دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ القَصَص

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

  

نام

 

 قَصَص کے معنی واقعات بیان کرنے کے ہیں۔ آیت ۲۵ میں اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ جب مدین پہنچے تو انہوں نے ایک قبطی کے ان کے ہاتھوں غلطی سے قتل کیے جانے کا واقعہ بیان کیا۔ اس  بیان واقعہ کے لیے وَقَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ کے الفاظ استعمال ہوۓ ہیں اور اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام القصص ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضامین سے اندازہ ہوتا ہے  کہ سورہ نکل کے کچھ عرصہ بعد ہی نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کے سلسلہ میں شبہات کو دور کرنا اور آپ رسالت کا یقین پیدا کرنا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت موسیٰ کا قصہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے تاکہ اسی تناظر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو دیکھا جا سکے۔

 

نظم کلام

 

 آیت۱ اور ۲۔ تمہیدی آیات ہیں۔ آیت ۳ تا ۴۳ میں حضرت موسیٰ  (علیہ السلام) کی سرگزشت بیان ہوئی ہے۔ خاص طور سے ان کی ولادت کے حالات اور ان کی زندگی کے بعض دوسرے گوشے اس میں نمایاں کیے گۓ ہیں۔

 

آیت ۴۴ تا ۶۱  میں منکرین کے شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔ آیت ۶۲ تا ۷۵ میں شرک کی تردید کرتے ہوۓ توحید کو دلائل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔

 

آیت ۷۶ تا ۸۴ میں ایک سرمایہ پرست کا واقعہ جس کا نام قارون تھا بیان کر کے عبرت دلائی گئی ہے۔ آیت ۸۵ تا ۸۸ سورہ کا خاتمہ کی آیتیں ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی کا سامان بھی ہے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی ہدایت بھی۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔۔۔۔۔۔ طا۔ سین۔ میم  ۱ *

 

۲۔۔۔۔۔۔ یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں  ۲ * ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ ہم تہیں موسیٰ اور فرعون کے کچھ واقعات پوری صحت کے ساتھ سنا تے ہیں  ۳ * ان لوگوں کے لیۓ جو ایمان لائیں  ۴ * ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔ واقعہ یہ ہے کہ فرعون زمین میں سر کش ہو گیا تھا  ۵ * اور اس نے ملک کے باشندوں کو فرقوں میں تقسیم کر دیا تھا  ۶ * ۔ ان میں سے ایک گروہ کو اس نے کمزور بنا رکھا تھا۔ ان کے لڑکوں کو ذبح کر تا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا  ۷ * ۔ بلاشبہ وہ بڑا مفسد تھا  ۸*۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر اپنا فضل کریں جو ملک میں کمزور بنا کر رکھے گۓ تھے اور ان کو پیشوا بنائیں اور ان کو وارث بنائیں  ۹ * ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں  ۱۰ * اور فرعون اور ہامان  ۱۱ * اور ان کے لشکروں کو ان کے ذریعہ وہ دکھائیں جس کا انہیں اندیشہ تھا  ۱۲ * ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو وحی کی کہ اس کو دودھ پلاؤ پھر جب تمھیں اس کے بارے میں اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور خوف اور غم نہ کرو۔ ہم اس کو تمہارے پاس واپس لائیں گے اور ہم اس کو رسول بنانے والے ہیں   ۱۳ * ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کو فرعون  کے گھر والوں نے اٹھا لیا کہ وہ ان کے لیۓ دشمن اور باعث غم بنے  ۱۴ * ۔ در حقیقت فرعون، ہامان اور ان کے لشکر سب بڑے خطا کار تھے  ۱۵ * ۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ اور فرعون کی بیوی نے  (فرعون سے) کہا یہ میرے اور تمہارے لیۓ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اسے قتل نہ کرو  ۱۶ * ۔ کیا عجب کہ یہ ہمارے لیۓ مفید ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ  (انجام) سے بے خبر تھے۔  ۱۷ *

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ اور موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار  ۱۸ * ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ اس راز کو ظاہر کر دیتی اگر ہم اس کا دل مضبوط نہ کرتے۔  ۱۹ * یہ اس لیۓ   کیا تاکہ وہ مومن بن کر رہے  ۲۰ * ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ اس نے اس  (بچہ) کی بہن سے کہا تو اس کے پیچھے پیچھے جا چنانچہ وہ اس کو دور سے دیکھتی رہی اور ان لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی  (۲۱ * ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ ۔ اور ہم نے اس  (بچہ) پر پہلے ہی سے دودھ پلانے والیوں کو حرام کر رکھا تھا  ۲۲ * ۔ اس کی  (بہن) نے کہا کیا میں تمھیں اپنے گھر والوں کا پتہ بتاؤں جو تمہارے لیۓ اس کی پرورش کریں گے  ۲۳ * اور اس کے خیر خواہ ہوں گے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ اس طرح ہم نے اس کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا تاکہ  اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے  ۲۴ * اور تاکہ وہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا تھا مگر اکثر لوگ جانتے نہیں  ۲۵ * ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچ گیا اور اس میں متانت آ گئی تو ہم نے اس کو حکمت اور علم عطا فرما یا  ۲۶ * ہم نیک لوگوں کو  اسی طرح جزا دیتے ہیں  ۲۷ * ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ اور  (ایک دن) وہ شہر میں ایسے وقت داخل ہوا جب کہ لوگ بے خبر تھے۔ وہاں  ۲۸ * اس نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں۔ ایک اس کے اپنے گروہ کا تھا  ۲۹ * اور دوسرا اس کے دشمن کے گروہ کا۔ جو اس کے گروہ کا تھا  ۳۰ * اس نے اس شخص کے مقابلہ میں جو دشمن کے گروہ سے تعلق رکھتا تھا اس کو مدد کے لیۓ پکار ا۔ موسیٰؑ نے اس کو گھونسا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا  ۳۱ * ۔  (جب یہ غلطی سر زد ہو گئی تو) اس نے کہا یہ شیطان کی حرکت ہے  ۳۲ * ۔ بلا شبہ وہ دشمن ہے کھلا گمراہ کرنے والا  ۳۳ * ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ اس نے دعا کی اے میرے رب !میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے چنانچہ اللہ نے اسے بخش دیا  ۳۴ * ۔ یقیناً وہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔  (پھر) اس نے کہا اے میرے رب ! تیرے اس احسان کے بعد جو تو نے مجھ پر فرما یا میں کبھی مجرموں کا مدد گار نہیں بنو ں گا  ۳۶* ۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ پھر  (دوسرے دن) وہ صبح کے وقت ڈرتے ڈرتے اور چوکنا رہتے ہوۓ شہر میں داخل ہوا  ۳۷ * ۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہی شخص جس نے کل مدد کے لیۓ اسے پکارا تھا آج پھر اسے پکار ر ہا ہے۔ موسیٰ نے کہا تم صریح نامعقول ہو۔  ۳۸ * ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ پھر جب اس نے اس شخص کو جو دونوں کا دشمن  ۳۹ * تھا پکڑنے کا ارادہ کیا تو پکارا اٹھا اے موسیٰ کیا تم مجھے اسی طرح قتل کرنا چاہتے ہو جس طرح کل تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا ؟

 

تم ملک میں جبار بن کر رہنا چاہتے ہو اصلاح کرنے والے بننا نہیں چاہتے۔  ۴۰ *

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ اور شہر کے آخری حصہ ایک شخص دوڑ ہوا آیا اور کہا موسیٰ ! حکومت کے ذمہ دار تمھیں قتل کر نے کے لیۓ مشورہ کر رہے ہیں لہذا تم یہاں سے نکل جاؤ۔ میں تمہارے خیر خواہوں میں سے ہوں  ۴۱ * ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر وہ ڈرتا ہوا ہوشیاری کے ساتھ وہاں سے نکل گیا اور اس نے دیا کی کہ اے میرے رب !مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔  ۴۲ *

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ جب اس نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہا امید  ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ کھاۓ گا۔  ۴۳ *

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ مدین کے پانی  (کنویں) پر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگوں کی ایک تعداد  (اپنے) جانوروں کی پانی پلا رہی ہے  ۴۴ * ۔ اور دیکھا کہ ان سے الگ دو عورتیں اپنے مویشیوں کو روکے کھڑی ہیں  ۴۵ * ۔ اس نے ان سے پوچھا تمہارا کیا معاملہ ہے۔  ۴۶ * ؟

 

انہوں نے کہا ہم اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتیں  جب تک چرواہے اپنے جانور ہٹا نہ لیں اور ہمارے ابا بہت بوڑھے ہیں۔  ۴۷ *

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس نے ان کے جانوروں کو پانی  ۴۸ * پلا یا پھر ایک سایہ کی طرف چلا گیا اور دیا کی اے میرے رب ! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں  ۴۹ *

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ پھر ان دو عورتوں میں سے ایک اس کے پاس شرماتی ہوئی آئی اور کہا میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ آپ نے ہماری خاطر جانوروں کو جو پانی پلا یا ہے اس کا صلہ آپ کو دیں  ۵۱ * موسیٰ جب اس کے پاس پہنچا ۵۲ * اور اسے سارا قصہ  سنا یا تو اس نے کہا خوف نہ کرو ظالم قوم سے تہیں نجات مل گئی۔  ۵۳ *

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ ان دو عورتوں میں سے ایک نے کہا ابا جان ان کو اجرت پر رکھ لیجیۓ۔ بہترین جس کو آپ اجرت پر رکھیں وہی ہو سکتا ہے جو طاقت ور اور امانت دار ہو ۔ ۵۴ *

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ اس  (کے باپ) نے  (موسی) سے کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تمہارے ساتھ اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال تک میرے ہاں خدمت کرو۔ اور اگر دس سال پورے کرو  تو یہ تمہاری مرضی سے ہو گا  میں تم کو مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ انشاءاللہ  تم مجھے کر دار میں اچھا پاؤ گے  ۵۵ * ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ موسیٰ نے کہا یہ بات میرے اور آپ کے درمیان طے ہو گئی۔ ان دونوں میں سے جو مدت بھی میں پوری کر دوں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو گی  ۵۶ * اور جو قول و قرار ہم کر رہے ہیں اس پر اللہ نگہبان ہے  ۵۷ * ۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ جب موسیٰ نے مدت پوری کر دی  ۵۸ * اور اپنے گھر والوں  کو لے کر چلا  ۵۹ * تو طور کی جانب  ۶۰ * سے ایک آگ دکھائی دی۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا ٹھرو  ۶۱ * ۔ مجھے نظر آئی ہے شاید میں  وہاں سے کوئی خبر لے  آؤں  ۶۲ * ۔ یا آگ کا کوئی انگار ا لاؤں تاکہ تم تاپ سکو ۶۳ * ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو خطۂ مبارکہ میں وادی کی داہنی جانب کے درخت سے ندا آئی اے موسیٰ ! میں ہوں اللہ رب العالمین  ۶۴ * ۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہ تم اپنی لاٹھی ڈال دو۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ سانپ کی طرح حرکت کر رہی  ۶۵ * ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگا اور مڑ کر بھی نہ دیکھا  ۶۶ * ۔ اے موسیٰ ! آگے آؤ اور ڈرو نہیں۔ تم بالکل محفوظ ہو  ۶۷ * ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔ وہ روشن ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے  ۶۸ * ۔ اور خوف کو دور کرنے کے لیۓ بازو سیکڑ لو  ۶۹ * یہ تمہارے رب کی طرف سے دو نشانیاں ہیں  ۷۰ * فرعون اور ا سکے دربار والوں کے سامنے پیش کرنے  کے لیۓ۔ وہ بڑے فاسق لوگ ہیں۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ اس نے عرض کیا اے میرے رب ! میں نے ان کے ایک آدمی کو قتل کیا تھا اس لیۓ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے قتل کریں گے  ۷۱ *

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ میرا بھائی ہارون بولنے میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے تو ا سکو میرے ساتھ مدد گار بنا کر بھیج تاکہ وہ میری تصدیق کرے  ۷۲ * ۔ مجھے اندیشہ ہے کہ وہ لوگ مجھے جھٹلائیں گے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ فرما یا ہم تمہارے بھائی کے ذریعہ تمہارا بازو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو ایسی حجت قاہرہ عطا کریں گے کہ وہ تم پر دست درازی نہ کر سکیں گے  ۷۳ * ۔ ہماری نشانیوں کے ساتھ  (جاؤ) ۔ تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کریں گے غالب رہیں گے۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ پھر جب موسیٰ ان کے پاس واضح نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا یہ تو محض بناؤ ٹی جادو ہے اور یہ بات ہم نے اپنے اگلے باپ دادا سے کبھی نہیں سنی  ۷۵ * ۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ موسیٰ نے کہا میرا رب خوب جانتا ہے اس شخص کو جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور جس کے لیۓ آخرت کا بہتر انجام ہے۔ بلا شبہ ظالم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔  ۷۶ *

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ فرعون نے کہا اے اہل دربار ! میں تو اپنے سوا تمہارے لیۓ کسی خدا کو نہیں جانتا  ۷۷ * ۔ اے ہامان ۷۸ * ! تم مٹی  (اینٹیں) پکوا کر میرے لیۓ ایک اونچا محل تعمیر کرو تاکہ میں جھانک کر موسیٰ کے خدا کو لوں  ۷۹ * میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں۔

 

 ۳۹۔۔۔۔۔۔ ۔ اس نے اور اس کے لشکروں نے ناحق زمین میں گھمنڈ کیا  ۸۰ * اور سمجھے کہ انہیں ہماری طرف لوٹنا نہیں ہے۔  ۸۱ *

 

۴۰۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کو اس کے لشکروں کو پکڑ ا اور ان سب کو  سمندر میں پھینک دیا  ۸۲ * تو دیکھ لو ظالموں کا کیا انجام ہوا !

