خزائن العرفان

سُوۡرَةُ النَّازعَات

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ النازعات مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چھیالیس۴۶ آیتیں، ایک سو ستانوے۱۹۷ کلمے، سات سو ترپّن ۷۵۳ حرف ہیں۔

(۱) قسم ان کی (ف ۲) کہ سختی سے  جان کھینچیں (ف ۳)

۲                 یعنی ان فرشتوں کی۔

۳                 کافروں کی۔

(۲) اور نرمی سے  بند کھولیں ) (ف ۴)

۴                 یعنی مومنین کی جانیں نرمی کے ساتھ قبض کریں۔

(۳) اور آسانی سے  پیریں (ف ۵)

۵                 جسم کے اندر یا آسمان و زمین کے درمیان مومنین کی روحیں لے کر۔ (کماروی عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)

(۴) پھر آگے  بڑھ کر جلد پہنچیں (ف ۶)

۶                 اپنی خدمت پر جس کے مامور ہیں۔ (روح البیان)

(۵) پھر کام کی تدبیر کریں (ف ۷)

۷                 یعنی امورِ دنیویہ کے انتظام جو ان سے متعلق ہیں ان کے سر انجام کریں۔ یہ قَسم اس پر ہے۔

(۶) کہ کافروں پر ضرور عذاب ہو گا جس دن تھرتھرائے  گی تھرتھرانے  وا لی (ف ۸)

۸                 زمین اور پہاڑ اور ہر چیز نفخۂ اولیٰ سے اضطراب میں آ جائے گی اور تمام خَلق مر جائے گی۔

(۷)  اس کے  پیچھے  آئے  گی پیچھے   آنے  وا لی (ف ۹)

۹                 یعنی نفخۂ ثانیہ ہو گا، جس سے ہر شے باذنِ الٰہی زندہ کر دی جائے گی، ان دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہو گا۔

(۸) کتنے  دل اس دن دھڑکتے  ہوں گے۔

(۹) آنکھ اوپر نہ اٹھا سکیں گے  (ف ۱۰)

۱۰               اس دن کی ہول اور دہشت سے۔ یہ حال کفّار کا ہو گا۔

(۱۰) کافر (ف ۱۱) کہتے  ہیں کیا ہم پھر الٹے  پاؤں پلٹیں گے  (ف ۱۲)

۱۱               جو مرنے کے بعد اٹھنے کے منکِر ہیں جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو۔

۱۲               یعنی موت کے بعد پھر زندگی کی طرف واپس کئے جائیں گے۔

 (۱۱) کیا ہم جب گلی ہڈیاں ہو جائیں گے  (ف ۱۳)

۱۳               ریزہ ریزہ بکھری ہوئی، پھر بھی زندہ کئے جائیں گے۔

(۱۲) بولے  یوں تو یہ پلٹنا تو  نرا نقصان ہے  (ف ۱۴)

۱۴               یعنی اگر موت کے بعد زندہ کیا جانا صحیح ہے اور ہم مرنے کے بعد اٹھائے گئے تو اس میں ہمارا بڑا نقصان ہے کیونکہ ہم دنیا میں اس کی تکذیب کرتے رہے، یہ مقولہ ان کا بطریقِ استہزاء تھا، اس پر انہیں بتایا گیا کہ تم مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ دشوار ہے کیونکہ قادرِ برحق پر کچھ بھی دشوار نہیں۔

(۱۳) تو وہ (ف ۱۵) نہیں مگر ایک جھڑکی (ف ۱۶)

۱۵               نفخۂ اخیرہ۔

۱۶               جس سے سب جمع کر لئے جائیں گے اور جب نفخۂ اخیرہ ہو گا۔

(۱۴) جبھی وہ کھلے  میدان میں آ پڑے  ہوں گے  (ف ۱۷)

۱۷               زندہ ہو کر۔

(۱۵)  کیا تمہیں موسیٰ کی خبر آئی (ف ۱۸)

۱۸               یہ خطاب ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو جب قوم کا تکذیب کرنا آپ کو شاق اور ناگوار گزرا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسکین کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا جنہوں نے اپنی قوم سے بہت تکلیفیں پائی تھیں مراد یہ ہے کہ انبیاء کو یہ باتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ آپ اس پر غمگین نہ ہوں۔

(۱۶) جب اسے  اس کے  رب نے  پاک جنگل طویٰ میں (ف ۱۹) ندا  فرمائی۔

۱۹               جو مُلکِ شام میں طور کے قریب ہے۔

(۱۷) کہ فرعون کے  پاس جا  اس نے  سر اٹھایا (ف ۲۰)

۲۰               اور وہ کفر و فساد میں حد سے گذر گیا۔

(۱۸) اس سے  کہہ کیا تجھے  رغبت اس طرف ہے  کہ ستھرا ہو (ف ۲۱)

۲۱               کفرو شرک اور معصیّت و نافرمانی سے۔

(۱۹) اور تجھے  تیرے  رب کی طرف (ف ۲۲) راہ بتاؤں کہ تو ڈرے  (ف ۲۳)

۲۲               یعنی اس کی ذات و صفات کی معرفت کی طرف۔

۲۳               اس کے عذاب سے۔

(۲۰) پھر موسیٰ نے  اسے  بہت بڑی نشانی دکھائی (ف ۲۴)

