دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ اللیْل

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

نام

 

 پہلی آیت میں لیل (رات)  کی قسم کھائی گئی ہے اس مناسبت س اس سورہ کا نام اَلَّیْل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دعوت کے ابتدائی مرحلہ میں نازل ہوئی۔

 

مرکزی مضمون

 

 یہ واضح کرنا ہے کہ انسان کی کوششوں کے دو مختلف رخ ہیں جس کا تقاضا ہے کہ دونوں کے اثرات و نتائج بھی مختلف ہوں اور منزلیں بھی الگ الگ ہوں۔

 

اس سورہ کا مضمون سورہ الشمس کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتا ہے۔ اس میں نفس کو پاک کرنے اور آلودہ کرنے کا انجام بینا کیا گیا تھا اس سورہ میں اس ات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ نفس کو پاک کرنے ولی چیزیں کیا ہیں اور آلودہ کرنے والی چیزیں کیا۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں چند شہادتوں کو پیش کر کے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان کی سعی و عمل جب مختلف ہے تو ضروری ہے کہ اس کے نتائج بھی مختلف ہوں۔

 

آیت ۵ تا ۱۱ میں اچھے اور برے کردار کی چند خصوصیات پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ اچھی خصوصیات نیکی کی راہ ہموار کرتی ہیں ور بری خصوصیات بدی کی راہ کو۔

 

آیت ۱۲ تا ۱۴ میں واضح کیا گیا ہے کہ اللہ کا کام ہدایت کی راہ دکھا دینا ہے اور اس نے یہ راہ تمہیں دکھا دی ہے۔ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے اس لیے اس نے تمہیں خبردار کر دیا ہے کہ آخرت میں کیا کچھ پیش آنے والا ہے۔

 

آیت ۱۴ تا ۲۱ میں بتایا گیا ہے کہ بد کردار لوگ کس طرح برے انجام سے دو چار ہوں گے اور نیک کردار لوگوں کا انجام کتنا خوشگوار  ہو گا۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم۱*  ہے رات کی جب کہ وہ چھا جاۓ أ۲*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو ۳*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس ذات ۴*  کی جس نے نر اور مادہ پیدا کیے ۵*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً تمہاری کوششیں مختلف ہیں ۶*  

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ۷* جس نے (مال )دیا ۸*  اور پرہیز گاری اختیار کی ۹*  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہترین بات کو سچ مانا ۱۰*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ہم آسانی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے ۱۱*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس نے بخل کیا ۱۲*  اور بے نیازی برتی ۱۳*  

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بہترین ۱۴*  بات کو جھٹلایا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لیے ہم سختی کو پہنچنے والی راہ ہموار کر دیں گے۔ ۱۵*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب وہ گڑھے میں گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ کام نہ آۓ گا۔ ۱۶*  

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شبہہ راہ دکھانا ہمارے ذمہ ہے ۱۷*  

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آخرت اور دنیا دونوں ہمارے ہی اختیار میں ہیں ۱۸*  

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے خبر دار کر دیا ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں وہی پڑے گا جو بڑا بد بخت ہو گا ۱۹*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے جھٹلایا اور رو گردانی کی۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے ایسے شخص کو بچا لیا جاۓ گا جو نہایت پرہیز گار ہے ، ۲۰*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنا مال پاکیزگی حاصل کرنے کی خاطر دیت ہے ۲۱*  

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے نزدیک کسی کے حق میں کوئی احسان بدلہ کے لیے نہیں ہے ۲۲*  

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وہ صرف اپنے رب برتر کی رضا جوئی کے  لیے دیتا ہے ۲۳*  