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیشوا بنا یا  ۸۳ * اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جاۓ گی۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس دینا میں ان کے   پیچھے لعنت لگا دی  ۸۵ * ۔ اور قیامت کے دن وہ بہت بری حالت میں ہوں گے۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے اگلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب عطا کی جو لوگوں کے لیۓ سامان بصیرت اور ہدایت و رحمت تھی تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں  ۸۶ * ۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔ اور تم  (اے پیغمبر) اس وقت  (طور کے) مغربی جانب موجود نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کے لیۓ فرمان صادر کیا اور  نہ تم اس کے گواہوں میں سے  تھے  ۸۷ * ۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ مگر ہم نے بہت سی نسلیں اٹھائیں اور ان پر ایک طویل زمانہ گزر گیا  ۸۸ * ۔ اور تم اہل مدین کے درمیان بھی موجود نہ تھے کہ ہماری آیتیں ان کو سنا رہے ہو لیکن ہم تم کو رسول بنانے والے تھے  ۸۹ * ۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ اور نہ ہی تم طور کی جانب موجود تھے جب ہم نے  (موسیٰ کو) پکارا تھا  ۹۰ * لیکن یہ  (وحی) تمہارے رب کی رحمت ہے تا کہ تم ایک ایسی قوم کو خبر دار کرو جس کے پاس تم سے پہلے کوئی خبر دار کرنے والا نہیں آیا  ۹۱ * تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے کر تو توں کی وجہ سے مصیبت میں پڑیں تو کہیں اے ہمارے رب ! تو نے کیوں نہ ہماری طرف کوئی رسول بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان لانے والوں میں سے ہو جاتے۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ مگر جب ہماری طرف سے حق ان کے پاس آگیا تو کہنے لگے کیوں نہ دی گئی۔ اس کو چیز جسی موسیٰ کو دی گئی تھی ؟ ۹۳ * ۔ کیا ان لوگوں نے اس چیز کا انکار  نہیں کیا جو اس سے پہلے موسیٰ کو دی گئی تھی۔  ۹۴ * ؟

 

۴۹۔۔۔۔۔۔ ان سے کہو اگر تم سچے ہو تو لاؤ اللہ کی طرف سے ایسی کتاب جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت بخشنے والی ہو میں اس کی پیروی کروں گا ۹۶ * ۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔ اگر وہ تمہارے اس مطالبہ کو پورا نہیں کرتے تو جان لو کہ یہ اپنی خواہشات کے پیروی ہیں  ۹۷ * ۔ اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے  ۹۸ * ؟ اللہ ایسے ظالموں پر ہر راہ نہیں کھولتا  ۹۹ * ۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے ان کو مسلسل اپنا کلام پہچا یا تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں  ۱۰۰ * ۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی تھی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں  ۱۰۱ * ۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔ اور جب یہ  (قرآن) ان کو سنا یا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لاۓ۔ بلاشبہ یہ ہمارے رب کی طرف سے حق ہے۔ ہم پہلے ہی سے مسلم ہیں  ۱۰۲ * ۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ان کا اجر دو بار دیا جاۓ گا اس وجہ سے کہ وہ ثابت قدم رہے  ۱۰۳ * وہ برائی کو بھلائی سے دور کرتے ہیں  ۱۰۴ * اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں  ۱۰۵ * ۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں  ۱۰۶ * اور کہتے ہیں کہ ہمارے لے لیۓ ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیۓ تمہارے اعمال  ۱۰۷ * ۔ تم کو سلام  ۱۰۸ * ۔ ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے  ۱۰۹ * ۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔  (اے پیغمبر!) تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے  ۱۱۰ * اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت قبول کرنے والوں کو۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی کرنے لیگیں تو اپنی زمین  (ملک) سے اچک لیۓ جائیں گے۔ کیا ہم نے امن والے حرم میں انہیں جگہ نہیں دی جس کی طرف ہر قسم کے پھل کھینچے چلے  آر ہے ہیں ہماری طرف سے رزق کے طور پر۔ لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں ہیں  ۱۱۱ * ۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔ اور کتنی ہی  آباد یوں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جو اپنے عیش پر اترا گئی تھیں  ۱۱۲ * ۔ تو یہ ہیں ان سے مسکن  (گھر) جو ان کے بعد کم آباد ہوۓ  ۱۱۳ * ۔

 

اور ہم ہی ان کے وارث ہوۓ۔  ۱۱۴ * ۔

 

۵۹۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کی مرکزی بستی میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیتیں سنا تا  ۱۱۵ * ۔

 

اور ہم بستیوں کو اسی صورت میں ہلاک کرتے ہیں جب کہ ان کے رہنے والے ظالم ہوں  ۱۱۶ * ۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ بس دنیوی زندگی کا سامان اور ا سکی زینت ہے۔ اور کو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ کیا تم سمجھتے نہیں ؟ ۱۱۷ * ۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔ کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا وعدہ کر رکھا ہے اور جس کو وہ لازماً پاۓ گا  ۱۱۸ * اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کو ہم نے دنیوی زندگی کا سامان دیا ہے پھر وہ قیامت کے دن  (سزا کے لیۓ) حاضر کیا جانے والا ہے  ۱۱۹ * ۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔ اور جس دن وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کا تم کو دعوی تھا۔  ۱۲۰ * ؟

 

۶۳۔۔۔۔۔۔ جن پر ہمارا فرمان لاگو ہو گا  ۱۲۱ * وہ کہیں گے اے رب ! یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا۔ ہم نے ان کو اسی طرح گمراہ کیا جس طرح ہم گمراہ ہوۓ  ۱۲۲ * ۔ ہم تیرے حضور  (ان سے) برات کا اظہار کرتے ہیں  ۱۲۳ * ۔ یہ ہماری پر ستش نہیں کرتے تھے  ۱۲۴ * ۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔ اور ان سے کہا جاۓ گا کہ  (اب) پکار و اپنے ٹھہراۓ  ہوۓ شریکوں کو  ۱۲۵ * ۔ یہ ان کو پکاریں گے لیکن وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے۔  ۱۲۶ * اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش انہوں نے ہدایت اختیار کی ہوتی ۱۲۷ * ۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔ اور جس دن وہ انہیں پکارے گا اور پوچھے گا کہ تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا ؟  ۱۲۸ * ۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔ اور جس دن ان سے کوئی جواب نہ بن پڑے گا اور پوچھے ہی سکیں گے  ۱۲۹ * ۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔ تو جس نے توبہ کی، ایمان لایا اور نیک عمل کیا وہ امید ہے کامیاب  ہونے والوں میں سے ہو گا  ۱۳۰ *

 

۶۸۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے جو چاہتا ہے۔ ان کو کوئی اختیار نہیں  ۱۳۱ * ۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔ تمہارا رب جانتا ہے جو کچھ یہ اپنے دلوں میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں  ۱۳۲ * ۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی بھی خدا نہیں۔ اسی کے لیۓ حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ حکم اسی کا ہے  ۱۳۵ * اور اسی کی طرف تم لوٹا ۓ جاؤ گے  ۱۳۶ * ۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔ ان سے کہو کیا تم نے اس بات پر غور کیا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیۓ رات طاری کر دے تو اللہ کے سوا وہ کون سا خدا ہے جو تمہارے لیۓ روشنی لاۓ ؟ کیا تم سنتے نہیں ؟

 

۷۲۔۔۔۔۔۔ ان سے کہو کیا تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ قیامت تک تم پر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اللہ کے سوا کون سا خدا ہے جو تمہارے لیۓ رات کو لاۓ کہ تم اس میں سکون حاصل کر سکو؟ کیا تم دیکھتے نہیں ؟ ۱۳۷ * ۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔ اور یہ اسی کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیۓ رات اور دن بناۓ تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو اور اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم سکر گزار بنو۔  ۱۳۸ * ۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔ اور وہ دن جب وہ انہیں پکارے گا اور کہے گا کہاں ہیں میرے وہ شریک جو تم نے ٹھرا ے تھے ؟

 

۷۵۔۔۔۔۔۔ اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال لائیں گے  ۱۳۹ * اور لوگوں سے کہیں گے کہ اپنی دلیل پیش کرو  ۱۴۰ * ۔ اس وقت انہیں معلوم ہو جاۓ گا کہ حق اللہ ہی کے لیۓ ہے۔  ۱۴۱ * اور جو جھوٹ وہ گھرتے رہے ہیں وہ سب گم ہو جاۓ گا ۱۴۲ * ۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔ قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا لیکن وہ ان کے خلاف زیادتی پر اتر آیا۔  ۱۴۳ * ۔ اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دے ر کھے تھے کہ ان کی کنجیاں ایک طاقت ور گروہ مشکل سے اٹھا سکتا تھا۔  ۱۴۴ *

 

۷۷۔۔۔۔۔۔ اللہ نے جو مال تہیں دے رکھا ہے اس کے ذریعہ آخرت کا گھر طلب کرو  ۱۴۷ * اور دنیا میں سے اپنا حصہ نہ بھولو ۱۴۸ * ۔ احسان کرو جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ احسان کیا ہے  ۱۴۹ * اور زمین میں فساد کے درپے نہ ہو جاؤ ۱۵۰ * ۔ اللہ فساد بر پا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا یہ سب کچھ مجھے اپنے ذاتی علم کی بنا پر ملا ہے  ۱۵۱ * ہے۔ کیا اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکا ہے جو قوت میں اس سے زیادہ اور جمعیت میں اس سے بڑھ کر تھیں  ۱۵۲ * ۔ اور مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں پوچھا نہیں جاتا۔  ۱۵۳ *

 

۷۹۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنی پوی شان و شوکت کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے نکلا  ۱۵۴ * جو لوگ دنیوی زندگی کے طالب تھے وہ کہنے لگے کاش ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو ملا ہے۔ یہ تو بڑا قسمت والا ہے  ۱۵۵ * ۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔ مر جن کو علم عطا ہوا تھا انہوں نے کہا افسوس تم پر ! اللہ کی بخشش  (صلہ) بہتر ہے اس کے لیۓ جو ایمان لاۓ اور نیک عمل کرے۔ اور یہ دولت صبر کرنے والوں ہی کو ملتی ہے  ۱۵۶ * ۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا  ۱۵۷* دیا پھر کوئی گروہ ایسا نہ ہوا جو خدا کے مقابل میں اس کی مدد کرتا اور نہ وہ خود اپنی مدافعت کر سکا  ۱۵۸ * ۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔ اور وہی لوگ جو کل اس کے مقام کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے ہاۓ غضب ! اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیۓ چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا۔ ہاۓ غضب !کافر فلاح نہیں پا تے  ۱۵۹ * ۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔ یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیۓ خاص کر دیں گے جو زمین میں بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں۔ اور انجام کار کی بھلائی مت قیوں ہی کے لیۓ ہے  ۱۶۰ * ۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔ جو شخص بھلائی لے کر آۓ گا اس کے لیۓ اس سے بہتر بھلائی ہے اور جو برائی لے کر آۓ گا تو برائیاں کرنے والوں کو بدلہ میں وہی کچھ ملے گا جو وہ کرتے رہے ہیں  ۱۶۱ * ۔

 

۸۵۔۔۔۔۔۔ یقیناً جس نے تم پر قرآن فرض کیا ہے وہ تمھیں ایک بہترین انجام کو پہنچاۓ گا  ۱۶۲ * ۔ کہو میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت لے کر آیا اور کون کھلی گمراہی میں پڑا ہے  ۱۶۳ * ۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اس بات کی امید نہ رکھتے تھے کہ کہ کتاب تم پر نازل کی جاۓ گی، مگر یہ تمہارے رب کی رحمت ہے۔ ۱۶۴* لہذا تم کافروں کے حامی نہ بنو۔  ۱۶۵ *

 

۸۷۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ تمھیں اللہ کی آیات سے روکنے نہ پائیں بعد اس کے کہ وہ تم پر نازل کی جاچکی ہیں  ۱۶۶ * ۔ تم اپنے رب کی دعوت دو اور ہر گز مشرکوں میں شامل نہ ہو۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔ اور اللہ  کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکارو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے سواۓ ا سکی ذات کے  ۱۶۷ * فیصلہ کا اختیار اسی کو ہے  ۱۶۸ * اور تم سب اسی کی طرف لوٹا ۓ جاؤ گے  ۱۶۹ * ۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔ حروف مقطعات کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ اور سورہ یونس نوٹ ۱۔

 

یہاں ط کا اشارہ طور کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۲۹ اور ۴۶ میں ہوا ہے جس کے دامن میں حضرت موسیٰ کو نبوت ملی۔

 

"س" کا اشارہ "سلطان"  (حجت قاہرہ) کی طرف ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی اور جس کا ذکر آیت ۳۵ میں ہوا ہے۔

 

اور "م" کا شارہ موسیٰ کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۳ اور دیگر آیات میں ہوا ہے اور جن کا قصہ تفصیل سے اس سورہ میں بیان ہوا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یوسف نوٹ ۲۔

 

۳۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ واقعات بالکل سچے ہیں اور لفظ بلفظ درست ہیں۔ ان کی صحت کا اندازہ آدمی کو اس وقت ہوتا ہے جب کہ وہ بائیبل کے  الجھے ہوۓ بیان کو دیکھتا ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سے فائدہ وہی لوگ اٹھائیں گے جو ایمان لائیں گے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ سرکش ہونے کا مطلب اللہ سے بغاوت کرنا، اس کے احکام کی جگہ اپنے احکام جاری کرنا اور زمین میں عدل و امن قائم کرنے کے بجاۓ ظلم و زیادتی کرنا ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ یعنی تعصب اور ناروا سیاسی مصلحتوں کی بنا پر باشندگانِ ملک کو اس نے مختلف طبقوں  (Classes) میں تقسیم کر رکھا تھا۔ حکمراں طبقہ کے حقوق محفوظ تھے اور دوسرے طبقوں کے حقوق اس کے رحم و کرم پر اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک، بالفاظ دیگر فرعون کی حکومت بد ترین قسم کی فرقہ پرست حکومت تھی۔ اور ایک فرقہ پرست حکومت کا رویہ کیسا ہوتا ہے اس کا اندازہ تو ہم اپنے ملک  (بھارت) میں بہ آسانی کر سکتے ہیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔ یعنی بنی اسرائیل کو۔

 

حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر میں اقتدار حاصل ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل کو وہاں اچھی پوزیشن حاصل ہو گئی تھی جس کے زیر اثر ان کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا تھا مگر بعد کے دور میں نسلی اور اکثریت میں تبدیل نہ ہو جاۓ اس لیے اس نے  بنی اسرائیل کے نو زائیدہ بچوں کو قتل کرنے کے احکام جاری کر دیۓ۔ وہ بنی اسرائیل سے سخت محنت مزدوری کا کام لیتا اور ان پر طرح طرح کی زیادتیاں کرتا تھا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ہر لحاظ سے  مفسد تھا۔ اپنے عقیدہ و عمل کے اعتبار سے بھی اور حکمراں ہونے کی حیثیت سے بھی چنانچہ اس کی حکومت ظلم اور جبر کی حکومت تھی اور اس نے سوسائٹی میں بہت بڑا بگاڑ پیدا کر دیا تھا۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی ظالمانہ حکومت کے ذریعہ دبا رکھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا اس کو ابھارا جاۓ اور اللہ جب کسی کو ابھارنا چاہتا ہے تو وہ ابھر کر رہتا ہے اور کوئی طاقت اس کو دبانے میں کامیاب نہیں ہوتی۔

 

وارث بنانے کا مطلب نعمتوں کا وارث بنانا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ شعراء نوٹ ۵۳۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔  یعنی فرعون اور مصریوں کی غلامی سے نکال کر ان کو شام کی سر زمین کا حکمراں بنائیں۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ قرآن کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہامان فرعون کی حکومت میں کسی بہت بڑے عہدہ پر فائز تھا۔ ہو سکتا ہے وزیر اعظم رہا ہو۔ موجودہ زمانہ کے بعض معترضین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ہامان نام کا کوئی شخص فرعون  کی حکومت میں نہیں تھا لیکن یہ اعتراض بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ اس زمانہ کی مفصل تاریخ تحریری شکل میں موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ دعویٰ کیا جا سکے۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔ فرعون والے یہ اندیشہ محسوس کرتے تھے کہ بنی اسرائیل اقلیت میں ہونے  کے باوجود کہیں ان پر غالب نہ آ جائیں اور اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ بنی اسرائیل کے ذریعہ فرعونیوں کا اقتدار ان کے وجود  سمیت غرق دریا ہو جاۓ اور بالآخر ایسا ہی ہوا جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر اہل ایمان کے کسی گروہ کو وقت کی فرعون صفت حکومت نے مظلوم بنا رکھا ہے تو اللہ تعالیٰ کی خاموش تدبیر اس مظلوم اقلیت کو ظالم اکثریت کی سر کوبی کا ذریعہ بنا سکتی ہے۔

