں۔ پس جس قدر اختلافات اور لڑائیوں کے ہنگامے ہوئے،  وہ سب اس وجہ سے ہوئے کہ اللہ نے لوگوں کو ارادے کی جو آزادی عطا کی تھی، اس سے کام لے کر لوگوں نے یہ مختلف راہیں اختیار کر لیں، نہ اس وجہ سے کہ اللہ ان کو راستی پر چلانا چاہتا تھا، مگر معاذ اللہ اُسے کامیابی نہ ہوئی۔

 

اے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے،  اس میں سے خرچ کرو ۲۷۶ قبل اس کے کہ وہ دن آئے،  جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی۔ اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں۔ ۲۷۷ اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی،  جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے،  اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔۲۷۸ نہ وہ سوتا ہے،  اور نہ اسے اونگھ لگتی ہے۔۲۷۹ زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے،  اسی کا ہے۔۲۸۰، کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے ؟۲۸۱ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے،  اس سے بھی وہ واقف ہے اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز ان کی گرفت ادراک میں نہیں آ سکتی اِلّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی ان کو دینا چاہے۔۲۸۲ اس کی حکومت ۲۸۳ آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے۔۲۸۴ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔۲۸۵ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت ۲۸۶ کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ( جس کا سہارا اس نے لیا ہے ) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، ان کا حامی و مدد گار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے۔۲۸۷ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، ان کے حامی و مدد گار طاغوت ۲۸۸ ہیں اور وہ انھیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ ؏۳۴
 

۲۷۶-مراد راہِ خدا میں خرچ کرنا ہے۔ ارشا د یہ ہو رہا ہے کہ جن لوگوں نے ایمان کی راہ اختیار کی ہے،  انہیں اُس مقصد کے لیے،  جس پر وہ ایمان لائے ہیں، مالی قربانیاں برداشت کرنی چاہییں۔

۲۷۷-یہاں کفر کی روش اختیار کرنے والوں سے مُراد یا تو وہ لوگ ہیں،  جو خدا کے حکم کی اطاعت سے انکار کریں اور اپنے مال کو اس کی خوشنودی سے عزیز تر رکھیں۔ یا وہ لوگ، جو اُس دن پر اعتقاد نہ رکھتے ہوں، جس کے آنے کا خوف دلایا گیا ہے۔ یا پھر وہ لوگ جو اس خیالِ خام میں مُبتلا ہوں کہ آخرت میں انھیں کسی نہ کسی طرح نجات خرید لینے کا اور دوستی و سفارش سے کام نکال لے جانے کا موقع حاصل ہو ہی جائے گا۔

۲۷۸-یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبُود بنا رکھے ہوں، مگرا صل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکتِ غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے،  جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے۔ کوئی دُوسرا نہ اس کی صفات میں اُس کا شریک ہے،  نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہیں بھی کسی اَور کو معبُود (الہٰ) بنایا جا رہا ہے،  ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے۔

۲۷۹-یہ اُن لوگوں کے خیالات کی تردید ہے،  جو خداوندِ عالم کی ہستی کو اپنی ناقص ہستیوں پر قیاس کرتے ہیں اور اس کی طرف وہ کمزوریاں منسُوب کرتے ہیں،  جو انسانوں کے ساتھ مخصُوص ہیں۔ مثلاً بائیبل کا یہ بیان کہ خدا نے چھ دن میں زمین و آسمان کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا۔

۲۸۰-یعنی وہ زمین و آسمان کا اور ہر اُس چیز کا مالک ہے،  جو زمین و آسمان میں ہے۔ اس کی ملکیّت میں، اس کی تدبیر میں اور اُس کی پادشاہی و حکمرانی میں کسی کا قطعاً کوئی حصّہ نہیں۔ اس کے بعد کائنات میں جس دُوسری ہستی کا بھی تم تصوّر کر سکتے ہو، وہ بہرحال اِس کائنات کی ایک فرد ہی ہو گی، اور جو اس کائنات کا فرد ہے،  وہ اللہ کا مملوک اور غلام ہے،  نہ کہ اُس کا شریک اور ہمسر۔

۲۸۱-یہ اُن مشرکین کے خیالات کا ابطال ہے، جو بزرگ انسانوں یا فرشتوں یا دُوسری ہستیوں کے متعلق یہ گمان رکھتے ہیں کہ خدا کے ہاں ان کا بڑا زور چلتا ہے،  جس بات پر اَڑ بیٹھیں، وہ منوا کر چھوڑتے ہیں،  اور جو کام چاہیں خدا سے لے سکتے ہیں۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ زور چلانا تو درکنار، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر اور کوئی مقرّب ترین فرشتہ اُس پادشاہِ ارض و سما کے دربار میں بلا اجازت زبان تک کھولنے کی جُرأت نہیں رکھتا۔

۲۸۲-اس حقیقت کے اظہار سے شرک کی بنیادوں پر ایک اور ضرب لگتی ہے۔ اُوپر کے فقروں میں اللہ تعالیٰ کی غیر محدُود حاکمیّت اور اس کے مطلق اختیارات کا تصوّر پیش کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کی حکومت میں نہ تو کوئی بالا ستقلال شریک ہے اور نہ کسی کا اس کے ہاں ایسا زور چلتا ہے کہ وہ اپنی سفارشوں سے اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے۔ اب ایک دُوسری حیثیت سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ کوئی دُوسرا اس کے کام میں دخل دے کیسے سکتا ہے،  جبکہ کسی دُوسرے کے پاس وہ علم ہی نہیں ہے جس سے وہ نظام ِ کائنات اور اس کی مصلحتوں کو سمجھ سکتا ہو۔ انسان ہوں یا جِن یا فرشتے یا دُوسری مخلوقات، سب کا عِلم ناقص اور محدُود ہے۔ کائنات کی تمام حقیقتوں پر کسی کی نظر بھی محیط نہیں۔ پھر اگر کسی چھوٹے سے چھوٹے جُز میں بھی کسی بندے کی آزادانہ مداخلت یا اٹل سفارش چل سکے تو سارا نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے۔ نظامِ عالم تو رہا درکنار، بندے تو خود اپنی ذاتی مصلحتوں کو بھی سمجھنے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی مصلحتوں کو بھی خداوندِ عالم ہی پُوری طرح جانتا ہے اور اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اُس خدا کی ہدایت و رہنمائی پر اعتماد کریں، جو علم کا اصلی سر چشمہ ہے۔

۲۸۳-اصل میں لفظِ ’’ کُرْسِی‘‘ استعمال ہوا ہے،  جسے بالعمُوم حکومت و اقتدار کے لیے اِستعارے کے طور پر بولا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں بھی اکثر کُرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مُراد لیتے ہیں۔

۲۸۴-یہ آیت ’’آیت الکرسی‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اِسی بنا پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔

اِس مقام پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں خداوندِ عالم کی ذات و صفات کا ذکر کس مناسبت سے آیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر اس تقریر پر نگاہ ڈال لیجیے،  جو رکوع ۳۲ سے چل رہی ہے۔ پہلے مسلمانوں کو دینِ حق کے قیام کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے پر اُکسایا گیا ہے اور اُن کمزوریوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔ پھر یہ حقیقت سمجھائی گئی ہے کہ فتح و کامیابی کا مدار تعداد اور سازو سامان کی کثرت پر نہیں، بلکہ ایمان، صبر و ضبط اور پختگیِ عزم پر ہے۔ پھر جنگ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جو حکمت وابستہ ہے،  اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے،  یعنی یہ کہ دُنیا کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے وہ ہمیشہ انسانوں کے ایک گروہ کو دُوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع کرتا رہتا ہے،  ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو غلبہ و اقتدار کا دائمی پٹہ مِل جاتا، تو دُوسروں کے لیے جینا دشوار ہو جاتا۔ پھر اس شبہہ کو دفع کیا گیا ہے،  جو ناواقف لوگوں کے دِلوں میں اکثر کھٹکتا ہے کہ اگر اللہ نے اپنے پیغمبر اختلافات کو مٹانے اور نزاعات کا سدِّ باب کرنے ہی کے لیے بھیجے تھے اور ان کی آمد کے باوجود نہ اختلافات مٹے،  نہ نزاعات ختم ہوئے،  تو کیا اللہ ایسا ہی بے بس تھا کہ اُس نے اِن خرابیوں کو دُور کرنا چاہا اور نہ کر سکا۔ اس کے جواب میں بتا دیا گیا ہے کہ اختلافات کو بجبر روک دینا اور نوعِ انسانی کو ایک خاص راستے پر بزور چلانا اللہ کی مشیّت ہی میں نہ تھا،  ورنہ انسان کی کیا مجال تھی کہ اُس کی مشیّت کے خلاف چلتا۔ پھر ایک فقرے میں اُس اصل مضمون کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے تقریر کی ابتدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد اب یہ اشارہ ہو رہا ہے کہ انسانوں کو عقائد و نظریات اور مسالک و مذاہب خواہ کتنے ہی مختلف ہوں، بہرحال حقیقتِ نفس ُ الامری، جس پر زمین و آسمان کا نظام قائم ہے،  یہ ہے،  جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ انسانوں کی غلط فہمیوں سے اس حقیقت میں ذرہ برابر کوئی فرق نہیں آتا۔ مگر اللہ کا یہ منشا نہیں ہے کہ اس کے ماننے پر لوگوں کو زبر دستی مجبُور کیا جائے۔ جو اُسے مان لے گا، وہ خود ہی فائدے میں رہے گا اور جو اس سے منہ موڑے گا،  وہ آپ نقصان اُٹھائے گا۔

