دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ القَدر

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 پہلی آیت میں  قرآن کے شب قدر میں  نازل ہونے کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الْقَدَرْ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے جیسا کہ امام سیوطی نے الاتقان میں  صراحت کی ہے (الاتقان ج1 ص 22) نیز مضمون سے بھی اس کے مکی ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

 قرآن کی اہمیت اور اس کی عظمت کو واضح کرنا ہے۔

 

نزول قرآن کا آغاز سورہ علق کی ابتدائی آیات سے ہوا تھا۔ اس سورہ میں  بتایا گیا ہے کہ وہ گھڑی نہایت مبارک تھی جب کہ نزول قرآن کا آغاز ہوا۔

 

نظم کلام

 

 سب سے پہلے اس عظیم تاریخی واقعہ سے آگاہ کیا گیا ہے کہ نزول قرآن کا آغاز نہایت مہتم بالشان طریقہ پر ایک جلیل القدر رات میں  کیا گیا کیونکہ قرآن کا نزول کوئی معمولی بات نہیں  ہے بلکہ یہ وہ عظیم الشان فیصلہ الٰہی ہے جو قوموں  کی تقدیر کو بدلنے والا اور دنیاۓ انسانیت کی کایا پلٹ دینے والا ہے۔

 

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اس رات کی برکتیں  کیا ہیں  اور کس طرح یہ رات صبح تک سرتا سر سلامتی کی رات ہوتی ہے۔

 

اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ جو کتاب اس شان کے ساتھ نازل ہوئی ہے اس سے بے اعتنائی برتنے والے اور اس کو بے وقعت خیال کرنے والے وہی لوگ ہو سکتے ہیں  جو اتنے بڑے خیر سے اپنے کو محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے اسے ۱* شب قدر میں  نازل کیا۔ ۲*۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور تمہیں  کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے ؟ *۳

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شب قدر ہزار مہینوں  سے بہتر *۴ ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں  فرشتے اور روح  *۵  (الامین) اپنے رب کے اذن سے ہر حکم کو لے کر اترتے ہیں   *۶

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سراپا سلامتی ہے وہ شب طلوع فجر تک  *۷۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی قرآن کو۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قَدْر کے معنیٰ قدر و منزلت کے ہیں  اور (شبِ  قدر ) کے معنی ہیں  قدر و منزلت والی رات۔ یہ وہ رات ہے جس میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پہلی وحی نازل ہوئی جب کہ آپ غار حراء میں  معتکف تھے۔ چونکہ اس رات کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں  نزول قرآن کا آغاز ہوا اس لیے اسے  لیلۃ مبارکۃٍ (مبارک شب) بھی کہا گیا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ان ایام کو منحوس قرار دیا گیا جن میں  قوم عاد پر عذاب نازل ہوا تھا۔

 

فَارَسَلْنَا عَلَیْھمِ ریْحاً فِی اَیَّامٍ نَحِسَاتٍ ’’  تو ہم نے ان پر منحوس دنوں  میں  سخت تند ہوا بھیج دی ‘‘(حٰم السجدہ۔ ۱۶)

 

ظاہر ہے اس آیت میں  منحوس دنوں  کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ وہ دن بجاۓ خود منحوس تھے بلکہ چونکہ ان ایام میں  قوم عاد پر اللہ کا عذاب نازل ہوا تھا اس لیے وہ دن اس قوم کے لیے منحوس قرار پاۓ۔ اس کی دوسری مثال رمضان کا مہینہ ہے کہ اس کی فضیلت و برکت اس بنا پر ہے کہ اس میں  قرآن نازل ہوا اسی طرح لیلۃ القدر کی فضیلت و برکت اس بنا پر ہے کہ اس میں  نزول قرآن کا سلسلہ شروع ہوا۔

 

یہ رات رمضان کی تھی جیسا کہ قرآن میں  ارشاد ہوا ہے : شَھْرُرَمضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنُ۔ ’’رمضان کا مہینہ جس میں  قرآن نازل کیا گیا‘‘ (البقرہ۔ ۱۸۵ )

 

یہ رات جیسا کہ احادیث صحیحہ میں  آتا ہے کہ رمضان کے آخری عشرہ کی ایک رات تھی۔

 