 

حضرت موسیٰ اور فرعون  کے قصہ کے یہ نہایت اہم پلو تھے جن کو اس قصہ کی تمہید کے طور پر پیش کیا گیا تاکہ نگاہیں ان پر مرکوز رہیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کی ولادت کا حال اور دیگر حالات بیان ہوۓ ہیں۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۳۴۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۳۶۔

 

 

۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون کا یہ پورا جتھا غلط کار اور گناہ کرنے والا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسی تدبیر کی کہ آگے جا کر وہ اپنے چین سے محروم ہو گۓ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۴۰۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی یہ خاموش تدبیر تھی جو فرعون اور اس کے آل کے خلاف پڑنے والی تھی مگر وہ اس سے بے خبر تھے کہ یہی موسیٰ جس کی پرورش میں وہ لگے ہوۓ ہیں اپنے ساتھ اللہ کی وہ لاٹھی بھی لاۓ ہیں جس میں آواز نہیں ہے اور جو کچھ ہی عرصہ بعد ان کی سر کوبی کرنے والی ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔ موسیٰ کی ماں کو اگرچہ پہلے ہی وحی کے ذریعہ اطمینان دلایا گیا تھا کہ بچہ اس کے پاس واپس آنے والا ہے لیکن ماں بہر حال ماں ہے وہ بچہ کی جدائی اور ایک ظالم کے  گھر اس کے پہنچ جانے پر کس طرح بے قرار نہ ہوتی۔ دل کی یہ کیفیت بالکل فطری تھی اس لیے یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جو توکل کے خلاف ہو۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔ ماں کی زبان سے بے قراری کی حالت میں "میرا بچہ" جیسے الفاظ نکل سکتے تھے جس سے راز فاش ہو جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی ڈھارس بندھا دی اس لیے اس کی زبان سے ایسا کوئی لفظ نہیں نکلا۔

 

آیت سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ظالم کے ظلم سے بچنے کے لیے راز داری برتی جا سکتی ہے۔ نیز یہ نفسیاتی حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ راز داری کا تعلق دل کی مضبوطی سے ہے۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔ موسیٰ کی ماں اہل ایمان میں سے تھیں اور یہ واقعہ جو پیش آیا وہ اس کے ایمان کے لیے مزید تقویت کا باعث تھا۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون والوں کو اس کی بھی خبر نہیں ہوئی کہ یہ بچہ کی بہن ہے جو اس کے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۴۰۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔ یہاں حرام کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے جس کے معنی روکنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بچہ کی طبیعت میں ایسی بات پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنی ماں کے سوا کسی کی چھاتی کو منہ نہ لگاۓ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۴۰۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۴۱۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ کی ماں پر یہ واضح ہو جاۓ کہ اللہ  نے بچہ کو واپس لوٹانے کا جو وعدہ بذریعہ وحی کیا تھا وہ بالکل سچا تھا اور پورا ہو کر رہا اسی طرح اللہ کا ہر وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے مگر اکثر لوگوں کی نگاہ اس حقیقت پر نہیں ہوتی اس لیے وہ اس سے بے خبر رہتے ہیں۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کی پرورش اس طرح ہوئی کہ اپنی ماں سے بھی تعلق رہا اور فرعون سے بھی۔ جب وہ ذرا بڑے ہو گۓ تو ان کے قتل کیے جانے کا اندیشہ باقی نہیں رہا کیونکہ فرعون نو زائیدہ بچوں کو قتل کرتا تھا۔ یا دریا میں ڈبو دیتا تھا اس لیے بعد میں راز داری کی ضرورت باقی نہیں رہی اور حضرت موسیٰ کا حسب نسب سب کو معلوم ہو گیا اور وہ بنی اسرائیل کے ایک معروف فرد کی حیثیت سے ابھرے۔

 

انہیں بنی اسرائیل کے ماحول کو بھی دیکھنے کا موقع ملا اور فرعون کے ماحول کو بھی۔ پھر جب وہ جوان ہوۓ اور سنجیدگی ور متانت ان میں آ گئی تو اللہ نے ان کو دانائی و حکمت اور اپنی معرفت اور دین کا علم بخشا نبوت تو ان کو مصر سے نکلنے کے بعد ایک عرصہ گزر جانے پر عطا ہوئی لیکن علم و حکمت کی یہ دولت تو انہیں اپنے قیام مصر کے دوران ہی بخشی گئی۔ اس طرح  وہ اپنی قابلیت کی بنا پر مصر میں ممتاز رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت موسیٰ ایک عرصہ کے بعد رسالت سے سرفراز ہو کر مصر لوٹے ہیں تو وہ بنی اسرائیل اور فرعون والوں کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی علم و حکمت اللہ تعالیٰ کا بہترین انعام  ہے جو اس دنیا میں کسی کو ملے۔ جو لوگ نیک روی اختیار کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ان کے ظرف کے مطابق اس انعام سے نوازتا ہے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے بنی اسرائیل کی آبادی شہر کے باہر مضافات میں تھی اور شہر کے اندرونی حصہ میں مصری  (قبطی) رہتے تھے۔ جس قوم کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا اس کو مضافات ہی میں جگہ مل سکتی تھی۔ ایک روز حضرت موسیٰ ایسے وقت اپنے گھر سے نکل کر شہر میں داخل ہوۓ جو لوگوں کے آرام کرنے کا وقت تھا اس لیے راستہ پر چہل پہل نہیں تھی ممکن ہے حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے لیے نکلے ہوں جن کو مصریوں کی غلامی کرنا پڑ رہی تھی اور ان سے سخت محنت مزدوری کا کام لیا جاتا تھا۔

 

واضح رہے کہ حضرت موسیٰ کو فرعون نے پالا ضرور تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مخصوص تدبیر سے ان کو جب کہ وہ دودھ پیتا بچہ تھے ان کی ماں کے پاس پہنچا دیا تھا اور قرآن یہ صراحت نہیں کرتا کہ بعد میں وہ فرعون کے محل میں رہنے لگے تھے اس لیے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنی والدہ کے پاس رہ کر پلے بڑھے۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اسرائیلی تھا۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔ یعنی مصری  (قبطی) جو قوم فرعون سے تعلق رکھتا تھا اور قوم فرعون بنی اسرائیل کی دشمن تھی اس لیے وہ ان پر مظالم ڈھاتی اور ان کے بچوں کو قتل کرتی تھی۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ نے اسرائیلی کو مصری سے بچانا چاہا لیکن جب اس کو بچانے کے لیے مصری کو گھونسا مارا تو اس کی تاب نہ لا کر اس نے وہیں دم توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ کا ارادہ اس کو قتل کرنے کا نہیں تھا مگر اتفاق کی بات کہ ان کا گھونسا اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے اس عمل کو شیطان کی حرکت قرار دیا کیونکہ شیطان کی اکساہٹ کا اس میں کچھ دخل تھا ورنہ حضرت موسیٰ نہ زور سے گھونسا مارتے اور نہ یہ حادثہ پیش آتا۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کی شیطان سے چوکنا رہنے کی یہ بات اور ان کا احساس گناہ ان کے علم کی شان کو ظاہر کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا اور جس کا ذکر آیت ۱۴ میں ہوا۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں مصری کا قتل نا دانستہ طور پر ہوا تھا یعنی یہ قتل خطا تھا کہ نہ کہ قتل عمد۔ لیکن قصور بہر حال قصور ہے اس لیے حضرت موسیٰ نے اپنے نفس کی رعایت کیے بغیر سخت الفاظ میں اس کا اعتراف اللہ کے حضور کر لیا چنانچہ انہوں نے اس قصور کو اپنے نفس پر ظلم قرار دیا اور اللہ سے معافی کے خواستگار ہوۓ۔

 

بعض حضرات عصمت انبیاء کی بحث چھیڑ کر اس واقعہ کی ایسی توجیہ کر تے ہیں کہ گویا حضرت موسیٰ سے کوئی قصور سر زد ہی نہیں ہوا تھا لیکن یہ قرآن کے واضح بیان کے خلاف ہے قرآن صاف کہتا ہے کہ موسیٰ نے اپنی غلطی کا اعتراف کرت ہوۓ اللہ سے معافی مانگی تھی اور اللہ تعالیٰ نے انہیں بخش دیا تھا۔ اس سے حضرت موسیٰ کی نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا کیونکہ اول تو یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے۔ دوسرے یہ کہ غلطی سے یہ قصور سر زد ہوا تھا نہ کہ انہوں نے دانستہ کوئی گناہ کیا تھا اور تیسرے یہ  کہ انہوں نے فوراً اپنے قصور کا اعتراف کر کے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لی تھی۔

 

بعض مفسرین نے یہ بھی کہا کہ مقتول حربی کافر تھا اس لیے اس کو قتل کرنا جائز تھا لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ بنی اسرائیل کی طرف سے قوم فرعون کے خلاف کوئی اعلان جہاد نہیں ہوا تھا پھر مصریوں کے بارے میں یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ حربی تھے۔ رہا ان کا کافر ہونا تو کسی کے کافر ہونے کی بنا پر ہر حال میں اس کا قتل جائز نہیں ہوتا انبیاء علیہم السلام اور ان کے ساتھی اہل ایمان کو کافر قوموں سے واسطہ پڑا ہے اور ان کی طرف سے سخت  مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن انہوں نے دار الکفر میں رہتے ہوۓ ان کافروں میں سے کسی کے خلاف قتل کا کوئی اقدام نہیں کیا۔ رہا جہاد تو وہ ایک اجتماعی اقدام ہے اور اس کا جواز مخصوص شرائط کے ساتھ ہے۔

 

اسلام کا عام قانون یہی ہے کہ ہر  انسانی جان محترم ہے اور اسی صورت میں اس کو قتل کرنا جائز ہے جب کہ حق و انصاف کا تقاضا ہو۔ وَلَا تَقْتُلُو االنَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّ مَ اللہُ اِلَّا بِالْحَقِّ (بنی اسرائیل۔ ۳۳)

 

۳۵۔۔۔۔۔۔ احسان سے مراد اللہ سے معافی مانگنے کی وہ توفیق ہے جو حضرت موسیٰ کو بر وقت عطا ہوئی اور اس بنا پر وہ پر امید ہو گۓ کہ اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دے گا۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا  ہے کہ قصور وار اسرائیلی تھا لیکن چونکہ وہ ایک مظلوم قوم کا فرد تھا اور اس نے موسیٰ کو مدد  کے لیے پکارا تھا اس لیے وہ اس کو بے قصور سمجھے ہوۓ اس کی مدد کے لیے گۓ تھے مگر بعد میں جب انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ خود قصور وار تھا تو اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ آئندہ میں کسی مجرم کی مدد نہیں کروں گا اگر چہ وہ میری قوم کا فرد ہی کیوں نہ ہو۔

 

واضح ہوا کہ اسلام کی تعلیم میں فرقہ پرستی یا قوم پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اگر کسی دار الکفر کا کوئی مسلمان جرم کرتا ہے یا کسی غیر مسلم پر زیادتی کرتا ہے تو دوسرے مسلمانوں کا یہ کام نہیں کہ اس مسلمان کی اس بنا پر حمایت کریں کہ وہ ان کی قوم کا فرد ہے کیونکہ یہ طریقہ غیر منصفانہ بھی ہے اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔ ڈر اس بات کا کہ کہیں مجھے گرفتار نہ کر لیا جاۓ اور مجھ پر قتل کا مقدمہ نہ چلایا جاۓ اور چوکنا اس بات سے کہ کوئی میری ٹوہ میں تو نہیں ہے۔

 

دوسرے دن بھی حضرت موسیٰ شہر کے باہر ہی سے آۓ تھے جس صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مکان شہر کے باہر تھا اور وہ فرعون کے محل میں نہیں رہتے تھے کیونکہ مصری کے قتل بعد وہ فرعون کے محل میں جانے کا خطرہ کس طرح مول لے سکتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ قرائن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے درمیان اور اپنے گھر میں رہتے تھے نہ کہ فرعون کے محل میں۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جس اسرائیل نے کل مدد کے لیے پکارا تھا آج پھر دوسرے مصری کے ساتھ الجھ کر حضرت موسیٰ کو مدد کے لیے پکار رہا ہے حضرت موسیٰ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ اسرائیلی خود ہی جھگڑ الو ہے اس لیے انہوں نے اس سے کہا تم بالکل نا معقول آدمی ہو۔

 

۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی مصری جو اسرائیلی شخص اور حضرت موسیٰ دونوں کا دشمن تھا۔

 

۴۰۔۔۔۔۔۔ یہ بات مصری نے حضرت موسیٰ سے کہی۔ حضرت موسیٰ اس کو صرف پکڑ کر علیحدہ کرنے کے لیے آگے بڑھے تھے مگر مصری یہ سمجھا کہ  اس کو قتل کر دیان چاہتے ہیں اس لیے اس نے قتل کا وہ واقعہ یاد دلایا جو ایک روز پہلے ہو چکا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ قتل کا واقعہ راز نہیں رہا بلکہ اس کی خبر کسی نہ کسی طرح لوگوں کو ہو گئی ہے۔

 

۴۱۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے فرعون کا محل شہر کے آخری سرے پر تھا۔ وہاں سے یہ شخص جو حضرت موسیٰ کا خیر خواہ تھا یہ خبر لے کر حضرت موسیٰ کے پاس دوڑتا ہوا آیا کہ ان کے قتل کے لیے فرعون کی حکومت مشورہ کر رہی ہے۔ اور ساتھ ہی اس شخص نے یہ مشورہ دیا کہ اے موسیٰ تم اس ملک سے نکل جاؤ۔

 

۴۲۔۔۔۔۔۔ فرعون کی حکومت قتل خطا کی سزا بھی قتل کی صورت میں دینا چاہتی تھی کیونکہ مقتول اس کا ہم قوم تھا جب کہ موسیٰ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے ظاہر ہے یہ ظلم تھا اور فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ ظالمانہ رویہ ہی اختیار کر رکھا تھا۔

 

حضرت موسیٰ کے ہاتھوں مصری کے قتل کا واقعہ بائیبل کی کتاب خروج کے باب ۲ میں بھی بیان ہوا ہے لیکن اس تفصیل اور صحت کے ساتھ نہیں۔

 

۴۳۔۔۔۔۔۔ مدین خلیج عقبہ کے مشرقی ساحل پر مصر سے آٹھ دن کی مسافت پر واقع تھا۔ چونکہ یہ ملک فرعون کی سلطنت سے باہر تھا اس لیے حضرت موسیٰ نے اس کا رخ کیا۔ انہیں اس سفر کے سلسلہ میں نہ تیاری کرنے کا موقع مال تھا اور نہ وہ راستہ کی واقفیت ہی حاصل کر سکے تھے بلکہ اللہ پر توکل کرتے ہوۓ عزم سفر کیا تھا اور اس سے دعا کی تھی کہ وہ سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرماۓ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ وہ سیدھے مدین پہنچ گۓ اور آگے جا کر ان پر ہدایت کی راہ روشن ہوتی چلی گئی۔

