تفسیر مدنی

سورة إبراهیم

(سورۃ ابراہیم ۔ سورہ نمبر ۱۴ ۔ تعداد آیات ۵۲)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     ا ل رٰ۔ یہ ایک عظیم الشان کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا ہے آپ کی طرف (اے پیغمبر!) تاکہ آپ لوگوں کو (تہ در تہ) اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لا سکیں ، ان کے رب کی توفیق سے یعنی اس خدا کے راستے کی طرف جو سب پر غالب بھی ہے اور اپنی ذات میں آپ ہی محمود بھی،

۲۔۔۔      یعنی اس اللہ کے راستے کی طرف جس کے لئے وہ سب کچھ ہے جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے اور کافروں کے لئے بڑی خرابی ہے ایک بڑے ہی سخت عذاب سے ،

۳۔۔۔      ان کے لیے جو کہ پسند کرتے ہیں دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں ، اور جو (خود محروم ہونے کے ساتھ ساتھ دوسرے کو بھی) روکتے ہیں اللہ کی راہ سے ، اور وہ اس میں کجی تلاش کرتے ہیں ، (اپنی اھواء و اغراض کے مطابق) یہ لوگ پڑے ہیں (راہ حق سے) بڑی دور کی گمراہی میں ،

۴۔۔۔      اور ہم نے جو بھی کوئی رسول بھیجا وہ اس کی اپنی قوم کی زبان کے ساتھ ہی بھیجا تاکہ وہ کھول کر بیان کرے ان کے لئے (پیغام حق و ہدایت کو) پھر اللہ جسے چاہتا ہے ڈال دیتا ہے گمراہی میں ، اور جسے چاہتا ہے نواز دیتا ہے (نور حق و) ہدایت سے ، اور وہی ہے غالب، اور نہایت ہی حکمت والا۔

۵۔۔۔      اور بلاشبہ (اس سے پہلے) موسیٰ کو بھی ہم بھیج چکے ہیں (رسول بنا کر) اپنی آیتوں کے ساتھ، کہ نکال لاؤ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف، اور (یہ کہ) انہیں یاد دلاؤ اللہ کے (وہ عہد ساز) دن (جن میں بڑے عبرت انگیز واقعات رونما ہوئے) بے شک اس میں بڑی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو ہمیشہ (زندگی بھر) صبر اور شکر ہی سے کام لینے والا ہو،

۶۔۔۔      اور (وہ وقت بھی یاد کرو کہ) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ یاد کرو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ان احسانات کو جو اس نے فرمائے ہیں تم پر، جب کہ اس نے تم کو نجات دی فرعون والوں (کے ظلم و ستم) سے ، جو کہ چکھا رہے تھے تم کو طرح طرح کے برے عذاب، اور وہ چن چن کر ذبح کر رہے تھے تمہارے بیٹوں کو، اور زندہ رکھتے تھے تمہاری عورتوں کو، اور اس میں بڑی بھاری آزمائش تھی تمہارے پروردگار کی طرف سے ،

۷۔۔۔      اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تمہارے رب نے تمہیں خبردار کر دیا تھا کہ اگر تم لوگ شکر کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ نوازوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو (پھر) میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے ،

۸۔۔۔      اور موسیٰ نے (اپنی قوم کو) یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم نے کفر کیا اور (تم ہی نہیں بلکہ اگر) تمہارے ساتھ روئے زمین کے سب لوگ بھی کفر کر لیں (والعیاذ بااللہ العظیم)، تو بے شک (اس میں اللہ تعالیٰ کا ذرہ برابر کوئی نقصان نہیں کہ یقیناً) اللہ بڑا ہی ہے بے نیاز اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ،

۹۔۔۔      کیا تمہیں (اے منکرو!) نہیں پہنچے حالات ان لوگوں کے جو گزر چکے ہیں تم سے پہلے ؟ یعنی قوم نوح، عاد، ثمود اور ان کے جو ان سے بھی پہلے گزر چکے ہیں ، جن (کی صحیح تعداد اور پورے حالات) کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے ، ان کے پاس آئے ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر، مگر انہوں نے اپنے ہاتھ دے دیے ان کے مونہوں میں ، اور صاف کہہ دیا کہ ہم اس دین کو کسی طور پر بھی ماننے کے لئے تیار نہیں جس کے ساتھ تم کو بھیجا گیا ہے ، اور بلاشبہ ہم اس چیز کے بارے میں ایک بڑے ہی خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں ، جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو،

۱۰۔۔۔      ان کے رسولوں نے ان سے کہا کہ کیا تمہیں شک ہے اس اللہ کے بارے میں جو پیدا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کا؟ اور وہ تمہیں بلاتا بھی اس لئے ہے کہ تاکہ بخشش فرما دے تمہارے گناہوں کی اور تمہیں مہلت سے نواز دے ایک مقررہ مدت تک؟ ان لوگوں نے (بطور تعجب د استکار) کہا کہ تم تو ہم ہی جیسے بشر (اور انسان) ہو (پھر تمہیں ہم نبی کیسے مان لیں)، تم تو دراصل ہمیں روکنا چاہتے ہو ان چیزوں (کی پوجا پاٹ) سے جن کو پوجتے چلے آئے ہیں ہمارے باپ دادا پس لے آؤ ہمارے پاس کوئی کھلی سند،

 

۱۱۔۔۔      ان کے رسولوں نے ان کے جواب میں فرمایا کہ بلاشبہ ہم ہیں تو تم ہی جیسے بشر (اور انسان) لیکن (بشریت اور نبوت میں کوئی تضاد نہیں اس لئے) اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرما دیتا ہے ، اور ہمارے بس میں نہیں کہ ہم تمہارے پاس کوئی سند لے آئیں مگر اللہ ہی کے اذن سے ، اور اللہ پر بھروسہ کرنا چاہئیے ایمان والوں کو (ہر حال میں)،

۱۲۔۔۔      اور ہم کیوں اللہ پر بھروسہ نہ کریں جب کہ اسی نے ہمیں (دارین کی سعادتوں کی) راہیں سمجھا دیں ، اور ہم ضرور صبر (و برداشت) ہی سے کام لیتے رہیں گے ان ایذاؤں پر جو تم لوگ ہمیں پہنچا رہے ہو، اور اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے (ہر حال میں)، بھروسہ کرنے والوں کو،

۱۳۔۔۔      مگر (اس سب کے باوجود) ان کافروں نے اپنے رسولوں کو آخری جواب یہی دیا کہ یا تو تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا، یا ہم تمہیں نکال باہر کریں گے اپنی سرزمین سے ، تب ان کے رب نے ان پر وحی بھیج (کر انہیں تسلی) دی کہ (یہ بے چارے تمہیں کیا نکالیں گے) ہم ضرور بالضرور ان ظالموں کو ہلاک کر (کے ان کا تیا پانچا کر) دیں گے

۱۴۔۔۔      اور اس سرزمین میں ان کے بعد ہم تم ہی کو آباد کر دیں گے یہ (وعدہ اور انعام) ہر اس شخص کے لئے ہے جو ڈرتا ہو میرے حضور جواب دہی سے اور جو ڈرتا ہو میری وعید سے ،

۱۵۔۔۔     انہوں نے فیصلہ چاہا تھا اور (وہ ہو گیا کہ) ناکام و نامراد ہو گیا ہر بڑا سرکش ضدی

۱۶۔۔۔     اس (دنیوی عذاب) کے آگے اس کے لئے جہنم ہے جہاں سے پیپ لہو (کا پانی) پینے کو دیا جائے گا

۱۷۔۔۔      جسے وہ گھونٹ گھونٹ کر کے (مجبوراً) پئے گا، اور وہ ایسا نہیں ہو گا کہ آسان سے اتر جائے اور اسے ہر طرف سے موت آتی دکھائی دے رہی ہو گی، پر وہ مرنے بھی نہ پائے گا، اور اس کے آگے ایک بڑا سخت عذاب ہو گا۔۱

