دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الاٴنفَال

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز انفال یعنی اموال غنیمت کے مسئلے سے ہو ا ہے اس مناسبت سے اس کا نام "الانفال"ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

یہ وہ مدنی ہے اور جنگ بدر کے بعد یعنی رمضان ۲ ھ میں نازل ہوئی۔

 

مرکزی مضمون

 

جہاد ہے اور جو مسائل جنگ بدر کے مسلمانوں کی صحیح رہنمائ کرنا ہے نیز منکرین پر نبی ﷺ کی صداقت کا نشان واضح کرنا ہے جو حق و باطل کی اس جنگ نے تاریخ کے اور اخ پر ثبت کر دیا۔ سورہ اعراف میں وہ تاریخی واقعات پیش کئے گئے جن سے ان رسولوں کی صداقت ظاہر ہوتی ہے جو مختلف قوموں کی طرف بھجیے گئے تھے اس سورہ میں جنگ بدر میں اہل ایمان کی کامیابی کو نبی ﷺ کی صداقت کا نشان ٹھر ر ا گیا ہے ، کیونکہ یہ جنگ عام لڑا ئیوں سے بالکل مختلف حق و باطل میں امتیاز کرنے والی جنگ تھی۔

 

نظم کلام

 

آیات ۱ تا چار میں مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اہل ایمان کی وہ خصوصیات بیان کی گئی ہیں جو ان کے ایمان کی سچا ئی ا و ر پختگی پر دلالت کرتی ہیں اور جن کے پیدا ہونے کی صورت میں آدمی ہر معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا رویہ اختیار کرتا ہے آیات ۵ تا ۸ میں مسلمانوں کی اس کمزوری پر گرفت جو جنگ سے پہلے ان سے ظاہر ہوئی آیات ۹ تا ۱۹ میں نصرت الہی کا ذکر جو جنگ کے موقع پر ظاہر ہوئی اور ضمناً مسلمانوں کو ہدایت کی یہ وہ مقابلہ کے وقت پیٹھ نہ پھیریں۔

 

آیت ۲۰ تا ۲۹ میں مسلمانوں کو ہدایت کہ وہ نازک لمحات میں اللہ اور اس کے رسول سے وفا داری کا ثبوت دیں۔ آیت ۳۰ تا ۴۰ میں اس بات کا اظہار کہ رسولﷺ کے خلاف کافروں نے جو چالیں چلی تھیں وہ نا کام ہوئیں اور اللہ کی تدبیر کامیاب رہی لیکن اگر اب بھی ان کو اپنے موقوف کے غلط ہونے کا احساس نہیں ہوا ہے اور اپنی کافرانہ رو ش سے باز نہیں آ رہے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ ہو سلسلہ جنگ جاری رکھیں تاکہ اس مقدس سر زمین پر دین حق کا غلبہ ہو۔

 

آیت ۴۱ تا ۴۹ میں مال غنیمت کی تقسیم کا اصول اور اسلامی جنگ کو غیر اسلامی جنگ سے ممتاز کرنے والی باتیں اور مسلمانوں کو ہدایت کہ ان کو سختی کے ساتھ ملحوظ رکھیں۔

 

آیت ۵۰ تا ۵۴ میں اس عذاب الہی کا ذکر جس نے مدد کے موقع پر کافر و ں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

 

آیات ۵۵ تا ۶۶ میں جنگ و صلح کے تعلق سے اہم ہدایت دی گئی ہیں۔

 

آیت ۶۷تا ۷۱ میں جنگی قیدیوں اور ان سے لئے گئے فدیہ پر تبصرہ ہے۔

 

آیات ۷۲ تا ۷۵ خاتمہ کلام ہے جس میں مسلمانوں کو باہمی اخوت کے رشتہ کو مضبوط کر نیکی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وہ متحد اور منظم ہو کر اہل کفر کا جوان سے بر سر پیکار ہیں مقابلہ کر سکیں ،۔

 

جنگ بدر اور اسکے اسباب

یہ جنگ بدر کے مقام پر لڑی گئی جو مدینہ سے ۱۴۸ کلو میٹر اور مکہ سے ۳۰۳ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ایک طرف مدینہ کے مسلمان تھے جن کی قیادت خود نبی ﷺ فرما رہے تھے اور دوسری طرف کفارہ مکہ تھے جن کا قائد ابو جہل تھا۔ مسلمان تین سے کچھ ہی زیادہ اور بے سر و سامنی کی حالت میں تھے جب کہ کفار کا لشکر ایک ہزار افراد پر مشتمل اور سامان سے لیس تھا۔ یہ پہلا معرکہ تھا جو کفر و اسلام کے درمیان ہو ا س لئے اس کو زبر دست تاریخی اہمیت حاصل ہے اس جنگ کے اسباب مختصر ا درج ذیل ہیں۔

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ نے نبی ﷺ کے خلاف قتل کی سازش کی تھی لیکن آپ ان کے چنگل میں پھنس نہ سکے بلکہ ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے جہاں آپ کو بہترین ساتھی مل گئے اور انہوں نے آپ کی نصرت و حمایت کا بیڑا اٹھایا اس سے مشرکین مکہ کے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکہ میں جو لوگ نبی ﷺ پر ایمان لا کر توحید کے علمبردار بن گئے ان پر مشرکین سخت ظلم ڈھا رہے تھے۔ یہاں تک انہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کر جانے پر مجبور کر دیا۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ نے عقیدہ و ضمیر کی آزادی پر جو انسان کا فطری حق ہے روک لگا دی تھی چنانچہ وہ مکہ میں کسی ایسے شخص کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھے جو بت پرستی کو ترک کر کے دین توحید اختیار کرنا چاہتا ہو۔ وہ ایسے لوگوں پر دباؤ اور انہیں پریشان کر تے تاکہ وہ اپنا آبائی مذہب خواہ اس کی نظر وہ کتنا ہے غلط کیوں نہ ہو ترک نہ کرے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کے لئے حج اور عمرہ کی راہ روک دی تھی چنانچہ جب سعد بن معاذ عمرے کے لئے مکہ گئے تو ابو جہل نے سخت اعتراض کرتے ہوئے ان سے حرم میں کہا "تم مکہ میں اطمینان کے ساتھ طواف کرتے ہو جبکہ تم نے ہمارے مذہب سے پھر جانے والوں کو پناہ دے رکھی ہے اور ان کی نصرت و مدد کرتے ہو اگر تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو بعافیت نہ جا سکتے تھے۔ سعد نے اس کے جواب میں کہا 'واللہ اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں ایسی چیز سے روکوں گا جو تمہارے لئے اس سے زیادہ شدید ہو گی اور وہ ہے تمہارا مدینہ سے گزر نے کا راستہ "

 

 (بخاری ،کتاب المغازی)

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالی نے خانہ کعبہ کو مرکز توحید بنا یا تھا اور اس کے معمار حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کا جو طریقہ رائج کیا تھا اس کا مقصد لوگوں کو دین توحید پر قائم رکھنا تھا لیکن قریش نے خانہ کعبہ کو تولیت میں پا کر اس میں بت بٹھا دیئے تھے اور وہاں مشرکانہ رسوم ادا کرنے لگے تھے قریش کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس تاریخی اور عظیم مسجد کو بتکدہ میں تبدیل کر دیں اور اس پر زبردستی قابض ہوں۔ اس لئے ان کو خانہ کعبہ کی تولیت سے ہٹا نا اور بت پرستی سے  اسے پاک کرنا اور اس کے مرکز توحید ہونے کی حیثیت بحال کرنا ضروری تھا۔

 

یہ وہ بنیادی اسباب تھے جس نے مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ کے مشرکین کے درمیان کشمکش تیز کر دی تھی اور پھر مشرکین مکہ نے مدینہ کے مسلمانوں کے خلاف جو ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اس کے نتیجہ میں دونوں کے درمیان حالت جنگ بپا ہو گئی اور قرآن نے مسلمانوں کو جواب تک اپنا ہاتھ روکے ہوئے تھے جنگ کرنے کی کھلی اجازت دیدی۔

 

ان حالات میں جب ابو سفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے مکہ لوٹ رہا تھا  تو مسلمانوں نے چاہا کہ اس پر حملہ کریں تاکہ مشرکین کا زور ٹوٹے اور انہیں سبق حاصل ہو لیکن ابو سفیان  کو اس کی اطلاع ہوئی تو اس نے مکہ کو آدمی بھیج کر وہاں سے کمک طلب کی۔ پھر کیا تھا مشرکین مکہ ایک ہزار کی تعداد میں جن میں انکے بڑے بڑے لیڈر بھی تھے پوری جنگی تیاریوں کے ساتھ نکل گئے ادھر مدینہ سے بھی مسلمان جنگی تیاریوں کے ساتھ نکل گئے وہ تعداد میں تین سو سے کچھ ہی زیادہ تھے اور انکے ساتھ سامان جنگ کی بڑی کمی تھی۔ پھر وہ مقابلہ کے عزم کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور انہوں نے سیدھے بدر کا رخ کیا۔

 

ان کے بدر پہونچنے تک تجارتی قافلہ راستہ بدل کر بدر سے آگے کی طرف نکل گیا۔ قافلہ کے بعافیت نکل جانے کے بعد کفار کے بعض سرداروں نے چاہا کہ لشکر مکہ واپس چلا جائے لیکن ابو جہل نے اصرار کیا کہ بدر چلیں بالا آخر لشکر بدر پہونچ گیا ادھر سے مسلمانوں کا لشکر بھی بدر پہنچ گیا بدر اس طرح جمعہ ۱۷ رمضان ۲ھ مطابق مارچ ۶۲۴ کو بدر کے میدان میں دونوں فوجیں صفا آرا ہوئیں نبی ﷺ نے نصرت کے لئے اللہ تعالی سے نہایت خضوع اللہ دعا کی جب مقابلہ ہو ا تو مسلمان بڑی جانفروشی کے ساتھ لڑے اور نصرت الہی نے بھی ان کا ساتھ دیا اس لئے مٹھی کے صرف ۱۴ آدمی شہید ہوئے اور کفار کے ستر آدمی مارے گئے جن میں قریش کے بڑے بڑے سردار تھے ابو جہل ، عتبہ، شیبہ ، امیہ خلف وغیرہ۔ ان سرداروں کے بارے جانے پر کافروں کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ مسلمانوں نے ان کے ستر آدمی قید کئے جن میں انکے کچھ لیڈر بھی تھے۔ ان لیڈروں میں سے عقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کو بدر سے واپسی میں قتل کر دیا گیا اور بقیہ اسیران جنگ کو نیز جو مال غنیمت ہاتھ لگا تھا اس کو لیکر مسلمان مدینہ لوٹے۔ اہل مدینہ نے نبیﷺ کا پر تپاک خیر مقدم کیا آپ ﷺ کی بخیریت واپسی اور لشکر اسلام کی زبردست کامیابی پر مسلمانوں میں مسرت و انبساط کی لہر دوڑ گئی۔ اسیروں کو آپ نے فدیہ لیکر رہا کر نے کا حکم دیا۔ اور جو قیدی فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کو بغیر فدیہ کے رہا کر دیا گیا۔ ادھر کفار لشکر بدر میں شکست کھانی کے بعد بری طرح بھاگ کھڑا ہوا اور جب مکہ پہنچ تو اسے ذلت کی وجہ سے اپنے ہی لو گوں کو منہ دکھانا مشکل ہو گیا۔

 

یہ تھا معرکۂ بدر جس نے کفار مکہ کو ان کے لیڈروں سے محروم کر کے یتیم بنا دیا اور مسلمانوں کی قسمت کو اسطرح جگا یا کہ آگے جا کر وہ پوری انقلابی شان کے ساتھ دنیا پر چھا گئے اور جس طاقت نے بھی ان سے ٹکر لی،  پاش پاش ہو کر رہ گئی۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔ ۔ ۔ وہ تم سے مال غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو مال غنیمت تو اللہ اور رسول کے لیے ہے۔ پس اللہ سے ڈرو، اپنے باہمی تعلقات درست رکھو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۱*۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مومن تو ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں  ۲* اور جب اس کی آیتیں انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو اس سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے  ۳* اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں  ۴*۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو نماز قائم کرتے ہیں  ۵* اور جو کچھ ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں  ۶*۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجے ہیں ، مغفرت ہے اور بہترین رز ق ہے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اور بدر کا واقعہ ٹھیک اسی طرح پیش آیا) جس طرح تمہارے رب نے تمہیں حق کے ساتھ تمہارے گھر (مدینہ) سے (بدر کی طرف) نکالا در آنحالانکہ  مومنوں کے ایک گروہ کو یہ ناگوار تھا  ۷*۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ تم سے حق کے معاملہ میں جھگڑے رہے تھے حالانکہ معاملہ واضح ہو چکا تھا۔ گویا وہ موت کی طرف ہانکے جا رہے ہیں اور وہ اس کو (اپنے سامنے) دیکھ رہے ہیں  ۸*۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب اللہ نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک ضرور تمہارے ہاتھ لگے گا  ۹*۔ اور تم چاہتے تھے کہ جس میں کانٹا (مقابلہ کی طاقت) نہیں ہے وہ گروہ تمہارے ہاتھ لگے  ۱۰*۔ اور اللہ چاہتا تھا کہ اپنے کلمات  ۱۱*سے حق کا حق ہونا ثابت کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے  ۱۲*۔

 

۸۔ ۔ ۔ تاکہ وہ حق کو حق کر کے دکھائے اور باطل باطل کر کے اگرچہ کہ مجرموں  ۱۳* کو یہ نا گوار ہو۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے  ۱۴* تھے تو اس نے تمہاری فریاد سن کر فرمایا تھا میں ایک ہزار فرشتوں سے کہ پے در پے آئیں گے ، تمہاری مدد کروں گا۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ نے اس بات کو (تمہارے لیے) سر تا سر بشارت بنا دیا ۱۵* اور (یہ خوش خبری تمہیں اس لیے دی) تاکہ تمہارے دل مطمئن ہو جائیں ورنہ مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے  ۱۶*۔ یقیناً اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ (اور یاد کرو وہ وقت) جب کہ وہ تم پر غنودگی طاری کر رہا تھا کہ یہ اس کی طرف سے تسکین کا سامان تھا  ۱۷* اور آسمان سے پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس کے ذریعہ تمہارے قدم جما دے  ۱۸*۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تمہارا رب فرشتوں پر وحی کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کو ثابت قدم رکھنا  ۱۹*۔ میں کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں تو تم ان کی گردنوں پر ضرب لگاؤ اور ان کی ایک ایک انگلی پر ضرب لگاؤ ۲۰*۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کو سخت سزا دینے والا ہے۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے سزا تمہاری تو چکھو اس کا مزہ اور کافروں کے لیے آگ کا عذاب ہے  ۲۱*۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! جب ایک لشکر کی صورت میں تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو انہیں پیٹھ نہ دکھاؤ۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی مقابلہ کے دن پیٹھ دکھائے گا بجز اس کے کہ وہ جنگی چال کے طور پر ایسا کرے یا (اپنے ہی) کسی (فوجی) گروہ سے ملنا چاہتا ہو تو وہ اللہ کے غضب میں گھر جائے گا اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بہت بری جگہ ہے پہنچنے کی  ۲۲*۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ در حقیقت تم نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے پیغمبر) جب تم نے (خاک) پھینکی تو تم نے نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے پھینکی  ۲۳* اور یہ اس لیے ہوا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے گزار دے۔ یقیناً اللہ سننے اور جاننے والا ہے۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ہو چکا اور اللہ کافروں کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے  ۲۴*۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا ۲۵*۔ اب باز آ جاؤ تو تمہارے حق میں بہت ہے اور اگر تم نے پھر وہی کیا تو ہم بھی وہی کریں گے  ۲۶* اور تمہارا جتھا خواہ کتنا ہی زیادہ ہو تمہارے کچھ کام نہ آئے گا اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے  ۲۷*۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے منھ نہ موڑو جب کہ تم سن رہے ہو ۲۸*۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا ہم نے سنا حالانکہ وہ سنتے کچھ نہیں ہیں  ۲۹*