 

۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی شہر میں داخل ہونے سے پہلے ایک کنویں پر پہنچے جہاں کافی لوگ جمع تھے اور اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔

 

۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ مردوں سے  ہٹ کر ایک طرف اپنے جانوروں کے ساتھ کھڑی تھیں۔

 

۴۶۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے یہ سوال از راہ ہمدردی کیا۔ ایسے موقع پر اجنبی عورتوں سے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۴۷۔۔۔۔۔۔ یہ اس دستور کی طرف اشارہ ہے جو مردوں نے وہاں رائج کر رکھا تھا کہ پہلے مرد اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گے اس کے بعد عورتوں کی باری آۓ گی حالانکہ عورتوں کو ان کے کمزور ہونے اور دیگر مصلحتوں کی بنا پر پہلے موقع دیا جانا چاہیے تھا مگر یہ احساس نہ اس زمانہ کے چرواہوں میں تھا اور نہ اس زمانہ کے ترقی پسندوں میں ہے۔

 

ان عورتوں کو جانوروں کی دیکھ بھال اور ان کو پانی پلانے کے گھر میں سواۓ ان کے بوڑھے والد کے کوئی مرد آدمی نہیں تھا اس لیے یہ ان کی مجبوری تھی اگر چہ انصاف اور شریعت کی رو سے باہر کے کام کاج کی ذمہ داری مردوں ہی پر عائد ہوتی ہے لیکن ضرورۃً عورتوں کے لیے کام کرنا ممنوع بھی نہیں ہے بشرطیکہ وہ شرعی حدود میں رہ کر کام کریں اور شرم و حیا کی پاسداری کریں۔

 

۴۸۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے جب ان کا یہ حال سنا تو جانوروں کو سیدھے کنویں پر لے گۓ اور ان کو پانی پلایا۔ وہ نہایت قوی اور حوصلہ مند تھے اس لیے چرواہے ان کو روک نہ سکے۔ یہ خدمت خلق کا کام تھا جو حضرت موسیٰ نے ایسی حالت میں انجام دیا جب کہ وہ پریشان اور تھکے ہوۓ تھے مگر جو کام خلوص کے ساتھ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے کیا جاۓ خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی قدر فرماتا ہے اور اس کو باعث خیر بناتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے :

 

مَنْ کَانَ فِی حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللہُ فِی حَاجِتِہٖ۔ "جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی ضرورت پوری کر دیتا ہے "۔  (مسلم کتاب البر)

 

۴۹۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کس قدر پریشان حال تھے غالباً فاقہ کی نوبت آ گئی ہو گی مگر ان کی خود داری دیکھیے کہ اس حال میں بھی کسی سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ مانگا تو اپنے رب سے۔ توکل کی کتنی اعلیٰ مثال ہے جو ان کے  کردار سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر دعا میں انہوں نے جس ادب کو ملحوظ رکھا وہ بھی ان کے عالی ظرف ہونے کی دلیل ہے کیونکہ انہوں نے کسی شکوہ شکایت کے بغیر  اپنی احتیاج اپنے رب کے سامنے پیش کر دی۔

 

۵۰۔۔۔۔۔۔ عورت کا شرماتے ہوۓ حضرت موسیٰ کے پاس آنا اس کی شرافت کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن نے اس عورت کے اس وصف کا خصوصیت کے ساتھ ذکر جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اگر کسی عورت کو اجنبی شخص کے پاس جانے اور اس ے بات کرنے کی ضرورت پیش آۓ تو وہ اپنے نسوانی جوہر شرم و حیا کی پوری پاسداری کرے۔

 

موجودہ دور میں تو گوناگوں ضرورتوں کے تحت عورتوں کا باہر نکلنا ناگزیر سا ہو گیا ہے مگر حیا کی چادر اوڑھ کر باہر نکلنے اور شرم و حیا کے تقاضوں سے بے پروا ہو کر  مردو زن کے اختلاط کا طریقہ اختیار کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ پہلی صورت جائز ہے اور دوسری صورت نا جائز۔

 

۵۱۔۔۔۔۔۔ عورتوں نے اپنے والد کو جب یہ واقعہ سنایا ہو گا کہ ایک مسافر کنویں پر  آیا ہوا ہے جو شریف النفس معلوم ہوتا  ہے اور اگر اس نے ہمارے ساتھ یہ ہمدردی کی تو انہوں نے یہ خیال کیا ہو گا کہ معلوم نہیں اس مسافر نے کھانا بھی کھایا ہے یا نہیں اور حسن سلوک کا بدلہ حسن سلوک سے دینا چاہیے لہٰذا انہوں نے اپنی لڑکی کو بھیجا کہ وہ اس شخص کو بلا کر لائیں۔

 

۵۲۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے جو خدمت انجام دی تھی اس کی اجرت وصول کرنا ان کے پیش نظر نہ تھا لیکن چونکہ وہ مسافر ہونے کی حیثیت سے اس بات کے مستحق تھے کہ ان کی مہمان نوازی کی جاۓ نیز انہوں نے ابھی ابھی اللہ تعالیٰ سے خیر نازل کرنے کی دعا کی تھی اس لیے اس دعوت کو جس سے خیر کی راہ کھلنے کا امکان تھا ان کے لیے قبول کرنا ہی مناسبت تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ عورت کے والد کے بلانے پر اس کے گھر پہنچ گۓ۔

 

۵۳۔۔۔۔۔۔ اس بوڑھے شخص نے سارا قصہ سننے کے بعد حضرت موسیٰ کو اطمینان دلایا کہ اس ملک میں فرعون کی علمداری نہیں ہے لہٰذا بے خوف ہو جاؤ کہ اب تم ظالم قوم کی دست رس سے باہر ہو۔

 

یہ بزرگ شخص جنہوں نے حضرت موسیٰ کو اپنے گھر بلایا کون تھے ؟  قرآن نے ان کے نام کی صراحت نہیں کی لیکن عام طور سے مفسرین ان کا نام شعیب بتاتے ہیں جو بوجوہ صحیح نہیں۔

 

۱) ۔ اگر پیغمبر شعیب موسیٰ کے ہم عصر ہوتے تو قرآن صراحت کے ساتھ اس کا ذکر کرتا۔

 

۲) ۔ حضرت شعیب کا زمانہ حضرت لوط کے زمانہ سے قریب رہا ہے چنانچہ حضرت شعیب اپنی قوم کو قوم لوط کے انجام سے عبرت دلاتے ہوۓ کہتے ہیں :

 

وَمَا قَو مُ لُوْط مِنْکُمْ بِبَعِیْد  (ہود :۸۹) ۔ " اور قوم لوط  (کا انجام) تو تم سے کچھ دور بھی نہیں ہے "

 

لیکن حضرت لوط اور حضرت موسیٰ کے درمیان طویل مدت رہی ہے اس لیے شعیب علیہ السلام حضرت موسیٰ کے معاصر نہیں ہو سکتے۔

 

۳) ۔ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ یہ بزرگ شخصیت حضرت شعیب کی تھی۔ جن روایتوں میں اس نام کی صراحت ملتی ہے وہ صحیح نہیں ہیں۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔

 

" اور بعض احادیث میں موسیٰ کے قصہ کے سلسلے میں شعیب کے نام کی جو صراحت ملتی ہے تو ان کے اسناد صحیح نہیں ہیں " (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۸۵) ۔

 

اور علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :

 

وہ شعیب نہیں تھے جیسا کہ بعض غلط راۓ قائم کرنے والوں نے گمان کیا ہے بلکہ علماۓ سلف اور اہل کتاب جانتے ہیں کہ وہ شعیب نہیں تھے "  (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۲۰ ص ۴۲۹) اور دوسرے مقامات پر یثرو Jethro) )  (خروج ۱:۳) اور بائیبل کا شارح لکھتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے یہ نام بعد میں درج کر لیا گیا ہے یعنی تورات میں یہ نام پہلے موجود نہیں تھا۔

 

"He is called Jethro in E-narratives though in each case the name seems to have been inserted later."  (The Interpreters own-volume Commentary on the Bible P.380)

 

۵) ۔ یہ بزرگ کافی بوڑھے تھے اگر یہ حضرت شعیب ہوتے تو ان کا یہ زمانہ ان کی قوم پر عذاب آ جانے کے بعد کا زمانہ ہوتا اس لیے اہل ایمان بھی ان کے ساتھ ہوتے اور ان کی موجودگی میں حضرت شعیب کی بیٹیوں کو پانی سے روکنے کی جرأت کوئی چرواہا نہیں کر سکتا تھا۔

 

اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ بزرگ حضرت شعیب نہیں تھے البتہ یہ قرین قیاس ہے کہ وہ حضرت شعیب کے خاندان سے رہے ہوں۔

 

۵۴۔۔۔۔۔۔ اس بزرگ کے ہاں کلہ پانی کے لیے کوئی مرد آدمی نہیں تھا اور جب ان کی لڑکی نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ ایک طاقتور آدمی ہیں اور اس کام کے لیے ایک طاقت ور آدمی ہی موزوں ہو سکتا ہے نیز حضرت موسیٰ اپنی چال ڈھال اور اپنی گفتگو سے نہایت امانت دار آدمی معلوم ہوتے ہیں اور گھر میں کسی قابل اعتماد آدمی ہی کو رکھا جا سکتا ہے تو اس نے حضرت موسیٰ کو اس خدمت کے لیے رکھ لینے کا مشورہ دیا جس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ ایک غریب الوطن شخص کو جو نیک کردار بھی ہے شریفوں کے گھر میں سہارا مل جاۓ۔

 

لڑکی کے اس مشورہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت سمجھدار تھی اور اس کا مشورہ نہایت معقول تھا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بعض عورتیں بڑی ذکی الفہم ہوتی ہیں اور ان کا مشورہ بھی بڑا معقول ہوتا ہے۔ اس لیے عورتوں کی وقعت کو گھٹانا صحیح نہیں اور قرآن تو ممتاز عورتوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کرتا ہے۔

 

۵۵۔۔۔۔۔۔ مدین کے بزرگ نے اپنی بیٹی نکاح میں دینے کی پیشکش حضرت موسیٰ کو کی تو وہ کوئی جذباتی فیصلہ نہیں تھا جو انہوں نے عجلت میں کیا ہو بلکہ اس اطمینان کے بعد کیا تھا جو انہیں اپنے تجربہ اور حضرت موسیٰ کی زبانی ان کے قصہ کو سن لینے کے بعد حاصل ہو گیا تھا۔ اول تو ایک نبی کی شخصیت نبوت سے پہلے بھی اعلیٰ اخلاق کی آئینہ دار ہوتی ہے دوسرے مدین والوں کے لیے بنی اسرائیل اجنبی نہیں تھے بلکہ دونوں میں رشتہ قرابت تھا کیونکہ حضرت ابراہیم کی ایک کنیز جیسا کہ بائیبل کا بیان ہے قطورا تھی اور اس سے جو لڑکا پیدا ہوا وہ مدیان تھا جس کو انہوں نے مدین کے علاقہ میں بسایا اور اسی کے نام سے یہ علاقہ منسوب ہوا۔ حضرت شعیب اسی نسل سے تھے اور جب قوم شعیب پر عذاب آیا تو حضرت شعیب اور ان کے ساتھی عذاب سے محفوظ رہے اور قریب کے علاقہ میں آباد ہوۓ جو مدین ہی کہلایا عجب نہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب کے خاندان سے رہے ہوں اس لیے انہوں نے حضرت موسیٰ سے ان کے بنی اسرائیل  میں سے ہونے کی بنا پر یگانگت بھی محسوس کر لی ہو۔ بہر کیف یہ بزرگ نیک مسلمان تھے اور ان کی ہمدردیاں حضرت موسیٰ کے ساتھ اس لیے بھی تھیں کہ وہ مظلوم تھے اور ایک مظلوم قوم کے فرد تھے۔

 

اس بزرگ کو چلہ بانی کے لیے ایک مرد آدمی کی ضرورت تھی اور حضرت موسیٰ کو غریب الوطنی میں سہارے کی اس لیے اس بزرگ نے فراخ دلی کے ساتھ اپنی بیٹی کے نکاح کی پیشکش کی تاکہ وہ خاندان کے ایک فرد بن کر رہیں۔ رہی آٹھ سال تک کی خدمت کی شرط تو اس میں ایک مصلحت یہ بھی رہی ہو گی کہ حضرت موسیٰ اپنی اہلیہ کو لے کر اس وقت مصر لوٹیں جب کہ قتل کا واقعہ پرانا ہو جانے کی بنا پر فرعون کی طرف سے ان کے خلاف کسی کار روائی کا اندیشہ باقی نہ رہا ہو اور سب سے بڑھ کر اللہ کی مشیت تھی کہ حضرت موسیٰ اس وقت مصر کا سفر کریں جو وقت کہ ان کے منصب رسالت سے سرفراز کیے  جانے کے لیے موزوں اور مقدر تھا۔

 

آٹھ سال تک خدمت کی شرط بطور مہر کے نہیں تھی کیونکہ مہر بیوی کے لیے ہوتا ہے نہ کہ اس کے باپ کے لیے اور نکاح کے لیے تو ابھی کسی لڑکی کا تعین بھی نہیں ہوا تھا بلکہ اپنی دو بیٹیوں میں سے کوئی ایک بیٹی نکاح میں دینے کی بات اس بزرگ نے کہی تھی اس لیے یہ عقد نکاح نہیں تھا بلکہ ایک معاہدہ تھا جس میں اس بزرگ نے اپنے لڑکیوں کی مصلحت کو بھی پیش نظر رکھا تھا اور  حضرت موسیٰ کی مصلحت کو بھی۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس بات کے پیش نظر کہ حضرت موسیٰ کے پاس مہر دینے کے لیے کچھ نہیں ہے لڑکیوں نے اپنی اس رضا مندی کا اظہار اپنے باپ سے کیا ہو کہ وہ جس لڑکی کا بھی نکاح ان کے ساتھ کریں گے وہ اپنا مہر معاف کر دیں گی۔ بہر حال باپ نے جو کچھ کہا قرائن دلیل ہیں کہ اپنی لڑکیوں کی رضا مندی ہی سے کہا۔

 

ضروری نہیں کہ نکاح معاہدہ کی مدت ختم ہو جانے پر کیا گیا ہو بلکہ قرین قیاس یہ ہے کہ معاہدہ ہو جانے کے کچھ  عرصہ بعد ہی اس بزرگ نے اپنی ایک بیٹی کا تعین کر کے اس کا نکاح حضرت موسیٰ سے کر دیا ہو گا تاکہ وہ خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے گھر میں رہیں اور گلہ بانی کا کام بھی اپنے معاہدہ کے مطابق کرتے رہیں۔

 

۵۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر میں آٹھ سال کی مدت پوری کر کے اپنی اہلیہ کو لے کر جانا چاہوں تو پھر مجھے روکا نہ جاۓ اور اگر میں دس سال کی مدت پوری کرنا چاہوں تو اس میں بھی کوئی رکاوٹ  نہ ہو۔

 

