خزائن العرفان

سُوۡرَةُ القَصَص

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ قصص مکّیہ ہے۔ سوائے چار آیتوں کے جو  اَلَّذِیْنَ اٰ تَیْنَا ھُمُ الْکِتَابَ سے شروع ہو کر  لَانَبْتَغِی الْجَاھِلِیْنَ پر ختم ہوتی ہیں اور اس سورت میں ایک آیت  اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ ایسی ہے جو مکّہ مکرّمہ اور مدینہ طیّبہ کے درمیان نازِل ہوئی اس سورت میں نو رکوع اٹھاسی ۸۸ آیتیں چار سو اکتالیس ۴۴۱ کلمے اور پانچ ہزار آٹھ سو حرف ہیں۔

(۱) طٰسم

(۲) یہ آیتیں ہیں روشن کتاب (ف ۲)

۲                 جو حق کو باطل سے ممتاز کرتی ہے۔

(۳)  ہم تم پر پڑھیں موسیٰ اور فرعون کی سچی خبر ان لوگوں کے  لیے  جو ایمان رکھتے  ہیں۔

(۴) بیشک فرعون نے  زمین میں غلبہ پایا تھا (ف ۳) اور اس کے  لوگوں کو اپنا تابع بنایا ان میں ایک گروہ کو (ف ۴) کمزور دیکھتا ان کے  بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا (ف ۵) بیشک وہ فسادی تھا۔

۳                 یعنی سرزمینِ مِصر میں اس کا تسلّط تھا اور وہ ظلم و تکبُّر میں انتہا کو پہنچ گیا تھا حتی کہ اس نے اپنی عبدیت اور بندہ ہونا بھی بھلا دیا تھا۔

۴                 یعنی بنی اسرائیل کو۔

۵                 یعنی لڑکیوں کو خدمت گاری کے لئے زندہ چھوڑ دیتا اور بیٹوں کو ذبح کرنے کا سبب یہ تھا کہ کاہنوں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچّہ پیدا ہو گا جو تیرے مُلک کے زوال کا باعث ہو گا اس لئے وہ ایسا کرتا تھا اور یہ اس کی نہایت حماقت تھی کیونکہ وہ اگر اپنے خیال میں کاہنوں کو سچّا سمجھتا تھا تو یہ بات ہونی ہی تھی لڑکوں کے قتل کر دینے سے کیا نتیجہ تھا اور اگر سچّا نہیں جانتا تھا تو ایسی لغو بات کا کیا لحاظ تھا اور قتل کرنا کیا معنی رکھتا تھا۔

(۵) اور ہم چاہتے  تھے  کہ ان کمزوریوں پر احسان فرمائیں اور ان کو پیشوا بنائیں (ف ۶) اور ان کے  ملک و مال کا انہیں کو وارث بنائیں (ف ۷)

۶                 کہ وہ لوگوں کو نیکی کی راہ بتائیں اور لوگ نیکی میں ان کی اقتدا کریں۔

۷                 یعنی فرعون اور اس کی قوم کے اَملاک و اَموال ان ضعیف بنی اسرائیل کو دے دیں۔

(۶) اور انہیں (ف ۸) زمین میں قبضہ دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے  لشکروں کو وہی دکھا دیں جس کا  انہیں ان کی طرف سے  خطرہ ہے  (ف ۹)

۸                 مِصر اور شام کی۔

۹                 کہ بنی اسرائیل کے ایک فرزند کے ہاتھ سے ان کے مُلک کا زوال اور ان کا ہلاک ہو۔

(۷) اور ہم نے  موسیٰ کی ماں کو الہام فرمایا (ف ۱۰) کہ اسے  دودھ پلا (ف ۱۱) پھر جب تجھے  اس سے  اندیشہ ہو (ف ۱۲) تو اسے  دریا میں ڈال دے  اور نہ ڈر (ف ۱۳) اور نہ غم کر (ف ۱۴) بیشک ہم اسے  تیری طرف پھیر لائیں اور اسے  رسول بنائیں گے  (ف ۱۵)

۱۰               حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام یوحانِذ ہے آپ لاوی بن یعقوب کی نسل سے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو خواب کے یا فرشتے کے ذریعہ یا ان کے دل میں ڈال کر الہام فرمایا۔

۱۱               چنانچہ وہ چند روز آپ کو دودھ پلاتی رہیں اس عرصہ میں نہ آپ روتے تھے نہ ان کی گود میں کوئی حرکت کرتے تھے نہ آپ کی ہمشیر کے سوا اور کسی کو آپ کی ولادت کی اطلاع تھی۔

۱۲               کہ ہمسایہ واقف ہو گئے ہیں وہ غمازی اور چغل خوری کریں گے اور فرعون اس فرزندِ ارجمند کے قتل کے درپے ہو جائے گا۔

۱۳               یعنی نیلِ مِصر میں بے خوف و خطر ڈ ال دے اور اس کے غرق و ہلاک کا اندیشہ نہ کر۔

۱۴               اس کی جدائی کا۔

۱۵               تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تین ماہ دودھ پلایا اور جب آپ کو فرعون کی طرف سے اندیشہ ہوا تو ایک صندوق میں رکھ کر (جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا) شب کے وقت دریائے نیل میں بہا دیا۔

(۸) تو اسے  اٹھا لیا فرعون کے  گھر والوں نے  (ف ۱۶) کہ وہ ان کا دشمن اور ان پر غم ہو (ف ۱۷) بیشک فرعون اور ہامان (ف ۱۸) اور ان کے  لشکر خطا کار تھے  (ف ۱۹)

۱۶               اس شب کی صبح کو اور اس صندوق کو فرعون کے سامنے رکھا اور وہ کھولا گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام برآمد ہوئے جو اپنے انگوٹھے سے دودھ چوستے تھے۔

۱۷               آخر کار۔

۱۸               جو اس کا وزیر تھا۔

۱۹               یعنی نافرمان تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ سزا دی کہ ان کے ہلاک کرنے والے دشمن کی انہیں سے پر ورش کرائی۔

(۹) اور فرعون کی بی بی نے  کہا (ف ۲۰) یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، اسے  قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں نفع دے  یا ہم اسے  بیٹا بنا لیں (ف ۲۱) اور وہ بے  خبر تھے  (ف ۲۲)

۲۰               جب کہ فرعون نے اپنی قوم کے لوگوں کے ورغلانے سے موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا ارادہ کیا۔

۲۱               کیونکہ یہ اسی قابل ہے۔ فرعون کی بی بی آسیہ بہت نیک بی بی تھیں انبیاء کی نسل سے تھیں غریبوں اور مسکینوں پر رحم و کرم کرتی تھیں انہوں نے فرعون سے کہا کہ یہ بچہ سال بھر سے زیادہ عمر کا معلوم ہوتا ہے اور تو نے اس سال کے اندر پیدا ہونے والے بچّوں کے قتل کا حکم دیا ہے علاوہ بریں معلوم نہیں یہ بچّہ دریا میں کس سرزمین سے آیا تجھے جس بچّہ کا اندیشہ ہے وہ اسی مُلک کے بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے آسیہ کی یہ بات ان لوگوں نے مان لی۔

۲۲               اس سے جو انجام ہونے والا تھا۔

۲۳               جب انہوں نے سنا کہ ان کے فرزند فرعون کے ہاتھ میں پہنچ گئے۔

(۱۰) اور صبح کو موسیٰ کی ماں کا دل بے  صبر ہو گیا (ف ۲۳) ضرو ر قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی (ف ۲۴) اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے  اس کے  دل پر کہ اسے  ہمارے  وعدہ پر یقین رہے  (ف ۲۵)

۲۴               اور جوشِ مَحبتِ مادری میں واِبناہ واِبناہ (ہائے بیٹے ہائے بیٹے) پکار اٹھتیں۔

۲۵               جو وعدہ ہم کر چکے ہیں کہ تیرے اس فرزند کو تیری طرف پھیر لائیں گے۔

(۱۱) اور اس کی ماں نے  اس کی بہن سے  کہا (ف ۲۶) اس کے  پیچھے  چلی جا تو وہ اسے  دور سے  دیکھتی رہی اور ان کو خبر نہ تھی (ف ۲۷)

۲۶               جن کا نام مریم تھا کہ حال معلوم کرنے کے لئے۔

۲۷               کہ یہ اس بچہ کی بہن ہے اور اس کی نگرانی کرتی ہے۔

(۱۲) اور ہم نے  پہلے  ہی سب دائیاں اس پر حرام کر دی تھیں (ف ۲۸) تو بولی کیا میں تمہیں بتا دوں ایسے  گھر والے  کہ تمہارے  اس بچہ کو پال دیں اور وہ اس کے  خیر خواہ ہیں (ف ۲۹)

۲۸               چنانچہ جس قدر دائیاں حاضر کی گئیں ان میں سے کسی کی چھاتی آپ نے مُنہ میں نہ لی اس سے ان لوگوں کو بہت فکر ہوئی کہ کہیں سے کوئی ایسی دائی میسّر آئے جس کا دودھ آپ پی لیں دائیوں کے ساتھ آپ کی ہمشیر بھی یہ حال دیکھنے چلی گئی تھیں اب انہوں نے موقع پایا۔

۲۹               چنانچہ وہ ان کی خواہش پر اپنی والدہ کو بلا لائیں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی گود میں تھے اور دودھ کے لئے روتے تھے فرعون آپ کو شفقت کے ساتھ بہلاتا تھا جب آپ کی والدہ آئیں اور آپ نے ان کی خوشبو پائی تو آپ کو قرار آیا اور آپ نے ان کا دودھ منہ میں لیا، فرعون نے کہا تو اس بچہ کی کون ہے کہ اس نے تیرے سوا کسی کے دودھ کو مُنہ بھی نہ لگایا ؟ انہوں نے کہا میں ایک عورت ہوں پاک صاف رہتی ہوں، میرا دودھ خوشگوار ہے، جسم خوشبودار ہے اس لئے جن بچوں کے مزاج میں نفاست ہوتی ہے وہ اور عورتوں کا دودھ نہیں لیتے ہیں، میرا دودھ پی لیتے ہیں، فرعون نے بچہ انہیں دیا اور دودھ پلانے پر انہیں مقرر کر کے فرزند کو اپنے گھر لے جانے کی اجازت دی چنانچہ آپ اپنے مکان پر لے آئیں اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا، اس وقت انہیں اطمینانِ کامل ہو گیا کہ یہ فرزندِ ارجمند ضرور نبی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ اس وعدہ کا ذکر فرماتا ہے۔

