تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المُلک

(سورۃ الملك ۔ سورہ نمبر ۶۷ ۔ تعداد آیات ۳۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     بڑی ہی برکت والی ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہے بادشاہی (اس ساری کائنات کی) اور وہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے

۲۔۔۔     جس نے پیدا فرمایا موت اور حیات کو تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کس کا کام سب سے اچھا ہے اور وہی ہے سب پر غالب بڑا ہی بخشنے والا (اور نہایت درگزر کرنے والا)

۳۔۔۔     جس نے پیدا فرمایا (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) سات آسمانوں کو تہ بر تہ تم (خدائے ) رحمان کی صنعت میں (کسی طرح کا) کوئی فرق نہ دیکھ سکو گے تم پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو کیا تمہیں (کہیں ) کوئی خلل نظر آتا ہے ؟

۴۔۔۔     تم پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ لو تمہاری نگاہ تھکی ہاری ناکام ہو کر تمہاری طرف واپس لوٹ آئے گی

۵۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے مزین (اور آراستہ و پیراستہ) کیا (اپنی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ سے تمہارے ) قریب کے اس آسمان کو (ستاروں کے ) عظیم الشان چراغوں سے اور ہم ہی نے ان کو بنایا شیطانوں کے مار بھگانے کا ذریعہ اور ہم نے تیار کر رکھا ہے ان کے لئے عذاب بھڑکتی آگ کا

۶۔۔۔     اور جن لوگوں نے کفر کیا ہو گا اپنے رب کے ساتھ ان کے لئے عذاب ہے جہنم (کی اس دہکتی آگ) کا اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ

۷۔۔۔     جب وہ اس میں ڈالے جائیں گے تو وہ اس کے سخت شور کی آوازیں سنیں گے

۸۔۔۔     جبکہ وہ جوش مار رہی ہو گی شدت غضب سے وہ پھٹی جا رہی ہو گی جب بھی ڈالا جائے گا اس میں (کفار و منکرین) کا کوئی گروہ تو اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا؟

۹۔۔۔     وہ جواب میں کہیں گے کہ ہاں خبردار کرنے والا تو ہمارے پاس ضرور آیا تھا مگر ہم نے اس کو جھٹلا دیا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کچھ بھی نازل نہیں کیا تم لوگ تو خود ہی ایک بڑی گمراہی میں پڑے ہو

۱۰۔۔۔     اور وہ (بصد حسرت و افسوس) کہیں گے کہ اے کاش اگر ہم سنتے یا سمجھتے تو آج ہم اس بھڑکتی آگ کے سزا واروں میں نہ ہوتے

۱۱۔۔۔     اس طرح وہ اپنے گناہ کا خود اقرار کر لیں گے سو پھٹکار ہے ان دوزخیوں کے لئے

۱۲۔۔۔     (اس کے برعکس) جو لوگ ڈرتے رہتے ہیں اپنے رب سے بن دیکھے ان کے لئے یقیناً بڑی بخشش بھی ہے اور ایک بہت بڑا اجر بھی

۱۳۔۔۔     اور تم لوگ خواہ چپکے سے بات کرو یا اونچی آواز سے (اللہ کو سب معلوم ہے کیونکہ) وہ تو یقینی طور پر دلوں کے بھیدوں کو بھی پوری طرح جانتا ہے

۱۴۔۔۔     کیا وہی نہ جانے گا جس نے خود پیدا کیا ہے ؟ جب کہ وہ (ذات اقدس) انتہائی باریک بیں بھی ہے اور نہایت باخبر بھی؟

۱۵۔۔۔     وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے رام کر دیا تمہارے لئے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) زمین (کے اس عظیم الشان کرے ) کو پس تم لوگ چلو (پھرو) اس کے کندھوں پر اور کھاؤ (پیو) اس (وحدہٗ لاشریک) کے دیئے ہوئے میں سے اور (یاد رکھو کہ آخرکار تم سب کو) بہر حال اسی کے حضور جانا ہے دوبارہ زندہ ہو کر

۱۶۔۔۔     کیا تم لوگ نڈر (اور بے خوف) ہو گئے ہو اس سے جو کہ آسمان میں (بھی معبود و متصرف) ہے اس بات سے کہ وہ تمہیں دھنسا دے (تمہارے اپنے زیر پا افتادہ) اسی زمین میں پھر یکا یک یہ (عظیم الشان کرہ) ہچکو لے کھانے لگے ؟