 

     ۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے نزدیک بد ترین جانور وہ بہرے اور گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے  ۳۰*۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ دیکھتا کہ ان میں کچھ بھی بھلائی ہے تو وہ ضرور انہیں سننے کی توفیق دیتا۔ لیکن اگر (اس کے بغیر) انہیں سنواتا تو وہاس سے بے رخی کے ساتھ منہ پھیر لیتے  ۳۱*۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا جب رسول تمہیں ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے  ۳۲*اور جان لو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوتا ہے ۳۳* اور یہ بھی جان لو کہ تم اسی کے حضور اکٹھے کیے جاؤ گے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بچو اس فتنہ سے جس کی زد میں صرف وہی لوگ نہیں آئیں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو گا  ۳۴*اور یہ بھی جان رکھو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یاد کرو وہ وقت جب تم تھوڑے تھے اور زمین میں کمزور سمجھ جاتے تھے۔ تم ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں کہیں اچک نہ لئے جائیں  ۳۵*۔ پھر اللہ نے تمہیں پناہ دی  ۳۶* اور اپنی نصرت سے تمہیں قوت بخشی اور اچھا رزق دیا تاکہ تم شکر گزار بنو۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو! اللہ اور رسول کے ساتھ خیانت  ۳۷* نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں جانتے بوجھتے خیانت کرنے لگو ۳۸*۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں  ۳۹* اور یہ کہ اللہ ہی کے پاس بہت بڑا اجر ہے۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہے تو وہ تمہیں فرقان (حق و باطل میں امتیاز کی قوت) بخشے گا  ۴۰* اور تمہاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمہیں معاف کر دے گا  ۴۱*۔ اللہ بڑے فضل والا ہے۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر وہ وقت یاد کرو) جب کافر تمہارے خلاف سازشیں کر رہے تھے کہ تمہیں قید کریں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں  ۴۲*۔ وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ ان کا توڑ کر رہا تھا اور اللہ بہتر تدبیریں کرنے والا ہے  ۴۳*۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاری تھیں تو کہتے تھے ہم نے سن لیا۔ اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام ہم بھی پیش کر سکتے ہیں۔ یہ تو بس گزرے ہوئے لوگوں کی داستانیں ہیں۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب انہوں نے کہا تھا کہ اے اللہ ! اگر یہ واقعی حق ہے تیری جانب سے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی اور درد ناک عذاب نازل کر  ۴۴*

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ ان پر عذاب نازل کرنے والا نہ تھا جب کہ تم (اے پیغمبر) ان کے درمیان موجود تھے  ۴۵*۔ اور نہ اللہ اس صورت میں انہیں عذاب دینے والا ہے جب کہ وہ استغفار (معافی طلب) کر رہے ہوں  ۴۶*

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اب کیوں نہ اللہ انہیں عذاب دے جب کہ وہ مسجد حرام سے روک رہے ہیں حالانکہ وہ اس کے متولی نہیں ہیں۔ اس کے متولی تو متقی ہی ہو سکتے ہیں  ۴۷*۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔   

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں بچانے اور تالیاں پیٹنے کے سوا کچھ نہیں  ۴۸*۔ تو

 

اب چکھو عذاب کا مزہ اس کفر کی پاداش میں جو تم کرتے رہے ہو ۴۹*۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر اپنا مال اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ خرچ کریں گے پھر ان کے لیے یہ سامان حسرت بنے گا پھر یہ مغلوب ہوں گے  ۵۰*۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے  ۵۱*،

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ناپاک کو ایک دوسرے سے ملا کر  اکٹھا کرے اور پھر سب کو جہنم میں ڈال د ے  ۵۲*۔ یہی لوگ تباہ ہونے والے ہیں۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ان کافروں سے کہو اگر باز آ جائیں تو جو کچھ پہلے ہو چکا  اس کے لیے انہیں معاف کر دیا جائے گا  ۵۳*۔ لیکن اگر انہوں نے پھر وہی روش اختیار کی تو گزشتہ قوموں کے واقعات گزر چکے ہیں  ۵۴*

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین تمام تر اللہ کے لیے ہو جائے  ۵۶*۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو اللہ ان کے اعمال کو دیکھنے والا ہ  ۵۷*۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ منہ موڑیں تو جان رکھو اللہ تمہارا مولیٰ ہے۔ بہترین مولیٰ اور بہترین مدد گار !

 

۴۱۔ ۔ ۔ اور جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت  ۵۸* تم نے حاصل کیا ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے اور رسول کے لیے اور (رسول) کے قرابت داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے  ۵۹*۔ اگر توم ایمان رکھتے ہو اللہ پر اور اس چیز پر جو ہم نے فیصلہ کے دن ۶۰* جس دن دونوں گروہ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اپنے بندہ پر نازل کی  ۶۱* اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے  ۶۲*۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت تم وادی کے قریبی کنارہ پر تھے  اور وہ دور کے کنارہ پر اور قافلہ تم سے نیچے کی طرف تھا۔ اگر تم باہم مقابلہ کی بات طے کر کے نکلتے تو تم میعاد پر پہنچ نہ پاتے  ۶۳* لیکن جو بات ہونے والی تھی اس کو اللہ پورا کرنا چاہتے تھا  ۶۴*۔ تا کہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ حجت دیکھ کر ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ حجت دیکھ کر زندہ رہے  ۶۵*۔ یقیناً اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت (اے پیغمبر !) اللہ تمہیں خواب میں ان کو کم دکھا رہا تھا  ۶۶*۔ اگر انہیں زیادہ دکھاتا تو تم لوگ ہمت ہار جاتے اور جنگ کے معاملہ میں باہم  جھگڑ نے لگتے۔ لیکن اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا یقیناً وہ ان باتوں کو جانتا ہے جو سینوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب تم ایک دوسرے  کے مقابل ہوئے تو اس نے تمہاری نظروں میں ان کو تھوڑا دکھایا اور ان کی نظروں میں تم کو کم کر کے دکھایا  ۶۷* تا کہ جو بات ہونے والی تھی اسے وہ کر دکھائے اور سارے امور پیش تو اللہ ہی کے حضور ہوتے ہیں۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ایمان والو ! جب کسی گروہ سے تمہارا مقابلہ ہو جائے ۶۸*  تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو ۶۹*۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو ۷۰* ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔  ۷۱* صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگو ں کے لیے دکھاوا کرتے ہوئے نکلے اور جن کا حال یہ ہے کہ (بندگان خدا کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں  ۷۲*۔ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ اور (وہ وقت سخت امتحان کا تھا) جب کہ شیطان نے ان کے کام ان کی نگاہوں میں کھبا دیئے تھے اور ان سے کہا تھا کہ آج لوگوں میں کوئی نہیں جو تم پر غالب آ سکے اور میں تمہارا حامی ہوں۔ مگر جب دونوں گروہ ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو وہ الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ، میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے  ۷۳*۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب منافقین اور وہ لوگ جب کے دلوں میں روگ ہے کہہ رہے تھے ۷۴* کہ ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکہ میں ڈال رکھا ہے  ۷۵*۔ اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تم اس حالت کو دیکھ سکتے جب کہ فرشتے کافروں کی روحوں کو قبض کرتے ہیں۔ وہ ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر ضربیں لگاتے ہیں  ۷۶* اور کہتے ہیں چکھو جلنے کے عذاب کا مزا۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا حال وہی ہوا جو فرعون والوں اور ان سے پہلے کے لوگوں کا ہوا تھا  ۷۷* انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا تو اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑ  لیا اللہ نہایت قوی اور سخت سزا دینے والا ہے۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس  ۷۸* لیے ہوا کہ اللہ اس نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت نہ بدل دے  ۷۹*۔ اور اس لیے بھی کہ اللہ سننے اور جاننے والا ہے  ۸۰*۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا معاملہ بھی آک فرعون اور ان سے پہلے کے لوگوں ہی کی طرح ہے  ۸۱*۔ انہوں نے اپنے رب کی آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو ہلاک کیا اور آل فرعون کو غرق کر دیا یہ بس ظالم لوگ تھے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً اللہ کے نزدیک بد ترین جانور وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا اور وہ ایمان نہیں لاتے  ۸۲*۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن لوگوں سے تم نے معاہدہ کیا پھر وہ اپنا عہد ہر مرتبہ توڑتے رہے اور وہ (اللہ سے) ڈرتے نہیں  ۸۳*۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگوں کو اگر تم لڑائی میں پاؤ تو انہیں ایسی سزا دو کہ جو  لوگ ان کے پیچھے ہیں ان کے قدم اکھڑ جائیں اور وہ سبق لیں  ۸۴*۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر تمہیں کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ  ہو تو ان کا عہد سیدھے طریقہ پر ان کے آگے پھینک دو ۸۵*۔ اللہ بد عہدی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ بازی لے جائیں گے  ۸۶* وہ ہمارے قابو سے ہر گز باہر نہیں جا سکتے۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے مقابلہ کے لیے  ۸۷*جہاں تک تم سے ہو سکے طاقت مہیا کیے رہو ۸۸* اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو  ۸۹*تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو نیز ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے  ۹۰* ہیبت زدہ کر سکو۔ اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے  ۹۱* وہ تمہیں پورا پورا لوٹا دیا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز نا انصافی نہ ہو گی  ۹۲*۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی اس کے لیے جھک جاؤ  ۹۳* اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ یقیناً وہ سننے اور جاننے والا ہے۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور (اے پیغمبر) اگر وہ تمہیں دھوکہ دینے کا ارادہ رکھتے ہو تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے  ۹۴*۔ وہی ہے جس نے اپنی نفرت سے اور مومنوں کے ذریعہ تمہاری تائید کی۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی نے ان کے دلوں کو باہم جوڑ گیا۔ اگر تم زمین کے سارے وسائل صرف کر دیتے تو ان کے دلوں کو جوڑ نہیں سکتے تھے لیکن وہ اللہ ہے جس نے ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا کر دی ۹۵*۔ بلا شبہ وہ غالب اور حکمت والا ہے  ۹۶*۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے نبی تمہارے لیے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کے لیے بھی جنہوں نے تمہاری پیروی اختیار کی ہے۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے نبی ! مومنوں کو جنگ پر ابھارو۔ اگر تمہارے بیس آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمہارے سو آدمی ایسے ہوں گے تو ہزار کافروں پر غالب آئیں گے۔ کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں  ۹۷*۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب اللہ نے تمہارا بوجھ ہلکا کر دیا اور اس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے۔ لہٰذا اگر تمہارے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوئے تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار ہوئے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔  ۹۸*۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کسی نبی کے لیے سزاوار نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک زمین میں ۹۹* غلبہ حاصل نہ کر لے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت چاہتا ہے  ۱۰۰* اللہ غالب ہے حکمت والا  ۱۰۱*۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اللہ کا فرمان پہلے سے موجود نہ ہوتا تو تمہارے قید کر لینے کے نتیجہ میں تم کو سخت سزا بھگتنا پڑتی  ۱۰۲*۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے سے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاک ہے  ۱۰۳*۔  اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بلا شبہ اللہ بخشنے والا  رحم فرمانے والا ہے۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے نبی ! تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہہ دو ، اگر اللہ نے جان لیا کہ تمہارے دلوں میں کچھ بھلائی ہے تو جو کچھ تم سے لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہیں معاف کرے گا  ۱۰۴*۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ اور اگر وہ تم سے بے وفائی کرنا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ بے وفائی کر چکے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ اس نے ان کو تمہارے قابو میں دے دیا  ۱۰۵*۔ اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی  ۱۰۶*اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا  ۱۰۷*، اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) پناہ دی اور ان کی مدد کی  ۱۰۸* وہی آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں  ۱۰۹*۔ اور جو لوگ ایمان تو لائے لیکن ہجرت نہیں کی ان سے تمہارا رفاقت کا کوئی تعلق نہیں جب تک کہ ہو ہجرت نہ کریں  ۱۱۰*۔ ہاں ، اگر دین کے معاملہ میں وہ تم سے مدد چاہیں تو تم پر مدد لازم ہے الّا  یہ کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد طلب کریں جس سے تمہارا معاہدہ ہو  ۱۱۱*۔ اور تم جو کچھ کرتے ہو وہ اللہ کی نگاہ میں ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اگر تم ایسانہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور زبردست فساد برپا ہو گا ۱۱۲*۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (مہاجرین کو) پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور با عزت رزق ہے  ۱۱۳*۔

 

 ۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ بعد میں ایمان لائیں اور ہجرت کریں اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کریں وہ بھی تم ہی میں سے ہیں  ۱۱۴*۔ اور خون کے رشتہ دار اللہ کے قانون میں ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں  ۱۱۵* یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ ع

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ بدر میں جو مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا اس کی تقسیم کے بارے میں ان کے درمیان اختلاف ہوا تھا۔ چونکہ یہ اسلام کے پرچم تلے لڑی جانی والی پہلی جنگ تھی اس لئے جو مسائل کھڑے ہوئے ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی ہوا اور کچھ کمزور یوں کا صد ور تھی۔ اس سلسلہ میں سب سے اہم سوال یہ پیش آیا تھا کہ مال غنیمت کے مستحق کون لوگ ہیں آیا وہ جنہوں نے بالفعل اس پر قبضہ کیا یا اس میں فوج کے دوسرے سپاہی بھی شامل ہیں نیز یہ کہ اس کی تقسیم کا ضابطہ کیا ہے۔ یہاں اس سوال کا اصولی جواب دیتے ہوئے ان کمزور یوں کو دور کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جو اس موقع پر ظاہر ہوئی تھیں کیونکہ جہاد کے ذریعہ جن اعلی مقاصد کا حصول اسلام کے پیش نظر ہے وہ اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ اس کے سپا ہی مخلص ،با کردار ،آپس میں جڑے ہوئے اور مضبوط ڈسپلین رکھنے والے ہوں۔

 

