تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الحَشر

نام

دوسری آیت کے فقرے اَخْرَجَ الَّذِیْنَ کَفَرُو ا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ مِنْ دِیَا رِھِمْ لِاَ وَّلِ الْحَشْرِ سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہ وہ سورۃ ہے جس میں لفظ الحشر آیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

بخاری و مسلم میں حضرت سعید بن جُبیر کی روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے سور حشر کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ غزوہ بنی نضیر کے بارے میں  نازل ہوئی تھی جس طرح سورہ انفال غزوہ بدر کے بارے میں نازل ہوئی۔ حضرت سعید بن جبیر کی دوسری روایت میں بن عباس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں کہ : قل سورۃ النَّضِیْر  یعنی یوں کہو کہ یہ سورہ نضیر ہے۔ یہی بات مجاہد، قتادہ، زہری، ابن زید، یزید بن رومان، محمد بن اسحاق وغیرہ حضرات سے بھی مروی ہے۔ ان سب کا متفقہ بیان یہ ہے کہ اس میں جن اہل کتاب کے نکالے جانے کا ذکر ہے ان سے مراد نبی النضیر ہی ہیں۔ یزید بن رومان، مجاہد اور محمد بن اسحاق کا قول یہ ہے کہ از اول تا آخر یہ پوری سورۃ اسی غزوہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

اب رہا یہ سوال کہ یہ غزوہ کب واقع ہوا تھا؟ امام زہری نے اس کے متعلق  عُرہ بن زبیر  کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ یہ جنگ بدر کے چھ مہینے بعد ہوا ہے۔ لیکن ابن سعد، ابن ہشام اور بَلَاذُرِی اسے ربیع الاول ۴ ہجری کا واقعہ بتاتے ہیں، اور یہی صحیح ہے۔ کیوں کہ تمام روایات اس امر میں متفق ہیں یہ غزوہ بِڑمَعُونَہ کے سانحہ کے بعد پیش آیا تھا، اور یہ بات بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بئَر معونہ کا سانحہ جنگ احد کے بعد رو نما ہوا ہے نہ کہ اس سے پہلے۔ 

تاریخی پس منظر

اس سورہ کے مضامین کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مدینہ طیبہ اور حجاز کے یہودیوں کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈال لی جائے، کیوں کہ اس کے بغیر آدمی ٹھیک ٹھیک یہ نہیں جان سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخر کار ان کے مختلف قبائل کے ساتھ جو معاملہ کیا اس کے حقیقی اسباب کیا تھے۔

عرب کے یہودیوں کی کوئی مستند تاریخ دنیا میں موجود نہیں ہے۔ انہوں نے خود اپنی کوئی ایسی تحریر کسی کتاب یا کتبے کی شکل میں نہیں چھوڑی ہے جس سے ان کے ماضی پر کوئی روشنی پڑ سکے۔ اور عرب سے باہر کے یہودی مؤرخین و مصنفین نے ان کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جزیرۃ العرب میں آ کر وہ اپنے بقیہ ابنائے ملت سے بچھڑ گئے تھے، اور دنیا کے یہودی سرے سے ان کو اپنوں میں شمار ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ انہوں نے عبرانی تہذیب، زبان، حتیٰ کہ نام تک چھوڑ کر عربیت اختیار کر لی تھی۔ حجاز کے آثار قدیمہ میں جو کتبات ملے ہیں ان میں پہلی صدی عیسوی سے قبل یہودیوں کا کوئی نشان نہیں ملتا، اور ان میں بھی صرف چند یہودی نام ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لیے یہود عرب کی تاریخ کا بیشتر انحصار ان زبانی روایات پر ہے جو اہل عرب میں مشہور تھیں، اور ان میں اچھا خاصا حصہ خود یہودیوں کا اپنا پھیلا ہوا تھا۔

حجاز کے یہودیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ سب سے پہلے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آخر عہد میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔ اس کا قصہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ حضرت موسیٰؑ نے ایک لشکر یثرب کے علاقے سے عَمالقہ کو نکالنے کے لیے بھیجا تھا اور اسے حکم دیا تھا کہ اس قوم کے کسی شخص کو زندہ نہ چھوڑیں، بنی اسرائیل کے اس لشکر نے یہاں آ کر فرمان نبی کی تعمیل کی، مگر عمالقہ کے  بادشاہ کا ایک لڑکا بڑا خوبصورت جوان تھا، اسے انہوں نے زندہ رہنے دیا اور اس کو ساتھ لیے ہوئے فلسطین واپس پہنچے۔ اس وقت حضرت موسیٰ کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے جانشینوں نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک عمالیقی کو زندہ چھوڑ دینا نبی کے فرمان اور شریعت موسوی کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس بنا پر انہوں نے اس لشکر کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا، اور اسے مجبوراً یثرب واپس آ کر یہیں بس جانا پڑا (کتاب الاغانی، ج ۱۹، ص ۹۴)۔ اس طرح یہودی گویا اس بات کے مدعی تھے کہ وہ ۱۲ سو برس قبل مسیح سے یہاں آباد ہیں۔ لیکن در حقیقت اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور اغلب یہ ہے کہ یہودیوں نے یہ افسانہ اس لیے گھڑا تھا کہ اہل عرب پر اپنے قدیم الاصل اور عالی نسب ہونے کی دھونس جمائیں۔

دوسری یہودی مہاجرت، خود یہودیوں کی اپنی روایت کے مطابق ۵۸۷ قبل مسیح میں ہوئی جبکہ بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر کے یہودیوں کو دنیا بھر میں تتر بتر کر دیا تھا۔ عرب کے یہودی کہتے تھے کہ اس زمانے میں ہمارے متعدد قبائل آ کر وادی القریٰ، تیماء اور یثرب میں آباد ہو گئے تھے (فُتُوح البلدان، البالاذری)۔ لیکن اس کا بھی کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ اس سے بھی وہ اپنی قدامت ثابت کرنا چاہتے ہوں۔

در حقیقت جو بات ثابت ہے وہ یہ ہے کہ جب ۷۰ عیسوی میں رومیوں نے فلسطین میں یہودیوں کا قتل عام کیا، اور پھر ۱۳۲ ء میں انہیں اس سر زمین سے بالکل نکال باہر کیا، اس دور میں  بہت سے یہودی قبائل بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوئے تھے، کیونکہ یہ علاقہ فلسطین کے جنوب میں متصل ہی واقع تھا۔ یہاں آ کر انہوں نے جہاں جہاں چشمے اور سر سبز مقامات دیکھے، وہاں ٹھیر گئے اور پھر رفتہ رفتہ اپنے جوڑ توڑ اور سود خواری کے ذریعہ سے ان پر قبضہ جما لیا۔ ایلہ، مقنا، تبوک، تیماء، وادی القریٰ، خدک، اور خیبر پر ان کا تسلط اسی دور میں قائم ہوا۔ اور بنی قرَیظہ، بنی نضیر، بنی یَہدَل، اور بنی قَینُقَاع  بھی اسی دور میں آ کر یثرب پر قابض ہوئے۔

یثرب میں آباد ہونے والے قبائل میں سے بنی نضیر اور بنی قریظہ زیادہ ممتاز تھے، کیونکہ وہ کاہنوں (Priests)یا (Co hens) کے طبقہ میں سے تھے، انہیں یہودیوں میں عالی نسب مانا جاتا تھا  اور ان کو اپنی ملت میں مذہبی ریاست حاصل تھی۔ یہ لوگ جب مدینہ میں آ کر آباد ہوئے اس وقت کچھ دوسرے عرب قبائل یہاں رہتے تھے جن کو انہوں نے دبا لیا اور عملاً اس سر سبز و شاداب مقام کے مالک بن بیٹھے۔ اس کے تقریباً تین صدی بعد ۴۵۰ء یا ۴۵۱ ء میں یمن کے اس سیلاب عظیم کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورہ سبا کے دوسرے رکوع میں گزر چکا ہے۔ اس سیلاب کی وجہ سے قوم سبا کے مختلف قبیلے یمن سے نکل کر عرب کے اطراف میں پھیل جانے پر مجبور ہوئے۔ ان میں سے غسانی شام میں، لخمی جبرہ (عراق) میں، بنی خزاعہ جدہ و مکہ کے درمیان، اور اَوس و خزرج یثرب میں جا کر آباد ہوئے۔ یثرب پر چونکہ یہودی چھائے ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اول اول اوس و خزرج کی دال نہ گلنے دی اور یہ دونوں عرب قبیلے چار و ناچار بنجر زمینوں پر بس گے جہاں ان کو قوت الایموت بھی مشکل سے حاصل ہوتا تھا۔ آخر کر ان کے سرداروں میں سے ایک شخص اپنے غسانی بھائیوں سے مدد مانگنے کے لیے شام گیا اور وہاں سے ایک لشکر لا کر اس نے یہودیوں کا زور توڑ دیا۔ اس طرح اوس، و خزرج کو یثرب پر پورا غلبہ حاصل ہو گیا۔ یہودیوں کے دو بڑے قبیلے، بنی نضیر اور بنی قریظہ شہر کے باہر جا کر بسنے پر مجبور  ہو گئے۔ تیسرے قبیلے بنی قَینقاع کی چونکہ ان دونوں قبیلوں سے ان بن تھی اس لیے وہ شہر کے اندر ہی مقیم رہا، مگر یہاں رہنے کے لیے اسے قبیلہ خزرج کی پناہ لینی پڑی۔ اور اس کے مقابلہ میں بنی نضیر و بنی قریظہ نے قبیلہ اوس کی پناہ لی تاکہ اطراف یثرب میں امن کے ساتھ رہ سکیں۔ ذیل کے نقشہ سے واضح ہو گا کہ اس نئے انتظام کے ماتحت یثرب اور اس کے نواح میں یہودی بستیاں کہاں کہاں تھیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے، آغاز ہجرت تک، حجاز میں عموماً اور یثرب میں خصوصاً یہودیوں کی پوزیشن کے نمایاں خد و خال یہ تھے :

زبان، لباس، تہزیب، تمدن، ہر لحاظ سے انہوں نے پوری طرح عربیت کا رنگ اختیار کر لیا تھا، حتیٰ کہ ان کی غالب اکثریت کے نام تک عربی ہو گئے تھے۔ ۱۲ یہودی قبیلے جو حجاز میں آباد ہوئے تھے، ان میں سے بنی زَعُوراء کے سوا کسی قبیلے کا نام عبرانی نہ تھا۔ان کے چند گنے چنے علماء کے سوا کوئی عبرانی جانتا تک نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کے یہودی شاعروں کا جو کلام ہمیں ملتا ہے ان کی زبان اور خیالات اور مضامین میں شعرائے عرب سے الگ کوئی امتیازی شان نہیں پائی جاتی جو انہیں ممیز کرتی ہو۔ ان کے اور عربوں کے درمیان شادی بیاہ تک کے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ در حقیقت ان میں اور عام عربوں میں دین کے سوا کوئی فرق باقی نہ رہا تھا۔ لیکن ان ساری باتوں کے باوجود وہ عربوں میں جذب بالکل نہ ہوئے تھے، اور انہوں نے شدت کے ساتھ اپنی یہودی عصبیت برقرار رکھی تھی۔ یہ ظاہری عربیت انہوں نے صرف اس لیے اختیار کی تھی کہ اس کے بغیر وہ عرب میں نہ رہ سکتے تھے۔

ان کی اس عربیت کی وجہ سے مغربی مستشرقین کو یہ دھوکا ہوا ہے کہ شاید یہ بنی اسرائیل نہ تھے بلکہ یہودی مذہب قبول کرنے والے عرب تھے، یا کم از کم ان کی اکثریت عرب یہودیوں پر مشتمل تھی۔ لیکن اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملتا کہ یہودیوں نے حجاز میں کبھی  کوئی تبلیغی سرگرمی دکھائی ہو، یا ان کے علماء نصرانی پادریوں اور مشنریوں کی طرح اہل عرب کو دین یہود کی طرف دعوت دیتے ہوں۔ اس کے برعکس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اندر اسرائیلیت کا شدید تعصب اور نسلی فخر و غرور پایا جاتا تھا۔ اہل عرب کو وہ اُمّی (Gentiles) کہتے تھے، جس کے معنی صرف ان پڑھ کے نہیں بلکہ وحشی اور جاہل کے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ ان امیوں کو وہ انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں جو اسرائیلیوں کے لیے ہیں اور ان کا مال ہر جائز و نا جائز طریقے سے مار کھانا اسرائیلیوں کے لیے حلال و طیب ہے۔ سرداران عرب کے ماسوا، عام عربوں کو وہ اس قابل نہ سمجھتے تھے کہ انہیں دین یہود میں داخل کر کے برابر کا درجہ دے دیں۔ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، نہ روایات عرب میں ایسی کوئی شہادت ملتی ہے کہ کسی عرب قبیلے یا کسی بڑے خاندان نے یہودیت قبول کی ہو۔ البتہ بعض افراد کا ذکر ضرور ملتا ہے جو یہودی ہو گئے تھے۔ ویسے بھی یہودیوں کو تبلیغ دین کے بجائے صرف اپنے کاروبار سے دلچسپی تھی۔ اسی لیے حجاز میں یہودیت ایک دین کی حیثیت سے نہیں پھیلی بلکہ محض چند اسرائیلی قبیلوں کا سرمایہ  فخر و ناز ہی بنی رہی۔ البتہ یہودی علماء نے تعویذ گنڈوں اور فال گیر اور جادو گری کا کاروبار خوب چمکا رکھا تھا جس کی وجہ سے عربوں پر ان کے ’’ علم‘‘ اور ’’عمل‘‘ کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔  

معاشی حیثیت سے ان کی پوزیشن عرب قبائل کی بہ نسبت زیادہ مضبوط تھی۔ چونکہ وہ فلسطین و شام کے زیادہ متمدن علاقوں سے آئے تھے، اس لیے وہ بہت سے ایسے فنون جانتے تھے جو اہل عرب میں رائج نہ تھے۔ اور باہر کی دنیا سے ان کے کاروباری تعلقات بھی تھے۔ ان وجوہ سے یثرب اور بالائی حجاز میں غلے کی در آمد اور یہاں سے چھوہاروں کی  برآمد ان کے ہاتھ  میں آ گئی تھی۔ مرغ بانی اور ماہی گیری پر بھی زیادہ تر انہی کا قبضہ تھ۔ پارچہ بانی کا کام بھی ان کے ہاں ہوتا تھا۔ جگہ جگہ  میخانے بھی انہوں نے قائم کر رکھے تھے جہاں شام سے شراب لا کر فروخت کی جاتی تھی۔ نبی قینقاع زیادہ تر سنار اور لوہار اور ظروف سازی کا پیشہ کرتے تھے۔ اس سارے بَنَج بیوپار میں یہ یہودی بے تحاشا منافع خوری کرتے تھے۔ لیکن ان کا سب سے بڑا کاروبار سود خواری کا تھا جس کے جال میں انہوں نے گرد و پیش کی عرب آبادیوں کو پھانس رکھا تھا،اور خاص طور پر عرب قبائل کے شیوخ اور سردار، جنہیں قرض لے لے کر ٹھاٹھ جمانے اور شیخی بگھارنے کی بیماری لگی ہوئی تھی، ان کے پھندے میں پھنسے ہوئے تھے۔  یہ بھاری شرح سود پر قرضے دیتے، اور پھر سود در سود کا چکر چلاتے تھے جس کی گرفت میں آ جانے کے بعد مشکل ہی سے کوئی نکل سکتا تھا۔ اس طرح انہوں نے عربوں کو معاشی حیثیت سے کھوکھلا کر رکھا تھا، مگر اس کا فطری نتیجہ یہ بھی تھا کہ عربوں میں بالعموم ان کے خلاف ایک گہری نفرت پائی جاتی تھی۔

ان کے تجارتی اور مالی مفادات کا تقاضا یہ تھا کہ عربوں میں کسی کے دوست بن کر کسی سے نہ بگاڑیں اور نہ ان کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لیں۔ لیکن دوسری طرف ان کے مفاد ہی کا تقاضا یہ بھی تھا کہ عربوں کو باہم متحد نہ ہونے دیں، اور انہیں ایک دوسرے سے لڑاتے رہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے تھے کہ جب بھی عرب قبیلے باہم متحد ہوئے، وہ ان بڑی بڑی جائدادوں اور باغات اور سرسبز زمینوں پر انہیں قابض نہ رہنے دیں گے جو انہوں نے اپنی منافع خوری اور سود خواری سے پیدا کی تھیں۔ مزید برآں اپنی حفاظت کے لیے ان کے ہر قبیلے کو کسی نہ کسی طاقت ور عرب قبیلے سے حلیفانہ تعلقات بھی قائم کرنے پڑتے تھے، تاکہ کوئی دوسرا زبردست قبیلہ ان پر ہاتھ نہ ڈال سکے۔ اس بنا پر بارہا انہیں نہ صرف ان عرب قبائل کی باہمی لڑائیوں میں حصہ لینا پڑتا تھا، بلکہ بسا اوقات ایک یہودی قبیلہ اپنے حلیف عرب قبیلہ کے ساتھ مل کر کسی دوسرے یہودی قبیلے کے خلاف جنگ آزما ہو جاتا تھا جس کے حلیفانہ تعلقات فریق مخالف سے ہوتے تھے۔ یثرب میں بنی قیرظہ اور بنی نضیر اوس کے حلیف تھے اور بنی قینقاع خزرج کے۔ ہجرت سے تھوڑی مدت پہلے اوس اور خزرج کے درمیان جو خونریز لڑائی بُعاث کے مقام پر ہوئی تھی اس میں یہ اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے تھے۔

یہ حالات تھے جب مدینے میں اسلام پہنچا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہاں ایک اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ آپ نے اس ریاست کو قائم کرتے ہی جو اولین کام کیے ان میں سے ایک یہ تھا کہ اوس اور خزرج اور مہاجرین کو ملا کر ایک برادری بنائی، اور دوسرا یہ تھا کہ اس مسلم معاشرے اور یہودیوں کے درمیان واضح شرائط پر ایک معاہدہ طے کیا جس میں اس امر کی ضمانت دی گئی تھی کہ کوئی کسی کے حقوق پر دست درازی نہ کرے گا اور بیرونی دشمنوں کے مقابلے میں یہ سب متحدہ دفاع کریں گے۔ اس معاہدے کے چند اہم فقرے یہ ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور مسلمانوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں کن امور کی پابندی قبول کی تھی:

ان علی الیھود نفقتھم و علی المسلمین نفقتھم، وان بینھم النصر علیٰ من حارب اھل ھٰذہ الصحیفۃ، وان بینہم النصح النصیحۃ والبردون الاٹم، وانہ لم یا ٹم امرؤٌ بحلیفہ، وان الجصر للمظلوم، وان الیھود ینفقون مع المؤمنین مادامو امحاربین، وان یثرب حرام جو فھا لا ھل ھٰذہ الصحیفۃ ……… وانہ ما کان بین اھل ھٰذہ الصحیفۃ من حَدَثٍ اوا شتجار یخاف فساعہ فان مردہ الی اللہ عزو جل و الیٰ محمد رسولاللہ ……… وانہ لا تجار قریش ولا من نصرھا، وان بینھم النصر علی من دھم یثرب۔ علی کل اناس حصتہم من جانبھم الذی قِبَلَھم۔ (ابن ہشام،ج ۲، ص ۱۴۷ تا ۱۵۰ )

’’یہ کہ یہودی اپنا خرچ اٹھائیں گے اور مسلمان اپنا خرچ، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء حملہ آور کے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کے پابند ہوں گے۔ اور یہ کہ وہ خلوص کے ساتھ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور ان کے درمیان نیکی و حق رسانی کا تعلق ہو گا نہ کہ گناہ اور زیادتی کا، اور یہ کہ کوئی اپنے حلیف کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا، اور یہ کہ مظلوم کی حمایت کی جائے گی، اور یہ کہ جب تک جنگ رہے یہودی مسلمانوں کے ساتھ مل کر اس کے مصارف اٹھائیں گے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء پر یثرب میں کسی نوعیت کا فتنہ و فساد کرنا حرام ہے، اور یہ کہ اس معاہدے کے شرکاء کے درمیان اگر کوئی ایسا قضیہ یا اختلاف رونما ہو جس سے فساد کا خطرہ ہو تو اس کا فیصلہ اللہ کے قانون کے مطابق محمد رسول اللہ کریں گے، ………… اور یہ کہ قریش اور اس کے حامیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی اور یہ کہ یثرب پر جو بھی حملہ آسر ہو اس کے مقابلے میں شرکاء معاہدہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے ……… ہر فریق اپنی جانب کے علاقے کی مدافعت کا ذمہ دار ہو گا۔

یہ ایک قطعی اور واضح معاہدہ تھا جس کی شرائط یہودیوں نے خود قبول کی تھیں۔ لیکن بہت جلدی انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف معاندانہ روش کا اظہار شروع کر دیا اور ان کا عناد روز بروز سخت سے سخت تر ہوتا چلا گیا۔ اس کے بڑے بڑے وجوہ تین تھے۔