۱۷۔۔۔      کیا تم لوگ نڈر (اور بے خوف) ہو گئے ہو اس سے جو کہ آسمان میں (بھی معبود و متصرف) ہے اس سے کہ وہ بھیج دے تم پر پتھر برسانے والی کوئی ہولناک ہوا، پھر تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ کیسا تھا میرا ڈرانا (اور خبردار کرنا)؟

۱۸۔۔۔     اور بلاشبہ جھٹلایا (حق اور حقیقت کو) ان لوگوں نے بھی جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے پھر (دیکھ لو) کیسا تھا میرا عذاب؟

۱۹۔۔۔     کیا ان لوگوں نے خود اپنے اوپر (اڑتے پھرتے ) ان پرندوں کو نہیں دیکھا؟ جو کبھی پر پھیلائے ہوتے ہیں اور کبھی وہ ان کو سکیڑ لیتے ہیں کوئی نہیں جو ان کو روک سکے (اس طرح کھلی فضاء میں ) سوائے (خدائے ) رحمان کے بلاشبہ وہ ہر چیز کو پوری طرح دیکھ رہا ہے

۲۰۔۔۔     (ان سے کہو کہ) بھلا کون ہے وہ جو تمہارے لئے لشکر بن کر تمہاری مدد کر سکے (خدائے ) رحمان کے مقابلے میں ؟ کافر لوگ تو محض دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں

۲۱۔۔۔     بھلا وہ کون ہو سکتا ہے جو تمہیں روزی دے اگر وہ (خدائے رحمٰن) بند کرے اپنی روزی؟ (ایسا کوئی بھی نہیں ) مگر یہ لوگ (ہیں کہ اس سب کے باوجود) اڑے ہوئے ہیں سرکشی اور (حق سے ) گریز (و فرار) میں

۲۲۔۔۔     تو کیا وہ شخص زیادہ راست رو ہے جو اوندھا چل رہا ہو اپنے منہ کے بل یا وہ جو سر اٹھا کر سیدھا چل رہا ہو ایک (کھلی کشادہ) شاہراہ پر؟

۲۳۔۔۔      (ان سے ) کہو کہ وہ (معبود برحق) وہی ہے جس نے پیدا فرمایا تم سب کو (اپنی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ سے ) اور اسی نے تمہیں کان بخشے آنکھیں عطا فرمائیں اور دل دیئے (مگر) تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو،

۲۴۔۔۔     (ان سے مزید) کہو کہ وہ (وحدہٗ لاشریک) وہی ہے جس نے پھیلا دیا تم سب کو زمین میں (نہایت پر حکمت طریقے سے ) اور آخرکار اسی کی طرف لوٹنا ہے تم سب کو سمٹ کر

۲۵۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ آخر کب پورا ہو گا تمہارا یہ وعدہ اگر تم سچے ہو؟

۲۶۔۔۔     کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے اور میں تو محض ایک خبردار کرنے والا ہوں (حقیقت امر کو) کھول کر

۲۷۔۔۔     سو جب یہ اس کو قریب دیکھیں گے تو بگڑ جائیں گے چہرے ان لوگوں کے جو اس کا انکار کرتے رہے تھے اور (اس وقت ان سے ) کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ چیز جس کا تم لوگ (دنیا میں ) بار بار مطالبہ کیا کرتے تھے

۲۸۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ (نادانو!) ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگر اللہ ہلاک کر دے مجھے اور ان سب کو بھی جو میرے ساتھ ہیں یا رحم فرما دے ہم سب پر تو (اس سے تمہیں کیا ملے گا؟ تم تو یہ سوچو کہ) کون بچائے گا کافروں کو دردناک عذاب سے ؟

۲۹۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ وہ (رب) بڑا ہی مہربان ہے ہم اس پر ایمان لائے (سچے دل سے ) اور ہم نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے (ہر حال میں ) پس تم لوگوں کو عنقریب خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے وہ جو پڑا ہے کھلی گمراہی میں

۳۰۔۔۔     (ان سے یہ بھی) کہو کہ اچھا تم یہ تو بتاؤ کہ اگر تمہارا پانی (زمین میں ) نیچے کو اتر جائے تو پھر کون ہے جو تمہیں لا دے ستھرے پانی کی بہتی ہوئی سوتیں ؟

تفسیر

 