۵۷۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاہدہ کس اسپرٹ میں کیا گیا تھا اور جو معاہدہ حسن معاملہ کے عزم کے ساتھ اور اللہ کو نگہبان بنا کر کیا گیا ہو اس کے باعث خیر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔

 

۵۸۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ نے کون سی مدت پوری کی آٹھ سال کی یا دس سال کی ؟ اس کی کوئی صراحت قرآن نے نہیں کی اور بائیبل میں تو مدت کی قرار داد کا کوئی ذکر نہیں ہے رہ گئیں روایتیں تو بخاری میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا حضرت موسیٰ نے اس مدت کو پورا کیا جو ان دو مدتوں میں زیادہ لمبی اور بہتر تھی ؛ لیکن دوسری روایتوں میں ایسی ہی بات مرفوعاً بیان ہوئی ہے یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کی حیثیت سے لیکن وہ اسناد کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔  (تفصیلات کے لیے دیکھیے تفسیر ابن کثیر  ج ۲ ص ۳۸۶)

 

۵۹۔۔۔۔۔۔ یعنی مدین سے اپنے بیوی بچوں کو لے کر مصر جا رہے تھے تاکہ اپنے خاندان والوں کے ساتھ رہیں۔

 

۶۰۔۔۔۔۔۔ مدین سے کچھ فاصلہ پر کوہ طور ہے جو جزیرہ نما سینا میں واقع ہے اور مدین سے مصر جاتے ہوۓ راستہ میں پڑتا ہے۔

 

۶۱۔۔۔۔۔۔ گھر والوں کے لیے اُمْکُثُوا جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ساتھ تنہا ان کی اہلیہ کہ حضرت موسیٰ کا نکاح مقررہ مدت گزر جانے سے پہلے ہی ہوا تھا اور وہ اپنے خسر کے ہاں داماد کی حیثیت سے رہ کر گلہ بانی کی خدمت انجام دے رہے تھے۔ اسی دوران ان کے ہاں بچے بھی ہوۓ اور مدت پوری ہو جانے کے بعد جب وہ مدین سے نکلے ہیں تو ان کے ساتھ بیوی کے علاوہ ان کے بچے بھی تھے۔

 

۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی راستہ کا پتہ چلاؤں کیونکہ اندھیری رات میں راستہ سمجھ میں  نہیں آ رہا تھا۔

 

۶۳۔۔۔۔۔۔ رات سرد تھی اس لیے حضرت موسیٰ نے انگارا لانا چاہا تاکہ اس سے ن کے گھر والے گرمی حال کر سکیں۔

 

۶۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۱۰ اور ۱۱  اور سورہ نمل نوٹ ۹۔

 

۶۵۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "جانّ" استعمال ہوا ہے جو عربی میں ایسے سانپ کے لیے بولا جاتا ہے جس کی حرکت تیز ہو۔ دوسری جگہ قرآن میں "ثعبان" اژدھا کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور "حَیَّۃ" سانپ کا بھی۔ یہ ایک ہی چیز کی مختلف تعبیر ہیں یعنی حضرت موسیٰ کی لاٹھی معجزانہ طور پر ایسا سانپ بن جاتی تھیں جو دیکھنے میں بڑا اژدھا معلوم ہوتا تھا اور حرکت میں اس سانپ کی طرح تھا جو نہایت تیز رو ہوتا ہے۔

 

۶۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ نمل نوٹ۔ ۱۰۔

 

۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سانپ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔

 

۶۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۲۳۔

 

۶۹۔۔۔۔۔۔ حضرت موسیٰ کے لیے یہ سب چیزیں غیر متوقع تھیں خاص طور سے ایک سنسان علاقہ میں رات کے وقت لاٹھی کا سانپ بن جانا قدرتی طور پر ان کو خوف زدہ کرنے والی بات تھی۔ اس خوف کو دور کرنے کی تدبیر اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ اپنا بازو سکیڑ لو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی غیر معمولی مدد تھی۔

 

۷۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ دو معجزے ہیں جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ تم اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گۓ ہو۔

 

۷۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جب میں فرعون کے سامنے دعوت لے کر جاؤں گا تو اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ میرے خلاف قتل کے پرانے واقعہ کی بنا پر کار روائی کرے اور دعوت کا کام ہی انجام نہ پا سکے۔ اگر چہ حضرت موسیٰ مصر ہی جا رہے تھے لیکن چونکہ قتل کے واقعہ کو کافی عرصہ گزر چکا تھا اس لیے اس بات کا بظاہر امکان نہیں تھا کہ فرعون ان کو سزا دیتا لیکن اب یہ اندیشہ انہیں اس لیے محسوس ہوا کہ رسول کی حیثیت سے اس کے پاس جانا تھا۔

 

حضرت موسیٰ نے یہ جو کچھ عرض کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ نبوت کی ذمہ داری کو قبول کرنے سے معذرت کر رہے تھے بلکہ وہ اس راہ کی مشکلات کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہے تھے تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو دور فرماۓ اور ان کی مدد کرے۔

 

۷۲۔۔۔۔۔۔ تشریح  کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۳۰۔

 

۷۳۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا رعب اور ہیبت ان پر ایسی چھا جاۓ گی کہ وہ تمہیں کوئی نقصان نہ پہچا سکیں گے۔

 

۷۴۔۔۔۔۔۔ غالب حجت کے اعتبار سے بھی اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی۔ چنانچہ جادو گروں کے ساتھ مقابلہ میں بھی حضرت موسیٰ ہی کی فتح ہوئی، فرعون نے جو تدبیر بھی ان کے خلاف کی الٹی پڑ گئی اور بالآخر وہی اپنے لشکر سمیت سمندر میں ڈوب مرا۔

 

۷۵۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ بات کہ اللہ ہدایت کے لیے رسول بھیجتا ہے۔

 

۷۶۔۔۔۔۔۔ فرعون والوں کا یہ کہنا کہ ہم نے رسالت کی کوئی بات باپ دادا سے سنی ہی نہیں  سراسر جھوٹ تھا کیونکہ چند سو سال قبل حضرت یوسف جیسا پیغمبر ان میں گزر چکا تھا اور ان کو مصر کی فرمانروائی بھی حاصل ہو گئی تھی نیز بنی اسرائیل کا وجود اس بات کا زندہ ثبوت تھا کہ یہ سلسلہ رسالت کو ماننے والی قوم ہے پھر قوم فرعون رسالت کے تصور سے بالکل نا آشنا کیسے ہو سکتی تھی۔

 

حضرت موسیٰ نے یہ بات ان کی ہٹ دھرمی کے جواب میں کہی۔ یعنی اگر تم کوئی بات سمجھنا ہی نہیں چاہتے تو پھر نتائج کا انتظار کرو کہ کس کا انجام بخیر ہوتا ہے اور کس کے حصہ میں ناکامی اور محرومی ہوتی ہے۔

 

۷۷۔۔۔۔۔۔ فرعون کے اس دعوے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کا منکر تھا اور اپنے خدا ہونے کا مدعی۔ اس کے نزدیک کوئی بالا تر ہستی ایسی نہیں تھی جس کی پرستش لازم اور جس کی اطاعت واجب ہو۔ وہ مصر کا فرمانروا ہونے کی بنا پر اپنے کو پرستش کا مستحق سمجھتا تھا اور اس بات کا بھی کہ اس کی بے چون و چرا اطاعت کی جاۓ۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۸۰ سورہ شعراء نوٹ ۲۷ اور سورہ نازعات نوٹ ۱۸۔

 

واضح رہے کہ انبیاء علیہم السلام کو کافر اور مشرک حکمرانوں سے واسطہ پڑا ہے جو اللہ کے احکام و قوانین کے بجاۓ اپنے احکام اور قوانین چلاتے تھے لیکن قرآن نے فرعون کے سوا کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے الہ اور رب اعلیٰ ہونے کا مدعی تھا۔  مثال کے طور پر ملکہ سبا مدرکہ تھی اور اپنا حکم اور قانون چلاتی تھی حضرت سلیمان نے اس کی مشرکانہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے اس کو الٹی میٹم بھی دیا لیکن کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ وہ اپنے خدا ہونے یا رب اعلیٰ ہونے کی مدعی تھی۔ حضرت عیسیٰ کو بھی قیصر کی حکومت سے واسطہ پڑا تھا جو اپنے خود ساختہ قوانین چلاتی تھی لیکن ان کی طرف بھی اس دعوے کو منسوب نہیں کیا گیا جو فرعون نے کیا تھا۔ اسی طرح مکہ میں قریش کی حکومت بھی مشرکانہ تھی  اور وہ اپنے کفر اور سرکشی کے اعتبار سے فرعون ہی کے نقش قدم پر تھے مگر ان کے بارے میں بھی قرآن نے یہ نہیں کہا کہ یہ اپنے خدا ہونے اور رب اعلیٰ ہونے کے مدعی ہیں۔ اس سے طاہر ہوتا ہے کہ فرعون کا جرم ان تمام حکمرانوں اور اصحاب اقتدار کے جرائم سے بڑھ کر تھا اور وہ اپنے دعوے میں بالکل منفرد تھا۔

 

۷۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے نوٹ۔ ۱۱۔

 

۷۹۔۔۔۔۔۔ فرعون نے واقعی یہ حکم ہامان کو نہیں دیا تھا بلکہ یہ بات اس نے حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا مذاق اڑانے کے لیے کہی کہ اللہ زمین و آسمان کا رب ہے۔ فرعون کا جواب یہ تھا کہ زمین میں تو تمہارا خدا دکھائی نہیں دیتا،  رہا آسمان تو اب میں اونچا محل بنواتا ہوں تاکہ اس پر چڑھ کر دیکھ لوں کہ خدا آسمان میں کہاں چھپا ہوا ہے۔ فرعون کا یہ جواب سراسر احمقانہ تھا اس لیے حضرت موسیٰ نے اس کا جواب دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ خدا کے بارے میں فرعون کی یہ بے تکی باتیں اس کی پست ذہنیت اور اس کے گھمنڈی ہونے کا بین ثبوت ہیں۔

 

۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی فرعون کو یہ حق نہیں تھا کہ وہ اپنے کو بندگی کے مقام سے اونچا سمجھتا۔ اگر کوئی بندہ اپنے کو خدا کی بندگی سے اونچا سمجھتا ہے تو یہ گھمنڈ ہے جس کے لیے کوئی جواز (Justification) نہیں ہے۔

 

۸۱۔۔۔۔۔۔ یعنی نہ خدا کے حضور حاضر  ہونا ہے اور نہ اپنے اعمال کی جواب دہی کرنا ہے اور نہ ان کا بدلہ پانا ہے۔

 

۸۲۔۔۔۔۔۔ فرعون اور اس کے لشکر کے سمندر میں ڈوب مرنے کا واقعہ سورہ یونس اور سورہ شعراء میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔

 

۸۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جو بھی فرعون والوں کے نقش قدم پر چلیں گے وہ قیامت کے دن ان  ہی کی قیادت میں جہنم کی طرف بڑھیں گے۔

 

۸۴۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن نہ گمراہ لیڈر اپنے گمراہ پیروؤں کی کوئی مدد کر سکیں گے اور نہ یہ گمراہ پیرو اپنے لیڈروں کے کچھ کام آ سکیں گے۔ ان میں سے ہر ایک بے یار و مدد گا رہو گا۔

 

یہ بہت بڑی تنبیہ ہے لیڈروں کے لیے بھی اور عوام کے لیے بھی۔ ہر شخص سوچ لے کہ وہ کدھر جا رہا ہے اور کس کے پیچھے چل رہا ہے۔

 

۸۵۔۔۔۔۔۔ دنیا فرعون اور اس کے ساتھیوں پر لعنت ہی بھیجتی ہے مسلمان، نصاریٰ، اور یہود سب ان کی ہی مذمت کرنے ہیں اور دنیا فرعون کو ظالم ہی کی حیثیت سے جانتی ہیں۔

 

۸۶۔۔۔۔۔۔ یعنی سابق سرکش قوموں کو ہلاک کر کے آئندہ نسلوں کے لیے عبرت پذیری کا سامان کیا اور ان کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے موسیٰ کو کتاب  (تورات) عطا کی۔ اس آیت سے چند اہم باتوں پر روشنی پڑتی ہے :

 

ایک یہ کہ ہدایت کے لیے پہلی تفصیلی کتاب تورات تھی جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوئی۔ اس سے پہلے رسولوں کے ذریعہ غیر کتابی شکل میں ہدایت کا سامان ہوتا رہا جیسے حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح کے ذریعہ یا پھر چھوٹے چھوٹے صحیفے نازل کیے گۓ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام کو صحیفہ عطاء ہوا تھا۔  (سورہ  اعلیٰ:۱۹) واضح رہے تورات چونکہ متعدد اجزاء  پر مشتمل تھی اس لیے اس کو بھی صحف  (صحیفوں) سے تعبیر کیا گیا ہے ورنہ بحیثیت مجموعی وہ ایک تفصیلی کتاب تھی۔ تورات سے پہلے تفصیلی کتاب نازل نہ کیے جانے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں لکھنے پڑھنے کا عام رواج نہیں ہوا تھا اس لیے ہدایت الٰہی کا اصل ذریعہ انبیاء علیہم السلام کے ارشادات رہے۔

 

دوسرے ی کہ جب حضرت موسیٰ سے پہلے کوئی تفصیلی کتاب نازل ہی نہیں ہوئی تھی تو مشرکانہ مذاہب کے پیرو اپنی مذہبی کتابوں  مثلاً منو سمرتی، وید وغیرہ کے بارے میں کتاب الٰہی ہونے کا جو دعویٰ کرتے ہیں وہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے جب کہ یہ کتابیں خود اس بات کا دعویٰ نہیں کرتیں کہاں کا نازل کرنے والا خداۓ برتر  (Supreme Being) ہے اس لیے ان کے پیروؤں کا دعویٰ مدعی سست گواہ چست کے بمصداق ہے۔

 

تیسرے یہ کہ تورات صرف بنی اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ عام انسانیت کے لیے کتاب ہدایت تھی کیوں کہ آیت میں :ھُدیً وَّ رَحْمَۃً لِلنَّاسِ  (لوگوں کے لیے ہدایت و رحمت) فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ انبیاۓ بنی اسرائیل دوسری قوموں کو بھی قبول اسلام کی دعوت دیتے رہے ہیں جس کی مثال حضرت سلیمان کا ملکہ سبا کو دعوت دینا ہے۔ اسی بنا پر بنی اسرائیل کو دنیا میں امامت کا مقام حاصل رہا اور یہ وہ فضیلت ہے جس کی بنا پر وہ دوسری قوموں سے ممتاز رہے۔

 

۸۷۔۔۔۔۔۔ غزلی جانب سے مراد کوہ طور کا مغربی حصہ ہے جہاں حضرت موسیٰ کو تورات عطا ہوئی، موسیٰ کے لیے فرمان صادر کرنے سے مراد تورات ہے۔ اور اس کے گواہوں سے مراد بنی اسرائیل ہیں جن کو شریعت عطا کرتے وقت اس کی پابندی کا عہد لیا گیا تھا۔

 

