تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ القُرَیش

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ قریش کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اگرچہ ضُحّاک اور کَلْبِی نے اِس کو مدنی کہا ہے،  لیکن مفسّرین کی عظیم اکثریت اس کے مکّی ہونے پر متفق ہے،  اور اس کے مکّی ہونے کی کھلی شہادت خود اِس سورہ کے الفاظ رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ (اس گھر کے ربّ) میں  موجود ہے۔  اگر یہ مدینہ میں  نازل ہوتی تو خانہ کعبہ کے لیے،  "اِس گھر" کے الفاظ کیسے  موزوں  ہو سکتے تھے ؟ بلکہ اِس مضمون کا سورۂ فیل کے مضمون سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ غالباً اِس کا نزول اُس کے متصلاً بعد ہی ہوا ہو گا۔ دونوں  دراصل ایک ہی سورۃ ہیں۔  اِس خیال کو تقویت اِن روایات کی بنا پر ملی ہے کہ حضرت اُبَیّ بن کَعْب کے مُصْحَف  میں  یہ دونوں  ایک ساتھ لکھی ہوئی تھیں  اور درمیان میں  بسم اللہ مرقوم نہ تھی۔ نیز یہ کہ حضرت عمرؓ  نے ایک مرتبہ کسی فصل کے بغیر اِن دونوں  کو ملا کر نماز میں  پڑھا تھا۔ لیکن یہ رائے اِس وجہ سے قابلِ قبول نہیں  کہ صحابۂ کرام کی عظیم تعداد کے تعاون سے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے جو نسخے سرکاری طور پر لکھوا کر بلادِ اسلام کے مراکز میں  بھجوائے تھے ان میں  دونوں  کے درمیان بسم اللہ درج تھی،  اور اُس وقت سے آج تک تمام دنیا کے مَصاحِف میں  یہ الگ الگ سورتوں  کی حیثیت  ہی سے لکھی جاتی رہی ہیں۔  مزید برآں  دونوں  سورتوں  کا اندازِ بیان ایک دوسرے سے اِس قدر مختلف ہے کہ یہ عَلانیہ دو الگ سورتیں  نظر آتی ہیں۔

تاریخی پس منظر

اِس سُورۃ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس تاریخی پَسْ منظر کو نگاہ میں  رکھا جائے جس سے اِس کے مضمون اور سورۂ فیل کے مضمون کا گہرا تعلق ہے۔