۱۔۔۔   سو اس سے کائنات کی اس کھلی کتاب میں موجود نشانہائے قدرت و حکمت میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کیونکہ انسان اگر کائنات کی اس عظیم الشان اور کھلی کتاب میں صحیح طور پر غور و فکر سے کام لے تو اس کو اس میں حضرت خالق کل اور مالک مطلق جل و علا شانہ کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت کے عظیم الشان دلائل و مظاہر نظر آئیں گے اور ایسے کہ وہ دل و جان سے اس کے حضور جھک جھک جائے، اور وہ دل سے پکار اٹھے گا رَبَّنَا مَا خَلَقَتْ ہٰذَا بِاطِلاً یعنی اے ہمارے رب تو نے یہ سب کچھ باطل اور بیکار نہیں پیدا فرمایا اور اس کے سامنے یہ عظیم الشان اور بنیا دی حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ بڑی ہی عظمت اور برکت والی ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اس ساری کائنات کی اور وہی ہے جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے اور جب یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے تو لازماً معبود برحق بھی وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے سبحانہ و تعالیٰ اس کے سوا اور کسی کے لئے بھی عبادت و بندگی کی کوئی بھی شکل بجا لاتا شرک ہو گا۔ جو کہ ظلم عظیم ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۔۔۔   سو اس سے اس اہم اور بنیا دی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ زندگی اور موت دونوں کا خالق و مالک وہی وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ اور یہ دونوں اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں اس کے سوا نہ کوئی زندگی دے سکتا ہے نہ موت سو موت فناء محض نام نہیں جس طرح کہ ابناء کفر و باطل نے سمجھ رکھا ہے، بلکہ اس کی حقیقت انتقال ہے یعنی دار دنیا سے دار آخرت کی طرف منتقل ہو جانا، اور روح کا جسم سے جدا ہو جانا، پھر موت کا ذکر یہاں پر حیات (زندگی) سے پہلے فرمایا گیا ہے اس لئے کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت و حکمت اور اسی کے فیض سے پردہ عدم سے عالم وجود میں آتی ہے وہ اگر نہ چاہے تو کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔ سو وہی قادر مطلق ہے جو اپنی قدرت و حکمت سے عدم کے بعد زندگی بخشتا ہے پھر وہی زندگی کے بعد موت دیتا ہے سو یہی چیز اس بات کی شاہد ہے کہ نہ یہ کارخانہ قدرت بے غایت و بے مقصد ہو سکتا ہے کہ یونہی چلتا رہے یا ایک دن یونہی ختم ہو جائے اور نہ ہی اس کائنات کے گل سرسبد اور مخدوم و مطاع انسان اور اس کا وجود بیکار اور بے مقصد ہو سکتا ہے کہ یہ یونہی مر کھپ کر ختم ہو جائے جس طرح کہ کیڑے مکوڑے اور برسات کے مینڈک پیدا ہو کر ختم ہو جاتے ہیں، کہ یہ چیز اس خالق حکیم کی قدرت و حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے جس نے اس قدر پر حکمت طریقے سے اس کائنات کو وجود بخشا۔ اور انسان کو اس کی ان گوناگوں نعمتوں سے استفادے کا موقع بخشا، کہ وہ اس قدر سہولت اور آسانی کے ساتھ ان عظیم الشان نعمتوں سے جب اور جیسے چاہے فائدہ اٹھائے اور اس کے نتیجے میں وہ زندگی کے ہر لمحے کے اندر ان گوناگوں نعمتوں سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتا ہے۔ سو یہ سب کچھ اس بات کی دلیل اور اس کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس پر حکمت کائنات میں جس کو بھی زندگی بخشتا ہے وہ ابتلاء و آزمائش کے مقصد ہی کے لئے بخشتا ہے کہ وہ اس بات کو دیکھے کہ کون اپنی زندگی اپنے خالق و مالک کی مرضی اور اس کی پسند کے مطابق گزارتا ہے۔ اور کون من مانی کرتا ہے اسی پر اس سارے امتحان اور ابتلاء و آزمائش کا مدار و انحصار ہے اور اسی کے لئے ہر انسان کو اس کی زندگی بھر کے پیریڈ کی مہلت دی گئی ہے اور اس امتحان کا لازمی تقاضا ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے جس میں وہ سب انسانوں کو دوبارہ پیدا کر کے ان کا حساب لے اور ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کے صلہ و بدلہ سے نوازے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علی وجہ التمام والکمال پورے ہوں۔ تاکہ اس کے نتیجے میں وہ کامیاب ہونے والوں کو ابدی بادشاہی سے نوازے۔ اور ناکام ہونے والوں کو انکے کئے کرائے کا پورا پورا بدلہ دے۔ سو یہی ہے حکمتوں بھری اس عظیم الشان کائنات کی تخلیق و تکوین کا اصل مقصد۔ پس جو لوگ اس مقصد سے غافل اور اس کے تقاضوں سے لا پرواہ ہیں وہ بڑے ہی سخت خسارے میں پڑے ہیں والعیاذ باللہ العظیم

