تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الاٴنفَال

(سورۃ الانفال ۔ سورہ نمبر ۸ ۔ تعداد آیات ۷۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     پوچھتے ہیں آپ سے (اے پیغمبر!) غنیمتوں کے بارے میں ، تو کہو کہ یہ غنیمتیں تو سب اللہ کی ہیں اور اس کے رسول کی (اللہ جو چاہے حکم دے ، اور اس کے رسول اس کا حکم نافذ کریں گے ) پس تم لوگ تو ہمیشہ ڈرتے (اور بچتے ) رہا کرو اللہ کی ناراضگی اور اس کی پکڑ سے اور صحیح و درست رکھا کرو تم آپس کے تعلقات (و معاملات) کو اور اطاعت کرو تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اگر تم واقعی ایماندار ہو،

۲۔۔۔     سوائے اس کے کچھ نہیں کہ (سچے ) ایمانداروں کی (کیفیت اور) شان یہ ہوتی ہے کہ جب ان کے سامنے ذکر کیا جائے اللہ (وحدہٗ لاشریک) کا تو لرز اٹھتے ہیں ان کے دل، اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں اس کی آیتیں تو اور بڑھ جاتا ہے ان کا ایمان، اور وہ اپنے رب ہی پر (اصل) بھروسہ کرتے ہیں ،

۳۔۔۔     جو (ٹھیک ٹھیک) قائم رکھتے ہیں اپنی نمازوں کو اور وہ خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو کہ ہم نے ان کو دیا ہوتا ہے (ہماری رضا کے لئے )

۴۔۔۔     یہی لوگ ہیں سچے اور حقیقی ایمان والے ، ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے رب کے یہاں اور عظیم الشان بخشش بھی اور عزت کی روزی بھی (اور تقسیم غنیمت کا یہ معاملہ ویسے ہی مبنی برحق ہے )

۵۔۔۔     جیسا کہ آپ کو نکالا آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ، (بدر کے معرکہ حق و باطل کی طرف) جب کہ ایمان والوں کے ایک گروہ کو یہ امر سخت ناگوار گزر رہا تھا،

۶۔۔۔     وہ جھگڑ رہے تھے آپ سے اس حق کے بارے میں اس کے بعد کہ وہ پوری طرح واضح ہو گیا تھا ان کے سامنے (اور جھگڑ بھی اس طرح رہے تھے کہ) گویا کہ ان کو ہانکا جا رہا ہے موت کی طرف، جب کہ یہ خود دیکھ رہے ہوں (اس کو اپنے سامنے )

۷۔۔۔     اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب اللہ وعدہ فرما رہا تھا تم سے ان دونوں گروہوں میں سے ایک کے بارے میں ، کہ وہ یقیناً تمہارے لئے ہے ، اور تم یہ چاہتے تھے کہ مسلح گروہ (تجارتی قافلہ) تمہیں مل جائے ، مگر اللہ یہ چاہتا تھا کہ حق کو حق کر کے دکھائے اپنے ارشادات (و فرامین) کے ذریعے ، اور جڑ کاٹ کر رکھ دے ایسے کافروں کی،

۸۔۔۔     تاکہ وہ (عملاً اور عیاناً) حق کا حق ہونا ثابت (و واضح) فرما دے ، اور باطل کا باطل ہونا، اگرچہ یہ ناگوار ہو مجرموں کو

۹۔۔۔     یاد کرو کہ جب تم لوگ فریاد کر رہے تھے اپنے رب سے ، تو اس نے تمہاری فریاد کے جواب میں فرمایا کہ میں یقینی طور پر تمہاری مدد کے لئے اتارنے والا ہوں ایک ہزار فرشتے پے در پے اترنے والے ،

۱۰۔۔۔     اور اس (امداد) کو بھی اللہ نے نہیں بنایا مگر محض ایک خوشخبری تم لوگوں کے لئے ، اور تاکہ مطمئن ہو جائیں اس سے تمہارے دل، ورنہ مدد تو (حقیقت میں ) اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ، بے شک اللہ ہی بڑا زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،

۱۱۔۔۔     یاد کرو کہ جب وہ طاری فرما رہا تھا تم پر (عین حالت جنگ میں ) ایک اونگھ، تاکہ وہ نوازے تم کو اپنی طرف سے ایک خاص امن و سکون سے ، اور وہ برسا رہا تھا تم پر آسماں سے پانی، تاکہ وہ پاک کر دے تم لوگوں کو اس کے ذریعے ، اور دور فرما دے تم سے شیطان کی گندگی، اور مضبوط فرما دے تمہارے دلوں کو، اور جما دے اس کے ذریعے تمہارے قدموں کو،

۱۲۔۔۔     جب کہ اشارہ فرما رہا تھا تمہارا رب فرشتوں کو کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، پس تم ثابت قدم رکھو ایمان والوں کو، میں ابھی رعب ڈالے دیتا ہوں کافروں کے دلوں میں ، پس تم (کس کس کر) ضربیں لگاؤ ان کی گردنوں پر، اور کاٹ ڈالو ان کے پور پور (اور جوڑ جوڑ) کو،

۱۳۔۔۔     یہ سزا اس لئے کہ انہوں نے مقابلہ کیا اللہ اور اس کے رسول کا، اور جو کوئی مقابلہ کرے گا اللہ اور اس کے رسول کا تو وہ یقیناً تباہ ہو کر رہے گا کہ بے شک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے ،

۱۴۔۔۔     لو اب چکھو تم لوگ مزہ اپنی اس سزا کا اور جان لو کہ یقیناً کافروں کے لئے مقرر ہے دوزخ کا عذاب،

۱۵۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو جب تمہارے مڈھ بھیڑ (اور مقابلہ) ہو جائے کافروں کے کسی لشکر سے تو خبردار تم ان کو پیٹھ نہیں دکھانا

۱۶۔۔۔     اور یاد رکھو کہ جس نے پیٹھ دکھائی ان کو سوائے اس کے کہ وہ جنگ ہی کے لئے کوئی پینترا بدلتا ہو، یا اپنی فوج کے سوا کسی دوسرے دستے سے ملنا چاہتا ہو تو وہ یقیناً لوٹا اللہ کے بھاری غضب کے ساتھ، اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے ، اور بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے وہ

۱۷۔۔۔     ، پس درحقیقت ان کو تم نے قتل نہیں کیا تھا، بلکہ ان کو اللہ ہی نے قتل کیا تھا اور جو آپ نے پھینکی تھی وہ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی تھی بلکہ وہ اصل میں اللہ ہی نے پھینکی تھی اور تاکہ وہ تم کو نواز دے ایمان والوں کو اپنی طرف سے ایک بڑے ہی عمدہ اجر سے ، بے شک اللہ بڑا ہی سننے والا، (سب کچھ) جانتا ہے

۱۸۔۔۔      یہ معاملہ تو ہوا تمہارے ساتھ، اور یقیناً اللہ کمزور کرنے والا ہے کافروں کی چالوں کو،

۱۹۔۔۔     اگر تم لوگ فیصلہ چاہتے تھے تو یقینی طور پر وہ تمہارے سامنے آ گیا ہے اور اگر تم باز آ جاؤ تو یہ بہتر ہے خود تمہارے لئے اور اگر تمہارے لچھن پھر بھی وہی رہے تو پھر ہم بھی وہی کریں گے اور تمہارے کچھ بھی کام نہ آ سکے گی تمہاری جماعت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور اللہ ساتھ ہے ایمان والوں کے ،

۲۰۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو حکم مانو تم اللہ کا اور اس کے رسول کا اور تم روگردانی مت کرو اس سے ، درآں حالیکہ تم خود سنتے ہو (اس کے اوامر و ارشادات کو)

۲۱۔۔۔     اور کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا مگر وہ سنتے نہیں ،

۲۲۔۔۔     بے شک اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ بہرے ہیں گونگے لوگ ہیں ، جو صحیح معنوں میں کام نہیں لیتے اپنی عقلوں سے ،

۲۳۔۔۔     اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی دیکھتا تو وہ انہیں ضرور سننے کی توفیق دے دیتا اور اگر انہیں اسی حالت میں سنا دیتا تو یقیناً یہ پھر جاتے منہ موڑ کر،

۲۴۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو لبیک کہو تم، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر، جب کہ وہ بلائے تمہیں اس چیز کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے ، اور یقین جانو کہ اللہ آڑ بن جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے درمیان، اور یہ کہ سب کو بہرحال اس کے حضور جانا ہے اکٹھے ہو کر،

۲۵۔۔۔     اور ڈرو تم لوگ اس بڑے فتنے سے جو تم میں سے صرف ظالموں ہی کو نہیں پہنچے گا، اور یقین جانو کہ اللہ کا عذاب بڑا ہی سخت ہے ،

۲۶۔۔۔     اور یاد کرو تم جب کہ تم لوگ تھوڑے سے تھے ، تم کو کمزور سمجھا جاتا تھا اس سرزمین میں ، اور تمہیں ڈر لگا رہتا تھا اس بات سے کہ کہیں اچک نہ لیں تم کو دوسرے لوگ، تو ایسے میں اس نے جگہ دی تم کو رہنے کے لئے ، تم کو قوت بخشی اپنی نصرت سے اور تمہاری روزی کا انتظام فرمایا طرح طرح کی پاکیزہ چیزوں سے ، تاکہ تم لوگ شکر ادا کرو،

۲۷۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو (خبردار! کبھی) تم خیانت نہیں کرنا اللہ اور اس کے رسول سے ، اور نہ ہی تم خیانت کرنا آپس میں ایک دوسرے کی امانتوں میں ، جب کہ تم جانتے ہو،

۲۸۔۔۔     اور یقین جانو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش کا سامان ہیں ، اور یہ کہ اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے ،

۲۹۔۔۔     اے ایمان والو! اگر تم ڈرتے رہے اللہ سے تو وہ سرفراز فرما دے گا تم کو ایک فیصلہ کن چیز سے ، اور وہ مٹا دے گا تم سے تمہاری برائیوں کو اور نواز دے گا تم کو اپنی بخشش سے ، اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے ،

۳۰۔۔۔     اور جب یہ کافر لوگ آپ کے خلاف سازش کر رہے تھے کہ آپ کو قید کر دیں یا قتل کر دیں یا ملک بدر کر دیں ، یہ لوگ اپنی چا لیں چل رہے تھے ، اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا، اور اللہ کی چال سب سے زیادہ کارگر ہوتی ہے ،

۳۱۔۔۔     اور جب ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں ہماری آیتیں تو یہ پوری ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ہاں صاحب، ہم نے سن لیا، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام بنا کر لے آئیں ، یہ تو پہلے لوگوں کی کہانیوں کے سوا کچھ نہیں

۳۲۔۔۔     اور جب انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اے اللہ! اگر یہ دین واقعی حق ہے تیری طرف سے ، تو تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا لے آ ہم پر اور کوئی دردناک عذاب،

۳۳۔۔۔     مگر اللہ ایسا نہیں کہ ان کو عذاب دے ، درآنحالیکہ آپ ان کے درمیان موجود ہوں ، اور نہ ہی اللہ ان کو اس حال میں عذاب دینے والا ہے جب کہ استغفار کر رہے ہوں ،

