دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الحَاقَّة

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز’ الحاقۃ‘( سچ ہو کر رہنے والی گھڑی) کے ذکر سے ہوا ہے ۔ اس مناسبت سے اسی لفظ کو اس کا نام قرار دیاگیا ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیل ہے ۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت کا ہول اور عذاب کا خوف پیدا کرنا ہے ۔ تاکہ لوگ ہوش میں آئیں اور جزا و سزا پر یقین کرنے لگیں ۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۳ تمہیدی آیات ہیں جن میں قیامت کے امرِ یقینی ہونے اور لازماً وقوع میں آنے کی خبر دی گئی ہے ۔

 

آیت ۴ تا۱۲ میں ان قوموں کے عذاب سے عبرت دلائی گئی ہے جنہوں نے قیامت کا انکار کیا تھا اور رسولوں کو جھٹلایا تھا۔

 

آیت ۱۳ تا ۱۸ میں قیامت کی ہولناکی کی تصویر پیش کی گئی ہے ۔

 

آیت ۱۹ تا ۳۷ میں خداشناس ، اور نا خداشناس ، نیک عمل اور بد عمل لوگوں کا الگ الگ انجام بیان ہوا ہے ۔

 

آیت ۳۸ تا ۵۱ میں کافروں سے خطاب کر کے ان پر قرآن اور رسول کی صداقت واضح کی گئی ہے ۔

 

آیت ۵۲ سورہ کی اختتامی آیت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب کی تسبیح کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ ہو کر رہنے والی! ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی؟

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ سچ ہو کر رہنے والی! ۲*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑانے والی آفت کو جھٹلایا۔ ۳*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ثمود ایک زبردست چنگھاڑ سے ہلاک کر دیئے گئے ۔ ۴*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عاد شدید بادِ صر صر سے ہلاک کر دئے گئے ۔ ۵*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ نے اس کو سات رات اور آٹھ دن ان کو کاٹ پھیکنے کے لیے مسلط رکھا۔۶* تم ان کو دیکھتے کہ اس طرح ڈھیر ہوگئے ہیں گویا کہ گری ہوئی کھجوروں کے تنے ۔ ۷*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔کیا ان میں سے کسی کو تم باقی بچا ہوا دیکھتے ہو؟ ۸*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور فرعون اور اس سے پہلے کے لوگوں ۹* اور الٹی ہوئی بستیوں ۱۰* نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی۔ ۱۱* تو اس نے ان کو سخت گرفت میں لیا۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے تم کو جب کہ پانی کا طوفان حد سے گذر گیا کشتی میں سوار کر دیا ۔۱۲*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ اس واقعہ کو تمہارے لیے سبق آموز بنا دیں ۔ ۱۳* اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ ۱۴*

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی۔ ۱۵*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھاکر یک بارگی ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا۔ ۱۶*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی۔۱۷*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آسمان پھٹ جائے گا اور اس دن وہ نہایت کمزور ہوگا۔۱۸*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے ۔ ۱۹* اور تمہارے رب کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔ ۲۰*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن تم لوگ پیش کئے جاؤ گے ۔ ۲۱* تمہاری کوئی بات بھی چھپی نہ رہے گی۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ دیا جائے گا۔۲۲* وہ کہے گا لو پڑھو میرا نامہ اعمال۔۲۳*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا تھا کہ مجھے ضرور اپنے حساب سے دو چار ہونا ہے ۔ ۲۴*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔پس وہ پسندیدہ عیش میں ہوگا۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ بلند مقام جنت میں ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے پھلوں کے گچھے جھکے ہوئے ہوں گے ۔ ۲۵*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کھاؤ اور پیو مزے سے ۔ اپنے اعمال کے بدلہ میں جو تم نے گذرے ہوئے دنوں میں کئے ۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس کا نامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ ۲۶* وہ کہے گا کاش ! میرا نامۂ اعمال مجھے دیا ہی نہ جاتا۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میری وہی موت فیصلہ کن ہوتی۔ ۲۷*

