تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الشّوریٰ

۳۔۔۔   یعنی جس طرح یہ سورت (جو نہایت اعلیٰ و اکمل مضامین پر مشتمل ہے) آپ کی طرف وحی کی جا رہی ہے، ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی عادت آپ کی طرف اور دوسرے انبیاء کی طرف وحی بھیجنے کی رہی ہے۔ جس سے اس کی شان حکمت و حکومت کا اظہار ہوتا ہے۔

۵۔۔۔     ۱: یعنی آسمان پھٹ پڑیں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے زور سے، یا بیشمار فرشتوں کے بوجھ سے، یا ان کے ذکر کی کثرت سے خاص تاثیر ہو اور پھٹ پڑے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ آسمانوں میں چار انگشت جگہ نہیں جہاں کوئی فرشتہ سربسجود نہ ہو۔ اور بعض نے آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ جب مشرکین خدا تعالیٰ کے لیے شریک اور بیٹے بیٹیاں ٹھہراتے ہیں تو خداوند قدوس کی جناب میں یہ ایسی سخت گستاخی ہے جس سے کچھ بعید نہیں کہ آسمان کی اوپر والی سطح تک پھٹ کر ٹکڑے ہو جائے۔ کما قال تعالیٰ فی سورہ مریم "تَکَادُ السَّمَوَاتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّا اَنْ دَعَوْالِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا") سورہ مریم آیت ۹۰،۹۱(مگر اللہ کی شان مغفرت و رحمت اور ملائکہ کی تسبیح و استغفار کی برکت سے یہ نظام تھما ہوا ہے۔

۲: یعنی اللہ تعالیٰ مومنین کی خطاء و لغزش کو معاف فرمائے اور کفار کو دنیا میں ایک دم پکڑ کر بالکلیہ تباہ و برباد نہ کر دے۔

۳: یعنی اپنی مہربانی سے فرشتوں کی دعا قبول کر کے مومنین کی خطاؤں کو معاف کرتا اور کافروں کو ایک عرصہ کے لیے مہلت دیتا ہے ورنہ دنیا کا سارا کارخانہ چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔

۶۔۔۔    یعنی دنیا میں مشرکین کو مہلت تو دیتا ہے لیکن یہ نہ سمجھو کہ وہ ہمیشہ کے لیے بچ گئے۔ ان کے سب اعمال و احوال اللہ کے ہاں محفوظ ہیں جو وقت پر کھول دیے جائیں گے۔ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ مانتے کیوں نہیں۔ اور نہ ماننے کی صورت میں فوراً تباہ کیوں نہیں کر دیے جاتے۔ آپ ان باتوں کے ذمہ دار نہیں صرف پیغامِ حق پہنچا دینے کے ذمہ دار ہیں۔ آگے ہمارا کام ہے وقت آنے پر ہم ان کا سب حساب چکا دیں گے۔

۷۔۔۔   ۱؛ "ام القریٰ" (بڑا گاؤں) فرمایا مکہ معظمہ کو کہ سارے عرب کا مجمع وہاں ہوتا ہے اور ساری دنیا میں اللہ کا گھر وہیں ہے۔ اور وہی گھر روئے زمین پر سب سے پہلی عبادت گاہ قرار پائی۔ بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے زمین کو اسی جگہ سے پھیلانا شروع کیا جہاں خانہ کعبہ واقع ہے۔ اور مکہ کے آس پاس سے اول ملک عرب اس کے بعد ساری دنیا مراد ہے۔

۲: یعنی آگاہ کر دیں کہ ایک دن آنے والا ہے جب تمام اگلے پچھلے خدا کی پیشی میں حساب کے لیے جمع ہوں گے۔ یہ ایک یقینی اور طے شدہ بات ہے۔ جس میں کوئی دھوکا، فریب اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ چاہیے کہ اس دن کے لیے آدمی تیار ہو جائے اس وقت کل آدمی دو فرقوں میں تقسیم ہوں گے ایک فرقہ جتنی اور ایک دوزخی۔ سوچ لو کہ تم کو کس فرقہ میں شامل ہونا چاہیے اور اس میں شامل ہونے کے لیے کیا سامان کرنا چاہیے۔

۸۔۔۔   یعنی بیشک اس کو قدرت تھی اگر چاہتا تو سب کو ایک طرح کا بنا دیتا اور ایک ہی راستہ پر ڈال دیتا۔ لیکن اس کی حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ اپنی رحمت و غضب دونوں قسم کی صفات کا اظہار فرمائے۔ اس لیے بندوں کے احوال میں اختلاف و تفاوت رکھا کسی کو اس کی فرمانبرداری کی وجہ سے اپنی رحمت کا مورد بنایا اور کسی کو اس کے ظلم و عصیان کی بناء پر رحمت سے دور پھینک دیا۔ جو لوگ رحمت سے دور ہو کر غضب کے مستحق ہوئے اور حکمت الٰہیہ ان پر سزا جاری کرنے کو مقتضی ہوئی ان کا ٹھکانا کہیں نہیں۔ نہ کوئی رفیق اور مددگار ان کو مل سکتا ہے جو اللہ کی سزا سے بچا دے۔

۹۔۔۔   یعنی رفیق و مددگار بنانا ہے تو اللہ کو بناؤ جو سارے کام بنا سکتا ہے حتی کہ مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اور ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے یہ بیچارے عاجز و مجبور رفیق تمہارا کیا ہاتھ بٹائیں گے۔

۱۰۔۔۔     ۱: یعنی سب جھگڑوں کے فیصلے اسی کے سپرد ہونے چاہئیں۔ عقائد ہوں یا احکام، عبادات ہوں یا معاملات جس چیز میں بھی اختلاف پڑ جائے اس کا بہترین فیصلہ اللہ کے حوالہ ہے وہ دلائل کونیہ کے ذریعہ سے یا اپنی کتاب میں یا اپنے رسولوں کی زبان پر صراحتہً یا اشارۃً جس مسئلہ کا جو فیصلہ فرما دے بندہ کو حق نہیں کہ اس میں چون و چرا کرے۔ توحید جو اصل اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ جب قولاً و فعلاً برابر اس کا حکم دیتا رہا ہے پھر کیونکر جائز ہو گا کہ بندہ ایسے قطعی اور محکم فیصلہ میں جھگڑے ڈالے اور بیہودہ شبہات نکال کر اس کے فیصلہ سے سرتابی کرے۔