۲۸۵-یہاں ’’دین‘‘ سے مُراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اُوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے،  اور وہ پُورا نظامِ زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی و عملی نظام کسی پر زبر دستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے۔

۲۸۶-’’طاغوت‘‘ لغت کے اعتبار سے ہر اُس شخص کو کہا جائے گا، جو اپنی جائز حد سے تجاوز کر گیا ہو۔ قران کی اِصطلاح میں طاغوت سے مُراد وہ بندہ ہے،  جو بندگی کی حد سے تجاوز کر کے خود آقائی و خداوندی کا دم بھرے اور خدا کے بندوں سے اپنی بندگی کرائے۔ خدا کے مقابلے میں ایک بندے کی سرکشی کے تین مرتبے ہیں۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اُصُولاً اس کی فرماں برداری ہی کو حق مانے،  مگر عملاً اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اِس کا نام فِسق ہے۔ دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری سے اُصُولاً منحرف ہو کر یا تو خود مختار بن جائے یا اس کے سوا کسی اَور کی بندگی کرنے لگے۔ یہ کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ یہ ہے کہ وہ مالک سے باغی ہو کر اس کے مُلک اور اس کی رعیت میں خود اپنا حکم چلانے لگے۔ اس آخری مرتبے پر جو بندہ پہنچ جائے،  اسی کا نام طاغوت ہے اور کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کا مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اس طاغوت کا منکر نہ ہو۔

۲۸۷-تاریکیوں سے مُراد جہالت کی تاریکیاں ہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دُور نِکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صَرف کرنے لگتا ہے۔ اور نُور سے مُراد علمِ حق ہے،  جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر اعلیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے۔

۲۸۸-’’طاغُوت‘‘ یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے،  یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے،  جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دُوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے،  جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اور بے شمار طاغوت باہر کی دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بیوی اور بچّے،  اعزّہ اور اقربا،  برادری اور خاندان،  دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقا ؤ ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔

 

۲۸۹۔کیا تم نے اس شخص کے حال پر غور نہیں کیا،  جس نے ابراہیمؑ  سے جھگڑا کیا تھا؟ ۲۹۰ جھگڑا اس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے،  اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی۔۲۹۱ جب ابراہیمؑ  نے کہا کہ ’’میرا رب وہ ہے،  جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، ‘‘ تو اس نے جواب دیا:’’زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے۔‘‘ ابراہیمؑ  نے کہا :’’ اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے،  تو ذرا اسے مغرب سے نکال لا۔‘‘ یہ سن کر وہ منکر ِ حق ششدر رہ گیا،۲۹۲ مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا۔ یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو د یکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتیوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔۲۹۳ اس نے کہا:’’یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے،  اسے اللہ کس طرح دو بارہ زندگی بخشے گا؟‘‘۲۹۴ اس پر اللہ نے اس کی رُوح قبض کر لی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا:’’بتاؤ،  کتنی مدّت پڑے رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا:’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا۔‘‘ فرمایا:’’تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیّر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو(کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے )۔ اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں ۲۹۵۔پھر دیکھو کے ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔‘‘ اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایا ں ہو گئی،  تو اس نے کہا ’’میں جانتا ہو ں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے،  جب ابراہیمؑ  نے کہا تھا کہ’’ میرے مالک ! مجھے دکھا دے تُو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ ایمان تو رکھتا ہوں،  مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔‘‘۲۹۶ فرمایا:’’ اچھا،  تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار،  وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لو کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے۔‘‘۲۹۷ ؏۳۵

 

۲۸۹-اُوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اُسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے،  جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہو گیا۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی، اس لیے وضوحِ حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا، سو اللہ ان کی تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردۂ غیب میں چھُپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا۔

۲۹۰-اس شخص سے مُراد نمرُود ہے،  جو حضرت ابراہیمؑ  کے وطن(عراق) کا بادشاہ تھا۔ جس واقعے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے،  اس کی طرف کوئی اشارہ بائیبل میں نہیں ہے۔ مگر تَلْموُد میں یہ پُورا واقعہ موجود ہے اور بڑی حد تک قرآن کے مطابق ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ  کا باپ نمرُود کے ہاں سلطنت کے سب سے بڑے عہدے دار (Chief Officer Of The State ) کا منصب رکھتا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ نے جب کھُلم کھُلا شرک کی مخالفت اور توحید کی تبلیغ شرُوع کی اور بُت خانے میں گھُس کر بُتوں کو توڑ ڈالا، تو اُن کے باپ نے خود ان کا مقدمہ بادشاہ کے دربار میں پیش کیا اور پھر وہ گفتگو ہُوئی،  جو یہاں بیان کی گئی ہے۔

۲۹۱-یعنی اس جھگڑنے میں جو بات مابِہ النّزاع تھی، وہ یہ تھی کہ ابراہیمؑ  اپنا ربّ کس کو مانتے ہیں۔ اور یہ نزاع اس وجہ سے پیدا ہوئی تھی کہ اُس جھگڑنے والے شخص، یعنی نمرود کو خدا نے حکومت عطا کر رکھی تھی۔ اِن دو فقروں میں جھگڑے کی نوعیّت کی طرف جو اشارہ کیا گیا ہے،  اس کو سمجھنے کے لیے حسبِ ذیل حقیقتوں پر نگاہ رہنی ضروری ہے :

(۱) قدیم ترین زمانے سے آج تک تمام مشرک سوسائیٹیوں کی یہ مشترک خصُوصیّت رہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ربّ الارباب اور خدائے خدائیگان کی حیثیت سے تو مانتے ہیں، مگر صرف اسی کو ربّ اور تنہا اُسی کو خدا اور معبُود نہیں مانتے۔

(۲)خدائی کو مشرکین نے ہمیشہ دو حصّوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک فوق الفطری (Supernatural ) خدائی، جو سلسلۂ  اسباب پر حکمراں ہے اور جس کی طرف انسان اپنی حاجات اور مشکلات میں دستگیری کے لیے رُجوع کرتا ہے۔ اس خدائی میں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اَرواح اور فرشتوں اور جِنوں اور سیّاروں اور دُوسری بہت سی ہستیوں کو شریک ٹھیراتے ہیں،  ان سے دُعائیں مانگتے ہیں، ان کے سامنے مراسِم پرستش بجا لاتے ہیں، اور ان کے آستانوں پر نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ دوسری تمدّنی اور سیاسی معاملات کی خدائی( یعنی حاکمیّت)، جو قوانینِ حیات مقرر کر نے کی مجاز اور اطاعتِ امر کی مستحق ہو، اور جسے دُنیوی معاملات میں فرماں روائی کے مطلق اختیارات حاصل ہوں۔ اِس دُوسری قسم کی خدائی کو دُنیا کے تمام مشرکین نے قریب قریب ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ سے سلب کر کے،  یا اس کے ساتھ، شاہی خاندانوں اور مذہبی اور سوسائیٹی کے اگلے پچھلے بڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اکثر شاہی خاندان اِسی دُوسرے معنی میں خدائی کے مدّعی ہوئے ہیں،  اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اُنہوں نے بالعموم پہلے معنی والے خدا ؤ ں کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے،  اور مذہبی طبقے اس معاملے میں ان کے ساتھ شریک ِ سازش رہے ہیں۔

(۳) نمرود کا دعوائے خدائی بھی اسی دُوسری قسم کا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہ تھا۔ اس کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ زمین و آسمان کا خالق اور کائنات کا مدبّر وہ خود ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں تھا کہ اسبابِ عالم کے پُورے سلسلے پر اسی کی حکومت چل رہی ہے۔ بلکہ اسے دعویٰ اس امر کا تھا کہ اِس ملکِ عراق کا اور اس کے باشندوں کا حاکمِ مطلق مَیں ہوں، میری زبان قانون ہے،  میرے اوپر کوئی بالاتر اقتدار نہیں ہے جس کے سامنے میں جواب دہ ہوں، اور عراق کا ہر وہ باشندہ باغی و غدّار ہے جو اس حیثیت سے مجھے اپنا ربّ نہ مانے یا میرے سوا کسی اَور کو ربّ تسلیم کرے۔

(۴) ابراہیمؑ  نے جب کہا کہ میں صرف ایک ربّ العالمین ہی کو خدا اور معبُود اور ربّ مانتا ہوں، اور اس کے سوا سب کی خدائی اور ربوبیّت کا قطعی طور پر منکر ہوں، تو سوال صرف یہی پیدا نہیں ہوا کہ قومی مذہب اور مذہبی معبُودوں کے بارے میں ان کا یہ نیا عقیدہ کہاں تک قابلِ برداشت ہے،  بلکہ یہ سوال بھی اُٹھ کھڑا ہوا کہ قومی ریاست اور اس کے مرکزی اقتدار پر اس عقیدے کی جو زَد پڑتی ہے،  اُسے کیونکر نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ  جُرمِ بغاوت کے الزام میں نمرُود کے سامنے پیش کیے گئے۔