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا مال میرے کام نہ آیا۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا اقتدار زور(حاکمانہ قوت) ختم ہو گیا۔ ۲۸*

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو پکڑو اور اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ ۲۹*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو جہنم میں جھونک دو۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو ایک زنجیر میں جو ستر ہاتھ لمبی ہے جکڑ دو۔ ۳۰*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ ۳۱*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ ۳۲*

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آج اس کا یہاں کوئی دوست نہیں ہے ۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ پیپ کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا ہے ۔ ۳۳*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو گنہگار ہی کھائیں گے ۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔ ۳۴* میں قسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جن کو تم دیکھتے ہو۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان چیزوں کی بھی جن کو تم نہیں دیکھتے ۔ ۳۵*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ یہ ایک با عزت رسول کا قول ہے ۔ ۳۶*

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی شاعر کا قول نہیں ۔ ۳۷* تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو۔ ۳۸*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے ۔ ۳۹* تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ ۴۰*

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اس  (پیغمبر)نے کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کی ہوتی ۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے ۔ ۴۱*

 

۴۷۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تم میں سے کوئی (ہمیں )اس کام سے روک نہ سکتا۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ ۴۲* متقیوں کے لیے ایک نصیحت ہے ۔

 

۴۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے اس کو جھٹلانے والے بھی ہیں ۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کافروں کے لیے موجبِ حسرت ہوگا۔ ۴۳*

 

۵۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ بالکل یقینی حق ہے ۔ ۴۴*

 

۵۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کرو۔ ۴۵*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  الحاقۃ قیامت کا نام ہے جس کے معنی ہیں سچ ہو کر رہنے والی، لازماً  وقوع میں آنے والی اور وہ گھڑی جس میں حق بے نقاب ہو کر سامنے آئے گا۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اسلوب اس کی ہمیت کو واضح کرتا ہے کہ یہ نہایت غیر معمولی واقعہ ہوگا لہٰذا اچھی طرح خبردار ہوجاؤ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  جن قوموں نے قیامت کی خبر کو جوان کے رسولوں نے انہیں دی تھی جھٹلایا تھا اور اس کے نتیجہ میں ان پر عذاب آیا ان میں سے چند قوموں کا ذکر یہاں مثال کے طور پر ہوا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں ۔

 

