تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الاٴحزَاب

نام

آیت  ۲۰  کے فقرہ  یَحْسَبُونَ الْاَحْزَابَ لَمْ یَذْھَبُوْا  سے ماخوذ ہے۔ 

زمانۂ نزول

اس سورۃ کے مضامین تین اہم واقعات سے بحث کرتے ہیں۔ ایک غزوۂ اَحزاب جو شوال ۵ ہجری میں پیش آیا۔ دوسرے غزوۂ بنی قُرَیْظَہ جو ذی القعدہ ۵ ہجری میں پیش آیا۔ تیسرے حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نکاح جو اسی سال ذی القعدہ میں ہوا۔ ان تاریخی واقعات سے سورۃ کا زمانۂ نزول ٹھیک متعیّن ہو جاتا ہے۔ 

تاریخی پس منظر

جنگِ اُحْد (شوّال  ۳ ھ) میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقرر کیے ہوئے تیر اندازوں کی غلطی سے لشکر اسلام کو جو شکست نصیب ہو گئی تھی اس کی وجہ سے مشرکین عرب،  یہود اور مُنافقین کی ہمّتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور نہیں اُمید بندھ چلی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان بڑھتے ہوئے حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ہے جو اُحْد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آئے۔ جنگ اُحْد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ نجد کے قبیلۂ بنی اَسَدْ نے مدینہ طیّبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی روک تھام کے لیے سَرِیَّۂابو سَلَمہ(اصطلاح میں سَرِیہَّ اس فوجی مہم کو کہتے ہیں جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود شریک نہ ہوتے تھے۔ اور غزْوہ اُس جنگ یا مہم کو کہا جاتا ہے جس میں حُضورؐ خود قیادت فرماتے تھے )  بھیجنا پڑا۔ پھر صفر ۴ھ میں قبائل عَضَل اور قارَہ نے حضُورؐ سے چند آدمی مانگے تاکہ وہ ان علاقہ میں جا کر لوگوں کو دینِ اسلام کی تعلیم دیں۔ حُضورؐ نے چھ اصحاب کو ان کے ساتھ کر دیا۔ مگر رَجیع(جدّہ اور رابِغ کے درمیان ) پہنچ کر وہ لوگ قبیلۂ ھُذَیل کے کفار کو ان بے بس مبلّغین پر چڑھا لائے،  ان میں سے چار کو قتل کر دیا،  اور دو صاحبوں (حضرت خُبَیب بن عَدِی اور حضرت زید بن الدَّثِنَّہ ) کو لے جا کر مکّۂ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ پھر اسی ماہِ صفر میں بنی عامر کے ایک سردار کی درخواست پر حضورؐ نے ایک اور وفد جو چالیس (یا بقول بعض ۷۰)انصاری نوجوانوں پر مشتمل تھا،  نجد کی طرف روانہ کیا۔ مگر ان کے ساتھ بھی غدّاری کی گئی اور بنی سُلیم کے قبائل عُصَیَّہ اور رِعْل اور ذکْوان نے بِئر مَعُونہ کے مقام پر اچانک نرغہ کر کے ان سب کو قتل کر دیا۔ اسی دوران میں مدینے کا یہودی قبیلہ بنی النَّضِیر دلیر ہو کر مسلسل بد عہدیاں کرتا رہا،  یہاں تک کہ ربیع الاوّل ۴ ھ میں اُس نے خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہید کر دینے کی سازش تک کر ڈالی۔ پھر جمادی الاولیٰ ۴ھ  میں بنی غَطَفان کے دو قبیلوں،  بنو ثَعْلَبَہ اور بنو مُحَارِب نے مدینہ پر حملے کی تیاریاں کیں اور حضُورؐ کو خود ان کی روک تھام کے لیے جانا پڑا۔ اس طرح جنگ اُحْد کی شکست سے جو ہَوا اُکھڑی تھی وہ مسلسل سات آٹھ مہینے تک اپنا رنگ دکھاتی رہی۔

لیکن وہ صرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عزم و تدبّر اور صحابۂ کرام کا جذبۂ فدا کاری تھا جس نے تھوڑی مدّت کے اندر ہی حالات کا رُخ بدل کر رکھ دیا۔ عربوں کے معاشی مقاطعہ نے اہل مدینہ کے لیے جینا دشوار کر رکھا تھا۔ گرد و پیش کے تمام مشرک قبائل چیرہ دست ہو رہے تھے۔ خود مدینہ کے اندر یہود اور منافقین مارِ آستین بنے ہوئے تھے۔ مگر ان مٹھی بھر مومنین صادقین نے رسولؐ خُدا کی قیادت میں پے درپے ایسے اقدامات کیے جن سے عرب میں اسلام کا رعب صرف بحال ہی نہیں ہو گیا،  بلکہ پہلے سے زیادہ بڑھ گیا۔

جنگِ احزاب سے پہلے کے غَزوات: ان میں سے اوّلین اقدام وہ تھا جو جنگ اُحُد کے فوراً ہی بعد کیا گیا۔ جنگ کے ٹھیک دوسرے روز جبکہ بکثرت مسلمان زخمی تھے اور بہت سے عزیز ترین اقارب کی شہادت پر کہرام برپا تھا اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی زخمی اور حضرت حمزہؓ کی شہادت پر دِلفگار تھے،  حضُورؐ نے اسلام کے فِدائیوں کو پُکارا کہ لشکر کفّار کے تعاقب میں چلنا ہے تاکہ وہ کہیں راستے سے پلٹ کر پھر مدینے پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔ حضورؐ کا اندازہ بالکل صحیح تھا کہ کفّار قریش ہاتھ آئی ہوئی فتح کا کوئی فائدہ اُٹھائے بغیر واپس تو چلے گئے ہیں، لیکن راستے میں جب کسی جگہ ٹھیریں گے تو اپنی اس حماقت پر نادم ہوں گے اور دوبارہ مدینے پر چڑھ آئیں گے۔ اس بناء پر آپ نے ان کے تعاقب کا فیصلہ کیا اور فوراً ۳۶۰ جاں نثار آپؐ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ مکّہ کے راستے میں جب حَمْرأالاسد پہنچ کر آپؐ نے تین روز تک پڑاؤ کیا تو ایک ہمدرد غیر مسلم کے ذریعہ سے آپ کو معلوم ہو گیا کہ ابو سُفْیان اپنے ۲۹۷۸ آدمیوں کے ساتھ مدینے سے ۳۶ میل دور الرَّوحأ کے مقام پر ٹھیرا ہوا تھا اور یہ لوگ فی الواقع اپنی غلطی کو محسوس کر کے پھ پلٹ آنا چاہتے تھے،  لیکن یہ سُن کر ان کی ہمت ٹوٹ گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک لشکر لیے ہوئے ان کے تعاقب میں چلے آ رہے ہیں۔ اس اس کارروائی کا صرف یہی فائدہ نہیں ہوا کہ قریش کے بڑھے ہوئے حوصلے پست ہو گئے،  بلکہ گرد و پیش کے دشمنوں کو بھی یہ معلوم ہو گیا کہ مسلمانوں کی قیادت ایک انتہائی بیدار مغز اور اولوالعزم ہستی کر رہی ہے اور مسلمان اس کے اشارے پر کٹ مرنے کے لیے ہر وقت تیا رہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  صفحات  ۲۲۹۔ ۲۳۰۔ ۳۰۳)

پھر جوں ہی بنی اسد نے مدینے پر چھاپہ مارنے کی تیاریاں شروع کیں،  حضورؐ کے مخبروں نے بروقت آپ کو اُن کے اِرادوں سے با خبر کر دیا۔ قبل اس کے کہ وہ چڑھ آتے،  آپ نے حضرت ابو سَلَمہ (اُمّ المومنین حضرت اُم سلَمہؓ کے پہلے شوہر)کی قیادت میں ڈیڑھ سو آدمیوں کا ایک لشکر ان کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا۔ یہ فوج اچانک ان کے سَر پر پہنچ گئی۔ بدحواسی کے عالم میں وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بھاگ نکلے اور ان کا سارا مال اسباب مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا۔

 اس کے بعد بنی النَّضیر کی باری آئی۔ جس روز انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہید کرنے کی سازش کی اور اس کا راز فاش ہوا اُسی روز آپؐ نے ان کو نوٹس دے دیا کہ دس دن کے اندر مدینے سے نِکل جاؤ،  اس کے بعد تم میں سے جو یہاں پایا جائے گا قتل کر دیا جائے گا۔ منافقین مدینہ کے سردار عبداللہ بن اُبیّ نے ان کو تَڑی دی کہ ڈٹ جاؤ اور مدینہ چھوڑنے سے انکار کر دو،  میں دو ہزار آدمیوں کے ساتھ تمہاری مدد کروں گا، بنی قُرَیظہ تمہاری مدد کریں گے اور نجد سے بنی غَطَفان بھی تمہاری مدد کے لیے آئیں گے۔ ان باتوں میں آ کر اُنہوں نے حضورؐ کو کہلا بھیجا کہ ہم اپنا علاقہ نہیں چھوڑیں گے،  آپ سے جو کچھ کر لیجئے، حضورؐ نے نوٹس کی میعاد ختم ہوتے ہی ان کا محاصرہ کر لیا اور ان کے حامیوں میں سے کسی کی یہ ہمت نہ پڑی کہ مدد کو آتا۔ آخر کار انہوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دئے کہ ان میں سے ہر تین آدمی ایک اونٹ پر جو کچھ لاد کر لے جا سکتے ہیں لے جائیں اور باقی سب کچھ مدینہ ہی میں چھوڑ جائیں گے۔ اس طرح مضافات مدینہ کا وہ پورا محلہ جس میں بنی نَضیر رہتے تھے،  ان کے باغات اور گَڑھیوں اور سر و سامان سمیت مسلمانوں کے ہاتھ آ گیا اور اس بد عہد قبیلے کے لو گ خیبر،  وادی القُریٰ اور شام  میں تتّر بتّر ہو گئے۔

پھر آپؐ نے بنی غَطَفان کی طرف توجہ کی جو مدینے پر حملہ آور ہونے کے لیے پر تول رہے تھے۔ آپ چار سو کا لشکر لے کر نکلے اور ذات الرِّقاع کے مقام پر اس کو جالیا۔ اس اچانک حملے نے ان کے حواس باختہ کر دیے اور کسی جنگ کے بغیر وہ اپنے گھر بار اور مال اسباب چھوڑ کر پہاڑوں میں منتشر ہو گئے۔

اس کے بعد شعبان ۴ ہجری میں آپ ابو سفیان کے اُس چیلنج کا جواب دینے کے لیے نکلے جو اس نے اُحد سے پلٹتے ہوئے دیا تھا۔ خاتمۂ جنگ پر اُس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم  اور مسلمانوں کی طرف رُخ کر کے اعلان کیا تھا کہ  ان موعد کم بد رللعام المقبل(آئندہ سال بدع کے مقام پر ہمارا تمہارا پھر مقابلہ ہو گا)اور حضورؐ نے جواب میں ایک صحابی  کے ذریعہ سے یہ اعلان کرا دیا  تھا کہ نعم،  ھی بیننا وبینیک موعد(ٹھیک ہے،  یہ بات ہمارے اور تیرے درمیان طے ہو گئی )۔ اس قرار داد کے مطابق طے شدہ وقت پر آپ ۱۵ سو صحابیوں کو لے کر بدر کے مقام پر پہنچ گئے۔ اُدھر سے ابو سُفیان  دو ہزار کا لشکر لے کر چلا مگر مُرَّالظَّہران (موجودہ وادیِ فاطمہ ) سے آگے بڑھنے کی ہمّت نہ کر سکا۔ حضورؐ نے بدر میں آٹھ دن اس کا انتظار کیا اور اس دوران میں مسلمان تجارت کر کے ایک درہم کے دو درہم کماتے رہے۔ اس واقعہ سے وہ دھاک جو اُحُد میں اُکھڑی تھی پہلے سے زیادہ جم گئی۔ اس نے پورے عرب پر یہ بات کھول دی کہ اب تنہا قریش محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (اس کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، ص ۳۰۴)

 اس دھاک میں ایک اور واقعہ نے مزید اضافہ کیا۔ عرب اور شام کی سرحد پر دُدمتہ الجَنْدَل (موجودہ الجَوف )ایک اہم مقام تھا جہاں اے عراق اور مصر و شام کے درمیان عرب کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ اس مقام کے لوگ قافلوں کو تنگ کرتے اور اکثر لوٹ لیتے تھے۔ نبی صلّی اللہ علیہ و سلم ربیع الاوّل ۵ ھ میں ایک ہزار کا لشکر لے کر ان کی تادیب کے لیے خود تشریف لے گئے۔ وہ آپؐ کے مقابلے کی ہمت نہ کر سکے اور بستی چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ اس سے پورے شمالی عرب پر اسلام کی ہیبت بیٹھ گئی اور قبائل نے یہ سمجھ لیا کہ مدینے میں جو زبردست طاقت پیدا ہوئی ہے اس کا مقابلہ اب ایک دو قبیلوں کے بس کا کام نہیں ہے۔ 

غزوۂ احزاب

یہ حالات تھے جن میں غزوۂ احزاب پیش آیا،  یہ غزوہ دراصل عرب کے بہت سے قبائل کا ایک مشترک حملہ تھا جو مدینے کی اس طاقت کو کچل دینے کے لئے کیا گیا تھا۔۔۔ اس کے تحریک بنی النَّضِیر کے اُن لیڈروں نے کے تھی جو جلا وطن ہو کر خیبر میں مقیم ہو گئے تھے۔ انہوں نے دَورہ کر کے قریش اور غَلْطفان اور ہُذَیل اور دوسرے بہت سے قبائل کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب مِل کر بہت بڑی جمیعت کے ساتھ مدینے پر ٹوٹ پڑیں۔ چنانچہ ان کی کوششوں اے شوال ۵ ھ میں قبائل عرب کی اتنی بڑی جمیعت اس چھوٹی سی بستی پر حملہ آور ہو گئی جو اس سے پہلے عرب میں کبھی جمع نہ ہوئی تھی۔ اس میں شمال کی طرف  بنی النَّضِیر اور  قَیْنقُاع کے وہ یہودی آئے جو مدینے سی جلا وطن ہو کر خیبر اور وادی القُریٰ میں آباد ہوئے تھے۔ مشرق کی طرف سے غَطَفان کے قبائل(بنو سُلَیم، فَزارہ، مُرَّہ، اَشجع، سَعد اورا َسَد وغیرہ)نے پیش قدمی کی۔ اور جنوب کی طرف سے قریش اپنے حلیفوں کی ایک بھاری جمیعت لے کر آگے بڑھے۔ مجموعی طور پر ان کی تعداد دس بارہ ہزار تھی۔

      یہ حملہ اگر اچانک ہوتا تو سخت تباہ کُن ہوتا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ طیّبہ میں بے خبر بیٹھے ہوئے نہ تھے بالکہ آپ کے خبر رساں اور تحریک اسلامی کے ہمدرد اور متاثرین جو تمام قبائل میں موجود تھے،  آپ کو دشمنوں کی نقل و حرکت سے برابر مطلع کرتے رہتے تھے (یہ قوم پرست جتھوں کے مقابلے میں ایک نظریاتی تحریک کی فوقیت کا ایک اہم سبب ہوتا ہے۔ قوم پرست جتھے صرف اپنی قوم کے افراد کی تائید و حمایت ہی پر انحصار رکھتے ہیں۔ لیکن ایک اُصولی و نظریاتی تحریک اپنی دعوت سے ہر سمت میں بڑھتی ہے اور خود ان جتھوں کے اندر سے اپنے حامی نکال لاتی ہے۔ )قبل اس کے کہ یہ جمِّ غفیر آپ کے شہر پہنچتا، آپ نے چھ دن کے اندر مدینہ کے شمال غربی رُخ پر ایک خندق کھُدوا لی اور کوہ سَلْع کو پشت پر لے کر تین ہزار فوج کے ساتھ خندق کی پناہ میں مدافعت کے لیے تیار ہو گئے۔ مدینہ کے جنوب میں باغات اس کثرت سے تھے (اور اب بھی ہیں ) کہ اس جانب سے کوئی حملہ اس پر نہ ہو سکتا تھا۔ مشرق میں حَرّات (لادے کی چٹانیں ) ہیں جن پر سے کوئی اجتماعی فوج کشی آسانی کے ساتھ نہیں ہو سکتی۔ یہی کیفیت مغربی جنوبی گوشے کی بھی ہے۔ اس لیے حملہ صرف اُحُد کے مشرقی اور مغربی گوشوں سے ہو سکتا تھا اور اسی جانب حضورؐ نے خندق کھدوا کر شہر کو محفوظ کر لیا تھا۔ یہ چیز سرے سے کفار کے جنگی نقشے میں تھی ہی نہیں کہ انہیں مدینے کے باہر خندق سے سابقہ پیش آئے گا، کیونکہ اہل عرب اس طریقِ دفاع سے نا آشنا تھے۔ نا چار انہیں جاڑے کے زمانے میں ایک طویل محاصرے کے لیے تیار ہونا پڑا جس کے لیے وہ گھروں سے تیار ہو کر نہیں آئے تھے۔

       اس کے بعد کفار کے لیے صرف ایک ہی تدبیر باقی رہ گئی تھی،  اور وہ یہ کہ بنی قُر یظہ کے یہودی قبیلے کو غدّاری پر آمادہ کریں جو مدینہ طیّبہ کے جنوب مشرقی گوشے میں رہتا تھا۔ چوں کہ اس قبیلے سی مسلمانوں کا باقاعدہ حلیفانہ معاہدہ تھا جس کی رو سے مدینہ پر حملہ ہونے کی صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدافعت کرنے کا پابند تھا،  اس لیے مسلمانوں نے اس طرف سی بے فکر ہو کر اپنے بال بچّے اُن گڑھیوں میں بھجو دیے تھے جو بن قریظہ کی جانب تھیں اور اُدھر مدافعت کا کوئی انتظام نہ کیا تھا۔ کفار نے اسلامی دفاع کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا۔ اُن کی طرف سے بنی النَّضیر کا یہودی سردار حُیّی بن اخْطَب بنی قُریظہ کے پاس بھیجا گیا تاکہ انہیں معاہدہ توڑ کر جنگ میں شامل ہونے پر آمادہ کرے۔ ابتداءً اُنہوں نے اس سے انکار کیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہمارا محمد(صلی اللہ علیہ و سلم )سے معاہدہ ہے اور آج تک کبھی ہمیں ان سی کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی ہے۔ لیکن جب ابنِ اخطب نے ان سے کہا کہ ’’دیکھو،  میں اس وقت عرب کی متحدہ طاقت اس شخص پر چڑھا لایا ہوں،  یہ اسے ختم کر دینے کا نادر موقع ہے،  اس کو اگر تم نے کھو دیا تو پھر دوسرا کوئی موقع نہ مل سکے گا‘‘، تو ذہن کی اسلام دشمنی اخلاق کے پاس و لحاظ پر غالب آ گئی اور بنی قریظہ عہد توڑنے پر آمادہ ہو گئے۔

       نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس معاملے سے بھی بے خبر نہ تھے۔ آپؐ کو بر وقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپؐ نے فوراً انصار کے سرداروں (سعد بن غُبّادہ، سعد بن مُعاذ، عبداللہ بن رواعہ اور خَوّات بن جُبیر )کو ان کے پاس تحقیقِ حال اور فہمائش کے لیے بھیجا۔ چلتے وقت آپؐ نے اُن کو ہدایت فرمائی کہ اگر بنی قُریظہ عہد پر قائم رہیں تو آ کر سارے لشکر کے سامنے علی ا لاعلان یہ خبر سُنا دینا۔ لیکن اگر وہ نقضِ عہد پر مُصر ہوں صرف مجھ کو اشارۃً اس کی اطلاع دے دینا تاکہ عام مسلمان یہ بات سُن کر پست ہمّت نہ ہو جائیں۔ یہ حضرات وہاں پہنچے تو بنی قریظہ کو پوری خباثت پر آمادہ پایا اور انہوں نے برملا ان سی کہہ دیا کہ لا عقد بیننا وبین محمد ولا عھد۔ ’’ہمارے محمدؐ کے درمیان کوئی عہد پیما نہیں ہے ‘‘،۔ اس جواب کو سن کر وہ لشکرِ اسلام میں واپس آئے اور اشارۃً حضورؐ سے عرض کر دیا :عَضَل وقارَہ۔ یعنی قبیلہ عَضَل وقارَہ نے رَجیع کے مقام پر مبلّغین اسلام کے وفد سے جو غدّاری کی تھی،  وہی کچھ اب بنی قریظہ کر رہے ہیں۔

       یہ خبر بہت جلد ی مدینہ کے مسلمانوں میں پھیل گئی اور ان کے اندر اس سے سخت اضطراب پیدا ہو گیا۔ کیوں کہ اب وہ دونوں طرف سے گھیرے میں آ گئے تھے اور ان کے شہر کا وہ حصّہ خطرے میں پڑ گیا تھا جدھر دفاع کا بھی کوئی انتظام نہ تھا اور سب کے بال بچّے بھی اسی جانب تھے۔ اس پر منافقین کی سرگرمیاں اور تیز ہو گئیں اور انہوں نے اہل ایمان کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کے نفسیاتی حملے شروع کر دیے۔ کسی نے کہا کہ ’’ ہم سے تو وعدے تو قیصر و کسریٰ کے ملک فتح ہو جانے کے کیے جا رہے تھے، اور حال یہ ہے کہ ہم رفع حاجت کے لیے بھی نہیں نکل سکتے۔ ‘‘ کسی نے یہ کہہ کر خندق کے محاذ سے رخصت مانگی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں ہمیں جا کر اُن کی حفاظت کرنی ہے۔ کسی نے یہاں تک خفیہ پروپگنڈا شروع کر دیا کہ حملہ آوروں سے اپنا معاملہ درست کر لو اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کے حوالے کر دو۔ یہ ایسی شدید آزمائش کا وقت تھا جس میں ہر اس شخص کا پردہ فاش ہو گیا جس کے دِل میں ذرّہ برابر بھی نفاق موجود تھا۔ صرف صادق و مخلص اہل ایمان ہی تھے جو اس کڑے وقت میں بھی فدا کاری کے عزم پر ثابت قدم رہے۔

       نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نازک موقع پر بنی غطفان سے صلح کی بات چیت شروع کی اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ مدینے کے پھلوں کی پیداوار کا تیسرا حصّہ لے کر واپس چلے جائیں۔ لیکن جب انصار کے سرداروں (سعدؓبن عُبادہ اور سعدؓ بن مُعاذ) سے آپؐ نے اِن شرائط صلح کے متعلق مشورہ طلب کیا تو انہوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ،  یہ آپؐ کی خواہش ہے کہ ہم ایسا کریں ؟ یا یہ اللہ کا حکم ہے کہ ہمارے لیے اسے قبول کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ؟ یا آپؐ ہمیں بچانے کے لیے یہ تجویز فرما رہے ہیں ؟ آپؐ نے جواب دیا ’’ میں صرف تم لوگوں کو بچانے کے لیے ایسا کر رہا ہوں،  کیوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ سارا عرب متحد ہو کر تم پر پِل پڑا ہے،  میں چاہتا ہوں کہ ان کو ایک دوسرے سے توڑ دوں۔ ‘‘اس پر دونوں سرداروں نے بالاتفاق کہا کہ ’’ اگر آپؐ ہماری خاطر یہ معاہدہ کر رہے ہیں تو اسے ختم کر دیجیے۔ یہ قبیلے ہم سے اُس وقت بھی ایک حبّہ خراج کے طور پر کبھی نہ لے سکے تھے جب ہم مشرک تھے۔ اور اب تو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کا شرف ہمیں حاصل ہے۔ کیا اب یہ ہم سے خراج لیں گے ؟ ہمارے اور ان کے درمیان اب صرف تلوار ہی ہے، یہاں تک کہ اللہ ہمارا اور ان کا فیصلہ کر دے ‘‘۔ یہ کہہ کر انہوں نے معاہدے کے اس مسودے کو چاک کر دیا جس پر ابھی دستخط نہ ہوئے تھے۔

        اسی دوران میں قبیلۂ غَطَفا ن کی شاخ اشجَع کے ایک صاحب نَعیم بن مسعُود مسلمان ہو کر حضورؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابھی تک کسی کو بھی میرے قبول اسلام کا علم نہیں ہے،  آپؐ مجھ سے اس وقت جو خدمت لینا چاہیں میں اسے انجام دے سکتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا،  تم جا کر دشمنوں میں پھوٹ ڈالنے کی کوئی تدبیر کرو(اسی موقعہ پر حضورؐ نے فرمایا تھا اَلْحَرْبُ خُدْ عَۃ۔ یعنی جنگ میں دھوکہ دینا جائز ہے۔ )چنانچہ وہ پہلے بنی قُریظہ کے پاس گئے جن سے ان کا بہت میل جول تھا، اور ان سے کہا کہ قریش اور غطفان تو محاصرے سے تنگ آ کر واپس بھی جا سکتے ہیں،  ان کا کچھ نہ بگڑے گا،  مگر تمہیں مسلمانوں کے ساتھ اسی جگہ رہنا ہے،  وہ لوگ اگر چلے گئے تو تمہارا کیا بنے گا۔ میری رائے یہ ہے کہ تم اس وقت تک جنگ میں حصّہ نہ لو جب تک اِن باہر سے آئے ہوئے قبائل کے چند نمایاں آدمی تمہارے پاس یرغمال کے طور پر نہ بھیج دیے جائیں۔ یہ بات بنی قریظہ کے دِل میں اُتر گئی اور انہوں نے متحدہ محاذ کے قبائل سے یرغمال طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر یہ صاحب قریش اور غطفان  کے سرداروں کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ بنی قریظہ کچھ ڈھیلے پڑتے نظر آ رہے ہیں، بعید نہیں کہ وہ تم سے یرغمال کے طور پر کچھ آدمی مانگیں اور انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے کر کے اپنا معاملہ صاف کر لیں۔ اس لیے ذرا ان کے ساتھ ہوشیاری سے معاملہ کرنا۔ اس سے متحدہ محاذ کے لیڈر بنی قُریظہ کی طرف سے کھٹک گئے اور انہوں نے قُرظی سرداروں کو پیغام بھیجا کہ اس طویل محاصرے سے اب ہم تنگ آ گئے ہیں،  اب ایک فیصلہ کن لڑائی ہو جانی چاہیے،  کل تم اُدھر سے حملہ کرو اور ہم اِدھر سی یکبارگی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بنی قُریظہ نے جواب میں کہلا بھیجا کہ آپ لوگ اپنے چند نمایاں آدمی یرغمال کے طور پر ہمارے حوالہ نہ کر دیں،  ہم جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ اس جواب سے متحدہ محاذ کے لیڈروں کو یقین آ گیا کہ نعیم کی بات سچی تھی۔ انہوں نے یرغمال دینے سے انکار کر دیا اور اس سے بنی قُریظہ نے سمجھ لیا کہ نعیم نے ہم ٹھیک مشورہ دیا تھا۔ اِس طرح یہ جنگی چال بہت کامیاب ثابت ہوئی اور اس نے دشمنوں کے کیمپ میں پھوٹ ڈال دی۔