۳۴۔۔۔     اور اب اللہ ان کو عذاب کیوں نہ دے ، جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ یہ روکتے ہیں مسجد حرام سے ، حالانکہ وہ اس کے جائز متولی بھی نہیں ، اس کے جائز متولی تو صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو پرہیزگار ہوں ، مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں ،

۳۵۔۔۔     اور خود ان کی نماز بیت اللہ کے پاس سیٹیاں بجانے ، اور تا لیاں پیٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتی، سو اب چکھو تم لوگ عذاب اپنے اس کفر کے بدلے میں جو تم کرتے رہے تھے ،

۳۶۔۔۔     بے شک کافر لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ روکیں اللہ کی راہ سے ، سو وہ ان کو خرچ تو کریں گے مگر آخرکار وہ ان کے لئے سراسر حسرت ہوں گے ، پھر یہ مغلوب ہوں گے ، پھر ان کافروں کو دوزخ کی طرف اکٹھا کر کے لایا جائے گا،

۳۷۔۔۔     تاکہ اللہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے ، اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر سب کو ایک ڈھیر بنا دے ، پھر ان سب کو یکجا کر کے جھونک دے دوزخ میں ، یہی لوگ ہیں خسارے والے ،

۳۸۔۔۔     کہہ دو کافروں سے ، کہ اگر یہ باز آ گئے تو معاف کر دیا جائے گا، ان کے لئے وہ کچھ جو کہ ہو چکا اس سے پہلے اور اگر ان کے لچھن پھر بھی وہی رہے جو پہلے تھے تو ہمارا قانون بھی وہی ہے جو گزر چکا اگلوں کے حق میں ،

۳۹۔۔۔     اور لڑو تم ان سے ، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ ہی کے لئے ہو جائے ، پھر اگر یہ لوگ باز آ جائیں تو بے شک اللہ دیکھ رہا ہے ان کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں ،

۴۰۔۔۔     اور یہ پھرے (اور ہٹے ) ہی رہے تو یقین جان لو کہ اللہ تمہارا (سرپرست) وکارساز ہے ، کیا ہی خوب کارساز ہے ، اور کیا ہی خوب مددگار ہے وہ۔

۴۱۔۔۔     اور یقین جان لو کہ جو بھی کچھ غنیمت تم حاصل کرو، اس کا پانچواں حصہ اللہ کا ہے اور اس کے رسول کا، اور آپ کے رشتہ داروں کا، اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کا، اگر تم لوگ ایمان (و یقین) رکھتے ہو اللہ پر، اور اس چیز پر جس کو ہم نے اتارا اپنے بندے پر، (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کے اس دن میں ، جس دن کہ مڈبھیڑ ہوئی (حق و باطل کے ) ان دونوں لشکروں کے درمیان، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے ،

۴۲۔۔۔      (یاد کرو کہ) جب تم لوگ (مدینہ منورہ کی نسبت سے ) ادھر والے کنارے پر تھے ، اور وہ لوگ (یعنی تمہارے دشمن) ادھر والے کنارے پر، اور قافلہ تم سے نیچے تھا، اور اگر تم اس بارے میں باہم عہد و پیمان کرتے ، تو یقیناً وقت مقرر کے سلسلے میں تم لوگ آپس میں اختلاف میں پڑ جاتے ، لیکن (اللہ تعالیٰ نے اس کی نوبت ہی نہ آنے دی) تاکہ اللہ پورا فرما دے ایسے کام کو جس نے (اس کے حکم و اذن سے بہرکیف) پورا ہو کر رہنا تھا، تاکہ جس نے ہلاک ہونا ہے ، وہ ہلاک ہو روشن دلیل کی بناء پر، اور جس نے زندہ رہنا ہے ، وہ زندہ رہے روشن دلیل کی بناء پر، اور بے شک اللہ بڑا ہی سننے والا، سب کچھ جانتا ہے ،

۴۳۔۔۔      (اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب اللہ تعالیٰ دکھا رہا تھا کہ آپ کو وہ لوگ آپ کے خواب میں (اے پیغمبر!) کم کر کے ، اور اگر کہیں وہ آپ کو انہیں زیادہ کر کے دکھا دیتا ہے ، تو یقیناً تم لوگ (اے نبی! کے ساتھیو) ہمت ہار جاتے اور باہمی جھگڑے میں پڑ جاتے ، لیکن اللہ نے اس سے بچا لیا، بے شک وہ پوری طرح جانتا ہے ، سینوں کے حال کو،

۴۴۔۔۔      اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب اللہ کم کر کے دکھا رہا تھا ان لوگوں کو جو تمہاری نگاہوں میں (اے مسلمانو!) جب تمہارا آمنا سامنا ہوا، (معرکہ بدر میں ) اور تم کو کم کر کے دکھا رہا تھا ان کی نگاہوں میں ، تاکہ اللہ پورا فرما دے ، ایک ایسے کام کو جس نے پورا ہو کر رہنا تھا، (اس کے حکم و  اذن سے) اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سب کام،

۴۵۔۔۔      اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تمہارا مقابلہ (دشمن کے ) کسی گروہ سے ہو جائے ، تو تم ثابت قدم رہا کرو، اور بکثرت یاد کیا کرو، اللہ کو، تاکہ تم سرفراز ہو سکو فلاح (اور حقیقی کامیابی) سے

۴۶۔۔۔      اور دل و جان سے کہا مانا کرو تم لوگ اللہ کا، اور اس کے رسول کا، اور آپس میں جھگڑا (اور اختلاف) نہ کیا کرو کہ اس سے تم کمزور ہو جاؤ گے ، اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر (و ضبط) سے ہی کام لیتے رہا کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ،

۴۷۔۔۔      اور کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا، جو نکلے اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھلانے کے لئے درآں حالیکہ وہ روکتے ہیں اللہ کی راہ سے ، اور اللہ پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے ان تمام کاموں کا جو یہ لوگ کر رہے ہیں ،

۴۸۔۔۔      اور (ان کو وہ بھی بتا دو کہ) جب شیطان نے خوشنما کر کے دکھائے ان (کفار) کو ان کے کام، اور اس نے (ان کو تھپکی دیتے ہوئے ، ان سے ) کہا کہ آج تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا، اور میں تمہارا پکا حمایتی ہوں ، مگر جب آمنا سامنا ہوا (حق و باطل کے ) ان دونوں لشکروں کا، تو یہ الٹے پاؤں پھر گیا، اور (ان سے صاف) کہہ دیا کہ کہ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ، میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آ رہا، میں ڈرتا ہوں اللہ سے اور اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے ،

۴۹۔۔۔      (اور وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب کہہ رہے تھے منافق اور لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا (شک و ارتیاب کا) کہ دھوکے میں ڈال رکھا ہے ان (مسلمانوں ) کو ان کے دین نے ، حالانکہ جو (صحیح معنوں میں ) بھروسہ رکھتا ہے اللہ پر، تو (اس کے لئے ناکامی ہے ہی نہیں ، کہ) بے شک اللہ بڑا ہی زبر دست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،

۵۰۔۔۔     اور اگر تم دیکھ لو (حال اس وقت کا) کہ جب فرشتے جان قبض کرتے ہیں کافروں کی، اور وہ ضربیں لگا رہے ہوتے ہیں ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر، اور (ان سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لو اب) چھکو تم مزہ جلنے کے عذاب کا، (اگر تم یہ دیکھ سکو تو تمہیں بڑا ہی ایک ہولناک منظر نظر آئے )

۵۱۔۔۔      یہ سب بدلہ ہے اس کا جو تم لوگوں نے آگے بھیجا خود اپنے ہاتھوں سے ، ورنہ اللہ ایسا نہیں کہ (ذرہ برابر کوئی) ظلم کرے اپنے بندوں پر،

۵۲۔۔۔     (حق کی عداوت و تکذیب میں ان کا حال بھی ویسا ہی ہے ) جیسا کہ فرعون والوں اور ان لوگوں کا تھا جو کہ گزر چکے ہیں ان سے بھی پہلے ، کہ انہوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو، آخر کار اللہ نے پکڑا ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ، بے شک اللہ بڑا ہی قوت والا، سخت عذاب دینے والا ہے ،

۵۳۔۔۔      یہ اس لئے کہ اللہ ایسا نہیں کہ بدل دے کسی ایسی نعمت کو جو اس نے عطا فرمائی ہو کسی قوم کو، یہاں تک کہ وہ لوگ (اپنی بد نصیبی سے ) خود بدل نہ دیں ان حالات کو، جن کا تعلق خود ان کی اپنی ذاتوں سے ہے ، بے شک اللہ سنتا (ہر کسی کی اور) جانتا ہے (سب کچھ)،

۵۴۔۔۔      (سو ان کی حالت بھی ویسی ہی ہوئی) جیسا کہ حالت تھی فرعون والوں کی، اور ان لوگوں کی جو کہ گزر چکے ہیں ان سے بھی پہلے ، کہ انہوں نے جھٹلایا اپنے رب کی آیتوں کو، تو آخرکار ہلاک کر دیا ہم نے ان سب کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ، اور غرقاب کر دیا ہم نے فرعون والوں کو، کہ وہ سب ظالم تھے ،

۵۵۔۔۔      بے شک زمین پر چلنے والی ساری مخلوق میں سب سے برے اللہ کے نزدیک وہ لوگ ہیں ، جو ایسے اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر کہ وہ (کسی قیمت پر بھی) ایمان لانے کے لائق نہیں ،

۵۶۔۔۔     (خاص کر وہ) جن سے آپ نے عہد لیا پھر وہ (ناہنجار) توڑ دیتے ہیں اپنے عہد کو ہر مرتبہ، اور وہ ڈرتے نہیں ، عہد شکنی اور اس کے انجام سے )

۵۷۔۔۔     پس اگر تم نے قابو پا لیا ان پر جنگ میں تو (ان کی ایسی خبر لو کہ) تتر بتر اور (حواس باختہ) کر دو ان کے ذریعے ان کو جو ان کے پیچھے ہیں ، تاکہ وہ سبق لے سکیں ،

۵۸۔۔۔     اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کسی قوم سے خیانت (اور عہد شکنی) کا، تو تم پھینک دو ان کی طرف ان کے عہد کو، اس طور پر کہ ایک برابر ہو جاؤ تم لوگ اور وہ، بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا خیانت کرنے والوں کو،

۵۹۔۔۔      اور کبھی یہ خیال نہ کریں کافر لوگ کہ وہ نکل گئے (ہماری گرفت وپکڑ سے ) یقیناً وہ (کسی طور پر ہمیں ) عاجز نہیں کر سکتے ،

۶۰۔۔۔      اور تیار کرو تم لوگ (اے مسلمانو!) ان (دشمنان حق) کے مقابلے کے لئے جو بھی قوت تم سے بن پڑے ، اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ، تاکہ تم اپنی دھاک بٹھا سکو، اس (سامان حرب و ضرب) کے ذریعے (ان ابناء کفر و باطل) پر جو کہ دشمن ہیں اللہ کے ، اور دشمن ہیں تمہارے ، اور ان کے علاوہ ان دوسروں پر بھی جو کو تم نہیں جانتے ، مگر اللہ جانتا ہے ان سب کو، اور یاد (رکھو کہ) جو بھی کچھ تم لوگ خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں وہ پورا پورا لوٹایا جائے گا تمہاری طرف، اور تمہارے کوئی حق تلفی نہیں ہو گی،