ایک یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو محض ایک رئیس قوم دیکھنا چاہتے تھے جو ان کے ساتھ بس ایک سیاسی معاہدہ کر کے رہ جائے اور صرف اپنے گروہ کے دنیوی مفاد سے سروکار رکھے مگر انہوں نے دیکھا کہ آپ تو اللہ اور آخرت اور رسالت اور کتاب  پر ایمان لانے کی دعوت دے رہے ہیں (جس میں کود ان کے اپنے رسولوں اور کتابوں پر ایمان لانا بھی شامل تھا) اور معصیت چھوڑ کر ان احکام الہیٰ کی اطاعت اختیار کرنے اور ان اخلاقی حدود کی پابندی کرنے کی طرف بلا رہے ہیں جن کی طرف خود ان کے انبیاء بھی دنیا کو بلاتے رہے ہیں۔ یہ چیز ان کو سخت ناگوار تھی۔ ان کو خطرہ پیدا ہو گیا کہ یہ عالمگیر اصولی تحریک اگر چل پڑی تو اس کا سیلاب ان کی جامد مذہبیت اور ان کی نسلی قومیت کو بہا لے جائے گا۔

دوسرے یہ کہ اوس و خزرج اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنتے دیکھ کر، اور یہ دیکھ کر کہ گرد و پیش کے عرب قبائل میں سے بھی جو لوگ اسلام کی اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں وہ سب مدینے کی اس اسلامی برادری میں شامل ہو کر ایک ملت بنتے جا رہے ہیں، انہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا کہ صدیوں سے اپنی سلامتی اور اپنے مفادات کی ترقی کے لیے انہوں نے عرب قبیلوں میں پھوٹ ڈال کر اپنا الو سیدھا کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی تھی وہ اب اس نئے نظام میں نہ چل سکے گی بلکہ اب ان کو عربوں کی ایک متحدہ طاقت سے سابقہ پیش آئے گا جس کے آگے ان کی چالیں کامیاب نہ ہو سکیں گی۔

تیسرے یہ کہ معاشرے اور تمدن کی جو اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کر رہے تھے اس میں کاروبار اور لین دین کے تمام نا جائز طریقوں کا سد باب شامل تھا، اور اب سے بڑھ کر یہ کہ سود کو بھی آپ ناپاک کمائی اور حرام خوری قرار دے رہے تھے جس سے انہیں خطرہ تھا کہ اگر عرب پر آپ کی فرمانروائی قائم ہو گئی تو آپ اسے قانوناً ممنوع کر دیں گے۔ اس میں ان کو اپنی موت نظر آتی تھی۔

ان وجوہ سے انہوں نے حضورؐ کی مخالفت کو اپنا قومی نصب العین بنا لیا۔ آپ کو زک دینے کے لیے کوئی چال، کوئی تدبیر اور کوئی ہتھکنڈا استعمال کرنے میں ان کو ذرہ برابر تامل نہ تھا۔ وہ آپ کے خلاف طرح طرح کی جھوٹی باتیں پھیلاتے تھے تاکہ لوگ آپ سے  بد گمان ہو جائیں۔ اسلام قبول کرنے والوں کے دلوں میں ہر قسم کے شکوک و شبہات اور وسوسے ڈالتے تھے تاکہ وہ اس دین سے بر گشتہ ہو جائیں۔ خود جھوٹ موٹ کا اسلام قبول کرنے کے بعد مرتد ہو جاتے تھے تاکہ لوگوں میں اسلام اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں پھیلائی جا سکیں۔ فتنے بر پا کرنے کے لیے منافقین سے ساز باز کرتے تھے۔ ہر اس شخص اور گروہ اور قبیلے سے رابطہ پیدا کرتے تھے جو اسلام کا دشمن ہوتا تھا۔ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور ان کو آپس میں لڑا دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ اوس اور خزرج کے لوگ خاص طور پر ان کے ہدف تھے جن سے ان کے  مدتہائے دراز کے تعلقات چلے آ رہے تھے۔ جنگ بعاث کے تذکرے چھیڑ چھیڑ کر وہ ان کو پرانی دشمنیاں یاد دلانے کی کوشش  کرتے تھے تاکہ ان کے درمیان پھر ایک دفعہ تلوار چل جائے اور اخوت کا وہ رشتہ تار تار ہو جائے جس میں اسلام نے ان کو باندھ دیا تھا۔ مسلمانوں کو مالی حیثیت سے تنگ کرنے کے لیے بھی وہ ہر قسم کی دھاندلیاں کرتے تھے۔ جن لوگوں  سے ان کا پہلے سے لین دین تھا، ان میں سے جونہی کوئی شخص اسلام قبول کرتا وہ اس کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے تھے۔ اگر اس سے کچھ لینا ہوتا تو تقاضے کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتے، اور اگر اسے کچھ دینا ہوتا تو اس کی رقم مار کھاتے تھے اور علانیہ کہتے تھے کہ جب ہم نے تم سے معاملہ کیا تھا اس وقت تمہارا دین کچھ اور تھا، اب چونکہ تم نے اپنا دین بدل دیا ہے اس لیے ہم پر تمہارا کوئی حق باقی نہیں ہے۔اس کی متعدد مثالیں تفسیر طبری تفسیر نیسابوری، تفسیر طبرسی اور تفسیر روح المعانی میں سورہ آل عمران، آیت ۷۵ کی تشریح کرتے ہوئے نقل کی گئی ہیں۔

معاہدے کے خلاف یہ کھلی کھلی معاندانہ روش تو جنگ بدر سے پہلے ہی وہ اختیار کر چکے تھے۔ مگر جب بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کو قریش پر فتح مبین حاصل ہوئی تو وہ تلملا اٹھے اور ان کے بغض کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی۔ اس جنگ سے وہ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ قریش کی طاقت سے ٹکرا کر مسلمانوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی لیے انہوں نے فتح اسلام کی خبر پہنچنے سے پہلے مدینے میں یہ افواہیں اڑانی شروع کر دی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم شہید ہو گئے، اور مسلمانوں کو شکست فاش ہوئی، اور اب ابوجہل کی قیادت میں قریش کا لشکر مدینے کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن جب نتیجہ ان کی امیدوں اور تمناؤں کے خلاف نکلا تو وہ غم اور غصے کے مارے پھٹ پڑے۔ بنی نضیر کا سردار کعب بن اشرف چیخ اٹھا کہ ’’ خدا کی قَسم اگر محمدؐ نے ان اشراف عرب کو قتل کر دیا ہے تو زمین کا پیٹ ہمارے لیے اس کی  پیٹھ سے زیادہ بہتر ہے ‘‘۔ پھر وہ مکہ پہنچا اور بدر میں جو سرداران قریش مارے گئے تھے ان کے نہایت اشتعال انگیز مرثیے کہہ کر مکہ والوں کو انتقام پر اکسایا۔ پھر مدینہ واپس آ کر اس نے اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے ایسی غزلیں کہنی شروع کیں جن میں مسلمان شرفاء کے ساتھ عشق کیا گیا تھا۔ آخر کار اس کی شرارتوں سے  تنگ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول ۳ ھ میں محمد بن مسلمہ انصاری کو بھیج کر اسے قتل کرا دیا (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔

یہودیوں کا پہلا قبیلہ جس نے اجتماعی طور پر جنگ بدر کے بعد کھلم کھلا اپنا معاہدہ توڑ دیا، بنی قینقاع تھا، یہ لوگ خود شہر مدینہ کے اندر ایک محلہ میں آباد تھے اور چونکہ یہ سنار، لوہار اور ظروف ساز تھے، اس لیے ان کے بازار میں اہل مدینہ کثرت سے جانا آنا پڑتا تھا۔ ان کو اپنی شجاعت پر بڑا ناز تھا۔ آہن گر ہونے کی وجہ سے ان کا بچہ بچہ مسلح تھا۔ سات سو مردان جنگی ان کے اندر موجود تھے۔ اور ان کو اس بات کا بھی زعم تھا کہ قبیلہ خزرج سے ان کے پرانے حلیفانہ تعلقات تھے اور خزرج کا سردار عبداللہ بن ابی ان کا پشتی بان تھا۔ بدر کے واقعہ سے یہ اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اپنے بازار میں آنے جانے والے مسلمانوں کو ستا نا، اور خاص طور پر ان کی عورتوں کو چھیڑنا شروع  کر دیا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک روز ان کے بازار میں ایک مسلمان عورت کو بر سر عام برہنہ کر دیا گیا۔ اس پر سخت جھگڑا ہوا اور ہنگامے میں ایک مسلمان اور ایک یہودی قتل ہو گیا۔جب حالات اس حد کو پہنچ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے محلہ میں تشریف لے گئے اور ان کو جمع کر کے آپ نے ان کو راہ راست پر آنے کی تلقین فرمائی۔ مگر انہوں نے جواب دیا’’ اے محمدؐ، تم نے شاید ہمیں بھی قریش سمجھا ہے؟ وہ لڑنا نہیں جانتے تھے،اس لیے تم نے انہیں مار لیا۔ ہم سے سابقہ پیش آئے گا تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ مرد کیسے ہوتے ہیں۔ ‘‘  یہ گویا صاف صاف اعلان جنگ تھا۔ آخر کار رسول اللہ علیہ و سلم نے شوال (اور بروایت بعض ذی القعدہ) ۲ ھ کے آخر میں ان کے محلہ کا محاصرہ کر لیا۔ صرف پندرہ روز ہی یہ محاصرہ رہا تھا کہ انہوں نے ہتھیار ڈال دیے اور ان کے تمام قابل جنگ آدمی باندھ لیے گئے۔ اب عبداللہ بن ابی ان کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے سخت اصرار کیا کہ آپ انہیں معاف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے اس کی درخواست قبول کر کے یہ فیصلہ فرما دیا کہ بنی قینقاع اپنا سب مال، اسلحہ اور آلات صنعت چھوڑ کر مدینہ سے نکل جائیں (ابن سعد، ابن ہشام، تاریخ طبری)۔ ان دو سخت اقدامات (یعنی بنی قینقاع کے اخراج اور کعب بن اشرف کے قتل) سے کچھ مدت تک یہودی اتنے خوف زدہ رہے کہ انہیں کوئی مزید شرارت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مگر اس کے بعد شوال ۳ ھ میں قریش کے لوگ جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لیے بڑی تیاریوں کے ساتھ مدینہ پر چڑھ کر آئے، اور ان یہودیوں نے دیکھا کہ قریش کی تین ہزار فوج کے مقابلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف ایک ہزار آدمی لڑنے کے لیے نکلے ہیں، اور ان میں سے بھی تین سو منافقین الگ ہو کر پلٹ آئے ہیں، تو انہوں نے معاہدے کی پہلی اور صریح خلاف ورزی اس طرح کی کہ مدینہ کی مدافعت میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوئے، حالانکہ وہ اس کے پابند تھے۔ پھر جب معرکہ احد میں مسلمانوں کو نقصان عظیم پہنچا تو ان کی جرأتیں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ بنی نضیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک سازش کی جو عین وقت پر ناکام ہو گئی اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ بئر معونہ کے سانحہ (صفر ۴ ھ) کے بعد عمرو بن امیہ ضمری نے انتقامی کار روائی کے طور پر غلطی سے بنی عامر کے دو آدمیوں کو قتل کر دیا جو دراصل ایک معاہِلہ قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے مگر عمرو نے ان کو دشمن قبیلہ کے آدمی سمجھ لیا تھا۔ اس غلطی کی وجہ سے ان کا خون بہا مسلمانوں پر واجب آگیا تھا، اور چونکہ بنی عامر کے ساتھ معاہدے میں بنی نضیر بھی شریک تھ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چند صحابہ کے ساتھ خود ان کی بستی میں تشریف لے گئے تاکہ خون بہا کی ادائیگی میں ان کو بھی شرکت کی دعوت دین۔ وہاں انہوں نے آپ کو چکنی چپڑی باتوں میں لگا یا اور اندر ہی اندر یہ سازش کی کہ ایک شخص اس مکان کی چھت پر سے آپ کے اوپر ایک  بھاری پتھر گرا  دے جس کی دیوار کے سائے میں آپ تشریف فرما تھے۔ مگر قبل اس کے کہ وہ اپنی اس تدبیر پر عمل کرتے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بر وقت خبردار کر دیا، اور آپ فوراً وہاں سے اٹھ کر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

اب ان کے ساتھ  کسی رعایت کا سوال باقی نہ رہا۔ حضورؐ نے ان کو بلاتا خیر یہ الٹی میٹم بھیج دیا کہ تم نے جو غداری کرنی چاہی تھی وہ میرے علم میں آ گئی ہے۔ لہٰذا دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جاؤ، اس کے بعد اگر تم یہاں ٹھیرے رہے تو جو شخص بھی تمہاری بستی میں پایا جائے گا۔ اس کی گردن مار دی جائے گی۔ دوسری طرف عبداللہ بن ابی نے ان کو پیغام بھیجا کہ میں دو ہزار آدمیوں سے تمہاری مدد کروں گا، بنی قریظہ  اور بنی غطفان بھی تمہاری مدد کو آئیں گے، تم ڈٹ جاؤ اور ہر گز اپنی جگہ نہ چھوڑو۔ اس جھوٹے بھروسے پر انہوں نے حضورؐ کے الٹی میٹم کا یہ جواب دیا کہ ہم یہاں سے ہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکے کر لیجیے۔ اس پر ربیع الاول ۴ ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا محاصرہ کر لیا، اور صرف چند روز کے محاصرہ کے بعد (جس کی مدت بعض روایات میں چھ دن اور بعض میں پندرہ دن آئی ہے )وہ اس شرط پر مدینہ چھوڑ دینے کے لیے راضی ہو گئے کہ اسلحہ کے سوا جو کچھ بھی وہ اپنے اونٹوں پر لاد کر لے جا سکیں گے لے جائیں گے۔ اس طرح یہودیوں کے اس دوسرے شریر قبیلے سے مدینہ کی سر زمین خالی کرالی گئی۔ ان میں سے صرف دو آدمی مسلمان ہو کر یہاں ٹھیر گئے۔ باقی شام اور خیبر کی طرف نکل گئے۔

یہی واقعہ ہے جس سے اس سورہ میں بحث کی گئی ہے۔ 

موضوع اور مضامین

سورۃ کا موضوع، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، جنگ بنی نضیر پر تبصرہ ہے۔ اس میں بحیثیت مجموعی چار مضامین بیان ہوئے ہیں۔

(۱)۔ پہلی چار آیتوں میں دنیا کو اس انجام سے عبرت دلائی گئی ہے جو ابھی ابھی بنی نضیر نے دیکھا تھا۔ ایک بڑا قبیلہ جو کے افراد کی تعداد اس وقت مسلمانوں کی تعداد سے کچھ کم نہ تھی، جو مال و دولت میں مسلمانوں سے بہت بڑھا ہوا تھا، جس کے پاس جنگی سامان کی بھی کمی نہ تھی، جس کی گڑھیاں بڑی مضبوط تھیں، صرف چند روز کے محاصرے کی تاب بی نہ لاسکا اور بغیر اس کے کہ کسی ایک آدمی کے قتل کی بھی نوبت آئی ہوتی وہ اپنی صدیوں کی جمائی بستی چھوڑ کر جلا وطنی قبول کرنے پر آمادہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ مسلمانوں کی طاقت کا کرشمہ نہیں تھا بلکہ اس بات کا نتیجہ تھا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے نبرد آزما ہوئے تھے اور جو لوگ اللہ کی طاقت سے ٹکرانے کی جرأت کریں وہ ایسے ہی انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔

(۲)۔ آیت ۵ میں قانون جنگ کا یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے دشمن ے علاقے میں جو تخریبی کار روائی کی جائے وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی۔

(۳)۔ آیت ۶ سے ۱۰ تک یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک کی زمینوں اور جائدادوں کا بندوبست کس طرح کیا جائے جو جنگ یا صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے زیر نگیں آئیں۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک مفتوحہ علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اس لیے یہاں اس کا قانون بیان کر دیا گیا۔

(۴)۔ آیت ۱۱ سے ۱۷ تک منافقین کے اس رویہ پر تبصرہ کیا گیا ہے جو انہوں نے جنگ بنی نضیر کے موقع پر اختیار کیا تھا، اور ان اسباب کی نشان دہی کی گئی ہے جو در حقیقت ان کے اس رویہ کی تہ میں کام کر رہے تھے۔

(۵)۔ آخری رکوع پورا ایک نصیحت ہے جس کے مخاطب وہ تمام لوگ ہیں جو ایمان کا دعویٰ کر کے مسلمانوں کی گروہ میں شامل ہو گئے ہوں، مگر ایمان  کی اصل روح سے خالی رہیں۔ اس میں ان کو بتایا گیا ہے کہ ایمان کا اصل تقاضا کیا ہے، تقویٰ اور فسق میں حقیقی فرق کیا ہے، جو قرآن کو ماننے کا دعویٰ کر رہے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے، اور جس خدا پر ایمان لانے کا وہ اقرار کرتے ہیں وہ کن صفات کا حامل ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
اللہ ہی کی تسبیح کی ہے  ہر اس چیز نے آسمانوں اور زمین میں سے، اور وہی غالب اور حکیم ہے (۱)۔وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے (۲) میں ان کے گھروں سے نکال باہر کیا (۳)۔ تمھیں ہر گز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں (۴) گی۔ مگر اللہ ایسے رخ سے ان پر آیا جدھر ان کا خیال بھی نہ گیا تھا(۵)۔ اس نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے  تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کر وار  ہے (۶) تھے۔ پس عبرت حاصل کر و اے دیدہ بینا رکھنے والو (۷) !
اگر اللہ نے ان کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا،(۸)۔ اور آخرت میں تو ان کے لیئے دوزخ کا عذاب ہے ہی۔ یہ سب کچھ اس لیئے ہوا کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا، اور جو بھی اللہ کا مقابلہ کرے اللہ اس کو سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ تم لوگوں نے کھجوروں کے جو درخت کاٹے یا جن کو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا، یہ سب اللہ ہی کے اذن سے تھا(۹)۔ اور (اللہ نے یہ اذن اس لیئے دیا ) تاکہ فاسقوں کو ذلیل و خوار کرے (۱۰)۔
اور جو مال اللہ نے ان کے قبضے سے نکال کر اپنے رسول کی طرف پلٹا دیئے، وہ ایسے مال نہیں ہیں جن پر تم نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑائے ہوں، بلکہ اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے۔ تسلط عطا فرما دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے (۱۲)۔ جو کچھ بھی اللہ ان بستیوں کے لوگوں سے اپنے کی طرف پلٹا دے دہ اللہ پلٹا دے دہ اللہ اور رسول اور رشتہ داروں اور یتامیٰ اور مساکین اور مسافروں کے لیئے (۱۳) ہے تا کہ وہ تمہارے مالداروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتا رہے (۱۴)۔ جو کچھ رسول تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو دے اس سے رک جاؤ اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا (۱۵)ہے۔ (نیز وہ مال ان غریب مہاجرین کے لیئے ہے جو اپنے گھروں اور جائدادوں نکال باہر کیے گے ہیں (۱۶)۔ یہ لوگ اللہ کا فضل اور کی خشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت پر کمر بستہ رہتے ہیں۔ یہی راستباز لوگ ہیں، (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ہی ایمان لا کر دار الہجرت میں مقیم تھے (۱۷)۔ یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آئے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دید یا جائے اس کی کوئی حاجت تک یہ اپنے دلوں میں محسوس نہیں کرتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں (۱۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لیئے گئے وہی فلاح پا نے والے ہیں (۱۹)۔ (اور وہ ان لوگوں کے لیئے بھی ہے ) جو ان اگلوں کے بعد آئے ہیں، (۲۰)۔ جو کہتے ہیں کہ '' اے ہمارے رب، ہمیں اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے لیئے کوئی بغض نہ رکھ، اے ہمارے رب، تو بڑا مہر بان اور رحیم (۲۱)۔ع

 

۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،جلد پنجم، تفسیر سورہ الحدید، حاشیہ۔۱، و ۲، بنی نضیر کے اخراج پر تبصرہ شروع کرنے سے پہلے یہ تمہیدی فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود ذہن کو یہ حقیقت سمجھنے کے لیے تیار کرنا ہے کہ اس طاقتور یہودی قبیلے کے ساتھ  جو معاملہ پیش آیا وہ مسلمانوں کی طاقت کا نہیں بلکہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ تھا۔

