تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الصَّف

نام

چوتھی آیت کے فقرے یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفّاً سے ماخوذ ہے ۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ صف آیا ہے ۔ 

زمانۂ نزول

کسی معتبر روایت سے اس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غالباً جنگ احد کے متصل زمانے میں نازل ہوئی ہو گی، کیونکہ اس کے بین السطور میں جن حالات کی طرف اشارہ محسوس ہوتا ہے وہ اسی دور میں پائے جاتے تھے ۔ 

موضوع اور مضمون

اس کا موضوع ہے مسلمانوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے ، اور ان لوگوں کو بھی جو ایمان کا جھوٹا دعویٰ کر کے اسلام میں داخل ہو گئے تھے ، اور ان کو بھی جو مخلص تھے ۔ بعض آیات کا خطاب پہلے دونوں گروہوں سے ہے ، بعض میں صرف منافقین مخاطب ہیں ، اور بعض کا روئے سخن صرف مخلصین کی طرف ہے ۔ انداز کلام سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ کہاں کون مخاطب ہے ۔

آغاز میں تمام ایمان لانے والوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں وہ لوگ جو کہیں کچھ اور کریں کچھ، اور نہایت محبوب ہیں وہ لوگ جو راہ حق میں لڑنے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوں ۔

پھر آیت ۵ سے ۷ تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کی امت کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اپنے رسول اور اپنے دین کے ساتھ تمہاری روش وہ نہ ہونی چاہیے جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بنی اسرائیل نے اختیار کی۔حضرت  موسیٰ کو وہ خدا کا رسول جاننے کے باوجود جیتے جی تنگ کرتے رہے ، اور حضرت عیسیٰ سے کھلی کھلی نشانیاں دیکھ لینے کے باوجود وہ ان کو جھٹلانے سے باز نہ آئے۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس قوم کے مزاج کا سانچہ ہے ٹیڑھا ہو کر رہ گیا اور اس سے ہدایت کی توفیق سلب ہو گئے۔ یہ کوئی ایسی قابل رشک حالت  نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوم اس میں مبتلا ہونے کی تمنا کرے ۔

پھر آیت ۸۔۹ میں پوری تحدی کے ساتھ اعلان کیا گیا کہ یہود و نصاریٰ اور ان سے ساز باز رکھنے والے منافقین اللہ کے اس نور کو بجھانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لیں ، یہ پوری آپ و تاب کے ساتھ دنیا میں پھیل کر رہے گا اور مشرکین کو خواہ کتنا ہی ناگوار ہو، رسول بر حق کا لایا ہوا دین ہر دوسرے دین پر غالب آ کر رہے گا۔

اس کے بعد آیات ۱۰ سے ۱۳ میں اہل ایمان کو بتایا گیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کی راہ صرف ایک ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرو۔ آخرت  میں اس کا ثمرہ خدا کے عذاب سے نجات، گناہوں کی مغفرت، اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت کا حصول ہے ، اور دنیا میں اس کا انعام خدا کی تائید و نصرت اور فتح و ظفر ہے ۔

آخر میں اہل ایمان کو تلقین کی گئی ہے کہ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے اللہ کی راہ میں ان کا ساتھ دیا تھا اس طرح وہ بھی ’’ انصار اللہ‘‘ بنیں تاکہ کافروں کے مقابلہ میں ان کو بھی اسی طرح اللہ کی تائید حاصل ہو جس طرح پہلے ایمان لانے والوں کو حاصل ہوئی تھی۔

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں اور زمین میں ہے ، اور وہ غالب اور حکیم ہے (۱)۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو  ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسند دیدہ حرکت ہے کہ مت کہو ہو بات جو کرے نہیں (۲)۔ اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گو یا کہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں (۳)۔
اور یاد کرو موسی کی وہ بات جو اس نے اپنی قوم سے کہی تھی " اے میری قوم کے لوگو، تم کیوں مجھے اذیت دیتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں (۴) "  ؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دل ٹیڑھے کر دیئے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۵)
اور یاد کرو عیسی ابن مریم کی وہ بات جو اس نے کہی تھی کہ "اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہو ا رسول ہوں تصدیق کر نے والا ہوں اس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے ، (۷) اور بشارت دینے والا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا جس کا نام احمد (۸) ہو گا۔مگر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا تو انہوں نے کہا یہ صریح دھوکا ہے  (۹)۔ اب بھلا اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو گا جو اللہ پر جھوٹے  بہتان باندھے (۱۰) حالانکہ اسے اسلام  (اللہ کے آگے سر اطاعت جھکا دینے ) کی دعوت دی جا رہی ہو ؟ (۱۱) ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا نا چاہتے ہیں ، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو(۱۲)۔ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار رہو۔ (۱۳)۔

 

۱۔ یہ اس خطبہ کی مختصر تمہید ہے ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورۂ الحدید، حاشیہ ۱۔۲ کلام کا آغاز اس تمہید سے اس لیے کیا گیا ہے کہ آگے جو کچھ فرمایا جانے والا ہے اس کو سننے یا پڑھنے سے پہلے آدمی یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز اور اس سے بالاتر ہے کہ اس کی خدائی کا چلنا کسی کے ایمان اور کسی کی مدد اور قربانیوں پر موقوف ہو۔ وہ اگر ایمان لانے والوں کو ایمان میں خلوص اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ صداقت کا بول بالا کرنے کے لیے جان و مال سے جہاد کرو، تو یہ سب کچھ ان کے اپنے ہی بھلے کے لیے ہے ۔ ورنہ اس کے ارادے اس کے اپنے ہی زور اور اس کی اپنی ہی تدبیر سے پورے ہو کر رہتے ہیں ، خواہ کوئی بندہ ان کی تکمیل میں ذرہ برابر بھی سعی نہ کرے ، بلکہ ساری دنیا مل کر ان کی مزاحمت پر تل جائے ۔
۲۔ اس ارشاد کا ایک مدعا تو عام ہے جو اس کے الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ۔ اور ایک مدعا خاص ہے جو بعد والی آیت کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا۔ پہلا مدعا یہ ہے کہ ایک سچے مسلمان کے قول اور عمل میں مطابقت ہونی چاہئے ۔ جو کچھ کہے اسے کر کے دکھائے ، اور کرنے کی نیت یا ہمت نہ ہو تو زبان سے بھی نہ نکالے ۔ کہنا کچھ اور کرنا کچھ، یہ انسان کی ان بدترین صفات میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں نہایت مبغوض ہیں ، کجا کہ ایک ایسا شخص اس اخلاقی عیب میں مبتلا ہو جو اللہ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ کسی شخص میں اس صفت کا پایا جانا ان علامات میں سے ہے جو ظاہر کرتی ہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
ایٰۃ المنافق ثلاث (زادمسلم وان صام و صلی و زعم اہ مسلم) اذا حدث کذب و اذا وعد اخلف واذا أتمن خان (بخاری و مسلم)
منافق کی تین نشانیاں ہیں ۔ اگرچہ وہ نماز پڑھتا ہو روزہ رکھتا اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہو۔ یہ جب بولے جھوٹ بولے ، اور جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے ، اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ۔
ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشاد ہے :
اربع من کن فیہ کان منافقاخالصا ومن کانت فیہ خصلۃ منھم کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا، اذا اتمن خان واذاحدث کذب۔ واذا عاھد غدر، واذاخاصم فجر۔ (بخاری و مسلم)
چار صفتیں ایسی ہیں جس شخص میں وہ چاروں پائیں جائیں و خالص منافق ہے ، اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے ، جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے ۔ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے ، اور جب بولے تو جھوٹ بولے ، اور عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کر جائے ، اور لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالیں ۔
فقہ اسلام کا ایک بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ کوئی شخص اگر اللہ تعالیٰ سے کوئی عہد کرے (مثلاً کسی چیز کی نذر مانیں ) یا بندوں سے کوئی معاہدہ کرے یا کسی سے کوئی وعدہ کرے تو اسے وفا کرنا لازم ہے ، الا یہ کہ کام بجائے خود گناہ ہو جس کا اس نے عہد یا وعدہ کیا ہو۔ اور گناہ ہونے کی صورت میں وہ فعل تو نہیں کرنا چاہئے جس کا عہد یا وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کی پابندی سے آزاد ہونے کے لیے کفارہ یمین ادا کرنا چاہئے ، جو سورہ المائدہ آیت ۸۹ میں بیان کیا گیا ہے ۔(احکام القرآن الجصاص وابن عربی)
یہ تو ہے ان آیات کا مدعا۔ رہا وہ خاص مدعا جس کے لیے اس موقع پر یہ آیات ارشاد فرمائی گئی ہیں تو بعد والی آیت کو ان کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے ۔ مقصود ان لوگوں کو ملامت کرنا ہے جو اسلام کے لیے سرفروشی و جانبازی کے لمبے چوڑے وعدے کرتے تھے ، مگر جب آزمائش کا وقت آتا تھا تو بھاگ نکلتے تھے ۔ ضعیف الایمان لوگوں کی اس کمزوری پر قرآن مجید میں کئی جگہ گرفت کی گئی ہے ۔ مثلاً سورہ نساء آیت ۷۷ میں فرمایا ’’تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو ؟ اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا چاہئے ، یا اس سے بھی کچھ بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا، یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ دیا ؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی‘‘۔ اور سورہ محمدؐ آیت ۲۰ میں فرمایا ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ کہہ رہے تھے کہ کوئی صورت کیوں نہیں نازل کی جاتی (جس میں جنگ کا حکم دیا جائے ) مگر جب ایک محکم سورت نازل کی گئی جس میں جنگ کا ذکر تھا تو تم نے دیکھا کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی وہ تمہاری طرف اس طرف دیکھ رہے ہیں جیسے کسی پر موت چھا گئی ہو‘‘۔ جنگ احد کے موقع پر یہ کمزوریاں خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئیں جن کی طرف سورہ آل عمران میں ۱۳ ویں رکوع سے ۱۷ ویں رکوع تک اشارات کئے گئے ہیں ۔
مفسرین نے ان آیات کی شان نزول میں ان کمزوریوں کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جہاد فرض ہونے سے پہلے مسلمانوں میں کچھ لوگ تھے جو کہتے تھے کہ کاش میں ہمیں وہ عمل معلوم ہو جائے جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے تو ہم وہی کریں ۔ مگر جب بتایا گیا کہ وہ عمل ہے جہاد، تو ان پر اپنی اس بات کو پورا کرنا بہت شاق ہو گیا۔ مقاتِل بن حیّان کہتے ہیں کہ احد کی جنگ میں ان لوگوں کو آزمائش سے سابقہ پیش آیا اور یہ حضور کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ ابن زید کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ نبی ﷺ کو یقین دلاتے تھے کہ آپﷺ کو دشمنوں کے مقابلہ کے لیے نکلنا پڑے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ نکلیں گے ۔ مگر جب وقت آیا تو ان کے وعدے جھوٹے نکلے ۔ قتادہ اور ضحاک کہتے ہیں کہ بعض لوگ جنگ میں شریک ہوتے بھی تھے تو کوئی کارنامہ انجام نہ دیتے تھے مگر آ کر یہ ڈینگیں مارتے تھے کہ ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں مارا۔ ایسے ہی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے آیات میں ملامت کی ہے ۔

 ۳۔ اس سے اول تو معلوم یہ ہوا کہ اللہ کی خوشنودی سے وہی اہل ایمان سرفراز ہوتے ہیں جو اس کی راہ میں جان لڑانے اور خطرہ سہنے کے لیے تیار ہوں ۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اللہ کو جو فوج پسند ہے اس میں تین صفات پائی جانی چاہئے ۔ ایک یہ کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اللہ کی راہ میں لڑے اور کسی ایسی راہ میں نہ لڑے جو فی سبیل اللہ کی تعریف میں نہ آتی ہو۔ دوسری یہ کہ وہ بدنظمی و انتشار میں مبتلا نہ ہو بلکہ مضبوط تنظیم کے ساتھ صف بستہ ہو کر لڑے ۔ تیسری یہ کہ دشمنوں کے مقابلہ میں ا سکی کیفیت ’’سیسہ پلائی ہوئی دیوار ‘‘ کی سی ہو۔ پھر یہ آخری صفت بجائے خود اپنے اندر معنی کی ایک دنیا رکھتی ہے ۔ کوئی فوج اس وقت تک میدان جنگ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑی نہیں ہو سکتی جب تک اس میں حسب ذیل صفات پیدا نہ ہو جائیں :

عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے ۔
ایک دوسرے کے خلوص پر اعتماد جو کبھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا کہ سب فی الواقع اپنے مقصد میں مخلص اور ناپاک اغراض سے پاک ہوں ۔ ورنہ جنگ جیسی سخت آزمائش کسی کا کھوٹ چھپا رہنے نہیں دیتی اور اعتماد ختم ہو جائے تو فوج کے افراد ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے بجائے بلکہ الٹا ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں ۔

اخلاق کا ایک بلند معیار، جس سے اگر فوج کے افسر اور سپاہی نیچے گر جائیں تو ان کے دل میں نہ ایک دوسرے کی محبت پیدا ہو سکتی ہے نہ عزت، اور نہ وہ آپس میں متصادم ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔

اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور ایسے حاصل کرنے ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جانبازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے ۔

یہی تھیں وہ بنیادیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں ایک ایسی زبردست عسکری تنظیم اٹھی جس سے ٹکرا کر بڑی بڑی قوتیں پاش پاش ہو گئیں اور صدیوں تک دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے نہ تھیر سکی۔

۴۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کو اللہ کا نبی اور اپنا محسن جاننے کے باوجود کس کس طرح تنگ کیا اور کیسی کیسی بے وفائیاں ان کے ساتھ کیں ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۵۱۔ ۵۵۔ ۶۰۔ ۸۷ تا ۷۱۔ النساء، ۱۵۳۔ المائدہ، ۲۰ تا ۲۶۔ الاعراف ۱۳۸ تا ۱۴۱۔ ۱۴۸ تا ۱۵۱۔ طٰہٰ ۸۶ تا ۹۸۔بائیبل میں خود یہودیوں کی اپنی بیان کردہ تاریخ بھی اس قسم کے واقعات سے لبریز ہے ۔ صرف بطور نمونہ چند واقعات کے لیے دیکھیے خروج ۲۰:۵۔ ۲۱ ۱۱:۱۴۔ ۱۲۔ ۲:۱۶۔ ۳۔ ۳:۱۷۔ ۴۔ گنتی ۱:۱۱۔ ۱۵۔۱:۱۴۔ ۱۰۔۱۶ مکمل۔ ۱:۲۰۔ ۵ یہاں ان واقعات کی طرف اشارہ مسلمانوں کو خبردار کرنے کے لی کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے نبی کے ساتھ وہ روش اختیار نہ کریں جو بنی اسرائیل نے اپنے نبی کے ساتھ  اختیار کی تھی، ورنہ وہ اس انجام سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جس سے بنی اسرائیل دوچار ہوئے۔

۵۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ جو لوگ خود ٹیڑھی راہ چلنا چاہیں انہیں وہ خواہ مخواہ سیدھی راہ چلائے، اور جو لوگ اس کی نافرمانی پر تلے ہوئے ہوں ان کا زبردستی ہدایت سے سرفراز فرمائے۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو گئی کہ کسی شخص یا قوم کی گمراہی کا آغاز اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ خود اس شخص یا قوم کی طرف سے ہوتا ہے ، البتہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو گمراہی پسند کرے وہ اس کے لیے راست روی کے نہیں بلکہ گمراہی کے اسباب ہی فراہم کرتا رہے گا کہ جن جن راہوں میں وہ بھٹکنا چاہے بھٹکتا چلا جائے۔ اللہ نے تو انسان کو انتخاب کی آزادی (Freedom of Choice ) عطا فرما دی ہے ۔ اس کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہر انسان کا اور انسانوں کے ہر گروہ کا اپنا کام ہے کہ وہ اپنے رب کی اطاعت کرنا چاہتا ہے یا نہیں ، اور راہ راست پسند کرتا ہے یا ٹیڑھے راستوں میں سے کسی پر جانا چاہتا ہے ۔ اس انتخاب میں کوئی جبر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے ۔ اگر کوئی اطاعت اور ہدایت کی راہ منتخب کرے تو اللہ اسے جبراً گمراہی و نافرمانی کی طرف نہیں دھکیلتا، اور اگر کسی کا فیصلہ یہ ہو کہ اسے نافرمانی ہی کرنی ہے اور راہ راست اختیار نہیں کرنی تو اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ اسے مجبور کر کے طاعت و ہدایت کی راہ پر لائے۔ لیکن یہ بجائے خود ایک حقیقت ہے کہ جو شخص جس راستے کو بھی اپنے لیے منتخب کرے اس پر وہ عملاً ایک قدم بھی نہیں چل سکتا جب تک اللہ اس کے لیے وہ اسباب و ذرائع فراہم اور وہ حالات پیدا نہ کر دے جو اس پر چلنے کے یے درکار ہوتے ہیں ۔ یہی اللہ کی ہو ’’ توفیق‘‘ ہے جس پر انسان کی ہر سعی کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار ہے ۔ اب اگر کوئی شخص بھلائی کی توفیق سرے سے چاہتا ہی نہیں ، بلکہ الٹی برائی کی توفیق چاہتا ہے تو اس کو وہی ملتی ہے ۔ اور جب اسے برائی کی توفیق ملتی ہے تو اسی کے مطابق اس کی ذہنیت کا سانچا ٹیڑھا اور اس کی سعی و عمل کا راستہ کج ہوتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ اس کے اندر سے بھلائی کو قبول کرنے کی صلاحیت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ یہی معنی ہیں اس ارشاد کے کہ ’’ جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے بھی ان کے دل ٹیڑھے کر دیے ‘‘۔ اس حالت میں یہ بات اللہ کے قانون کے خلاف ہے کہ جو خود گمراہی چاہتا ہے اور گمراہی کی طلب ہی میں سر گرم ہے اور اسی میں آگے بڑھنے کی لیے اپنی ساری فکر و سعی صرف کر رہا ہے اسے جبراً ہدایت کی طرف موڑ دیا جائے، کیونکہ ایسا کرنا اس آزمائش اور امتحان کے منشا کو فوت کر دے گا جس کے لیے دنیا میں انسان کو انتخاب کی آزادی دی گئی ہے ، اور اس طرح کی ہدایت پاکر اگر آدمی سیدھا چلے تو کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اس پر وہ کسی اجر اور جزائے خیر کا مستحق ہو۔ بلکہ اس صورت میں تو جسے زبردستی ہدایت نہ ملی ہو اور اس بنا پر وہ گمراہی میں پڑا رہ گیا ہو وہ بھی کسی سزا کا مستحق نہیں ہونا چاہیے ، کیونکہ پھر تو اس کے گمراہ رہنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر آ جاتی ہے اور وہ آخرت میں باز پرس کے موقع پر یہ حجت پیش کر سکتا ہے کہ جب آپ کے ہاں زبردستی ہدایت دینے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے انکو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کا قاعدہ موجود تھا تو آپ نے مجھے اس عنایت سے کیوں محروم رکھا ؟ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ ’’ اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘۔ یعنی جن لوگوں نے اپنے لیے خود فسق و نافرمانی کی راہ انتخاب کر لی ہے ان کو وہ اطاعت و فرمانبرداری کی راہ پر چلنے کی توفیق نہیں دیا کرتا۔

۶۔ یہ بنی اسرائیل کی دوسری نافرمانی کا ذکر ہے ۔ ایک نافرمانی وہ تھی جو انہوں نے اپنے دور عروج کے آغاز میں کی۔ اور دوسری نافرمانی یہ ہے جو اس دور کے آخری اور قطعی اختتام پر انہوں نے کی جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان پر خدا کی پھٹکار پڑ گئی۔ مدعا ان دونوں واقعات کو بیان کرنے کا یہ ہے کہ مسلمانوں کو خدا کے رسول کے ساتھ بنی اسرائیل کا سا طر زِ عمل اختیار کرنے کے نتائج سے خبردار کیا جائے۔ 

۷۔ اس فقرے کے تین معنی ہیں اور تینوں صحیح ہیں :

ایک یہ کہ میں کوئی الگ اور نرالا دین نہیں لایا ہوں بلکہ وہی دین لایا ہوں جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے ۔ میں توراۃ کی تردید کرتا ہوا نہیں آیا ہوں بلکہ اس کی تصدیق کر رہا ہوں ، جس طرح ہمیشہ سے خدا کے رسول اپنے سے پہلے آئے ہوئے رسولوں کی تصدیق کرتے رہے ہیں ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تم میری رسالت کو تسلیم کرنے میں تامل کرو۔

دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں ان بشارتوں کا مصداق ہوں جو میری آمد کے متعلق توراۃ میں موجود ہیں ۔ لہٰذا بجائے اس کے کہ تم میری مخالفت کرو، تمہیں تو اس بات کا خیر مقدم کرنا چاہیے کہ جس کے آنے کی خبر پچھلے انبیاء نے دی تھی وہ آ گیا۔

اور اس فقرے کو بعد والے فقرے کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے تیسرے معنی یہ نکلتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول احمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی آمد کے متعلق توراۃ کی دی ہوئی بشارت کی تصدیق کرتا ہوں اور خود بھی ان کے آنے کی بشارت دیتا ہوں ۔  اس  تیسرے معنی کے لحاظ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس قول کا اشارہ اس بشارت کی طرف ہے جو رسول اللہ ﷺ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے دی تھی۔ اس میں وہ فرماتے ہیں :

"خداوند تیرا خدا تیرے لیے تیرے ہی درمیان سے ، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تم اس کی سننا۔ یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں سو ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔

(استثناء، باب۱۸۔ آیات ۱۵۔۱۹)

یہ توراۃ کی صریح پیشن گوئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی اور پر چسپاں نہیں ہو سکتی۔ اس میں حضرت موسیٰ اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سنا رہے ہیں کہ میں تیرے لیے تیرے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک قوم ’’ بھائیوں ‘‘ سے مراد خود اسی قوم کا کوئی قبیلہ یا خاندان نہیں ہو سکتا بلکہ کوئی دوسری ایسی قوم ہی ہو سکتی ہے جس کے ساتھ اس کا قریبی نسلی رشتہ وہ۔ اگر مراد خود بنی اسرائیل میں سے کسی بنی کی آمد ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے کہ تین تمہارے لیے خود تم ہی میں سے ایک نبی برپا کروں گا۔ لہٰذا بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد لا محالہ بنی اسماعیل ہپی ہو سکتے ہیں جو حضرت ابراہیم کی اولاد ہونے کی بنا پر ان کے نسبی رشتہ دار ہیں ۔ مزید براں اس پیشن گوئی کا مصداق بنی اسرائیل کاکوئی نبی اس وجہ سے بھی نہیں ہو سکتا کہ حضرت موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں کوئی ایک نبی انہیں ، بہت سارے نبی آئے ہیں جن کے ذکر ے بائیبل بھری پڑی ہے ۔

دوسری بات اس بشارت میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جو نبی برپا کیا جائے گا وہ حضرت موسیٰ کے مانند ہو گا۔ اس سے مراد ظاہر ہے کہ شکل صورت یا حالات زندگی میں مشابہ ہونا تو نہیں ہے ، کیونکہ اس لحاظ سے کوئی فرد بھی کسی دوسرے فرد کے مانند نہیں ہوا کرتا۔ اور اس سے مراد محض وصف نبوت میں مماثلت بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ وصف ان تمام انبیاء میں مشترک ہے جو حضرت موسیٰ کے بعد آئے ہیں ، اس لیے کسی ایک نبی کی یہخصوصیت نہیں ہو سکتی کہ وہ اس وصف میں ان کے مانند ہو۔ پس ان دونوں پہلوؤں سے مشابہت کے خارج از بحث ہو جانے کے بعد کوئی اور وجہ مماثلت، جس کی بنا پر آنے والے ایک نبی کی تخصیص قابل رحم ہو، اس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ وہ نبی ایک مستقل شریعت لانے کے اعتبار سے حضرت موسیٰ کے مانند ہو۔ اور یہ خصوصیت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ آپ سے پہلے بنی اسرائیل میں جو نبی بھی آئے تھے وہ شریعت موسوی کے پیرو تھے ، ان میں سے کوئی بھی ایک مستقل شریعت لے کر نہ آیا تھا۔