۱۸۔۔۔      مثال ان لوگوں (کے حال و مال) کی جنہوں نے کفر کیا اپنے رب (مہربان) کے ساتھ، ایسے ہے جیسا کہ راکھ کا ایک ڈھیر ہو جسے اڑا کر رکھ دیا ہو تیز ہوا نے ، جھکڑ کے ایک دن میں (اسی طرح) یہ لوگ کچھ بھی پھل نہ پا سکیں گے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا یہی ہے گمراہی دور کی

۱۹۔۔۔      تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے (کس طرح) پیدا فرمایا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس حکمت بھری کائنات) کو حق کے ساتھ وہ (قادر مطلق) اگر چاہے تو لے جائے تم سب لوگوں کو، اور لا بسائے (تمہاری جگہ) ایک نئی مخلوق کو،

۲۰۔۔۔      اور ایسا کر دینا اللہ کو کچھ بھی مشکل نہیں ،

۲۱۔۔۔      اور (قیامت کے روز جب) سب حاضر ہوں گے اللہ کے حضور ایک ساتھ تو اس وقت کمزور (اور تابع) لوگ (حسرت بھرے انداز میں) کہیں گے ان لوگوں سے جو کہ بڑے بنے ہوئے تھے (دنیا میں ، کہ وہاں) ہم تمہارے تابع تھے ، تو کیا (آج کے اس مشکل وقت میں) تم اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے کچھ بھی ہمارے کام آ سکتے ہو؟ وہ جواب دیں گے کہ اگر اللہ نے (بچنے کی) کوئی راہ ہمیں دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمہیں بھی وہ دکھا دیتے ، اب تو ہم سب کے لئے برابر ہے کہ خواہ ہم چیخیں چلائیں ، یا صبر کریں ، ہمارے بچنے کی بہر حال اب کوئی صورت نہیں ،

۲۲۔۔۔      اور جب فیصلہ چکا دیا جائے گا تو شیطان (اپنے پیروکاروں سے صاف کہے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا بالکل سچا وعدہ اور میں نے تم سے جو (طرح طرح) کے وعدے کئے تھے ان میں میں نے تم لوگوں سے قطعی طور پر جھوٹ بولا تھا، مگر میرا تم پر کسی طرح کا کوئی زور نہیں تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمہیں بلایا، اور تم نے (برضا و رغبت) میری بات مان لی، لہٰذا اب تم مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ خود اپنے آپ ہی کو ملامت کرو، نہ میں تمہاری کوئی فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری، میں خود تمہارے اس کردار بد کا قطعی طور پر منکر ہوں کہ تم نے اس سے قبل مجھے (خدا کی خدائی میں) شریک بنائے رکھا تھا، بے شک ایسے ظالموں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ،

۲۳۔۔۔      اور (اس کے برعکس) داخل کر دیا گیا ہو گا ان لوگوں کو جو (صدقِ دل سے) ایمان لائے ہوں گے ، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے ، ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں ، جہاں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا، اپنے رب (رحیم و کریم) کے حکم سے ، وہاں ان کے ملتے وقت کی باہمی دعا سلام ہو گی،

۲۴۔۔۔      کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کیسی عظیم الشان مثال، بیان فرمائی کلمہ طیبہ کی، کہ وہ ایک ایسے پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہو، اور اس کی شاخیں آسماں میں پہنچی ہوئی ہوں ،

۲۵۔۔۔      اور وہ ہر وقت پھل دیتا ہو اپنے رب کے حکم سے ، اور اللہ (ایسے ہی عظیم الشان) مثالیں بیان فرماتا ہے لوگوں (کی فہمائش) کے لئے ، تاکہ وہ سبق لیں ،

۲۶۔۔۔      اور مثال کلمہ خبیثہ کی ایک ایسے خبیث درخت کی سی ہے جسے زمین کے اوپر سے ہی اکھاڑ پھینکا گیا ہو، اس کے لئے کچھ بھی ٹھہراؤ نہ ہو،

۲۷۔۔۔      اللہ ثبات (و قرار) سے نوازتا ہے ایمان والوں کو، قول ثابت کی بناء پر دنیا کی اس (عارضی) زندگی میں بھی، اور آخرت (کے اس ابدی جہاں) میں بھی، اور اللہ (جل شانہ) گمراہی (کے گڑھے) میں ڈال دیتا ہے ظالموں کو، اور اللہ (سبحانہ، و تعالیٰ) کرتا ہے جو چاہتا ہے ،

۲۸۔۔۔      کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے بدل دیا اللہ کی نعمت کو کفر (و ناشکری) سے ، اور انہوں نے اتار دیا اپنی قوم کو ہلاکت (و تباہی) کے گھر میں

۲۹۔۔۔      یعنی جہنم میں ، جس میں داخل ہونا ہو گا ان سب کو، اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ،

۳۰۔۔۔      اور (بیان اس کا یہ ہے کہ) ان لوگوں نے ٹھہرا لئے اللہ کے لئے طرح طرح کے شریک، تاکہ (اس طرح یہ دوسرے لوگوں کو بھی) بہکا کر ہٹا دیں اللہ کی راہ سے ، (ان سے) کہو کہ اچھا تم لوگ کچھ مزے اڑا لو (پر یاد رکھو کہ) آخرکار تمہیں جانا بہر حال (دوزخ کی) اس (ہولناک) آگ ہی کی طرف ہے ،

۳۱۔۔۔      اور کہو میرے ان خاص بندوں سے جو کہ (سچے دل سے) ایمان لائے ہیں کہ وہ قائم کریں نماز کو، اور خرچ کریں اس میں سے جو کہ ہم نے دیا ہے ان کو، پوشیدہ طور پر بھی، اور کھلم کھلا بھی قبل اس سے کہ آ پہنچے وہ ہولناک دن جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہو گی، اور نہ ہی کوئی دوست نوازی،

۳۲۔۔۔      اللہ وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم کائنات) کو اور اس نے اتارا آسمان سے پانی (ایک نہایت ہی پر حکمت نظام کے تحت) پھر اس نے نکالیں اس (پانی) کے ذریعے طرح طرح کی پیداواریں ، تمہاری روزی کے لئے ، اور اسی نے تمہارے لئے کام میں لگا دیا ان کشتیوں (اور طرح طرح کے بحری جہازوں) کو، تاکہ وہ چلیں سمندر میں اس کے حکم سے اور اسی نے تمہارے لئے کام میں لگا دیا ان طرح طرح کے دریاؤں کو

۳۳۔۔۔      اور اسی نے تمہارے لئے کام میں لگا دیا سورج اور چاند (کے ان دو عظیم الشان کروں) کو، جو کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور اسی نے کام میں لگا دیا تمہارے بھلے کے لئے رات اور دن (کے اس عظیم الشان نظام) کو

۳۴۔۔۔      اور اس نے عطا فرمایا تم کو ہر اس چیز میں سے جس کا تم نے اس سے سوال کیا اور اگر تم گننے لگو اللہ کی نعمتوں کو تو کبھی بھی گن کر پورا نہیں کر سکو گے (پھر اس قدر نعمتوں پر بھی اس کی ناشکری؟) واقعی انسان بڑا ہی بے انصاف، نہایت ناشکرا ہے ،

۳۵۔۔۔      اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم نے (اپنے رب کے حضور) عرض کیا اے میرے پروردگار ، بنا دے تو اس شہر کو امن کا گہوارہ اور بچائے رکھنا مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی بت پرستی (کی نجاست و لعنت) سے ،

۳۶۔۔۔      میرے مالک ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے پس جو کوئی میرے طریقے پر چلا وہ تو میرا ہے ، اور جس نے میرے خلاف طریقہ اختیار کیا تو (اس کا معاملہ تیرے حوالے ہے کہ) تو ہی بڑا بخشنے والا، نہایت ہی مہربان،

۳۷۔۔۔      میرے پروردگار (حالات کی ناسازگاری کے باوجود) میں نے لا بسایا اپنی کچھ اولاد کو، ایک ایسی وادی میں جس میں کوئی کھیتی (باڑی) نہیں تیرے حرمت والے گھر کے پاس، ہمارے پروردگار، (یہ اس لئے کیا کہ) تاکہ یہ نماز قائم کریں پس تو (اے میرے مالک اپنے کرم و عنایت سے) ایسا ایسا پھیر دے ان کی طرف کچھ لوگوں کے دلوں کو کہ وہ ان کے گرویدہ ہو جائیں ، اور ان کو روزی عطا فرما طرح طرح کی پیداواروں سے تاکہ شکر ادا کریں