۲: یعنی میں اسی پر ہمیشہ سے بھروسہ رکھتا ہوں اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف رجوع ہوتا رہتا ہوں۔

۱۱۔۔۔   ۱: یعنی چوپایوں میں سے ان کے جوڑے نر اور مادہ بنا دیے کہ وہ بھی تمہارے کام آئے ہیں۔

۲: یعنی آدمیوں کے الگ اور جانوروں کے الگ جوڑے بنا کر ان کی کتنی نسلیں پھیلا دیں جو تمام روئے زمین پر اپنی روزی اور معیشت کی فکر میں جدوجہد کرتی ہیں۔

۳: یعنی نہ ذات میں اس کا کوئی مماثل ہے نہ صفات میں، نہ اس کے احکام اور فیصلوں کی طرح کسی کا حکم اور فیصلہ ہے نہ اس کے دین کی طرح کوئی دین ہے، نہ اس کا کوئی جوڑا ہے نہ ہمسر نہ ہم جنس۔

۴: یعنی بیشک ہر چیز کو دیکھتا سنتا ہے، مگر اس کا دیکھنا بھی مخلوق کی طرح نہیں۔ کمالات اس کی ذات میں سب ہیں، پر کوئی کمال ایسا نہیں جس کی کیفیت بیان کی جا سکے۔ کیونکہ اس کی نظیر کہیں موجود نہیں۔ وہ مخلوق کی مشابہت و مماثلت سے بالکلیہ پاک اور مقدس و منزہ ہے۔ پھر اس کی صفات کی کیفیت کس طرح سمجھ میں آئے۔

۱۲۔۔۔    تمام خزانوں کی کنجیاں اس کے ہاتھ میں ہیں۔ اسی کو قبضہ اور اختیار حاصل ہے کہ جس خزانہ میں ہے جس کو جتنا چاہے مرحمت فرمائے۔ تمام جانداروں کو وہ ہی روزی دیتا ہے، لیکن کم و بیش کی تعیین اپنی حکمت کے موافق کرتا ہے۔ اسی کو معلوم ہے کہ کون چیز کتنی عطا کی مستحق ہے اور اس کے حق میں کس قدر دینا مصلحت ہو گا۔ جو حال روزی کا ہے وہ ہی دوسری عطایا میں سمجھو۔

۱۳۔۔۔   ۱: آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے رسول حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ بلکہ کہنا چاہیے کہ فی الحقیقت تشریع احکام کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا۔ اور آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن پر سلسلہ رسالت و نبوت منتہی ہوا۔ درمیان میں جو انبیاء و رسل آئے ان میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام، یہ تین زیادہ مشہور ہوئے جن کے نام لیوا ہر زمانہ میں بکثرت موجود رہے۔ ان پانچوں کو اولوالعزم پیغمبر کہتے ہیں۔ بہرحال اس جگہ حق تعالیٰ نے صاف طور پر بتلا دیا کہ اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے۔ کیونکہ عقائد، اخلاق اور اصولِ دیانات میں تمام متفق رہے ہیں۔ البتہ بعض فروع میں حسب مصلحت زمانہ کچھ تفاوت ہوا اور دین کے قائم کرنے کے طور و طریق ہر وقت میں اللہ نے جدا ٹھہرا دیے ہیں۔ جس کو دوسری جگہ فرما دیا۔"لکل جعلنا منکم شرعۃً ومنہا جًا۔

۲: یعنی سب انبیاء اور ان کی امتوں کو حکم ہوا کہ دین الٰہی کو اپنے قول و عمل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح کے تفریق و اختلاف کو روا نہ رکھیں۔

۳: یعنی آپ جس دین توحید کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، مشرکین پر وہ بھاری ہے گویا آپ کوئی نئی اور انوکھی چیز پیش کر رہے ہیں جو کسی نے پہلے پیش نہیں کی تھی، بھلا توحید جیسی صاف، معقول اور متفق علیہ چیز بھی جب بھاری معلوم ہونے لگی اور اس میں بھی لوگ اختلاف ڈالے بدون نہ رہے، تو جہالت اور بدبختی کی حد ہو گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ ہدایت وغیرہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جسے وہ چاہے بندوں میں سے چن کر اپنی طرف کھینچ لے اور اپنی رحمت و موہبت سے مقام قرب و اصطفاء پر فائز فرما دے۔ اور جو لوگ اپنی حسن استعداد سے اس کی طرف رجوع ہوتے اور محنتیں کرتے ہیں ان کی محنت کو ٹھکانے لگانا اور دستگیری کر کے کامیاب فرمانا بھی اسی کا کام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ "وربک یخلق مایشاء ویختار وما کان لہم الخیرۃ۔" (القصص، رکوع۷) وقال "اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلًا ومن الناس۔" (حج، رکوع۱۰) وقال۔ "والذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا۔" (عنکبوت، رکوع۷) بہرحال حکمت الٰہی جس کی ہدایت کو مقتضی ہو وہ ہی ہدایت پا سکتا اور فائز المرام ہو سکتا ہے۔

۱۴۔۔۔   یعنی توحید اور اصول دین میں جنہوں نے اختلاف ڈالا اور کتب سماویہ میں تحریف کی، وہ کچھ غلط فہمی یا اشتباہ کی وجہ سے نہ تھی۔ ایسی صاف و صریح اور مجمع علیہ تعلیمات میں اشتباہ و التباس کیا ہو سکتا تھا۔ محض نفسانیت، ضد، عداوت اور طلب مال و جاہ وغیرہ اسباب ہیں جو فی الحقیت اس تفریق و اختلاف مذموم کا باعث ہوئے ہیں۔ بعدہٗ جب اختلاف قائم ہو گئے اور مختلف مذاہب نے الگ الگ مورچے بنا لیے تو پیچھے آنے والی نسلیں عجیب خبط اور دھوکا میں پڑ گئیں اور ایسے شکوک و شبہات پیدا کر لیے گئے جو کسی حال ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتے۔ مگر یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے بندوں کو ڈھیل دی۔ اگر وہ چاہتا تو سارے اختلافات کو ایک دم میں ختم کر دیتا۔ لیکن ایسا کرنا تکوین کی غرض اصلی کے منافی تھا۔ اس کی حکمت بالغہ اسی کو مقتضی تھی کہ ان اختلافات کا عملی اور دو ٹوک فیصلہ ایک وقت معین پر زندگی کے دوسرے دور میں کیا جائے۔ اگر یہ بات پہلے سے نہ نکل چکی ہوتی تو سب جھگڑے قصے فوراً ہاتھوں ہاتھ ختم کر دیے جاتے۔