قریش کا قبیلہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم  کے جدِّ اعلیٰ قُصَیّ بن کِلاب کے زمانے تک حجاز میں  منتشر تھا۔  سب سے پہلے قُضَیّ نے اُس کے مکّے میں  جمع کیا اور بیت اللہ کی تَولِیَت اِس قبیلے کے ہاتھ میں  آ گئی۔ اِسی بنا پر قُصَیّ کو مُجَمِعّ (جمع کرنے والے ) کا لقب دیا گیا۔ اِس شخص نے اپنے اعلیٰ درجہ کے تدبُّر سے مکّہ میں  ایک شہر ریاست کی بنیاد رکھی،  اور جملہ اطرافِ عرب سے آنے والے حاجیوں  کی خدم کا بہترین انتظام کیا جس کی بدولت رفتہ رفتہ عرب کے تمام قبائل اور تمام علاقوں  میں  قریش کا اثر و رسوخ قائم ہو تا چلا گیا۔  قُصَیّ کے بعد اس کے بیٹوں  عبد مَناف اور عبد الدّار کے درمیان مکّہ کی ریاست کے مناصِب تقسیم ہو گئے،  مگر دونوں  میں  سے عبد مناف کو اپنے باپ ہی کے زمانے میں  زیادہ ناموری حاصل ہو چکی تھی اور عرب میں  اُس کا شرف تسلیم کیا جانے لگا تھا۔ عبد مناف کے چار بیٹے تھے۔  ہاشِم، عبدِ شمس، مُطَّلِب اور نَوفَل۔  ان میں  سے ہاشِم عبد المطَّلِب کے والد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے پردادا کو سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اُس بین الاقوامی تجارت میں  حصہ لیا جائے جو عرب کے راستے بلادِ مشرق اور شام و مصر کے درمیان ہوتی تھی،  اور ساتھ  ساتھ اہلِ عرب کی ضروریات کا سامان بھی خرید کر لایا جائے تا کہ راستہ کے قبائل اُن سے مال خریدیں ،  اور مکّے کی منڈی میں  اندرونِ ملک کے تُجّار خریداری کے لیے آنے لگیں۔  یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کی ساسانی حکومت اُس بین الاقوامی تجارت پر اپنا تسلُّط قائم کر چکی تھی جو شمالی علاقوں  اور خلیج فارس کے راستوں  سے رومی سلطنت اور بلادِ مشرق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس لیے جنوبی عرب سے بحر احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو تجارتی راستہ شام و مصر کی طرف جاتا تھا اُس کا کاروبار بہت چمک اُٹھا تھا۔ دوسرے عربی قافلوں  کی بہ نسبت قریش کو یہ سہولت حاصل تھی کہ راستے کے تمام قبائل بیتُ اللہ کے خُدّام ہونے کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے تھے۔  حج کے زمانے میں  نہایت فیّاضی کے ساتھ حاجیوں  کی جو خدمت قریش کے لوگ کرتے تھے اس کی بنا پر سب اُن کے احسان مند تھے۔  اُنہیں  اِس امر کا کوی خطرہ نہ تھا کہ راستے میں  کہیں  اُن کے قافلوں  پر ڈاکہ مارا جائے گا۔ راستے کے قبائل اُن سے رہگذر کے وہ بھاری ٹیکس بھی وصول نہ کر سکتے تھے جو دوسرے قافلوں  سے طلب کیا جاتا تھا۔ ہاشِم نے اِنہی تمام پہلوؤں  کو دیکھ کر تجارت کی اسکیم بنائی اور اپنی اِس اسکیم میں  اپنے باقی تینوں  بھائیوں  کو شامل کیا۔ شام کے غَسّانی بادشاہ سے ہاشم نے،  حبش کے بادشاہ سے عبدِ شمس نے،  یمنی امراء سے مُطَّلِب نے اور عراق و فارس ی حکومتوں  سے نَوفَل نے تجارتی مراعات حاصلی کیں۔  اِس طرح اِن لوگوں  کی تجارت بڑی تیزی سے ترقی کرتی چلی گئی۔ اِسی بنا پر یہ چاروں  بھائی مُتَّجِرین (تجارت پیشہ) کے نام سے مشہور ہو گئے،  اور جو روابط انہوں  نے گردو پیش کے قبائل اور ریاستوں  سے قائم کیے تھے اُن کی بنا پر اِن کو اَصحابُ الْاِیْلاف بھی کہا جاتا ہے جِس کے لفظی معنی "اُلفت پیدا کرنے والوں " کے ہیں۔

اس کاروبار کی وجہ سے قریش کے لوگوں  کو شام، مصر،  عراق، ایران، یمن اور حبش کے ممالک سے تعلقات کے وہ مواقع حاصل ہوئے،  اور مختلف ملکوں  کی ثقافت و تہذیب سے براہِ راست سابقہ پیش آنے کے باعث اُن کا معیارِ دانش و بینش اتنا بلند ہوتا چلا گیا کہ عرب کا کوئی دوسرا قبیلہ اُن کی ٹکّر کا نہ رہا۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی وہ عرب میں  سب پر فائق ہو گئے اور مکّہ جزیرۃ العرب کا سب سے زیادہ اہم تجارتی مرکز بن گیا۔ اِن بین الاقوامی تعلقات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ عراق سے یہ لوگ وہ رسم الخط لے کر آئے جو بعد میں  قرآن مجید لکھنے کے  لیے  استعمال ہوا۔ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں  اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں  تھے۔  انہی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نے فرمایا تھا کہ قریش قادۃ الناس " قریش لوگوں  کے لیڈر ہیں " (مُسند احمد، مرویّات عَمرْ و بن العاص)۔ اور حضرت علیؓ کی روایت بَیْہقَی میں  ہے کہ  حضور ؐ نے فرمایا  کان ھٰذا الامر فی حِمْیَرَ فنزعہ اللہ منہم وجعلہ فی قریش" پہلے عرب کی سرداری قبیلۂ حِمیْر والوں  کو حاصل تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے سلب کر کے قریش کو دے دی"۔

