تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ القَصَص

۳ ۔۔۔   یعنی مسلمان لوگ اپنا حال قیاس کر لیں ظالموں کے مقابلہ میں (موضح) جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو باوجود کمزوری کے فرعونیوں کی طاقت کے مقابلہ میں منصور و کامیاب کیا۔ ایسے ہی مسلمان جو فی الحال مکہ میں قلیل اور ضعیف و ناتواں نظر آتے ہیں اپنے بیشمار طاقتور حریفوں کے مقابلہ پر کامیاب ہوں گے۔

۴ ۔۔۔    ۱: یعنی "مصر" میں قبطی بھی آباد تھے جو فرعون کی قوم تھی اور سبطی بھی جو "بنی اسرائیل" کہلاتے تھے لیکن فرعون ظلم و تکبر کی راہ سے "بنی اسرائیل" کو پنپنے اور ابھرنے نہیں دیتا تھا۔ گویا سب قبطی آقا بنے ہوئے تھے اور پیغمبروں کی اولاد بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ ان سے ذلیل کام اور بیگاریں لیتے اور کسی طرح اس قابل نہ ہونے دیتے کہ ملک میں وہ کوئی قوت و وقعت حاصل کر سکیں۔

۲: کہتے ہیں فرعون نے کوئی خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کاہنوں نے یہ دی کہ کسی اسرائیلی کے ہاتھ سے تیری سلطنت برباد ہو گی۔ اس لیے پیش بندی کے طور پر یہ احمقانہ اور ظالمانہ تدبیر سوچی کہ بنی اسرائیل کو ہمیشہ کمزور کرتے رہنا چاہیے کہ انہیں حکومت کے مقابلہ کا حوصلہ ہی نہ ہو اور آئندہ جو لڑکے ان کے پیدا ہوں ان کو ایک طرف سے ذبح کر ڈالنا چاہیے۔ اس طرح آنے والی مصیبت رک جائے گی۔ البتہ لڑکیوں سے چونکہ کوئی خطرہ نہیں، انہیں زندہ رہنے دیا جائے۔ وہ بڑی ہو کر باندیوں کی طرح ہماری خدمت کیا کریں گی۔ اور ابن کثیر لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ جس میں خبر دی گئی تھی کہ ایک اسرائیلی جو ان کے ہاتھ پر اس سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہے۔ شدہ شدہ یہ تذکرے فرعون کے کانوں تک پہنچ گئے اس احمق نے قضاء و قدر کی روک تھام کے لیے ظلم و ستم کی یہ اسکیم جاری کی۔

۳:  یعنی زمین میں خرابی پھیلانے والا تو تھا ہی۔ لہٰذا اسے ایسا ظلم و ستم کرنے میں کیا جھجک ہوتی۔ بس جو دل میں آیا، اپنے کبر و غرور کے نشہ میں بے سوچے سمجھے کر گزرا۔

۶ ۔۔۔  ۱: یعنی اس ملعون کے انتظامات تو وہ تھے، اور ہمارا ارادہ یہ تھا کہ کمزوروں کو قوی اور پستوں کو بالا کیا جائے۔ جس قوم کو فرعونیوں نے ذلیل غلام بنا رکھا تھا ان ہی کے سر پر دین کی امامت اور دنیا کی سرداری کا تاج رکھ دیں۔ ظالموں اور متکبروں سے جگہ خالی کرا کر اس مظلوم و ستم رسیدہ قوم سے زمین کو آباد کریں اور دینی سیادت کے ساتھ دنیاوی حکومت بھی اس مظلوم و مقہور قوم کے حوالے کی جائے۔

۲:  "ہامان" وزیر تھا فرعون کا جو ظلم و ستم میں اس کا شریک اور آلہ کار بنا ہوا تھا۔

۳:  یعنی جس خطرہ کی وجہ سے انہوں نے بنی اسرائیل کے ہزارہا بچوں کو ذبح کر ڈالا تھا۔ ہم نے چاہا کہ وہ ہی خطرہ ان کے سامنے آئے۔ فرعون نے امکانی کوشش کر دیکھی اور پورے زور خرچ کر لیے کہ کسی طرح اسرائیلی بچہ سے مامون ہو جائے۔ جس کے ہاتھ پر اس کی تباہی مقدر تھی، لیکن تقدیر الٰہی کہاں ٹلنے والی تھی۔ خداوند قدیر نے اس بچہ کو اسی کی گود میں اسی کے بستر پر اسی کے محلات کے اندر شاہانہ ناز و نعم سے پرورش کرایا۔ اور دکھلا دیا کہ خدا جو انتظام کرنا چاہے، کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔

۷ ۔۔۔  ۱: ان کی ماں کو الہام ہوا یا خواب دیکھا یا اور کسی ذریعہ سے معلوم کرا دیا گیا کہ جب تک بچہ کے قتل کا اندیشہ نہ ہو برابر دودھ پلاتی رہیں، جب اندیشہ ہو تو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں چھوڑ دیں۔ سورہ "طہٰ" میں یہ قصہ گزر چکا ہے۔

۲: ماں کی تسلی کر دی کہ ڈرے مت، بے کھٹکے دریا میں چھوڑ دے، بچہ ضائع نہیں ہو سکتا۔ اور بچہ کی جدائی سے غمگین بھی مت ہو ہم بہت جلد اس کو تیری ہی آغوش شفقت میں پہنچا دیں گے خدا کو اس سے بڑے کام لینے ہیں۔ وہ منصب رسالت پر سرفراز کیا جائے گا۔ کوئی طاقت اللہ کے ارادہ میں حائل و مانع نہیں ہو سکتی۔ تمام رکاوٹیں عبور کر کے وہ مقصد پورا کرتا ہے جو اس محترم بچہ کی پیدائش سے متعلق ہے۔

۸ ۔۔۔  آخر ماں نے بچہ کو لکڑی کے صندوق میں ڈال کر چھوڑ دیا۔ صندوق بہتا ہوا ایسی جگہ جا لگا جہاں سے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کے ہاتھ لگ گیا۔ ان کو اس پیارے بچہ کی پیاری صورت بھلی معلوم ہوئی۔ آثار نجابت و شرافت سے نظر آئے۔ پالنے کی غرض سے اٹھا لیا۔ مگر اس اٹھانے کے آخری نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ بچہ بڑا ہو کر فرعون اور فرعونیوں کا دشمن ثابت ہو، اور ان کے حق میں سوہان روح بنے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھانے کا موقع دیا۔ فرعون لعین کو کیا خبر تھی کہ جس دشمن کے ڈر سے ہزارہا معصوم بچے تہہ تیغ کرا چکا ہوں وہ یہ ہی ہے جسے بڑے چاؤ پیار سے آج ہمارے ہاتھوں میں پرورش کرایا جا رہا ہے۔ فی الحقیقت فرعون اور اس کے وزیر و مشیر اپنے ناپاک مقصد کے اعتبار سے بہت چوکے کہ بیشمار اسرائیلی بچوں کو ایک شبہ پر قتل کرنے کے باوجود موسیٰ کو زندہ رہنے دیا۔ لیکن نہ چوکتے تو کیا کرتے، کیا خدا کی تقدیر کو بدل سکتے تھے یا مشیت ایزدی کو روک سکتے تھے ان کی بڑی چوک تو یہ تھی کہ سمجھے کہ قضاء و قدر کے فیصلوں کو انسانی تدبیروں سے روکا جا سکتا ہے۔

۹ ۔۔۔  ۱: یعنی کیسا پیارا بچہ ہے، ہمارے کوئی لڑکا نہیں، لاؤ اسی سے دل بہلائیں اور آنکھیں ٹھنڈی کیا کریں۔ بعض روایات میں ہے کہ فرعون نے کہا "لَکِ لاَ لِی" (تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گی میری نہیں) تقدیر ازلی یہ الفاظ اس ملعون کی زبان سے کہلا رہی تھی۔ آخر وہ ہی ہوا۔

۲:  یعنی کم از کم بڑا ہو کر ہمارے کام آئے گا یا مناسب سمجھا تو متبنیٰ بنا لیں گے۔

۳:  یعنی یہ تو خبر نہ تھی کہ بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ سمجھے کہ بنی اسرائیل میں سے کسی نے خوف سے ڈالا ہے ایک لڑکا نہ مارا تو کیا ہوا۔ کیا ضرور ہے کہ یہ ہی وہ بچہ ہو جس سے ہمیں خوف ہے۔ پھر جب ہم پرورش کریں گے وہ خود ہی ہم سے شرمائے گا۔ کس طرح ممکن ہے کہ ہم سے ہی دشمنی کرنے لگے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ اس کا دوست ہو گا جو سارے جہان کا پرورش کرنے والا ہے اور تم چونکہ اس کے دشمن ہو اس لیے مجبور ہو گا کہ پروردگارِ حقیقی کے حکم سے تمہاری مخالفت کرے۔ تم اپنی ظاہری تربیت پر تو ایسی اچھی امیدیں باندھتے ہو، مگر شرم نہیں آتی کہ اس رب حقیقی کے مقابلہ میں "اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ"کی آواز بلند کر رہے ہو۔

۱۰ ۔۔۔  موسیٰ علیہ السلام کی والدہ بچہ کو دریا میں ڈال آئیں مگر ماں کی مامتا کہاں چین سے رہنے دیتی۔ موسیٰ کا رہ رہ کر خیال آتا تھا۔ دل سے قرار جاتا رہا۔ موسیٰ کی یاد کے سوا کوئی چیز دل میں باقی نہ رہی، قریب تھا کہ صبر و ضبط کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے اور عام طور پر ظاہر کر دیں کہ میں نے اپنا بچہ دریا میں ڈالا ہے کسی کو خبر ہو تو لاؤ۔ لیکن خدائی الہام "اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ " کو یاد کر کے تسلی پاتی تھی۔ یہ خدا ہی کا کام تھا کہ اس کے دل کو مضبوط باندھ دیا کہ خدائی راز قبل از وقت کھلنے نہ پائے۔ اور تھوڑی دیر بعد خود موسیٰ کی والدہ کو عین الیقین حاصل ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہتا ہے۔