 اب محاصرہ پچیس دن سے زیادہ طویل ہو چکا تھا۔ سردی کا زمانا تھا۔ اتنے بڑے لشکر کے لیے پانی اور غذا اور چارے کی فراہمی بھی مشکل تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔ اور پھوٹ پڑ جانے سی بھی محاصرین کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ اس حالت میں یکایک ایک رات سخت آندھی کی زور سے دشمنوں کے خیمے الٹ گئے اور ان کے اندر شدید افراتفری برپا ہو گئی۔ قدرت خداوندی کا یہ کاری وار وہ نہ سہہ سکے۔ راتوں رات ہر ایک نے اپنے گھر کی راہ لی اور صبح  جب مسلمان اٹھے تو میدان میں ایک دشمن بھی موجود نہ تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے میدان کو دشمنوں سے خالی دیکھ کر فوراً ارشاد فرمایا: لن تغزوکم قریش بعد عا مکم ھٰذا ولکنکم تغز ونھم۔ یعنی ’’اب قریش کے لوگ تم پر کبھی چڑھائی نہ کر سکیں گے۔ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے ‘‘۔ یہ حالات  کے بالکل صحیح اندازہ تھا۔ قریش ہی نہیں،  سارے دشمن قبائل متحدہ ہو کر اسلام کے خلاف اپنا آخری داؤ چل چکے تھے۔ اس میں ہار جانے کے بعد اب  ان میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ مدینے پر حملہ آور ہونے کی جرأت کر سکتے۔ اب حملے (offensive) کی قوت دشمنوں سے مسلمانوں کی طرف منتقل ہو چکی تھی۔ 

غزوۂ بنی قریظہ

خندق سے پلٹ کر جب حضورؐ گھر پہنچے تو ظہر کے وقت جبرئیلؑ نے آ کر حکم سنایا کہ ابھی ہتھیار نہ کھولے جائیں،  بنی قریظہ کا معاملہ باقی ہے،  ان سے بھی اسی وقت نمٹ لینا چاہئے۔ یہ حکم پاتے ہیں حضورؐ نے فوراً اعلان فرمایا کہ ’’جو کوئی سمع و طاعت  پر قائم ہو وہ عصر کی نماز اس وقت تک نہ پڑھے جب تک دیار بنی قریظہ پر نہ پہنچ جائے ‘‘۔ اس اعلان کے ساتھ ہی آپؐ نے حضرت علیؓ کو ایک دستے کے ساتھ مقدمۃ الجیش کے طور پر بنی قریظہ کی طرف روانہ کر دیا۔ وہ جب وہاں پہنچے تو یہودیوں نے کوٹھوں پر چڑھ کر نبی ﷺ اور مسلمانوں پر گالیوں کی بوچھار کر دی، لیکن یہ بدزبانی ان کو اس جرم عظیم کے خمیازے سے کیسے بچا سکتی تھی کہ انہوں نے عین لڑائی کے وقت معاہدہ توڑ ڈالا اور حملہ آوروں سے مل کر مدینے کی پوری آبادی کو ہلاکت کے خطرے میں مبتلا کر دیا۔ حضرت علیؓ کے دستے کو دیکھ کر وہ سمجھے تھے کہ یہ محض دھمکانے آئے ہیں۔ لیکن جب حضورؐ کی قیادت میں پورا اسلامی لشکر وہاں پہنچ گیا اور ان کی بستی کا محاصرہ کر لیا گیا تو ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ محاصرہ کی شدت کو وہ دو تین ہفتوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے اور آخر کار انہوں نے اس شرط پر اپنے آپ کو نبیﷺ کے حوالے کر دیا کہ وہ قبلہ اَوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اس فریقین مان لیں گے۔ اُنہوں نے حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ ان کے حق میں جو فیصلہ بھی کر دیں گے اسے فریقین مان لیں گے۔ انہوں نے حضرت سعدؓ کو اس امید پر حُکم بنایا تھا کہ زمانۂ جاہلیت میں اَوس اور بنی قریظہ کے درمیان جو حلیفانہ تعلقات مدّتوں سے چلے آ رہے تھے وہ ان کا لحاظ کریں گے اور اُنہیں بھی اسی طرح مدینہ سے نِکل جانے دیں گے جس طرح پہلے بنی قَیْنقُا ع اور بنی النضیر کو نِکل جانے دیا گیا تھا۔ خود قبیلۂ اَوس کے لوگ بھی حضرت سعد ؓ سے تقاضا کر رہے تھے کہ اپنے حلیفوں کے ساتھ نرمی برتیں۔ لیکن حضرت سعدؓ ابھی بھی دیکھ چکے تھے کہ پہلے جن دو یہودی قبیلوں کو مدینہ سے نِکل جانے کا موقع دیا تھا وہ کس طرح ساری گرد و پیش کے قبائل کو بھڑکا کر مدینے پر دس بارہ ہزار کا لشکر چڑھا لائے تھے۔ اور یہ معاملہ بھی ان کی سامنے تھا کہ اس آخری یہودی قبیلے نی عین بیرونی حملے کے موقع پر بد عہدی کر کے اہل مدینہ کو تباہ کر دینے کا کیا سامان کیا تھا۔ اس لیے انہوں نے فیصلہ دیا کہ بنی قریظہ کے تمام مرد قتل کر دیے جائیں،  عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے،  اور ان کی تمام املاک مسلمانوں میں تقسیم کر دی جائیں۔ اس فیصلے پر عمل کیا گیا اور جب بنی قریظہ کی گڑھیوں میں مسلمان داخل ہوئے تو انہیں پتہ چلا کہ جنگِ احزاب میں حصہ لینے کے لیے ان غدّاروں نے پندرہ سو تلواریں،  تین سو زرہیں،  دو ہزار نیزے اور پندرہ سو ڈھالیں فراہم کی تھیں۔ اگر اللہ کی تائید مسلمانوں کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارا جنگی سامان عین وقت مدینہ پر عقب سے حملہ کرنی کے لیے استعمال ہوتا جبکہ مشرکین یکبارگی خندق پار کر کے ٹوٹ پڑنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ س انکشاف کے بعد تو اس امر میں شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی کہ حضرت سعدؓ نے ان لوگوں کے معاملہ میں جو فیصلہ دیا وہ بالکل حق تھا۔

معاشرتی اصلاحات : جنگ اُحُد اور جنگ احزاب کے درمیان،  دو سال کا یہ زمانہ اگر چہ ایسے ہنگاموں کا زمانہ تھا جن کی بدولت نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ کے اصحاب کو ایک دن کی لیے بھی امن اور اطمینان نصیب نہ ہوا۔ لیکن اس پوری مدّت میں نئے مسلم معاشرے کی تعمیر،  اور ہر پہلو میں زندگی کی اصلاح کا کا م برابر جاری رہا یہی زمانہ تھا جس میں مسلمانوں قوانین نکاح و طلاق قریب قریب مکمل ہو گئے اور وراثت کا قانون بنا،  شراب اور جوئے کو حرام کیا گیا،  اور معیشت و معاشرت کے دوسرے بہت سے پہلوؤں میں نئے ضابطے نافذ کئے گئے۔

اس سلسلے کا ایک اہم مسئلہ جو اصلاح کا تقاضا کر رہا تھا تَبْنِیتْ(گود لینے یا بیٹا بنانے ) کا مسئلہ تھا۔ عرب کی لوگ جس بچے کو متبنیٰ بنا لیتے تھے وہ بالکل اُن کی حقیقی اولاد کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اسے وراثت ملتی تھی۔ اس سی منہ بولی ماں اور منہ بولی بہنیں وہی خلا ملا رکھتی تھیں جو حقیقی بیٹے اور بھائی سے رکھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ منہ بولے باپ کے مر جانے کے بعد اس کی بیوہ کا نکاح اسی طرح ناجائز سمجھا جاتا تھا جس طرح سگی بہن اور حقیقی ماں کے ساتھ کسے کا نکاح حرام ہوتا ہے۔ اور یہی معاملہ اس صورت میں بھی کیا جاتا تھا جب منہ بولا بیٹا مر جائے یا اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔ منہ بولے باپ کے لیے وہ عورت سگی بہو کی طرح سمجھی جاتی تھی۔ یہ رسم قدم قدم پر نکاح اور طلاق اور وراثت کے اُن قوانین سے ٹکراتی تھی جو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء میں مقرر فرمائے تھے اُن کی رُو سے جو لوگ حقیقت میں وراثت کے حق دار تھے یہ رسم ان کا حق مار کر ایک ایسے شخص دلواتی تھی جو سرے سے کوئی حق نہ رکھتا تھا۔ اُن کی رُو سے جن عورتوں اور مردوں کے درمیان رشتۂ نکاح حلال تھا، یہ رسم ان کے باہمی نکاح کو حرام کرتی تھی۔ اور سب سے زیادہ یہ کہ اسلامی قانون جن بد اخلاقیوں کا سدِّ باب کرنا چاہتا تھا،  یہ رسم ان کے پھیلنے میں مدد گار کیوں کہ رسم کے طور پر منہ بولے رشتے میں خواہ کتنا ہی تقدُّس پیدا کر دیا جائے،  بہر حال منہ بولی ماں،  منہ بولی بہن اور منہ بولی بیٹی حقیقی ماں اور بیٹی کی طرح نہیں  ہو سکتی۔ ان مصنوعی رشتوں کے رسمی تقدّس پر بھروسہ کر کے مردوں اور عورتوں کے درمیان جب حقیقی رشتہ داروں کا سا خلا ملا ہو تو وہ بُرے نتائج پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان وجوہ اے اسلامی قانونِ نِکاح و طلاق،  قانونِ وراثت اور قانونِ حرمتِ زنا کا یہ تقاضا تھا کہ متبنّیٰ کو حقیقی اولاد کی طرح سمجھنے کے تخیّل کا قطعی استیصال کر دیا جائے۔

لیکن یہ تخیّل محض ایک قانونی حکم کے طور پر اتنی سی بات کر دینے سے ختم نہیں ہو سکتا تھا کہ۔۔ ’’ منہ بولا رشتہ کوئی حقیقی رشتہ نہیں ہے۔ ‘‘صدیوں کے جمے ہوئے تعصبّات اور اوہام محض اقوال سے نہیں بدل جاتے۔ حکماً لوگ اس بات کو مان بھی لیتے کہ یہ رشتے حقیقی رشتے نہیں ہیں،  پھر بھی منہ بولی ماں اور منہ بولے بیٹے کے درمیان منہ بولے بھائی اور بہن کے درمیان،  منہ بولے باپ اور بیٹی کے درمیان،  منہ بولے خسر اور بہو کے درمیان نکاح کو لوگ مکروہ سمجھتے رہتے۔ نیز ان کے درمیان خلا ملا بھی کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا۔ اس لیے ناگزیر تھا کہ یہ رسم عملاً توڑی جائے،  اور خود رسول صلی اللہ علیہ و سلم بنفسِ نفیس اس کو توڑیں۔ کیوں کہ جو کام حضورؐ نے خود کیا ہو، اور اللہ کے حکم سے کیا ہو، اس کے متعلق کسی مسلمان کے ذہن میں کراہت کا تصوّر باقی نہ رہ سکتا تھا۔ اسی بنا پر جنگِ احزاب سے کچھ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشارہ کیا گیا کہ آپ اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارِثہ رضی اللہ عنہ کی مطلقہ بیوی سے خود نکاح کر لیں،  اور اس حکم کی تعمیل آپ نے محاصرۂ بنی قریظہ کے زمانی میں فرمائی۔ (غالباً تا خیر کی وجہ یہ تھی کہ عدّت ختم ہونے کا انتظار تھا، اور اسی دَوران میں جنگی مصروفیات پیش آ گئی تھیں )۔ 

نکاحِ زینب ؓ پر پروپیگنڈے کا طوفان

یہ کام ہونا تھا کہ حضورؐ کے خِلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان یکلخت اُٹھ کھڑا ہوا۔ مشرکین اور منافقین اور یہود سب آپ کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے۔ اُحُد کے بعد احزاب اور نبی قریظہ تک دو سال کی مدّت میں جس طرح وہ زک پر زک اُٹھا تے چلے گئے تھے اس کی وجہ ان کے دلوں میں آگ لگ رہی تھی۔ وہ اس بات سے بھی مایوس ہو چکے تھے کہ اب وہ کھلے میدان میں لڑ کر کبھی آپ کو زیر کر سکیں گے۔ اس لیے انہوں نے اس نکاح کے معاملے کو اپنے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ اب ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی اُس اخلاقی برتری کو ختم کر سکیں گے جو اُن کی طاقت اور اُن کی کامیابیوں کا اصل راز ہے چنانچہ یہ افسانے تراشے کہ (معاذاللہ) محمد صلی اللہ علیہ و سلم بہو کو دیکھ کر عاشق ہو گئے تھے،  بیٹے کو اس تعلقِ خاطر کا علم ہو گیا،  اس نے بیوی کو طلاق دے دی،  اور باپ نے اس کے بہو سے بیَاہ رچا لیا۔ حالاں کہ یہ بات صریحاً لغو تھی۔ حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔ بچپن سے جوانی تک اُن کی ساری عمر آپ کے سامنے گزری تھی۔ کسی وقت ان کو دیکھ کر عاشق ہو جانے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ پھر آپؐ نے خود اصرار کر کے حضرت زیدؓ سے ان کا نکاح کرایا تھا۔ ان کا سارا خاندان اس پر راضی نہ تھا کہ قریش کے اتنے اُونچے گھرانے کی لڑکی ایک آزاد کردہ غلام سے بیاہی جائے۔ خود حضرت زینب ؓ بھی اس رشتے سے ناخوش تھیں۔ مگر حضورؐ کے حکم سے سب مجبور ہو گئے،  اور حضرت زیدؓ کے ساتھ ان کی شادی کر کے عرب میں اس امر کی پہلی مثال پیش کر دی گئی کہ اسلام ایک آزاد کردہ غلام کو اُٹھا کر شرفائے قریش کے برابر لے آیا ہے۔ اگر فی الواقع حضورؐ کا کوئی میلان حضرت زینبؓ کی جانب ہوتا تو زید بن حارِثہ سے ان کا نِکاح کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، آپ خود ان سے نِکاح کر سکتے تھے۔ لیکن بے حیا مخالفین نے ان سارے حقائق کے مو جود ہوتے یہ عشق کے افسانے تصنیف کیے،  خوب نمک مرچ لگا لگا کر ان کو پھیلایا اور اس پروپیگنڈے کا صور اس زور سے پھونکا کہ خود مسلمانوں کے اندر بھی ان کی گھڑی ہوئی روایات پھیل گئیں۔ 

پردہ کے ابتدائی احکام

یہ بات کہ دشمنوں کے تصنیف کیے ہوئے یہ افسانے مسلمانوں کی زبانوں پر چڑھنے سے بھی نہ رُکے اس امر کی کھلی ہوئی علامت تھی کہ معاشرے میں شہوانیت کا عنصر حدِّ اعتدال سے بڑھا ہوا تھا۔ یہ خرابی اگر موجود نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ذہن ایسی پاک ہستی کے متعلق ایسے بے سر و پا اور اس قدر گھناؤنے افسانوں کی طرف ادنیٰ التفات بھی کرتے،  کجا کہ زبانیں ان کو دُہرانے لگتیں۔ یہ ٹھیک موقع تھا جبکہ اسلامی معاشرے میں اُن اصلاحی احکام کے نفاذ کی ابتدا کی گئی جو ’’ حجاب‘‘ (پردے ) کے عنوان سے بیان کیے جاتے ہیں۔ اِ ن اصلاحات کا آغاز اس سورے سے کیا گیا،  اور ان کی تکمیل ایک سال بعد سورۂ نور میں کی گئی، جبکہ حضرت عائشہؓ پر بہتان کا فتنہ کھڑا ہوا۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور،  دیباچہ)۔

حضور کی خانگی زندگی کے معاملات:اسی زمانہ میں دو مسئلے اور بھی توجہ طلب تھے۔ اگر چہ بظاہر ان کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خانگی زندگی سے تھا،  مگر جو ذات اپنی جان خدا کے دین کو پروان چڑھانے کے لیے کھپا رہی تھی اور ہمہ تن اس کارِ عظیم میں منہمک تھی اُس کے لیے خانگی زندگی کا سکون فراہم کرنا، اور اس کو پریشانیوں سی بچانا، اور اس کو لوگوں کے شکوک و شبہات سے محفوظ رکھنا بھی خود دین ہی کے مفاد کے لیے ضروری تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نی سرکاری طور پر ان دونوں مسئلوں کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

پہلا مسئلہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُس وقت مالی حیثیت سے تنگ حال تھے۔ ابتدائی چار سال تک تو آپؐ کا کوئی ذریعۂ آمدنی تھا ہی نہیں۔ ۴ھ میں بنی النضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی متروکہ زمینوں کا ایک حصّہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ کی ضروریات کے لیے مخصوص کر دیا گیا۔ مگر وہ آپؐ کے کنبے کے لیے کافی نہ تھا۔ ادھر منصبِ رسالت کے فرائض اتنے بھاری تھے کہ وہ آپؐ کے جسم اور دِل و دِماغ کے ساری طاقتیں اور آپ کے اوقات کا ایک ایک لمحہ سونتے ڈال رہے تھے اور آپ اپنی معاش کے لیے ذرہ برابر بھی کوئی فکر یا کوشش نہ کر سکتے تھے۔ اِن حالات میں جب آپؐ ازواجِ مطہّرات خرچ کی تنگی کے باعث آپؐ کے سکون طبع میں خلل انداز ہوتی تھیں تو اس سے آپؐ کے ذہن پر دُہرا بار پڑ جاتا تھا۔

دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ حضرت زینب ؓ کے ساتھ نکاح کرنے سے پہلے آپؐ کی چار بیویاں موجود تھیں۔ حضرت سَودہؓ، حضرت عائشہ ؓ، حضرت حَفْصہ ؓ اور حضرت اُمِّ سَلَمہؓ۔ اُمّ المومنین حضرت زینبؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر مخالفین نے یہ اعتراض اُٹھایا،  اور مسلمانوں کے دِلوں میں بھی اس سے شبہات اُبھرنے لگے کہ دوسروں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع ٹھیرا دیا گیا ہے،  مگر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔ 

موضوع اور مباحث

یہ مسائل تھے جو سُورۂ احزاب کے نزول کے زمانے میں پیش آئے تھے اور انہی پر اس سورے میں کلام فرمایا گیا ہے۔

اس کے مضامین پر غور کرنے،  اور پس منظر کو نِگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہی کہ یہ پوری سورۃ ایک خطبہ نہیں ہے جو بیک وقت نازل ہوا ہو،  بلکہ یہ متعدد احکام و فرامین اور خطبات پر مشتمل ہے جو اُس زمانہ کے اہم واقعات کے سلسلے میں یکے بعد دیگرے نازل ہوئے اور پھر یک جا جمع کر کے ایک سورۃ کی شکل میں مرتب کر دیے گئے۔ اس کے حسبِ ذیل اجزاء صاف طور پر ممیز نظر آتے ہیں۔

۱۔ پہلا رکوع غزوۂ احزاب سے کچھ پہلے نازل شدہ معلوم ہوتا ہی۔ تاریخی پس منظر کو نِگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تواس رکوع کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے وقت حضرت زیدؓ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس ضرورت کو محسوس فرما رہے تھے کہ متبنیٰ کے بارے میں جاہلیت کے تصوّرات اور اوہام و رسوم کو مٹایا جائے،  اور آپؐ کو یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ لوگ منہ بولے رشتوں کے معاملے میں محض جذباتی بنیادوں پر جس قسم کے نازک اور گہرے تصوّرات رکھتے ہیں وہ اس وقت تک ہر گز نہ مٹ سکیں گے جب تک آپؐ خود آگے بڑھ کر اس رسم کو نہ توڑ دیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہے آپؐ اس بنا پر سخت متردّد تھے اور قدم بڑھاتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کہ اگر اس موقع پر آپؐ نے حضرت زیدؓ کی مطلّقہ بیوی سے نِکاح کیا تو اسلام کے خلاف ہنگامہ اُٹھانے کے لیے منافقین اور یہود اور مشرکین کو، جو پہلے ہی بھرے بیٹھے ہیں،  ایک زبردست شوشہ ہاتھ آ جائے گا۔ اس موقع پر رکوع اوّل کی آیات نازل ہوئیں۔

۲۔ رکوع دوّم و سوّم میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ یہ اس بات کی کھُلی علامت ہے کہ یہ دونوں رکوع ان لڑائیوں کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

۳۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے آیت ۳۵ تک کی تقریر دو مضامین پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کو،  جو اس تنگی و عُسرت کے زمانے میں بے صبر ہو رہی تھیں،  اللہ تعالیٰ نے نوٹِس دیا ہے کہ دنیا اور اس کی زینت، اور خدا و رسول اور آخرت میں سے کسی ایک کو انتخاب کر لو۔ اگر تمہیں پہلی چیز مطلوب ہے تو صاف کہہ دو،  تمہیں ایک دن کے لیے بھی اس تنگی میں مبتلا نہ رکھا جائے گا بلکہ بخوشی رخصت کر دیا جائے گا۔ اور اگر دوسری چیز پسند ہے تو صبر کے ساتھ اللہ اور اس کے رسو ل کا ساتھ دو۔ دوسرے حصّے میں اُس معاشرتی اصلاح کی طرف پہلا قدم اُٹھایا گیا جس کی ضرورت اسلام کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ذہن اب خود محسوس کرنے لگے تھے۔ اس سلسلہ میں اصلاح کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے کرتے ہوئے ازواجِ مطہرات کو حکم دیا گیا کہ تبرُّجِ جاہلیّت سے پرہیز کریں،  وقار کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھیں اور غیر مردوں کے ساتھ بات چیت کرنے میں سخت احتیاط ملحوظ رکھیں۔ یہ پردے کے احکام کا آغاز تھا۔

۴۔ آیت ۳۶ سے ۴۸ تک کا مضمون حضرت زینبؓ کے ساتھ حضورؐ کے نِکاح کے سلسلہ میں ہے۔ اس میں ان تمام اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے جو مخالفین کی طرف سے اس نِکاح پر کیے جا رہے تھے،  اُن تمام شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کی دِلوں میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی تھی، مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ حضورؐ کا مرتبہ و مقام کیا ہے،  اور خود حضورؐ کو کفار و منافقین کے جھوٹے پروپیگنڈے پر صبر کی تلقین فرمائی گئی ہے۔

۵۔ آیت ۴۹میں طلاق کے قانون کی ایک دفعہ بیان ہوئی ہے۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً انہی واقعات کے سلسلے میں کسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔

۶۔ آیت ۵۰۔ ۵۲ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کا خاص ضابطہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ حضورؐ اُن متعدد پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں جو ازدواجی زندگی کے معاملہ میں عام مسلمانوں پر عائد کی گئی ہیں۔

۷۔ آیت ۵۳۔ ۵۵ میں معاشرتی اصلاح کا دوسرا قدم اُٹھایا گیا۔ یہ حسب ذیل احکام پر مشتمل ہے :

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں غیر مردوں کی آمد و رفت پر پابندی۔ ملاقات اور دعوت کا ضابطہ۔ ازواج مطہرّات کے بارے میں یہ قانون کہ گھروں میں صرف ان کے قریبی رشتہ دار آ سکتے ہیں،  باقی رہے غیر مرد، تو انہیں اگر کوئی بات کہنی ہو یا کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے کہیں یا مانگیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج کے بارے میں یہ حکم کہ وہ مسلمانوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہیں ا ور حضورؐ کے بعد بھی ان میں سے کسی کے ساتھ کسے مسلمان کا نکاح نہیں ہو سکتا۔

۸۔ آیت ۵۶۔ ۵۷ میں اُن چہ میگوئیوں پر سخت تنبیہ کی گئی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح اور آپ کی خانگی زندگی پر کی جا رہی تھیں اور اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دشمنوں کی اس عیب چینی سے اپنے دامن بچائیں اور اپنے نبیؐ پر درود بھیجیں۔ نیز یہ تلقین بھی کی گئی ہے کہ نبیؐ تو درکنار،  اہل ایمان کو تو عام مسلمانوں پر بھی تہمتیں لگانے اور الزامات عائد کرنے سے کلّی اجتناب کرنا چاہیے۔

۹۔ آیت ۵۹ میں معاشرتی اصلاح کا تیسرا قدم اُٹھایا گیا ہے۔ اس میں تمام مسلمان عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جب گھروں سے باہر نکلیں تو چادروں سے اپنے آپ کو ڈھانک کر اور گھونگٹ ڈال کر نِکلیں۔

اس کے بعد آخر سورۃ تک افواہ بازی کی اُس مہم (Whispering Campaign)پر سخت زجر و توبیخ کی گئی ہے جو منافقین اور اراذل نے اس وقت برپا کر رکھی تھی۔ 

