خزائن العرفان

سورة إبراهیم

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ ابراہیم مکیّہ ہے سوائے آیت  اَلَمْ تَرَ اِلیَ الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ کُفۡراً  اور اس کے بعد والی آیت کے اس سورت میں سات رکوع باون آیتیں آٹھ سو اکسٹھ کلمے تین ہزار چار سو چونتیس حرف ہیں۔

(۱) ایک کتاب ہے  (ف ۲) کہ ہم نے  تمہاری طرف اتاری کہ تم لوگوں کو (ف ۳) اندھیریوں سے  (ف ۴) اجالے  میں لا ؤ (ف ۵) ان کے  رب کے  حکم سے  اس کی راہ  (ف ۶) کی طرف جو عزت  والا سب خوبیوں والا ہے

۲                 یہ قرآن شریف۔

۳                 کُفر و ضلالت و جہل و غوایت کی۔

۴                 ایمان کے۔

۵                 ظلمات کو جمع اور نور کو واحد کے صیغہ سے ذکر فرمانے میں ایماء ہے کہ دینِ حق کی راہ ایک ہے اور کُفر و ضلالت کے طریقے کثیر۔

۶                 یعنی دینِ اسلام۔

(۲) اللہ کہ اسی کا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں (ف ۷) اور کافروں کی خرابی ہے  ایک سخت عذاب سے 

۷                 وہ سب کا خالِق و مالک ہے، سب اس کے بندے اور مملوک تو اس کی عبادت سب پر لازم اور اس کے سوا کسی کی عبادت روا نہیں۔

(۳) جنہیں آخرت سے  دنیا کی زندگی پیاری ہے  اور اللہ کی راہ سے  روکتے  (ف ۸) اور اس میں کجی چاہتے  ہیں، وہ دور کی گمراہی میں ہیں (ف ۹)

۸                 اور لوگوں کو دینِ الٰہی قبول کرنے سے مانع ہوتے ہیں۔

۹                 کہ حق سے بہت دور ہو گئے ہیں۔

(۴) اور ہم نے  ہر رسول اس کی قوم ہی کی زبان میں بھیجا (ف ۱۰) کہ وہ انہیں صاف بتائے  (ف ۱۱)  پھر اللہ گمراہ کرتا ہے  جسے  چاہے  اور وہ راہ دکھاتا ہے  جسے  چاہے، اور وہی عزت و حکمت والا ہے۔

۱۰               جس میں وہ رسول مبعوث ہوا، خواہ اس کی دعوت عام ہو اور دوسری قوموں اور دوسرے مُلکوں پر بھی اس کا اِتِّباع لازم ہو جیسا کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت تمام آدمیوں اور جنّوں بلکہ ساری خَلق کی طرف ہے اور آپ سب کے نبی ہیں جیسا کہ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا  لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْراً ۔

۱۱               اور جب اس کی قوم اچھی طرح سمجھ لے تو دوسری قوموں کو ترجموں کے ذریعے سے وہ احکام پہنچا دیئے جائیں اور ان کے معنیٰ سمجھا دیئے جائیں۔ بعض مفسِّرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ قومِہٖ کی ضمیر سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف راجع ہے اور معنیٰ یہ ہیں کہ ہم نے ہر رسول کو سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان یعنی عربی میں وحی فرمائی اور یہ معنیٰ ایک روایت میں بھی آئے ہیں کہ وحی ہمیشہ عربی زبان ہی میں نازِل ہوئی پھر انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوموں کے لئے ان کی زبانوں میں ترجمہ فرما دیا۔ ( اتقان، حسینی ) مسئلہ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عربی تمام زبانوں میں سب سے افضل ہے۔

(۵) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو اپنی نشانیاں (ف ۱۲) دے  کر بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیریوں سے  (ف ۱۳) اجالے  میں لا، اور انہیں اللہ کے  دن یا د  دِلا (ف ۱۴) بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے  صبر والے  شکر گزار کرو۔

۱۲               مثل عصا و یدِ بیضا وغیرہ معجزاتِ باہرہ کے۔

۱۳               کُفر کی نکال کر ایمان کے۔

۱۴               قاموس میں ہے کہ ایامُ اللّٰہ سے اللّٰہ کی نعمتیں مراد ہیں۔ حضرت ابنِ عباس و اُبی بن کعب و مجاہد و قتادہ نے بھی ایّامُ اللّٰہ کی تفسیر (اللّٰہ کی نعمتیں) فرمائیں۔ مقاتل کا قول ہے کہ ایّامُ اللّٰہ سے وہ بڑے بڑے وقائع مراد ہیں جو اللّٰہ کے امر سے واقع ہوئے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ ایّامُ اللّٰہ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللّٰہ نے اپنے بندوں پر انعام کئے جیسے کہ بنی اسرائیل کے لئے مَن و سلویٰ اتارنے کا دن، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن ( خازن و مدارک و مفرداتِ راغب) ان ایّامُ اللہ میں سب سے بڑی نعمت کے دن سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں، ان کی یاد قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے اسی طرح اور بزرگوں پر جو اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتیں ہوئیں یا جن ایّام میں واقعاتِ عظمیہ پیش آئے جیسا کہ دسویں محرم کو کربلا کا واقعہ ہائلہ، ان کی یادگار میں قائم کرنا بھی تذکیر بِایّامِ اللّٰہ میں داخل ہے۔ بعض لوگ میلاد شریف معراج شریف اور ذکرِ شہادت کے ایّام کی تخصیص میں کلام کرتے ہیں انہیں اس آیت سے نصیحت پذیر ہونا چاہیئے۔

(۶) اور جب موسیٰ نے  اپنی قوم سے  کہا (ف ۱۵) یاد کرو اپنے  اوپر اللہ کا احسان جب اس نے  تمہیں فرعون والوں سے  نجات دی جو تم کو بری  مار دیتے  تھے  اور تمہارے  بیٹوں کو ذبح کرتے  اور تمہاری بیٹیاں زندہ رکھتے، اور اس میں (ف ۱۶) تمہارے  رب کا بڑا فضل ہوا۔