۶۱۔۔۔      اور اگر جھک جائیں یہ لوگ صلح (صفائی) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسہ بہرحال اللہ ہی پر رکھنا، بے شک وہی ہے سنتا (ہر کسی کو، اور) جانتا (سب کچھ)

۶۲۔۔۔     اور اگر یہ لوگ دھوکہ دینا چاہیں آپ کو تو (اس کی پرواہ نہیں کرنا کہ) بے شک کافی ہے آپ کو اللہ (ان سب کے مقابلے میں ) وہ وہی ہے ، جس نے آپ کو قوت بخشی اپنی مدد سے ، اور مسلمانوں کے ذریعے ،

۶۳۔۔۔      اور اسی نے باہمی الفت ڈال دی ان کے دلوں میں ، (اپنی خاص رحمت و عنایت سے ، ورنہ) آپ اگر وہ سب کچھ خرچ کر دیتے جو کہ روئے زمین پر (موجود ہے ) تو بھی آپ ان کے دلوں کو آپس میں نہیں جوڑ سکتے تھے ، لیکن اللہ ہی نے باہم جوڑ دیا، ان (کے پھٹے ہوئے دلوں ) کو، بے شک وہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،

۶۴۔۔۔      اے پیغمبر! کافی ہے آپ کو بھی، اور ان تمام اہل ایمان کو بھی جو آپ کی پیروی کرتے ہیں ،

۶۵۔۔۔      اے پیغمبر! شوق دلاؤ ایمان والوں کو لڑائی کا (اور پرواہ نہ کرو کافروں کی کثرت تعداد کی کہ) اگر تم میں سے بیس ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو وہ غالب آ جائیں گے دو سو پر، اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں گے ، تو وہ غالب آ جائیں گے ایک ہزار کافروں پر، یہ اس لئے کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں (حق اور حقیقت کو)

۶۶۔۔۔      اب تخفیف فرما دی اللہ نے تم سے ، اور اس نے دیکھ لیا کہ تمہارے اندر کمزوری ہے ، پس اگر تم میں سے ایک سو ہوں گے صبر والے ، تو وہ غالب آ جائیں گے دو سو پر، اور تم میں سے ایک ہزار ہوں گے (اسی شان کے ) تو وہ غالب آ جائیں گے دو ہزار پر، اللہ کے اذن (و حکم) سے ، اور اللہ بہرحال ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے ،

۶۷۔۔۔      کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ ان کے پاس قیدی رہیں ، یہاں تک کہ وہ زور کچل دے زمین میں (کفر اور اس کے علم برداروں کا) تم لوگ چاہتے ہو دنیا کے (عارضی اور فانی) فائدے ، جب کہ اللہ چاہتا ہے (تمہارے لئے ) آخرت (اور اس کی حقیقی اور ابدی کامیابی) اور اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے ،

۶۸۔۔۔      اگر اللہ کی طرف سے ایک نوشتہ طے نہ ہو چکا ہوتا تو یقیناً پہنچ کر رہتا تم لوگوں کو ایک بڑا عذاب،

۶۹۔۔۔      اس (مال) کی بناء پر جو تم نے (اس ضمن میں ) لیا ہے ، پس اب کھاؤ (پیو) تم لوگ اس مال غنیمت میں سے جو تم نے حاصل کیا ہے حلال پاکیزہ، اور ڈرتے رہو تم اللہ سے ، بے شک اللہ ہی بڑا بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے ،

۷۰۔۔۔      اے پیغمبر! کہو ان قیدیوں سے جو کہ تم لوگوں کے قبضے میں ہیں ، کہ اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں بھلائی دیکھی تو وہ تمہیں اس سے کہیں بہتر عطا فرمائے گا جو تم سے لیا گیا، اور تمہاری بخشش بھی فرمائے گا، اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا، نہایت ہی مہربان ہے ،

۷۱۔۔۔     اور اگر انہوں نے آپ کو دھوکہ دینا چاہا تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کہ) یہ لوگ تو اس سے پہلے بھی اللہ سے دھوکہ بازی کر چکے ہیں ، مگر اللہ نے ان کو (آپ کے ہاتھوں ) گرفتار کرا دیا، اور اللہ بڑا ہی علم والا، نہایت ہی حکمت والا ہے ،

۷۲۔۔۔      بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی، اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اپنے مالوں کے ساتھ، اور اپنی جانوں کے ساتھ، اور جنہوں نے (ان مہاجروں کو) جگہ دی، اور ان کی مدد کی، وہی دوست (وارث) ہیں ایک دوسرے کے ، اور جو ایمان تو لائے پر انہوں نے ہجرت نہیں کی، تو تمہیں ان کی ولایت (اور میراث) سے کوئی سروکار نہیں ، یہاں تک کہ وہ ہجرت کریں ، اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے ، مگر ان لوگوں کے مقابلے میں نہیں ، جن کے درمیان اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہو، اور اللہ خوب دیکھتا ہے ان کاموں کو جو تم لوگ کر رہے ہو،

۷۳۔۔۔      اور جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست (اور وارث) ہیں ، اگر تم لوگ ایسا نہیں کرو گے (اے مسلمانو!) تو زمین میں بڑا فتنہ اور فساد برپا ہو گا،

۷۴۔۔۔      اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت بھی کی، اور جہاد بھی کیا، اللہ کی راہ میں ، اور جنہوں نے ان کو ٹھکانہ دیا اور ان کی مدد بھی کی تو ایسے ہی لوگ مومن ہیں سچے (پکے ) ان کے لئے ایک عظیم الشان بخشش بھی ہے ، اور عزت کی روزی بھی

۷۵۔۔۔      اور جو لوگ ایمان لائے اس کے بعد، اور انہوں نے ہجرت بھی کی اور جہاد بھی کیا، تمہارے ساتھ شامل ہو کر تو ایسے لوگ بھی تم ہی میں سے ہیں ، اور رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں اللہ کے حکم کے مطابق، بے شک اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے ۔

تفسیر

۱.      ۱: انفال جمع ہے نفل کی اور نفل اس اضافے اور زیادتی کو کہا جاتا ہے جو کسی کو اس کے حقِ واجب سے زیادہ دی جائے اس طرح جو چیز حق واجب سے زیادہ اداء کی جائے اس کو بھی نفل کہا جاتا ہے۔ اسی لئے فرائض و واجبات اور سنن رواتب سے زائد ادا کی جانے والی عبادت کو بھی نفل کہا جاتا ہے۔ یہاں پر انفال سے مراد مال غنیمت ہے، اور اس کو انفال کے لفظ سے تعبیر کرنے میں یہ اہم درس ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کا اصل مقصد مال غنیمت نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کا اصل مقصد اعلاءِ کلمۃ اللہ رضائے خداوندی، اور اخروی اجر و ثواب کا حصول ہوتا ہے، سو مال غنیمت کا حصول ان کے لئے ایک نفل اور انعام مزید کے درجے میں ہوتا ہے جہاد کا اجر و ثواب ان کے لئے محفوظ ہوتا ہے، والحمدللہ سو اس مختصر سے جملے سے مال غنیمت سے متعلق مختلف سوالات کے بارے میں اصولی جواب دیا گیا ہے کہ اموال غنیمت اللہ اور اس کے رسول ہی کا حق اور انہی کی ملکیت ہیں، اور اللہ اور رسول کی ملکیت دراصل قرآن حکیم کی تعبیر کے مطابق اجتماعی ملکیت کی تعبیر ہے، سو اس سے اس جاہلی تصور اور جاہلی دستور کا خاتمہ کر دیا گیا جو اس سے قبل وہاں پر رائج تھا جس کے مطابق مال غنیمت کا حقدار اسی کو سمجھا جاتا تھا، جو جنگ کرتا تھا، اور بس، اس کے برعکس دین حنیف کی مقدس تعلیمات کے مطابق مال غنیمت میں سب ہی مجاہدین کا حق ہے خواہ کسی کی خدمات کی نوعیت کوئی بھی رہی ہو۔ والعیاذ باللہ العظیم

۲:  یعنی تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ہر حکم و ارشاد کی صدق دل سے اطاعت و فرمانبرداری کرو۔ اگر کوئی ایمان کے اس تقاضے سے عاری ہے، تو اس کا دعوی ایمان بے حقیقت ہے، والعیاذُ باللہ، یہاں پر انفال یعنی مالِ غنیمت کے بارے میں اسی اصولی تعلیم کے بعد کلام کا رخ دوسری طرف پھرگیا۔ اور مسلمانوں کو ان خامیوں کی اصلاح اور ان کے ازالے کے لئے ہدایات دی گئیں۔ جو تقسیم غنائم کے اس واقعے سے متعلق رونما ہوئی تھیں۔ اور ان عمدہ، اور پاکیزہ صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے، جو سچے اہل ایمان کے اندر موجود ہونی چاہئیں، اس کے بعد تقسیم غنائم سے متعلق تفصیل آگے چل کر آیت نمبر۴۱ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ کہ ان کا پانچواں حصہ عام مسلمانوں کے حق کے طور پر بیت المال میں جمع ہو گا۔ اور باقی چار حصے مجاہدین کے اندر تقسیم ہوں گے۔ اس سے پہلے اصلاح احوال سے متعلق اہم اور ضروری ہدایات دی گئی ہیں۔

۴. سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں درجات و مراتب اور اس کے انعامات سے سرفرازی کا دارو مدار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے، نہ کہ کسی قوم قبیلہ، اور رنگ و نسل پر، جس طرح کہ بہت سے زائغین نے سمجھا، والعیاذُ باللہ، پس جن کے اندر یہ اور یہ صفات موجود ہونگی، وہی پکے مومن ہوں گے، اور وہی اس کے انعامات کے مستحق قرار پائیں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں۔ یہاں پر درجات کے بعد مَغْفِرَۃٌ کا لفظ بڑا بلیغ اور خوش کن و فرحت بخش ہے۔ کیونکہ اس سے اہل ایمان کے لئے یہ عظیم الشان خوشخبری نکلتی ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی، اور اس کے یہاں سے ملنے والے درجات و مراتب سے سرفرازی کے لئے اپنے طور پر بھرپور کوشش کریں۔ اس کے بعد جو کمزوریاں اور کوتاہیاں اس ضمن میں رہ جائیں گی وہ ان کو معاف فرما دے گا کہ وہ غفور ورحیم ہے۔ اور اس کی مغفرت و بخشش بہت بڑی اور ناپیدا کنار ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۷.      ۱:  اشارہ ہے غزوہ بدر سے متعلق دو گروہوں کی طرف، جن میں سے ایک غیر مسلح تھا۔ یعنی تجارتی قافلہ جو کہ سامان تجارت لے کر واپس مکہ جا رہا تھا اور دوسرا گروہ مسلح لشکر کا تھا جو مکہ سے اہل حق پر حملہ کرنے کی غرض سے مدینے کی طرف آرہا تھا، حضور نے صحابہ کرام علیہم الرحمۃ والرضوان کی رائے لینے اور اس صورت حال سے متعلق ان کا مزاج معلوم کرنے کے لئے ان سے پوچھا کہ کیا خیال ہے؟ اللہ کا وعدہ ہے کہ ان دونوں میں سے ایک گروہ یقیناً تم لوگوں کو ملنے والا ہے۔ اب تم بتاؤ کہ تم ان دونوں گروہوں میں سے کس کو اپناتے اور اختیار کرتے ہو؟ تو اس پر مخلص صحابہ کرام نے بڑے پُر جوش انداز میں مسلح گروہ کو اختیار کرنے اور ان کے خلاف لڑنے اور جہاد کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کا اعلان و اظہار کیا۔ جس کا کچھ اندازہ ان حضرات کی ان پُر جوش تقریروں سے کیا جا سکتا ہے جو انہوں نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کی تھیں۔ اور حدیث وسیرت کی کتابوں میں مذکور و مسطور ہیں۔ لیکن اس کے برعکس کچھ کمزور اور ضعیف الایمان لوگوں کا خیال تھا کہ مسلح گروہ کے بجائے تجارتی قافلہ کے غیر مسلح گروہ کو اختیار کیا جائے۔ تاکہ خطرات اور مشکلات سے سامنا نہ کرنا پڑے، اور لقمہ تر ہاتھ آ جائے، اور یہ ایک طبعی چیز ہے، سو ایسے ہی لوگوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا وَتَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ یعنی تم لوگ چاہتے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارے ہاتھ لگے۔