۲۹۲-اگرچہ حضرت ابراہیمؑ  کے پہلے فقرے ہی سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ربّ اللہ کے سوا کوئی دُوسرا نہیں ہو سکتا، تاہم نمرُود اس کا جواب ڈھٹائی سے دے گیا۔ لیکن دُوسرے فقرے کے بعد اس کے لیے مزید ڈھٹائی سے کچھ کہنا مشکل ہو گیا۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ آفتاب و ماہتاب اُسی خدا کے زیرِ فرمان ہیں، جس کو ابراہیمؑ  نے ربّ مانا ہے۔ پھر وہ کہتا، تو آخر کیا کہتا؟ مگر اس طرح جو حقیقت اس کے سامنے بے نقاب ہو رہی تھی،  اس کو تسلیم کر لینے کے معنی اپنی مطلق العنان فرماں روائی سے دست بردار ہو جانے کے تھے،  جس کے لیے اس کے نفس کا طاغوت تیار نہ تھا۔ لہٰذا وہ صرف ششدر ہی ہو کر رہ گیا، خود پرستی کی تاریکی سے نِکل کر حق پرستی کی روشنی میں نہ آیا۔ اگر اس طاغوت کے بجائے اس نے خدا کو اپنا ولی و مددگار بنایا ہوتا،  تو اس کے لیے حضرت ابراہیمؑ  کی اس تبلیغ کے بعد راہِ راست کھُل جاتی۔

تلموُد کا بیان ہے کہ اس کے بعد اس بادشاہ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ  قید کر دیے گئے۔ دس روز تک وہ جیل میں رہے۔ پھر بادشاہ کی کونسل نے اُن کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا اور ان کے آگ میں پھینکے جانے کا وہ واقعہ پیش آیا، جو سُورہ انبیاء،  رکوع ۵، العنکبوت، رکوع ۲-۳، اور الصافّات، رکوع ۴ میں بیان ہوا ہے۔

۲۹۳-یہ ایک غیر ضروری بحث ہے کہ وہ شخص کون تھا اور وہ بستی کون سی تھی۔ اصل مدّعا جس کے لیے یہاں یہ ذکر لایا گیا ہے،  صرف یہ بتانا ہے کہ جس نے اللہ کو اپنا ولی بنایا تھا، اُسے اللہ نے کس طرح روشنی عطا کی۔ شخص اور مقام، دونوں کی تعیّن کا نہ ہمارے پاس کوئی ذریعہ، نہ اس کا کوئی فائدہ۔ البتہ بعد کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جن صاحب کا یہ ذکر ہے،  وہ ضرور کوئی نبی ہوں گے۔

۲۹۴-اس سوال کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بزرگ حیات بعد الموت کے منکر تھے یا انھیں اس میں شک تھا، بلکہ دراصل وہ حقیقت کا عینی مشاہدہ چاہتے تھے،  جیسا کہ انبیا کو کرایا جاتا رہا ہے۔

۲۹۵-ایک ایسے شخص کا زندہ پلٹ کر آنا جسے دُنیا سو (۱۰۰) برس پہلے مُردہ سمجھ چکی تھی،  خود اس کو اپنے ہم عصروں میں ایک جیتی جاگتی نشانی بنا دینے کے لیے کافی تھا۔

۲۹۶-یعنی وہ اطمینان،  جو مشاہدۂ عینی سے حاصل ہوتا ہے۔

۲۹۷-اس واقعے اور اُوپر کے واقعے کی بعض لوگوں نے عجیب عجیب تاویلیں کی ہیں لیکن انبیا علیہم السّلام کے ساتھ اللہ کا جو معاملہ ہے،  اُسے اگر اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے،  تو کسی کھینچ تان کی ضرورت پیش نہیں آ سکتی۔ عام اہلِ ایمان کو اِس زندگی میں جو خدمت انجام دینی ہے،  اس کے لیے تو محض ایمان بالغیب (بے دیکھے ماننا) کافی ہے۔ لیکن انبیا کو جو خدمت اللہ نے سپُرد کی تھی اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنی آنکھوں سے وہ حقیقتیں دیکھ لیتے جن پر ایمان لانے کی دعوت انہیں دُنیا کو دینی تھی۔ اُن کو دُنیا سے پُورے زور کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ تم لوگ تو قیاسات دَوڑاتے ہو، مگر ہم آنکھوں دیکھی بات کہہ رہے ہیں۔ تمہارے پاس گمان ہے اور ہمارے پاس علم ہے،  تم اندھے ہو اور ہم بینا ہیں۔ اِسی لیے انبیا کے سامنے فرشتے عیاناً آئے ہیں، ان کو آسمان و زمین کے نظامِ حکومت(ملکوت) کا مشاہدہ کرایا گیا ہے،  ان کو جنت اور دوزخ آنکھوں سے دکھائی گئی ہے،  اور بعث بعد الموت کا ان کے سامنے مظاہرہ کر کے دکھا یا گیا ہے۔ ایمان بالغیب کی منزل سے یہ حضرات منصب نبوّت پر مامور ہونے سے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں۔ نبی ہونے کے بعد ان کو ایمان بالشہادۃ کی نعمت دی جاتی ہے اور یہ نعمت اُنہی کے ساتھ مخصُوص ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم،  صفحہ نمبر ۳۳۰ و ۳۳۴)۔

 

۲۹۸ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، ۲۹۹ ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے،  جیسے ایک دانا بویا جائے اور اس کے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے،  افزونی عطا فرماتا ہے۔ وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی۔۳۰۰ جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے،  نہ دکھ دیتے ہیں،  ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔۳۰۱ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے،  جس کے پیچھے دکھ ہو۔ اللہ بے نیاز ہے اور برد باری اس کی صفت ۳۰۲ ہے۔اے ایمان لانے والو!اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو،  جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے،  نہ آخرت ۳۰۳ پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے،  جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئ اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔۳۰۴ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھا نا اللہ کا دستور نہیں ہے ۳۰۵۔بخلاف اس کے جو لوگ اپنے مال محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے دل کے پورے ثبات و قرار کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے،  جیسے کسی سطح مرتفع پر ایک باغ ہو۔ اگر زور کی بارش ہو جائے تو دوگنا پھل لائے،  اور اگر زور کی بارش نہ بھی ہو تو ایک ہلکی پھوار ہی اس کے لیے کافی ہو جائے۔۳۰۶ تم جو کچھ کرتے ہو،  سب اللہ کی نظر میں ہے۔کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہرا بھرا باغ ہو، نہروں سے سیراب، کھجوروں اور انگوروں اور ہر قسم کے پھلوں سے لدا ہوا ہو، اور وہ عین اس وقت ایک تیز بگولے کی زد میں آ کر جھلس جائے،  جبکہ وہ خود بوڑھا ہو اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہ ہوں؟۳۰۷ اس طرح اللہ اپنی باتیں تمہارے سامنے بیان کرتا ہے،  شاید کہ تم غور و فکر کرو۔ ؏۳٦

 

۲۹۸-اب پھر سلسلۂ کلام اسی مضمون کی طرف عود کرتا ہے،  جو رکوع ۳۲ میں چھیڑا گیا تھا۔ اس تقریر کی ابتدا میں اہل ِ ایمان کو دعوت دی گئی تھی کہ جس مقصدِ عظیم پر تم ایمان لائے ہو،  اس کی خاطر جان و مال کی قربانیاں برداشت کرو۔ مگر کوئی گروہ جب تک کہ اُس کا معاشی نقطۂ  نظر بالکل ہی تبدیل نہ ہو جائے،  اس بات پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ذاتی یا قومی اغراض سے بالاتر ہو کر محض ایک اعلیٰ درجے کے اخلاقی مقصد کی خاطر اپنا مال بے دریغ صَرف کرنے لگے۔ مادّہ پرست لوگ، جو پیسہ کمانے لیے جیتے ہوں اور پیسے پیسے پر جان دیتے ہوں اور جن کی نگاہ ہر وقت نفع و نقصان کی میزان ہی پر جمی رہتی ہو، کبھی اس قابل نہیں ہو سکتے کہ مقاصد عالیہ کے لیے کچھ کر سکیں۔ وہ بظاہر اخلاقی مقاصد کے لیے کچھ خرچ کرتے بھی ہیں، تو پہلے اپنی ذات یا اپنی برادری یا اپنی قوم کے مادی منافع کا حساب لگا لیتے ہیں۔ اِس ذہنیّت کے ساتھ اُس دین کی راہ پر انسان ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ دُنیوی فائدے اور نقصان سے بے پروا ہو کر محض اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے اپنا وقت، اپنی قوتیں اور اپنی کمائیاں خرچ کرو۔ ایسے مسلک کی پیروی کے لیے تو دُوسری ہی قسم کے اخلاقیات درکار ہیں۔ اس کے لیے نظر کی وسعت،  حوصلے کی فراخی، دل کی کشادگی اور سب سے بڑھ کر خالص خدا طلبی کی ضرورت ہے،  اور اجتماعی زندگی کے نظام میں ایسی تبدیلی کی ضرورت ہے کہ افراد کے اندر مادہ پرستانہ اخلاقیات کے بجائے یہ اخلاقی اوصاف نشو و نما پائیں۔ چنانچہ یہاں سے مسلسل تین رکوعوں تک اسی ذہنیّت کی تخلیق کے لیے ہدایات دی گئی ہیں۔

۲۹۹-مال کا خرچ خواہ اپنی ضروریات کی تکمیل میں ہو، یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں،  یا اپنے اعزّہ و اقربا کی خبر گیری میں،  یا محتاجوں کی اعانت میں،  یا رفاہِ عام کے کاموں میں، یا اشاعتِ دین اور جہاد کے مقاصد میں، بہرحال اگر وہ قانونِ الٰہی کے مطابق ہو اور خالص خدا کی رضا کے لیے ہو تو اس کا شمار اللہ ہی کی راہ میں ہو گا۔

