٣۔ یعنی جس طرح یہ قرآن تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسی طرح تجھ سے پہلے انبیاء پر آسمانی کتابیں نازل کی گئیں وحی اللہ کا کلام ہے جو فرشتے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے پاس بھیجتا رہا ہے ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وحی کی کیفیت پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ کبھی تو یہ میرے پاس گھنٹی کی آواز کی مثل آتی ہے اور یہ مجھ پر سب سے سخت ہوتی ہے، جب یہ ختم ہو جاتی ہے تو مجھے یاد ہو چکی ہوتی ہے اور کبھی فرشتہ انسانی شکل میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے اور وہ جو کہتا ہے میں یاد کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں، میں نے سخت سردی میں مشاہدہ کیا کہ جب وحی کی کیفیت ختم ہوتی تو آپ پسینے میں شرابور ہوتے اور آپ کی پیشانی سے پسینے کے قطرے گر رہے ہوتے۔ (صحیح بخاری
٥۔ (۱) اللہ کی عظمت و جلال کی وجہ سے۔
٥۔ (۲) یہ مضمون سورہ مومن کی آیت۔٧ میں بھی بیان ہوا ہے۔
٥۔ (۳) اپنے دوستوں اور اہل اطاعت کے لئے یا تمام ہی بندوں کے لئے، کیونکہ کفار اور نافرمانوں کی فوراً گرفت نہ کرنا بلکہ انہیں ایک وقت معین تک مہلت دینا، یہ بھی اس کی رحمت و مغفرت ہی کی قسم سے ہے۔
٦۔ (۱) یعنی ان کے عملوں کو محفوظ کر رہا ہے تاکہ اس پر ان کو جزا دے۔
٦۔ (۲) یعنی آپ اس بات کے مکلف نہیں ہیں کہ ان کو ہدایت کے راستے پر لگا دیں یا ان کے گناہوں پر ان کا مؤاخذہ فرمائیں، بلکہ یہ کام ہمارے ہیں، آپ کا مصرف پیغام (پہنچا دینا) ہے۔
٧۔ (۱) یعنی جس طرح ہم نے ہر رسول اس کی قوم کی زبان میں بھیجا، اسی طرح ہم نے آپ پر عربی زبان میں قرآن نازل کیا ہے، کیونکہ آپ کی قوم یہی زبان بولتی اور سمجھتی ہے۔
٧۔ (۲) قیامت والے دن کو جمع ہونے والا دن اس لئے کہا کہ اس میں اگلے پچھلے تمام انسان جمع ہوں گی علاوہ ازیں ظالم مظلوم اور مومن و کافر سب جمع ہوں گے اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جزا و سزا سے بہرہ ور ہوں گے۔
٨۔ اس صورت میں قیامت والے دن صرف ایک ہی گروہ ہوتا یعنی اہل ایمان اور اہل جنت کا لیکن اللہ کی حکمت و مشیت نے اس جبر کو پسند نہیں کیا بلکہ انسانوں کو آزمانے کے لئے اس نے انسانوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی، جس نے آزادی کا صحیح استعمال کیا، وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو گیا، اور جس نے اس کا غلط استعمال کیا، اس نے ظلم کا ارتکاب کیا کہ اللہ کی دی ہوئی آزادی اور اختیار کو اللہ ہی کی نافرمانی میں استعمال کیا۔ چنانچہ ایسے ظالموں کا قیامت والے دن کوئی مددگار نہیں ہو گا۔
٩۔ جب یہ بات ہے تو پھر اللہ ہی اس بات کا مستحق ہے کہ اس کو ولی اور کار ساز مانا جائے نہ کہ ان کو جن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے اور جو سننے اور جواب دینے کی طاقت رکھتے ہیں، نہ نفع نقصان پہنچانے کی صلاحیت۔
١٠١۔ اس اختلاف سے مراد دین کا اختلاف ہے جس طرح یہودیت، عیسائیت اور اسلام وغیرہ میں آپس میں اختلاف ہیں اور ہر مذہب کا پیروکار دعویٰ کرتا ہے اس کا دین سچا ہے اور حق کا راستہ پہچاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرآن موجود ہے۔ لیکن دنیا میں لوگ اس کلام الٰہی کو اپنا اور ثالث ماننے کے لئے تیار نہیں۔ بالآخر پھر قیامت کا دن ہی رہ جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ان اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا اور سچوں کو جنت میں اور دوسروں کو جہنم میں داخل فرمائے گا۔