۲: کیونکہ کافروں کی جڑ اور ان کے شر و فساد کا منبع و مصدر اس وقت کفار قریش ہی تھے۔ اور ان کو کاٹ دینے اور ان کی کمر توڑ دینے کا مطلب اس وقت تمام کافروں کی جڑ کاٹ دینے۔ اور ان کی کمر توڑ دینے کے مترادف تھا۔ تاکہ اسطرح احقاق حق کا مقصد حاصل ہو جائے۔ جو کہ اصل اور حقیقی مقصد ہے۔

۹. سو اس سے ایک تو اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ تعالیٰ ہی ہے، حضرات انبیاء ورسل کی قدسی صفات ہستیاں، اور ان کے امام و پیشوا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بھی اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی رہے ہیں اس لئے غزوہ بدر کے اس موقع پر بھی حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قدسی صفت صحابہ کرام سب اسی وحدہٗ لاشریک کے حضور دعا و فریاد پیش کر رہے تھے، سو حضرات انبیاء ورسل، اور حضرت امام الانبیاء کے اس پاکیزہ اور واضح اسوہ حسنہ کی روشنی میں دیکھا اور سوچا جائے کہ کس قدر بہکے بھٹکے اور کتنے گمراہ ہیں وہ لوگ جو اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اوروں کو پکارتے اور ان کے آگے جھکتے ہیں، کوئی کسی عاجز مخلوق کو پکارتا ہے، کوئی کسی قبر کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے، اور کوئی کسی ملنگ کے آگے جھکتا ہے، اور اسطرح وہ اپنی ذلت و رسوائی کا سامان خود کرتا ہے والعیاذ باللہ حالانکہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول و فعل دونوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور ہی جھکنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے، اور دوسری اہم حقیقت اس ارشاد سے یہ واضح فرمائی گئی ہے کہ جب انسان اپنے ایمان و اخلاص میں کامل ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کے لئے خارق عادت انتظام فرماتا ہے، جیسے آسمان سے پے درپے فرشتوں کا ایسے لوگوں کی مدد کے لئے اترنا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ، وہو الہادی الی سوء الصراط، جل جلالہ و عم نوالہ۔

۱۲.    ۱: سو یہ پہلا حکم خداوندی تھا جو اس موقع پر خدائی فوج یعنی فرشتوں کے لشکر کو دیا گیا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس تم ثابت قدم رکھو ایمان والوں کو، جس سے ایک بات تو یہ نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت کے بغیر فرشتے بھی کچھ نہیں کر سکتے، سبحانہ و تعالیٰ، اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ جنگ کی اصل ذمہ داری خود مسلمانوں ہی کے اوپر تھی۔ فرشتوں نے مسلمانوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم الگ ہو جاؤ ہم خود ہی میدان جیت کر تمہارے حوالے کر دیں گے، بلکہ ان کا فریضہ یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو ثابت قدم رکھیں۔ سو اصل چیز اہل ایمان کی اپنی ہمت و شجاعت اور ثابت قدمی ہی تھی، اور ہے، اگر اپنا کام صحیح طور پر کر دکھائیں گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد ان کے ساتھ ہو گی۔ کیونکہ خداوند قدوس کی سنت اور اس کا دستور یہی ہے، کہ وہ اہل حق کو اپنی نصرت و امداد سے اسباب کے پردوں کے پیچھے سے ہی نوازتا ہے۔ کہ یہ دنیا ہے ہی دارالاسباب اور عالم ابتلاء و آزمائش یہاں پر یعنی دنیا کی اس زندگی میں حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے جو بھی کچھ ہوتا ہے اسباب و وسائل کی اوٹ ہی میں ہوتا ہے۔         

۲:  سو اس سے مدد خداوندی، اور القاء رعب کے نتیجے کو واضح فرمایا گیا ہے۔ اور دشمن کی مرعوبیت کے لئے یہ ایک نہایت ہی بلیغ اور حقیقت افروز تعبیر ہے۔ یعنی جب میں ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دونگا، تو اس کے نتیجے میں ان کے حوصلے ایسے پست ہو جائیں گے۔ اور ان کے دل ایسے ٹوٹ جائیں گے، کہ تم ان کو بھیڑ بکریوں اور گاجر مولی کی طرح کاٹ کر ڈال دو۔ انکی گردنوں کے اوپر مارو، اور ان کے پور پور تک کو کاٹ کر رکھ دو۔ کہ اب ان کے اندر کوئی دم خم باقی نہیں رہا۔ سو اس سے مرعوبیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ان کی کامل بے بسی کی تصویر پیش فرمائی گئی ہے، کیونکہ دشمن میں جب تک کچھ بھی دم خم باقی ہوتا ہے وہ اس بات کا موقع نہیں دیتا کہ اس کا دشمن جہاں چاہے اس پر ضرب لگائے۔ لیکن جب مرعوبیت کے نتیجے میں اس کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں۔ تو پھر اس کا حلیف جہاں چاہے، اور جیسے چاہے، اس پر ضربیں لگائے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اہل باطل کے مقابلے میں اہل حق کی ہمیشہ اور ہر طرح سے مدد فرمائے، آمین ثم آمین

۱۳.    یعنی یہاں پر عذاب نہیں عقاب کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ عقب کے مادے سے ماخوذ ہے اور اس کا اطلاق اس سزا اور عذاب پر ہوتا ہے جو کسی عمل کے طبعی تقاضے اور منطقی نتیجے کے طور پر اس پر مرتب ہوتا ہے، جس کو پاداش کہا جاتا ہے۔ اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ اس لفظ سے کیا ہے والحمدللہ جل وعلا۔ اور یہ اس لئے کہ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے کے لئے اٹھنا ایک ایسا سنگین جرم ہے جو فطرت اور اس کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ کیونکہ جنگ کا جواز وہاں ہوتا ہے جہاں کسی حق کی حفاظت یا کسی ظلم کا دفاع مقصود ہوتا ہے، اور اسی صورت میں انسان کے اندر لڑائی کا حوصلہ ابھرتا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ کے مقابلے میں ایسے کسی حق کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے کے لئے اٹھتے ہیں، اللہ ان کو شدید پاداش سے دو چار کرتا ہے۔ سو ایسے لوگ اگر اس قسم کی جہالت کے لئے اٹھتے ہیں تو وہ خواہ طوفان کی طرح اٹھیں لیکن بالآخر بلبلے کی طرح بیٹھ جاتے ہیں، اس لئے کہ ان کی لڑائی اور ان کے حوصلے کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کی جنگ فطرت اور اس کے تقاضوں کے خلاف ہوتی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۷.    روایات کے مطابق جب معرکہ بدر کے موقع پر کفار کی فوجیں سامنے ہوئیں، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مٹھی بھر خاک زمین سے اٹھائی۔ اور شَاہَتِ الْوُجوہ کہہ کر اس کو کفار کی طرف پھینکا، اور عربی زبان کا یہ جملہ لعنت اور پھٹکار کے لئے آتا ہے۔ سو اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت سے وہ مشت خاک سب کفار کی آنکھوں میں پڑ گئی، سو اس آیت کریمہ میں جو حضرات صحابہ کرام سے فعل قتل کی نفی کی گئی ہے اور پیغمبر سے رَمْی یعنی خاک پھینکنے کی نفی کی گئی ہے، تو یہ نفی دراصل ان دونوں فعلوں کے بے مثال اثر، اور شاندار نتائج کے اعتبار سے ہے۔ یعنی تم لوگوں کے قتل اور حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی مشت خاک پھینکنے سے جو بے مثال آثار اور شاندار نتائج برآمد ہوئے وہ ان ظاہری افعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت و عنایت کا نتیجہ تھا، ورنہ مٹھی بھر نہتے مسلمانوں کا قریش کے اتنے بڑے لشکر پر غالب آ جانا، جو کہ غرق آہن تھا، اور غلبہ بھی اس طور پر کہ مسلمان ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک سے پھینکی گئی مشت خاک کا سارے لشکر کی آنکھوں میں پڑ جانا، بظاہر ممکن نہ تھا۔ بلکہ یہ سب کچھ اسی دست غیب کا کرشمہ تھا، جو ان ظواہر کے پس پردہ کار فرما تھا۔ پس یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی نے کیا تاکہ اس طرح وہ اپنی قدرت کے کرشمے دکھائے۔ اور تاکہ وہ اہل ایمان کے جواہر قوت کو اچھی طرح نمایاں کرے۔ بیشک اللہ اپنے بندوں کی دعاؤں اور التجاؤں کو بھی سنتا ہے، اور وہ ان کی حاجتوں کو بھی پوری طرح جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۹. یعنی وہ ان کے ساتھ ہے اپنے علم و قدرت اور اپنی نصرت و امداد کے اعتبار سے، اور جن کو اللہ کی نصرت و امداد حاصل ہو، ان کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے؟ سو اس میں ایک طرف تو اہل ایمان کے لئے یہ درس ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ اپنا تعلق صحیح رکھیں۔ تاکہ اس کی معیّت و امداد اور اس کی نصرت و اعانت کی دولت ان کو ہمیشہ حاصل رہے، کہ ان کی اصل قوت یہی ہے، اور وہ اپنے ایمان و اخلاص کی دولت کی ہمیشہ فکر کریں، کہ یہی ان کی اصل قوت ہے۔ اور دوسری طرف اس میں اہل کفر و شرک کے لئے یہ پیغام ہے کہ تم لوگ اہل ایمان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے کہ ان کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی کے ان سے جیتنے، اور ان پر غلبہ پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس تم لوگوں کی خیر اسی میں ہے کہ حق کا مقابلہ کرنے کے بجائے تم لوگ صدق دل سے اس کے آگے جھک جاؤ۔ اور دل و جان سے اس کو اپنا لو۔ بہر کیف اس آیت کریمہ میں کفار قریش کو براہ راست مخاطب کر کے ان سے فرمایا گیا کہ تم لوگ یہی کہتے تھے کہ اس جنگ میں جو جیتا اسی کو حق پر سمجھا جائے گا۔ سو وہ فتح اور فیصلہ اب تمہارے سامنے آگیا ہے، پس اب تم لوگوں کے لئے صحت و سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ تم خود اپنے ہی قائم کردہ اس معیار و میزان کے مطابق حق کے آگے سر تسلیم خم کر دو۔ سو اور اس طرح اگر تم لوگ اپنے کفر و باطل سے باز آ گئے تو خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہو گا کہ اس کے نتیجے میں اللہ کے غضب اور اس کے عقاب کے بجائے اس کی رحمت و عنایت کے مستحق قرار پاؤ گے، ورنہ تم لوگ خود اپنا ہی نقصان کرو گے، کہ اس کے نتیجے میں تم لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کے بجائے اس کے غضب اور عقاب کے مستحق ٹھہرو گے، اور دائمی عذاب میں مبتلا ہوؤ گے،