۳۸۔۔۔      ہمارے پروردگار! تو (ایک برابر) جانتا ہے وہ سب کچھ جو کہ ہم چھپا کر کرتے ہیں اور وہ سب کچھ جو کہ ہم دکھا کر کرتے ہیں اور کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی اللہ پر، نہ زمین (کی پستیوں) میں ، اور نہ آسمانوں (کی بلندیوں) میں

۳۹۔۔۔      تمام تعریفیں اس اللہ ہی کو سزاوار ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں عطا فرمائے اسماعیل اور اسحاق (جیسے بیٹے) بے شک میرا رب بڑا ہی سننے والا ہے (ہر کسی کی) دعا کو،

۴۰۔۔۔     میرے پروردگار، مجھے بنا دے قائم رکھنے والا نماز کا، اور میری اولاد میں سے بھی (کچھ ایسے لوگ پیدا فرما جو یہ کام کریں) ہمارے پروردگار اور قبول فرما لے میری دعا کو

۴۱۔۔۔      اے ہمارے رب بخشش فرما دے میری بھی، اور میرے والدین کی بھی، اور سب ایمان والوں کی بھی، اس دن جب کہ حساب قائم ہو گا،

۴۲۔۔۔      اور کبھی تم غافل (و بے خبر) نہ سمجھنا اللہ کو (اے مخاطب!) ان کاموں سے جو ظالم لوگ کر رہے ہیں ، وہ تو محض ان کو ڈھیل دے رہا ہے ، ایک ایسے ہولناک دن کے لئے جس میں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی ان کی نگاہیں

۴۳۔۔۔      وہ سر اٹھائے ایسے بے تحاشا دوڑے چلے جا رہے ہوں گے ، کہ ان کی نگاہیں ان کی طرف لوٹ کر بھی نہ آ سکیں گی اور ان کے دل اڑے جا رہے ہوں گے

۴۴۔۔۔      اور خبردار کرتے رہو تم لوگوں کو اس (ہولناک) دن سے جب کہ آ پہنچے گا ان پر وہ عذاب، پھر وہ لوگ جو (زندگی بھر) اڑے رہے ہوں گے ظلم پر، (سراپا عجز و نیاز بن کر) کہیں گے ، کہ اے ہمارے رب ہمیں تھوڑی مہلت اور دے دے ، تاکہ ہم قبول کر لیں تیری دعوت کو، اور ہم پیروی کریں (تیرے بھیجے ہوئے) رسولوں کی (مگر انہیں جواب ملے گا کہ) کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ تمہیں (اس دنیا اور اس کے مزوں سے) ہٹ کر کہیں جانا ہی نہیں ،

۴۵۔۔۔      حالانکہ تم انہی لوگوں کی جگہوں (اور بستیوں) میں رہتے بستے تھے جنہوں نے (اپنی زندگیوں میں) ظلم اٹھائے تھے خود اپنی جانوں پر، اور تمہارے سامنے اچھی طرح واضح ہو گیا تھا کہ ہم نے کیا سلوک کیا ان کے ساتھ اور ہم نے بیان کر دی تھی تمہارے لئے طرح طرح کی (عبرتناک) مثالیں

۴۶۔۔۔      ان لوگوں نے پورے زور سے چلیں اپنی چا لیں (حق اور اہل حق کے خلاف) اور اللہ ہی کے پاس تھیں ان کی چا لیں اور (ان کا جواب اور توڑ، ورنہ) ان کی چا لیں تو (واقعتاً) ایسی تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں ،

۴۷۔۔۔      پس تم (اے مخاطب!) اللہ کے بارے میں کبھی یہ گمان بھی نہ کرنا کہ وہ اپنے ان وعدوں کی خلاف ورزی کرنے والا ہے ، جو اس نے اپنے رسولوں سے فرمائے ہیں ، بے شک اللہ بڑا ہی زبردست پورا بدلہ لینے والا ہے ،

۴۸۔۔۔      جس روز کہ بدل دیا جائے گا، اس زمین کو ایک دوسری زمین سے ، اور ان آسمانوں کو بھی اور سب لوگ نکل کھڑے ہوں گے (اپنے کئے کا بدلہ پانے کے لئے)، اس اللہ کے سامنے جو کہ یکتا اور سب پر غالب ہے ،

۴۹۔۔۔     اس روز تم مجرموں کو دیکھو گے کہ وہ (نہایت بری طرح) جکڑے ہوئے ہوں گے (ہولناک) بیڑیوں میں

۵۰۔۔۔      ان کے لباس تارکول کے ہوں گے ، اور آگ کے شعلے چھائے جا رہے ہوں گے ان کے چہروں پر

۵۱۔۔۔      (یہ سب کچھ اس لئے ہو گا کہ) تاکہ اللہ پورا بدلہ دے ہر کسی کو اس کے (زندگی بھر کے) کئے (کرائے) کا، بے شک اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے ،

۵۲۔۔۔     ایک عظیم الشان پیغام ہے سب لوگوں کے لئے (تاکہ وہ اس پر ایمان لائیں) اور تاکہ اس کے ذریعہ ان کو خبردار کر دیا جائے (ان کے مآل و انجام سے) اور تاکہ وہ یقین جان لیں کہ معبود برحق وہی ایک ہے ۔

تفسیر

۱۔۔۔     یعنی اگر یہ لوگ یہ تمام دلائل و شواہد دیکھنے اور سننے کے باوجود کہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں۔ تو ان سے الجھنے اور مزید بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ ان سے صرف اتنا کہہ دیں کہ اللہ کافی ہے گواہی دینے کو میرے اور تمہارے درمیان، اور وہ لوگ بھی جن کے پاس کتاب الٰہی کا علم ہے۔ سو ان عظیم الشان گواہیوں کے ہوتے ہوئے مجھے تمہاری گواہی کی کوئی ضرورت نہیں۔

سو اس ارشاد سے اس کتاب حکیم کی عظمت شان کو بھی، واضح فرما دیا گیا اور اس کے مقصد انزال کو بھی سو ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے جس کو ہم نے اتارا ہے۔ پس یہ سراسر اتاری ہوئی کتاب ہے، جس کو حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ نے اپنی رحمت و عنایت سے اتارا ہے، اس میں کسی انسانی فکر و عمل کا کوئی دخل نہیں، اور اس شان کی صرف یہی کتاب ہے دوسری کوئی ایسی کتاب پوری روئے زمین پر موجود نہیں، اس سے پہلے جو آسمانی کتابیں اتاری گئی تھیں۔ ان کو لوگوں نے اس قدر بدل اور بگاڑ کر رکھ دیا کہ ان کا دنیا میں کوئی اصل نسخہ اب کہیں بھی نہیں مل سکتا، بلکہ ان کو جن جن زبانوں میں اتارا گیا تھا ان کا بھی آج دنیا میں کہیں کوئی نام و نشان باقی نہیں۔ جبکہ یہ کتاب حکیم گھٹا ٹوپ جس طرح اور جس زبان میں اتاری گئی تھی۔ اسی طرح اور اسی زبان میں آج تک جوں کی توں محفوظ و موجود ہے، اور اس کے اتارنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو طرح طرح کے اندھیروں سے نکال کر حق اور ہدایت کی عظیم الشان اور بے مثال روشنی میں لایا جائے۔ سو یہ کتاب ہر اعتبار سے منفرد اور بے مثال ہے والحمد للہ جل وعلا،