اس تعبیر کو مزید تقویت پیشین گوئی کے ان الفاظ سے ملتی ہے کہ ’’ یہ تیری (یعنی بنی اسرائیل کی) اس درخواست کے مطابق ہو گا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں  کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سننی پڑے اور نہ ایسی بڑی آگ ہی کا نظارہ ہوتا کہ میں مر نہ جاؤں ۔ اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا‘‘۔ اس عبارت میں حورب سے مراد وہ پہاڑ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلی مرتبہ احکام شریعت دیے گئے تھے ۔ اور بنی اسرائیل کی جس در خواست کا اس میں ذکر کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی شریعت ہم کو دی جائے تو ان خوفناک حالات میں نہ دی جائے جو حورب پہاڑ کے دامن میں شریعت دیتے وقت پیدا کیے گئے تھے ۔ ان حالات کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے اور بائیبل میں بھی۔ (ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۵۵۔ ۵۶۔۶۳۔الاعراف، آیات ۱۵۵۔۱۷۱۔ بائیبل، کتاب خروج ۱۷:۱۹۔ ۱۸)۔ اس کے جواب میں حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری یہ درخواست قبول کر لی ہے ، اس کا ارشاد ہے کہ میں ان کے لیے ایک ایسا نبی برپا کروں گا جس کے منہ میں مَیں اپنا کلام ڈالوں گا۔ یعنی آئندہ شریعت دینے کے اس وقت وہ خوفناک حالات پیدا نہ کیے جائیں گے جو حورِب پہاڑ کے دامن میں پیدا کیے گئے تھے ، بلکہ اب جو نبی اس منصب پر مامور کیا جائے گا اس کے منہ میں بس اللہ کا کلا م ڈال دیا جائے گا اور وہ اسے خلق خدا کو سنا دے گا۔ اس تصریح پر غور کرنے کے بعد کیا اس امر میں کسی شبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا اس کا مصداق کوئی اور نہیں ہے  ؟ حضرت موسیٰ کے بعد مستقل شریعت صرف آپ ہی کو دی گئی، اس کے عطا کرنے کے وقت کوئی ایسا مجمع نہیں ہوا جیسا حورب پہاڑ کے دامن میں بنی اسرائیل کو ہوا تھا، اور کسی وقت بھی احکام شریعت دینے کے موقع پر وہ حالات پیدا نہیں کیے گئے جو وہاں پیدا کیے گئے تھے ۔

۸۔ یہ قرآن مجید کی ایک بڑی اہم آیت ہے ، جس پر مخالفین اسلام کی طرف سے بڑی لے دے بھی کی گئے ہے اور بدترین خیانت مجرمانہ سے بھی کام لیا ہے ، کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا صاف صاف نام لے کر آپ کی آمد کی بشارت دی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بحث کی جائے۔

۱۔ اس میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  کا اسم گرامی احمد بتایا گیا ہے ۔ احمد کے دو معنی ہیں ۔ ایک، وہ شخص جو اللہ کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا ہو۔ دوسرے ، وہ شخص جس کی سب سے زیادہ تعریف کی گئی ہو، یا جو بندوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف ہو۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ یہ بھی حضورؐ کا ایک نام تھا۔ مسلم اور ابو داؤد طیالِسی میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انا محمد و انا احمد والحاشر۔۔۔۔۔ ’’میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں حاشر ہوں ۔۔۔۔۔  ‘‘ اسی مضمون کی روایات حضرت جبیر بن مطعم سے امام مالک، بخاری، مسلم، دارمی، ترمذی اور نسائی نے نقل کی ہیں ۔ حضورؐ کا یہ اسم گرامی صحابہ میں معروف تھا، چنانچہ حضرت حصان بن ثابت کا شعر ہے :

صلی الا لٰہ و من یحف بعرشہ            والطیبون علی المبارک  احمد

’’اللہ نے اور اس کے عرش کے گرد جمگھٹا لگائے ہوئے فرشتوں نے اور سب پاکیزہ ہستیوں نے با برکت احمد پر درود بھیجا ہے ‘‘۔

تاریخ سے بھی یہ ثابت ہے کہ حضورؐ کا نام مبارک صرف محمدؐ ہی نہ تھا بلکہ احمد بھی تھا۔ عرب کا پورا لٹریچر اس بات سے خالی ہے کہ حضورؐ سے پہلے کسی کا نام احمد رکھا گیا ہو۔ اور حضورؐ کے بعد احمد اور غلام احمد اتنے لوگوں کے نام رکھے گئے ہیں جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کا کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوت سے لے کر آج تک تمام امت میں آپ کا یہ اسم گرامی معلوم و معروف رہا ہے ۔ اگر حضور کا یہ اسم گرامی نہ ہوتا تو اپنے بچوں کے نام غلام احمد رکھنے والوں نے آخر کس احمد کا غلام ان کو قرار دیا تھا  ؟

۲۔ انجیل یوحنا اس بات پر گواہ ہے کہ مسیح کی آمد کے زمانے میں بنی اسرائیل تین شخصیتوں کے منتظر تھے ۔ ایک مسیح، دوسرے ایلیاہ (یعنی حضرت الیاس کی آمد ثانی)، اور تیسرے ’’ وہ نبی‘‘ انجیل کے الفاظ یہ ہیں  

’’ اور یوحنا(حضرت یحیٰ علیہ السلام) کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاہن اور لادی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے ، تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا بلکہ اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں ۔ انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے  ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس ے کہا میں نہیں ہوں ۔ کیا تو  وہ نبی ہے  ؟  اس نے جواب دیا کہ نہیں ۔ پو انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون ؟۔۔۔۔ اس نے کہا میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ سیدھی کرو۔۔۔۔۔ انہوں نے اس سے یہ سوال کیا کہ اگر تو نہ مسیح ہے ،  نہ ایلیا نہ وہ نبی تو پھر بپتسمہ کیوں دیتا ہے  ؟‘‘ (باب ۱۔ آیات ۱۹۔۲۵)

یہ الفاظ اس بات پر صریح دلالت کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل حضرت مسیح اور حضرت الیاس کے علاوہ ایک اور نبی کے بھی منتظر تھے ، اور وہ حضرت یحیٰ نہ تھے ،  اس نبی کی آمد کا عقیدہ بنی اسرائیل کے ہاں اس قدر مشہور و معروف تھا کہ ’’ وہ نبی‘‘ کہہ دینا گویا اس کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بالکل کافی تھا، یہ کہنے کی ضرورت بھی نہ تھی کہ ’’ جس کی خبر توراۃ میں دی گئی ہے ‘‘ مزید برآں اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نبی کی طرف وہ اشارہ کر رہے تھے اس کا آنا قطعی طور پر ثابت تھا، کیونکہ جب حضرت یحییٰ سے یہ سوالات کیے گئے تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے ، تم کس نبی کے متعلق پوچھ رہے ہو  ؟

۳۔  اب وہ پیشین گوئیاں دیکھیے جو انجیل یوحنا میں مسلسل باب ۱۴ سے ۱۶ تک منقول ہوئی ہیں :

’’ اور میں باپ سے درخواست کرو گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گا ر بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے ، یعنی روح حق جسے دنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اسے دیکھتی ہے نہ جانتی ہے ۔ تم اسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہے ‘‘ (۱۴:۱۶۔ ۱۷ )۔

’’میں نے یہ باتیں تمہارے ساتھ رہ کر تم سے کہیں ۔ لیکن مدد گار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا۔‘‘(۲۵:۱۴۔ ۲۶ )

’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں ‘‘ (۳۰:۱۴ )۔

’’ لیکن جب سہ مدد گار آئے گا جس کو میں تمہارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کا روح جو باپ سے صادر ہوتا  ہے ، تو وہ میری گواہی دے گا‘‘ (۲۶:۱۵)۔

’’ لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جاتا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا‘‘ (۷:۱۶)۔

’’مجھے تم سے اور بھی بہت سیر باتیں کہنا ہے مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے  نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا۔ وہ میرا جلال ظاہر کرے گا۔ اس لیے کہ مجھ ہی سے حاصل کر کے تمہیں خبریں دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے وہ سب میرا ہے ۔ اس لیے میں نے کہا کہ وہ مجھ ہی سے حاصل کرتا ہے اور تمہیں خبریں دے گا‘‘(۱۲:۱۶۔ ۱۵)۔

۴۔ ان عبارتوں کے معنی متعین  کرنے کے لیے سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ مسیح علیہ السلام اور ان کے ہم عصر اہل فلسطین کی عام زبان آرامی زبان کی وہ بولی تھی جسے سریانی (Syriac) کہا جاتا ہے ۔ مسیح کی پیدائش سے دو ڈھائی سو برس پہلے ہی سلوقی(Seleucide) اقتدار کے زمانے میں اس علاقے سے عبرانی رخصت ہو چکی تھی اور سریانی نے اس کی جگہ لے لی تھی۔ اگر چہ سلوقی اور پھر رومی سلطنتوں کے اثر سے یونانی زبان نے اس علاقے میں پہنچ گئی تھی، مگر وہ صرف اس طبقے تک محدود رہ جو سرکار دربار میں رسائی پاکر، یا رسائی حاصل کرنے کی خاطر یونانیت زدہ ہو گیا تھا۔ فلسطین کے عام لوگ سریانی کی ایک خاص بولی(Dialect) استعمال کرتے تھے جس کے لہجے اور تلفظات اور محاورات دمشق کے علاقے میں بولی جانے والی سریانی سے مختلف تھے ، اور اس ملک کے عوام یونانی سے اس قدر نا واقف تھے کہ جبن ۷۰ع میں یروشلم پر قبضہ کرنے کے بعد رومی جنرل تیتُس (Titus)نے اہل یروشلم کو یونانی میں خطاب کیا تو اس کا ترجمہ سریانی زبان میں کرنا پڑا۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے جو کچھ کہا تھا وہ لامحالہ سریانی زبان ہی میں ہو گا۔

دوسرے بات یہ جاننے ضروری ہے کہ بائیبل کی چاروں انجیلیں ان یونانی بولنے والے عیسائیوں کی  لکھی ہوئی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے بعد اس مذہب میں داخل ہوئے تھے ۔ ان تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال و اعمال کی تفصیلات سریانی بولنے والے عیسائیوں کے ذریعہ سے کسی تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی روایات کی  شکل میں پہنچی تھیں اور ان سریانی روایات کو انہوں نے اپنی زبان میں ترجمہ کر کے درج کیا تھا۔ ان میں سے کوئی انجیل بھی ۷۰ ع سے پہلے کی لکھی ہوئی نہیں ہے ، اور انجیل یوحنا تو حضرت عیسیٰ کے ایک صدی بعد غالباً ایشیائے کو چک کے شہر افسُس میں لکھی گئی ہے ۔ مزید یہ کہ ان انجیلوں کا بھی کوئی اصل نسخہ اس یونانی مسودات جگہ جگہ سے تلاش کر کے جمع کیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی چوتھی صدی سے پہلے کا نہیں ہے ۔ اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تین صدیوں کے دوران میں ان کے اندر کیا کچھ رد و بدل ہوئے ہوں گے ۔اس معاملہ کو جو چیز  خاص طور پر مشتبہ بنا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ عیسائی اپنی انجیلوں میں اپنی پسند کے مطابق دانستہ تغیر و تبدل کرنے کو بالکل جائز سمجھتے رہے ہیں ۔ انسائیکلو پیڈیا بٹانیکا (ایڈیشن ۱۹۴۶ ء ) کے مضمون ’’بائبل ‘‘ کا مصنف لکھتا ہے :

’’ان جیل میں ایسے نمایاں تغیرات دانستہ کیے گئے ہیں جیسے مثلاً بعض پور ی پوری عبارتوں کو کسی دوسرے ماخذ سے لے کر کتاب میں شامل کر دینا۔ ……… یہ تغیرات صریحاً کچھ ایسے لوگوں نے بالقصد کیے ہیں جنہیں اصل کتا ب کے اندر شامل کرنے کے لیے کہیں سے کوئی مواد مل گیا، اور وہ اپنے آپ کو اس کا مجاز سمجھتے  رہے کہ کتاب کو بہتر یا زیادہ مفید بنا نے کے لیے اس کے اندر اپنی طرف سے اس مواد کا اضافہ کر دیں ………  بہت سے اضافے  دوسری صدی ہی میں ہو گئے تھے اور کچھ نہیں معلوم کہ ان کا ماخذ کیا تھا’’۔

اس صورت حال میں قطعی طور پر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو اقوال ہمیں ملتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھیک نقل ہوئے ہیں اور ان کے اندر  کوئی رد و بدل نہیں ہوا ہے ۔

