خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الحَاقَّة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ حاقّہ مکّیہ ہے، اس میں دو ۲رکوع، باون ۵۲ آیتیں، دو سو چھپّن۲۵۶ کلمے، ایک ہزار چار سو تیئیس ۱۴۲۳حرف ہیں۔

(۱) وہ حق ہونے  وا لی (ف ۲)

۲                 یعنی قیامت جو حق و ثابت ہے اور اس کا وقوع یقینی و قطعی ہے جس میں کوئی شک نہیں۔

(۲) کیسی وہ حق ہونے  وا لی (ف ۳)

۳                 یعنی وہ نہایت عجیب و عظیم الشان ہے۔

(۳) اور تم نے  کیا جانا کیسی وہ حق ہونے  وا لی (ف ۴)

۴                 جس کے اہوال واحوال اور شدائد تک فکرِ انسانی کا طائر پرواز نہیں کر سکتا۔

(۴) ثمود اور عاد نے  اس سخت  صدمہ دینے  وا لی کو جھٹلایا۔

(۵) تو ثمود تو ہلاک کیے  گئے  حد سے  گزری ہوئی چنگھاڑ سے  (ف ۵)

۵                 یعنی سخت ہولناک آواز سے۔

(۶) اور  رہے  عاد وہ  ہلاک کیے  گئے  نہایت سخت گرجتی آندھی سے۔

(۷) وہ ان پر قوت سے  لگا دی سات  راتیں اور آٹھ  دن (ف ۶) لگاتار تو ان لوگوں کو ان میں (ف ۷) دیکھو بچھڑے  ہوئے  (ف ۸) گویا وہ کھجور کے  ڈھنڈ (سوکھے  تنے ) ہیں گرے  ہوئے۔

۶                 چہار شنبہ سے چہار شنبہ تک آخرِ ماہ شوال میں نہایت تیز سردی کے موسم میں۔

۷                 یعنی ان دنوں میں۔

۸                 کہ موت نے انہیں ایسا ڈھا دیا۔

(۸) تو تم ان میں کسی کو بچا ہوا دیکھتے  ہو (ف ۹)

۹                 کہا گیا ہے کہ آٹھویں روز جب صبح کو وہ سب لوگ ہلاک ہو گئے تو ہواؤں نے انہیں اڑا کر سمندر میں پھینک دیا اور ایک بھی باقی نہ رہا۔

(۹) اور  فرعون اور اس سے  اگلے  (ف ۱۰) اور الٹنے  وا لی بستیاں (ف ۱۱) خطا لائے  (ف ۱۲)

۱۰               ا س سے بھی پہلی امّتوں کے کفّار۔

۱۱               نافرمانیوں کی شامت سے مثلِ قومِ لوط کی بستیوں کے یہ سب۔

۱۲               افعالِ قبیحہ و معاصی و شرک کے مرتکب ہوئے۔

 (۱۰) تو انہوں نے  اپنے   رب کے  رسولوں کا حکم نہ مانا (ف ۱۳) تو اس نے  انہیں بڑھی چڑھی گرفت سے  پکڑا

۱۳               جو ان کی طرف بھیجے گئے تھے۔

 (۱۱) بیشک جب پانی نے  سر اٹھایا تھا (ف ۱۴) ہم نے  تمہیں (ف ۱۵) کشتی میں سوار کیا (ف ۱۶)

۱۴               اور وہ درختوں، عمارتوں، پہاڑوں اور ہر چیز سے بلند ہو گیا تھا۔ یہ بیان طوفانِ نوح کا ہے علیہ السلام۔

۱۵               جب کہ تم اپنے آباء کے اصلاب میں تھے حضرت نوح علیہ السلام کی۔

۱۶               اور حضرت نوح علیہ السلام کو اور ان کے ساتھ والوں کو جو انپر ایمان لائے تھے نجات دی اور باقیوں کو غرق کیا۔

(۱۲) کہ اسے  (ف ۱۷) تمہارے  لیے  یادگار کریں (ف ۱۸) اور اسے  محفوظ رکھے  وہ کان کہ سن کر محفوظ رکھتا ہو (ف ۱۹)

۱۷               یعنی مومنین کو نجات دینے اور کافروں کے ہلاک فرمانے کو۔

۱۸               کہ سببِ عبرت و نصیحت ہو۔

۱۹               کام کی باتوں کو تاکہ ان سے نفع اٹھائے۔

(۱۳) پھر جب صور پھونک  دیا جائے  ایک دم۔

(۱۴)  اور  زمین اور پہاڑ  اٹھا کر دفعتاً چُورا کر دیے  جائیں۔

(۱۵) وہ دن ہے  کہ ہو پڑے  گی وہ ہونے   وا لی (ف ۲۰)