١١۔ (۱) یعنی یہ اس کا احسان ہے کہ تمہاری جنس سے ہی اس نے تمہارے جوڑے بنائے ورنہ اگر تمہاری بیویاں انسانوں کی بجائے کسی اور مخلوق سے بنائی جاتیں تو تمہیں یہ سکون حاصل نہ ہوتا جو اپنی ہم جنس اور ہم شکل بیوی سے ملتا ہے۔
١١۔ (۲) نہ ذات میں نہ صفات میں، پس وہ اپنی نظیر آپ ہی ہے، واحد اور بے نیاز۔
١٣۔ (۱) صرف ایک اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت (یا اس کے رسول کی اطاعت جو دراصل اللہ ہی کی اطاعت ہے )، اس کی عبادت و اطاعت سے گریزاں ان میں دوسروں کو شریک کرنا، انتشار انگیزی، جس سے ' پھوٹ ڈالنا ' کہہ کر منع کیا گیا ہے۔
١٣۔ (۲) اور وہی توحید اور اللہ و رسول کی اطاعت ہے۔
١٣۔ (۳) یعنی جس کی ہدایت کا مستحق سمجھتا ہے، اسے ہدایت کے لئے چن لیتا ہے
١٣۔(۴) یعنی اپنے دین اپنانے کی اور عبادت کو اللہ کے لئے خالص کرنے کی توفیق اس شخص کو عطا کر دیتا ہے جو اس کی اطاعت و عبادت کی طرف رجوع کرتا ہے۔
١٤۔ یعنی اگر ان کی بابت عقوبیت میں تاخیر کا فیصلہ پہلے سے نہ ہوتا تو فوراً عذاب بھیج کر ان کو ہلاک کر دیا جاتا۔
١٥۔ یعنی اس تفرق اور شک کی وجہ سے، جس کا ذکر پہلے ہوا، آپ ان کو توحید کی دعوت دیں اور اس پر جمے رہیں۔
١٦۔ یعنی یہ مشرکین مسلمانوں سے لڑتے جھگڑتے ہیں، جنہوں نے اللہ اور رسول کی بات مان لی، تاکہ انہیں پھر راہ ہدایت سے ہٹا دیں۔ یا مراد یہود و نصاریٰ ہیں جو مسلمانوں سے جھگڑتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دین تمہارے دین سے بہتر ہے اور ہمارا نبی بھی تمہارے نبی سے پہلے ہوا ہے، اس لئے ہم تم سے بہتر ہیں۔
١٧۔ الْکِتَابَ سے مراد جنس ہے یعنی تمام پیغمبروں پر جتنی کتابیں نازل ہوئیں، وہ سب حق اور سچی تھیں یا بطور خاص قرآن مجید مراد ہے اور اس کی صداقت کو واضح کیا جا رہا ہے۔
١٨۔ (۱) یعنی استہزاد کے طور پر یہ سمجھتے ہوئے کہ اس کو آنا ہی کہاں سے ہے ؟ اس لئے کہتے ہیں کہ قیامت جلدی آئے۔
١٨۔ (۲) اس لئے کہ وہ ان دلائل پر غور و فکر ہی نہیں کرتے جو ایمان لانے کے موجب بن سکتے ہیں حالانکہ یہ دلائل روز و شب ان کے مشاہدے میں آتے ہیں۔ ان کی نظروں سے گزرتے ہیں اور ان کی عقل و فہم میں آ سکتے ہیں۔ اس لئے وہ حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔
اور جس کا ارادہ آخر کی کھیتی کا ہو ہم اسے اس کی کھیتی میں ترقی دیں گے (١) اور جو دنیا کی کھیتی کی طلب رکھتا ہو ہم اسے اس دنیا میں سے ہی کچھ دے دیں گے ایسے شخص کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
٢٢۔ (۲) حالانکہ ڈرنا بے فائدہ ہو گا کیوں کہ اپنے کئے کی سزا تو انہیں بہرحال بھگتنی ہو گی۔
٢٣۔ (۱) یعنی اجر و ثواب میں اضافہ کریں گے یا نیکی کے بعد اس کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق کی صورت میں دیں گے جس طرح بدی کا بدلہ مزید بدیوں کا ارتکاب ہے۔
٢٣۔ (۲) اس لئے وہ پردہ پوشی فرماتا اور معاف کر دیتا ہے اور زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔
٢٤۔ (۱) یعنی اس الزام میں اگر صداقت ہوتی تو ہم آپ کے دل پر مہر لگا دیتے، جس سے وہی محو ہو جاتا جس کے گھڑنے کا انتساب آپ کی طرف کیا جاتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کو اس کی سخت ترین سزا دیتے۔