(۱۳) تو ہم نے  اسے  اس کی ماں کی طرف پھیرا  کہ ماں کی آنکھ ٹھنڈی ہو اور غم نہ  کھائے  اور جان لے  کہ اللہ  کا وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے  (ف ۳۰)

۳۰               اور شک میں رہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے پاس دودھ پینے کے زمانہ تک رہے اور اس زمانہ میں فرعون انہیں ایک اشرفی روز دیتا رہا دودھ چھوٹنے کے بعد آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس لے آئیں اور آپ وہاں پرورش پاتے رہے۔

(۱۴) اور جب اپنی جوانی کو پہنچا اور پورے  زور پر آیا (ف ۳۱) ہم نے  اسے  حکم اور علم عطا فرمایا (ف ۳۲) اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

۳۱               عمر شریف تیس سال سے زیادہ ہو گئی۔

۳۲               یعنی مصالحِ دین و دنیا کا علم۔

(۱۵) اور اس شہر میں داخل ہوا  (ف ۳۳) جس وقت شہر والے  دوپہر کے  خواب میں بے  خبر تھے  (ف ۳۴) تو اس میں دو مرد لڑتے  پائے، ایک موسیٰ،  کے  گروہ  سے  تھا (ف ۳۵) اور دوسرا  اس کے  دشمنوں سے  (ف ۳۶) تو وہ جو اس کے  گروہ سے  تھا (ف ۳۸) اس نے  موسیٰ سے  مدد مانگی، اس پر جو اس کے  دشمنوں سے  تھا، تو موسیٰ نے  اس کے  گھونسا مارا  (ف ۳۸)  تو اس کا کام تمام کر دیا (ف ۳۹)  کہا یہ کام شیطان کی طرف سے  ہوا  (ف ۴۰) بیشک  وہ دشمن ہے  کھلا گمراہ کرنے  والا۔

۳۳               وہ شہر یا تو منف تھا جو حدودِ مِصر میں ہے، اصل اس کی مافہ ہے زبانِ قبطی میں اس لفظ کے معنی ہیں تیس ۳۰ یہ پہلا شہر ہے جو طوفانِ حضرتِ نوح علیہ السلام کے بعد آباد ہوا اس سرزمین میں مِصر بن حام نے اقامت کی یہ اقامت کرنے والے کل تیس ۳۰ تھے اس لئے اس کا نام مافہ ہوا پھر اس کی عربی منف ہوئی یا وہ شہر حابین تھا جو مِصر سے دو فرسنگ کے فاصلہ پر تھا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ شہر عینِ شمس تھا۔ (جمل و خازن )۔

۳۴               اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پوشیدہ طور پر داخل ہونے کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام جوان ہوئے تو آپ نے حق کا بیان اور فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کا رد شروع کیا بنی اسرائیل کے لوگ آپ کی بات سنتے اور آپ کا اِتّباع کرتے آپ فرعونیوں کے دین کی ممانعت فرماتے شدہ شدہ اس کا چرچا ہوا اور فرعونی جستجو میں ہوئے اس لئے آپ جس بستی میں داخل ہوتے ایسے وقت داخل ہوتے جب وہاں کے لوگ غفلت میں ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دن عید کا تھا لوگ اپنے لہو و لعب میں مشغول تھے۔ (مدارک و خازن)۔

۳۵               بنی اسرائیل میں سے۔

۳۶               یعنی قبطی قومِ فرعون سے۔ یہ اسرائیلی پر جبر کر رہا تھا تاکہ اس پر لکڑیوں کا انبار لاد کر فرعون کے مطبخ میں لے جائے۔

۳۷               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے۔

۳۸               پہلے آپ نے قبطی سے کہا کہ اسرائیلی پر ظلم نہ کر اس کو چھوڑ دے لیکن وہ باز نہ آیا اور بدزبانی کرنے لگا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو اس ظلم سے روکنے کے لئے گھونسا مارا۔

۳۹               یعنی وہ مر گیا اور آپ نے اس کو ریت میں دفن کر دیا آپ کا ارادہ قتل کرنے کا نہ تھا۔

۴۰               یعنی اس قبطی کا اسرائیلی پر ظلم کرنا جو اس کی ہلاکت کا باعث ہوا۔ (خازن)۔

(۱۶) عرض کی، اے  میرے  رب! میں نے  اپنی جان پر زیادتی کی (ف ۴۱) تو  مجھے  بخش دے  تو رب نے  اسے  بخش دیا، بیشک وہی بخشنے  والا مہربان ہے۔

۴۱               یہ کلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بطریقِ تواضُع ہے کیونکہ آپ سے کوئی معصیت سرزد نہیں ہوئی اور انبیاء معصوم ہیں ان سے گناہ نہیں ہوتے۔ قطبی کا مارنا آپ کا دفعِ ظلم اور امدادِ مظلوم تھی یہ کسی ملّت میں بھی گناہ نہیں پھر بھی اپنی طرف تقصیر کی نسبت کرنا اور استغفار چاہنا یہ مقربین کا دستور ہی ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس میں تاخیر اولیٰ تھی اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ترکِ اولیٰ کو زیادتی فرمایا اور اس پر حق تعالیٰ سے مغفرت طلب کی۔

(۱۷) عرض کی اے  میرے  رب جیسا تو نے  مجھ پر احسان کیا تو اب (ف ۴۲) ہرگز میں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔

۴۲               یہ کرم بھی کر کہ مجھے فرعون کی صحبت اور اس کے یہاں رہنے سے بھی بچا کہ اس زمرہ میں شمار کیا جانا یہ بھی ایک طرح کا مدد گار ہونا ہے۔

(۱۸) تو صبح کی، اس شہر میں ڈرتے  ہوئے  اس انتظار میں کہ کیا ہوتا ہے  (ف ۴۳) جبھی دیکھا  کہ وہ جس نے  کل ان سے  مدد چاہی تھی فریاد کر رہا ہے  (ف ۴۴) موسیٰ نے  اس سے  فرمایا بیشک تو کھلا گمراہ ہے  (ف ۴۵)

۴۳               کہ خدا جانے اس قبطی کے مارے جانے کا کیا نتیجہ نکلے اور اس کی قوم کے لوگ کیا کریں۔

۴۴               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ فرعون کی قوم کے لوگوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ کسی بنی اسرائیل نے ہمارے ایک آدمی کو مار ڈالا ہے اس پر فرعون نے کہا کہ قاتل اور گواہوں کو تلاش کرو فرعونی گشت کرتے پھرتے تھے اور انہیں کوئی ثبوت نہیں ملتا تھا دوسرے روز جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پھر ایسا اتفاق پیش آیا کہ وہی بنی اسرائیل جس نے ایک روز پہلے ان سے مدد چاہی تھی آج پھر ایک فرعونی سے لڑ رہا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ان سے فریاد کرنے لگا تب حضرت۔

۴۵               مراد یہ تھی کہ روز لوگوں سے لڑتا ہے اپنے آپ کو بھی مصیبت و پریشانی میں ڈالتا ہے اور اپنے مددگاروں کو بھی کیوں ایسے موقعوں سے نہیں بچتا اور کیوں احتیاط نہیں کرتا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رحم آیا اور آپ نے چاہا کہ اس کو فرعونی کے پنجۂ ظلم سے رہائی دلائیں۔

(۱۹) تو جب موسیٰ نے  چاہا کہ اس پر گرفت کرے  جو ان دونوں کا دشمن ہے  (ف ۴۶) وہ بولا اے  موسیٰ کیا تم مجھے  ویسا ہی قتل کرنا چاہتے  ہو جیسا تم نے  کل ایک شخص کو قتل کر دیا، تم تو یہی چاہتے  ہو کہ زمین میں سخت گیر بنو اور اصلاح کرنا نہیں چاہتے  (ف ۴۷)

۴۶               یعنی فرعونی پر۔ تو اسرائیلی غلطی سے یہ سمجھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مجھ سے خفا ہیں مجھے پکڑنا چاہتے ہیں یہ سمجھ کر۔

۴۷               فرعونی نے یہ بات سنی اور جا کر فرعون کو اطلاع دی کہ کل کے فرعونی مقتول کے قاتل حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کا حکم دیا اور لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ڈھونڈھنے نکلے۔

(۲۰) اور شہر کے  پرلے  کنارے  سے  ایک شخص (ف ۴۸) دوڑ  تا  آیا، کہا اے  موسیٰ! بیشک  دربار والے  (ف ۴۹)  آپ کے  قتل کا  مشورہ کر رہے  ہیں تو نکل جایے  (ف ۵۰) میں آپ کا خیر خواہ ہوں (ف ۵۱)

۴۸               جس کو مومنِ آلِ فرعون کہتے ہیں یہ خبر سن کر قریب کی راہ سے۔

۴۹               فرعون کے۔

۵۰               شہر سے۔

۵۱               یہ بات خیر خواہی اور مصلحت اندیشی سے کہتا ہوں۔

(۲۱) تو اس شہر سے  نکلا  ڈرتا ہوا اس انتظار میں کہ اب کیا ہوتا ہے  عرض کی، اے  میرے  رب! مجھے  ستمگاروں سے  بچا لے  (ف ۵۲)

۵۲               یعنی قومِ فرعون سے۔

(۲۲) اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوا  (ف ۵۳) کہا قریب ہے  کہ میرا  رب مجھے  سیدھی راہ بتائے  (ف ۵۴)

۵۳               مدیَن وہ مقام ہے جہاں حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف رکھتے تھے اس کو مدیَن ابنِ ابراہیم کہتے ہیں مِصر سے یہاں تک آٹھ روز کی مسافت ہے یہ شہر فرعون کے حدودِ قلمرو سے باہر تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا، نہ کوئی سواری ساتھ تھی، نہ توشہ، نہ کوئی ہمراہی، راہ میں درختوں کے پتوں اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی۔

۵۴               چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ کو مدیَن تک لے گیا۔

(۲۳) اور جب مدین کے  پانی پر آیا (ف ۵۵) وہاں لوگوں کے  ایک گروہ کو دیکھا  کہ اپنے  جانوروں کو پانی پلا رہے  ہیں، اور ان سے  اس طرف (ف ۵۶) دو عورتیں دیکھیں کہ اپنے  جانوروں کو روک رہی ہیں  (ف ۵۷) موسیٰ نے  فرمایا تم دونوں کا کیا حال ہے  (ف ۵۸) وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتے  جب تک سب چرواہے  پلا کر پھیر نہ لے  جائیں (ف ۵۹) اور ہمارے  باپ بہت بوڑھے  ہیں (ف ۶۰)