ترجمہ و تفسیر

اے نبی! (۱)اللہ سے ڈرو اور کفار و منافقین کی اطاعت نہ کرو، حقیقت میں علیم اور حکیم تو اللہ ہی ہے۔ (۲) پیروی کرو اُس بات کی جس کا اشارہ تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کیا جا رہا ہے،  اللہ ہر اس بات سے باخبر ہے جو تم لوگ کرتے ہو(۳)  اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہے (۴)۔ اللہ نے کسی شخص کے دھڑ میں دو دِل نہیں رکھے ہیں (۵)  نہ اس نے تم لوگوں کی ان بیویوں کو جن سے تم ظاہر کرتے ہو تمہاری ماں بنا دیا ہے (۶)،   اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے (۷)
 یہ تو وہ باتیں ہیں جو تم لوگ اپنے منہ سے نکال دیتے ہو، مگر اللہ وہ بات کہتا ہے جو مبنی بر حقیقت ہے،  اور وہی صحیح طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کی نزدیک زیادہ منصفانہ بات ہے (۸)  اور اگر تمہیں معلوم نہ ہو کہ ان کے باپ کون ہیں تو وہ تمہارے دینی بھائی اور رفیق ہیں (۹)  نا دانستہ جو بات تم کہو اس کے لیے تم پر کوئی گرفت نہیں ہے،  لیکن اُس بات پر ضرور گرفت ہے جس کا تم دل سے ارادہ کرتے کرو(۱۰)
 اللہ درگزر کرنے والا اور رحیم ہے (۱۱)  بلاشبہ نبی تو اہل ایمان کے لیے اُن کی اپنی ذات پر مقدم ہے (۱۲)،   اور نبی کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں (۱۳)،   مگر کتاب اللہ کی روس سے عام مومنین و مہاجرین کی بہ نسبت رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں،  البتہ اپنے رفیقوں کے ساتھ تم کوئی بھلائی (کرنا چاہو تو) کر سکتے ہو(۱۴)  یہ حکیم کتابِ الٰہی میں لکھا ہوا ہے۔
اور (اے نبیؐ) یاد رکھو اُس عہد و پیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے،  تم سے بھی اور نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں (۱۵)  تاکہ سچے لوگوں سے (ان کا رب) ان کی سچائی کے بارے میں سوال کرے (۱۶)،   اور کافروں کے لیے تو اس نے دردناک عذاب مہیا کر ہی رکھا ہے (۱۷) ع

 

(۱)جیسا کہ ہم اس سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں،  یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھیں جب حضرت زید ؓ حضرت زینبؓ کو طلاق دے چکے تھے۔ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی یہ محسوس فرما تے تھے اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی یہی تھا کہ مُنہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کے رسوم و اَوہام پر ضرب لگانے کا یہ ٹھیک موقع ہے،  اب آپ خود آگے بڑھ کر اپنی منہ بولے بیٹے (زیدؓ)کی مطلّقہ سے نکاح کر لینا چاہیے تاکہ یہ رسم قطعی طور پر ٹوٹ جائے۔ لیکن جس وجہ سے حضورؐ اس معاملہ میں قدم اُٹھاتے ہوئے جھجک رہے تھے وہ یہ خوف تھا کہ اس سے کفار و منافقین کو، جو پہلے ہی آپؐ کی پے درپے کامیابیوں سے جلے بیٹھے تھے،  آپؐ کے خلاف پروپیگینڈا کرنے کے لیے زبردست ہتھیار مل جائے گا۔ یہ خوف کچھ اپنی بدنامی کے اندیشے سے نہ تھا کہ اس سے اسلام کو زک پہنچے گی،  دشمنوں کے پروپیگینڈے سے متاثر ہو کر بہت اے لوگ جو اسلام کی طرف میلان رکھتے ہیں بدگمان ہو جائیں گے،  بہت سے غیر جانبدار لوگ دشمنوں میں شامل ہو جائیں گے، اور خود مسلمانوں میں سے کمزور عقل و ذہن کے لوگ شکوک و شبہات میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے حضورؐ یہ خیال کرتے تھے کہ جاہلّیت کی ایک رسم کو توڑنے کی خاطر ایسا قدم اُٹھانا خلاف مصلحت ہے جس اسلام کے عظیم تر مقاصد کو نقصان پہنچ جائے۔

(۲) تقریر کا آغاز کرتے ہوئے پہلے ہی فقرے میں اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کے اِن اندیشوں کو رفع فرما دیا۔ ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہمارے دین کی مصلحت کس چیز میں ہے اور کس چیز میں نہیں ہے،  اس کو ہم زیادہ جانتے ہیں۔ ہم کو معلوم ہے کہ کس وقت کیا کام کرنا چاہیے اور کونسا کام خلافِ مصلحت ہے۔ لہٰذا تم وہ طرز عمل اختیار نہ کرو جو کفار و منافقین کی مرضی کے مطابق ہو۔ ڈرنے کے لائق ہم ہیں نہ کہ کفار و منافقین۔

(۳)اس فقرے میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ہے اور مسلمانوں سے بھی  اور مخالفین اسلام سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ نبی اگر اللہ کے حکم پر عمل کر کے بدنامی کا خطرہ مول لے گا اور اپنی عزت پر دشمنوں کے حملے صبر کے ساتھ برداشت کرے گا تو اللہ سے اس کی یہ وفا دارانہ خدمت چھپی نہ رہے گی۔ مسلمانوں میں سے جو لوگ نبی کی عقیدت میں ثابت قدم رہیں گے اور جو شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں گے،  دونوں ہی کا حال اللہ سے مخفی نہ رہے گا۔ اور کفار و منافقین اس کو بدنام کرنے کے لیے جو دَوڑ دھوپ کریں گے اس سے بھی اللہ بے خبر نہ رہے گا۔ لہٰذا گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ہر ایک اپنے عمل کے لحاظ سے جس جزا یا سزا کا مستحق ہو گا وہ اسے مل کر رہے گی۔

(۴) اس فقرے کے مخاطب پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ حضورؐ کو ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جو فرض تم پر عائد کیا گیا ہے اِسے اللہ کے بھروسے پر انجام دو اور دنیا بھر بھی اگر مخالف ہو تو اس کے پرواہ نہ کرو۔ جب آدمی کو یقین کے ساتھ یہ معلوم ہو کہ فلاں حکم اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا ہے تو پھر اسے بالکل مطمئن ہو جانا چاہیے کہ ساری خیر اور مصلحت اسی حکم کی تعمیل میں ہے۔ اس کے بعد حکمت و مصلحت دیکھنا اس شخص کا اپنا کام نہیں ہے،  بلکہ اسے اللہ کے اعتماد پر صرف تعمیل ارشاد کرنی چاہیے۔ اللہ اس کے لیے بالکل کافی ہے کہ بندہ اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔ وہ رہنمائی کے لیے کافی ہے اور مدد کے لیے بھی، اور وہی اِس امر کا ضامن بھی ہے کہ اُس کی رہنمائی میں کام کرنے والا آدمی کبھی نتائج بد سے دو چار نہ ہو۔

(۵) یعنی ایک آدمی بیک وقت مومن اور منافق،  سچا اور جھوٹا،  بدکار اور نیکو کار نہیں ہو سکتا۔ اس کے سینے میں دو دِل نہیں ہیں کہ ایک دِل میں اخلاص ہو اور دوسرے  میں خدا سے بے خوفی۔ لہٰذا ایک وقت میں آدمی کی ایک ہی حیثیت ہو سکتی ہے۔ یا تو وہ مومن ہو گا یا منافق۔ یا تو وہ کافر ہو گا یا مسلم۔ اب اگر تم کسی مومن کو منافق کہہ دو یا منافق تو اس سے حقیقتِ نفس الامری نہ بدل جائے گی۔ اس شخص کی اصل حیثیت لازماً ایک ہی رہے گی۔

(۶)’’ ظِہار‘‘ عرب کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ قدیم زمانے میں عرب کے لوگ بیوی سے لڑتے ہوئے کبھی یہ کہہ بیٹھتے تھے کہ ’’تیری پیٹھ میری لئے میری کی پیٹھ جیسی ہے ‘‘۔ اور یہ بات جب کسی کے منہ سے نکل جاتی تھی تو یہ سمجھتا جاتا تھا کہ اب یہ عورت اس پر حرام ہو گئی ہے کیوں کہ وہ اسے ماں سے تشبیہ دے چکا ہے۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوی کو ماں کہنے یا ماں کے ساتھ تشبیہ دے دینے سے وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں تو وہی ہے جس نے آدمی کو جنا ہے۔ محض زبان ای ماں کہہ دینا حقیقت کو نہیں بدل دیتا کہ جو بیوی تھی وہ تمہارے کہنے سے ماں بن جائے۔ (یہاں ظِہار کی متعلق شریعت کا قانون بیان کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس کا قانون سورہ مجادلہ۔ آیات ۲۔ ۴ میں بیان کیا گیا ہے )۔

(۷)یہ اصل مقصود کلام ہے۔ اوپر کے دونوں فقرے اسی تیسری بات کو ذہن نشین کرنے کے لئے بطور دلیل ارشاد ہوئے تھے۔

(۸)اس حکم کی تعمیل میں سب سے پہلے جو اصلاح نافذ کی گئی وہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کو زید بن محمدؐ کہنے کے بجائے ان کے حقیقی باپ کی نسبت سے زید بن حارثہ کہنا شروع کر دیا گیا۔ بخاری ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ اور نسائی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے یہ روایات نقل کی ہے کہ زید بن حارثہ کو پہلے سب لوگ زید بن محمدؐ کہتے تھے۔ یہ آیت نازل ہونے کے بعد انہیں زید بن حارثہ ؓ کہنے لگے۔ مزید بر آں اس آیت کے نزول کے بعد یہ بات حرام قرار دے دی گئی کہ کو ئی شخص اپنے حقیقی باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنا نسب منسوب کرے۔ بخاری و مسلم اور ابو داؤد نے حضرت سعد بن ابی وقاص کی روایت نقل کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من ادعیٰ الیٰ غیر ابیہ وھویعلم انہ غیر ابیہ فالجنتہ علیہ حرام۔ ’’جس نے اپنے آپ کو اپنے باپ کے سوا کسی اور کا بٹیا کہا ‘ در آنحالیکہ وہ جانتا ہو کہ وہ شخص اس کا باپ نہیں ہے ‘ اس پر جنت حرام ہے ‘‘۔ اسی مضمون کی دوسری روایات بھی احادیث میں ملتی ہیں۔ جن میں اس فعل کو سخت گناہ قرار دیا گیا ہے۔

(۹)یعنی اس صورت میں بھی یہ درست نہ ہو گا کہ کسی شخص سے خواہ مخواہ اس کا نسب ملایا جائے۔

(۱۰)مطلب یہ ہے کہ کسی کو پیار سے بیٹا کہہ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح ماں،  بیٹی،  بہن، بھائی وغیرہ الفاظ میں بھی اگر کسی کے لیے محض اخلاقاً استعمال کر لیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس ارادے سے یہ بات کہنا کہ جسے بیٹا یا بیٹی وغیرہ کہا جائے اس کو واقعی وہی حیثیت دے دی جائے جو اِن رشتوں کی ہے،  اور اس کے لیے وہی حقوق ہوں جو اِن رشتہ داروں کے ہیں،  اور اس دے ساتھ ویسے ہی تعلقات ہوں جیسے ان رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے ہیں،  یہ یقیناً  قابلِ اعتراض ہے اور اس پر گرفت ہو گی۔

(۱۱) اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ پہلے اس سلسلے میں جو غلطیاں کی گئی ہیں ان کو اللہ نے معاف کیا۔ ان پر اب کوئی باز پُرس نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نا دانستہ افعال پر گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ اگر بِلا ارادہ کوئی ایسی بات کے جائے جس کی ظاہری صورت ایک ممنوع فعل کی سی ہو،  مگر اس میں درحقیقت اس ممنوع فعل کی نیت نہ ہو،  تو محض فعل کی ظاہری شکل پر اللہ تعالیٰ سزا نہ دے گا۔

(۱۲)یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مسلمانوں کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو تعلق ہے وہ تو تمام دوسرے انسانی تعلقات سے ایک بالا تر نوعیت رکھتا ہے۔ کوئی رشتہ اُس رشتے سے اور کوئی تعلق سے جو نبی اور اہل ایمان کے درمیان ہے،  ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے لیے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ ان کے ماں باپ اور ان کے بیوی بچّے ان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں،  ان کے ساتھ خود غرضی برت سکتے ہیں،  ان کو گمراہ کر سکتے ہیں،  ان سے غلطیوں کا ارتکاب کرا سکتے ہیں،  ان کو جہنم میں دھکیل سکتے ہیں،  مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے حق میں صرف وہی بات کرنے والے ہیں جس میں اُن کی حقیقی فلاح ہو۔ وہ خود اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مار سکتے ہیں،  حماقتیں کر کے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کر سکتے ہیں،  لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن کے لیے وہی کچھ تجویز کریں گے جو فی الواقعی ان کے حق میں نافع ہو۔ اور جب معاملہ یہ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ آپ کو اپنے ماں         باپ اور اولاد اور اپنی جان سے بڑھ کر عزیز رکھیں،  دنیا کی ہر چیز سے زیادہ آپؐ سے محبت رکھیں،  اپنی رائے پر آپ کی رائے کو اور اپنے فیصلے پر آپ کے فیصلے کو مقدم رکھیں،  اور آپؐ کے ہر حکم سرِ تسلیم خم کر دیں۔

اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس حدیث میں ارشاد فرمایا ہے جسے بخاری و مسلم وغیرہ نے تھوڑے سی لفظی اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے کہ  لا یؤمن احدُ کم حتیٰ اکونَ احبَّ الیہ من والدہ وولدہ والنّاس اجمعین۔ ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اُس کو اس کے باپ اور اولاد سے اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوں۔

(۱۳)اُسی خصوصیّت کی بنا پر جو اوپر مذکور ہوئی،  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک خصوصیّت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی ماں نہیں ہیں،  لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اُسی طرح اُن کے لیے حرام ہیں جس طرح ان کی حقیقی مائیں حرام ہیں۔ یہ مخصوص معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سِوا دُنیا میں اور کسی انسان کے ساتھ نہیں ہے۔

اس سلسلے میں یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اِس معنی میں اُمہاتِ مومنین ہیں کہان کی تعظیم و تکریم مسلمانوں پر واجب ہے اور ان کے ساتھ کسی مسلمان کا نِکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ باقی دوسری احکام میں وہ ماں کی طرح  نہیں ہیں۔ مثلاً ان کے حقیقی رشتہ داروں کے سوا باقی سب مسلمان اُن کے لیے غیر محرم تھے جن سے پردہ واجب تھا۔ ان کی صاحبزادیاں مسلمانوں کے لیے ماں جائی بہنیں نہ تھیں کہ ان سے بھی مسلمانوں کا نکاح ممنوع ہوتا۔ اُن کے بھائی بہن مسلمانوں کی لیے خالہ اور ماموں کے حکم میں نہ تھے۔ ان سے کسی غیر رشتہ دار مسلمان کو وہ میراث نہیں پہنچتی تھی جو ایک شخص کو اپنی ماں سے پہنچتی ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابِلِ ذکر ہے کہ قرآن مجید کی رُو سے یہ مرتبہ تمام ازواجِ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حاصل ہے جن میں لا محالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ لیکن ایک گروہ نے جب حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما اور اُن کی اولاد کو مرکزِ دین بنا کر سارا نظامِ دین انہی کے گرد گھما دیا،  اور اس بنا پر دوسرے بہت سے صحابہؓ کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کو بھی ہدفِ لعن و طعن بنایا، تو ان کی راہ میں قرآن مجید کی یہ آیت حائل ہو گئی جس کی رُو سے ہر اُس شخص کو انھیں اپنی ماں تسلیم کرنا پڑتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو۔ آخر کار اس شکل کو رفع کرنے کے لیے یہ عجیب و غریب دعویٰ کیا گیا کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی ازواج مطہرّات میں سے جس کو چاہیں آپ کی زوجیّت پر باقی رکھیں اور جسے چاہیں آپ کی طرف سے طلاق دے دیں۔ ابو منصُور احمد بن ابو طالب طَبْرَسِی نے کتاب الاحتجاج میں یہ بات لکھی ہے اور سلیمان بن عبد اللہ البحرانی نے اسے نقل کیا ہے کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا : یا ابا الحَسَنَ انّ ھٰذاالشرف باقٍ ما دُمنا علیٰ طاعۃ اللہ تعالیٰ فا یّتھن عصت اللہ تعالیٰ بعدی بالخروج علیک فطلّقھا من الازواج واسقطھاس من شرف امّھات المؤمنین، (اے ابوالحسَن ! یہ شرف تو اسی وقت تک باقی ہے جب تک ہم لوگ اللہ کی اطاعت پر قائم رہیں۔ لہٰذا میری بیویوں میں سے جو بھی میرے بعد تیرے خلاف خروج کر کے اللہ کی نافرمانی کرے اسے تُو طلاق دے دیجیو اور اس کو اُمّہات المؤمنین کے شرف سے ساقط کر دیجیو)۔

اصول روایت کے اعتبار سے تو یہ روایت سر اسر بے اصل ہے ہی لیکن اگر آدمی اسی سُورۂ احزاب کی آیات ۲۸۔ ۲۹ اور ۵۱۔ ۵۲ پر غور کرے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ روایت قرآن کے بھی خلاف پڑتی ہے۔ کیوں کہ آیت تخییر کے بعد جن ازواجِ مطہّرات نے ہر حال میں رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی رفاقت کو اپنے لیے پسند کیا تھا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کو باقی نہ رہا تھا۔ اس مضمون کی تشریح آگے حاشیہ نمبر۴۲ و ۹۳ میں ہم نے کر دی ہے۔

علاوہ بریں ایک غیر متعصّب آدمی اگر محض عقل ہی سے کام لے کر اس رویت کے مضمون پر غور کرے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ انتہائی لغو،  اور رسولِ پاکؐ کے حق میں سخت توہین آمیز افترا ہے۔ رسول کا مقام تو بہت بالا تر و بر تر ہے،  ایک معمولی شریف آدمی سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دینے کی فکر کرے گا اور دُنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے داماد کو یہ اختیار دے جائے گا کہ اگر کبھی تیرا اس کے ساتھ جھگڑا ہو تو میری طرف سے تُو اُسے طلاق دے دیجیو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اہل البیت کی محبت کے مدّعی ہیں ان کے دلوں میں صاحب البیت کی عزّت و ناموس کا پاس کتنا کچھ ہے،  اور اس سے بھی گزر کر خود اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا وہ کتنا احترام کرتے ہیں۔

(۱۴)اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جہاں تک نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہے،  اُن کے ساتھ تو مسلمانوں کے تعلق کی نوعیت سب سے الگ ہے۔ لیکن عام مسلمانوں کے درمیان آپس کے تعلقات اس اصول پر قائم ہوں گے کہ رشتہ داروں کے حقوق ایک دوسرے پر عام لوگوں کی بہ نسبت مقدّم ہیں۔ کوئی خیرات اس صورت میں صحیح نہیں ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ،  بال بچوں،  اور بھائی بہنوں کی ضروریات  تو پوری نہ کرے اور باہر خیرات کرتا پھرے۔ زکوٰۃ سے بھی آدمی کو پہلے اپنے غریب رشتہ داروں کی مدد کرنی ہو گی، پھر وہ دوسرے مستحقین کو دے گا۔ میراث لازماً ان لوگوں کو پہنچے گی جو رشتے میں آدمی سے قریب تر ہوں۔ دوسرے لوگوں کو اگر وہ چاہے تو ہُبّہ یا وقف یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنا مال دے سکتا ہے،  مگر اس طرح نہیں کہ وارث محروم رہ جائیں اور سب کچھ دوسروں کو دے ڈالا جائے۔ اس حکم الٰہی سے وہ طریقہ بھی موقوف ہو گیا جو ہجرت کے بعد مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارہ قائم کرنے سے شروع ہوا تھا، جس کی رُو سے محض دینی برادری کے تعلق کی بنا پر مہاجرین اور انصار ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا کہ وراثت تو رشتہ داری کی بنا پر ہی تقسیم ہو گی، البتہ ایک شخص ہدیے،  تحفے یا وصیّت کے ذریعہ سے اپنے کسی دینی بھائی کی کوئی مدد کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔

(۱۵)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔ اس عہد سے کونسا عہد مُراد ہے ؟ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سے مُراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا،  اللہ کی باتوں کو بے کم و کاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدّد متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً:

     شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآاِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُو االدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْافِیْہِ۔ ط(الشُورٰی۔ آیت ۱۳)

اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوحؑ کو،  اور جس کی وحی کی گئی (اے محمدؐ) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

     وَاِذْ اَخَذَاللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُ االْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗلِلن  وَلَاتَکْتُمُوْ نَہٗ۔ ق(آل عمران۔ ۱۸۷)

اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا اُن لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھُپاؤ گے نہیں۔

وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَا قَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۔ قف(البقرہ۔ ۸۳)

اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سِوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔

اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقْ الْکِتٰبِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خُذُوْ امَٓااٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍوَّاذْکُرُوْامَافِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ۔ oع (الاعراف۔ آیات ۱۶۹۔ ۱۷۱)

کیا اُن سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا؟۔۔۔ مضبوطی کے سا تھ تھامو اُس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔

وَاذْکُرُوْانِِعْمَۃَاللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖ لااِذْقُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔۔۔۔ (المائدہ۔ ۷)

اور اے مسلمانو! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اُس عہد کو جو اُس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا ’’ ہم نے سُنا اور اطاعت کی۔ ‘‘

      اس عہد کو اس سیاق و سباق میں اللہ تعالیٰ جس وجہ سے یاد دلا رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شماتتِ اعداء کے اندیشے سے منہ بولے رشتوں کے معاملہ میں جاہلیت کی رسم کو توڑ تے ہوئے جھجک رہے تھے۔ آپ کو بار بار یہ شرم لاحق ہو رہی تھی کہ معاملہ ایک خاتون سے شادی کرنے کا ہے۔ میں خواہ کتنی ہی نیک نیتی کے ساتھ محض اصلاح معاشرہ کی خاطر یہ کام کروں،  مگر دشمن یہی کہیں گے کہ یہ کام دراصل نفس پرستی کی خاطر کیا گیا ہے اور مصلح کا لبادہ اس شخص نے محض فریب دینے کے لیے اوڑھ رکھا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ حضورؐ سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو،  تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے،  لہٰذا تم کسی کے طعن و تشنیع کی پروانہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بِلا تأمّل انجام دو۔

      ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مُراد لیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی اُمّتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔ اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضورؐ سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپؐ کے بعد جو نبی آئے آپؐ کی اُمّت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اُس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہے نہیں ہے کہ آپؐ کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی اُمت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کالیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بے محل ہو جاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مُراد ہے۔ لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مُراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا اُن مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مُراد لینا صحیح ہو گا جو اس سیاق و سباق سے مناسبت رکھتا ہو،  نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اُسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔

 (۱۶)یعنی اللہ تعالیٰ محض عہد لے کر نہیں رہ گیا ہے بلکہ اس عہد کے بارے میں وہ سوال کرنے والا ہے کہ اس کی کہاں تک پا بندی کی گئی۔ پھر جن لوگوں نے سچائی کے ساتھ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو وفا کیا ہو گا وہی صادق العہد قرار پائیں گے۔

 (۱۷)اِس رکوع کے مضمون کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو اسی سورہ کی آیات ۳۶۔ ۴۱کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے۔

 

اے لوگو(۱۸)،   جو ایمان لائے ہو، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اُس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے اُن پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں (۱۹)  اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے۔ جب وہ اُوپر سے اور نیچے سے تم پر چڑھ آئے (۲۰)  جب خوف کے مارے آنکھیں پتھرا گئیں،  کلیجے منہ کو آ گئے،  اور تم لوگ اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ اُس وقت ایمان لانے والے خوب آزمائے گئے اور بُری طرح ہلا مارے گئے (۲۱)
یاد کرو وہ وقت جب منافقین اور وہ سب لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا صاف صاف کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اُس کے رسولؐ نے جو وعدے ہم سے کیے تھے (۲۲) وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھے۔ جب اُن میں سے ایک گروہ نے کہا کہ ’’اے یثرب کے لوگو، تمہارے لیے اب ٹھہرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  پلٹ چلو(۲۳)‘‘۔  جب ان کا ایک فریق یہ کہہ کر نبیؐ سے رخصت طلب کر رہا تھا کہ ’’ہمارے گھر خطرے میں ہیں (۲۴)‘‘،    حالانکہ وہ خطرے میں نہ تھے (۲۵)،   دراصل وہ (محاذِ جنگ سے ) بھاگنا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشمن گھس آئے ہوتے اور اُس وقت انہیں فتنے کی طرف دعوت دی (۲۶) جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشکل ہی سے انہیں شریکِ فتنہ ہونے میں کوئی تامل نہ ہوتا۔ ان لوگوں نے اس سے پہلے اللہ سے عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے،  اور اللہ سے کیے ہوئے عہد کی باز پرس تو ہونی ہی تھی(۲۷)
اے نبیؐ! ان سے کہو، اگر تم موت یا قتل سے بھاگو تو یہ بھاگنا تمہارے لیے کچھ بھی نفع بخش نہ ہو گا۔ اس کے بعد زندگی کے مزے لوٹنے کا تھوڑا ہی موقع تمہیں مل سکے گا (۲۸)  ان سے کہو، کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکتا ہو اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے ؟ اور کون اس کی رحمت کو روک سکتا ہے اگر وہ تم پر مہربانی کرنا چاہے ؟ اللہ کے مقابلے میں تو یہ لوگ کوئی حامی و مددگار نہیں پا سکتے ہیں۔
اللہ تم میں سے اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو (جنگ کے کام میں ) رکاوٹیں ڈالنے والے ہیں،  جو اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ ’’آؤ ہماری طرف (۲۹)‘‘،  جو لڑائی میں حصہ لیتے بھی ہیں تو بس نام گنانے کو، جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں (۳۰)  خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں (۳۱)  یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے،  اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دئیے (۳۲)
 اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے (۳۳) ع

 