۳۰۰-یعنی جس قدر خلوص اور جتنے گہرے جذبے کے ساتھ انسان اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، اتنا ہی اللہ کی طرف سے اس کا اجر زیادہ ہو گا۔ جو خدا ایک دانے میں اتنی برکت دیتا ہے کہ اس سے سات سو دانے اُگ سکتے ہیں، اس کے لیے کچھ مشکل نہیں کہ تمہاری خیرات کو بھی اسی طرح نشو و نما بخشے اور ایک روپے کے خرچ کو اتنی ترقی دے کہ اس کا اجر سات سو گونہ ہو کر تمہاری طرف پلٹے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اللہ کی دو صفات ارشاد فرمائی گئ ہیں۔ ایک یہ کہ وہ فراخ دست ہے،  اس کا ہاتھ تنگ نہیں ہے کہ تمہارا عمل فی الواقع جتنی ترقی اور جتنے اجر کا مستحق ہو، وہ نہ دے سکے۔ دوسرے یہ کہ وہ علیم ہے،  بے خبر نہیں ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اور جس جذبے سے کرتے ہو،  اس سے وہ ناواقف رہ جائے اور تمہارا اجر مارا جائے۔

۳۰۱-یعنی نہ تو اُن کے لیے اس بات کا کوئی خطرہ ہے کہ ان کا اجر ضائع ہو جائے گا اور نہ کبھی یہ نوبت آئے گی کہ وہ اپنے اس خرچ پر پشیمان ہوں۔

۳۰۲-اس ایک فقرے میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تمہاری خیرات کا حاجت مند نہیں ہے۔ دُوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ چونکہ خود بُرد بار ہے،  اس لیے اُسے پسند بھی وُہی لوگ ہیں،  جو چھچورے اور کم ظرف نہ ہوں، بلکہ فراخ حوصلہ اور بردبار ہوں۔ جو خدا تم پر زندگی کے اسباب و وسائل کا بے حساب فیضان کر رہا ہے اور تمہارے قصوروں کے باوجود تمہیں بار بار بخشتا ہے،  وہ ایسے لوگوں کو کیونکر پسند کر سکتا ہے،  جو کسی غریب کو ایک روٹی کھلا  دیں، تو احسان جَتا جَتا کر اس کی عزّتِ نفس کو خاک میں ملا دیں۔ اسی بنا پر حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو قیامت کے روز شرفِ ہمکلامی اور نظر عنایت سے محرُوم رکھے گا، جو اپنے عطیے پر احسان جَتاتا ہو۔

۳۰۳-اس کی ریاکاری خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خدا اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔ اُس کا محض لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرنا صریحاً یہ معنی رکھتا ہے کہ خلق ہی اس کی خدا ہے جس سے وہ اجر چاہتا ہے،  اللہ سے نہ اس کو اجر کی توقع ہے اور نہ اسے یقین ہے کہ ایک روز اعمال کا حساب ہو گا اور اجر عطا کیے جائیں گے۔

۳۰۴-اس تمثیل میں بارش سے مراد خیرات ہے۔ چٹان سے مراد اُس نیت اور اُس جذبے کی خرابی ہے،  جس کے ساتھ خیرات کی گئی ہے۔ مٹی کی ہلکی تہہ سے مراد نیکی کی وہ ظاہری شکل ہے،  جس کے نیچے نیت کی خرابی چھپی ہوئی ہے۔ اس توضیح کے بعد مثال اچھی طرح سمجھ میں آ سکتی ہے۔ بارش کا فطری اقتضا تو یہی ہے کہ اس سے روئیدگی ہو اور کھیتی نشو و نما پائے۔ لیکن جب روئیدگی قبول کرنے والی زمین محض برائے نام اُوپر ہی اُوپر ہو، اور اس اُوپری تہہ کے نیچے نِری پتھر کی ایک چٹان رکھی ہوئی ہو، تو بارش مفید ہونے کے بجائے اُلٹی مُضِر ہو گی۔ اسی طرح خیرات بھی اگرچہ بھلائیوں کو نشو و نما دینے کی قوت رکھتی ہے،  مگر اس کے نافع ہونے کے لیے حقیقی نیک نیتی شرط ہے۔ نیت نیک نہ ہو تو ابرِ کرم کا فیضان بجز اس کے کہ محض ضیاعِ مال ہے اَور کچھ نہیں۔

۳۰۵-یہاں’’ کافر‘‘ لفظ نا شکرے اور منکرِ نعمت کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمت کو اس کی راہ میں اس کی رضا کے لیے خرچ کرنے کے بجائے خلق کی خوشنودی کے لیے صرف کرتا ہے،  یا اگر خدا کی راہ میں کچھ مال دیتا بھی ہے،  تو اس کے ساتھ اذِیّت بھی دیتا ہے،  وہ دراصل ناشکرا اور اپنے خدا کا احسان فراموش ہے۔ اور جب کہ وہ خود ہی خدا کی رضا کا طالب نہیں ہے تو اللہ اس سے بے نیاز ہے کہ اسے خواہ مخواہ اپنی رضا کا راستہ دکھائے۔

۳۰۶-’’زور کی بارش‘‘ سے مراد وہ خیرات ہے،  جو انتہائی جذبۂ  خیر اور کمال درجے کی نیک نیتی کے ساتھ کی جائے۔اور ایک ہلکی پھوار سے مراد ایسی خیرات ہے،  جس کے اندر جذبۂ  خیر کی شدّت نہ ہو۔

۳۰۷-یعنی اگر تم یہ پسند کرتے کہ تمہاری عمر بھر کی کمائی ایک ایسے نازک موقع پر تباہ ہو جائے،  جبکہ تم اُس سے فائدہ اُٹھانے کے سب سے زیادہ محتاج ہو اور ازسرِ نو کما ئی کرنے کا موقع بھی باقی نہ رہا ہو، تو یہ بات تم کیسے پسند کر رہے ہو کہ دُنیا میں مدّت العمر کام کرنے کے بعد آخرت کی زندگی میں تم اِس طرح قدم رکھو کہ وہاں پہنچ کر یکایک تمہیں معلوم ہو کہ تمہارا پُورا کارنامۂ  حیات یہاں کوئی قیمت نہیں رکھتا، جو کچھ تم نے دُنیا کے لیے کماتا تھا، وہ دُنیا ہی میں رہ گیا، آخرت کے لیے کچھ کما کر لائے ہی نہیں کہ یہاں اُس کے پھل کھا سکو۔ وہاں تمہیں اس کا کوئی موقع نہ ملے گا کہ از سرِ نو اب آخرت کے لیے کمائی کرو۔ آخرت کے لیے کام کرنے کا جو کچھ بھی موقع ہے،  اِسی دُنیا میں ہے۔ یہاں اگر تم آخرت کی فکر کیے بغیر ساری عمر دُنیا ہی کی دھُن میں لگے رہے اور اپنی تمام قوتیں اور کوششیں دُنیوی فائدے تلاش کرنے ہی میں کھپاتے رہے،  تو آفتابِ زندگی کے غروب ہونے پر تمہاری حالت بعینہ اُس بڈھے کی طرح حسرت ناک ہو گی، جس کی عمر بھر کی کمائی اور جس کی زندگی کا سہارا ایک باغ تھا اور وہ باغ عین عالمِ پیری میں اُس وقت جل گیا، جبکہ نہ وہ خود نئے سرے سے باغ لگا سکتا ہے اور نہ اُس کی اولاد ہی اس قابل ہے کہ اس کی مدد کر سکے۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے،  اس میں سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے،  تو تم ہرگز اسے لینا گوارا نہ کرو گے اِلّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔تمہیں جان لینا چاہیے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے ۳۰۸۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے،  مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے۔ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے،  اور جس کو حکمت ملی،  اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔۳۰۹ اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں۔ تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہو اور جو نظر بھی مانی ہو،  اللہ کو اُس کا علم ہے،  اور ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔۳۱۰ اگر اپنے صدقات اعلانیہ دو، تو یہ بھی اچھا ہے،  لیکن اگر چھپا کر حاجت مندوں کودو، تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے۔۳۱۱ تمہاری بہت سی بُرائیاں اِس طرزِ عمل سے محو ہو جاتی ہیں۔۳۱۲ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو بہر حال اُس کی خبر ہے۔لوگوں کو ہدایت بخش دینے کی ذمّے داری تم پر نہیں ہے۔ ہدایت تو اللہ ہی جسے چاہتا ہے بخشتا ہے۔ اور خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے۔ آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو۔ تو جو کچھ مال تم خیرات کرو گے،  اس کا پُورا پُورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہو گی۔ ۳۱۳خاص طور پر مدد کے مستحق وہ تنگ دست لوگ ہیں جو اللہ کے کام میں ایسے گھِر گئے ہیں کہ اپنی ذاتی کسبِ معاش کے لیے زمین میں کوئی دَوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔ان کی خود داری دیکھ کرنا واقف آدمی گمان کرتا ہے کہ یہ خوش حال ہیں۔ تم ان کے چہروں سے ان کی اندرونی حالت پہچان سکتے ہو۔ مگر وہ ایسے لوگ نہیں ہیں کہ لوگوں کے پیچھے پڑ کر کچھ مانگیں۔ اُن کی اعانت میں جو کچھ مال تم خرچ کرو گے وہ اللہ سے پوشیدہ نہ رہے گا۔ ۳۱۴ ؏۳۷

 