۵۵               یعنی کنوئیں پر جس سے وہاں کے لوگ پانی لیتے اور اپنے جانوروں کو سیراب کرتے تھے یہ کنواں شہر کے کنارے تھا۔

۵۶               یعنی مَردوں سے علیٰحدہ۔

۵۷               اس انتظار میں کہ لوگ فارغ ہوں اور کنواں خالی ہو کیونکہ کنوئیں کو قوی اور زورآور لوگوں نے گھیر رکھا تھا ان کے ہجوم میں عورتوں سے ممکن نہ تھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلا سکتیں۔

۵۸               یعنی اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلاتیں۔

۵۹               کیونکہ نہ ہم مَردوں کے انبوہ میں جا سکتے ہیں نہ پانی کھینچ سکتے ہیں جب یہ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر واپس ہو جاتے ہیں تو حوض میں جو پانی بچ رہتا ہے وہ ہم اپنے جانوروں کو پلا لیتے ہیں۔

۶۰               ضعیف ہیں خود یہ کام نہیں کر سکتے اس لئے جانوروں کو پانی پلانے کی ضرورت ہمیں پیش آئی جب موسیٰ علیہ السلام نے ان کی باتیں سنیں تو آپ کو رقت آئی اور رحم آیا اور وہیں دوسرا کنواں جو اس کے قریب تھا اور ایک بہت بھاری پتھّر اس پر ڈھکا ہوا تھا جس کو بہت سے آدمی مل کر ہٹا سکتے تھے آپ نے تنہا اس کو ہٹا دیا۔

(۲۴) تو موسیٰ نے  ان دونوں کے  جانوروں کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پھرا  (ف ۶۱) عرض کی اے  میرے  رب! میں اس کھانے  کا جو تو میرے  لیے  اتارے  محتاج ہوں (ف ۶۲)

۶۱               دھوپ اور گرمی کی شدت تھی اور آپ نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا تھا بھوک کا غلبہ تھا اس لئے آرام حاصل کرنے کی غرض سے ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ گئے اور بارگاہِ الٰہی میں۔

۶۲               حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کھانا ملاحظہ فرمائے پورا ہفتہ گزر چکا تھا اس درمیان میں ایک لقمہ نہ کھایا تھا شکمِ مبارک پُشْتِ اقدس سے مل گیا تھا اس حالت میں اپنے ربّ سے غذا طلب کی اور باوجود یکہ بارگاہِ الٰہی میں نہایت قرب و منزلت رکھتے ہیں اس عجز و انکسار کے ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا طلب کیا اور جب وہ دونوں صاحب زادیاں اس روز بہت جلد اپنے مکان واپس ہو گئیں تو ان کے والد ماجد نے فرمایا کہ آج اس قدر جلد واپس آ جانے کا کیا سبب ہوا ؟ عرض کیا کہ ہم نے ایک نیک مرد پایا اس نے ہم پر رحم کیا اور ہمارے جانوروں کو سیراب کر دیا اس پر ان کے والد صاحب نے ایک صاحبزادی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس مردِ صالح کو میرے پاس بلا لاؤ۔

(۲۵) تو ان دونوں میں سے  ایک اس کے  پاس آئی شرم سے  چلتی ہوئی (ف ۶۳) بولی میرا باپ تمہیں بلاتا ہے  کہ تمہیں مزدوری دے  اس کی جو تم نے  ہمارے  جانوروں کو پانی پلایا ہے  (ف ۶۴) جب موسیٰ اس کے  پاس آیا اور  اسے  باتیں کہہ سنائیں (ف ۶۵) اس نے  کہا ڈریے  نہیں، آپ بچ گئے  ظالموں سے   (ف ۶۶)

۶۳               چہرہ آستین سے ڈھکے جسم چھپائے یہ بڑی صاحبزادی تھیں ان کا نام صفوراء ہے اور ایک قول یہ ہے کہ وہ چھوٹی صاحبزادی تھیں۔

۶۴               حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اجرت لینے پر تو راضی نہ ہوئے لیکن حضرت شعیب علیہ السلام کی زیارت اور ان کی ملاقات کے قصد سے چلے اور ان صاحبزادی صاحبہ سے فرمایا کہ آپ میرے پیچھے رہ کر رستہ بناتی جائیے یہ آپ نے پردہ کے اہتمام کے لئے فرمایا اور اس طرح تشریف لائے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے تو کھانا حاضر تھا حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا بیٹھئے کھانا کھائیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے منظور نہ کیا اور اعوذ باللہ فرمایا حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کیا سبب کھانے میں کیوں عذر ہے کیا آپ بھوک نہیں ہے ؟ فرمایا کہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ کھانا میرے اس عمل کا عوض نہ ہو جائے جو میں نے آپ کے جانوروں کو پانی پلا کر انجام دیا ہے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں کہ عملِ خیر پر عوض لینا قبول نہیں کرتے حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا اے جوان ایسا نہیں ہے یہ کھانا آپ کے عمل کے عوض میں نہیں بلکہ میری اور میرے آباؤ اجداد کی عادت ہے کہ ہم مہمان خوانی کیا کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں تو آپ بیٹھے اور آپ نے کھانا تناول فرمایا۔

۶۵               اور تمام واقعات و احوال جو فرعون کے ساتھ گزرے تھے اپنی ولادت شریف سے لے کر قبطی کے قتل اور فرعونیوں کے آپ کے درپے جان ہونے تک کے سب حضرت شعیب علیہ السلام سے بیان کر دیئے۔

۶۶               یعنی فرعون اور فرعونیوں سے کیونکہ یہاں مدیَن میں فرعون کی حکومت و سلطنت نہیں۔ مسائل : اس سے ثابت ہوا کہ ایک شخص کی خبر پر عمل کرنا جائز ہے خواہ وہ غلام ہو یا عورت ہو اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اجنبیہ کے ساتھ ورع و احتیاط کے ساتھ چلنا جائز ہے۔ (مدارک)۔

(۲۶) ان میں کی ایک بولی (ف ۶۷) اے  میرے  باپ! ان کو نوکر رکھ لو (ف ۶۸) بیشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور اور امانتدار ہو (ف ۶۹)

۶۷               جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے کے واسطے بھیجی گئی تھی بڑی یا چھوٹی۔

۶۸               کہ یہ ہماری بکریاں چَرایا کریں اور یہ کام ہمیں نہ کرنا پڑے۔

۶۹               حضرت شعیب علیہ السلام نے صاحبزادی سے دریافت کیا کہ تمہیں ان کی قوت و امانت کا کیا علم ؟ انہوں نے عرض کیا کہ قوت تو اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے تنہا کنوئیں پر سے وہ پتھّر اٹھا لیا جس کو دس سے کم آدمی نہیں اٹھا سکتے اور امانت اس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ہمیں دیکھ کر سر جھکا لیا اور نظر نہ اٹھائی اور ہم سے کہا کہ تم پیچھے چلو ایسا نہ ہو کہ ہوا سے تمہارا کپڑا اڑے اور بدن کا کوئی حصّہ نمودار ہو یہ سُن کر حضرت شعیب علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔

(۲۷) کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے  ایک تمہیں بیاہ دوں (ف ۷۰) اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو (ف ۷۱) پھر اگر پورے  دس برس کر لو تو تمہاری طرف سے  ہے  (ف ۷۲) اور میں تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا (ف ۷۳) قریب ہے  انشاء اللہ تم مجھے  نیکوں میں پاؤ گے  (ف ۷۴)

۷۰               یہ وعدۂ نکاح تھا الفاظِ عقد نہ تھے کیونکہ مسئلہ عقد کے لئے صیغۂ ماضی ضروری ہے مسئلہ اور ایسے ہی منکوحہ کی تعیین بھی ضروری ہے۔

۷۱               مسئلہ : آزاد مرد کا آزاد عورت سے نکاح کسی دوسرے آزاد شخص کی خدمت کرنے یا بکریاں چَرانے کو مَہر قرار دے کر جائز ہے۔ مسئلہ : اور اگر آزاد مرد نے کسی مدّت تک عورت کی خدمت کرنے کو یا قرآن کی تعلیم کو مَہر قرار دے کر نکاح کیا تو نکاح جائز ہے اور یہ چیزیں مَہر نہ ہو سکیں گی بلکہ اس صورت میں مہرِ مثل لازم ہو گا۔ (ہدایہ و احمدی)۔

۷۲               یعنی یہ تمہاری مہربانی ہو گی اور تم پر واجب نہ ہو گا۔

۷۳               کہ تم پر پورے دس سال لازم کر دوں۔

۷۴               تو میری طرف سے حسنِ معاملت اور وفائے عہد ہی ہو گی اور ان شاء اللہ تعالیٰ آپ نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و مدد پر بھروسہ کرنے کے لئے فرمایا۔

(۲۸) موسیٰ نے  کہا یہ  میرے  اور آپ کے  درمیان اقرار ہو چکا، میں ان دونوں میں جو میعاد پوری  کر دوں (ف ۷۵) تو مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں، اور ہمارے   اس کہے  پر اللہ کا ذمہ ہے  (ف ۷۶)

۷۵               خواہ دس سال کی یا آٹھ سال کی۔

۷۶               پھر جب آپ کا عقد ہو چکا تو حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی کو حکم دیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک عصاء دیں جس سے وہ بکریوں کی نگہبانی کریں اور درندوں کو دفع کریں حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس انبیاء علیہم السلام کے کئی عصاء تھے صاحبزادی صاحبہ کا ہاتھ حضرت آدم علیہ السلام کے عصاء پر پڑا جو آپ جنّت سے لائے تھے اور انبیاء اس کے وارث ہوتے چلے آئے تھے اور وہ حضرت شعیب علیہ السلام کو پہنچا تھا حضرت شعیب علیہ السلام نے یہ عصاء حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا۔

(۲۹) پھر جب موسیٰ نے  اپنی میعاد پوری کر دی (ف ۷۷) اور اپنی بی بی کو لے  کر چلا (ف ۷۸) طُور کی طرف سے  ایک آگ دیکھی (ف ۷۹) اپنی گھر وا لی سے  کہا تم ٹھہرو مجھے  طُور کی طرف سے  ایک آگ نظر پڑی ہے  شاید میں وہاں سے  کچھ خبر لاؤ ں (ف ۸۰) یا تمہارے  لیے  کوئی آ  گ کی چن گاری لاؤں کہ تم تاپو۔

۷۷               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بڑی میعاد یعنی دس سال پورے کئے پھر حضرت شعیب علیہ السلام سے مِصر کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی آپ نے اجازت دی۔