"مال غنیمت اللہ اور رسول ﷺ کے لئے ہے " یہ اصولی بات جو سوال کے جواب میں تصرف کا اختیار اللہ اور اس کے روسول ہے۔ لہذا اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کو قبول کرو۔ اللہ نے غنیمت کی تقسیم کا  ضابطہ آیت ۴۱ میں بیان فرمایا اور اس کی تفصیلات رسول پر چھوڑ دیں۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اہل ایمان ایسے زندہ دل اور بیدار مغز ہوتے ہیں کہ جہاں اللہ کا ذکر ہو اس کی عظمت کے تصور سے لرز اٹھے اس کیفیت کا دوسرا نام تقوی ہے۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کا اصل تعلق دل سے ہے اور میں جو ایمانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کی پرورش کا اگر سامان کیا جائے تو وہ برابر بڑھتی رہتی ہے قرآن کریم کی آیات کی تلاوت جب کہ وہ معنی اور مفہوم کے ساتھ ہوا ایمان بالید گی کا باعث ہے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا اصل بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ اللہ پر ہو تا ہے۔ جنگ کے لئے وہ اپنے امکان کی حد تک اسباب بھی کرتے ہیں اور بہتر تدبیر  بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ان اسباب کی بنا پر محض اپنے بل بوتے پر لازما کامیاب ہو جائیں گے۔ بلکہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی اللہ کی نصرت پر منحصر ہے۔ اسی طرح جب کا حکم ہو کہ جنگ کرو تو محض اسباب کی قلت کی وجہ سے وہ کر نے سے نہیں رکتے بلکہ بے سرو سامانی کی حالت میں بھی لڑتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نتیجہ اللہ کے ہاتھ ہے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کے ضمن میں نماز کی اہمیت کا یہ پہلو اس بات کو واضح کر تا ہے کہ مسلمانوں کی وہ  فوج جو نماز قائم نہ کرتی ہو اسلامی انقلاب کے لئے بیکار محض ہے۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ اس بات کی طرف کہ اللہ کی راہ میں لڑنے والے کرایہ کے سپاہی نہیں ہوتے اور نہ مادی مفادات ان کے  پیش نظر ہوتے ہیں بلکہ وہ اس راہ میں خود خرچ کرنے والے اور اپنا مال لٹا نے والے ہوتے ہیں۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیات صراحت کر تی ہے کہ نبی ﷺ مدینہ سے اللہ کے حکم سے نکلے تھے اور آپ کا نکلنا مقصد  حق کے لئے تھا یعنی کسی دنیوی غرض سے لوٹ مار کرنا یا خونریزی کرنا مقصود نہ تھا بلکہ دعوت توحید کو برحق اور رسالت کو سچا ثابت کر د کھانا تھا اور یہ مقصد قافلہ پر حملہ کرنے سے نہیں بلکہ کفار کے لشکر ٹکر لینے سے ہی ہو سکتا تھا اس لئے آپ مدینہ سے بدر ہی کے ارادہ سے نکلے تھے۔ لیکن مسلمانوں کے ایک گروہ لشکر کے مقابلہ کے لئے نکلنا پسند نہ تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ شام سے تجارتی قافلہ کو مغلوب کرنا آسان تھا۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ واقعہ مدینہ سے نکلنے سے پہلے کا ہے جب نبی ﷺ نے مسلمانوں کو اطلاع دی کہ ابو سفیان تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے مکہ کے لئے روانہ ہو چکا ہے اور مکہ سے کافروں کا لشکر بدر کی سمت کوچ کر چکا ہے اور ان دہ گروہوں  میں سے کسی ایک گروہ سے تمہاری مڈ بھیڑ  ہو گی تو مسلمانوں کے ایک گروہ کا رجحان یہ ہو ا کہ قافلہ پر حملہ کر دیا جائے بعد میں جب نبی ﷺ نے واضع طور پر بتا دیا کہ کافروں کے لشکر سے مقابلہ کرنا ہے حق وبا طل کا دو ٹوک فیصلہ ہو جائے تو مسلمانوں میں جو لوگ کمزوری کا شکار تھے وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ اس بے سرو سامانی حالت میں اور اس قلیل تعداد کا کفار کے لشکر جرار سے مقابلہ کرنا گویا اپنے کو موت کے منہ میں دینا ہے ، اس لئے وہ نبی ﷺ سے اس معاملہ میں حجت کرتے رہے ، ان کا اصرار تھا کہ لشکر کے بجائے قافلہ کا رخ کیا جائے ان کے اس رویہ پر یہاں گرفت کی گئی ہے۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یا تو قافلہ تمہارے ہاتھ آئی گا یا لشکر یہ اللہ تعالی کا وعدہ تھا اور نبی ﷺ نے اس سے اہل ایمان کو پہلے ہی مطلع کر دیا تھا۔ جنگی مصالح کے پیش نظر بات مہم رکھی گئی تھی لیکن بعد میں جب کہ مدینہ سے روانگی ہونے لگی تو آپ ﷺ نے واضح فرما دیا کہ لشکر ہی سے مقابلہ در پیش ہے تاکہ اہل ایمان جنگی تیاریوں کے ساتھ نکلیں۔ واضح رہے کہ واقعات کی ترتیب میں راویوں اور سیرت نگاروں سے کچھ غلطیاں سر زد ہوئی، ہیں اس لئے واقعہ کی صحیح تصویر سامنے نہیں آتی مثلاً سیرت نگار ابن اسحاق کا یہ بیان کہ نبی ﷺ قافلہ کو نشانہ بنا کر مدینہ سے نکلے تھے اور بعد میں راستے میں لوگوں کو بتا یا کہ لشکر سے مقابلہ در پیش ہے۔ واقعات کی اس غلط ترتیب نے مخالفین اسلام کو اعتراض کا موقع دیا لیکن قرآن کا بیان جو اوپر سے چلا آ رہا ہے  ان روایتوں کی تردید کی تر دید کرتا ہے کیونکہ اس میں واضح طور سے بتا یا گیا ہے کہ مدینہ سے نکلنے سے پہلے ہی بات واضح ہو چکی تھی کہ لشکر سے مقابلہ ہے۔ اسی لئے مسلمانوں کے ایک گروہ کو مقابلہ کے لئے نکلنا ناگوار ہوا وہ نبی ﷺ سے اس مسلۂ میں حجت کرتا رہا اس لئے ان روایتوں کو قرآن کی روشنی میں دیکھنا چاہئے نہ کہ قرآن کو روایتوں کی روشنی میں۔

 

یہ بھی واضح رہے کہ قافلہ پر اگر حملہ کیا جاتا تو یہ کوئی غلط بات نہ ہوتی ، کیونکہ قریش مسلمانوں سے  برسر جنگ تھے اور جنگی حالات میں دشمنوں کا زور توڑ نے کے لئے ان کے قافلہ پر حملہ کنا اور ان کی اقتصادیات پر ضرب لگانا ہر گز کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے ، اور اگر یہ کوئی معیوب بات ہوتی تو قرآن یہ نہ کہتا کہ "دو گروہوں میں سے کوئی ایک ضرور تمہارے ہاتھ لگے گا" بلکہ یہ کہتا کہ لشکر تمہارے ہاتھ لگے گا۔ لیکن چونکہ قافلہ کے ہاتھ آ جانے سے حق و باطل کا فرق نمایاں نہیں ہو سکتا تھا اور یہ غلط فہمی پیدا کی جا سکتی تھی کہ مسلمانوں کا مقصد محض قافلہ کو لوٹنا تھا اس لئے اللہ تعالی نے قافلہ کو مسلمانوں کی زد میں آنے نہیں دیا اور لشکر سے مقابلہ کے لئے انہیں لا کھڑا  کر دیا اور جب وہ نصرت الہی سے غالب آ گئے تو ثابت ہو ا کہ نبی ﷺ نے جنگ کا جو پروگرام بنایا تھا وہ با کل صحیح تھا اور یہ سب کچھ خدا کی رہنمائی اور اس کی تائید سے ہو ا۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’جس میں کانٹا نہیں ہے وہ گروہ ‘، یعنی کمزور گروہ۔ مراد تجارتی قافلہ ہے چونکہ یہ قافلہ صرف چالیس افراد پر مشتمل تھا اس لئے بغیر مزاحمت کے اس پر غلبہ پایا جا سکتا تھا۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی احکام سے۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے یہ مقصد جنگ کے ذریعہ ہی حاصل کیا جا سکتا تھا ،۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کو۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں نے اللہ تعالی سے مدد کے لئے دعا کی تھی۔ اور نبی ﷺ رات بھر دعا میں مشغول رہے اور صبح  میدان کا راز میں بھی آپ ﷺ کی زبان پر یہ کلمات تھے۔

 

"خدا یا جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہ اسے پورا کر اور عطا فرما وہ چیز جس کا تو نے وعدہ کیا ہے خدا یا اگر اہل اسلام کی یہ مٹھی بھر جماعت آج ہلاک ہو گئی پھر تیری عبادت نہ ہو گی" (مسلم کتاب الجہاد)

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرشتوں کے نزول کی جو خبر تمہیں دی گئی تھی اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ فرشتے آ کر جنگ لڑیں گے اور تم کو نہ کافروں کا مقابلہ کرنا ہے اور نہ اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈالنا ہے بلکہ اس کا مطلب تم کو یہ خوشخبری سنا نا تھا کہ اگر تم کافروں کے مقابلہ میں ڈٹ گئے اور لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو گئے تو اس نازک موقع پر تمہیں ثابت قدم رکھنے ، تمہارا حوصلہ بڑھانے اور تمہاری ضربوں کو کاری بنانے میں وہ تمہاری مدد کریں گے۔ جیسا کہ آیت میں واضح کی گیا ہے۔ اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے بہت بڑی مدد تھی کیونکہ جس فوج کے حوصلے بلند ہوں اور وہ جان کی بازی لگا نے پر تل گئی ہو اس کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگ بدر میں مسلمان جب کہ ان کے اور کافروں درمیان ایک اور تین کی نسبت تھی غالب آ گئے۔ لیکن اگر فرشتوں کے نزول کا مقصد براہ راست کافروں سے لڑنا ہوتا تو اس کے لئے ایک فرشتہ ہی کافی ہو جاتا مگر اللہ تعالی اللہ تعالی کا یہ دستور نہیں ہے۔ حق و باطل کی کشمکش فر یقین کے لئے زبردست آزمائش لئے ہوئے ہوتی ہے۔ باطل پر ستوں کو اپنے بدترین جذبات کے اظہار کا موقع ملتا ہے اور اہل حق کو اپنے جو ہر کھانے کا۔ مگر چونکہ اہل حق تعداد میں کم اور بے سر و سمانی کی حالت میں ہو ے ہیں اس لئے  اللہ تعالی فرشتوں کے ذریعہ ان کی مدد فرماتا ہے اور جہان تک نصرت الہی کا تعلق ہے وہ اہل حق ہی کے ساتھ ہوتی ہے خواہ ان کی تعداد کم ہو یا زیادہ۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر یہ خوش خبری نہ دی جاتی تو بھی تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے تھا کہ اللہ کی مدد ضرور آئے گی اور مدد جب بھی آتی ہے اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے۔ فرشتے خود کسی کی مدد نہیں کرتے بلکہ جب اللہ کا حکم ہو تا ہے تو فرشتے مدد کے لئے پہونچ جاتے ہیں۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس شب کا واقعہ جس کی صبح کو جنگ ہوئی۔ یہ شب بڑی بے چینی اور خوف وہراس کی شب تھی ظاہر ہے ایسے موقع پر نیند اڑ جایا کرتی ہے۔ اس لئے بدر کی شب کو گہری نیند کا تو سوال ہی نہیں تھا البتہ تھوڑا بہت اونگھ لینا ضروری تھا تاکہ صبح تازہ دم ہو کر لڑ سیکں۔ اللہ تعالی نے اس موقع پر اہل ایمان پر غنودگی طاری کر دی جس سے انکا خوف و ہراس بھی جاتا رہا اور صبح تازہ دم ہو کر وہ لڑ نے کے قابل ہو گئے ،

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر کی شب مسلمان پانی کے لئے پریشان تھے۔ اللہ تعالی نے بارش برسائی جس سے گو نا گوں فوائد حاصل ہوئے۔ سفر کے گرد و غبار سے جسم صاف کرنے کے لئے نہانے کی ضرورت تھی اور اس سے زیادہ ضرورت وضو اور طہارت کے لئے تھی مسلمان ایک کھلے میدان میں پڑے تھے اس لئے بارش نے انہیں نہلا کر صاف ستھرا کر دیا اور انہوں نے حوض بنا کر پانی جمع بھی کر لیا ۔ بارش کا دوسرا  فائدہ  یہ ہوا کہ شیطانی وساوس دور ہو گئے کیونکہ پانی نہ ملنے سے شیطان دلوں میں طرح طرح کے خیالات پیدا کر رہا تھا۔ خاص طور سے یہ خیال کہ حالات مسلمانوں کے لئے سز گار نہیں ہیں۔ تیسر ا فائدہ یہ ہوا کہ بارش نے تازگی پیدا کر دی اور مسلمانوں نے اسے نصرت الہی کا نشان  سمجھا جس سے ان کے دل مضبوط ہو گئے۔ چوتھے یہ کہ مسلمان جس جگہ ٹھرے تھے وہاں ریت بارش کی وجہ سے جم گئی اس لئے قدم جمنے لگے۔

 

اس طرح با ران رحمت مسلمانوں کے حق میں اس قدر مفید ثابت ہوئی اس نے جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ دوسری طرف یہی بارش کافروں کے لئے نقصان دہ ثابت ہوئی اس لئے وہ جس جگہ ٹھرے تھے وہاں کیچڑ ہی کیچڑ ہو گئی اور لشکر کے لئے چلنا اور قدم جمانا مشکل ہو گیا۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وہ کام ہے جو فرشتوں کے سپرد کیا گیا تھا یعنی اہل ایمان کا حوصلہ Morale  بلند رکھنا تا کہ وہ کافروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ رہی یہ بات کہ فرشتے اہل ایمان کا حوصلہ بلند رکھنے میں کس طرح معاون ہوتے یہ غیب سے تعلق رکھنے والی بات ہے جس کے جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لئے اتنی بات سمجھ لینا ہمارے لئے کافی ہے کہ جس طرح شیطان کی وسوسہ اندازی کے نتیجہ میں آدمی کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں اسی طرح فرشتوں کے الہام کے نتیجہ میں قدم جمنے لگتے ہیں۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرشتوں کو کافروں کی گردن پر تلوار چلانے کا حکم دیا تھا اگر ایسا ہوتا تو انکی انگلیوں پر ضرب لگانے کا حکم نہیں دیا جاتا بلکہ فرشتوں کو گردن اور انگلیو ں پر ضرب لگانے کا حکم دیا گیا تھا قرآن کے الفاظ " فاضر بو افوق الاعناق " کے معنی گردن مارنے کے نہیں بلکہ گردنوں کے اوپر ضرب لگانے کے ہیں۔ یہ ضرب ایسی ہی غیبی حقیقت ہے جس طرح کہ فرشتوں کا اہل ایمان کو ثابت قدم رکھنا۔ یعنی اس کا تعلق باطنی کیفیت سے ہے نہ کی ظاہر ی عمل سے فرشتوں کے گردنوں پر ضرب لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی گردنیں مسلمانوں کی تلواروں کی زد میں بہ آسانی آ گئیں  اور انگلیوں پر ضرب لگانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور وہ مسلمانوں پر مضبوط ہاتھوں سے تلوار نہ سکے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دینا میں یہ سزا تمھیں ملی کہ فرشتوں کی مار تم پڑی بلکہ اور رسوا ہو کر رہ گئے۔ لیکن معاملہ یہیں پر ختم نہیں ہوا بلکہ آخرت کی سزا بھی باقی ہے۔ کیونکہ ہر کا فر کو دوزخ میں داخل ہو کر  آگ کی سزا بھگتنا ہے۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلام اپنے حوصلہ مند اور جانباز سپاہی تیار کرنا چاہتا ہے جو اللہ کو مقصود بنا کراس کی راہ میں صرف آگے بڑھنا جانتے ہیں اس لئے اسکی لعنت میں پسپائی اور فرار جیسے الفاظ ہیں ہی نہیں۔ قرآن ان لوگوں کو سخت وعید سناتا ہے جو کافروں سے عین مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیریں اور حدیث میں بھی نبی ﷺ نے اس کا شمار سات مہلک گناہوں میں کیا ہے۔

 

والتولی یوم الزحف " اور مقابلہ کے دن پیٹھ پھیرنا سات ہلاک کر دینے والے گنا ہوں میں سے ہے "

 