٢٤۔ (۲) یہ قرآن بھی اگر باطل ہوتا (جیسا کہ مکذبین کا دعویٰ ہے ) تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس کو بھی مٹا ڈالتا، جیسا کہ اس کی عادت ہے۔
٢٥۔ توبہ کا مطلب ہے، معصیت پر ندامت کا اظہار اور آئندہ اس کو نہ کرنے کا عزم محض زبان سے توبہ توبہ کر لینا یا اس گناہ اور معصیت کے کام کو تو نہ چھوڑنا اور توبہ کا اظہار کئے جانا، توبہ نہیں ہے۔ یہ استہزاء اور مذاق ہے۔ تاہم خالص اور سچی توبہ اللہ تعالیٰ یقیناً قبول فرماتا ہے۔
٢٦۔ یعنی ان کی دعائیں سنتا ہے اور ان کی خواہشیں اور آرزوئیں پوری فرماتا ہے۔ بشرطیکہ دعا کے آداب و شرائط کا بھی پورا اہتمام کیا گیا ہو، اور حدیث میں آتا ہے ' اللہ اپنے بندے کی توبہ سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری مع کھانے پینے کے سامان کے، صحرا، بیابان میں گم ہو جائے اور وہ نا امید ہو کر کسی درخت کے نیچے لیٹ جائے کہ اچانک اسے اپنی سواری مل جائے اور فرط مسرت میں اس کے منہ سے نکل جائے، اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب یعنی شدت فرحت میں غلطی کر جائے (صحیح مسلم)
٢٧۔ یعنی اللہ ہر شخص کی حاجت و ضرورت سے زیادہ یکساں طور پر وسائل رزق عطا فرما دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی کسی کی ماتحتی قبول نہ کرتا، ہر شخص شرو فساد اور دشمنی میں ایک سے بڑھ کر ایک ہوتا، جس سے زمین فساد سے بھر جاتی۔
٢٨۔ کار ساز ہے، اپنے نیک بندوں کی چارہ سازی فرماتا ہے، انہیں منافع سے نوازتا ہے اور شرور اور مہلکات سے ان کی حفاطت فرماتا ہے۔ اپنے ان انعامات بے پایاں اور احسانات فراواں پر قابل حمد و ثنا ہے۔
٢٩۔ یعنی روئے زمین پر پھیلے ہوئے، جن و انس تمام جاندار حیوانات شامل ہیں ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایک ہی میدان میں جمع فرما دے گا۔
٣٠۔ بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیں، جو تمہیں گناہوں کی پاداش میں پہنچتے ہیں اور کچھ گناہ وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ یوں ہی معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کی ذات بڑی کریم ہے، معاف کرنے کے بعد آخرت میں اس پر مؤاخذہ نہیں فرمائے گا۔
٣١۔ یعنی تم بھاگ کر کسی ایسی جگہ نہیں جا سکتے کہ جہاں تم ہماری گرفت میں نہ آ سکو یا جو مصیبت ہم تم پر نازل کرنا چاہیں، اس سے تم بچ جاؤ۔
٣٢۔ سمندروں میں پہاڑوں جیسی کشتیاں اور جہاز اس کے حکم سے چلتے ہیں، ورنہ اگر وہ حکم دے تو سمندروں میں ہی کھڑے رہیں۔
٣٤۔ (۱) یعنی سمندر کو حکم دے اور اس کی موجوں میں طغیانی آ جائے اور یہ ان میں ڈوب جائیں۔
٣٤۔ (۲) ورنہ سمندر میں سفر کرنے والا کوئی بھی سلامتی کے ساتھ واپس نہ آ سکے۔
٣٥۔ یعنی اللہ کے عذاب سے وہ کہیں بھاگ کر چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔
٣٦۔ (۱) یعنی معمولی اور حقیر ہے، چاہے قارون کا خزانہ ہی کیوں نہ ہو، اس لئے اس سے دھوکے میں مبتلا نہ ہونا کہ یہ عارضی اور فانی ہے۔
٣٦۔ (۲) یعنی نیکیوں کا جو اجر و ثواب اللہ کے ہاں ملے گا وہ متاع دنیا سے کہیں بہتر بھی ہے اور پائیدار بھی، کیوں کہ اس کو زوال اور فنا نہیں، مطلب ہے دنیا کو آخرت پر ترجیح مت دو، ایسا کرو گے تو پچھتاؤ گے۔