واضح رہے کہ لیلۃ القدر میں  قرآن کے نازل ہونے کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ اس شب میں  پورا قرآن نازل ہوا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس متبرک کتاب کے نزول کی ابتداء اسی شب میں  ہوئی۔ گویا رحمت خداوندی اسی رات کو جوش میں  آئی اور ہدایت کے سوتے اسی شب میں  پھوٹ پڑے۔ نزول قرآن کے لیے ان کے بجاۓ رات کا انتخاب خالی از حکمت نہیں  ہے۔ رات کا وقت سکون و طمانیت کا وقت ہوتا ہے خدا پر ست انسانوں  کی طبیعتوں  کا میلان خدا کی طرف ہوتا ہے کہ پر سکون اوقات روح کی بالیدگی کے لیے بہت موزوں  ہوتے ہیں  اور بالخصوص شب کا آخری حصہ تو مناجات الٰہی اور آہ سحر گا ہی کے لیے موزوں  ترین وقت ہوتا ہے اس لیے قرآن اور حدیث میں  شب کے آخری حصہ میں  نماز اور دعا کی بڑی فضیلت آیت ہے اور عجب نہیں  کہ قرآن کا نزول بھی لیلۃ القدر کے آخری حصہ میں  ہوا ہو۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سوال لیلۃ القدر کی عظمت و برکت واضح کرنے کے لیے ہے نیز اس کا اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ اس رات کا معاملہ اسرار غیب میں  سے ہے اس لیے اس کے بارے میں  وحی الٰہی نے جو کچھ بتلایا ہے اس سے زیادہ تفصیلات جاننے کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں  ہے۔ چنانچہ اس رات کی ٹھیک ٹھیک تعین کرنا انسان کے بس کی بات نہیں  ہے۔ حدیث میں  نبی صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں  میں  اسے تلاش کرنے کا جو حکم دیا ہے اس پر اکتفاء کرنا چاہیے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہزار مہینوں  کی تعبیر خیر و برکت کی کثرت کو واضح کرنے کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ رات اپنے اس شرف کی بنا پر کہ اس میں  انسان کو ہدایت سے نوازے جانے کا حکیمانہ فیصلہ ہوا اور نزول قرآن کے سلسلہ کی ابتدا ہوئی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز کیا گا دوسری ہزاروں  راتوں  بلکہ ہزار مہینوں  پر بھی بھاری ہے۔ اور جب ظرف(رات) اس درجہ کا ہے تو مظروف (قرآن ) کس درجہ کا ہو گا۔

 

اس رات نے اپنی برکتوں  کے خزانے تو اس وقت کھول دیے تھے جب کہ فرشتہ غار حراء میں  پہلی وحی لے کر آیات تھا لیکن اس کی برکتیں  مستقل طور سے باقی رہ گئیں  چنانچہ ہر سال رمضان کے مہینہ میں  نزول قرآن کی یاد گار کے طور پر اسے منایا جاتا ہے اور اس کے منانے کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اس میں  نماز ، تلاوت قرآن اور ذکرو  دعا کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ حدیث میں  آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْمَا ناً وَ اِحْتِسَاباً غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّ مَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ’’ جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور اللہ سے اجر کی امید پر شب قدر میں  عبادت کی اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کریے گۓ ‘‘۔ (بخاری کتابُ صلاۃ التراویح )

 

جس رح کہ بارش کا موسم کا شتکاری کے لیے بڑا سازگار ہوتا ہے اسی طرح قرب الٰہی کے حصول کے لیے شریعت کے مقرر کردہ مخصوص اوقات ، مخصوص دن اور مخصوص راتیں  نہایت سازگار ہوتی ہیں  مثلاً تہجد کا وقت ، جمعہ کا دن ، رمضان کا مہینہ، یوم عرفات وغیرہ۔ اسی طرح لیلۃ القدر قرب الٰہی کے حصول کے لیے بہترین اور موزوں  ترین شب ہے۔ اسی لیے حدیث میں  اسے رمضان کی آخری دس راتوں  میں  تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔  : عن عائشہ رضی اللہ عنہا ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قال: تحَرُّوْ الَیلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ العشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَنَ۔ (بخاری۔ کتابُ صلاۃ التراویح)

 

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں  میں  تلاش کرو‘‘

 

طاق راتوں  سے مراد رمضان کی اکیوسویں  ، تیئسویں ، پچیسویں  ، ستائیسویں  ، اور انتیسویں  شب ہے۔ کسی ایک شب کا تعین اس لیے نہیں  کیا گیا کہ اس کی تلاش کا شوق پیدا ہو اور لوگ کئی راتیں  عبادت میں  گزاریں۔ اس پہلو سے اعتکاف کی مصلحت بھی واضح ہے جو رمضان کے آخری عشرہ میں  کیا جاتا ہے۔

 