البتہ جیسا کہ آیت میں بیان ہو ا دو صورتیں ایسی ہیں جو فرار کی تعریف میں نہیں آتیں۔ ایک یہ کہ جنگی چال کے طور پر آدمی پیچھے ہٹ جائے اور پھر بھر پور حملہ کرے اور دوسری یہ کہ محاذ کے قریب کوئی دوسرا فوجی گروہ موجود جس میں شامل ہو کر مقابلہ کرنا جنگی مصلحت کا تقاضا ہو۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر میں جب معرکہ کار زار گرم ہو تو نبی ﷺ نے مٹھی بھر خاک (ریت) شاھت الوجوہ (روسیاہ) کہ کر کافروں کے لشکر کی طرف پھنکی اور سات ہی مسلمان کافروں پر ٹوٹ پڑے نتیجہ یہ کہ کافروں کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور وہ بری طرح شکست سے دو چار ہو گئے۔ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام (ج ۲ ص ۲۶۸) میں مذکور ہے قرآن کا اشارہ اسی واقعہ کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی ضربوں کو کاری بنانا اور نبی ﷺ کی پھینکی ہوئی خاک (دھول) کافروں کی آنکھوں میں جھونک دینا اللہ ہی کا کام تھا اس لئے اس جنگ میں مسلمانوں کو جو کامیابی ہوئی وہ اللہ ہی نصرت سے ہوئی۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنگ بدر میں تو کافروں کو شکست ہو ہی گئی۔

 

اس کے بعد بھی اگر انہوں نے چال چلی تو اللہ انکی ہر چال کو کمزور بنا دیگا۔ اور یہ واقعہ ہے کہ اس کے بعد کافروں نے زبردست چالیں چلیں اور طرح طرح کی سازشیں کیں لیکن اللہ تعالی نے ان کی تمام چالوں اور سازشوں کو ناکام بنا دیا اور اسلام کے ابھر تے انقلاب کو وہ ہر گز روک نہ سکے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس جنگ کے ذریعہ مشرکین حق و باطل کا فیصلہ چاہتے تھے اور ان کے سردار ابو جہل نے دعا کی تھی کہ خدایا ہم میں سے فریق رحم کے رشتے کو کاٹنے کے جرم کا سب سے زیادہ مرتکب ہو ا ہے اسے تو ہلاک کر دے۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو اس جنگ میں کامیاب اور مشرکین کو ناکام کر کے فیصلہ فرمایا کہ مسلمان حق پر ہیں اور مشرکین باطل پر۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ مشرکین کو نصیحت بھی ہے اور تنبہ بھی۔ نصیحت یہ اس خدائی فیصلہ کو جنگ بدر میں ظاہر ہو ا دیکھ لینے کے بعد اگر تم اسلام دشمنی سے باز آ جاؤ تو یہ تمہارے ہی حق میں بہتر ہو گا کہ رسوائی اور ہلاکت سے بچ جاؤ گائے اور تنبہ یہ کہ اگر تم ن پھر وہی اسلام دشنی کی روش اختیار کی تو ہم پھر تم پر اپنا کوڑا بر سائیں گے۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی پیشین گو ئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ مشرکین نے اس کے بعد بھی اسلام اور اس کے پیغمبر کے خلاف جنگیں لڑیں لیکن اس کے بڑے بڑے  جتھے ان کے کچھ کام نہ آئے اور انکو منہ کی کھانی پڑی۔ کفر ایمان کے درمیان لڑی جانے والی ان جنگوں میں سے ہر جنگ میں یہ ظاہر ہوا کہ  نصرت الہی اہل ایمان کے ساتھ ہے۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب اللہ اور اس کے رسول کی آواز تمہارے کانوں میں پہونچ رہی ہے تو سب کچھ سنتے ہوئے نافرمانی کرنا کس قدر غلط اور کتنے بڑے گناہ کی بات ہے۔ ؟

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ یہود کی طرف ہے جو احکام الہی سننے کے باوجود نافرمانی کر تے رہے۔ وہ سنتے تھے مگر ان کا سننا قبول کرنے کے معنی میں نہیں تھا۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اپنی عقل سے کام نہیں لیتے وہ حق بات سننے کے لئے بہرے اور حق بات بولنے کے لئے گو نگے بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ انسان نہیں بلکہ جانور ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔

 

معلوم یہ ہوا کہ دین کی مخلصانہ پیروں کے لئے ضروری ہے کہ آدمی یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ جس دین کو اس نے قبول کیا ہے اس کے تقاضے کیا ہیں اور ایمان لانے کے بعد اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہو گئی ہیں۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ قبول حق سے محروم رہتے ہیں اور  انہیں سننے سمجھنے کی توفیق اللہ تعالی اس لئے نہیں دیتا کہ ان میں خیر پسند نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے اچھی پیدا وار کے لئے صرف بیج کا اچھا ہونا کافی نہیں بلکہ زمین کا اچھا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالی نے ان کی فطرت میں خیر پسندی رکھی تھی مگر انہوں نے اپنی یہ صلاحیت کھو دی اس لئے اگر انکو کچھ سنوا یا بھی جائے تو وہ اس کا کوئی اثر قبول کر نے والے نہیں ہیں۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول جس خدمت کے لئے بھی تمھیں بلائے اور جس چیز کا بھی تمھیں حکم دے اس کی تعمیل تمہارے لئے  سراسر حیات ہے کیونکہ رسول ﷺ کا ہر حکم قلب کو جگانے اور روح کو گرما نے والا  ہوتا ہے۔ اس کی تعمیل سے خیر کے جذبات پرورش پا نے لگتے ہیں۔ اور انسان کے باطن میں زندگی کی لہر دوڑ نے لگتی ہے۔ حیات تازہ کی یہ وہ کیفیت ہے جو رسول ﷺ کی پیروی کرنے والا اس دینا میں ہی محسوس کرنے لگتا ہے۔ رہی آخرت تو وہاں رسول کی پیروی کرنے والوں ہی کو حیات جاودانی نصیب ہو گی۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمھیں اس بات سے ڈر نا چاہیے کہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے کسی حکم خلاف ورزی کی تو تمہارے دل اطاعت کی طرف سے پھر نہ جائیں۔

 

اللہ مقلب القلوب (دلوں کی حالت بدلنے والا) ہے وہ دیکھتا ہے کہ جب کوئی شخص نافرمانی پر نافرمانی کئے چلا جا رہا ہے تو پھر اس کے دل کو نافرمانی کے لئے ساز گار بنا دیتا ہے۔ اس کے بعد فرمانبردار ی کا رویہ اختیار کرنے کے لئے اس کی طبعیت آمادہ نہیں ہوتی  ؎

 

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد 

پر طبیعت ادھر نہیں آتی !

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد اجتماعی جتنے ہیں جن کی آگ بھڑک اٹھتی ہے تو پھر اس کی لپیٹ میں نیک و بد سب ہی آ جا تے ہیں اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر بیدار ہو اور وہ جب کسی فتنہ کو اٹھتا ہوا دیکھیں تو اسی وقت اس کو دبانے کی کوشش کریں اور آگ لگانے والوں کا ہاتھ فورا پکڑ لیں۔ خاص طور سے جنگی حالت میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ سوسائٹی کے اندر کسی گوشہ سے کوئی فتنہ سر نہ اٹھا سکے ورنہ ایسے نازک موقع پر مسلمانوں کا اتحاد  پارہ پارہ ہو سکتا ہے َ

 

اس ہدایت پر جب تک کہ مسلمان کا ر بند رہے انکے اندر کوئی فتنہ سر نہ اٹھا سکا لیکن  بعد کے زمانوں میں جب مسلم معاشرہ میں ہر طرح لوگ شامل ہو گئے اور اس اصولی ہدایت کو ملحوظ نہ رکھ سکے تو طرح طرح کے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے اور پورے معاشرہ کو ان سے دوچار ہونا پڑا۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تک مسلمان مکہ میں رہے ان کا یہی حال رہا۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مدینہ جہاں مسلمان ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیانت سے مراد بے وفائی ہے مطلب یہ کہ اللہ اور  اس کے رسول کے ساتھ وفا داری کا جو عہد تم کیا ہے اس پر قائم رہو اور کوئی ایسا کام نہ کرو جس سے تمہاری وفا داری مشتبہ ہوئی ہو۔ اللہ اور اس کے رسول سے وفا داری کا امتحان خاص طور سے اس وقت ہوتا ہے جب کہ کفر اور اسلام کے درمیان معرکہ آرائی ہوتی ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں امانتوں سے مراد ذمہ دار یاں ہیں اور ان میں خیانت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ادائیگی سے آدمی بے پرواہ ہو جائے یا غیر ذمہ داری کا ثبوت دے۔

 

امانتوں کا دائرہ وسیع ہے جس کی تشریح سورہ نساء نوٹ ۱۲۳ میں گزر چکی۔ یہاں خاص طور سے ہدایت کی گئی ہے۔ جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات سے متعلق ہوں۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کے خیانت میں مبتلا ہونے کی بڑی وجہ مال اور اولاد کی بڑھی ہوئی محبت ہے اس لئے ان کی یہ حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ یہ چیزیں دنیوی زندگی میں سامان آزمائش ہیں۔ ان کے ذریعہ یہ جانچ کر دیکھنا ہے کہ کو ن مال اور اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ بے وفا ئی کرتا ہے اور کون اللہ اور رسول کے ساتھ سچی وفا داری کا ثبوت دیتا ہے  

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کھرے اور کھوٹے میں امتیاز کی صلاحیت پیدا کر ے گا پھر تمھیں زندگی کے ہر موڑ پر نظر آئے گا صاف اور سیدھا راستہ کون سا ہے اور ہر نازک موقع پر تمہاری بصیرت حق کی طرف تمہاری رہنمائی کرے گی۔

 

معاملات زندگی میں اہل ایمان کو قدم قدم پر نئے  نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ مختلف فتنوں سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے موقع پر قرآن و سنت کی اصولی رہنمائی کی روشنی میں عملی رویہ متعین کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر اندرونی بصیرت ہی صحیح طرز عمل کا تعین کرتی ہے اور یہ بصیرت تقوی کے نتیجے میں پید ا ہوتی ہے۔ اسی بصیرت اور اسی قوت کو یہاں "فرقان " سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آدمی کی زندگی اگر متقیانہ ہو تو اللہ تعالی اس کی برائیاں اس سے دو ر فرماتا ہے یعنی گنا ہوں کے داغ مٹا دیتا ہے اور اس کو  اصلاح کی توفیق دیتا ہے اس طرح اسکی سیرت میں خوبیاں نما یاں ہونے لگی ہیں اور جو چھوٹے موٹے گناہ اس سے سرذد ہو گئے ہوں انکو اللہ اپنے فضل سے معاف فرما دیتا ہے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے قریش کی ان سازشوں کی طرف جو وہ نبی ﷺ کے خلاف مکہ میں کر رہے تھے۔ دار الندوۃ میں ان کے سرداروں کا جو اجتماع ہوا تھا ا میں مختلف تجویزیں  زیر غور آئی تھیں کو ئی تجویز کر رہا تھا کہ آپ ﷺ کو قید کر دیا جائے اور کوئی کہ رہا تھا کہ جلا وطن کر دیا جائے۔ بالآخر  آپ کو قتل کرنے پر سب کا اتفاق ہو ا اور صورت یہ تجویز ہوئی کہ ہر قبیلہ میں سے ایک ایک نوجوان منتخب اور سب مل کر ایک ساتھ آپ پر حملہ کریں اور قتل کر دیں۔ اس طرح آپ کا خون سب پر تقسیم ہو جائے گا اور بنی ہاشم سب سے بدلہ نہیں لے سکیں گے اسلئے انہیں خون بہا لینے پر اراضی ہونا پڑے گا۔ یہ ابو جہل کی تجویز تھی اور اس کے مطابق ایک رات سب نے مل کر آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا اللہ تعالی نے آپ کو اس سے مطلع کیا اس لئے آپ اس  پہلے ہی گھر سے نکل چکے تھے لہذا ان کی سازش نا کام ہو کر رہ گئی۔ آپ گھر سے خاموشی کے ساتھ نکلے تھے غار ثور پہونچ کر  آپ ﷺ نے وہاں تین دن پناہ لی اس کے بعد مدینہ ہجرت کر گئے، یہیں سے ہجری سن شروع ہوتا ہے۔ (یہ واقعہ سیرت ابن ہشام  میں تفصیل سے درج ہے ج ۲ ص ۹۲)

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قریش کے نبی ﷺ کو قتل کرنے کی سازش کی تھی لیکن اللہ تعالی نے ایسی تدبیر کی کہ قریش آپ ﷺ کا بال بھی بیکا نہ کر سکے اور سلامتی کے ساتھ مدینہ پہونچ  گئے یہ ہجرت مسلمانوں کے لئے مفید ثابت ہوئی اور ان کے لئے غلبہ اور کامیابی کی راہیں کھلتی گئیں۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بخاری میں ہے کہ یہ بات قریش کے سردار ابو جہل نے کہی تھی نے کہی تھی اور دو سری روایتوں میں نضر بن حارث کا نام بھی آتا ہے۔ یہ در حقیقت دعا نہیں تھی بلکہ نبی ﷺ کی دشنی میں جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے کلمات زبان سے نکالتے تھے۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب تک اللہ کا رسول مکہ میں موجود تھا عذاب نہیں آ سکتا تھا کیونکہ اللہ تعالی کسی بستی پر عذاب اسی وقت بھیجتا ہے جب کہ وہ بستی رسول کے وجود کو برداشت کرنے کے لئے نہ ہو اور رسول اس بستی سے ہجرت کر چکا ہو۔

 

۴۶ یعنی نبی ﷺ کے ہجرت کر جانے کے بعد ان کے عذاب سے بچنے کی ایک ہی صورت رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اللہ سے معافی کے طلب گار ہوں۔ بالفاظ دیگر وہ اسلام قبول کر لیں۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خانہ کعبہ کے متولی ہونے کا حق صرف ان ہی لوگوں کو پہنچتا  ہے جو خدا سے ڈر نے والے ہوں اور اس سے ڈر نے والے ہی اسی ہدایت پر ایمان لانے والے ہوں۔ مشرک اور کافر اس کے متولی کس طرح ہو سکتے ہیں جب کہ اس گھر کی تعمیر کا مقصد ہی خدائے واحد کی بندگی اور توحید کی دعوت کو عام کرنا تھا اور اس کا معمار (ابراہیم علیہ اسلام) بھی توحید خالص کا علمبردار تھا۔

 

مطلب یہ کہ مسجد حرام پر مشرکین نے جو ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور مسلمانوں کو اس کی زیارت کرنے سے روک رہے ہیں تو وہ اپنی اس ظلم و زیادتی کی بنا پر عذاب کے بجا طور پر مستحق ہو گئے ہیں اس لئے اگر اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں انکو ہلاک کر کے مسجد حرام پر سے انکا تسلط ختم کر دے تو یہ انصاف کے بالکل مطابق ہو گا۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ ماعون نوٹ ۵۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر میں کافروں کو جو چپت لگی وہ عذاب الہی کی ہی ایک قسط تھی۔

 

ضروری نہیں کہ اللہ کا عذاب طوفان اور زلزلہ کی شکل ہی میں آئے۔ وہ جنگ کی تباہ کاریوں کی شکل میں بھی آ سکتا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ بدر س لیکر حنین تک جو جنگیں لڑی گئیں ان میں تباہی کافروں ہی کے حصہ میں آئی۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کفر و اسلام کی جنگ میں کافروں کے لئے شکست مقدر ہے۔ وہ اسلام کی راہ روکنے کے لئے آج ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اپنا مال بے دریغ خرچ کر رہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ان کے حق میں سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ نکلے گا۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو لوگ اخیر وقت تک کفر پر قائم رہیں گے انکو جہنم کی طرف ڈھکیل دیا جائے گا۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نا پاک یعنی وہ شرک کفر یا الحاد کی نجاست میں مبتلا رہے اور پاک وہ جن کو ایمان کی پاکیزگی نصیب ہوئی۔

 