قریش اِسی طرح ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے تھے کہ مکّہ پر ابرہہ کی چڑھائی کا واقعہ پیش آ گیا۔ اگر اُس وقت اَبرہہ اِس شہرِ مقدّس کو فتح کر نے اور کعبے کو ڈھا دیے میں  کامیاب ہو جاتا تو عرب میں  قریش ہی کی نہیں،  خود کعبہ کی دھاک بھی ختم ہو جاتی۔  زمانۂ جاہلیت کے عرب کا یہ عقیدہ متزلزل ہو جاتا کہ یہ گھر واقعی بیت الہ ہے۔  قریش کو اس گھر کے خادم ہونے کی حیثیت سے جو احترام پورے ملک میں  حاصل تھا وہ یک لخت ختم ہو جاتا۔  مکّہ تک حبشیوں  کی پیش قدمی کے بعد رومی سلطنت آگے بڑھ کر شام اور مکّہ کے درمیان کا تجارتی راستہ بھی اپنے قبضے میں  لے لیتی۔ اور قریش اُس سے زیادہ خستہ حالی میں  مبتلا ہو جاتے جس میں  وہ قُصَیّ بن کِلاب سے پہلے مبتلا تھے۔  لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا کہ پرندوں  کے لشکروں  نے سنگریزے مار مار کر ابرہہ کی لائی ہوئی ۶۰ ہزار حبشی فوج کو تباہ و برباد کر دیا،  اور مکّہ سے یمن تک سارے  راستے میں  جگہ جگہ اِس تباہ شدہ فوج کے آدمی گِر گِر کر مرتے چلے گئے تو کعبہ کے بیتُ اللہ ہونے پر تمام اہلِ عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہا زیادہ مضبوط ہو گیا،  اور اُس کے ساتھ قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں  پہلے سے زیادہ قائم ہو گئی۔ اب عربوں  کو یقین ہو گیا کہ اِن لوگوں  پر اللہ کا فضلِ خاص ہے۔  وہ بے کھٹکے عرب کے ہر حصّے میں  جاتے اور اپنے تجارتی قافلے لے کر ہر علاقے سے گزرتے۔  کسی کی یہ جرأت نہ تھی کہ اُن کو چھیڑتا۔ اُنہیں  چھیڑنا تو درکنار، اُن کی امان میں  کوئی غیر قریشی بھی ہوتا تو اُس سے کوئی تعّرُض نہ کیا جاتا تھا۔

مقصودِ کلام

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بِعثت کے زمانہ میں  یہ حالات چونکہ سب ہی کو معلوم تھے،  اِس لیے اُن کے ذکر کی حاجت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اِس سورۃ کے چار مختصر فقروں  میں  قریش سے صرف اِتنی بات کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ جب تم خود اِس گھر (خانۂ کعبہ) کو بُتوں  کا نہیں  بلکہ اللہ کا گھر مانتے ہو، اور جب تمہیں  اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں  اِس گھر کے طفیل یہ امن عطا کیا،  تمہاری تجارتوں  کو یہ فروغ بخشا، اور تمہیں  فاقہ زدگی سے بچا کر یہ خوشحالی نصیب فرمائی، تو تمہیں  اُسی کی عبادت کرنی چاہیے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 چونکہ قریش مانوس ہوئے 1 (یعنی) جاڑے اور گرمی کے سفروں  سے مانوس، 2 لہٰذا اُن کو چاہے ہ کہ اِس گھر کے ربّ کی عبادت کریں  3 جس نے اُنہیں  بھُوک سے بچا کر کھانے کو دیا 4 اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔ 5 ؏۱