۲۴               یدِ بیضا اور عصا۔

(۲۱) اس پر اس نے  جھٹلایا (ف ۲۵) اور نافرمانی کی۔

۲۵               حضرت موسیٰ علیہ السلام کو۔

(۲۲) پھر پیٹھ دی (ف ۲۶) اپنی کوشش میں لگا (ف ۲۷)

۲۶               یعنی ایمان سے اعراض کیا۔

۲۷               فساد انگیزی کی۔

(۲۳) تو لوگوں کو جمع کیا (ف ۲۸) پھر پکارا۔

۲۸               یعنی جادو گروں کو اور اپنے لشکروں کو۔

(۲۴) پھر بولا میں تمہارا سب سے  اونچا رب ہوں (ف ۲۹)

۲۹               یعنی میرے اوپر اور کوئی رب نہیں۔

(۲۵) تو اللہ نے  اسے  دنیا و  آخرت دونوں کے  عذاب میں پکڑا  (ف ۳۰)

۳۰               دنیا میں غرق کیا اور آخرت میں دوزخ میں داخل فرمائے گا۔

(۲۶) بیشک اس میں سیکھ ملتا ہے  اسے  جو ڈرے  (ف ۳۱)

۳۱               اللہ عزَّوجلَّ سے۔ اس کے بعد منکِرینِ بعث کو عتاب فرمایا جاتا ہے۔

(۲۷) کیا تمہاری سمجھ کے  مطابق تمہارا بنانا (ف ۳۲) مشکل یا  آسمان کا اللہ نے  اسے  بنایا۔

۳۲               تمہارے مرنے کے بعد۔

(۲۸) اس کی چھت اونچی کی (ف ۳۳) پھر اسے  ٹھیک کیا (ف ۳۴)

۳۳               بغیر ستون کے۔

۳۴               ایسا کہ اس میں کہیں کوئی خلل نہیں۔

(۲۹)  اس کی رات اندھیری کی اور اس کی روشنی چمکائی (ف ۳۵)

۳۵               نورِ آفتاب کو ظاہر فرما کر۔

(۳۰)  اور اس کے  بعد زمین پھیلائی (ف ۳۶)

۳۶               جو پیدا تو آسمان سے پہلے فرمائی گئی تھی مگر پھیلائی نہ گئی تھی۔

(۳۱) اس میں سے  (ف ۳۷) اس کا پانی اور چارہ نکا  لا (ف ۳۸)

۳۷               چشمے جاری فرما کر۔

۳۸               جسے جاندار کھاتے ہیں۔

(۳۲) اور پہاڑوں کو جمایا (ف ۳۹)

۳۹               روئے زمین پر تاکہ اس کو سکون ہو۔

(۳۳) تمہارے  اور تمہارے  چوپایوں کے  فائدہ کو۔

(۳۴) پھر جب آئے  گی وہ عام مصیبت سب سے  بڑی (ف ۴۰)

۴۰               یعنی نفخۂ ثانیہ ہو گا جس میں مردے اٹھائے جائیں گے۔

(۳۵) اس دن آدمی یاد کرے  گا جو کوشش کی تھی (ف ۴۱)

۴۱               دنیا میں نیک یا بد۔

(۳۶) اور جہنم ہر دیکھنے  والے  پر ظاہر کی جائے  گی (ف ۴۲)

۴۲               اور تمام خَلق اس کو دیکھے۔

(۳۷) تو وہ جس نے  سرکشی کی (ف ۴۳)

۴۳               حد سے گزرا اور کفر اختیار کیا۔

(۳۸) اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی (ف ۴۴)

۴۴               آخرت پر اور شہوات کا تابع ہوا۔

(۳۹) تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانا ہے ۔

(۴۰) اور وہ جو اپنے  رب کے  حضور کھڑے  ہونے  سے  ڈرا (ف ۴۵) اور نفس کو خواہش سے  روکا (ف ۴۶)

۴۵               اور اس نے جانا کہ اسے روزِ قیامت اپنے رب کے حضور حساب کے لئے حاضر ہونا ہے۔

۴۶               حرام چیزوں کی۔

(۴۱)  تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے  (ف ۴۷)

۴۷               اے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مکّہ کے کافر۔

(۴۲) تم سے  قیامت کو  پوچھتے  ہیں کہ وہ کب کے  لیے  ٹھہری ہوئی ہے۔

(۴۳) تمہیں اس کے  بیان سے  کیا تعلق (ف ۴۸)

۴۸               اور اس کا وقت بتانے سے کیا غرض۔

(۴۴) تمہارے  رب ہی تک اس کی انتہا ہے۔

(۴۵) تم تو فقط اسے  ڈرا  نے  والے  ہو جو اس سے  ڈرے۔

(۴۶) گویا جس دن وہ اسے  دیکھیں گے  (ف ۴۹)  دنیا میں نہ رہے  تھے  مگر ایک شام یا اس کے  دن چڑھے۔

۴۹               یعنی کافر قیامت کو جس کا انکار کرتے ہیں تو اس کے ہول و دہشت سے اپنی زندگانی کی مدّت بھول جائیں گے اور خیال کریں گے کہ۔