تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ اللیْل

(سورۃ اللیل ۔ سورہ نمبر ۹۲ ۔ تعداد آیات ۲۱)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     قسم ہے رات کی جب کہ وہ چھا جائے

۲۔۔۔     اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو جائے

۳۔۔۔     اور اس ذات کی جس نے پیدا فرمایا نر اور مادہ کو

۴۔۔۔     بے شک تمہاری کوششیں (اے لوگو!) یکسر مختلف ہیں

۵۔۔۔     سو جس نے دیا (اپنے خالق و مالک کی رضا کے لئے ) اور وہ ڈرتا (اور بچتا) رہا (اس کی گرفت و پکڑ سے )

۶۔۔۔     اور اس نے تصدیق کی (دین و ایمان کی) اس بڑائی بھلائی کی

۷۔۔۔     تو اس کے لیے ہم ضرور آسانی مہیا کر دیں گے اس بڑے (اور عظیم الشان) آسان راستے کی

۸۔۔۔     اور جس نے بخل سے کام لیا اور بے نیازی برتی (اپنے رب سے )

۹۔۔۔     اور اس نے جھٹلایا (دین و ایمان کی) اس بڑی بھلائی کو

۱۰۔۔۔     تو ہم اس کو آسانی مہیا کر دیں گے اس بڑے سخت راستے کی

۱۱۔۔۔     اور کچھ کام نہیں آ سکے گا اس کو اس کا مال جب وہ ہلاکت کے گڑھے میں گرے گا

۱۲۔۔۔     بلاشبہ ہمارے ذمہ (کرم پر) ہے راستہ بتانا (حق و ہدایت کا اپنے بندوں کو)

۱۳۔۔۔     اور یقیناً ہمارے ہی لئے (اور ہمارے ہی قبضہ قدرت میں ) ہے آخرت بھی اور اس سے پہلے کی یہ دنیا بھی

۱۴۔۔۔     سو میں نے خبردار کر دیا ہے تم سب کو (اے لوگو! دوزخ کی اس) دہکتی بھڑکتی ہولناک آگ سے

۱۵۔۔۔     جس میں داخل نہیں ہو گا مگر وہ سب سے بڑا بدبخت انسان

۱۶۔۔۔     جس نے جھٹلایا (حق اور حقیقت کو) اور اس نے منہ موڑ لیا (راہ حق و صواب سے )

۱۷۔۔۔     اور دور (اور محفوظ) رکھا جائے گا اس (دہکتی بھڑکتی ہولناک آگ) سے اس بڑے پرہیزگار کو

۱۸۔۔۔     جو دیتا ہے اپنا مال (راہ حق میں ) تاکہ وہ پاک ہو جائے (نفس کے رزائل سے )

۱۹۔۔۔     اور کسی کا اس پر کوئی ایسا احسان نہیں جس کا اسے بدلہ دینا ہو

۲۰۔۔۔     وہ صرف اپنے اس رب کی رضا کے لئے دیتا ہے جو سب سے برتر ہے

۲۱۔۔۔     اور وہ ضرور اس سے راضی ہو گا

تفسیر

 

۴۔۔۔     سو جس طرح اندھیری رات جبکہ وہ چھا جائے، اور روشن دن جبکہ وہ اجالا کر دے دونوں باہم برابر نہیں ہو سکتے۔ نہ اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے۔ اور نہ اپنے آثار و نتائج کے اعتبار سے۔ نیز جس طرح مرد اور عورت اور نر اور مادہ آپس میں برابر نہیں ہو سکتے، بلکہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اسی طرح تم لوگوں کی مساعی بھی آپس میں ایک برابر نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ کچھ کی مساعی ایسی پاکیزہ ہوتی ہیں جو انسان کو رب کی رضا و خوشنودی اور جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں سے سرفراز کرنے والی ہوتی ہیں جبکہ اس کے برعکس دوسری قسم کی کچھ مساعی ایسی ہوتی ہیں جو انسان کو اللہ کے غضب وسخط کا مستحق بنا دیتی ہیں سو دنیا چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے دار الجزاء نہیں بلکہ دار العمل اور دارالابتلاء ہے۔ اس لئے اس میں ان دونوں ہی قسم کے لوگ باہم ملے جلے رہتے ہیں۔ اور زمین و آسمان کی گوناگوں اور ان گنت و بے حساب نعمتوں سے یہ دونوں ہی گروہ مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں زمین کا یہ عظیم الشان اور نعمتوں بھرا فرش سب کے لئے بچھا ہوا ہے۔ اور آسمان کی یہ عظیم الشان اور بے مثال چھت سب پر تنی ہوئی ہے حالانکہ لوگوں کی باہم منافی اور متضاد مساعی کا تقاضا ہے کہ ان دونوں کے درمیان فرق اور تمیز ہو، صفات خیر اور اعمال صالحہ والوں کو انعام ملے۔ اور خصال شر اور بُرے اعمال کے مرتکبوں کو ان کے کئے کرائے کی سزا ملے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ سو اس کے لئے ایک یوم فصل کا آنا ضروری ہے پس وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے جس نے اپنے وقت مقرر پر بہر حال آ کر، اور واقع ہو کر رہنا ہے کہ یہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم دونوں کا تقاضا ہے۔ سو ہم نے جس طرح انسان کے لئے وہ اسباب معیشت و معاش فراہم کئے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہیں اسی طرح اس کی ہدایت و راہنمائی کا بھی انتظام کیا کہ ہدایت و راہنمائی کی ضرورت جسم و جسمانیات کی ضرورتوں سے کہیں بڑھ کر اہم ہے سو ہدایت و راہنمائی کے لئے ہم نے اپنے رسول کو بھی مبعوث فرمایا۔ اور ان پر اپنی کتاب بھی اتاری۔ اب جو لوگ نہیں مانیں گے وہ اپنی محرومی اور بدبختی کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ رسول کے ذمے تو صرف تبلیغ حق ہے، اور بس آگے لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا نہ ان کی ذمہ داری ہے ان کے بس میں ہے۔

۱۲۔۔۔  پس اس دنیا میں انسان کو جو کچھ ملا ہے یا ملتا ہے یا ملے گا۔ وہ سب اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہے کہ زمین و آسمان کے سب خزانوں کا مالک بھی وہی ہے اور اس میں حکم و تصرف بھی اسی وحدہٗ لاشریک کا چلتا ہے اور واہب مطلق وہی ہے جل جلالہ، سبحانہ و تعالیٰ، اب یہ انسان کی اپنی کوتاہ نظری اور بدبختی ہے کہ اس کی نگاہیں ما دی اور محسوس ظواہر و مظاہر ہی میں اٹک کر رہ جائیں اور وہ حضرت واہب مطلق کے آگے جھکنے کے بجائے دوسروں کے آگے جھکنے کی ذلت اٹھائے۔ اور اس طرح اپنے لئے ذلت ورسوائی کی راہ کو اپنائے و العیاذُ باللہ اور دنیا کے بعد آخرت میں بھی انسان کو جو کچھ ملے گا وہ سب کا سب بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملے گا۔ نور حق و ہدایت سے محروم لوگوں نے اس کے لئے جو من گھڑت سفارشی، اور حمایتی فرض کر رکھے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ان کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ بلکہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا معاملہ تو اور بھی زیادہ واضح ہے کہ وہاں پر تو ان ظاہری اسباب و وسائل کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ہو گا جو دنیا کے دار لامتحان میں پائے جاتے ہیں۔ پس دنیا و آخرت دونوں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں سبحانہ و تعالیٰ