۳۰۸-ظاہر ہے کہ جو خود اعلیٰ درجہ کی صفات سے متّصف ہو، وہ بُرے اوصاف رکھنے والوں کو پسند نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ خود فیاض ہے اور اپنی مخلوق پر ہر آن بخشش و عطا کے دریا بہا رہا ہے۔ کس طرح ممکن ہے کہ وہ تنگ نظر، کم حوصلہ اور پست اخلاق لوگوں سے محبت کرے۔

۳۰۹-حکمت سے مراد صحیح بصیرت اور صحیح قوّتِ فیصلہ ہے۔ یہاں اس ارشاد سے مقصود یہ بتانا ہے کہ جس شخص کے پاس حکمت کی دولت ہو گی، وہ ہرگز شیطان کی بتائی ہوئی راہ پر نہ چلے گا، بلکہ اُس راہِ کشادہ کو اختیار کرے گا جو اللہ نے دکھائی ہے۔ شیطان کے تنگ نظر مریدوں کی نگاہ میں یہ بڑی ہوشیاری اور عقل مندی ہے کہ آدمی اپنی دولت کو سنبھال سنبھال کر رکھے اور ہر وقت مزید کمائی کی فکر ہی میں لگا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے اللہ سے بصیرت کا نُور پایا ہے،  اُن کی نظر میں یہ عین بے وقوفی ہے۔ حکمت و دانائی اُن کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی جو کچھ کمائے،  اُسے اپنی متوسط ضروریات پوری کرنے کے بعد دل کھول کر بھلائی کے کاموں میں خرچ کرے۔ پہلا شخص ممکن ہے کہ دُنیا کی اس چند روزہ زندگی میں دُوسرے کی بہ نسبت بہت زیادہ خوشحال ہو، لیکن انسان کے لیے یہ دُنیا کی زندگی پُوری زندگی نہیں، بلکہ اصل زندگی کا ایک نہایت چھوٹا سا جُز ہے۔ اس چھوٹے سے جُز کی خوش حالی کے لیے جو شخص بڑی اور بے پایاں زندگی کی بدحالی مول لیتا ہے،  وہ حقیقت میں سخت بے وقوف ہے۔ عقل مند دراصل وہی ہے،  جس نے اس مختصر زندگی کی مہلت سے فائدہ اُٹھا کر تھوڑے سرمایے ہی سے اُس ہمیشگی کی زندگی میں اپنی خوشحالی کا بندوبست کر لیا۔

۳۱۰-خرچ خواہ راہِ خدا میں کیا ہو یا راہِ شیطان میں،  اور نذر خواہ اللہ کے لیے مانی ہو یا غیر اللہ کے لیے،  دونوں صُورتوں میں آدمی کی نیّت اور اس کے فعل سے اللہ خوب واقف ہے۔ جنہوں نے اُس کے لیے خرچ کیا ہو گا اور اس کی خاطر نذر مانی ہو گی، وہ اس کا اجر پائیں گے اور جن ظالموں نے شیطانی راہوں میں خرچ کیا ہو گا اور اللہ کو چھوڑ کر دُوسروں کے لیے نذر مانی ہوں گی اُن کو خدا کی سزا سے بچانے کے لیے کوئی مددگار نہ ملے گا۔

نذر یہ ہے کہ آدمی اپنی کسی مُراد کے بر آنے پر کسی ایسے خرچ یا کسی ایسی خدمت کو اپنے اُوپر لازم کر لے،  جو اس کے ذمّے فرض نہ ہو۔ اگر یہ مراد کسی حلال و جائز امر کی ہو، اور اللہ سے مانگی گئی ہو، اور اس کے بر آنے پر جو عمل کرنے کا عہد آدمی نے کیا ہے،  وہ اللہ ہی کے لیے ہو، تو ایسی نذر اللہ کی اطاعت میں ہے اور اس کا پورا کرنا اجر و ثواب کا موجب ہے۔ اگر یہ صُورت نہ ہو،  تو ایسی نذر کا ماننا معصیت اور اس کا پُورا کرنا مُوجبِ عذاب ہے۔

۳۱۱-جو صدقہ فرض ہو، اس کو عَلانیہ دینا افضل ہے،  اور جو صدقہ فرض کے ماسوا ہو، اس کا اخفا زیادہ بہتر ہے۔ یہی اُصُول تمام اعمال کے لیے ہے کہ فرائض کا علانیہ انجام دینا افضلیت رکھتا ہے اور نوافل کو چھُپا کر کرنا اَولیٰ ہے۔

۳۱۲-یعنی چھُپا کر نیکیاں کرنے سے آدمی کے نفس و اخلاق کی مسلسل اصلاح ہوتی چلی جاتی ہے،  اس کے اَوصافِ حمیدہ خوب نشو و نما پاتے ہیں، اس کی بُری صفات رفتہ رفتہ مِٹ جاتی ہیں،  اور یہی چیز اس کو اللہ کے ہاں اتنا مقبُول بنا دیتی ہے کہ جو تھوڑے بہت گناہ اس کے نامۂ  اعمال میں ہوتے بھی ہیں انہیں اس کی خوبیوں پر نظر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے۔

۳۱۳-ابتدا میں مسلمان اپنے غیر مسلم رشتے داروں اور عام غیر مسلم اہلِ حاجت کی مدد کرنے میں تامّل کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ صرف مسلمان حاجت مندوں ہی کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اس آیت میں ان کی یہ غلط فہمی دُور کی گئی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے دلوں میں ہدایت اُتار دینے کی ذمّہ داری تم پر نہیں ہے۔ تم حق بات پہنچا کر اپنی ذمہ داری سے سُبک دوش ہو چکے۔ اب یہ اللہ کے اختیار میں ہے کہ ان کو بصیرت کا نُور عطا کرے یا نہ کرے۔ رہا دُنیوی مال و متاع سے اُن کی حاجتیں پُوری کرنا، تو اس میں تم محض اس وجہ سے تامّل نہ کرو کہ اُنہوں نے ہدایت قبول نہیں کی ہے۔ اللہ کی رضا کے لیے جس حاجت مند انسان کی بھی مدد کرو گے،  اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا۔

۳۱۴-اِس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اس قسم کے رضا کاروں کا مستقل گروہ تھا، جو تاریخ میں اصحابِ صُفّہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے،  جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آ گئے تھے۔ ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے۔ ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے۔ حضور جس مہم پر چاہتے انھیں بھیج دیتے تھے،  اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا، اس وقت یہ مدینے ہی میں رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے۔ چونکہ یہ لوگ پُورا وقت دینے والے کارکن تھے اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے،  اِ س لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجّہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے۔

 

جو لوگ اپنے مال شب و روز کھُلے اور چھُپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے ربّ کے پاس ہے اور اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔مگر جو لوگ سُود کھاتے ہیں،۳۱۵ اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے،  جسے شیطان نے چھُو کر باؤلا کر دیا ہو۔ ۳۱۶ اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں:’’تجارت بھی تو آخر سُود ہی جیسی ہے‘‘، ۳۱۷ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سُود کو حرام۔۳۱۸ لہٰذا جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سُود خوری سے باز آ جائے،  تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا،  اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ ۳۱۹ اور جو اس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے،  وہ جہنمی ہے،  جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ سُود کا مَٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے۔ ۳۲۰ اور اللہ کِسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۳۲۱۔ ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے ربّ کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔ ۳۲۲اے لوگو جو ایمان لائے ہو،  خُدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سُود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے،  اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا،  تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اُس کے رسول ؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ۳۲۳ ہے۔ اب بھی توبہ کر لو (اور سُود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو،  نہ تم پر ظلم کیا جائے۔تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھُلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صد قہ کر دو،  تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے،  اگر تم سمجھو ۳۲۴۔اس دن کی رسوائی و مصیبت سے بچو، جبکہ تم اللہ کی طرف واپس ہو گے،  وہاں ہر شخص کو اس کی کمائی ہوئی نیکی یا بدی کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا اور کسی پر ظلم ہر گز نہ ہو گا۔ ؏۳۸
 

۳۱۵-اصل میں لفظ ’’رِبٰوا‘‘ استعمال ہوا ہے،  جس کے معنی عربی میں زیادتی اور اضافے کے ہیں۔ اِصطلاحاً اہلِ عرب اِس لفظ کو اُس زائد رقم کے لیے استعمال کرتے تھے جو ایک قرض خواہ اپنے قرض دار سے ایک طے شدہ شرح کے مطابق اصل کے علاوہ وُصُول کرتا ہے۔ اِسی کو ہماری زبان میں سُود کہتے ہیں۔ نزُولِ قرآن کے وقت سُودی معاملات کی اور شکلیں رائج تھیں اور جنہیں اہلِ عرب ’’رِبٰوا‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے وہ یہ تھیں کہ مثلاً دُوسرے شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک مدّت مقرر کر دیتا۔ اگر وہ مدّت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی،  تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔ یا مثلاً ایک شخص دُوسرے شخص کو قرض دیتا اور اس سے طے کر لیتا کہ اتنی مدّت میں اتنی رقم اصل سے زائد ادا کرنی ہو گی۔ یا مثلاً قرض خواہ اور قرض دار کے درمیان ایک خاص مدّت کے لیے ایک شرح طے ہو جاتی تھی اور اگر اس مدّت میں اصل رقم مع اضافہ کے ادا نہ ہوتی،  تو مزید مہلت پہلے سے زائد شرح پر دی جاتی تھی۔ اِسی نوعیت کے معاملات کا حکم یہاں بیان کیا جا رہا ہے۔