قیامت کے دن اللہ تعالی کافروں کو مومنوں سے الگ کر دے گا اور پھر ہر طرح کے کافروں کو ا کھٹا کر کے نجاست کے اس پورے ڈھیر کو جہنم میں جھونک دے گا۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باز آئے سے مراد کفر اور شرک سے باز آنا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر وہ اسلام قبول کرتے اس سے پہلے اس کی مخالفت میں وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں اس پر گرفت نہیں ہو گی۔ اللہ تعالی انکو معاف کر دے گا۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ پھر کافرانہ روش پر چلتے رہے تو اللہ کا قانون سزا ان پر بھی اسی طرح نافذ ہو گا جس طرح کہ پچھلی کافر قوموں مثلاً عاد ثمود اور فرعون وغیرہ پر نافذ ہو چکا ہے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ  نوٹ ۲۶۶۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں کافروں کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کے دو اہم مقاصد بیان کئے گئے ہیں ایک یہ "فتنہ " کا خاتمہ ہو جائے اور دوسرا یہ کہ دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے۔ ان دونوں باتوں کا صحیح مفہوم متعین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سلسلہ کلام کو نگاہ میں رکھا جائے اوپر مکہ کی مسلمانوں کے خلاف جار حا نہ کاروائیوں کا ذکر ہو ہے۔ ایک یہ کہ انہوں  نے مسلمانوں کے لئے مسجد حرام کی راہ روک دی ہے۔  وہ نہ عمرہ  کر سکتے ہیں اور نہ حج دوسرے یہ کہ وہ اسلام کی سب سے اہم ترین عبادت گاہ (خانہ کعبہ) کے ناجائز قبضہ متولی بن بیٹھے ہیں اور اس کا استعمال مشرکانہ رسموں کو انجام دینے کے لئے  کر رہے ہیں اور تیسرے  یہ کہ اللہ کی راہ۔ اسلام  سے لوگوں کو روکنے کے لئے اپنی دولت خرچ کر رہے ہیں۔ یعنی جنگی مقاصد کیلے اپنے و سائل صرف کر رہے ہیں۔ اور سورہ بقرہ آیت ۱۹۱ میں جہاں "فتنہ " کے  بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ قتل سے بھی زیادہ سنگین ہے وہاں کافروں کے اس ظلم و ستم کا ذکر ہو ا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر جانے پر مجبور کیا۔ بالفاظ دیگر وہ مسلمانوں کا وجود مکہ کی سر زمین پر برداشت کرنے کے لئے تیا ر نہیں تھے۔ اس قسم کی بات سورہ بقرہ میں آیت ۲۱۷ میں بھی ارشاد ہوائی ہے۔ گویا ان کا اصل جرم شرک تھا جس کے وہ مرتکب ہو رہے تھے اور اس جرم میں مزید سنگین ان کی جارحانہ کاروائیوں نے پیدا کر دی تھی۔ اس لئے ان کے شرک کو "فتنہ" سے تعبیر کیا گیا۔

 

رہا دوسرا مقصد یعنی "دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے  " تو یہ مثبت  (Positive) بات ہے اور اس میں دین سے مراد دین توحید اسلام ہے جس کو قبول کرنے کی دعوت اوپر آیت ۳۸ میں کافروں کو دی گئی ہے اور دین کے تمام تر اللہ کے لئے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سر زمین حرم میں دین توحید قائم ہو اور دوسرا کوئی دین بھی یہاں باقی رہنے  نہ پائے کیوں کہ اس زمین کو بیت اللہ کی سر زمین ہونے کا شرف حاصل ہے لہذا اس سر زمین کو اور ا س کے  اطراف کے علاقہ کو مشرکانہ  مذہب سے ہمیشہ کے لئے پاک کر کے وہاں دین توحید کو مکمل طور پر غالب کرنا ضروری ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس علاقہ میں ان ہی لوگوں کو آباد ہونے دیا جائے جو اس دین کو ماننے والے ہوں اور ان پر حکمرانی صرف اسلام کی ہو آیت کا یہ مفہوم جو ہم نے بیان کیا قرآن سے مطابقت رکھنے کے علاوہ اس کی تائید حدیث ، روایت مفسرین کے اقوال سے بھی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا  اُمِرْتُ اَنْ اُ قَتِلَ انَّا سَتّٰی یَقّوْ لُوْأ لَا اِلہٰ الا اللہُ فَاِذَاقَلُوْا لَا اِلہٰ الا اللہ عَسِمُوْ امِنِّیْ دِمَاءَھُمْ وَاَمْوَا لَھُمْ اِلَّا بِجُقِّھَا وَجَابُھُمْ عَلُیاللہِ (مسلم کتاب الایمان)

 

" مجھے لوگوں سے (یعنی مشرکین عرب سے) لڑ نے کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ  نہ  نہ کہیں۔ جب وہ لا الہ الا اللہ کہیں گے تو ان کے خون اور مال محفوظ ہوں گے الا یہ کہ حق کی بنا پر کسی کے خلاف کوئی کاروائی کرنا پڑے رہا انکا حساب تو اللہ کے ذمہ ہے "۔

 

اور جہاں تک روایات کا تعلق ہے عروہ بن زبیر نے فتنہ کی تشریح مکہ کے ظلم و جبر سے کی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑی اور ابن عباس ، مجاہد حسن ، قتادہ اور دوسرے حضرات نے فتنہ سے  شرک مراد لیا ہے (تفسیر طبری ج ۲ ص ۱۱۳ اور ج ۸ رہے۔ مفسرین تو انہوں نے بھی یا تو پہلے قول کو ترجیح دی ہے یا دوسرے قول کو مثلاً مشہور مفسر ابن جریر طبری المتونی  ۳۱۰ھ لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فقا تلو ھم حتی الی کون شرک ولا یعبد الا اللہ وحدہ لا شریک لہ فیر تفع البالاء عن عباداللہ  من الارض وھوالفتنۃ و یکون الدین کلہاللہ یقولوحتی تکون الطاعۃ والعبادۃ کلھاللہ خالصۃ دونا غیرہ (تفسیر طبری ج ۹ ، ص۱۶۲)۔

 

" ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک باقی نہ رہے اور اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ ہی کی عبادت کی جانے لگے اس طرح اللہ کے بندوں کو زمین میں جس آزمائش  سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے وہ یعنی فتنہ اٹھ جائے اور دین تمام اللہ کا ہو جائے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اس وقت تک جاری  رکھنا چاہئے جب تک کہ اطاعت  و عبادت پوری طرح اور خالصتہً اللہ کے لئے مخصوص نہ ہو جائے "

 

البتہ بعض معاصرین نے دین کو نظام زندگی یا نظام اطاعت کے معنی میں لیا ہے اور اس حکم کو کہ دین پورا کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے سر زمین حرم کے لئے خاص نہ قرار دیتے ہوئے اسلام کے سپاہی غلبہ اور قوانین الہی کے نفاذ پر محمول کیا ہے اور یہ تشریح کی ہے کہ مشرکین اپنے عقیدہ پر قائم رہ سکتے ہیں مگر انہیں خدا کی زمین پر باطل قوانین جاری کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ اس آیت کی یہ توجیہ دیگر وجود کے علاوہ اس لئے بھی صحیح نہیں ہے کہ آیت میں یہ کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ دین اللہ کے لئے ہو جائے بلکہ یہ حکم کلہ یعنی " پورا کا پورا دین " کی صراحت کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اگر اسے صرف قانون اسلام کی حکمرانی کے معنی میں لیا جائے تو اس پر پورے دین کا اطلاق کس طرح ہو گا۔

 

رہا یہ سوال کہ پھر اسلام نے ذمیوں کو جو امان دی ہے اس کی بنیاد کیا ہے تو اس کی بنیاد یہ آیت نہیں بلکہ سورہ توبہ کی آیت ۲۹ ہے۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باز آنے سے مراد شرک اور اس کی فتنہ سامانیوں سے باز آنا ہے۔ اگر وہ باز آتے ہیں تو اللہ ان کے گزشتہ جرائم سے در گزر فرمائے گا۔ اور آئندہ جو عمل وہ کریں گے اس کو وہ دیکھے گا۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ مال و اسباب جو جہاد میں کافروں سے مسلمانوں کے ہاتھ آ جائے۔

 

واضح رہے کہ یہاں جو حکم بیان کیا جا رہا ہے وہ اموال منقولہ (Movable  Property) کا ہے۔ رہے غیر منقولہ    (Immovable Property) تو ان کا حکم سورہ حشر آیات ۷ میں بیان ہوا ہے۔

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مال غنیمت میں سے سب سے پہلے اس کا پانچواں حصہ (بیس فیصد) نکالا جائے اور اس کو ان مقاصد پر صرف کیا جائے گا جو اس آیت میں بیا ن ہوئے ہیں۔

 

اللہ کے لئے ہے یعنی اللہ کے دین کی اشاعت اور اس کی راہ میں جہاد کے لئے ہے رسول کے لئے ہے کا مطلب یہ ہے کہ رسول ﷺ اس میں سے اپنی ضروریات پر صرف کرسکتا ہے۔ نبی ﷺ اپنے حصہ کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کرتے رہے اور آپ کے بعد اس کا مصرف اسی نوعیت کے کام ہیں۔

 

قرابت داروں سے مراد رسول ﷺ کے قرابت دار ہیں۔ چونکہ آپ نے اپنے رشتہ داروں پر زکوٰۃ حرام کر دی تھی اس لئے اللہ تعالی نے خاندان نبوت کے حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان مال غنیمت سے کر دیا۔

 

یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کی مال غنیمت سے اعانت بھی کی جا سکتی ہے اور ان کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکومت جو شکل مناسب سمجھے اختیار کر سکتی ہے۔ مسافروں سے مراد وہ مسافر ہیں جو حالت سفر میں مدد کے مستحق ہو گئے  ہوں اگر چہ کہ وہ اپنے وطن میں غنی ہوں۔

 

یہ تو ہو ا خمس (پانچواں) کا مصرف۔ رہے چار حصے (اسی فیصد) تو وہ مجاہدین میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ یہ حکم نہیں دیا ہے کہ یہ ۵/۴ لازماً مجاہدین میں تقسیم کیا جانا چاہئیے بلکہ صرف ۵/۱ کا حکم بیان کرنے پر اکتفا کیا۔ اس لئے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اگر اسلامی حکومت اس ۵/۴ کو دفاعی ضروریات اور ریاست کے استحکام وغیرہ پر صرف کرنا چاہتی ہے تو ایسا کر سکتی ہے اور موجود زمانہ میں جب کہ جنگ کے طور طریقے بالکل بدل گئے ہیں اس کی ضرورت بالکل ظاہر ہے۔ نزول قرآن کے زمانہ میں نہ باقاعدہ فوج رکھی جاتی تھی اور نہ انکو تنخواہ دی جاتی تھی بلکہ قبائلی نظام ہونے کی وجہ سے اس وقت ہر شخص سپاہی ہوا کرتا تھا اور مومن ہونے کی حیثیت سے مجاہد ہتھیار بھی خود فراہم کرتا تھا اور جہاد کے لئے اپنا مال بھی خرچ کرتا تھا اس لئے اس  وقت مال غنیمت مجاہدین میں تقسیم کرنا ہی بہتر تھا لیکن موجودہ زمانہ میں جب کہ کا بار اٹھا نے کے علاوہ وہ دفاع (Defense)  کے لئے بڑے پیمانہ پر اسلحہ وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ مال غنیمت کو اس مد میں خرچ کیئے بغیر چارہ کا ر نہیں ہے۔ پھر دشمن سے جو سامان جنگ حاصل ہوتا ہے مثلاً حاصل ٹنک ، بم ، ہوائی جہاز وغیرہ تو وہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ سپاہیوں میں تقسیم کر دی جائیں بلکہ یہ سب حکومت ہی کی ملک ہو سکتی ہیں اور ان کی دفاعی ضروریات کے کام میں لایا جا سکتا ہے۔

 

ہماری اس رائے کی تائید کہ حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے علامہ ابن تیمیہ کے قول سے بھی ہوتی ہے چنانچہ موصوف ایک جگہ لکھتے ہیں۔

 

وھذادلیل علی ان الغنیمۃ للا مام ان یقسمھا باجتھا دہٗ اذا کان امام عدل لیس قسمتھا بین الغانمیمن کقسمۃ المیراث بین الواثۃ و قسمۃ الصدقات فی الاصناف الثما نیہ (مجموع فتاویٰ ابن تمیمہ ، ج ۱۷ ص ۴۹۵)

 

"یہ (یعنی نبی ﷺ کا نو مسلموں کی تالیف قلب کے لئے مال غنیمت میں سے بڑے بڑے  عطیے دینا) اس بات کی دلیل ہے یہ امام (حکومت) کو اپنے اجتہاد سے اس کو تقسیم کرنے کا اسی طرح اختیار رہے جس طرح کہ اسے اپنے اجتہاد سے اموال فئے تقسیم کرنے کا اختیار رہے جب کوئی انصاف پسند امام ہو تو وہ علم و عدل کے ساتھ مال غنیمت تقویم کرے گا۔ مجاہدین میں اسکی تقسیم کا معاملہ ورثاء میں میراث کی تقسیم جیسا نہیں ہے اور نہ صدقات کی تقسیم جیسا ہے جو آٹھ اصناف میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ "

 

دوسری جگہ موصوف نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ چوں کہ نبی ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر کافروں کے مال پر قبضہ نہیں کیا تھا کیونکہ ان کی طرف سے قبول اسلام کی امید تھی اس لئے امام (حکومت) غنیمت کے معاملہ میں کوئی ایسا طریقہ اختیار کر سکتا ہے جو مطابق مصلحت ہو۔

 

وکان فی ھٰذا مادل علی ان السمام یفعل با لاموال والد جال و العقار والمنقول ماھوا صلح (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج ۱۷ ، ص ۴۹۲)

 