آیت کا مطلب  یہ ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ کو کوہ طور کے مغربی حصہ میں تورات عطا کی گئی اس وقت اے پیغمبر تم وہاں موجود نہ تھے اور نہ ان واقعات کے چشم دید گواہ ہو جو کوہ طور کے دامن میں بنی اسرائیل کو پیش آۓ۔ پھر قرآن کے ذریعہ تمہارا موسیٰ کی سر گزشت کو صحت وہ صداقت اور تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ پیش کرنا جب کہ اہل کتاب کے پاس تورات کا جو حصہ موجود ہے وہ بھی ان کی تحریف کی وجہ سے ناقص حالت میں ہے قرآن کے وحی الٰہی ہونے اور تمہارے پیغمبر ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

 

۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت موسیٰ کے بعد کافی دور گزر چکے ہیں مگر تم اسے پیغمبر اس قرآن کے ذریعہ حضرت موسیٰ کی سرگزشت کو اس طرح پیش کر رہے ہو کہ گویا یہ سب تمہارے چشم دید واقعات ہیں اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

 

۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اے پیغمبر ! مدین کا جو واقعہ تم نے بیان کیا  (جو اس سورہ کی آیت ۲۳ تا ۲۸ میں بیان ہوا ہے) وہ اس تفصیل اور صحت کے ساتھ کسی بھی کتاب میں بیان نہیں ہوا ہے لیکن تم نے اس کو اس طرح پیش کرد یا کہ گویا آنکھوں دیکھا حال ہے یہ بات تمہاری نبوت اور صداقت کو روشن کرتی ہے۔ تاریخ کے ان گمشدہ اوراق کو تم قرآن کی آیات کے ذریعہ اہل مکہ کے سامنے اس لیے پیش کر رہے ہو کہ ہم نے تمہیں رسول بنا کر  بھیجا ہے ورنہ اس کو جاننے کا کوئی ذریعہ تمہارے پاس موجود نہ تھا۔

 

۹۰۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جب طور کی جانت وادئ ایمن (وادئ طویٰ) میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پکارا کو پکارا اور انہیں منصب رسالت سے سرفراز کیا جیسا کہ اس سورہ کی آیت ۳۰ میں بیان ہوا ہے۔

 

۹۱۔۔۔۔۔۔ بنی اسمٰعیل یعنی عربوں میں ابراہیم اور اسمٰعیل علیہم السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آیا ان دو نبیوں نے جو تعلیم، جو نقوش، جو شریعت اور جو شعائر چھوڑے تھے وہی اس قو م کے لیے سرمایہ دین تھے البتہ حضرت موسیٰ پر نازل شدہ تورات بنی اسرائیل کے واسطہ سے ان کے لیے بھی تذکیر کا ذریعہ بنی۔ مگر چونکہ ایک طویل عرصہ سے اس قوم میں کوئی نبی نہیں آیا تھا اور وہ غفلت میں پڑی ہوئی تھی اس لیے اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے اپنے آخری رسول کو اس قوم میں مبعوث کر کے اس کو بیدار کرنے اور اللہ کی رحمت کا مستحق بننے کا سامان کیا۔

 

۹۲۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول ہم نے اس لیے بھیجا تا کہ تم پر اللہ کی حجت قائم ہر جاۓ اور قیامت کے دن تم کو یہ عذر کرنے کا موقع نہ ملے کہ کوئی رسول تو ہماری طرف آیا  نہیں تھا کہ ایمان لانے والے بنتے۔

 

۹۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جو معجزے موسیٰ کو دیے گۓ تھے  وہ اس  (پیغمبر) کو کیوں نہیں دیے گۓ؟

 

۹۴۔۔۔۔۔۔ یعنی موسیٰ کو جو معجزے  دیے گۓ تھے اس کا بھی تو ان ہی جیسے کافروں نے انکار کیا تھا۔

 

۹۵۔۔۔۔۔۔ دونوں سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ہیں۔ ان کے معجزوں کو اس وقت کے کافروں نے جادو قرار دیا تھا اور اس میں مبالغہ کرتے ہوۓ ان کی شخصیتوں ہی کو جادو سے تعبیر کیا تھا یعنی یہ سراپا جادوگر ہیں۔

 

۹۶۔۔۔۔۔۔ یعنی تورات اور قرآن سے زیادہ ہدایت بخشنے والی اللہ کی کوئی کتاب تمہارے پاس موجود ہے تو اسے پیش کرو میں اس کی پیروی کروں گا کیوں کہ اصل چیز اللہ کی ہدایت کی اتباع ہے۔

 

واضح ہوا کہ نزول قرآن کے زمانہ میں دو ہی کتابیں ہدایت کا ذریعہ تھیں ایک تورات اور دوسرے قرآن جو نازل ہو رہا تھا۔ رہی زبور اور انجیل تو وہ تورات ہی کے تابع تھیں اس لیے ان کے علیحدہ سے ذکر کی ضرورت نہیں تھی۔ اور جب اس زمانہ میں ان دو کتابوں کے علاوہ کوئی کتاب ہدایت موجود نہیں تھی کہ اس کی اتباع کی جاۓ تو موجودہ زمانہ میں مختلف مذاہب کی کتابوں کے بارے میں یہ دعویٰ کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کا کلام اور ہدایت کا ذریعہ ہیں ؟

 

یہ بات بھی خیال میں رہے کہ ان آیات میں مشرکین کے تعلق سے دین کے بنیادی عقائد توحید، رسالت اور جزاۓ عمل زیر بحث ہیں  اور اس سلسلہ میں تورات کی تعلیم بھی اصولی طور پر وہی ہے جو قرآن کی ہے۔

 

یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کے سامنے تورات کا جو نسخہ موجود تھا اس میں اور جو نسخہ اب پایا جاتا ہے اس میں کافی فرق ہے۔

 

۹۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا یہ موقف عجیب ہے کہ نہ تورات کو مانتے ہیں اور نہ قرآن کو اور نہ ہی کسی اور کتاب الٰہی کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں ان سے بہتر  ہدایت کا سامان موجود ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ سرے سے ہدایت الہٰی کی پیروی کرنا ہی نہیں چاہتے بلکہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلنے میں آزاد ہیں۔

 

۹۸۔۔۔۔۔۔ آج تعلیم عام ہو گئی ہے اور انسان کے لیے یہ معلوم کرنا آسان ہو گیا ہے کہ خدا کی ہدایت کہاں ہے لیکن وہ اپنی خواہشات کے معاملہ میں بالکل آزاد رہنا چاہتا ہے اس لیے خدا کی ہدایت کی کوئی طلب اس میں پائی ہی نہیں جاتی۔

 

۹۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جب تک ایسے غلط کار لوگ ہدایت الٰہی کے طالب نہیں بنتے اللہ ان کو ہدایت سے محروم رکھتا ہے۔

 

۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کی آیتیں پیہم نازل کیں اور مسلسل ان کی تذکیر کا سامان کیا۔

 

۱۰۱۔۔۔۔۔۔ مراد وہ لوگ ہیں جو اہل کتاب میں سے تھے اور قرآن پر ایمان لاۓ تھے۔ واضح رہے کہ اہل کتاب کے لیے قرآن میں بالعموم "الذین اوتوا الکتاب"  (جنہیں کتاب دی گئی تھی) کا فقرہ استعمال ہوا ہے لیکن جب قرآن خاص طور سے اس گروہ کے ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو مخلص مومن ہیں اور قرآن خاص طور سے اس گروہ کے ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو مخلص مومن ہیں اور قرآن پر ایمان لاتے ہیں تو ان کے لیے : الذین اٰتینھم الکتاب" جن کو ہم نے کتاب عطا کی" کے الفاظ استعمال کرتا ہے جس میں عنایت کا پہلو نمایاں ہے۔

 

۱۰۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اہل کتاب میں سے ان لوگوں کی طرف جو اصل دین اسلام پر قائم تھے جو توحید اور آخرت کے ساتھ خدا کی تمام کتابوں اور رسولوں کو ماننے کی دعوت دیتا ہے اور جب قرآن کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو وہ ان پر بھی ایمان لاۓ اور آپ کی پیروی اختیار کی۔ گویا انہوں نے اپنے ایمان کے تسلسل ہی میں قرآن اور اس کے پیغمبر کو پایا تھا اس لیے وہ پہلے بھی مسلم تھے اور بعد میں بھی مسلم رہے۔ دین کو بدلنے  (Conversion) کا سوال ان کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا۔

 

اس سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ جب قرآن کے نزول کا آغاز ہوا تو کوئی مسلم موجود نہ تھا یا یہ کہ دین اسلام کا آغاز نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام تمام انبیاء علیم السلام کا دین رہا ہے اور نزول قرآن کے وقت بھی ایسے افراد موجود تھے جن کا دین السلام تھا اس لیے ان کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کی پیروی اختیار  رکنے میں کوئی تامل نہیں ہوا۔  (اسلام کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱۵۲، سورہ آل عمران نوٹ ۱۰۵، ۱۰۶، ۱۰۸)

 

۱۰۳۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ پہلے بھی اسلام پر قائم رہے اس لیے اجر پانے کے مستحق تھے ہی اور جب قرآن پر ایمان لا کر اس کے پیغمبر کے پیرو بن گۓ تو دوسری مرتبہ بھی اجر پانے کے مستحق ہو گۓ۔

 

حدیث میں آتا ہے۔

 

" تین شخص ہیں جن کو دو بار اجر دیا جاۓ گا۔ ایک وہ جو اہل کتاب میں سے تھا اور اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا پھر مجھ پر ایمان لایا ..........." (تفسیر ابن کثیر ج ۳ ص ۳۹۳ بحوالہ بخاری)

 

۱۰۴۔۔۔۔۔۔، یعنی جو لوگ ان مخلص مسلموں کے ساتھ الجھتے ہیں ان کی گالیوں کا جواب وہ گالیوں سے نہیں دیتے بلکہ برائی کا مقابلہ بھلائی سے کرتے ہیں۔

 

۱۰۵۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کا ایک قابل قدر وصف یہ ہے کہ وہ بخیل اور زر پرست نہیں ہیں بلکہ دل کے غنی ہیں کہ اللہ کی راہ میں اس کا دیا ہوا مال خرچ کرتے ہیں اور حاجتمندوں کی مدد کرتے ہیں۔

 

اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے خیر کی راہیں کھلتی ہیں اور مزید توفیق ملتی ہے۔

 

۱۰۶۔۔۔۔۔۔ "لغو" کی تشریح کے لیے دیکھیے سورہ مؤمنون نوٹ ۳۔

 

یہاں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ اپنے مخالفین کی بیہودہ باتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور نہ ایسی باتوں کا جواب دینے سے ان کو کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔

 

۱۰۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم ہمارے اعمال کے ذمہ دار ہیں اور تم تمہارے اعمال کے ذمہ دار۔ ہم اپنے عمل کے نتائج کو پائیں گے اور تم تمہارے عمل کے نتائج کو۔

 

۱۰۸۔۔۔۔۔۔ یہ سالم اس معروف معنی میں نہیں ہے جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کرتا ہے۔ بلکہ یہ سلام سلامتی کے ساتھ رخصت ہونے کے معنی میں ہے یعنی ہمارا سلام لو ہم اجازت چاہتے ہیں۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فرقان نوٹ۔ ۹۲۔

 

۱۰۹۔۔۔۔۔۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ دین کے معاملہ میں جو لوگ جہالت پر اتر آئیں ان کے ساتھ اہل ایمان الجھیں نہیں بلکہ خوبصورتی کے ساتھ ان کے پاس سے رخصت ہو جائیں۔ "مذہبی جھگڑوں "سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا البتہ اگر سننے والا کچھ سننے کے لیے آمادہ ہو تو اسے ح بات ضرور سنائی جاۓ۔

 

۱۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قبول ہدایت کی توفیق دینا اللہ ہی کا کام ہے۔ تمہارے جس میں یہ نہیں ہے کسی کے دل میں ہدایت اتار دو اور اسے ہدایت یافتہ بنا دو اور جب ایک پیغمبر کسی کے دل میں ہدایت نہیں اتار سکتا تو دوسرے لوگ کیا کر سکتے ہیں۔

 

۱۱۱۔۔۔۔۔۔ قریش یہ سمجھتے تھے کہ مکہ میں ان کو جو مقام حٓسل ہے اور جو پر امن فضا میسر ہے وہ اس لیے ہے کہ انہوں نے بت پرستی کے سلسلے میں رواداری اختیار کر  رکھی ہے اور ہر قبیلہ کے بت کو خانہ کعبہ میں جگہ دے دی ہے۔ اب اگر وہ پیغمبر کی دعوت توحید کو قبول کر لیتے تو مکہ میں نہ کوئی بت رہے گا اور نہ بت پرستی۔ جس کے نتیجے میں عرب قبائل کی مخالفت انہیں مول لینا پڑے گی اور اس کا اثر ان کی تجارت اور ان کی معاشی زندگی پر بھی پڑ سکتا ہے اور ان کے امن و عافیت پر بھی۔ ان کے اس خیال کی تردید کرتے ہوۓ فرمایا گیا کہ تمہیں امن و امان کی جو نعمت ایک ایسے ملک میں جہاں قتل و قتال اور غارت کری عام ہے اس رواداری کی بنا پر نہیں ملی ہے جو تم نے بت پرستی کے سلسلہ  میں اختیار کر رکھی ہے بلکہ اس لیے ملی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو محفوظ حرم بنا دیا ہے۔ اس کے حرم ہونے ہی کی بنا پر عرب اس شہر کا احترام کرتے ہیں اور اس میں بدامنی کو بہت بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے قریش کو جو امن میسر ہے وہ حرم کے طفیل ہے نہ کہ بت پرستی کے طفیل۔ اسی طرح مکہ کے غیر زرعی خطہ میں ہر قسم کے پھلوں اور پیداوار کی جو درآمد مختلف جہتوں سے ہو رہی ہے وہ بھی اس کے مرکز توحید ہونے کی بنا پر ہے اور اللہ کے فضل خاص کا نتیجہ ہے۔ مگر جو بات توحید کی تائید میں جا رہی تھی اس کو انہوں نے اپنی نادانی سے شرک کے خانہ میں ڈال دیا۔ وہ یہ غلط باتیں کہتے رہے مگر چند سال بعد ہی دنیا نے دیکھ لیا کہ توحید کے علم بردار پورے عرب پر چھا گۓ اور ان کے لیے کوئی خوف اور خطرہ باقی نہیں رہا۔

 

آج بھی مصلحت پرست سیاسی لیڈر لوگوں کو خدا اور اس کے دین سے دور ہی رکھنا چاہتے ہیں تاکہ امن و آشتی قائم رہے حالانکہ حقیقی امن و آشتی خدا اور اس کے دین پر ایمان لانے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔

 

۱۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی جن کو اپنی خوش حال زندگی اور اپنی تمدنی ترقی پر ناز تھا۔

 

۱۱۳۔۔۔۔۔۔ یعنی کم ہی ایسا ہوا کہ ان اجڑی ہوئی بستیوں میں کوئی بسا ہو۔

 

۱۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ دنیا سے اس طرح رخصت ہو گۓ کہ ان کو اپنا سارا اثاثہ چھوڑ دینا پڑا۔ اس طرح بالآخر ان چیزوں کے ہم ہی مالک ہو گۓ۔

 