۳۱۶-اہلِ عرب دیوانے آدمی کو ’’مجنُون‘‘ (یعنی آسیب زدہ) کے لفظ سے تعبیر کرتے تھے،  اور جب کسی شخص کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ وہ پاگل ہو گیا ہے،  تو یُوں کہتے کے اسے جِن لگ گیا ہے۔ اسی محاورہ کو استعمال کرتے ہوئے قرآن سُود خوار کو اُس شخص سے تشبیہ دیتا ہے جو مخبُوط الحواس ہو گیا ہو۔ یعنی جس طرح وہ شخص عقل سے خارج ہو کر غیر معتدل حرکات کرنے لگتا ہے،  اسی طرح سُود خوار بھی روپے کے پیچھے دیوانہ ہو جاتا ہے اور اپنی خود غرضی کے جنُون میں کچھ پروا نہیں کر تا کہ اس کی سُود خواری سے کس کس طرح انسانی محبت، اخُوّت اور ہمدردی کی جڑیں کٹ رہی ہیں، اجتماعی فلاح و بہبُود پر کس قدر تباہ کُن اثر پڑ رہا ہے،  اور کتنے لوگوں کی بدحالی سے وہ اپنی خوشحالی کا سامان کر رہا ہے۔ یہ اس کی دیوانگی کا حال اِس دُنیا میں ہے۔ اور چونکہ آخرت میں انسان اُسی حالت میں اُٹھایا جائے گا جس حالت پر اُس نے دنیا میں جان دی ہے،  اِس لیے سُود خوار آدمی قیامت کے روز ایک باؤلے،  مخبوط الحواس انسان کی صُورت میں اُٹھے گا۔

۳۱۷-یعنی ان کے نظریّے کی خرابی یہ ہے کہ تجارت میں اصل لاگت پر جو منافع لیا جاتا ہے،  اس کی نوعیت اور سُود کی نوعیت کا فرق وہ نہیں سمجھتے،  اور دونوں کو ایک ہی قسم کی چیز سمجھ کر یُوں استدلال کرتے ہیں کہ جب تجارت میں لگے ہُوئے روپے کا منافع جائز ہے،  تو قرض پر دیے ہوئے روپے کا منافع کیوں ناجائز ہو۔ اِسی طرح کے دلائل موجودہ زمانے کو سُود خوار بھی سُود کے حق میں پیش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جس روپے سے خود فائدہ اُٹھا سکتا تھا، اُسے وہ قرض پر دُوسرے شخص کے حوالہ کرتا ہے۔ وہ دُوسرا شخص بھی بہرحال اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ قرض دینے والے کے روپے سے جو فائدہ اُٹھا رہا ہے،  اس میں سے ایک حصّہ وہ قرض دینے والے کو نہ ادا کرے ؟ مگر یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ دُنیا میں جتنے کاروبار ہیں، خواہ وہ تجارت کے ہوں یا صنعت و حرف کے یا  زراعت کے،  اور خواہ انھیں آدمی صرف اپنی محنت سے کرتا ہو یا اپنے سرمایے اور محنت ہر دو سے،  اُن میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے،  جس میں آدمی نقصان کا خطرہ(Risk ) مول نہ لیتا ہو اور جس میں آدمی کے لیے لازماً ایک مقرر منافع کی ضمانت ہو۔ پھر آخر پوری کاروباری دُنیا میں ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی کیوں ہو جو نقصان کے خطرے سے بچ کر ایک مقرر اور لازمی منافع کا حق دار قرار پائے ؟ غیر نفع بخش اغراض کے لیے قرض لینے والے کا معاملہ تھوڑی دیر کے لیے چھوڑ دیجیے،  اور شرح کی کمی بیشی کے مسئلے سے بھی قطع نظر کر لیجیے۔ معاملہ اُسی قرض کا سہی جو نفع بخش کاموں میں لگانے کے لیے لیا جائے،  اور شرح بھی تھوڑی ہی سہی۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ ایک کاروبار میں اپنا وقت،  اپنی قابلیت اور اپنا سرمایہ رات دن کھپا رہے ہیں،  اور جن کی سعی اور کوشش کے بل پر ہی اس کاروبار کا بار آور ہونا موقوف ہے،  ان کے لیے تو ایک مقرر منافع کی ضمانت نہ ہو، بلکہ نقصان کا سارا خطرہ بالکل اُنہی کے سر ہو، مگر جس نے صرف اپنا روپیہ انھیں قرض دے دیا ہو وہ بے خطر ایک طے شُدہ منافع وُصول کرتا چلا جائے ! یہ آخر کس عقل، کس منطق، کس اُصُولِ انصاف اور کس اُصُولِ معاشیات کی رُو سے درست ہے ؟ اور یہ کس بنا پر صحیح ہے کہ ایک شخص ایک کارخانے کو بیس سال کے لیے ایک رقم قرض دے اور آج ہی یہ طے کر لے کہ آئندہ ۲۰ سال تک وہ برابر ۵ فیصدی سالانہ کے حساب سے اپنا منافع لینے کا حق دار ہو گا، حالانکہ وہ کارخانہ جو مال تیار کرتا ہے اس کے متعلق کسی کو بھی نہیں معلوم کہ مارکیٹ میں اس کی قیمتوں کے اندر آئندہ بیس سال میں کتنا اُتار چڑھا ؤ ہو گا؟ اور یہ کس طرح درست ہے کہ ایک قوم کے سارے ہی طبقے ایک لڑائی میں خطرات اور نقصانات اور قربانیاں برداشت کریں، مگر ساری قوم کے اندر سے صرف ایک قرض دینے والا سرمایہ دار ہی ایسا ہو جو اپنے دیے ہوئے جنگی قرض پر اپنی ہی قوم سے لڑائی کے ایک ایک صدی بعد تک سُود وُصول کرتا رہے ؟

۳۱۸-تجارت اور سُود کا اُصُولی فرق،  جس کی بنا پر دونوں کی معاشی اور اخلاقی حیثیت ایک نہیں ہو سکتی، یہ ہے ׃

(١) تجارت میں بائع اور مشتری کے درمیان منافع کا مساویانہ تبادلہ ہوتا ہے،  کیونکہ مشتری اس چیز سے نفع اُٹھاتا ہے جو اُس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اُس محنت،  ذہانت اور وقت کی اُجرت لیتا ہے،  جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیّا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سُودی لین دین میں منافع کا تبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سُود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے،  جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے،  لیکن اس کے مقابلے میں سُود دینے والے کو صرف مہلت ملتی ہے،  جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر اس نے سرمایہ اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے لیے لیا ہے تب تو ظاہر ہے کہ مُہلت اس کے لیے قطعی نافع نہیں ہے۔ اور اگر وہ تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کے لیے سرمایہ لیتا ہے تب بھی مُہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اُسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دُوسرے کے نقصان پر ہوتا ہے،  یا ایک یقینی اور متعین فائدے اور دُوسرے کے غیر یقینی اور غیر متعین فائدے پر۔

(۲) تجارت میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زائد منافع لے،  بہرحال وہ جو کچھ لیتا ہے،  ایک ہی بار لیتا ہے۔ لیکن سُود کے معاملے میں مال دینے والا اپنے مال پر مسلسل منافع وُصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اُس کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہو، بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہو گا۔ مگر دائن اس فائدے کے بدلے میں جو نفع اُٹھاتا ہے،  اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ مدیون کی پُوری کمائی، اس کے تمام وسائل ِ معیشت،  حتّیٰ کہ اس کے تن کے کپڑے اور گھر کے برتن تک ہضم کر لے اور پھر بھی اس کا مطالبہ باقی رہ جائے۔

(۳) تجارت میں شے اور اس کی قیمت کا تبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے،  اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوتی۔ مکان یا زمین یا سامان کے کرایے میں اصل شے،  جس کے استعمال کا معاوضہ دیا جاتا ہے،  صَرف نہیں ہوتی، بلکہ برقرار رہتی ہے اور بجنسہ کرایہ دار کو واپس دے دی جاتی ہے۔ لیکن سُود کے معاملہ میں قرض دار سرمایہ کو صَرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ مال دوبارہ پیدا کر کے اضافے کے ساتھ واپس دینا ہوتا ہے۔

(۴) تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت، ذہانت اور وقت صرف کر کے اس کا فائدہ لیتا ہے۔ مگر سُودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت کے دُوسروں کی کمائی میں شریکِ غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اِصطلاحی ’’ شریک‘‘ کی نہیں ہوتی جو نفع اور نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے،  اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے،  بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظِ تناسب نفع اپنے طے شدہ منافع کا دعوے دار ہوتا ہے۔

ان وجوہ سے تجارت کی معاشی حیثیت اور سُود کی معاشی حیثیت میں اتنا عظیم الشان فرق ہو جاتا ہے کہ تجارت انسانی تمدّن کی تعمیر کرنے والی قوت بن جاتی ہے اور اس کے برعکس سُود اس کی تخریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔ پھر اخلاقی حیثیت سے یہ سُود کی عین فطرت ہے کہ وہ افراد میں بخل،  خود غرضی،  شقاوت،  بے رحمی اور زر پرستی کی صفات پیدا کرتا ہے،  اور ہمدردی و امداد باہمی کی رُوح کو فنا کر دیتا ہے۔ اس بنا پر سُود معاشی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے نوع انسانی کے لیے تباہ کن ہے۔