۱۰۔۔۔   سو اس موقع پر وہ لوگ بڑے ہی حسرت بھرے انداز میں کہیں گے کہ اگر ہم حق کی دعوت دینے والوں کی بات سن لیتے، یا خود اپنی عقلوں سے صحیح کام لے لیتے، تو ہمیں حق و ہدایت کی وہ راہ عظیم نصیب ہو جاتی، جس کے نتیجے میں آج ہم بھی جنت کے حقداروں میں ہوتے اور دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ کے ساتھیوں میں سے نہ ہوتے، مگر ہم نے تو نہ کبھی صحیح طریقے؟ سوچا، اور اپنی عقلوں سے صحیح کام لیا، اور نہ ہی اپنے مخلص ناصحین کی بات سننے کے لئے اپنے کان کھولے، جس کا نتیجہ اور انجام یہ ہوا کہ آج ہم اس انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہوئے کاش کہ ہم اپنے ان مخلص ناصحین کی باتوں کو سن اور مان لیتے، یا اپنی عقلوں کو بطن و فرج کے تقاضوں کے پیچھے لگانے کے بجائے راہ حق و ہدایت کے فہم و ادراک کے لئے استعمال کرتے، تو آج اس ہولناک انجام سے دوچار نہ ہوتے مگر بے وقت کے اس اعتراف و اقرار کا ان لوگوں کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے، والعیاذ باللہ، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قرآن حکیم کا دنیائے انسانیت پر یہ کتنا بڑا اور کس قدر احسان عظیم ہے کہ اس نے اس جہان غیب کے ان عظیم الشان اور جلیل القدر حقائق کو جس کے جاننے کا دوسرا کوئی ذریعہ اور وسیلہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا، اتنا پیشگی اور اس قدر صراحت و وضاحت کے ساتھ ذکر و بیان فرما دیا۔ تاکہ جنہوں نے آنکھیں کھولنی ہوں کھول لیں، اور وہ اس سب سے بڑے خسارے اور ہولناک انجام سے بچنے کی فکر و کوشش کر لیں، قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود و مختصر ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے اس ہولناک خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ کہ آخرت کا یہ خسارہ سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے اور ایسا کہ اس سے خلاصی اور چھٹکارے کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی، سو یہ خسارہ ناقابل تلافی و تدارک خسارہ ہو گا، والعیاذ باللہ، اور آخرت کے اس جہان غیب کے لئے تیاری اور کمائی کا موقع اور اس کی فرصت اسی دنیاوی زندگی میں ہے اور بس، اس کے بعد اس کا نہ کوئی موقع ہے نہ امکان، سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دنیاوی زندگی کی یہ فرصت محدود وجود آج ہمیں میسر ہے قدرت کی کتنی بڑی عنایت، اور کس قدر عظیم الشان نعمت ہے، کہ اسی میں انسان کے لئے جنت اور اس کی نعیم مقیم کی کمائی اور اس سے سرفرازی کا موقع ہے، اور بس، مگر افسوس کہ غفلت کی ماری، اور ہوا و ہوس کی پجاری دنیا ہے کہ آنکھ کھولنے، اور آواز حق و ہدایت کو سننے اور ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ وہ دعاۃ حق کے وجود ہی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی۔ اور حق کی آواز کو مٹانے اور نور حق کو بجھانے کے لئے طرح طرح کے ابلیسی منصوبے بناتی اور شیطانی جال بنتی جا رہی ہے۔ جس کے مختلف مظاہر اور طرح طرح کے نمونے آج ہم اپنی آنکھوں سے جا بجا دیکھتے ہیں، والعیاذ باللّٰہ جل و علا، والیہ المشتکیٰ وہو المستعان، وعلیہ التکلان، فی کل حین واٰن وبکل زمان و مکان۔ اللہ تعالیٰ حق والوں کی مدد فرمائے، اور ابنائے کفر و باطل کے شرور و فتن سے ان کو ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، حق کا بول بالا ہو، اور کفر و باطل کا منہ کالا، آمین ثم آمین یا رب العالمین، یامَنْ بِیَدِہٖ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ علیہ، سبحانہ و تعالیٰ