۲۔ اصل الفاظ ہیں لِاَوَّ لِ الْحَشْرِ۔ حشر کے معنی ہیں منتشر افراد کو اکٹھا کرنا، یا بکھرے ہوئے اشخاص کو جمع کر کے نکالنا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی ہیں پہلے حشر کے ساتھ یا پہلے حشر کے موقع پر۔ اب رہا یہ سوال کی اس جگہ اول حشر سے مراد کیا ہے، تو اس میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کے نزدیک اس سے مراد بنی نضیر کا مدینہ سے اخراج ہے، اور اس کو ان کا پہلا حشر اس معنی میں کہا گیا ہے کہ ان کا دوسرا حشر حضرت عمرؓ کے زمانے میں ہوا جب یہود نصاریٰ کو جزیرۃالعرب سے نکالا گیا، اور آخری حشر قیامت کے روز ہو گا۔ دوسرے گروہ کے نزدیک اس سے مراد مسلمانوں کی فوج کا اجتماع ہے جو بنی نضیر سے جنگ کرنے کے لیے ہوا تھا۔ اور لِاَوَّلِ الْحَشْر کے معنی یہ ہیں کہ ابھی مسلمان ان سے لڑنے کے لیے جمع ہی ہوئے تھے اور کشت و خون کی نوبت بھی نہ آئی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ جلا وطنی کے لیے تیار ہو گئے۔ بالفاظ دیگر یہاں یہ الفاظ باوّل وَھلہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس کا ترجمہ کیا ہے۔ ’’ در اوّل جمع کردنِ لشکر‘‘۔ اور شاہ عبدالقادر صاحب کا ترجمہ ہے ’’پہلے ہی بھیڑ ہوتے  ‘‘۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا مفہوم ہی ان الفاظ کا متبادر مفہوم ہے۔

۳۔ اس مقام پر ایک بات آغاز ہی میں سمجھ لینی چاہیے تاکہ بنی نضیر کے اخراج کے معاملہ میں کوئی ذہنی الجھن پیدا نہ ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بنی نضیر کا باقاعدہ تحریری معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کو انہوں نے رد نہیں کیا تھا کہ معاہدہ ختم ہو جاتا۔ لیکن جس وجہ سے ان پر چڑھائی کی گئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے بہت سی چھوٹی بڑی خلاف ورزیاں کرنے کے بعد آخر کار ایک صریح فعل ایسا کیا تھا جو نقض عہد کا ہم معنی تھا۔ وہ یہ کہ انہوں نے دوسرے فریق معاہدہ، یعنی مدینہ کی اسلامی ریاست کے صدر کو قتل کرنے کی سازش کی تھی کہ جب ان کو نقص معاہدہ کا الزام دیا گیا تو وہ اس کا انکار نہ کر سکے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دس دن کا نوٹس دے دیا کہ اس مدت میں مدینہ چھوڑ کر نکل جاؤ، ورنہ تمہارے خلاف جنگ کی جائے گی۔ یہ نوٹس قرآن مجید کے اس حکم کے ٹھیک مطابق تھا کہ ’’ اگر تم کو کسی قوم سے خیانت (بد عہدی) کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو‘‘ (انفال۔ ۵۸)۔ اسی لیے ان کے اخراج کو اللہ تعالیٰ اپنا فعل قرار دے رہا ہے، کیونکہ یہ ٹھیک قانون الہیٰ کے مطابق تھا۔ گویا ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے نہیں بلکہ اللہ نے نکالا۔ دوسری وجہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے اخراج کو اپنا فعل قرار دیا ہے آگے کی آیات میں ارشاد فرمائی گئی ہے۔

۴۔ اس ارشاد کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ بنی نضیر صدیوں سے یہاں جمے ہوئے تھے۔ مدینہ کے باہر ان کی پوری آبادی یکجا تھی جس میں ان کے اپنے قبیلے کے سوا کوئی دوسرا عنصر موجود نہ تھا۔ انہوں نے پوری بستی کو قلعہ بند کر رکھا تھا، اور ان کے مکانات بھی گڑھیوں کی شکل میں بنے ہوئے تھے جس طرح عموماً قبائلی علاقوں میں، جہاں ہر  طرف بد امنی پھیلی ہوئی ہو، بنائے جاتے ہیں۔ پھر ان کی تعداد بھی اس وقت کے مسلمانوں سے کچھ کم نہ تھی۔ اور خود مدینے کے اندر بہت سے منافقین ان کی پشت پر تھے۔ اس لیے مسلمانوں کو ہر گز یہ توقع نہ تھی کہ یہ لوگ لڑے بغیر صرف محاصرے ہی سے بد حواس ہو کر یوں اپنی جگہ چھوڑ دیں گے۔ اسی طرح خود بنی نضیر کے بھی وہم و گمان میں یہ بات نہ تھی کہ کوئی طاقت ان سے چھ دن کے اندر یہ جگہ چھڑا لے گی۔ اگرچہ بنی قینقاع ان سے پہلے نکالے جا چکے تھے اور اپنی شجاعت پر ان کا سارا زعم دھرا کا دھرا رہ گیا تھا، لیکن وہ مدینہ کے ایک محلہ میں آباد تھے اور انکی اپنی کوئی الگ قلعہ بند بستی نہ تھی، اس لیے بنی نضیر یہ سمجھتے تھے کہ ان کا مسلمانوں کے مقابلے میں نہ ٹھیر سکنا بعید ز قیاس نہ تھا۔ بخلاف اس کے وہ اپنی محفوظ بستی اور اپنی مضبوط گڑھیوں کو دیکھ کر یہ خیال بھی نہ کر سکتے تھے کہ کوئی انہیں یہاں سے نکال سکتا ہے۔ اسی لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دس دن کے اندر مدینہ سے نکل جانے کا نوٹس دیا تو انہوں نے بڑے دھڑلے کے  ساتھ جواب دے دیا کہ ہم نہیں نکلیں گے، آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہے کر لیجیے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر یہ بات کس بنا پر فرمائی کہ ’’وہ یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ کیا واقعی بنی نضیر یہ جانتے تھے کہ ان کا مقابلہ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے؟ اور کیا جانتے ہوئے بھی ان کا یہ خیال تھا کہ ان کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو ہر اس شخص کے ذہن میں الجھن پیدا کرے گا جو یہودی قوم کے نفسیات اور ان کی صد ہا برس کی روایات کو نہ جانتا ہو۔ عام انسانوں کے متعلق کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ وہ شعوری طور پر یہ جانتے بھی ہوں کہ مقابلہ اللہ سے ہے اور پھر بھی ان کو یہ زعم لاحق ہو جائے کہ ان کے قلعے اور ہتھیار انہیں الہہ سے بچا لیں گے۔ اس لیے ایک ناواقف آدمی اس جگہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی یہ تاویل کرے گا کہ بنی نضیر بظاہر اپنے قلعوں کا استحکام دیکھ کر اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حملہ سے بچ جائیں گے، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کا مقابلہ اللہ وے تھا اور اس سے ان کے قلعے انہیں نہ بچا سکتے تھے۔ لیکن واقعہ یہ ہے یہودی اس دنیا میں ایک ایسی عجیب قوم ہے جو جانتے بوجھتے اللہ کا مقابلہ کرتی رہی ہے، اللہ کے رسولوں کو یہ جانتے ہوئے اس نے قتل کیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں، اور فخر کے ساتھ سینہ ٹھونک کر اس نے کہا ہے کہ ہم نے الہہ کے رسول کو قتل کیا ہے۔ اس قوم کی روایات یہ ہیں کہ ان کے مورث اعلیٰ حضرت یعقوبؑ سے اللہ تعالیٰ کی رات بھر کشتی ہوتی رہی اور صبح تک لڑ کر بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہ پچھاڑ سکا۔ پھر جب صبح ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہا اب مجھے جانے دے تو انہوں نے کہا میں تجھے نہ جانے دوں گا جب تک تو مجھے برکت نہ دے۔ اللہ تعالیٰ نے پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا یعقوب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آئندہ تیرا نام یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا ’’ کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا‘‘۔ ملاحظہ ہو یہودیوں کا جدید ترین ترجمہ کتب مقدسہ (The Holy Scriptures)  شائع کردہ جیوش پبلکیشن سوسائٹی آف امریکہ ۱۹۵۴ ء کتاب پیدائش، باب ۳۲۔ آیات ۲۵ تا ۲۹۔ عیسائیوں کے ترجمہ بائیبل میں بھی یہ مضمون اسی طرح بیان ہوا ہے۔ یہودی ترجمہ کے حاشیہ میں ’’ اسرائیل ‘‘کے معنی لکھے گئے ہیں۔  He who striveth with God ، یعنی ’’ جو خدا سے زور آزمائی کرے ‘‘۔ اور سائیلو پیڈیا آف ببلیکل لٹریچر میں عیسائی علماء نے اسرائیل کے معنی کی تشریح یہ کی ہے : Wrestler with God ’’خدا سے کشتی لڑنے والا ‘‘ پھر بائیبل کی کتاب ہوسیع میں حضرت یعقوب کی تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ’’ وہ اپنی توانائی کے ایام میں خدا سے کشتی لڑا۔ وہ فرشتے سے کشتی لڑا اور غالب آیا‘‘ (باب۱۲ آیت ۴)۔ اب ظاہر ہے کہ  بنی اسرائیل آخر ان حضرات اسرائیل کے صاحبزادے ہی تو ہیں جنہوں نے ان کے عقیدے کے مطابق خدا سے زور آزمائی کی تھی اور اس سے کشتی لڑی تھی۔ ان کے لیے آخر کیا مشکل ہے کہ خدا کے مقابلے میں یہ جانتے ہوئے ھی ڈٹ جائیں کہ مقابلہ خدا سے ہے۔ اسی بنا پر تو انہوں نے خود اپنے اعترافات کے مطابق خدا کے نبیوں کو قتل کیا اور اسی بنا پر انہوں نے حضرت عیسیٰ کو اپنے زعم میں صلیب پر چڑھایا اور خم ٹھونک کر کہا اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مُرْیَمَ رَسْوْلَ اللہ (ہم نے مسیح عیسیٰ ابن مریم رسول اللہ کو قتل کیا)لہٰذا یہ بات ان کی روایات کے خلاف نہ تھی کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول جانتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کی۔ اگر ان کے عوام نہیں تو ان کے ربی اور احبار تو خوب جانتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے متعدد شواہد خود قرآن میں موجود ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ ۷۹۔ ۹۵۔ النساء، حاشیہ ۱۹۰۔ ۱۹۱۔جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۷۰۔ ۷۳ )۔

۵۔ اللہ کا ان پر آنا اس معنی میں نہیں ہے کہ اللہ کسی اور جگہ تھا اور پھر وہاں سے ان پر حملہ آور ہوا۔ بلکہ یہ مجازی کلام ہے۔ اصل مدعا یہ تصور دلانا ہے کہ اللہ سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس خیال میں تھے کہ اللہ تعالیٰ ان پر صرف اسی شکل میں بَلا لے کر آ سکتا ہے کہ ایک لشکر کو سامنے سے ان پر چڑھا کر لائے،اور وہ سمجھتے تھے کہ اس بَلا کو تو ہم اپنی قلعہ بندیوں سے روک لیں کے۔ لیکن اس نے ایسے راستہ سے ان پر حملہ کیا جدھر سے کسی بلا کے آنے کی وہ کوئی توقع نہ رکھتے تھ۔ اور وہ راستہ یہ تھا کہ اس نے اندر سے ان کی ہمت اور قوت مقابلہ کو کھوکھلا کر دیا جس کے بعد نہ ان کے ہتھیار کسی کام آ سکتے تھے نہ ان کے مضبوط گڑھ۔

۶۔ یعنی تباہی دو طرح سے ہوئی۔ باہر سے مسلمانوں نے محاصرہ کر کے ان کی قلعہ بندیوں کو توڑنا شروع کیا۔ اور اندر سے خود انہوں نے پہلے تو مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لی جگہ جگہ پتھروں اور لکڑیوں کی رکاوٹیں کھڑی کیاں اور اس غرض کے لیے اپنے گھروں کو توڑ توڑ کر ملبہ جمع کیا۔ پھر جب ان کو یقین ہو گیا کہ انہیں یہاں سے نکلنا ہی پڑے گا تو انہوں نے اپنے گھروں کو، جنہیں کبھی بڑے شوق سے بنایا اور سجایا تھا، اپنے ہی ہاتھوں برباد کرنا شروع کر دیا تاکہ وہ مسلمانوں کے کام نہ آ سکیں۔ اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے انہوں نے اس شرط پر صلح کی کہ ہماری جانیں بخش دی جائیں اور ہمیں اجازت دی جائے کہ ہتھیاروں کے سوا جو کچھ بھی ہم یہاں سے اٹھا کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں تو چلتے ہوئے وہ اپنے دروازے اور کھڑکیاں اور کھونٹیاں تک اکھاڑ لے گئے، حتیٰ کہ بعض لوگو نے شہتیر اور لکڑی کی چھتیں تک اپنے اونٹوں پر لاد لیں۔

۷۔ اس واقعہ میں عبرت کے کئی پہلو ہیں جن کی طرف اس مختصر سے بلیغ فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔یہ یہودی آخر پچھلے انبیاء کی امت ہی تو تھے۔ خدا کو مانتے تھے۔ کتاب کو مانتے تھے پچھلے انبیاء کو مانتے تھے۔ آخرت کو مانتے تھے۔ اس لحاظ سے در اصل وہ سابق مسلمان تھے۔ لیکن جب انہوں نے دین اور اخلاق کو پس پشت ڈال کر محض اپنی خواہشات نفس اور دنیوی اغراض و مفاد کی خاطر کھلی کھلی حق دشمنی اختیار کی اور خود اپنے عہد و پیمان کا بھی کوئی پاس نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ التفات ان سے پھر گئی۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ کو ان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی۔ اس لیے سب سے پہلے تو خود مسلمانوں کو ان کے انجام سے عبرت دلائی گئی ہے کہ کہیں وہ بھی اپنے آپ کو یہودیوں کی طرح خدا کی چہیتی اولاد نہ سمجھ بیٹھیں اور اس خیال خام میں مبتلا نہ ہو جائیں کہ خدا کے آخری نبیؐ کی امت میں ہونا ہی بجائے خود ان کے لیے اللہ کے فضل اور اس کی تائید کی ضمانت ہے جس کے بعد دین و اخلاق کے کسی تقاضے کی پابندی ان کی لیے ضروری نہیں رہتی۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کے ان لوگوں کو بھی اس واقعہ سے عبرت دلائی گئی ہے جو جان بوجھ کر حق کی مخالفت کرتے ہیں اور پھر اپنی دولت و طاقت اور اپنے ذرائع و وسائل پر یہ اعتماد کرتے ہیں کہ یہ چیزیں ان کو خدا کی پکڑ سے بچا لیں گی۔ مدینہ کے یہودی اس سے ناواقف نہ تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کسی قوم یا قبیلے کی سر بلندی کے لیے نہیں اٹھے ہیں بلکہ ایک اصولی دعوت پیش کر رہے ہیں جس کے مخاطب سارے انسان ہیں اور ہر انسان، قطع نظر اس سے کہ وہ کسی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہو،اس دعوت کو قبول کر کے ان کی امت میں بلا امتیاز شامل ہو سکتا ہے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے حبش کے بلالؓ، روم کے صہیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو امت مسلمہ میں وہی حیثیت حاصل تھی جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اپنے اہل خاندان کو حاصل تھی۔ اس لیے ان کے سامنے یہ کوئی خطرہ نہ تھا کہ قریش اور اوس اور خزرج ان پر مسلط ہو جائیں گے۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ آپ جو اصولی دعوت پیش فرما رہے ہیں وہ بینہٖ وہی ہے جو خود ان کے اپنے ابنیاء پیش کرتے رہے ہیں۔ آپ کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں ایک نیا دین لے کر آیا ہوں جو پہلے کبھی کوئی نہ لایا تھا اور تم اپنا دین چھوڑ کر میرا یہ دین مان لو۔ بلکہ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ یہ وہی دین ہے جو ابتدائے آفرینش سے خدا کے تمام انبیاء لاتے رہے ہیں، اور اپنی توراۃ سے وہ خود اس کی تصدیق کر سکتے تھے کہ فی الواقع یہ وہی دین ہے، اس کے اصولوں میں دین انبیاء کے اصولوں سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی بنا پر تو قرآن مجید میں ان سے کہا گیا تھا کہ وَ ا مِنُوْ ا بِمَآ اَنْزَ لْتُ مُصَدِّ قاً لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْ ا اَوَّلَ کَافِرٍ ؍ بِہٖ ؕ (ایمان لاؤ میری نازل کردہ اس تعلیم پر جو تصدیق کرتی ہے اس تعلیم کی جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے، اور سب سے پہلے تم ہی اس کے کافر نہ بن جاؤ)۔ پھر ان کی آنکھیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کس سیرت و اخلاق کے انسان ہیں، اور آپ کی دعوت قبول کر کے لوگوں کی زندگیوں میں کیسا عظیم انقلاب برپا ہوا ہے۔ انصار تو مدت دراز سے ان کے قریب ترین پڑوسی تھے۔ اسلام لانے سے پہلے ان کی جو حالت تھی اسے بھی یہ لوگ دیکھ چکے تھے اور اسلام لانے کے بعد ان کی جو حالت ہو گئی وہ بھی ان کے سامنے موجود تھی۔ پس دعوت اور داعی اور دعوت قبول کرنے کے نتائج، سب کچھ ان پر عیاں تھے۔ لیکن یہ ساری باتیں دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی انہوں نے محض اپنے نسلی تعصبات اور اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اس چیز کے خلاف اپنی ساری طاقت لگا دی جس کے حق ہونے میں کم از کم ان کے لیے شک کی گنجائش نہ تھی اس دانستہ حق دشمنی کے بعد وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ ان قلعے انہیں خدا کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ حالانکہ پوری انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ خدا کی طاقت جس کے مقابلے میں آ جائے وہ پھر کسی ہتھیار سے نہیں بچ سکتا۔

۸۔ دنیا کے عذاب سے مراد ہے ان کا نام و نشان مٹا دینا۔ اگر وہ صلح کر کے اپنی جانیں بچانے کے بجائے لڑتے تو ان کا پوری طرح قلع قمع ہو جاتا۔ ان کے مرد مارے جاتے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے لونڈی غلام بنا لیے جاتے جنہیں فدیہ دے کر چھڑانے والا بھی کوئی نہ ہوتا۔

۹۔ یہ اشارہ ہے اس معاملہ کی طرف کہ مسلمانوں نے جب محاصرہ شروع کیا تو بنی نضیر کی بستی کے اطراف میں جو نخلستان واقع تھے ان کے بہت سے درختوں کو انہوں نے کاٹ ڈالا یا جلا دیا تاکہ محاصرہ بآسانی کیا جسکے، اور جو درخت فوجی نقل و حرکت میں حائل نہ تھے ان کو کھڑا رہنے دیا۔ اس پر مدینہ کے منافقین اور ابنی قریظہ اور خود بنی نضیر نے شور مچا دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو فساد فی الارض نہیں تو کیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ی حکم نازل فرمایا کہ تم لوگوں نے جو درخت کاٹے اور جن کو کھڑا رہنے دیا، ان میں سے کوئی فعل بھی نا جائز نہیں ہے،بلکہ دونوں کو اللہ اذن حاصل ہے۔ اس سے یہ شرعی مسئلہ نکلتا ہے کہ جنگی ضروریات کے لیے جو تخریبی کار روائی ناگزیر ہو وہ فساد فی الارض کی تعریف میں نہیں آتی بلکہ فساد فی الارض یہ ے کہ کسی فوج پر  جنگ کا بھوت سوار ہو جائے اور وہ دشمن کے ملا میں گھس کر کھیت، مویشی، باغات، عمارات،ہر چیز کو خواہ مخواہ تباہ و برباد کرتی پھرے۔ اس معاملہ میں عام حکم تو وہی ہے جو حضرت ابو بکر صدیق نے فوجوں کو شام کی طرف روانہ کرتے وقت دیا تھا کہ پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا، فصلوں کو خراب نہ کرنا، اور بستیوں کو ویران نہ کرنا۔ یہ قرآن مجید کی اس تعلیم کے عین مطابق تھا کہ اس نے مفسد انسانوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے اس فعل پر زجر و توبیخ کی ہے کہ ’’ جب وہ اقتدار پا لیتے ہیں تو فصلوں اور نسلوں کو تباہ کرتے پھرتے ہیں ‘‘۔ (البقرہ۔۲۰۵)۔ لیکن جنگی ضروریات کے لیے خاص حکم یہ ہے کہ اگر دشمن کے خلاف لڑائی کو کامیاب کرنے کی خاطر کوئی تخریب ناگزیر ہو تو وہ کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے یہ وضاحت فرما دی ہے کہ قطعو امنھا ما کان موضعاً للقتال،‘‘ مسلمانوں نے بنی نضیر کے درختوں میں سے صرف وہ درخت کاٹے تھے جو جنگ کے مقام پر واقع تھے ‘‘ (تفسیر بیسابوری)۔ فقہائے اسلام میں سے بعض نے معاملہ کے اس پہلو کو نظر انداز کر کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ بنی نضیر کے درخت کاٹنے کا جواز صرف اسی واقعہ کی حد تک مخصوص تھا، اس سے یہ عام جواز نہیں نکلتا کہ جب کبھی جنگی ضروریات داعی ہوں، دشمن کے درختوں کو کاٹا اور جلایا جا سکے۔ امام اَوزاعی، لیث اور ابوثور اسی طرف گئے ہیں۔ لیکن جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ اہم جنگی ضروریات کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، البتہ محض تخریب و غارت گری کے لیے یہ فعل جائز نہیں ہے۔