۳۱۹-یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ اس نے کھا لیا، اسے اللہ معاف کر دے گا، بلکہ ارشاد یہ ہو رہا ہے کہ اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’جو کھا چکا سو کھا چکا‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو کھا چکا، اسے معاف کر دیا گیا، بلکہ اس سے محض قانونی رعایت مراد ہے۔ یعنی جو سود پہلے کھایا جا چکا ہے،  اسے واپس دینے کا قانوناً مطالبہ نہیں کیا جائے گا،  کیونکہ اگر اس کا مطالبہ کیا جائے تو مقدمات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جو کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ مگر اخلاقی حیثیت سے اُس مال کی نجاست بدستور باقی رہے گی جو کسی نے سُودی کاروبار سے سمیٹا ہو۔ اگر وہ حقیقت میں خدا سے ڈرنے والا ہو گا اور اس کا معاشی و اخلاقی نقطۂ نظر واقعی اسلام قبول کرنے سے تبدیل ہو چکا ہو گا،  تو وہ خود اپنی اس دولت کو،  جو حرام ذرائع سے آئی تھی، اپنی ذات پر خرچ کرنے سے پرہیز کرے گا اور کوشش کرے گا کہ جہاں تک ان حق داروں کا پتہ چلایا جا سکتا ہے،  جن کا مال اس کے پاس ہے،  اس حد تک ان کا مال ان کو واپس کر دیا جائے۔ یہی عمل اسے خدا کی سزا سے بچا سکے گا۔ رہا وہ شخص جو پہلے کمائے ہوئے مال سے بدستور لُطف اُٹھاتا رہے تو بعید نہیں کہ وہ اپنی اس حرام خوری کی سزا پا کر رہے۔

۳۲۰-اِ س آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے،  جو اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سُود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے،  لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ سُود اخلاقی و رُوحانی اور معاشی و تمدّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزّل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے ) اخلاق و رُوحانیت اور تمدّن و معیشت ہر چیز کو نشو و نما نصیب ہوتا ہے۔

اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے دیکھیے،  تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سُود دراصل خود غرضی، بخل،  تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ اِنہی صفات کو انسان میں نشو و نما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیّاضی، ہمدردی،  فراخ دِلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموُ عے کو بدترین اور دُوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟

تمدّنی حیثیت سے دیکھیے،  تو بادنیٰ تامّل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آ جائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دُوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں،  کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے،  ایک آدمی کی حاجت مندی کو دُوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اُٹھائے،  اور مالدار طبقوں کا مفاد عامُة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے،  ایسی سوسائٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دُوسرے اسباب بھی اِس صورتِ حال کے لیے مددگار ہو جائیں، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دُوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں،  جس میں ہر شخص دُوسرے کی حاجت کے موقع پر فراخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے،  اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں،  ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت،  خیر خواہی اور دلچسپی نشو و نما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دُوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دُوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہو گی۔

اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطۂ  نظر سے سُودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبُور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس پر سُود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کُن ہے۔ دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدُوروں کا،  کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چُوس رہے ہوں۔ سود کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل، بلکہ بسا اوقات نا ممکن ہو جا تا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دُوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سُود دے چکنے پر بھی اصل رقم جُوں کی تُوں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصّہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پانے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دُوسرا لے اُڑے تو وہ کبھی دِل لگا کر محنت نہیں کر سکتے۔ پھر سُودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھُلا دیتی ہے،  اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے،  کہ ان کی صحتیں کبھی درُست نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح سُودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چُوس چُوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائشِ دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے،  اور مآلِ کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصّے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اُٹھتا اور گھُٹتا رہتا ہے،  اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔

رہا دُوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے،  تو اس پر ایک مقرر شرحِ سُود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں :

(١) جو کام رائج الوقت شرحِ سُود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں،  چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہا ؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے،  جو بازار کی شرحِ سُود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لا سکتے ہوں،  چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کا فائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔

(۲) جن کاموں کے لیے سُود پر سرمایہ ملتا ہے،  خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی،  ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے،  جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر میعاد،  مثلاً پانچ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اُوپر اُوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اِس کی ضمانت ہو نا تو درکنار،  کسی کاروبار میں سرے سے اِس بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا، نقصان کبھی نہ ہو گا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو، نقصان اور خطرے کے پہلوؤں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔

(۳) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرحِ منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے،  اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور بُرائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے،  اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہو جاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے،  تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اِس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے،  اور کبھی اگر دُوسرے اسباب سے کساد بازاری آ گئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کُن حد تک پہنچا دیتی ہے۔

سُود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مَس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی رُو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے۔

اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریقِ کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پُوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سُود قرض دیں، یا شرکت کے اُصُول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصّہ دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کر دیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے،  تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہو گا۔ اُس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت ِ مجموعی دولت کی پیداوار اُس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہو گی جس کے اندر سُود کا رواج ہو۔

۳۲۱-ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ،  جو ایک شخص کو ملتا ہے،  قرآن کے نقطۂ  نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے،  اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے،  تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بد عمل بھی۔

۳۲۲-اس رکوع میں اللہ تعالیٰ بار بار دو قسم کے کرداروں کو بالمقابل پیش کر رہا ہے۔ ایک کردار خود غرض، زر پرست، شائیلاک قسم کے انسان کا ہے،  جو خدا اور خلق دونوں کے حقوق سے بے پروا ہو کر روپیہ گننے اور گِن گِن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے اس کو بڑھانے اور اس کی بڑھوتری کا حساب لگانے میں منہمک ہو۔ دُوسرا کردار ایک خدا پرست، فیّاض اور ہمدرد انسان کا کردار ہے،  جو خدا اور خلقِ خدا دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہو، اپنی قوتِ بازو سے کما کر خود کھائے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔ پہلی قسم کا کردار خدا کو سخت نا پسند ہے۔ دنیا میں اس کردار پر کوئی صالح سوسائیٹی نہیں بن سکتی،  اور آخرت میں ایسے کردار کے لیے غم و اندوہ اور کلفت و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اللہ کو دُوسری قسم کا کردار پسند ہے،  اسی سے دُنیا میں صالح سوسائیٹی بنتی ہے اور وہی آخرت میں انسان کے لیے موجبِ فلاح ہے۔

۳۲۳-یہ آیت فتحِ مکّہ کے بعد نازل ہوئی اور مضمون کی مناسبت سے اِس سلسلہ ٴ کلام میں داخل کر دی گئی۔ اس سے پہلے اگرچہ سُود ایک ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا تھا مگر قانوناً اسے بند نہیں کیا گیا تھا۔ اس آیت کے نزول کے بعد اسلامی حکومت کے دائرے میں سُودی کاروبار ایک فوجداری جُرم بن گیا۔ عرب کے جو قبیلے سُود کھاتے تھے،  اُن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے عُمّال کے ذریعے سے آگاہ فرما دیا کہ اگر اب وہ اس لین دین سے باز نہ آئے،  تو ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔ نَجران کے عیسائیوں کو جب اسلامی حکومت کے تحت اندرونی خود مختاری دی گئی، تو معاہدے میں یہ تصریح کر دی گئی کہ اگر تم سُودی کاروبار کرو گے،  تو معاہدہ فسخ ہو جائے گا اور ہمارے اور تمہارے درمیان حالتِ جنگ قائم ہو جائے گی۔ آیت کے آخری الفاظ کی بنا پر ابن عباس،  حسن بصری، ابن سیرین اور ربیع بن انس کی رائے یہ ہے کہ جو شخص دار الاسلام میں سُود کھائے اسے توبہ پر مجبور کیا جائے اور اگر باز نہ آئے،  تو اسے قتل کر دیا جائے۔ دُوسرے فقہا کی رائے میں ایسے شخص کو قید کر دینا کافی ہے۔ جب تک وہ سُود خوری چھوڑ دینے کا عہد نہ کرے،  اسے نہ چھوڑا جائے۔

۳۲۴-اسی آیت سے شریعت میں یہ حکم نکالا گیا ہے کہ جو شخص ادائے قرض سے عاجز ہو گیا ہو،  اسلامی عدالت اس کے قرض خواہوں کو مجبور کرے گی کہ اُسے مہلت دیں، اور بعض حالات میں وہ پورا قرض یا قرض کا ایک حصّہ معاف بھی کرانے کی مجاز ہو گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے کاروبار میں گھاٹا آگیا اور اس پر قرضوں کا بار بہت چڑھ گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا۔ آپ نے لوگوں سے اپیل کی کہ اپنے اس بھائی کی مدد کرو۔ چنانچہ بہت سے لوگوں نے اس کو مالی امداد دی۔ مگر قرضے پھر بھی صاف نہ ہو سکے۔ تب آپ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ جو کچھ حاضر ہے،  بس وہی لے کر اسے چھوڑ دو، اس سے زیادہ تمہیں نہیں دلوایا جا سکتا۔ فقہا نے تصریح کی ہے کہ ایک شخص کے رہنے کا مکان، کھانے کے برتن، پہنے ّ کے کپڑے اور وہ آلات جن سے وہ اپنی روزی کماتا ہو، کسی حالت میں قرق نہیں کیے جا سکتے۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرّر مدت کے لیے تم آپس میں لین دین ۳۲۵ کرو،  تو اُسے لکھ لیا کرو۔فریقین ۳۲۶ کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اُسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)،  اور اُسے اللہ، اپنے ربّ سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، یا املا نہ کرا سکتا ہو، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں ۳۲۷ سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو۔ اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے،  تو دوسری اُسے یاد دلائے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔۳۲۸ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے،  تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا،  میعاد کی تعیین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے،  اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں،۳۲۹ مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔۳۳۰ ایسا کرو گے،  تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔ اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے،  رہن بالقبض پر معاملہ کرو۔۳۳۱ اگر تم میں سے کوئی شخص دُوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے،  تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے،  اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے ربّ سے ڈرے۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ۔۳۳۲ جو شہادت چھپاتا ہے،  اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ ؏۳۹