تیسری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی فتح کے بعد بھی تقریباً تین صدیوں تک فلسطین کے عیسائی باشندوں کی زبان سریانی رہی اور کہیں نویں صدی عیسوی میں جا کر عربی زبان نے اس کی جگہ لی ان سریانی بولنے والے اہل فلسطین کے ذریعہ سے عیسائی روایات کے متعلق جو معلومات ابتدائی تین صدیوں کے مسلمان علماء  کو حاصل ہوئیں وہ ان لوگوں کی معلومات کی بہ نسبت زیادہ معتبر ہونی چاہییں جنہیں سریانی سے یونانی اور پھر یونانی سے لاطینی زبانوں میں ترجمہ در ترجمہ ہو کر یہ معلومات پہنچیں ۔ کیونکہ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے اصل سریانی الفاظ ان کے ہاں محفوظ رہنے کے زیادہ امکانات تھے ۔

۵۔  ان ناقابل انکار تاریخی حقائق  کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے کہ انجیل یوحنا کی مذکورہ بالا  عبارات میں حضرت عیسیٰ علیہ  السلام اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دے رہے ہیں جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ وہ ’’ دنیا کا سردار ‘‘(سرور عالم) ہو گا، ’’ابد تک ‘‘ رہے گا، ’’ سچائی کی تمام راہیں دکھائے گا، ‘‘ اور خود ان کی (یعنی حضرت عیسیٰ کی) ’’ گواہی دے گا‘‘۔ یوحنا کی ان عبارتوں میں ’’ روح القدس ‘‘ اور ’’ سچائی کی روح‘‘  وغیرہ الفاظ شامل کر کے مدعا کو خبط کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ، مگر اس مے باوجود ان سب عبارتوں کو اگر غور سے پڑھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس آنے والے کی خبر دی گئی ہے وہ کوئی روح نہیں بلکہ کوئی انسان اور خاص شخص ہے جس کی تعلیم عالمگیر، ہمہ گیر، اور قیامت تک باقی رہنے والی ہو گی۔ اس شخص خاص کے لیے اردو ترجمے میں ’’مدد گار‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور  یوحنا کی اصل انجیل میں یونانی زبان کا جو لفظ استعمال کیا گیا تھا، اس کے بارے میں عیسائیوں کو اصرار ہے کہ وہ  Para Cletus تھا۔ مگر اس کے معنی متعین کرنے میں خود عیسائی علماء کو سخت زحمت پیش آئی ہے ۔ اصل یونانی زبان میں Para Clate  کے کئی معنی ہیں : کسی جگہ کی طرف بلانا، مدد کے لیے پکارنا، انذار و تنیہ، ترغیب، اکسانا، التجا کرنا، دعا مانگنا۔ پھر یہ لفظ بیینی مفہوم میں یہ معنی دیتا ہے : تسلی دینا، تسکین بخشنا، ہمت افزائی کرنا۔ بائیبل میں اس لفظ کو جہاں جہاں استعمال کیا گیا ہے ، ان سب مقامات پر اس کے کوئی معنی بھی ٹھیک نہیں بیٹھتے ۔ اورائجن(Origen) نے کہیں اس کا ترجمہ Consolatorکیا ہے اور کہیں Deprecator مگر دوسرے مفسرین نے ان دونوں ترجموں کو رد کر دیا کیونکہ اول تو یہ یونانی گرامر کے لحاظ سے صحیح نہیں ہیں ، دوسرے تمام عبارتوں میں جہاں یہ لفظ آیا ہے ، یہ معنی نہیں چلتے ۔ بعض اور مترجمین نے اس کا ترجمہ Teacher کیا ہے ، مگر یونانی زبان کے استعمالات سے یہ معنی بھی اخذ نہیں کیے جا سکتے ۔ ترتولیان اور آگسٹائن نے لفظ Advocate کو ترجیح دی ہے ، اور بعض اور لوگوں نے  Assistant، اور Comforter، اور Consoler وغیرہ الفاظ اختیار کیے ہیں ۔ (ملاحظہ ہو سائیکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ پیریکلیٹس )۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی زبان ہی میں ایک دوسرا لفظ Periclytos موجود ہے جس کے معنی ہیں ’’تعریف کیا ہوا‘‘۔ یہ لفظ بالکل ’’محمد‘’ کا ہم معنی ہے ، اور تلفظ میں اس کے اور Paracletus کے درمیان بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ کیا بعید ہے کہ جو مسیحی حضرات اپنی مذہبی کتابوں میں اپنی مرضی اور پسند کے مطابق نے تکلف رد و بدل کر لینے کے خوگر رہے ہیں انہوں نے یوحنا کی نقل کردہ پیشین گوئی کے اس لفظ کو اپنے عقیدے کے خلاف پڑتا دیکھ کر اس کے املا میں یہ ذرا سا تغیر  کر دیا ہو۔  اس کی پڑتال کرنے کے لیے یوحنا کی لکھی ہوئی ابتدائی یونانی انجیل بھی کہیں موجود نہیں ہے جس سے یہ تحقیق کیا جا سکے کہ وہاں ان دونوں الفاظ میں سے در اصل کونسا لفظ استعمال کیا گیا تھا۔

۷۔ لیکن فیصلہ اس پر بھی موقوف نہیں ہے کہ یوحنا نے یونانی زبان میں در اصل کونسا لفظ لکھا تھا، کیونکہ بہر حال وہ بھی ترجمہ ہی تھا اور حضرت مسیح کی زبان، جیسا کہ اوپر بیان کر چکے ہیں فلسطین کی سریانی تھی، اس لیے انہوں نے اپنی بشارت میں جو لفظ استعمال کیا ہو گا وہ لا محالہ کوئی سریانی لفظ ہی ہونا چاہیے ۔ خوش قسمتی سے وہ اصل سریانی لفظ ہمیں ابن ہشام کی سیرت میں مل جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی اسی کتاب سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا ہم معنی یونانی لفظ کیا ہے ۔ محمد بن اسحاق کے حوالہ سے ابن ہشام نے یُحَنّس(یوحنا) کی انجیل کے باب ۱۵، آیات ۲۳ تا ۲۷، اور باب ۱۶ آیت ۱ کا پورا ترجمہ نقل کیا ہے اور اس میں یونانی ’’ فارقلیط ‘‘ کے بجائے سریانی زبان کا لفظ مُنحَمَنَّا استعمال کیا گیا ہے ۔ پھر ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ ’’ مُنحَمَنَّا کے معنی سریانی میں محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہیں ‘‘ (ابن ہشام، جلد اول، ص ۲۴۸)۔

اب دیکھیے کہ تاریخی طور پر فلسطین کے عام عیسائی باشندوں کی زبان نویں صدی عیسوی تک سریانی تھی، یہ علاقہ ساتویں صدی کے نصف اول سے اسلامی مقبوضات میں شامل تھا۔ ابن اسحاق نے ۷۶۸ء میں اور ابن ہشام نے ۸۶۸ء میں وفات پائی ہے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں کے زمانے میں فلسطینی عیسائی سریانی بولتے تھے ، اور ان دونوں کے لیے اپنے ملک کی عیسائی رعایا سے ربط پیدا کرنا کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ نیز اس زمانے میں یونانی بولنے والے عیسائی بھی لاکھوں کی تعداد میں اسلامی مقبوضات کے اندر رہتے تھے ، اس لیے ان کے لیے یہ معلوم کرنا بھی مشکل نہ تھا کہ سریانی کے کس لفظ کا ہم معنی یونانی زبان کا کونسا لفظ ہے ۔ اب اگر ابن اسحاق کے نقل کردہ ترجمے میں سریانی لفظ مُنحَمَنّا  استعمال ہوا ہے ، اور ابن اسحاق یا ابن ہشام نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ عربی میں اس کا ہم معنی لفظ محمد اور یونانی میں بر قلیطس ہے ، تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ حضرت عیسیٰ نے حضورؐ کا نام مبارک لے کر آپ ہی کے آنے کی بشارت دی تھی، اور ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یوحنا کی یونانی انجیل میں در اصل لفظ Periclytos استعمال ہوا تھا جسے عیسائی حضرات نے بعد میں کسی وقت Para Cletus  سے بدل د یا۔

۸۔  اس سے بھی قدیم تر تاریخی شہادت حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت ہے کہ مہاجرین حبشہ کو جب نجاشی نے اپنے دربار میں بلایا، اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات سنیں تو اس نے کہا : مَر حَباً بِکُم وَبِمَن جِئتُم مِن عِندِہ، اَشھَدُ اَنَّہ رَسُو لُ اللہِ وَاَنَّہُالَّذِی نَجِدُ فِیالاِنجِیل، وَ اَنَّہ الَّذِی بَشَّرَبِہ عِیسَی بن مَر یَمَ۔ (مسند احمد)۔ یعنی ’’ مرحبا تم کو اور اس ہستی کو جس کے ہاں سے تم آئے ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہی ہیں جن کی بشارت عیسیٰ ابن  مریم نے دی تھی‘‘۔ یہ قصہ احادیث میں خود حضرت جعفرؓ اور حضرت ام سلمہؓ سے بھی منقول ہوا ہے ۔ اس سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کے آغاز میں نجاشی کو یہ معلوم تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک نبی کی پیشین گوئی کر گئے ہیں ، بلکہ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اس نبی کی ایسی صاف نشاندہی انجیل میں موجود تھی جس کی وجہ سے نجاشی کو یہ رائے قائم کرنے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی وہ نبی ہیں ۔ البتہ اس روایت سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ حضرت عیسیٰ کی اس بشارت کے متعلق نجاشی کا ذریعہ معلومات یہی انجیل یوحنا تھی یا کوئی اور ذریعہ بھی اس کو جاننے کا اس وقت موجود تھا۔

۹۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے بارے میں حضرت عیسیٰ کی پیشن گوئیوں کو نہیں ، خود حضرت عیسیٰ کے اپنے صحیح حالات اور آپ کی اصل تعلیمات کا جاننے کا بھی معتبر ذریعہ وہ چار انجیلیں نہیں ہیں جن کو مسیحی کلیسا نے معتبر و مسلم انا جیل(Canonical Gospels) قرار دے رکھا ہے ، بلکہ اس کا زیادہ قابل اعتماد ذریعہ وہ انجیل برنا باس ہے جسے کلیسا غیر قانونی اور مشکوک الصحت (Apocryphal) کہتا ہے ۔ عیسائیوں نے اسے چھپانے کا بڑا اہتمام کیا ہے ۔ صدیوں تک یہ دنیا سے ناپید رہی ہے ۔ سولہویں صدی میں اس کے اطالوی ترجمے کا صرف ایک نسخہ پوپ سکسٹس (Sixtus) کے کتب خانے میں پایا جاتا تھا اور کسی کو اس کے پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ اٹھارویں صدی کے آغاز میں وہ ایک شخص جان ٹولینڈ کے ہاتھ لگا۔ پھر مختلف ہاتھوں میں گشت کرتا ہوا ۱۷۳۸ء میں ویانا کی امپریل لائبریری میں پہنچ گیا۔ ۱۹۰۷ء میں اسی نسخے کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ کے کلیرنڈن پریس سے شائع ہو گیا تھا  مگر غالباً اس کی اشاعت کے بعد فوراً ہی عیسائی دنیا میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ یہ کتاب تو اس مذہب کی جڑ ہی کاٹے دے رہی ہے جسے حضرت عیسیٰ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اس کے مطبوعہ نسخے کسی خاص تدبیر سے غائب کر دیے گئے اور پھر کبھی اس کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی۔ دوسرا ایک نسخہ اسی اطالوی ترجمہ سے اسپینی زبان میں منتقل کیا ہو اٹھارویں صدی میں پایا جاتا تھا، جس کا ذکر جارج سیل نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن کے مقدمہ میں کیا ہے ۔ مگر وہ بھی کہیں غائب کر دیا گیا  اور آج اس کا بھی کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔ مجھے آکسفورڈ سے شائع شدہ انگریزی ترجمے کی ایک فوٹو اسٹیٹ  کاپی دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے اسے لفظ بہ لفظ ہے ۔ میرا احساس یہ ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس سے عیسائیوں نے محض تعصب اور ضد کی بنا پر اپنے آپ کو محروم کر رکھا ہے ۔