۱۱ ۔۔۔   یعنی جب فرعون کے محل سرا میں صندوق کھلا اور بچہ برآمد ہوا تو شہر میں شہرت ہو گئی۔ موسیٰ کی والدہ نے اپنی بیٹی کو (جو موسیٰ کی بہن تھی) حکم دیا کہ بچہ کا پتہ لگانے کے لیے چلی جا اور علیحدہ رہ کر دیکھ کیا ماجرہ ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی، جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی وہاں بے تعلق اجنبی بن کر دور سے دیکھتی رہی۔ کسی کو پتہ نہ لگا کہ اس بچہ کی بہن ہے۔

۱۲ ۔۔۔  یعنی فرعون کی بیوی نے اس ملعون کو بھی بچہ کی پرورش پر راضی کر لیا تو دودھ پلانے کی فکر ہوئی اور دائیاں طلب کی گئیں۔ مگر قدرت نے پہلے ہی سے بند لگا دیا تھا کہ موسیٰ اپنی ماں کے سوا کسی کا دودھ نہ پکڑے۔ سخت تشویش تھی کہ کہاں سے مرضعہ لائی جائے جس کا دودھ بچہ منہ کو لگا سکے۔ کسی عورت کا دودھ نہ پیتے تھے۔ فرعون کے آدمی اسی فکر و تجسس میں تھے کہ موسیٰ کی بہن نے کہا میں تم کو ایک گھرانے کا پتہ بتا سکتی ہوں جو امید ہے بچہ کو پال دیں گے اور جہاں تک ان کی طبائع کا اندازہ ہے بہت خیر خواہی اور غورو پرداخت سے پالیں گے کیونکہ شریف گھرانا ہے اور بادشاہ کے گھر سے انعام و اکرام کی بڑی توقعات ہوں گی، پھر تربیت میں کمی کیوں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی کے مشورہ کے موافق حضرت موسیٰ کی والدہ طلب کی گئیں۔ بس بچہ کو چھاتی سے لگانا تھا کہ اس نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ فرعون کے گھر والوں کو بہت غنیمت معلوم ہوا کہ بچہ نے ایک عورت کا دودھ قبول کر لیا ہے، بڑی خوشیاں منائی گئیں اور انعام و اکرام کیے گئے۔ مرضعہ نے عذر کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی، اپنے گھر لے جا کر اس کی پرورش کروں گی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام امن و اطمینان کے ساتھ پھر آغوش مادری میں پہنچ گئے۔ اور فرعون کے یہاں سے جو روزینہ ان کی مال کا مقرر ہوا وہ مفت میں رہا۔

۱۳ ۔۔۔  ۱: یعنی "اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ" میں جو دو وعدے کیے تھے ایک تو آنکھوں سے دیکھ لیا کس حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا۔ اور دوسرے کو اسی پر قیاس کرنے کا موقع ملا کہ بلاشبہ وہ بھی اپنے وقت پر پورا ہو کر رہے گا۔

۲: یعنی وعدہ اللہ کا پہنچ کر رہتا ہے۔ ہاں بیچ میں بڑے بڑے پھیر پڑ جاتے ہیں۔ اس میں بہت لوگ بے یقین ہونے لگتے ہیں (موضح)

۱۴ ۔۔۔  یعنی موسیٰ علیہ السلام جب اپنی بھرپور جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو بہت حکمت کی باتیں سجھائیں اور خصوصی علم و فہم عطا فرمایا کیونکہ بچپن ہی سے وہ نیک کردار تھے۔ ایسے ہونہار کو ہم اسی طرح نوازا کرتے ہیں۔

۱۵ ۔۔۔  یعنی حضرت موسیٰ جوان ہو کر ایک روز شہر میں پہنچے جس وقت لوگ غافل پڑے سو رہے تھے شاید رات کا وقت ہو گا یا دوپہر ہو گی۔

۱۶ ۔۔۔   حضرت موسیٰ علیہ السلام جب جوان ہوئے، فرعون کی قوم سے بسبب ان کے ظلم و کفر کے بیزار رہتے اور بنی اسرائیل ان کے ساتھ لگے رہتے تھے، ان کی والدہ کا گھر شہر سے باہر تھا۔ حضرت موسیٰ کبھی وہاں جاتے کبھی فرعون کے گھر آتے۔ فرعون کی قوم (قبط) ان کی دشمن تھی کہ غیر قوم کا شخص ہے ایسا نہ ہو کہ زور پکڑ جائے۔ ایک روز دیکھا کہ دو شخص آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک اسرائیلی دو قبطی۔ اسرائیلی نے موسیٰ کو دیکھ کر فریاد کی کہ مجھے اس قبطی کے ظلم سے چھڑاؤ۔ کہتے ہیں قبطی فرعون کے مطبخ کا آدمی تھا۔ موسیٰ پہلے ہی قبطیوں کے ظلم و ستم کو جانتے تھے۔ اس وقت آنکھ سے اس کی زیادتی دیکھ کر رگِ حمیت پھڑک اٹھی۔ ممکن ہے سمجھانے بجھانے میں قبطی نے موسیٰ علیہ السلام کو بھی کوئی سخت لفظ کہا ہو۔ جیسا کہ بعض تفاسیر میں ہے غرض موسیٰ علیہ السلام نے اس کی تادیب و گوشمالی کے لیے ایک گھونسہ رسید کیا ماشاء اللہ بڑے طاقتور جوان تھے ایک ہی گھونسہ میں قبطی نے پانی نہ مانگا۔ خود موسیٰ علیہ السلام کو بھی اندازہ نہ تھا کہ ایک گھونسہ میں اس کم بخت کا کام تمام ہو جائے گا۔ پچھتائے کہ بے قصد خون ہو گیا۔ مانا کہ قبطی کافر حربی تھا، ظالم تھا، اور موسیٰ علیہ السلام کی نیت بھی محض ادب دینے کی تھی، جان سے مار ڈالنے کی نہ تھی۔ مگر ظاہر ہے اس وقت کوئی معرکہ جہاد نہ تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے قبطی قوم کو کوئی الٹی میٹم نہیں دیا تھا۔ بلکہ مصر میں ان کی بودوماند کا شروع سے جو طرز عمل رہا تھا اس سے لوگ مطمئن تھے کہ وہ یونہی کسی کی جان و مال لینے والے نہیں پھر ممکن ہے غیظ و غضب کے جوش میں معاملہ کی تحقیق بھی سرسری ہوئی ہو اور مکا مارتے وقت پوری طرح اندازہ نہ رہا ہو کہ کتنی ضرب تادیب کے لیے کافی ہے ادھر اس بلا ارادہ قتل سے اندیشہ تھا کہ فرقہ اور اشتعال پیدا ہو کر دوسرے مصائب و فتن کا دروازہ نہ کھل جائے۔ اس لیے اپنے فعل پر نادم ہوئے۔ اور سمجھے کہ اس میں کسی درجہ تک شیطان کا دخل ہے انبیاء علیہم السلام کی فطرت ایسی پاک و صاف اور ان کی استعداد اس قدر اعلیٰ ہوتی ہے کہ نبوت ملنے سے پیشتر ہی وہ اپنے ذرہ ذرہ عمل کا محاسبہ کرتے ہیں اور ادنیٰ سی لغزش یا خطائے اجتہادی پر بھی حق تعالیٰ سے رو رو کر معافی مانگتے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے اپنی تقصیرات کا اعتراف کر کے معافی چاہی جو دے دی گئی اور غالباً اس معافی کا علم ان کو بذریعہ الہام وغیرہ ہوا ہو گا۔ آخر پیغمبر لوگ نبوت سے پہلے ولی تو ہوتے ہیں۔

۱۷ ۔۔۔    یعنی آپ نے جیسے اپنے فضل سے مجھ کو عزت، راحت، قوت عطا فرمائی اور میری تقصیرات کو معاف کیا اس کا شکر یہ ہے کہ میں آئندہ کبھی مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا۔ شاید اس فریادی (اسرائیلی) کی بھی کچھ تقصیر معلوم ہوئی ہو گی، مجرم اسے کہا ہو۔ یا مجرمین سے کفار اور ظالم لوگ مراد ہوں۔ یعنی تیری دی ہوئی قوتوں کو آئندہ بھی کبھی ان کی حمایت و اعانت میں خرچ نہ کروں گا۔ یا مجرمین سے شیاطین مراد ہوں یعنی شیاطین کے مشن میں ان کا مددگار کبھی نہ بنوں گا کہ وہ وسوسہ اندازی کر کے مجھ سے ایسا کام کرا دیں جس پر بعد کو پچھتانا پڑے۔ یا اسرائیلی کو مجرم اس حیثیت سے کہا کہ وہ وقوع جرم کا سبب بنا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۱۸ ۔۔۔  ۱: یعنی انتظار کرتے اور راہ دیکھتے تھے کہ مقتول کے وارث فرعون کے پاس فریاد لے گئے ہوں گے دیکھئے کس پر جرم ثابت ہو اور مجھ سے کیا سلوک کریں۔

۲:  یعنی اسی اسرائیلی کی لڑائی آج کسی اور سے ہو رہی تھی۔

۳: یعنی روز ظالموں سے الجھتا ہے اور مجھ کو لڑواتا ہے۔

۱۹ ۔۔۔  : ہاتھ ڈالنا چاہا اس ظالم پر بول اٹھا مظلوم جانا کہ زبان سے مجھ پر غصہ کیا ہے، ہاتھ بھی مجھ پر چلائیں گے۔ وہ کل کا خون چھپا رہا تھا کہ کس نے کیا، آج اس کی زبان سے مشہور ہوا۔ (موضح)

۲: یعنی زور زبردستی سے قتل کرنا ہی آتا ہے، یہ نہیں کہ سمجھا بجھا کر فریقین میں صلح کروا دے۔