 ایک شخص یہ سوال کر سکتا ہے کہ قرآن مجید کی یہ آیت مسلمانوں کو تو مطمئن کر سکتی تھی، لیکن جو لوگ قرآن کو کلام اللہ نہیں مانتے تھے انہیں اپنے اعتراض کے جواب میں یہ سن کر کیا اطمینان ہو سکتا تھا کہ یہ دونوں فعل اللہ کے اِذن کی بنا پر جائز ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی یہ آیت مسلمانوں ہی کو مطمئن کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، کفار کو مطمئن کرنا سے سے اس کا مقصود ہی نہیں ہے۔ چونکہ یہود اور منافقین کے اعتراض کی وجہ سے، یا بطور خود، مسلمانوں کے دلوں میں یہ خلش پیدا ہو گئی تھی کہ کہیں ہم فساد فی الارض کے مرتکب تو نہیں ہو گئے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اطمینان دلا دیا کہ محاصرے کی ضرورت کے لیے کچھ درختوں کو کاٹنا، اور جو درخت محاصرے میں حائل نہ تھے ان کو نہ کاٹنا، یہ دونوں ہی فعل قانون الٰہی کے مطابق درست تھے۔

محدثین کی نقل کردہ روایات میں اس امر پر اختلاف ہے کہ آیا ان درختوں کے کاٹنے اور جلانے کا حکم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا تھا، یا مسلمانوں نے بطور خود یہ کام کیا اور بعد میں اس کا شرعی مسئلہ حضورؐ سے دریافت کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت یہ ہے کہ حضورؐ نے خود اس کا حکم دیا تھا (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابن جریر)۔ یہی یزید بن رومان کی روایت بھی ہے (ابن جریر)۔ بخلاف اس کے مجاہد اور قتادہ کی روایت یہ ہے کہ مسلمانوں نے بطور خود یہ درخت کاٹے تھے، پھر ان میں اس مسئلے پر اختلاف ہوا کہ یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں۔ بعض اس کے جواز کے قائل ہوئے اور بعض نے اس سے منع کیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر دونوں کے فعل کی تصویب کر دی (ابن جریر)۔ اسی کی تائید حضرت عبداللہ بن عباس کی یہ روایت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں اس بات پر خلش پیدا ہوئی کہ ہم میں سے بعض نے درخت کاٹے ہیں اور بعض نے نہیں کاٹے، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنا چاہیے کہ ہم میں سے کس کا فعل اجر کا مستحق ہے اور کس کے فعل پر مواخذہ ہو گا (نسائی)۔  فقہاء میں سے جن لوگوں نے پہلی روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اجتہاد تھا جس کی توثیق بعد میں اللہ تعالیٰ نے وحی جلی سے فرمائی اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جن معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم موجود نہ ہوتا تھا۔ ان میں حضورؐ اجتہاد پر عمل فرماتے تھے۔ دوسری طرف جن فقہاء نے دوسری روایت کو ترجیح دی ہے وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دو گروہوں نے اپنے اپنے اجتہاد سے دو مختلف رائیں اختیار کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے دونوں کی توثیق فرما دی، لہٰذا اگر نیک نیتی کے ساتھ اجتہاد کر کے اہل علم مختلف رائیں قائم کریں تو باوجود اس کے کہ ان کی آراء ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، مگر اللہ کی شریعت میں وہ سب حق پر ہوں گے۔

۱۰۔ یعنی اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ ان درختوں کو کاٹنے سے بھی ان کی ذلت و خواری ہو اور نہ کاٹنے سے بھی۔ کاٹنے میں ان کی ذلت و خواری کا پہلو یہ تھا کہ جو باغ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے اور جن باغوں کے وہ مدت ہائے دراز سے مالک چلے آ رہے تھے، ان کے درخت ان کی آنکھوں کے سانے کاٹے جا رہے تھے اور وہ کاٹنے والوں کو کسی طرح نہ روک سکتے تھے۔ایک معمولی کسان اور باغبان بھی اپنے کھیت یا باغ میں کسی دوسرے کے تصرف کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر اس کے سامنے اس کا کھیت یا اس کا باغ کوئی برباد کر رہا ہو تو وہ اس پر کٹ مرے گا۔ اور اگر وہ اپنی جائیداد میں دوسرے کی دست درازی نہ روک سکے تو یہ اس کی انتہائی ذلت اور کمزوری کی علامت ہو گی۔ لیکن یہاں ایک پورا قبیلہ، جو صدیوں سے بڑے دھڑلے کے ساتھ اس جگہ آباد تھا، بے بسی کے ساتھ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے ہمسائے اس کے باغوں پر چڑھ آئے ہیں اور اس کے درختوں کو برباد کر رہے ہیں، مگر وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس کے بعد اگر وہ مدینے میں رہ بھی جاتے تو ان کی کوئی آبرو باقی نہ رہتی۔ رہا درختوں کو نہ کاٹنے میں ذلت کا پہلو تو وہ یہ تھا کہ جب وہ مدینہ سے نکلے تو ان کی آنکھیں یہ دیکھ رہی تھیں کہ کل تک جو ہرے بھرے باغ ان کی ملکیت تھے وہ آج مسلمانوں کے قبضے میں جا رہے ہیں۔ ان کا بس چلتا تو وہ ان کو پوری طرح اجاڑ کر جاتے اور ایک سالم درخت بھی مسلمانوں کے قبضے میں نہ جانے دیتے۔ مگر بے بسی کے ساتھ وہ سب کچھ جوں کا توں چھوڑ کر با حسرت و یاس نکل گئے۔

۱۱۔ اب ان جائدادوں اور املاک کا ذکر ہو رہا ہے جو پہلے بنی نضیر کی ملک تھیں اور ان کی جلا وطنی کے بعد اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔ ان کے متعلق یہاں سے آیت ۱۰ تک اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان کا انتظام کس طرح کیا جائے۔ چونکہ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک علاقہ فتح ہو کر اسلامی مقبوضات میں شامل ہوا، اور آگے بہت سے علاقے فتح ہونے والے تھے، اس لیے فتوحات کے آغاز ہی میں اراضی مفتوحہ کا قانون بیان فرما دیا گیا۔ اس جگہ قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے : مَا اَفَآ ءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ (جو کچھ پلٹا دیا ان سے اللہ نے اپنے رسول کی طرف) کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان الفاظ سے خود بخود یہ معنی نکلتے ہیں یہ یہ زمین اور وہ ساری چیزیں جو یہاں پائی جاتی ہیں، در اصل ان لوگوں کا حق نہیں ہیں جو اللہ جل شانہ کے باغی ہیں۔ وہ اگر ان پر قابض (متصرف ہیں تو یہ حقیقت میں اس طرح کا قبضہ و تصرف ہے جیسے کوئی خائن ملازم اپنے آقا کا مال دبا بیٹھے۔ ان تمام اموال کا اصل ح یہ ہے کہ یہ ان کے حقیقی مالک، اللہ رب العالمین کی اطاعت میں اس کی مرضی کے مطابق استعمال کیے جائیں، اور ان کا یہ استعمال صرف مومنین صالحین ہی کر سکتے ہیں۔ اس لیے جو اموال بھی ایک جائز و برحق جنگ کے نتیجے میں کفار کے قبضے سے نکل کر اہل ایمان کے قبضے میں آئیں ان کی حقیقی حیثیت یہ ہے کہ ان کا مالک انہیں اپنے خائن ملازموں کے قبضے سے نکال کر اپنے فرمانبردار ملازموں کی طرف پلٹا لایا ہے۔ اسی لیے ان املاک کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں فَے (پلٹا کر لائے ہوئے اموال) قرار دیا گیا ہے۔

۱۲۔ یعنی ان  اموال کی نوعیت یہ نہیں ہے کہ جو فوج میدان جنگ میں دشمن سے نبرد آزما ہوئی ہے اس نے لڑ کر ان کو جیتا ہو اور اس بنا پر اس فوج کا یہ حق ہو کہ یہ اموال اس میں تقسیم کر دیے جائیں، بلکہ ان کی اصل نوعیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسولوں کو،اور اس نظام کو جس کی نمائندگی یہ رسول کرتے ہیں،ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ بالفاظ دیگر ان کا مسلمانوں کے قبضے میں آنا براہ راست لڑنے والی فوج کے زور بازو کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ یہ اس مجموعی قوت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اپنے رسول اور اس کی امت اور اس کے قائم کردہ نظام کو عطا فرمائی ہے۔ اس لیے یہ اموال مال غنیمت سے بالکل مختلف حیثیت رکھتے ہیں اور لڑنے والی فوج کا یہ حق نہیں ہے کہ غنیمت کی طرح ان کو بھی اس میں تقسیم کر دیا جائے۔

اس طرح شریعت میں غنیمت اور فَے کا حکم الگ الگ کر دیا گیا ہے۔ غنیمت کا حکم سورہ انفال آیت ۴۱ میں ارشاد ہوا ہے،اور وہ یہ ہے کہ اس کے پانچ حصے کیے جائیں، چار حصے لڑنے والی فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، اور ایک حصہ بیت المال میں داخل کر کے ان مصارف میں صرف کیا جائے جو اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور فَے کا حکم یہ ہے کہ اسے فوج میں تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ وہ پوری کی پوری ان مصارف کے لیے مخصوص کر دی جائے جو آگے کی آیات میں بیان ہو رہے ہیں۔ ان دونوں قِسم کے اموال میں فرق فَمَا اَوْجَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَارِکَابِ (تم نے اس پر اپنے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑائے ہیں ) کے الفاظ سے ظاہر کیا گیا ہے۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد ہے جنگی کار روائی  Warlike operations لہٰذا جو مال براہ راست اس کار روائی سے ہاتھ آئے ہوں وہ غنیمت ہیں۔ اور جن اموال کے حصول کا اصل سبب یہ کار روائی نہ ہو وہ سب فَے ہیں۔

یہ مجمل فرق جو غنیمت اور فَے کے درمیان اس آیت میں بیان کیا گیا ہے، اس کو اور زیادہ کھول کر فقہائے اسلام نے اس طرح بیان کیا ہے کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو جنگی کار روائیوں کے دوران میں دشمن کے لشکروں سے حاصل ہوں۔ ان کے ماسوا دشمن ملک کی زمینیں، مکانات اور دوسرے اموال منقولہ و غیر منقولہ غنیمت کی تعریف سے خارج ہیں۔ اس تشریح کا ماخذ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ خط ہے جو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وَقاص کو فتح عراق کے بعد لکھا تھا۔ اس میں وہ فرماتے ہیں کہ : فانضر ما اجلبو ا بہ علیک فی العسکر من کراءٍ او مالٍ فاقسمہ بین من حجر من المسلمین و انزک الاَرَضِین و الا نھار لعُمّا لھا لیکون ذٰلک فی اعطیات المسلمین۔ ’’ جو مال متاع فوج کے لوگ تمہارے لشکر میں سمیٹ لائے ہیں اس کو ان مسلمانوں میں تقسیم کر دو جو جنگ میں شریک تھے اور زمینیں اور نہریں ان لوگوں کے پاس چھوڑ دو جو ان پر کام کرتے ہیں تاکہ ان کی آمدنی مسلمانوں کی تنخواہوں کے کام آئے‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف صفحی ۲۴۔کتاب الاموال لابی عبید صفحہ ۵۹۔ کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، صفحات ۲۷۔ ۲۸۔ ۱۴۸ اسی بنیاد پر حضرت حسن بصری کہتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے کیمپ سے ہاتھ آئے وہ ان کا حق ہے جنہوں نے اس پر فتح پائی اور زمین مسلمانوں کے لیے ہے ‘‘ (یحیٰ بن آدم، صفحہ ۲۷)۔ اور امام ابو یوست فرماتے ہیں کہ ’’ جو کچھ دشمن کے لشکروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور جو متاع اور اسلحہ اور جانور وہ اپنے کیمپ میں سمیٹ لائیں وہ غنیمت ہے اور اسی میں سے پانچواں حصہ نکال کر باقی چار حصے فوج میں تقسیم کیے جائیں گے ‘‘ (کتاب الخراج،صفحہ ۱۸)۔ یہی رائے یحیٰ بن آدم کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب الخراج میں بیان کی ہے (صفحہ ۲۷)۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز غنیمت اور فَے کے فرق کو واضح کرتی ہے وہ یہ ہے کہ جنگ نہاوَنْد کے بعد جب مال غنیمت تقسیم ہو چکا تھا اور مفتوحہ علاقہ اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا تھا، ایک صاحب، سائب بن اَقْرَع کو قلعہ میں جواہر کی دو تھیلیاں ملیں۔ ان کے دل میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ آیا یہ مال غنیمت ہے جسے فوج میں تقسیم کیا جائے، یا اسکا شمار اب فَے میں ہے جسے بیت المال میں داخل ہونا چاہیے؟ آخر کار انہوں نے مدینی حاضر ہو کر معاملہ حضرت عمرؓ کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے فیصلہ فرمایا کہ اسے فروخت کر کے اس کی قیمت بیت المال میں داخل کر دی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غنیمت صرف وہ اموال منقولہ ہیں جو دوران جنت میں فوج کے ہاتھ آئیں۔ جنگ ختم ہونے کے بعد اموال غیر منقولہ کی طرح اموال منقولہ بھی فَے کے حکم میں داخل ہو جاتے ہیں۔ امام ابو عبید اس واقعہ کو نقل کر کے لکھتے ہیں : مانیل من اھل الشرک عَنْو ۃً قسر او الحرب قائمۃ فھو الغنیمۃ، وما نیل منھم بعد ما تضع الحرب اوزادھا و تصیر الدار دارلاسلام فھو فیءُ یکون للناس عامّا ولا خمس فیہ۔ ’’ جو مال دشمن سے بزور ہاتھ لگے، جبکہ ابھی جنگ ہو رہی ہو، وہ غنیمت ہے، اور جنگ ختم ہونے کے بعد جب ملک دارالاسلام بن گیا ہو، اس وقت جو مال ہاتھ لگے وہ فَے ہے جسے عام باشندگان دار الاسلام کے لیے وقف ہونا چاہیے۔اس میں خمس نہیں ہے۔’’ (کتاب الاموال، صفحہ ۲۵۴ )۔

غنیمت کو اس طرح محدود کرنے کے بعد باقی جو اموال و املاک اور اراضی کفار سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو وہ دو بڑی اقسام پر تقسیم کیے جا سکتے ہیں ایک وہ جو لڑ کر فتح کیے جائیں، جن کو اسلامی فقہ کی زبان میں حَنْوَۃً فتح ہونے والے ممالک کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جو صلح کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں، خواہ وہ صلح اپنی جگہ پر مسلمانوں کی فوجی طاقت کے دباؤ یا رُعب اور ہیبت ہی کہ وجہ سے ہوئی ہو۔ اور اسی قسم میں وہ سب اموال بھی آ جاتے ہیں جو عَنْوَۃً فتح ہونے کے سوا کسی دوسرے صورت سے مسلمانوں کے قبضے میں آئیں۔ فقہائے اسلام کے درمیان جو کچھ بحثیں پیدا ہوئی ہیں وہ صرف پہلی قسم کے اموال کے بارے میں پیدا ہوئی ہیں کہ ان کی ٹھیک ٹھیک شرعی حیثیت کیا ہے کہونکہ وہ فَمَا ادْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لا رِکا بٍ کی تعریف میں نہیں آتے۔ رہے دوسری قسم کے اموال،تو ان کے بارے میں یہ بات متفق علیہ ہے کہ وہ فَے ہیں، کیوں کہ ان کا حکم صاف صاف قرآن مجید میں بیان کر دیا گیا ہے۔ آگے چل کر ہم قسم اول کے اموال کی شرعی حیثیت پر تفصیلی کلام کریں گے۔

۱۳۔ پچھلی آیت میں سرف اتنی بات ارشاد ہوئی تھی کہ ان اموال کو حملہ آور فوج میں غنائم کی طرح تقسیم نہ کرنے کی وجہ کیا ہے، اور کیوں ان کا شرعی حکم غنائم سے الگ ہے۔ اب اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان اموال کے حقدار کون ہیں۔

ان میں سب سے پہلا حصہ اللہ اور رسول کا ہے۔ اس حکم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جس طرح عمل کیا اس کی تفصیل مالک بن اوس بن الحدثان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ نقل کی ہے کہ حضورؐ اس حصہ میں سے اپنا اور اپنے اہل عیال کا نفقہ لے لیتے تھے اور باقی آمدنی جہاد کے لیے اسلحہ اور سواری کے جانور فراہم کرنے پر  خرچ فرمائے تھے (بخاری، مسلم، مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ)۔ حضورﷺ کے بعد یہ حصہ مسلمانوں کے بیت المال کی طرف منتقل ہو گیا تاکہ یہ اس مشن کی خدمت پر صرف ہو جو اللہ نے اپنے رسول کے سپرد کیا تھا۔ امام شافعیؒ سے یہ رائے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ِ خاص کے لیے جو حصہ تھا وہ آپ کے بعد آپ کے خلیفہ کے لیے ہے، کیونکہ آپ اس کے مستحق اپنے منصب ِ امامت کی بنا پر تھے نہ کہ منصبِ رسالت کی بنا پر۔ مگر فقہائے شافعیہ کی اکثریت کا قول اس معاملہ میں وہی ہے جو جمہور کا قول ہے کہ یہ حصہ اب مسلمانوں کے دینی و اجتماعی مصالح کے لیے ہے، کسی شخص خاص کے لیے نہیں ہے۔

دوسرا حصہ رشتہ داروں کا ہے، اور ان سے مراد رسول اللہ ﷺ کے رشتہ دار ہیں، یعنی بنی ہاشم اور بنی المُطلّب۔ یہ حصہ اِس لیے مقرر کیا گیا تھا کہ رسول ﷺ اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ان رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا فرما سکیں جو آپ کی مدد کے محتاج ہوں، یا آپ جن کی مدد کرنے کی ضرورت محسوس فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد یہ بھی ایک الگ اور مستقل حصہ کی حیثیت سے باقی نہیں رہا، بلکہ مسلمانوں کے دوسرے مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ بنی ہاشم اور بنی المطّلب کے محتاج لوگوں کے حقوق بھی بیت المال کے ذمہ عائد ہو گئے، البتہ اس بنا پر ان کا حق دوسروں پر فائق سمجھا گیا کہ زکوٰۃ میں ان کا حصہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ حضرات ابوبکر و عمر بن عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پہلے دو حصہ ساقط کر کے صرف باقی تین حصے (یتامیٰ، مساکین و ابن السبیل) فَے کے حقداروں میں شامل رہنے دیے گئے، پھر اسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے اپنے زمانہ میں عمل کیا۔ محمد بن اسحاق نے امام محمد باِر کا قول نقل کیا ہے کہ اگر چہ حضرت علیؓ کی ذاتی رائے وہی تھی جو ان کے اہل بیت کی رائے تھی (کہ یہ حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے ) لیکن انہوں نے ابوبکر و عمر کی رائے کے خلاف عمل کرنا پسند نہ فرمایا۔ حسن بن محمد بن حَنَفِیہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد ان دونوں حصوں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے حصے اور ذوی القربیٰ کے حصے ) کے متعلق اختلاف رائے تھی کہ دوسرا حصہ حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملنا چاہئے۔ کچھ اور لوگوں کا خیال تھا کہ دوسرا حصہ خلیفہ کے رشتہ داروں کو دیا جانا چاہئے۔ آخر کار اس بات پر اجماع  ہو گیا کہ یہ دونوں حصے جہاد کی ضروریات پر صرف کیے جائیں۔عطا بن سائب کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عہد میں حضورﷺ کا حصہ اور رشتہ داروں کا حصہ بنی ہاشم کو بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ امام ابوحنیفہ اور اکثر فقہائے حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہی عمل صحیح ہے جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں جاری تھا (کتاب الخراج ۱۱،بی یوسف، صفحہ ۹تا۲۱) امام شافعی ؒ کی رائے یہ ہے کہ جن لوگوں کا ہاشمی و مُطّلی ہونا ثابت ہو یا عام طور پر معلوم و معروف ہو ان کے غنی و فقیر، دونوں طرح کے اشخاص کو نَے میں سے مال دیا جا سکتا ہے۔ (مغنی المحتاج)۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ صرف ان کے محتاج لوگوں کی اس مال سے مدد کی جا سکتی ہے، البتہ ان کا حق دوسروں پر فائق ہے۔ (روح المعانی)۔ امام مالک کے نزدیک اس معاملہ میں حکومت پر کوئی پابندی نہیں ہے، جس مد میں جس طرح مناسب سمجھے صرف کرے۔ مگر اَدنیٰ یہ ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو مقدم رکھے۔ (حاشیہ الدّسوقی علی الشرح الکبیر)۔