۲۴.    یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا قانون اور دستور ہے کہ جو لوگ اللہ کی دعوت سے اپنے کان بند کر لیتے ہیں، اور حق بات کو سننے اور مانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، وہ آخرکار اس کے اس قانون اور سنت کی زد میں آ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ حق کو ماننے اور قبول کرنے کی اہلیت اور صلاحیت ہی سے محروم ہو جاتے ہیں سو اس سے ضعیف الایمان اور منافق قسم کے لوگوں کو تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ ہوش میں آ جاؤ اور اپنی اصلاح کی فکر کر لو۔ کہ ابھی تمہارے لئے اس کا موقع اور فرصت موجود ہے، پس تم اس کو غنیمت سمجھو اور دعوت حق پر صدق دل سے لبیک کہہ کر اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کر لو۔ اور اگر تم لوگوں نے اعراض و استکبار، اور رُوگردانی ہی سے کام لیا۔ اور تم اپنی انہی بیماریوں کو پالتے پوستے رہے، جن میں تم اب تک مبتلا رہے ہو۔ تو اس بات کو یاد رکھو کہ تم اللہ پاک کے اس قانون اور اس کی سنت و دستور کی گرفت میں آ کر رہو گے جس کے نتیجے میں تمہارے قلوب و ضمائر ایسے مسخ اور مختوم ہو کر رہ جائیں گے کہ پھر ان کے لئے کوئی صیقل بھی کارگر نہیں ہو سکے گا، اور پھر معاملہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ آخرکار تم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونا ہے، اور وہاں زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اور اس کا پھل پانا ہے پس تم اپنے بارے میں سوچ لو، اور اپنا نفع و نقصان خود دیکھ لو، والعیاذُ باللہ العظیم

۲۵.    سو اس ارشاد سے پورے معاشرے کو اور خاص کر ان لوگوں کے ضمیروں کو جھنجھوڑا گیا ہے، جو اپنے شخصی عمل اور انفرادی اصلاح ہی کو کافی سمجھتے ہیں اور معاشرے کی اصلاح کی فکر و تدبیر سے کوئی سروکار نہیں رکھتے۔ سو اس سے ایسے لوگوں کو تنبیہ و تذکیر فرمائی گئی ہے کہ خبردار! کہیں تم لوگ اپنی شخصی اور انفرادی اصلاح پر اکتفاء کرتے ہوئے معاشرے میں ابھرنے والی خرابیوں سے لاتعلق اور بے فکر نہ ہو جانا۔ بلکہ اپنے امکان اور اپنے بس کی حد تک ان کی اصلاح کی فکر و کوشش کرنا۔ کیونکہ معاشرے میں ابھرنے والی خرابی اگر جڑ پکڑ لیتی ہے، والعیاذُ باللہ۔ تو وہ شدہ شدہ ایک وبائے عام کی شکل اختیار کر لیتی ہے، اور جب وہ وبائے عام کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو اس کے بُرے اثرات و نتائج انہی لوگوں تک محدود نہیں رہتے جو بالفعل اس کا ارتکاب کرتے ہیں، بلکہ وہ ان سب کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جو ایسی خرابیوں پر راضی یا ان پر خاموش رہتے ہیں، کہ وبائے عام کی فطرت اور اس کی طبیعت یہی ہے، اس حقیقت کو نبی اُمّی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی احادیث کریمہ اور ارشادات عالیہ کے ذریعے طرح طرح سے واضح فرمایا ہے، اور اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کشتی کے مسافروں کی جو تمثیل بیان فرمائی ہے وہ بڑی ہی بلیغ، واضح، اور نہایت ہی موثر ہے۔ کہ کشتی کے مسافروں میں سے کچھ اس کے اوپر والے حصے میں سوار ہو جائیں اور کچھ نیچے والے حصے میں۔ پھر نیچے والے حصے کے لوگ یہ محسوس کریں کہ پانی پینے کے لئے اوپر جانے میں زحمت اور تکلیف اٹھانا پڑتی ہے، اس لئے ہم نیچے ہی سے پانی لے لیتے ہیں، اور اس کے لئے وہ جہاز میں سوراخ کرنے لگیں، تو اب اس کو دیکھ کر اوپر والے لوگ اگر خاموش رہیں گے تو ظاہر ہے کہ پانی چڑھنے سے جہاز ڈوب جائے گا، اور جہاز کے ڈوبنے سے وہ سب ہی غرق ہو جائیں گے، اور اگر وہ ان کو اس عمل سے روک دیں۔ تو نیچے والی بھی بچ جائیں گے اور اوپر والے بھی، اور اسطرح سب کا بھلا ہو جائے گا، سو یہی مثال ہے برائی پر خاموش رہنے والوں اور اس سے روکنے والوں کی، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔

۳۰.    اس سے کفار قریش کی اس سازش کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جو ان کے لیڈروں نے دعوت حق کو یکسر ختم کر دینے کے لئے دارالندوہ میں کی تھی۔ جس کی تفصیل تاریخ و سیرت کی کتابوں میں مسطور و مندرج ہے۔ جس کے مطابق اس غرض کے لئے ان اعیانِ کفر و شرک کی طرف سے ان کی اس مجلس میں مختلف تجویزیں پیش کی گئیں۔ اور آخرکار قتل کی تجویز پر ان سب کا اتفاق ہوا۔ جس کے لئے تدبیر یہ سوچی گئی کہ قریش کے تمام بڑے بڑے قبائل اور خاندان اس کام میں شریک ہوں۔ اور ان میں سے ہر ایک کی طرف سے ایک ایک نوجوان اس کے لئے نامزد کیا جائے۔ اور وہ سب مل کر یک بارگی اللہ کے رسول پر حملہ کریں۔ تاکہ اس کے نتیجے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خاندان کے لوگ قصاص کے مطالبے کی ہمت نہ کر سکیں۔ اِثبات کا لغوی مفہوم روک دینا اور پابند کر دینا ہے، جس میں قید کر دینا بھی شامل ہے۔ یہاں پر اس سے یہی مراد ہے جیسا کہ ترجمہ کے اندر اس کا ذکر موجود ہے۔ سو اس طرح ان لوگوں نے تو اپنے طور پر دعوت حق کو یکسر ختم کر دینے کی بڑی ٹھوس تجویز طے کر لی۔ اور اس کے لئے انہوں نے اپنے طور پر یہ چال چلی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی چال جو کہ نہ صرف حق کی حفاظت و بقاء کے لئے تھی، بلکہ اس سے اصل مقصود حق کا غلبہ اور اس کا اظہار تھا، وہی غالب اور کارگر رہی۔ کفار تو اپنے طور پر خوش ہو رہے تھے کہ انہوں نے اللہ کے پیغمبر کو دیس نکالا دے کر اپنے پہلو کا کانٹا نکال دیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر کے نتیجے میں حالات نے جلد ہی دکھا دیا کہ اس سے ان بدبختوں کے پہلو کا کانٹا نہیں نکلا، بلکہ ان کے جسد قومی کی روح نکل گئی۔ اس کے بعد اور اس ہجرت مبارکہ کے نتیجے میں اسلام کو نشوونما کے لئے ایک آزاد اور کھلی فضا مل گئی۔ اور منکرین قریش اپنی قضائے مبرم کی انتظار کے لئے باقی رہ گئے۔ والحمد اللہ رب العالمین۔

۳۲.    سو اس سے ان لوگوں کے عناد و ہٹ دھرمی اور ان کی مت ماری اور بدبختی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اگر یہ دین واقعی حق ہے تیری طرف سے، تو بجائے اس کے کہ وہ یوں کہتے کہ اگر یہ حق ہے تو پھر تُو ہمیں اس کو اپنانے اور قبول کرنے کی توفیق دے۔ اور اگر حق نہیں ہے تو ہمیں اس کے اپنانے کی توفیق نہ دے۔ وہ اس کے بجائے الٹا یوں کہتے کہ اگر یہ حق ہے تیری طرف سے تو تُو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا دے، یا ہمیں اور کسی دردناک عذاب سے دو چار کر دے، سو یہ عناد و ہٹ دھرمی اور بدبختی و محرومی کی انتہاء ہے۔ تو پھر ایسوں کو دولت حق و ہدایت سے سرفرازی آخر کس طرح اور کیونکر نصیب ہو سکتی ہے؟

۳۳.    سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچاؤ اور اس سے حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دو امانوں سے نوازا ہے۔ ایک اللہ کے پیغمبر کی ذات مبارکہ، اور ان کا وجود مسعود، اور دوسرا استغفار چنانچہ حضرت ابو اشعری سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی حفاظت کے لئے مجھ پر دو اَمَان نازل فرمائے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کریمہ کا حوالہ دیا۔ اور پھر ارشاد فرمایا کہ جب میں دنیا سے چلا جاؤں گا تو پھر ان کے لئے دوسرا امان یعنی استغفار باقی رہ جائے گا جو ان کے لئے قیامت تک موجود و برقرار رہے گا، (ترمذی، کتاب التفسیر، سورۃ الانفال باب حدثنا سفیان بن وکبع الخ)

۳۵.    سو کافروں اور منکروں کو اپنے کفر و انکار کا بھگتنان بہرحال بھگتنا ہو گا، اور جو ڈھیل اور چھوٹ ان کو اس ضمن میں قدرت کی طرف سے ملی ہوئی ہے اس سے کسی کو دھوکہ نہیں کھانا چاہئے، کہ وہ بہرحال ایک ڈھیل اور چھوٹ ہی ہے جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہے اور انہوں نے اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگت کر رہنا ہے، والعیاذباللہ