 سو پیغمبر کا لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر راہ حق کی طرف لانا اللہ تعالیٰ ہی کے اذن اور اس کی توفیق پر موقوف ہے، وہ اپنی سنت کے مطابق جن کو ہدایت کا اہل اور اس کا مستحق پاتا ہے، انہی کو اس دولت سے نوازتا ہے، اور جن کو وہ اس کا اہل نہیں پاتا ان کو انہی کی اختیار کردہ گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے، سو پیغمبر کی اصل ذمہ داری اس سلسلے میں دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے اور بس، لوگوں کو راہِ راست پر لے آنا نہ ان کے بس میں ہے۔ اور نہ یہ ہی یہ ان کے ذمے ہے، اور یہ راستہ جس کی دعوت پیغمبر دیتے ہیں، اس ذات اقدس و اعلیٰ کی طرف لے جانے والا راستہ ہے، جو کہ عزیز بھی ہے اور حمید بھی، پس جو اس راستے سے سرفراز ہو جائیں گے، وہ حقیقی عزت بھی پائیگے، اور سچی تعریف کے مستحق بھی قرار پائیں گے، اور جو پیغمبر کی بتائی ہوئی اس راہ حق و صواب سے منہ موڑیں گے۔ اور اس سے محروم رہیں گے۔ والعیاذ باللہ۔ وہ سچی عزت و عظمت اور حقیقی تعریف و خوبی سمیت ہر قسم کی خیر وبرکت سے محروم رہیں گے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۲۔۔۔     سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس ساری کائنات کے خالق و مالک، اللہ جل جلالہ، کی معرفت اور اس تک رسائی، اور اس کی رضا و خوشنودی کے راستے کو معلوم کرنا انسان کے ذمے سب سے پہلا، سب سے بڑا اور سب سے اہم فریضہ ہے، کہ اسی پر خود اس کی فوز وفلاح اور اس پوری کائنات کی اصلاح کا مدار و انحصار ہے۔ پس اللہ کی اس کائنات میں رہنے بسنے والے لوگوں کے ذمے لازم ہے کہ وہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی کی راہوں سے واقف و آگاہ ہوں۔ اور انہی کی پیروی کریں۔ کیونکہ اس کی کائنات میں رہنے بسنے کے باوجود اس کی رضا و خوشنودی کی خلاف ورزی کرنا ظلم ہے، جس کا نتیجہ وانجام بہت برا ہے والعیاذُ باللہ العظیم اور حضرت خالق جَلَّ مَجْدہٗ کے راستے کی معرفت اور اس سے آگہی اس کتاب حکیم کے بغیر ممکن نہیں، جس کو پیغمبر دنیا کے سامنے پیش فرما رہے ہیں، سو اس اعتبار سے اس کتاب حکیم اور اس کے پیش کرنے والے رسول عظیم اور اس کے اتارنے والے رب جلیل کا یہ وہ انعام و احسان ہے جس کے سامنے روئے زمین کی تمام دولت بھی ہیچ اور صفر ہے، سو ایسے میں اس نعمت عظمیٰ کی بے قدری اور ناشکری کتنا بڑا ظلم ہے، والعیاذ ُباللہ العظیم وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید بکل حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۳۔۔۔     سو اس سے اس صحیفہ ہدایت کا انکار کرنے والوں کا انجام بھی واضح فرما دیا گیا، کہ ان کے لئے ان کے کفر و انکار کی پاداش میں بڑا سخت عذاب ہے۔ نیز ان کے سبب انکار کو بھی بیان فرما دیا گیا کہ یہ لوگ دنیاوی زندگی اور اس کے وقتی مفادات کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں، سو یہ لوگ اپنی آخرت کے لئے ان دنیاوی مفادات کو قربان کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ پس حب دنیا ان کے اور اس صحیفہ ہدایت کے درمیان حجاب بنی ہوئی ہے، اور اپنے اسی روگ کی بناء پر یہ لوگ اپنی محرومی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی راہِ حق سے روکتے ہیں، اور اس طرح یہ ضلال و اضلال کے دوہرے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور یہاں تک کہ یہ بدبخت حق و ہدایت کی اس سیدھی اور واضح راہ کو ٹیڑھا کر کے اپنے خود ساختہ ٹیڑھے راستوں کی طرف موڑنے کی تگ و دو میں مصروف ہوتے ہیں، اور اپنی ان من گھڑت پگڈنڈیوں ہی کو یہ لوگ اصل راہ قرار دیتے ہیں، تو پھر ان کو صراط مستقیم کی شاہرہ آخر نصیب ہو تو کیسے؟ اور کیونکر؟ سو اپنی انہی بدنیتوں اور بدبختیوں کی بناء پر اور ان کے نتیجے میں یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں، اور اتنے دور کہ وہاں سے یہ حق کی طرف مڑنے والے نہیں، والعیاذُ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال،

۶۔۔۔     سو اس تقریر سے حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو یہ تذکیر و یاد دہانی فرمائی کہ فرعون کی اس غلامی اور اس کے اسے ہولناک مظالم سے جو اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو نجات بخشی ہے، یہ اس کا تم لوگوں پر بہت انعام و احسان ہے سو اس کے اس انعام و احسان کو یاد کر کے تم لوگوں کو ہمیشہ اس کا شکر گزار رہنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس کو بھول کر انہی خرمستیوں میں کھو جاؤ۔ جس کی سزا تم لوگوں کو فرعونیوں کی غلامی کی شکل میں ملی۔ سو حضرت موسیٰ کی اس تقریر کی یاد دہانی وقت کے بنی اسرائیل کو اس لئے کرائی گئی۔ کہ وہ متنبہ ہوں اور اس حقیقت کا احساس و ادراک کریں، کہ یہ لوگ حضرت موسیٰ کی اس تعلیم و تلقین کو فراموش کر کے پھر شیطان کے راستے پر چل پڑے ہیں اور اس طرح یہ دین حق اسلام کی مخالفت کر کے از سر نو اپنی شامت کو دعوت دینا چاہتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۷۔۔۔     سو اس ارشاد سے شکر نعمت کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، اور کفران نعمت اور ناشکری کے انجام بد سے خبردار کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ بھی تم لوگوں کو یاد رہنا چاہیے کہ جب تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کر دیا تھا کہ اگر تم لوگ میرے احکام و ارشادات کی پیروی کر کے شکر گزار بنو گے، تو میں اپنی نعمتیں تم کو اور زیادہ دوں گا۔ اور تمہاری تعداد میں، اور تم پر اپنے افضال و عنایات میں، برابر اضافہ کروں گا۔ اور اگر اس کے برعکس تم نے ناشکری اور نافرمانی کی راہ کو اپنایا تو یاد رکھو کہ پھر میرا عذاب بھی بڑا ہی سخت ہو گا۔ سو اس ارشاد سے بھی نزول قرآن کے وقت کے بنی اسرائیل کو تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے، کہ تم لوگ کفران نعمت کی روش کو ترک شکر گزاری کے طریقے کو اپناؤ۔ تاکہ خود تمہارا بھلا ہو۔

۹۔۔۔     یعنی انہوں نے اپنے رسولوں کے منہ بند کر دینے کی کوشش کی۔ کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی بات کو غصے اور نفرت کے ساتھ روکنا چاہتا ہے، تو وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا ہے کہ زبان بند کرو۔ ایک حرف بھی اور اپنے منہ سے نہ نکالو، سو اس طرح ان بدبختوں نے بڑی گستاخی اپنے رسولوں کی دعوت کو رد کر دیا والعیاذ باللہ

۱۰۔۔۔   ۱: سو اللہ کے رسولوں نے منکرین کے دلوں پر دستک دیتے ہوئے، اور ان کے قلوب و ضمائر کو جھنجھوڑتے ہوئے، ان سے فرمایا کہ کیا تم لوگوں کو اس اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان اور حکمتوں بھری کائنات کو پیدا کرنے والا ہے؟ یعنی یہ زمین جو تم لوگوں کے پاؤں کے نیچے بچھی ہوئی ہے، اور یہ آسمان جس کی چھت تمہارے سروں کے اُوپر تنی ہوئی ہے یہ اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اپنے خالق و مالک کا پتہ دے رہے ہیں تو پھر اس کے بارے میں شک کی کیا گنجائش؟ پھر وہ تم لوگوں کو بلاتا بھی خود تمہارے ہی بھلے کے لئے ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۲: سو یہ ایک قدیم غلط فہمی ہے جو لوگوں کے اندر ہمیشہ رہی، پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے، کہ ایسے لوگ نبوت اور بشریت میں منافات سمجھتے ہیں، اسی بناء پر کل کے ان اعجوبہ پرستوں نے حضرات انبیاء کرام کی دعوت کے جواب میں ان سے کہا کہ چونکہ آپ ہم ہی جیسے بشر ہیں لہٰذا ہم آپ کو نبی اور رسول نہیں مان سکتے۔ جبکہ آج کے کچھ جاہلوں کا کہنا ہے کہ چونکہ ہم ان کو پیغمبر مانتے ہیں لہٰذا ان کو بشر نہیں مان سکتے۔ سو کل کے ان aعجوبہ پرستوں نے حضرات انبیائے کرام کی بشریت طاہرہ کو دیکھتے ہوئے ان کی نبوت و رسالت کا انکار کیا، اور آج کے اعجوبہ پرست ان کی نبوت کی بناء پر انکی بشریت کا انکار کرتے ہیں، غلط فہمی دونوں کو بہرحال ایک ہی رہی کہ نبوت اور بشریت دونوں باہم جمع نہیں ہو سکتیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر بشر بھی ہوتے ہیں، اور رسول بھی، جیسا کہ عَبْدہٗ وَرَسُوْلُہ، میں فرمایا گیا۔ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام، اور یہی تقاضا ہے کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں کا، اور اسی میں بھلا ہے انسانوں کا، اور اسی پر دارو مدار ہے اطاعت و انبیاء کا،