باقی تین حصوں کے بارے میں فقہا کے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ البتہ امام شافعی اور ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک فَے کے جملہ اموال کو پان برابر کے حصوں میں تقسیم کر کے ان میں سے ایک حصہ مذکورۂ بالا مصارف پر اس طرح صرف  کیا جانا چاہیے کہ اس کا ۵/۱مصالح مسلمین پر، ۵/۱ بنی ہاشم و بنی المطلب پر، ۵/۱ مساکین پر اور ۵/۱ مسافروں پر صرف کیا جائے۔ بخلاف اس کے امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد اس تقسیم کے قائل نہیں ہیں، اور ان کی رائے یہ ہے کہ فَے کا پورا مال مصالح مسلمین کے لیے ہے۔ (مغنی المحتاج)۔

۱۴۔ یہ قرآن مجید کی اہم ترین اصولی آیات میں سے ہے جس میں اسلامی معاشرے اور حکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مالداروں ہی میں گھومتا رہے، یا امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ قرآن مجید میں اس پالیسی کو صرف بیان ہی کرنے پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ اِسی مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا ہے، زکوٰۃ فرض کی گئی ہے، اموالِ غنیمت میں خُمس نکالنے کا حکم دیا گیا، صدقاتِ نافلہ کی جگہ جگہ تلقین کی گئی ہے، مختلف قسم کے کَفاروں کی ایسی صورتیں تجویز کی گئی ہیں جن سے دولت کے بہاؤ کا رُخ معاشرے کے غریب طبقات کی طرف پھیر دیا جائے، میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زادہ وسیع، دائرے میں پھیل جائے، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابل مذمت اور فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ہے، خوشحال طبقوں کو یہ سمجھایا گیا ہے کہ ان کے مال میں سائل اور محروم کا حق ہے جسے خیرات نہیں بلکہ ان کا حق سمجھ کر ہی انہیں ادا کرنا چاہیے اور اسلامی حکومت کی آمدنی کے ایک بہت بڑے ذریعہ، یعنی فَے کے متعلق یہ قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اس کا ایک حصہ لازماً معاشرے کے غریب طبقات کو سہارا دینے کے لیے صرف کیا جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اسلامی  حکومت کے ذرائع آمدنی کی اہم ترین مدّات دو ہیں۔ ایک زکوٰۃ، دوسرے فَے۔ زکوٰۃ مسلمانوں کو پورے زائد  از نصاب سرمائے، مواشی، اموالِ تجارت اور زرعی پیداوار سے وصول کی جاتی ہے اور وہ زیادہ تر غریبوں ہی کے لیے مخصوص ہے۔ اور فَے میں جزیہ و خراج سیت وہ تمام آمدنیاں شامل ہیں جو غیر مسلموں سے حاصل ہوں، اور ان کا بھی بڑا حصہ غریبوں ہی کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ یہ کھلا ہوا اشارہ اس طرف ہے کہ ایک اسلامی حکومت کو اپنی آمدنی و خرچ کا نظام، اور با اثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو، اور دولت کا بہاؤ نہ غریبوں سے امیروں کی طرف ہونے پاے نہ وہ امیروں ہی میں چکر لگاتی رہے۔

۱۵۔ سلسلہ بیان کے لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اموالِ بنی نضیر کے انتظام اور اسی طرح بعد کے اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ عدلیہ و سلم جو فیصلہ فرمائیں اسے بے چوں  و چرا تسلیم کر لو، جو کچھ حضورﷺ کسی کو دیں وہ اسے لے لے، اور جو کسی کو نہ دیں وہ اس پر کوئی احتجاج یا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن چونکہ حکم کے الفاظ عام ہیں، اس لیے یہ صرف امواِلِ  فَے کی تقسیم تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا منشا یہ ہے کہ تمام معاملات میں مسلمان رسول اللہ صلی علیہ و سلم کی اطاعت کریں۔ اس منشا کو یہ بات اور زیادہ واضح کر دیتی ہے کہ "جو کچھ رسول تمہیں دے " کے مقابلہ میں "جو کچھ نہ دے " کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے گئے ہیں، بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ "جس چیز سے وہ تمہیں روک دے (یا منع کر دے ) اس سے رک جاؤ"۔ اگر حکم کا مقصد صرف اموالِ فَے کی تقسیم کے معاملہ تک اطاعت کو محدود کرنا ہوتا تو "جو کچھ دے " کے مقابلہ میں " جو کچھ نہ دے " فرمایا جاتا۔ منع کرنے یا روک دینے کے الفاظ اس موقع  پر لانا خود یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکم کا مقصود حضورﷺ کے امر و نہی کی اطاعت ہے۔ یہی بات ہے جو خود رسولﷺ نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: اذا امرتکم بامر فائتوا منہ ما استطعتم ومانھیتم عنہ فاتنبوہ "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک ممکن ہو اس پر عمل کرو۔ اور جس بات سے روک دوں اس سے اجتناب کرو۔" (بخاری۔مسلم)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے متعلق روایت ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا " اللہ تعالیٰ  نے فلاں فلاں فیشن کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے " اس تقریر کو سن کر ایک عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عرض کیا یہ بات آپ نے کہاں  اخذ کی ہے؟ کتاب اللہ میں تو یہ مضمون کہیں میری نظر سے نہیں گزرا۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو نے اگر اللہ کی کتاب پڑھی ہوتی تو یہ بات ضرور تجھے اس مل جاتی۔ کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ مَآاٰتکُمُ الرَّسُولُ فخذوہُ ومَانھٰکم عنہ فانتھوا؟ اس نے عرض کیا، ہاں یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس فعل سے منع فرمایا ہے اور یہ خبر دی ہے کہ اللہ نے ایسا فعل کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ عورت نے عرض کیا اب میں سمجھ گئی۔ (بخاری۔مسلم ، مسند احمد،مسند ابن ابی حاتم)

۱۶۔  اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس وقت مکہ معظمہ اور عرب کے دوسرے علاقوں سے صرف اس بنا پر نکال دیے گئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ بنی النضیر کا علاقہ فتح ہونے سے پہلے تک ان مہاجرین کے لیے گزر بسر کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ اب حکم دیک گیا کہ یہ مال جو اس وقت ہاتھ آیا ہے، اور آئندہ جو امول بھی فَے کے طور پر ہاتھ آئیں۔ ان میں عام مساکین، یتامیٰ اور مسافروں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو حق بھی ہے، ان سے ایسے سب لوگوں کو سہارا دیا جانا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کی خطر ہجرت پر مجبور ہو کر دار الاسلام میں آئیں۔اس حکم کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی النضیر کی جائدادوں کا ایک حصہ مہاجرین میں تقسیم کر دیا اور وہ نخلستان جو انصار نے اپنے مہاجر بھائیوں کی مدد کے لیے دے رکھے تھے ان کو واپس کریے گئے۔ لیکن یہ خیال کر نا صحیح نہیں ہے کہ فَے میں مہاجرین کا یہ حصہ صرف اسی زمانہ کے لیے تھا۔ در حقیقت اس آیت کا منشا یہ ہے کہ قیامت تک جو لوگ ہی مسلمان ہونے کی وجہ سے جلا وطن ہو کر کسی مسلم مملکت کے حدود میں پناہ لینے پر مجبور ہوں، ان کو بسانا اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل بنانا اس ملک کی اسلامی حکومت کے فرائض میں شامل ہے، اور اسے زکوٰۃ کے علاوہ اموال فَے میں سے بھی اس مد پر خرچ کرنا چاہیے۔

۱۷۔ مراد ہیں انصار۔ یعنی فَے میں صرف مہاجرین ہی کا حق نہیں ہے، بلکہ پہلے سے جو مسلمان دار الاسلام میں آباد ہیں وہ بھی اس میں سے حصہ پانے کے حق دار ہیں۔

۱۸۔ یہ تعریف ہے مدینہ طیبہ کے انصار کی۔ مہاجر جب مکہ اور دوسرے مقامات سے ہجرت کر کے ان کے شہر میں آئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  و سلم کی خدمت میں یہ پیش کش کی کہ ہمارے باغ اورت نخلستان حاضر ہیں، آپ انہیں ہمارے اور ان مہاجر بھائیوں کے درمیان بانٹ دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ تو باغبانی نہیں جانتے، یہ اس علاقے سے آئے ہیں جہاں باغات نہیں ہیں کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے ان باغوں اور نخلستانوں میں کام تم کرو اور پیدا وار میں سے حصہ ان کو دو؟ انہوں کہا سمعنا و اطعنا (بخاری، ابن جریر)۔ اس پر مہاجرین نے عرض کیا ہم نے کبھی ایسے لوگ نہیں دیکھے جو اس درجہ ایثار کرنے والے ہوں۔ یہ کام خود کریں گے اور حصہ ہم کو دیں گے۔ ہم تو سمجھتے ہیں کہ سارا اجر یہی لوٹ لے گئے۔ حضورؐ نے فرمایا نہیں، جب تک تم ان کی تعریف کرتے رہو گے اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتے رہو گے، تم کو بھی اجر ملتا رہے گا (مسند احمد)۔پھر جب بنی النضیر کا علاقہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اب بندوبست کی ایک شکل یہ ہے کہ تمہاری املاک اور یہودیوں کے چھوڑے ہوئے باغات اور نخلستانوں کو ملا کر ایک کر دیا جائے اور پھر اس پورے مجموعے کو تمہارے اور مہاجرین کے درمیان تقسیم کر یا جائے۔ اور دوسرے شکل یہ ہے کہ تم اپنی جائدادیں اپنے پاس رکھو اور یہ متروکہ اراضی مہاجرین میں بانٹ دی جائیں۔ انصارؓ نے عرض کیا یہ جائدادیں آپ ان میں بانٹ دیں، اور ہماری جائدادوں میں سے بھی جو کچھ آپ چاہیں ان کو دے سکتے ہیں۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ پکار اٹھے جزاکم اللہ یا معشر الانصار خیراً (یحیٰ بن آدم۔ بَلَاذری)۔ اس طرح انصار کی رضا مندی سے یہودیوں کے چھوڑے ہوئے اموال مہاجرین ہی میں تقسیم کیے گئے اور انصار میں سے صرف حضرت ابو دجانہ، حضرت سہل بن حنیف اور (بروایت بعض ) حضرت حارث بن الصمہ کو حصہ دیا گیا، کیونکہ یہ حضرات بہت غریب تھے (بلاذری۔ ابن ہشام۔ روح المعانی)۔ اسی ایثار کا ثبوت انصار نے اس وقت دیا جب بحرین کا علاقہ اسلامی حکومت میں شامل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چاہتے تھے کہ اس علاقے کی مفتوحہ اراضی انصار کو دی جائیں، مگر انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس میں سے کوئی حصہ نہ لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ دیا جائے (یحیٰ بن آدم)۔ انصار کا یہی وہ ایثار ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔

۱۹۔ بچ گئے نہیں فرمایا گیا بلکہ بچا لیے گئے ارشاد ہوا ہے، کیونکہ اللہ کی توفیق اور اس مدد کے بغیر کوئی شخص خود اپنے زور بازو سے دل کی تونگری نہیں پا سکتا۔ یہ خدا کی وہ نعمت ہے جو خدا ہی کے فضل سے کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ شُح کا لفظ عربی زبان میں کنجوسی اور بخل کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر جب اس لفظ کو نفس کی طرف منسوب کر کے شح نفس کہا جائے تو یہ تنگ نظری، تنگ دلی، کم حوصلگی، اور دل کے چھوٹے پن کا ہم معنی ہو جاتا ہے جو بخل سے وسیع تر چیز ہے، بلکہ خود مخل کی بھی اصل جڑ وہی ہے۔ اسی ست کی وجہ سے آدمی دوسرے کا حق ماننا اور ادا کرنا تو درکنار اس کی خوبی کا اعتراف تک کرنے سے جی چراتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دنیا میں سب کچھ اسی کو مل جائے اور کسی کو کچھ نہ ملے۔ دوسروں کو خود دینا تو کجا، کوئی دوسرا بھی اگر کسی کو کچھ دے تو اس کا دل دکھتا ہے۔ اس کی حرص کبھی اپنے حق پر قانع نہیں ہوتی بلکہ وہ دوسروں کے حقوق پر دست درازی کرتا ہے، یا کم از کم دل سے یہ چاہتا ہے کہ اس کے گرد پیش دنیا میں جو اچھی چیز بھی ہے اسے پنے لیے سمیٹ لے اور کسی کے لیے کچھ نہ چھوڑے۔ اسی بنا پر قرآن میں اس برائی سے بچ جانے کو فلاح کی ضمانت قرار دیا گیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو ان بد ترین انسانی اوصاف میں شمار کیا ہے جو فساد کی جڑ ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا اتقو ا الشح فان الشح اھلک من قبلکم، حملھم علیٰ ان سفکو ادماء ھم واستحلو امحارمھم (مسلم، مسند احمد، بیہقی، بخاری فی الادب)۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت میں الفاظ یہ ہیں : امر ھم بالظلم فظلموا وامر ھم بالفجور ففجر وا، وامر ھم بالقطیعۃ فقطعوا (مسند احمد،ابو داؤد، نسائی )۔ یعنی ’’ شُح سے بچو کیونکہ شُح ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی نے ان کو ایک دوسرے کے خون بہانے اور دوسروں کی حرمتوں کو اپنے لیے حلال کر لینے پر اکسایا۔ اس نے ان کو ظلم پر آمادہ کیا اور انہوں نے ظلم کیا، فجور کا حکم دیا اور انہوں نے فجور کیا، قطع رحمی کرنے کے لیے کہا اور انہوں نے قطع رحمی کی ‘‘۔ حضرت ابوہُریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ ایمان اور شحِ نفس کسی کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے ‘‘ (ابن ابی شیبہ، جسائی، بیہقی فی شعبِ العمان، حاکم )۔ حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا’’ دو خصلتیں ہیں جو کسی مسلمان کے اندر جمع نہیں ہو سکتیں، بخل اور بد خلقی‘‘ (ابوداؤد، ترمذی، بخاری فی الادب۔ اسلام کی اسی تعلیم کا ثمرہ ہے کہ افراد سے قطع نظر، مسلمان بحیثیت قوم دنیا میں آج بھی سب سے بڑھ کر فیاض اور فراخ دل ہیں۔ جو قومیں ساری دنیا میں تنگ دلی اور بخیلی کے اعتبار سے اپنی نظیر نہیں رکھتیں، خود انہی میں سے نکلے ہوئے لاکھوں اور کروڑوں مسلمان اپنے ہم نسل غیر مسلموں کے سایہ بسا یہ رہتے ہیں۔ دونوں کے درمیان دل کی فراخی و تنگی کے اعتبار سے جو صریح فرق پایا جاتا ہے اس کی کوئی توجیہ اس کے سوا نہیں کی جا سکتی کہ یہ اسلام کی اخلاقی تعلیم کا فیض ہے جس نے مسلمانوں کے دل بڑے کر دیے ہیں۔

۲۰۔ یہاں تک جو احکام ارشاد ہوئے ہیں ان میں یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ فَے میں اللہؔ اور رسولؔ، اور اقربائےؔ رسول، اور یتامیٰ اور مساکین اور ابن السبیل، اور مہاجرین اور انصار، اور قیامت تک آنے والی مسلمان نسلوں کے حقوق ہیں۔ قرآن پاک کا یہی وہ اہم قانونی فیصلہ ہے جس کی روشنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عراق، شام اور مصر کے مفتوحہ ممالک کی اراضی اور جائدادوں کا اور ان ممالک کی سابق حکومتوں اور ان کے حکمرانوں کی املاک کا نیا بندوبست کیا۔ یہ ممالک جب فتح ہوئے تو بعض ممتاز صحابہ کرام نے، جن میں حضرت زبیر، حضرت بلال، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت سلمان فارسی جیسے بزرگ شامل تھے، اصرار کیا کہ ان کو ان افواج میں تقسیم کر دیا جائے جنہوں نے لڑ کر انہیں فتح کیا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہاموال فَمَآ اَوْ جَفْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِکَابٍ کی تعریف میں نہیں آتے بلکہ ان پر تو مسلمانوں نے اپنے گھوڑے اور اونٹ دوڑا کر انہیں جیتا ہے، اس لیے بجز ان شہروں اور علاقوں کے جنہوں نے جنگ کے بغیر اطاعت قبول کی ہے، باقی تمام مفتوحہ ممالک غنیمت کی تعریف میں آتے ہیں اور ان کا شرعی حکم یہ ہے کہ ان کی اراضی اور ان کے باشندوں کا پانچواں حصہ بیت المال کی تحویل میں دے دیا جائے، اور باقی چار حصے فوج میں تقسیم کر دیے جائیں، لیکن یہ رائے اس بنا پر صحیح نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں جو علاقے لڑ  کر فتح کیے گئے تھے  ان میں سے کسی کی اراضی اور باشندوں کو بھی حضور نے غنائم کی طرح خمس نکالنے کے بعد فوج میں تقسیم نہیں فرمایا تھا۔ آپ کے زمانے کی دو نمایاں  ترین مثالیں فتح مکہ اور فتح خیبر کی ہیں۔ ان میں سے مکہ معظمہ کو تو آپ نے جوں کا توں اس کے باشندوں کے حوالہ فرما دیا۔ رہا  خیبر، تو اس کے متعلق حضرت بشیر بن یسار کی روایت ہے کہ آپ نے اس کے ۳۶ حصے کیے، اور ان میں سے ۱۸ حصے اجتماعی ضروریات کے لیے وقف کے کے باقی ۱۸ حصے فوج میں تقسیم فرما دیے (ابو داؤد، بیہقی، کتاب الاموال لابی عبید، کتاب الخراج لیحیٰ بن آدم، فتوح البلدان للبلاذری، فتح القدیر لا بن ہمام)۔ حضور کے اس عمل سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ اراضی مفتوحہ کا حکم، اگر چہ وہ لڑ کر ہی فتح ہوئی ہوں، غنیمت کا نہیں ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ حضور مکہ کو تو بالکل ہی اہل مکہ کے حوالہ فرما دیتے، اور خیبر میں سے پانچواں حصہ نکالنے کے بجائے اس کا پورا نصف حصہ اجتماعی ضروریات کے لیے بیت المال کی تحویل میں لے لیتے۔ پس سنت سے جو بات ثابت تھی وہ یہ کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کے معاملہ میں امام وقت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی مناسب ترین ہو کر ے۔ وہ ان کو تقسیم بھی کر سکتا ہے۔ اور اگر کوئی غیر معمولی نوعیت کسی علاقے کی ہو، جیسی مکہ معظمہ کی تھی، جو اس کے باشندوں کے ساتھ وہ احسان بھی کر سکتا ہے جو حضورؐ نے اہل مکہ کے ساتھ کیا۔

مگر حضورؐ کے زمانے میں چونکہ فتوحات کی کثرت نہ ہوئی تھی، اور مختلف اقسام کے مفتوحہ ممالک کا الگ الگ حکم کھل کر لوگوں کے سامنے نہ آیا تھا، اس لیے حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب بڑے بڑے ممالک فتح ہوئے تو صحابہ کرام کو اس الجھن سے سابقہ پیش آیا کہ بزور شمشیر فتح ہونے والے علاقے آیا غنیمت ہیں یا فَے۔ مصر کی فتح کے بعد حضرت زبیر نے مطالبہ کیا کہ : اسمھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر، ’’ اس پورے علاقے کو اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا تھا‘‘ (ابوعبید)۔ شام اور عراق کے مفتوحہ علاقوں کے متعلق حضرت بلالؓ نے اصرار کیا کہ اقسم الارَضِین بین الذین افتتحو ھا کما تقسم غنیمۃ العکر۔’’ تمام اراضی کو فاتح فوجوں کے درمیان اسی طرح تقسیم کر دیجیے جس طرح  مال غنیمت تقسیم کیا جاتا ہے ‘‘(کتاب الخراج، ابو یوسف)دوسری طرف حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ دعھم یکونوامادۃً للمسلمین۔ ’’ ان زمینوں کو ان کے کاشتکاروں کے پاس رہنے دیجیے تاکہ یہ مسلمانوں کے لیے ذریعہ آمدنی بنے رہیں ‘‘ (ابو یوسف، ابو عبید)۔ اسی طرح حضرت معاذ بن جبل کی رائے یہ تھی کہ ’’ اگر آپ نے تقسیم کیا تو اس کے نتائج بہت برے ہوں گے۔ اس تقسیم کی بدولت بڑی بڑی جائدادیں ان چند لوگوں کے قبضے میں چلی جائیں گی جنہوں نے یہ علاقے فتح کیے ہیں۔ پھر یہ لوگ دنیا سے رخصت ہو جائیں گے اور ان کی جائدادیں ان کے وارثوں کے پاس رہ جائیں گی، جن میں بسا اوقات کوئی ایک ہی عورت ہو گی یا کوئی ایک مرد ہو گا، لیکن آنے والی نسلوں کے لیے کچھ نہ رہے گا جس سے ان کی ضروریات پوری ہوں اور اسلامی سرحدوں کی حفاظت کے مصارف بھی پورے کیے جا سکیں۔ لہٰذا آپ ایسا بندوبست کریں جس میں موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مفاد کا یکساں تحفظ ہو‘‘ (ابو عبید ص ۵۹۔ فتح الباری، ج ۶، ص ۱۳۸)۔ حضرت عمرؓ نے حساب لگا کر دیکھا کہ اگر سوادِ عراق کو تقسیم کیا جائے تو فی کس کیا حصہ پڑے گا۔ معلوم ہو کہ دو تین فلاح فی کس کا اوسط پڑتا ہے (ابو یوسف،ابو عبید)۔ اس کے بعد انہوں نے شرح صدر کے ساتھ یہ رائے قائم کر لی کہ ان علاقوں کو تقسیم نہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے تقسیم کا مطالبہ کر نے والے مختلف اصحاب کو جو جوابات دیے وہ یہ تھے :