۲۰ ۔۔۔  یعنی خون کی خبر فرعون کو پہنچ گئی۔ وہاں مشورے ہوئے کہ غیر قوم کے آدمی کا یہ حوصلہ ہو گیا ہے کہ شاہی قوم کے افراد اور سرکاری ملازموں کو قتل کر ڈالے۔ سپاہی دوڑائے گئے کہ موسیٰ کو گرفتار کر کے لائیں۔ شاید مل جاتے تو قتل کرتے، اسی مجمع میں سے ایک نیک طینت کے دل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی خیر خواہی ڈال دی۔ وہ جلدی کر کے مختصر راستہ سے بھاگا ہوا آیا۔ اور حضرت موسیٰ کو واقعہ کی اطلاع کر کے مشورہ دیا کہ تم فوراً شہر سے نکل جاؤ۔ حضرت شاہ صاحب، لکھتے ہیں کہ یہ سنایا ہمارے پیغمبر کو کہ لوگ ان کی جان لینے کی فکر کریں گے اور وہ بھی وطن سے نکلیں گے۔ چنانچہ کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں، اسی رات میں آپ وطن سے ہجرت کر گئے۔

۲۲ ۔۔۔  حضرت موسیٰ مصر سے نکل کھڑے ہوئے، راہ سے واقف نہ تھے۔ اللہ سے درخواست کی کہ سیدھی راہ پر چلائے۔ اس نے "مدین" کی سیدھی سڑک پر ڈال دیا۔ جہاں پہنچا کر انہیں امن و اطمینان کے ساتھ متاہل بنانا تھا۔ صرف یہ ہی نہیں، بلکہ بہت دور تک کی سیدھی راہ پر لے چلنا تھا۔

۲۳ ۔۔۔   ۱: "مدین"، "مصر" سے آٹھ دس دن کی راہ ہے۔ وہاں پہنچے بھوکے پیاسے، دیکھا کنوئیں پر لوگ اپنے مواشی کو پانی پلا رہے ہیں۔

۲:   وہ دونوں بکریاں لے کر حیا سے کنارے کھڑی تھیں۔ اتنی قوت نہ تھی کہ مجمع کو ہٹا دیں یا بذاتِ خود بھاری ڈول نکال لیں۔ شاید اوروں سے بچا ہوا پانی پلاتی ہوں۔

۳: یعنی ہمارا باپ جوان اور توانا ہوتا تو ہم کو آنا نہ پڑتا۔ وہ خود ان مردوں سے نبٹ لیا کرتا۔

۲۴ ۔۔۔   ۱: پیغمبروں کے فطری جذبات و ملکات ایسے ہوتے ہیں، تھکے ماندے، بھوکے پیاسے تھے مگر غیرت آئی کہ میری موجودگی میں یہ صنف ضعیف ہمدردی سے محروم رہے۔ اٹھے اور مجمع کو ہٹا کر یا ان کے بعد کنوئیں سے تازہ پانی نکال کر لڑکیوں کے جانوروں کو سیراب کیا۔

۲: یعنی اے اللہ کسی عمل کی اجرت مخلوق سے نہیں چاہتا۔ البتہ تیری طرف سے کوئی بھلائی پہنچے اس کا ہمہ وقت محتاج ہوں۔ حضرت شاہ صاحب، لکھتے ہیں "عورتوں نے پہچانا کہ چھاؤں پکڑتا ہے مسافر ہے۔ دور سے آیا ہوا، تھکا، بھوکا۔ جا کر اپنے باپ سے کہا (وہ حضرت شعیب علیہ السلام تھے علی القول المشہور) ان کو درکار تھا کہ کوئی مرد ملے نیک بخت جو بکریاں تھامے اور بیٹی بھی بیاہ دیں۔" (موضح)

۲۵ ۔۔۔   ۱: جیسا کہ شریف اور پاکباز عورتوں کا قاعدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ شرم کے مارے چہرہ چھپا کر بات کی۔

۲: حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کر رہے تھے۔ اس نے اپنے فضل سے غیر متوقع طور پر خیر بھیجی، تو قبول کیوں نہ کرتے۔ اٹھ کر عورت کے ساتھ ہو لیے۔ لکھتے ہیں کہ چلتے وقت اس کو ہدایت فرمائی کہ میں آگے چلوں گا تم پیچھے آؤ۔ مبادا اجنبیہ پر عمداً نظر کرنے کی نوبت آئے۔ چنانچہ وہ پیچھے پیچھے راستہ بتلاتی ان کو لے کر گھر پہنچی۔

۳: موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب کو اپنی ساری سرگزشت کہہ سنائی۔ انہوں نے تسلی دی اور فرمایا کہ اب تو اس ظالم قوم کے پنجہ سے بچ نکلا۔ انشاء اللہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (مدین فرعون کی حدود و سلطنت سے باہر تھا)

۲۶ ۔۔۔  یعنی موسیٰ میں دونوں باتیں موجود ہیں۔ زور دیکھا، ڈول نکالنے یا مجمع کو ہٹا دینے سے، اور امانتدار سمجھا بے طمع اور عفیف ہونے سے۔

۲۷ ۔۔۔  ۱: شاید یہ ہی خدمت لڑکی کا مہر تھا۔ ہمارے حنفیہ کے ہاں اب بھی اگر بالغہ راضی ہو تو اس طرح کی خدمت اقارب مہر ٹھہر سکتا ہے (کذا نقلہ الشیخ الانور اطال اللہ بقاءہ) یہاں صرف نکاح کی ابتدائی گفتگو مذکور ہے۔ ظاہر ہے حضرت شعیب نے نکاح کرتے وقت ایک لڑکی کی تعیین اور اس کی رضامندی حاصل کر لی ہو گی۔

۲:  یعنی کم از کم آٹھ برس میری خدمت میں رہنا ضروری ہو گا۔ اگر دو سال اور زائد رہے تو تمہارا تبرع ہے۔

۳:   یعنی کوئی سخت خدمت تم سے نہ لوں گا، تم کو میرے پاس رہ کر انشاء اللہ خود تجربہ ہو جائے گا کہ میں بری طبیعت کا آدمی نہیں۔ بلکہ خدا کے فضل سے نیک بخت ہوں، میری صحبت میں تم گھبراؤ گے نہیں، بلکہ مناسبت طبع کی وجہ سے اُنس حاصل کرو گے۔

۲۸ ۔۔۔  یعنی مجھے اختیار ہو گا کہ آٹھ برس رہوں یا دس برس۔ بہرحال جو معاہدہ ہو چکا خدا کے بھروسہ پر مجھے منظور ہے۔ اللہ کو گواہ بنا کر معاملہ ختم کرتا ہوں۔ احادیث میں ہے کہ حضرت موسیٰ نے بڑی مدت (یعنی دس برس) پورے کیے۔ حضرت شاہ صاحب، لکھتے ہیں۔ "ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی وطن سے نکلے، سو آٹھ برس پیچھے آ کر مکہ فتح کیا۔ اگر چاہتے اسی وقت کافروں سے شہر خالی کرا لیتے لیکن اپنی خوشی سے دس برس پیچھے کافروں سے پاک کیا۔

۳۰ ۔۔۔   یہ وہ ہی درخت تھا جس پر آگ بھڑکتی ہوئی نظر آئی۔

۳۲ ۔۔۔  ۱: شروع رکوع سے یہاں تک کے مفصل واقعات سورہ "طہٰ" وغیرہ میں گزر چکے ملاحظہ کر لیے جائیں۔

۲: یعنی بازو کو پہلو سے ملا لو۔ سانپ وغیرہ کا ڈر جاتا رہے گا۔ شاید آگے کے لیے بھی خوف زائل کرنے کی یہ ترکیب بتلائی ہو۔

۳: یعنی معجزہ "عصا" و "ید بیضاء" بطور سند نبوت کے دیے گئے ہیں تاکہ فرعون اور اس کی قوم پر اتمام حجت کر سکے۔

۳۳ ۔۔۔  یعنی پہنچتے ہی قتل کر دیا تو آپ کی دعوت کیسے پہنچاؤں گا۔

۳۴ ۔۔۔   یعنی کوئی تصدیق و تائید کرنے والا ساتھ ہو تو فطرۃً دل مضبوط و قوی رہتا ہے۔ اور ان کے جھٹلانے پر اگر بحث و مناظرہ کی نوبت آ جائے تو میری زبان کی لکنت ممکن ہے بولنے میں رکاوٹ ڈالے۔ اس وقت ہارون کی رفاقت مفید ہو گی۔ کیونکہ ان کی زبان زیادہ صاف اور تیز ہے۔

۳۵ ۔۔۔    یعنی دونوں درخواستیں منظور ہیں، ہارون تمہارے قوت بازو رہیں گے اور فرعونیوں کو تم پر کچھ دسترس نہ ہو گی۔ ہماری نشانیوں کی برکت سے۔ تم اور تمہارے ساتھی ہی غالب و منصور رہیں گے۔

۳۶ ۔۔۔  ۱: یعنی معجزات دیکھ کر کہنے لگے جادو ہے اور جو باتیں خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے وہ بھی جادو کی باتیں ہیں جو خود تصنیف کر کے لے آیا، اور دعویٰ کرنے لگا کہ خدا نے مجھ پر وحی کی ہے۔ حقیقت میں وحی وغیرہ کچھ نہیں۔ محض ساحرانہ تخییل و افتراء ہے۔

۲: یعنی جو باتیں یہ کرتا ہے (مثلاً ایک خدا نے ساری دنیا کو پیدا کیا، اور ایک وقت سب کو فنا کر کے دوبارہ زندہ کرے گا پھر حساب کتاب ہو گا اور مجھ کو اس نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، وغیرہ وغیرہ) اپنے اگلے بزرگوں سے ہمارے کانوں میں یہ چیزیں کبھی نہیں پڑیں۔

۳۷ ۔۔۔  یعنی خدا خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور اسی کے پاس سے ہدایت لایا ہوں اس لیے انجام میرا ہی بہتر ہو گا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیاں دیکھ کر اور دلائل صداقت سن کر نا انصافی سے حق کو جھٹلاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ انجام کار ان کو ذلت و ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