۳۶.    سو کافر اور منکر لوگ جو اپنے اموال حق سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں سواس طرح یہ لوگ حق کا تو کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔ البتہ اس طرح اپنے مالوں کو خرچ کرنا ان کے لئے باعث حسرت و صدمہ ضرور ہو گا۔ پھر یہ مغلوب ہوں گے اور آخرکار ان کو اکٹھا کر کے جہنم کی طرف لایا جائے گا جہاں ان کا یہ خسارہ اور حسرت بدرجہ تمام و کمال ظاہر ہوں گے۔ اور اس طور پر کہ اس کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائیں گے۔ مگر اس حسرت و افسوس کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا، بلکہ ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے ہولناک عذاب میں رہنا ہو گا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۳۷.    سو اس ارشاد سے اس فرق و تمیز کو ظاہر اور واضح فرما دیا گیا جو آخرت کے اس یوم فصل و تمیز میں پوری طرح واضح ہو کر سب کے سامنے آ جائے گا۔ اور اس طور پر کہ خبیث کو طیب سے بالکل الگ کر دیا جائے گا۔ اور پھر خبیث کو ایک دوسرے پر تہ بہ تہ کر کے ڈھیر کر دیا جائے گا۔ پھر اس پورے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا، جیسا کو کوڑے کرکٹ کو جلانے کے لئے کسی جگہ ڈھیر کر دیا جاتا ہے۔ اور اسطرح جمع اور ڈھیر کر کے جلانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح آگ زیادہ ایندھن کی بناء پر پورے زور و شور سے بھڑکتی ہے۔ اور جمع شدہ انبار کا ہر حصہ دوسرے حصے کے جلانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سو جس طرح اہل کفر و باطل دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر حق اور اہل حق کے خلاف زور لگاتے ہیں، اور ایک دوسرے کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ وہاں پر ایک دوسرے کے خلاف ایندھن کے بھڑکانے اور اس کو بھسم کرنے میں ایک دوسرے کے مددگار بنیں گے۔ سو ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا، اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں خسارے والے ایسے خسارے والے کہ اس جیسا دوسرا کوئی خسارہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اور ان کا یہ خسارہ ایسا ہولناک ہو گا کہ اس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت کسی بھی طرح ممکن نہیں ہو گی، بلکہ ان کو ہمیشہ اسی میں رہنا اور اس ہولناک عذاب کو بھگتنا ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ایسے ہر خسارے اور اس کے ہر شائبے سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین

۳۹.    سو اس سے جہاد و قتال کا حکم و ارشاد بھی فرمایا گیا اور اس کی غرض و غایت بھی واضح فرما دی گئی۔ چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ لڑو ابنائے کفر و باطل سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ یعنی دین حق کا راستہ اس طرح صاف ہو جائے کہ وہ سب دینوں پر غالب آ کر رہے اور عبادت و بندگی صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی ہو۔ جو کہ معبود برحق اور وحدہٗ اور وحدہٗ لاشریک ہے، کہ یہی حق ہے اس خالق و مالک کا اس کے بندوں پر۔ اور اسی میں بھلا ہے سب انسانوں کا دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۴۱.    غنیمت کے لفظ سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جہاد میں ملنے والا یہ مال کوئی جہاد و قتال کا معاوضہ نہیں، بلکہ یہ ایک ضمنی اور زائد چیز ہے جس سے مجاہد فی سبیل اللہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام و اکرام نوازا جاتا ہے ورنہ مجاہد اللہ کی راہ میں جو جہاد کرتا ہے وہ ایک مقدس فریضہ ہوتا ہے جس کو وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء  و خوشنودی کے حصول اور کلمہ حق کی سربلندی کے لئے انجام دیتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں عباد و بلاد سب کا بھلا ہو۔ اور اس کا اجر و ثواب اس کو اللہ تعالیٰ کے یہاں ہی سے ملتا ہے، جو اس کے لئے آخرت کی اصل حقیقی اور ابدی زندگی کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔ مال غنیمت وغیرہ کی حیثیت تو دراصل ان زوائد کی سی ہے جو اس کو سر راہ اور ضمنی طور پر مل جاتی ہیں جو اگر مل جائیں تو غنیمت اور اگر نہ ملیں تو نہ کوئی غم نہ مطالبہ سو اس ہدایت و ارشاد سے قرآنِ حکیم نے اس جاہلی تصور کی تردید اور اس کی اصلاح کر دی جس کی رُو سے جنگ کا اصل مقصد لوٹ کے مال کو ہی سمجھا جاتا تھا اور اسی اعتبار سے ان لوگوں کے یہاں جنگ کے نفع و نقصان کا اندازہ لگایا جاتا تھا، اور اسی قدیم تصور کی بناء پر بعض مسلمانوں کی طرف سے وہ سوالات پیش ہوئے تھے، جن کا اظہار غزوۂ کے اس موقع پر کیا گیا۔ اور جن کے جواب میں اور ان کی اصلاح کی مناسبت سے یہ آیات کریمات نازل ہوئی تھیں۔

 جو بیت المال میں جمع ہو کر ان اجتماعی مصالح میں صرف ہو گا جن کا ذکر آگے فرمایا جا رہا ہے۔ اس سورہ کریمہ کی پہلی آیت کریمہ میں مال غنیمت کے بارے میں یہ اصولی ہدایت دی گئی تھی قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ جس سے اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا تھا کہ مال غنیمت کی حیثیت انفرادی اور شخصی ملکیت کی نہیں، بلکہ اس کی حیثیت اجتماعی ملکیت کی ہے، اس اصولی ہدایت کے بعد وہاں پر کلام کا رخ اس ذہنیت کی اصلاح کی طرف مڑ گیا تھا۔ جس کا اظہار اس موقع پر بعض مسلمانوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اور ان کو اپنی اصلاح کے لئے خاص ہدایات دی گئی تھیں، اس کے بعد اب اس اجتماعی ملکیت کی تقسیم کا طریق کار بیان فرمایا جاتا ہے، اور اس سے جاہلیت کے اس دستور کا خاتمہ کر دیا گیا کہ جنگ کے دوران لوٹا ہوا مال و اسباب اسی کا ہو گا جو اس کو لوٹ کر لایا۔ جیسا کہ ان کے یہاں اصول موضوعہ کے طور پر یہ بات طے اور مشہور تھی مَنْ قَتَلَ قَتِیْلاً فَلہ سَلبُہ، یعنی جو کسی کو قتل کرے گا اس کا لوٹا ہوا مال اسی کا ہو گا۔ سو اس ارشاد سے جاہلیت کے اس دستور کا خاتمہ کر کے یہ اصول و قانون مقرر فرمایا گیا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہو گا جو بیت المال میں جمع ہو کر مسلمانوں کے اجتماعی مصالح میں صرف ہو گا۔ اور بقیہ چار حصوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا۔ یہاں پر یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہیے کہ زمانہ جاہلیت میں لوٹے ہوئے مال کا چوتھا حصہ سرداران قبائل کے لئے خاص ہوا کرتا تھا، جس کو اس زمانے میں مرباع  کہا جاتا تھا اور جو ان لوگوں کے ذاتی تصرف میں آیا کرتا تھا۔ جبکہ اسلام میں مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے حق کے طور پر مقرر کیا گیا۔ اور وہ بھی معاشرے کی اجتماعی بہبود میں صرف کر کے واپس معاشرے ہی کو لوٹا دیا جاتا ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تو ہے ہی ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے غنی و بے نیاز سبحانہ و تعالیٰ، اور رسول کا حصہ بھی اصل میں، اور حقیقت کے اعتبار سے، دین حق کی سربلندی اور مصالح عامہ ہی کے کام آتا تھا۔

۴۴. اس ارشادِ رّبانی میں غزوۂ بدر سے متعلق قدرت کی کار سازی کا ایک نمونہ و مظہر پیش فرمایا گیا ہے، وہ یہ کہ اس موقع پر جب دونوں فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئیں تو ابتدائی مرحلہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کو مسلمانوں کی نظر میں کم کر کے دکھایا۔ اور مسلمانوں کو کفار کی نظر میں کم کر کے دکھایا۔ تاکہ ان دونوں میں سے کوئی فریق خوف کھا کر میدان سے پیچھے نہ ہٹنے پائے۔ تاکہ اسطرح وہ معرکہ بپا ہو کر رہے جو حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کر دینے والا تھا، اور جس کا واقع ہونا اللہ تعالیٰ کی سکیم میں پہلے سے طے شدہ تھا، اور اگر بنظر غور دیکھا جائے تو ان دونوں میں سے ایک کا دوسرے کو کم دیکھنا بھی اصل حقیقت کے اعتبار سے بالکل درست اور بجا تھا۔ کیونکہ کفار کی ظاہر بین نگاہیں مسلمانوں کو ان کی تعداد کے لحاظ سے دیکھتی تھیں جو کہ واقعۃً کفار کے مقابلے میں کم تھی، لیکن مسلمانوں کی اصل قوت جو کہ ایمانی اور معنوی قوت تھی وہ ان لوگوں کی نگاہوں سے مخفی تھی حالانکہ یہی قلیل تعداد بعد کے مرحلے میں جبکہ معرکہ کارزار گرم ہو گیا تھا ان لوگوں کو ایک طوفان کی طرح نظر آنے لگی تھی کیونکہ اس وقت مسلمانوں کی معنوی اور روحانی حیثیت پوری طرح نمایاں ہو کر ان کے سامنے آ گئی تھی۔ اور اس کے برعکس مسلمانوں کی نگاہوں میں کفار کے ان کی عددی اکثریت کے باوجود کم نظر آنے کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ان کی معنوی، روحانی، اور اخلاقی حیثیت بے نقاب کر دی تھی۔ جس کے نتیجے میں فی الواقع کفار کی مسلمانوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں تھی کہ وہ اپنے کفر و انکار کے باعث معنوی، روحانی اور اخلاقی قوت سے بالکل خالی اور یکسر محروم تھے، اس لئے وہ کثرت کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں صفر اور ہیچ تھے۔ والحمدللہ جَلَّ وَعَلَا

 پس ہوتا وہی ہے جو اس وحدہٗ لاشریک کو منظور ہوتا ہے سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اور تمام معاملات کا رجوع بھی اسی کی طرف ہوتا ہے سبحانہ و تعالیٰ، پس بندے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنا فرض صحیح طریقے سے ادا کرے۔ اور مقصد کے حصول کے لئے حتی المقدور کوشش کرے۔ لیکن دل کا بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی پر رکھے۔ اور اپنے فرض کی ادائیگی کے بعد اپنا معاملہ صدق دل سے اسی کے حوالے کر دے۔ اور اس غلط فہمی میں کبھی مبتلا نہ ہو کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر بھی کچھ کر سکتا ہے، یا کسی کا کچھ بنایا بگاڑ سکتا ہے اور اپنے خالق و مالک کے ساتھ اپنا تعلق اپنے ظاہر و باطن ہر اعتبار سے صحیح رکھے وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل،