۱۵               حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کا اپنی قوم کو یہ ارشاد فرمانا تذکیر ایّامُ اللّٰہ کی تعمیل ہے۔

۱۶               یعنی نجات دینے میں۔

(۷)  اور یاد کرو جب تمہارے  رب نے  سنا دیا کہ اگر احسان  مانو گے  تو میں تمہیں اور دونگا  (ف ۱۷) اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔

۱۷               اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی اصل یہ ہے کہ آدمی نعمت کا تصوّر اور اس کا اظہارکرے اور حقیقتِ شکر یہ ہے کہ مُنعِم کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اس کا خُوگر بنائے۔ یہاں ایک باریکی ہے وہ یہ کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم و احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں مشغول ہوتا ہے اس سے نعمتیں زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی مَحبت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ مُنعِم کی مَحبت یہاں تک غالب ہو کہ قلب کو نعمتوں کی طرف التفات باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقوں کا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں شکر کی توفیق عطا فرمائے۔

(۸)  اور موسیٰ نے  کہا اگر تم اور زمین میں جتنے  ہیں سب کا فر ہو جاؤ (ف ۱۸) تو بیشک اللہ بے  پروہ سب خوبیوں والا ہے۔

۱۸               تو تم ہی ضَرر پاؤ گے اور تم ہی نعمتوں سے محروم رہو گے۔

(۹)  کیا تمہیں ان کی خبریں نہ آئیں جو تم سے  پہلے  تھی نوح کی قوم اور عاد اور ثمود  اور جو  ان کے  بعد ہوئے، انہیں اللہ ہی جانے  (ف ۱۹) ان کے  پاس ان کے  رسول روشن دلیلیں لے  کر آئے  (ف ۲۰)  تو وہ اپنے  ہاتھ (ف ۲۱) اپنے  منہ کی طرف لے  گئے  (ف ۲۲) اور بولے  ہم منکر ہیں اس کے  جو تمہارے  ہاتھ بھیجا گیا اور جس راہ (ف ۲۳) کی طرف ہمیں بلاتے  ہو اس میں ہمیں وہ شک ہے  کہ بات کھلنے  نہیں دیتا۔

۱۹               کتنے تھے۔

۲۰               اور انہوں نے معجزات دکھائے۔

۲۱               شدّتِ غیظ سے۔

۲۲               حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ وہ غصّہ میں آ کر اپنے ہاتھ کاٹنے لگے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ انہوں نے کتاب اللّٰہ سن کر تعجب سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھے، غرض یہ کوئی نہ کوئی انکار کی ادا تھی۔

۲۳               یعنی توحید و ایمان۔

(۱۰) ان کے  رسولوں نے  کہا کیا اللہ میں شک ہے  (ف ۲۴) آسمان اور زمین کا بنانے  والا، تمہیں بلاتا ہے  (ف ۲۵) کہ تمہارے  کچھ گناہ بخشے  (ف ۲۶) اور موت کے  مقرر وقت تک تمہاری زندگی بے  عذاب کاٹ دے، بولے  تم تو ہمیں جیسے  آدمی ہو (ف ۲۷) تم چاہتے  ہو کہ  ہمیں اس سے  باز رکھو جو ہمارے  باپ دادا پوجتے  تھے  (ف ۲۸) اب کوئی روشن سند ہمارے  پاس لے  آؤ (ف ۲۹)

۲۴               کیا اس کی توحید میں تردُّد ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے، اس کی دلیلیں تو نہایت ظاہر ہیں۔

۲۵               اپنی طاعت و ایمان کی طرف۔

۲۶               جب تم ایمان لے آؤ اس لئے کہ اسلام لانے کے بعد پہلے کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں سوائے حقوقِ عباد کے اور اسی لئے کچھ گناہ فرمایا۔

۲۷               ظاہر میں ہمیں اپنی مثل معلوم ہوتے ہو پھر کیسے مانا جائے کہ ہم تو نبی نہ ہوئے اور تمہیں یہ فضیلت مل گئی۔

۲۸               یعنی بُت پرستی سے۔

۲۹               جس سے تمہارے دعوے کی صحت ثابت ہو۔ یہ کلام ان کا عناد و سرکشی سے تھا اور باوجود یکہ انبیاء آیات لا چکے تھے، معجزات دکھا چکے تھے پھر بھی انہوں نے نئی سند مانگی اور پیش کئے ہوئے معجزات کو کالعدم قرار دیا۔

(۱۱) ان کے  رسولوں نے  ان سے  کہا (ف ۳۰) ہم ہیں  تو تمہاری طرح انسان مگر اللہ اپنے  بندوں میں جس پر چاہے  احسان فرماتا ہے  (ف ۳۱) اور ہمارا کام نہیں کہ ہم تمہارے  پاس کچھ سند لے  آئیں مگر اللہ کے  حکم سے، اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے  (ف ۳۲)

۳۰               اچھا یہی مانو کہ۔

۳۱               اور نبوّت و رسالت کے ساتھ برگزیدہ کرتا ہے اور اس منصبِ عظیم کے ساتھ مشرف فرماتا ہے۔

۳۲               وہی اعداء کی شر دفع کرتا اور اس سے محفوظ رکھتا ہے۔

(۱۲) اور ہمیں کیا ہوا کہ اللہ پر بھروسہ نہ کریں (ف ۳۳) اس نے  تو ہماری راہیں ہمیں دکھا دیں (ف ۳۴) اور تم جو ہمیں ستا رہے  ہو ہم ضرور اس پر صبر کریں گے، اور بھروسہ کرنے  والوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔

۳۳               ہم سے ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جو کچھ قضائے الٰہی میں ہے وہی ہو گا، ہمیں اس پر پورا بھروسہ اور کامل اعتماد ہے۔ ابو تراب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ توکُّل بدن کو عبودیت میں ڈالنا، قلب کو ربوبیت کے ساتھ متعلق رکھنا، عطا پر شکر، بلا پر صبر کا نام ہے۔