" اس میں اس با ت کی دلیل ہے کہ اموال ، افراد ، جائداد اور اموال منقولہ کے معاملہ میں امام وہ طریقہ اختیار کر سکتا ہے جو زیادہ مطابق مصلحت ہو"۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ بدر کے دن کو یوم الفرقان (فیصلہ کا دن) سے تعبیر کیا گیا ہے اس لئے کہ اس جنگ میں اللہ فیصلہ کھلے طور پر ظاہر  ہو گیا تھا اور حق و باطل کا امتیاز بالکل نمایاں ہو گیا تھا۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے اپنے رسولﷺ پر فرشتوں کی جو فوج اتاری اور غیب سے تائید و نصرت کا جو سامان کیا۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہذا اللہ اپنے رسولﷺ کے لئے غیب سے نصرت کا سامان کر سکتا ہے۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی لڑائی کا نقشہ اس طرح تھا کہ بدر کی وادی کا جو حصہ مدینہ کی جانب تھا وہاں مسلمانوں کا لشکر پہنچ گیا اور وادی کا جو حصہ مکہ کی جانب تھا وہاں کافروں کا لشکر تھا اور تجارتی قافلہ کافروں کے لشکر کی پشت پر تھا اور نیچے کی جانب یعنی ساحل سمندر سے گزر رہا تھا۔ یہ محاذ آرائی  جو بظاہر مسلمانوں  کے لئے بڑی ناساز گار تھی نصرت الہی نے اسے مسلمانوں کے حق میں بالکل ساز گار بنا دیا اور وہ اس طرح تجارتی قافلہ کافروں کی پشت پر اور ان سے قریب ہونے کے باوجود ان کی مدد کو نہ پہونچ سکا بلکہ بے خبری کے عالم میں دوسرے راستہ سے مکہ کی طرف نکل گیا۔ پھر عین وقت پ جو بارش ہوئی اس نے وادی کے اس حصہ کی زمین کو جہاں کافروں کا لشکر تھا نرم اور کیچڑ والی بنا دیا بخلاف اس کے مسلمانوں کے لشکر کی زمین کو قدم جمانے کا لائق بنا دیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس  وقت جس انداز کی جنگیں لڑی جاتی تھی ان کی ناکامی اور کامیابی میں محل جنگ کا بڑا داخل ہوتا تھا۔ اللہ تعالی نے حالات کچھ ایسے  بنا دیئے کہ محل جنگ اور وقت جنگ دونوں مسلمانوں کے لئے سازگار ہو گئے یہ حسن اتفاق اللہ تعالی کی ہی کرشمہ سازی تھی ورنہ اگر مسلمانوں اور کافروں کے لشکر ایک دوسرے کو چیلنج کر کے طے شدہ پروگرام کے تحت نکلے تو ٹھیک ایسے وقت پر جب کہ بارش ہوئی اور ثابت ہوئی پہنچ نہیں سکتے تھے اور ایسی صورت میں لڑائی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ نے جو بات طے کی تھی وہ واقع ہو جائے اور بدر کا میدان حق کی و باطل کی معرکہ آرائی کا میدان بن جائے۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدر کی جنگ دو قوموں کی جنگ نہیں تھی جو مادی اغراض کے لئے لڑی جاتی ہے بلکہ یہ خالصتہً حق و باطل کی جنگ تھی۔ اس میں جہاں حق نمایاں ہو کر  سامنے  آگیا تھا اسی طرح باطل بھی بے نقاب ہو گیا تھا۔ اس چیز نے لوگوں پر اللہ کی حجت آخری طور سے قائم کر دی۔ آیت میں ہلاک ہونے سے مراد کفر کی ہلاکت ہے اور زندہ رہنے سے مراد ایمان کی زندگی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو شخص کفر کی موت مرنا چاہتا ہے اس پر اللہ کی حجت آخری طور سے قائم ہوتا کہ وہ یہ عذاب نہ کر سکے کہ حق مجھ پر پوری طرح واضح نہیں ہوا تھا اور جو ایمان کی راہ اختیار کر کے زندہ جاوید بننا چاہتا ہے  وہ اللہ کی اس محبت سے بصیرت حاصل کرے۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ محاذ جنگ پر پہنچنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو خواب میں کافروں کے لشکر تعداد میں کم دکھا یا اور اس خواب کو جب آپ نے مسلمانوں کے سامنے بیان کیا تو ان کی ہمت بندھ گئی۔ یہ تعداد میں کم دکھانا معنوی اعتبار سے کوئی وزن نہیں رکھتی تھی اس لئے ان کی بڑی تعداد تھوڑی تعداد تھی نبی ﷺ کا خواب مجاز کے پیرا یہ میں ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ کافروں کا لشکر تعداد میں کم ہے اور ان کا یہ سمجھنا مفید ہی ثابت ہوا کیونکہ اس کے پیش نظر ان کے لئے کافروں کا مقابلہ کرنا آسان ہو گیا۔  

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب دونوں فوجیں صف آرا ہوئی تو اللہ تعالی نے ایسی تدبیر کی کہ مسلمانوں کی نظروں میں کافروں کی تعداد کم دکھائی دی اس لئے ان کے حوصلے قائم رہے اور دوسری طرف کافروں کو مسلمان بہت کم تعداد میں دکھائی دینے لگے اس لئے انہوں نے یہ سوچ کر کہ ان مٹھی بھر انسانوں کو ختم کرنا آسان ہے جنگ کے لئے پہل کی اس طرح وہ معرکہ کا زار گرم ہوا حق اور باطل کو باطل ثابت کر نے کے لئے ضروری تھا۔ بعد میں اللہ تعالی نے ان مٹھی بھر مسلمانوں کا رعب کافروں کے دلوں میں کچھ ایسا ڈال دیا کہ انکے حوصلہ پست ہو گئے  اور وہ میدان جنگ سے بھاگ کھڑے ہوئے۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب کھبی کافروں سے تمہارا مقابلہ ہو۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کامیابی (فلاحی) سے مراد حقیقی  کامیابی ہے  یعنی دینا میں اللہ کی نصرت اور آخرت میں اس کی طرف سے اجر عظیم۔

 

اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہیں۔ مقابلہ کے وقت ثابت قدم رہنا اور اللہ کو بہ کثرت یاد کرنا۔ اللہ کی نصرت اس وقت نازل ہوتی ہے جب اہل ایمان اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرتے ہیں۔

 

اس سے یہ بات بھی واضح  ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی وہ جنگیں جو خدا کو بھول کر محض مادی مقاصد کے لئے لڑی جاتی ہیں نصرت الہی سے محرومی کا باعث ہیں۔  

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ کے موقع پر نظم  (Discipline) کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اختلاف سے بدنظمی اور جماعت میں انتشار پیدا ہو جاتا اس لئے تاکید کی گئی ہے کہ اختلاف نہ کرنا۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صبر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اپنی رائے کے خلاف ڈسپلن کا ثبوت دے تاکہ  حق و باطل کی جنگ مسلمانوں کے اندر انتشار کی صورت پیدا نہ ہو۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے لشکر کفار کی طرف جو اپنی کثرت پر ناز کرتے ہوئے اور اپنی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکہ سے نکلا تھا اور جس کا مقصد دین حق کی راہ روکنا تھا۔ مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان لوگوں کے سے رنگ ڈھنگ اختیار نہ کرنا۔ یہ ایک مستقل ہدایت ہے جو سے ہر جنگ کے موقع پر ممتاز رہے۔ وہ اللہ کے سپاہی ہیں اور ان کی جنگ کا مقصد بندگان خدا کے لئے دین حق کی راہ کھولنا ہے اس لئے جنگ میں بھی ان کی شان عبادت کی ہونی چاہیے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان اپنے ساتھ اپنے ہتھ کنڈے اس طرح استعمال کرتا ہے کہ انسان کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ شیطان میرے سامنے کھڑا اور وہ مجھے غلط اقدامات پر اکسا رہا ہے۔ وہ نہایت خفیہ طریقے پر انسان کے نفس سے براہ راست ہم کلام ہوتا ہے اور اس کی یہ گفتگو اشاروں  کی زبان میں ہوتی ہے جو وسوسوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

 

آدمی کا نفس اگر بیدار ہو۔ اور یہ محسوس کرتا ہے کہ ایک برا خیال ہے جو اس دل میں پیدا ہوا ہے پھر وہ اس کا اثر قبول نہیں کرتا۔

 

جنگ بدر کے موقع پر  شیطان نے اپنے چیلوں (کافروں) سے جو بات کہی تھی وہ اسی نوعیت کی تھی اور اس پر دلیل قرآن کی وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے۔

 

کَمَثَلِ الشَّیطانِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اکْفَرُ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِی ءٌ مِنْکَ اِنِّیْ اَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ (الحشر۔ ۱۶)

 

شیطان کی طرح جو انسان سے کفر کرنے کے لئے کہتا ہے اور جب وہ کفر کر بیٹھتا  ہے تو کہتا ہے میں تجھ سے بری ہوں میں اللہ تب العالمین سے ڈرتا ہوں "۔

 

ظاہر ہے شیطان یہ باتیں روبرو ظاہر ہو کر نہیں کہتا بلکہ وسوسہ اندازی کر کے کفر پر آمادہ کرتا ہے اور جب انسان کفر کر بیٹھتا ہے تو اس کے نتائج کو ذمہ داری قبول نہیں کرتا بلکہ وہ اسے چھوڑ دیتا ہے کہ ہلاکت کے گڑھے میں جاگر ے۔ ایسی ہی بات شیطان نے بدر کے موقع پر بھی کافروں کے دل میں ڈالی تھی۔

 

اس پر دوسری دلیل آیت زیر تفسیر کا پہلا فقرہ ہے جس میں کھبا دیئے تھے۔ " ظاہر ہے کاموں کو   نگاہوں میں کھبا نے کا کام شیطان نے اپنے مخصوص انداز میں کیا تھا نہ کہ انسانی شکل میں ظاہر ہو کر اس لئے شیطان کے قول کو بھی اسی اندار کی چیز سمجھنا چاہیے۔ (اور اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے اپنے کلام کے معنی کو)۔

 

اور شیطان نے یہ جو بات کہ  "میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے " تو اس سے مراد اس کا فرشتوں کو دیکھنا ہے جو جنگ بدر کے موقع کے مقابلہ میں وہ ٹک نہیں سکتا تھا اس لئے اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اس نے جب یہ بات اشارتی زبان میں کافروں سے کہی ہو گی تو عجب نہیں کہ ان کے دل میں تھوڑی دیر کے لئے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ جو شکست کا سامنا ہیں کرنا پڑ رہا ہے تو یہ کہیں خدا کی مار تو نہیں ہے جو ہم پر پڑی رہی ہے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت کی بات ہے جب مسلمانوں کافروں  کا مقابلہ کرنے کے لئے  مدینہ سے روانہ ہو رہے تھے۔ جن کے دلوں میں روگ ہے " سے مراد یہود ہیں جو اللہ پر ایمان کا دعوی کرتے تھے لیکن ان کے دلوں میں کفر کی بیماری تھی۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مسلمان وہی جنون میں ایسے مبتلا ہو گئے ہیں کہ انہیں اپنی جانوں کی بھی پر واہ نہیں رہی وہ اپنی بے سر و سامانی کے باوجود قریش کی طاقتور فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ جان کئی کے وقت کی حالت ہے جو بیان ہوئی ہے اس لئے اس کا تعلق روح سے ہے اور اصل انسان وہی ہے جو جسم انسانی کے اندر ہے محض جسم کو انسان سمجھنا صحیح نہیں اور موت کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ روح جسم سے جدا ہو جاتی ہے۔ اور یہ روح اگر ایک کافر آدمی کی ہے تو اس پر فرشتوں کی مار پڑتی ہے  اور وہ اس سے کہتے ہیں کہ آگ کی سزا بھگتنے کے لئے تیار ہو جا۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بدر میں ان کافروں کو جو سزا ملی وہ اسی طرح کی سزا ہے جو فرعون نے بھی وہی روش اختیار کی جو ان قوموں نے اختیار کی تھی۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ سزا انہیں اس لئے ملی کہ ،۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قوموں کے عروج و زوال کا قانون ہے جو اس آیت میں بیان ہو ا ہے۔ جب کسی قوم کو اللہ نعمت عطا کرتا ہے تو اسی صورت میں اس کو چھین لیتا ہے جب کہ وہ اس کی ناقدری کرتی ہے اور اپنے کو اس کا نا اہل ثابت کر دکھاتی ہے۔ امن و امان ، خوش حالی ، عزت و اقتدار سب اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں اور جب اللہ کسی قوم سے اس کی سر کشی کی بنا پر ان نعمتوں کو چھین لینا چاہتا ہے تو اس پر خوف وہراس طاری کرتا۔ کبھی تو وہ آپس ہی میں لڑنے مرنے لگتی ہے اور کبھی اس پر جنگ کے بادل منڈ لانے  لگتے ہیں اس طرح خوشحالی معاشی تنگی میں بدل جساتی ہے یا حادثات اور وباؤں کا سلسلہ چلتا ہے۔ رہا عزت و  اقتدار کا معاملہ تو وہ بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے اور ذلت شکست ، غلامی اور دوسری قوموں کے دست نگر ہونے جیسی صورتیں پیدا ہوئی جاتی ہیں۔

 

قریش کو مکہ میں جو امن و امان حاصل تھا وہ ان کی سرکشی کی وجہ جنگ میں تبدیل ہو گیا اور بدر نے انکی عزت کو خاک میں ملا دیا۔ یہاں تک کہ ان کی با اقتدار شخصیتیں یا تو قتل ہو گئیں یا انہیں اسیر ہو کر دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہونا پڑا۔ آیت کا اشارہ انکی اسی حالت کی طرف ہے۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب اللہ سننے والا جاننے والا ہے تو اس کو قوموں کے قول و فعل کی خبر کیسے نہ ہو گی۔ اور جب خبر رکھتا ہے تو ان کے ساتھ وہ معاملہ کیوں نہیں کرے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ ؟

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قریش کو آئندہ کے لئے تنبیہ ہے کہ جو کچھ بدر میں تمھیں پیش آیا وہ عذاب کی ایک قسط تھی لیکن اگر تم سر کش قوموں ہی کی ڈگر پر چلتے رہے تو پھر پوری قوم عذاب کی لپیٹ میں اس طرح آئے گی جس طرح کہ سابقہ قومیں آتیں رہی ہیں۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا کفر اتنا شدید ہے کہ وہ کسی طرح ایمان لانے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔

 

جو شخص کفر کی راہ اختیار کرتا ہے وہ عقل و ہوش سے کام نہیں لیتا بلکہ اندھا بن جا تا ہے اور اپنے کو انسانیت کے درجہ سے گر کر جانوروں سے بھی زیادہ پست سطح پر لے آتا ہے۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی ﷺ مدینہ کو ہجرت کرنے کے بعد یہود سے دوستانہ معاہدہ کیا تھا جس کی ایک دفعہ یہ تھی کہ وہ قریش کی پشت پنا ہی نہیں کریں گے لیکن یہود ہر موقع پر اسکی خلاف اکسا تے بھی رہے اور ان کی پشت پنا ہی بھی کرتے رہے آیت کا اشارہ خاص طور سے ان کی طرف ہے۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معاہدہ کی خلاف ورزی کرنے والوں سے کوئی شخص یا کوئی گروہ دشمنوں کے ساتھ مل کر تمہارے خلاف جنگ لڑنے کے لئے آ جائے تو اسے بلا تا قتل کرو اور عبرت ناک سزا دو۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس قوم تمہارا معاہدہ ہو وہ اگر معاہدہ کا احترام  نہیں کرتی اور اس کے طرز عمل سے یہ ظاہر ہو کہ وہ موقع پا تے ہی تمہارے خلاف کاروائی کرے گی تو تم اس کے معاہدہ کو سیدھے سیدھے اس کے منھ  پر دے جب تمھاری طرف سے معاہدہ کے ختم ہونے کا اعلان ہو۔ جائے تو تم اس کے خلاف کاروائی کر سکتے ہو لیکن معاہدہ کو برقرار رکھتے ہوئے چھپے طریقہ پر اس قوم کے خلاف کاروائی کرنا جائز نہیں۔ یہ حکم اس صورت کے لئے ہے جب کہ معاہدہ قوم سے عہد کی خلاف ورزی کا اندیشہ ہو لیکن اگر معاہد قوم سے  کھلے بندوں عہد کی خلاف ورزی کر بیٹھی ہے جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد کفار مکہ کر بیٹھے  تو معاہدہ خود بخود ٹوٹ جائے گا اور کسی رسمی اعلان کی ضرورت نہ ہو گی۔

 

واضح ہے کہ یہاں معاہدہ سے مراد نا جنگ اور صلح کا معاہدہ ہے۔ رہے موجودہ زمانہ کے تجارتی اور ثقافتی معاہدے تو جب تک ان کو ختم نہیں  کیا جاتا ان کا احترام پنے دائرہ میں ضروری ہے لیکن  وہ کسی قوم کے خلاف جنگی کاروائی کرنے میں مانع نہیں ہیں۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافر اس غلط  فہمی میں نہ رہیں کہ وہ خدائی فیصلہ سے بچ کر آگے نکل جائیں گے بلکہ خدا نے ان کے مغلوب ہونے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ لازماً ان پر نافذ ہو کر رہے گا۔

 

جنگ کی صورت میں ایسے معاہدے خود بخود کالعدم ہو جاتے ہیں۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کافروں کے مقابلہ کے لئے۔

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طاقت (قوۃ) مہیا رکھنے میں افرادی قوت (Man – power) بھی شامل ہے اور ہر قسم کا جنگی سماز و سامان بھی۔

 

