خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الشّوریٰ

ٍاللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ شوریٰ جمہور کے نزدیک مکّیہ ہے اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ایک قول میں اس کی چار آیتیں مدینہ طیّبہ میں نازل ہوئیں جن میں کی پہلی قُلْ لَّۤآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا ہے، اس سورت میں پانچ۵ رکوع، تریپن۵۳ آیتیں، آٹھ سو ساٹھ ۸۶۰کلمے اور تین ہزار پانچ سو اٹھاسی ۳۵۸۸حرف ہیں۔

(۱) حٰمٓ

(۲) عسق

(۳) یونہی وحی فرماتا ہے  تمہاری طرف (ف ۲) اور تم سے  اگلوں کی طرف (ف ۳) اللہ عزت و حکمت والا۔

۲                 غیبی خبریں۔ (خازن)

۳                 انبیاء علیہم السلام میں سے وحی فرما چکا۔

(۴) اسی کا ہے  جو کچھ آسمان میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے، اور وہی بلندی و عظمت والا ہے۔

(۵) قریب ہوتا ہے  کہ آسمان اپنے  اوپر سے  شق ہو جائیں (ف ۴) اور فرشتے  اپنے  رب کی تعریف کے  ساتھ اس کی پاکی بولتے  اور زمین والوں کے  لیے  معافی مانگتے  ہیں (ف ۵) سن لو بیشک اللہ ہی بخشنے  والا مہربان ہے۔

۴                 اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے علوئے شان سے۔

۵                 یعنی ایمان داروں کے لئے کیونکہ کافر اس لائق نہیں ہیں کہ ملائکہ ان کے لئے استغفار کریں، یہ ہو سکتا ہے کہ کافروں کے لئے یہ دعا کریں کہ انہیں ایمان دے کر ان کی مغفرت فرما۔

(۶) اور جنہوں نے  اللہ کے  سوا اور وا لی بنا رکھے  ہیں (ف ۶) وہ اللہ کی نگاہ میں ہیں (ف ۷) اور تم ان کے  ذمہ دار نہیں، (ف ۸)

۶                 یعنی بت جن کو وہ پوجتے اور معبود سمجھتے ہیں۔

۷                 ان کے اعمال، افعال اس کے سامنے ہیں، وہ انہیں بدلہ دے گا۔

۸                 تم سے ان کے افعال کا مؤاخذہ نہ ہو گا۔

(۸) اور  اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک دین پر کر دیتا لیکن اللہ اپنی رحمت میں لیتا ہے  جسے  چاہے   (ف ۱۱) اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ مددگار (ف ۱۲)

۹                 یعنی تمام عالَم کے لوگ ان سب کو۔

۱۰               یعنی روزِ قیامت سے ڈراؤ جس میں اﷲ تعالیٰ اوّلین و آخرین اور  اہلِ آسمان و زمین سب کو جمع فرمائے گا اور اس جمع کے بعد پھر سب متفرّق ہوں گے۔

۱۱               اس کو اسلام کی توفیق دیتا ہے۔

(۹) کیا اللہ کے  سوا  اور وا لی ٹھہرا لیے  ہیں (ف ۱۳) تو اللہ ہی وا لی ہے  اور وہ مُردے  جِلائے  گا، اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے  (ف ۱۴)

۱۲               یعنی کافروں کو کوئی عذاب سے بچانے والا نہیں۔

۱۳               یعنی کفّار نے اﷲ تعالیٰ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنا والی بنا لیا ہے، یہ باطل ہے۔

۱۴               تو اسی کو والی بنانا سزاوار ہے۔

(۱۰)  تم جس بات میں (ف ۱۵) اختلاف کرو تو اس کا فیصلہ اللہ کے  سپرد ہے  (ف ۱۶) یہ ہے  اللہ میرا رب میں نے  اس پر بھروسہ  کیا، اور میں اس کی طرف رجوع لاتا ہوں (ف ۱۷)

۱۵               دِین کی باتوں میں سے کفّار کے ساتھ۔

۱۶               روزِ قیامت تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا تم ان سے کہو۔

۱۷               ہر امر میں۔

(۱۱)  آسمانوں اور زمین کا بنانے  والا، تمہارے  لیے  تمہیں میں سے  (ف ۱۸) جوڑے  بنائے  اور نر و مادہ چوپائے، اس سے  (ف ۱۹) تمہاری نسل پھیلاتا ہے، اس جیسا  کوئی نہیں، اور وہی سنتا دیکھتا ہے۔

۱۸               یعنی تمہاری جنس میں سے۔

۱۹               یعنی اس تزویج سے۔ (خازن)

(۱۲)  اسی کے  لیے  ہیں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں (ف ۲۰) روزی وسیع کرتا ہے  جس کے  لیے  چاہے  اور تنگ فرماتا ہے  (ف ۲۱) بیشک وہ سب کچھ جانتا ہے۔

۲۰               مراد یہ ہے کہ آسمان و زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں خواہ مینہ کے خزانے ہوں یا رزق کے۔

۲۱               جس کے لئے چاہے وہ مالک ہے، رزق کی کنجیاں اس کے دستِ قدرت میں ہیں۔