اس آیت میں قیامت کو القارعۃ ( کھڑکھرانے والی آفت)  سے تعبیر کیاگیا ہے ۔ اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ القارعۃ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  جیسا کہ دوسرے مقام پر قرآن نے صراحت کی ہے ثمود کو رَجفۃ (تھرتھرادینے والی ) اور صَیحۃ (زبردست چیخ) کے ذریعہ ہلاک کیاگیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے بادلوں کی غیر معمولی گرج اور بجلی کی زبردست چنگھاڑ نے ان پر شدید اضطراب کی کیفیت طاری کر دی اور وہ آنًا فانًا گر کر ہلاک ہو گئے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  بادِ صر صر یعنی سرد اور تیز ہوا۔ معلوم ہوتا ہے عاد کی ہلاکت سرد ہوا ؤں کے ساتھ تیز آندھی کے چلنے سے ہوئی تھی۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ بادِ صر صر ان پر مسلسل سات راتوں اور آٹھ دنوں تک چلتی رہی اور آٹھویں دن ان کی ایسی بیخ کنی ہوئی کہ ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  کھجور کے درخت کے تنے بڑے مضبوط ہوتے ہیں لیکن جب طوفان کی زد میں آکر گرجاتے ہیں تو ان کو دیکھ کر آدمی دم بخود رہ جاتا ہے ۔ یہی حال عاد کا ہوا کہ وہ بڑے طاقتور تھے مگر تندو تیز ہوا نے انہیں ایسا گرادیا کہ ہر طرف انکی لاشیں ہی لاشیں تھیں ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان جھٹلانے والوں کو ایسا ہلاک کیا کہ ان میں سے ایک آدمی بھی بچ نہ سکا۔ اس طرح ان کی نسل باقی ہی نہیں رہی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی فرعون سے پہلے کئی سرکش قومیں گذرچکی ہیں ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں جو زلزلہ سے الٹ دی گئی تھیں ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ کے رسول کی باتوں کو نہ ماننا بہت بڑی نافرمانی اور جرم ہے ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ حضرت نوح کے واقعہ کی طرف ہے کہ جب پانی کا سخت طوفان آیا تو ان کی قوم کو غرق کر دیاگیا لیکن جو لوگ ایمان لائے تھے ان کو نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں سوار کرایاگیا اور غرق ہونے سے بچالیا گیا۔ ان ہی کی نسل سے تم لوگ ہو۔ لہٰذا ان کو سوار کرانا نسل انسانی کو سوار کرانا تھا اس لیے اللہ کا یہ احسان تم سب پر ہے ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اس واقعہ میں یہ سبق ہے کہ اللہ سے سرکشی کرنے اوراس کے رسول کی بات نہ ماننے کی کیسی سخت سزا ملتی ہے ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسانی تاریخ کا یہ اہم ترین اور سبق آموز واقعہ ایک یادگار واقعہ ہے مگر اس سبق کو وہی لوگ یاد رکھیں گے جن کے کان حق بات سننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی صور میں ایک پھونک مارتے ہی قیامت برپا ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ کو قیامت برپا کرنے کے لیے کوئی اہتمام کرنا نہیں پڑے گا۔ بس ادھر پھونک مار دی ادھر کائنات کا سارا نظام درہم برہم ۔یہ پھونک مارنا گویا قیامت کا الارم ہوگا۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  کوئی اس خام خیال میں مبتلا نہ رہے کہ یہ زمین اور یہ بڑے بڑے پہاڑ ہمیشہ باقی رہیں گے نہیں بلکہ قیامت کا جھٹکا لگتے ہی ریزہ ریزہ ہو کر رہ جائیں گے ۔ اللہ کے لیے زمین اور پہاڑوں کو اٹھاکر ریزہ ریزہ کرنا نہایت آسان ہے اوریہ تخریب اس لیے عمل میں لائی جائے گی تاکہ نئی زمین جو حشر برپا کرنے کے لیے موزوں ہو سکتی ہے وجودمیں لائی جاسکے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت برپا ہوجائے گی۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  آسمان نہایت مضبوط ہے لیکن قیامت کا بگل بجتے ہی وہ کمزور ہوجائے گا۔ قیامت زمین ہی پر برپا نہیں ہوگی بلکہ آسمانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گی۔ یہ شکست و ریخت اس لیے ہوگی تاکہ ایک نقشہ کے مطابق نیا عالم وجود میں لایا جائے ۔ مگر شکست و ریخت کا یہ حادثہ ایسا زبردست ہوگا کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی فرشتے سمٹ کر آسمانوں کے کناروں پر آجائیں گے اور درمیان کی پوری فضا میں ہلچل مچ جائے گی۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ آیت متشابہات میں سے ہے اور اس کی تاویل کرنا اپنے کو فتنہ میں ڈالنا ہے ۔ آیت میں جو بات بیان ہوئی ہے اس سے اصلاً عدالتِ الٰہی کا تصور دلانا مقصود ہے جو قیامت کے دن برپا ہوگی اور فرمانروائے کائنات اپنے تختِ سلطنت سے فیصلے صادر فرمائے گا۔ اس کی کیفیت کیا ہوگی اور یہ منظر کیسا ہوگا اس کو قیامت سے پہلے سمجھا نہیں جاسکتا۔

 

متشابہات کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۱۳

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس روز اللہ کے حضور تم سب لوگوں کی اپنے اعمال کی جوابدہی کے لیے پیشی ہوگی۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ ۷۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ نیک شخص ہوگا اور اپنا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں پاتے ہی خوشی سے جھوم اٹھے گا کہ یہ کامیابی کی علامت ہے اور دوسروں کو دکھانا پسند کرے گا۔

 