جنگ بدر میں مسلمان بے سر و سامانی کی حالت میں نکلے تھے کیوں کہ وہ اس موقف میں نہیں تھے کہ جنگ کے لئے بھر پور تیاری کر سکیں لیکن آئندہ کے لئے (انہیں ہدایت کر دی گئی کہ جس حد تک ممکن ہو تر بیت یافتہ فوج (Trained Military) بھی تیار رکھو اور جنگی سامان بھی تاکہ جب ضرورت پیش آ جائے   میدان جنگ میں اتر سکو۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ میں گھوڑوں کی اہمیت مسلم ہے۔ اس زمانہ میں اس سے زیادہ تیز رفتار اور جنگی کاروائی کے لئے اس سے زیادہ موزوں کوئی سواری نہیں تھی اس لئے خصوصیت کے ساتھ جنگی گھوڑوں کو تیار رکھنے کا حکم دیا گیا۔

 

موجودہ زمانہ میں ٹنک ، آبدوز ، ہوائی جہاز میزائل ، راکٹ وغیرہ زبردست جنگی اہمیت رکھنے والی چیزیں  ہیں اس لئے آیت کا منشا پورا کرنے کے لئے ان چیزوں کو مہیا رکھنا ہو گا۔  

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان دشمن اسلام کی طرف جو ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھیں لیکن آئندہ ان سے سابقہ پیش آنے والا تھا چنانچہ آگے چل کر مسلمانوں کو نہ صرف یہود اور عرب قبائل سے بلکہ وقت کی سب سے بڑی طاقتوں فارس و روم سے بھی نیز  و آزما ہونا پڑا۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد جہاد کے  لئے خرچ کرنا ہے۔  اور سامان جنگ کی تیاری کا جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کے لئے کثیر مالی و سائل کی ضرورت  ہو گی۔ اس لئے اس مقصد کے پیش نظر انفاق کی ترغیب دی گئی ہے۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آخرت میں اس کا پورا پورا   اجر ملے گا اور کسی کی حق تلفی نہ ہو گی۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آیت  ۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں مشرکین کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا حکم دیا گیا تھا یہاں تک کہ سر زمین حرم شرک سے پاک ہو جائے اور یہاں فرمایا کہ اگر وہ صلح کے لئے جھک جائیں تو تم بھی جھک جاؤ یہ دوسری بات پہلی بات کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کو واضح رہی ہے کہ آخری مقصد (Goal) تو سر زمین حرم سے شرک کے خاتمہ تک مشرکین سے جنگ جاری رکھانا ہے لیکن درمیانی مرحلے ایسے ہو سکتے ہیں کہ ان کی صلح کی پیش کش کو قبول کر لیا جائے کیوں کہ یہ صلح شرک کے خاتمہ کے  لئے فضا کو ساز گا بنا سکتی ہے اور جنگ کا جوش ٹھنڈا پڑا جانے کی صورت میں کتنے ہی لوگ اسلام پر غور کے لئے  آمادہ ہو سکتے ہیں۔ اور کتنوں ہی کے دل کے دروازے ہدایت کے لئے کھل سکتے ہیں۔ پھر جو کام فہمائش کے ذریعہ کیا جا سکتا ہو اس کے لئے خونریزی کیوں کی جائے۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بے جا اندیشوں کی بنا پر صلح کی پیشکش کو ٹھکرانا مناسب نہیں۔ بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اسے قبول کر لیا جائے۔ اگر تمہاری نیت بخیر  ہے اور اللہ پر تم نے بھروسہ کیا ہے تہ دشمن تمھارا  کچھ بگاڑ نہ سکے گا۔ دشمن کی چالوں کا توڑ کرنے کے لئے اللہ کافی ہے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عرب قبائل کے درمیان  جو شدید دشمنی چلی آ رہی تھی۔ اس کو ختم کر کے حقیقی معنی میں ان کے اندر جذباتی ہم آہنگی پیدا کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی اور دنیا بھر کے وسائل صرف کر کے بھی یہ مقصد حاصل نہیں  کیا جا سکتا تھا لیکن اللہ نے یہ کرشمہ دکھا یا کہ جو لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔ وہ ایمان لا کر ایک جماعت اور آپس میں  بھائی بھائی بن گئے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ غالب ہے اس لئے اس کا منصوبہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور وہ حکیم ہے اس لئے کے فیصلے نہایت حکیمانہ ہوتے ہیں۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ حق کو سمجھنے سے محروم ہیں اس لئے ان کی لڑائی تمام تر باطل مقاصد کے لئے ہے۔ اور جو گروہ باطل مقاصد کے لئے ہڑ رہا ہو وہ اپنی اندرونی معنوی قوت کے اعتبار سے کمزور ہی رہے گا۔ بخلاف اس کے اہل ایمان حق کو سمھ چکے ہوتے اور ان میں زبردست روحانی اور  معنوی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں جان دینا جان کو کھونا نہیں بلکہ اس کو پا نا اور نر کر زندہ جاوید ہو جانا ہے  اس لئے وہ بے جگری  کے ساتھ لڑتے ہیں۔ اہل ایمان کو انکی اسی معنوی طاقت کا احساس دلاتے ہوئے جہاد پر ابھارا گیا ہے اور انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ کافروں کی کثرت تعداد کو دیکھ کر جنگی اقدام کرنے سے نہ رکیں خواہ کافروں کی تعداد اہل ایمان کے مقابلہ میں دس گنی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ باطل باطل کے مقابلہ میں تو زور دکھا سکتا ہے لیکن حق کے مقابلہ میں ٹک نہیں سکتا۔

 

بیس اور سو کی تعداد یہاں مثالاً بیان ہوئی ہے اور غالباً مناسبت سے کہ اس وقت جنگ میں فوج کی تنظیم بیس بیس اور سو سو کے دستوں کی شکل میں ہوتی ہو گی۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ طاقت تم سے دس دشمن کے خلاف اقدام کا ہو تو اگر دشمن کی طاقت تم سے دس گنا بھی ہو تو تمھیں اس کے خلاف اقدام کرنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے کہ اہل ایمان کے لئے مقابلہ کا اصل معیار یہی ہے جیسا کہ اوپر کی آیت میں بیان ہو لیکن فی الحال جب کہ تمہارے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو پختہ کار نہیں ہیں اور صبر و ثبات کے لحاظ سے معیار مطلوب پر نہیں ہیں چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر ان سے مختلف کمزوریوں کا اظہار ہوا جس پر اس سورہ میں گرفت بھی ہوئی  ہے اس لئے تمہاری ذمہ داری کو ہلکا کیا جاتا ہے۔ اب اگر دشمن کی طاقت دو گنی ہو تو تمھیں اس  کے خلاف اقدام کرنے میں ہر گز تامل نہیں ہونا چاہیے۔

 

یہ رعایت اس موقع  کے لئے ہے جب کہ دشمن کے خلاف اقدام کر کے جنگ لڑنا ہو جیسا کہ نبی ﷺ اطراف مدینہ کے مختلف دشمن قبائل کی سر کوبی کے لئے چھوٹے بڑے دستے روانہ کیا کرتے تھے۔ رہی مرافعانہ  جنگ تو وہ تو بہر حال لڑنا ہے اور اس میں تنا سب کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا  چنانچہ جنگ بدر کے موقع پر مسلمان اپنی کمزور حالت کے باوجود اپنے سے تین گنا طاقت سے لڑے اسی طرح جنگ احد میں بھی انہیں تین گنا  سے زیادہ طاقت کا مقابلہ کرنا پڑا اور جنگ خندق میں تو دشمن کی تعداد دس ہزار سے متجاوز تھی جب کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار اور ایک روایت کے مطابق تو ایک ہزار سے بھی کم تھی یعنی ایک اور دس کا مقابہ تھا۔

 

عام طور سے مفسرین نے اس آیت کی توجیہ کی ہے کہ پہلے یہ حکم تھا کہ مسلمان اپنے سے دس گنی تعداد کا مقابلہ کریں اور میدان جنگ سے بھاگیں نہیں لیکن یہ حکم جب مسلمانوں پر شاق گزرا تو دوسری آیت نازل ہوئی جس میں یہ رعایت کر دی گئی کہ اپنے سے دو گنی تعداد کے مقابلہ میں وہ ڈٹ جائیں اور اگر دو گنی سے زیادہ تعداد ہو تو فرار کی گنجائش ہو سکتی ہے۔

 

لیکن آیت کی یہ توجیہ نہ قرآن کے بیان سے مناسبت رکھتی ہے اور نہ واقعات ہی سے اس کی تائید ہوتی ہے جہاں تک فرار اختیار کرنے کا سوال ہے اس سورہ کی آیت ۱۶ میں اس کی سخت ممانعت کر دی گئی ہے یعنی جب خواہی کافروں کی فوج سے مڈ بھیڑ ہو ہی جائے تو پھر مسلمانوں کو اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے تک لڑانا ہے خواہ دشمن کی تعداد کچھ ہو۔ مقابلہ سے بھاگنے کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کہ اسلام کی لغت میں سرے سے یہ لفظ موجود ہی نہیں ہے۔ اس سے اگر کوئی صورت مستثنی ہے تو وہ صرف جنگی چال کے طور پر پیچھے ہٹ جانا تاکہ دوبارہ بھر پور وار کیا جاسکے۔ رہی واقعات کی شہادت تو نبی ﷺ کے زمانہ میں جتنی جنگیں لڑی گئی ہیں ان سے میں سے کوئی ایک مثال بھی اس بات کی تائید میں نہیں پیش کی جاسکتی کہ مسلمانوں کے لئے کسی موقع پر فرار اختیار کرنا رہا ہو حالانکہ ہر موقع پر دشمن فوج کی تعداد مسلمانوں کی فوج کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ رہی ہے۔ اگر احد میں بعض مسلمانوں سے یہ غلطی سر زد ہوئی تھی کہ نبی ﷺ کے قتل کیے جانے کی افواہ نے انہیں گھبراہٹ میں مبتلا کر دیا تھا اور اس گھبراہٹ میں وہ محاذ چھوڑ کر جا رہے تھے تو اس پر قرآن نے سخت گرفت کی حالانکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو تھی جب کہ کافروں کی تعداد تین ہزار تھی۔

 

اصل میں آیت زیر تفسیر کا تعلق فرار کی رعایت دینے سے نہیں بلکہ جہاد کی اسپرٹ پیدا کرنے سے ہے چنانچہ اوپر کی آیت کا آغاز ہی " اے نبی ﷺ مومنوں کو جنگ پر ابھارو " کے حکم سے ہوا ہے اس لئے آیت کا منشا یہ ہے کہ جنگ کے سلسلہ میں اقدامی نوعیت کا فیصلہ کرنے سے  پہلے دشمن کی طاقت کا اندازہ لگایا جائے۔ اگر دشمن کی فوج تم سے دو گنی تعداد میں ہے تو ایسی صورت میں تو اقدام کرنے میں تمھیں کوئی تامل ہونا ہی نہیں چاہئے۔ اسی اسپرٹ کے ساتھ پیش قدمی کرتے رہو عجب نہیں کہ تم اپنے سے دس گنی تعداد پر بھاری ہو جاؤ۔ جنگ بدر کے بعد جب مختلف عرب قبائل نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں تو نبی ﷺ نے ان کی سر کوبی کے لئے جو فوجی دستے بھجے وہ ٹھیک اس ہدایت کے مطابق تھے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میدان جنگ میں۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں نے کافروں کے ستر افراد کو قید کر لیا تھا جن میں ان کے لیڈر عقبہ بن معیط نظر بن حارث بھی شامل تھے جنگ سے فارغ ہونے کے بعد نبی ﷺ کے حکم سے ان دونوں لیڈروں کو بدر سے قریب ایک مقام پر قتل کر دیا گیا اور بقیہ قیدیوں کو مسلمان اپنے ساتھ مدینہ لے گئے۔ وہاں ان میں سے ان قیدیوں کو جو فدیہ دے سکتے تھے فدیہ لیکر رہا کر دیا گیا اور جو لکھنا پڑھنا سکھا سکتے تھے اس ان سے یہ خدمت لیکر انہیں رہا کر دیا گیا۔ بقیہ قیدیوں کی رہا کر دیا گیا۔ بقیہ قیدیوں کی رہائی بلا معاوضہ عمل میں آئی۔

 

اس واقعہ کا جو پہلو نا مناسب تھا وہ یہ کہ دشمن کا اچھی طرح صفا یا کرن ے کے بجائے انہوں نے گرفتار کنرے کا سلسلہ شروع کیا جس میں کہ ذہن کام کر رہا تھا کہ ان سے فدیہ میں اچھی خاصی رقم وصول ہو جائے گی۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کی اسی ذہنیت پر اور ان کے اسی طرز عمل پر گرفت فرمائی ہے۔ آیت کا مطلب یہ کہ ایک نبی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ میں نگاہیں اس اس اعلی مقصد پر مرکوز ہونی چاہیے جس کے لئے ایک نبی میدان جنگ اترتا ہے نہ کہ ان مالی و مادی فوائد  پر جو ضمناً جنگ میں حاصل ہوتے ہیں۔ مقصدیت کا تقاضا یہ تھا کہ بدر میں جب دشمن شکست کھا رہا تھا تو اس کے خوب پرخچے اڑا دیئے جاتے خاص طور سے دشمن کے کسی لیڈر کو تو ہر گز زندہ رہنے کہ دیا جاتا کہ پھر اسے سر اٹھا نے کا موقع ملے گر تم نے قبل از وقت گرفتاری کا سلسلہ شروع کیا محض اس وجہ سے کہ تم کو فدیہ لینے کا موقع ملے گا۔ خوب سن لو کہ نبی ﷺ اس لئے جنگ کرتا ہے کہ زمین پر حق کا غلبہ ہو نہ اس لئے کہ دشمنوں کو قید کر کے فدیہ حاصل کرے۔ البتہ اگر دشمن کا زور ٹوٹ چکا ہو تو فوج کے عام افراد کو قید کرنے اور بعد میں فدیہ لے کر ان کو رہا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ غالب ہے اس لئے وہ اپنے نبی ﷺ کا مقام بلند رکھنا چاہتا ہے اور وہ حکیم ہے اس لئے اس کے تمام فیصلے حکیمانہ ہوتے ہیں۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنگ بدر سے پہلے سورہ محمد نازل ہوائی تھی جس میں جنگ کے سللسے میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرَوْا فَضَرْبَ الرِّ قاب حتّٰی اِذَا اَ ثْخَنْتِمُوْ ھُمْ فُشُدُّ و ا ألَو ثَاقَ فَاِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاءً حَتّٰی تَض۔ عَالْعَرْبُ اَوْ زَارَھَا (سورہ محمَّد۔ ۴)

 

جب تمہارا مقابلہ کافروں سے ہو جائے تو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب تم ان پر غالب آ جاؤ تو ان کو مضبوط  باندھ لو اس کے  بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لو یہاں تک کہ لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے "

 

اس حکم میں لڑنے والوں کو قید کرنے کی ہدایت دی گئی تھی جب کہ انکو اچھی طرح مغلوب کیا جائے چکا ہو یعنی لڑائی میں جب تک دشمن کی اچھی طرح سر کوبی نہ کر لی جائے اور اس کا زور ٹوٹ نہ جائے اس وقت تک قتل کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں سے یہ غلطی ہو گئی  تھی کہ انہوں نے دشمن کا اچھی طرح قلع قمع کرنے سے پہلے گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا اور ذہن اس میں کا م کرنے لگا کہ قیدی بنانے کی صورت میں ان سے فدیہ وصول کیا جا سکے گا۔ اگر چہ یہ غلطی تمام  مجاہدین سے نہیں بلکہ ان کے ایک گروہ سے سرزد ہوئی تھی لیکن تھی یہ اجتماعی غلطی جس کا نتیجہ یہ بھی نکل سکتا تھا کہ یہ قیدی رہا ہونے کے بعد موقع پاکر پھر مسلمانوں میں فدیہ وصول کرنے کا رجحان پرورش پا سکتا تھا جب کہ جہاد خالصۃً اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے کیا جانا چاہیے نہ کہ مالی فوائد حاصل کرنے کے لئے۔ اس وجہ سے اس غلطی پر مسلمانوں کو تبنیہ کی گئی تاکہ وہ آئندہ ایسی غلطی کرنے سے بچیں۔