۱۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جن نستعین پر اللہ کا عذاب نازل ہوا وہ اس صورت میں ہوا جب کہ ایک رسول کے ذریعے ان کو غفلت سے بیدار کرنے کا سامان کر دیا گیا تھا مگر انہوں نے رسول کی دعوت پر کان نہیں دھرا۔

 

اس آیت سے یہ بھی واضح ہوا کہ رسول کی بعثت ہر ہر بستی میں نہیں بلکہ کسی مرکزی بستی میں ہوتی رہی ہے تاکہ اس کی دعوت آسانی کے ساتھ دوسری بستیوں میں بھی پہنچ جاۓ۔

 

۱۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی مشرکانہ اور کافرانہ عقائد و اعمال کی بنا پر وہ غلط کار ہو کر رہ گۓ ہوں اور خدا کے تعلق سے ان کا رویہ سراسر خلاف عدل اور زیادتی پر مبنی ہو۔

 

۱۱۷۔۔۔۔۔۔ واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ اگر تم پیغمبر کی دعوت حق کو محض اس لیے قبول نہیں کر رہے ہو کہ اس صورت میں تمہارے معاشی اور دنیوی مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے تو یاد رکھ دنیا کے فائدے چند روزہ ہیں۔ اس کے بالمقابل آخرت کی نعمتیں بدر جہا بہتر بھی ہیں اور دائمی بھی۔ پھر کیا یہ عقلمندی ہے کہ آدمی وقتی اور حقیر فائدوں کو ابدی نعمتوں پر ترجیح دے۔

 

۱۱۸۔۔۔۔۔۔ مراد نیک عمل مؤمن ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کر رکھا ہے۔

 

۱۱۹۔۔۔۔۔۔ مراد کافر ہے جس کو گرفتار کر کے قیامت کے دن اللہ کے حضور حاضر کیا جاۓ گا۔ تاکہ اس کو اس کے کفر اور بغاوت کی سزا دی جاۓ۔

 

۱۲۰۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن یہ سوال اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے کرے گا جو دنیا میں اس کا شریک ٹھیراتے رہے ہیں۔ جن کا دعویٰ یہ رہا ہے کہ خدائی اختیارات  (Divine Powers) دوسروں کو بھی حاصل ہیں۔

 

۱۲۱۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی عدالت میں شیاطین کا جواب ہو گا جو گمراہی کے پیشوا تھے ان پر اللہ کا یہ فرمان لاگو ہو چکا ہو گا کہ یہ لعنت کے مستحق اور دوزخی ہیں۔

 

۱۲۲۔۔۔۔۔۔ ان شیطانوں کا جواب ہو گا کہ ہم ان لوگوں کی گمراہی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ان کو ہم نے گمراہ ضرور کیا مگر جس طرح ہم خود اپنے اختیار  سے گمراہ ہوۓ تھے اسی طرح یہ اپنے اختیار سے گمراہ ہوۓ۔ ہم نے ان کو زبردستی گمراہ نہیں کیا تھا کہ ان کی گمراہی کی سزا ہم کو بھگتنا پڑے۔

 

۱۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے ان پیروؤں سے بے تعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔

 

۱۲۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ حقیقۃً  اپنے نفس اور اپنی خواہشات کے پرستار تھے۔

 

۱۲۵۔۔۔۔۔۔ شیطانوں اور گمراہ پیشواؤں کے اس جواب کے بعد جو اوپر بیان ہوا عام مشرکین سے کہا جاۓ گا کہ اب پکارو اپنے ٹھیراۓ ہوۓ شریکوں کو جن کو تم نے اپنا مدد گار اور سفارشی سمجھ رکھا تھا۔

 

۱۲۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جن فرضی خداؤں کو وہ پوجتے تھے ان کا کوئی وجود ہی نہیں ہو گا کہ ان کو جواب دے سکیں۔

 

۱۲۷۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے حال پر اظہار حسرت ہے کہ اگر انہوں نے ہدایت قبول کی ہوتی تو آج اس انجام کو نہ پہنچتے۔ مشرکوں کے اس انجام کی تصویر قرآن میں اس لیے پیش کر دی گئی ہے تاکہ لوگ شرک اور بت پرستی کو معمولی بات نہ سمجھیں۔

 

۱۲۸۔۔۔۔۔۔ یہ دوسرا سوال رسالت کے بارے میں ہو گا کہ جو پیغام لے کر ہمارے رسول تمہارے پاس آۓ تھے ان کے پیغام کو تم نے قبول کیا یا نہیں اور ان کی دعوت کا تم نے کیا جواب دیا۔

 

۱۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن ان کے پاس کوئی حجت نہیں ہو گی جس کو وہ ان کار رسالت کی تائید میں پیش کر سکیں۔ اس لیے کوئی بات انہیں سجھائی نہیں دے گی اور وہ آپس میں ایک دوسرے سے کچھ پوچھ بھی نہ سکیں گے کہ اس سوال کا کیا جواب دیا جاۓ کیوں کہ رسولوں کی صداقت ان پر اس طرح واضح ہو چکی تھی کہ اس سلسلہ میں غدر  کرنے کا کوئی موقع نہ ہو گا۔

 

۱۳۰۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکوں اور کافروں کو توبہ کی ترغیب ہے کہ آج دنیا میں تمہیں اس کا موقع حاصل ہے تو جو کوئی شرک اور کفر سے باز آۓ گا اور ایمان لا کر عملاً نیک بنے گا وہ بجا طور پر آخرت کی کامیابی کی امید رکھ سکتا ہے۔

 

۱۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اس میں کسی کو کوئی دخل نہیں۔ اسی طرح وہ اپنی مخلوق میں سے انعام سے نوازنے  کے لیے افراد کو خود ہی چن لیتا ہے چنانچہ اس نے مؤمنین مخلصین کو جنت کے لیے چن لیا ہے۔ مشرکین نے جن کو سفارشی (شفعاء) ٹھیرا رکھا ہے ان کا اس معاملہ میں کوئی دخل نہیں ہے وہ بالکل بے اختیار ہیں۔

 

۱۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ خیال کہ خدا کے کاموں میں کوئی دخل دینے والا ہے سراسر شرک ہے۔ یہ مشرکین اپنے معبودوں کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں مگر اللہ کی ذات اس سے بہت بلند و بالا ہے کہ اس کے کاموں، اس کے فیصلوں اور اس کے انتخاب کے معاملہ میں کوئی اس پر اثر انداز ہو سکے اور کوئی بات اس سے منوائی جا سکے۔

 

۱۳۳۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ مشرکین جس شرک اور بت پرستی کو اعلانیہ اپنا مذہب بناۓ ہوۓ ہیں اس کے پیچھے جو ذہنیت کام کر رہی ہے  اور جو فاسد جذبات اور محرکات ہیں ان کو بھی اللہ بخوبی جانتا ہے۔

 

۱۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ہی اس کا مستحق ہے کہ دنیا میں بھی اسی کے گن گاۓ جائیں اور آخرت میں تو اسی کو گن گاۓ جائیں گے۔

 

۱۳۵۔۔۔۔۔۔  یعنی اس کائنات میں اسی کا حکم اور فیصلہ نافذ العمل ہے اور وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کے شرعی احکام اور فیصلوں کی پابندی قبول کرے اور اس کے کسی حکم کی بھی خلاف ورزی نہ کرے۔

 

۱۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہیں بالآخر پیش اللہ ہی کے حضور ہونا ہے۔

 

۱۳۷۔۔۔۔۔۔ رات اور دن کی آمد و رفت کا جو نظام اس زمین پر قائم کر دیا گیا ہے وہ زندگی گزارنے کے لیے نہایت سازگار ہے۔ اگر رات کی تاریکی میں اسے سکون ملتا ہے تو دن کے اجالے میں اس کے لیے معاشی ڈور دھوپ کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت کا بہت بڑا کرشمہ ہے مگر انسان کا حال بہت عجیب ہے وہ ماحول کی سازگاری کو تو محسوس کرتا ہے مگر اس بات پر غور کرنے کی زحمت گورا نہیں کرتا کہ ماحول کی یہ سازگاری ایک نظام کے تحت ہے اور نظام کا وجود اس کے قائم کرنے والے پر دلالت کرتا ہے۔ پھر جس ہستی نے یہ نظام قائم کیا ہے وہ اس کو تبدیل بھی کر سکتی ہے۔ اگر وہ ہمیشہ کے لیے رات ہی رات قائم کر دے یا دن ہی دن مسلط کر دے تو انسان کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو جاۓ گا اور اس کو کیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اگر وہ اس پہلو سے غور  کرے تو وہ اپنے رب کو پہچان لے اور اس کے اندر اس کی شکر گزاری کا جصبہ پیدا ہوا۔ اور جب اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہو جاۓ تو وہ اس کی دعوت توحید کی طرف لپک جاۓ گا جو قرآن اور اس کا پیغمبر پیش کر رہا ہے۔

 

آج کا انسان تو زبردست جغرافیائی معلومات رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ قطب شمالی پر چھ مہینے دن اور چھ مہینے رات ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے برخلاف درمیانی عرض البلد  (Latitude)  پر جہاں روزانہ شب و روز   کی آمد و رفت کا سلسلہ رہتا ہے انسانی آبادی گنجان ہے۔ پھر  وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دن اور رات کس وجود زمین کی محوری گردش کا نتیجہ ہے۔ مگر وہ اس سوال پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا جو لازماً اس موقع پر پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کیا گردش کا یہ نظام اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس کے پیچھے ایک مدبر ہستی کا ہاتھ کار فرما ہے جو زمین کو گردش میں رکھے ہوۓ ہے۔ اگر وہ اس کی گردش کو روک دے تو کیا زمین کے نصف کرہ پر رات ہی رات اور دوسرے نصف کرہ پر دن ہی دن نہیں ہو گا؟ اور ایسی صورت میں وہ کون سا خدا ہے جو زمین کی گردش کو جاری کر دے، ظاہر ہے یہ اللہ کے سوا کسی کے بس کی بات نہیں ہے پھر اس حقیقت کو جانتے بوجھتے اللہ کا شریک ٹھیرانے کا کیا مطلب ؟

 

اور اگر اس سلسلہ میں ان لوگوں کو کہیں سے ٹھوکر  لگ رہی ہے تو وہ نصیحت کرنے والے کی بات سننے کے لیے کیوں آمادہ نہیں ہوتے ؟

 

۱۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی رات میں سکون حاصل کر سکو اور دن میں معاشی دوڑ دھوپ کر سکو اور ان دونوں نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے مہربان خدا کے شکر گزار بن جاؤ۔

 

۱۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ہر امت میں سے ایک رسول کو جو اس کی طرف بھیجا  گیا تھا بطور گواہ کے سامنے لائیں گے۔

 

قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :

 

فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمُۃ بشَھیْد وَجِئْنَا بِکَ عَلیٰ ھٰوُلَاءٗ شَھِیْداً  (سورہ نساء : ۴۱) ۔

 

"اس دن (ان کا) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور تمہیں ان لوگوں پر گواہ بنا کر کھڑا کریں گے "۔

 

۱۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی شرک و بت پرستی کی تائید میں اور اسلام کو چھوڑ کر جو دوسرے مذہب تم نے اختیار کر رکھے تھے ان کے حق ہونے کی اگر کوئی دلیل تمہارے پاس تھی تو اسے پیش کرو۔

 

۱۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ جو ہدایت بھیجی تھی اور جو کلام نازل کیا تھا وہی حق تھا۔

 

۱۴۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کتے خود ساختہ خدا بھی گم ہو جائیں گے اور ان کے خود ساختہ مذہب بھی ہوا ہو جائیں گے۔

 

۱۴۳۔۔۔۔۔۔ قارون کے بارے میں قرآن صراحت کرتا ہے کہ وہ موسیٰ کی قوم میں سے تھا لیکن وہ اپنی قوم سے بغاوت کر کے فرعون سے جا ملا تھا۔ بالفاظ دیگر اس نے اپنی ملت سے غداری کر کے فرعون کے پاس اہم مقام حاصل کر لیا تھا  اور بنی اسرائیل کے خلاف جو ایک مسلم ملت تھی ظلم و زیادتی پر اتر آیا تھا۔ قرآن یہ بھی صراحت کرتا ہے کہ موسیٰ کو جس طرح فرعون اور ہامان کی طرف بھیجا گیا تھا اسی طرح قارون کی طرف بھی بھیجا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کفر اور سرکشی کے لحاظ سے ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے : 

 

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسیٰ بِاٰ یَا تِنَا وَسُلْطٰن مُبِیْن اِلٰی فِرْعَوْنَ وَھَامَانَ و قَارُوْنَ فَقَا لُوْا سَاحِرٌ کَذّابٌ،  (المؤمن: ۲۳۔ ۲۴) " ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور کھلی حجت کے ساتھ فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا یہ بڑا جھوٹا جادو گر ہے۔ "

 

اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ قارون کا واقعہ حضرت موسیٰ کے قیام مصر کے زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اس لیے جن مفسرین نے اس کو بنی اسرائیل کی صحرا نوردی کے زمانہ کا واقعہ بتایا ہے وہ غلط ہے۔ رہا بائیبل کا یہ قصہ کہ بنی اسرائیل کی صحرا نوردی کے زمانہ میں قورح  (Korah) نے جو حضرت موسیٰ  کا چچا زاد بھائی تھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے ساتھ حضرت موسیٰ کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس کی سزا ان کو یہ ملی تھی کہ زمین ان کو نگل گئی  (گنتی باب ۱۶) تو یہ ہو سکتا ہے قورح کوئی دوسرا شخص رہا ہو کیونکہ نام کے فرق کے علاوہ بائیبل اس کے سرمایہ دار ہونے کا ذکر نہیں کرتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ قارون کا واقعہ ذہنوں میں صحیح طور سے محفوظ نہ رہا ہو اور بائیبل کے مرتبین نے اسے الجھے ہوۓ انداز میں پیش کر دیا ہو لہٰذا اسرائیلیات سے قطع نظر کر کے ہمیں قرآن کے بیان پر اکتفا کرنا ہے۔ جو واضح بھی ہے اور سبق آموز بھی۔

 

۱۴۴۔۔۔۔۔۔ قارون کے خزانوں کی کنجیوں کو موجودہ زمانہ کی کنجیوں پر قیاس نہ کیا جاۓ جن کا سائز بھی چھوٹا ہوتا ہے اور وزن بھی ہلکی ہوتی ہیں۔ قدیم زمانہ میں خزانہ رکھنے کے لیے تجوریاں اور سیف نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ زمین میں دفن کر کے یا کسی محفوظ جگہ پر رکھ کر دروازہ کو بہت بڑا قفل لگا دیا جاتا تھا جس کو کھولنے کے لیے بڑی اور وزنی چابی ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے قارون کو اتنی دولت دی تھی کہ وہ کئی خزانوں کا مالک تھا اور ان خزانوں کی بھاری کنجیوں کو اٹھا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے مزدوروں کی ایک تعداد درکار ہوتی تھی جو مشکل سے یہ وزنی کنجیاں اٹھا پاتی تھی عجب نہیں کہ یہ کنجیاں سلاخوں کی شکل میں رہی ہوں اس لیے ان کے اس قدر وزنی ہونے میں مبالغہ کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ حقیقت واقعہ کا اظہار ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ قدیم زمانہ میں خزانہ سونے چاندی پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ نوٹوں کا رواج تو زمانہ حال کی ایجاد ہے۔