۱۵۔۔۔     یعنی جب دین حق کے متعلق تفریق و اختلاف کے طوفان چاروں طرف سے اٹھ رہے ہیں تو آپ کا فرض یہ ہے کہ غیر متزلزل عزم کے ساتھ اسی دین و آئین کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں جس کی دعوت آدم و نوح اور ان کے بعد تمام انبیاء دیتے چلے آئے ہیں۔ آپ اپنے پروردگار کے حکم سے ذرا ادھر ادھر نہ ہوں۔ قولاً و فعلاً اور علماً و حالاً برابر اسی راستہ پر گامزن رہیں جس پر اب تک رہے ہیں۔ مکذبین اور معاندین کی خواہشات کی ذرا پروا نہ کریں اور صاف اعلان کر دیں کہ میں اللہ کی نازل کی ہوئی ہر کتاب پر خواہ وہ تورات ہو یا انجیل یا قرآن یا کوئی صحیفہ جو کسی زمانہ میں کسی پیغمبر پر نازل ہوا ہو سچے دل سے یقین رکھتا ہوں۔ میرا کام پہلی صداقتوں کو جھٹلانا نہیں بلکہ سب کو تسلیم کرنا اور باقی رکھنا ہے اور مجھ کو حکم ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں۔ جو اختلاف تم نے ڈالے ہیں ان کا منصفانہ فیصلہ دوں اور تبلیغ احکام و شرائع یا فصل خصومات میں عدل و مساوات کا اصول قائم رکھوں۔ ہر وہ سچائی جو کسی جگہ یا کسی مذہب میں ملے اس بے تکلف تسلیم کروں۔ جس طرح تم کو خدا کی بندگی اور فرمانبرداری کی طرف بلاؤں۔ تم سے پہلے میں خود احکام الٰہی کی پوری تعمیل کر کے اس کا کامل فرمانبردار بندہ ہونا ثابت کروں۔ کیونکہ میں جانتا ہوں  کہ تمہارا اور ہمارا رب ایک ہی ہے۔ اس لیے ہم سب کو اسی کی خوشنودی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو ہمارا تم سے کچھ تعلق نہیں۔ ہم دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے سبکدوش ہو چکے ہم میں سے کوئی دوسرے کے عمل کا ذمہ دار نہیں۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے وہ ہی اس کے آگے آئے گا۔ چاہیے کہ اس کے نتائج برداشت کرنے کے لیے تیار رہے۔ آگے ہم کو تم سے جھگڑنے اور بحث و تکرار کی ضرورت نہیں۔ سب کو خدا کی عدالت میں حاضر ہونا ہے۔ وہاں جا کر ہر ایک کو پورا پتہ لگ جائے گا کہ وہ دنیا میں کیا کچھ کما کر لایا ہے۔ (تنبیہ) یہ آیات مکی ہیں۔ قتال کی آیتیں مدینہ میں نازل ہوئی۔

۱۶۔۔۔   یعنی اللہ کے دین، اس کی کتاب، اور اس کی باتوں کی سچائی جب اعلانیہ ظاہر ہو چکی، حتی کہ بہت سے سمجھدار لوگ اس کو قبول کر چکے اور بہترے قبول نہ کرنے کے باوجود ان کی سچائی کا اقرار کرنے لگے۔ اس قدر ظہور و ضوع حق کے بعد جو لوگ خواہ مخواہ جھگڑے ڈالتے یا ماننے والوں سے الجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے غضب اور سخت عذاب کے مستوجب ہیں اور ان کے سب جھگڑے جھوٹے اور سب بحثیں باطل ہیں۔

۱۷۔۔۔    اللہ نے مادی ترازو بھی اتاری جس میں اجسام تلتے ہیں اور علمی ترازو بھی جسے عقل سلیم کہتے ہیں اور اخلاقی ترازو بھی جسے صفت عدل و انصاف کہا جاتا ہے اور سب سے بڑی ترازو دین حق ہے جو خالق و مخلوق کے حقوق کا ٹھیک ٹھیک تصفیہ کرتا ہے اور جس میں بات پوری تلتی ہے نہ کم نہ زیادہ۔

۱۸۔۔۔  یعنی اپنے اعمال و احوال کو کتاب اللہ کی کسوٹی پر کس کر اور دین حق کے ترازو میں تول کر دیکھ لو، کہاں تک کھرے اور پورے اترتے ہیں۔ کیا معلوم ہے کہ قیامت کی گھڑی بالکل قریب ہی آ لگی ہو، آخر دیر کیا ہے؟ جلدی کیوں نہیں آ جاتی؟ لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے ایمان و یقین سے بہرہ ور کیا ہے، وہ اس ہولناک گھڑی کے تصور سے لرزتے اور کانپتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں کہ یہ چیز ہونے والی ہے کسی کے ٹلائے ٹل نہیں سکتی۔ اسی لیے اس کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔ اسی سے سمجھ لو کہ ان جھگڑنے والے منکرین کا حشر کیا ہونا ہے۔ جب ایک شخص کو قیامت کے آنے کا یقین ہی نہیں وہ تیاری کیا خاک کرے گا۔ ہاں جتنا اس حقیقت کا مذاق اڑائے گا گمراہی میں اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔

۱۹۔۔۔     ۱: یعنی باوجود تکذیب و انکار کے روزی کسی کی بند نہیں کرتا۔ بلکہ بندوں کے باریک سے باریک احوال کی رعایت کرتا اور نہایت نرمی اور تدبیر لطیف سے ان کی تربیت فرماتا ہے۔

۲: جس کو چاہے، جتنی چاہے دے۔

۲۰۔۔۔   ۱: ایک نیکی کا دس گناہ ثواب دیں، بلکہ سات سو گنا اور اس سے بھی زیادہ۔ اور دنیا میں ایمان و عمل صالح کی برکت سے جو فراخی و برکت ملے وہ الگ رہی۔

۲: دنیا کے واسطے جو محنت کرے موافق قسمت کے ملے، پھر اس محنت کا فائدہ آخرت میں کچھ نہیں۔ کما قال تعالیٰ "عجلنا لہ فیہا ما نشآءُ لمن نرید ثم جعلنا لہ جہنم۔" (بنی اسرائیل، رکوع۲)