مسیحی لٹریچر میں انجیل کا جہاں کہیں ذکر آتا ہے ، اسے یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ ایک جعلی انجیل ہے جسے شاید کسی مسلمان نے تصنیف کر کے برنا باس کی طرف منسوب کر دیا ہے ۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا جھوٹ ہے ، جو صرف اس بنا پر بول دیا گیا کہ اس میں جگہ جگہ بہ صراحت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مے متعلق پیشین گوئیاں ملتی ہیں ۔ اول تو اس انجیل کو پڑھنے ہی سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کتا ب کسی مسلمان کی تصنیف کر دہ نہیں ہو سکتی۔ دوسرے ، اگر یہ کسی مسلمان نے لکھی ہوتی تو مسلمانوں میں یہ کثرت سے پھیلی ہوئی ہوتی اور علمائے اسلام کی تصنیفات میں بہ کثرت اس کا ذکر پایا جاتا۔ مگر یہاں صورت حال یہ ہے کہ جارج سیل کے انگریزی مقدمہ قرآن سے پہلے مسلمانوں کو سرے سے اس کے وجود تک کا علم نہ تھا۔ گَبری، یعقوبی، مسعودی، البیرونی، ابن حذم اور دوسرے مصنفین، جو مسلمانوں میں مسیحی لٹریچر وسیع اطلاع رکھنے والے تھے ، ان میں سے کسی کے ہاں بھی مسیحی مذہب پر بحث کرتے ہوئے انجیل برناباس کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا۔ دنیائے اسلام کے کتب خانوں میں جو کتابیں پائی جاتی تھیں ان کی بہترین فہرستیں ابن ندیم کی الفہرست اور حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ہیں ، اور وہ بھی اس کے ذکر  سے خالی ہیں ۔ انیسویں صدی سے پہلے کسی مسلمان عالم نے انجیل برناباس کا نام تک نہیں لیا ہے ۔ تیسری اور سب سے بڑی دلیل اس بات کے جھوٹ ہونے کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے بھی ۷۵ سال پہلے پوپ گلاسیس اول (Gelasius)  کے زمانے میں بد عقیدہ اور گمراہ کن (Heretical)  کتابوں کی جو فہرست مرتب کی گئی تھی، اور ایک پاپائی فتوے کے ذریعہ سے جن کا پڑھنا ممنوع کر دیا گیا تھا، ان میں انجیل برناباس (Evangelium Barnabe)  بھی شامل تھی۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت کونسا مسلمان تھا جس نے یہ جعلی انجیل تیار کی تھی  ؟ یہ بات تو خود عیسائی علماء نے تسلیم کی ہے کہ شام، اسپین، مصر وغیرہ ممالک کے ابتدائی مسیحی کلیسا میں ایک مدت تک برنا باس کی انجیل رائج رہی ہے اور چھٹی صدی میں اسے ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔

۱۰۔ قبل اس کے کہ اس انجیل سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتیں نقل کی جائیں ، اس کا مختصر تعارف کر ا دینا ضروری ہے ، تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو جائے اور یہ بھی سمجھ میں آ جائے کہ عیسائی حضرات اس سے اتنے ناراض کیوں ہیں ۔

بائیبل میں جو چار انجیلیں قانونی اور معتبر قرار  دے کر شامل کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کا لکھنے والا بھی حضرت عیسیٰ کا صحابی نہ تھا۔ اور ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ بھی  نہیں کیا ہے کہ اس نے آنحضرتؐ کے صحابیوں سے حاصل کردہ معلومات اپنی انجیل میں درج کی ہیں ۔ جن ذرائع  سے ان لوگوں نے معلومات حاصل کی ہیں ان کا کوئی حوالہ انہوں نے نہیں دیا ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ راوی نے آیا خود وہ واقعات  دیکھے اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر  رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر  وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور وہ اقوال سنے ہیں جنہیں وہ بیان کر رہا ہے یا ایک یا چند واسطوں سے یہ باتیں اسے پہنچی ہیں ۔ بہ خلاف اس کے انجیل برناباس کا مصنف کہتا ہے کہ میں مسیح کے اولین بارہ حواریوں میں سے ایک ہوں ، شروع سے آخر وقت تک مسیح کے ساتھ رہا ہوں اور اپنی آنکھوں دیکھے واقعات اور کانوں سنے اقوال اس کتاب میں درج کر رہا ہوں ۔ یہی نہیں بلکہ کتاب کے آخر میں وہ کہتا ہے کہ دنیا سے  رخصت ہوتے وقت حضرت مسیح نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مرے متعلق جو غلط فہمیاں لوگوں میں پھیل گئی ہیں ان کو صاف کرنا اور صحیح حالات دنیا کے سامنے لانا تیری ذمہ داری ہے ۔

یہ برنا باس کون تھا  ؟ بائیبل کی کتاب اعمال میں بڑی کثرت سے اس نام کے ایک شخص کا ذکر آتا ہے جو قبرص کے ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ مسیحیت کی تبلیغ اور پیروانِ مسیح کی مدد و اعانت کے سلسلے میں اس کی خدمات کی بڑی تعریف کی گئی ہے ۔ مگر کہیں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ وہ کب دین مسیح میں داخل ہوا، اور ابتدائی بارہ حواریوں کی جو فہرست تین انجیلوں میں دی گئی ہے اس میں بھی کہیں اس کا نام درج نہیں ہے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس انجیل کا مصنف وہی برنا باس ہے یا کوئی اور۔ متی، اور مرقس نے حواریوں (Apostles) کی جو فہرست دی ہے ، برناباس کی دی ہوئی فہرست اس سے صرف دو ناموں میں مختلف ہے ۔ ایک توما، جس کے بجائے برناباس خود اپنا نام دے رہا ہے ، دوسرا شمعون قنانی، جس کی جگہ وہ یہوواہ بن یعقوب کا نام لیتا ہے ۔ لوقا کی انجیل میں یہ دوسرا نام بھی موجود ہے ۔ اس لیے یہ قیاس کرنا صحیح ہو گا کہ بعد میں کسی وقت صرف برناباس کو حواریوں سے خارج کرنے کے لیے توما کا نام داخل کیا گیا ہے تاکہ اس کی انجیل سے پیچھا چھڑایا جا سکے ، اور اس طرح کے تغیرات اپنی مذہبی کتابوں میں کر لینا ان حضرات کے ہاں کوئی ناجائز کام نہیں رہا ہے ۔

اس انجیل کو اگر شخص تعصب کے بغیر کھلی آنکھوں سے پڑھے اور نئے عہد نامے کی چاروں انجیلوں سے اس مقابلہ کرے تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ ان چاروں سے بدر جہا برتر ہے ۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور اس طرح بیان ہوئے ہیں جیسے کوئی شخص فی الواقع وہاں سب کچھ دیکھ رہا تھا اور ان واقعات میں خود شریک تھا۔ چاروں انجیلوں کی بے ربط داستانوں کے مقابلہ میں یہ تاریخی بیان زیادہ مربوط بھی ہے اور اس سے سلسلہ واقعات بھی زیادہ چھی طرح سمجھ میں آتا ہے ۔ حضرت عیسیٰ کی تعلیمات اس میں چاروں انجیلوں کی بہ نسبت زیادہ واضح اور مفصل اور مؤثر طریقے سے بیان ہوئی ہیں ۔ توحید کی تعلیم، شریک کی ترید، صفات باری تعالیٰ، عبادات کی روح، اور اخلاق فاضلہ کے مضامین اس میں بڑے ہی پر زور اور مدلل اور مفصل ہیں ۔ جن آموز تمثیلات کے پیرایہ میں مسیح نے یہ مضامین بیان کیے ہیں ان کا عشر عشیر بھی چاروں انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ اس سے یہ بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ آنجناب اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت کس حکیمانہ طریقے سے فرماتے تھے ۔ حضرت عیسیٰ کی زبان، طرز بیان اور طبیعت و مزاج سے کوئی شخص اگر کچھ بھی آشنا ہو تو وہ اس انجیل کو پڑھ کر یہ ماننے پر مجبور ہو گا کہ یہ کوئی جعلی داستاں نہیں ہے جو بعد میں کسی نے گھڑ لی ہو، بلکہ اس میں حضرت مسیح اناجیل اربعہ کی بہ نسبت اپنی اصلی شان میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں ، اور اس میں ان تضادات کا نام و نشان بھی نہیں ہے جو اناجیل اربعہ میں ان کے مختلف اقوال کے درمیان پایا جاتا ہے ۔

اس انجیل میں حضرت عیسیٰ کی زندگی اور آپ کی تفصیلات ٹھیک ٹھیک ایک نبی کی زندگی اور تعلیمات کے مطابق نظر آتی ہیں ۔ وہ اپنے آپ کو ایک نبی کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ۔ تمام پچھلے انبیاء اور کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کے سوا معرفت حق کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے ، اور جو انبیاء کو چھوڑتا ہے وہ دراصل خدا کو چھوڑتا ہے ۔ توحید، رسالت اور آخرت  کے ٹھیک وہی عقائد پیش کرتے ہیں جن کی تعلیم تمام انبیاء نے دی ہے ۔ نماز، روزے اور  زکوٰۃ کی تلقین کرتے ہیں ۔ ان کی  نمازوں کا جو ذکر بکثرت مقامات پر برنا باس نے کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد کے اوقات تھے جن میں وہ نماز پڑھتے تھے ، اور ہمیشہ نماز سے پہلے وضو فرماتے تھے ۔ انبیاء میں سے وہ حضرت داؤدؑ و سلیمانؑ کو نبی قرار دیتے ہیں ، حالانکہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ان کو انبیاء کی فہرست سے خارج کر رکھا ہے ۔ حضرت اسماعیل کو وہ ذبیح قرار دیتے ہیں اور ایک یہودی عالم سے اقرار کراتے ہیں یہ کہ فی الواقع ذبیح حضرت اسماعیل ہی تھے اور بنی اسرائیل نے زبر دستی کھینچ تان کر کے حضرت اسحاق کو ذبیح بنا رکھا ہے ۔ آخرت اور قیامت اور جنت، و دوزخ کے متعلق ان کی تعلیمات قریب قریب وہی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں ۔