۷۸               ان کے والد کی اجازت سے مِصر کی طرف۔

۷۹               جب کہ آپ جنگل میں تھے اندھیری رات تھی، سردی شدّت کی پڑ رہی تھی، راستہ گم ہو گیا تھا اس وقت آپ نے آگ دیکھ کر۔

۸۰               راہ کی کہ کس طرف ہے۔

(۳۰) پھر جب آگ کے  پاس حاضر ہوا ندا کی گئی میدان کے  دہنے  کنارے  سے  (ف ۸۱)  برکت والے  مقام میں پیڑ سے  (ف ۸۲) کہ اے  موسیٰ! بیشک میں ہی ہوں اللہ رب سارے  جہان کا (ف ۸۳)

۸۱               جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دستِ راست کی طرف تھا۔

۸۲               وہ درخت عناب کا تھا یا عوسج کا (عوسج ایک خاردار درخت ہے جو جنگلوں میں ہوتا ہے)۔

۸۳               جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سرسبز درخت میں آگ دیکھی تو جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا یہ کسی کی قدرت نہیں اور بے شک اس کلام کا اللہ تعالیٰ ہی متکلم ہے۔ یہ بھی منقول ہے کہ یہ کلام حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صرف گوش مبارک ہی سے نہیں بلکہ اپنے جسمِ اقدس کے ہر ہر جزو سے سُنا۔

(۳۱) اور یہ کہ ڈال دے  اپنا عصا (ف ۸۴) پھر جب موسیٰ نے  اسے  دیکھا لہراتا ہوا گویا سانپ ہے   پیٹھ پھیر کر چلا اور مڑ کر نہ دیکھا (ف ۸۵) اے  موسیٰ سامنے   آ اور ڈر نہیں، بیشک تجھے   امان ہے  (ف ۸۶)

۸۴               چنانچہ آپ نے عصا ڈال دیا وہ سانپ بن گیا۔

۸۵               تب ندا کی گئی۔

۸۶               کوئی خطرہ نہیں۔

(۳۲) اپنا ہاتھ (ف ۸۷) گریبان میں ڈال نکلے  گا سفید چمکتا  بے  عیب (ف ۸۸) اور اپنا ہاتھ سینے  پر رکھ لے  خوف دور کرنے  کو (ف ۸۹) تو  یہ دو حُجتیں ہیں تیرے  رب کی (ف ۹۰) فرعون اور اس کے  درباریوں کی طرف، بیشک وہ بے  حکم لوگ ہیں۔

۸۷               اپنی قمیص کے۔

۸۸               شعاعِ آفتاب کی طرح تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا دستِ مبارک گریبان میں ڈال کر نکالا تو اس میں ایسی تیز چمک تھی جس سے نگاہیں جھپکیں۔

۸۹               تاکہ ہاتھ اپنی اصلی حالت پر آئے اور خوف رفع ہو جائے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سینہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیا تاکہ جو خوف سانپ دیکھنے کے وقت پیدا ہو گیا تھا رفع ہو جائے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جو خوف زدہ اپنا ہاتھ سینہ پر رکھے گا اس کا خوف دفع ہو جائے گا۔

۹۰               یعنی عصا اور یدِ بیضا تمہاری رسالت کی برہانیں ہیں۔

(۳۳) عرض کی اے  میرے  رب! میں نے  ان میں ایک جان  مار ڈالی ہے  (ف ۹۱) تو ڈرتا ہوں کہ مجھے  قتل کر دیں۔

۹۱               یعنی قبطی میرے ہاتھ سے مارا گیا ہے۔

(۳۴) اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان مجھ سے  زیادہ صاف ہے  تو اسے  میری مدد کے  لیے  رسول بنا، کہ میری تصدیق کرے   مجھے  ڈر ہے  کہ وہ (ف ۹۲) مجھے  جھٹلائیں گے۔

۹۲               یعنی فرعون اور اس کی قوم۔

(۳۵)  فرمایا، قریب ہے  کہ ہم تیرے  بازو کو تیرے  بھائی سے  قوت دیں گے  اور تم دونوں کو غلبہ عطا فرمائیں گے  تو وہ  تم دونوں کا کچھ نقصان نہ کر سکیں گے، ہماری نشانیوں کے  سبب تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کریں گے  غالب آؤ گے  (ف ۹۳)

۹۳               فرعون اور اس کی قوم پر۔

(۳۶) پھر جب موسیٰ ان کے  پاس ہماری روشن نشانیاں لایا بولے  یہ تو نہیں  مگر بناوٹ کا جادو  (ف ۹۴) اور ہم نے  اپنے  اگلے  باپ داداؤں میں ایسا نہ سنا  (ف ۹۵)

۹۴               ان بدنصیبوں نے معجزات کا انکار کر دیا اور ان کو جادو بتا دیا مطلب یہ تھا کہ جس طرح تمام انواعِ سحر باطل ہوتے ہیں اسی طرح معاذ اللہ یہ بھی ہے۔

۹۵               یعنی آپ سے پہلے ایسا کبھی نہیں کیا گیا یا یہ معنی ہیں کہ جو دعوت آپ ہمیں دیتے ہیں وہ ایسی نئی ہے کہ ہمارے آباء و  اجداد میں بھی ایسی نہیں سنی گئی تھی۔

(۳۷) اور موسیٰ نے  فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے  جو اس کے  پاس سے  ہدایت لایا (ف ۹۶) اور جس کے  لیے  آخرت کا گھر ہو گا (ف ۹۷) بیشک ظالم مراد کو نہیں پہنچتے  (ف ۹۸)

۹۶               یعنی جو حق پر ہے اور جس کو اللہ تعالیٰ نے نبوّت کے ساتھ سرفراز فرمایا۔

۹۷               اور وہ وہاں کی نعمتوں اور رحمتوں کے ساتھ نوازا جائے گا۔

۹۸               یعنی کافِروں کو آخرت کی فلاح میسّر نہیں۔

(۳۸) اور فرعون  بولا، اے  درباریو! میں تمہارے  لیے  اپنے  سوا  کوئی خدا نہیں جانتا تو اے  ہامان! میرے  لیے  گارا پکا کر (ف ۹۹) ایک محل بنا (ف ۱۰۰) کہ شاید میں موسیٰ کے  خدا کو جھانک  آؤں (ف ۱۰۱)  اور بیشک میرے  گمان میں تو وہ (ف ۱۰۲) جھوٹا ہے  (ف ۱۰۳)

۹۹               اینٹ تیار کر۔کہتے ہیں کہ یہی دنیا میں سب سے پہلے اینٹ بنانے والا ہے یہ صنعت اس سے پہلے نہ تھی۔

۱۰۰             نہایت بلند۔

۱۰۱             چنانچہ ہامان نے ہزارہا کاریگر اور مزدور جمع کئے اینٹیں بنوائیں اور عمارتی سامان جمع کر کے اتنی بلند عمارت بنوائی کہ دنیا میں اس کے بر ابر کوئی عمارت بلند نہ تھی فرعون نے یہ گمان کیا کہ (معاذاللہ) اللہ تعالیٰ کے لئے بھی مکان ہے اور وہ جسم ہے کہ اس تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہو گا۔

۱۰۲             یعنی موسیٰ علیہ السلام۔

۱۰۳             اپنے اس دعویٰ میں کہ اس کا ایک معبود ہے جس نے اس کو اپنا رسول بنا کر ہماری طرف بھیجا ہے۔

(۳۹)  اور اس نے   اور اس کے  لشکریوں نے   زمین میں بے  جا بڑائی چاہی (ف ۱۰۴) اور سمجھے  کہ انہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔

۱۰۴             اور حق کو نہ مانا اور باطل پر رہے۔

(۴۰) تو ہم نے  اسے  اور اس کے  لشکر کو پکڑ کر  دریا میں پھینک  دیا (ف ۱۰۵) تو دیکھو کیسا انجام ہوا ستمگاروں کا۔

۱۰۵             اور سب غرق ہو گئے۔

(۴۱) اور انہیں ہم نے  (ف ۱۰۶) دوزخیوں کا پیشوا بنایا کہ آگ کی طرف بلاتے  ہیں (ف ۱۰۷) اور قیامت کے  دن ان کی مدد نہ ہو گی۔

۱۰۶             دنیا میں۔

۱۰۷             یعنی کُفر و معاصی کی دعوت دیتے ہیں جس سے عذابِ جہنّم کے مستحق ہوں اور جو ان کی اطاعت کرے جہنّمی ہو جائے۔

(۴۲) اور اس دنیا میں ہم نے  ان کے  پیچھے  لعنت لگائی (ف ۱۰۸) اور قیامت کے  دن ان کا برا ہے۔

۱۰۸             یعنی رسوائی اور رحمت سے دوری۔

(۴۳) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی (ف ۱۰۹) بعد اس کے  کہ اگلی سنگتیں (قومیں ) (ف ۱۱۰) ہلاک فرما دیں جس میں لوگوں کے  دل کی آنکھیں کھولنے  وا لی باتیں اور ہدایت اور رحمت تاکہ وہ نصیحت مانیں۔

۱۰۹             یعنی توریت۔

۱۱۰             مثل قومِ نوح و عاد و ثمود وغیرہ کے۔

(۴۴) اور  تم (ف ۱۱۱) طور کی جانب مغرب میں نہ تھے  (ف ۱۱۲) جبکہ ہم نے  موسیٰ کو رسالت کا حکم بھیجا (ف ۱۱۳) اور اس وقت تم حاضر نہ تھے۔

۱۱۱             اے سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۱۱۲             وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا میقات تھا۔

۱۱۳             اور ان سے کلام فرمایا اور انہیں مقرب کیا۔

(۴۵) مگر ہوا یہ کہ ہم نے  سنگتیں پیدا کیں (ف ۱۱۴)  کہ ان پر زمانہ دراز گزرا (ف ۱۱۵) اور نہ تم اہلِ مدین میں مقیم تھے  ان پر ہماری آیتیں پڑھتے  ہوئے ، ہاں ہم رسول بنانے  والے  ہوئے  (ف ۱۱۶)

۱۱۴             یعنی بہت سی اُمّتیں بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کے۔

۱۱۵             تو وہ اللہ کا عہد بھول گئے اور انہوں نے اس کی فرمانبرداری ترک کی اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم سے سیدِ عالَم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں اور آپ پر ایمان لانے کے متعلق عہد لئے تھے جب دراز زمانہ گزرا اور اُمّتوں کے بعد اُمّتیں گزرتی چلی گئیں تو وہ لوگ ان عہدوں کو بھول گئے اور اس کی وفا ترک کر دی۔