(۱۳) تمہارے  لیے  دین کی وہ راہ ڈالی جس کا حکم اس نے  نوح کو دیا (ف ۲۲) اور جو ہم نے  تمہاری طرف وحی کی (ف ۲۳) اور جس کا حکم ہم نے  ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ  کو دیا (ف ۲۴) کہ دین ٹھیک رکھو (ف ۲۵) اور اس میں پھوٹ نہ ڈالو (ف ۲۶) مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے   وہ (ف ۲۷) جس کی طرف تم انہیں بلاتے  ہو، اور اللہ اپنے  قریب کے  لیے  چن لیتا ہے  جسے  چاہے  (ف ۲۸) اور اپنی طرف راہ دیتا ہے  اسے  جو رجوع لائے  (ف ۲۹)

۲۲               نوح علیہ السلام صاحبِ شرع انبیاء میں سب سے پہلے نبی ہیں۔

۲۳               اے سیدِ انبیاء محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۲۴               معنیٰ یہ ہیں کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام سے آپ تک اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جتنے انبیاء ہوئے سب کے لئے ہم نے دِین کی ایک ہی راہ مقرر کی جس میں وہ سب متفق ہیں وہ راہ یہ ہے۔

۲۵               مراد دِین سے اسلام ہے، معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی طاعت اور اس پر اور اس کے رسولوں پر اور اس کی کتابوں پر اور روزِ جزا پر اور باقی تمام ضروریاتِ دِین پر ایمان لانا لازم کرو کہ یہ امور تمام انبیاء کی امّتوں کے لئے یکساں لازم ہیں۔

۲۶               حضرت علیِ مرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ جماعت رحمت اور فرقت عذاب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اصولِ دِین میں تمام مسلمان خواہ وہ کسی عہد یا کسی امّت کے ہوں یکساں ہیں، ان میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ احکام میں امّتیں باعتبار اپنے احوال و خصوصیات کے جداگانہ ہیں، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً۔

۲۷               یعنی بتوں کو چھوڑنا اور توحید اختیار کرنا۔

۲۸               اپنے بندوں میں سے اسی کو توفیق دیتا ہے۔

۲۹               اور اس کی طاعت قبول کرے۔

(۱۴)  اور انہوں نے  پھوٹ نہ ڈالی مگر بعد اس کے  کہ انہیں علم آ چکا تھا (ف ۳۰) آپس کے  حسد سے  (ف ۳۱) اور اگر تمہارے  رب کی ایک بات گزر نہ چکی ہوتی (ف ۳۲) ایک مقرر میعاد تک (ف ۳۳) تو کب کا ان میں فیصلہ کر دیا ہوتا (ف ۳۴) اور بیشک وہ جو ان کے  بعد کتاب کے  وارث ہوئے  (ف ۳۵) وہ اس سے  ایک دھوکا  ڈالنے   والے  شک میں ہیں (ف ۳۶)

۳۰               یعنی اہلِ کتاب نے اپنے انبیاء علیہم السلام کے بعد جو دِین میں اختلاف ڈالا کہ کسی نے توحید اختیار کی، کوئی کافر ہو گیا، وہ اس سے پہلے جان چکے تھے کہ اس طرح اختلاف کرنا اور فرقہ فرقہ ہو جانا گمراہی ہے لیکن باوجود اس کے انہوں نے یہ سب کچھ کیا۔

۳۱               اور ریاست و نا حق کی حکومت کے شوق میں۔

۳۲               عذاب کے مؤخر فرمانے کی۔

۳۳               یعنی روزِ قیامت تک۔

۳۴               کافروں پر دنیا میں عذاب نازل فرما کر۔

۳۵               یعنی یہود و نصاریٰ۔

۳۶               یعنی اپنی کتاب پر مضبوط ایمان نہیں رکھتے یا یہ معنیٰ ہیں کہ وہ قرآن کی طرف سے یا سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی طرف سے شک میں پڑے ہیں۔

(۱۵) تو اسی لیے  بلاؤ (ف ۳۷) اور ثابت قدم رہو (ف ۳۸) جیسا تمہیں حکم ہوا ہے  اور ان کی خواہشوں پر نہ چلو اور کہو کہ میں ایمان لایا اس پر جو کوئی کتاب اللہ نے  اتاری (ف ۳۹) اور مجھے  حکم ہے  کہ میں تم میں انصاف کروں (ف ۴۰)  اللہ ہمارا  اور تمہارا سب کا رب ہے  (ف ۴۱) ہمارے  لیے  ہمارا عمل اور تمہارے  لیے  تمہارا کیا (ف ۴۲) کوئی حجت نہیں ہم میں اور تم میں (ف ۴۳) اللہ ہم سب کو جمع کرے  گا (ف ۴۴) اور اسی کی طرف پھرنا ہے۔

۳۷               یعنی ان کفّار کے اس اختلاف و پراگندگی کی وجہ سے انہیں توحید اور ملّتِ حنیفیہ پر متفق ہونے کی دعوت دو۔

۳۸               دِین پر اور دِین کی دعوت دینے پر۔

۳۹               یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام کتابوں پر کیونکہ متفرقین بعض پر ایمان لاتے تھے اور بعض سے کفر کرتے تھے۔