۱۱۔ عیسائی جس وجہ سے انجیل برناباس کے مخلاف ہیں ، وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق جگہ جگہ صاف اور واضح بشارتیں ہیں ، کیونکہ وہ تو حضورؐ کی پیدائش سے بھی بہت پہلے اس انجیل کو رد کر چکے تھے ۔ ان کی ناراضی کی اصل وجہ کو سمجھے کے لیے تھوڑی سی تفصیلی بحث درکار ہے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کے ابتدائی پیرو آپ کو صرف نبی مانتے تھے ، موسوی شریعت کا اتباع کرتے تھے ، عقائد اور احکام اور عبادات کے معاملہ میں اپنے آپ کو دوسرے بنی اسرائیل سے قطعاً الگ نہ سمجھتے تھے ، اور یہودیوں سے ان کا اختلاف صرف اس امر میں تھا کہ یہ حضرت عیسیٰ کو مسیح تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے تھے اور وہ ان کو مسیح ماننے سے انکار کرتے تھے ۔ بعد میں جب سینٹ پال اس جماعت میں داخل ہوا تو اس نے رومیوں ، یونانیوں ، اور دوسرے غیر یہودی اور غیر اسرائیلی لوگوں میں بھی اس دین کی تبلیغ و اشاعت شروع کر دی، اور اس غرض کے لیے ایک نیا دین بنا ڈالا  جس کے عقائد اور اصول اور احکام اس دین سے بالکل مختلف تھے جسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کیا تھا۔ اس شخص نے حضرت عیسیٰ کی کوئی صحبت نہیں پائی تھی بلکہ ان کے زمانے میں وہ ان کا سخت مخالف تھا اور ان کے بعد بھی کئی سال تک ان کے پیروؤں کا دشمن بنا رہا۔ پھر جب اس جماعت میں داخل ہو کر اس نے ایک نیا دین بنانا شروع کیا اس وقت بھی اس نے حضرت عیسیٰ کے کسی قول کی سند نہیں پیش کی بلکہ اپنے کشف و الہام کو بنیاد بنایا۔ اس نئے  دین کی تشکیل میں اس کے پیش نظر بس یہ مقصد تھا کہ دین ایسا ہو جسے عام غیر یہودی  (Gentile)  دنیا قبول کر لے ۔ اس نے اعلان کر دیا کہ ایک عیسائی شریعت یہود کی تمام پابندیوں سے آزاد ہے ۔ اس نے کھانے پینے میں حرام و حلال کی ساری قیود ختم کر دیں ۔ اس نے ختنہ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا جو غیر یہودی  دنیا کو خاص طور پر ناگوار تھا۔ حتیٰ کہ اس نے مسیحؑ کی اُلوہیت اور ان کے ابن خدا ہونے اور صلیب پر جان دے کر اولاد آدمؑ کے پیدائشی گناہ کا کفارہ بن جانے کا عقیدہ بھی تصنیف کر ڈالا کیونکہ عام مشرکین کے مزاج سے یہ بہت مناسبت رکھتا تھا۔ مسیحؑ کے ابتدائی پیروؤں نے ان بدعات کی مزاحمت کی، مگر سینٹ پال نے جو دروازہ کھولا تھا، اس سے غیر یہودی عیسائیوں کا ایک ایسا زبردست سیلاب اس مذہب میں داخل ہو گیا جس کے مقابلے میں ہو مٹھی بھر لوگ کسی طرح نہ ٹھیر سکے ۔ تاہم تیسری صدی عیسوی کے اختتام تک بکثرت لوگ ایسے موجود تھے جو مسیح کی اُلوہیت کے عقیدے سے انکار کرتے تھے ۔ مگر چوتھی صدی کے آغاز( ۳۲۵ء) میں نیقیہ  (Nicaea) کی کونسل نے  پولوسی عقائد کو قطعی طور پر مسیحیت کا مسلم مذہب قرار دے دیا۔ پھر رومی سلطنت خود عیسائی ہو گئی اور قیصر تھیوڈو سِس کے زمانے میں یہی مذہب سلطنت کا سرکاری مذہب بن گیا۔ اس کے بعد قدرتی بات تھی کہ وہ تمام کتابیں جو اس عقیدے کے خلاف ہوں ، مردود قرار دے دی جائیں اور صرف وہی کتابیں معتبر ٹھیرائی جائیں جو اس عقیدے سے مطابقت رکھتی ہوں ۔ ۳۶۷ ء میں پہلی مرتبہ اتھانا سیوس(Athanasius)  کے ایک خط کے ذریعہ معتبر  و مسلم کتابوں کے ایک مجموعہ کا اعلان کیا گیا، پھر اس کی توثیق ۳۸۲ء میں پوپ ڈیمیسس (Damasius) کے زیر صدارت ایک مجلس نے کی، اور پانچویں صدی کے آخر میں پوپ گلاسس (Gelasius) نے اس مجموعہ کو مسلم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں ایک فہرست مرتب کر دی جو غیر مسلم تھیں ۔ حالانکہ جن پولوسی عقائد کو بنیاد بنا کر مذہبی کتابوں کے مجموعہ میں جو انجیلیں شامل ہیں ، خود ان میں بھی حضرت عیسیٰؑ کے اپنے کسی قول سے ان عقائد کا ثبوت نہیں ملتا۔

انجیل برناباس ان غیر مسلم کتابوں میں اس لیے شامل کی گئی کہ وہ مسیحیت کے اس سرداری عقیدے کے بالکل خلاف تھی۔ اس کا مصنف کتاب کے آغاز ہی میں اپنا مقصد تصنیف یہ بیان کرتا ہے کہ ’’ ان لوگوں کے خیالات کی اصلاح کی جائے جو  شیطان کے دھوکے میں آ کر یسوع کو ابن اللہ قرار دیتے ہیں ، ختنہ کو غیر ضروری ٹھیراتے ہیں اور حرام کھانوں کو حلال کر دیتے ہیں ، جن میں سے ایک دھوکہ کھانے والا پولوس بھی ہے ‘‘۔ وہ بتاتا ہے کہ جب حضرت عیسیٰؑ دنیا میں موجود تھے اس زمانے میں ان کے معجزات کو دیکھ کر سب سے پہلے مشرک رومی سپاہیوں نے ان کو خدا اور بعض نے خدا کا بیٹا کہنا شروع کیا، پھر یہ چھوت بنی اسرائیل کے عوام کو بھی لگ گئی۔ اس پر حضرت عیسیٰؑ سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے  بار بار نہایت شدت کے ساتھ اپنے متعلق اس غلط عقیدے کی تردید کی اور ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ان کے متعلق ایسی باتیں کہتے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنے شا گردوں کو پورے یہودیہ میں اس عقیدے کی تردید کے لیے  بھیجا اور ان کی دعا سے شاگردوں کے ہاتھوں بھی وہی معجزے صادر کرائے گئے جو خود حضرت عیسیٰؑ سے صادر ہوتے تھے ، تاکہ لوگ اس غلط خیال سے باز آ جائیں کہ جس شخص سے یہ معجزے صادر ہو رہے ہیں وہ خدا یا خدا کا بیٹا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ حضرت عیسیٰ کی مفصل تقریریں  نقل کرتا ہے جن میں انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ اس غلط عقیدے کی تردید کی تھی، اور جگہ جگہ یہ بتاتا ہے کہ آنجناب اس گمراہی کے پھیلنے پر کس قدر پریشان تھے ۔ مزید براں وہ اس پولوسی عقیدے کی بھی صاف صاف تردید کرتا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر جان دی تھی۔ وہ اپنے چشم دید حالات یہ بیان کرتا ہے کہ جب یہوداہ اسکر یوتی یہودیوں کے سردار کاہن سے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار کرانے کے لیے سپاہیوں کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے چار فرشتے آنجنابؑ کو اٹھا لے گئے، اور یہوداہ اسکریوتی کی شکل اور آواز بالکل وہی کر دی گئی جو حضرت عیسیٰؑ کی تھی۔ صلیب پر وہی چڑھایا گیا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰؑ۔ اس طرح  یہ انجیل پولوسی مسیحیت کی جڑ کاٹ دیتی ہے اور قرآن کے بیان کی پوری توثیق کرتی ہے ۔ حالانکہ نزول قرآن سے ۱۱۵ سال پہلے اس کے ان بیانات ہی کی بنا پر مسیحی پادی اسے رد کر چکے تھے ۔

۱۲۔ اس بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انجیل برنا باس در حقیقت اناجیل اربعہ سے زیادہ معتبر انجیل ہے ، مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور سیرت اور اقوال کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ، اور یہ عیسائیوں کی اپنی بد قسمتی ہے کہ اس انجیل کے ذریعہ سے اپنے عقائد کی تصحیح اور حضرت مسیحؑ کی اصل تعلیمات کو جاننے کا جو موقع ان کو ملا تھا اسے محض ضد کی بنا پر انہوں نے کھو دیا۔ اس کے بعد ہم پورے اطمینان کے ساتھ وہ بشارتیں نقل کر سکتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں برنا باس نے حضرت عیسیٰؑ سے روایت کی ہیں ۔ان بشارتوں میں کہیں حضرت عیسیٰؑ حضورؐ کا نام لیتے ہیں ، کہیں ’’ رسول اللہ ‘‘ کہتے ہیں ، کہیں آپ کے لیے ’’ مسیح‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، کہیں ’’قابل تعریف‘‘(Admirable) کہتے ہیں ، اور کہیں صاف صاف ایسے فقرے ارشاد فرماتے ہیں جو بالکل لَٓااِلٰہٰ الَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّ سُوْلُ اللہ کے ہم معنی ہیں ۔ ہمارے لیے ان ساری بشارتوں کو نقل کرنا مشکل ہے کیونکہ وہ اتنی زیادہ ہیں ، اور جگہ جگہ مختلف پیرایوں اور سیاق و سباق میں آئی ہیں کہ ان سے ایک اچھا خاصا رسالہ مرتب ہو سکتا ہے ۔ یہاں ہم محض بطور نمونہ ان میں سے چند کو نقل کرتے ہیں :

’’تمام انبیاء جن کو خدا نے دنیا میں بھیجا، جن کی تعداد ایک لاکھ ۴۴ ہزار تھی، انہوں نے ابہام کے ساتھ بات کی۔ مگر میرے بعد تمام انبیاء اور مقدس ہستیوں کا نور آئے گا جو انبیاء کی کہی ہو ئی باتوں ، کے اندھیرے پر روشنی ڈال دے گا کیونکہ وہ خدا کا رسول ہے ‘‘(باب ۱۷)

’’ فریسیوں اور لاویوں نے کہا اگر تو نہ مسیح ہے ، نہ الیاس، نہ کوئی اور نبی، تو کیوں تو نئی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو مسیح سے بھی زیادہ بنا  کر پیش کرتا ہے  ؟ یسوع نے جواب دیا جو معجزے خدا میرے ہاتھ سے دکھا تا ہے وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ میں وہی کچھ کہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے ، ورنہ در حقیقت میں اپنے آپ کو اس (مسیح) سے بڑا شمار کیے جانے کے قابل نہیں قرار دیتا جس کا تم ذکر کر رہے ہو۔  میں تو اُس خدا کے رسول کے موزے کے بند یا اس کی جوتی کے تسمے کھولنے کے لائق بھی نہیں ہوں جس کو تم مسیح کہتے ہو، جو مجھ سے پہلے بنایا گیا تھا اور میرے بعد آئے گا اور صداقت کی باتیں آئے گا تاکہ اس کے دین کی کوئی انتہا نہ ہو‘‘ (باب ۴۲)۔

’’ بالیقین میں تم سے کہتا ہوں کہ ہر نبی جو آیا ہے وہ صرف ایک قوم کے لیے خدا کی رحمت کا نشان بن کر پیدا ہوا ہے ۔ اس وجہ سے ان انبیاء کی باتیں ان لوگوں کے سوا کہیں اور نہیں پھیلیں جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے ۔ مگر خدا کا رسول جب آئے گا، خدا کو یا اس کو اپنے ہاتھ کی مہر دے دے گا، یہاں تک کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کو جو اس کی تعلیم پائیں گی، جنات اور رحمت پہنچا دے گا۔ وہ بے خدا لوگوں پر اقتدار لے کر آئے گا اور بُت پرستی کا ایسا قلع قمع کرے گا کہ شیطان پریشان ہو جائے گا‘‘۔ اس کے آگے شاگردوں کے ساتھ ایک طویل مکالمہ میں حضرت عیسیٰ تصریح کرتے ہیں کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا (باب ۴۳)۔

’’ اس لیے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کا رسول وہ رونق ہے جس سے خدا کی پیدا کی ہوئی قریب قریب تمام چیزوں کو خوشی نصیب ہو گی کیونکہ وہ فہم اور نصیحت، حکمت اور طاقت، خشیت اور محبت، حزم اور درع کی روح سے آراستہ ہے ۔ وہ فیاضی اور رحمت، عدل اور تقویٰ، شرافت اور صبر کی روح سے مزین ہے جو اس نے خدا سے ان تمام چیزوں کی بہ نسبت تین گُنی  پائی ہے جنہیں خدا نے اپنی مخلوق میں سے یہ روح بخشی ہے ۔ کیسا مارک وقت ہو گا جب وہ دنیا میں آئے گا۔ یقین جانو، میں نے اس کو دیکھا ہے اور اس کی تعظیم کی ہے جس طرح ہر نبی نے اس کو دیکھا تو میری روح سکینت سے بھر گئی یہ کہتے ہوئے کہ اے محمدؐ، خدا تمہارے ساتھ ہو، اور وہ مجھے تمہاری جوتی کے تسمے باندھنے کے قابل بنا دے ، کیونکہ یہ مرتبہ بھی پالوں تو میں ایک بڑا نبی اور خدا کی ایک مقدس ہستی ہو جاؤں گا‘‘۔ (باب ۴۴)۔

’’ (میرے جانے سے ) تمہارا دل پریشان نہ ہو، نہ تم خوف کرو، کیونکہ میں نے تم کو پیدا نہیں کیا ہے ، بلکہ خدا ہمارا خالق، جس نے تمہیں پیدا کیا ہے ، وہی تمہاری حفاظت کرے گا۔ رہا میں ، تو اس وقت میں دنیا میں اس رسول خدا کے لیے راستہ تیار کرنے آیا ہوں جو دنیا کے لیے نجات لے کر آئے گا ……… اندر یاس نے کہا، استاد ہمیں اس کی نشانی بتا دے تاکہ ہم اسے پہچان لیں ۔ یسوع نے جواب دیا، وہ تمہارے زمانے میں نہیں آئے گا بلکہ تمہارے کچھ سال بعد آئے گا جبکہ میری انجیل ایسی مسخ ہو چکی ہو گی مشکل سے کوئی ۳۰ آدمی مومن باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت اللہ دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنے رسول کو بھیجے گا جس کے سرپر سفید بادل کا سایہ ہو گا جس سے وہ خدا کا بر گزیدہ جانا جائے گا اور اس کے ذریعہ سے خدا کی معرفت دنیا کو حاصل ہو گی۔ وہ بے خدا لوگوں کے خلاف بڑی طاقت کے ساتھ آئے گا اور زمین پر بت پرستی کو مٹا دے گا۔ اور مجھے اس کی بڑی خوشی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ہمارا خدا پہچانا جائے گا اور اس کی تقدیس ہو گی اور میری صداقت دنیا کو معلوم ہو گی اور وہ ان لوگوں سے انتقام لے گا جو مجھے انسان سے بڑھ کر کچھ قرار دیں گے ……… وہ ایک ایسی صداقت کے ساتھ آئے گا جو تمام انبیاء کی لائی ہوئی صداقت سے زیادہ واضح ہو گی ‘‘(باب ۷۲)۔