۱۱۶             تو ہم نے آپ کو علم دیا اور پہلوں کے حالات پر مطّلع کیا۔

(۴۶) اور نہ تم طور کے  کنارے  تھے  جب ہم نے  ندا فرمائی (ف ۱۱۷) ہاں تمہارے  رب کی مہر ہے  (کہ تمہیں غیب کے  علم دیے )  (ف ۱۱۸) کہ تم ایسی قوم کو ڈر سناؤ جس کے  پاس تم سے  پہلے  کوئی ڈر سنانے  والا  نہ آیا (ف ۱۱۹) یہ امید کرتے  ہوئے  کہ ان کو نصیحت ہو۔

۱۱۷             حضرت موسیٰ علیہ السلام کو توریت عطا فرمانے کے بعد۔

۱۱۸             جن سے تم ان کے احوال بیان فرماتے ہو۔ آپ کا ان امور کی خبر دینا آپ کی نبوّت کی ظاہر دلیل ہے۔

۱۱۹             اس قوم سے مراد اہلِ مکّہ ہیں جو زمانۂ فِترۃ میں تھے جو حضرت سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان پانچ سو پچاس برس کی مدّت کا ہے۔

(۴۷) اور اگر نہ ہوتا کہ کبھی پہنچتی انہیں کوئی مصیبت (ف ۱۲۰) اس کے  سبب جو ان کے  ہاتھوں نے  آگے  بھیجا (ف ۱۲۱) تو کہتے، اے  ہمارے  رب! تو نے  کیوں نہ بھیجا ہماری  طرف کوئی رسول کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے  اور ایمان لاتے  (ف ۱۲۲)

۱۲۰             عذاب و سزا۔

۱۲۱             یعنی جو کُفر و عصیان انہوں نے کیا۔

۱۲۲             معنیٰ آیت کے یہ ہیں کہ رسولوں کا بھیجنا ہی الزامِ حُجّت کے لئے ہے کہ انہیں یہ عذر کرنے کی گنجائش نہ ملے کہ ہمارے پاس رسول نہیں بھیجے گئے اس لئے گمراہ ہو گئے اگر رسول آتے تو ہم ضرور مطیع ہوتے اور ایمان لاتے۔

(۴۸)  پھر جب ان کے  پاس حق آیا  (ف ۱۲۳) ہماری طرف سے  بولے  (ف ۱۲۴)  انہیں کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا (ف ۱۲۵) کیا اس کے  منکر نہ ہوئے  تھے  جو پہلے  موسیٰ کو دیا گیا (ف ۱۲۶) بولے   دو جادو ہیں ایک دوسرے  کی پشتی (امداد) پر،  اور بولے  ہم ان دونوں کے  منکر ہیں (ف ۱۲۷)

۱۲۳             یعنی سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۱۲۴             مکّہ کے کُفّار۔

۱۲۵             یعنی انہیں قرآنِ کریم یکبارگی کیوں نہیں دیا گیا جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پوری توریت ایک ہی بار میں عطا کی گئی تھی یا یہ معنی ہیں کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عصا اور یدِ بیضا جیسے معجزات کیوں نہ دیئے گئے اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔

۱۲۶             یہود نے قریش کو پیغام بھیجا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سے معجزات طلب کریں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ جن یہود نے یہ سوال کیا ہے کیا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اور جو انہیں اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اس کے منکر نہ ہوئے۔

۱۲۷             یعنی توریت کے بھی اور قرآن کے بھی ان دونوں کو انہوں نے جادو کہا اور ایک قراءت میں ساحران ہے اس تقدیر پر معنیٰ یہ ہوں گے کہ دونوں جادو گر ہیں یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام۔ شانِ نُزول : مشرکینِ مکّہ نے یہودِ مدینہ کے سرداروں کے پاس قاصد بھیج کر دریافت کیا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت کتبِ سابقہ میں کوئی خبر ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں حضور کی نعت و صفت ان کی کتاب توریت میں موجود ہے جب یہ خبر قریش کو پہنچی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام و سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت کہنے لگے کہ وہ دونوں جادو گر ہیں ان میں ایک دوسرے کا معین و مددگار ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

(۴۹) تم فرماؤ تو اللہ کے  پاس سے  کوئی کتاب لے  آؤ جو ان دونوں کتابوں سے  زیادہ ہدایت کی ہو (ف ۱۲۸) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم سچے  ہو (ف ۱۲۹)

۱۲۸             یعنی توریت و قرآن سے۔

۱۲۹             اپنے اس قول میں کہ یہ دونوں جادو یا جادوگر ہیں اس میں تنبیہ ہے کہ وہ اس کے مثل کتاب لانے سے عاجزِ مَحض ہیں چنانچہ آگے ارشاد فرمایا جاتا ہے۔

(۵۰) پھر اگر وہ یہ تمہارا فرمانا قبول نہ کریں (ف ۱۳۰) تو جان لو کہ (ف ۱۳۱) بس وہ اپنی خواہشو ں ہی کے  پیچھے  ہیں، اور اس سے  بڑھ کر گمراہ کون جو اپنی خواہش کی پیروی کرے  اللہ کی ہدایت سے  جدا، بیشک اللہ ہدایت ہیں فرماتا ظالم لوگوں کو۔

۱۳۰             اور ایسی کتاب نہ لا سکیں۔

۱۳۱             ان کے پاس کوئی حُجّت نہیں ہے۔

(۵۱) اور بیشک ہم نے  ان کے  لیے  بات مسلسل اتاری (ف ۱۳۲) کہ وہ دھیان کریں۔

۱۳۲             یعنی قرآنِ کریم ان کے پاس پیاپے اور مسلسل آیا وعد اور وعید اور قصص اور عبرتیں اور موعظتیں تاکہ سمجھیں اور ایمان لائیں۔

(۵۲) جن کو ہم نے  اس سے  پہلے  (ف ۱۳۳) کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے  ہیں۔

۱۳۳             یعنی قرآن شریف سے یا سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پہلے۔ شانِ نُزول : یہ آیت مؤمنینِ اہلِ کتاب حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے حق میں نازِل ہوئی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ ان اہلِ انجیل کے حق میں نازِل ہوئی جو حبشہ سے آ کر سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لائے یہ چالیس حضرات تھے جو حضرت جعفر بن ابی طالب کے ساتھ آئے جب انہوں نے مسلمانوں کی حاجت اور تنگیِ معاش دیکھی تو بارگاہِ رسالت میں عرض کیا کہ ہمارے پاس مال ہیں حضور اجازت دیں تو ہم واپس جا کر اپنے مال لے آئیں اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کریں حضور نے اجازت دی اور وہ جا کر اپنے مال لے آئے اور ان سے مسلمانوں کی خدمت کی۔ ان کے حق میں یہ آیات مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ  تک نازِل ہوئیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیتیں اسی۸۰ اہلِ کتاب کے حق میں نازِل ہوئیں جن میں چالیس نجران کے اور بتّیس حبشہ کے اور آٹھ شام کے تھے۔

(۵۳) اور جب ان پر یہ آیتیں پڑھی جاتی ہیں کہتے  ہیں ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی حق ہے  ہمارے  رب کے  پا س سے  ہم اس سے  پہلے  ہی گردن رکھ چکے  تھے  (ف ۱۳۴)

۱۳۴             یعنی نُزولِ قرآن سے قبل ہی ہم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان رکھتے تھے کہ وہ نبیِ برحق ہیں کیونکہ توریت و انجیل میں ان کا ذکر ہے۔

(۵۴) ان کو ان کا اجر  دوبالا  دیا جائے  گا (ف ۱۳۵) بدلہ ان کے  صبر کا (ف ۱۳۶) اور وہ بھلائی سے  برائی کو ٹالتے  ہیں (ف ۱۳۷) اور ہمارے  دیے  سے  کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے  ہیں (ف ۱۳۸)

۱۳۵             کیونکہ وہ پہلی کتاب پر بھی ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی۔

۱۳۶             کہ انہوں نے اپنے دین پر بھی صبر کیا اور مشرکین کی ایذا پر بھی۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تین قِسم کے لوگ ایسے ہیں جنہیں دو اجر ملیں گے ایک اہلِ کتاب کا وہ شخص جو اپنے نبی پر بھی ایمان لایا اور سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھی دوسرا وہ غلام جس نے اللہ کا حق بھی ادا کیا اور مولا کا بھی تیسرا وہ جس کے پاس باندی تھی جس سے قربت کرتا تھا پھر اس کو اچھی طرح ادب سکھایا اچھی تعلیم دی اور آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا اس کے لئے بھی دو اجر ہیں۔

۱۳۷             طاعت سے معصیت کو اور حلم سے ایذاء کو۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ توحید کی شہادت یعنی اشہد ان لا الہ الا اللہ سے شرک کو۔

۱۳۸             طاعت میں یعنی صدقہ کرتے ہیں۔

(۵۵) اور جب بیہودہ بات سنتے  ہیں اس سے  تغافل کرتے  ہیں (ف ۱۳۹) اور کہتے  ہیں ہمارے  لیے  ہمارے  عمل اور تمہارے  لیے  تمہارے  عمل، بس تم پر  سلام  (ف ۱۴۰) ہم جاہلوں کے  غرضی (چاہنے  والے ) نہیں (ف ۱۴۱) (۵۶) بیشک یہ نہیں کہ تم جسے  اپنی طرف سے  چاہو ہدایت کر دو  ہاں اللہ ہدایت فرماتا ہے  جسے  چاہے، اور وہ خوب جانتا ہے  ہدایت والوں کو (ف ۱۴۲)

۱۳۹             مشرکین مکّہ مکرّمہ کے ایمانداروں کو ان کا دین ترک کرنے اور اسلام قبول کرنے پر گالیاں دیتے اور بُرا کہتے یہ حضرات ان کی بےہودہ باتیں سُن کر اعراض فرماتے۔

۱۴۰             یعنی ہم تمہاری بےہودہ باتوں اور گالیوں کے جواب میں گالیاں نہ دیں گے۔

۱۴۱             ان کے ساتھ میل جول نشست و برخاست نہیں چاہتے ہمیں جاہلانہ حرکات گوارا نہیں  نُسِخَ ذٰلِکَ بِالْقِتَالِ۔

۱۴۲             جن کے لئے اس نے ہدایت مقدر فرمائی جو دلائل سے پند پذیر ہونے اور حق بات ماننے والے ہیں۔ شانِ نُزول : مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ یہ آیت ابوطالب کے حق میں نازِل ہوئی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ان کی موت کے وقت فرمایا اے چچا کہو  لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ  میں تمہارے لئے روزِ قیامت شاہد ہوں گا انہوں نے کہا کہ اگر مجھے قریش کے عار دینے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرتا اس کے بعد انہوں نے یہ شعر پڑھے 