۴۰               تمام چیزوں میں اور جمیع احوال میں اور ہر فیصلہ میں۔

۴۱               اور ہم سب اس کے بندے۔

۴۲               ہر ایک اپنے عمل کی جزا پائے گا۔

کیونکہ حق ظاہر ہو چکا وَھٰذِہِ الْآ یَۃُ مَنْسُوْخَۃبِآ یَۃِ الْقِتَالِ۔

۴۴               روزِ قیامت۔

(۱۶) اور وہ جو اللہ کے  بارے  میں جھگڑتے  ہیں بعد اس کے  کہ مسلمان اس کی دعوت قبول کر چکے  ہیں (ف ۴۵) ان کی دلیل محض بے  ثبات ہے  ان کے  رب کے  پاس اور ان پر غضب ہے  (ف ۴۶) اور ان کے  لیے  سخت عذاب ہے  (ف ۴۷)

۴۵               مراد ان جھگڑنے والوں سے یہود ہیں، وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو پھر کفر کی طرف لوٹائیں اس لئے جھگڑا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمارا دِین پرانا، ہماری کتاب پرانی، ہمارے نبی پہلے، ہم تم سے بہتر ہیں۔

۴۶               بسبب ان کے کفر کے۔

۴۷               آخرت میں۔

(۱۷) اللہ ہے  جس نے  حق کے  ساتھ کتاب اتاری (ف ۴۸) اور انصاف کی ترازو (ف ۴۹) اور تم کیا جانو شاید قیامت قریب ہی ہو (ف ۵۰)

۴۸               یعنی قرآنِ پاک جو قِسم قِسم کے دلائل و احکام پر مشتمل ہے۔

۴۹               یعنی اس نے اپنی کتبِ منزّلہ میں عدل کا حکم دیا۔ بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ مراد میزان سے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذاتِ گرامی ہے۔

۵۰               شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے قیامت کا ذکر فرمایا تو مشرکین نے بطریقِ تکذیب کہا کہ قیامت کب ہو گی ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔

(۱۸) اس کی جلدی مچا رہے  ہیں وہ جو اس پر ایمان نہیں رکھتے  (ف ۵۱) اور جنہیں اس پر ایمان ہے   وہ اس سے  ڈر رہے  ہیں اور جانتے  ہیں کہ بیشک وہ حق ہے، سنتے  ہو بیشک جو قیامت میں شک کرتے  ہیں ضرور  دُور کی گمراہی میں ہیں۔

۵۱               اور یہ گمان کرتے ہیں کہ قیامت آنے والی ہی نہیں، اسی لئے بطریقِ تمسخر جلدی مچاتے ہیں۔

(۱۹) اللہ اپنے  بندوں پر لطف فرماتا ہے  (ف ۵۲) جسے  چاہے  روزی دیتا ہے  (ف ۵۳) اور وہی قوت و عزت والا ہے، (۲۰) جو آخرت کی کھیتی چاہے  (ف ۵۴) ہم اس کے  لیے  اس کی کھیتی بڑھائیں (ف ۵۵) اور جو دنیا کی کھیتی چاہے  (ف ۵۶) ہم اسے  اس میں سے  کچھ دیں گے  (ف ۵۷) اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں (ف ۵۸)

۵۲               بے شمار احسان کرتا ہے نیکوں پر بھی اور بدوں پر بھی حتّیٰ کہ بندے گناہوں میں مشغول رہتے ہیں اور وہ انہیں بھوک سے ہلاک نہیں کرتا۔

۵۳               اور فراخیِ عیش عطا فرماتا ہے مومن کو بھی اور کافر کو بھی حسبِ اقتضائے حکمت۔ حدیث شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بعضے مومن بندے ایسے ہیں کہ تونگری ان کے قوّت و ایمان کا باعث ہے، اگر میں انہیں فقیر محتاج کر دوں تو ان کے عقیدے فاسد ہو جائیں اور بعضے بندے ایسے ہیں کہ تنگی اور محتاجی ان کے قوّتِ ایمان کا باعث ہے، اگر میں انہیں غنی، مالدار کر دوں تو ان کے عقیدے خراب ہو جائیں۔

۵۴               یعنی جس کو اپنے اعمال سے نفعِ آخرت مقصود ہو۔

۵۵               اس کو نیکیوں کی توفیق دے کر اور اس کے لئے خیرات و طاعات کی راہیں سہل کر کے اور اس کی نیکیوں کا ثواب بڑھا کر۔

۵۶               یعنی جس کا عمل محض دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو اور وہ آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو۔ (مدارک)

۵۷               یعنی دنیا میں جتنا اس کے لئے مقدّر کیا ہے۔

۵۸               کیونکہ اس نے آخرت کے لئے عمل کیا ہی نہیں۔

(۲۱)  یا  ان کے  لیے  کچھ شریک ہیں (ف ۵۹) جنہوں نے  ان کے  لیے  (ف ۶۰) وہ دین نکال دیا ہے  (ف ۶۱) کہ اللہ نے  اس کی اجازت نہ دی (ف ۶۲) اور اگر ایک فیصلہ کا وعدہ نہ ہوتا (ف ۶۳) تو یہیں ان میں فیصلہ کر دیا جاتا (ف ۶۴) اور بیشک ظالموں کے  لیے  دردناک عذاب ہے  (ف ۶۵)