۳: یعنی کوئی ایسا حسی معجزہ جس کو دیکھ کر ہم ایمان لانے پر مجبور ہو جائیں۔ اور ہم یقین کرلیں کہ واقعی تم لوگ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہو۔ سو اعجوبہ پرست لوگوں کا حال ہمیشہ یہی رہا، کہ وہ دو اور دو چار، کی طرح کے ان ٹھوس حقائق کو ماننے کے لئے تو تیار نہیں ہوتے، جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن شعبدہ بازی کی نوعیت کے کسی مظہر کے آگے وہ فوراً جھک جاتے ہیں، سو اسی بناء پر ان منکروں نے حضرات انبیاء ورسل کی دعوت حق کے جواب میں ایسے فرمائشی معجزے پیش کرنے کے مطالبے کئے۔

۱۱۔۔۔   سو منکرین کے سوال و اعتراض کے جواب میں حضرات انبیاء ورسل نے ان سے فرمایا، اور نفی واثبات کے اندازِ حصر وقصر میں ارشاد فرمایا کہ واقعی ہم اپنی اصل کے اعتبار سے تم ہی جیسے بشر ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی مشیت اور حکمت سے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نوازتا ہے، اس لئے اس نے ہمیں شرف نبوت و رسالت سے نوازا ہے اس لئے ہم تم کو حق و ہدایت کی یہ دعوت دیتے ہیں، اگر تم اس کو مانو گے تو خود تمہارا ہی بھلا ورنہ تمہاری اپنی محرومی، باقی رہ گیا تمہارا فرمائشی معجزے دکھانے کا مطالبہ، تو وہ ہمارے بس اور اختیار میں نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی کے اذن پر موقوف ہے، اور تمہاری ان ایذاء رسانیوں پر ہم صبر و برداشت ہی سے کام لیتے ہیں۔ کہ ایمان والوں کے لائق اور ان کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اللہ ہی پر بھروسہ کریں کہ بھروسہ کرنے کے لائق بہرحال وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اب یہاں دیکھئے کہ حضرات انبیاء ورسل نفی و اثبات کے کلمات حصر و تاکید کے ساتھ اسی حقیقت کا اعلان و اقرار کرتے ہیں کہ سوائے اس کے نہیں کہ ہم تم ہی لوگوں جیسے بشر اور انسان ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی و رسالت کے شرف سے نواز کر ہمیں امتیازی شان عطا فرما دی ہے۔ سو اس سے حضرات انبیاء ورسل کی بشریت طاہرہ کو قطعی طور پر واضح فرما دیا گیا ہے۔ اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا کہ اسی پر دارو مدار ہے ان کی اتباع و پیروی کا، مگر اس کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے ایمان و اسلام کے دعوؤں اور قرآن پر ایمان کے اقرار و اعلان کے باوجود حضرت انبیاء کرام کی بشریت کا انکار کرتے ہیں۔ اور اس کے لئے وہ طرح طرح کی تحریفات و تلبیسات سے کام لیتے ہیں۔ اور نصوص صریحہ تک کی ایسی تحریفات کرتے ہیں جو یہود کو بھی شرما دیں۔ والعیاذ باللہ حالانکہ بشریت انبیاء ایک قطعی حقیقت ہے اور اس کا انکار صریح نصوص کا انکار ہے والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۴۔۔۔   ہر رسول کی زندگی میں بالآخر یہ مرحلہ پیش آیا ہے کہ منکرین نے ان کو یہ نوٹس دے دیا کہ یا تو تم ہماری ملت میں واپس آ جاؤ، یا پھر ہم تمہیں اپنی سرزمین سے نکال باہر کریں گے۔ سو جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ بشارت سنائی کہ یہ لوگ آپ کو کیا نکالیں گے ہم انہی کو ہلاک کر کے نیست و نابود کر دیں گے۔ اور ان ظالموں کی جگہ تم ہی کو اس سرزمین میں بسائیں گے، اور ان سے مزید ارشاد فرمایا گیا کہ یہ عظیم الشان بشارت ان سب کے لئے ہے جو میرے حضور پیشی سے ڈرتے، اور میری وعید سے خائف رہتے ہیں، سو اس میں رسولوں کی پیروؤں کے لئے تنبیہ و تذکیر اور ان کے لئے صبر و استقامت کی تعلیم و تلقین ہے والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

۱۷۔۔۔   سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ایسے سرکشوں کے لئے اسی دنیاوی عذاب پر بس نہیں۔ بلکہ ان کے لئے اصل عذاب تو اس کے بعد جہنم کا عذاب ہو گا جہاں ان کو پینے کے لئے پیپ اور کچ لہو دیا جائے گا۔ جو ایک نہایت ہی بُری اور بدبودار چیز ہو گی، جس کو پینے کا کوئی سوال نہیں ہو گا۔ لیکن انکی پیاس کی شدت اور اس کی ہولناکی کا عالم یہ ہو گا کہ ان کو اسے گھونٹ گھونٹ کر کے پینا پڑے گا، وہ اس کو حلق سے اتار نہ پائیں گے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اس کو پینا ہو گا۔ ان پر موت ہر طرف سے پل پڑ رہی ہو گی۔ لیکن وہ مرنے نہیں پائیں گے۔ کہ کسی طرح اس عذاب سے چھوٹ سکیں۔ اور اسی پر بس نہیں، بلکہ اس کے آگے ان کے لئے ایک بڑا ہی سخت عذاب موجود ہو گا، سو جن کافروں کا انجام یہ ہونے والا ہے۔ ان کو اگر دنیا میں تمام دنیا کی دولت بھی مل جائے تو بھی ان کو کیا ملا؟ اور ان سے بڑھ کر محروم اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ اس کے برعکس جن اہل ایمان کو ان کے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار کے نتیجے میں عذاب دوزخ سے بچا کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کر دیا جائے گا۔ ان سے بڑھ کر خوش نصیب اور کون ہو سکتا ہے؟ اگرچہ دنیا میں ان کو نانِ جویں بھی میسر نہ رہی ہو۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے، جس کے مقابلے میں دنیا ساری کی دولت بھی ہیچ ہے۔ فالحمد للہ الذی شَرَّفَنَا بنعمۃ الایمان، اللّٰہُمَّ فَثَبِّتْنَا علیہ وزدْنا مِنْہُ، یا ارحم الراحمین، ویا اکرم الاکرمین، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۲۰۔۔۔   یعنی جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی اس عظیم الشان کائنات کو نہایت پُر حکمت اور با مقصد بنایا ہے، تو پھر اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کا وجود کس طرح لایعنی اور بے مقصد ہو سکتا ہے؟ اور جب تم لوگوں نے حق کا انکار کر کے ثابت کر دیا کہ تمہارا وجود اس مقصد کے بالکل خلاف ہو کر رہ گیا ہے جس کے لئے تم لوگوں کو پیدا کیا گیا تھا۔ تو پھر تم کو آخر وہ اس زمین کی پشت پر کیوں لادے رکھے گا؟ جس کو اس نے حق کے ساتھ اور انتہائی با مقصد طور پر پیدا کیا ہے؟ اور اس کی قدرت کا عالم یہ ہے کہ وہ اگر چاہے تو چشم زدن میں تم سب کو فنا کر کے تمہاری جگہ ایک نئی مخلوق لا کھڑی کرے۔ اور ایسا کرنا اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، کہ وہ بڑا ہی زبردست اور نہایت ہی غالب ہے۔ اور اس کی قدرت کی کوئی حد نہیں اور وہ رؤف، و رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ عدل و قسط قائم کرنے والا بھی ہے اس لئے ایسے لوگوں کو فنا کر دینا اس کے لئے کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں نظام عدل و قسط کو بالکل برباد کر دیا ہے والعیاذ باللہ جل و علا