٣٧۔ یعنی لوگوں سے عفو و درگزر کرنا ان کے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں آتا ہے ' نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا، ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
٣٨۔ (۱) یعنی اس کے حکم کی اطاعت، اس کے رسول کا اتباع اور اسکے حکم کو نہ ماننے سے پرہیز کرتے ہیں
٣٨۔ (۲) نماز کی پابندی اور اقامت کا بطور خاص ذکر کیا کہ عبادت میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔
٤٠۔ یہ (قصاص(بدلہ لینے ) کی اجازت ہے۔ برائی کا بدلہ اگرچہ برائی نہیں ہے لیکن مشکلات کی وجہ سے اسے بھی برائی ہی کہا گیا ہے۔
٤٥۔ یعنی دنیا میں یہ کافر ہمیں بیوقوف اور دنیاوی خسارے کا حامل سمجھتے تھے، جب کہ ہم دنیا میں صرف آخرت کو ترجیح دیتے تھے اور دنیا کے خساروں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ آج دیکھ لو حقیقی خسارے سے کون دو چار ہے۔ وہ جنہوں نے دنیا کے عارضی خسارے کو نظر انداز کیے رکھا اور آج جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں یا وہ جنہوں نے دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ رکھا تھا اور آج ایسے عذاب میں گرفتار ہیں جس سے چھٹکارا ممکن ہی نہیں۔
٤٧۔ (۱) یعنی جس کو روکنے اور ٹالنے کی کوئی طاقت نہیں رکھے گا۔
٤٧۔ (۲) یعنی تمہارے لئے کوئی ایسی جگہ نہیں ہو گی، کہ جس میں تم چھپ کر انجان بن جاؤ اور پہنچانے نہ جا سکو یا نظر میں نہ آ سکو جیسے فرمایا ' اس دن انسان کہے گا، کہیں بھاگنے کی جگہ ہے، ہرگز نہیں، کوئی راہ فرار نہیں ہو گی، اس دن تیرے رب کے پاس ہی ٹھکانا ہو گا۔
٤٨۔ (۱) یعنی وسائل رزق کی فراوانی، صحت و عافیت، اولاد کی کثرت، جاہ و منصب وغیرہ۔
٤٨۔ (۲) یعنی تکبر اور غرور کا اظہار کرتا ہے، ورنہ اللہ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار ہونا، ناپسندیدہ امر نہیں، لیکن وہ تحدیث نعمت اور شکر کے طور پر نہ کہ فخر و ریا اور تکبر کے طور پر۔
٤٨۔ (۳) مال کی کمی، بیماری، اولاد سے محرومی وغیرہ۔
٥١۔ اس آیت میں وحی الٰہی کی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں پہلی یہ کہ دل میں کسی بات کا ڈال دینا یا خواب میں بتلا دینا اور یقین کے ساتھ کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ دوسری، پردے کے پیچھے سے کلام کرنا، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کوہ طور پر کیا گیا، تیسری، فرشتے کے ذریعے اپنی وحی بھیجنا، جیسے جبرائیل علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر آتے اور پیغمبروں کو سناتے رہے۔
٥٢۔ (۱) روح سے مراد قرآن ہے۔ یعنی جس طرح آپ سے پہلے اور رسولوں پر ہم وحی کرتے رہے، اس طرح ہم نے آپ پر قرآن کی وحی کی ہے قرآن کو روح اس لئے تعبیر کیا ہے کہ قرآن سے دلوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے جیسے روح میں انسانی زندگی کا راز مضمر ہے۔
٥٢۔ (۲) کتاب سے مراد قرآن ہے، یعنی نبوت پہلے قرآن کا بھی کوئی علم آپ کو نہیں تھا اور اسی طرح ایمان کی ان تفصیلات سے بھی بے خبر تھے جو شریعت میں مطلوب ہیں۔
٥٣۔ (۱) یہ صراط مستقیم، اسلام ہے۔ اس کی اضافت اللہ نے اپنی طرف فرمائی ہے جس سے اس راستے کی عظمت و شان واضح ہوتی ہے اور اس کے واحد راہ نجات ہونے کی طرف اشارہ بھی۔
٥٣۔ (۲) یعنی قیامت والے دن تمام معاملات کا فیصلہ اللہ ہی کے ہاتھ میں ہو گا، اس میں سخت وعید ہے۔