 

1: اصل الفاظ ہیں لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ۔ اِیْلاف اَلْف سے ہے جس کے معنی خوگر ہونے،  مانوس ہو نے،  پھٹنے کے بعد مِل جانے اور کسی چیز کی عادت اختیار کرنے کے ہیں۔  اردو زبان میں  اُلفت اور مالوف کے الفاظ بھی اسی سے ماخوذ ہیں۔  اِیلاف سے پہلے جو لام آیا ہے اس کے متعلق عربی زبان کے بعض ماہرین نے یہ رائے  ظاہر کی ہے کہ یہ عربی محاورے کے مطابق تعجُّب کے معنی میں  ہے۔  مثلاً عرب کہتے ہیں  کہ لِزَیْدٍ وَّمَا صَنَعْنَا بِہٖ، یعنی ذرا اِس زید کو دیکھو کہ ہم نے اس کے ساتھ کیسا نیک سلوک کیا اور اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ پس لِاِیْلٰفِ قُریْشٍ  کا مطلب یہ ہے کہ قریش کا رویہ بڑ ا ہی قابلِ تعجب ہے۔  کہ اللہ ہی کے فضل کی بدولت وہ منتشر ہونے کے بعد جمع ہوئے اور اُن تجارتی سفروں  کے خوگر ہو گئے جو اُن کی خوشحالی کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں،  اور وہ اللہ ہی کی بندگی سے رُو گردانی کر رہے ہیں۔  یہ رائے اَخْفَش،  کِسائی اور فرّ اء کی ہے،  اور اِس رائے کو ابنِ جریر نے ترجیح دیتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب جب اس لام کے بعد کسی بات کا ذکر کرتے ہیں  تو وہی بات یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے کہ اُس کے ہوتے جو شخص جو رویہ اختیار کر رہا ہے وہ قابلِ تعجب ہے۔  بخلاف اِس کے کہ خلیل بن احمد، سِیْبَوَیْہ اور زَمَخْشری کہتے ہیں   کہ یہ لامِ تعلیل ہے اور اِس کا تعلق آگے کے فقرے  فَلْیَعْبُدُ وْ ا رَبَّ  ھٰذَ ا الْبَیْتِ سے ہے۔  مطلب اس کا یہ ہے کہ یوں  تو قریش پر اللہ کی نعمتوں  کا کوئی شمار نہیں ،  لیکن اگر کسی اور نعمت کی بنا پر نہیں  تو اِسی ایک نعمت کی بنا پر وہ اللہ کی بندگی کریں  کہ اُس کے فضل سے وہ اِن تجارتی سفروں  کے خوگر ہوئے،   کیونکہ یہ بجائے خود اُن پر اُس کا بہت بڑا احسان ہے۔

2: گرمی اور جاڑے کے سفروں  سے مراد یہ ہے کہ گرمی کے زمانے میں  قریش کے تجارتی سفر شام و فلسطین کی طرف ہوتے تھے،  کیونکہ وہ ٹھنڈے علاقے ہیں،  اور جاڑے کے زمانے میں  وہ جنوب عرب کی طرف  ہوتے تھے،  کیونکہ وہ گرم علاقے ہیں۔