(۱۸) یہاں سے رکوع ۳ تک کی آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ بنی قریظہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ ان دونوں رکوعوں میں غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنی قریظہ کے واقعات پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ ان کو پڑھتے وقت اِن دونوں غزوات کی وہ تفصیلات نگاہ میں رہنی چاہییں جو ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں۔

 (۱۹) یہ آندھی اُسی وقت آ گئی تھی جبکہ دشمنوں کے لشکر مدینے پر چڑھ کر آئے تھے بلکہ اُس وقت آئی تھی جب محاصرے کو تقریباً ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ نظر نہ آنے والی ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد وہ مخفی طاقتیں ہیں جو انسانی معاملات میں اللہ تعالیٰ کے اشارے پر کام کرتے رہتی ہیں اور انسانوں کو ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔ انسان واقعات و حوادث کو صرف ان کے ظاہری اسباب پر محمول کرتا ہے۔ لیکن اندر ہی اندر غیر محسوس طور پر جو قوتیں کام کرتی ہیں وہ اس کے حساب میں نہیں آتیں،   حالانکہ اکثر حالات میں انہی مخفی طاقتوں کی کار فرمائی فیصلہ کن ثابت ہوتی ہے۔ یہ طاقتیں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کی ماتحتی میں کام کرتی ہیں اس لیے ’’ فوجوں ‘‘ سے مُراد فرشتے بھی لیے جا سکتے ہیں،  اگر چہ یہاں فرشتوں کی فوجیں بھیجنے کی صراحت نہیں ہے۔

(۲۰)اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ ہر طرف سے چڑھ آئے۔ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نجد اور خیبر سے چڑھ کر آنے والے اوپر سے آئے،  اور مکہ معظمہ کی طرف سے آنے والے نیچے سے آئے۔

 (۲۱)ایمان لانے والوں سے مُراد یہاں وہ سب لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ کا رسول مان کر اپنے آپ کو حضورؐ کے پیروؤں میں شامل کیا تھا،  جن میں سچے اہل ایمان بھی شامل تھے اور منافقین بھی۔ اس پیراگراف میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے گروہ کا مجموعی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد کے تین پیرا گرافوں میں منافقین کی روش پر تبصرہ کیا گیا ہے۔ پھر آخر کے دو پیراگراف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور مومنین صادقین کے بارے میں ہیں۔

(۲۲)یعنی اس امر کے وعدے کہ اہلِ ایمان کو اللہ کی تائید و نصرت حاصل ہو گی اور آخر کار غلبہ انہی کو بخشا جائے گا۔

(۲۳) اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ظاہری مطلب یہ ہے کہ خندق کے سامنے کفار کے مقابلے پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  شہر کی طرف پلٹ چلو۔ اور باطنی مطلب یہ ہے کہ اسلام پر ٹھیرنے کا کوئی موقع نہیں ہے،  اب اپنے آبائی مذہب کی طرف پلٹ جانا چاہیے تاکہ سارے عرب کی دمنی مول لے کر ہم نے جس خطرے میں اپنے آپ کو ڈال دیا ہے اُس سے بچ جائیں۔ منافقین اپنی زبان سے اس طرح کی باتیں اس لیے کہتے تھے کہ جو ان کے دام میں آ سکتا ہو اس کو تو اپنا باطنی مطلب سمجھا دیں،  لیکن جو ان کی بات سُن کر چوکناّ ہو اور اس پر گرفت کرے اس کے سامنے اپنے ظاہر الفاظ کی آڑ لے کر گرفت سے بچ جائیں۔

(۲۴)یعنی جب بنو قریظہ بھی حملہ آوروں کے ساتھ کل گئے تو ان منافقین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لشکر سے نکل بھاگنے کے لیے ایک اچھا بہانہ ہاتھ آ گیا اور انہوں نے یہ کہہ کر رخصت طلب کرنی شروع کی کہ اب تو ہمارے گھر ہی خطرے میں پڑ گئے ہیں،  لہٰذا ہمیں جا کر اپنے بال بچوں کی حفاظت کرنے کا موقع دیا جائے۔ حالانکہ اُس وقت سارے اہل مدینہ کی حفاظت کے ذمّہ در رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے۔ بنی قریظہ کے بد عہدی سے جو خطرہ بھی پیدا ہوا تھا اس سے شہر اور اس کے باشندوں کو بچانے کی تدبیر کرنا حضورؐ کا کام تھ نہ کہ فوج کے ایک ایک فرد کا۔

(۲۵) یعنی اس خطرے سے بچاؤ کا انتظام تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کر چکے تھے۔ یہ انتظام بھی دفاع کی اُس مجموعی  سکیم ہی کا ایک حصّہ تھا جس پر سالار لشکر کی حیثیت سے حضورؐ عمل فرما رہے تھے۔ اس لیے کوئی فوری خطرہ اس وقت نہ تھا جس کی بنا پر ان کا یہ عذر کسی درجے میں بھی معقول ہوتا۔

(۲۶) یعنی اگر شہر میں داخل ہو کر فاتح کفار اِن منافقین کو دعوت دیتے کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر مسلمانوں کو ختم کر دو۔

(۲۷)یعنی جنگِ اُحُد کی موقع پر جو کمزوری انہوں نے دکھائی تھی اس کی بعد شرمندگی و ندامت کا اظہار کر کے ان لوگوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اب آزمائش کا کوئی موقع پیش آیا تو ہم اپنے اس قصور کی تلافی کر دیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو محض باتوں سے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ جو شخص بھی اُس سے کوئی عہد باندھتے اُس کے سامنے کوئی نہ کوئی آزمائش کا موقع وہ ضرور لے آتا ہے تاکہ اس کا جھوٹ سچ کھل جائے۔ اس لیے وہ جنگ عہد  کے دو ہی سال بعد اُس سے بھی زیادہ بڑا خطرہ سامنے لے آیا۔

(۲۸)یعنی اِس فرار سے کچھ تمہاری عمر بڑھ نہیں جائے گی۔ اس کا نتیجہ بہر حال یہ نہیں ہو گا کہ تم قیامت تک جیو اور روئے زمین کی دولت پالو۔ بھاگ کر جیو گے بھی تو زیادہ سے زیادہ چند سال ہی جیو گے اور اُتنا ہی کچھ دنیا کی زندگی کا لطف اُٹھا سکو گے جتنا تمہارے لیے مقدّر ہے۔

(۲۹) معنی چھوڑو اس پیغمبر کا ساتھ۔ کہاں دین و ایمان اور حق و صداقت کے چکّر میں پڑے ہو؟ اپنے آپ کو خطرے اور مصائب میں مبتلا کرنے کے بجائے وہی عافیت کوشی کی پالیسی اختیار کر جو ہم نے اختیار کر رکھی ہے۔

(۳۰) یعنی اپنی محنتیں،  اپنے اوقات،  اپنی فکر، اپنے مال، غرض کوئی چیز بھی وہ اُس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے،  وہ کسی کام میں بھی کھلے دِل سے اہلِ ایمان دا ساتھ نہیں دینا چاہتے۔

(۳۱)لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے،  لہٰذا ہم بھی مالِ غنیمت کے حق دار ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مالِ غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصّہ،  ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں،  سب کچھ تم ہی لوگ نہ لُوٹ لے جاؤ۔

(۳۲) یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں،  جو روزے رکھے،  جو زکوٰتیں دیں،  اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالیٰ کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجر انھیں نہ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسولؐ کا اقرار کرتے تھے،  نمازیں پڑھتے تھے،  روزے رکھتے تھے،  زکوٰۃ بھی دیتے تھے،  اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے،  ان کی بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑے آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا،  دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں،  بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں۔ جہاں خدا اور اس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرار ایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں۔

(۳۳) یعنی اِن کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اُس کے لیے دُشوار ہو۔

 

در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا(۳۴)،   ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (۳۵)  اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ (۳۶) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ ’’یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات بالکل سچّی تھی‘‘(۳۷)  اس واقعہ نے اُن کے ایمان اور ان کی سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا۔ ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچّا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے (۳۹)  انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچّوں کو ان کی سچائی کی جزا دے اور منافقوں کو چاہے تو سزا دے اور چاہے تو ان کی توبہ قبول کر لے،  بے شک اللہ غفور و رحیم ہے۔
اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے،  اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہو گیا، اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کا ساتھ دیا تھا(۴۰)، ع

 

(۳۴) جس سیاق و سباق میں یہ آیت ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسُولؐ پاک کے طرزِ عمل کو اس جگہ نمونہ کے طور پر پیش کرنے سے مقصُود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگِ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباعِ رسول کے مدّعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جس رسولؐ کے پیروؤں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویّہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو۔ خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو،  پھر تو اس کی پیروؤں کی طرف سے اِن کمزوریوں کا اظہار معقول ہو سکتا ہے۔ مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپؐ خود سب کے ساتھ شریک تھے،  بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپؐ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوستوں نے اُٹھائی ہو اور آپؐ نے نہ اُٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپؐ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اُٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپؐ کا حصّہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دَوران میں آپؐ ہر وقت محاذ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غدّاری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچّے مبتلا تھے اسی میں آپؐ کے بال بچّے بھی مبتلا تھے۔ آپؐ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لیے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِ عظیم کے لیے آپؐ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کر رہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپؐ خود اپنا سب کچھ قربان کر دینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آہؐ کے اتباع کا مدّعی تھا اسے یہ نمونہ  دیکھ کر اس کی  پیروی کرنی چاہیے تھی۔

یہ تو موقع محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے۔ مگر اس کے الفاظ عام ہی اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اس کے رسولؐ کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے،  بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملہ میں آپؐ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالیں۔

(۳۵)یعنی اللہ سے غافل آدمی کے لیے تو یہ زندگی نمونہ نہیں ہے مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو کبھی کبھار اتفاقاً خدا کا نام لے لینے والا نہیں بلکہ کثرت سے اس کو یاد کرنے اور یاد رکھنے والا ہو۔ اسی طرح یہ زندگی اُس شخص کے لیے تو نمونہ نہیں ہے جو اللہ سے کوئی اُمّید اور آخرت کے آنے کی کوئی توقع نہ رکھتا ہو، مگر اُس شخص کے لیے ضرور نمونہ ہے جو اللہ کے فضل اور اس کی عنایات کا اُمیدوار ہو اور جسے یہ بھی خیال ہو کہ کوئی آخرت آنے والی ہے جہاں اس کی بھلائی کا سارا انحصار ہی اس پر ہے کہ دنیا کی زندگی میں اس کا رویّہ رسُولِؐ خُدا کے رویّے سے کس حد تک قریب تر رہا ہے۔

(۳۶) رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے نمونے کی طرف توجہ دلانے کے بعد اب اللہ تعالیٰ صحابۂ کرام کے طرزِ عمل کو نمونے کے طور پر پیش فرماتا ہے تاکہ ایمان کے  جھوٹے مدعیوں اور سچّے دِل سے رسولؐ کی پیروی اختیار کرنے والوں کا کردار ایک دوسرے کے مقابلہ میں پوری طرح نمایاں کر دیا جائے۔ اگر چہ ظاہری اقرارِ ایمان میں وہ اور یہ یکساں تھے۔ مسلمانوں کے گروہ میں دونوں کا شمار ہوتا تھا اور نمازوں میں دونوں شریک ہوتے تھے۔ لیکن آزمائش کی گھڑی پیش آنے پر دونوں ایک دوسرے سے چھٹ کر الگ ہو گئے اور صاف معلوم ہو گیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے مخلص وفادار کون ہیں اور محض نام کے مسلمان کون۔

(۳۷)اس موقع پر آیت نمبر ۱۲ کو نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ وہاں بتایا گیا تھا کہ جو لوگ منافق اور دِل کے روگی تھے انہوں نے دس بارہ ہزار کے لشکر کو سامنے سے اور بنی قریظہ کو پیچھے سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو پُکار پکار کر کہنے لگے کہ’’ سارے وعدے جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے ہم سے کیے تھے محض جھوت اور فریب نکلے کہا تو ہم سے یہ گیا تھا کہ دینِ خدا پر ایمان لاؤ گے تو خدا کی تائید تمہاری پشت پر ہو گی،  عرب و عجم پر تمہارا سکّہ رواں ہو گا،  اور قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے لیے کھُل جائیں گے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ سارا عرب ہمیں مٹا دینے پر تُل گیا ہے اور کہیں سے فرشتوں کی وہ فوجیں آتی نظر نہیں آ رہیں جو ہمیں اس سیلاب بلا سے بچا لیں۔ ‘‘ اب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے وعدوں کا ایک مطلب تو وہ تھا جو اُن جھوٹے مدّعیانِ ایمان نے سمجھا تھا۔ دوسرا مفہوم وہ ہے جو ان صادق الایمان مسلمانوں نے سمجھا۔ خطرات اُمنڈتے دیکھ کر اللہ کے وعدے تو ان کو بھی یاد آئے،  مگر یہ وعدے نہیں کہ ایمان لاتے ہی اُنگلی ہلائے بغیر تم دنیا کے فرمانروا ہو جاؤ گے اور فرشتے آ کر تمہاری تاجپوشی کی رسم ادا کریں گے،  بلکہ یہ وعدے کہ سخت آزمائشوں سے تم کو گزرنا ہو گا،  مصائب کے پہاڑ تم پر ٹوٹ پڑیں گے،  گراں ترین قربانیاں تمہیں دینی ہوں گی، تب کہیں جا کر اللہ کی عنایات تم پر ہوں گی اور تمہیں دنیا اور آخرت کی وہ سرفرازیاں بخشی جائیں گی جن کا وعدہ اللہ نے اپنے مومن بندوں سے کیا ہے :

اَمْ حَسِبْتُمْ اَن تَدْ خُلُواالْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ۔ ط  مَسَّتْھُمُ الْبَاْ سَآ ئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْ احَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ امَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللہِ۔ ط۔ اَلَآاِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبُٗ O(البقرہ۔ آیت ۲۱۴)

کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں بس یوں ہی داخل ہو جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی وہ حالات تو تم پر گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکے ہیں۔ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا مارے گئے یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھی پکار اُٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد۔۔ سنو، اللہ کی مدد قریب ہے۔

اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓااَنْیَّقُوُلُوْٓااٰمَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَoوَلقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنً صَدَقُوْاوَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِ بِیْنَo(العنکبوت: ۲۔ ۳)

کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس یہ کہنے پر وہ چھوڑ دیے جائیں گے کہ ’’ ہم ایمان لائے ‘‘ اور انھیں آزمایا نہ جائیگا؟ حالانکہ ہم نے اُن سب لوگوں کو آزمایا ہے جو اُن سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو یہ ضرور دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون۔

(۳۸) یعنی اس سیلابِ بلا کو دیکھ کر ان کے ایمان متزلزل ہونے کے بجائے اور زیادہ بڑھ گئے،  اور اللہ کی فرماں برداری سے بھاگ نکلنے کے بجائے وہ اور زیادہ یقین و اطمینان کے ساتھ اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔

اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ایمان و تسلیم دراصل نفس کی ایک ایسی کیفیت ہے جو دین کے ہر حکم اور ہر مطالبے پر امتحان میں پڑ جاتی ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہر ہر قدم پر آدمی کے سامنے وہ مواقع آتے ہیں جہاں دین یا تو کسی چیز کا حکم دیتا ہے،  یا کسی چیز سے منع کرتا ہے،  یا جان اور مال اور وقت اور محنت اور خواہشاتِ نفس کی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ ایسے ہر موقع پر جو شخص اطاعت سے انحراف کرے گا اُس کے ایمان و تسلیم میں کمی واقع ہو گی،  اور جو شخص بھی حکم کے آگے سر جھکا دے گا اس کے ایمان و تسلیم میں اضافہ ہو گا۔ اگر چہ ابتداءً آدمی صرف کلمۂ اسلام کو قبول کر لینے سے مومن و مسلم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کوئی سکن و جامد حالت نہیں ہی جو بس ایک ہی مقام پر ٹھیری رہتی ہو، بلکہ اس میں تنزل اور ارتقاء دونوں کے امکانات ہیں۔ خلوص اور اطاعت میں کمی اس کے تنزّل کی موجب ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص پیچھے ہٹتے ہٹتے ایمان کی اس آخری سرحد پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے یک سرِ مو بھی تجاوز کر جائے تو مومن کے بجائے منافق ہو جائے اس کے برعکس خلوص جتنا زیادہ ہو، اطاعت جتنی مکمل ہو اور دین حق کی سر بلندی کے لیے لگن اور دھُن جتنی بڑھتی چلی جائے،  ایمان اُسی نسبت سے پڑھتا چلا جاتا ہے،  یہاں تک کہ آدمی صدّیقیّت کے مقام تک پہنچ جاتا ہے لیکن یہ کمی و بیشی جو کچھ بھی ہے اخلاقی مراتب میں ہے جس کا حساب اللہ کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا بندوں کے لیے ایمان بس ایک ہی اقرار تصدیق ہے جس سے ہر مسلمان داخِل اسلام ہوتا ہے اور جب تک اس پر قائم رہے۔ مسلمان مانا جاتا ہے۔ اس کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ آدھا مسلمان ہے اور یہ پاؤ،  یا یہ دوگنا مسلمان ہے اور یہ تین گنا۔ اسی طرح قانونی حقوق میں سب مسلمان یکساں ہیں،  یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی کو ہم زیادہ مومن کہیں اور اس کی حقوق زیادہ ہوں،  اور کسی کو کم مومن قرار دیں اور اس کے حقوق کم ہوں۔ اِن اعتبارات سے ایمان کی کمی و بیشی کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اور دراصل اسی معنی میں امام ابو حنیفہؒ نے یہ فرمایا ہے کہ  الایمان لا یزید ولا ینقص، ’’ایمان کم و بیش نہیں ہوتا‘‘۔

(۳۹)یعنی کوئی اللہ کی راہ میں جان دے چکا ہے اور کوئی اس کے لیے تیار ہے کہ وقت آئے تو اس کے دین کی خاطر اپنے خون کا نذرانہ پیش کر دے۔

(۴۰)یعنی یہود بنی قریظہ۔

 

اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لایا اور ان کے دلوں میں اس نے ایسا رُعب ڈال دیا کہ آج ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر رہے ہو۔ اس نے تم کو ان کی زمین اور ان کے گھروں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور وہ علاقہ تمہیں دیا جسے تم نے کبھی پامال نہ کیا تھا۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے نبیؐ(۴۱)!
اپنی بیویوں سے کہو،  اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کی طالب ہو تو جان لو کہ تم میں سے جو نیکوکار  ہیں اللہ نے ان کے لیے بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (۴۲)  نبیؐ کی بیویو، تم میں سے جو کسی صریح فحش حرکت کا ارتکاب کرے گی اسے دوہرا عذاب دیا جائے گا(۴۳)،   اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے (۴۴)  اور تم میں سے جو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل کرے گی اس کو ہم دوہرا اجر دیں گے (۴۵) اور ہم نے اس کے لیے رزقِ کریم مہیا کر رکھا ہے۔
نبیؐ کی بیویو، تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو(۴۶)  اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے،  بلکہ صاف سیدھی بات کرو‘‘(۴۷)  اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو(۴۸) اور سابق دَورِ جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو(۴۹)  نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اہل بیت نبیؐ سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے (۵۰)  یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں (۵۱)  بے شک اللہ لطیف (۵۲)اور باخبر ہے۔  ع

 

(۴۱) یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگِ احزاب اور بنی قُریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؐ کی ازواج آپؐ کے گرد بیٹھی ہیں اور آپؐ خاموش ہیں۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ کو خطاب کر کے فرمایا :

 حضرت عمر ؓ کو خطاب کر کے فرمایا : ’’ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْاءَ لْنَبِی النفقۃ، ‘‘ یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ‘‘۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ علیہ و سلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپؐ کے پاس نہیں ہے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضورؐ اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاجِ مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے۔

      (۴۲) اس آیت کے نزول کے وقت حضورؐ کے نکاح میں چار بیویاں تھیں،  حضرت سَودہؓ، حضرت حفصہؓ، اور حضرت ام سَلمہؓ۔ ابھی حضرت زینب ؓ سے حضورؐ کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ (احکام لابن العربی طبع مصر  ۱۹۵۸ عیسوی،  جلد ۳، ص ۱۳۔ ۱۵۱۲)۔

جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپؐ نے سب سے پہلے حضرت عائشہ ؓ سے گفتگو کی اور فرمایا ’’ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں،  جواب دینے میں جلدی نہ کرنا، اپنے والدین کی رائے لے لو، پھر فیصلہ کرو ‘‘پھر حضورؐ نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی۔ انھوں نے عرض کیا، ’’ کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو چاہتی ہوں۔ ‘‘ اس کے بعد حضورؐ باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک سے یہی بات فرمائی، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ ؓ نے دیا تھا۔ مسند احمد،  مسلم،  نَسائی)

      اِصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں،  یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر واجب تھی،  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضورؐ کو حکم دیا تھا۔ اگر ازواجِ مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپؐ سے آپ جُدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضورؐ کے جدا کرنے سے ہوتیں،  جیسا کہ آیت کے الفاظ’’ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن حضورؐ پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں اُن کو جدا کر دیتے،  کیوں کہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور اُن سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا،  کیوں کہ وہ دُنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِؐ پاک سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسولؐ اور دارِ آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضورؐ کے لیے باقی نہ رہا، کیوں کہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جُدا کر دیا جائے۔  دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسولؐ اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون کرنیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا۔

    اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

     ۱۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اُس کے استعمال سے روک سکتا ہے۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے،  چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے،  اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یوں ہی ضائع ہو جانے دے۔

      ۲۔ اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو۔ مثلاً اگر وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ یا’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ نا چاقی اور جھگڑے کی حالت میں،  یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے،  کیوں کہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی۔۔ دوّم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے۔ اگر وہ غائب ہو تو اُسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے،  اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سُننے چاہییں۔ جب تک وہ سُنے نہیں،  یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا۔

     ۳۔ اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اُسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اُٹھ جائے،  یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی،  تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا۔ یہ رائے حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ،  حضرت ابن مسعودؓ، حضرت جابرؓ بن عبد اللہ، جابر بن زید، عطاء، مجاہر، شَعبِی،  نَخَعِی، امام مالک، امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام اَوزاعی، سفیان ثَوری اور ابو ثَور کی ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری، قتَادہ اور زُہْری کی ہے۔

     ۴۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے،  مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے،  یا اتنی مدّت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدّت تک اس کو حاصل رہے گا۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا۔  

     ۵۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے۔ مبہم الفاظ جن سے مدّعا واضح نہ ہوتا ہو، مؤثر نہیں ہو سکتے۔

      ۶۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کہے ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ دوسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ تیسرے یہ کہ وہ کہے ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے۔ ‘‘ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں :

  الف۔ ’’ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنیفہ   کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی(یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا،    لیکن عدّت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں )۔ اور اگر شوہر نے    کہا ہو کہ’’ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ‘‘ تو اس صورت میں ایک            طلاق رجعی پڑے گی( معنی عدّت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے  معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو، یا اس کی تصریح کی ہو تو   اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ و ہ بصراحت اپنے اوپر تین    طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق   دی۔

      ب۔   ’’ تجھے اختیار ہے ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور  عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنیفہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن    پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا دینے کی ہو، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین  طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیارِ طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں   گی۔ امام شافعیؒ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ امام مالک ؒ کے نزدیک    مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک  طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا۔

      ج۔  ’’ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ‘‘ کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن۔

         ۷۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہ ؓ،  حضرت ابو الدرداءؓ،  ابن عباسؓ، اور ابن عمرؓ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے۔ حضرت عائشہؓ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نساء ہ فا خترنہ  اکان ذٰلک طلاقاً؟’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضورؐ ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا،  پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا‘‘ ؟اس معاملہ میں صرف حضرت علیؓ اور زیدؓ بن ثابت کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی۔

      (۴۳)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہّرات سے کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا۔ بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمّہ داریاں بھی  بہت سخت ہیں،  اس لیے ان کا اخلاقی رویہّ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لِئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ، ’’اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہو جائے گا‘‘ (الزمر۔ آیت ۶۵) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ حضورؐ سے شرک کا کوئی اندیشہ تھا، بلکہ اس سے مقصود حضورؐ کو اور آپؐ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احتراز لازم ہے۔

      (۴۴)۔ یعنی تم اس بھُلاوے میں نہ رہنا کہ نبی کی  بیویاں ہونا تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے،  یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ اُن کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آ سکتی ہے۔

     (۴۵)۔ گناہ پر دوہرے عذاب اور نیکی پر دوہرے اجر کی وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ انسانی معاشرے میں کسی بلند مرتبے پر سرفراز فرماتا ہے وہ بالعموم لوگوں کے رہنما بن جاتے ہیں اور بندگانِ خدا کی بڑی تعداد بھلائی اور بُرائی میں انہی کی پیروی کرتی ہے۔ اُن کی بُرائی تنہا انہی کی بُرائی نہیں ہوتی بلکہ ایک قوم کے بگاڑ کی موجب بھی ہوتی ہے اور ان کی بھلائی صرف انہی کی انفرادی بھلائی نہیں ہوتی بلکہ بہت سے انسانوں کی فلاح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اس لیے جب وہ بُرے کام کرتے ہیں تو اپنے بگاڑ کے ساتھ دوسروں کے بگاڑ کی بھی سزا پاتے ہیں۔ اور جب وہ نیک کام کرتے ہیں تو انہیں اپنی نیکی کے ساتھ اس بات کی جزا بھی ملتی ہے کہ انہوں نے دوسروں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔

      اس آیت سے یہ اصول بھی نکلتا ہے کہ جہاں جتنی زیادہ حرمت ہو گی اور جس قدر زیادہ امانت کی توقع ہو گی، وہاں اسی قدر زیادہ ہتک حرمت اور ارتکابِ خیانت کا جرم شدید ہو گا اور اسی قدر زیادہ اس کا عذاب ہو گا۔ مثلاً مسجد میں شراب پینا اپنے گھر میں شراب پینے سے شدید تر جرم ہے اور اس کی سزا زیادہ سخت ہے۔ محرّمات سے زنا کرنا غیر عورت سے زنا کی بہ نسبت اشدّ ہے اور اس پر زیادہ سخت عذاب ہو گا۔