۵۹               معنیٰ یہ ہیں کہ کیا کفّارِ مکّہ اس دِین کو قبول کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرّر فرمایا یا ان کے کچھ ایسے شرکاء ہیں شیاطین وغیرہ۔

۶۰               کفری دینوں میں سے۔

۶۱               جو شرک و انکارِ بعث پر مشتمل ہے۔

۶۲               یعنی وہ دِینِ الٰہی کے خلاف ہے۔

۶۳               اور جزاء کے لئے روزِ قیامت معیّن نہ فرما دیا گیا ہوتا۔

۶۴               اور دنیا ہی میں تکذیب کرنے والوں کو گرفتارِ عذاب کر دیا جاتا۔

۶۵               آخرت میں۔ اور ظالموں سے مراد یہاں کافر ہیں۔

(۲۲) تم ظالموں کو دیکھو گے  کہ اپنی کمائیوں سے  سہمے  ہوئے  ہوں گے  (ف ۶۶) اور وہ ان پر پڑ کر رہیں گی (ف ۶۷) اور جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  وہ جنت کی پھلواریوں میں ہیں، ان کے  لیے  ان کے  رب کے  پاس ہے  جو چاہیں، یہی بڑا فضل ہے۔

۶۶               یعنی کفر و اعمالِ خبیثہ سے جو انہوں نے دنیا میں کمائے تھے۔ اس اندیشہ سے کہ اب انکی سزا ملنے والی ہے۔

۶۷               ضرور ان سے کسی طرح بچ نہیں سکتے ڈریں یا نہ ڈریں۔

(۲۳) یہ ہے  وہ جس کی خوشخبری دیتا  ہے  اللہ  اپنے  بندوں کو جو ایمان لائے   اور اچھے  کام کیے، تم فرماؤ میں اس (ف ۶۸)  پر تم سے  کچھ اجرت نہیں مانگتا (ف ۶۹) مگر قرابت کی محبت (ف ۷۰) اور جو نیک کام کرے  (ف ۷۱) ہم اس کے  لیے  اس میں اور خوبی بڑھائیں، بیشک اللہ بخشنے  والا قدر فرمانے  والا ہے۔

۶۸               تبلیغِ رسالت اور ارشاد و ہدایت۔

۶۹               اور تمام انبیاء کا یہی طریقہ ہے۔ شانِ نزول: حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے اور انصار نے دیکھا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذمّہ مصارف بہت ہیں اور مال کچھ بھی نہیں ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور حضور کے حقوق و احسانات یاد کر کے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بہت سا مال جمع کیا اور اس کو لے کر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضور کی بدولت ہمیں ہدایت ہوئی، ہم نے گمراہی سے نجات پائی، ہم دیکھتے ہیں، کہ حضور کے مصارف بہت زیادہ، اس لئے ہم یہ مال خدّامِ آستانہ کی خدمت میں نذر کے لئے لائے ہیں، قبول فرما کر ہماری عزّت افزائی کی جائے، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے وہ اموال واپس فرما دیئے۔

۷۰               تم پر لازم ہے کیونکہ مسلمانوں کے درمیان مودّت، محبّت واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَلْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضھُُمْ اَوْلِیَآ ءُ بَعْضٍ۔ اور حدیث شریف میں ہے کہ مسلمان مثل ایک عمارت کے ہیں جس کا ہر ایک حِصّہ دوسرے حصّہ کو قوّت اور مدد پہنچاتا ہے، جب مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبّت واجب ہوئی تو سیدِ عالَمین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے ساتھ کس قدر محبّت فرض ہو گی، معنیٰ یہ ہیں کہ میں ہدایت و ارشاد پر کچھ اجرت نہیں چاہتا لیکن قرابت کے حقوق تو تم پر واجب ہیں، ان کا لحاظ کرو اور میرے قرابت والے تمہارے بھی قرابتی ہیں، انہیں ایذا نہ دو۔ حضرت سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ قرابت والوں سے مراد حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی آلِ پاک ہے۔ (بخاری) مسئلہ: اہلِ قرابت سے کون کون مراد ہیں اس میں کئی قول ہیں، ایک تو یہ کہ مراد اس سے حضرت علی و حضرت فاطمہ و حسنین کریمین ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم، ایک قول یہ ہے کہ آلِ علی و آلِ عقیل و آلِ جعفر و آلِ عباس مراد ہیں، اور ایک قول یہ ہے کہ حضور کے وہ اقارب مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے اور وہ مخلصینِ بنی ہاشم و بنی مطّلب ہیں، حضور کی ازواجِ مطہّرات حضور کے اہلِ بیت میں داخل ہیں۔ مسئلہ : حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی محبّت اور حضور کے اقارب کی محبّت دِین کے فرائض میں سے ہے۔ (جمل وخازن وغیرہ)

۷۱               یہاں نیک کام سے مراد یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے آلِ پاک کی محبّت ہے یا تمام امورِ خیر۔