3: اِس گھر سے مراد خانۂ کعبہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ قریش کو یہ نعمت اِسی گھر کی بدولت حاصل ہوئی ہے،  اور وہ خود  مانتے ہیں  کہ وہ ۳۶۰ بُت اس کے ربّ نہیں  ہیں  جن کی یہ پوجا کر رہے ہیں ، بلکہ صرف اللہ ہی اِس کا ربّ ہے۔  اُسی نے ان کو اصحابِ فیل کے حملے سے بچایا۔ اُسی سے انہوں  نے ابرہہ کی فوج کے مقابلے میں  مدد  کی دعا کی تھی۔ اُس کے گھر کی پناہ میں  آنے سے پہلے جب وہ عرب میں  منتشر تھے تو اُن کی کوئی حیثیت نہ تھی۔ عرب کے عام قبائل کی طرح وہ بھی ایک نسل کے بکھرے ہوئے گروہ تھے۔  مگر جب وہ مکّہ میں  اِس گھر کے گرد جمع ہوئے اور اِس کی خدمت انجام دینے لگے تو سارے عرب میں  محترم ہو گئے،  اور ہر طرف اُن کے تجارتی قافلے بے خوف و خطر آنے جانے لگے۔  پس انہیں  جو کچھ بھی نصیب ہوا ہے اِس گھر کے ربّ کی بدولت نصیب ہوا ہے،  اس لیے اُسی کی اِن کو عبادت کرنی چاہیے۔

4:  یہ اشارہ ہے اِس طرف کہ مکّے میں  آنے سے پہلے جب قریش عرب میں  منتشر تھے تو بھوکوں  مر رہے تھے،  یہاں  آنے کے بعد اُن کے لیے رزق کے دروازے کھلتے چلے گئے اور ان کے حق میں  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ اے پروردگار،  میں  نے اپنے اولاد کے ایک حصّے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ وادی میں  لا بسایا ہے تا کہ یہ نماز قائم کریں ،  پس تو لوگوں  کے دلوں  کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں  کھانے کو پھل دے (ابراہیم۔ آیت۳۷)۔

5: یعنی جس خوف سے عرب کی سرزمین میں  کوئی محفوظ نہیں  ہے اُس سے یہ محفوظ ہیں۔  عرب کا حال اُس دور میں  یہ تھا کہ پورے ملک میں  کوئی بستی ایسی نہ تھی جس کے لوگ راتوں  کو چین سے سوسکتے ہوں،  کیونکہ ہر وقت ان کی یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نہ معلوم کب کوئی غارت گر گروہ اچانک اُس پر چھاپا مار دے۔  کوئی شخص ایسا نہ تھا جو اپنے قبیلے کے حدود سے باہر قدم رکھنے کی ہمت کر سکے،  کیونکہ اکّا دُکّا آدمی کا زندہ بچ  کر واپس آ جانا، یا گرفتار ہو کر غلام بن جانے سے محفوظ رہنا گویا امرِ محال تھا۔ کوئی قافلہ ایسا نہ تھا جو اطمینان سے سفر کر سکے،  کیونکہ راستے  میں  جگہ جگہ اُس پر ڈاکہ پڑنے کا خطرہ تھا، اور راستے بھر کے با اثر قبائلی سرداروں  کو رشوتیں  دے کر تجارتی قافلے بخیریت گزر سکتے تھے۔  لیکن قریش مکّہ میں  بالکل محفوظ تھے،  انہیں  کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہ تھا۔ اُن کے چھوٹے اور بڑے ہر طرح کے قافلے ملک کے ہر حصّے میں  آتے جاتے تھے،  کوئی یہ معلوم ہو جانے کے بعد کہ قافلہ حَرَم کے خادموں  کا ہے،  انہیں  چھیڑنے کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ حد یہ ہے کہ  اکیلا قریشی بھی اگر کہیں  سے گزر رہا ہو اور کوئی ا س سے تعرُّض کرے تو صرف لفظ ’’حَرَمی‘‘  یا  اَنَا مِنْ حَرَمِ اللہِ کہہ دینا کافی ہو جاتا تھا، یہ سُنتے ہی اٹھے ہوئے ہاتھ رُک جاتے تھے۔