۳۴               اور رُشد و نَجات کے طریقے ہم پر واضح فرما دیئے اور ہم جانتے ہیں کہ تمام امور اس کے قدرت و اختیار میں ہیں۔

(۱۳)  اور کافروں نے  اپنے  رسولوں سے  کہا ہم ضرور تمہیں اپنی زمین (ف ۳۵) سے  نکال دیں گے  یا تم ہمارے  دین پر کچھ ہو جاؤ، تو انہیں ان کے  رب نے  وحی بھیجی کہ ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے

۳۵               یعنی اپنے دیار۔

(۱۴) اور ضرور ہم تم کو ان کے  بعد زمین میں بسائیں گے  (ف ۳۶) یہ اس لیے  ہے  جو (ف ۳۷) میرے  حضور کھڑے  ہونے  سے  ڈرے  اور میں نے  جو عذاب کا حکم سنایا ہے، اس سے  خوف کرے۔

۳۶               حدیث شریف میں ہے جو اپنے ہمسائے کو ایذا دیتا ہے اللّٰہ اس کے گھر کا اسی ہمسائے کو مالک بناتا ہے۔

۳۷               قیامت کے دن۔

(۱۵)  اور انہوں نے  (ف ۳۸)  فیصلہ مانگا اور ہر سرکش ہٹ دھرم نا  مُراد ہوا  (ف ۳۹)

۳۸               یعنی انبیاء نے اللّٰہ تعالیٰ سے مدد طلب کی یا اُمّتوں نے اپنے اور رسولوں کے درمیان اللّٰہ تعالیٰ سے۔

۳۹               معنیٰ یہ ہیں کہ انبیاء کی نصرت فرمائی گئی اور انہیں فتح دی گئی اور حق کے معانِد، سرکش کافِر نامراد ہوئے اور ان کے خلاص کی کوئی سبیل نہ رہی۔

(۱۶)  جہنم اس کے  پیچھے  لگی اور اسے  پیپ کا پانی پلایا جائے  گا۔

(۱۷) بہ مشکل اس کا تھوڑا تھوڑا گھونٹ لے  گا اور گلے  سے  نیچے  اتارنے  کی امید نہ ہو گی (ف ۴۰)  اور اسے  ہر طرف سے  موت آئے  گی اور مرے  گا نہیں، اور اس کے  پیچھے  ایک گاڑھا عذاب (ف ۴۱)

۴۰               حدیث شریف میں ہے کہ جہنّمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا جب وہ منہ کے پاس آئے گا تو اس کو بہت ناگوار معلوم ہو گا اور جب اور قریب ہو گا تو اس سے چہرہ بھُن جائے گا اور سر تک کی کھال جل کر گر پڑ ے گی جب پئے گا تو آنتیں کٹ کر نکل جائیں گی۔ ( اللّٰہ کی پناہ)۔

۴۱               یعنی ہر عذاب کے بعد اس سے زیادہ شدید و غلیظ عذاب ہو گا۔ ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ غَضَبِ الْجَبَّارِ)۔

(۱۸) اپنے  رب سے  منکروں کا حال ایسا ہے  کہ ان کے  کام  ہیں (ف  ۴۲)  جیسے  راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آیا آندھی کے  دن میں (ف ۴۳) ساری کمائی میں سے  کچھ ہاتھ نہ  لگا، یہی ہے  دور کی  گمراہی۔

۴۲               جن کو وہ نیک عمل سمجھتے تھے جیسے کہ محتاجوں کی امداد، مسافروں کی اعانت اور بیماروں کی خبر گیری وغیرہ چونکہ ایمان پر مبنی نہیں اس لئے وہ سب بے کار ہیں اور ان کی ایسی مثال ہے۔

۴۳               اور وہ سب اڑ گئی اور اس کے اجزاء منتشر ہو گئے اور اس میں سے کچھ باقی نہ رہا یہی حال ہے کُفّار کے اعمال کا کہ ان کے شرک و کُفر کی وجہ سے سب برباد اور باطل ہو گئے۔

(۱۹)  کیا تو نے  نہ دیکھا کہ اللہ نے  آسمان اور زمین حق کے  ساتھ بنائے  (ف ۴۴) اگر چاہے  تو تمہیں لے  جائے  (ف ۴۵) اور ایک نئی مخلوق لے   آئے  (ف ۴۶)

۴۴               ان میں بڑی حکمتیں ہیں اور ان کی پیدائش عبث نہیں ہے۔

۴۵               معدوم کر دے۔

۴۶               بجائے تمہارے جو فرمانبردار ہو اس کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے جو آسمان و زمین پیدا کرنے پر قادر ہے۔

(۲۰)  اور یہ  (ف ۴۷) اللہ پر کچھ دشوار نہیں۔

۴۷               معدوم کرنا اور موجود فرمانا۔

(۲۱)  اور سب  اللہ کے  حضور (ف ۴۸) اعلانیہ حاضر ہوں گے  تو  جو کمزور تھے  (ف ۴۹) بڑائی والوں سے  کہیں گے  (ف ۵۰) ہم تمہارے  تابع تھے  کیا تم سے  ہو سکتا ہے  کہ اللہ کے  عذاب میں سے  کچھ ہم پر سے  ٹال دو (ف ۵۱) کہیں گے  اللہ ہمیں ہدایت کرتا تو ہم تمہیں کرتے  (ف ۵۲) ہم پر ایک سا ہے  چاہے  بے  قراری کریں یا صبر سے  رہیں ہمیں کہیں پناہ نہیں۔

۴۸               روزِ قیامت۔

۴۹               اور دولت مندوں اور با اثر لوگوں کی اِتّباع میں انہوں نے کُفر اختیار کیا تھا۔

۵۰               کہ دین و اعتقاد میں۔

۵۱               یہ کلام ان کا توبیخ و عناد کے طور پر ہو گا کہ دنیا میں تم نے گمراہ کیا تھا اور راہِ حق سے روکا تھا اور بڑھ بڑھ کر باتیں کیا کرتے تھے، اب وہ دعوے کیا ہوئے اب اس عذاب میں سے ذرا سا تو ٹالو، کافِروں کے سردار اس کے جواب میں۔