۲۲۔۔۔   سو اس ارشاد سے ان محروم اور بدبخت لوگوں کی محرومی کے اصل سبب کی نشاندہی فرما دی گئی جو ہوا و ہوس اور خواہشات بطن و فرج کے ایسے غلام بن کر رہ گئے ہیں کہ ہر وقت انہی کے پیچھے چلنے اور انہی کی بو سونگھنے میں لگے رہتے ہیں اسی قماش کے لوگوں کے حال کے ذکر و بیان کے سلسلے میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَمَثَلُہ کَمَثَلِ الْکَلْبِ یعنی ایسے لوگوں کی مثال کتے کی سی ہے۔ سو جس طرح کتا ہمیشہ زمین کو سونگھتا ہوا ہی چلتا ہے کہ شاید کہیں سے کھانے کی کوئی چیز مل جائے، اور اسی حرص اور لالچ کی بناء پر اس کی زبان ہر وقت نکلی ہوئی، اور لٹکی ہوئی رہتی ہے، اور اس سے اس کی رال برابر ٹپکتی رہتی ہے، جو اس کے لالچ کی نشانی اور علامت ہوتی ہے، یہ تو حال ہوا اس کی شہوت بطن کا، جبکہ دوسری طرف اس کی شہوت فرج کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی وہ اپنے کسی ہم جنس سے ملتا ہے تو سیدھا جا کر اس کے پیشاب کی جگہ کو سونگھنے اور چاٹنے لگتا ہے، تاکہ اس طرح وہ اپنی شہوت فرج کی تسکین کا سامان کر سکے، سو بعینہٖ یہی حال ان لوگوں کا ہے جو نور حق و ہدایت سے منہ موڑ کر، اور ان سے محروم ہو کر وہ شہوات بطن و فرج کی تسکین ہی کو اپنا مقصد حیات اور قبلہ مقصود بنائے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم بے پایاں سے ان کو عقل کے جس جوہر عظیم و بے مثال سے نوازا تھا کہ یہ اس کے ذریعے اپنے خالق و مالک کی معرفت حاصل کریں۔ اور حق و ہدایت کی اس راہ کو اپنائیں جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ اس کو انہوں نے راہ حق و ہدایت کی راہنمائی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے کے بجائے الٹا اس کو بھی خواہشات بطن و فرج ہی کا غلام بنا دیا اور اس کو انہی کے پیچھے لگا دیا، اور یہ عقل و فکر کی روشنی رکھنے کے باوجود اندھے اور اوندھے بن کر اپنی شہوات اور خواہشات کے پیچھے چلنے لگے۔ تو پھر خواہشات کے پیچھے چلنے والے ایسے اندھوں اور اوندھوں کو حق و ہدایت کی روشنی آخر کیسے اور کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟ ہدایت کی راہ تو اسی کو ملتی ہے اور مل سکتی ہے جو سر اٹھا کر دائیں بائیں دیکھتا ہوا اور آگے پیچھے کا جائزہ لیتا ہوا چلے، اسی لئے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ اپنی قدرت کے تقاضوں کے مطابق انسان کو دوسرے مختلف جانوروں کی طرح زمین کی طرف جھکا ہوا نہیں بنایا۔ بلکہ اس کو مستوی القامت پیدا کیا۔ لیکن ہویٰ و ہوس کا غلام یہ ناشکرا انسان ہے کہ یہ اس سب کے باوجود جانوروں ہی کی طرح ہو کر، اور انہی کا پیرو بن کر رہ گیا۔ اور اس طرح وہ اپنی اس سب سے بڑی خصوصیت کو کھو کر، یہ انسانیت کے اصل اور حقیقی شرف اور تمغہ امتیاز سے محروم ہو گیا، اور اس کو کھو کر یہ انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہو گیا۔ مگر اس کو اس کا شعور و احساس ہی نہیں بلکہ وہ اس کے باوجود اپنے آپ کو درست اور اپنے طریقے کو صحیح سمجھتا ہے جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، حق کو حق سمجھ کر اس کو اپنانے اور اختیار کرنے کی توفیق بخشے، اور باطل کو باطل جان کر اس سے مجتنب اور دور رہنے کی توفیق بخشے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۲۹۔۔۔   یعنی ان سے کہو کہ ہمیں نہ تو اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی دعوی اور گھمنڈ ہے، کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، اور نہ ہی ہم دوسروں کی طرح اس بارے کسی من گھڑت زعم میں مبتلا ہیں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ ہم اپنے خدائے رحمان پر ایمان لائے ہیں جو کہ اس کا ہم پر حق بھی ہے اور سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ بھی ہم نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے کہ بھروسہ کرنے کے لائق کے وہی وحدہٗ لاشریک ہے جو اس ساری کائنات کا خالق و مالک، اور اس میں حاکم و متصرف ہے، سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور وہ ایسا مہربان اور رحمان ہے کہ اس کی رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ نہیں، سبحانہ و تعالیٰ، اس لئے ہمیں یہ امید ضرور ہے کہ وہ ہمارے اس ایمان اور توکل کے نتیجے میں ہمارے ساتھ رحم و کرم کا معاملہ فرمائے گا اگر اس کے باوجود تم لوگ ہم سے جھگڑتے ہو تو نتیجہ و انجام کا انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کھلی گمراہی میں کون ہے۔ ہم یا تم؟ کون کامیاب اور کون ناکام ہے، اور کس کا نتیجہ و انجام کیا ہونے والا ہے؟ کہ اس وقت یہ سب کچھ واضح ہو جائے گا، اور پوری طرح واضح ہو جائے گا، سو یہ ہٹ دھرم لوگوں کے لئے آخری جواب ہے کہ ایسوں سے الجھنے اور ان کو منہ لگانے کا کوئی فائدہ نہیں سوائے تضیع وقت، اور بے فائدہ کلفت و کوفت کے، والعیاذ باللہ العظیم