وَلَقَدْ عَلِمْتُ بِاَنَّ دِیْنَ مُحَمَّدٍ         مِنْ خَیْرِ اَدْیَانِ الْبَرِیَّۃِ دِیْناً         لَوْ لَا الْمَلَامَۃُ اَوْ حِذَارُمُسَبَّۃٍ           لَوَجَدْ تَّنِیْ سَمُحًا بِذَاکَ مُبِیْنًا 

یعنی میں یقین سے جانتا ہوں کہ محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دین تمام جہانوں کے دینوں سے بہتر ہے اگر ملامت و بد گوئی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نہایت صفائی کے ساتھ اس دین کو قبول کرتا اس کے بعد ابوطالب کا انتقال ہو گیا۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی۔

(۵۷)  اور کہتے  ہیں اگر ہم تمہارے  ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو لوگ ہمارے  ملک سے  ہمیں اچک لے  جائیں گے  (ف ۱۴۳) کیا ہم نے  انہیں جگہ نہ دی امان وا لی حرم میں (ف ۱۴۴) جس کی طرف ہر چیز کے  پھل لائے  جاتے  ہیں ہمارے  پاس کی روزی لیکن ان میں اکثر کو علم نہیں (ف ۱۴۵)

۱۴۳             یعنی سرزمینِ عرب سے ایک دم نکال دیں گے۔ شانِ نُزول : یہ آیت حارث بن عثمان بن نوفل بن عبد مناف کے حق میں نازِل ہوئی اس نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ یہ تو ہم یقین سے جانتے ہیں کہ جو آپ فرماتے ہیں وہ حق ہے لیکن اگر ہم آپ کے دین کا اِتّباع کریں تو ہمیں ڈر ہے کہ عرب کے لوگ ہمیں شہر بدر کر دیں گے اور ہمارے وطن میں نہ رہنے دیں گے۔ اس آیت میں اس کا جواب دیا گیا۔

۱۴۴             جہاں کے رہنے والے قتل و غارت سے امن میں ہیں اور جہاں جانوروں اور سبزوں تک کو امن ہے۔

۱۴۵             اور وہ اپنی جہالت سے نہیں جانتے کہ یہ روزی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اگر یہ سمجھ ہوتی تو جانتے کہ خوف و امن بھی اسی کی طرف سے ہے اور ایمان لانے میں شہر بدر کئے جانے کا خوف نہ کرتے۔

(۵۸) اور کتنے  شہر ہم نے  ہلاک کر دیے  جو اپنے  عیش پر اترا گئے  تھے  (ف ۱۴۶) تو یہ ہیں ان کے  مکان (ف ۱۴۷) کہ ان کے  بعد ان میں سکونت نہ ہوئی مگر کم  (ف ۱۴۸) اور ہمیں وارث ہیں (ف ۱۴۹)

۱۴۶             اور انہوں نے طغیان اختیار کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی روزی کھاتے اور پوجتے بُتوں کو اہلِ مکّہ کو ایسی قوم کے خراب انجام سے خوف دلایا جاتا ہے جن کا حال ان کی طرح تھا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں پاتے اور شکر نہ کرتے ان نعمتوں پر اِتراتے وہ ہلاک کر دیئے گئے۔

۱۴۷             جن کے آثار باقی ہیں اور عرب کے لوگ اپنے سفروں میں انہیں دیکھتے ہیں۔

۱۴۸             کہ کوئی مسافر یا رہرو ان میں تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جاتا ہے پھر خالی پڑے رہتے ہیں۔

۱۴۹             ان مکانوں کے یعنی وہاں کے رہنے والے ایسے ہلاک ہوئے کہ ان کے بعد ان کا کوئی جانشین باقی نہ رہا اب اللہ کے سوا ان مکانوں کا کوئی وارث نہیں خَلق کی فنا کے بعد وہی سب کا وارث ہے۔

(۵۹) اور تمہارا رب شہروں کو ہلاک نہیں کرتا جب تک ان کے  اصل مرجع میں رسول نہ بھیجے  (ف ۱۵۰) جو ان پر ہماری آیتیں پڑھے  (ف ۱۵۱) اور ہم شہروں کو ہلاک نہیں کرتے  مگر جبکہ ان کے  ساکن ستمگار ہوں (ف ۱۵۲)

۱۵۰             یعنی مرکزی مقام میں۔ بعض مفسِّرین نے کہا کہ اُم القریٰ سے مراد مکّہ مکرّمہ ہے اور رسول سے مراد خاتَمِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

۱۵۱             اور انہیں تبلیغ کرے اور خبر دے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں گے تو ان پر عذاب کیا جائے گا تاکہ ان پر حُجّت لازم ہو اور ان کے لئے عذر کی گنجائش باقی نہ رہے۔

۱۵۲             رسول کی تکذیب کرتے ہوں اپنے کُفر پر مُصِر ہوں اور اس سبب سے عذاب کے مستحق ہوں۔

(۶۰) اور جو کچھ چیز تمہیں دی گئی ہے  اور دنیوی زندگی کا برتاوا اور اس کا سنگھار ہے  (ف ۱۵۳) اور جو اللہ  کے  پاس ہے  (ف ۱۵۴) اور وہ بہتر اور زیادہ باقی رہنے  والا (ف ۱۵۵) تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف ۱۵۶)

۱۵۳             جس کی بقا بہت تھوڑی اور جس کا انجام فنا۔

۱۵۴             یعنی آخرت کے منافع۔

۱۵۵             تمام کدورتوں سے خالی اور دائم غیر منقطع۔

۱۵۶             کہ اتنا سمجھ سکو کہ باقی فانی سے بہتر ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ جو شخص آخرت کو دنیا پر ترجیح نہ دے وہ نادان ہے۔

(۶۱) تو کیا وہ جسے  ہم نے  اچھا وعدہ دیا  (ف ۱۵۷)  تو وہ اس سے  ملے  گا اس جیسا ہے  جسے  ہم نے  دنیوی زندگی کا برتاؤ برتنے  دیا پھر وہ قیامت کے  دن گرفتار کر کے  حاضر لایا جائے  گا (ف ۱۵۸)

۱۵۷             ثواب جنّت کا۔

۱۵۸             یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے ان میں پہلا جسے اچھا وعدہ دیا گیا مؤمن ہے اور دوسرا کافِر۔

(۶۲) اور جس دن انہیں ندا کرے  گا (ف ۱۵۹) تو فرمائے  گا  کہاں ہیں میرے  وہ شریک جنہیں تم (ف ۱۶۰) گمان کرتے  تھے۔

۱۵۹             اللہ تعالیٰ بطریقِ توبیخ۔

۱۶۰             دنیا میں میرا شریک۔

(۶۳) کہیں گے  وہ جن پر بات ثابت ہو چکی (ف ۱۶۱) اے  ہمارے  رب یہ ہیں وہ جنہیں ہم نے  گمراہ کیا، ہم نے  انہیں گمراہ کیا جیسے  خود گمراہ ہوئے  تھے  (ف ۱۶۲) ہم ان سے  بیزار ہو کر تیری طرف رجوع لاتے  ہیں وہ ہم کو نہ پوجتے  تھے  (ف ۱۶۳)

۱۶۱             یعنی عذاب واجب ہو چکا اور وہ لوگ اہلِ ضلالت کے سردار اور ائمۂ کُفر ہیں۔

۱۶۲             یعنی وہ لوگ ہمارے بہکانے سے با اختیار خود گمراہ ہوئے ہماری ان کی گمراہی میں کوئی فرق نہیں ہم نے انہیں مجبور نہ کیا تھا۔

۱۶۳             بلکہ وہ اپنی خواہشوں کے پرستار اور اپنی شہوات کے مطیع تھے۔

(۶۴) اور ان سے  فرمایا جائے  گا اپنے  شریکوں کو پکارو (ف ۱۶۴) تو وہ پکاریں گے  تو وہ ان کی نہ سنیں گے  اور دیکھیں گے  عذاب، کیا اچھا ہوتا اگر وہ راہ پاتے  (ف ۱۶۵)

۱۶۴             یعنی کُفّار سے فرمایا جائے گا کہ اپنے بُتوں کو پکارو وہ تمہیں عذاب سے بچائیں۔

۱۶۵             دنیا میں تاکہ آخرت میں عذاب نہ دیکھتے۔

(۶۵) اور جس دن انہیں ندا کرتے  گا تو فرمائے  گا (ف ۱۶۶) تم نے  رسولوں کو کیا جواب دیا  (ف ۱۶۷)

۱۶۶             یعنی کُفّار سے دریافت فرمائے گا۔

۱۶۷             جو تمہاری طرف بھیجے گئے تھے اور حق کی دعوت دیتے تھے۔

(۶۶) تو اس دن ان پر خبریں اندھی ہو جائیں گی (ف ۱۶۸) تو وہ کچھ پوچھ گچھ نہ کریں گے  (ف ۱۶۹)

۱۶۸             اور کوئی عذر اور حُجّت انہیں نظر نہ آئے گی۔

۱۶۹             اور غایت دہشت سے ساکت رہ جائیں گے یا کوئی کسی سے اس لئے نہ پوچھے گا کہ جواب سے عاجز ہونے میں سب کے سب برابر ہیں تابع ہوں یا متبوع، کافِر ہوں یا کافِر گر۔

(۶۷) تو وہ جس نے  توبہ کی (ف ۱۷۰) اور ایمان لایا (ف ۱۷۱) اور اچھا کام کیا قریب ہے  کہ وہ راہ یاب ہو۔

۱۷۰             شرک سے۔

۱۷۱             اپنے ربّ پر اور اس تمام پر جو ربّ کی طرف سے آیا۔

(۶۸) اور تمہارا  رب پیدا کرتا ہے  جو چاہے  اور پسند فرماتا ہے  (ف ۱۷۲) ان کا (ف ۱۷۳) کچھ اختیار نہیں، پاکی اور برتری ہے  اللہ کو ان کے  شرک سے۔

۱۷۲             شانِ نُزول : یہ آیت مشرکین کے جواب میں نازِل ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوّت کے لئے کیوں برگزیدہ کیا۔ یہ قرآن مکّہ و طائف کے کسی بڑے شخص پر کیوں نہ اتارا اس کلام کا قائل ولید بن مغیرہ تھا اور بڑے آدمی سے وہ اپنے آپ کو اور عروہ بن مسعود ثقفی کو مراد لیتا تھا۔ اس کے جواب میں یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور فرمایا گیا کہ رسولوں کا بھیجنا ان لوگوں کے اختیار سے نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے اپنی حکمت وہی جانتا ہے، انہیں اس کی مرضی میں دخل کی کیا مجال۔