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ضرور خود ہو گا۔ ۲۴*۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَسَم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ رات کی خصوصیت تاریکی ہے۔ جب وہ آ جاتی ہے تو سب پر تاریکی چھا جی ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رات کے بالمقابل دن کی خصوصیت روشنی ہے۔ جب وہ نمودار ہوتا ہے تو سب چیزیں روشن ہو جاتی ہیں۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد خالق کی قسم ہے ور خالق کی قسم یہاں بات کو مؤکد کرنے اور دعوے کو قطعیت کے ساتھ پیش کرنے کے لیے ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نر و مادہ جانوروں میں بھی پیدا کیے اور انسانوں میں بھی یہ جنسی اختلاف اپنی خصوصیات رکھتا ہے۔ جو خصوصیت مرد کی ہے وہ عورت کی نہیں اور جو عورت کی ہے وہ مرد کی نہیں۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ حقیقت جس پر مذکورہ قسمیں کھائی گئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اس طرح ہوئی ہے کہ اس میں چیزیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور الگ الگ خصوصیات کی حامل ہیں۔ مثال کے طور پر رات اور دن باہم مختلف ہیں ور اگر ایک کی خصوصیت تاریکی پھیلانا ہے تو دوسرے کی خصوصیت روشنی پھیلانا۔ مرد اور عورت بھی جنسی اعتبار سے باہم مختلف ہیں اور اگر ایک میں فعالیت کی خصوصیت پائی جاتی ہے تو دوسرے میں انفعالیت کی۔ اگر ایک صنف میں باپ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے تو دوسری صنف میں ماں بننے کی، یہی حال انسان کی کوششوں کا ہے کہ کوئی نیکی اور بھلائی کا طرز عمل اختیار کرتا ہے تو کوئی بدی اور شر کا۔ کوئی خدا کا وفا دار بندہ بن کر رہتا ہے تو کوئی نافرمان اور سرکش بن کر، کوئی ایک سچے خدا کو مانتا ہے اور کسی نے ہزاروں جھٹے خدا بنا رکھے ہیں ، کسی کی تگ و دو خیر کی راہ میں ہوتی ہے اور کسی کی شر کی راہ میں ، کوئی مفسد اور ظالم بن کر اٹھتا ہے ور کوئی مصلح بنتا اور انصاف کی ترازو قائم کرتا ہے ، کوئی دنیا میں مزے اڑاتا ہے اور کوئی فرض شناسی کا ثبوت دیتا ہے۔ میدان کار میں انسان کی کوششوں کا یہ تفاوت بھی اپنے اندر مختلف خصوصیات اور اپنے الگ الگ اثرات رکھتا ہے اور یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کے الگ الگ نتائج رو نما ہوں۔ اور جب دنیا کی حیثیت دار العمل اور دار الامتحان کی ٹھہری تو ایک دار الجزاء کی ضرورت ابھر کر سامنے آتی ہے۔ پس قرآن کا یہ دعویٰ کہ آخرت دار الجزاء ہے جہاں نیکی و بدی کے الگ الگ نتائج رونما ہوں گے اور انسان اپنی سعی و عمل کے مطابق جزا یا سزا پۓ گا ٹھیک اس حقیقت کے مطابق ہے جو مظاہر کائنات پر غور کرنے سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔

 

جو لوگ اتنی بڑی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے وہ انتہائی غیر معقولیت کا ثبوت دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک ہر چیز اپنی ایک خصوصیت رکھتی ہے لیکن اگر کوئی چیز اپنی خصوصیت نہیں رکھتی تو وہ اخلاقی اور غیر اخلاقی رویہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز اپنا اثر رکھتی ہے لیکن اگر کوئی چیز اثر نہیں رکھتی تو وہ نیکی اور بدی ہے۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہر کام کا ایک نتیجہ ہے لیکن ان کے نزدیک اگر کوئی کام نے نتیجہ ے تو وہ خدا کی اطاعت اور اس کی نافرمانی کے کام ہیں کہ دونوں طرز عمل یکساں ہیں اور ان کا کوئی اچھا اور برا نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں۔ انسان خدا پر ایمان لاۓ یا کفر کرے ، اس کی ہدایت کو تسلیم کرے یا نہ کرے نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بتایۓ اس سے بڑھ کر نادانی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے ؟

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں اچھے اور بڑے طرز عمل کا فرق واضح کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں پہلے چند ان اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جو انسان کو سنوارتے اور اس کے کردار کی تعمیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ خصلتیں بیان کی گئی ہیں جو انسان کو بگاڑتے اور اس کو بد کردار بناتے ہیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنا ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہوۓ زندگی بسر کرے۔ جو کام اس کی ناراضگی کے ہیں ان سے پرہیز کرے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین بات (الْحُسْنٰی)  سے مراد وہ بات ہے جس کی طرف قرآن دعوت دے رہا ہے یعنی کلمہ توحید کو قبول کرنے اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیکی کی راہ پر چلنا اس کے لیے آسان ہو  گا اور اس پر چل کر وہ اس منزل تک پہنچ جاۓ گا جہاں آسانیاں ہی آسانیاں اور راحت ہی راحت ہے۔ نیکی کی راہ گو سخت دشوار گزار راہ ہے لیکن اس پر چلنا ان لوگوں کے لیے آسان ہو جاتا ہے جو خدا اور آخرت پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ گویا یہ توفیق اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بخشتا ہے جو راہ حق پر چلنے کی ہمت کرتے ہیں اور اس کی بنیادی شرطیں پوری کر دیتے ہیں۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بخل سے مراد نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مال خرچ نہ کرنا ہے۔ اور اس لحاظ سے وہ شخص بھی بخیل ہے جو اپنے عیش و آرام اور دوسرے نمائشی کاموں پر تو خوب خرچ کرتا ہے لیکن خدا اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی اس پر گراں گزرتی ہے۔