تریدو ن ان یاتی اٰخر الناس لیس لہم شئٍ (ابو عبید)

کیا آپ چاہتے ہیں کہ بعد کے لوگ اس حالت میں آئیں کہ ان کے لیے کچھ نہ ہو؟

فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلو جھا قد اقتسمت و ورثت عن الابآء و حیزت؟ ما ھٰذا ابرائی (ابو یوسف )۔

ان مسلمانوں کا کیا بنے گا جو بعد میں آئیں گے اور حالت یہ پائیں گے کہ زمین اپنے کسانوں سمیت بٹ چکی ہے اور باپ دادا سے لوگوں نے وراثت میں سنبھال لی ہے؟ یہ ہر گز مناسب نہیں ہے۔

فما لمن جاء بعد کم من المسلمین واخاف ان قسمتہ ان تفا سد و ابینکم فی لمیاہ (ابو عبید) تمہارے بعد آنے والے مسلمانوں کے لیے کیا رہے گا؟ اور مجھے خطرہ ہے کہ اگر میں اسے تقسیم کر دوں تو تم پانی پر آپس میں لڑو گے۔

لولا اٰخر الناس مافنحت قریَۃ الا قسمتھا کما قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیبر(بخاری، موطّا، ابو عبید)۔

اگر بعد میں آنے والوں کا خیال نہ ہوتا تو جو علاقہ بھی میں فتح کرتا اسے تقسیم کر دیتا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کو تقسیم کیا۔

لا: ھٰذا عین المال، ولکنی احبسہٗ فیما یجری علیھم وعلی المسلمین۔ (ابو عبید)۔

نہیں، یہ تو عین المال(Real estate) ہے۔ میں اسے روک رکھوں گا تاکہ فاتح فوجوں اور عام مسلمانوں، سب کی ضروریات اس سے پوری ہوتی رہیں۔

لیکن ان جوابات سے لوگ مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے کہنا شروع کیا کہ آپ ظلم کر رہے ہیں۔ آخر کار حضرت عمرؓ نے مجلس شوریٰ کا اجتماع منعقد کیا اور اس کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقع پر جو تقریر آپ نے کی اس کے چند فقرے یہ ہیں :

’’میں نے آپ لوگوں کو صرف اس لیے تکلیف دی ہے کہ آپ اس امانت کے اٹھانے میں میرے ساتھ شریک ہوں جس کا بار آپ کے معاملات کو چلانے کے لیے میرے اوپر رکھا گیا ہے۔ میں آپ ہی لوگوں میں سے ایک فرد ہوں، اور آپ وہ لوگ ہیں جو آج حق کا اقرار کرنے والے ہیں۔ آپ میں سے جو چاہے میری رائے سے اتفاق کرے اور جو چاہے اختلاف کرے میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ میری خواہش کی پیروی کریں۔ آپ کے پاس کتاب اللہ ہے جو ناطق بالحق ہے۔خدا کی قسم میں نے اگر کوئی بات کہو ہے جسے میں کرنا چاہتا ہوں تو اس سے میرا مقصد حق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ …………… آپ ان لوگوں کی بات سن چکے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کروں۔ میں بڑا شقی ہوں گا اگر ظلم کر کے کوئی ایسی چیز جو فی الواقع ان کی ہو، انہیں نہ دوں اور کسی دوسرے کو دے دوں۔ مگر میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی اور علاقہ فتح ہونے والا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایرانیوں کے مال اور ان کی زمینیں اور ان کے کسان، سب ہمارے قبضے میں دے دیے ہیں۔ ہماری فوجوں نے جو غنائم حاصل کیے تھے وہ تو میں خمس نکال کر ان میں بانٹ چکا ہوں، اور ابھی جو غنائم تقسیم نہیں ہوئے ہیں، میں ان کو بانٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہوں۔ البتہ زمینوں کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ انہیں اور ان کے کسانوں کو تقسیم نہ کروں، بلکہ ان پر خراج اور کسانوں پر جزیہ لگا دوں جسے وہ (ہمیشہ ادا کرتے رہیں اور یہ اس وقت کے عام مسلمانوں اور لڑنے والی فوجوں اور مسلمانوں کے بچوں کے لیے اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے فَے ہو۔ کیا آپ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہماری ان سرحدوں کے لیے لازماً ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ان کی حفاظت کرتے رہیں؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے ملک، شام، الجزیرہ، کوفہ، بصرہ، مصر، ان سب میں فوجیں رہنے چاہیں اور ان کو پابندی سے تنخواہیں ملنی چاہیں؟ اگر میں ان زمینوں کو ان کے کسانوں سمیت تقسیم کر دوں تو یہ مصارف کہاں سے آئیں گے؟‘‘

 یہ بحث دو تین دن چلتی رہی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہ حضرات نے حضرت عمؓر اٹھے اور انہوں نے فرمایا کہ مجھے کتاب اللہ سے ایک حجت مل گئی ہے جو اس مسئلے کا فیصلہ کر دینے والی ہے۔ اس کے بعد انہوں ے سورہ حشر کی یہی آیات مَآ اَفَآءَ اللہُ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ مِنْھُمْ سے لے کر رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ تک پڑھیں، اور ان سے یہ استدلال کیا کہ اللہ کی عطا کردہ ان املاک میں صرف اس زمانے کے لوگوں کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ بعد کے آنے والوں کو بھی اللہ نے ان کے ساتھ شریک کیا ہے، پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ اس فَے کو جو سب کے لیے ہے،ہم ان فاتحین میں تقسیم کر دیں اور بعد والوں کے لیے کچھ نہ چھوڑیں؟ نیز اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے کَیْ لَا یَکُوْنَدَوْلَۃً؍بَیْنَالْاَغْنِیَآءِمِنْکُمْ، ’’ تاکہ یہ مال تمہارے مالداروں ہی میں چکر نہ لگا تا رہے ‘‘۔ لیکن اگر میں اسے فاتحین میں تقسیم کر دوں تو یہ تمہارے مالداروں ہی میں چکر لگاتا رہے گا اور دوسروں کے لیے کچھ نہ بچے گا۔ یہ دلیل تھی جس نے سب کو مطمئن کر دیا اور اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان تمام مفتوحہ علاقوں کو عامہ مسلمین کے لیے فَے قرار دیا جائے، جو لوگ ان اراضی پر کام کر رہے ہیں انہیں کے ہاتھوں میں انہیں رہنے دیا جائے اور ان پر خراج اور جزیہ لگا دیا جائے (کتاب الخراج لابی یوسف، صفحہ ۲۳ تا ۲۷ و ۳۵ احکام القرآن للجصاص)۔

اس فیصلے کے مطابق اراضی مفتوحہ کی اصل حیثیت یہ قرار پائی کہ مسلم ملت بحیثیت مجموعی ان کی مالک ہے، جو لوگ پہلے سے ان زمینوں پر کام کر رہے تھے ان کو ملت نے اپنی طرف سے بطور کاشتکار بر قرار رکھا ہے، وہ ان اراضی پر اسلامی حکومت کو ایک مقرر لگان ادا کرتے رہیں گے، نسلاً بعد نسل  یہ کاشتکارانہ حقوق ان کی میراث میں منتقل ہوتے رہیں گے اور وہ ان حقوق کو فروخت بھی کر سکیں گے، مگر زمین کے اصل مالک وہ نہ ہوں گے بلکہ مسلم ملت ان کی مالک ہو گی۔ امام ابو عبید نے اپنی کتاب الاموال میں اس قانون پوزیشن کو اس طرح بیان کیا ہے۔

اقرا ھل السود فی ارضیھم و ضرب علی رؤ سھم الجزیۃ و علیٰ اَرَضِیھم الطسق (ص ۵۷)۔

حضرت عمرؓ نے سواد عراق کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھا، اور ان کے افاد پر جزیہ اور ان کی زمینوں پر ٹیکس لگا دیا۔

اذا اقرّالامام اھل العَنْوۃ فی ارضیھم توارثوھا و تبایعوھا (ص ۸۴)۔

امام (یعنی اسلامی حکومت کا فرمانروا) جب مفتوحہ ممالک کے لوگوں کو ان کی زمینوں پر برقرار رکھے تو وہ ان اراضی کو میراث میں بھی منتقل کر سکیں گے اور بیع بھی کر سکیں گے۔

عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں شعبی سے پوچھا گیا کیا سواد عراق کے لوگوں سے کوئی معاہدہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ معاہدہ تو نہیں ہے، مگر جب ان سے خراج لینا قبول کر لیا گیا تو یہ ان کے ساتھ معاہدہ ہو گیا (ابوعبید،ص۴۹۔ ابویوسف ص ۲۸)۔

حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عتبہ بن فَرقَد نے فُرات کے کنارے ایک زمین خریدی۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا تم نے یہ زمین کس سے خریدی ہے؟ انہوں نے کہا اس کے مالکوں سے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اس کے مالک تو یہ لوگ ہیں (یعنی مہاجرین و انصار )۔ رأیٰ عمراب اصل الارض للمسلمین، ’’ عمرؓ کی رائے یہ تھی کہ ان زمینوں کے اصل مال مسلمان ہیں ‘‘(ابو عبید، ص ۷۴)۔

اس فیصلے کی رو سے ممالک مفتوحہ کے جو اموال مسلمانوں کی اجتماعیہ ملکیت قرار دیے گئے وہ یہ تھے :

وہ زمینیں اور علاقے جو کسی صلح کے نتیجے میں اسلامی حکومت کے قبضے میں آئیں۔

وہ فدیہ یا خراج یا جزیہ جو کسی علاقے کے لوگوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں سے امان حاصل کرنے کے لیے ادا کرنا قبول کیا ہو۔

وہ اراضی اور جائدادیں جن کے مالک انہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔

وہ جائدادیں جن کے مالک مرے گئے اور کوئی مالک باقی نہ رہا۔

وہ اراضی جو پہلے سے کسی کے قبضے میں نہ تھیں۔

وہ اراضی جو پہلے سے لوگوں کے قبضے میں تھیں مگ ان کے سابق مالکوں کو برقرار رکھ کر ان پر جزیہ و خراج عائد کر دیا گیا۔

سابق حکمراں خاندانوں کی جاگیریں۔

سابق حکومتوں کی املاک۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، ج۷، ص ۱۱۶۔ ۱۱۸۔ کتاب الخراج، یحیٰ  بن آدم، ص ۲۲۔ ۶۴۔ مغنی المحتاج، ج ۳ ِ س ۹۳۔ حاشیہ الدسوتی علی الشرح  لکبیر، ج ۲، ص ۱۹۰۔ غائیۃ المنتیہیٰ، ج ۱، ص ۴۶۷۔ ۴۷۱)۔

یہ چیزیں چونکہ صحابہ کرام کے اتفاق سے فَے قرار دی گئی تھیں، اس لیے فقہائے اسلام کے درمیان بھی ان کے فَے قرار دیے جانے پر اصولاً اتفاق ہے۔ البتہ اختلاف چند امور میں ہے جنہیں ہم مختصراً ذیل میں بیان کرتے ہیں :

حنفیہ کہتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کی اراضی کے معاملہ میں اسلامی حکومت (فقہاء کی اصطلاح میں امام)کو اختیار ہے، چاہے تو ان میں سے خمس لے کر باقی فاتح فوج میں تقسیم کر دے، اور چاہے تو ان کو سابق ملکوں کے قبضے میں رہنے دے اور ان کی مالکوں پر جزیہ اور زمینوں پر خراج عائد کر دے۔ اس صورت میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وقف للمسلمین قرار پائیں گی۔ (بدائع الصنائع۔ احکام القرآن للجصاص۔ شرح العنایہ علی الہدایہ۔ فتح القدیر)۔ یہی رائے عبداللہ بن مبارک نے امام سفیان ثوری سے بھی نقل کی ہے (یحیٰ بن آدم۔ کتاب الاموال لابی عبید)

مالکیہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے محض فتح کر لینے ہی سے یہ اراضی خود بخود وقف علی المسلمین ہو جاتی ہیں۔ ان کو وقف کرنے کے لیے نہ امام کے فیصلے کی ضرورت ہے اور نہ مجاہدین کو راضی کرنے کی۔ علاوہ بریں مالکیہ کے ہاں مشہور قول یہ ہے کہ صرف اراضی ہی نہیں، مفتوحہ علاقوں کے مکان اور عمارات بھی حقیقۃً وقف علی المسلمین ہیں البتہ اسلامی حکومت ان پر کرایہ عائد نہیں کرے گی (حاشیہ الدسوتی )۔

حنابلہ اس حد تک حنفیوں سے متفق ہیں کہ اراضی کو فاتحین میں تقسیم کرنا، یا مسلمانوں پر وقف کر دینا امام کے اختیار میں ہے۔ اور اس امر میں مالکیوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ مفتوحہ ممالک کے مکان بھی اگر چہ وقف میں شامل ہوں گے مگر ان پر کرایہ عائد نہ کیا جائے گا (غایۃ المنتہیٰ۔ یہ مذہب حنبلی کے مفتیٰ بہ اقوال کا مجموعہ ہے اور دسویں صدی سے اس مذہب میں فتویٰ اسی کتاب کے مطابق دیا جاتا ہے )۔

شافعیہ کا مسلک یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کے تمام اموال منقولہ غنیمت ہیں، اور تمام اموال غیر منقولہ (اراضی اور مکانات ) کو فَے قرار دیا جائے گا (مغنی المحتاج)۔

بعض فقہاء کہتے ہیں کہ عَنْوۃً فتح ہونے والے ممالک کی اراضی کو اگر امام وقف علی المسلمین کرنا چاہے تو لازم ہے کہ وہ پہلے فاتح فوجوں کی رضا مندی حاصل کرے۔ اس کے لیے وہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے سواد عراق کی فتح سے پہلے جریر بن عبداللہ البحلی سے، جن کے قبیلے کے لوگ جنگ قدسیہ میں شریک ہونے والی فوج کا چوتھائی حصہ تھے، یہ وعدہ کیا تھا کہ مفتوحہ علاقے کا چوتھائی حصہ ان کو دیا جائے گا۔ چنانچہ ۲۔۳۔ سال تک یہ حصہ انکے پاس رہا۔ پھر حضرت عمرؓ نے ان سے فرمایا کہ : لو لا انی قاسم مستول لکنتم علیٰ ماجعل لکم، واری الجاس قد کثر و افادیٰ ان تردہ علیہم، ’’اگر میں تقسیم کے معاملہ میں ذمہ دا اور جو ابدہ نہ ہوتا تو جو کچھ تمہیں دیا جا چکا ہے وہ تمہارے پاس ہی رہنے دیا جاتا۔ لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی کثرت ہو گئی ہے، اس لیے میری رائے یہ ہے کہ تم اسے عام لوگوں کو واپس کر دو‘‘۔ حضرت جریرؓ نے اس بات کو قبول کر لیا اور حضرت عمرؓ نے ان کو اس پر ۸۰ دینار بطور انعام دیے (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے فاتحین کو راضی کرنے کے بعد مفتوحہ علاقوں کو وقف علی المسلمین قرار دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس دلیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ کیونکہ تمام ممالک مفتوحہ کے معاملہ میں تمام فاتحین سے اس طرح کی کوئی رضا مندی نہیں لی گئی تھی، اور صرف حضرت جریر بن عبداللہ کے ساتھ یہ معاملہ صرف اس لیے کیا گیا تھا کہ فتح سے پہلے، قبل اس کے کہ اراضی مفتوحہ کے متعلق کوئی اجماعی فیصلہ ہوتا، حضرت عمرؓ ان سے ایک وعدہ کر چکے تھے، اس لیے وعدے کی پابندی سے برأت حاصل کرنے کے لیے آپ کو انہیں راضی کرنا پڑا۔ اسے کوئی عام قانون قرار نہیں دیا جا سکتا۔

فقہاء کا ایک اور گروہ کہتا ہے کہ وقف قرار دے دینے کے بعد بھی کسی وقت حکومت کو یہ اختیار باقی رہتا ہے کہ ان اراضی کو پھر سے فاتحین میں تقسیم کر دے۔اس کے لیے وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا لو لا ان یضرب بعضکم وجوہ بعض لقسمت اسواد بینکم’’ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم ایک دوسرے سے لڑو گے تو میں سواد کا علاقہ تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا،‘‘ (کتاب الخراج لابی یوسف۔ کتاب الاموال لابی عبید)۔ لیکن جمہور فقہاء نے اس رائے کو بھی قبول نہیں کیا ہے اور وہ اس پر متفق ہیں کہ جب ایک مرتبہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں پر جزیہ و خراج عائد کر کے انہیں ان کی زمینوں پر بر قرار رکھنے کا فیصلہ کر دیا گیا ہو تو اس کے بعد کبھی یہ فیصلہ بدلا نہیں جا سکتا۔ رہی وہ بات جو حضرت علیؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے، تو اس پر ابو بکر جصاص نے احکام القرآن میں تفصیلی بحث کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔

۲۱۔ اس آیت میں اگر چہ اصل مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ فَے کی تقسیم میں حاضر و موجود لوگوں کا ہی نہیں، بعد میں آنے والے مسلمانوں اور ان کی آئندہ نسلوں کا حصہ بھی ہے۔لیکن ساتھ ساتھ اس میں ایک اہم اخلاقی درس بھی مسلمانوں کو دیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کے دل میں کسی دوسرے مسلمان کے لیے بغض نہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کے لیے صحیح روش یہ ہے کہ وہ اپنے اسلاف کے حق میں دعائے مغفرت کرتے رہیں، نہ یہ کہ وہ ان پر لعنت بھیجیں اور تبرا کریں۔ مسلمانوں کو جس رشتے نے ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا ہے وہ در اصل ایمان کا رشتہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دل میں ایمان کی اہمیت دوسری تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو تو لامحالہ وہ ان سب لوگوں کا خیر خواہ ہو گا جو ایمان کے رشتہ سے اس کے بھائی ہیں۔ ان کے لیے بد خواہی اور بغض اور نفرت اس کے دل میں سی وقت جگہ پا سکتی ہے جبکہ ایمان کی قدر اس کی نگاہ میں گھٹ جائے اور کسی دوسری چیز کو وہ اس سے زیادہ اہمیت دینے لگے۔ لہٰذا یہ عین ایمان کا تقاضا ہے کہ ایک مومن کا دل کسی دوسرے مومن کے خلاف نفرت و بغض سے خالی ہو۔ اس معاملہ میں بہترین سبق ایک حدیث سے ملتا ہے جو نسائی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے۔ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ تین دن مسلسل یہ ہوتا رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مجلس میں یہ فرماتے کہ اب تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو اہل جنت میں سے ہے، اور ہر بار وہ آنے والے شخص انصار میں سے ایک صاحب ہی ہوتے۔ یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن عمر و بن عاص کو جستجو پیدا ہوئی کہ آخر یہ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر حضورﷺ نے ان کے بارے میں بار بار یہ بشارت سنائی ہے۔ چنانچہ وہ ایک بہانہ کر کے تین روز مسلسل ان کے ہاں جا کر رات گزارتے رہے تاکہ ان کی عبادت کا حال دیکھیں۔ مگر ان کی شب گزاری میں کوئی غیر معمولی چیز انہیں نظر نہ آئی۔ ناچار انہوں نے خود ان ہی سے پوچھ لیا کہ بھائی، آپ کیا عمل ایسا کرتے ہیں جس کی بنا پر ہم نے حضورؐ سے آپ کے بارے میں یہ عظیم بشارت سنی ہے؟  انہوں نے کہا میری عبادت کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ البتہ ایک ات ہے جو شاید اس کی موجب بنی ہو، اور وہ یہ ہے کہ لا ابد فی نفسی غ،لًّا لا حد من المسلمین، ولا احدہ علی خیراٍ اعطاہ اللہ تعالیٰ ایاہ۔ ’’ میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے خلاف کپٹ نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی بھلائی پر جو اللہ نے اسے عطا کی ہو، اس سے حسد کرتا ہوں ‘‘۔