(۲۴) یا (ف ۷۲)  یہ کہتے  ہیں کہ انہوں نے  اللہ پر جھوٹ باندھ لیا (ف ۷۳) اور اللہ چاہے  تو تمہارے  اوپر اپنی رحمت و حفاظت کی مہر فرما دے  (ف ۷۴) اور مٹا تا ہے  باطل کو (ف ۷۵) اور حق کو ثابت فرماتا ہے  اپنی باتوں سے  (ف ۷۶) بیشک وہ دلوں کی باتیں جانتا ہے۔

۷۲               سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نسبت کفّارِ مکّہ۔

۷۳               نبوّت کا دعویٰ کر کے یا قرآنِ کریم کو کتابِ الٰہی بتا کر۔

۷۴               کہ آپ کو ان کی بد گوئیوں سے ایذا نہ ہو۔

۷۵               جو کفّار کہتے ہیں۔

۷۶               جو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر نازل فرمائیں چنانچہ ایسا ہی کیا کہ ان کے باطل کو مٹایا اور کلمۂ اسلام کو غالب کیا۔

(۲۵) اور وہی ہے  جو اپنے  بندوں کی توبہ قبول فرماتا  اور گناہوں سے  درگزر فرماتا ہے  (ف ۷۷) اور جانتا ہے  جو کچھ تم کرتے  ہو۔

۷۷               مسئلہ : توبہ ہر ایک گناہ سے واجب ہے اور توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی بدی و معصیّت سے باز آئے اور جو گناہ اس سے صادر ہوا اس پر نادم ہو اور ہمیشہ گناہ سے مجتنب رہنے کا پختہ ارادہ کرے، اور اگر گناہ میں کسی بندے کی حق تلفی بھی تھی تو اس حق سے بطریقِ شرعی عہدہ برآ ہو۔

(۲۶) اور دعا قبول فرماتا ہے  ان کی جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  اور انہیں اپنے  فضل سے  اور انعام  دیتا ہے، (ف ۷۸) اور کافروں کے  لیے  سخت عذاب ہے۔

۷۸           یعنی جتنا دعا مانگنے والے نے طلب کیا تھا اس سے زیادہ عطا فرماتا ہے۔

(۲۷) اور اگر اللہ اپنے  سب بندوں کا رزق وسیع کر دیتا تو ضرور زمین میں فساد پھیلاتے  (ف ۷۹) لیکن وہ اندازہ سے  اتارتا ہے  جتنا چاہے، بیشک وہ بندوں سے  خبردار ہے  (ف ۸۰) انہیں دیکھتا ہے۔

۷۹               تکبّر و غرور میں مبتلا ہو کر۔

۸۰               جس کے لئے جتنا مقتضائے حکمت ہے اس کو اتنا عطافرماتا ہے۔

(۲۸) اور وہی ہے  کہ مینہ اتارتا ہے  ان کے  نا امید ہونے  پر اور اپنی رحمت پھیلاتا ہے  (ف ۸۱) اور وہی کام بنانے  والا ہے  سب خوبیوں سراہا۔

۸۱               اور مینھ سے نفع دیتا ہے اور قحط کو دفع فرماتا ہے۔

(۲۹) اور اس کی نشانیوں سے  ہے   آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور جو چلنے  والے  ان میں پھیلائے، اور وہ ان کے  اکٹھا کرنے  پر (ف ۸۲) جب چاہے  قادر ہے۔

۸۲               حشر کے لئے۔

(۳۰) اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے  سبب سے  ہے  جو تمہارے  ہاتھوں نے  کمایا (ف ۸۳) اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔

۸۳               یہ خطاب مومنینِ مکلَّفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں، مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں، ان تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کَفّارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفعِ درجات کے لئے ہوتی ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں وارد ہے انبیاء علیہم السلام جو گناہوں سے پاک ہیں اور چھوٹے بچّے جو مکلَّف نہیں ہیں اس آیت کے مخاطب نہیں۔ فائدہ : بعضے گمراہ فرقے جو تناسخ کے قائل ہیں اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ چھوٹے بچّوں کو جو تکلیف پہنچتی ہے، اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ہو اور ابھی تک ان سے کوئی گناہ ہوا نہیں تو لازم آیا کہ اس زندگی سے پہلے کوئی اور زندگی ہو جس میں گناہ ہوئے ہوں، یہ بات باطل ہے کیونکہ بچّے اس کلام کے مخاطب ہی نہیں جیسا کہ بالعموم تمام خطاب عاقلین، بالغین کو ہوتے ہیں، پس تناسخ والوں کا استدلال باطل ہوا۔

(۳۱) اور تم زمین میں قابو سے  نہیں نکل سکتے  (ف ۸۴) اور نہ اللہ کے  مقابل تمہارا کوئی دوست نہ مددگار (ف ۸۵)

۸۴               جو مصیبتیں تمہارے لئے مقدّر ہو چکی ہیں ان سے کہیں بھاگ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے۔