 

موقع کلام کو اگر ملحوظ رکھا جاۓ تو یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ بخل اور زر پرستی وہ اخلاقی برائیاں ہیں جو نفس کو آلودہ کر دیتی ہیں اور پاکیزگی اختیار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی راہ خدا میں خرچ کرے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے نیازی برتنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا اور اس کی ہدایت سے بالکل بے تعلق ہو جاۓ اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہ ہو کہ خد کی خوشنودی کن کاموں کے کرنے سے حاصل ہوتی ہے اور اس کا غضب کس طرح کے کام کرنے سے ٹوٹ پڑتا ہے۔

 

استغناء (بے نیازی برتنے )  کا لفظ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیز گاری )  کے بالمقابل استعمال ہوا ہے اس لیے اگر تقویٰ کدا خوفی کے زیر اثر ذمہ دارانہ زندگی گزارنے ور فرض شناسی کا ثبوت دینے کا نام ہے تو استغناء یہ ہے کہ آدمی خد سے بے پروا ہو کر غیر ذمہ دارانہ زندگی گزارے اور نا فرض شناسی کا ثبوت دے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہترین بات کی تشریح اوپر نوٹ ۱۰ میں گزر چکی۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بدی کی راہ چلنا اس کے لیے آسان ہو گا اور اس پر چل کر وہ اس کٹھن منزل تک پہنچ جاۓ گا جہاں سختیاں ہی سختیاں ہیں۔ بدی کی رہ اس لحاظ سے آسان ہے کہ اس پر چلنے والا اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور اس میں اسے مادی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں اور دنیوی لذتیں بھی۔ جو شخص ان جلد ملنے والے فائدوں کے لالچ میں آ کر اس غلط راہ کا انتخاب کتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس پر چلنے کے لیے ڈھیل دیتا ہے اور اس کے لیے وہ وسائل فراہم کر دیتا ہے جو برائیوں کے ارتکاب کو اس کے لیے آسان بنا دیتے ہیں لیکن بالآخر یہ آسانیاں اسے نہایت کٹھن منزل پر لے جا کر چھوڑ دیتی ہیں۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گڑھے میں گرنے سے مراد ہلاکت کے گڑھے میں گرنا ہے مطلب یہ ہے کہ یہ مال جسے آدمی جمع کرتا ہے اور بھلائی کے کاموں میں صَرف نہیں کرتا اس کے لیے کچھ بھی مفید نہ ہوگا بلکہ موجب ہلاکت ہوگا۔ اگر وہ خدا کی خاطر بھلائی کے کاموں میں صرف کرتا تو یہ اس کی اخروی زندگی کے لیے محفوظ سرمایہ بن جاتا۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہاں تک انسان کو راہ راست دکھانے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے یہ ذمہ ضرور لیا ہے اور یہ کام اس نے اپنے پیغمبر کو بھیج کر اور اپنی اس کتاب کو نازل کر کے پورا کر دیا ہے۔ رہا راہ راست کو اختیار کرنا تو یہ انسان کی اپنی ذمہ  داری ہے۔ کرے گا تو کامیاب ہوگا اور نہیں کرے گا تو نا مراد ہو گا۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا و آخرت دونوں جہانوں کے مالک ہم ہی ہیں اور دونوں کا نفع نقصان ہمارے ہی ہاتھ میں ہے لہٰذا جو شخص دنیا کے مادی فائدوں کی خاطر راہ راست کو اختیار نہیں کرتا سے سمجھ لینا چاہیے کہ دنیا میں وہ اتنے ہی فائدے حاصل کر سکے گا جتنے کہ اس کی گمراہی کے باوجود اس کا خدا اسے پہنچانا چاہے۔ اس سے زیادہ وہ دنیا میں کچھ حاصل نہ کر سکے گا۔ رہی آخرت تو وہاں ایسے لوگوں کے لیے محرومی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو کم درجہ کا بد بخت ہوگا وہ آگ میں نہیں پڑے گا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سورہ کے نزول کے وقت جو دو کردار کے لوگ سامنے تھے۔ ایک وہ جو پیغمبر کو جھٹلا رہے تھے۔ اور وہ جس ہدایت کو لے کر آیا ہے اس سے منہ موڑ رہے تھے اور دوسرے وہ جو پیغمبر کی تصدیق کر رہے تھے اور اس کی لائی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنا مال راہ خدا میں خرچ کر رہے تھے۔ ان میں سے پہلے کردار کے لوگ ہی یعنی پیغمبر کو جھٹلانے والے ، بھڑکتی آگ میں پڑیں گے نہ کہ دوسرے کردار کے لوگ جو پیغمبر کی تصدیق کر رہے تھے۔ ان جھٹلانے والوں کو انتہائی بد بخت (اَشْقیٰ)  اس لیے فرمایا کہ جب پیغمبر نے براہ راست ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا جس کی وجہ سے اللہ کی حجت ان پر پوری طرح قائم ہو گئی اور پھر بھی وہ انکار کرتے رہے تو ان سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے۔