جب کوئی طالبِ علم امتحان میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اپنا رزلٹ دوسروں کو دکھانا پسند کرتا ہے لیکن جو ناکام( فیل) ہوجاتا ہے وہ اپنا رزلٹ دکھانا پسند نہیں کرتا۔ قیامت کے دن وہی لوگ اپنا نامہ اعمال دوسروں کو دکھانا پسند کریں گے جو دنیا کے امتحان میں کامیاب ہو چکے ہوں گے ۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مجھے اس بات کاپورا یقین تھا کہ قیامت کے دن مجھے اپنے اعمال کاحساب دینا ہے اس لیے میں نے اس تصور ہی کے تحت زندگی گذاری تھی۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قریب ہوں گے کہ آسانی سے توڑے جاسکیں ۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ  ۸۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی میں جو مرگیا تھا تو بہتر ہوتا کہ ہمیشہ کے لیے فنا ہوجاتا اور حساب کا یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی حسرت ناک باتیں ہوں گی جو قیامت کے دن کافروں کی زبان سے نکلیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے ہی باخبر کر دیا ہے تاکہ انسان سنبھل جائے اور اسے پچھتانا نہ پڑے ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  دنیا میں تو انسان حکومت اور اقتدار کے نشہ میں گھمنڈی بن جاتا ہے لیکن قیامت کے دن اسے احساس ہوگا کہ وہ میدانِ حشر میں تنہا ہے ۔ نہ اس کا لاؤ لشکر اس کے ساتھ ہے ۔ اور نہ اس کی سلطنت باقی ہے ۔ تمام حاکمانہ اختیارات اس سے چھین لیے گئے ہیں۔

 

بادشاہوں اور با اقتدار لوگوں کے لیے کیسی دل دہلا دینے والی بات ہے یہ! کاش وہ اس آیت کو بغور پڑھتے !

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  کافر ادھر پچھتانے کی باتیں کرہی رہا ہوگا کہ ادھر فرشتوں کو حکم ہوگا کہ اسے پکڑ کر اس کی گردن میں طوق ڈال دو۔ یہ طوق اس کے تکبر کی سزا ہوگی۔ اس کے بعد اس کو جہنم میں جھونک دینے کا حکم ہوگا جیسا کہ آگے بیان ہوا ہے ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  دنیا میں وہ خواہشات کا غلام تھا اور خواہشات کا یہ سلسلہ بڑا دراز تھا۔ اس لیے اس کو ستر ہاتھ لمبی زنجیر میں جکڑدیا جائے گا۔ بدلہ انسان کو اس کے اعمال کی مناسبت ہی سے ملے گا۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس کی جسارت دیکھو کہ اللہ کی عظمت کو اس نے نہیں پہچانا اور اس عظیم ہستی پر ایمان لانے سے اس نے انکار کر دیا۔ یہ جرم کوئی معمولی جرم نہیں بلکہ سنگین جرم ہے کیونکہ یہ اللہ کے خلاف صریح بغاوت ہے ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  آدمی جب اپنے رب سے بے پرواہوجاتا ہے تو ان کاموں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جو اللہ کی رضا کے ہیں جس کی ایک نمایاں مثال محتاجوں کو کھانا کھلانا اور ان کو کھلانے کی دوسروں کو ترغیب دینا ہے ۔ قرآن اس بخل اور اس غیر ہمدردانہ رویہ کو بہت بڑا جرم قرار دیتا ہے جس کسی کو اللہ نے مال عطا کیا ہے اس کے مال میں محتاجوں کا حق بھی ہے ۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی پینے کے لیے پیپ جیسی گندی چیز ملے گی۔ یہ اس لیے کہ اس کے عقائد و اعمال خبیثا نہ رہے ۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں لا( نہیں ) منکرین کے خیالات کی تردید کے لیے ہے ۔ یعنی تمہارا یہ خیال کہ قیامت واقع نہیں ہوگی مطابقِ حقیقت نہیں بلکہ خلاف حقیقت ہے ۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  قسم شہادت کے معنی میں ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کا تم مشاہدہ کرتے ہو ان میں روزِ جزا کے آثار بالکل نمایاں ہیں جن کو قرآن نے کھول کھول کر بیان بھی کر دیا ہے ۔ اور جو چیزیں تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہیں مثلاً فرشتے ، جنت دوزخ وغیرہ ان سے تم کو قرآن کے ذریعہ باخبر کر دیاگیا ہے ۔ ان غیبی حقیقتوں پر غور کرنے سے روزِ جزا کا یقین پیدا ہوجاتا ہے ۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ جبرائیل کی زبان سے ادا ہوئے کلمات ہیں جو اللہ کا با عزت پیغامبر ہے اور پیغامبر ہونے کی حیثیت سے وہ اللہ کا کلام اس کے نبی پر وحی کرتا ہے ۔ سورۂ تکویر آیت ۱۹۔ میں بھی یہی بات حضرت جبرائیل کے بارے میں ارشاد ہوئی ہے ۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی رسول جو کلام پیش کررہا ہے وہ شاعری نہیں ہے بلکہ جبرائیل کا لایا ہوا کلام ہے ۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایمان کا کچھ اثر قبول کرتے ہو اور پھر چھوڑدیتے ہو۔ قرآن کی باتیں حق ہونے کی بنا پر تمہارے وجدان کو اپیل کرتی ہیں اور دلوں میں یقین پیدا کرتی ہیں مگر خواہشات کاغلبہ اسے قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے ۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔  کاہن کی تشریح سورۂ شعراء نوٹ ۱۸۰۔  میں گزر چکی۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قرآن نہ شاعری ہے اور نہ کہانت بلکہ اللہ کا کلام ہے جو جبرائیل کی زبانی رسول پر وحی کیاگیا ہے ۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی رسول اپنے منصب پر رہتے ہوئے کوئی بات اپنی طرف سے اللہ کی طرف منسوب نہیں کرسکتا۔ وہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اللہ کا کلام جوں کا توں پیش کرے ۔ اگر اس نے اپنی طرف سے کوئی بات اللہ کے کلام میں ملائی ہوتی تو اس منصب کاغلط استعمال ہوتا اور یہ ایسا سنگین جرم ہوتا کہ ہم اسی وقت اس کو ہلاک کر دیتے اور یہ عبرتناک سزا اس لیے بھی دیتے تاکہ لوگوں کی غلط رہنمائی نہ ہو۔