 

آیت میں کتاب من اللہ (اللہ کے فرمان) سے مراد سورہ محمد کی مذکورہ بالا آیت ہے۔ اور یہ تنبیہ جو فرمائی کہ تم کو سخت سزا بھگتنا پڑتی۔ تو یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے پوری طرح غلبہ ہونے سے پہلے دشمنوں کو گرفتار  کر لیا تھا اور اس قبل از وقت گرفتاری میں ان کے پیش نظر مالی فائدے (فدیہ) کا حصول تھا اس لئے اس عتاب کو تمام صحابہ سے متعلق سمجھنا صحیح نہیں اس کی نظیر سورہ نور کی یہ آیت۔

 

وَلَوْ لَا فَضْلُ اللہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمُتُہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ لَمَسَّکُمْ فِیْ مَا اَفَضْتُمْ فِیْہِ عَذابٌ عَظِیْمٌ (سورہ نُور۔ ۱۴)

 

"اگر تم لوگوں پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اسکی رحمت نہ ہوتی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے اس کی وجہ سے تم کو سخت عذاب پہنچتا۔ "

 

اس آیت میں بھی عذاب کی بات  بہ ظاہر عام مسلمانوں کے بارے میں کہی گئی ہے لیکن مراد جیسا کہ سیاق کلام سے واضح ہے  وہ مسلمان ہیں جو واقعہ افک میں ملوث ہو گئے تھے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مسلمانوں نے قبل از وقت کافروں کو قیدی بنا لیا تھا تو بعد میں ان کو قتل کنرے کا حکم دیا جاستا تھا۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہوا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قیدی بنا لینے کے بعد  کسی خاص وجہ سے ہی کسی قیدی کو قتل کیا جا سکتا تھا عام قیدیوں کے ساتھ قتل کا معاملہ نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ سورہ محمد کی مذکورہ بالا آیت پہلے ہی یہ حکم دیا جا چکا تھا کہ جب ان کو قیدی بنا لو تو پھر یا احسان کا رویہ اختیار کر کے انکو چھوڑ دینا ہے یہ فدیہ لے کر رہا کر دینا ہے۔

 

بہر حال جن مسلمانوں سے یہ غلطی سرزد ہوئی تھی اجتہادی نہیں تھی بلکہ ایک حکم پر صحیح طور سے عمل نہ کرنے کی غلطی تھی جس کو مالی مفاد کے لا لچ نے سنگین بنا دیا تھا اس لئے اللہ تعالی کی طرف سے یہ عتاب ہوا۔

 

واضح رہے کہ آیت کے الفاظ فیما اخذ  تم کا تر جمہ عام طور سے تم نے جو کچھ لیا اس کی وجہ سے کیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ فدیہ لینے پر ہو ا تھا۔ آیت کا یہ مفہوم لینے کی صورت میں جلیل القدر صحابہ بھی عتاب کی زد میں آ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس میں اشکال یہ ہے کہ فدیہ لینے پر اگر یہ عتاب تھا تو فدیہ واپس کیا جا سکتا  تھا نیز اس میں دوسرے اشکالات  بھی ہیں اس لئے ہم نے اس کا ترجمہ تمھارے قید کرنے کے نتیجہ میں کیا ہے کیوں کہ عربی جہاں اخذ کے معنی لینے کے آتے ہیں وہاں گرفتاری کرنے اور قید کر لینے کے بھی آتے ہیں چنانچہ عربی میں اخیز قیدی کو کہتے ہیں۔

 

 (ملاحظہ ہو لسان العرب لفظ اخذ ج ۳ ص ۴۷۳) اس توجیہ سے عتاب کا دائرہ ان ہی ان ہی لوگوں تک رہتا ہے جن سے قبل از وقت قیدی بنانے کی غلطی سر زد ہوائی تھی نیز دوسرے اشکلات بھی رفع ہو جاتے ہیں۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو غلطی تم سے سر زد ہوئی وہ اپنی جگہ لیکن جہاں تک مال غنیمت کا سوال ہے جس میں قیدیوں سے لیا ہوا فدیہ بھی شامل ہے اس کے برتنے میں کو ئی حرج نہیں ہے کہ یہ حلال اور پاک ہے ضمناً اس سے ایک اہم اصولی بات تھی واضح ہوئی اور وہ یہ کہ غنیمت کا یہ مال جو کافروں کی ملک تھا انہوں نے جائز اور ناجائز دونوں ذرائع سے کما یا ہو گا لیکن جب وہ جائز سے مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا تو ان باتوں کو کریدے بغیر اس کو حلال اور پاکیزہ قرار دیا گیا اس لئے ا س سے یہ بات نکلتی ہے کہ اجتماعی شکل میں جو اموال مسلمانوں کی طرف منتقل ہوں یا اسلامی حکومت کے خزانہ میں جمع ہوں ان کی منتقلی اگر جائز  نوعیت کی ہے تو نفس مال کے بارے میں اس بحث میں پڑ نے کی ضرورت نہیں ہے وہ ناجائز کی آمیزش سے پاک تھا یا نہیں۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو فدیہ تم سے لیا گیا ہے اس کے عوض تمھیں قبول اسلام کی سعادت عطا فرمائے گا اور اس طرح تم اس کی مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے بشرط یہ کہ اس موقع پر تمہاری جو جان بخشی ہوئی ہے اس کی تم قدر کرو۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر وہ نبی کے احسان کی ناقدری کر کے  پھر اس کے مقابلہ میں آنا چاہتے ہیں تو یاد  رکھیں وہ پھر مسلمانوں کے ہاتھوں مغلوب ہو گے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہجرت کے معنی بھاگنے کے نہیں بلکہ ترک وطن کرنے کے ہیں۔ اہل ایمان وطن پر ست نہیں ہوتے بلکہ خدا پرست ہوتے ہیں اس لئے جب خدا کا دین ا س بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس زمین  کو ترک کر دیں جو حق کے لئے تنگ ہو رہی تو وہ یہ قربانی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس زمانہ میں جب کہ سورہ انفال نازل ہوئی اسلام کی قوت مدینہ میں مجتمع کی جا رہی تھی تاکہ نبی کی زیر قیادت کفر کا مقابلہ کیا جا سکے اس لئے مقصد کی خاطر جو لوگ مکہ چھوڑ کر مدینہ آگے تھے وہ قدرو منزلت کے مستحق ہوئے۔ مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساء نوٹ ۱۷۷۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جہاد کے معنی محض جد و جہد کے نہیں ہیں بلکہ ایسی جد و جہد کے ہیں جس میں اہل ایمان مخالف حق طاقت سے نبرد آزمائی کریں۔ حق و باطل میں جب جنگ بر پا ہو تو وہ حق کی مدافعت میں اپنے مال بھی صرف کریں اور جان کی بازی بھی لگا دیں۔

 

مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو سورہ مائدہ نوٹ ۱۲۳۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مدینہ کے انصار ہیں جنہوں نے مہاجرین مسلمانوں کی ہر طرح مدد کی۔ یہ مدد وقتی ریلیف نہیں تھی بلکہ اپنے نصف مال کی پر خلوص  پیشکش تھی ساتھ ہی انہوں نے ان کو رہنے کے لئے اپنے گھروں میں جگہ دی۔

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ اولیاء استعمال ہو ا ہے جو "ولی " کی جمع ہے۔

 

عربی میں یہ لفظ کئی معنی میں آتا ہے لیکن جب اس کا استعمال دشمن کے مقابلہ میں ہوتا ہے ت واس کے معنی رفیق اور حسامی و ناصر کے ہوتے ہیں۔ یہاں مہاجرین و انصار کو ایک دوسرے کا ولی جو کہا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ کہ کافروں کے مقابلہ میں وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں اس لئے ان پر ایک دوسرے کی حفاظت اور حمایت و نصرت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

 

ان کے اندر ایسا اتحاد اور ایسی اجتماعیت ہونی چاہئے کہ و اچھی طرح  اپنی حفاظت و مدافعت بھی کر سکیں اور مقصد حق کے لئے جہاد بھی کر سیکں۔ رفاقت کا یہ رشتہ جو اسلامی ریاست کے مسلمان شہریوں کے درمیان کر دیا گیا تھا ان پر بھاری سیاسی ذمہ دار یاں عائد کرتا تھا۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جن لوگوں نے اسلام تو قبول کیا ہے لیکن وہ ہجرت کر کے مدینہ نہیں آئے ہیں ان سے سیاسی معاملات و مسائل میں تمہارا رفاقت کا تعلق نہیں ہے۔ وہ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسلامی معاشرہ کے افراد ضرورت ہیں لیکن مدینہ میں مسلمانوں کی جو سیا سی ہئیت تشکیل پائی ہے اس کے رکن نہیں ہیں اس لئے ان کی حفاظت کی ذمہ داری تم پر عائد نہیں ہوتی اور نہ ان پر اس معاہدہ کی پابندی لازم  آتی ہے۔ جو تم نے کسی قوم سے کیا ہو۔

 

اس سے واضح ہو ا کہ اسلام کا بین الاقو امی قانون یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست اپنے حدود سے باہر رہنے والے مسلمانوں کی حفاظت کی ذمہ دار نہیں ہے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی چونکہ وہ اسلامی ریاست کے حدود سے باہر رہتے ہیں اس لئے اگر چہ تم پر ان کی حفاظت کی قانونی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی لیکن چونکہ وہ دینی بھائی اور ملت اسلامیہ کے افراد ہیں اس لئے دین کے معاملہ میں اگر وہ یہ کسی مدد کے طالب ہوں تو تمھیں چاہے کہ ان کی مدد کرو  الا یہ کہ وہ جس کے طالب ہوں تو تمھیں چاہیے کہ ان کی مدد تمھارا صلح کا معاہدہ ہوا اور وہ اس کے خلاف تم سے مدد طلب کریں۔ ایسی صورت میں تم کو معاہدہ کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے مسلمانوں بھائیوں کی مدد کے لئے ناروا طریقہ  اختیار نہیں کرنا چاہیے اس سے بین الاقو امی امور کے سلسلہ میں درج ذیل اصولی باتیں واضح ہوتی ہیں۔

 

۱۔ ۔ ۔ غیر اسلامی ریاستوں کی مسلم اقلیت کی حفاظت کی کوئی قانونی ذمہ داری اسلامی ریاست پر عائد نہیں ہوتی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ان سے اس طرح بے تعلق  رہیں کہ وقت ضرورت دین کے معاملہ میں ان کی کوئی مدد نہ کریں بلکہ جس طرح کی مدد کے وہ مستحق ہیں ان کی ضرور مدد کی جائے کیونکہ سب ایک ہی ملت اسلامیہ کے افراد ہیں۔ مثال کے طور پر اگر مسلمان مسجدوں کی تعمیر یا دینی مدارس کے قیام یا اشاعت دین کے لئے کسی اسلامی ریاست سے مدد چاہیں تو ان کاموں کے لئے ان کی مدد کرنے میں نہ صرف یہ کہ کوئی چیز مانع نہیں ہے بلکہ حالات جس حد تک اجازت دیں ایسے کاموں میں ان کی مدد ضرور کرنا چاہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر اسلامی ریاست نے کسی غیر اسلامی ریاست کے ساتھ نا جنگ یا صلح کا معاہدہ کر لیا ہو اور وہاں کی مسلم اقلیت اسلامی ریاست سے کوئی ایسی مدد طلب کرتی ہے جس کو وہ اپنی ریاست کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے تو اس کی ہر گز اجازت نہیں ہے کیونکہ  یہ معاہدہ کی صریح خلاف ورزی ہے۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظلم خواہ مسلمانوں پر کیا جا رہا ہو  یا غیر مسلموں پر اقلیت کو اس کا نشانہ بنا یا جار ہا یا اکثریت کو اسلامی ریاست کے لئے خلاف آواز اٹھانے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کیوں کہ مظلوم کی حمایت کرنا اسلامی اخلاق کا اہم ترین اصول ہے لیکن جس ریاست میں یہ ظلم ہو رہا ہو اس کے خلاف کو ئی کاروائی اس صورت میں نہیں کی جا سکتی جب کہ اس کے ساتھ اسلامی ریاست نے صلح کا معاہدہ کر رکھا ہو۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کفار سب مل کر ملت واحد ہیں ان کے خیالات اور نظریات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں جہاں تک کفر یعنی انکار حق کا تعلق ہے وہ سب اس پر متفق ہیں اسر اسلام کے خلاف اپنی متحدہ قوت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں اگر مسلمانوں نے ان ہدایت پر عمل نہیں کیا جو انہیں باہمی نصرت ، آپس کے اتحاد اور اسلامی ریاست کے باہر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے دی جار ہی ہے تو زبر دست فتنہ و فساد کی صورت پیدا ہو جائے گی۔

 

آج دنیا کی فضا فتنوں سے غبار آلود ہو گئی ہے یہاں تک کہ حق م صداقت کی راہ چلنے والوں کے لئے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے  اور فساد کا سیلاب روئے زمین پر اس طرح امنڈ آیا ہے کہ دنیا کی چھوٹی بڑی سب قومیں اس میں غرق ہو رہی ہیں مسلم اور غیر مسلم سب اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے اس بات کا کہ مسلمانوں کو ایک صالح طاقت بن کر ابھر نا چاہیے تھا مگر وہ ابھر نہ سکے۔ ان کو مختلف ممالک میں اقتدار حاصل  ہے مگر ابھر نہ سکے۔ ان کو مختلف ممالک ہیں اقتدار حاصل ہے مگر وہ اپنے فرائض سے غافل ہیں اور دنیا سے شر و  فساد مٹانے کے لئے جن و سائل کو کام میں لانے کی ضرورت ہے اس کی طرف سے وہ بالکل بے پر واہ ہیں۔ ایسی صورت میں ان پر اور دنیا والوں پر اللہ کا قہر نازل ہو رہا ہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوپر مہاجرین و انصار کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلایا گیا تھا یہاں ان کو سچا اور پکا مومن ٹھہراتے ہوئے اخروی کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت مہاجرین و انصاف ک و دی گئی ہے کہ آئندہ جو لوگ ایمان لائیں اور ہجرت کر کے تمہارے پاس آ جائیں نیز تمھارے ساتھ جہاد میں شریک ہوں ان کو اپنے گروہ میں شامل سمجھو اور  ان کے ساتھ اس بنا پر کوئی امتیاز نہ بر تو کہ وہ اس سے پہلے تمہارے مخالف رہے ہیں۔

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہاں تک وراثت کا تعلق ہے مسلمانوں کے درمیان اس کی تقسیم خونی رشتہ کی بنا پر عمل آئے گی نہ کہ اس بھائی چار گی کے تعلق کی بنا پر جو انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم کر دیا گیا تھا۔ یہ تعلق اپنی جگہ پر اور خونی رشتہ اپنی جگہ پر۔ اللہ کے قانون میراث کی بنیاد خونی رشتہ پر ہے کیونکہ معاشرتی معاملات میں ان کے حقوق اولیت رکھتے ہیں۔ یہاں یہ اصولی ہدایت دینے پر اکتفا کہ گیا تھا بعد میں جب سورہ نساء نازل ہوئی تو اس میں قانون میراث تفصیل سے بیان کیا گیا۔

٭٭٭٭٭