۳۸ ۔۔۔  یعنی اپنے وزیر ہامان کو کہا کہ اچھا اینٹوں کا ایک پزاوہ لگواؤ تاکہ پکی اینٹوں کی خوب اونچی عمارت بنوا کر اور آسمان کے قریب ہو کر میں موسیٰ کے خدا کو جھانک آؤں کہ کہاں ہے اور کیسا ہے۔ کیونکہ زمین میں تو مجھے کوئی خدا اپنے سوا نظر نہیں پڑتا۔ آسمان میں بھی خیال تو یہ ہے کہ کوئی نہ ہو گا، تاہم موسیٰ کی بات کا جواب ہو جائے گا۔ یہ بات ملعون نے استہزاء و تمسخر سے کہی اور ممکن ہے اس قدر بدحواس و پاگل ہو گیا ہو کہ اس طرح کی لچر پوچ اور مضحکہ خیز تجویزیں سوچنے لگا۔

۴۰ ۔۔۔  یعنی انجام سے بالکل غافل ہو کر لگے ملک میں تکبر کرنے یہ نہ سمجھا کہ کوئی ان کی گردن نیچی کرنے والا اور سر توڑنے والا بھی موجود ہے۔ آخر خداوند قہار نے اس کو لاؤ لشکر سمیت بحر قلزم میں غرق کر دیا تاکہ یادگار رہے کہ بدبخت ظالموں کا جو انجام سے غافل ہوں ایسا انجام ہوا کرتا ہے۔ غرق وغیرہ کے واقعات کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

۴۱ ۔۔۔   ۱: یعنی یہاں ضلالت و طغیان میں پیش پیش تھے اور لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے تھے وہاں بھی ان کو دوزخیوں کے آگے امام بنا کر رکھا جائے گا۔ "یَقْدُمُ قَوْمَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارُ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ" (ہود، رکوع۹،آیت ۹۸)

۲:   یعنی یہاں کے لشکر وہاں کام نہ دیں گے نہ کسی طرف سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ اپنے لاؤ لشکر سمیت جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔

۴۲ ۔۔۔  یعنی آخرت کی برائی اور بد انجامی تو الگ رہی، دنیا ہی میں لوگ رہتی دنیا تک ایسوں پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔

۴۳ ۔۔۔   ۱: نزول تورات کے بعد دنیا میں ایسے غارت کے عذاب کم آئے۔ بجائے اہلاک سماوی کے جہاد کا طریقہ مشروع کر دیا گیا۔ کیونکہ کچھ لوگ احکام شریعت پر قائم رہا کیے۔

۲: یعنی تورات جو موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ بڑی فہم و بصیرت عطا کرنے والی، لوگوں کو راہ ہدایت پر چلانے والی، اور مستحق رحمت بنانے والی کتاب تھی تاکہ لوگ اسے پڑھ کر اللہ کو یاد رکھیں۔ احکام الٰہی سیکھیں اور پند و نصیحت حاصل کریں، سچ تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد ہدایت میں تورات شریف ہی کا درجہ ہے اور آج جب کہ اس کے پیروؤں نے اسے ضائع کر دیا، قرآن ہی اس کے ضروری علوم و ہدایات کی حفاظت کر رہا ہے۔

۴۴ ۔۔۔  یعنی کوہ طور کے غرب کی جانب جہاں موسیٰ کو نبوت اور تورات ملی۔

۴۵ ۔۔۔  ۱: یعنی تو اس وقت کے واقعات تو ایسی صحت و صفائی اور بسط و تفصیل سے بیان کر رہا ہے جیسے وہیں "طور" کے پاس کھڑا دیکھ رہا ہو۔ حالانکہ تمہارا موقع پر موجود نہ ہونا ظاہر ہے اور ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ تم امی ہو۔ کسی عالم کی صحبت میں بھی نہیں رہے۔ نہ ٹھیک ٹھیک صحیح واقعات کا کوئی جید عالم مکہ میں موجود تھا۔ پھر غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ عالم کہاں سے آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام دنیا پر مدتیں اور قرن گزر گئے، مرورِ دہور سے وہ علوم محرف و مندرس ہوتے جا رہے تھے اور وہ ہدایات مٹتی جا رہی تھیں۔ لہٰذا اس علیم و خبیر کا ارادہ ہوا کہ ایک امی کی زبان سے بھولے ہوئے سبق یاد دلائے جائیں اور ان عبرتناک و موعظت آمیز واقعات کا ایسا صحیح فوٹو دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے جس پر نظر کر کے بے اختیار ماننا پڑے کہ اس کا پیش کرنے والا موقع پر موجود تھا اور اپنی آنکھوں سے من و عن کیفیات کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ پس ظاہر ہے کہ تم تو وہاں موجود نہ تھے، بجز اس کے کیا کہا جائے کہ جو خدا آپ کی زبان سے بول رہا ہے اور جس کے سامنے ہر غائب بھی حاضر ہے۔ یہ بیان اسی کا ہو گا۔

۲: یعنی موسیٰ علیہ السلام کو "مدین" جا کر جو واقعات پیش آئے ان کا اس خوبی و صحت سے بیان تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس وقت تم شانِ پیغمبری کے ساتھ وہیں سکونت پذیر تھے اور جس طرح آج اپنے وطن مکہ میں اللہ کی آیات پڑھ کر سنا رہے ہو، اس وقت "مدین" والوں کو سناتے ہو گے حالانکہ یہ چیز صریحاً منفی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہم ہمیشہ سے پیغمبر بھیجتے رہے ہیں جو دنیا کو غفلت سے چونکاتے اور گذشتہ عبرتناک واقعات یاد دلاتے رہیں۔ اسی عام عادت کے موافق ہم نے اس زمانہ میں تم کو رسول بنا کر بھیجا کہ پچھلے قصے یاد دلاؤ۔ اور خواب غفلت سے مخلوق کو بیدار کرو۔ اس لیے ضروری ہوا کہ ٹھیک ٹھیک واقعات کا صحیح علم تم کو دیا جائے اور تمہاری زبان سے ادا کرایا جائے۔

۴۶ ۔۔۔   ۱: یعنی جب موسیٰ علیہ السلام کو آواز دی "اِنِّی اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ " تم وہاں کھڑے سن نہیں رہے تھے۔ یہ حق تعالیٰ کا انعام ہے کہ آپ کو ان واقعات و حقائق پر مطلع کیا اور تمہارے ساتھ بھی اسی نوعیت کا برتاؤ کیا جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوا تھا۔ گویا "جبل النور" (جہاں غار حرا ہے) اور "مکہ" میں "جبل طور" اور "مدین" کی تاریخ دوہرا دی گئی۔

۲:   یعنی عرب کے لوگوں کو یہ چیزیں بتلا کر خطرناک عواقب سے آگاہ کر دیں۔ ممکن ہے وہ سن کر یاد رکھیں اور نصیحت پکڑیں۔ (تنبیہ) "مَآاُنْذِرَ اٰبآوُئہُمْ " سے شاید آبائے اقربین مراد ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۴۷ ۔۔۔  یعنی پیغمبر کا ان میں بھیجنا خوش قسمتی ہے۔ اگر بدون پیغمبر بھیجے اللہ تعالیٰ ان کی کھلی ہوئی بے عقلیوں اور بے ایمانیوں پر سزا دینے لگتا تب بھی ظلم نہ ہوتا، لیکن اس نے احسان فرمایا اور کسی قسم کی معقول عذر داری کا موقع نہیں چھوڑا۔ ممکن تھا سزا دہی کے وقت کہنے لگتے کہ صاحب ہمارے پاس پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہم کو ہماری غلطیوں پر کم از کم متنبہ کر دیتا، ایک دم پکڑ کر عذاب میں دھر گھسیٹا۔ اگر کوئی پیغمبر آتا تو دیکھ لیتے ہم کیسے نیک اور ایماندار ثابت ہوتے۔

۴۸ ۔۔۔   ۱: یعنی رسول نہ بھیجتے تو کہتے رسول کیوں نہ بھیجا۔ اب رسول تشریف لائے جو تمام پیغمبروں سے شان و رتبہ میں بڑھ کر ہیں تو کہتے ہیں کہ صاحب! ہم تو اس وقت مانتے جب دیکھتے کہ ان سے موسیٰ علیہ السلام کی طرح "عصاء" اور "ید بیضاء" وغیرہ کے معجزات ظاہر ہوتے اور ان کے پاس بھی تورات کی طرح ایک دم ایک کتاب اترتی یہ کیا کہ دو دو چار چار آیتیں پیش کرتے ہیں۔

۲: یعنی موسیٰ کے معجزات اور کتاب ہی کو کہاں سب نے مان لیا تھا؟ شبہے نکالنے والے ان کو بھی "سحر مفتری" کہتے رہے جیسا کہ ابھی ایک دو رکوع پہلے گزرا بس جن کو ماننا منظور نہیں ہوتا وہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ احتمالات نکال لیتے ہیں۔

          ۳: حضرت شاہ صاحب، لکھتے ہیں "مکہ کے کافر حضرت موسیٰ کے معجزے سن کر کہنے لگے کہ ویسا معجزہ اس نبی کے پاس ہوتا تو ہم مانتے، جب "یہود" سے پوچھا "تورات" کی باتیں اس نبی کے موافق اور اپنی مرضی کے خلاف سنیں، مثلاً یہ کہ بت پرستی کفر ہے، آخرت کا جینا برحق ہے اور جو جانور اللہ کے نام پر ذبح نہ ہو مردار ہے (اور عرب میں ایک نبی آخر الزمان آئیں گے جن کی یہ نشانیاں ہوں گی وغیرہ وغیرہ) تب لگے دونوں کو جواب دینے۔" کہ "تورات" اور "قرآن" دونوں جادو اور موسیٰ و محمد (علیہما الصلوٰۃ والسلام) دونوں جادوگر ہیں۔ (العیاذ باللہ) جو ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔

۴۹ ۔۔۔  یعنی آسمانی کتابوں میں سب سے بڑی اور مشہور یہ ہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمسری کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔ اگر یہ دونوں جادو ہیں تو تم کوئی کتاب الٰہی پیش کر دو جو ان سے بہتر اور ان سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ بفرض محال اگر ایسی کتاب لے آئے تو میں اسی کی پیروی کرنے لگوں گا، لیکن تم قیامت تک نہیں لا سکتے۔ اس سے زیادہ بدبختی کیا ہو گی کہ خود ہدایت ربانی سے قطعی تہی دست ہو اور جو کتاب ہدایت آتی ہے اسے جادو کہہ کر رد کر دیتے ہو۔ جب یہ ایک انسان کا بنایا ہوا جادو ہے تو تم سارے جہان کے جادو گروں کو جمع کر کے اس سے بڑا جادو لے آتے۔ آخر جادو ایسی چیز تو نہیں کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔

۵۰ ۔۔۔  یعنی جب یہ لوگ نہ ہدایت کو قبول کرتے ہیں اور نہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کر سکتے ہیں تو یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کو راہ ہدایت پر چلنا مقصود ہی نہیں محض اپنی خواہشات کی پیروی ہے، جس چیز کو دل چاہا مان لیا۔ جس کو اپنی مرضی اور خواہش کے خلاف پایا رد کر دیا۔ بتلائیے ایسے ہوا پرست ظالموں کو کیا ہدایت ہو سکتی ہے۔ اللہ کی عادت اسی قوم کو ہدایت کرنے کی ہے جو ہدایت پانے کا ارادہ کرے اور محض ہوا و ہوس کو حق کا معیار نہ بنا لے۔

۵۱ ۔۔۔  یعنی ہماری وحی کا سلسلہ پہلے سے چلا آتا ہے۔ ایک وحی کی تصدیق و تائید میں دوسری وحی برابر بھیجتے رہے ہیں۔ اور قرآن کو بھی ہم نے بتدریج نازل کیا۔ ایک آیت کے پیچھے دوسری آیت میں سہولت ہو۔

۵۳ ۔۔۔  یعنی ان جاہل مشرکین کا حال تو یہ ہے کہ نہ اگلی کتابوں کو مانیں نہ پچھلی کو، اور ان کے بالمقابل انصاف پسند اہل کتاب کو دیکھو کہ وہ دونوں کو تسلیم کرتے جاتے ہیں پہلے تورات و انجیل پر یقین رکھتے تھے۔ جب قرآن پاک آیا تو بول اٹھے کہ بلاشبہ یہ کتاب برحق ہے، ہمارے رب کی اتاری ہوئی، ہم اس پر اپنے یقین و اعتقاد کا اعلان کرتے ہیں، ہم تو پہلے بھی اللہ کی باتوں کو مانتے تھے آج بھی قبول کرتے ہیں۔ فی الحقیقت ہم آج سے مسلمان نہیں بہت پہلے سے مسلمان ہیں۔ کیونکہ کتب سابقہ پر ہمارا ایمان تھا جن میں پیغمبر آخر الزمان اور قرآن کریم کے متعلق صاف بشارات موجود تھیں۔ لہٰذا ان پیشین گوئیوں پر بھی ہمارا پہلے سے اجمالی ایمان ہوا۔ آج اس کی تفصیل اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

۵۴ ۔۔۔   ۱: یعنی مغرور و مستغنی ہو کر قبول حق سے گریز نہیں کیا بلکہ جس وقت جو حق پہنچا بے تکلف گردن تسلیم جھکا دی۔ (تنبیہ) شیخ اکبر نے فتوحات میں لکھا ہے کہ ان اہل کتاب کا ایمان اپنے پیغمبر پر دو مرتبہ ہوا۔ اول بالاستقلال دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم تمام انبیاء سابقین کے مصدق ہیں اور ان پر ایمان رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ان کا ایمان دو مرتبہ ہوا۔ ایک اب بالذات اور بالاستقلال دوسرا پہلے اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کے ضمن میں۔ کیونکہ ہر پیغمبر حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی بشارت دیتے، اور پیشگی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں اسی لیے ان لوگوں کو اجر بھی دو مرتبہ ملے گا باقی حدیث میں جو "ثَلاَثُ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَرَّتَیْنِ " آیا ہے اس کی شرح کا یہاں موقع نہیں۔ ہم نے خدا کے فضل سے شرح صحیح مسلم میں اس کو بتفصیل لکھا ہے اور اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ فللّٰہ الحمد والمنہ وبہ التوفیق والعصمہ۔

۲:  یعنی کوئی دوسرا ان کے ساتھ برائی سے پیش آئے تو یہ اس کے جواب میں مروت و شرافت سے کام لے کر بھلائی اور احسان کرتے ہیں۔ یا یہ مطلب کہ کبھی ان سے کوئی برا کام ہو جائے تو اس کا تدارک بھلائی سے کر دیتے ہیں تاکہ حسنات کا پلہ سیأت سے بھاری رہے۔

۳: یعنی اللہ نے جو مال حلال دیا ہے اس میں سے زکوٰۃ دیتے ہیں، صدقہ کرتے ہیں اور خویش و  اقارب کی خبر لیتے ہیں۔ غرض حقوق العباد ضائع نہیں کرتے۔

۵۵ ۔۔۔   یعنی کوئی جاہل لغو بیہودہ بات کہے تو اس سے الجھتے نہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ بس صاحب! تمہاری باتوں کو ہمارا دور سے سلام۔ یہ جہالت کی پوٹ تمہی رکھو ہم کو ہمارے مشغلہ میں رہنے دو۔ تمہارا کیا تمہارے، اور ہمارا کیا ہمارے سامنے آ جائے گا۔ ہم کو تم جیسے بے سمجھ لوگوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ محمد بن اسحاق نے سیرت میں لکھا ہے کہ قیام مکہ کے زمانہ میں تقریباً بیس اشخاص حبشہ سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خبر سن کر آئے کہ تحقیق کریں کیسے شخص ہیں۔ آپ سے بات چیت کی، اور بڑے زور سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی، جب مشرف با ایمان ہو کر واپس ہونے لگے تو ابوجہل وغیرہ مشرکین نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کہیں نہ دیکھا ہو گا۔ جو ایک شخص کی تحقیق حال کرنے آئے تھے اور اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا "سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ لاَ نُجَاہِلُکُمْ لَنَا مَانَحْنُ عَلَیْہِ وَلَکُمْ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ لَمْ نَاْلُ اَنْفُسَنَا خَیْراً۔" (بس ہم تم کو سلام کریں، معاف رکھو ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے دینا نہیں چاہتے، ہم اور تم میں سے جو جس حال پر ہے اس کا وہ ہی حصہ ہے ہم نے اپنے نفس کا بھلا چاہنے میں کچھ کوتاہی نہیں کی) اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب، لکھتے ہیں کہ جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے پر لگے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے (موضح)

۵۶ ۔۔۔  ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے چچا (ابو طالب) کے واسطے بہت سعی کی کہ مرتے وقت کلمہ پڑھ لے، اس نے قبول نہ کیا۔ اس پر یہ آیت اتری۔ (موضح) یعنی جس سے تم کو طبعی محبت ہو، یا دل چاہتا ہو کہ فلاں کو ہدایت ہو جائے لازم نہیں کہ ایسا ضرور ہو کر رہے۔ آپ کا کام صرف راستہ بتانا ہے آگے یہ کہ کون راستہ پر چل کر منزل مقصود تک پہنچتا ہے کون نہیں پہنچتا، یہ آپ کے قبضہ اختیار سے خارج ہے۔ اللہ کو اختیار ہے جسے چاہے قبول حق اور وصول الی المطلوب کی توفیق بخشے (تنبیہ) جو کچھ حضرت شاہ صاحب نے فرمایا احادیث صحیحہ میں موجود ہے۔ اس سے زائد اس مسئلہ میں کلام کرنا اور ابو طالب کے ایمان و کفر کو خاص موضوع بحث بنا لینا غیر ضروری ہے۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اس قسم کی غیر ضروری اور پر خطر مباحث میں کف لسان کیا جائے۔

۲:  یعنی کسی کو کسی شخص کے راہ پر لانے کا اختیار کیا ہوتا علم بھی نہیں کہ کون راہ پر آنے والا ہے یا آنے کی استعداد و لیاقت رکھتا ہے بہرحال اس آیت میں نبی کریم کی تسلی فرما دی کہ آپ جاہلوں کی لغو گوئی اور معاندانہ شور و شغب یا اپنے خاص اعزہ و اقارب کے اسلام نہ لانے سے غمگین نہ ہوں۔ جس قدر آپ کا فرض ہے وہ ادا کیے جائیں، لوگوں کی استعدادیں مختلف ہیں، اللہ ہی کے علم و اختیار میں ہے کہ ان میں سے کسے راہ پر لایا جائے۔

۵۷ ۔۔۔   ۱: انسان کو ہدایت سے روکنے والی کئی چیزیں ہیں۔ مثلاً نقصان، جان و مال کا خوف، چنانچہ بعض مشرکین مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ آپ حق پر ہیں، لیکن اگر ہم دین اسلام قبول کر کے آپ کے ساتھ ہو جائیں تو سارا عرب ہمارا دشمن ہو جائے گا۔ اردگرد کے تمام قبائل ہم پر چڑھ دوڑیں گے اور مل کر ہمارا لقمہ کر لیں گے، نہ جان سلامت رہے گی نہ مال۔ اس کا آگے جواب دیا ہے۔

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "مکہ کے لوگ کہنے لگے کہ ہم مسلمان ہوں تو سارے عرب ہم سے دشمنی کریں، اللہ نے فرمایا اب ان کی دشمنی سے کس کی پناہ میں بیٹھے ہو۔ یہ ہی حرم کا ادب (مانع ہے کہ باوجود آپس کی سخت عداوتوں کے باہر والے چڑھائی کر کے تم کو مکہ سے نکال نہیں دیتے) وہی اللہ (جس نے اس جگہ کو حرم بنایا) تب بھی پناہ دینے والا ہے۔" (موضح) کیا شرک و کفر کے باوجود تو پناہ دی، ایمان و تقویٰ اختیار کرنے پر پناہ نہ دے گا۔ ہاں ایمان و تقویٰ کو پرکھنے کے لیے اگر چند روزہ امتحان کے طور پر کوئی بات پیش آئے تو گھبرانا نہیں چاہیے۔ "فَاِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَ۔"

