اس سورت کے مکی اور مدنی ہونے میں اختلاف ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ میں بھی اختلاف ہے۔قدر کے معنی قدور منزلت بھی ہیں، اس لیے اسے شب قدر کہتے ہیں، اس کے معنی اندازہ اور فیصلہ کرنا بھی ہیں، اس میں سال بھر کے لیے فیصلے کیے جاتے ہیں، اسی لیے اسے لیلۃ الحکم بھی کہتے ہیں، اس کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس رات اتنی کثرت سے زمین پر فرشتے اترتے ہیں کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔شب قدر یعنی تنگی کی رات، یا اس لیے یہ نام رکھا گیا کہ اس رات جو عبادت کی جاتی ہے، اللہ کے ہاں اس کی بڑی قدر ہے اور اس پر بڑا ثواب ہے۔ اس کی تعیین میں بھی شدید اختلاف ہے۔(فتح القدیر) تاہم احادیث و آثار سے واضح ہے کہ یہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کوئی ایک رات ہوتی ہے۔ اس کو مبہم رکھنے میں یہی حکمت ہے کہ لوگ پانچوں ہی طاق راتوں میں اس کی فضیلت حاصل کرنے کے شوق میں، اللہ کی خوب عبادت کریں۔
١۔ یعنی اتار نے کا آغاز کیا، یا لوح محفوظ سے بیت العزت میں، جو آسمان دنیا پر ہے، ایک ہی مرتبہ اتار دیا، اور وہاں سے حسب واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اترتا رہا تاآنکہ ٢٣ سال میں پورا ہو گیا۔ اور لیلۃ القدر رمضان میں ہی ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (شَھْرُ رَمَضَا نَ الَّذِ یْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُراٰنُ) (البقرہ، ١٨٥) سے واضح ہے۔
٢۔ اس استفہام سے اس رات کی عظمت و اہمیت واضح ہے، گویا کہ مخلوق اس کی تہ تک پوری طرح نہیں پہنچ سکتی، یہ صرف ایک اللہ ہی ہے جو اس کو جانتا ہے۔
۳۔یعنی اس ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے اور ہزار مہینے ۸۳ سال چار مہینے بنتے ہیں یہ امت محمدیہ پر اللہ کا کتنا احسان عظیم ہے کہ مختصر عمر میں زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے کیسی سہولت عطا فرما دی۔
٤۔روح سے مراد حضرت جبرائیل ہیں یعنی فرشتے حضرت جبرائیل سمیت، اس رات میں زمین پر اترتے ہیں ان کاموں کو سر انجام دینے کے لیے جن کا فیصلہ اس سال میں اللہ فرماتا ہے۔
٥۔ یعنی اس میں شر نہیں۔ یا اس معنی میں سلامتی والی ہے کہ مومن اس رات کو شیطان کے شر سے محفوظ رہتے ہیں یا فرشتے اہل ایمان کو سلام عرض کرتے ہیں، یا فرشتے ہی آپس میں ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں۔ شب قدر کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور خاص یہ دعا بتلائی ہے، واللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ العَفْوَ فَاعْفُ۔