۱۷۳             یعنی مشرکین کا۔

(۶۹)  اور تمہارا رب جانتا ہے  جو ان کے  سینوں میں چھپا ہے  (ف ۱۷۴) اور جو ظاہر کرتے  ہیں (ف ۱۷۵)

۱۷۴             یعنی کُفر اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عداوت جس کو یہ لوگ چھپاتے ہیں۔

۱۷۵             اپنی زبانوں سے خلافِ واقع جیسے کہ نبوّت میں طعن کرنا اور قرآنِ پاک کی تکذیب۔

(۷۰) اور وہی ہے  اللہ کہ کوئی خدا نہیں اس کے  سوا  اسی کی تعریف ہے  دنیا  (ف ۱۷۶) اور آخرت میں اور اسی کا حکم ہے  (ف ۱۷۷) اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے۔

۱۷۶             کہ اس کے اولیاء د نیا میں بھی اس کی حمد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اس کی حمد سے لذّت اٹھاتے ہیں۔

۱۷۷             اسی کی قضاء ہر چیز میں نافذ و جاری ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ اپنے فرمانبرداروں کے لئے مغفرت کا اور نافرمانوں کے لئے شفاعت کا حکم فرماتا ہے۔

(۷۱) تم فرماؤ  (ف ۱۷۸) بھلا دیکھو تو اگر اللہ ہمیشہ تم پر قیامت تک رات رکھے  (ف ۱۷۹) تو اللہ کے  سوا کون خدا ہے  جو تمہیں روشنی لا دے  (ف ۱۸۰) تو کیا تم سنتے  نہیں (ف ۱۸۱)

۱۷۸             اے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہلِ مکّہ سے۔

۱۷۹             اور دن نکالے ہی نہیں۔

۱۸۰             جس میں تم اپنی معاش کے کام کر سکو۔

۱۸۱             گوشِ ہوش سے کہ شرک سے باز آؤ۔

(۷۲) تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر اللہ قیامت تک ہمیشہ دن رکھے  (ف ۱۸۲) تو اللہ کے  سوا کون خدا ہے  جو تمہیں رات لا دے  جس میں آرام کرو (ف ۱۸۳) تو کیا تمہیں سوجھتا نہیں (ف ۱۸۴)

۱۸۲             رات ہونے ہی نہ دے۔

۱۸۳             اور دن میں جو کام اور محنت کی تھی اس کی تکان دور کرو۔

۱۸۴             کہ تم کتنی بڑی غلطی میں ہو جو اس کے ساتھ اور کو شریک کرتے ہو۔

(۷۳)  اور اس نے  اپنی مہر سے  تمہارے  لیے  رات اور دن بنائے  کہ رات میں آرام کرو اور دن میں اس کا فضل ڈھونڈو (ف ۱۸۵) اور اس لیے  کہ تم حق مانو (ف ۱۸۶)

۱۸۵             کسبِ معاش کرو۔

۱۸۶             اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ۔

(۷۴) اور جس دن انہیں ندا کرتے  گا تو  فرمائے  گا، کہاں ہیں ؟ میرے  وہ شریک جو تم بکتے  تھے۔

(۷۵)  اور ہر گروہ میں سے  ایک گواہ نکال کر (ف ۱۸۷) فرمائیں گے  اپنی دلیل لاؤ (ف ۱۸۸) تو جان لیں گے  کہ (ف ۱۸۹) حق اللہ کا ہے  اور ان سے  کھوئی جائیں گی جو بناوٹیں کرتے  تھے  (ف ۱۹۰)

۱۸۷             یہاں گواہ سے رسول مراد ہیں جو اپنی اپنی اُمّتوں پر شہادت دیں گے کہ انہوں نے انہیں ربّ کے پیام پہنچائے اور نصیحتیں کیں۔

۱۸۸             یعنی شرک اور رسولوں کی مخالفت جو تمہارا شیوا تھا اس پر کیا دلیل ہے پیش کرو۔

۱۸۹             الٰہیت و معبودیتِ خاص۔

۱۹۰             دنیا میں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے۔

(۷۶) بیشک قارون موسیٰ کی قوم سے  تھا (ف ۱۹۱) پھر اس نے  ان پر زیادتی کی اور ہم نے  اس کو اتنے  خزانے  دیے  جن کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر بھاری تھیں، جب اس سے  اس کی قوم (ف ۱۹۲) نے  کہا اِترا نہیں (ف ۱۹۳) بیشک اللہ اِترانے  والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

۱۹۱             قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے چچا یصہر کا بیٹھا تھا نہایت خوب صورت شکیل آدمی تھا اسی لئے اس کو منور کہتے تھے اور بنی اسرائیل میں توریت کا سب سے بہتر قاری تھا، ناداری کے زمانہ میں نہایت متواضع و با اخلاق تھا، دولت ہاتھ آتے ہی اس کا حال متغیر ہوا اور سامری کی طرح منافق ہو گیا۔ کہا گیا ہے کہ فرعون نے اس کو بنی اسرائیل پر حاکم بنا دیا تھا۔

۱۹۲             یعنی مؤمنینِ بنی اسرائیل۔

۱۹۳             کثرتِ مال پر۔

(۷۷) اور جو مال تجھے  اللہ نے  دیا ہے  اس سے  آخرت کا گھر طلب کر (ف ۱۹۴) اور دنیا میں اپنا حصہ نہ بھول (ف ۱۹۵) اور احسان کر (ف ۱۹۶) جیسا  اللہ نے  تجھ پر احسان کیا اور (ف ۱۹۷) زمیں  میں  فساد  نہ  چاه  بے  شک  اللہ  فسادیوں  کو دوست  نہیں  رکھتا ۔

۱۹۴             اللہ کی نعمتوں کا شکر کر کے اور مال کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے۔

۱۹۵             یعنی دنیا میں آخرت کے لئے عمل کر کہ عذاب سے نَجات پائے اس لئے کہ دنیا میں انسان کا حقیقی حصہ یہ ہے کہ آخرت کے لئے عمل کرے، صدقہ دے کر، صلہ رحمی کر کے اور اعمالِ خیر کے ساتھ اور اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اپنی صحت و قوت و جوانی و دولت کو نہ بھول اس سے کہ ان کے ساتھ آخرت طلب کرے۔ حدیث میں ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت سمجھو جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، ثروت کو ناداری سے پہلے، فراغت کو شغل سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے۔

۱۹۶             اللہ کے بندوں کے ساتھ۔

۱۹۷             معاصی اور گناہوں کا ارتکاب کر کے اور ظلم و بغاوت کر کے۔

(۷۸)  بو لا  یہ  (ف ۱۹۸) تو مجھے  ایک علم سے  ملا ہے  جو میرے  پاس ہے  (ف ۱۹۹) اور کیا اسے  یہ نہیں معلوم کہ اللہ نے  اس سے  پہلے  وہ سنگتیں (قومیں ) ہلاک فرما دیں جن کی قوتیں اس سے  سخت تھیں اور جمع اس سے  زیادہ  (ف ۲۰۰) اور مجرموں سے  ان کے  گناہوں کی پوچھ نہیں (ف ۲۰۱)

۱۹۸             یعنی قارون نے کہا کہ یہ مال۔

۱۹۹             اس علم سے مراد یا علمِ توریت ہے یا علمِ کیمیا جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حاصل کیا تھا اور اس کے ذریعہ سے رانگ کو چاندی اور تانبے کو سونا بنا لیتا تھا یا علمِ تجارت یا علمِ زراعت یا اور پیشوں کا علم۔ سہل نے فرمایا جس نے خود بینی کی فلاح نہ پائی۔

۲۰۰             یعنی قوت و مال میں اس سے زیادہ تھے اور بڑی جماعتیں رکھتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے ہلاک کر دیا پھر یہ کیوں قوت و مال کی کثرت پر غرور کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے لوگوں کا انجام ہلاک ہے۔

۲۰۱             ان سے دریافت کرنے کی حاجت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا حال جاننے والا ہے لہذا استعلام کے لئے سوال نہ ہو گا توبیخ و زجر کے لئے ہو گا۔

(۷۹) تو اپنی قومی پر نکلا اپنی آرائش میں (ف ۲۰۲) بولے  وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے  ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بیشک اس کا بڑا نصیب ہے ۔

۲۰۲             بہت سے سوار جِلو میں لئے ہوئے، زیوروں سے آراستہ، حریری لباس پہنے آراستہ گھوڑوں پر سوار۔

(۸۰) اور بولے  وہ جنہیں علم دیا گیا (ف ۲۰۳) خرابی ہو تمہاری، اللہ کا ثواب بہتر ہے  اس کے  لیے  جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کرے  (ف ۲۰۴) اور یہ انہیں کو ملتا ہے  جو صبر والے  ہیں (ف ۲۰۵)

۲۰۳             یعنی بنی اسرائیل کے عُلَماء۔

۲۰۴             اس دولت سے جو دنیا میں قارون کو ملی۔

۲۰۵             یعنی عملِ صالح صابرین ہی کا حصہ ہیں اور اس کا ثواب وہی پاتے ہیں۔

(۸۱) تو ہم نے  اسے  (ف ۲۰۶) اور اس کے  گھر کو زمین میں دھنسایا تو اس کے  پاس کوئی جماعت نہ تھی کہ اللہ سے  بچانے  میں اس کی مدد کرتی (ف ۲۰۷) اور نہ وہ بدلہ لے  سکا (ف ۲۰۸)