 

قرآنی آیات کا مفہوم متعین کرتے وقت موقع و محل اور ان حالات کو جن میں وہ آیات نازل ہوئی ہیں ملحوظ رکھنا ضروری ہے نیز کسی آیت کا ایسا مطلب لینا بھی صحیح نہ ہو گا جو قرآن کے دوسرے بیانات سے ہم آہنگ نہ ہو۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں بھی کہنے کا منشاء یہ نہیں ہے کہ صرف بڑے متقی ہی آگ سے بچاۓ جائیں گے اور عام متقی نہیں بچاۓ جائیں گے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو دو کردار ابھر کر سامنے آ گۓ ہیں۔ اور یہاں سورہ کے نزول کے وقت اور پیغمبر کی موجودگی میں ابھر کر سامنے آ گۓ تھے۔ ان میں سے صرف دوسرے کردار کے لوگ ہی آگ سے بچا لیے جائیں گے جنہوں نے اپنے متقی (پرہیز گار)  ہی نہیں بلکہ اتقیٰ (نہایت پرہیز گار)   ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ رہے اشقیٰ تو وہ لازماً آگ میں پڑیں گے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔ واضح رہے کہ جن لوگوں نے ابتداء ہی میں رسول کی دعوت قبول کر لی تھی اور اللہ سے ڈرتے  ہوۓ  اپنے اندر پاکیزگی پیدا کر رہے تھے انہوں نے بہت بڑے حوصلہ کا ثبوت دیا تھا اس لیے ان کا درجہ بہت بڑا ہے اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر ہونے کی وجہ سے وہ  سب اتقیٰ(نہایت پرہیز گار )  ہیں۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنا تزکیہ نفس کا بہت بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اس سے زر پرستی اور دنیا پرستی کی جڑ کٹ جاتی ہے اور خدا پرستی اور آخرت پسندی کا جذبہ پرورش پانے لگتا ہے۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ جو کچھ کسی کو دیتا ہے بدلہ کی غرض سے نہیں دیت اس کے نزدیک کسی کی مدد کرنا اس کو ممنون احسان کرنے کے لیے نہیں ہے کہ اس سے کسی نہ کسی شکل میں اس کا بدلہ مطلوب ہو بلکہ وہ خلوص کے ساتھ اور بے لوث ہو کر مدد کرتا ہے۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انفا وہی مقبول ہے جو خالصۃً اس کی رضا جوئی کے لیے کیا جاۓ اور ایسے ہی انفاق سے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو انفاق کسی پر احسان دھرنے یا شہرت و ناموری حاصل کرنے کی غرض سے کیا جاۓ اس سے نہ اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور نہ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس شخص کا کردار یہ ہے اسے اس کا رب اس طرح نوازے گا کہ وہ خوش ہو جاۓ گا۔ یہ آیت صرف دو لفظوں پر مشتمل ہے لیکن اس کے اندر مذکورہ او صاف کے حاملین کے لیے بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