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی دوسرے مسلمان کے قول یا عمل میں کوئی غلطی پاتا  ہو تو وہ اسے غلط نہ کہے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہر گز  نہیں ہے کہ مومن غلطی بھی کرے تو اس کو صحیح کہا جائے، یا اس کی غلط با کو غلط نہ کہا جائے۔ لیکن کسی چیز کو دلیل کے ساتھ غلط کہنا اور شائستگی کے ساتھ اسے بیان کر دینا اور چیز ہے، اور بغض و نفرت، مَذَمّت و بد گوئی اور سب و شَتُم بالکل ہی ایک دوسری چیز۔ یہ حرکت زندہ معاصرین کے حق میں کی جائے تب بھی ایک بڑی برائی ہے، لیکن مرے ہوئے اسلاف کے حق میں اس کا ارتکاب تو اور زیادہ بڑی برائی ہے، کیونکہ وہ نفس ایک بہت ہی گندا نفس ہو گا نو مرنے والوں کو بھی۔ معاف کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اور ان سب سے بڑھ کر شدید برائی یہ ہے کہ کوئی شخص ان لوگوں کے حق میں بد گوئی کرے جنہوں نے انتہائی سخت آزمائشوں کے دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رفاقت کا حق ادا کیا تھا اور پنی جانیں لڑا کر دنیا میں اسلام کا وہ نور پھیلایا تھا جس کی بدولت آج ہمیں نعمت ایمان میسر ہوئی ہے۔ ان کے درمیان جو اختلافات رو نما ہوئے ان میں اگر ایک شخص کسی فریق کو حق پر سمجھتا ہو اور دوسے فریق کا موقف اس کے رائے میں صحیح نہ ہو تو وہ یہ رائے رکھ سکتا ہے اور اسے معقولیت کے حدود میں بیان بھی کر سکتا ہے۔ مگر ایک فریق کی حمایت میں ایسا غلو کہ دوسرے فریق کے خلاف دل بغض و نفرت سے بھر جائے اور زبان و قلم سے بد گوئی کی تراوش ہونے لگے، ایک ایسی حرکت ہے جو کسی خدا ترس انسان سے سر زد نہیں ہو سکتی۔ قرآن کی صریح تعلیم کے خلاف یہ حرکت جو لوگ کرتے ہیں وہ بالعموم اپنے اس نعل کے لیے یہ عذر بیان کرتے ہیں کہ قرآن مومنین کے خلاف بغض رکھنے سے منع کرتا ہے اور ہم جن کے خلاف بغض رکھتے ہیں وہ مومن نہیں بلکہ منافق تھ۔ لیکن یہ الزام اس گناہ سے بھی بد تر ہے جس کی صفائی میں یہ بطور عذر پیش کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید کی یہی آیات جن کے سلسلہ بیان میں اللہ تعالیٰ نے بعد کے آنے والے مسلمانوں کو اپنے سے پہلے گزرے ہوئے اہل ایمان سے بغض نہ رکھنے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرنے کی تعلیم دی ہے، ان کے اس الزام کی تردید کے لیے کافی ہیں۔ ان آیات میں یکے بعد دیگرے تین گروہوں کو فَے کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔ اول مہاجرین، دوسرے انصار، تیسرے ان کے بعد آنے والے مسلمان۔ اور ان بعد کے آنے والے مسلمانوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم سے پہلے جن لوگوں نے ایمان لانے میں سبقت کی ہے ان کے حق میں دعائے مغفرت کرو۔ ظاہر ہے کہ اس سیاق و سباق میں سابقین بالایمان سے مراد مہاجرین و انصار کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسی سورہ حشر کی آیات ۱۱ تا ۱۷ میں یہ بھی بتا دیا ہے کہ منافق کون لوگ تھے۔ اس سے یہ بات بالکل ہی کھل جاتی ہے کہ منافق وہ تھے جنہوں نے غزوہ بنی نضیر کے موقع پر یہودیوں کی پیٹھ ٹھونکی تھی، اور ان کے مقابلے میں مومن وہ تھے جو اس غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ شامل تھے۔ اس کے بعد کیا ایک مسلمان، جو خدا کا کچھ بھی خوف دل میں رکھتا ہو، یہ جسارت کر سکتا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان کا انکار کرے جن کے ایمان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے؟

امام مالک اور امام احمد نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ فَے میں ان لوگوں کا کوئی حصہ نہیں ہے جو صحابہ کرام کو برا کہتے ہیں (احکام القرآن لابن العربی۔ غایۃ المنتہیٰ)۔ لیکن حنفیہ اور شافعیہ نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین گروہوں کو فَے میں حصہ دار قرار دیتے ہوئے ہر ایک کے ایک نمایاں وصف کی تعریف فرمائی ہے، مگر ان میں سے کوئی تعریف بھی بطور شرط نہیں ہے کہ وہ شرط اس گروہ میں پائی جاتی ہو تو اسے حصہ دیا جائے ورنہ نہیں۔ مہاجرین کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی حمایت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں ‘‘۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جس مہاجر میں یہ صفت نہ پائی جائے وہ فَے میں سے حصہ پانے کا حقدار نہیں ہے۔ انصار کے متعلق فرمایا کہ ’’ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے اس کے لیے اپنے دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے، خواہ وہ خود تنگ دست ہوں ‘‘۔ اس کا بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ فَے میں کسی ایسے انصاری کو کوئی حق نہیں جو مہاجرین سے محبت نہ رکھتا ہو اور جو کچھ ان کو دیا جا رہا ہو اسے خود حاصل کرنے کا خواہشمند ہو۔ لہٰذا تیسرے گروہ کا یہ وصف کہ ’’ اپنے سے پہلے ایمان لانے والوں کے حق میں وہ دعائے مغفرت کرتا ہے اور اللہ سے دعا مانگتا ہے کہ کسی مومن کے لیے اس کے دل میں بعض نہ ہو‘‘، یہ بھی فَے میں حق دار ہونے کی شرط نہیں ہے بلکہ ایک اچھے وصف کی تعریف اور اس امر کی تلقین ہے کہ اہل ایمان کا رویہ دوسرے اہل ایمان کے ساتھ اور اپنے سے پہلے گزرے ہوئے مومنین کے معاملہ میں  کیا ہونا چاہیے۔

 

تم (۲۲) نے دیکھا نہیں ان لوگوں کو جنہوں نے منافقت کی روش اختیار کی ہے؟ یہ اپنے کا فر اہل کتاب بھائیوں سے کہتے ہیں '' اگر تمھیں نکالا گیا تو ہم تمھارے ساتھ نکلیں گے، اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی بات ہر گز نہ مانیں گے، اور تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔" مگر اللہ گواہ ہے کہ یہ لوگ قطعی جھوٹے ہیں۔ اگر وہ نکالے گئے تو یہ ان کے ساتھ ہر گز نہ نکلیں گے، اور ان سے جنگ کی گئی یہ ان کی ہر  گز مدد نہ کریں گے، اور اگر یہ ان کی مدد کریں بھی تو پیٹھ پھیر جائیں گے اور پھر کہیں سے کوئی مدد نہ پائیں گے۔ ان کے دلوں میں اللہ سے بڑھ کر تمہارا خوف ہے، (۲۳)، اس لیئے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ بوجھ نہیں رکھتے (۲۴)۔ یہ کبھی اکٹھے ہو کر (کھلے میدان میں ) تمہارا مقابلہ نہ کریں گے، لڑیں گے بھی تو قلعہ بند بستیوں میں بیٹھ کر یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں۔ تم انہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں (۲۵)۔ ان کا یہ حال ا س لیئے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں، یہ انہی لوگوں کے مانند ہیں جو ان سے تھوڑے ہی مدت پہلے اپنے کیے کا مزا چکھ چکے ہیں (۲۶) اور ان کے لیئے درد ناک عذاب ہے۔ ان کی مثال شیطان کی سی ہے کہ پہلے وہ انسان سے کہتا ہے کہ کفر کر، اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میں تجھ سے بری الذمہ ہوں، مجھے تو اللہ رب العالمین سے ڈر لگتا ہے (۲۷)۔ پھر دونوں کا انجام یہ ہو نا ہے کہ ہمیشہ کے لیئے جہنم میں جائیں، اور ظالموں کی یہی جزا ہے۔

 

۲۲۔ اس پورے رکوع کے انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کو مدینے سے نکل جانے کے لیے دس دن کا نوٹس دیا تھا اور ان کا محاصرہ شروع ہونے میں کئی دن باقی تھے۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب بنی نضیر کو یہ نوٹس دیا تو عبداللہ بن ابی اور مدینہ کے دوسرے منافق لیڈروں نے انکو یہ کہلا بھیجا کہ ہم دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کو آئیں گے، اور بنی قریظہ اور بن غطفان بھی تمہاری حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، لہٰذا تم مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ جاؤ اور ہر گز ان کے آگے ہتھیار نہ ڈالو۔ یہ تم سے لڑیں گے تو ہم تمہارے ساتھ لڑیں گے،اور تم یہاں سے نکالے گئے تو ہم بھی نکل جائیں گے۔اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ پس ترتیب نزول کے اعتبار سے یہ رکوع پہلے کا نازل شدہ ہے اور پہلا رکوع اس کے بعد نازل ہوا ہے جب بنی نضیر مدینہ سے نکالے جا چکے تھے۔لیکن قرآن مجید کی ترتیب میں پہلے رکوع کو مقدم اور دوسرے کو مؤخر اس لیے کیا گیا ہے کہ اہم تر مضمون پہلے رکوع ہی میں بیان ہوا ہے۔

۲۳۔ یعنی ان کے کھل کر میدان میں نہ آنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مسلمان ہیں، ان کے دل میں خدا کا خوف ہے اور اس بات کا کوئی اندیشہ انہیں لاحق ہے کہ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جب یہ اہل ایمان کے مقابلے میں کافروں کی حمایت کریں گے تو خدا کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔ بلکہ انہیں جو چیز تمہارا سامنا کرنے سے روکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تمہاری محبت اور جانبازی اور فدا کاری کو دیکھ کر اور تمہاری صفوں میں زبردست اتحاد دیکھ کر ان کے دل بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تم اگرچہ مٹھی بھر لوگ ہو، مگر جس جذبہ شہادت نے تمہارے ایک ایک شخص کو سرفروش مجاہد بنا رکھا ہے اور جس تنظیم کی بدولت تم ایک فولادی جتھہ بن گئے ہو، اس سے ٹکرا کر یہودیوں کے ساتھ یہ بھی پاش پاش ہو جائیں گے۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اگر کسی کے دل میں خدا سے بڑھ کر کسی اور کا خوف ہو تو یہ در اصل خوف خدا کی نفی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو شخص دو خطرو میں سے ایک کو کم تر اور دوسرے کو شدید تر سمجھتا ہو، وہ پہلے خطرے کی پروا نہیں کرتا اور اسے تمام تر فکر صرف دوسرے خطرے سے بچنے ہی کی ہوتی ہے۔

۲۴۔ اس چھوٹے سے فقرے میں ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ جو شخص سمجھ بوجھ رکھتا ہو وہ تو یہ جانتا ہے کہ اصل میں ڈرنے کے قابل خدا کی طاقت ہے نہ کہ انسانوں کی طاقت۔ اس لیے وہ ہر ایسے کام سے بچے گا جس پر اسے خدا کے مواخذے کا خطرہ ہو، قطع نظر اس سے کہ کوئی انسانی طاقت مواخذہ کرنے والی ہو یا نہ ہو، اور ہر وہ فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو گا جو خدا نے اس پر عائد کیا ہو، خواہ ساری دنیا کی طاقتیں اس میں مانع و مزاحم ہوں۔ لیکن ایک نا سمجھ آدمی کے لیے چونکہ خدا کی طاقت غیر محسوس اور انسانی طاقتیں محسوس ہوتی ہیں، اس لیے تمام معاملات میں وہ اپنے طرز عمل کا فیصلہ خدا کے بجائے انسانی طاقتوں کے لحاظ سے کرتا ہے۔ کسی چیز سے بچے گا تو اس لیے نہیں کہ خدا کے ہاں اس کی پکڑ ہونے والی ہے، بلکہ اس لیے کہ سامنے کوئی انسانی طاقت اس کی خبر لینے کے لیے موجود ہے۔ اور کسی کام کو کرے گا تو وہ بھی اس بنا پر نہیں کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے، یا اس پر وہ خدا کے اجر کا امیدوار ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کہ کوئی انسانی طاقت اس کا حکم دینے والی یا اس کو پسند کرنے والی ہے اور وہ اس کا اجر دے گی۔ یہی سمجھ اور نا سمجھی کا فرق دراصل مومن اور غیر مومن کی سیرت و کردار کو ایک دوسرے سے ممیز کرتا ہے۔

۲۵۔ یہ منافقین کی دوسری کمزوری کا بیان ہے۔ پہلی کمزوری یہ تھی کہ وہ بزدل تھے، خدا سے ڈرنے کے بجائے انسانوں سے ڈرتے تھے اور اہل ایمان کی طرح کوئی بلند تر نصب العین ان کے سامنے نہ تھا جس کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا جذبہ ان کے اندر پیدا ہوتا۔ اور دوسری کمزوری یہ تھی کہ منافقت کے سوا کوئی قدر مشترک ان کے درمیان نہ تھی جو ان کو ملا کر ایک مضبوط جتھا بنا دیتی۔ ان کو جس چیز نے جمع کیا تھا وہ صرف یہ تھی کہ اپنے شہر میں باہر کے آئے ہوئے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و فرمانروائی چلتے دیکھ کر ان سب کے دل جل رہے تھے، اور اپنے ہی ہم وطن انصاریوں کو مہاجرین کی پذیرائی کرتے دیکھ کر ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے۔ اس حسد کی بنا پر وہ چاہتے تھے کہ سب مل جل کر اور آس پاس کے دشمانان اسلام سے ساز باز کر کے اس بیرونی اثر و اقتدار کو کسی طرح ختم کر دیں۔ لیکن اس منفی مقصد کے  سوا کوئی مثبت چیز ان کو ملانے والی نہ تھی۔ ان میں سے ہر ایک سردار کا جتھا الگ تھا۔ ہر ایک اپنی چودھراہٹ چاہتا تھا۔ کوئی کسی کا مخلص دوست نہ تھا۔ بلکہ ہر ایک کے دل میں دوسرے کے لیے اتنا بغض و حسد تھا کہ جسے وہ اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے اس کے مقابلے میں بھی وہ نہ آپس کی دشمنیاں بھول سکتے تھے، نہ ایک دوسرے کی جڑ کاٹنے سے باز رہ سکتے تھے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے غزوہ بنی نضیر سے پہلے ہی منافقین کی اندرونی حالت کا تجزیہ کر کے مسلمانوں کو بتا دیا کہ ان کی طرف سے فی الحقیقت کوئی خطرہ نہیں ہے، لہٰذا  تمہیں یہ خبریں سن سن کر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ جب تم بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لیے نکلو گے تو یہ منافق سردار دو ہزار کا لشکر لے کر پیچھے سے تم پر حملہ کر دیں گے اور ساتھ ساتھ بنی قریظہ اور بنی غطفان کو بھی تم پر چڑھا لائیں گے۔ یہ سب محض لاف زنیاں ہیں جن کی ہوا آزمائش کی پہلی ساخت آتے ہی نکل جائے گی۔

۲۶۔ اشارہ ہے کفار قریش اور یہود بنی قینقاع کی طرف جو اپنی کثرت تعداد اور اپنے سر و سامان کے باوجود انہی کمزوریوں کے باعث مسلمانوں کی مٹھی بھر بے سرو سامان جماعت سے شکست کھا چکے تھے۔

۲۷۔ یعنی یہ منافقین بنی نضیر کے ساتھ وہی معاملہ کر رہے ہیں جو شیطان انسان کے ساتھ کرتا ہے۔ آج یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ تم مسلمانوں سے لڑ جاؤ اور ہم تمہارا ساتھ دیں گے۔ مگر جب وہ واقعی لڑ جائیں گے تو یہ دامن جھاڑ کر اپنے سارے وعدوں سے بری الذمہ ہو جائیں گے اور پلٹ کر بھی نہ دیکھیں گے کہ ان پر کیا گزری ہے۔ ایسا ہی معاملہ شیطان ہر کافر سے کرتا ہے، اور ایسا ہی معاملہ اس نے کفار قریش کے ساتھ جنگ بدر میں کیا تھا، جس کا ذکر سورہ انفال، آیت ۴۸ میں آیا ہے۔پہلے تو وہ ان کو بڑھاوے دے کر بدر میں مسلمانوں کے مقابلہ پر لے آیا اور اس نے ان سے کہا کہ لَا غَالِبَ لَکُمُ الْیَوْمَ مِنَالنَّا سِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّکُمْ۔ (آج کوئی تم پر غالب آنے والا نہیں ہے اور میں تمہاری پشت پر ہوں )، مگر جب دونوں فوجوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ الٹا پھر گیا اور کہنے لگا کہ اِنِّیْ بَرِئٓءٌ مِّنْکُمْ، اِنِّیْ اَریٰ مَا لَا تَرَوْنُ، اِنِّیْ اَخَافُ اللہ (میں تم سے بری الذمہ ہوں، مجھے وہ کچھ نظر آ رہا ہے جو تمہیں نظر نہیں آتا، مجھے تو اللہ سے ڈر لگتا ہے۔)۔

 

اے (۲۸) لوگوں جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیئے کیا سامان کیا ہے (۲۹)۔ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ یقیناً تمہارے ان سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اللہ کو بھول گئے تو اللہ انہیں خود اپنا نفس  بھلا دیا (۳۰)۔ یہی لوگ فاسق ہیں۔ دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے کبھی یکساں نہیں  ہو سکتے۔ جنت میں جا نے والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔
اگر ہم نے یہ قرآن کس پہاڑ پر بھی اتار دیا ت تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جار ہا ہے اور پھٹا پڑ تا ہے (۳۱)۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے ا س لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر ) غور کریں۔
وہ (۳۲) اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (۳۳)، غائب اور ظاہر ہر چیز کا جاننے والا (۳۴)، وہی رحمان اور رحیم ہے (۳۵)۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کو ئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ (۳۶) ہے نہایت مقدس(۳۷)، سرا سر سلامتی، امن دینے والا(۳۸) امن دینے والا(۳۹)، نگہبان (۴۰)، سب پر غالب(۴۱)، اپنی حکم بزور نافذ کرنے والا(۴۲)، اور بڑا ہی ہو کر (۴۳) رہنے والا۔ پاک ہے اللہ اس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں (۴۴)۔ وہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا منصوبہ  بنا نے والا اور اس کو نافذ کرنے والا اور اس کے مطابق صورت گری کرنے والا ہے (۴۵)۔ اس کے لیئے بہترین نام ہیں (۴۶)۔ ہر چیز جو آسمانوں اور زمین میں ہے اس کی تسبیح کر رہی (۴۷) ہے، اور وہ زبردست اور حکیم (۴۸) ہے۔

 

۲۸۔ قرآن مجید کا قاعدہ ہے کہ جب کبھی منافق مسلمانوں کے نفاق پر گرفت کی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ انہیں نصیحت  بھی کی جاتی ہے تاکہ ان میں سے جس کے اندر بھی ابھی کچھ ضمیر کی زندگی باقی ہے وہ اپنی اس روش پر نادم ہو اور خدا سے ڈر کر اس گڑھے سے نکلنے کی فکر کرے جس میں نفس کی بندگی نے اسے گرا دیا ہے۔ یہ پورا رکوع اسی نصیحت پر مشتمل ہے۔

۲۹۔ کل سے مراد آخرت ہے۔ گویا دنیا کی یہ پوری زندگی ’’آج‘‘ ہے اور ’’کل‘‘ وہ یوم قیامت ہے جو اس آج کے بعد آنے والا ہے۔ یہ انداز بیان اختیار کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت حکیمانہ طریقہ سے انسان کو یہ سمجھا یا ہے کہ جس طرح دنیا میں وہ شخص نادان ہے جو آج کے لطف و لذت پر اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا ہے۔ اور نہیں سوچتا کہ کل اس کے پاس کھانے کو روٹی اور سر چھپانے کو جگہ بھی باقی رہے گی یا نہیں، اسی طرح وہ شخص بھی اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار  رہا ہے جو اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ایسا منہمک ہے کہ اپنی آخرت سے بالکل غافل ہو چکا ہے، حالانکہ آخرت ٹھیک اسی طرح آنی ہے جس طرح آج کے بعد کل آنے والا ہے، اور وہاں وہ کچھ نہیں پا سکتا اگر دنیا کی موجودہ زندگی میں اس کے لیے کوئی پیشگی سامان فراہم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ دوسرا حکیمانہ نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں ہر شخص کو آپ ہی اپنا محاسب بنایا گیا ہے۔ جب تک کسی شخص میں خود اپنے برے اور بھلے کہ تمیز پیدا نہ ہو جائے، اس کو سرے سے یہ احساس ہی نہیں ہو سکتا کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ آخرت میں اس کے مستقبل کو سنوارنے والا ہے یا بگاڑنے والا۔ اور جب اس کے اندر یہ جس بیدار ہو جائے تو اسے خود ہی اپنا حساب لگا کر یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ اپنے وقت، اپنے سرمایے، اپنی محنت، اپنی قابلیتیں اور اپنی کوششوں کو جس راہ میں صرف کر رہا ہے وہ اسے جنت کی طرف سے جا رہی ہے یا جہنم کی طرف۔یہ دیکھنا اس کے اپنے ہی مفاد کا تقاضا ہے، نہ دیکھے گا تو آپ ہی  اپنا مستقبل خراب کرے گا۔