۲۱۔۔۔   ۱: یعنی اللہ تعالیٰ نے نبیوں کی زبانی آخرت کا اور دین حق کا راستہ بتلا دیا۔ کیا اس کے سوا کوئی اور ہستی ایسی ہے جسے کوئی دوسرا راستہ مقرر کرنے کا حق اور اختیار حاصل ہو کہ وہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام ٹھہرا دے۔ پھر آخر ان مشرکین نے اللہ کی وہ راہ چھوڑ کر جو انبیاء علیہم السلام نے بتلائی تھی دوسری راہیں کہاں سے نکال لیں۔

۲: یعنی فیصلہ کا وعدہ ہے اپنے وقت پر۔

۲۲۔۔۔    ۱: یعنی اپنی کرتوت کے نتائج سے خواہ آج نہ ڈریں مگر اس دن ڈرتے ہوں گے اور یہ ڈر ان پر ضرور پڑ کر رہے گا۔ کوئی سبیل رہائی اور فرار کی نہ ہو گی۔

۲: یعنی جنت میں ہر قسم کی جسمانی اور روحانی راحتیں اور اپنے رب کا قرب، یہ ہی بڑا فضل ہے۔ دنیا کے عیش اس کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں۔

۲۳۔۔۔    ۱: یعنی اللہ جو خوشخبری دے وہ لامحالہ واقع ہو کر رہے گی۔

۲: یعنی قرآن جیسی دولت تم کو دے رہا ہوں اور ابدی نجات و فلاح کا راستہ بتلاتا اور جنت کی خوشخبری سناتا ہوں۔ یہ سب محض بوجہ اللہ ہے۔ اس خیر خواہی اور احسان کا تم سے کچھ بدلہ نہیں مانگتا۔ صرف ایک بات چاہتا ہوں کہ تم سے جو میرے نسبی و خاندانی تعلقات ہیں کم از کم ان کو نظر انداز نہ کرو۔ آخر تمہارا معاملہ اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے، بسا اوقات ان کی بے موقع بھی حمایت کرتے ہو۔ میرا کہنا یہ ہے کہ تم اگر میری بات نہیں مانتے نہ مانو، میرا دین قبول نہیں کرتے، یا میری تائید و حمایت میں کھڑے نہیں ہوتے، نہ سہی۔ لیکن کم از کم قرابت و رحم کا خیال کر کے ظلم و اذیت رسانی سے باز رہو، اور مجھ کو اتنی آزادی دو کہ میں اپنے پروردگار کا پیغام دنیا کو پہنچاتا رہوں۔ کیا اتنی دوستی اور فطری محبت کا بھی میں مستحق نہیں ہوں۔ (تنبیہ) آیت کے یہ معنی حضرت ابن عباس سے صحیحین میں منقول ہیں۔ بعض سلف نے "الا المودۃ فی القربی" کا مطلب یہ لیا ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرو۔ اور حق قرابت کو پہچانو۔ اور بعض نے "قربی" سے اللہ کا قرب اور نزدیکی مراد لی ہے یعنی ان کاموں کی محبت جو خدا سے قریب کرنے والے ہوں مگر صحیح اور راجح تفسیر وہ ہی ہے جو ہم نے اول نقل کی ہے۔ بعض علماء نے "مودۃ فی القربیٰ" سے اہل بیت نبوی کی محبت مراد لے کر یوں معنی کیے ہیں کہ میں تم سے تبلیغ پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا، بس اتنا چاہتا ہوں کہ میرے اقارب کے ساتھ محبت کرو۔ کوئی شبہ نہیں کہ اہل بیت اور اقارب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت و تعظیم اور حقوق شناسی امت پر لازم و واجب اور جزو ایمان ہے اور ان سے درجہ بدرجہ محبت رکھنا حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت پر متفرع ہے لیکن آیت ہذا کی تفسیر اس طرح کرنا شان نزول اور روایات صحیحہ کے خلاف ہونے کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان رفیع کے مناسب نہیں معلوم ہوتا واللہ اعلم۔

۳: یعنی انسان بھلائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بھلائی کو بڑھاتا ہے، آخرت میں تو اجرو ثواب کے اعتبار سے اور دنیا میں نیک کوئی عطا فرما کر اور ایسے آدمی کی لغزشوں کو بھی معاف فرماتا ہے۔ شاید یہاں اس مضمون کا ذکر اس لیے فرمایا کہ کم از کم قرابت کی محبت مطلوب ہے جس کا حاصل ایذاء اور ظلم سے روکنا تھا۔ لیکن جو اس سے زائد نیکی دکھلائے وہ خوب سمجھ لے کہ خدا کے ہاں کسی کی نیکی ضائع نہیں جاتی، بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔

۲۴۔۔۔     یعنی بفرض محال اگر کوئی بات بھی خدا کی نسبت جھوٹ بنا کر کہہ دے تو اللہ کو قدرت ہے کہ تیرے دل پر مہر کر دے، پھر فرشتہ یہ کلام معجزے لے کر تیرے قلب پر نہ اتر سکے اور سلسلہ وحی کا بند ہو جائے۔ بلکہ پہلا دیا ہوا بھی سلب کر لیا جائے کما قال "ولئن شئنا لنذہبن بالذی اوحینا الیک ثم لا تجدلک بہ علینا وکیلاً الا رحمۃً من ربک ان فضلہ کان علیک کبیراً۔" (بنی اسرائیل، رکوع۱۰) مگر چونکہ واقع میں قطعاً کذب و افتراء کا شائبہ نہیں۔ اس لیے محض بدبختوں کی قدر ناشناسی اور طعن و تشنیع کی بناء پر یہ فیض منقطع نہیں کیا جا سکتا۔ بیشک اللہ اس کو جاری رکھے گا اور اپنی باتوں سے عملی طور پر جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ ثابت کر کے رہے گا۔ اس وقت سب کو صاف کھل جائے گا کہ فریقین میں جھوٹا اور مفتری کون ہے اور کس کے دل پر اللہ نے فی الواقع مہر لگا دی ہے کہ خیر کے اترنے اور حق کے قبول کرنے کی اس میں مطلقاً گنجائش نہیں رہی۔ رہا یہ سوال کہ اللہ کی وہ باتیں کیا ہیں جن سے جھوٹ ملیامیٹ ہو اور حق ثابت ہو جائے تو میرے نزدیک وہ ہی دلائل و براہین ہیں جو قرآن اور پیغمبر کی صداقت پر اس نے قائم کی ہیں۔ بالخصوص وہ آیات آنفسیہ و آفاقیہ جن کا ذکر سورہ "حم السجدہ" کے آخر پر "سنریہم ایاتنا فی الافاق وفی انفسہم حتی یتبین لہم انہ الحق۔" کے حاشیہ میں کیا گیا ہے۔ ان آیات کے ظاہر ہونے پر سب کھرے اور کھوٹے دلوں کا حال اعلانیہ واضح ہو جائے گا۔ (تنبیہ) آیت ہذا کی تفسیر میں بہت اقوال ہیں۔ بندہ کے نزدیک بے تکلف یہ ہی مطلب ہے جو اوپر عرض کیا۔ اس تفسیر پر "ویمح اللہ الباطل"جملہ مستانفہ ہوا۔ جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے اور اکثر محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ البتہ مضارع کے معنی مترجم رحمہ اللہ نے حال کے لیے ہیں جو بالکل صحیح ہیں۔ مگر بندہ کے خیال میں یہاں استقبال لینا زیادہ چسپاں ہے۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب قدس سرہٗ "ویمح اللہ الباطل" کا عطف "یختم علی قلبک" پر کر رہے ہیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ "یعنی اللہ اپنے اوپر کیوں جھوٹ بولنے دے۔ دل کو بند کر دے کہ مضمون ہی نہ آئے جس کو باندھ سکے اور چاہے تو کفر کو مٹا دے بے پیغام بھیجے۔ مگر وہ اپنی باتوں سے دین کو ثابت کرتا ہے اس واسطے نبی پر اپنا کلام بھیجتا ہے۔

۲۶۔۔۔     یعنی نبی خدا کا پیغام پہنچاتا ہے، تم جھوٹ سمجھو یا سچ، اس کے بعد بندوں کا سارا معاملہ خدا سے ہر ایک بندہ سے دنیا اور آخرت میں اس کے حال و استعداد کے موافق معاملہ ہوتا ہے۔ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور باوجود سب کچھ جاننے کے کتنی برائیوں سے درگزر کرتا ہے جو ایماندار اور نیک بندے اس کی بات سنتے ہیں وہ ان کی دعائیں سنتا اور ان کی طاعت کو شرفِ قبولیت بخشتا ہے اور جس قدر اجر و ثواب کے وہ عام ضابطہ سے مستحق ہوں اپنے فضل سے اس سے کہیں زائد مرحمت فرماتا ہے۔ رہ گئے منکر اور پکے کافر جن کو مرتے دم تک رجوع و توبہ کی توفیق میسر نہیں ہوتی ان کا انجام اگلے جملہ میں مذکور ہے۔

۲۷۔۔۔   خدا کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اگر چاہے تو اپنے تمام بندوں کو غنی اور تونگر بنا دے لیکن اس کی حکمت مقتضی نہیں کہ سب کو بے اندازہ روزی دے کر خوش عیش رکھا جائے۔ ایسا کیا جاتا تو عموماً لوگ طغیان و تمرد اختیار کر کے دنیا میں اودھم مچا دیتے۔ نہ خدا کے سامنے جھکتے نہ اس کی مخلوق کو خاطر میں لاتے، جو سامان دیا جاتا کوئی اس پر قناعت نہ کرتا حرص اور زیادہ بڑھ جاتی جیسا کہ ہم بحالت موجودہ بھی عموماً مرفہ الحال لوگوں میں مشاہدہ کرتے ہیں، جتنا آ جائے اس سے زیادہ کے طالب رہتے ہیں، کوشش اور تمنا یہ ہوتی ہے کہ سب کے گھر خالی کر کے اپنا گھر بھر لیں۔ ظاہر ہے کہ ان جذبات کے ماتحت عام غنا اور خوشحالی کی صورت میں کیسا عام اور زبردست تصادم ہوتا اور کسی کو کسی سے دینے کی کوئی وجہ نہ رہتی۔ ہاں دنیا کے عام مذاق و رجحان کے خلاف فرض کیجئے کسی وقت غیر معمولی طور پر کسی مصلح اعظم اور مامور من اللہ کی نگرانی میں عام خوشحالی اور فارغ البارلی کے باوجود باہمی آویزش اور طغیان و سرکشی کی نوبت نہ آئے اور زمانہ کے انقلاب عظیم سے دنیا کی طبائع ہی میں انقلاب پیدا کر دیا جائے وہ اس عادی اور اکثری قاعدہ سے مستثنیٰ ہو گا۔ بہرحال دنیا کو بحالت موجودہ جس نظام پر چلاتا ہے اس کا مقتضی یہ ہی ہے کہ غناء عام نہ کیا جائے بلکہ ہر ایک کو اس کی استعداد اور احوال کی رعایت سے جتنا مناسب ہو جانچ تول کر دیا جائے۔ اور یہ خدا ہی کو خبر ہے کہ کس کے حق میں کیا صورت اصلح ہے۔ کیونکہ سب کے اگلے اور پچھے حالات اسی کے سامنے ہیں۔

۲۸۔۔۔   یعنی بہت مرتبہ ظاہری اسباب و حالات پر نظر کر کے جب لوگ بارش سے مایوس ہو جاتے ہیں اس وقت حق تعالیٰ باران رحمت نازل فرماتا اور اپنی مہربانی کے آثار و برکات چاروں طرف پھیلا دیتا ہے۔ تاکہ بندوں پر ثابت ہو جائے کہ رزق کی طرح اسباب رزق بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جیسے وہ روزی ایک خاص اندازہ سے عطا کرتا ہے، بارش بھی خاص اوقات اور خاص مقدار میں مرحمت فرماتا ہے۔ بات یہ ہے کہ سب کام اسی کے اختیار میں ہیں اور جو کچھ وہ کرے عین حکمت و صواب ہے کیونکہ تمام خوبیاں اور کمالات اس کی ذات میں جمع ہیں۔ اور ہر قسم کی کارسازی اور اعانت و امداد وہیں سے ہو سکتی ہے۔ (تنبیہ) اللہ کی رحمت و قدرت کی طرف سے مایوس ہو جانا کافروں کا شیوہ ہے لیکن ایک مومن کی نظر میں اسباب کا سلسلہ یاس انگیز ہو سکتا ہے جیسے فرمایا "فلما استیئسوا منہ خلصوا نجیا" (یوسف، رکوع۱۲) اور "حتی اذا استیئس الرسل" (یوسف، رکوع۱۲)