      (۴۶)۔ یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے۔ اِن آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں اِن اصلاحات کو نافذ کرنا ہے۔ ازواجِ مطہّرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب  نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہو گی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی، کیونکہ یہی گھر اُن کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواجِ مطہّرات سے ہے،  یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ کونسی بات ایسی ہے جو حضورؐ کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواجِ مطہّرات ہی گندگی سے پاک ہوں،  اور وہی اللہ و رسولؐ کی اطاعت کریں،  اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں ؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے ؟

      رہا یہ فقرہ کہ ’’ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو‘‘ تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہے یے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں ‘ البتہ تم ایسا طرزِ عمل اختیار نہ کرو۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرزِ کلام کچھ اس طرح کا ہی جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ’’ تمہیں گالی نہ بَکنی چاہیے۔ ‘‘ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدّعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بَکنے کو بُرا سمجھتا ہے،  دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

(۴۷)۔ یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے،  لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور اندازِ گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دِل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے۔ اُس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو،  اُس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو،  اُس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھُلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمّت دلائے۔ اس طرزِ گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ ؟صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دِل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومناتِ متّقیات کا۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ (اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو) تو ربّ العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذاں دینا ممنوع ہے۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اُسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبّہ ہو جائے۔

        اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار اندازِ گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے،  کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے ناچے،  تھرکے، بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سُنا سُنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان (Air-hostess)بنائی جائیں اور انھیں خاص طور پر مسافروں کا دِل لُبھانے کی تربیت دے جائے ؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھُل مِل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے۔

(۴۸)۔ اصل میں لفظ قَرْنَ استعمال ہوا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اس کو ’’قرار ‘‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور بعض نے ’’ وقار ‘‘ سے۔ اگر اس کو قرار سے لیا جائے تو معنی ہوں گے ’’ قرار پکڑو‘‘۔ ’’ ٹِک رہو ‘‘۔ اور اگر وقار سے لیا جائے تو مطلب ہو گا ’’ سکون سے رہو‘‘، ’’ چین سے بیٹھو ‘‘۔ دونوں صورتوں میں آیت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا اصل دائرہ عمل اس کا گھر ہے،  اُس کو اسی دائرے میں رہ کر اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض انجام دینے چاہییں،  اور گھر سے باہر صرف بضرورت ہی نکلنا چاہیے۔ یہ منشا خود آیت کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث اس کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہیں۔ حافظ ابو بکر بَزّار حضرت انس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ ساری فضیلت تو مرد لُوٹ لے گئے،  وہ جہاد کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ ہم کیا عمل کریں کہ ہمیں بھی مجاہدین کے برابر اجر مِل سکے ؟ جواب میں فرمایا  من قعدت منکن فی بیتھا فانھا تدرک عمل المجاھدین  جو تم میں سے گھر میں بیٹھے گی وہ مجاہدین کے عمل کو پالے گی‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ مجاہد دِل جمعی کے ساتھ اسی وقت تو خدا کی راہ میں لڑ سکتا ہے جبکہ اسے اپنے گھر کی طرف سے پورا اطمینان ہو، اس کے بیوی اس کے گھر اور بچوں کو سنبھالے بیٹھی ہو، اور اسے کوئی خطرہ اس امر کا نہ ہو کہ پیچھے وہ کوئی گُل کھِلا بیٹھے گی۔ یہ اطمینان جو عورت اسے فراہم کرے گی وہ گھر بیٹھے اس کے جہاد میں برابر کی حصّہ دار ہو گی۔ ایک اور روایت جو بزّار اور ترمذی نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کی ہے اس میں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد بیان کرتے ہیں کہ  انّ المرأۃ عورۃ فاذ اخرجت استشرفھا الشیطان و اقرب ما تکون بروحۃ ربھاوھی فی قعربیتھا۔ ’’ عورت مستور رہنے کے قابل چیز ہے۔ جب وہ  نِکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت سے قریب تر وہ اُس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے گھر میں ہو‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور،  حاشیہ ۴۹)

     قرآن مجید کے اس صاف اور صریح حکم کی موجودگی میں اس بات کی آخر کیا گنجائش ہے کہ مسلمان عورتیں کونسلوں اور پارلیمنٹوں کی ممبر بنیں،  بیرون خانہ کی سوشل سرگرمیوں میں دَوڑتی پھریں،  سرکاری دفتروں میں مردوں کے ساتھ کام کریں،  کالجوں میں لڑکوں کے ساتھ تعلیم پائیں،  مردانہ ہسپتالوں میں نرسنگ کی خدمت انجام دیں،  ہوائی جہازوں اور ریل کاروں میں ’’ مسافر نوازی ‘‘ کے لیے استعمال کی جائیں،  اور تعلیم و تربیت کے لیے امریکہ و انگلستان بھیجی جائیں عورت کے بیرونِ خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی سے بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے جنگِ جَمَل میں حصّہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں ہے کہ خود حضرت عائشہؓ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبداللہ بن احمد بن   حنبل نے ز وائدالزھد میں،  اور ابن المُنذِر،  ابن ابی شَیْبَہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مَسْروق کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ جب تلاوت قرآن کرتے ہوئے اِس آیت (وَقَرْنَ فِی بُیُوْتِکُنَّ)پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹّہ بھیگ جاتا تھا، کیونکہ اس پر انہیں اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو اُن سے جنگ جَمَل میں ہوئی تھی۔

(۴۹)۔ اس آیت میں دو اہم الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا سمجھنا آیت کے منشا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ ایکََتَبُّرج ‘ دوسرے جاہلیت اولیٰ۔

     تَبَرُّج کے معنی عربی زبان میں نمایاں ہونے ‘ ابھرنے اور کھُل کر سامنے آنے کے ہیں۔ ہر ظاہر اور مرتفع چیز کے لیے عرب لفظ ’’ بَرَ ج‘‘ استعمال کرتے ہیں ’’  بُرج ‘‘ کو ’’بُرج اس کے ظہور و ارتفاع کی بنا پر ہی کہا جاتا ہے۔ بادبانی کشتی کے لیے ’’بارجہ‘‘ کا لفظ اسی لیے بولا جاتا ہے کہ اس کے بادبان دور سے نمایاں ہوتے ہیں۔ عورت کے لیے جب لفظ تَبَرُّج استعمال کیا جائے تو اس کے تین مطلب ہوں گے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے چہرے اور جسم کا حُسن لوگوں کو دکھائے،  دوسرے یہ کہ وہ اپنے لباس اور زیور کی شان دوسروں کے سامنے نمایاں کرے۔ تیسرے یہ کہ وہ اپنی چال ڈھال اور چَٹک مَٹک سے اپنے آپ کو نمایاں کرے۔ یہی تشریح اس لفظ کی اکابر اہلِ لُغت اور اکابر مفسرین نے کی ہے۔ مجاہد، قَتَادہ اور ابن انی نُجَیح کہتے ہیں : التبُّرج المشی بتبختُرو تکسر و تفنج ’’ تبرُّج کے معنی ہیں نازو اد ا کے ساتھ لچکے کھاتے اور اِٹھلاتے ہوئے چلنا ‘‘ مُقاتل کہتے ہیں : ابد أ قلائد ھا و قرطھا و عنقھا  ’’ عورت کا اپنے ہار اور اپنے بُندے اور اپنا گلا نمایاں کرنا‘‘۔ المبّرد کا قول ہے : ان تبدی من محاسنھاما یجب علیھا سترہٗ ’’ یہ کہ عورت اپنے وہ محاسن ظاہر کر دے جن کو اسے چھپانا چاہیے۔ ‘‘ ابو عبیدہ کی تفسیر ہے : ان تُخرج من محا سنھا ما تستدھی بہٖ شہوۃ الرّجَال۔ ’’یہ کہ عورت اپنے جسم لباس کے حسب کو نمایاں کرے جس سے مردوں کو اس کی طرف رغبت ہو‘‘۔

      جاہلیّت کا لفظ قرآن مجید میں اس مقام کے علاوہ تین جگہ اور استعمال ہوا ہے۔ ایک،  آل عمران کی آیت ۱۵۴ میں،  جہاں اللہ کی راہ میں لڑنے سے جی چُرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ ’’ اللہ کے بارے میں حق کے حلاف جاہلیّت کے سے گمان رکھتے ہیں۔ ‘‘دوسرے سُورۂ مائدہ،  آیت  ۵۰ میں،  جہاں خدا کے قانون کے بجائے کسی اور قانون کے مطابق اپنے مقدمات کا فیصلہ کرانے والوں کے متعلق فرمایا گیا ’’ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ ‘‘ تیسرے سُورۂ فتح،  آیت ۲۶ میں،  جہاں کفّار مکہّ کے اِس فعل کو ’’ حمیت جاہلیہ ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں نے محض تعصّب کی بنا پر مسلمانوں کو عمرہ نہ کرنے دیا۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو الدرداء نے کسی سے جھگڑا کرتے ہوئے اس کو ماں کی گالی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سُنا تو فرمایا’’ تم میں ابھی تک جاہلیت موجود ہے ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورؐ  نے فرمایا ’’ تین کام جاہلیّت کے ہیں۔ دوسروں کے نسب پر طعن کرنا،  ستاروں کی گردش سے فال لینا،  اور مُردوں پر نوحہ کرنا‘‘۔ ان تمام استعمالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جا ہلیّت سے مُراد اسلام کی اصطلاح میں ہر وہ طرزِ عمل ہے جو اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی اخلاق و آداب اور اسلامی ذہنیت کے خلاف ہو۔ اور جاہلیّت اولیٰ کا مطلب وہ بُرائیاں ہیں جن میں اسلام سے پہلے عرب کے لوگ اور دنیا بھر کے دوسرے لوگ مبتلا تھے۔

     اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرزِ عمل سے عورتوں کو روکنا چاہتا ہے وہ ان کا اپنے حسن کی نمائش کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکلنا ہے۔ وہ ان کو ہدایت فرماتا ہے کہ اپنے گھروں میں ٹِک کر رہو، کیوں کہ تمہارا اصل کام گھر میں ہے نہ کہ اس سے باہر۔ لیکن اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو اس شان کے ساتھ نہ نکلو جس کے ساتھ سابق دَورِ جاہلیت میں عورتیں نکلا کرتی تھیں۔ بن ٹھن کر نکلنا،  چہرے اور جسم کے حُسن کو زیب و زینت اور چُست لباسوں یا عُریاں لباسوں سے نمایاں کرنا، اور ناز و ادا سے چلنا ایک مسلم معاشرے کی عورتوں کا کام نہیں ہے۔ یہ جاہلیت کے طور طریقے ہیں جو اسلام میں نہیں چل سکتے۔ اب یہ بات ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو ثقافت ہمارے ہاں رائج کی جا رہی ہے وہ قرآن کی رو سے اسلام کی ثقافت ہے یا جاہلیت کی ثقافت۔ البتہ اگر کوئی اور قرآن ہمارے کار فرماؤں کے پاس آ گیا ہے جس سے اسلام کی یہ نئی رُوح نِکال کر مسلمانوں میں پھیلائی جا رہی ہے تو بات دوسری ہے۔

( ۵۰)۔ جس سیاق و سباق میں یہ آیت وارد ہوئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں اہل البیت سے مُراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں ہیں۔ کیونکہ خطاب کا آغاز ہی  یَا نِساءالنبی کے الفاظ سے کیا گیا ہے اور ما قبل و ما بعد کی پوری تقریر میں وہی مخاطب ہیں۔ علاوہ بریں ’’ اہل البیت‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ٹھیک انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جن میں ہم ’’ گھر والوں ‘‘ کا لفظ بولتے ہیں،  اور اس کے مفہوم میں آدمی کی بیوی اور اس کے بچے،  دونوں شامل ہوتے ہیں۔ بیوی کو مستثنٰی کر کے ’’ اہل خانہ‘‘ کا لفظ کوئی نہیں بولتا۔ خود قرآن مجید میں بھی اس مقام کے سوا دو مزید مقامات پر یہ لفظ آیا ہے اور دونوں جگہ اس کے مفہوم میں بیوی شامل،  بلکہ مقدم ہے۔ سورۂ ہود میں جب فرشتے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کی پیدائش کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی اہلیہ اسے سُن کر تعجب کا اظہار کرتی ہیں کہ بھلا اس بڑھاپے میں ہمارے ہاں بچہ کیسے ہو گا۔ اس پر فرشتے کہتے ہیں اَتَعْجَبِیْنَ مِنْ اَمْرِاللّٰہِ رِحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الْبَیْتِ۔ کیا تم اللہ کے امر پر تعجب کرتی ہو؟اِس گھر کے لوگو، تم پر تو اللہ کی رحمت ہے اور اس کی برکتیں ہیں۔ ‘‘سُورۂ قصص میں جب حضرت موسیٰ ایک شیر خوار بچے کی حیثیت سے فرعون کے گھر میں پہنچتے ہیں اور فرعون کی بیوی کو کسی ایسی انّا کی  تلاش ہوتی ہے جس کا دودھ بچہ پی لے تو حضرت موسیٰؑ کی بہن جا کر کہتی ہیں  ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلیٰٓاَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْ نَہٗ لَکُمْ۔ ’’ کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کا بتہ دوں جو تمہارے لیے اس بچے کی پرورش کا ذمّہ لیں ‘‘؟ پس محاورہ، اور قرآن کے استعمالات، اور خود اس آیت کا سیاق و سباق،  ہر چیز اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ بنی صلی اللہ و سلم کے اہلِ بیت میں آپ کی ازواج مطہرات بھی داخل ہیں اور آپ کی اولاد بھی۔ بلکہ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ آیت کا اصل خطاب ازواج سے ہے اور اولاد مفہوم لفظ سے اس میں شامل قرار پاتی ہے۔ اسی بنا پر ابن عباس اور عُروہ بن زبیر اور عکْرمہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں اہل البیت سے مراد ازواج النبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔

     لیکن اگر کوئی کہ کہے کہ ’’ اہل البیت ‘‘ کا لفظ صرف ازواج کے لیے استعمال ہوا ہے اور اس میں دوسرا کوئی داخل نہیں ہو سکتا، تو یہ بات بھی غلط ہو گی۔ صرف یہی نہیں کہ ’’گھر والوں ‘‘ کے لفظ میں آدمی کے سب اہل و عیال شامل ہوتے ہیں،  بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود تصریح فرمائی ہے کہ وہ بھی شامل ہیں۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ سے ایک مرتبہ حضرت علیؓ کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: تساءلنی عن رجل کان من احبّ الناس الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم وکانت تحتہ ابنتۃ واحبّ الناس الیہ۔ ’’تم اس شخص کے متعلق پوچھتے ہو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محبوب ترین لوگوں میں سے تھا اور جس کی بیوی حضورؐ کی وہ بیٹی تھی جو آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب تھی۔ ‘‘ اس کے بعد حضرت عائشہؓ نے یہ واقعہ سُنایا کہ حضورؐ نے حضرت علیؓ اور فاطمہؓ اور حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان پر ایک کپڑا ڈال دیا اور دُعا فرمائی اللھمّ ھٰؤلاء اھلُ بیتی فاَذْھِبْ عنھُمالرّ جس و طھّر ھم تطھیراً۔ خدایا یہ میرے اہل بیت ہیں،  ان سے گندگی دو دور کر دے۔ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا، میں بھی تو آپ کے اہل بیت میں سے ہوں (یعنی مجھے بھی اس کپڑے میں داخل کر کے میرے حق میں دعا فرمائے )۔ حضورؐ نے فرمایا، ’’ تم الگ رہو، تم تو    ہو ہی۔ ‘‘اس سے ملتے جلتے مضمون کی بکثرت احادیث مسلم،  ترمذی۔ احمد، ابن جَریر، حاکم، بیہقی وغیرہ محدّثین نے انو سعید خُدریؓ،  حضرت اَنَس ؓ، حضرت اُمِّ سلمہؓ، حضرت واثِلہ بن اَسْقَع اور بعض دوسرے صحابہ ؓسے نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کے دونوں صاحبزادوں کو اپنا اہل البیت قرار دیا۔ لہٰذا اُن لوگوں کا خیال غلط ہے جو ان حضرات کو اس سے خارج ٹھہراتے ہیں۔

     اِسی طرح ا ن لو گوں کی رائے بھی غلط ہے جو مذکورۂ بالا احادیث کی بنیاد پر ازواج مطہرات کو اہل البیت سے خارج ٹھیراتے ہیں۔ اول تو جو چیز صراحتہً قرآن سے ثابت ہو اس کو کسی حدیث کے بل پر  رد نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرے ‘ خود ان احادیث کا مطلب بھی وہ نہیں ہے جو ان سے نکالا جا ربا ہے۔ ان میں سے بعض روایت میں جو یہ بات آئی یہ کہ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت ا مّ سلمہ ؓ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اُس چادر کے نیچے نہیں لیا جس میں حضورؐ نے ان چاروں اصحابؓ کو لیا تھا ‘ اُس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضورؐ نے ان کو اپنے ’’گھر والوں ‘‘ سے خارج قرار دیا تھا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیویاں تو اہل بیت میں شامل تھیں ہی ‘ کیونکہ قرآن نے انہی کو مخاطب کیا تھا ‘ لیکن حضورؐ کو اندیشہ ہوا کہ ان دوسرے اصحاب کے متعلق ظاہر قرآن کے لحاظ سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو جائے کہ یہ اہل بیت سے خارج ہیں،  اس لیے آپؐ نے تصریح کی  ضرورت ان کے حق میں محسوس فرمائی نہ کہ ازواجِ مطہّرات کے حق میں۔

       ایک گروہ نے اس آیت کی تفسیر میں صرف اتنا ہی ستم نہیں کیا ہے کہ ازواج مطہّرات کو ’’ اہل البیت ‘‘ سے خارج کر کے صرف حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد کے لیے اس لفظ کو خاص کر دیا، بلکہ اس پر مزید ستم یہ بھجی کیا ہے کہ اس کے الفاظ ’’ اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی کو دور کرے اور تمہیں پوری طرح پاک کر دے ‘‘ سے یہ نتیجہ نکال لیا کہ حضرت علیؓ و فاطمہؓ اور ان کی اولاد انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ’’گندگی‘‘ سے مراس خطا اور گناہ ہے اور ارشادِ اِلٰہی کی رو سے یہ اہل البیت اس سے پاک کر دیے گئے ہیں۔ حالانکہ آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ تم سے گندگی دور کر دی گئی اور تم بالکل پاک کر دیے گئے۔ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ اللہ تم سے گندگی کو دُور کرنا اور تمہیں پاک کر دینا چاہتا ہے۔ سیاق و سباق بھی یہ نہیں بتاتا کہ یہاں مناقبِ اہل بیت بیان کرنے مقصود ہیں،  بلکہ یہاں تو اہل بیت کو نصیحت کی گئی ہے کہ تم فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تمہیں پاک کرنا چاہتا ہے۔ بالفاظِ دیگر مطلب یہ  ہے کہ تم فلاں رویہّ اختیار کرو گے تو پاکیزگی کی نعمت تمہیں نصیب ہو گی ورنہ نہیں۔ تاہم اگر یُرِیْدُ اللّٰہ ُ لِیُذْ ھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ .........وَیُطَھَّرَکُمْ تَطْھِیْراً کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ نے ان کو معصوم کر دیا تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ وضو اور غسل اور تیمم کرنے والے سب مسلمانوں کو معصوم نہ مان لیا جائے کیوں کہ ان کی متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  وَلٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَ کُمْ وَلِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ۔ ’’ مگر اللہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دے ‘‘ (المائدہ۔ آیت ۶)۔

(۵۱)۔ اصل میں لفظ وَاذْکُرْنَ استعمال ہوا ہے، جس کے دو معنی ہیں : ’’ یاد رکھو ‘‘ اور’’ بیان کرو‘‘۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیویو، تم کبھی اس بات کو فراموش نہ کرنا کہ تمہارا گھر وہ ہے جہاں سے دنیا بھر کو آیاتِ الٰہی اور حکمت و دانائی کی تعلیم دی جاتی ہے،  اس لیے تمہاری ذمّہ داری بڑی سخت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گھر میں لوگ جاہلیت کے نمونے دیکھنے لگیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ نبی کی بیویو،  جو کچھ تم سُنو اور دیکھو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتی رہو، کیونکہ رسول کے ساتھ ہر وقت کی معاشرت سے بہت سی ہدایات تمہارے علم میں ایسے آئیں گی جو تمہارے سوا کسی اور ذریعہ سے لوگوں کو معلوم نہ ہو سکیں گی۔

       اِس آیت میں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک آیات اللہ۔ دوسرے حکمت۔ آیات اللہ سے مُراد تو کتاب اللہ کی آیات ہی ہیں۔ کگر حکمت کا لفظ وسیع ہے جس میں وہ تمام دانائی کی باتیں آ جاتی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو سکھاتے تھے۔ اس لفظ کا اطلاق کتاب اللہ کی تعلیمات پر بھی ہو سکتا ہے،  مگر صرف انہی کے ساتھ اس کو خاص کر دینے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن کی آیات سُنانے کے علاوہ جس حکمت کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی سیرتِ پاک سے اور اپنے ارشادات سے دیتے تھی وہ بھی لا محالہ اس میں شامل ہے۔ بعض لوگ محض اس بنیاد پر کہ آیت میں  مَا یُتْلیٰ(جو تلاوت کی جاتی ہیں )کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات اللہ اور حکمت سے مُراد صرف قرآن ہے،  کیونکہ ’’تلاوت‘‘ کا لفظ اصطلاحاً قرآن کی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ تلاوت کے لفظ کو اصطلاح کے طور پر قرآن یا کتاب اللہ کی تلاوت کے لیے مخصوص کر دینا بعد لوگوں کا فعل ہے۔ قرآن میں اس لفظ کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ سُورۂ بقرہ آیت ۱۰۲ میں یہی لفظ جادو کے اُن منتروں کے لیے استعمال کیا گیا ہے جو شیاطین حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب کر کے لوگوں کو سناتے تھے۔ وَتَّبَعُوْ امَا تَتْلُو االشَّیٰطِیْنُ عَلیٰ مُلْکِ سُلَیْمٰنَ۔ ’’ اُنہوں نے پیروی کی اس چیز کی جس کی تلاوت کرتے تھے (یعنی جسے سُناتے تھے )شیاطین سلیمان کی بادشاہی کی طرف منسوب کر کے ‘‘۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن اس لفظ کو اس کے لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے۔ کتاب ا للہ کی آیات سُنانے کے لیے   اصطلاحاً مخصوص نہیں کرتا۔

(۵۲)۔ اللہ لطیف ہے۔ یعنی مخفی باتوں تک اس کا علم پہنچ جاتا ہے۔ اس سے کوئی چیز چھپی نہیں رہ سکتی۔

 

بالیقین (۵۳) جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں (۵۴)،   مومن ہیں (۵۵)،   مطیع فرمان ہیں (۵۶)،   راست باز ہیں (۵۷)،   صابر ہیں (۵۸)،  اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں (۵۹) صدقہ دینے والے ہیں (۶۰)،   روزہ رکھنے والے ہیں،  اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں (۶۱)،   اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں (۶۳)،   اور اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (۶۴)
کسی(۶۵)مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا(۶۶)
اے نبیؐ (۶۷)،   یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا (۶۸)
کہ ’’اپنی بیوی کو نہ چھوڑ اور اللہ سے ڈر(۶۹)‘‘۔ اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے  ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے،  حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو(۷۰)
 پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا(۷۱) تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا(۷۲) تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں (۷۳)  اور اللہ کا حکم تو عمل میں آنا ہی چاہئے تھا۔ نبی پر کسی ایسے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو(۷۴)
 یہی اللہ کی سنت ان سب انبیاء کے معاملہ میں رہی ہے جو پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ کا حکم ایک قطعی طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے (۷۵)  (یہ اللہ کی سنت ہے ان لوگوں کے لیے ) جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے،  اور محاسبہ کے لیے بس اللہ ہی کافی ہے (۷۶)
(لوگو) محمدؐ تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں،  مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں،  اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے (۷۷) ع

 

(۵۳)۔ پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اسلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔

(۵۴)۔ یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں،  جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔ بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔

(۵۵)۔ یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے،  بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسے کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے،  اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

   ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُلا۔ ایمان کا لذت ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔

      اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔

      لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں۔

(۵۶)۔ یعنی وہ محض مان کر رہ جاتے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں،  اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔

(۵۷)۔ یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ،  فریب، بدنیتی،  دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جا ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔

(۵۸)۔ یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں،  جو خطرات بھی درپیش ہوں،  جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے،  ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

(۵۹)۔ یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۶۰)۔ اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے،  بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک سہ کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار،  کوئی مصیبت زدہ،  کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔

(۶۱)۔ اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں۔

(۶۲)۔ اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں۔

(۶۳)۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہے اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔ کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا۔  سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ،  الحمد للہ،  ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔  مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں :

      عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ  عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’ معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ،  جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے ؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز،  زکوٰۃ  حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’ جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ ‘‘ 

(۶۴)۔ اس آیت میں یہ بتا دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل قدر و قیمت کن اوصاف کی ہے۔ یہ اسلام کی بنیادی قدریں ( Basic values) ہیں جنہیں ایک فقرے کے اندر سمیٹ دیا گیا ہے۔ ان قدروں کے لحاظ سے مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ عمل کے لحاظ سے تو بلاشبہ دونوں صنفوں کا دائرۂ کار الگ ہے۔ مردوں کو زندگی کے کچھ شعبوں میں کام کرنا ہے اور عورتوں کو کچھ اور شعبوں میں اگر یہ اوصاف دونوں میں یکساں موجود ہوں تو اللہ تعالیٰ کے ہاں دونوں کا مرتبہ یکساں اور دونوں کا اجر برابر ہو گا۔ اس لحاظ سے ان کے مرتبے اور اجر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ایک نے چولھا چکی سنبھالا اور دوسرے نے خلافت کی مسند پر بیٹھ کر احکام شریعت جاری کیے،  ایک نے گھر میں بچے پالے اور دوسرے نے میدانِ جنگ میں جا کر اللہ اور اس کے دین کے لیے جان لڑائی۔