 

۱۴۵۔۔۔۔۔۔ قارون کو اس بات پر بڑا فخر تھا  کہ وہ بہت بڑا مالدار آدمی ہے اس لیے وہ اترانے اور گھمنڈ کرنے لگا تھا۔

 

۱۴۶۔۔۔۔۔۔ اتراتا وہی شخص ہے جو کسی نعمت کو پاکر اس کو اللہ کا احسان سمجھنے کے بجاۓ اپنی صلاحیت اور قابلیت کا نتیجہ  سمجھنے لگتا ہے۔ اس لیے اس کا نفس پھولے نہیں سماتا۔ ایسا شخص خود پسند ہوتا ہے خدا اس کو ہر گز پسند نہیں کرتا۔

 

۱۴۷۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ دولت اللہ تعالیٰ نے نہ اس لیے دی ہے کہ اس پر سانپ بن کر بیٹھو اور نہ اس لیے دی ہے کہ اس پر فخر کرو بلکہ اس لیے دی ہے تاکہ اس کو اللہ کی رہ میں خرچ کرو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بناؤ۔ مال کو اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد مناسب حد تک پس انداز کرنا صحیح ہے تاکہ آئندہ بھی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں لیکن خزانوں کی شکل میں جمع کرنا درست نہیں خاص طور سے ایسی صورت میں جب کہ بندگان خدا فقر و فاقہ میں مبتلا ہوں یا شدید حاجتمند ہوں یا دین کی اشاعت اور ملی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے مال کی شدید ضرورت ہو۔

 

مصر میں جب حضرت موسیٰ اسلام کی دعوت لے کر اٹھے ہیں تو بنی اسرائیل حالت بہت خستہ تھی اس لیے قارون کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے خزانے اللہ کے دین اور اپنی قوم بنی اسرائیل کی امداد و اعانت کے لیے کھول دیتا اور اس کار خیر کو اخروی سعادت کا ذریعہ بناتا لیکن وہ سرمایہ پرست بن گیا اور مال خرچ کیا بھی تو نمائشی کاموں میں۔

 

یہ اور اس طرح کی دوسری آیتوں سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دولت جمع کر کے تجوریاں بھر دی جائیں یا بنک بیلنس میں دولت کا بڑا ذخیرہ محفوظ کر دیا جاۓ۔ یہ سرمایہ پرستی ہے کہ خدا پرستی۔ ایک خدا پرست اور آخرت کو اپنی کامیابی سمجھنے والا شخص دولت کا ڈھیر لگا کر کیا کرے گا؟ یہ کام تو وہی شخص کر سکتا ہے جس کا مقصود دنیا ہو۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ توبہ نوٹ ۶۸۔

 

۱۴۸۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا ضرور کماؤ کیونکہ ایک سرمایہ دار کو یہ کہتے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس بات کو نہ بھولو کہ دنیا کی کمائی میں تمہارا حصہ بہت تھوڑا ہے۔ دنیا کے فائدے چند روزہ ہیں اور اس مال میں جو تمہیں ملا ہے تمہارا حصہ تمہاری اپنی ضرورت کے بقدر ہی ہے۔ باقی سب بندگان خد کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور دینی مصالح پر خرچ کرنے کے لیے ہے۔ مال کے بارے میں یہ تصور سرمایہ داری  (Capitalism) کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

 

۱۴۹۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح اللہ نے تمہارے ساتھ یہ بھلائی کی کہ تمہیں دولت سے مالا مال کر دیا اسی طرح تم بھی بندگان خدا کے ساتھ بھلائی کرو اور ان کی غربت اور افلاس کو دور کرنے کے لیے دل کھول کر اپنا مال خرچ کرو۔

 

۱۵۰۔۔۔۔۔۔ فساد کے معنی بگاڑ کے ہیں اور یہاں فساد سے مراد وہ بگاڑ ہے جو سوسائٹی کے عقائد اخلاق، معاشرت، تمدن اور سیاست میں پیدا کیا جاتا ہے، سرمایہ داروں کی دولت سوسائٹی کے بگاڑ کا بہت بڑا ذریعہ بنتی ہے چنانچہ موجودہ زمانہ کے قارون بھی سوسائٹی کے لیے ناسور ہی بنے ہوۓ ہیں۔

 

۱۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی میں نے یہ دولت اپنے علم و ہنر کے ذریعہ حاصل کی ہے۔ یہ خد اکا کوئی عطیہ نہیں ہے کہ میرے لیے اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہو۔ کافروں کے سوچنے کا انداز یہی ہوتا ہے وہ حاصل شدہ دولت کو اپنی صلاحیت اور قابلیت کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور پھر اس پر اترانے لگتے ہیں حالانکہ کتنے ہی قابل لوگ ہیں جو مال کے حصول میں ناکام رہتے ہیں اور کتنے ہی کم صلاحیت والے لوگ ہیں جو دولت مند بن جاتے ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مال و دولت اللہ کے عطا کرنے سے ملتی ہے نہ کہ محض علم و ہنر کی وجہ سے۔

 

۱۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی کافرانہ بات کہتے ہوۓ اسے یاد نہ رہا کہ جن قوموں کو اپنی قوت اور جمعیت پر ناز تھا ان کا کیا حشر ہوا ؟ کیا اسے عاد و ثمود کے واقعات معلوم نہیں جو اپنی فن کاری اور اپنی افرادی قوت پر نازاں تھیں لیکن کس طرح تباہ ہو کر رہ گئیں۔ پھر یہ اسی روش پر چل کر کس طرح اپنے کو عذاب سے محفوظ سمجھ رہا ہے۔

 

۱۵۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جب کسی مجرم قوم کی تباہی کا وقت آتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اس سے اس کے جرائم کے بارے میں پوچھتا نہیں ہے بلکہ اس کو آناً فاناً تباہ کر کے رکھ دیتا ہے۔ کیوں کہ جب ان کی مہلت ختم ہو گئی تو وہ اپنے جرم کی بنا پر سزا کے مستحق  ہو گۓ۔ اگر ان سے پوچھا جاۓ تو وہ حیلہ بہانہ ہی کریں گے اور سزا کسی صورت میں ٹل نہیں سکتی۔

 

۱۵۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ایک روز قارون نے اپنی قوم کے سامنے اپنی پوری شان و شوکت کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ اپنے زرق برق لباس میں اپنے خدم و حشم کے ساتھ جلوس کی شکل میں رونق افروز ہوا اور اپنی دولت کی نمائش کرتے ہوۓ لوگوں کے سامنے گزرنے لگا تو یہ منظر بڑا دلفریب تھا۔

 

۱۵۵۔۔۔۔۔۔ یہ بات کہنے والے بنی اسرائیل ہی میں سے تھا جن پر دنیا پرستی کا غلبہ تھا۔ انہوں نے جب قارون کا یہ شاندار جلوس دیکھا تو اس کی دلفریبیوں میں آ گۓ اور کہنے لگے کہ دولت کی یہ فراوانی جس کو نصیب ہو وہ بڑا قسمت والا ہے کاش ہمیں بھی یہ چیز نصیب ہوتی !

 

آج بھی بڑے بڑے سرمایہ داروں کی شان و شوکت کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں ایسی ہی تمنائیں کروٹیں لینے لگتی ہیں مگر اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک خوش قسمت اور بد قسمت اور کامیابی اور ناکامی کا معیار کیا ہے۔

 

۱۵۶۔۔۔۔۔۔ علم سے مراد علم حقیقت ہے یعنی جن کی نظر آخرت پر تھی انہوں نے ان دنیا پرستوں کی ذہنیت پر اظہار افسوس کرتے ہوۓ کہا کہ اصل کامیابی مال و دولت کی فراوانی نہیں ہے بلکہ وہ ابدی انعام ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیک کردار مومن بندوں کو ملنے والا ہے۔ اس انعام کا مستحق بننے کے لیے دنیا میں صبر ضروری ہے یعنی آخرت کو نصب العین بنا کر حق پر جمے رہنا اور جائز ذرائع سے جو کچھ ملے اس پر اکتفا کرنا۔ جو شخص یہ وصف اپنے اندر پیدا کر لے گا وہی در حقیقت بڑا قسمت والا ہے۔

 

معلوم ہوا کہ مصر میں بنی اسرائیل کے اندر بگڑے ہوۓ دنیا پرست لوگ موجود تھے اور ایسے مومنین صالحین بھی جنہوں نے آخرت کو واقعی اپنا نصب العین بنایا تھا۔ موجودہ دور کے مسلمانوں میں اسی طرح دونوں ہی قسم کے لوگ پاۓ جاتے ہیں۔

 

۱۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی قارون پر اللہ کا عذاب اس شکل میں آیا کہ وہ اپنے گھر سمیت زمین میں دھنس گیا وہ گھر جس میں اس نے خزانے جمع کر رکھے تھے اس کا مدفن بن گیا۔

 

قارون کا یہ عبرت ناک انجام ایک سرکش اور ظالم سرمایہ دار کا انجام ہے جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے نمونۂ عبرت ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آخرت کے عذاب کی ایک جھلک اس دنیا ہی میں لوگوں کو دکھا دی ہے تاکہ وہ سرمایہ پرستی سے باز آئیں جو انسان کو خدا کا سرکش اور دنیا پرست بنا دیتی ہے۔

 

۱۵۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو تمام سہارے بے کار ہو جاتے ہیں نہ قریبی ساتھیوں کے بس میں ہوتا ہے کہ اس کی مدد کریں اور نہ حکومت کے بس میں اور نہ اس کے اپنے بس میں ہوتا ہے کہ اپنے کو بچاۓ۔

 

۱۵۹۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے اس گروہ نے جس پر دنیا غالب تھی قارون کے اس انجام سے عبرت حاصل کی انہیں احساس ہو ا کہ یہ دولت مند اور یہ سرمایہ دار جو اپنی شان و شوکت کا دلفریب مظاہرہ کرتے ہیں قابل رشک نہیں ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے وافر دولت عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے تاکہ اس کی آزمائش ہو۔ لہٰذا کسی کا مالدار ہونا اس کی کامیابی کی ضمانت نہیں ہے۔

 

۱۶۰۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کی فلاح ان ہی لوگوں کے لیے مخصوص ہو گی جو غرور نفس میں مبتلا ہو کر دنیا میں بڑے بن کر رہنا نہیں چاہتے اور نہ انسانی سوسائٹی میں بگاڑ  (فساد) پیدا کرنا چاہتے ہیں بلکہ تقویٰ کی روش اختیار کرتے ہیں۔

 

واضح ہوا کہ تکبر اور مفسدانہ سرگرمیاں تقویٰ  (خدا خوفی اور گناہوں سے پرہیز) کی عین ضد ہیں۔ اگر آدمی آخرت کی کامیابی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے کو اللہ کی بندگی کے مقام ہی پر رکھے اس سے اونچا اٹھنے کا خیال تک اپنے دل میں نہ لاۓ بندگان خد ا کے ساتھ عدل و انصاف کا رویہ اختیار کرے اور ان کی حقیقی فلاح و بہبود کے کام کرے۔

 

آج انسانی سوسائٹی کا حال بہت عجیب ہے ہر شخص پر بڑا بننے کا بھوت سوار ہے۔ چھوٹا بن کر رہنے کے لیے بھی تیار نہیں۔ سرمایہ دار اپنی دولت کو بڑا بننے کے لیے بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور لیڈر اپنے سیاسی وسائل کو اسی غرض کے لیے استعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج انسانی سوسائٹی میں بگاڑ ہی بگاڑ ہے اور اصلاح کا کوئی کام بھی ہو نہیں پاتا۔

 

۱۶۱۔۔۔۔۔۔ دنیا میں انسان نے نیکی کی ہو یا بدی وہ اس کو اپنے ساتھ لے کر جانے والا ہے اور قیامت کے دن اس کے ساتھ حاضر ہو گا۔

 

بھلائی کی جزا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کہیں بہتر دے گا لیکن برائی کی سزا برائی کے بقدر ہی دی جاۓ گی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۲۹۷ سورہ نمل نوٹ ۱۳۴۔

 

۱۶۲۔۔۔۔۔۔ خطاب پیغمبر سے ہے۔ آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ جس ہستی نے تم پر قرآن کی اتباع کرنے اور اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ تمہارے  مخالفین کی خواہشات کے برخلاف تمہیں دنیا میں بھی اچھے کام کو پہنچاۓ گا اور آخرت میں بھی۔ چنانچہ دنیا میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جس حسن انجام سے ہم کنار ہوۓ وہ ایک واضح حقیقت ہے اور قرآن کی صداقت کا ثبوت بھی۔

 

۱۶۳۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نہ تو  نبوت کے امیدوار تھے اور نہ آپ کو اس بات کا کوئی اندازہ تھا کہ قرآن جیسی کتاب آپ پر نازل کی جاۓ گی بلکہ یکایک آپ پر وحی کا نزول ہوا اور آپ منصب نبوت سے سرفراز کیے گۓ۔ اور یہ آپ کے نبی بر حق  ہونے کی روشن دلیل ہے۔

 

۱۶۴۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ کتاب اللہ نے تمہارے طلب کرنے پر نہیں بھیجی ہے بلکہ اس لیے بھیجی ہے کہ اس کی رحمت اس کی متقاضی ہوئی۔

 

۱۶۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تم کافروں کی باتوں  میں نہ آؤ۔ یہ بات فرمائی گئی ہے پیغمبر سے لیکن مقصود کافروں پر یہ واضح کرنا ہے کہ تم پیغمبر سے یہ ہر گز توقع نہ رکھو کہ وہ تمہاری باتوں میں آئیں گے۔

 

۱۶۶۔۔۔۔۔۔ یعنی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ تم اللہ کی آیتیں لوگوں کو سناؤ اور ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو۔ کافروں کے ساتھ ایسی روا داری نہ برتو کہ اللہ کے احکام کو ٹھیک ٹھیک پہنچانے یا ان پر عمل کرنے میں نرمی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کرنے لگو۔

 

۱۶۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنے وجود کو بر قرار رکھنے والی ہو بلکہ اللہ جس چیز کو جب تک بر قرار رکھنا چاہتا ہے وہ باقی رہتی ہے ورنہ ختم ہو جاتی ہے۔

 

بالفاظ دیگر مخلوق کی خصوصیت ہی ہلاک اور ختم ہو جانا ہے جب  کہ خالق کی صفت ہمیشہ باقی رہنا ہے۔ لہٰذا اللہ ہی واجب الوجود  (لازماً وجود رکھنے والا) ہے اور جب اسی کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے تو وہی تنہا خدا ہے اور وہی اکیلا معبود۔ دوسری کوئی چیز بھی جب واجب الوجود نہیں ہے تو خدا کیسے ہوئی اور معبود کیسے قرار پائی ؟

 

۱۶۸۔۔۔۔۔۔ یہاں خاص طور سے اشارہ جزا و سزا کے فیصلہ کی طرف ہے کہ قیامت کے دن اللہ ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔

 

۱۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تم سب اللہ ہی کے حضور حاضر کیے جاؤ گے۔

 

****