۵۲               جب خود ہی گمراہ ہو رہے تھے تو تمہیں کیا راہ دکھاتے، اب خلاصی کی کوئی راہ نہیں، نہ کافِروں کے لئے شفاعت، آؤ روئیں اور فریاد کریں، پانچ سو برس فریاد و زاری کریں گے اور کچھ نہ کام آئے گی تو کہیں گے اب صبر کر کے دیکھو شاید اس سے کچھ کام نکلے، پانچ سو برس صبر کریں گے وہ بھی کام نہ آئے گا تو کہیں گے کہ۔

(۲۲)  اور شیطان کہے  گا جب فیصلہ ہو چکے   گا (ف ۵۳) بیشک اللہ نے  تم کو سچا وعدہ  دیا تھا (ف ۵۴) اور میں نے  جو تم کو وعدہ دیا تھا (ف ۵۵) وہ میں نے  تم سے  جھوٹا کیا اور میرا تم پر کچھ قابو نہ تھا (ف ۵۶) مگر یہی کہ میں نے  تم کو (ف ۵۷) بلایا تم نے  میری مان لی (ف ۵۸) تو اب مجھ پر الزام نہ رکھو  (ف ۵۹) خود اپنے  اوپر الزام رکھو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکوں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو، وہ جو پہلے  تم نے  مجھے  شریک ٹھہرایا تھا  (ف ۶۰) میں اس سے  سخت بیزار ہوں، بیشک ظالموں کے  لیے  دردناک  عذاب ہے۔

۵۳               اور حساب سے فراغت ہو جائے گی، جنّتی جنّت کا اور دوزخی دوزخ کا حکم پا کر جنّت و دوزخ میں داخل ہو جائیں گے اور دوزخی شیطان پر ملامت کریں گے اور اس کو برا کہیں گے کہ بدنصیب تو نے ہمیں گمراہ کر کے اس مصیبت میں گرفتار کیا تو وہ جواب دے گا کہ۔

۵۴               کہ مرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے اور آخرت میں نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ ملے گا، اللّٰہ کا وعدہ سچا تھا سچا ہوا۔

۵۵               کہ نہ مرنے کے بعد اٹھنا، نہ جزا، نہ جنّت، نہ دوزخ۔

۵۶               نہ میں نے تمہیں اپنے اِتّباع پر مجبور کیا تھا یا یہ کہ میں نے اپنے وعدہ پر تمہارے سامنے کوئی حُجّت و برہان پیش نہیں کی تھی۔

۵۷               وسوسے ڈال کر گمراہی کی طرف۔

۵۸               اور بغیر حُجّت و برہان کے تم میرے بہکائے میں آ گئے باوجود یکہ اللّٰہ تعالیٰ نے تم سے فرما دیا تھا کہ شیطان کے بہکائے میں نہ آنا اور اس کے رسول اس کی طرف سے دلائل لے کر تمہارے پاس آئے اور انہوں نے حجّتیں پیش کیں اور برہانیں قائم کیں تو تم پر خود لازم تھا کہ تم ان کا اِتّباع کرتے اور ان کے روشن دلائل اور ظاہر معجزات سے منہ نہ پھیرتے اور میری بات نہ مانتے اور میری طرف التفات نہ کرتے مگر تم نے ایسا نہ کیا۔

۵۹               کیونکہ میں دشمن ہوں اور میری دشمنی ظاہر ہے اور دشمن سے خیر خواہی کی امید رکھنا ہی حماقت ہے تو۔

۶۰               اللّٰہ کا اس کی عبادت میں۔ (خازن)۔

(۲۳) اور وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  وہ باغوں میں داخل کیے  جائیں گے  جن کے  نیچے  نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اپنے  رب کے  حکم سے، اس میں ان کے  ملتے  وقت کا ا کرام سلام ہے  (ف ۶۱)

۶۱               اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اور فرشتوں کی طرف سے اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف سے۔

(۲۴)  کیا تم نے  نہ دیکھا اللہ نے  کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی (ف ۶۲) جیسے  پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔

۶۲               یعنی کلمۂ توحید کی۔

(۲۵) ہر وقت پھل دیتا ہے  اپنے  رب کے  حکم سے  (ف ۶۳) اور اللہ لوگوں کے  لیے  مثالیں بیان فرماتا ہے  کہ کہیں وہ سمجھیں (ف ۶۴)

۶۳               ایسے ہی کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ قلبِ مومن کی زمین میں ثابت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثمرات برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اصحابِ کرام سے فرمایا وہ درخت بتاؤ جو مومن کے مثل ہے اس کے پتے نہیں گرتے اور وہ ہر وقت پھل دیتا ہے ( یعنی جس طرح مومن کے عمل اکارت نہیں ہوتے اور اس کی برکتیں ہر وقت حاصل رہتی ہیں ) صحابہ نے فکریں کیں کہ ایسا کون درخت ہے جس کے پتے نہ گرتے ہوں اور اس کا پھل ہر وقت موجود رہتا ہے چنانچہ جنگل کے درختوں کے نام لئے جب ایسا کوئی درخت خیال میں نہ آیا تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا، فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے اپنے والد ماجد حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ جب حضور نے دریافت فرمایا تھا تو میرے دل میں آیا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن بڑے بڑے صحابہ تشریف فرما تھے میں چھوٹا تھا اس لئے میں ادباً خاموش رہا، حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم بتا دیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔

۶۴               اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح خاطر گُزیں ہو جاتے ہیں۔

(۲۶)  اور گندی بات (ف ۶۵) کی مثال جیسے  ایک گندہ پیڑ (ف ۶۶) کہ  زمین کے  اوپر سے  کاٹ دیا گیا اب اسے  کوئی قیام نہیں (ف ۶۷)

۶۵               یعنی کُفری کلام۔

۶۶               مثل اندرائن کے جس کا مزہ کڑوا، بو ناگوار یا مثل لہسن کے بدبو دار۔