۴۵. فلاح اس اصل اور حقیقی کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کا کامل ظہور تو آخرت ہی میں ہو گا۔ اور وہیں ہو سکے گا، لیکن وہ اس دنیا کی کامیابی کو بھی شامل ہے۔ سو اس ارشاد سے واضح فرمایا گیا کہ ثابت قدمی اور کثرت ذکر خداوندی فلاح یعنی حقیقی کامیابی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ مجرد غلبہ تو ہو سکتا ہے کہ ذکر الٰہی کے بغیر بھی حاصل ہو جائے جیسا کہ حق کے دشمنوں کو بھی کبھی کبھی اور ظاہری اور وقتی طور پر حاصل ہو جاتا ہے، لیکن وہ فلاح کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ فلاح اسی غلبہ سے حاصل ہو سکتی ہے جس کا دروازہ ذکر الٰہی کے ذریعہ، اسی کی مدد سے کھلے، اور جس میں خداوند قدوس کی معیت شامل حال ہو۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۵۰. یعنی جواب شرط یہاں پر محذوف ہے اور ایسے مواقع پر جواب شرط کا محذوف ہونا بلاغت کا تقاضا ہوتا ہے، جس سے جواب شرط کی تہویل کا اظہار مقصود ہوتا ہے، یعنی یہ کہ اس جواب شرط کی ہولناکی ناقابل ذکر و بیان ہے۔ ایسے مواقع پر اس کے اظہار کے لئے اسی کے مناسب کوئی جملہ مقدر مانا جا سکتا ہے۔ ہم نے اسی اعتبار سے بین القوسین کا جملہ مقدر مانا ہے، بہرکیف مطلب یہ ہے کہ بدر میں ان کفار کو جو مار پڑی یہ کیا ہے، اصل مار تو ان بدبختوں کو اس وقت پڑتی ہے جب ان پر نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، جبکہ فرشتے ضربیں لگا رہے ہوتے ہیں ان کے چہروں اور انکی پیٹھوں پر، اور ان سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اب چکھو تم لوگ مزہ جلنے کے عذاب کا، سو تم اے مخاطب اگر کسی طرح اس موقع اور منظر کو دیکھ سکو تو تم کو بڑا ہی ہولناک اور ایک ناقابل بیان منظر نظر آئے۔ یہاں پر ان لوگوں کے چہروں اور اَدْبار کو ایک ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کافروں کے منہ اور ان کے دُبُر ایک برابر ہیں کہ ان میں سے ایک سے حسی گندگی نکلتی ہے، اور دوسرے سے کفر کی معنوی گندگی، جو کہ حسی گندگی سے بھی کہیں بڑھ کر غلیظ اور گندی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۵۲. سو منکرین قریش کو جس انجام سے دوچار ہونا پڑا ہے یہ اسی سنت الٰہی اور دستور خداوندی کے مطابق ہوا ہے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے منکرین کے لئے مقرر ہے، اور جس کی مثالیں گزشتہ قوموں کی تاریخ میں گزر چکی ہیں، کہ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے جواب میں کفر و انکار، اور ناشکری سے کام لیا، جس کے نتیجے میں آخرکار وہ اللہ کی گرفت و پکڑ میں آکر رہیں، اور بیشک اللہ بڑا ہی قوی اور سخت پاداش والا ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۳.    سو اس ارشاد سے اس قانون اور حکمت کے بارے میں وضاحت فرما دی گئی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قوموں کے عزل و نصب اور ان کے عروج و زوال کے سلسلہ میں مقرر ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر انعام فرماتا ہے تو وہ یونہی نہیں فرما دیتا، بلکہ وہ دراصل انکی خاص صفات اور کردار پر مبنی ہوتا ہے، اور اسی طرح جب وہ کسی قوم کو اپنے انعام سے محروم کر دیتا ہے تو اس کو یونہی بلا سبب محروم نہیں کر دیتا، بلکہ وہ ان کو اس سے اسی صورت میں محروم کرتا ہے جبکہ وہ لوگ اپنے آپ کو ان خاص صفات اور کردار سے محروم کر لیتے ہیں، جن کی بناء پر ان کو انعام سے نوازا گیا تھا۔ اور وہ اس کے اہل اور مستحق قرار پائے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی قوموں کو پہلے تنبیہہ و تذکیر کی جاتی ہے جن کے اندر اخلاقی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، اگر وہ ایسی تنبیہات کے نتیجے میں بیدار ہو گئیں، اور انہوں نے اپنے اخلاقی بگاڑ کی اصلاح کر لی، تو ان کا استحقاق باقی رہتا ہے، لیکن اگر انہوں نے پروا نہ کی، اور وہ اپنے بگاڑ کی اصلاح کی طرف پھر بھی متوجہ نہ ہوئیں، تو اتمامِ حجت کے بعد ان کو محروم کر دیا جاتا ہے، اور اس طرح اپنے انجام کی ذمہ داری خود انہی پر عائد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی بے انصافی نہیں کرتا۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جو افتاد قریش کو پیش آئی اس سے مقصود ان کو جھنجھوڑنا اور جگانا ہے، کہ ان لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ اسی سنت الٰہی کے مطابق ہوا جس کی مثالیں قوموں کی تاریخ میں گزر چکی ہیں۔

۵۴. سو وہ ظالم تھے اللہ کے حق میں، کہ اس کی آیتوں پر ایمان لانے اور ان کے آگے سرنگوں ہونے کے بجائے انہوں نے ان سے کفر و انکار ہی کے رویے کو اپنایا اور اختیار کیا۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہات سے کوئی سبق نہ لیا۔ نیز وہ ظالم تھے خود اپنی جانوں کے حق میں کہ اپنے کفر و انکار کے نتیجے میں ان کو ہمیشہ کے لئے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے حوالے کر دیا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ سو آیات الٰہی کی تکذیب اور ان کا انکار اور تکذیب حق کا نتیجہ و انجام بہرحال ہلاکت و تباہی ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،مِنْ کُلِّ زَیْغٍ وَّضَلَال بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوَال،

۵۵. اور یہ اس لئے کہ انسانوں کے کسی گروہ کی قدر و قیمت حق کو اپنانے اور اس کے آگے جھکنے اور ایمان و یقین کی دولت ہی سے ہو سکتی ہے۔ اور اسی وقت تک ہوتی ہے، جب تک ان کے اندر حق کو اپنانے کے لئے کوئی رمق موجود ہوتی ہے لیکن جب ان کے اندر حق کو اپنانے اور سوچنے سمجھنے کی کوئی رمق باقی نہیں رہتی۔ نہ وہ پہلے ایمان لائے اور نہ آئندہ لانے والے ہوتے ہیں تو ان کی حیثیت گندگی اور غلاظت کے متعفن اور بدبودار ڈھیر کی ہو جاتی ہے اور ان کا وجود اللہ کی دھرتی پر ایک ناروا بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔ سو جس انسان کو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے اشرف المخلوقات بنا کر۔ اور مخدوم کائنات کے طور پر پیدا کیا تھا وہ اگر اپنے سُوء اختیار کے باعث اور اپنے عمل و کردار کی بناء پر اس قدر نیچے گر جائے تو اس سے بڑھ کر خسارے والا اور برا اور بدبخت اور کون ہو سکتا ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین

۵۷.    یعنی ابھی تو یہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں پس پردہ کر رہے ہیں اور ان میں سے کوئی سامنے آنے کی جرأت نہیں کر رہا۔ لیکن اگر ان میں سے کوئی سامنے کی جرأت کرے، اور جنگ کے میدان میں تمہارے ہاتھ لگ جائے تو تم ان کی ایسی خبر لو کہ یہ دوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جائیں، اور جو ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے پر تول رہے ہیں ان کے بھی بال و پر بھی جھڑ جائیں، اور وہ ان کے انجام سے سبق لیں کہ انہوں نے بھی اگر اس حرکت کا ارتکاب کیا تو ان کا حشر بھی یہی ہو گا۔ جو ان کا ہو چکا ہے سو اس طرح ان کے لئے ان کے انجام میں درس عبرت ہو گا، تاکہ وہ اس میں غور وفکر سے کام لیکر اپنی اصلاح کرلیں اور راہِ حق و ہدایت کو اپنا لیں،

۶۰.    ۱:  یعنی جو دشمن سامنے موجود ہیں ان کے لئے بھی، اور جو سامنے موجود نہیں اور تم ان کو نہیں جانتے لیکن اللہ ان سب کو جانتا ہے تم سے ان سب کے مقابلے کے لئے جو بھی سامان حرب و ضرب ہو سکے تیار کرو۔قوۃ کا لفظ عام اور جامع ہے، جو اس زمانے کے تیر و تلوار سے لیکر آج کی توپوں ٹینکوں اور میزائیلوں وغیرہ سب ہی کو شامل ہے، اس زمانے میں تیر اندازی کو میدان جہاد میں چونکہ خاص اہمیت حاصل تھی۔ اس لئے احادیث شریفہ میں اس کے بارے میں خاص تعلیم و ترغیب فرمائی گئی ہے، اسی طرح جہاد کے لئے گھوڑوں کی بھی چونکہ خاص اہمیت ہوتی ہے اس لئے ان کے بارے میں خاص طور پر ہدایت فرمائی گئی، سو مقصود حالات کے مطابق ہر قسم کے سامان جنگ اور آلات کی حرب و ضرب کی تیاری کا سامان کرنا ہے۔ تاکہ حالات کے تقاضوں کے مطابق دشمن کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا جاس کے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب ویرید، وہو الہادی الیٰ سواء السبیل۔

۲:  سو اس ارشاد سے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے اپنے مالوں کو خرچ کرنے کی حوصلہ افزائی فرمائی گئی ہے اور اس کے لئے ترغیب دی گئی ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ جو بھی کچھ تم لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرو گے وہ کبھی ضائع نہیں جائے گا۔ بلکہ وہ پورے کا پورا محفوظ رہے گا، اور اس کا تم لوگوں کو پورا پورا صلہ و بدلہ دیا جائے گا اس میں ذرہ برابر کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ یہاں پر یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ یہ پورا کرنا بھی اسی اصول اور ضابطہ کے مطابق ہو گا جو اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کے بدلے اور ان کی جزاء کے لئے مقرر فرما رکھا ہے، اور جس کو دوسری مختلف نصوص میں طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے جس کے مطابق نیکی کا کم سے کم بدلہ دس گنا، سو گنا، سات سو گنا، اور اس سے بھی زیادہ بتایا گیا ہے والحمدللہ، جل وعلا، وبہ التوفیق مایُحِبُّ ویرید

۶۱. سو اس ارشاد سے اجتماعی اصول عدل کے تقاضوں کے مطابق اس بات کی ہدایت اور تعلیم و تلقین فرمائی گئی کہ اگر حریف صلح کی پیشکش کرے تو اس کو ٹھکرایا نہ جائے بلکہ اندیشے کے باوجود اس کو قبول کر لیا جائے اور بھروسہ اللہ ہی پر رکھا جائے بیشک اللہ ہر کسی کی سنتا، سب کچھ جانتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ پس اگر تم اس پر اعتماد کرتے ہوئے ایک مقصد خیر کی خاطر خطرہ مول لو گے تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا۔ اور اس صورت میں تمہارا حریف تم سے کوئی غلط فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہیں ہو گا۔

۶۳.    سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تالیف قلوب کی جس رحمت و عنایت سے حضرات صحابہ کرام کو نوازا گیا تھا وہ کتنی بڑی اور کس قدر عظیم الشان رحمت و عنایت تھی۔ جس کی بناء پر وہ حضرت تمام موروثی تعصبات، مختلف و متضاد مفادات اور گھٹی میں پڑی ہوئی رسوم و عادات سے یکسر خالی اور پاک و صاف ہو کر ایک بالکل ہی نئے سانچے میں ڈھل گئے تھے۔ اور جدی پشتی دشمنیوں کو بھلا کر باہم شیر وشکر ہو گئے تھے، اگر خداوند قدوس کی خاص رحمت و عنایت شامل نہ ہوتی۔ تو روئے زمین کی تمام دولت صرف کر کے بھی اس چیز کو حاصل کرنا کسی کے لئے ممکن نہ تھا، بیشک اللہ بڑا ہی زبردست اور غالب ہے وہ جو کرنا چاہے کر سکتا ہے اس کے لئے نہ کوئی مشکل ہو سکتی ہے اور نہ کسی طرح کی کوئی رکاوٹ، لیکن وہ چونکہ عزیز کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے، اس لئے اس کا ہر کام کمال علم و حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ سبحانہ، و تعالیٰ، پس بندہ مومن کا کام اور اس کی شان ہے کہ وہ ہر حال میں اسی پر بھروسہ و اعتماد رکھے،