(۶۵)۔ یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں۔

( ۶۶)۔ ابن عباس،  مجاہد،  قَتادہ،  عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیدؓ کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینبؓ نے کہا،  انا خیر منہ نسباً، ’’ میں اُس سے نسب میں بہتر ہوں ‘‘۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ  لاارصاہ لنفسی وانا ایّم قریش’’۔ میں اُسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی،  میں قریش کی شریف زادی ہوں ‘‘۔ اسی طرح کا اظہارِ نا رضا مندی اُن کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی(اُمَیْمہَ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی،  اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضورؐ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے،  اور اس کا پیغام آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے دہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینبؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامّل سرِ اطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زیدؓ کی طرف سے دس دینار اور ۶۰ درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیے،  اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا۔

 یہ آیت اگر چہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے،  مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظامِ زندگی پر ہوتا ہے،  اس کی رو سے کسی مسلمان فرد، یا قوم،  یا ادارے،  یا عدالت،  یا پارلیمنٹ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اُس میں وہ خود اپنی آزادیِ رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسولؐ کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا،  دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویّوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکمِ خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کہ سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے،  خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔

(۶۷)۔ یہاں سے آیت ۴۸ تک کا مضمون اس وقت نازل ہوا جب حضرت زینب ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نکاح کر چکے تھے اور اس پر منافقین ‘ یہود اور مشرکین نے آپؐ کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفانِ عظیم بر پا کر رکھا تھا۔ ان آیات کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ذ ہن میں رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ ارشادات ان دشمنوں کی تفہیم کے لیے نہیں تھے جو قصداً  حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو بدنام کرنے اور اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے جھوٹ اور بہتان اور طعن و تشنیع کی مہم چلا رہے تھے،  بلکہ اصل مقصود مسلمانوں کو ان کی اس مہم کے اثرات سے بچانا اور ان کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات سے محفوظ کرنا تھا۔ اس سے اگر اطمینان نصیب ہو سکتا تھا تن انہی لوگوں کو جو جانتے اور مانتے تھے کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ ان بندگانِ حق کے متعلق اس وقت یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ دشمنوں کے اعتراضات کہیں ان کے دلوں میں بھی شک اور ان کے دماغوں میں بھی الجھن نہ پیدا کر دیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تمام امکانی شبہات کا ازالہ فرمایا،  اور دوسری طرف مسلمانوں کو بھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہ بتا یا کہ ان حالات میں ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔

(۶۸)مراد ہیں حضرت زید،  جیسا کہ آگے بصرا حت بیان فرما دیا گیا ہے۔ اُن پر اللہ تعالیٰ کا احسان کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا احسان کیا؟اس کو سمجھنے کے لیے ضروری کہ مختصراً یہاں اُن ک قصّہ بیان کر دیا جائے۔ یہ دراصل قبیلۂ کَلْب کے ایک شخص حا رِ ثہ بن شَراحیل کے بیٹے تھے اور اُن کی ماں سُعدیٰ بنت ثَعْلَبَہ قبیلۂ طَے کی شاخ بنی مَعْن سے تھیں۔ جب یہ آٹھ سال کے بچے تھے اس وقت ان کی ماں انہیں اپنے میکے لے گئیں۔ وہاں بنی ْ قَیْن بن جَسْر کے لوگوں نے ان کے پڑاؤ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن آدمیوں کو وہ پکڑ لے گئے اُن میں حضرت زید بھی تھے۔ پھر انہوں نے طائف کے قریب عُکاظ کے میلے میں لے جا کر ان کو بیچ دیا۔ خریدنے والے حضرت خَدِیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حِزام تھے۔ انہوں نے مکّہ لا کر اپنی پھوپھی صاحبہ کی خدمت مین نذر کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت خدیجہ ؓ کا جب نِکاح ہوا تو حضورؐ نے ا ن کے ہاں زید کو دیکھا اور ا ن کی عادات و اطوار آپؐ کو اس قدر پسند آئیں کہ آپؐ نے انہیں حضرت خدیجہؓ سے مانگ لیا۔ اس طرح یہ خوش قسمت لڑکا اُس خیرالخلائق ہستی کی خدمت میں پہنچ گیا جسے چند سال بعد اللہ تعالیٰ نبی بنانے والا تھا۔ اس وقت حضرت زید کی عمر ۱۵ سال تھی۔ کچھ مدت بعد ا ن کی باپ اور چچا کو پتہ چلا کہ ہمارا بچّہ مکّہ میں ہے۔ وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچے اور عرض کیا کہ آپ جو فدیہ چاہیں ہم دینے کے لیے تیار ہیں،  آپ ہمارا بچّہ ہمیں دے دیں۔ حضورؐ نے فرمایا کہ میں لڑکے کو بلاتا ہوں اور اسی کی مرضی پر چھوڑے دیتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے یا میرے پاس رہنا پسند کرتا ہے۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے گا تو میں کوئی فِدیہ نہ لوں گا اور اسے یوں ہی چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر وہ میرے پاس رہنا چاہے تو میں ایسا آدمی نہیں ہوں کہ جو شخص میرے پاس رہنا چاہتا ہو اسے خواہ مخواہ نکال دوں۔ انہوں نے کہا یہ تو آپؐ نے انصاف سے بھی بڑھ کر درست بات فرمائی ہے۔ آپ بچے کو بُلا کر پوچھ لیجیے۔ حضورؐ نے زید ؓ کو بُلایا اور ان سے کہا اِن دونوں صاحبوں کو جانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں، یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا۔ آپؐ نے فرمایا،  اچھا،  تم ان کو بھی جانتے ہو اور مجھے بھی۔ اب تمہیں پوری آزادی ہے کہ چاہو ان کے ساتھ چلے جاؤ اور چاہو میرے ساتھ رہو۔ انہوں نے جواب دیا میں آپؐ کو چھوڑ کر کسی کے پاس نہیں جانا چاہتا۔ ان کے باپ اور چچا نے کہا، زید،  کیا تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے،  اور اپنے ماں باپ اور خاندان کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اِس شخص کے جو اوصاف دیکھے ہیں اُن کا تجربہ کر لینے کے بعد میں اب دُنیا میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دے سکتا۔ زید کا یہ جواب سُن کر ان کے باپ اور چچا بخوشی راضی ہو گئے۔ حضورؐ نے اسی وقت زید کو آزاد کر دیا اور حرم میں جا کر قریش کے مجمعِ عام میں اعلان فرمایا کہ آپ سب لوگ گواہ رہیں،  آج سے زید میرا بیٹا ہے،  یہ مجھ سے وراثت پائے گا اور میں اس سے۔ اسی بنا پر لوگ ان کو زید بن محمدؐ کہنے لگے۔ یہ سب واقعات نبوّت سے پہلے کے ہیں پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے منصب نبوّت پر سرفراز ہوئے تو چار ہستیاں ایسی تھیں جنہوں نے ایک لمحہ شک و تردُّد کے بغیر آپؐ سے نبوّت کا دعویٰ سُنتے ہی اسے تسلیم کر لیا۔ ایک حضرت خدیجہؓ،  دوسرے حضرت زیدؓ، تیسرے حضرت علیؓ، اور چوتھے حضرت ابو بکرؓ۔ اُس وقت حضرت زیدؓ کی عمر ۳۰ سال تھی اور ان کو حضورؐ کی خدمت میں رہتے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے تھے۔ ہجرت کے بعد ۴ ھ میں نبی صلی اللہ ولیہ و سلم نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب ؓ سے ان کا نکاح کر دیا،  اپنی طرف سے اُن کا مہر ادا کیا،  اور گھر بسانے کے لیے ان کو ضروری سامان عنایت فرمایا۔

یہی حالات ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ اِن الفاظ میں اشارہ فرما رہا ہے کہ ’’ جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا۔ ‘‘

(۶۹)۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت زید ؓ سے حضرت زینبؓ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے۔ اور انہوں نے بار بار شکایات پیش کرنے کے بعد آخر کار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ میں ان کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ حضرت زینبؓ نے اگرچہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مان کر ان کے نکاح جانا قبول کر لیا تھا،  لیکن وہ اپنے دِل سے اس احساس کو کسی طرح نہ مٹا سکیں کہ زید ایک آزاد کردہ غلام ہیں، اُن کے اپنے خاندان کے پروردہ ہیں،  اور وہ عرب کے شریف ترین گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود اس کم تر درجے کے آدمی سے بیاہی گئی ہیں۔ اس احساس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں انہوں نے کبھی حضرت زیدؓ کو اپنے برابر کا نہ سمجھا، اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی چلی گئیں۔ ایک سال سے کچھ ہی زیادہ مدّت گزری تھی کہ نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔

(۷۰)۔ بعض لوگوں نے اس فقرے کا اُلٹا مطلب یہ نکال لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود حضرت زینبؓ سے نکاح کے خواہشمند تھے،  اور آپؐ کا جی چاہتا تھا کہ حضرت زیدؓ ان کو طلاق دے دیں،  مگر جب انہوں نے آ کر عرض کیا کہ میں بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں تو آپؐ نے معاذاللہ اوپری دِل سے ان کو منع کیا، اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ’’ تم دِل میں وہ بات چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا تھا۔ ‘‘ حالاں کہ اصل بات اس کے برعکس ہے۔ اگر اس سورہ کی آیات نمبر ۱۔ ۲۔ ۳۔ اور۔ ۷ کے ساتھ ملا کر یہ فقرہ پڑھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ جس زمانے میں حضرت زیدؓ اور ان کی اہلیہ کے درمیان تلخی بڑھتی چلی جا رہی تھی اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اشارہ کر چکا تھا کہ زیدؓ جب اپنی بیوی کو طلاق دیں تو ان کی مطلقہ خاتون سے آپ کو نکاح کرنا ہو گا۔ لیکن چوں کہ حضورؐ جانتے تھے کہ عرب کی اس سوسائٹی میں منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ سے نکاح کرنا کیا معنی رکھتا ہے .........اور وہ بھی عین اس حالت میں جبکہ مٹھی بھر مسلمانوں کے سوا باقی سارا عرب آپؐ کے خلاف پہلے ہی خار کھائے بیٹھا تھا۔ اِس لیے آپؐ اس شدید آزمائش میں پڑنے سے ہچکچا رہے تھے۔ اسی بنا پر جب حضرت زیدؓ نے بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضورؐ نے ان سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنے بیوی کو طلاق نہ دو۔ آپؐ کا منشا یہ تھا کہ یہ شخص طلاق نہ دے تو میں اِس بلا میں پڑنے سے بچ جاؤں،  اور نہ اس کے طلاق دے دینے کی صورت میں مجھے حکم کی تعمیل کرنی ہو گی اور پھر مجھ پر وہ کیچڑ اُچھالی جائے گی کہ پناہ بخدا۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ کو اولو العزمی اور رضا بقضا کے جس بلند مرتبے پر دیکھنا چاہتا تھا اُس کے لحاظ سے حضورؐ کی یہ بات اُس کو فروتر نظر آئی کہ آپؐ نے قصداً زیدؓ کو طلاق سے روکا تاکہ آپؐ اُس کام سے بچ جائیں جس میں آپؐ کو بدنامی کا اندیشہ تھا،  حالاں کہ اللہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر وہ کام آپؐ سے لینا چاہتا تھا۔ ’’ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو‘‘ کے الفاظ صاف صاف اسی مضمون کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔

یہی بات اس آیت کی تشریح میں امام زین العابدین حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خبر دے چکا تھا کہ زینب ؓ آپ کی بیویوں میں شامل ہونے والی ہیں،  مگر جب زیدؓ نے آ کر اُن کی شکایت آپؐ سے کی تو آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو نہ چھوڑو۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں پہلے خبر دے چکا تھا کہ میں تمہارا نکاح زینبؓ سے کرنے والا ہوں،  تم زیدؓ سے یہ بات کہتے وقت اُس بات کو چھپا رہے تھے جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا ‘‘ (ابن جریر۔ ابن کثیر بحوالہ ابن ابی حاتم)

علامۂ آلوسی نے بھی تفسیر رُوح المعانی میں اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ عتاب کا ماحصل یہ ہے کہ تم نے زیدؓ سے یہ کیوں کہا کہ اپنی بیوی کو نہ چھوڑو، حالانکہ میں تمہیں پہلے ہی بتا چکا تھا کہ زینبؓ تمہاری بیویوں میں شامل ہوں گی‘‘

(۷۱)۔ یعنی جب زیدؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی عدّت پور ی ہو گئی۔ ’’حاجت پوری کر چکا‘‘ کے الفاظ سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ زیدؓ کی اس سے کوئی حاجت باقی نہ رہی۔ اور یہ صورتِ حال محض طلاق دے دینے سے رونما نہیں ہوتی، کیوں کہ عدّت کے دَوران میں شوہر کو اگر کچھ دلچسپی باقی ہو تو وہ رجوع کر سکتا ہے،  اور شوہر کی یہ حاجت بھی مطلقہ بیوی سے باقی رہتی ہے کہ اس کے حاملہ ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چل جائے۔ اس لیے مطلّقہ بیوی کے ساتھ اس کے سابق شوہر کی حاجت صرف اُسے وقت ختم ہو تی ہے جب عدّت گزر جائے۔

(۷۲)۔ یہ الفاظ اس باب میں صریح ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ نکاح خود اپنے خواہش کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بنا پر کیا تھا۔

(۷۳)۔ یہ الفاظ اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک ایسی ضرورت اور مصلحت کی خاطر کرایا تھا جو اس تدبیر کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے پوری نہ ہو سکتی تھی۔ عرب میں منہ بولے رشتوں کے بارے میں جو غلط رسوم رائج ہو گئی تھیں،  ان کے توڑنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ،  اللہ کا رسول خود آگے بڑھ کر ان کو توڑ ڈالے۔ لہٰذا یہ نکاح اللہ تعالیٰ نے محض نبی کے گھر میں ایک بیوی کا اضافہ کرنے کی خاطر نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کی خاطر کروایا۔

(۷۴)۔ ان الفاظ سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے لیے تو اس طرح کا نکاح محض مباح ہے مگر بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے یہ ایک فرض تھا جو اللہ نے آپ پر عائد کیا تھا۔

(۷۵)۔ یعنی انبیاء کے لیے ہمیشہ سے یہ ضابطہ مقرر رہا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم بھی آئے اس پر عمل کرنا ان کے لیے قضائے مُبْرَم ہے جس سے کوئی مفر اُن کے لیے نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے نبی پر کوئی کام فرض کر دے تو اسے سہ کام کر کے ہی رہنا ہوتا ہے خواہ ساری دُنیا اس کی مخالفت پر تُل گئی ہو۔

(۷۶)۔ اصل الفاظ ہیں کَفیٰ بِا للّٰہِ حَسِیْباً۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر خوف اور خطرے کے مقابلے میں اللہ کافی ہے۔ دوسرے یہ کہ حساب لینے کے لیے اللہ کافی ہے،  اس کے سوا کسی اور کی باز پُرس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

(۷۷)۔ اس ایک فقرے میں اُن تمام اعتراضات کی جڑ کاٹ دی گئی ہے جو مخالفین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس نکاح پر کر رہے تھے۔

اُن کا اوّلین اعتراض یہ تھا کہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حالانکہ آپؐ کی اپنی شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ ’’ محمّدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ‘‘، یعنی جس شخص کی مطلقہ سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا؟ تم لوگ تو خود جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں۔

 ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا،  اگر منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا، آخر اس کا کرنا کیا ضرور تھا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا’’ مگر وہ اللہ کے رسولؐ ہیں ‘‘، یعنی رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حلال چیز کو تمہاری رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصّبات کا خاتمہ کر دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں۔

پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا’’ اور وہ خاتم النبیین ہیں ‘‘، یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح اُن کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسر پوری کر دے،  لہٰذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسمِ جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں۔

اس کے بعد مزید زور دینے ہوئے فرمایا گیا کہ ’’ اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ‘‘ یعنی اللہ کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھوں اِس رسمِ جاہلیّت کو ختم کرا دینا کیوں ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی۔ وہ جانتا ہے کہ اب اُس کی طرف   سے کوئی نبی آنے والا نہیں ہے لہٰذا اگر اپنے آخری نبی کے ذریعہ سے اُس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دُنیا میں ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دُنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائے۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس کا اتباع کرنے لگیں، اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اُس کی سُنت ہونا ہی لوگوں کے دِلوں سے کراہیت کے ہر تصوّر کا قلع قمع کر دے۔

افسوس ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک گروہ نے اس آیت کی غلط تاویلات کر کے ایک بہت بڑے فتنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس لیے ختمِ نبوت کے مسئلے کی پوری توضیح اور اس گروہ کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی تردید کے لیے ہم نے اِس سورہ کی تفسیر کے آخر میں ایک مفصل ضمیمہ شامل کر دیا ہے۔

 

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کو کثرت سے یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو(۷۸)۔  وہی ہے جو تم پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے ملائکہ تمہارے لے دُعائے رحمت کرتے ہیں تاکہ وہ تمہیں تاریکیوں سے روشنی میں نکال لائے،  وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے (۷۹)
 جس روز وہ اس سے ملیں گے اُن کا استقبال سلام سے ہو گا(۸۰) اور اُن کے لیے اللہ نے بڑا با عزت اجر فراہم کر رکھا ہے۔
اے نبیؐ (۸۱)، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر (۸۲)،   بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر (۸۳)،   اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے (۸۴) والا بنا کر اور روشن چراغ بنا کر۔ بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو (تم پر)ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل۔ اور ہر گز نہ دبو کفار و منافقین سے،  کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے۔
اَے لوگوں جو ایمان لائے ہو، جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو(۸۵) تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کے پورے ہونے کا تم مطالبہ کر سکو۔ لہذا انہیں کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ (۸۶)
اے نبیؐ، ہم نے تمہارے لیے حلال کر دیں تمہاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں (۸۷)،   اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہاری ملکیت میں آئیں،  اور تمہاری وہ چچازاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی ہے،  اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبیؐ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبی اسے نکاح میں لینا چاہے (۸۸)۔  یہ رعایت خالصتاً تمہارے لیے ہے،  دوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے (۸۹)  ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حدود عائد کیے ہیں۔ (تمہیں ان حدود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے ) تاکہ تمہارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے (۹۰)،   اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ تم کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جس کو چاہو اپنے سے الگ رکھو، جسے چاہو اپنے ساتھ رکھو اور جسے چاہو الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلا لو۔ اس معاملے میں تم پر کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس طرح زیادہ متوقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی اور وہ رنجیدہ نہ ہوں گی، اور جو کچھ بھی تم ان کو دو گے اس پر وہ سب راضی رہیں گی (۹۱)
 اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگوں کے دلوں میں ہے،  اور اللہ علیم و حلیم ہے (۹۲)  اس کے بعد تمہارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں،  اور نہ اس کی اجازت ہے کہ ان کی جگہ اور بیویوں لے آؤ خواہ ان کا حسن تمہیں کتنا ہی پسند ہو (۹۳)،   البتہ لونڈیوں کی تمہیں اجازت ہے (۹۴)  اللہ ہر چیز پر نگران ہے۔ ع

 

(۷۸)۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ تلقین کرنا ہے کہ جب دشمنوں کی طرف سے اللہ کے رسول پر طعن و تشنیع کی بوچھاڑ ہو رہی ہو اور دینِ حق کو زک پہنچانے کے لیے ذاتِ رسول کو ہدف بنا کر پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیا جا رہا ہو، ایسی حالت میں اہل ایمان کا کام نہ تو یہ ہے کہ ان بیہودگیوں کو اطمینان کے ساتھ سُنتے رہیں،  اور نہ یہ کہ خود بھی دشمنوں کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوں،  اور نہ یہ کہ جواب میں ان سے گالم گلوچ کرنے لگیں،  بلکہ ان کا کام یہ ہے کہ عام دِنوں سے بڑھ کر اس زمانے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کو اور زیادہ یاد کریں۔ ’’ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے ‘‘ کا مفہوم حاشیہ نمبر ۶۳میں بیان کیا جا چکا ہے۔ صبح و شام تسبیح کرنے سے مُراد دائماً تسبیح کرتے رہنا ہے۔ اور تسبیح کے معنی اللہ کی پاکیزگی بیان کرنے کے ہیں نہ کہ محض دانوں والی تسبیح پھرانے کے۔

(۷۹)۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو یہ احساس دِلانا ہے کہ کفار و منافقین کی ساری جلن اور کُڑھن اُس رحمت ہی کی وجہ سے ہے جو اللہ کے اِس رسول کی بدولت تمہارے اوپر ہوئی ہے۔ اُسی کے ذریعہ سے ایمان کی دولت تمہیں نصیب ہوئی،  کفر  و جاہلیّت کی تاریکیوں سے نِکل کر تم اسلام کی روشنی میں آئے۔ اور تمہارے اندر یہ بلند اخلاقی و اجتماعی اوصاف پیدا ہوئے جن کے باعث تم علانیہ دوسروں سے برتر نظر آتے ہو۔ اسی کا غصّہ ہے جو حاسد لوگ اللہ کے رسول پر نِکال رہے ہیں۔ اس حالت میں کوئی ایسا رویہّ اختیار نہ کر بیٹھنا جس سے تم خدا کی اس رحمت سے محرم ہو جاؤ۔

صلوٰۃ کا لفظ جب علیٰ کے صلے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی رحمت،  مہربانی اور شفقت کے ہوتے ہیں۔ اور جب ملائکہ کی طرف سے انسانوں کے حق میں استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی دعائے رحمت کے ہوتے ہیں،  یعنی ملائکہ انسانوں کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ تو اِن پر فضل فرما اپنی عنایات سے اِنہیں سرفراز کر ایک مفہوم یُصَلِّیْ عَلَیکُمْ کا یہ بھی ہے کہ یشیع عنکم الذکر الجمیل فی عباداللہ، یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے بندوں کے درمیان ناموری عطا فرماتا ہے اور تمہیں اِس درجے کو پہنچا دیتا ہے کہ خلقِ خدا تمہاری تعریف کرنے لگتی ہے اور ملائکہ تمہاری مدح و ثنا کے چرچے کرتے ہیں۔

(۸۰)۔ اصل الفاظ ہیں تَحِیَّتھُمْ یَوْمَ یَلقَوْنَہٗ سَلٰمٗ’’ ان کا تحیّہ اس سے ملاقات کے روز سلام ہو گا۔ ‘‘ اس کے تین مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ خود السّلام علیکم کے ساتھ ان کا استقبال فرمائے گا،  جیسا کہ سُورۂ یٰسین میں فرمایا

 کہ سَلاَم قَوْلاًمِّنْ رَّ بٍّ رَّ حِیْمٍ(آیت۵۸)۔ دوسرے یہ کہ ملائکہ ان کو سلام کریں گے،  جیسے سورۂ نحل میں ارشاد ہوا اَلَّذِیْنَ تَتْوَفّٰھُمُ الْمَلیٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلاَم عَلَیْکُمُ ادْخُلُواالْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ، ’’جن لو گوں کی روحیں ملائکہ اس حالت میں قبض کریں گے کہ وہ پاکیزہ لوگ تھے،  ان سے وہ کہی گے کہ سلامتی ہو تم پر،  داخل ہو جاؤ جنت میں ان نیک اعمال کی بدولت جو تم دنیا میں کرتے تھے ‘‘(آیت ۳۲)تیسرے یہ کہ وہ خود آپس میں ایک دوسرے کو سلام کریں گے، جیسے سورۂ یونس میں فرمایا ’دَعْوھُم فِیْھَا سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَتَحِیَّتھُُمْ فِیْھَا سَلام وَاٰخِرُ دَعْوٰ ھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ ‘‘ وہاں ان کی صدا یہ ہو گی کہ خدایا،  پاک  ہے تیری ذات،  ان کا تحیہ ہو گا سلام اور ان کی تان ٹوٹے گی اس بات پر کہ ساری تعریف اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے ‘‘۔ (آیت ۱۰)

(۸۱)۔ مسلمانوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو خطاب کر کے چند کلمات تسکین ارشاد فرماتا ہے۔ مقصود کلام یہ ہے کہ آپ کو ہم نے یہ کچھ مراتب  عالیہ بخشے ہیں،  آپ کی شخصیت اس سے بہت بلند ہے کہ یہ مخالفین اپنے بہتان و افترا کے طوفان اٹھا کر آپ کا کچھ بگاڑ سکیں۔ لہٰذا آپ نہ ان کی شرارتوں سے رنجیدہ ہوں اور نہ ان کے پروپیگینڈے کو پر کاہ کے برابر بھی کوئی وقعت دیں۔ اپنے فرائض منصبی ادا کیے جائیے اور انہیں جو کچھ ان کا جی چاہے بکنے دیجیے۔ ان کے ساتھ ضمناً تمام خلق کو، جس میں مومن و کافر سب شامل ہیں،  یہ بتایا گیا ہے کہ ان کا سابقہ کسی معمولی انسان سے نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی شخصیت سے ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے بلند ترین مقام پر سرفراز فرمایا ہے۔

(۸۲)۔ نبی کو’’ گواہ‘‘ بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں

ایک قولی شہادت،  یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اُصولوں پر مبنی ہے،  نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول،  حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دُنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دُنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اُڑائے یا اسے دیوانہ کہے،  مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اُٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں، انہیں اگر ساری دُنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور اُن تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دُنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حرام سمجھتی ہو،  اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دُنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔

دوسرے عملی شہادت،  یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اُس مسلک کا عملاً مظاہر کرے جسے دُنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اُٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ بُرائی کہتا ہے اُس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے،  اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابر ی نہ کر سکے۔ جس قانونِ حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اُٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کر لے کہ جس دین کی طرف وہ دُنیا کو بُلا رہا ہے وہ کِس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے،  کیا کِردار اُس میں پیدا کرنا چاہتا ہے،  اور کیا نظامِ زندگی اُس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔

 تیسرے اُخروی شہادت،  یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بے کم و کاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کر دینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اِسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے،  اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جواس مقامِ بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے دینِ حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے،  تبھی تو آخرت میں آپؐ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کر دیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہو گی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں اُن پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرینِ کے خلاف مقدمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنا نے کی کو شش کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم آخرت میں لو گوں کے اعمال پر شہادت دیں گے،  اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضورؐ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں،  ورنہ بے دیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔ لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے عمال پر قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرما یا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں (ملاحظہ ہو ق ٓ،  آیات ۱۷۔ ۱۸اور الکہف۔ آیت ۱۴۹)اور اس کے لیے وہ لو گوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا (یٰسٓ۶۵۔ حم السجدہ ۲۰۔ ۲۱) رہے انبیاء علیم السلام،  تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے ک بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے :

’یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْالَاعِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ (المائدہ۔ ۱۰۹)جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا،  کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا،  تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں،  تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔

 اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہو گا تو وہ عرض کریں گے :

وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداًمَّادُمْتُ فَیْھِمْ فَلَمَّا تَوَ فَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔ ۱۱۷) 

میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔

یہ آیت اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا ء علیہم السلام اعمالِ خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔ پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟ اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ     یہ دیتا ہے :

وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰٰکُمْ اُمَّتہً وَّ سَطاً لِّتَکُوْنُوْا شھَُدَآئَ عَلیَ النَّاسِ  وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔ ۱۴۳)

اور اَے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امّت وَسَط بنا یا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ  فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآئِ۔ (النحل۔ ۸۹)

اور جس روز ہم ہر اُمّت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُن پر گواہی دے گا اور ( اے محمدؐ) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شہادت اپنی نوعیت میں اُس شہادت سے مختلف نہ ہو گی جسے ادا کرنے کے لیے حضورؐ کی اُمّت کو اور ہر اُمّت کو اور ہر اُمّت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناضر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورؐ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔

اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم۔ ترمذی،  ابن ماجہ امام احمد وغیرہ ہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس،  ابو اللہ وا ء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے،  جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں،  مگر وہ آپؐ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رُخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضورؐ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔ یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اُمّت کے ایک ایک شخص اور اُس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔ رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضورؐ کے سامنے آپؐ کی اُمّت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں،  تو وہ کسی طرح بھی اِس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضورؐ کو اُمت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضورؐ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔

(۸۳)۔ یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عملِ صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر بُرے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے اِنذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحقِ اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے،  لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے بُرے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

(۸۴)۔ یہاں بھی ایک عام مبلغ کی تبلیغ اور نبی کی تبلیغ کے درمیان وہی فرق ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ دعوت اِلی اللہ تو ہر مبلّغ دیتا اور دے سکتا ہے،  مگر وہ اللہ کی طرف سے اِس کام پر مامور نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس نبی اللہ کے اذن (Sanction)سے دعوت دینے اُٹھتا ہے۔ اس کی دعوت نری تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے بھی اس کے بھیجنے والے ربّ العالمیں کی فرمانروائی کا زور ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ کے بھیجے ہوئے داعی کی مزاحمت خود اللہ کے خلاف جنگ قرار پاتی ہے،  جس طرح دُنیوی حکومتوں میں سرکاری کام انجام دینے والے سرکاری ملازم کی مزاحمت خود حکومت کے خلاف جنگ سمجھی جاتی ہے۔

۸۵۔ یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نِکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کی لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلامِ عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن رااغت اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ

اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاسل للجماع ثم استعیر للعقد۔ ’’ لفظ نکاح کی اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے،  اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ ‘‘ اِس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان،  یا دُنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اُسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجزو استعارے طور پر استعمال کرے۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دُنیا کی ہر زنان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ۔

جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے،  ان میں نکاح ایک اصلاحی لفظ ہے جس سے مُراد یا تو مجرد عقد ہے،  یا پھر وطی بعدِ عقد۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح۔

(۸۶)۔ یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً اُسی زمانے میں طلاق کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے پر نازل ہوئی تھی، اس لیے پچھلے سلسلۂ بیان اور بعد کے سلسلۂ بیان کے درمیان اس کو رکھ دیا گیا۔ اس ترتیب سے یہ بات خود مترشح ہوتی ہے کہ یہ تقریر ما سبق کے بعد اور تقریر ما بعد سے پہلے نازل ہوئی تھی۔

اس آیت سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے :

۱) آیت میں اگرچہ’’ مومن عورتوں ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ کتابی عورتوں کے معاملہ میں قانون وہ نہیں ہے جو یہاں بیان ہوا ہے،  لیکن تمام علمائے اُمّت کا اس پر اتفاق ہے کہ معنًی یہی حکم کتابیات کے بارے میں بھی ہے۔ یعنی کتابی عورت سے بھی کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو تو اس کی طلاق،  اس کے مہر، اس کی عدّت اور اس کو مُتعۂ طلاق دینے کے جملۂ احکام وہی ہیں جو مومن عورت سے نکاح کی صورت میں ہیں۔ علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مخصوص طور پر صرف مومن عورتوں کا ذکر جو کیا ہے اس سے مقصود دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مومن عورتیں ہی موزوں ہیں۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح جائز ضرور ہے مگر مناسب اور پسندیدہ نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر قرآن کے اس انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل ایمان سے متوقع یہی ہے کہ وہ مومن عورتوں سے نکاح کریں گے۔

۲) ’’ہاتھ لگانے ‘‘ یا ’’مَس‘‘ کرنے سے مُراد لغت کے اعتبار سے تو محض چھونا ہے،  لیکن یہاں یہ لفظ کنایۃً مباشرت کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس لحاظ سے ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر شوہر نے مباشرت نہ کی ہو تو خواہ وہ عورت کے پاس تنہائی میں رہا ہو، بلکہ اسے ہاتھ بھی لگا چکا ہو تب بھی طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم نہ آئے۔ لیکن فقہاء نے برسبیلِ احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خَلوت صحیحہ ہو جائے (یعنی جس میں مباشرت ممکن ہو) تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدّت لازم آئے گی اور سقوطِ عدّت صرف اُس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔

۳) طلاق قبلِ خلوت کی صورت میں عدّت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حقِ رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر لے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکم صرف طلاق قبلِ خلوت کا ہے۔ اگر خلوت سے پہلے عورت کا شوہر مر جائے تو اس صورت میں عدّتِ وفات ساقط نہیں ہوتی بلکہ عورت کو وہی چار مہینے دس دن کی عدّت گزارنی ہوتی ہے جو منکوحۂ مدخولہ کے لیے واجب ہے۔ (عدّت سے مُراد وہ مدّت ہے جس کے گزر نے سے پہلے عورت کے لیے دوسرا نکاح جائز نہ ہو۔ )

۴) مَلَکُمْ عَلَیھِنَّ مِنْ عِدَّ ۃٍ(تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے ) کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عِدّت عورت پر مرد کا حق ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صرف مرد ہی کا حق ہے۔ دراصل اس میں دو حق اور بھی شامل ہیں۔ ایک حقِ اولاد۔ دوسرے حق اللہ یا حق الشرع۔ مرد کا حق وہ اس بنا پر ہے کہ اِس دَوران میں اُس کو رجوع کر لینے کا حق ہے،  نیز اس بنا پر کہ اس کی اولاد کے نسب کا ثبوت اس بات پر منحصر ہے کہ عدّت کے زمانہ میں عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا ظاہر ہو جائے۔ اولاد کا حق اس میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے با پ سے بچے کے نسب کا ثابت ہونا اس کے قانونی حقوق قائم ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے اخلاقی مرتبے کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کا نسب مشتبہ نہ ہو۔ پھر اس میں حق اللہ (یا حق الشرع) اس لیے شامل ہو جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کی پروانہ بھی ہو تو خدا کی شریعت ان حقوق کی حفاظت ضروری سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو یہ پروانہ بھی لکھ کر دیدے کہ میرے مرنے کے بعد یا مجھ سے طلاق لے لینے کے بعد تیرے اُوپر میری طرف سے کوئی عدت واجب نہ ہو گی تب بھی شریعت کسے حال میں اس کو ساقط نہ کرے گی۔

۵) فَمَتِّعُوْ ھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحاًجَمِیْلاً (ان کو کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کر دو) اس حکم کا منشا دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر پورا کرنا ہو گا۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر کیا گیا تھا اور پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اس صورت میں نصف مہر دینا واجب ہو گا جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۷ میں ارشاد ہوا ہے۔ اس واجب سے زائد کچھ دینا لازم نہیں ہے مگر مستحب ہے۔ مثلاً یہ بات پسندیدہ ہے کہ نصف مہر دینے کے ساتھ مرد و ہ جوڑا بھی عورت کے پاس ہی رہنے دے جو دُلہن بننے کے لیے بھیجا گیا تھا، یا اور کچھ سامان اگر شادی کے موقع پر اسے دیا گیا تھا تو وہ واپس نہ لے لیکن اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا واجب ہے،  اور یہ ’’کچھ نہ کچھ ‘‘ آدمی کی حیثیت اور مقدرت کے مطابق ہونا چاہیے،  جیسا کہ بقرہ کی آیت ۲۳۶ میں فرمایا گیا ہے۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ مُتعۂ طلاق دینا بہرحال واجب ہے خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ (اسلامی فقہ کی اصطلاح میں مُتعۂ طلاق اُس مال کو کہتے ہیں جو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت عورت کو دیا جاتا ہے )۔

۶) بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی تھُکّا فضیحتی کے بغیر شریفانہ طریقے سے علیٰحدگی اختیار کر لی جائے۔ ایک آدمی کو اگر عورت پسند نہیں آئی ہے یا کوئی اور وجہ شکایت پیدا ہوئی ہے جس کی بنا پر وہ اس عورت کو نہیں رکھنا چاہتا تو بھلے آدمیوں کی طرح اسے طلاق دے اور رخصت کر دے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے عیوب لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے تاکہ کوئی دوسرا بھی اس عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے اس ارشاد سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق کے نفاذ کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ معلّق کرنا خدائی تشریع کی حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے،  کیوں کہ اس صورت میں ’’ بھلے طریقے سے رخصت کرنے ‘‘ کا کوئی امکان نہیں رہتا، بلکہ مرد نہ بھی چاہے تو تھُکّا فضیحتی اور بدنامی و رسوائی ہو کر رہتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں اس امر کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کہ مرد کا اختیارِ طلاق کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہو۔ آیت بالکل صراحت کے ساتھ ناکح کو طلاق کا اختیار دے رہی ہے اور اُسی پر یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اگر وہ ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو چھوڑنا چاہے تو لازماً نصف مہر دے کر یا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال دے کر چھوڑے۔ اس سے آیت کا مقصود صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کھیل بننے سے روکنے کے لیے مرد پر مالی ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا جائے تاکہ سہ خود ہی اپنے اختیارِ طلاق دہ سوچ سمجھ کر استعمال کرے اور دو خاندانوں کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی مداخلت کی نوبت نہ آنے پائے،  بلکہ شوہر سرے سے کسی کو یہ بتانے پر مجبور ہی نہ ہو کہ وہ بیوی کو کیوں چھوڑ رہا ہے۔

۷) ابن عباس، سعید بن المُسَیِّب،  حسن بصری،  علی بن الحسین (زین العابدین)،  امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے آیت کے الفاظ ’’جب تم نکاح کرو پھر طلاق دے دو ‘‘ سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اُسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے نکاح ہو چکا ہو۔ نکاح سے پہلے طلاق بے اثر ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے،  یا فلاں قبیلے یا قوم کی عورت سے یا کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘۔ تو یہ قول لغو و بے معنیٰ ہے، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو سکتی۔ اس خیال کی تائید میں یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: لا طلاق لا بن اٰدم فی ما لا یملک، ’’ ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں ہے اُس کے بارے میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا‘‘ (احمد، ابو داؤد،  ترمذی، ابن ماجہ ) اور لاَ طلاق قبل النکاح’’، نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ‘‘۔ ( ابن ماجہ)۔ مگر فقہاء کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ اِس آیت اور اِن احادیث کا اطلاق صرف اِس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک غیر عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو یوں کہے کہ ’’ تجھ پر طلاق ہے ‘‘ یا ’’ میں نے تجھے طلاق دی‘‘۔ یہ قول بلا شبہ لغو ہے جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ یوں کہے کہ ’’ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق ہے۔ ‘‘ تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ دراصل وہ شخص اس امر کا فیصلہ اور اعلان کرتا ہے کہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وارد ہو گی۔ یہ قول لغو و بے اثر نہیں ہو سکتا،  بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اُسی وقت اُ سپر طلاق پڑ جائے گی۔ یہ مسلک جن فقہاء کا ہے ان کے درمیان پھر اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس نوعیت کے ایقاعِ طلاق کی وسعت کس حد تک ہے۔

امام انو حنیفہ، امام محمد اور امام زُفَر کہتے ہیں کہ خواہ کوئی شخص عورت یا قوم یا قبیلے کی تخصیص کرے یا مثال کے طور پر عام بات اس طرح کہے کہ ’’ جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے ‘‘،  دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی۔ ابو بکر جَصّاص نے یہی رائے حضرت عمرؓ،  عمداللہ بن مسعود ؓ،  ابراہیم النَّخعی، مجاہد اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ سے بھی نقل کی ہے۔

سُفیان ثَوری اور عثمان الْبَتِّی کہتے ہیں کہ طلاق صرف اُسی صورت میں پڑے گی جب کہنے والا یوں کہے کہ ’’ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ ‘‘حسن بن صالح، لَیث بن سعد اور عامر الشَّعبِی کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق عمومیت کے ساتھ بھی پڑ سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی نوع کی تخصیص ہو۔ مثلاً آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں فلاں خاندان،  یا فلاں قبیلے،  یا فلاں شہر یا ملک یا قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ ‘‘

ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک اُوپر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ اس میں مدّت کا بھی تعین ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر آدمی نے یوں کہا ہو کہ ’’ اگر میں اِس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں گروہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ‘‘ تب یہ طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں۔ بلکہ امام مالکؒ اس پر اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ اگر یہ مدّت اتنی طویل ہو جس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہو تو اس کا قول نے اثر رہے گا۔

(۸۷)۔ یہ دراصل جواب ہے اُن لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں،  مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب ؓ سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی چار بیویاں موجود تھیں۔ ایک حضرت سودہؓ جن سے  ۳ قبلِ ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا۔ دوسری،  حضرت عائشہؓ جن سے نکاح تو ۳ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر ان کی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی،  تیسری،  حضرت حفصہؓ جن سے شعبان ۳ ہجری میں آپ کا نکاح ہوا۔ اور چوتھی،  حضرت اُم سَلمہ ؓ جنہیں حضورؐ نے شوال ۴ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا۔ اس طرح حضرت زینب ؓ آپؐ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اُس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبیؐ،  تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس جوان کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں۔

اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ اُن مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دِلوں میں مخالفینِ اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے،  اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی بے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا ء کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے۔

(۸۸)۔ پانچویں بیوی کو حضورؐ کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضورؐ کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی:

۱۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپؐ کی ملکیت میں آئیں۔ اس اجازت کے مطابق حضورؐ نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہؓ،  غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہؓ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہؓ اور مُقَقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہؓ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا۔ ان میں سے مقدّم الذکر تین کو آپؐ نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا،  لیکن حضرت ماریہؓ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتّع فرمایا، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپؐ نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو۔

۲۔ آپؐ کی چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپؐ کا ساتھ دیا ہو۔ آیت میں آپؐ کے ساتھ ’’ہجرت کرنے ‘‘ کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپؐ کے ساتھ رہی ہوں،  بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہِ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں۔ حضورؐ کو اختیار دیا گیا کہ اِن رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپؐ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپؐ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہؓ سے نکاح فرمایا۔ (ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا،  ماموں،  پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی،  دونوں مذہبوں سے مختلف ہے۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے )۔

۳۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے ہبہ کرے، یعنی بلا مہر آپ کو حضورؐ کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضورؐ اسے قبول کرنا پسند فرمائیں۔ اس اجازت کی بنا پر آپؐ نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہؓ کو اپنی زوجیت میں لیا۔ لیکن آپؐ نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر اُن کے ہبہ سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس لیے آپؐ نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپؐ نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا۔

(۸۹)۔ اس فقرے کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کرے اور وہ بلا مہر اس سے نکاح کر لے۔ اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مُراد یہ ہو گی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف حضورؐ کے لیے ہے،  عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خاص ہیں جن میں اُمت کے دوسرے لوگ آپؐ کے ساتھ شریک نہیں ہیں۔ قرآن و سُنت کے تتبُّع سے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً حضورؐ کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام اُمت کے لیے وہ نفل ہے۔ آپؐ کے لیے اور آپؐ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے وہ حرام نہیں ہے۔ آپؐ کی میراث تقسیم نہ ہو سکتی تھی، باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورۂ نساء میں بیان ہوئے ہیں۔ آپؐ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں،  بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا،  اپنے نفس کو ہبہ کر نے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپؐ کو اجازت دی گئی،  اور آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ کی بیویاں تمام اُمت پر حرام کر دی گئیں۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں ہے جو حضورؐ کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو۔ مفسرین نے آپؐ کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپؐ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا، حالانکہ باقی اُمت کے لیے وہ حلال ہے۔

(۹۰)۔ یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا۔ ’’ تنگی نہ رہے ‘‘ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپؐ کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپؐ کو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپؐ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصّب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اُس وقت ۴۰ سال تھی،  اور پوری ۲۵برس تک آپ اُن کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے۔ پھر جب اُن کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہؓ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں۔ اب آخر کون صاحبِ عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضورؐ کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی۔ دراصل ’’ تنگی نہ رہنے ‘‘ کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اُس کارِ عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف اُن حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپؐ کو کھُلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا،  اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا ’’تنگی‘‘ تھی۔

حضورؐ کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپؐ ایک اَن گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدّن کے نقطۂ نظر سے بھی نا تراشیدہ تھی، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذّب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی۔ مگر جو اُصولِ تمدّن و تہذیب سکھانے کے لیے آپؐ مامور کیے گئے تھے اُن کی رُو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپؐ کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپؐ کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدّد خواتین سے آپؐ نکاح کریں،  ان کو براہِ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں،  اور پھر اُن سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں۔

اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سُپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظامِ زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظامِ زندگی عملاً قائم کر دیں۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی یہاں قبائلی طرزِ زِندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا۔ اِن حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپؐ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپؐ مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں۔ چنانچہ جن خواتین سے آپؐ نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی۔ حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہؓ کے ساتھ نکاح کر کے آپؐ نے حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓ کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا۔ حضرت امّ سلمہؓ اُس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولیدؓ کا تعلق تھا۔ اور حضرت اُم حبیبہؓ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندان کی دشمنی کا زور توڑ دیا،  بلکہ اُم حبیبہؓ کے ساتھ حضورؐ کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضورؐ کے مقابلے پر نہ آیا۔ حضرت صفیہ ؓ، جُویریہ ؓ، اور رَیحانہؓ یہودی خاندانوں سے تھیں۔ انہیں آزاد کر کے جب حضورؐ نے ان سے نکاح کیے تو آپؐ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں۔ کیونکہ اُس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پُورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی۔

معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپؐ کے فرائضِ منصبی میں شامل تھا۔ چنانچہ ایک نکاح آپؐ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا،  جیسا کہ اسی سور ۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے۔

یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے۔ تاکہ جو کارِ عظیم آپؐ کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپؐ جتنے نکاح کرنا چاہیں کر لیں۔

 اس بین سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدّد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی،  یا بانجھ تھی،  یا اولاد نرینہ تھی،  یا کچھ یتیموں کی پر ورش کا مسئلہ در پیش تھا۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپؐ نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے، یا سیا سی و اجتماعی مقاصد کے لیے۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدّد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک،  جن کا آج نام لیا جا رہا ہے،  محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدّد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا یہ کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور او پر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے۔ در اصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیّل ہے کہ تعدّدِ  ازواج بجائے خود ایک برائی ہے۔ اسی تخیّل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیّل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے،  قرآن و سنت اور پوری امتِ مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً نا آشنا ہے۔

(۹۱) اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپؐ پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں۔ جب اللہ تعلی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواجِ مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو بر تاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مو من خواتین آپؐ کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں۔ لیکن اللہ تعلی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام ازواج کے در میان پورا پورا عدل فرما یا،  کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی،  او ربا قاعدہ باری مقرر کر کے آپؐ سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے۔ محدّثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم صرف چار بیویوں (حضرت عائشہؓ،  حضرت حفصہؓ،   حضرت زینب ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے۔ بخاری، مسلم،  نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ ؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپؐ ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے۔ ‘‘ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ و سلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے۔ اگر چہ کم ہی ایسا ہو تا تھا کہ آپؐ کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں،  مگر جس بیوی کی باری کا دن ہو تا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ ؓ ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپؐ لیے مشکل ہو گئی تو آپؐ نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ ؓ  کے ہاں رہنے دو،  اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپؐ نے آخری زمانہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں گزارا۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی  صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ ؓ مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ ؓ کو بخش دی تھی،  کیوں کہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں۔

اس مقام پر کسی کے دِل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواجِ مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے وے مستثنیٰ کیا گیا تھا، انہی مصالح کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ آپؐ کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور اُن اسباب کا سدّ باب کیا جائے جو آپؐ کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں ازواجِ مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت اُن کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اُس عظیم الشان کام میں آپؐ کی رفیق کار بنیں جو رہتی دُنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حدِ استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھی اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کی اس فیصلے کو تمام ازواج رسولؐ نے بخوشی قبول کیا۔

(۹۲)۔ یہ تنبیہ ہے ازواج مطہرات کے لیے بھی اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی۔ ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ اس بات کی ہے کہ اللہ کا یہ حکم آ جانے کے بعد اگر وہ دِل میں بھی کبیدہ خاطر ہوں گی تو گرفت سے نہ بچ سکیں گی۔ اور دوسرے لوگوں کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ازدواجی زندگی کے متعلق کسی طرح کی بدگمانی بھی اگر انہوں نے اپنے دِل میں رکھی یا فکر و خیال کے کسی گوشے میں بھی کوئی وسوسہ پالتے رہے تو اللہ سے ان کی یہ چوری چھپی نہ رہ جائے گی۔ اس کے ساتھ اللہ کی صفتِ حِلُم کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبیؐ کی شان میں گستاخی کا تخیل بھی اگرچہ سخت سزا کا مستوجب ہے،  لیکن جس کے دِل میں کبھی ایسا کوئی وسوسہ آیا ہو وہ اگر اسے نِکال دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی کی اُمید ہے۔

(۹۳)۔ اس ارشاد کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضورؐ کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپؐ کے لیے حلال نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواجِ مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپؐ کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دُنیا کو انہوں نے تج دیا ہے،  اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپؐ جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں،  تو اب آپؐ کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ا ن میں سے کسی کو طلاق کے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں۔

(۹۴)۔ یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عوروں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کی لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے۔ اسی مضمون کی تصریح سُورۂ نساء آیت ۳، سُورۂ مومنون آیت ۶، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے،  مگر نہ اُس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا حلال نہیں ہے،  البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے۔

لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا،  اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے،  اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدّت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے،  تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اُٹھا نا ہے جس کی ذمّہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر اُن کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو،  لونڈی بنانے کی اجازت دی،  اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دے دی جائیں اُن کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں اُن کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنے لونڈیاں رکھ سکتا ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نبیؐ کے گھروں میں بلا اجازت نہ چلے آیا کرو(۹۵)  نہ کھانے کا وقت تاکتے رہو۔ ہاں اگر تمہیں کھانے پر بلایا جائے تو ضرور آؤ(۹۶)  مگر جب کھانا کھالو تو منتشر ہو جاؤ۔ باتیں کرنے میں نہ لگے رہو(۹۷)  تمہاری یہ حرکتیں نبی کو تکلیف دیتی ہیں،  مگر وہ شرم کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے۔ اور اللہ حق بات کہنے میں نہیں شرماتا۔ نبیؐ کی بیویوں سے اگر تمہیں کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو کرو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ مناسب طریقہ ہے (۹۸)
 تمہارے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ اللہ کے رسولؐ کو تکلیف دو(۹۹)،   اور نہ یہ جائز ہے کہ ان کے بعد ان کی بیویوں سے نکاح کرو(۱۰۰)،   یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔ تم خواہ کوئی بات ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ کو ہر بات کا علم ہے (۱۰۱)
ازواجِ نبیؐ کے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ان کے باپ، ان کے بیٹے،  ان کے بھائی،  ان کے بھتیجے،  ان کے بھانجے (۱۰۲)،   ان کے میل جول کی عورتیں (۱۰۳) اور ان کے مملوک (۱۰۴) گھروں میں آئیں۔ (اے عورتو!) تمہیں اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اللہ ہر چیز پر نگاہ رکھتا ہے (۱۰۵)
اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں (۱۰۶)،   اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو(۱۰۷) جو لوگ اللہ اور اس کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے رسوا کن عذاب مہیا کر دیا ہے (۱۰۸)۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں اُنہوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔ (۱۰۹) ع

 

(۹۵)۔ یہ اُس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحبِ خانہ گھر میں ہے یا نہیں۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص،  خواہ سہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، آپؐ کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا۔

