خزائن العرفان

سُوۡرَةُ اللیْل

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ والیل مکّیہ ہے، اس میں ایک رکوع، اکیس۲۱ آیتیں، اکہتّر۷۱ کلمے، تین سو دس۳۱۰ حرف ہیں۔

(۱) اور  رات کی قسم جب چھائے  (ف ۲)

۲                 جہاں پر اپنی تاریکی سے، کہ وہ وقت ہے خَلق کے سکون کا ہر جاندار اپنے ٹھکانے پر آتا ہے اور حرکت و اضطراب سے ساکن ہوتا ہے اور مقبولانِ حق صدقِ نیاز سے مشغولِ مناجات ہوتے ہیں۔

(۲) اور دن کی جب چمکے  (ف ۳)

۳                 اور رات کے اندھیرے کو دور کرے کہ وہ وقت ہے سوتوں کے بیدار ہونے کا اور جانداروں کے حرکت کرنے کا اور طلبِ معاش میں مشغول ہونے کا۔

(۳) اور اس (ف ۴) کی جس نے  نر  و مادہ  بنائے  (ف ۵)

۴                 قادر، عظیم القدرت۔

۵                 ایک ہی پانی سے۔

(۴) بیشک تمہاری کوشش مختلف ہے  (ف ۶)

۶                 یعنی تمہارے اعمال جداگانہ ہیں، کوئی طاعت بجا لا کر جنّت کے لئے عمل کرتا ہے، کوئی نافرمانی کر کے جہنّم کے لئے۔

(۵) تو وہ جس نے  دیا (ف ۷) اور پرہیز گاری کی (ف ۸)

۷                 اپنا مال راہِ خدا میں اور اللہ تعالیٰ کے حق کو ادا کیا۔

۸                 ممنوعات و محرمات سے بچا۔

(۶) اور سب سے  اچھی کو سچ مانا (ف ۹)

۹                 یعنی ملّتِ اسلام کو۔

(۷) تو بہت جلد ہم اسے  آسانی مہیا کر دیں گے  (ف ۱۰)

۱۰               جنّت کے لئے اور اسے ایسی خصلت کی توفیق دیں گے جو اس کے لئے سببِ آسانی و راحت ہو اور وہ ایسے عمل کرے جن سے اس کا رب راضی ہو۔

(۸) اور وہ جس نے  بخل کیا (ف ۱۱)  اور بے  پرواہ بنا  (ف ۱۲)

۱۱               اور مال نیک کاموں میں خرچ نہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے حق ادا نہ کئے۔

۱۲               ثواب اور نعمتِ آخرت سے۔

(۹) اور سب سے  اچھی کو جھٹلایا (ف ۱۳)

۱۳               یعنی ملّتِ اسلام کو۔

(۱۰) تو بہت جلد ہم اسے  دشواری مہیا کر دیں گے  (ف ۱۴)

۱۴               یعنی ایسی خصلت جو اس کے لئے دشواری و شدّت کا سبب ہو اور اسے جہنّم میں پہنچائے۔ شانِ نزول : یہ آیتیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اُمیّہ بن خلف کے حق میں نازل ہوئیں جن میں سے ایک حضرت صدیق ا تقی ہیں اور دوسرا اُمیّہ اشقی۔ اُمیّہ ا بنِ خلف حضرت بلال کو جو اس کی مِلک میں تھے دِین سے منحرف کرنے کے لئے طرح طرح کی تکلیفیں دیتا تھا۔ اور انتہائی ظلم اور سختیاں کرتا تھا ایک روز حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا کہ اُمیّہ نے حضرت بلال کو گرم زمین پر ڈال کر تپتے ہوئے پتّھر ان کے سینہ پر رکھے ہیں اور اس حال میں کلمۂ ایمان ان کی زبان پر جاری ہے، آپ نے اُمیّہ سے فرمایا اے بدنصیب ایک خدا پرست پر یہ سختیاں اس نے کہا آپ کو اس کی تکلیف ناگوار ہو تو خرید لیجئے آپ نے گراں قیمت پر ان کو خرید کر آزاد کر دیا اس پر یہ سورت نازل ہوئی اس میں بیان فرمایا گیا کہ تمہاری کوششیں مختلف ہیں یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کوشش اور اُمیّہ کی اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضائے الٰہی کے طالب ہیں اُمیّہ حق کی دشمنی میں اندھا۔

(۱۱) اور اس کا مال اسے  کام نہ آئے  گا جب ہلاکت میں پڑے  گا (ف ۱۵)

۱۵               مر کر گور میں جائے گا یا قعرِ جہنّم میں پہنچے گا۔

(۱۲) بیشک ہدایت فرمانا (ف ۱۶) ہمارے  ذمہ ہے۔

۱۶               یعنی حق اور باطل کی راہوں کو واضح کر دینا اور حق پر دلائل قائم کرنا اور احکام بیان فرمانا۔

(۱۳) اور بیشک آخرت اور دنیا دونوں کے  ہمیں مالک ہیں۔

(۱۴) تو میں تمہیں ڈراتا ہوں اس آگ سے  جو  بھڑک  رہی ہے۔

(۱۵) نہ جائے  گا اس میں (ف ۱۷) مگر بڑا بدبخت۔

۱۷               بطریقِ لزوم و دوام۔

(۱۶) جس نے  جھٹلایا (ف ۱۸) اور منہ پھیرا (ف ۱۹)

۱۸               رسول صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو۔

۱۹               ایمان سے۔

(۱۷)  اور بہت اس سے   دور رکھا جائے  گا جو سب سے  زیادہ پرہیزگار۔

(۱۸) جو اپنا مال دیتا ہے  کہ ستھرا ہو (ف ۲۰)

۲۰               اللہ تعالیٰ کے نزدیک یعنی اس کا خرچ کرنا ریا و نمائش سے پاک ہے۔

(۱۹) اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے  (ف ۲۱)

۲۱               شانِ نزول : جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال کو بہت گراں قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفّار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کیوں کیا ؟ شاید بلال کا ان پر کوئی احسان ہو گا جو انہوں نے اتنی گراں قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر فرما دیا گیا کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فعل محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہے کسی کے احسان کا بدلہ نہیں اور نہ ان پر حضرت بلال وغیرہ کا کوئی احسان ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت لوگوں کو ان کے اسلام کے سبب خرید کر آزاد کیا۔

(۲۰) صرف اپنے  رب کی رضا چاہتا ہے  جو سب سے  بلند ہے۔

(۲۱) اور بیشک قریب ہے  کہ وہ راضی ہو گا (ف ۲۲)

۲۲               اس نعمت و کرم سے جو اللہ تعالیٰ ان کو جنّت میں عطا فرمائے گا۔