۲۰               یعنی قیامت قائم ہو جائے گی۔

(۱۶)  اور آسمان پھٹ جائے  گا تو اس دن اس کا پتلا حال ہو گا (ف ۲۱)

۲۱               یعنی وہ نہایت کمزور ہو گا باوجود اس کے کہ پہلے بہت مضبوط و مستحکم تھا۔

(۱۷) اور فرشتے  اس کے  کناروں پر کھڑے  ہوں گے  (ف ۲۲)  اور اس دن تمہارے  رب کا عرش اپنے  اوپر آٹھ فرشتے  اٹھائیں گے  (ف ۲۳)

۲۲               یعنی جن فرشتوں کا مسکن آسمان ہے وہ اس کے پھٹنے پر اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے پھر بحکمِ الٰہی اتر کر زمین کا احاطہ کریں گے۔

۲۳               حدیث شریف میں ہے کہ حاملینِ عرش آج کل چار ہیں روزِ قیامت ان کی تائید کے لئے چار کا اور اضافہ کیا جائے گا آٹھ ہو جائیں گے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اس سے ملائکہ کی آٹھ صفیں مراد ہیں جن کی تعداد اللہ تعالیٰ ہی جانے۔

(۱۸) اس دن تم سب پیش ہو گے  (ف ۲۴) کہ تم میں کوئی چھپنے   وا لی جان  چھپ نہ سکے   گی۔

۲۴               اللہ تعالیٰ کے حضور حساب کے لئے۔

(۱۹) تو وہ جو اپنا نامۂ اعمال دہنے  ہاتھ میں دیا جائے  گا (ف ۲۵) کہے  گا لو میرے  نامۂ اعمال پڑھو۔

۲۵               یہ سمجھ لے گا کہ وہ نجات پانے والوں میں ہے اور نہایت فرح و سرور کے ساتھ اپنی جماعت اور اپنے اہل و اقارب سے۔

(۲۰) مجھے  یقین تھا کہ میں اپنے  حساب کو پہنچوں گا (ف ۲۶)

۲۶               یعنی مجھے دنیا میں یقین تھا کہ آخرت میں مجھ سے حساب لیا جائے گا۔

(۲۱) تو وہ من مانتے  چین میں ہے۔

(۲۲)  بلند باغ  میں۔

(۲۳) جس کے  خوشے  جھکے  ہوئے  (ف ۲۷) 

۲۷               کہ کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حال میں بآسانی لے سکیں اور ان لوگوں سے کہا جائے گا۔

(۲۴) کھاؤ اور پیو رچتا  ہوا  صلہ اس کا جو تم نے  گزرے  دنوں میں آگے  بھیجا (ف ۲۸)

۲۸               یعنی جو اعمالِ صالحہ کہ دنیا میں تم نے آخرت کے لئے کئے۔

(۲۵) اور وہ جو اپنا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے  گا (ف ۲۹) کہے  گا ہائے  کسی طرح مجھے  اپنا نوشتہ نہ دیا جاتا۔

۲۹               جب اپنے نامۂ اعمال کو دیکھے گا اور اس میں اپنے بد اعمال مکتوب پائے گا تو شرمندہ و رسوا ہو کر۔

(۲۶) اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔

(۲۷)  ہائے  کسی طرح موت ہی قصہ چکا جاتی (ف ۳۰)

۳۰               اور حساب کے لئے نہ اٹھایا جاتا اور یہ ذلّت و رسوائی پیش نہ آتی۔

(۲۸) میرے  کچھ کام نہ آیا میرا مال (ف ۳۱)

۳۱               جو میں نے دنیا میں جمع کیا تھا وہ ذرا بھی میرا عذاب ٹال نہ سکا۔

(۲۹) میرا سب زور جاتا  رہا (ف ۳۲)

۳۲ٍٍ               اور میں ذلیل و محتاج رہ گیا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اس سے اسکی مراد یہ ہو گی کہ دنیا میں جو حجّتیں میں کیا کرتا تھا وہ سب باطل ہو گئیں اب اللہ تعالیٰ جہنّم کے خازنوں کو حکم دے گا۔

(۳۰) اسے  پکڑو پھر اسے  طوق ڈالو (ف ۳۳)

۳۳               اس طرح کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے ملا کر طوق میں باندھ دو۔

(۳۱) پھر اسے  بھڑکتی آگ میں دھنساؤ۔

(۳۲) پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستر ہاتھ ہے  (ف ۳۴) اسے  پُرو دو (ف ۳۵)

۳۴               فرشتوں کے ہاتھ سے۔

۳۵               یعنی وہ زنجیر اس میں اس طرح داخل کر دو جیسے کسی چیز میں ڈورا پرویا جاتا ہے۔