۲۹۔۔۔    ۱: یعنی جس طرح رزق پہنچانا اور اس کے اسباب (بارش وغیرہ کا) مہیا کرنا اس کے قبضہ میں ہیں۔ ان اسباب کے اسبابِ سماویہ و ارضیہ اور ان کے آثار و نتائج بھی اسی کی مخلوق ہیں۔

۲:   آیت سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی طرح آسمانوں پر بھی جانوروں کی قسم سے کوئی مخلوق پائی جاتی ہے۔

۳: یعنی جس نے بکھیرے وہ سب کو اکٹھا کر سکتا ہے۔ اور یہ قیامت کے دن ہو گا۔

۳۰۔۔۔     یعنی جیسی نعمتیں ایک خاص اندازہ اور خاص اوقات و احوال کی رعایت سے دی جاتی ہیں، مصائب کا نزول بھی خاص اسباب و ضوابط کے ماتحت ہوتا ہے۔ مثلاً بندوں کو جو کوئی سختی اور مصیبت پیش آئے اس کا سبب قریب یا بعید بندوں ہی کے بعض اعمال و افعال ہوتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح جیسے ایک آدمی غذا وغیرہ میں احتیاط نہ کرنے سے خود بیمار پڑ جاتا ہے بلکہ بعض اوقات ہلاک ہو جاتا ہے یا بعض اوقات والدہ کی بد پرہیزی بچہ کو مبتلائے مصیبت کر دیتی ہے، یا کبھی کبھی ایک محلے والے یا شہر والے کی بے تدبیری اور حماقت سے پورے محلہ اور شہر کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ ہی حال روحانی اور باطنی بد پرہیزی اور بے تدبیری کا سمجھ لو۔ گویا دنیا کی ہر مصیبت بندوں کے بعض اعمال ماضیہ کا نتیجہ ہے۔ اور مستقبل میں ان کے لیے تنبیہ اور امتحان کا موقع بہم پہنچاتی ہے اور یہ اس پر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بندوں کے بہت گناہوں سے درگزر کرتی ہے۔ اگر ہر ایک جرم پر گرفت ہوتی تو زمین پر کوئی متنفس بھی باقی نہ رہتا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ خطاب عاقل بالغ لوگوں کو ہے گنہگار ہوں یا نیک۔ مگر نبی اس میں داخل نہیں (اور چھوٹے بچے بھی شامل نہیں) ان کے واسطے اور کچھ ہو گا۔ اور سختی دنیا کی بھی آئے گی۔ اور قبر کی اور آخرت کی۔

۳۱۔۔۔     یعنی محض اپنی مہربانی سے معاف کرتا ہے ورنہ جس جرم پر سزا دینا چاہے، مجرم بھاگ کر کہیں روپوش نہیں ہو سکتا۔ اور نہ اس کے سوا کوئی دوسرا حمایت و امداد کے لیے کھڑا ہو سکتا ہے۔

۳۲۔۔۔   یعنی جیسے زمین کی سطح پر پہاڑ ابھرے ہوئے ہیں سمندر کی سطح پر بڑے بڑے جہاز ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

۳۳۔۔۔     ۱: یعنی ہوا بھی اللہ کے قبضہ میں ہے۔ اگر ہوا کو ٹھہرا رکھے چلنے نہ دے تو تمام بادبانی جہاز دریا کی پیٹھ پر جہاں کے تہاں کھڑے رہ جائیں۔ غرض پانی اور ہوا سب اسی کے زیر فرمان ہیں۔

۲: دریائی سفر میں موافق اور ناموافق دونوں قسم کے حالات سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ انسان موافق حالات پر لشکر اور ناموافق حالات پر صبر کرتا ہوا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور نعمت کو پہچانے۔

۳۴۔۔۔    یعنی چاہے تو مسافروں کے بعض اعمال کی پاداش میں جہازوں کو تباہ کر ڈالے اور اس تباہی کے وقت بھی بعض کو معاف فرما دے۔

۳۵۔۔۔    یعنی تباہ اس لیے کیے جائیں کہ ان کے بعض اعمال کا بدلہ ہو اور بڑے بڑے جھگڑالو بھی دیکھ لیں کہ ہاں! خدائی گرفت سے نکل کر بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جو لوگ ہر چیز اپنی تدبیر سے سمجھتے ہیں اس وقت عاجز رہ جائیں گے۔" کوئی تدبیر بن نہ پڑے گی۔

۳۶۔۔۔      یعنی یہ تمام باتیں سننے کے بعد انسان کو چاہیے کہ اللہ کو راضی رکھنے کی فکر کرے اس چند روزہ زندگانی اور عیش فانی پر مغرور نہ ہو۔ اور خوب سمجھ لے ایمانداروں کو جو عیش و آرام اللہ کے ہاں ملے گا وہ اس دنیا کے عیش و آرام سے بہتر ہے اور پائدار بھی۔ نہ اس میں کسی طرح کی کدورت ہو گی نہ فناء و زوال کا کھٹکا ہو گا۔

۳۷۔۔۔    اس کا بیان سورہ "نسا" کی آیت "ان تجتنبوا کبائر ماتنہون عنہ نکفر عنکم سیاتکم" کے فوائد میں گزر چکا، وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔ شاید یہاں "کبائر الاثم" سے وہ بڑے گناہ مراد ہوں جو قوت نظریہ کی غلط کاری سے پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً عقائد بدعیہ اور "فواحش" وہ گناہ جن میں قوتِ شہوانیہ کی بے اعتدالی کو دخل ہو۔ آگے "واذاما غضبوا ہم یغفرون" میں تو ظاہر ہے کہ قوتِ غضبیہ کی روک تھام کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔

۳۸۔۔۔    مشورہ سے کام کرنا اللہ کو پسند ہے دین کا ہو یا دنیا کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مہمات امور میں برابر اصحاب رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرماتے تھے اور صحابہ آپس میں مشورہ کرتے تھے حروب وغیرہ کے متعلق بھی اور بعض مسائل و احکام کی نسبت بھی۔ بلکہ خلافت راشدہ کی بنیاد ہی شوریٰ پر قائم تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ مشورہ کی ضرورت ان کاموں میں ہے جو مہتم بالشان ہوں اور جو قرآن و سنت میں منصوص نہ ہوں۔ جو چیز منصوص ہو اس میں رائے و مشورہ کے کوئی معنی نہیں۔ اور ہر چھوٹے بڑے کام میں اگر مشورہ ایسے شخص سے لیا جائے جو عاقل و عابد ہو۔ ورنہ اس کی بیوقوفی یا بددیانتی سے کام خراب ہو جانے کا اندیشہ رہے گا۔