۶۷               کیونکہ جڑ اس کی زمین میں ثابت و مستحکم نہیں، شاخیں اس کی بلند نہیں ہوتیں۔ یہی حال ہے کُفری کلام کا کہ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں اور کوئی حجّت و برہان نہیں رکھتا جس سے استحکام ہو، نہ اس میں کوئی خیر و برکت کہ وہ بلندیِ قبول پر پہنچ سکے۔

(۲۷) اللہ ثابت رکھتا ہے  ایمان والوں کو حق بات (۶۸) پر دنیا کی زندگی میں (ف ۶۹) اور آخرت میں (ف ۷۰) اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے  (ف ۷۱) اور اللہ جو چاہے  کرے۔

۶۸               یعنی کلمۂ ایمان۔

۶۹               کہ وہ ابتلاء اور مصیبت کے وقتوں میں بھی صابر و قائم رہتے ہیں اور راہِ حق و دینِ قویم سے نہیں ہٹتے حتی کہ ان کی حیات کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔

۷۰               یعنی قبر میں کہ اول منازلِ آخرت ہے جب منکر نکیر آ کر ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا ربّ کون ہے، تمہارا دین کیا ہے اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف اشارہ کر کے دریافت کرتے ہیں کہ ان کی نسبت تو کیا کہتا ہے ؟ تو مومن اس منزل میں بفضلِ الٰہی ثابت رہتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ میرا ربّ اللّٰہ ہے، میرا دین اسلام اور یہ میرے نبی ہیں محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم، اللہ کے بندے اور اس کے رسول پھر اس کی قبر وسیع کر دی جاتی ہے اور اس میں جنّت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور وہ منوّر کر دی جاتی ہے اور آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا۔

۷۱               وہ قبر میں منکَر و نکیر کو جواب صحیح نہیں دے سکتے اور ہر سوال کے جواب میں یہی کہتے ہیں ہائے ہائے میں نہیں جانتا، آسمان سے ندا ہوتی ہے میرا بندہ جھوٹا ہے اس کے لئے آگ کا فرش بچھاؤ، دوزخ کا لباس پہناؤ، دوزخ کی طرف دروازہ کھول دو۔ اس کو دوزخ کی گرمی اور دوزخ کی لپٹ پہنچتی ہے اور قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف آ جاتی ہیں، عذاب کرنے والے فرشتے اس پر مقرر کئے جاتے ہیں جو اسے لوہے کے گرزوں سے مارتے ہیں۔( اَعَاذْنَا اللّٰہ ُ تَعَالیٰ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَ ثَبِّتْنَاعَلَی الْاِیْمَانِ )۔

(۲۸) کیا تم نے  انہیں نہ دیکھا جنہوں نے  اللہ کی نعمت ناشکری سے  بدل دی (ف ۷۲) اور اپنی قوم کو تباہی کے  گھر لا اتار۔

۷۲               بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ ان لوگوں سے مراد کُفّارِ مکّہ ہیں اور وہ نعمت جس کی شکر گزاری انہوں نے نہ کی وہ اللّٰہ کے حبیب ہیں سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے وجود سے اس امّت کو نوازا اور ان کی زیارت سراپا کرامت کی سعادت سے مشرف کیا۔ لازم تھا کہ اس نعمتِ جلیلہ کا شکر بجا لاتے اور ان کا اِتّباع کر کے مزید کرم کے مورد ہوتے بجائے اس کے انہوں نے ناشکری کی اور سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا انکار کیا اور اپنی قوم کو جو دین میں ان کے موافق تھے دارالہلاک میں پہنچایا۔

(۲۹)  وہ  جو  دوزخ ہے  اس کے  اندر جائیں گے، اور کیا ہی بری ٹھہرنے  کی جگہ۔

(۳۰) اور اللہ کے  لیے  برابر  والے  ٹھہرائے  (ف ۷۳) کہ اس کی راہ سے  بہکاویں تم فرماؤ (ف ۷۴) کچھ برت لو کہ تمہارا  انجام آگ ہے  (ف ۷۵)

۷۳               یعنی بُتوں کو اس کا شریک کیا۔

۷۴               اے مصطفیٰ ( صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) ان کُفّار سے کہ تھوڑے دن دنیا کی خواہشات کو۔

۷۵               آخرت میں۔

(۳۱)  میرے  ان بندوں سے  فرماؤ جو ایمان لائے  کہ نماز قائم رکھیں اور ہمارے  دیے  میں سے  کچھ ہماری راہ میں چھپے  اور ظاہر خرچ کریں اس دن کے   آنے  سے  پہلے  جس میں نہ سوداگری ہو گی (ف ۷۶) نہ یارانہ (ف ۷۷)

۷۶               کہ خرید و فروخت یعنی مالی معاوضے اور فد یے سے ہی کچھ نفع اٹھایا جا سکے۔

۷۷               کہ اس سے نفع اٹھایا جائے بلکہ بہت سے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔ اس آیت میں نفسانی و طبعی دوستی کی نفی ہے اور ایمانی دوستی جو مَحبتِ الٰہی کے سبب سے ہو وہ باقی رہے گی جیسا کہ سورۂ زخرف میں فرمایا  اَلْاَ خِلَّاءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضھُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ ۔

(۳۲) اللہ ہے  جس نے  آسمان اور زمین بنائے  اور آسمان سے  پانی اتارا تو اس سے  کچھ پھل تمہارے  کھانے  کو پیدا کیے  اور تمہارے  لیے  کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے  حکم سے  دریا میں چلے  (ف ۷۸) اور تمہارے  لیے  ندیاں مسخر کیں، (ف ۷۹)

۷۸               اور اس سے تم فائدے اٹھاؤ۔

۷۹               کہ ان سے کام لو۔

(۳۳)  اور تمہارے  لیے  سورج اور چاند مسخر کیے  جو برابر چل رہے  ہیں (ف ۸۰)  اور تمہارے  لیے  رات اور دن مسخر کیے  (ف ۸۱)