۸۵               کہ اس کی مرضی کے خلاف تمہیں مصیبت و تکلیف سے بچا سکے۔

(۳۲) اور اس کی نشانیوں سے  ہیں (ف ۸۶) دریا میں چلنے  والیاں جیسے  پہاڑیاں۔

۸۶               بڑی بڑی کَشتیاں۔

(۳۳) وہ چاہے  تو ہوا تھما دے  (ف ۸۷) اس کی پیٹھ پر (ف ۸۸) ٹھہری رہ  جائیں (ف ۸۶) بیشک اس میں ضرور نشانیاں ہیں ہر بڑے  صابر شا کر کو (ف ۹۰)

۸۷               جو کشتیوں کو چلاتی ہے۔

۸۸               یعنی دریا کے اوپر۔

۸۹               چلنے نہ پائیں۔

۹۰               صابر، شاکر سے مومنِ مخلص مراد ہے جو سختی و تکلیف میں صبر کرتا ہے اور راحت و عیش میں شکر۔

(۳۴) یا انہیں تباہ کر دے  (ف ۹۱) لوگوں کے  گناہوں کے  سبب (ف ۹۲) اور بہت معاف  فرما دے  (ف ۹۳)

۹۱               یعنی کَشتیوں کو غرق کر دے۔

۹۲               جو اس میں سوار ہیں۔

۹۳               گناہوں میں سے کہ ان پر عذاب نہ کرے۔

(۳۵) اور جان جائیں وہ جو ہماری آیتوں میں جھگڑتے  ہیں، کہ انہیں  (ف ۹۴)  کہیں  بھا  گنے   کی  جگہ  نہیں۔

۹۴               ہمارے عذاب سے۔

(۳۶)  تمہیں جو کچھ  ملا  ہے   (ف ۹۵)  وہ جیتی دنیا میں برتنے کا ہے  اور وہ جو اللہ کے  پاس ہے  (ف ۹۷)  بہتر ہے  اور زیادہ  باقی رہنے  والا  ان کے  لیے  جو ایمان لائے  اور اپنے   رب پر بھروسہ کرتے  ہیں (ف ۹۸)

۹۵               دنیوی مال و اسباب۔

۹۶               صرف چند روز اس کو بقا نہیں۔

۹۷               یعنی ثواب وہ۔

۹۸               شانِ نزول : یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے اپنا کل مال صدقہ کر دیا اور اس پر عرب کے لوگوں نے آپ کو ملامت کی۔

(۳۷) اور وہ جو بڑے  بڑے  گناہوں اور بے  حیائیوں سے  بچتے  ہیں اور جب غصہ آئے  معاف کر دیتے  ہیں۔

(۳۸) اور وہ جنہوں نے  اپنے  رب کا حکم مانا (ف ۹۹)  اور نماز قائم  رکھی (ف ۱۰۰) اور ان کا کام ان کے   آپس کے  مشورے  سے  ہے  (ف ۱۰۱) اور ہمارے  دیے  سے  کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے  ہیں۔

۹۹               شانِ نزول : یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنے رب کی دعوت قبول کر کے ایمان و طاعت کو اختیار کیا۔

۱۰۰             اس پر مداومت کی۔

۱۰۱             وہ جلدی اور خود رائی نہیں کرتے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔

(۳۹) اور وہ کہ جب انہیں بغاوت پہنچے  بدلہ لیتے  ہیں (ف ۱۰۲)

۱۰۲             یعنی جب ان پر کوئی ظلم کرے تو انصاف سے بدلہ لیتے ہیں اور بدلے میں حد سے تجاوز نہیں کرتے۔ ابنِ زید کا قول ہے کہ مومن دو طرح کے ہیں ایک وہ جو ظلم کو معاف کرتے ہیں، پہلی آیت میں ان کا ذکر فرمایا گیا، دوسرے وہ جو ظالم سے بدلہ لیتے ہیں، ان کا اس آیت میں ذکر ہے۔ عطا نے کہا کہ یہ وہ مومنین ہیں جنہیں کفّار نے مکّہ مکرّمہ سے نکالا اور ان پر ظلم کیا پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سرزمین میں تسلّط دیا اور انہوں نے ظالموں سے بدلہ لیا۔

(۴۰) اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے  (ف ۱۰۳) تو جس نے  معاف کیا اور کام سنوارا تو اس کا اجر اللہ پر ہے، بیشک وہ دوست نہیں رکھتا ظالموں کو (ف ۱۰۴)

۱۰۳             معنیٰ یہ ہیں کہ بدلہ قدرِ جنایت ہونا چاہئے، اس میں زیادتی نہ ہو اور بدلے کو برائی کہنا مجاز ہے کہ صورۃً مشابہ ہونے کے سبب سے کہا جاتا ہے اور جس کو وہ بدلہ دیا جائے اسے بُرا معلوم ہوتا ہے اور برائی کے ساتھ تعبیر کرنے میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے لیکن عفو اس سے بہتر ہے۔

۱۰۴             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ظالموں سے وہ مراد ہیں جو ظلم کی ابتدا کریں۔

(۴۱) اور بے  شک  جس نے  اپنی مظلومی پر بدلہ لیا  ان  پر  کچھ مواخذہ کی راہ نہیں۔

(۴۲)  مواخذہ تو انہیں پر ہے  جو (ف ۱۰۵) لوگوں پر ظلم کرتے  ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے  ہیں (ف ۱۰۶) ان کے  لیے  دردناک عذاب ہے۔