رہا یہ سوال کہ دنیا کے ایک حصہ میں  رات ہوتی ہے تو دوسرے حصہ میں  دن اس لے جب مکہ میں  شب قدر ہو تو دور کے علاقے کے لوگ کس طرح اس کو پا سکیں  گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت نے گھڑی کو بابرکت قرار دے کر عبادت کے لیے مختص کیا ہے اس کے سلسلہ میں  مقامی وقت کا اعتبار ہو گا مثلاً شب کا آخری حصہ جو دعا کی قبولیت کے لی خاص ہے یا جمعہ کا وقت تو اس سلسلہ میں  مقامی وقت ہی کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق نماز وغیرہ ادا کی جاتی ہے اور اس سے وہ برکتیں  غائب نہیں  ہو جاتیں  جو مخصوص وقت یا مخصوص دن کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اسی طرح شب قدر کی برکتیں  بھی مقامی وقت کا اعتبار کرنے کے باوجود باقی رہتی ہیں  اور ہر علاقے کے لوگ اسے پا سکتے ہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح سے مراد روح الامین ہیں  جو حضرت جبریل کا لقب ہے۔ ان کا ذکر خصوصیت کے ساتھ اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں  کے سردار ہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَنَزَّلُ (اترتے ہیں ) کا صیغہ تصویر حال کے لیے ہے تاکہ اس وقت کی تصویر سامنے آ جاۓ جب کہ فرشتے کلام الٰہی کو لے کر نازل ہو رہے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح کسی بادشاہ کے سپاہی شاہی فرمان کو لے کر کسی مہم پر دوڑے پڑتے ہیں  اسی طرح جبریل فرشتوں  کی فوج کے ساتھ فرمان الٰہی کو لے کر نازل ہوۓ تھے اور اس شان سے نازل ہوۓ تھے کہ گویا روحانی عالم میں  یہ جشن قرآن کی شب تھی۔

 

ہر حکم کو لے کر نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر میں  فرشتوں  کا نزول یونہی نہیں  ہوا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کی پانچ آیتوں  کو جو سورہ علق کی ابتدائی آیات میں  نازل کرنا، مکہ کے غار حراء میں  نازل ہونا ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل کر کے آپؐ کو خلعت نبوت پہنانا، آپؐ کو پکڑ کر بھینچنا تا کہ آپؐ میں  اخذ وحی کی اور اس کو صحت کے ساتھ پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہو جاۓ وغیرہ۔ ان کے علاوہ نزول خیر و برکت کے سلسلہ میں  فرشتوں  کو جو احکام  دیے گۓ تھے ان میں  سے ہر ہر حکم کی انہوں  نے ٹھیک ٹھیک تعمیل کی اس لیے نزول قرآن اور نبوت سے سرفراز کیے جانے کا جو معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیش آیا وہ شبہہ سے بالاتر ہے۔

 

واضح رہے کہ آغاز وحی کے موقعہ پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صرف جبریل علیہ السلام دکھائی دیے تھے مگر جیسا کہ یہ آیت صراحت کرتی ہے اس شب میں  دورے فرشتے بھی نازل ہوۓ تھے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے فرشتہ کو دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا جس کا متحمل ہونا کوئی آسان بات نہیں  تھی۔ اس لیے آپؐ کے سامنے صرف جبریل علیہ السلام کو ظاہر کیا گیا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نزول قرآن کے موقع پر آسمان پر سخت پہرے بٹھا دیے گئے تھے تاکہ شیاطین قرآن میں  خلل اندازی نہ کر سکیں  اور نہ انہیں  ملاء اعلیٰ سے سن گن لینے کا موقع مل سکے کیونکہ اگر انہیں  پیغمبر کی بعثت کی خبر قبل از وقت ہوئی یا جو پیغامات پیغمبر کی رف بھیجے جا رہے ہیں  ان کی بھنک انہوں  پائی تو وہ کاہنوں  کے کانوں  میں  الٹی سیدھی باتیں  ڈال کر زمین پر فتنہ بر پا کریں  گے۔ چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی انتظام کا نتیجہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے کسی کو کانوں  کان خبر نہیں  ہوئی کہ آپ کو نبی بنایا جانے والا ہے اور نہ نزول قرآن سے پہلے کسی کو یہ خبر ہوئی کہ فلاں  شب کو یہ اور یہ پیغام نازل ہو نے والا ہے۔

 

اس طرح اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کی شب کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھنے کا سامان کیا تھا اور اس رات کو کامل طور پر سلامتی کی رت بایا تھا اور یہ کیفیت تھوڑی دیر کے لیے نہیں  بلکہ طلوع فجر تک رہی کیونکہ یہ مبارک شب قرآن کریم کے افتتاح کی شب تھی اور اب جو نزول قرآن کی یاد گار کے طور پر شب قدر منائی جاتی ہے تو اس میں  بھی اس کی سلامتی اور برکتیں  طلوع فجر تک رہتی ہیں  اس لیے یہ پوری رت اس لائق ہے کہ عبادت میں  گزری جاۓ۔

 

شب قدر سرتا سر سلامتی کی رات تھی اور اس میں  جو کتاب نازل ہوئی وہ بھی سر تا سر سلامتی ہی کی کتاب ہے یہ انسانیت کے لیے سلامتی کا پیغام ہے۔ اس کو قبول کرنے والے دنیا میں  بھی سلامتی کی زندگی گزاریں  گے اور آخری میں  انہیں  ابدی سلامتی نصیب ہو گی۔