۳۰۔ یعنی خدا فراموشی ہے۔ جب آدمی یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کسی کا بندہ ہے تو لازماً وہ دنیا میں اپنی ایک غلط حیثیت متعین کر بیٹھتا ہے اور اس کی ساری زندگی اسی بنیادی غلط فہمی کے باعث غلط ہو کر رہ جاری ہے، اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی کی جاتی ہے۔ اسی طرح جب وہ یہ بھول جاتا ہے کہ وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہے تو وہ اس ایک کی بندگی تو نہیں کرتا جس کا وہ در حقیقت بندہ ہے، اور ان بہت سوں کی بندگی کرتا رہتا ہے جن کا وہ فی الواقع بندہ نہیں ہے۔ یہ پھر ایک عظیم اور ہمہ گیر غلط فہمی ہے جو اس کی ساری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے۔ انسان کا اصل مقام دنیا میں یہ ہے کہ وہ بندہ ہے، آزاد و خود مختار نہیں ہے۔ اور صرف ایک خدا کا بندہ ہے، اس کے سوا کسی اور کا بندہ نہیں ہے۔ جو شخص اس بات کو نہیں جانتا وہ حقیقت میں خود اپنے آپ کو نہیں جانتا۔ اور جو شخص اس کے جاننے کے باوجود کسی لمحہ بھی اسے فراموش کر بیٹھتا ہے اسی لمحے کوئی ایسی حرکت اس سے سرزد ہو سکتی ہے جو کسی منکر یا مشرک یعنی خود فراموش انسان ہی کے کرنے کی ہوتی ہے، صحیح راستے پر انسان کے ثابت قدم رہنے کا پورا انحصار اس بات پر ہے کہ اسے خدا یاد رہے۔ اس سے غافل ہوتے ہی وہ اپنے آپ سے غافل ہو جاتا ہے، اور یہی غفلت اسے فاسق بنا دیتی ہے۔

۳۱۔ اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ قرآن جس طرح خدا کی کبریائی اور اس کے حضور بندے کی ذمہ داری و جواب دہی کو صاف صاف بیان کر رہا ہے، اس کا فہم اگر پہاڑ جیسی عظیم مخلوق کو بھی نصیب  ہوتا اور اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کو کس رب قدیر کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو وہ بھی خوف سے کانپ اٹھتا۔لیکن حیرت کے لائق ہے اس انسان کی بے حسی اور بے فکری جو قرآن کو سمجھتا ہے اور اس کے ذریعہ سے حقیقت حال جان چکا ہے اور پھر بھی اس پر نہ کوئی خوف طاری ہوتا ہے، نہ کبھی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ جو ذمہ داریاں اس پر ڈالی گئی ہیں ان کے بارے میں وہ اپنے خدا کو کیا جواب دے گا۔ بلکہ قرآن کو سن کر یا پڑھ کر وہ اس طرح غیر متاثر رہتا ہے کہ گویا وہ ایک بے جان و بے شعور پتھر ہے جس کا کام سننا اور دیکھنا اور سمجھنا ہے ہی نہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد  چہارم، الاحزاب، حاشیہ ۱۲۰)۔

۳۲۔ ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ خدا جس کی طرف سے یہ قرآن تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، جس نے یہ ذمہ داریاں تم ڈالی ہیں، اور جس کے حضور بالآخر تمہیں جواب دہ ہونا ہے، وہ کیسا خدا ہے اور کیا اس کی صفات ہیں۔ اوپر کے مضمون کے بعد متصلاً صفات الہیٰ کا یہ بیان خود بخود انسان کے نادر یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ اس کا سابقہ کسی معمولی ہستی سے نہیں ہے بلکہ اس عظیم و جلیل ہستی سے ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ اس مقام پر یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ قرآن مجید میں اگر چہ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی صفات بے نظیر طریقے سے بیان کی گئی ہیں جن سے ذات الٰہی کا نہایت واضح ہوتا ہے،لیکن دو مقامات ایسے ہیں جن میں صفات باری تعالیٰ کا جامع ترین بیان پایا جاتا ہے۔ ایک سورہ بقرہ میں آیت الکرسی (آیت ۲۵۵)۔ دوسرے، سورہ حشر کی یہ آیات۔

۳۳۔ یعنی جس کے سوا کسی کی یہ حیثیت اور مقام اور مرتبہ نہیں ہے کہ اس کی بندگی و پرستش کی جائے۔ جس کے سوا کوئی خدائی کی صفات و اختیارات رکھتا ہی نہیں کہ اسے معبود ہونے کا حق پہنچتا ہو۔

۳۴۔ یعنی جو کچھ مخلوقات سے پوشیدہ ہے اس کو بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان پر ظاہر ہے اس سے بھی وہ واقف ہے اس کے علم سے اس کائنات میں کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں۔ ماضی میں جو کچھ گزر چکا ہے، حال میں جو کچھ موجود ہے، اور مستقبل میں جو کچھ ہو گا، ہر چیز اس کو بارہ راست معلوم ہے۔ کسی ذریعہ علم کا  وہ محتاج نہیں ہے۔

۳۵۔ یعنی وہی ایک ہستی ایسی ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے، تمام کائنات پر وسیع ہے، اور کائنات کی ہر چیز کو اس کا فیض پہنچتا ہے۔ سارے جہان میں کوئی دوسرا اس ہمہ گیر اور غیر محدود رحمت کا حامل نہیں ہے۔ دوسری جس ہستی میں بھی صفت رحم پائی جاتی ہے اس کی رحمت جزوی اور محدود ہے، اور وہ بھی اس کی ذاتی صفت نہیں ہے بلکہ خالق نے کسی مصلحت اور ضرورت کی خاطر اسے عطا کی ہے۔ جس مخلوق کے اندر بھی اس نے کسی دوسری مخلوق کے لیے جذبہ رحم پیدا کیا ہے، اس لیے پیدا کیا ہے کہ ایک مخلوق کو وہ دوسری مخلوق کی پرورش اور خوشحالی کا ذریعہ بنانا چاہت ہے۔ یہ بجائے خود اسی کی رحمت بے پایاں کی دلیل ہے۔

۳۷۔ اصل میں لفظ اَلْمَلِکْ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اصل بادشاہ وہی ہے۔ نیز مطلقاً الملک کا لفظ استعمال کرنے سے یہ مفہوم بھی نکلتا ہے کہ وہ کسی خاص علاقے یا مخصوص مملکت کا نہیں بلکہ سارے جہان کا بادشاہ ہے۔ پوری کائنات پر اس کی سلطانی و فرمانروائی محیط ہے۔ ہر چیز کو وہ مالک ہے۔ ہر شے اس کے تصرف اور اقتدار اور حکم کی تابع ہے۔ اور اس کی حاکمیت (Sovereignty) کو محدود کرنے والی کوئی شے نہیں ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کی بادشاہی کے ان سارے پہلوؤں کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے :

وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰ تِ وَ الْاَرْضِ کُلٌّ لَّہٗ تٰنِتُوْنَ (الروم: ۲۶)

زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں اس کے مملوک ہیں، سب اس کے تابع فرمان ہیں۔

یُدَ بِّرُالْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الْاَرْض، (السجدہ ۵)۔

آسمان سے زمین تک وہی ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔

لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰ تِ وَالْاَرْضِ وَاِلَی اللہِ تُرْ جَعُ الْاُمُوْرُ۔ (الحدید: ۵)۔

زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اسی کی ہے اور اللہ ہی کی طرف سارے معاملات رجوع کیے جاتے ہیں۔

وَلَمْیَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ (الفرقان : ۲)

بادشاہی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔

بِیَدِہٖ مَلَکُوْ تُ کُلِّ شَیْءٍ (یٰس : ۸۳)۔

ہر چیز کی سلطانی و فرمانروائی اسی کے ہاتھ میں ہے۔

فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ۔ (البروج : ۱۶)۔

جس چیز کا ارادہ کرے سے کر گزرنے والا۔

لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُوَھُمْ یُسْئَلُوْنَ (الانبیاء : ۲۳)

جو کچھ وہ کرے اس پر وہ کسی کے سانے جوابدہ نہیں ہے، اور سب جواب دہ ہیں۔

وَاللہُ یَحْکُمُ لَامُعَقِّبَ لِحُکْمِہٖ۔ (الرعد:۴۱)

اور اللہ فیصلہ کرتا ہے، کوئی اس کے فیصلے پر نظر ثانی کرنے والا نہیں ہے۔

وَھُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارَ عَلَیْہِ۔ (المؤمنون : ۸۸)۔

اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔

قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَالْمُلْکَ تُؤْتِیالْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ بِیَدِ کَ الْحَیْرُ اِنَّکَ عَلیٰ کُلِّ شَئ ءٍ قَدِیْرٌ (آل عمران : ۲۶ )۔

کہو، خدایا، ملک کے ملک، تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے۔ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل کر دیتا ہے۔ بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے یقیناً تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

ان توضیحات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بادشاہی حاکمیت کے کسی محدود یا مجازی مفہوم میں نہیں بلکہ اس کے پورے مفہوم میں، اس کے مکمل تصور کے لحاظ سے حقیقی بادشاہی ہے۔ بلکہ در حقیقت حاکمیت جس چیز کا نام ہے وہ اگر کہیں پائی جاتی ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی بادشاہی میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے سوا اور جہاں بھی اس کے ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، خواہ وہ کسی بادشاہ یا ڈکٹیٹر کی ذات ہو، یا کوئی طبقہ یا گروہ یا خاندان ہو، یا کوئی قوم ہو، اسے فی الواقع کوئی حاکمیت حاصل سے سے اس حکومت کو کہتے ہی نہیں ہیں جو کسی کا عطیہ ہو، جو کبھی ملتی ہو اور کبھی سلب ہو جاتی ہو، جسے کسی دوسری طاقت سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہو، جس کا قیام و بقاء عارضی دوقتی ہو، اور جس کے دائرہ اقتدار کو بہت سی دوسری متصادم قوتیں محدود کرتی ہوں۔

لیکن قرآن مجید صرف یہ کہنے پر اکتفا نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا بادشاہ ہے، بلکہ بعد کے فقروں میں تصریح کرتا ہے کہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو قدوس ہے، سلام ہے، مومن ہے، مہیمن ہے، عزیز ہے، جبار ہے، متکبر ہے، خالق ہے، باری ہے اور مصور ہے۔

۳۷۔ اصل میں لفظ قُدُّوس استعمال ہوا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس کا مادہ قدس ہے۔ قدس کے معنی ہیں تمام بُری صفات سے پاکیزہ اور منزہ ہونا۔ اور قُدُّوس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے بدر جہا بالا و بر تر ہ کہ اس کی ذات میں کوئی عیب، یا نقص،یا کوئی قبیح صفت پائی جائے۔ بلکہ وہ ایک پاکیزہ ترین ہستی ہے جس کے بارے میں کسی بُرائی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قدوسیت در حقیقت حاکمیت کے اولین لوازم میں سے ہے۔ انسان کی عقل اور فطرت یہ ماننے سے انکار کرتی ہے کہ حاکمیت کی حامل کوئی ایسی ہستی ہو جو شریر اور بد خلق اور بد بیت ہو۔ جس میں قبیح صفات پائی جاتی ہوں۔ جس کے اقتدار سے اس کے محکوموں کو بھلائی نصیب ہونے کے بجائے بُرائی کا خطرہ لاحق ہو۔ اسی بنا پر انسان جہاں بھی حاکمیت کو مرکوز قرار دیتا ہے وہاں قدوسیت نہیں بھی ہوتی تو اسے موجود فرض کر لیتا ہے، کیونکہ قدوسیت کے بغیر اقتدار مطلق ناقابل تصور ہے۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا در حقیقت کوئی مقتدرِ اعلیٰ بھی قدوس نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا۔ شخصی بادشاہی ہو یا جمہور کی حاکمیت، یا اشتراکی نظام کی فرمانروائی، یا انسانی حکومت کی کوئی دوسری صورت، بہر حال اس کے حق میں قدوسیت کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔

۳۸۔ اصل میں لفظ السلام استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سلامتی۔ کسی کو سلیم، یا سام کہنے کے بجائے سلامتی کہنے سے خود بخود مبالغہ کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی کو حسین کہنے کے بجائے حسن کہا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ اللہ تعالیٰ کو السلام کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سراسر سلامتی ہے۔ اس کی ذات اس سے بالا تر ہے کہ کوئی آفت، یا کمزوری یا خامی اس کو لاحق ہو، یا کبھی اس کے کمال پر زوال آئے۔

۳۹۔ اصل میں لفظ اَلْمُؤْ مِنُ استعمال ہوا ہے جس کا مادہ امن ہے۔ امن کے معنی ہیں خوف سے محفوظ ہونا۔ اور مؤْمِن وہ ہے جو دوسرے کو امن دے۔ اللہ تعالیٰ کو اس معنی میں مؤمِن کہا گیا ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو امن دینے والا ہے۔ اس کی خلق اس خوف سے بالکل محفوظ ہے کہ وہ کبھی اس پر ظلم کرے گا، یا اس کا حق مارے گا، یا اس کا اجر ضائع کرے گا، یا اس کے ساتھ اپنے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا۔ پھر چونکہ اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ وہ کس کو امن دینے والا ہے، بلکہ مطلقاً المؤمن کہا گیا ہے، اس لیے اس سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ اس کا امن ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کے لیے ہے۔

۴۰۔ اصل میں لفظ اَلْمھَُیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے، شاہد، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے، قائم بامور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے، اور اس فاعل کا کوئی مفعول بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کس کا نگہبان و محافظ، کس کا شاہد، اور کس کی خبر گیری کی ذمہ داری اٹھانے والا ہے، اس لیے اس اطلاق سے خود بخود مفہوم نکلتا ہے کہ وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری، اور پرورش، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے۔

۴۱۔ اصل میں لفظ العزیز استعمال ہوا ہے جس سے مراد ہے ایسی زبر دست ہستی جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو، جس کے فیصلوں کی مزاحمت کر نا کسی کے بس میں نہ ہو، جس کے آگے سب بے بس اور بے زور ہوں۔

۴۲۔ اصل میں لفظ الجبار استعمال ہوا ہے جس کا مادہ جبر ہے۔ کبر کے معنی ہیں کسی شے کو طاقت سے درست کرنا، کسی چیز کی بزور اصلاح کرنا۔ اگرچہ عربی زبان میں کبھی جبر محض اصلاح کے لیے بھی بولا جاتا ہے، اور کبھی صرف زبردستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن اس کا حقیق مفہوم اصلاح کے لیے طاقت کا استعمال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو جبار اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنی کائنات کا نظم بزور درست رکھنے والا اور اپنے ارادے کو، جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتا ہے، جبراً نافذ کرنے والا ہے۔ علاوہ بریں لفظ جبار میں عظمت کا مفہوم بھی شامل ہے۔ عربی زبان میں کھجور کے اس درخت کو جبار کہتے ہیں جو اتنا بلند و بالا ہو کہ اس کے پھل توڑنا کسی کے لیے آسان نہ ہو۔ اسی طرح کوئی کام جو بڑا عظیم الشان ہو عمل جبار کہلاتا ہے۔

۴۳۔ اصل میں لفظ الْمُتَکَبِّر استعمال ہوا ہے جس کے دو مفہوم ہیں۔ ایک وہ جو فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر خواہ مخواہ بڑا بنے۔ دوسرے وہ جو حقیقت میں بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ انسان ہو یا شیطان، یا کوئی اور مخلوق، چونکہ بڑائی فی الواقع اس کے لیے نہیں ہے، اس لیے اس کا اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں پر اپنی بڑائی جتانا ایک جھوٹا ادعا اور بدترین عیب ہے۔ اس کے برعکس، اللہ تعالیٰ حقیقت میں بڑا ہے اور بڑائی فی الواقع اسی کے لیے ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے مقابلے میں حقیر و ذلیل ہے، اس لیے اس کا بڑا ہونا اور بڑا ہی ہو کر رہنا کوئی ادعا اور تصنع نہیں بلکہ ایک امر واقعی ہے، ایک بری صفت نہیں بلکہ ایک خوبی ہے جو اس کے سوا کسی میں نہیں پائی جاتی۔

۴۴۔ یعنی اس کے اقتدار اور اختیارات اور صفات میں، یا اس کی ذات میں، جو لوگ بھی کسی مخلوق کو اس کا شریک قرار دے رہے ہیں۔ وہ در حقیقت ایک بہت بڑا جھوٹ بول رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ کسی معنی میں بھی کوئی اس کا شریک ہو۔

۴۵۔ یعنی پوری دنیا اور دنیا کی ہر چیز تخلیق کے ابتدائی منصوبے سے لے کر اپنی مخصوص صورت میں وجود پذیر ہونے تک بالکل اسی کی ساختہ پرداختہ ہے۔ کوئی چیز بھی نہ خود وجود میں آئی ہے، نہ اتفاقاً پیدا ہو گئی ہے، نہ اس کی ساخت و پرداخت میں کسی دوسرے کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فعل تخلیق کو تین الگ مراتب میں بیان کیا گیا ہے جو یکے بعد دیگرے واقع ہوتے ہیں۔ پہلا مرتبہ خَلُق ہے جس کے معنی تقدیر یا منصوبہ سازی کے ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی انجینیئر ایک عمارت بنانے سے پہلے یہ ارادہ کرتا ہے کہ اسے ایسی اور ایسی عمارت فلاں خاص مقصد کے لیے بنانی ہے اور اپنے ذہن میں اس کا نقشہ (Design) سوچتا ہے کہ اس مقصد کے لیے زیر تجویز عمارت کی تفصیلی صورت اور مجموعی شکل یہ ہونی چاہیے۔ دوسرا مرتبہ ہے برء، جس کے اصل معنی ہیں جدا کرنا، چاک کرنا، پھاڑ کر الگ کرنا۔ خالق کے لیے باری کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ وہ اپنے سوچے ہوئے نقشے کو نافذ کرتا اور اس چیز کو، جس کا نقشہ اس نے سوچا ہے، عدم سے نکال کر وجود میں لاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے انجینیئر نے عمارت کا جو نقشہ ذہن میں بنایا تھا اس کے مطابق وہ ٹھیک ناپ تول کر کے زمین پر خط کشی کرتا ہے، پھر بنیادیں کھودتا ہے، دیواریں اٹھاتا ہے اور تعمیر کے سارے عملی مراحل طے کرتا ہے۔ تیسرا مرتبہ تصویر ہے جس کے معنی ہیں صورت بنانا، اور یہاں اس سے مراد ہے ایک شے کو اس کی آخری مکمل صورت میں بنا دینا۔ ان تینوں مراتب میں اللہ تعالیٰ کے کام اور انسانی کاموں کے درمیان سے کوئی مشابہت نہیں ہے۔ انسان کا کوئی منصوبہ بھی ایسا نہیں ہے جو سابق نمونوں سے ماخوذ نہ ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ہر منصوبہ بے مثال اور اس کی اپنے ایجاد ہے۔ انسان جو کچھ بھی بناتا ہے اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ مادوں کو جوڑ جاڑ کر بناتا ہے۔ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں نہیں لاتا بلکہ جو کچھ وجود میں لایا ہے اور وہ مادہ بھی بجائے خود اس کا پیدا کردہ ہے جس سے اس نے یہ دنیا بنائی ہے۔ اسی طرح سورت گری کے معاملہ میں بھی انسان موجد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورتوں کا نقال اور بھونڈا نقال ہے۔ اصل مصور اللہ تعالیٰ ہے جس نے ہر جنس، ہر نوع، اور ہر فرد کی صورت لا جواب بنائی ہے اور کبھی ایک صورت کی ہو بہو تکرار نہیں کی ہے۔

۴۶۔ ناموں سے مراد اسمائے صفات ہیں۔ اور اس کے لیے بہترین نام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے وہ اسمائے صفات موزوں نہیں ہیں جن سے کسی نوعیت کے نقص کا اظہار ہوتا ہو، بلکہ اس کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے جو اس کی صفات کمالیہ کا اظہار کرتے ہوں۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے یہ اسمائے حسنیٰ بیان کیے گئے ہیں، اور حدیث میں اس ذات پاک کے ۹۹ نام گنائے گئے ہیں، جنہیں ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہؓ کی رویت سے بالتفصیل نقل کیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اگر آدمی ان اسماء کو بغور پڑھے تو وہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کی کسی دوسری زبان میں اگر اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ہو تو کون سے الفاظ اس کے لیے موزوں ہوں گے۔

۴۷۔ یعنی زبان قال یا زبان حال سے یہ بیان کر رہی ہے کہ اس کا خالق ہر عیب اور نقص اور کمزوری اور غلطی سے پاک ہے۔

۴۸۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حدید، حاشیہ ۲۔