۶۴. یعنی کفایت اللہ ہی کی کفایت ہے۔ وہ آپ کو بھی کافی ہے اور ان اہل ایمان کو بھی جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرتے ہیں، اس صورت میں وَمَنِ اتَّبَعَکَ کا عطف حَسْبُکَ کی ضمیر متصل پر ہو گا۔ اور ترجمہ بھی اسی احتمال کے مطابق کیا گیا ہے، جبکہ دوسرا احتمال اس سلسلے میں یہ ہے کہ وَمَنِ اتَّبَعَکَ کا عطف لفظ جلالہ پر ہو، جیسا کہ ظاہر اور متبادر ہے، سو اس صورت میں اس کا معنی و مطلب یہ ہو گا کہ کافی ہے آپ کو اللہ اور وہ اہل ایمان جو آپ کی پیروی کرتے ہیں، سو اس صورت میں یہ وہی بات ہو گی جو اوپر فَاِنَّ حَسْبَکَ اللّٰہُ ہُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَمیں فرمائی گئی ہے۔ سو مطلب یہ ہو گا کہ یہ مسلمان مدد کا ظاہری ذریعہ ہیں۔ پس مدعا و مفاد یہ ہو گا کہ آپ کو کافی ہے اللہ اور ان تھوڑے سے مسلمانوں کی مدد جو آپ کی پیروی کرتے ہیں۔ سو اس سے اہل ایمان کی عظمت شان کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ نسبت ایمان اور اس کا شرف انسان کو کہاں سے اٹھا کر کہاں پہنچا دیتا ہے۔ والحمدللہ جل وعلا

۶۶.    یعنی وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اپنی نصرت و امداد کے اعتبار سے، اور جن کو اس قادرِ مطلق رب ذوالجلال کی معیت اور اس کی نصرت و امداد کا شرف، اور اس کی تائید وتقویت نصیب ہو جائے، انکے ساتھ تو حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کی ساری خدائی ہو جائے گی۔ تو پھر ایسوں کو اور کیا چاہئے؟ اور اس کی معیت سے سرفرازی کا ایک بڑا ذریعہ صبر ہی ہے۔ پس صبر وسیلہ ظفر ہے، وباللہ التوفیق۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہنا چاہیے کہ شروع میں تو مقابلے کا تناسب یہ مقرر فرمایا گیا تھا کہ بیس مسلمان دو سو کافروں کا مقابلہ کریں گے، اور سو مسلمان ایک ہزار کافروں کا، لہٰذا اگر کہیں اس تناسب کے ساتھ ان کے درمیان مقابلے کی نوبت آ جائے تو مسلمانوں کو قلت تعداد کی بنا پر میدان میں پیٹھ دکھانا جائز نہیں تھا، کیونکہ میدان جنگ میں پیٹھ دکھانا ایک ایسا کبیرہ گناہ ہے، جس کو سبعِ مُوْبقات یعنی سات ہلاک کر دینے والے گناہوں میں شمار کیا گیا ہے، لیکن بعد میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی، تو اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ ان سے ہلکا فرما دیا۔ اور ان کے لئے اس حکم میں تخفیف فرما دی گئی۔ اور سابقہ تناسب کو تبدیل کر کے سو اور دو سو اور ہزار اور دو ہزار کی نسبت قائم کر دی گئی، جیسا کہ حالات کا تقاضا تھا۔

۶۹. سو اس سے مسلمانوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو مالِ غنیمت تم لوگوں نے حاصل کیا ہے اسے کھاؤ برتو حلال اور پاکیزہ مال کے طور پر، البتہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس بات کا ہمیشہ خیال رکھتا کہ اس سے تمہارا معاملہ صحیح رہے۔ اور اس کے کسی حکم و ارشاد کی خلاف ورزی نہ ہونے پائے، اور اپنی طرف سے پوری احتیاط اور کوشش کے باوجود اگر کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کو اللہ معاف فرما دے گا، کہ وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں وہ مغفرت و بخشش ہی سے کام لیتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۷۰.    سو اس ارشاد سے پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ ان قیدیوں سے جو کہ تم لوگوں کے قبضے میں ہیں کہیں کہ تم لوگوں کو اس فدیے کی بناء پر دلگیر نہیں ہونا چاہیے جو تم سے لیا گیا ہے، بلکہ اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اپنے اوپر احسان اور انعام سمجھو، اور اس بناء پر تم لوگوں کو اللہ کا اور اس کے رسول کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کہ تم کو قتل کرنے کے بجائے فدیہ لیکر چھوڑ دیا گیا۔ اور اس طرح تمہاری جان بخشی کی صورت پیدا ہو گئی۔ سو اس احسان کا تم لوگوں پر حق یہ ہے کہ تم اپنے بارے میں ٹھنڈے دل سے سوچو۔ اور اپنے معاملے میں نئے سرے سے غور کرو۔ اور اس احسان کی قدر کرتے ہوئے تم دین حق کو قبول کر لو۔ اور اس طرح تم دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو جاؤ۔ سو اس صورت میں اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اس فدیے سے کہیں بڑھ کر اپنی عنایات سے نوازے گا جو تم سے لیا گیا ہے۔ اور تمہیں اپنی مغفرت و بخشش اور رحمت و عنایت سے نوازے گا، کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔ آیت کریمہ کے آخر میں وَاتَّقُوا اللّٰہَ کے حکم و ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی دی بخشی حلال اور پاکیزہ چیزوں سے تم کھاؤ پیو تو ضرور، مگر اس سے ڈرتے بہرحال رہنا، تاکہ کہیں اس کی مقرر فرمودہ حدود سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ باقی چھوٹی موٹی غلطیوں کوتاہیوں کو وہ معاف فرما دے گا کہ وہ بڑا ہی غفور و رحیم ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۷۱.    پس وہ جو کچھ کرتا ہے کمالِ علم و حکمت ہی کی بناء پر کرتا ہے۔ اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی متبادل ممکن نہیں، پس اس کا ہر حکم و ارشاد بندوں کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی کا کفیل و ضامن ہے، سو اس آیت کریمہ میں پیغمبر کے لئے تسکین و تسلیہ کا سامان ہے، اور اُساریٰ بدر کے لئے تہدید اور دھمکی، سو پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ان لوگوں نے اس احسان کی قدر نہ پہچانی جو آپ نے ان پر کیا، اور یہ اس کے بعد بھی اپنے کفر و انکار ہی پر اڑے اور لڑنے بھڑنے پر ہی آمادہ رہے، تو یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑیں گے بلکہ خود اپنا ہی نقصان کریں گے، جیسا کہ انہوں نے اس سے پہلے خدا سے خیانت اور بدعہدی کی تھی، جس کے نتیجے میں اللہ نے انکو آپ کے قابو میں دے دیا تھا۔ اسی طرح اگر انہوں نے آئندہ بھی ایسی حرکت کی تو ان کو اپنی خیانت اور بدعہدی کی سزا بھگتنا پڑے گی، ان کو اللہ تعالیٰ نے حرم کا پاسباں اور ملت ابراہیم کا نگہبان بنایا تھا۔ مگر انہوں نے اپنی خیانت اور بدعہدی کی بناء پر حرم کی حرمت کو برباد کیا، اور ملت ابراہیم کو انہوں نے مسخ کر کے رکھ دیا۔ جس کے نتائج ان کے سامنے آرہے ہیں، اگر یہ آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے تو اس کے نتائج بھی اسی طرح ان کے سامنے آ جائیں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۷۲. اس سے دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی انقلاب آفرینی کا ایک نمونہ اور مظہر سامنے آتا ہے وہ اس طرح کہ اسلام سے پہلے حمایت و نصرت کی بنیاد خاندان اور قبائلی عصبیت پر تھی۔ کوئی شخص یا خاندان اگر کسی خطرے یا مصیبت میں مبتلا ہوتا، تو اس کا خاندان یا قبیلہ اس کی حمایت و مدافعت میں سربکف ہو جاتا، قطع نظر اس سے کہ حق پر کون ہے اور ناحق کون؟ سو اس کے برعکس اسلام نے مدینہ منورہ میں جو نیا معاشرہ قائم کیا۔ اس میں حمایت و نصرت کی بنیاد ایمان اور ہجرت پر رکھی، نہ کہ کسی طرح کی قبیلائی یا علاقائی عصبیت وغیرہ جیسی کسی چیز پر، چنانچہ اس آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ ایمان لائے، انہوں نے ہجرت کی، اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اور جنہوں نے ان مہاجرین کو پناہ دی، اور ان کی مدد کی، وہ سب آپس میں ایک دوسرے کے حامی و ناصر اور یار و مددگار ہیں۔ یہاں پر مہاجرین اور انصار کے دونوں گروہوں کا ذکر ان کے اسماء و اعلام کے بجائے ان کی ان صفات سے فرمایا گیا، جس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس نئی سوسائٹی میں اعتبار خاندان و نسب کی عصبیت کے بجائے صرف ایمان و اسلام اور ہجرت و جہاد کی صفات کا ہو گا۔ اس لئے سو یہ حضرات اپنی انہی صفات کی بناء پر ایک دوسرے کے ولی اور دوست ہوں گے۔ اور اہل کفر و باطل کے مقابلے میں یہ آپس میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بن کر کھڑے ہوں گے۔ کہ ان کے باہمی تعلق و تعاون کا دار و مدار اصل میں حق و ہدایت کے رشتے و رابطے، اور عقیدہ و ایمان ہی کی بنیاد پر ہو گا، نہ کہ دوسروں کی طرح کسی قوم قبیلے وغیرہ کے ان فوارق و امتیازات میں سے کسی پر جو کہ انسان کے دائرۂ اختیار سے خارج ہیں، سو ایمان و اسلام کا رشتہ دوسرے تمام رشتوں اور تعلقات پر فائق، اور سب سے مقدس رشتہ ہے، اور یہی وہ مقدس رشتہ ہے جو انسان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا واحد ذریعہ و وسیلہ ہے، والحمدللہ جل وعلا

۷۵.    اور چونکہ اس وحدہٗ لاشریک کا علم کامل ہے اس لئے اس کا ہر حکم و ارشاد کمال علم ہی پر مبنی ہے، اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے۔ نہ ہو سکتی ہے، اس لئے اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی بدل ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور اسی کے اوامر و ارشادات ہیں جو انسان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کے کفیل اور ضامن ہیں، پس انہی کو دل و جان سے اپنانا چاہیے وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ موطنٍ مّن المواطن فی الحیاۃ، وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ الانفال والحمدللہ جل وعلا۔