’’خدا کا عہد یروشلم میں ، معبد سلیمان کے اندر کیا گیا تھا نہ کہ کہیں اور۔ مگر میری بات کا یقین کرو کہ ایک وقت آئے گا جب خدا اپنی رحمت ایک اور شہر میں نازل فرمائے گا، پھر ہر جگہ اس کی صحیح عبادت ہو سکے گی، اور اللہ اپنی رحمت سے ہر جگہ سچی نماز کو قبول فرمائے گا ……… میں در اصل اسرائیل کے گھرانے کی طرف نجات کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں ، مگر میرے بعد مسیح آئے گا، خدا کا بھیجا ہو، تمام دنیا کی طرف، جس کے لیے خدا نے یہ ساری دنیا بنائی ہے ۔ اس وقت ساری دنیا میں اللہ کی عبادت ہو گی، اور اس کی رحمت نازل ہو گی ‘‘(باب ۸۳)۔

’’یسوع نے سردار کاہن سے کہا، زندہ خدا کی قسم جس کے حضور میری جان حاضر ہے ، میں ہو مسیح نہیں ہوں جس کی آمد کا تمام دنیا کی قومیں انتظار کر رہی ہیں ، جس کا وعدہ خدا نے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ’’تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی‘‘(پیدائش، ۱۸:۲۲)۔ مگر جب خدا مجھے دنیا سے لے جائے گا تو شیطان پھر یہ بغاوت بر پا کرے گا کہ نا پرہیز گار لوگ مجھے خدا اور خدا کا بیٹا مانیں ۔ اس کی وجہ سے میری باتوں اور میری تعلیمات کو مسخ کر دیا جائے گا یہاں تک کہ بمشکل ۳۰ صاحب ایمان باقی رہ جائیں گے ۔ اس وقت خدا دنیا پر رحم فرمائے گا اور اپنا رسول بھیجے گا جس کے لیے اس نے دنیا کی یہ ساری چیزیں بنائی ہیں ، جو قوت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں کو بت پرستوں کے ساتھ برباد کر دے گا، جو شیطان سے وہ اقتدار چھین لے گا جو اس نے انسانوں پر حاصل کر لیا ہے ۔ وہ خدا کی رحمت ان لوگوں کی نجات کے لیے اپنے ساتھ لائے گا جو اس پر ایمان لائیں گے ، اور مبارک ہے وہ جو اس کی باتوں کو مانے ‘‘ (باب ۹۶)۔

سردار کاہن نے پوچھا کہ وہ مسیح کس نام سے پکارا جائے گا اور کیا نشانیاں اس کی آمد کو ظاہر کریں گی ؟ یسوع نے جواب دیا اس مسیح کا نام’’ قابل تعریف‘‘ ہے ، کیونکہ خدا نے جب اس کی روح پیدا کی تھی اس وقت اس کا یہ نام خود رکھا تھا اور وہاں اسے ایک ملکوتی شان میں رکھا میں رکھا گیا تھا۔ خدا نے کہا’’ اے محمدؐ، انتظار کر، کیونکہ تیری ہی خاطر میں جنت، دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کروں گا اور اس کو تجھے تحفہ کے طور پر دوں گا، یہاں تک کہ جو تیری تبریک کرے گا اسے برکت دی جائے گی اور جو تجھ پر لعنت کرے گا اس پر لعنت کی جائے گی۔ جب میں  تجھے دنیا کی طرف بھیجوں گا تو میں تجھ کو اپنے پیغامبر نجات کی حیثیت سے بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہو گی یہاں تک کہ زمین و آسمان ٹل جائیں گے مگر تیرا دین نہیں ٹلے گا۔ سو اس کا مبارک نام محمدؐ ہے ‘‘۔(باب، ۹)۔

برنا باس لکھتا ہے ایک موقع پر شاگردوں کے سانے حضرت عیسیٰ نے بتایا کہ میرے ہی شاگردوں میں سے ایک (جو بعد میں یہوواہ  اسکر یوتی نکلا) مجھے ۳۰ سکوں کے عوض دشمنوں کے ہاتھ بیچ دے گا، پھر فرمایا:

’’اس کے بعد مجھے یقین ہے کہ جو مجھے بیچے گا وہی میرے نام سے مارا جائے گا، کیونکہ خدا مجھے زمین سے اوپر اٹھا لے گا اور اس غدار کی صورت ایسی بدل دے گا کہ ہو شخص یہ سمجھے گا کہ وہ میں ہی ہوں ۔ تاہم جب وہ ایک بڑی موت مرے گا تو ایک مدت تک میری ہی تذلیل ہوتی رہے گی۔ مگر جب محمدؐ، خدا کا مقدس رسول آئے گا تو میری وہ بدنامی دور کر دی جائے گی۔ اور خدا یہ اس لیے کرے گا کہ میں نے اس مسیح کی صداقت کا اقرار کیا ہے ۔ وہ مجھے اس کا یہ انعام دے گا کہ لوگ یہ جان لیں گے کہ میں زندہ ہوں اور اس ذلت کی موت سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے ’’(باب ۱۱۳)۔

’’(شاگردوں سے حضرت عیسیٰ نے کہا)؛ بے شک میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر موسیٰ کی کتاب سے صداقت مسخ نہ کر دی گئی ہوتی تو خدا ہمارے باپ داؤد کو ایک دوسری کتاب نہ دیتا۔ اور اگر داؤد کی کتاب میں تحریف نہ کی گئی ہوتی تو خدا مجھے انجیل نہ دیتا، کیونکہ خداوند  ہمارا خدا بدلنے والا نہیں ہے اور اس نے سب انسانوں کو ایک ہی پیغام دیا ہے ۔ لہٰذا جب اللہ کا رسول آئے گا تو وہ اس لیے آئے گا کہ ان ساری چیزوں کو صاف کر دے جن سے بے خدا لوگوں نے میری کتاب کو آلودہ کر دیا ہے ‘‘ (باب ۱۲۴)۔

ان صاف اور مفصل پیشین گوئیوں میں صرف تین چیزیں ایسی ہیں جو بادی النظر میں نگاہ کو کھٹکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں ، اور انجیل برناباس کی متعدد دوسری عبارتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے مسیح ہونے کا انکار کیا ہے ۔ دوسری یہ کہ صرف ان ہی عبارتوں میں نہیں بلکہ اس انجیل کے بہت سے مقامات پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اصل عربی نام ’’محمدؐ‘‘ لکھا گیا ہے ، حالانکہ یہ انبیاء کی پیشین گوئیوں کا یہ عام طریقہ نہیں ہے کہ بعد کی آنے والی کسی ہستی کا اصل نام لیا جائے۔ تیسری یہ کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو مسیح کہا گیا ہے ۔

پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ صرف انجیل برناباس ہی میں نہیں بلکہ لُوقا کی انجیل میں بھی یہ ذکر موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ نے اپنے شاگردوں کو اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ آپ کو مسیح کہیں ۔ لُوقا کے الفاظ یہ ہیں :’’ اس نے ان سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو ؟ پطرس نے جواب میں کہا خدا کا مسیح۔ اس نے ان کو تاکید کر کے حکم دیا کہ یہ کسی سے نہ کہنا ‘‘ (۲۰:۹۔۲۱)۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی اسرائیل جس مسیح کے منتظر تھے اس کے متعلق ان کا خیال یہ تھا کہ وہ تلوار کے زور سے دشمنان حق کو مغلوب کرے گا، اس لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ مسیح میں نہیں ہوں بلکہ وہ میرے بعد آنے والا ہے ۔

دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ برناباس کاجو اطالوی ترجمہ اس وقت دنیا میں موجود ہے اس کے اندر تو حضورؐ کا نام بے شک محمدؐ لکھا ہوا ہے ، مگر یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ کتاب کن کن زبانوں سے ترجمہ ہوتی ہوئی اطالوی زبان میں پہنچی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اصل انجیل برناباس سریانی زبان میں ہو گی، کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی زبان تھی۔ اگر وہ اصل کتاب دستیاب ہوتی تو دیکھا جا سکتا تھا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم گرامی کیا لکھا گیا تھا۔ اب جو کچھ قیاس کیا جا سکتا ہے وہ یہ کہ اصل میں تو حضرت عیسیٰ نے لفظ مُنْحَمنَّا استعمال کیا ہو گا، جیسا کہ ہم ابن اسحاق کے دیے ہوئے انجیل یوحنا کے حوالہ سے بتا چکے ہیں ۔ پھر مختلف مترجموں نے اپنی اپنی زبانوں میں اس کے ترجمے کر دیے ہوں گے ۔ اس کے بعد غالباً کسی مترجم نے یہ دیکھ کر کہ پیشین گوئی میں آنے والے کا جو نام بتایا گیا ہے وہ بالکل لفظ ’’محمدؐ‘‘ کا ہم معنی ہے ، آپ کا یہی اسم گرامی لکھ دیا ہو گا۔ اس لیے صرف اس نام کی تصریح یہ شبہ پیدا کر دینے کے لیے  ہر گز کافی نہیں ہے کہ پوری انجیل برناباس کسی مسلمان نے جعلی تصنیف کر دی ہے ۔

تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ لفظ ’’ مسیح‘‘ در حقیقت ایک اسرائیلی اصطلاح ہے جسے قرآن مجید میں مخصوص طور پر حضرت عیسیٰ کے لیے صرف اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ یہودی ان کے مسیح ہونے کا انکار کرتے تھے اور نہ یہ نہ قرآن کی اصطلاح ہے نہ قرآن میں کہیں اس کو اسرائیلی اصطلاح کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے لفظ مسیح استعمال کیا ہو اور قرآن میں آپ کے لیے یہ لفظ استعمال نہ کیا گیا ہو تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ انجیل برا باس آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرتی ہے جو سے قرآن انکار کرتا ہے ۔ در اصل بنی اسرائیل کے ہاں قدیم طریقہ یہ تھا کہ کسی چیز یا کسی شخص کو جب کسی مقدس مقصد کے لیے مختص کیا جاتا تھا تو اس چیز پر یا اس شخص کے سر پر تیل مل کر اسے متبرک (Consecrate) کر دیا جاتا تھا۔ عبرانی زبان میں تیل ملنے کے اس فعل کو مسح کہتے تھے اور جس پر یہ ملا جاتا تھا اسے مسیح کہا جاتا تھا۔ عبادت گاہ کے ظروف اسی طریقہ سے مسح کر کے  عبادت کے لیے وقف کیے جاتے تھے ۔ کاہنوں کو کہانت (Priesthood) کے  منصب پر مامور کرتے وقت بھی مسح کیا جاتا تھا۔ بادشاہ اور نبی بھی جب خدا کی طرف سے بادشاہت یا نبوت کے لیے نامزد کیے جاتے تو انہیں مسح کیا گاتا۔ چنانچہ بائیبل کی رو سے بنی اسرائیل کی تاریخ میں بہ کثرت مسیح پائے جاتے ہیں ۔ حضرت ہارونؑ  کاہن کی حیثیت سے مسیحؑ تھے ۔ حضرت موسیٰ کاہن اور نبی کی حیثیت سے ، طالوت بادشاہ کی حیثیت سے ، حضرت داؤد بادشاہ اور نبی کی حیثیت سے ، ملکِ صَدَق بادشاہ اور کاہن کی حیثیت سے ، اور حضرت اَلْیَسْع نبی کی حیثیت سے مسیح تھے ۔ بعد میں یہ بھی ضروری نہ رہا تھا کہ تیل مل کر ہی کسی کو مامور کیا جائے، بلکہ محض کسی کا مامور من اللہ ہونا ہی مسیح ہونے ا ہم معنی بن گیا تھا۔ مثال کے طور پر دیکھیے ۱۔ سلاطین، باب ۱۹ میں ذکر آیا ہے کہ خدا نے حضرت الیاس (ایلیاہ) کو حکم دیا کہ حزائیل کر کہ آرام (دمشق) کا بادشاہ ہو، اور نِمسی کے بیٹے یاہو کو مسح کر کہ اسرائیل کا بادشاہ ہو، اور الیشع (الْیَسْع) کو مسح کر کہ تیری جگہ بی ہو۔ ان میں سے کسی کے سر پر بھی تیل نہیں ملا گیا۔ بس خدا کی طرف سے ان کی ماموریت کا فیصلہ سنا دینا ہی گویا انہیں مسح کر دینا تھا۔ پس اسرائیلی تصور کے مطابق لفظ مسیح در حقیقت ’’مامور من اللہ‘‘ کا ہم معنی تھا اور اسی معنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اس لفظ کو استعمال کیا تھا۔(لفظ ’’مسیح‘‘ کے اسرائیلی مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو  سایکلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر، لفظ ’’میْسیاہ‘‘)۔