 

۳۲۵-اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ قرض کے معاملے میں مدّت کی تعیین ہونی چاہیے۔

۳۲۶-عموماً دوستوں اور عزیزوں کے درمیان قرض کے معاملات میں دستاویز لکھنے اور گواہیاں لینے کو معیوب اور بے اعتمادی کی دلیل خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اللہ کا ارشاد یہ ہے کہ قرض اور تجارتی قراردادوں کو تحریر میں لانا چاہیے اور اس پر شہادت ثبت کرا لینی چاہیے تا کہ لوگوں کے درمیان معاملات صاف رہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں،  جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں، مگر ان کی فریاد سُنی نہیں جاتی۔ ایک وہ شخص جس کی بیوی بد خلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دُوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے اس کا مال اس کے حوالے کر دے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔

۳۲۷-یعنی مسلمان مردوں میں سے،  اس سے معلوم ہوا کہ جہاں گواہ بنانا اختیاری فعل ہو وہاں مسلمان صرف مسلمانوں ہی کو اپنا گواہ بنائیں۔ البتہ ذمّیوں کے گواہ ذمّی بھی ہو سکتے ہیں۔

۳۲۸-مطلب یہ ہے کہ ہر کس و ناکس گواہ ہونے کے لیے موزوں نہیں ہے،  بلکہ ایسے لوگوں کو گواہ بنایا جائے جو اپنے اخلاق و دیانت کے لحاظ سے بالعموم لوگوں کے درمیان قابل اعتماد سمجھے جاتے ہوں۔

۳۲۹-مطلب یہ ہے کہ اگرچہ روز مرّہ کی خرید و فروخت میں بھی معاملۂ بیع کا تحریر میں آ جانا بہتر ہے،  جیسا کہ آج کل کیش میمو لکھنے کا طریقہ رائج ہے،  تاہم ایسا کرنا لازم نہیں ہے۔ اِسی طرح ہمسایہ تاجر ایک دُوسرے سے رات دن جو لین دین کرتے رہتے ہیں،  اس کو بھی اگر تحریر میں نہ لایا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

۳۳۰-اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو دستاویز لکھنے یا اس پر گواہ بننے کے لیے مجبُور نہ کیا جائے،  اور یہ بھی کہ کوئی فریق کا تب یا گواہ کو اس بنا پر نہ ستائے کہ وہ اس کے مفاد کے خلاف صحیح شہادت دیتا ہے۔

۳۳۱-یہ مطلب نہیں ہے کہ رہن کا معاملہ صرف سفر ہی میں ہو سکتا ہے،  بلکہ ایسی صورت چونکہ زیادہ تر سفر میں پیش آتی ہے،  اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ نیز معاملۂ رہن کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو، صرف اسی صورت میں رہن کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب محض دستاویز لکھنے پر کوئی قرض دینے کے لیے آمادہ نہ ہو، تو قرض کا طالب اپنی کوئی چیز رہن رکھ کر روپیہ لے لے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ اپنے پیرووں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے،  اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک شخص مال رکھتا ہو اور وہ ایک ضرورت مند آدمی کو اس کی کو ئی چیز رہن رکھے بغیر قرض نہ دے،  اس لیے قرآن نے قصداً اِس دوسری صورت کا ذکر نہیں کیا۔

اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رہن بالقبض کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی کا اطمینان ہو جائے۔ اسے اپنے دیے ہوئے مال کے معاوضے میں شے مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رہن لیے ہوئے مکان میں خود رہتا ہے یا اس کا کرایہ کھاتا ہے،  تو دراصل سود کھاتا ہے۔ قرض پر براہِ راست سُود لینے اور رہن لی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانے میں اُصُولاً کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی جانور رہن لیا گیا ہو تو اس کا دُودھ استعمال کیا جا سکتا ہے،  اور اس سے سواری و بار برداری کی خدمت لی جا سکتی ہے،  کیونکہ یہ دراصل اُس چارے کا معاوضہ ہے جو مرتہن اس جانور کو کھلاتا ہے۔

۳۳۲-شہادت دینے سے گریز کرنا، یا شہادت میں صحیح واقعات کے اظہار سے پرہیز کرنا، دونو ں پر ’’شہادت چھپانے ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے۔

 

۳۳۳ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے،  سب اللہ کاہے۔۳۳۴ تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھُپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا۔ ۳۳۵ پھر اسے اختیار ہے جسے چاہے،  معاف کر دے اور جسے چاہے،  سزا دے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔۳۳۶ رسُول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے۔ اور جو لوگ اِس رسُول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ‘‘ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے،  ہم نے حکم سُنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک!ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔’’۳۳۷ اللہ کسی متنفّس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمّہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔۳۳۸ ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے،  اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے،  اس کا وبال اسی پر ہے۔۳۳۹ (ایمان لانے والو! تم یوں دُعا کرو ) اے ہمارے ربّ ! ہم سے بھول چُوک میں جو قصور ہو جائیں،ان پر گرفت نہ کرنا۔ مالک ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال،  جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے۔۳۴۰ پروردگار! جس بار کو اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں ہے،  وہ ہم پر نہ رکھ۔۳۴۱ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تُو ہمارا مولیٰ ہے،  کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر۔۳۴۲ ؏۴۰

 

۳۳۳-یہ خاتمۂ  کلام ہے۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی اُن تمام اُصُولی اُمور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دینِ اسلام کی اساس قائم ہے۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہو گا۔

۳۳۴-یہ دین کی اوّلین بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مالکِ زمین و آسمان ہونا اور اُن تمام چیزوں کا جو آسمان و زمین میں ہیں، اللہ ہی کی مِلک ہونا، در اصل یہی وہ بنیادی حقیقت ہے جس کی بنا پر انسان کے لیے کوئی دوسرا طرزِ عمل اس کے سوا جائز نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ کے آگے سرِ اطاعت جھکا دے۔

۳۳۵-اس فقرے میں مزید دو باتیں ارشاد ہوئیں۔ ایک یہ کہ ہر انسان فرداً فرداً اللہ کے سامنے ذمّہ دار اور جواب دہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ جس پادشاہِ زمین و آسمان کے سامنے انسان جواب دہ ہے،  وہ غیب و شہادت کا علم رکھنے والا ہے،  حتیٰ کہ دلوں کے چھپے ہوئے ارادے اور خیالات تک اس سے پوشیدہ نہیں ہیں۔

۳۳۶-یہ اللہ کے اختیارِ مطلق کا بیان ہے۔ اُس کو کسی قانون نے باندھ نہیں رکھا ہے کہ اُس کے مطابق عمل کرنے پر وہ مجبور ہو، بلکہ وہ مالکِ مختار ہے۔ سزا دینے اور معاف کرنے کے کلّی اختیارات اس کو حاصل ہیں۔

۳۳۷-اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر کر کے اسلام کے عقائد اور اسلامی طرزِ عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اور اس کی کتابوں کو ماننا۔ اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے درمیان فرق کیا جائے ( یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے )۔ اور اس امر کو تسلیم کرنا کہ آخر کار ہمیں اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ یہ پانچ امور اسلام کے بنیادی عقائد ہیں۔ اِن عقائد کو قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم پہنچے،  اُسے وہ بسر و چشم قبول کرے،  اس کی اطاعت کرے،  اور اپنے حسنِ عمل پر غرّہ نہ کرے،  بلکہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہے۔

۳۳۸-یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہر گز نہ ہو گا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تُو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے مواخذہ کرے کہ تُو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا۔

۳۳۹-یہ اللہ کے قانونِ مجازات کا دُوسرا قاعدۂ کلیہ ہے۔ ہر آدمی انعام اُسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دُوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصُور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصُور میں دُوسرا پکڑا جائے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں۔ اور ایک دُوسرے شخص نے کسی بُرائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالمِ اوّل کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا بُرا، جو کچھ بھی پھل ہو گا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بھلائی یا جس بُرائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصّہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مِل جائے۔ مکافاتِ عمل کو ئی قابل انتقال چیز نہیں ہے۔

۳۴۰-یعنی ہمارے پیش روؤں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں،  جن زبردست ابتلا ؤ ں سے وہ گزرے،  جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا، اُن سے ہمیں بچا۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے،  اُسے سخت آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اور جب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دُعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے۔

۳۴۱-یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال،  جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پُورے اُتر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوتِ برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہَ حق سے ڈگمگا جائیں۔

۳۴۲-اس دُعا کی پوری رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں،  جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے،  اور صرف مکّہ ہی نہیں،  بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندۂ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے،  تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں ضمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے،  جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جا رہے تھے،  اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے،  جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے،  جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے،  اور دُوسری طرف اُس دُعا کی دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنیٰ نشان تک نہیں ہے۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے،  اور دُوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے،  جن سے یہ دُعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی۔