١۔ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ اس میں امر الٰہی ثابت ہو گا اور خود یہ بھی بہر صورت وقوع پذیر ہونے والی ہے، اس لئے اسے الْحَاَقَّۃُ سے تعبیر فرمایا۔
٢۔ یہ لفظاً استفہام ہے لیکن اس کا مقصد قیامت کی عظمت اور شان بیان کی گئی ہے۔
٣۔ گویا کہ تجھے اس کا علم نہیں، کیوں کہ تو نے ابھی اسے دیکھا ہے اور نہ اس کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہے، گویا مخلوقات کے دائرہ علم سے باہر ہے (فتح القدیر)
٤۔ اس میں قیامت کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔
٥۔ اس میں قیام کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔
٦۔ کسی کے قابو میں نہ آنے والی، یعنی نہایت تند و تیز، پالے والی اور بے قابو ہوا کے ذریعے اسے حضرت ہود علیہ السلام کی قوم عاد کو ہلاک کیا گیا۔
٧۔ جسم کے معنی کاٹنے اور جدا جدا کرنے کے ہیں اور بعض نے حسوما کے معنی پے درپے کیے ہیں۔ اس سے ان کی درازی کی طرف اشارہ ہے کھوکھلے بے روح جسم کو کھوکھلے تنے سے تشبیہ دی ہے۔
۱۰۔یعنی ان کی ایسی گرفت کی جو دوسری قوموں کی گرفت سے زائد یعنی سب میں سخت تر تھی۔
١١۔ (۱) یعنی پانی بلندی میں تجاوز کر گیا، یعنی پانی خوب چڑھ گیا۔
١١۔ (۲) کُم سے مخاطب عہد رسالت کے لوگ ہیں، مطلب ہے کہ تم جن آبا کی پشتوں سے ہو، ہم نے انہیں کشتی میں سوار کر کے بپھرے ہوئے پانی سے بچایا تھا۔ اَلْجَارِیَۃ سے مراد سفینہ نوح علیہ السلام ہے۔
۱۲۔یعنی یہ فعل کہ کافروں کو پانی میں غرق کر دیا اور مومنوں کو کشتی میں سوار کرا کے بچا لیا تمہارے لیے اس کو عبرت و نصیحت بنا دیں تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔ یعنی سننے والے اسے سن کر یاد رکھیں اور وہ بھی اس سے عبرت پکڑیں۔
۱۳۔مکذبین کا انجام بیان کرنے کے بعد اب بتلایا جا رہا ہے کہ یہ الحاقہ کس طرح واقع ہو گی اسرافیل کی ایک ہی پھونک سے یہ برپا ہو جائے گی۔
۱٤۔یعنی اپنی جگہوں سے اٹھا لیے جائیں گے اور قدرت الہی سے اپنی قرار گاہوں سے ان کو اکھیڑ لیا جائے گا۔
١٦۔ یعنی اس میں کوئی قوت اور استحکام نہیں رہے گا جو چیز پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے۔ اس میں استحکام کس طرح رہ سکتا ہے۔
١٧۔ یعنی آسمان تو ٹکرے ٹکرے ہو جائے گا پھر فرشتے کہاں ہوں گے فرمایا کہ وہ آسمان کے کناروں پر ہوں گے اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ فرشتے آسمان پھٹنے سے پہلے ہی اللہ کے حکم سے زمین پر آ جائیں گے۔ یعنی اب مخصوص فرشتوں نے عرش الٰہی کو اپنے سروں پر اٹھایا ہوا ہو گا، یہ بھی ممکن ہے اس عرش سے مراد وہ عرش ہو جو فیصلوں کے لئے زمین پر رکھا جائے گا، جس پر اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا (ابن کثیر)
۱۸۔یہ پیشی اس لیے نہیں ہو گی کہ جن کو اللہ نہیں جانتا ان کو جان لے گا وہ تو سب کو ہی جانتا ہے یہ پیشی خود انسانوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ہو گی ورنہ اللہ سے تو کسی کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔
١٩۔یعنی جو اس کی سعادت، نجات اور کامیابی کی دلیل ہو گا۔ یعنی وہ مارے خوشی کے ہر ایک کو کہے گا کہ لو، میرا اعمال نامہ پڑھ لو میرا اعمال نامہ تو مجھے مل گیا، اس لئے کہ اسے پتہ ہو گا کہ اس میں اس کی نیکیاں ہی نیکیاں ہوں گی، کچھ برائیاں ہوں گی تو اللہ نے معاف فرما دی ہوں گی۔
۲۰۔یعنی آخرت کے حساب و کتاب پر میرا کامل یقین تھا۔
۲۲۔جنت میں مختلف درجات ہیں ہر درجے کے درمیان بہت فاصلہ ہے جیسے مجاہدین کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ نے مجاہدین کے تیار کیے ہیں ان کے دو درجوں کے درمیان کا فاصلہ زمین و آسمان جتنا ہے۔ (صحیح مسلم)
٢٣۔ یعنی بالکل قریب ہوں گے کوئی لیٹے لیٹے بھی توڑنا چاہے گا تو ممکن ہو گا۔
٢٤۔ یعنی دنیا میں اعمال صالحہ کئے، یہ جنت ان کا صلہ ہے۔
٢٥۔ کیوں کہ نامہ اعمال کا بائیں ہاتھ میں ملنا بدبختی کی علامت ہو گا۔
٢٦۔ یعنی مجھے بتلایا ہی نہ جاتا کیوں کہ سارا حساب ان کے خلاف ہو گا۔