۵۸ ۔۔۔  ۱: یعنی عرب کی دشمنی سے کیا ڈرتے ہو، اللہ کے عذاب سے ڈرو، دیکھتے نہیں کتنی قومیں گزر چکی ہیں جنہیں اپنی خوش عیشی پر غرہ ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے تکبر اور سرکشی اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے کس طرح تباہ و برباد کر ڈالا کہ آج صفحہ ہستی پر ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ یہ کھنڈر ان کی بستیوں کے پڑے ہیں جن میں کوئی بسنے والا نہیں بجز اس کے کہ کوئی مسافر تھوڑی دیر سستانے یا قدرتِ الٰہی کا عبرتناک تماشہ دیکھنے کے لیے وہاں جا اترے۔۔

۲: یعنی سب مر مرا گئے کوئی وارث بھی نہ رہا ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔

۵۹ ۔۔۔   ۱: یعنی اللہ تعالیٰ اس وقت تک بستیوں کو غارت نہیں کرتا جب تک ان کے صدر مقام میں کوئی ہشیار کرنے والا پیغمبر نہ بھیج دے (صدر مقام کی تخصیص شاید اس لیے کی کہ وہاں کا اثر دور تک پہنچتا ہے اور شہروں کے باشندے نسبتاً سلیم و عقیل ہوتے ہیں) تمام روئے زمین کی آبادیوں کا صدر مقام مکہ معظمہ تھا۔ "لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُریٰ وَمَنْ حَوْلَہَا"(شوریٰ، رکوع۱،آیت ۷) اسی لیے وہاں سب سے بڑے اور آخری پیغمبر مبعوث ہوئے۔

یعنی ہشیار کرنے پر بھی جب لوگ باز نہیں آتے، برابر ظلم و طغیان میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ پکڑ کر ہلاک کرتا ہے۔

۶۰ ۔۔۔  یعنی آدمی کو عقل سے کام لے کر اتنا سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں کتنے دن جینا ہے اور یہاں کی بہار اور چہل پہل کا مزہ کب تک اٹھا سکتے ہی۔ فرض کرو دنیا میں عذاب بھی نہ آئے، تاہم موت کا ہاتھ تم سے یہ سب سامان جدا کر کے رہے گا۔ پھر خدا کے سامنے حاضر ہونا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا اگر وہاں کا عیش و آرام میسر ہو گیا تو یہاں کا عیش اس کے سامنے محض ہیچ اور لاشئ ہے۔ کون عقلمند ہو گا جو ایک مکدرو منغض زندگی کے بے غل و غش زندگی پر اور ناقص و فانی لذتوں کو کامل و باقی نعمتوں پر ترجیح دے۔

۶۱ ۔۔۔   یعنی مومن و کافر دونوں انجام کے اعتبار سے کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ ایک کے لیے دائمی عیش کا وعدہ جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا اور دوسرے کے لیے چند روزہ عیش کے بعد گرفتاری کا وارنٹ اور دائمی جیل خانہ، العیاذ باللہ! ایک شخص خواب میں دیکھے کہ میرے سر پر تاج شاہی رکھا ہے، خدم و حشم پرے باندھے کھڑے ہیں اور الوان نعمت دسترخوان پر چنے ہوئے ہیں جن سے لذت اندوز ہو رہا ہوں، آنکھ کھلی تو دیکھا انسپکٹر پولیس گرفتاری کا وارنٹ اور بیڑی ہتھکڑی لیے کھڑا ہے۔ بس وہ پکڑ کر لے گیا اور فوراً ہی پیش ہو کر حبس دوام کی سزا مل گئی۔ بتاؤ اسے وہ خواب کی بادشاہت اور پلاؤ قورمے کی لذت کیا یاد آئے گی۔

۶۲ ۔۔۔   یعنی وہ خدائی کے حصہ دار کہاں ہی ذرا اپنی تائید و حمایت کے لیے لاؤ تو سہی۔

۶۳ ۔۔۔  یعنی سوال تو مشرکین سے تھا، مگر بہکانے والے شرکاء سمجھ جائیں گے کہ فی الحقیقت ہمیں بھی ڈانٹ بتلائی گئی ہے۔ اس لیے سبقت کر کے جواب دیں گے کہ خداوندا! بیشک ہم نے ان کو بہکایا اور یہ بہکانا ایسا ہی تھا جیسے ہم خود بہکے۔ یعنی جو ٹھوکر بہکنے کے وقت کھائی تھی اسی کی تکمیل بہکانے سے کی۔ کیونکہ بہکانا بھی بہکنے کی انتہائی منزل ہے۔ پس اس جرم اغواء کا تو ہمیں اعتراف ہے۔ لیکن ان مشرکین پر کوئی جبر و اکراہ ہمارا نہ تھا کہ زبردستی اپنی بات منوا لیتے فی الحقیقت ان کی ہوا پرستی تھی جو ہمارے بہکانے میں آ گئے۔ اس اعتبار سے یہ ہم کو نہیں پوجتے تھے بلکہ اپنے اہواء و ظنون کی پرستش کرتے تھے ہم ان کی عبادت سے آج آپ کے سامنے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ کذا قال بعض المفسرین۔ اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "یہ شیطان بولیں گے۔ بہکایا تو ہے انہوں نے پر نام لے کر نیکوں کا۔ اسی سے کہا کہ ہم کو نہ پوجتے تھے۔" واللہ تعالیٰ اعلم۔ (تنبیہ) "حَقَّ عَلَیْہِمُ الْقَوْلُ" سے مراد ہے "لَاَ مْلَاَنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔"

۶۴ ۔۔۔  ۱: یعنی کہا جائے گا کہ اب مدد کو بلاؤ، مگر وہ کیا مدد کر سکتے خود اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ کذا قال المفسرون۔ اور حضرت شاہ صاحب کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ شیاطین جب نیکوں کا نام لیں گے تو مشرکین سے کہا جائے گا کہ ان نیکوں کو پکارو! وہ کچھ جواب نہ دیں گے۔ کیونکہ وہ ان مشرکانہ حرکات سے راضی نہ تھے یا خبر نہ رکھتے تھے۔

۲: یعنی اس وقت عذاب کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں سیدھی راہ چلتے تو یہ مصیبت کیوں دیکھنی پڑتی۔

۶۶ ۔۔۔   پہلے سوالات توحید کے متعلق تھے، یہ سوال رسالت کی نسبت ہوا۔ یعنی اپنی عقل سے تم نے اگر حق کو نہ سمجھا تھا تو پیغمبروں کے سمجھانے سے سمجھا ہوتا، بتلاؤ ان کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ اس وقت کسی کو جواب نہ آئے گا۔ اور بات کرنے کی راہیں بند ہو جائیں گی۔

۶۷ ۔۔۔    یعنی وہاں کی کامیابی صرف ایمان و عمل صالح سے ہے۔ اب بھی جو کوئی کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان لایا اور نیکی اختیار کی، حق تعالیٰ اس کی پہلی خطائیں معاف کر کے فائز المرام کرے گا۔ (تنبیہ) "عسیٰ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْن۔" وعدہ ہے شہنشاہانہ انداز میں یعنی اس کو فلاح کی امید رکھنا چاہیے۔ گو ہم پر کسی کا دباؤ نہیں کہ ناچار ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔ محض فضل و کرم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

۶۸ ۔۔۔  ۱: یعنی ہر چیز کا پیدا کرنا بھی اسی کی مشیت و اختیار سے ہے اور کسی چیز کو پسند کرنے یا چھانٹ کر منتخب کر لینے کا حق بھی اسی کو حاصل ہے۔ جو اس کی مرضی ہو احکام بھیجے۔ جس شخص کو مناسب جانے کسی خاص منصب و مرتبہ پر فائز کرے۔ جس کسی میں استعداد دیکھے راہِ ہدایت پر چلا کر کامیاب فرما دے اور مخلوقات کی ہر جنس میں سے جس نوع کو یا نوع میں سے جس فرد کو چاہے اپنی حکمت کے موافق دوسرے انواع و افراد سے ممتاز بنا دے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کو اس طرح کے اختیار و انتخاب کا حق حاصل نہیں۔ حافظ ابن القیم نے زادالمعاد کے اوائل میں اس مضمون کو بہت بسط سے لکھا ہے فلیراجع۔

۲: یعنی تخلیق و تشریع اور اختیار مذکور میں حق تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں لوگوں نے اپنی تجویز و انتخاب سے جو شرکاء ٹھہرا لیے ہیں سب باطل اور بے سند ہیں۔

۶۹ ۔۔۔  یعنی دل میں جو فاسد عقیدے یا بری نیتیں رکھتے ہیں اور زبان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سے جو کام کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور وہ ہی ہر ایک شخص کی پوشیدہ استعداد و قابلیت سے آگاہ ہے اسی کے موافق معاملہ کرے گا۔

۷۰ ۔۔۔   یعنی جس طرح تخلیق و اختیار اور علم محیط میں وہ منفرد ہے الوہیت میں بھی یگانہ ہے۔ بجز اس کے کسی کی بندگی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اسی کی ذات منبع الکمالات میں تمام خوبیاں جمع ہیں۔ دنیا اور آخرت میں جو تعریف بھی ہو خواہ وہ کسی کے نام رکھ کر کی جائے حقیقت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اسی کا فیصلہ ناطق ہے۔ اسی کو اقتدار کلی حاصل ہے اور انجام کار سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آگے بتلاتے ہیں کہ رات دن میں جس قدر نعمتیں اور بھلائیاں تم کو پہنچتی ہیں اسی کے فضل و انعام سے ہیں بلکہ خود رات اور دن کا ادل بدل کرنا بھی اس کا مستقل احسان ہے۔

۷۱ ۔۔۔   ۱: مثلاً سورج کو طلوع نہ ہونے دے یا اس سے روشنی سلب کر لے تو اپنے کاروبار کے لیے ایسی روشنی کہاں سے لا سکتے ہو۔

۲: یہ بات ایسی روشن اور صاف ہے کہ سنتے ہی سمجھ میں آ جائے۔ تو کیا تم سنتے بھی نہیں۔