۱۰۵             ابتداءً۔

۱۰۶             تکبّر اور معاصی کا ارتکاب کر کے۔

(۴۳) اور بیشک جس نے  صبر کیا (ف ۱۰۷) اور بخش دیا تو یہ ضرور ہمت کے  کام ہیں۔

۱۰۷             ظلم و ایذا پر اور بدلہ نہ لیا۔

(۴۴) اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اس کا کوئی رفیق نہیں اللہ کے  مقابل (ف ۱۰۸) اور تم ظالموں کو دیکھو گے  کہ جب عذاب دیکھیں گے  (ف ۱۰۹) کہیں گے  کیا واپس جانے  کا کوئی راستہ ہے  (ف ۱۱۰)

۱۰۸             کہ اسے عذاب سے بچا سکے۔

۱۰۹             روزِ قیامت۔

(۴۵) اور تم انہیں دیکھو گے  کہ آگ پر پیش کیے  جاتے  ہیں ذلت سے  دبے  لچے  چھپی نگاہوں دیکھتے  ہیں (ف ۱۱۱) اور  ایمان والے  کہیں گے  بیشک ہار (نقصان) میں وہ ہیں جو اپنی جانیں اور اپنے  گھر والے  ہار بیٹھے  قیامت کے  دن (ف ۱۱۲) سنتے  ہو بیشک ظالم (ف ۱۱۳) ہمیشہ کے  عذاب میں ہیں۔

۱۱۰             یعنی دنیا میں تاکہ وہاں جا کر ایمان لے آئیں۔

۱۱۱             یعنی ذلّت و خوف کے باعث آگ کو دزدیدہ نگاہوں سے دیکھیں گے جیسے کوئی گردن زدنی اپنے قتل کے وقت تیغ زن کی تلوار کو دزدیدہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔

۱۱۲             جانوں کا ہارنا تو یہ ہے کہ وہ کفر اختیار کر کے جہنّم کے دائمی عذاب میں گرفتار ہوئے اور گھر والوں کا ہارنا یہ ہے کہ ایمان لانے کی صورت میں جنّت کی جو حوریں ان کے لئے نامزد تھیں ان سے محروم ہو گئے۔

۱۱۳             یعنی کافر۔

(۴۶) اور ان کے  کوئی دوست نہ ہوئے  کہ اللہ کے  مقابل ان کی مدد کرتے  (ف ۱۱۴) اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اس کے  لیے  کہیں راستہ نہیں (ف ۱۱۵)

۱۱۴             اور اس کے عذاب سے بچا سکتے۔

۱۱۵             خیر کا۔ نہ وہ دنیا میں حق تک پہنچ سکے، نہ آخرت میں جنّت تک۔

(۴۷) اپنے  رب کا حکم مانو (ف ۱۱۶) اس دن کے  آنے  سے  پہلے  جو اللہ کی طرف سے  ٹلنے  والا نہیں (ف ۱۱۷) اس دن تمہیں کوئی پناہ نہ ہو گی اور نہ تمہیں انکار کرتے  بنے  (ف ۱۱۸)

۱۱۶             اور سیدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فرماں برداری کر کے توحید و عبادتِ الٰہی اختیار کرو۔

۱۱۷             اس سے مراد یا موت کا دن ہے یا قیامت کا۔

۱۱۸             اپنے گناہوں کا یعنی اس دن کوئی رہائی کی صورت نہیں، نہ عذاب سے بچ سکتے ہو، نہ اپنے اعمالِ قبیحہ کا انکار کر سکتے ہو جو تمہارے اعمال ناموں میں درج ہیں۔

(۴۸) تو اگر وہ منہ پھیریں (ف ۱۱۹) تو ہم نے  تمہیں ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا (ف ۱۲۰) تم پر تو نہیں مگر پہنچا دینا (ف ۱۲۱) اور جب ہم آدمی کو اپنی طرف سے  کسی رحمت کا مزہ دیتے  ہیں (ف ۱۲۲) اور اس پر خوش ہو جاتا ہے  اور اگر انہیں کوئی برائی پہنچے  (ف ۱۲۳) بدلہ اس کا جو ان کے  ہاتھوں نے  آگے  بھیجا (ف ۱۲۴) تو انسان بڑا ناشکرا ہے  (ف ۱۲۵)

۱۱۹             ایمان لانے اور اطاعت کرنے سے۔

۱۲۰             کہ تم پر ان کے اعمال کی حفاظت لازم ہو۔

۱۲۱             اور وہ تم نے ادا کر دیا۔ (وکان ہٰذا قبل الامربالجہاد)

۱۲۲             خواہ وہ دولت و ثروت ہو یا صحت و عافیّت یا امن و سلامت یا جاہ و مرتبت۔

۱۲۳             یا اور کوئی مصیبت و بَلا مثل قحط و بیماری و تنگ دستی وغیرہ کے رونما ہو۔