۳۰۔۔۔   مَاء معین سے مراد ہے صاف و شفاف اور خالص و بے آمیز پانی، سو اس ارشاد سے خداوند قدوس کے باغی اور سرکش لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے کہ تم لوگ اس قادر مطلق خالق و مالک کے عذاب سے غافل اور بے فکر نہ ہو جاؤ، اس کا عذاب کہیں سے بھی اور کسی بھی شکل میں آ سکتا ہے۔ والعیاذ باللہ، خود تمہارا یہ پانی جو زندگی کی اصل و اساس اور مابہ الحیاۃ جوہر ہے جس پر تمہارا اور ہر جاندار کی زندگی کا مدار و انحصار ہے اگر یہ زمین کے اندر اتنا نیچے اتر جائے کہ تمہاری مشینوں اور ٹیوب ویلوں تک کی بھی اس تک رسائی نہ ہو سکے۔ جس طرح کہ آج بھی جگہ جگہ اس کے نمونے سامنے آتے ہیں، تو پھر کون ہے جو تم لوگوں کو صاف ستھرے اور میٹھے پانی کی اس نعمت سے بہرہ ور کر سکے؟ جب کوئی بھی نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر تم لوگ اس قادر مطلق کی گرفت و پکڑ اور اس کے عذاب سے آخر کیسے اور کیونکر نچنت اور بے فکر ہو سکتے ہو؟ والعیاذ باللہ، یہاں پر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ پانی کے نیچے اتر جانے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ باقی کی سطح اس قدر نیچی چلی جائے کہ وہاں سے پانی لانا بس سے باہر ہو جائے، جیسا کہ ابھی اوپر عرض کیا گیا ہے کہ کتنی ہی مرتبہ ایسے ہوتا ہے کہ پانی کو کنویں سے تو درکنار ٹیوب ویل سے بھی لانا ممکن نہیں رہتا، جبکہ دوسری صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ بارش کے نہ ہونے، یا کم ہونے کی وجہ سے نہروں، چشموں، اور ندیوں وغیرہ کا پانی اتنا کم ہو جاتا ہے کہ وہ گدلا ہو کر رہ جاتا ہے یا بالکل خشک ہو جاتا ہے وغیرہ کی مختلف صورتوں میں ہوتا رہتا ہے، سو اللہ تعالیٰ کا عذاب اس طرح کی کسی بھی صورت میں آ سکتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، وبہٰذا القدر نکتفی من التفسیر المختصر لسورۃ الملک، و الحمد للہ جل و علا،