۸۰               نہ تھکیں، نہ رکیں تم ان سے نفع اٹھاتے ہو۔

۸۱               آرام اور کام کے لئے۔

(۳۴)  اور تمہیں بہت کچھ منہ مانگا دیا، اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے، بیشک  آدمی بڑا ظالم ناشکرا ہے  (ف ۸۲)

۸۲               کہ کُفر و معصیت کا ارتکاب کر کے اپنے اوپر ظلم کرتا ہے اور اپنے ربّ کی نعمت اور اس کے احسان کا حق نہیں مانتا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ انسان سے یہاں ابو جہل مراد ہے۔ زُجاج کا قول ہے کہ انسان اسمِ جنس ہے اور یہاں اس سے کافِر مراد ہے۔

(۳۵) اور یاد کرو جب ابراہیم نے  عرض کی اے  میرے  رب اس شہر (ف ۸۳) کو امان والا کر دے  (ف ۸۴)  اور مجھے  اور میرے  بیٹوں کو بتوں کے  پوجنے  سے  بچا (ف ۸۵)

۸۳               مکّۂ مکرّمہ۔

۸۴               کہ قربِ قیامت دنیا کے ویران ہونے کے وقت تک یہ ویرانی سے محفوظ رہے یا اس شہر والے امن میں ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ دعا مستجاب ہوئی، اللّٰہ تعالیٰ نے مکّۂ مکرّمہ کو ویران ہونے سے امن دی اور کوئی بھی اس کے ویران کرنے پر قادر نہ ہو سکا اور اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے حرم بنایا کہ اس میں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے، نہ کسی پر ظلم کیا جائے، نہ وہاں شکار مارا جائے، نہ سبزہ کاٹا جائے۔

۸۵               انبیاء علیہم السلام بُت پرستی اور تمام گناہوں سے معصوم ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ دعا کرنا بارگاہِ الٰہی میں تواضُع و اظہارِ احتیاج کے لئے ہے کہ باوجودیکہ تو نے اپنے کرم سے معصوم کیا لیکن ہم تیرے فضل و رحمت کی طرف دستِ احتیاج دراز رکھتے ہیں۔

(۳۶)  اے  میرے  رب بیشک بتوں نے  بہت لوگ بہکائے   دیے  (ف ۸۶) تو جس نے  میرا ساتھ دیا (ف ۸۷) وہ تو میرا ہے  اور جس نے  میرا کہا نہ مانا تو بیشک تو بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۸۸)

۸۶               یعنی ان کی گمراہی کا سبب ہوئے کہ وہ انہیں پوجنے لگے۔

۸۷               اور میرے عقیدے و دین پر رہا۔

۸۸               چاہے تو اسے ہدایت کرے اور توفیقِ توبہ عطا فرمائے۔

(۳۷) اے  میرے  رب میں نے  اپنی کچھ اولاد ایک نالے  میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے  حرمت والے  گھر کے  پاس (ف ۸۹) اے  میرے  رب اس لیے  کہ وہ  (ف ۹۰) نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے  کچھ دل ان کی طرف مائل کر دے  (ف ۹۱) اور انہیں کچھ پھل کھانے  کو دے  (ف ۹۲) شاید وہ احسان مانیں۔

۸۹               یعنی اس وادی میں جہاں اب مکّۂ مکرّمہ ہے اور ذُرّیَّت سے مراد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں، آپ سر زمینِ شام میں حضرت ہاجرہ کے بطنِ پاک سے پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کی بیوی حضرت سارہ کے کوئی اولاد نہ تھی اس وجہ سے انہیں رشک پیدا ہوا اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہاجرہ اور ان کے بیٹے کو میرے پاس سے جدا کر دیجئے۔ حکمتِ الٰہی نے یہ ایک سبب پیدا کیا تھا چنانچہ وحی آئی کہ آپ حضرت ہاجرہ و اسمٰعیل کو اس سر زمین میں لے جائیں (جہاں اب مکّۂ مکرّمہ ہے ) آپ ان دونوں کو اپنے ساتھ براق پر سوار کر کے شام سے سر زمینِ حرم میں لائے اور کعبۂ مقدسہ کے نزدیک اتارا، یہاں اس وقت نہ کوئی آبادی تھی، نہ کوئی چشمہ نہ پانی، ایک توشہ دان میں کھجوریں اور ایک برتن میں پانی انہیں دے کر آپ واپس ہوئے اور مڑ کر ان کی طرف نہ دیکھا، حضرت ہاجرہ والدۂ اسمٰعیل نے عرض کیا کہ آپ کہاں جاتے ہیں اور ہمیں اس وادی میں بے انیس و رفیق چھوڑے جاتے ہیں لیکن آپ نے اس کا کچھ جواب نہ دیا  اور اس کی طرف التفات نہ فرمایا، حضرت ہاجرہ نے چند مرتبہ یہی عرض کیا اور جواب نہ پایا تو کہا کہ کیا اللّٰہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، اس وقت انہیں اطمینان ہوا، حضرت ابراہیم علیہ السلام چلے گئے اور انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی جو آیت میں مذکور ہے۔ حضرت ہاجرہ اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دودھ پلانے لگیں جب وہ پانی ختم ہو گیا اور پیاس کی شدّت ہوئی اور صاحب زادے کا حَلق شریف بھی پیاس سے خشک ہو گیا تو آپ پانی کی جستجو یا آبادی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑیں، ایسا سات مرتبہ ہوا یہاں تک کہ فرشتے کے پر مارنے سے یا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے قدم مبارک سے اس خشک زمین میں ایک چشمہ (زمزم) نمودار ہوا۔ آیت میں حرمت والے گھر سے بیت اللّٰہ مراد ہے جو طوفانِ نوح سے پہلے کعبۂ مقدسہ کی جگہ تھا اور طوفان کے وقت آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ آپ کے آگ میں ڈالے جانے کے بعد ہوا، آگ کے واقعہ میں آپ نے دعا نہ فرمائی تھی اور اس واقعہ میں دعا کی اور تضرُّع کیا۔ اللّٰہ تعالیٰ کی کارسازی پر اعتماد کر کے دعا نہ کرنا بھی توکُّل اور بہتر ہے لیکن مقامِ دعا اس سے بھی افضل ہے تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کا اس آخر واقعہ میں دعا فرمانا اس لئے ہے کہ آپ مدارجِ کمال میں دم بدم ترقی پر ہیں۔