٢٧۔ یعنی موت ہی فیصلہ کن ہوتی اور دوبارہ زندہ نہ کیا جاتا تاکہ یہ روز بد نہ دیکھنا پڑتا۔
٢٩۔ یعنی جس طرح مال میرے کام نہ آیا، جاہ و مرتبہ اور سلطنت و حکومت بھی میرے کام نہ آئی۔ آج میں اکیلا ہی سزا بھگت رہا ہوں۔
٣١۔ یہ اللہ ملائکہ جہنم کو حکم دے گا۔
۳۲۔ذراع (ہاتھ) یہ کتنا ہو گا اس کی وضاحت ممکن نہیں تاہم اس سے اتنا معلوم ہوا کہ زنجیر کی لمبائی ستر ذراع ہو گی۔
٣٣۔ یہ مذکورہ سزا کی علت یا مجرم کے جرم کا بیان ہے۔
٣٤۔ یعنی عبادت و اطاعت کے ذریعے سے اللہ کا حق ادا کرتا تھا اور نہ وہ حقوق ادا کرتا تھا جو بندوں کے بندوں پر ہیں۔ گویا اہل ایمان میں یہ جامعیت ہوتی ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔
۳ ٦۔بعض کہتے ہیں کہ یہ جہنم میں کوئی درخت ہے بعض کہتے ہیں کہ زقوم ہی کو غسلین کہا گیا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جہنمیوں کی پیپ یا ان کے جسموں سے نکلنے والا خون اور بدبو دار ہو گا۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔آمین۔
۳۷۔خاطئون سے مراد اہل جہنم ہیں جو کفر و شرک کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے اس لیے کہ یہ گناہ ایسے ہیں جو خلود فی النار کا سبب ہیں۔
٣٩۔ یعنی اللہ کی پیدا کردہ وہ چیزیں، جو اللہ کی ذات اور اس کی قدرت و طاقت پر دلالت کرتی ہیں، جنہیں تم دیکھتے ہو یا نہیں دیکھتے، ان سب کی قسم ہے۔ آگے جواب قسم ہے۔
٤٠۔ بزرگ رسول سے مراد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اور قول سے مراد تلاوت ہے یعنی رسول کریم سے مراد ایسا قول ہے جو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے تمہیں پہنچاتا ہے۔ کیونکہ قرآن، رسول یا جبرائیل علیہ السلام کا قول نہیں ہے، بلکہ اللہ کا قول ہے جو اس نے فرشتے کے ذریعے سے پیغمبر پر نازل فرمایا ہے، پھر پیغمبر اسے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔
٤۱۔جیسا کہ تم سمجھتے ہو اور کہتے ہو اس لیے کہ یہ اصناف شعر سے نہ اس کے مشابہ ہے پھر یہی کسی شاعر کا کلام کس طرح ہو سکتا ہے۔
٤۲۔جیسا کہ تم بعض دفعہ تم یہ دعوی کرتے ہو حالانکہ کہانت بھی ایک دوسری چیز ہے۔قلت دونوں جگہ نفی کے معنی میں ہے یعنی تم نہ قرآن پر ایمان لاتے ہو نہ نصیحت پر عمل کرتے ہو۔
٤۳۔یعنی رسول کی زبان سے ادا ہونے والا یہ قول رب العالمین کا اتارا ہوا کلام ہے اسے تم کبھی شاعری اور کبھی کہانت کہہ کر اس کی تکذیب کرتے ہو۔
٤٤۔ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر دیتا، یا اس میں کمی بیشی کر دیتا، تو ہم فوراً اس کا مؤاخذہ کرتے اور اسے ڈھیل نہ دیتے جیسا کہ اگلی آیات میں فرمایا۔
٤٥۔ یا دائیں ہاتھ کے ساتھ اس کی گرفت کرتے، اس لئے کہ دائیں ہاتھ سے گرفت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اور اللہ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔
٤٦۔ خیال رہے یہ سزا، خاص نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ضمن میں بیان کی گئی ہے جس سے مقصد آپ کی صداقت کا اظہار ہے۔ اس میں یہ اصول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ جو بھی نبوت کا جھوٹا وعدہ کرے تو جھوٹے مدعی کو ہم فورا سزا سے دوچار کر دیں گے لہذا اس سے کسی جھوٹے نبی کو اس لیے سچا باور نہیں کرایا جا سکتا کہ دنیا میں وہ مؤخذہ الہی سے بچا رہا۔
٤٧۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچے رسول تھے، جن کو اللہ نے سزا نہیں دی، بلکہ دلائل و معجزات اور اپنی خاص تائید و نصرت سے انہیں نوازا۔
٤۸۔کیونکہ وہی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ورنہ قرآن تو سارے ہی لوگوں کے لیے نصیحت لے کر آیا ہے۔
٥٠۔ یعنی قیامت والے دن اس پر حسرت کریں گے، کہ کاش ہم نے قرآن کی تکذیب نہ کی ہوتی۔ یا یہ قرآن بجائے خود ان کے لئے حسرت کا باعث ہو گا، جب وہ اہل ایمان کو قرآن کا اجر ملتے ہوئے دیکھیں گے۔
٥١۔ یعنی قرآن اللہ کی طرف سے ہونا بالکل یقینی ہے، اس میں قطعاً شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ یا قیامت کی بابت جو خبر دی جا رہی ہے، وہ بالکل حق اور سچ ہے۔