۲۰۶             یعنی قارون کو۔

۲۰۷             قارون اور اس کے گھر کے دھنسانے کا واقعہ علمائے سیر و اخبار نے یہ ذکر کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بنی اسرائیل کو دریا کے پار لے جانے کے بعد مذبح کی ریاست حضرت ہارون علیہ السلام کو تفویض کی بنی اسرائیل اپنی قربانیاں حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس لاتے اور وہ مذبح میں رکھتے آگ آسمان سے اُتر کر ان کو کھا لیتی قارون کو حضرت ہارون کے اس منصب پر رشک ہوا اس نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا کہ رسالت تو آپ کی ہوئی اور قربانی کی سرداری حضرت ہارون کی، میں کچھ بھی نہ رہا باوجود یکہ میں توریت کا بہترین قاری ہوں میں اس پر صبر نہیں کر سکتا۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ منصب حضرت ہارون کو میں نے نہیں دیا اللہ نے دیا ہے قارون نے کہا خدا کی قسم میں آپ کی تصدیق نہ کروں گا جب تک آپ اس کا ثبوت مجھے دکھا نہ دیں حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رؤسائے بنی اسرائیل کو جمع کر کے فرمایا کہ اپنی لاٹھیاں لے آؤ انہیں سب کو اپنے قبہ میں جمع کیا، رات پھر بنی اسرائیل ان لاٹھیوں کا پہرہ دیتے رہے صبح کو حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا سرسبز و شاداب ہو گیا، اس میں پتے نکل آئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے قارون تو نے یہ دیکھا ؟ قارون نے کہا یہ آپ کے جادو سے کچھ عجیب نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی مدارت کرتے تھے اور وہ آپ کو ہر وقت ایذا دیتا تھا اور اس کی سرکشی اور تکبُّر اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عداوت دم بدم ترقی پر تھی، اس نے ایک مکان بنایا جس کا دروازہ سونے کا تھا اور اس کی دیواروں پر سونے کے تختے نصب کئے بنی اسرائیل صبح و شام اس کے پاس آتے، کھانے کھاتے، باتیں بناتے، اسے ہنساتے، جب زکوٰۃ کا حکم نازِل ہوا تو قارون موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آیا تو اس نے آپ سے طے کیا کہ درہم و دینار و مویشی وغیرہ میں سے ہزارواں حصہ زکوٰۃ دے گا لیکن گھر جا کر حساب کیا تو اس کے مال میں سے اتنا بھی بہت کثیر ہوتا تھا اس کے نفس نے اتنی بھی ہمّت نہ کی اور اس نے بنی اسرائیل کو جمع کر کے کہا کہ تم نے موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہر بات میں اطاعت کی اب وہ تمہارے مال لینا چاہتے ہیں کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا آپ ہمارے بڑے ہیں جو آپ چاہیں حکم دیجئے کہنے لگا کہ فلانی بدچلن عورت کے پاس جاؤ اور اس سے ایک معاوضہ مقرر کرو کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر تہمت لگائے ایسا ہوا تو بنی اسرائیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چھوڑ دیں گے چنانچہ قارون نے اس عورت کو ہزار اشرفی اور ہزار روپیہ اور بہت سے مواعید کر کے یہ تہمت لگانے پر طے کیا اور دوسرے روز بنی اسرائیل کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ بنی اسرائیل آپ کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ انہیں وعظ و نصیحت فرمائیں حضرت تشریف لائے اور بنی اسرائیل میں کھڑے ہو کر آپ نے فرمایا کہ اے بنی اسرائیل جو چوری کرے گا اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے جو بہتان لگائے گا اس کے اسی کوڑے لگائے جائیں گے اور جو زنا کرے گا اس کے اگر بی بی نہیں ہے تو سو کوڑے مارے جائیں گے اور اگر بی بی ہے تو اس کو سنگسار کیا جائے گا یہاں تک کہ مر جائے، قارون کہنے لگا کہ یہ حکم سب کے لئے ہے خواہ آپ ہی ہوں فرمایا خواہ میں ہی کیوں نہ ہوں کہنے لگا کہ بنی اسرائیل کا خیال ہے کہ آپ نے فلاں بدکار عورت کے ساتھ بدکاری کی ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسے بلاؤ وہ آئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اس کی قَسم جس نے بنی اسرائیل کے لئے دریا پھاڑ ا اور اس میں رستے بنائے اور توریت نازِل کی سچ کہہ دے وہ عورت ڈر گئی اور اللہ کے رسول پر بہتان لگا کر انہیں ایذاء دینے کی جرأت اسے نہ ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ اس سے توبہ کرنا بہتر ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کیا کہ جو کچھ قارون کہلانا چاہتا ہے اللہ عزوجل کی قَسم یہ جھوٹ ہے اور اس نے آپ پر تہمت لگانے کے عوض میں میرے لئے بہت مالِ کثیر مقرر کیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ربّ کے حضور روتے ہوئے سجدہ میں گرے اور یہ عرض کرنے لگے یا ربّ اگر میں تیرا رسول ہوں تو میری وجہ سے قارون پر غضب فرما اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی فرمائی کہ میں نے زمین کو آپ کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ہے آپ اس کو جو چاہیں حکم دیں۔ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایا اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ نے مجھے قارون کی طرف بھیجا ہے جیسا فرعون کی طرف بھیجا تھا جو قارون کا ساتھی ہو اس کے ساتھ اس کی جگہ ٹھہرا رہے جو میرا ساتھی ہو جدا ہو جائے، سب لوگ قارون سے جدا ہو گئے اور سوا دو شخصوں کے کوئی اس کے ساتھ نہ رہا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین کو حکم دیا کہ انہیں پکڑ لے تو وہ گھٹنوں تک دھنس گئے پھر آپ نے یہی فرمایا تو کمر تک دھنس گئے آپ یہی فرماتے رہے حتی کہ وہ لوگ گردنوں تک دھنس گئے اب وہ بہت منّت و لجاجت کرتے تھے اور قارون آپ کو اللہ کی قسمیں اور رشتہ و قرابت کے واسطے دیتا تھا مگر آپ نے التفات نہ فرمایا یہاں تک کہ وہ بالکل دھنس گئے اور زمین برابر ہو گئی۔ قتادہ نے کہا کہ وہ قیامت تک دھنستے ہی چلے جائیں گے، بنی اسرائیل نے کہا کہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کے مکان اور اس کے خزائن و اموال کی وجہ سے اس کے لئے بددعا کی یہ سن کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس کا مکان اور اس کے خزانے و اموال سب زمین میں دھنس گئے۔

۲۰۸             حضرت موسیٰ علیہ السلام سے۔

(۸۲) اور کل جس نے  اس کے  مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح (ف ۲۰۹) کہنے  لگے  عجب بات ہے  اللہ رزق وسیع کرتا ہے  اپنے  بندوں میں جس کے  لیے  چاہے  اور تنگی فرماتا ہے  (ف ۲۱۰) اگر اللہ ہم پر احسان فرماتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا، اے  عجب، کافروں کا بھلا نہیں۔

۲۰۹             اپنی اس آرزو پر نادم ہو کر۔

۲۱۰             جس کے لئے چاہے۔

(۸۳) یہ آخرت کا گھر (ف ۲۱۱) ہم ان کے  لیے  کرتے  ہیں جو زمین میں تکبر نہیں چاہتے  اور نہ فساد، اور عاقبت پرہیزگاروں ہی کی (ف ۲۱۲) ہے۔

۲۱۱             یعنی جنّت۔

۲۱۲             محمود۔

(۸۴) جو نیکی لائے  اس کے  لیے  اس سے  بہتر ہے  (ف ۲۱۳) اور جو بدی لائے  بد کام والوں کو بدلہ نہ ملے  گا مگر جتنا کیا تھا۔

۲۱۳             دس گنا ثواب۔

(۸۵) بیشک جس نے   تم پر قرآن فرض کیا  (ف ۲۱۴) وہ تمہیں پھیر لے  جائے  گا جہاں پھرنا چاہتے  ہو (ف ۲۱۵) تم فرماؤ، میرا رب خوب جانتا ہے  اسے  جو ہدایت لایا اور جو کھلی گمراہی میں ہے  (ف ۲۱۶)

 ۲۱۴            یعنی اس کی تلاوت و تبلیغ اور اس کے احکام پر عمل لازم کیا۔

۲۱۵             یعنی مکّہ مکرّمہ میں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتحِ مکّہ کے دن مکّۂ مکرّمہ میں بڑے شان و شکوہ اور عزّت و وقار اور غلبہ و اقتدار کے ساتھ داخل کرے گا وہاں کے رہنے والے سب آپ کے زیر فرمان ہوں گے شرک اور اس کے حامی ذلیل و رسوا ہوں گے۔ شانِ نُزول : یہ آیتِ کریمہ جحفہ میں نازِل ہوئی جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ کی طرف ہجرت کرتے ہوئے وہاں پہنچے اور آپ کو اپنے اور اپنے آباء کے جائے ولادت مکّہ مکرّمہ کا شوق ہوا تو جبریلِ امین آئے اور انہوں نے عرض کیا کہ کیا حضور کو اپنے شہر مکّہ مکرّمہ کا شوق ہے ؟ فرمایا ہاں، انہوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور یہ آیتِ کریمہ پڑھی۔ معاد کی تفسیر موت و قیامت و جنّت سے بھی کی گئی ہے۔

۲۱۶             یعنی میرا ربّ جانتا ہے کہ میں ہدایت لایا اور میرے لئے اس کا اجر و ثواب ہے اور مشرکین گمراہی میں ہیں اور سخت عذاب کے مستحق۔ شانِ نُزول : یہ آیت کُفّارِ مکّہ کے جواب میں نازِل ہوئی جنہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نسبت کہا  اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍیعنی آپ ضرور کھلی گمراہی میں ہیں۔ (معاذ اللہ)۔

(۸۶) اور تم امید نہ رکھتے  تھے  کہ کتاب تم پر بھیجی جائے  گی (ف ۲۱۷) ہاں تمہارے  رب نے  رحمت فرمائی تو تم ہرگز کافروں کی پشتی (مدد) نہ کرنا (ف ۲۱۸)

۲۱۷             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ یہ خِطاب ظاہر میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہے اور مراد اس سے مؤمنین ہیں۔

۲۱۸             ان کے معین و مددگار نہ ہونا۔

(۸۷) اور ہرگز وہ تمہیں اللہ کی آیتوں سے  نہ روکیں بعد اس کے  کہ وہ تمہاری طرف اتاری گئیں (ف ۲۱۹) اور اپنے  رب کی طرف بلاؤ (ف ۲۲۰) اور ہرگز شرک والوں میں سے  نہ ہونا (ف ۲۲۱)

۲۱۹             یعنی کُفّار کی گمراہ کن باتوں کی طرف التفات نہ کرنا اور انہیں ٹھکرا دینا۔

۲۲۰             خَلق کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کی دعوت دو۔

۲۲۱             ان کی اعانت و موافقت نہ کرنا۔

(۸۸) اور اللہ کے  ساتھ دوسرے  خدا کو نہ پوج اس کے  سوا کوئی خدا نہیں ہر چیز فانی ہے، سوا اس کی ذات کے، اسی کا حکم ہے  اور اسی کی طرف پھر جاؤ گے۔

۲۲۲             آخرت میں اور وہی اعمال کی جزا دے گا۔