۷۲ ۔۔۔  یعنی اگر آفتاب کو غروب نہ ہونے دے ہمیشہ تمہارے سروں پر کھڑا رکھے تو جو راحت و سکون اور دوسرے فوائد رات کے آنے سے حاصل ہوتے ہیں ان کا سامان کون سی طاقت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی روشن حقیقت بھی تم کو نظر نہیں آتی۔ (تنبیہ) "اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ"،"اِنَّ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَداً"کے مناسب ہے کیونکہ آنکھ سے دیکھنا عادۃً روشنی پر موقوف ہے جو دن میں پوری طرح ہوتی ہے۔ رات کی تاریکی میں چونکہ دیکھنے کی صورت نہیں، ہاں سننا ممکن ہے، اس لیے " اِنَّ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَداً"کے ساتھ اَفَلاَ تَسْمَعُوْنَ فرمانا ہی موزوں تھا۔ واللہ اعلم۔

۷۳ ۔۔۔  یعنی رات دن کا الٹ پھیر کرتا رہتا تو رات کی تاریکی اور خنکی میں سکون و راحت بھی حاصل کر لو اور دن کے اجالے میں کاروبار بھی جاری رکھ سکو۔ اور روز و شب کے مختلف النوع انعامات پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو۔

۷۵ ۔۔۔   ۱: احوال بتلانے والا پیغمبر یا ان کے نائب جو نیک بخت تھے۔ (موضح) وہ بتلائیں گے کہ لوگوں نے شرائع سماویہ اور احکام الٰہیہ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔

۲:  یعنی خدا تعالیٰ کے شریک کس سند اور دلیل سے ٹھہرائے اور حلال و حرام وغیرہ کے احکام کس مأخذ صحیح سے لیے تھے۔ پیغمبروں کو تو تم نے مانا نہیں، پھر کس نے بتلایا کہ خدا کا یہ حکم ہے، یہ نہیں۔

۳: یعنی اس وقت نظر آ جائے گا کہ سچی بات اللہ کی ہے۔ اور معبودیت صرف اسی کا حق ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ دنیا میں پیغمبر جو بتلاتے تھے وہ ہی ٹھیک ہے۔ مشرکین نے جو عقیدے گھڑ رکھے تھے اور جو باتیں اپنے دل سے جوڑی تھیں اس روز سب کافور ہو جائیں گی۔

۷۶ ۔۔۔   ۱: رکوعِ سابق کے آغاز میں دنیا کی بے ثباتی اور حقارت آخرت کے مقابلہ میں بیان کی گئی تھی۔ بعدہٗ ذکر آخرت کی مناسبت سے کچھ احوال عالم آخرت کے بیان ہوئے۔ رکوع حاضر میں پھر اصل مضمون کی طرف عود کیا گیا ہے اور اسی دعوے کے استشہاد میں قارون کا قصہ سنایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا اور فرعون کی پیشی میں رہتا تھا، جیسا کہ ظالم حکومتوں کا دستور ہے کہ کسی قوم کا خون چوسنے کے لیے انہی میں سے بعض افراد کو اپنا آلہ کار بنا لیتے ہیں۔ فرعون نے بنی اسرائیل میں سے اس ملعون کو چن لیا تھا۔ قارون نے اس وقت موقع پا کر دونوں ہاتھوں سے خوب دولت سمیٹی اور دنیاوی اقتدار حاصل کیا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کے زیر حکم آئے اور فرعون غرق ہوا تو اس کی مالی ترقی کے ذرائع مسدود ہو گئے اور سرداری جاتی رہی۔ اس حسد و غیظ میں حضرت موسیٰ سے دل میں خلش رکھنے لگا۔ تاہم ظاہر میں مومن بنا ہوا تھا، تورات بہت پڑتا اور علم حاصل کرنے میں مشغول رہتا تھا۔ مگر دل صاف نہ تھا۔ حضرت موسیٰ اور ہارون کی خداداد عزت و وجاہت دیکھ کر جلتا اور کہتا کہ آخر میں بھی ان ہی کے چچا کا بیٹا ہوں۔ یہ کیا معنی کہ وہ دونوں تو نبی اور مذہبی سردار بن جائیں، مجھے کچھ بھی نہ ملے۔ کبھی مایوس ہو کر شیخی مارتا کہ انہیں نبوت مل گئی تو کیا ہوا۔ میرے پاس مال و دولت کے اتنے خزانے ہیں جو کسی کو میسر نہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مرتبہ زکوٰۃ نکالنے کا حکم دیا تو لوگوں سے کہنے لگا کہ اب تک تو موسیٰ جو احکام لائے ہم تم نے برداشت کیے۔ مگر کیا تم یہ بھی برداشت کر لو گے کہ وہ ہمارا مال بھی ہم سے وصول کرنے لگے۔ کچھ لوگوں نے اس کی تائید میں کہا نہیں، ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ آخر ملعون نے حضرت موسیٰ کو بدنام کرنے کی ایک گندی تجویز سوچی۔ کسی عورت کو بہکا سکھلا کر آمادہ کیا کہ بھرے مجمع میں جب موسیٰ علیہ السلام زناء کی حد بیان فرمائیں تو اپنے ساتھ ان کو مہتم کرنا۔ چنانچہ عورت مجمع میں کہہ گزری۔ جب حضرت موسیٰ نے اس کو شدید قسمیں دیں، اور اللہ تعالیٰ کے غضب سے ڈرایا تو اس کا دل ڈرا۔ تب اس نے صاف کہہ دیا کہ قارون نے مجھ کو سکھایا تھا۔ اس وقت حضرت موسیٰ کی بد دعا سے وہ مع اپنے گھر اور خزانوں کے زمین میں دھنسا دیا گیا۔

۲: بعض سلف نے "مفاتح" کی تفسیر خزائن سے کی ہے۔ یعنی اس قدر روپیہ تھا کہ طاقتور مردوں کی ایک جماعت بھی اسے مشکل سے اٹھا سکتی۔ لیکن اکثر مفسرین نے مفاتح کی تفسیر کنجیوں سے کی ہے۔ یعنی مال کے صندوق اتنے تھے جن کی کنجیاں اٹھاتے ہوئے کئی زور آور آدمی تھک جائیں۔ اور یہ چنداں مستبعد نہیں جیسا کہ بعض تفاسیر میں اس کی صورت بتلائی گئی ہے۔

۳:  یعنی اس فانی و زائل دولت پر کیا اتراتا ہے جس کی وقعت اللہ کے ہاں پر پشہ کی برابر بھی نہیں۔ خوب سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کو اکڑنے اور اترانے والے بندے اچھے نہیں معلوم ہوتے اور جو چیز اس مالک کو نہ بھائے اس کا نتیجہ بجز تباہی و ہلاکت کے کیا ہے۔

۷۷ ۔۔۔  ۱: یعنی خدا کا دیا ہوا مال اس لیے ہے کہ انسان اسے آخرت کا توشہ بنائے۔ نہ یہ کہ غفلت کے نشہ میں چور ہو کر غرور تکبر کی چال چلنے لگے۔

۲: یعنی حصہ موافق کھا، پہن اور زیادہ مال سے آخرت کما۔ اور مخلوق کے ساتھ سلوک کر۔

۳: یعنی حضرت موسیٰ کی ضد نہ کر، خدا کی زمین پر سیدھی طرح رہ۔ خواہ مخواہ ملک میں اودھم مچانا اور خرابیاں ڈالنا اچھا نہیں۔

۷۸ ۔۔۔   ۱: یعنی میں ہنر مند تھا۔ کمانے کا سلیقہ رکھتا تھا۔ اپنی لیاقت و قابلیت یا کسی خاص علمی مہارت سے مجھے یہ دولت حاصل ہوئی۔ اللہ نے بھی میری لیاقت کو دیکھ کر اور قابل جان کر یہ کچھ دیا ہے۔ کیا یونہی بیٹھے بٹھائے بے محنت مل گیا ہے کہ موسیٰ کے حکم اور تمہارے مشورہ کے موافق خدا کے نام پر خرچ کر ڈالوں۔

۲:   یعنی دولت کمانے کی لیاقت کس نے دی۔ افسوس ہے منعم حقیقی کو بھول کر اس کی دی ہوئی دولت و لیاقت پر غرہ کرنے لگا۔ کیا اسی دولت کو اس نے اپنی نجات کا ضامن تصور کر رکھا ہے۔ اسے معلوم نہیں کتنی جماعتیں اپنی شرارت و سرکشی کی بدولت پہلے تباہ کی جا چکی ہیں۔ جن کے پاس بادشاہتیں تھیں اور اس ملعون سے زیادہ خزانوں اور لشکروں کے مالک تھے۔ ان کا انجام سن کر اسے عبرت نہ ہوئی۔

۳: یعنی پوچھنے کی ضرورت کیا ہو گی۔ اللہ کو ان کے گناہ ایک ایک کر کے معلوم ہیں، فرشتوں کے ہاں سب لکھے ہوئے ہیں، ہاں بطور توبیخ و تقریع اگر کسی وقت سوال ہو وہ دوسری بات ہے۔ یا یہ کنایہ ہے گناہوں کی کثرت سے۔ یعنی اتنی تعداد میں ہوں گے کہ ایک ایک جزئی کی پوچھ پاچھ کی ضرورت نہ رہے گی۔ اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "پوچھے نہ جائیں گے گناہ، یعنی گنہگار کی سمجھ درست ہو تو گناہ کیوں کرے۔ جب سمجھ الٹی پڑے تو الزام دینے سے کیا فائدہ کہ یہ برا کام کیوں کرتا ہے اس کی برائی نہیں سمجھتا۔" (موضح)

۷۹ ۔۔۔   یعنی لباس فاخرہ پہن کر بہت سے خدم و حشم کے ساتھ بڑی شان و شکوہ اور ٹیپ ٹاپ سے نکلا، جسے دیکھ کر طالبین دنیا کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ کہنے لگے کاش ہم بھی دنیا میں ایسی ترقی اور عروج حاصل کرتے جو اس کو حاصل ہوا۔ بیشک یہ بڑا ہی صاحب اقبال اور بڑی قسمت والا ہے۔

۸۰ ۔۔۔  ۱: یعنی سمجھدار اور ذی علم لوگوں نے کہا کہ کم بختو! اس فانی چمک دمک میں کیا رکھا ہے جو ریجھے جاتے ہو۔ مومنین صالحین کو اللہ کے ہاں جو دولت ملنے والی ہے اس کے سامنے یہ ٹیپ ٹاپ محض ہیچ اور لاشے ہے اتنی بھی نسبت نہیں جو ذرہ کو آفتاب سے ہوتی ہے۔