۱۲۴             یعنی ان کی نافرمانیوں اور معصیّتوں کے سبب سے۔

۱۲۵             نعمتوں کو بھول جاتا ہے۔

(۴۹) اللہ ہی کے  لیے  ہے  آسمانوں اور زمین کی سلطنت (ف ۱۲۶) پیدا کرتا ہے  جو چاہے  جسے  چاہے  بیٹیاں عطا فرمائے  (ف ۱۲۷) اور جسے  چاہے  بیٹے  دے   (ف ۱۲۸)

۱۲۶             جیسا چاہتا ہے تصرّف فرماتا ہے،کوئی دخل دینے اور اعتراض کرنے کی مجال نہیں رکھتا۔

۱۲۷             بیٹا نہ دے۔

۱۲۸             دُختر نہ دے۔

(۵۰) یا دونوں ملا دے  بیٹے  اور بیٹیاں اور جسے  چاہے  بانجھ کر دے  (ف ۱۲۹) بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔

۱۲۹             کہ اس کے اولاد ہی نہ ہو، وہ مالک ہے، اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے، جسے جو چاہے دے، انبیاء علیہم السلام میں بھی یہ سب صورتیں پائی جاتی ہیں، حضرت لوط و حضرت شعیب علیہما السلام کے صرف بیٹیاں تھیں،کوئی بیٹا نہ تھا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صرف فرزند تھے، کوئی دُختر ہوئی ہی نہیں اور سیدِ انبیاء حبیبِ خدا محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزند عطا فرمائے اور چار صاحب زادیاں اور حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی اولاد ہی نہیں۔ٍ

(۵۱) اور کسی آدمی کو نہیں پہنچتا کہ اللہ اس سے  کلام فرمائے  مگر وحی کے  طور پر (ف ۱۳۰) یا یوں کہ وہ بشر پر وہ عظمت کے  ادھر ہو (ف ۱۳۱) یا  کوئی فرشتہ بھیجے  کہ وہ اس کے  حکم سے  وحی کرے  جو وہ چاہے  (ف ۱۳۲) بیشک وہ بلندی و حکمت والا ہے۔

۱۳۰             یعنی بے واسطہ اس کے دل میں القا فرما کر اور الہام کر کے بیداری میں یا خواب میں، اس میں وحی کا وصول بے واسطہ سمع کے ہے اور آیت میں اِلاَّوَحْیًا سے یہی مراد ہے، اس میں یہ قید نہیں کہ اس حال میں سامع متکلم کو دیکھتا ہو یا نہ دیکھتا ہو۔ مجاہد سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے سینۂ مبارک میں زبور کی وحی فرمائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبحِ فرزند کی خواب میں وحی فرمائی اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے معراج میں اسی طرح کی وحی فرمائی جس کا فَاَوۡحیٰ اِلیٰ عَبْدِہٖ مَآ اَوْحیٰ میں بیا ن ہے، یہ سب اسی قِسم میں داخل ہیں، انبیاء کے خواب حق ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ انبیاء کے خواب وحی ہیں۔ (تفسیر ابی السعودو کبیر و مدارک وزرقانی علی المواہب وغیرہ)

۱۳۱             یعنی رسول پسِ پردہ اس کا کلام سنے، اس طریقِ وحی میں بھی کوئی واسطہ نہیں، مگر سامع کو اس حال میں متکلم کا دیدار نہیں ہوتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی طرح کے کلام سے مشرف فرمائے گئے۔ شانِ نزول : یہود نے حضور ِ پر نور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے کہا تھا کہ اگر آپ نبی ہیں تو اللہ تعالیٰ سے کلام کرتے وقت اس کو کیوں نہیں دیکھتے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام دیکھتے تھے حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جواب دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہیں دیکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ مسئلہ: اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کے لئے کوئی ایسا پردہ ہو جیسا جسمانیات کے لئے ہوتا ہے، اس پردہ سے مراد سامع کا دنیا میں دیدار سے محجوب ہونا ہے۔

۱۳۲             اس طریقِ وحی میں رسول کی طرف فرشتہ کی وساطت ہے۔

(۵۲) اور یونہی ہم نے  تمہیں وحی بھیجی (ف ۱۳۳)  ایک جان فزا چیز (ف ۱۳۴) اپنے  حکم سے،  اس سے  پہلے  نہ تم کتاب جانتے  تھے  نہ احکام شرع کی تفصیل ہاں ہم نے  اسے  (ف ۱۳۵) نور کیا جس سے  ہم راہ دکھاتے  ہیں اپنے  بندوں سے  جسے  چاہتے  ہیں، اور بیشک تم ضرور سیدھی راہ بتاتے  ہو (ف ۱۳۶)

۱۳۳             اے سیدِ عالَم خاتَمُ المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم۔

۱۳۴             یعنی قرآنِ پاک جو دلوں میں زندگی پیدا کرتا ہے۔

۱۳۵             یعنی قرآن شریف کو۔

۱۳۶             یعنی دِینِ اسلام۔

(۵۳) اللہ کی راہ (ف ۱۳۷) کہ اسی کا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور  جو کچھ زمین میں، سنتے  ہو سب کام اللہ ہی کی طرف پھیرتے  ہیں۔

۱۳۷             جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرّر فرمائی۔