 

اس سزا کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا ہے جیسے بادشاہ اپنے اس سفیر کی جو اس کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کرے داہنا ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن اڑادے ۔

 

یہ سزا اس کے لیے ہے جو منصبِ رسالت پر رہتے ہوئے اپنی طرف سے کچھ باتیں اللہ کی طرف منسوب کرے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر جھوٹے مدعیٔ نبوت کو یہ سزا فوراً مل جائے گی اور اگر کسی مدعیٔ نبوت کو نہیں ملی تو ہے اس کے سچے ہونے کی دلیل ہوگی۔ایسی کوئی بات آیت میں نہیں کہی گئی ہے ۔ اس لیے نبوت کے جھوٹے مدعی اس کا سہارا نہیں لے سکتے ۔ دنیا میں جھوٹے مدعی نبوت تو کیا جھوٹے مدعیٔخدا بھی ہوئے ہیں اور خدا کو برا بھلا کہنے والے بھی ہیں لیکن اللہ ان کو مہلت دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنا پیمانہ بھرلیں ۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قرآن۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔  قیامت کے دن کافر افسوس کریں گے اور پچھتائیں گے کہ قرآن پر ایمان نہ لاکر انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ قرآن جو روز جزا کی خبر دے رہا ہے بالکل حق اور یقینی ہے ۔ ہر قسم کے شک و شبہ سے بالکل بالاتر۔ پھر ایسے یقینی حق کو کیوں قبول نہیں کرتے ؟

 

۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے توسط سے آپ کے پیرووں کو ہدایت ہے کہ جب حقیقت وہ ہے جو اس سورۂ میں بیان ہوئی تو تم کافروں کی باتو ں کو خاطر میں نہ لاؤ اور اپنے رب عظیم کی تسبیح و عبادت میں سرگرم ہوجاؤ۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ واقعہ نوٹ ۵۸۔  اور ۷۶۔

 

٭٭٭