۲:  یعنی دنیا سے آخرت کو بہتر وہ ہی جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے۔ اور بے صبر لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں۔ نادان آدمی دنیا کی آسودگی دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس کی بڑی قسمت ہے اس کی شب و روز کی فکر و تشویش، درد سری اور آخرت کی ذلت کو اور سو جگہ خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا اور یہ نہیں دیکھتا کہ دنیا میں کچھ آرام ہے تو دس بیس برس، اور مرنے کے بعد کاٹنے ہیں ہزاروں برس۔ (موضح بتغییر یسیر)

۸۱ ۔۔۔   یعنی نہ کوئی دوسرا اپنی طرف سے مدد کو پہنچا، نہ یہ کسی کو بلا سکا۔ نہ اپنی ہی قوت کام آئی نہ دوسروں کی۔

۸۲ ۔۔۔  ۱: یعنی جو لوگ قارون کی ترقی و ترفع کو دیکھ کر کل یہ آرزو کر رہے تھے کہ کاش ہم کو بھی ایسا عروج حاصل ہوتا، آج اس کا یہ برا انجام دیکھ کر کانوں پر ہاتھ دھرنے لگے۔ اب ان کو ہوش آیا کہ ایسی دولت حقیقت میں ایک خوبصورت سانپ ہے جس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے۔ کسی شخص کی دنیاوی ترقی و عروج کو دیکھ کر ہم کو ہرگز یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے کہ اللہ کے ہاں وہ کچھ عزت و وجاہت رکھتا ہے۔ یہ چیز کسی بندے کے مقبول و مردود ہونے کا معیار نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جس پر مناسب جانے روزی کے دروازے کھول دے جس پر چاہے تنگ کر دے۔ مال و دولت کی فراخی مقبولیت اور خوش انجامی کی دلیل نہیں۔ بلکہ بسا اوقات اس کا نتیجہ تباہی اور ابدی ہلاکت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے سچ ہے ف کَمْ عَاقِلٍ عَاقِلٍ اَعْیَتْ مَذَاہِبُہ، وَکَمْ جَاہِلٍ جَاہِلٍ تَلْقَاہُ مَرْزُوْقاً ہٰذَا الَّذِیْ تَرَکَ الْاَوْہَامَ حَائِرَۃً وَصَیَّرَ الْعَالِمَ النَّحْرِیْرَ زِنْدِیْقاً

۲: یعنی خدا تعالیٰ کا احسان ہے اس نے ہم کو قارون کی طرح نہ بنایا، ورنہ یہ ہی گت ہماری بنتی، اپنی طرف سے تو ہم حرص کے مارے "یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنَ"کی آرزو کر ہی چکے تھے۔ خدا نے خیر کی کہ ہماری آرزو کو پورا نہ کیا۔ اور نہ ہماری حرص پر سزا دی۔ بلکہ قارون کا حشر آنکھوں سے دکھلا کر بیدار فرما دیا، اب ہمیں خوب کھل گیا کہ محض مال و زر کی ترقی سے حقیقی فلاح و کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، اور یہ کہ ناشکر گزار منکروں کے لیے عذاب الٰہی سے چھٹکارا نہیں۔

۸۳ ۔۔۔  یعنی قارون کی دولت کو نادانوں نے کہا کہ اس کی بڑی قسمت ہے، بڑی قسمت یہ نہیں، آخرت کا ملنا بڑی قسمت ہے۔ سو وہ ان کے لیے ہے جو اللہ کے ملک میں شرارت کرنا اور بگاڑ ڈالنا نہیں چاہتے اور اس فکر میں نہیں رہتے کہ اپنی ذات کو سب سے اونچا رکھیں۔ بلکہ تواضع و انکسار اور پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کی کوشش بجائے اپنی ذات کو اونچا رکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ اپنے دین کو اونچا رکھیں، حق کا بول بالا کریں اور اپنی قوم مسلم کو ابھارنے اور سر بلند کرنے میں پوری ہمت صرف کر ڈالیں۔ وہ دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔ آخرت کے عاشق ہوتے ہیں۔ دنیا خود ان کے قدم لیتی ہے۔ اب سوچ لو کہ دنیا کا مطلوب کیا دنیا کے طالب سے اچھا نہیں ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ لو! وہ سب سے زیادہ ترک الدنیا تھے مگر متروک الدنیا نہ تھے۔ بہرحال مومن کا مقصد اصلی آخرت ہے۔ دنیا کا جو حصہ اس مقصد کا ذریعہ بنے وہ ہی مبارک ہے ورنہ ہیچ۔

۸۴ ۔۔۔   ۱: یعنی جو بھلائی یہاں کرے گا اس سے کہیں بہتر بھلائی وہاں کی جائے گی۔ ایک نیکی کا جو مقتضی ہو گا کم از کم اس سے دس گناہ ثواب پائے گا۔

۲::   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں نیکی پر وعدہ دیا نیکی کا، وہ یقیناً ملنا ہے، اور برائی پر برائی کا وعدہ نہیں فرمایا کہ ضرور مل کر رہے گی کیونکہ ممکن ہے معاف ہو جائے۔ ہاں یہ فرما دیا کہ اپنے کیے سے زیادہ سزا نہیں ملتی۔

۸۵ ۔۔۔  ۱: پہلے فرمایا تھا "وَالْعَاقِبَۃُ لِّلْمُتَّقِیْنَ" کہ انجام بھلا پرہیزگاروں کا ہے۔ یعنی آخرت میں جیسا کہ اوپر معلوم ہوا۔ اب بتلاتے ہیں کہ دنیا میں بھی آخر فتح ان ہی کی ہوتی ہے۔ دیکھو آج کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تم کو مکہ چھوڑنا پڑا ہے مگر جس خدا نے آپ کو پیغمبر بنایا اور قرآن جیسی کتاب عطا فرمائی وہ یقیناً آپ کو نہایت کامیابی کے ساتھ اسی جگہ واپس لائے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ آیت اتری ہجرت کے وقت، یہ تسلی فرما دی کہ پھر مکہ میں آؤ گے۔ سو خوب طرح آئے پورے غالب ہو کر۔" بعض مفسرین نے "معاد" سے مراد موت لی ہے، بعض نے آخرت بعض نے جنت، بعض نے سرزمین شام جہاں پہلے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم شب معراج میں تشریف لے گئے تھے۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر نے ان اقوال میں بہت عمیق و لطیف تطبیق دی۔ یعنی "معاد" سے مراد اس جگہ مکہ معظمہ ہے (کما فی البخاری) مگر فتح مکہ علامت تھی قرب اجل کی جیسا کہ ابن عباس اور عمر رضی اللہ عنہما نے "اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ" کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا۔ آگے اجل کے بعد "حشر" حشر کے بعد "آخرت" اور آخرت کی انتہائی منزل جنت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ اول آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہایت شاندار طریقہ سے لوٹا کر لائے گا مکہ میں، اس کے چند روز بعد اجل واقعہ ہو گئی، پھر ارض شام کی طرف حشر ہو گا (جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے) پھر آخرت میں بڑی شان و شوکت سے تشریف لائیں گے اور اخیر میں جنت کے سب سے اعلیٰ مقام پر ہمیشہ کے لیے پہنچ جائیں گے۔

۲:  یعنی حق تعالیٰ میری ہدایت کو مکذبین و معاندین کی گمراہی کو خوب جانتا ہے۔ یقیناً وہ ہر ایک کے ساتھ ان کے احوال کے موافق معاملہ کرے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ میری کوششوں کو ضائع کر دے، یا گمراہوں کو رسوا نہ کرے۔

۸۶ ۔۔۔   ۱: یعنی آپ پہلے سے کچھ پیغمبری کے انتظار میں نہ تھے، محض رحمت و موہبت الٰہیہ ہے جو حق تعالیٰ نے پیغمبری اور وحی سے سرفراز فرمایا۔ وہ ہی اپنی مہربانی اور رحمت سے دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے گا لہٰذا اسی کی امداد پر ہمیشہ بھروسہ رکھیے۔

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی اپنی قوم کو اپنا نہ سمجھ جنہوں نے تجھ سے یہ بدی کی (کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا) اب جو تیرا ساتھ دے وہ ہی اپنا ہے۔

۸۷ ۔۔۔  یعنی دین کے کام میں اپنی قوم کی خاطر اور رعایت نہ کیجئے اور نہ آپ کو ان میں گنیے گو کہ اپنے قرابت دار ہوں۔ ہاں ان کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے اور خدا کے احکام پر جمے رہیے۔

۸۸ ۔۔۔  ۱: یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دوسروں کو سنایا۔ اوپر کی آیتوں میں بھی بعض مفسرین ایسا ہی لکھتے ہیں۔

۲:  یعنی ہر چیز اپنی ذات سے معدوم ہے اور تقریباً تمام چیزوں کو فنا ہونا ہے، خواہ کبھی ہو۔ مگر اس کا منہ یعنی وہ آپ نہ کبھی معدوم تھا، نہ کبھی فنا ہو سکتا ہے۔ سچ ہے۔ "اَلاَ کُلُّ شَیْ ءٍ مَاخَلاَ اللّٰہَ بَاطِلٌ۔" قال تعالیٰ "کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ") الرحمٰن ، آیت ۲۷ (اور بعض سلف نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ سارے کام مٹ جانے والے اور فنا ہو جانے والے ہیں بجز اس کام کے جو خالصۃً بوجہ اللہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۳:  یعنی سب کو اس کی عدالت میں حاضر ہونا ہے جہاں تنہا اسی کا حکم چلے گا۔ صورۃً و ظاہراً بھی کسی کا حکم و اقتدار باقی نہ رہے گا۔ اے اللہ اس وقت اس گنہگار بندہ پر رحم فرمائیے اور اپنے غضب سے پناہ دیجئے۔ (تم سورۃ القصص وللّٰہ الحمد والمنۃ)