۲۱۔۔۔   سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر و باطل کے بڑے، اور ان کے پیروکار اور دم چھلے، جب اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینے کے لئے حاضر ہونگے تو اس وقت وہ پیرو جو دنیا میں ان بڑوں کے پیچھے چلتے رہے تھے، اپنے ان بڑوں اور گروؤں سے کہیں گے کہ دنیا میں جب ہم تم لوگوں کے کہنے پر، اور تمہارے پیچھے چلتے رہے، تو کیا آج کے اس مشکل وقت میں تم ہمارے کچھ کام آ سکتے ہو؟ تو وہ ان کے جواب میں کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں ہدایت پر ہوتے تو تم لوگوں کو بھی ہدایت دیتے۔ ہم جیسے خود تھے ویسے تم کو بھی بنایا۔ اور تم لوگ اپنے ارادہ و اختیار اور شوق و ذوق سے ہمارے پیچھے لگے رہے۔ اب ہم سب کا نتیجہ و انجام ایک ہی ہے خواہ ہم صبر کریں یا جزع و فزع کریں۔ اب اس سے ہماری رہائی کی بہرحال کوئی صورت ممکن نہیں، پس اب تم بھی بھگتو اور بھگتتے رہو، ہم کو بھی بھگتنا ہے، سو یہ ان کی مایوسی کی انتہاء ہو گی، والعیاذ باللہ العظیم

۲۲۔۔۔   سو اس سے شیطان کی اس تقریر کو ذکر و بیان فرمایا گیا ہے جو وہ فیصلہ ہو جانے کے بعد اہل کفر و باطل کے سامنے کرے گا، جس سے ان کی آتش یاس و حسرت اور بھی تیزی سے بھڑکے گی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اس موقع پر ان لوگوں سے کہے گا کہ اللہ نے تم لوگوں سے جو وعدہ کیا تھا وہ بالکل حق اور سچ تھا۔ اور وہ اس نے پورا کر دیا جبکہ میں نے تم سے جو جو وعدے کئے تھے وہ سب کے سب جھوٹ اور فریب تھے، لیکن سوال یہ ہے کہ تم لوگوں نے اللہ کے وعدہ کے مقابلے میں میرے وعدے کو قبول کیوں کیا؟ اور تم میرے پیچھے چلے کیوں؟ میرا تو تم پر کوئی زور نہیں تھا کہ میں زبردستی تم کو اپنے پیچھے لگا دیتا۔ میں نے تو برائی کی دعوت دی اور بس۔ مگر تم لوگوں نے اپنے ارادہ و اختیار۔ اور اپنے شوق و ذوق سے اس کو اپنا لیا۔ میں نے اپنے کارندوں کے ذریعے کفر و شرک کا کوئی اڈا قائم کیا، تم سب خود بخود وہاں اکٹھے ہو گئے، میں نے اپنے کارندوں کے ذریعے کسی برائی کی دعوت کے لئے کہیں کوئی اشتہار لگا دیا۔ تم سب کے سب اس پر جمگھٹا ہو گئے۔ کہیں کوئی آستانہ بنایا۔ یا کسی فرضی وہمی اور من گھڑت و بے بنیاد سرکار کا جھنڈا گاڑا، تو تم سب گروہ در گروہ وہاں پہنچ گئے، اور تم اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گئے، وغیرہ وغیرہ، سو قصور سب کا سب تم لوگوں کا اپنا ہے۔ پس تم مجھے ملامت کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم نے جو مجھے شریک ٹھہرایا تو میں اس کا قطعی طور پر منکر ہوں، اب نہ میں تم لوگوں کی کوئی فریاد رسی کر سکتا ہوں، اور نہ تم میری کوئی فریاد رسی کر سکتے ہو، اور ظالموں کے لئے یقینی طور پر ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے، جو ان کے ظلم کا طبعی تقاضا ہے، اور جو انکو بہرحال بھگتنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ

۲۳۔۔۔   سو اس سے اہل کفر و باطل کے مقابلے میں اہل حق اور اہل ایمان کا مآل و انجام بیان فرمایا گیا ہے۔ تاکہ دونوں نمونے نگاہوں کے سامنے رہیں۔ اور ہر انسان ان دونوں فریقوں کے مآل و انجام کو دیکھ کر پرکھ کر اپنا راستہ خود متعین کرے۔ اور دونوں میں سے جس کی راہ کو چاہے اختیار کرے۔ اور یہی تقاضا ہے آزادیِ ارادہ و اختیار کا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ صدق دل سے ایمان لائے ہونگے۔ اور انہوں نے اپنے ایمان و عقیدہ کے مطابق نیک عمل بھی کئے ہونگے ان کو ایسی عظیم الشان جنتوں میں داخل کر دیا گیا ہو گا، جن کے نیچے سے طرح طرح کی عظیم الشان نہریں بہہ رہی ہونگی، جہاں ان کو اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا۔ اور وہاں وہ جب آپس میں ایک دوسرے سے ملیں گے تو نہایت محبت و اکرام سے سلام و رحمت کی دعائیں کرتے ہوئے ملیں گے۔ اور یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے دنیا میں ایک دوسرے کو صحیح مشورے دیئے ہونگے۔ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کی تعلیم و تلقین کی ہو گی، جس کا نتیجہ و انجام ان کے سامنے جنت کی عظیم الشان اور سدا بہار نعمتوں کی شکل میں موجود ہو گا۔ اہل کفر و باطل چونکہ دنیا میں حق اور اہل حق کے خلاف صف آرا رہے۔ اور اس کے لئے وہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے رہے، اس لئے اس کے نتیجے میں وہ دوزخ کے اس ہولناک انجام سے دو چار ہونگے۔ اس لئے وہ وہاں پر ایک دوسرے سے لڑیں گے، اور اپنی ہلاکت و تباہی کا الزام ایک دوسرے پر ڈالیں گے، جیسا کہ ابھی اوپر گزرا۔ والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۷۔۔۔   اس تمثیل سے کلمہ طیبہ یعنی کلمہ توحید اور کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر و شرک کے درمیان فرق و تمیز اور ان دونوں کلموں کی اصل اور حقیقت کو واضح فرما دیا گیا۔ سو کلمہ طیبہ یعنی کلمہ توحید جو کہ اصل اور اساس ہے تمام صحیح عقائد اور نظریات کی۔ اس کی مثال ایک ایسے پاکیزہ درخت کی ہے، جس کی جڑ زمین کی تہوں میں اتری ہوئی ہو۔ اور اس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہوں۔ سو اسی طرح کلمہ طیبہ یعنی کلمہ توحید کی جڑیں انسان کی عقل و فطرت کے اندر گہری اتری ہوئی ہیں۔ اور اس کی شاخیں عالم بالا تک پہنچی ہوئی ہیں، کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں یہی سب سے زیادہ قدر و قیمت رکھنے والی چیز ہے۔ سو اس کلمہ کریمہ کو زمین و آسمان دونوں میں جو مقام حاصل ہے، وہ اور کسی بھی چیز کو نہ حاصل ہے نہ ہو سکتا ہے اور درخت چونکہ زمین اور فضاء دونوں سے اپنی غذا اور قوت حاصل کرتا ہے اس لئے کلمہ توحید کے اس شجرہ طیبہ کو انسانی عقل و فطرت سے بھی برابر قوت حاصل ہوتی رہتی ہے، اور اُوپر سے فیضان الٰہی سے بھی اس پر ترشحات برابر نازل ہوتے رہے ہیں، جس سے یہ ہمیشہ سرسبز و شاداب رہتا ہے اور برابر ہر وقت ہر حال اور ہر موسم میں پھل دیتا رہتا ہے۔ اس کی برکات اَبَدی و دائمی ہیں، اور اس کا فیض ہمیشہ اور ہر حال میں جاری رہتا ہے، اور اہل حق کے سینوں کے اندر یہ نور برابر موجود و موجزن رہتا ہے۔ جس سے ان کے سینے ہمیشہ مطمئن اور آسودہ و آباد، اور شاد کام و شاداب رہتے ہیں، اس کے مقابلے میں کلمہ خبیثہ یعنی کلمہ کفر و شرک کی مثال اس شجرہ خبیثہ کی سی ہے جس کی نہ زمین کے اندر کوئی گہری جڑ ہو۔ اور نہ اس کی شاخیں اوپر فضا میں بلند ہوں۔ اس کو اکھیڑیں تو زمین کے اوپر ہی سے اس کی جڑ نکل آئے۔ اس کے لئے ذرہ برابر کوئی ثبات و قرار نہیں ہوتا۔ اور اس کے لئے زمین کے اندر کوئی قرار نہیں ہوتا۔ اس کی شاخوں کے لئے فضا میں پھیلنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ پس کلمہ کفر و شرک کی مثال ان خود رو جھاڑیوں کی سی ہے جو بے ثمر اور بے فیض ہوتی ہیں، سو جھاڑ جھنکار کے قبیل کے کسی ایسے شجرہ خبیثہ کا نہ کوئی پھل اور پھول ہوتا ہے، اور نہ کوئی سایہ اور کسی طرح کی غذا، اس کو ہاتھ لگائیں تو اس کے نوکیلے کانٹے ہاتھوں کو زخمی کر دیں۔ اس کو چکھیں تو اس کی تلخی سے زبان اینٹھ جائے۔ اس کے پاس بیٹھے سے اس کی بدبو کی بناء پر قوت شامّہ ماؤف ہو جائے، سو اس تمثیل سے واضح فرما دیا گیا کہ کفر و شرک کی کوئی بنیاد نہ عقل و فطرت میں ہے۔ اور نہ خداوند قدوس کے اتارے ہوئے کلام حق و ہدایت میں، بلکہ یہ ان خود رو خبیث جھاڑیوں کی طرح ہے جن کو جہاں جگہ خالی ملتی ہے وہ وہاں پر از خود اُگ آتی ہیں اور اس کو اکھاڑنے والے ہاتھ موجود ہوں تو وہ بڑی آسانی سے اس کو اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں، لیکن اکھاڑنے والے ہاتھ اگر موجود نہ ہوں تو پھر یہ شجرہ خبیثہ بہت سی جگہ کو گھیر لیتا ہے، سو اس ارشادربَّانی میں اہل ایمان کے لئے یہ عظیم الشان بشارت ہے کہ ان کے اردگرد کفر و شرک کے جو جھاڑ جھنکار پھیلے ہوئے ہیں ان کی جڑ اکھڑنے والی ہے، اللہ پاک نے اپنی قدرت و عنایت سے وہ ہاتھ پیدا فرما دیئے ہیں، جو ان خبیث اور ناپاک جھاڑیوں سے اس سرزمین کو بہت جلد پاک کر دیں گے۔ دوام و خلود کی نعمت کلمہ طیبہ اور حق اور اہل حق ہی کے لئے ہے والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال۔ وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ،

۳۳۔۔۔   دائب کے معنی لگاتار اور مستمر کے ہیں، سو یہ اسی خالق کل اور مالک مطلق رب ذوالجلال کی قدرت بے پایاں حکمت بے نہایت اور اس کی رحمت و عنایت بے غایت کا نتیجہ و اثر ہے، کہ سورج اور چاند کے یہ دونوں عظیم الشان کُرّے اس قدر پابندی اور التزام کے ساتھ آتے جاتے، اور طلوع و غروب ہو رہے ہیں، اور منٹوں اور سیکنڈوں کی پابندی کے ساتھ یہ اپنے اپنے مدار و مستقر پر رواں دواں ہیں اور اپنے سپرد کی گئی خدمت کو نہایت مستعدی اور پوری پابندی کے ساتھ بجا لا رہے ہیں، مجال نہیں کہ اس میں سَرِمُو کوئی فرق آ جائے۔ سو تم لوگ سوچو اور غور کرو کہ آخر یہ کس کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کا نتیجہ و ثمرہ ہے؟ سو وہی ہے اللہ وحدہٗ لاشریک جس کا حکم و تصرف اس پوری کائنات پر چلتا ہے اور ہمہ وقت اور ہر حال میں چلتا ہے وہی معبود برحق ہے، اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف وحدہٗ لاشریک کا حق ہے سبحانہ و تعالیٰ، نیز اسی سے تم لوگ یہ اندازہ بھی کرو کہ کتنے اندھے اور کس قدر اُوندھے ہیں وہ لوگ جو اس معبود برحق کو چھوڑ کر سورج اور چاند وغیرہ کے انہی مظاہر کی پوجا و پرستش کرتے ہیں، جو کہ انسان کے خادم ہیں اور ایسے عظیم الشان اور بے مثال خادم، کہ ہر وقت اور ہر حال میں اس کی خدمت اور نفع رسانی میں مشغول ہیں۔ اور وہ بھی اس حال میں کہ یہ اپنی زبان بے زبانی سے اس کا ہمیشہ اعلان و اظہار بھی کرتے ہیں۔ پس شمس و قمر کے ان دونوں عظیم الشان کُرّوں کو قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے اپنے بندوں کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ سو ایسے میں اپنے اس خالق اور مالک حقیقی کو چھوڑ کر اپنے خادموں کی پوجا کی ذلت اٹھانا اور شرک کا ارتکاب کرنا، مت ماری کا ایک کھلا مظہر اور واضح ثبوت ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم

۳۴۔۔۔   یعنی انسان کو اپنی فطرت و جبلت کے اعتبار سے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے اس کو ان تمام چیزوں سے نوازا۔ اور بدرجہ تمام و کمال نوازا۔ اور اس کی ان ضروریات زندگی کو اس نے انسان کے لئے ایسے پُر حکمت طریقے سے باقی اور برقرار رکھا کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اور اس طور پر نوازا کہ انسان کی طرف سے اس کے لئے نہ کوئی سوال تھا اور نہ کسی طرح کی کوئی اپیل درخواست۔ سو اس تمام رحمت و عنایت کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اور ہر حال میں صدق دل سے اپنے اس خالق و مالک کے حضور جھک جائے۔ اور ہمیشہ جھکا ہی رہے۔ لیکن اس کے باوجود کفر و انکار اور شرک کا ارتکاب؟ کس قدر ظلم اور کتنی بڑی انصافی ہے جس کا ارتکاب یہ انسان ظلوم وکفار کرتا ہے؟ والعیاذ باللہ العزیز الغفار، اور پھر اس سب کے باوجود منکر اور ناشکرے انسان کو یہ ڈھیل اور اس قدر چھوٹ؟ سو یہ اسی وحدہٗ لاشریک کی صفت و شان ہے اور اسی کی صفت و شان ہو سکتی ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۳۶۔۔۔   سو اس سے اسوہ ابراہیمی کے ایک نمونہ و مظہر کو ذکر فرمایا گیا ہے، جس میں بڑے درس ہائے عبرت و بصیرت ہیں، کیونکہ حضرت ابراہیم وہ ہستی ہیں جن کو یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب سب ہی اپنا پیشوا مانتے تھے۔ اور مسلمان تو ہیں ہی ملت ابراہیمی پر سو اسوہ ابراہیمی کے اس نمونے کو پیش فرما کر سب کے سامنے آئینہ رکھ دیا گیا، کہ دیکھو کہ حضرت ابراہیم کیا اور کیسے تھے اور تم لوگ جو ان سے انتساب کا دعوی کرتے ہو کیا اور کیسے ہو؟ وہ توحید کے علمبردار اور اللہ ہی کی بندگی کرتے، اور اسی سے مانگتے اور سوال کرتے تھے۔ مگر تم لوگ بتوں کی پوجا کرتے، اور ان سے حاجتیں مانگتے ہو۔ حضرت ابراہیم تو بت پرستوں سے اظہار برأت و بیزاری کا اعلان کرتے ہیں، مگر تم لوگوں کا تو اوڑھنا اور بچھونا ہی یہ ہے کہ تم غیر اللہ سے مانگتے۔ ان کے آگے جھکتے۔ اور دست سوال دراز کرتے ہو۔ دعوی کیا ہے۔ اور عمل و کردار کیا؟ کیا تم لوگوں کو شرم نہیں آتی؟ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۴۱۔۔۔   اس دعا سے چند اہم حقائق واضح ہو جاتے ہیں، ایک یہ کہ بندے کا کام اور اس کی شان کے لائق یہی ہے کہ وہ اپنے رب سے مانگے۔ اسی سے دعا کرے، اور ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کرے۔ حضرات انبیاء و رسل کا اسوہ اور طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ ہمیشہ اور ہرحال میں اسی کی طرف رجوع کرتے، اور اسی سے مانگتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ پیغمبر مختارِ کل نہیں ہوتے کہ جو چاہیں کریں، جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے اور یہ اس لئے کہ اختیارِ کلی اور دعا کے درمیان تضاد اور منافات ہے، کیونکہ جو مختار کل ہوتا ہے اس کا کام مانگنا اور دعائیں کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام حکم دینا ہوتا ہے، نیز یہ کہ حضرات انبیائے کرام کا کام اور انکی شان دعائیں کرنا ہی ہوتا ہے، اور بس، آگے دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اسی کی مشیت پر موقوف ہوتا ہے، وہ جس کی دعا ہے چاہے قبول فرمائے، اور جس کی چاہے نہ قبول فرمائے۔ چنانچہ اس نے حضرت نوح کی دعا ان کے بیٹے کے لئے حضرت ابراہیم کی دعا ان کے اپنے والد کے لئے اور حضرت امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کی دعا ان کے اپنے چچا ابوطالب کے حق میں قبول نہیں فرمائی۔ کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون دولت ایمان و یقین سے سرفرازی کے لائق ہے، اور کون نہیں، اور تیسری بات یہ ہے کہ دعا میں رب (اے میرے رب!) اور رَبَّنَا (اے ہمارے رب!) کا ذکر و تکرار آداب دعا میں سے ایک اہم ادب، بلکہ اس کے لوازم اور خصوصیات میں سے ہے، کہ یہ تضرع و زاری، عجز و انکساری، استمالت و استغاثہ، اور التجاء و فریاد، کا ایک اہم ذریعہ و وسیلہ ہے کہ یہ چیز حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی توجہ اور عنایت کو اپنی طرف مبذول کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس لئے دعا کرنے والا رب (اے میرے رب!) اور رَبَّنَا (اے ہمارے رب!) کے کلمات کریمہ کو گویا اللہ تعالیٰ کے یہاں دعا کی قبولیت کے لئے سفارشی بناتا ہے اور چوتھی بات یہ ہے کہ آدابِ دعا میں سے ایک اہم ادب یہ بھی ہے کہ انسان اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ کے گزشتہ انعامات و احسانات کو بھی ذکر کرے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم نے اپنی اس دعا میں کیا۔ کہ آپ نے فرمایا کہ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق جیسے بیٹوں سے نوازا۔ کیونکہ دعا میں اللہ تعالیٰ کے گزشتہ انعامات و احسانات کا حوالہ و ذکر۔ گویا دعا کی قبولیت کے لئے سفارش بہم پہنچاتا ہے، اور پانچویں بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ اولاد کی نعمت سے نوازنا اللہ تعالیٰ ہی کا کام اور اسی کی شان ہے، حضرات انبیاء ورسل یہاں تک کہ جدالانبیاء حضرت ابراہیم خلیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلیل القدر ہستی اور آپ جیسے عظیم الشان پیغمبر بھی اسی وحدہٗ لاشریک کے محتاج ہیں اور وہ بھی نعمت اولاد سے سرفرازی کے لئے اسی کی عنایت اور اسی کے فضل و کرم کے محتاج ہیں۔ تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو کسی کو اولاد کی نعمت سے سرفراز کر سکے؟ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنے بہکے بھٹکے اور کس قدر گمراہ ہیں وہ لوگ جو مُردوں اور قبروں سے اولادیں مانگتے ہیں، اور پھر وہ انکے نام بھی شرکیہ رکھتے ہیں جیسے پیراں دتہ، پیر بخش، حضور بخش، نبی بخش، علی داد، اور حسین بخش، وغیرہ وغیرہ، دیا کس نے اور ایسے لوگ نام کس کا لیتے ہیں؟ بخشش و عطاء کس کی ہے۔ اور یہ منسوب کس کی طرف کرتے ہیں؟ ان میں سے جو جہالت اور نادانی کی بناء پر اسطرح کرتے ہیں۔ ان کے لئے تو پھر بھی عذر اور معذوری کی گنجائش ہو سکتی ہے، لیکن جو جان بوجھ کر اور قصد و ارادہ سے اسطرح کرتے ہیں۔ ان کے شرک میں کیا کلام ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک اور اس کے ہر شائبہ سے محفوظ رکھے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں اور اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین

۴۶۔۔۔   سو ماضی کی ان مجرم قوموں کی حق اور اہل حق کے خلاف سازشیں اتنی ہولناک اور اس قدر سخت تھیں کہ پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل اور ٹل جائیں۔ مگر ان کی وہ سب چالیں اور سازشیں اللہ ہی کے پاس دھری کی دھری رہ گئیں۔ اس نے ان کی ان تمام چالوں کو بیکار کر دیا۔ پس چالیں سب اللہ ہی کے اختیار میں ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور مزید وضاحت اور تاکید کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا وَقَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَلِلّٰہِ الْمَکْرُ جَمِیْعًا الایۃ(الرعد۔۴۲) سو معاملہ سب کا سب اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی تنہا وہی ہے، اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی کا چلتا ہے۔ پس ہوتا وہی ہے جو اس کو منظور ہوتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اَللّٰہُمَّ فَکُنْ لَنَا وَلَا تَکُنْ عَلَیْنَا وَامْکُرْ لَنَا وَلَا تَمْکُرْ عَلَیْنَا، یَامَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَ یُّجِیْرُ وَلَا وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ جَلَّ وَعَلا شَانہ۔

۴۸۔۔۔   سو اس سے یوم عظیم کی قدرے تفصیل بیان فرما دی گئی۔ کہ اس روز یہ زمین و آسمان سب تبدیل ہو جائیں گے، اور ایک نیا جہاں نئے قوانین و نوامیس کے مطابق وجود میں آ جائے گا۔ سب لوگ اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہونگے۔ کسی کے ساتھ نہ اس کے مزعومہ شفعاء و شرکاء میں سے کوئی ہو گا، اور نہ ہی کوئی حمایتی اور مددگار، مجرم لوگ اس روز ہولناک بیڑیوں میں جکڑے ہوئے ہونگے۔ ان کے لباس تارکول کے ہونگے۔ اور آگ ان کے چہروں پر چھا رہی ہو گی۔ تاکہ ہر کسی کو اس کی زندگی کے بھر کی کمائی کا پورا بدلہ مل سکے۔ بیشک اللہ بڑا ہی جلد حساب چکانے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ،

۵۲۔۔۔   سو اس آیت کریمہ میں آخری تنبیہ کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ایک عظیم الشان پیغام ہے سب لوگوں کے لئے تاکہ اس سے لوگوں پر حجت قائم ہو جائے اور وہ قیامت اور آخرت کے بارے میں پوری طرح خبردار ہو سکیں۔ اور وہ اس حقیقت کو اچھی طرح جان لیں کہ معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اسی کے حضور سب نے حاضر ہونا اور اپنے کئے کرائے کا صلہ اور بدلہ پانا ہے اور تاکہ عقل خالص رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ اور اس کے نتیجے میں وہ راہِ حق و ہدایت کو صدقِ دل سے اپنا لیں۔