(۳۳) بیشک وہ عظمت والے  اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا (ف ۳۶)

۳۶               اس کی عظمت و وحدانیّت کا معتقد نہ تھا۔

(۳۴) اور مسکین کو کھانے  دینے  کی رغبت نہ دیتا (ف ۳۷)

۳۷               نہ اپنے نفس کو، نہ اپنے اہل کو، نہ دوسروں کو۔ اس میں اشارہ ہے کہ وہ بعث کا قائل نہ تھا کیونکہ مسکین کا کھانا دینے والا مسکین سے تو کسی بدلہ کی امید رکھتا ہی نہیں محض رضائے الٰہی و ثوابِ آخرت کی امید پر مسکین کو دیتا ہے اور جو بعث و آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتا ہو اسے مسکین کو کھلانے کی کیا غرض۔

(۳۵) تو آج یہاں (ف ۳۸) اس کا کوئی دوست نہیں (ف ۳۹)

۳۸               یعنی آخرت میں۔

۳۹               جو اسے کچھ نفع پہنچائے یا شفاعت کرے۔

 (۳۶) اور نہ کچھ کھانے  کو مگر  دوزخیوں کا پیپ۔

(۳۷) اسے  نہ کھائیں گے  مگر خطاکار (ف ۴۰)

۴۰               کفّارِ بد اطوار۔

(۳۸) تو مجھے  قسم ان چیزوں کی جنہیں تم  دیکھتے   ہو۔

(۳۹)  اور جنہیں تم نہیں دیکھتے  (ف ۴۱)

۴۱               یعنی تمام مخلوقات کی قَسم جو تمہارے دیکھنے میں آئے اس کی بھی، جو نہ آئے اس کی بھی۔ بعض مفسّرین نے فرمایا کہ مَا تُبْصِرُوْنَ سے دنیا اور مَا لَا تُبْصِرُوْنَ سے آخرت مراد ہے۔ اس کی تفسیر میں مفسّرین کے اور بھی کئی قول ہیں۔

(۴۰) بیشک یہ قرآن ایک کرم والے  رسول (ف ۴۲) سے  باتیں ہیں (ف ۴۳)

۴۲               محمّد مصطفیٰ حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۴۳               جو ان کے رب عزَّ و علا نے فرمائیں۔

 (۴۱)  اور  وہ کسی شاعر کی بات نہیں (ف ۴۴) کتنا کم یقین رکھتے   ہو (ف ۴۵)

۴۴               جیسا کہ کفّار کہتے ہیں۔

۴۵               بالکل بے ایمان ہو اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ نہ یہ شِعر ہے، نہ اس میں شعریّت کی کوئی بات پائی جاتی ہے۔

(۴۲) اور نہ کسی کاہن کی بات (ف ۴۶) کتنا کم دھیان کرتے  ہو (ف ۴۷)

۴۶               جیسا کہ تم میں سے بعضے کافر اس کتابِ الٰہی کی نسبت کہتے ہیں۔

۴۷               نہ اس کتاب کی ہدایات کو دیکھتے ہو، نہ اس کی تعلیموں پر غور کرتے ہو کہ اس میں کیسی روحانی تعلیم ہے نہ اس کی فصاحت و بلاغت اور اعجازِ بے مثالی پر غور کرتے ہو جو یہ سمجھو کہ یہ کلام۔

 (۴۳) اس نے  اتارا ہے  جو سارے  جہان کا رب ہے۔

(۴۴) اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے  (ف ۴۸)

۴۸               جو ہم نے نہ فرمائی ہوتی تو۔

(۴۵) ضرور ہم ان سے  بقوت بدلہ لیتے۔

(۴۶)  پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے  (ف ۴۹)

۴۹               جس کے کاٹتے ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔

(۴۷)  پھر تم میں کوئی ان کا بچانے  والا نہ ہوتا۔

(۴۸) اور بیشک یہ قرآن  ڈر والوں کو نصیحت ہے۔

(۴۹) اور ضرور ہم جانتے   ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے   والے  ہیں۔

(۵۰) اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے  (ف ۵۰)

۵۰               کہ وہ روزِ قیامت جب قرآن پر ایمان لانے والوں کا ثواب اور اس کے انکار کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کا عذاب دیکھیں گے تو اپنے ایمان نہ لانے پر افسوس کریں گے اور حسرت و ندامت میں گرفتار ہوں گے۔

(۵۱) اور بیشک وہ یقین حق ہے  (ف ۵۱)

(۵۲)  تو اے  محبوب تم اپنے  عظمت والے   رب کی پاکی بولو (ف ۵۲)

۵۱               کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔

۵۲               اور اس کا شکر کرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے اس کلامِ جلیل کی وحی فرمائی۔