١۔ نَزْع کے معنی سختی سے کھنچنا، غَرْقاً ڈوب کر، یہ جان نکالنے والے فرشتوں کی صفت ہے فرشتے کافروں کی جان، نہایت سختی سے نکالتے ہیں اور جسم کے اندر ڈوب کر۔
٢۔ نَشْط کے معنی گرہ کھول دینا، یعنی مومنوں کی جان فرشتے بہ سہولت سے نکالتے ہیں جیسے کسی چیز کی گرہ کھول دی جائے۔
٣۔ سَبْح کے معنی تیرنا، فرشتے روح نکالنے کے لئے انسان کے بدن میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جیسے سمندر سے موتی نکالنے کے لئے سمندر کی گہرائیوں میں تیرتے ہیں یا مطلب ہے کہ نہایت تیزی سے اللہ کا حکم لے کر آسمان سے اترتے ہیں۔
٤۔ یہ فرشتے اللہ کی وحی، انبیاء تک، دوڑ کر پہنچاتے ہیں تاکہ شیطان کو اس کی کوئی خبر نہ لگے۔ یا مومنوں کی روحیں جنت کی طرف لے جانے میں نہایت سرعت سے کام لیتے ہیں۔
٥۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو کام سپرد کرتا ہے، وہ اس کی تدبیر کرتے ہیں اصل مدبر تو اللہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرشتوں کے ذریعے سے کام کرواتا ہے تو انہیں بھی مدبر کہا جاتا ہے۔
٦۔ یہ نفخئہ اولیٰ ہے جسے نفخئہ فنا کہتے ہیں، جس سے ساری کائنات کانپ اور لرز اٹھے گی اور ہر چیز فنا ہو جائے گی۔
٧۔ یہ دوسرا نفخہ ہو گا، جس سے سب لوگ زندہ ہو کر قبروں سے نکل آئیں گے۔ یہ دوسرا نفخہ پہلے نفخہ سے چالیس سال بعد ہو گا۔
٩۔ دہشت زدہ لوگوں کی نظریں بھی (مجرموں کی طرح) جھکی ہوئی ہوں گی۔
١٠۔ حافِرَۃ، پہلی حالت کو کہتے ہیں۔ منکرین قیامت کا قول ہے کہ کیا ہم پھر اس طرح زندہ کر دیئے جائیں گے جس طرح مرنے سے پیشتر تھے۔
١١۔ یہ انکار قیامت کی مزید تاکید ہے کہ ہم کس طرح زندہ کر دیئے جائیں گے جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گی۔
١٢۔ یعنی اگر واقعی ایسا ہوا جیسا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کہتے ہیں، پھر دوبارہ زندگی ہمارے لئے سخت نقصان دہ ہو گی
١٤۔ یہ قیامت کی منظر کشی ہے کہ ایک ہی نفخے سے سب لوگ ایک میدان میں جمع ہو جائیں گے۔
١٦۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے واپسی پر آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچ گئے تھے تو وہاں ایک درخت کی اوٹ سے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا، جیسا کہ تفصیل سورہ طٰہٰ کے آغاز میں گزری۔
١٧۔ یعنی کفر و معصیت اور تکبر میں حد سے تجاوز کر گیا ہے۔
١٨۔ یعنی کیا ایسا راستہ اور طریقہ تو پسند کرتا ہے جس سے تیری اصلاح ہو جائے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان اور مطیع ہو جا۔
١٩۔ یعنی اس کی توحید اور عبادت کا راستہ، تاکہ تو اس کے عقاب سے ڈرے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔
٢٠۔ یعنی اپنی صداقت کے وہ دلائل پیش کئے جو اللہ کی طرف سے انہیں عطا کئے گئے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے تھے۔ مثلاً ید بیضا اور عصا اور بعض کے نزدیک آیات تسعہ۔
٢٢۔ یعنی اس نے ایمان و اطاعت سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ زمین میں فساد پھیلائے اور موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ کرنے کی سعی کرتا رہا،چنانچہ جادوگروں کو جمع کر کے ان کا مقابلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کرایا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا ثابت کیا جا سکے۔
٢٥۔ یعنی اللہ نے اس کی ایسی گرفت فرمائی کہ اسے دنیا میں آئندہ آنے والے فرمانوں کے لئے نشان عبرت بنا دیا اور قیامت کا عذاب اس کے علاوہ ہے، جو اسے وہاں ملے گا
٢٦۔ یا میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے تسلی اور کفار مکہ کو تنبیہ ہے کہ اگر انہوں نے گزشتہ لوگوں کے واقعات سے عبرت نہ پکڑی تو ان کا انجام بھی فرعون کی طرح ہو سکتا ہے۔
٢٧۔ یہ کفار مکہ کو خطاب ہے اور مقصود تنبیہ ہے کہ جو اللہ اتنے بڑے آسمانوں اور ان کے عجائبات کو پیدا کر سکتا ہے، اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا آسمان بنانے سے زیادہ مشکل ہے۔
٢٨۔ ٹھیک ٹھاک کا مطلب اسے ایسی شکل صورت میں ڈھالنا ہے کہ جس میں کوئی تفاوت، کجی، شگاف اور خلل باقی نہ رہے۔
٣٧۔ یعنی کفر و گناہوں میں حد سے تجاوز کیا ہو گا۔
٤٠۔ کہ اگر میں نے گناہ اور اللہ کی نافرمانی کی تو مجھے اللہ سے بچانے والا کوئی نہیں ہو گا، اس لئے وہ گناہوں سے اجتناب کرتا رہا ہو۔
٤٢۔ یعنی قیامت کب واقع اور قائم ہو گی؟ جس طرح کشتی اپنے آخری مقام پر پہنچ کر لنگر انداز ہوتی ہے اسی طرح قیامت کے واقع کا صحیح وقت کیا ہے ؟
٤٣۔ یعنی آپ کو اس کی بابت یقینی علم نہیں ہے، اس لئے آپ کا اس کو بیان کرنے سے کیا تعلق؟ اس کا یقینی علم تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔
٤٥۔ یعنی آپ کا کام صرف انذار (ڈرانا) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔
٤٦۔ یعنی دنیا میں پورا ایک دن بھی نہ رہے، دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہو گی۔