۹۰               یعنی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد اس وادیِ بے زراعت میں تیرے ذکر و عبادت میں مشغول ہوں اور تیرے بیت حرام کے پاس۔

۹۱               اطراف و بلاد سے یہاں آئیں اور ان کے قلوب اس مکانِ طاہر کی شوقِ زیارت میں کھینچیں۔ اس میں ایمانداروں کے لئے یہ دعا ہے کہ انہیں بیت اللّٰہ کا حج میسّر آئے اور اپنی یہاں رہنے والی ذُرِّیَّت کے لئے یہ کہ وہ زیارت کے لئے آنے والوں سے منتفِع ہوتے رہیں، غرض یہ دعا دینی دنیوی برکات پر مشتمل ہے۔ حضرت کی دعا قبول ہوئی اور قبیلۂ جرہم نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرند دیکھا تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا، شاید کہیں چشمہ نمودار ہوا، جستجو کی تو دیکھا کہ زمزم شریف میں پانی ہے یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ سے وہاں بسنے کی اجازت چاہی، انہوں نے اس شرط سے اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہو گا وہ لوگ وہاں بسے اور حضرت اسمٰعیل علیہ الصلوٰۃ و السلام جوان ہوئے تو ان لوگوں نے آپ کے صلاح و تقویٰ کو دیکھ کر اپنے خاندان میں آپ کی شادی کر دی اور حضرت ہاجرہ کا وصال ہو گیا اس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ دعا پوری ہوئی اور آپ نے دعا میں یہ بھی فرمایا۔

۹۲               اسی کا ثمرہ ہے کہ فصولِ مختلفہ ربیع و خریف و صیف و شتاء کے میوے وہاں بیک وقت موجود ملتے ہیں۔

(۳۸)  اے  ہمارے  رب تو جانتا ہے  جو ہم چھپاتے   ہیں اور ظاہر کرتے  اور اللہ پر کچھ  چھپا نہیں زمین میں اور نہ آسمان میں (ف ۹۳)

۹۳               حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ایک اور فرزند کی دعا کی تھی اللّٰہ تعالیٰ نے قبول فرمائی تو آپ نے اس کا شکر ادا کیا اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا۔

(۳۹) سب خوبیاں اللہ کو جس نے  مجھے  بڑھاپے  میں اسماعیل و اسحاق دیئے  بیشک میرا رب دعا سننے  والا ہے۔

(۴۰) اے  میرے  رب! مجھے  نماز قائم کرنے  والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو (ف ۹۴) اے  ہمارے  رب  اور ہماری دعا سن لے۔

۹۴               کیونکہ بعض کی نسبت تو آپ کو باعلامِ الٰہی معلوم تھا کہ کافِر ہوں گے اس لئے بعض ذُرِّیَّت کے واسطے نمازوں کی پابندی و محافظت کی دعا کی۔

(۴۱)  اے  ہمارے  رب مجھے  بخش دے  اور میرے  ماں باپ کو (ف ۹۵) اور سب مسلمانوں کو جس دن حساب قائم ہو گا۔

۹۵               بشرطِ ایمان یا ماں باپ سے حضرت آدم و حوّا مراد ہیں۔

(۴۲) اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے  کام سے  (ف ۹۶)  انہیں ڈھیل نہیں دے  رہا ہے  مگر ایسے  دن کے  لیے  جس میں (ف ۹۷)

۹۶               اس میں مظلوم کو تسلّی دی گئی کہ اللّٰہ تعالیٰ ظالم سے اس کا انتقام لے گا۔

۹۷               ہول و دہشت سے۔

(۴۳) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی بے  تحاشا دوڑے  نکلیں گے   (ف ۹۸) اپنے  سر اٹھائے  ہوئے  کہ ان کی پلک ان کی طرف لوٹتی نہیں (ف ۹۹) اور ان کے  دلوں میں کچھ سکت نہ ہو گی (ف ۱۰۰)

۹۸               حضرت اسرافیل علیہ السلام کی طرف جو انہیں عرصۂ محشر کی طرف بلائیں گے۔

۹۹               کہ اپنے آپ کو دیکھ سکیں۔

۱۰۰             شدّتِ حیرت و دہشت سے۔ قتادہ نے کہا کہ دل سینوں سے نکل کر گلوں میں آ پھنسیں گے، نہ باہر نکل سکیں نہ اپنی جگہ واپس جا سکیں گے، معنی یہ ہیں کہ اس دن کی شدّتِ ہول و دہشت کا یہ عالَم ہو گا کہ سر اوپر اٹھے ہوں گے، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی، دل اپنی جگہ پر قرار نہ پا سکیں گے۔

(۴۴)  اور لوگوں کو اس دن سے  ڈراؤ (ف ۱۰۱) جب ان پر عذاب آئے  گا تو ظالم (ف ۱۰۲) کہیں گے   اے  ہمارے  رب! تھوڑی دیر ہمیں (ف ۱۰۳) مہلت دے  کہ ہم تیرا بلانا مانیں (ف ۱۰۴) اور رسولوں کی غلامی کریں (ف ۱۰۵) تو کیا تم پہلے  (ف ۱۰۶) قسم نہ کھا چکے  تھے  کہ ہمیں دنیا سے  کہیں ہٹ کر جانا نہیں (ف ۱۰۷)

۱۰۱             یعنی کُفّار کو قیامت کے دن کا خوف دلاؤ۔

۱۰۲             یعنی کافِر۔

۱۰۳             دنیا میں واپس بھیج دے اور۔

۱۰۴             اور تیری توحید پر ایمان لائیں۔

۱۰۵             اور ہم سے جو قصور ہو چکے اس کی تلافی کریں اس پر انہیں زجر و توبیخ کی جائے گی اور فرمایا جائے گا۔