۳۹۔۔۔   یعنی جہاں معاف کرنا مناسب ہو معاف کرے مثلاً ایک شخص کی حرکت پر غصہ آیا اور اس نے ندامت کے ساتھ اپنے عجزو قصور کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے معاف کر دیا۔ یہ محمود ہے اور جہاں بدلہ لینا مصلحت ہو مثلاً کوئی شخص خواہ مخواہ چڑھتا ہی چلا آئے اور ظلم و زور سے دبانے کی کوشش کرے، یا جواب نہ دینے سے اس کا حوصلہ بڑھتا ہے یا ہماری شخصی حیثیت سے قطع نظر کر کے دین کی اہانت یا جماعت مسلمین کی تذلیل ہوتی ہے، ایسی حالت میں بدلہ لیتے ہیں، وہ بھی بقدر اس کی زیادتی کے جرم سے زائد سزا نہیں دیتے۔

۴۰۔۔۔   ۱: بدلہ کے طور پر جو برائی کی جائے وہ حقیقتہً نہیں محض سورۃً برائی ہوتی ہے۔ "سیئۃٍ" کا اطلاق اس پر مشاکلۃً کیا گیا۔

۲: یعنی ظلم اور زیادتی تو اللہ کے ہاں کسی حالت میں پسند نہیں۔ بہترین خصلت یہ ہے کہ آدمی جتنا بدلہ لے سکتا ہے اس سے بھی درگزر کرے۔ بشرطیکہ درگزر کرنے میں بات سنورتی ہو۔

۴۱۔۔۔     یعنی مظلوم ظالم سے بدلہ لینا چاہے تو اس میں الزام اور گناہ کچھ نہیں۔ ہاں معاف کر دینا افضل و احسن ہے۔

۴۲۔۔۔   یعنی ابتداء ظلم کرتے ہیں یا انتقام لینے میں حد استحقاق سے بڑھ جاتے ہیں۔

۴۳۔۔۔     یعنی غصہ کو پی جانا اور ایذائیں برداشت کر کے ظالم کو معاف کر دینا بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس بندہ پر ظلم ہو اور وہ محض اللہ کے واسطے اس سے در گزر کرے تو ضرور ہے کہ اللہ اس کی عزت بڑھائے گا اور مدد کرے گا۔

۴۴۔۔۔   ۱: یعنی اللہ کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی کو عدل و انصاف اور صبر و غفر کی اعلیٰ خصلتیں حاصل ہو سکتی ہیں وہ ان بہترین اخلاق کی طرف راہ نہ دے تو کون ہے جو ہاتھ پکڑا کر اخلاقی پستی اور رسوائی کے گڑھے سے ہم کو نکال سکے۔

۲: یعنی کوئی ایسی سبیل بھی ہے کہ ہم دنیا کی طرف پھر واپس کر دیے جائیں اور اس مرتبہ وہاں سے خوب نیک بن کر حاضر ہوں۔

۴۵۔۔۔    ۱: یعنی ایک سہمے ہوئے مجرم کی طرح خوف اور ذلت و ندامت کے مارے نیچی نظر سے دیکھتے ہوں گے۔ کسی سے پوری طرح آنکھ نہیں ملا سکیں گے۔

۲: یعنی بدبخت اپنے ساتھ اپنے متعلقین اور گھر والوں کو بھی لے ڈوبے۔ سبھی کو تباہ و برباد کر کے چھوڑا۔

۴۶۔۔۔    یعنی نہ دنیا میں ہدایت کی، نہ آخرت میں نجات کی۔

۴۷۔۔۔   ۱: یعنی جیسے دنیا میں عذاب موخر ہوتا اور ٹلتا چلا جاتا ہے، اس دن نہیں ٹلے گا۔

۲: یعنی مکر جانے سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ اور ابن کثیر نے یوں معنی کیے ہیں کہ کوئی موقع ایسا نہ ملے گا جب تم پہچانے نہ جاؤ۔

۴۸۔۔۔     ۱: یعنی آپ ذمہ دار نہیں کہ زبردستی منوا کر چھوڑیں۔ آپ کا فرض پیغام الٰہی پہنچا دینا ہے۔ وہ آپ ادا کر رہے ہیں۔ یہ نہیں مانتے تو جائیں جہنم میں۔

۲: یعنی ان کے اعراض سے آپ غمگین نہ ہوں۔ انسان کی طبیعت ہی ایسی واقع ہوئی ہے (الا من شاء اللہ) کہ اللہ انعام و احسان فرمائے تو اکڑنے اور اترانے لگتا ہے۔ پھر جہاں اپنی کرتوت کی بدولت کوئی افتاد پڑ گئی، بس سب نعمتیں بھول جاتا ہے اور ایسا ناشکرا بن جاتا ہے کہ گویا کبھی اس پر اچھا وقت آیا ہی نہ تھا۔ خلاصہ یہ کہ فراخی اور عیش کی حالت ہو یا تنگی اور تکلیف کی۔ اپنی حد پر قائم نہیں رہتا البتہ مومنین قانتین کا شیوہ یہ ہے کہ سختی پر صبر اور فراخی کی حالت میں منعم حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں اور کسی حال اس کے انعامات و احسانات کو فراموش نہیں کرتے۔

۵۰۔۔۔   یعنی سختی ہو یا نرمی سب احوال خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آسمان و زمین میں سب جگہ اسی کی سلطنت اور اسی کا حکم چلتا ہے جو چیز چاہے پیدا کرے اور جو چیز جس کو چاہے دے، جس کو چاہے نہ دے۔ دنیا کے رنگا رنگ حالات کو دیکھ لو۔ کسی کو سرے سے اولاد نہیں ملتی، کسی کو ملتی ہے تو صرف بیٹیاں، کسی کو صرف بیٹے، کسی کو دونوں، جڑواں یا الگ الگ۔ اس میں کسی کا کچھ دعویٰ نہیں۔ وہ مالک حقیقی ہی جانتا ہے کہ کس شخص کو کس حالت میں رکھنا مناسب ہے اور وہ ہی اپنے علم و حکمت کے موافق تدبیر کرتا ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس کے ارادہ کو روک دے یا اس کی تخلیق و تقسیم پر حرف گیری کر سکے، عاقل کا کام یہ ہے کہ ہر قسم کے نرم و گرم حالات میں اسی کی طرف رجوع کرے اور ہمیشہ اپنی ناچیز حقیقت کو پیش نظر رکھ کر تکبر یا کفران نعمت سے باز رہے۔