۹۔ اصل میں لفظ سِحْر استعمال ہوا ہے ۔ سحر یہاں جادو کے نہیں بلکہ دھوکے اور فریب کے معنی میں استعمال ہو ہے ۔ عربی لغت میں جادو کی طرح اس کے یہ معنی بھی معروف ہیں ۔ کہتے ہیں سَحَرَہٗ ای خَدَ عَہٗ ’’اس نے فلاں شخص پر سحر کیا، یعنی اس کو فریب دیا’’۔ دل چھین لینے والی آنکھ کو عین ساحرۃ کہا جاتا ہے ، یعنی ’’ساحر آنکھ‘‘۔ جس زمین میں ہر طرف سراب ہی سَراب نظر آئے اس کو ارض ساحرۃ کہتے ہیں ۔ چاندی کو ملمع کر کے سونے جیسا کر دیا جائے تو کہتے ہیں سُحرت الفضّۃُ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ نبی، جس کے آنے کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی، اپنے نبی ہونے کی بین نشانیوں کے ساتھ آگیا تو بنی اسرائیل اور امت عیسیٰ نے اس کے دعوائے نبوت کو صریح فریب قرار دیا۔

۱۰۔ یعنی اللہ کے بھیجے ہوئے نبی کو جھوٹا مدعی قرار دے ، اور اللہ کے اس کلام کو جو اس کے نبی پر نازل ہو رہا ہو، نبی کا پنا گھڑا ہوا کلام ٹھیرائے۔

۱۱۔ یعنی اول تو سچے نبی کو جھوٹا مدعی کہنا ہی بجائے خود کچھ کم ظلم نہیں ہے ، کجا کہ اس پر مزید ظلم یہ کیا جائے کہ بلانے والا تو خدا کی بندگی و اطاعت کی طرف بلا رہا ہو اور سننے والا جواب میں اسے گالیاں دے اور اس کی دعوت کو زک دینے کے لیے جھوٹ اور بہتان اور افترا پردازیوں کے ہتھکنڈے استعمال کرے ۔

۱۲۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات ۳ ہجری میں جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اس دین کو مٹا دینے  پر تلا ہوا تھا۔ احد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پہنچی تھی، اس کی وجہ سے ان کی ہوا اکھڑ  گئی تھی، اور گردو پیش کے قبائل ان پر شیر ہو گئے تھے ۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشن گوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے  ؟ انسانی نگاہیں تو اس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی آندھیاں چل رہی ہیں ۔

۱۳۔ ’’ مشرکین‘‘ کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں ، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں ۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے ، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے ۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے ۔ یہ کام اسے بہر حال کر کے رہنا ہے ۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہو چکا ہے ۔ایک، سورہ توبہ آیت ۳۳ میں ۔ دوسرے ، سورہ فتح آیت ۲۸ میں ۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۳۲۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ ۵۱ )۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بتاؤں تم کو وہ تجارت (۱۴) جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے ؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول (۱۵) پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے ما لوں  سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیئے بہتر ہے اگر تم جانو(۱۶)۔ اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمھیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی (۱۷)۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمھیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح (۱۸)۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دے دو۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مدد گار بنو جس طرح عیسی مریم نے حواریوں (۱۹) کو خطاب کر کے کہا تھا:" ہم ہیں اللہ کے مدد گار"۔ اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔ پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے (۲۱)۔

۱۴۔ تجارت وہ چیز ہے جس میں آدمی اپنا مال، وقت، محنت اور ذہانت و قابلیت اس لیے کھپاتا ہے کہ اس سے نفع حاصل ہو۔ اسی رعایت سے یہاں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت کہا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس راہ میں اپنا سب کچھ کھپاؤ گے تو وہ نفع تمہیں حاصل ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے ۔ یہی مضمون سورہ توبہ آیت ۱۱۱ میں ایک اور طریقہ سے بیان کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۱۰۶ )۔

۱۵۔ ایمان لانے والوں سے جب کہا جائے کہ ایمان لاؤ، تو اس سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں کہ مخلص مسلمان بنو۔ ایمان کے محض زبانی دعوے پر اکتفا نہ کرو بلکہ جس چیز پر ایمان لائے ہو اس کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔

۱۶۔ یعنی یہ تجارت تمہارے لیے دنیا کی تجارتوں سے زیادہ بہتر ہے ۔

۱۷۔ یہ اس تجارت کے اصل فوائد ہیں جو آخرت کی ابدی زندگی میں حاصل ہوں گے ۔ ایک، خدا کے عذاب سے محفوظ رہنا۔ دوسرے ، گناہوں کی معافی۔ تیسرے ، خدا کی اس جنت میں داخل ہونا جس کی نعمتیں لازوال ہیں ۔

۱۸۔ دنیا میں فتح و کامرانی بھی اگر چہ اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ، لیکن مومن کے لیے اصلی اہمیت کی چیز یہ نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی ہے ۔ اسی لیے جو نتیجہ دنیا کی اس زندگی میں حاصل ہونے والا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا گیا، اور جو نتیجہ آخرت میں رونما ہونے والا ہے اس کے ذکر کو مقدم رکھا گیا۔

۱۹۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کے لیے بائیبل میں عموماً لفظ ’’شاگرد‘‘ استعمال کیا گیا ہے ، لیکن بعد میں ان کے لیے ’’رسول‘‘ (Apostles) کی اصطلاح عیسائیوں میں رائج ہو گئی، اس معنی میں نہیں کہ وہ خدا کے رسول تھے ، بلکہ اس معنی میں کہ حضرت عیسیٰ ان کو اپنی طرف سے مبلغ بنا کر اطراف فلسطین میں بھیجا کرتے تھے ۔ یہودیوں کے ہاں یہ لفظ پہلے سے ان لوگوں کے لیے بولا جاتا تھا جو ہیکل کے لیے چندہ جمع کرنے بھیجے جاتے تھے ۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کی اصطلاح ’’ حواری ‘‘ ان دونوں مسیحی اصطلاحوں سے بہتر ہے ۔ اس لفظ کی اصل حور ہے جس کے معنی سفیدی کے ہیں ۔ دھوبی کو حواری کہتے ہیں کیونکہ وہ کپڑے دھو کر سفید کر دیتا ہے ۔ خالص اور بے آمیز چیز کو بھی حواری کہا جاتا ہے ۔ جس آٹے کو چھان کر بھوسی نکال دی گئی ہو اسے حُوّاریٰ کہتے ہیں ۔ اسی معنی میں خالص دوست اور بے غرض حامی کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ ابن سیدہ کہتا ہے ‘‘ابن سیدہ کہتا ہے ‘‘ ہر وہ شخص جو کسی کی مدد کرنے میں مبالغہ کرے وہ اس کا حواری ہے ‘‘ (لسان العرب)۔

۲۰۔ یہ آخری مقام ہے جہاں قرآن مجید میں ان لوگوں کو اللہ کا مدد گار کہا گیا ہے جو خلق خدا کو دین کی طرف بلانے اور اللہ کے دین کو کفر کے مقابلے میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ اس سے پہلے یہی مضمون سورہ آل عمران، آیت ۵۲ سورہ حج، آیت ۴۰، سورہ محمد، آیت ۷، سورہ حدید، آیت ۲۵ اور سورہ حشر آیت ۸ میں گزر چکا ہے ، اور ان آیات کی تشریح ہم تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ ۵۰، جلد سوم، الحج، حاشیہ ۸۴، جلد پنجم، سورہ محمد، حاشیہ ۱۲، اور سورہ حدید، حاشیہ ۴۷ میں کر چکے ہیں ، نیز سورہ محمد، حاشیہ ۹ میں بھی اس مسئلے کے ایک گوشے پر واضح روشنی ڈالی جاچکی ہے ۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کے ذہن میں یہ الجھن پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ، تمام خلق سے بے نیاز ہے ، کسی کا محتاج نہیں ہے اور سب اس کے محتاج ہیں تو کوئی بندہ آخر اللہ کا مدد گار کیسے ہو سکتا ہے ۔اس الجھن کو رفع کرنے کے لیے ہم یہاں اس مسئلے کی مزید وضاحت کیے دیتے ہیں ۔

دراصل ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار اس لیے نہیں کہا گیا ہے کہ اللہ رب العالمین معاذاللہ کسی کام کے لیے اپنی کسی مخلوق کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ زندگی کے جس دائرے میں اللہ تعالیٰ نے خود انسان کو کفر ایمان اور طاعت و معصیت کی آزادی بخشی ہے اس میں وہ لوگوں کو اپنی قوت قاہرہ سے کام لے کر بجز مومن و مطیع نہیں بناتا بلکہ اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے ان کو راہ راست دکھانے کے لیے تذکیر و تعلیم اور تفہیم و تلقین کا طریقہ اختیار فرماتا ہے ۔ اس تذکیر و تعلیم کو جو شخص بہ رضا و رغبت قبول کر لے وہ مومن ہے ، جو عملاً مطیع فرمان بن جائے و مسلم و قانت اور عابد ہے ، جو خدا ترس کا رویہ اختیار کر لے وہ متقی ہے ، جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے لگے وہ محسن ہے ، اور اس سے مزید ایک قدم آگے بڑھ کر جو اسی تذکیر و تعلیم کے ذریعہ سے بندگان خدا کی اصلاح کے لیے اور کفر و فسق کی جگہ اللہ کی اطاعت کا نظام قائم کرنے کے لیے کام کرنے لگے اسے اللہ تعالیٰ خود اپنا مدد گار قرار دیتا ہے ، جیسا کہ آیات مذکورہ بالا میں کئی جگہ بالفاظ صریح ارشاد ہوا ہے ۔ اگر اصل مقصود اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کے دین کا مدد گار کہنا ہوتا تو اَنْصَارُاللہ کے بجائے اَنْصَا رُ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، یَنْصُرُوْ نَ اللہ کے بجائے یَنْصُرُوْنَ دِیْنِ اللہِ فرمایا جاتا، اِنْ تَنْصُرُوْ اللہَ کے بجائے اِنْتَنْصُرُوْا دِیْنَ اللہِ فرمایا جاتا۔ جب ایک مضمون کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پے درپے کئی مقامات پر ایک ہی طرز بیان اختیار فرمایا ہے تو یہ اس بات پر صریح دلالت کرتا ہے کہ اصل مقصود ایسے لوگوں کو اللہ کا مدد گار ہی کہنا ہے ۔ مگر یہ ’’ مدد گاری‘‘ نعوذ بااللہ اس معنی میں نہیں ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی کوئی ضرورت پوری کرتے ہیں جس کے لیے وہ ان کی مدد کا محتاج ہے ، بلکہ یہ اس معنی میں ہے کہ یہ لوگ اسی کام میں حصہ لیتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ اپنی قوت قاہرہ کے ذریعہ سے کرنے کے بجائے اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے کرنا چاہتا ہے ۔

۲۱۔ مسیح پر ایمان نہ لانے والوں سے مراد یہودی، اور ایمان لانے والوں سے مراد عیسائی اور مسلمان، دونوں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو مسیح کے منکرین پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس بات کو یہاں بیان کرنے سے مقصود مسلمانوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ جس طرح پہلے حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ان کا انکار کرنے والوں پر غالب آ چکے ہیں ، اسی طرح اب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والے آپ کا انکار کرنے والوں پر غالب آئیں گے ۔