(۹۶)۔ یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے۔ جو غیر مہذب عادات اہلِ عرب میں پھیلی ہوئی تھیں اُن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے،  آپ تشریف لے جایئے،  تو بے مروّتی ہے۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آ جائیں،  ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اُس وقت جانا چاہیے جب کہ گھر والا کھانے کی دعوت دے۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اُس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں۔

(۹۷)۔ یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحبِ خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپؐ اپنے اخلاقِ کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے۔ آخر کار حضرت زینبؓ کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیّت رسانی کی حد سے گزر گئی۔ حضورؐ کے خادمِ خاص حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے،  مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے۔ تنگ آ کر حضورؐ اُٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ آپؐ پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ ؓ کے حجرے میں جا بیٹھے۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپؐ حضرت زینب ؓ کے مکان میں تشریف لائے۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بُری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے۔ حضرت انس ؓ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں۔ (مسلم۔ نَسائی۔ ابنِ جریر)

(۹۸)۔ یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے۔ بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضورؐ سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ،  آپؐ کے ہاں بھلے اور بُرے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ازواج رسولؐ سے کہا کہ ’’ اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں۔ ‘‘لیکن حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے،  اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے۔ آخر یہ حکم آ گیا کہ محرم مردوں کے سوا (جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے ) کوئی مرد حضورؐ کے گھر میں نہ آئے،  اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے۔ اِس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے،  اور چوں کہ حضورؐ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دِل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رُو در رُو بات کرنے سے روکتی ہے،  اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ ’’ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے ‘‘ اُس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دِلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی ’’روح‘‘ ہے جو میں نے نکال لی ہے۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سُنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مِل جاتی ہے ؟

(۹۹)۔ یہ الزام ہے اُن الزام تراشیوں کی طرف جو اُس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے۔

(۱۰۰)۔ یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغازِ سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیویاں اہلِ ایمان کی مائیں ہیں۔

(۱۰۱)۔ یعنی اگر حضورؐ کے خلاف دِل میں بھی کوئی بُرا خیال کوئی شخص رکھے گا،  یا آپؐ کی ازواج کے متعلق کسی کی نیت میں بھی کوئی برائی چھپی ہو گی تو اللہ تعالیٰ سے وہ چھپی نہ رہے گی اور وہ اس پر سزا پائے گا۔

(۱۰۲)۔ تشریح کی لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورہ نور حواشی نمبر ۳۸ تا ۴۲۔ اس سلسلے میں علامہ آلوسی کی یہ تشریح بھی قابِل ذکر ہے کہ ’’ بھائیوں،  بھانجوں،  اور بھتیجوں کے حکم میں وہ سب رشتہ دار آ جارے ہیں جو ایک عورت کے لیے حرام ہوں،  خواہ وہ نَسَبی رشتہ دار ہوں یا رضاعی۔ اس فہرست میں چچا اور ماموں کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا کہ وہ عورت کے لیے بمنزلۂ والدین ہیں۔ یا پھر ان کے ذکر کو اس لیے ساقط کر دیا گیا کہ بھانجوں اور بھتیجوں کا ذکر آ جانے کے بعد اُن کے ذکر کی حاجت نہیں ہے،  کیوں کہ بھانجے اور بھتیجے سے پردہ نہ ہونے کی جو وجہ ہے وہی چچا اور ماموں سے پردہ نہ ہونے کی وجہ بھی ہے ‘‘۔ (روح المعانی)

(۱۰۳)۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۳۔

(۱۰۴)۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر سُورۂ نور حاشیہ نمبر ۴۴۔

(۱۰۵)۔ اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم قطعی کے آ جانے کے بعد آئندہ کسی ایسے شخص کو گھروں میں بے حجاب آنے کی اجازت نہ دی جائے جو ان مستثنیٰ رشتہ داروں کے دائرے سے باہر ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی کہ خواتین کو یہ روش ہر گز نہ اختیار کرنی چاہیے کہ وہ شوہر کی موجودگی میں تو پردے کی پابندی کریں مگر جب وہ موجود نہ ہو تو غیر محرم مردوں کے سامنے پردہ اٹھا دیں۔ ان کا یہ فعل چاہے ان کے شوہر سے چھپا رہ جائے خدا سے تو نہیں چھپ سکتا۔

(۱۰۶)۔ اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر نے حد مہربان ہے،  آپ کی تعریف فرماتا ہے،  آپؐ کے کام میں برکت دیتا ہے،  آپؐ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے۔ ملائکہ کی طرف سے آپؐ پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپؐ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپؐ حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپؐ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے،  آپؐ کے دین کو سر بلند کرے،  آپؐ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپؐ کو مقام محمُود پر پہنچائے۔ سیاق و سباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب دشمنانِ اسلام اس دینِ مبین کے فروغ پر اپنے دِل کی جلن نکالنے کے لیے حضورؐ کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اُچھال کر وہ آپؐ کے اُس اخلاقی اثر کو ختم کر دیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دُنیا کو یہ بتایا کہ کفّار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں،  آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے،  اس لیے کہ میں اُس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اُس کے حامی اور ثنا خواں ہیں۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پا سکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ ربّ العالمین، محمدؐ کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے۔

(۱۰۷)۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمدؐ رسول اللہ کی بدولت راہِ راست نسیب ہوئی ہے،  تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرہ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے،  اس شخص نے تمہیں اُٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے،  اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے،  ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی کوئی بُرائی نہ کی تھی۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیرِ مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو،  جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ،  جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو،  جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے ربِّ دوجہاں ! جو طرح تیرے نبیؐ نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں،  تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما، ان کا مرتبہ دُنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔

اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ۔ دوسرے سَلِّمُوْ اتَسْلِیْماً

صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے ص، لہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں۔ ایک،  کسی پر مائل ہونا، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اُس پر جھُکنا۔ دوسرے،  کسی کی تعریف کرنا۔ تیسرے،  کسی کے حق میں دُعا کرنا۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں ی میں نہیں ہو سکتا،  کیوں کہ اللہ کا کسی اور وے دُعا کرنا قطعاً نا قابل تصوّر ہے۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان،  تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا۔ ا س میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا۔ مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دُعائے رحمت کا مفہوم بھی۔ لہٰذا اہلِ ایمان کو نبی صلی اللہ و علیہ و سلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ،  ان کی مدح و ثنا کرو، اور ان کے لیے دُعا کرو۔

سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے۔ ایک، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت۔ پس نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں سَلِّمُوْ ا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دُعا کرو۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دِل و جان سے ان کا سا تھ دو،  اُن کی مخالفت سے پرہیز کرو، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔

یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدّد صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ،  سلام کا طریقہ تو آپؐ ہمیں بتا چکے ہیں (یعنی نماز میں السّلام علیک ایّھا النبی وراحمۃاللہ و برکاتۃٗ  اور ملاقات کے وقت  السّلام علیک یا رسول اللہ کہنا)مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟اس کے جوا ب میں حضورؐ نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں :

کعب بن عجُر ہؓ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجر ؓ سے بخاری،  مسلم،  ابو داؤد ترمذی،  نسائی،  ابن ماجہ،  امام احمد ؒ،  ابن ابی شیبہ،  عبدالرزاق،  ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔

ابن عباسؓ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے (ابن جریر)

      ابو ُحمید سا عدی ؓ: اللہم صلی علی محمد وازاجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبرک علی محمد و ازواجہ و ذریتہ کا بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید (مالک،  مسلم،  ابو داود،  ترمذی، ، نسائی،  احمد،  ابن حبان، حاکم )

      ابُو مسعود بدریؓ: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍوعلیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارک علیٰ ابراھیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید( مالک، مسلم،  ابوداود،  ترمذی،  نَسائی، احمد، ابن جریر، ابن حبان،  حاکم)

        ابو سعید خُدری ؓ : اللہم صل علی محمد عبدک ورسولک کما صلیت علی ابراھیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما برکت علی ابرھیم (احمد بخاری نسائی،  ابن ماجہ )

        ابو ہریرہ ؓ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و برکت علی ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید (نسائی )

       طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراھیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراھیم انک حمیدٌ مجید (ابن جریر)

      یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے :

      اوّلاً،  ان سب میں حضورؐ نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا،  تو محمدؐ پر درود بھیج۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی، اللہ تعلی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبیؐ پر درود بھجو،  مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبیؐ نے لو گوں کو یہ بتا یا ہے کہ تم پر ’’صلوٰۃ‘‘ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضورؐ مراتب بلند نہیں کر سکتے۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضورؐ کے رفع ذکر کیے لیے آپؐ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں،  اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپؐ سے منحرف کر سکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من ذالک۔ لہٰذا حضورؐ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گو یا اللہ کے حضور اپنے اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا،  تیرے نبیؐ پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔

      ثانیاً، حضورؐ کی شان کرم نے یہ گوا را نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریّت کو بھی آپؐ نے شامل کر لیا۔ ازواج اور ذریّت کے معنی تو ظاہر ہیں۔ رہا آل کا لفظ، تو وہ محض حضورؐ کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپؐ کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں۔ عربی لغت کی رُو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی، مدد گار اور متبع ہوں،  خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں،  خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں۔ قرآن مجید میں ۱۴ مقامات پر آلِ فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت موسیٰ ؑ کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ۴۹۔ ۵۰۔ آل عمران، ۱۱۔ الاعراف، ۱۳۰۔ المومن، ۴۶) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر نہ ہو،  خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو،  اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضورؐ کے نقش قدم پر چلتا ہو،  خواہ وہ حضورؐ کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا۔ البتہ خاندانِ رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آلِ محمد صلی اللہ علیہ و سلم  ہیں جو آپؐ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپؐ کے پیر و بھی ہیں۔

      ثالثاً ہر درود جو حضورؐ نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپؐ  پر ویسی ہی مہربانی فر مائی جائے جیسی ابراھیم ؑ اور آل ابراہیمؑ  پر فرمائی گئی ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے (والعلم عنداللہ)کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراھیم ؑ پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا،  اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذِ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیشوائی پر متفق ہیں،  خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد منشاء یہ کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو اللہ تعلی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مر جع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو،  میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے۔

      یہ امر کہ حضورؐ پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپؐ کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں ا س کا پڑھنا مسنون ہے،  اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضورؐ پر درود بھیجنا فرض ہے،  کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔

      امام شافعی ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اُس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے،  اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی۔ صحابہؓ میں سے ابنِ مسعود انصاریؓ،  ابن عمر ؓ اور جابرؓ  بن عبداللہ،  تابعین میں سے شَعبِی،  امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا،  اور آخر میں امام احمد بن حنبلؒ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒ،  امام مالک ؒ اور جمہور علماء مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود۔

     ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا۔

     ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضورؐ کا نام آئے،  درود پڑھنا واجب ہے۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضورؐ کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے،  درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے۔

     یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں۔ باقی رہی درود کی فضیلت،  اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا،  اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا،  تو اس پر ساری اُمت متفق ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دِل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے احسانات کی بھی ہو گی، اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضورؐ پر درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرتِ درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دینِ محمدؐ سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمتِ ایمان کی کتنی قدر اس کے دِل میں ہے۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ  (احمد و ابن ماجہ)’’ جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے ‘‘من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً   ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے۔ ‘‘ اولی الناس بی یومالقیامۃ اکثر ھم علیّ صلوٰۃ(ترمذی)’’قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا۔ ‘البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ(ترمذی) ’’بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔

      نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا دوسروں کے لیے  اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان  یا  صلّی اللہ علیہ و سلم۔۔۔۔ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں،  اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں،  اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃ    (البقرہ۔ ۱۵۷) خُذْمِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْ ھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ۔ (التوبہ۔ ۱۰۳) ھُوَالَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓعِکَتُہٗ (الاحزاب۔ ۴۳)اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپؐ نے دُعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی ادفیٰ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپؐ فرماتے ہیں۔ اللھم صلِّ علیھم۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپؐ نے فرمایا: اللھم اجعل سَلوٰتک ورحمتکعلیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ۔ اور مومن کی روح کے متعلق خضرؐ نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیکا وعلیٰ جسدک۔ لیکن  جمہور اُمت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہلِ اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ ’’ میں نے سُنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دُعا پر اکتفا کریں۔ ‘‘  (روح المعانی)۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضورؐ کے سِوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے۔

(۱۰۸)۔ اللہ کو اذیت دینے سے مُراد دو چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کہ نافرمانی کی جائے،  اس کی مقابلے میں کفر و شرک اور دہریت کا رویہ اختیار کیا جائے،  اور اس کے حرام کو حلال کر لیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کے رسولؐ کو اذیت دی جائے،  اور رسول کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے۔

(۱۰۹)۔ یہ آیت بہتان کی تعریف متعین کر دیتی ہے،  یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو، یا جو قصور آدمی نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے۔ ابو داؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضورؐ سے پوچھا گیا غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بمَا یکرہ۔ ’’ تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اس ناگوار ہو۔ ‘‘ عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو۔ فرمایا ان کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہٗ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتّہ۔ ’’ اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جو تُو نے بیان کیا تو تُو نے اس کی غیبت کی۔ اور اگر وہ اس میں نہیں ہے تو تُو نے اس پر بہتان لگایا۔ ‘‘ یہ فعل صرف ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہو۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے یو جرم مستلزمِ سزا قرار دیا جائے۔

 

اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں (۱۱۰)  یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں (۱۱۱)  اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (۱۱۲)  اگر منافقین،  اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے (۱۱۳)،   اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں (۱۱۴)،   اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اُٹھا کھڑا کریں گے،  پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے۔ ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ  ہو گی، جہاں کہیں پائے جائیں گے پکڑے جائیں گے اور بُری طرح مارے جائیں گے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے،  اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۱۱۵)

لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی(۱۱۶)  کہو، اس کا علم تو للہ ہی کو ہے۔ تمہیں کیا خبر، شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو۔ بہر حال یہ یقینی امر ہے کہ اللہ نے کافروں پر لعنت کی ہے اور ان کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر دی ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،  کوئی حامی و مددگار نہ پا سکیں گے۔ جس روز ان کے چہرے آگ پر اُلٹ پلٹ کیے جائیں گے اُس وقت وہ کہیں گے کہ ’’کاش ہم نے اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کی ہوتی‘‘۔ اور کہیں گے ’’اے رب ہمارے،  ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے بڑوں کی اطاعت کی اور انہوں نے ہمیں راہِ راست سے بے راہ کر دیا۔ اے رب،  ان کو دوہرا عذاب دے اور ان پر سخت لعنت کر‘‘(۱۱۷) ع

 

(۱۱۰)۔ اصل الفاظ ہیں  یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبَھِنَّ۔ جلباب عربی زنان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی  قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں،  مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْ خَاء، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسّرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف ’’لپیٹ لینا ‘‘ کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ  یُدْ نَیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْ نِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں۔  مزید براں  مِنْ جَلَا ئِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تعبیض کے لیے ہے،  یعنی چادر کا ایک حصّہ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر اُن کا ایک حصہّ،  یا ان کا پلّو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں،  جسے عرفِ عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں۔

      یہی معنی عہدِ رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسّرین  بیان کرتے ہیں۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سَیرین ؒ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔ (یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضِر خدمت نہ ہو سکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہیں فقہ اور احا میں قاضی شُریح کا ہم پلّہ مانا جاتا تھا )۔ اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھُلی رکھی۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں۔ اُن کے جو اقوال ابنِ جریر۔ ابنِ ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں ’’ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلّو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں۔ ‘‘ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے۔

      عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسّرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب  بیان کیا ہے۔ امام بنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مَنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نکلیں کہاں کے چہرے اور سر کے بال کھُلے ہوئے ہوں،  بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔ ‘‘ (جامع البیان جلد ۲۲۔ ص ۳۳)

      علّامہ ابو بکر جصّاص کہتے ہیں :’’یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو ان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفّت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اُسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں۔ ‘‘ (احکام القرآن،  جلد ۳، صفحہ  ۴۵۸)

      علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں :’’یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں۔ ‘‘ ( الکشا۔ جلد ۲، ص ۲۲۱)

      علّامہ نظام الدین نیشا پوری کہتے ہیں :ید نین لیھن من جلا بیبھنّ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں۔ اس طرف عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘ (غرائب القرآن جلد ۲۲، ص۳۲)

امام رازی کہتے ہیں :’’ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے،  اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ با پردہ عورتیں ہیں،  اس سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی۔ ‘‘(تفسیر کبیر،  جلد ۶، ص ۵۹۱)

     ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ لے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتے ہیں،  کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے ’’ اے نبی، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو۔ ‘‘یہ الفاظ اُن لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلّف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضورؐ کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں۔ یہ لوگ تعصب  میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولادِ رسولؐ کے نسب سے انکار کر کے سہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اِس کی کیسی سخت جواب دہی اُنہیں آخرت میں کرنی ہو گی۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ ؓ کے بطن سے حضورؐ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؓ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں۔ حضورؐ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہؓ سے حضورؐ کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ’’ ابراہیمؑ کے سوا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں۔ قاسم، اور طاہرو طیب، اور زینب، اور رُقیَّہ، اورامّ کلثوم اور فاطمہ‘‘ (سیرت ابن ہشام، جلد اول۔ ص ۳۰۲) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السّائب کلبی کا بیان ہے کہ : ’’ مکہ میں نبوّت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے،  پھر زینبؓ، پھر رقیہ، پھر اُمِ کلثوم(طبقات ابن سعد،  جلد اول،  ص ۱۳۳)۔ ابنِ حزْم نے جو انع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے بطن سے حضورؐ کی چار لڑکیاں تھیں،  اب سے بڑی حضرت زینبؓ ان سے چھوٹی رقیّہ ؓ،  ان سے چھوٹی فاطمہؓ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم (ص۳۸۔ ۳۹)۔ طَبَری، ابن سعد،  ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبدلبَر صاحب کتاب الاستیعاب، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے حضرت خدیجہؓ کے دو شوہر گزر چکے تھے۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے۔ دوسرے عیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضورؐ سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپؐ کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں (ملاحظہ ہو طبری، جلد ۲، ص۴۱۱۔ طبقات ابنِ سعد،  جلد ۸، ص ۴۱ تا ۱۶۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸، ۷۹، ۴۵۲۔ الاستیعاب جلد ۲،  ص۷۱۸)اِن تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کر دیتی ہے کہ حضورؐ کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں۔

(۱۱۱)۔ ’’ پہچان لی جائیں ‘‘سے مراد یہ ہے کہ ان کو س سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں،  آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دِل کی تمنّا پوری کرنے کی اُمید کر سکے۔ نہ ’’ستائی جائیں ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے،  ان سے تعرّض نہ کیا جائے۔

     اس مقام پر ذرا ٹھیر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم، اور وہ مقصدِ حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے،  اسلامی قانونِ معاشرت کی کیا رُوح ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے پہلے سورۂ نور،  آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکے ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔ ’’ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئی بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اُس زینب کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ‘‘۔ اُس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اِس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو، ورنہ ایک مزیّن اور جاذبِ نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا اُلٹا اور فوت ہو جائے گا۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصّہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھُپ جائے۔ پھر اس حکم کی علّت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت اُن عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذّت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دِہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں،  جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمعِ انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں، بلکہ عفت مآب چراغِ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیّت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دُلہن بن کر گھروں سے نِکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نِگاہوں کے سامنے اپنا حُسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نِکلو،  اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے،  اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دُنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوتِ التفات دیتی ہے۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں،  اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ ’’معاشرے کی بیگم ‘‘اور ’’ مقبولِ عام خاتون‘‘ ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اسل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے۔ لہٰذا جو عورت جاذِب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمعِ انجمن نہیں بن سکتی ہو۔ چراغ خانہ بننا ہے تو اُن طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمعِ انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں۔ اور وہ طرز زِندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے۔

      کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے،  بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے،  جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے۔

 (۱۱۲)۔ یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا،  بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کراس کی خلاف ورزی نہ کرو۔

(۱۱۳)۔ ’’ دِل کی خرابی ‘‘ سے مراد یہاں دو قسم خرابیاں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرنے کے باوجود اسلام اور مسلمانوں کا بدخواہ ہو۔ دوسرے یہ کہ آدمی بدنیتی،  آوارگی اور مجرمانہ ذہنیت میں مبتلا ہو اور اس کے ناپاک رجحانات اس کی حرکات و سکنات سے پھُوٹے پڑتے ہوں۔

(۱۱۴)۔  اس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور ان کے حوصلے پست کرنے کے لیے آئے دن مدینے میں اس طرح کی خبریں اُڑایا کرتے تھے کہ فلاں جگہ مسلمانوں کو بڑی زک پہنچی ہے اور فلاں جگہ مسلمانوں کے خلاف بڑی طاقت جمع ہو رہی ہے اور عنقریب مدینہ پر اچانک حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے ساتھ اُن کا ایک مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ خاندان نبوت اور شرفائے مسلمین کی خانگی زندگی کے متعلق طرح طرح کے افسانے گھڑتے اور پھیلاتے تھے تاکہ اس سے عوام میں بدگمانیاں پیدا ہوں اور مسلمانوں کے اخلاقی اثر کو نقصان پہنچے۔

 (۱۱۵)۔ یعنی یہ اللہ کی شریعت کا ایک مستقل ضابطہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے اور ریاست میں اس طرح کے مفسدین کو کبھی پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ جب بھی کسی معاشرے اور ریاست کا نظام خدائی شریعت پر قائم ہو گا اُس میں ایسے لوگوں کو پہلے متنبہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اپنی روش بدل دیں،  اور پھر جب وہ باز نہ آئیں گے تو سختی کے ساتھ ان کا استیصال کر ڈالا جائے گا۔

(۱۱۶)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دِل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے یقین نہ تھا۔ قیامت کے تصوّر کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں،  بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی۔

(۱۱۷)۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدّد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مثال کے طور پر حسب ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : اَعراف، ۱۸۷۔ النازعات، ۴۲۔ ۴۶۔ سَبا، ۳۔ ۵۔ الملک ۲۴۔ ۲۷۔ المطفّفین، ۱۰۔ ۱۷۔ الحِجر، ۲۔ ۳۔ الفرقان،  ۲۷۔ ۲۹۔ حم السجدہ، ۲۶۔ ۲۹۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو (۱۱۸)،   ان لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنہوں نے موسیٰؑ کو اذیتیں دی تھیں،  پھر اللہ نے ان کی بنائی ہوئی باتوں سے اس کی برأت فرمائی اور وہ اللہ کے نزدیک با عزت تھا(۱۹۹)
 اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگذر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔  ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے،  مگر انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے (۱۳۰)  اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ منافق مردوں اور عورتوں،  اور مشرک مردوں اور عورتوں کو سزا دے اور مومن مَردوں کی توبہ قبول کرے،  اللہ درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ ع

 

(۱۱۸)۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘‘ کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے،  اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں،  اور کہیں رُوئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو  الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصُود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں۔ سیاق و سباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں۔

(۱۱۹)۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے مسلمانو ! تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی‘‘۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی،  انہی کی بدولت بنی،  ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا۔ لیکن اپنے اس مُحسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسبِ ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے :

      کتاب خروج۔ ۵:۲۰۔ ۲۱۔ ۱۴ : ۱۱۔ ۱۲۔ ۳۔ ۱۷:۳۔ ۴

      کتاب گنتی۔ ۱۱:۱۔ ۱۵۔ ۱۴: ۱۔ ۱۰۔ ۱۶ مکمّل۔ ۲۰:۱۔ ۵

       قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کُشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو، ورنہ پھر اُسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔

      یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا ’’احمدؐ نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا۔ ‘‘ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضورؐ سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں۔ آپؐ نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہٗ اُوذی باکثر من ھٰذافَصَبَر۔ ’’اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا‘‘ (مُسند،  احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)

(۱۲۰)۔ کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دُنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دُنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہّ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے۔

      اس جگہ ’’امانت ‘‘ سے مر اد وہی ’’خلافت ‘‘ ہے جو قرآن مجید کی رُو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے،  اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اُسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرّف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں اُن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے۔ یہ اختیار ات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں،  اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ للہ کے سامنے جواب دہ ہے،  اس لیے قرآن مجید میں دوسرے    مقامات  پر ان کو ’’خلافت‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے،  اور یہاں انہی کے لیے ’’ امانت‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

       یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے،  مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھا ری بوجھ اٹھا لیا ہے۔

      زمین و آسمان کے سامنے اس بارِ امانت کا پیش کیا جانا،  اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو،  اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو۔ اللہ تعلی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے،  بہرے اور بے جان ہیں،  ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہو ں۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بارِ گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں،  ہماری ہمت نہیں کے نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضورؐ کی سزا بر داشت کر سکیں۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے  ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوعِ انسانی کو اللہ تعلی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ اس کو دائر ۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتی ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو۔

      البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعلی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ  جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵۔ ۶فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ اللہ تعلی پوچھتا ہے کہ :

        ’’میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتی ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تر ی کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے،  ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت بھی کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہو ں۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا،  بڑی قابلیتیں عطا کروں گا،  اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا،  تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی بر پا کرنا چاہے کر سکے۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آ زادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے،  اور جس نے نافر نی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اتر نے کو تیار ہے ‘‘؟ 

     یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کر تی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے۔ آخر کا ریہ مشتِ استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں۔

یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر ا بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے،  اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کر تا ہے ان کے صحیح  یا غلط ہو نے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں،  اسی کو اللہ تعلی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے۔ وہ جہول ہے،  کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے۔ اور وہ ظلوم ہے،  کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے۔