۵۱۔۔۔   ۱: کوئی بشر اپنی عنصری ساخت اور موجودہ قویٰ کے اعتبار سے یہ طاقت نہیں رکھتا کہ خداوند قدوس اس دنیا میں اس کے سامنے ہو کر مشافہۃً کلام فرمائے اور وہ تحمل کر سکے۔ اسی لیے کسی بشر سے اس کے ہمکلام ہونے کی تین صورتیں ہیں (الف) بلاواسطہ پردہ کے پیچھے سے کلام فرمائے، یعنی نبی کی قوتِ سامعہ استماعِ کلام سے لذت اندوز ہو مگر اس حالت میں آنکھیں دولت دیدار سے متمتع نہ ہو سکیں۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کو لیلۃ الاسراء میں پیش آیا۔ (ب) بواسطہ فرشتہ کے حق تعالیٰ کلام فرمائے مگر فرشتہ متجسد ہو کر آنکھوں کے سامنے نہ آئے۔ بلکہ براہ راست نبی کے قلب پر نزول کرے اور قلب ہی سے ادراک فرشتہ کا اور صوت کا ہوتا ہو۔ جو اس ظاہرہ کو چنداں دخل نہ رہے۔ میرے خیال میں یہ صورت ہے جس کو عائشہ صدیقہ کی حدیث میں "یاتینی فی مثل صلصلۃ الجرس" سے تعبیر فرمایا ہے اور صحیح بخاری کے ابواب بدء الخلق میں وحی کی اس صورت میں بھی اتیانِ ملک کی تصریح موجود ہے۔ اس کو حدیث میں "وہو اشدہ علی" فرمایا اور شاید وحی قرآنی بکثرت اسی صورت میں آتی ہو جیسا کہ "نزل بہ الروح الامین علی قلبک۔" اور "فانہ نزلہ علی قلبک باذن اللہ" میں لفظ "قلبک" سے اشارہ ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ معاملہ بالکل پوشیدہ طور پر اندر ہی اندر ہوتا تھا پیغمبر کے وجود سے باہر کوئی علیحدہ ہستی نظر نہ آتی تھی اور نہ اس طرح کلام ہوتا تھا جیسے ایک آدمی دوسرے سے بات کرتا ہو کہ پاس بیٹھنے والے سامعین بھی سمجھ لیں اس لیے اس قسم کو خصوصیت کے ساتھ آیت ہذا میں لفظ "وحیا" سے تعبیر کیا۔ کیونکہ لغت میں "وحی" کا لفظ اخفاء اور اشارہ سریہ پر دلالت کرتا ہے۔ (ج) تیسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ متجسد ہو کر نبی کے سامنے آ جائے اور اس طرح خدا کا کلام و پیام پہنچا دے جیسے ایک آدمی دوسرے سے خطاب کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت جبرائیل ایک دو مرتبہ اپنی اصل صورت میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے۔ اور اکثر مرتبہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی صورت میں آتے تھے۔ اور کبھی کسی غیر معروف آدمی کی شکل میں بھی تشریف لائے ہیں۔ اس وقت آنکھیں فرشتہ کو دیکھتیں اور کان ان کی آواز سنتے تھے اور پاس بیٹھنے والے بھی بعض اوقات گفتگو سنتے اور سمجھتے تھے۔ عائشہ صدیقہ کی حدیث میں جو دو قسمیں بیان ہوئی ہیں، ان میں سے یہ دوسری صورت ہے۔ اور میرے خیال اسی کو آیہ ہذا میں "اویرسل رسولًا فیوحی باذنہ مایشآءُ" سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ باقی حجاب والی صورت چونکہ بالکل نادر بلکہ اندر تھی اس لیے عائشہ کی حدیث میں اس سے تعرض نہیں کیا گیا۔

۲: یعنی اس کا علو مانع ہے کہ بے حجاب کلام کرے اور حکمت مقتضی ہے کہ بعض صورتیں ہمکلامی کی اختیار کی جائیں۔

۵۲۔۔۔   ۱: مترجم محقق قدس اللہ روحہٗ نے اس جگہ روح سے مراد فرشتہ لیا ہے۔ یعنی جبرائیل امین۔ اور یہ بعض مفسرین کی رائے ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہاں خود قرآن کریم کو روح سے تعبیر فرمایا کیونکہ اس کی تاثیر سے مردہ قلوب زندہ ہوتے ہیں۔ اور انسان کو ابدی حیات نصیب ہوتی ہے۔ دیکھ لو جو قومیں کفر و ظلم اور بد اخلاقی کی موت مر چکی تھیں کس طرح قرآن نے ان میں جانِ تازہ ڈال دی۔

۲:  یعنی ایمان اور اغمال ایمانیہ کی یہ تفاصیل جو بذریعہ وحی اب معلوم ہوئیں پہلے سے کہاں معلوم تھیں۔ گو نفس ایمان کے ساتھ ہمیشہ سے متصف تھے۔

۳: یعنی قرآن کی روشنی میں جن بندوں کو ہم چاہیں سعادت و فلاح کے راستہ پر لے چلتے ہیں۔

۴: یعنی آپ تو سب بندوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے اللہ تک پہنچنے کی سیدھی راہ بتلاتے رہتے ہیں کوئی اس پر چلے یا نہ چلے۔

۵۳۔۔۔   ۱: یعنی سیدھی راہ وہ جس پر چل کر آدمی خدائے واحد تک پہنچتا ہے۔ جو اس راہ سے بھٹکا خدا سے الگ ہوا۔

۲: یعنی جب سب کاموں کا انجام اسی کی طرف ہے تو چاہیے کہ آدمی شروع سے اس انجام کو سوچ لے اور اپنے اختیار سے ایسے راستہ پر چلے جو سیدھا اس کی بارگاہ تک پہنچنے والا ہو۔ اللہم اہدنا الصراط المستقیم وثبتنا علیہ۔ تم سورۃ الشوریٰ۔