۱۰۶             دنیا میں۔

۱۰۷             اور کیا تم نے بَعث و آخرت کا انکار نہ کیا تھا۔

(۴۵)  اور تم ان کے  گھروں میں بسے  جنہوں نے  اپنا برا کیا تھا (ف ۱۰۸) اور تم پر خوب کھل گیا ہم نے  ان کے  ساتھ کیسا کیا (ف ۱۰۹) اور ہم نے  تمہیں مثا لیں دے  کر بتا دیا  (ف ۱۱۰)

۱۰۸             کُفر و مَعاصی کا ارتکاب کر کے جیسے کہ قومِ نوح و عاد و ثمود وغیرہ۔

۱۰۹             اور تم نے اپنی آنکھوں سے ان کے منازل میں عذاب کے آثار اور نشان دیکھے اور تمہیں ان کی ہلاکت و بربادی کی خبریں ملیں، یہ سب کچھ دیکھ کر اور جان کر تم نے عبرت نہ حاصل کی اور تم کُفر سے باز نہ آئے۔

۱۱۰             تاکہ تم تدبیر کرو اور سمجھو اور عذاب و ہلاک سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

(۴۶) اور بیشک وہ (ف ۱۱۱) اپنا سا داؤں (فریب) چلے  (ف ۱۱۲) اور ان کا داؤں اللہ کے  قابو  میں ہے، اور ان کا داؤں کچھ ایسا نہ تھا جس سے   یہ پہاڑ ٹل جائیں (ف ۱۱۳)

۱۱۱             اسلام کے مٹانے اور کُفر کی تائید کرنے کے لئے نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ۔

۱۱۲             کہ انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے قتل کرنے یا قید کرنے یا نکال دینے کا ارادہ کیا۔

۱۱۳             یعنی آیاتِ الٰہی اور احکامِ شرعِ مصطفائی جو اپنے قوت و ثبات میں بمنزلہ مضبوط پہاڑوں کے ہیں، محال ہے کہ کافِروں کے مکر اور ان کی حیلہ انگیزیوں سے اپنی جگہ سے ٹل سکیں۔

(۴۷)  تو ہر گز خیال نہ کرنا کہ اللہ اپنے  رسولوں سے  وعدہ خلاف کرے  گا (ف ۱۱۴) بیشک اللہ غالب ہے  بدلہ لینے  والا۔

۱۱۴             یہ تو ممکن ہی نہیں وہ ضرور وعدہ پورا کرے گا اور اپنے رسول کی نصرت فرمائے گا، ان کے دین کو غالب کرے گا، ان کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا۔

(۴۸)  جس دن (ف ۱۱۵) بدل دی  جائے  گی زمین اس زمین کے  سوا اور آسمان (ف ۱۱۶) اور لوگ سب نکل کھڑے  ہوں گے  (ف ۱۱۷) ایک اللہ کے  سامنے  جو سب پر غالب ہے

۱۱۵             اس دن سے روزِ قیامت مراد ہے۔

۱۱۶             زمین و آسمان کی تبدیلی میں مفسِّرین کے دو قول ہیں ایک یہ کہ ان کے اوصاف بدل دیئے جائیں گے مثلاً زمین ایک سطح ہو جائے گی نہ اس پر پہاڑ باقی رہیں گے، نہ بلند ٹیلے، نہ گہرے غار، نہ درخت، نہ عمارت، نہ کسی بستی اور اقلیم کا نشان اور آسمان پر کوئی ستارہ نہ رہے گا اور آفتاب ماہتاب کی روشنیاں معدوم ہوں گی، یہ تبدیلی اوصاف کی ہے ذات کی نہیں۔ دوسرا قول یہ ہے کہ آسمان و زمین کی ذات ہی بدل دی جائے گی، اس زمین کی جگہ ایک دوسری چاندی کی زمین ہو گی، سفید و صاف جس پر نہ کبھی خون بہایا گیا ہو نہ گناہ کیا گیا ہو اور آسمان سونے کا ہو گا۔ یہ دو قول اگرچہ بظاہر باہم مخالف معلوم ہوتے ہیں مگر ان میں سے ہر ایک صحیح ہے اور وجہ جمع یہ ہے کہ اوّل تبدیلِ صفات ہو گی اور دوسری مرتبہ بعدِ حساب تبدیلِ ثانی ہو گی، اس میں زمین و آسمان کی ذاتیں ہی بدل جائیں گی۔

۱۱۷             اپنی قبروں سے۔

(۴۹)  اور اس دن تم مجرموں (ف ۱۱۸) کو دیکھو گے  کہ بیڑیوں میں ایک دوسرے  سے  جڑے  ہوں گے  (ف ۱۱۹)

۱۱۸             یعنی کافِروں۔

۱۱۹             اپنے شیاطین کے ساتھ بندھے ہوئے۔

(۵۰)  ان کے  کُرتے  رال ہوں گے  (ف ۱۲۰) اور ان کے  چہرے  آگ ڈھانپ لے  گی

۱۲۰             سیاہ رنگ بدبو دار، جن سے آگ کے شعلے اور زیادہ تیز ہو جائیں۔ (مدارک و خازن) تفسیرِ بیضاوی میں ہے کہ ان کے بدنوں پر رال لیپ دی جائے گی وہ مثل کُرتے کے ہو جائیگی، اس کی سوزش اور اس کے رنگ کی وحشت و بدبو سے تکلیف پائیں گے۔

(۵۱)  اس لیے  کہ اللہ ہر جان کو اس کی کمائی کا بدلہ دے، بیشک اللہ کو حساب کرتے  کچھ دیر نہیں لگتی۔

 (۵۲)  یہ (ف ۱۲۱) لوگوں کو حکم پہنچانا ہے  اور اس لیے  کہ وہ اس سے  ڈرائے  جائیں اور اس لیے  کہ وہ جان لیں کہ وہ ایک ہی معبود ہے  (ف ۱۲۲) اور اس لیے  کہ عقل والے  نصیحت مانیں۔

۱۲۱             قرآن شریف۔

۱۲۲             یعنی ان آیات سے اللّٰہ تعالیٰ کی توحید کی دلیلیں پائیں۔