تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الشّوریٰ

(سورۃ الشورى ۔ سورہ نمبر ۴۲ ۔ تعداد آیات ۵۳)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     حٰ مٓ

۲۔۔۔     عٓ سٓ قٓ

۳۔۔۔     اسی طرح وحی بھیجتا ہے اللہ آپ کی طرف (اے پیغمبر !) اور ان سب (حضرات) کی طرف جو کہ گزر چکے ہیں آپ سے پہلے جو کہ بڑا ہی زبردست نہایت حکمت والا ہے

۴۔۔۔     اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے اور وہی ہے بلند مرتبہ بڑی ہی عظمتوں والا

۵۔۔۔     قریب ہے کہ پھٹ پڑیں آسمان اپنے اوپر سے اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور وہ بخشش مانگتے ہیں ان (ایماندار) لوگوں کے لئے جو کہ زمین میں (رہتے) ہیں آگاہ رہو کہ بلاشبہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے

۶۔۔۔     اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور سرپرست (اور کارساز) بنا رکھے ہیں وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہیں اور آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں

۷۔۔۔     اور ہاں اسی طرح ہم نے وحی کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف (اے پیغمبر !) عربی زبان کے ایک عظیم الشان قرآن کی صورت میں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم خبردار کریں بستیوں کے مرکز (مکہ مکرمہ کے باشندوں) کو اور ان سب کو جو اس کے ارد گرد (پورے عالم میں پھیلے) ہیں اور (ان کو) خبردار کریں جمع ہونے کے اس (ہولناک) دن سے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں (جس دن کہ) ایک گروہ جنت میں ہو گا اور ایک دوزخ میں

۸۔۔۔     اور اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن وہ داخل فرماتا ہے اپنی رحمت میں جس کو چاہتا ہے اور ظالموں کا نہ کوئی یار ہے نہ مددگار

۹۔۔۔     کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا اور کارساز بنا رکھے ہیں ؟ سو (واضح رہے کہ) کارساز تو اصل میں اللہ ہی ہے وہی زندہ کرتا ہے مردوں کو اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۱۰۔۔۔     اور (ان کو یہ بھی بتا دو کہ) جس چیز کے بارے میں بھی تمہارے درمیان اختلاف واقع ہو جائے تو اس کا فیصلہ کرنا اللہ ہی کا کام ہے یہ ہے اللہ میرا رب میں نے اسی پر بھروسہ کر رکھا ہے اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں

۱۱۔۔۔     وہ بنانے والا ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کا اور اسی نے بنائے تمہارے لئے خود تمہاری ہی جنس سے عظیم الشان جوڑے (اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے) اور چوپایوں میں سے بھی (اسی طرح انہی کی جنس سے) جوڑے بنائے اس طریقہ سے وہ تمہاری نسلیں پھیلاتا ہے اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہی ہے ہر کسی کی سنتا سب کچھ دیکھتا

۱۲۔۔۔     اسی کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین (کے تمام خزانوں) کی وہ روزی کشادہ فرماتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے اور جس کو چاہتا ہے (حساب کی اور) نپی تلی دیتا ہے بے شک وہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۱۳۔۔۔     اسی نے مقرر فرمایا تمہارے لئے (سعادت دارین سے سرفرازی کے لئے) دین کا وہی طریقہ جس کا حکم وہ (اس سے پہلے حضرت) نوح کو دے چکا ہے اور جس کی وحی اب ہم آپ کی طرف کر رہے ہیں اور جس کا حکم ہم (اس سے پہلے) ابراہیم موسیٰ اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں (اس تاکید کے ساتھ) کہ قائم کرو تم اس دین کو اور اس میں پھوٹ نہیں ڈالنا بڑی بھاری ہے مشرکوں پر وہ بات جس کی طرف آپ ان کو بلا رہے ہیں اللہ چن لیتا اپنی طرف جس کو چاہتا ہے اور وہ راہ دیتا ہے اپنی طرف اس کو جو رجوع کرتا ہے (اس وحدہٗ لاشریک کی طرف)

۱۴۔۔۔     اور یہ لوگ آپس میں ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہوئے مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس پہنچ گیا علم (حق اور حقیقت کا) محض آپس کی ضد (اور حسد) کی وجہ سے اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک وقت مقرر تک (ڈھیل دینے کی) ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو یقیناً ان لوگوں کے درمیان (اس جرم شدید کے عذاب کا) فیصلہ کبھی کا چکا دیا گیا ہوتا اور جن لوگوں کو وارث بنایا گیا اس کتاب (ہدایت) کا ان کے اگلوں کے بعد تو وہ یقیناً اس کے بارے میں ایک بڑے ہی اضطراب انگیز شک میں پڑے ہیں

۱۵۔۔۔     سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (اے پیغمبر !) بلاتے رہیں اسی (دین حق) کی طرف اور مستقیم (و ثابت قدم) رہو جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور کبھی پیروی نہیں کرنا ان لوگوں کی خواہشات کی اور (ان سے) کہو کہ میں ایمان لایا ہوں اس کتاب پر جس کو اللہ نے اتارا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں انصاف کروں تمہارے درمیان اور اللہ ہی رب ہے ہمارا اور وہی رب ہے تمہارا ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال کوئی جھگڑا نہیں ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ اکٹھا کرے گا ہم سب کو (قیامت کے دن) اور اسی کی طرف لوٹنا ہے سب کو

۱۶۔۔۔     اور جو لوگ جھگڑے کرتے ہیں اللہ (کے دین) کے بارے میں اس کے بعد کہ اس کو قبول کر لیا گیا تو ان کی حجت بازی باطل ہے ان کے رب کے نزدیک ان پر اس کا بھاری غضب ہے اور ان کے لئے بڑا ہی سخت عذاب ہے

۱۷۔۔۔     اللہ وہی ہے جس نے اتارا اس کتاب کو حق کے ساتھ اور میزان کو بھی اور تمہیں کیا خبر کہ شاید (فیصلے کی) وہ گھڑی قریب ہی آ لگی ہو

۱۸۔۔۔     اس کے بارے میں جلدی وہی لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور جو ایمان رکھتے ہیں وہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ یہ قطعی طور پر حق ہے آگاہ رہو کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں شک ڈالنے والی بحثیں کرتے ہیں وہ یقینی طور پر مبتلا ہیں پرلے درجے کی گمراہی میں

۱۹۔۔۔     اللہ بڑا ہی مہربان ہے اپنے بندوں پر وہ جسے (جو کچھ) چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور وہی ہے قوت والا سب پر غالب

۲۰۔۔۔     جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے ہم اس کے لئے افزونی دیتے ہیں اس کی کھیتی میں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اس کو ہم اسی میں سے (جو چاہتے ہیں) دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا

۲۱۔۔۔     کیا ان لوگوں کے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کا وہ طریقہ نکال لیا ہے جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو یقیناً ان کے درمیان کبھی کا فیصلہ کر دیا گیا ہوتا اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ظالموں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۲۲۔۔۔     تم دیکھو گے کہ (اس دن) یہ ظالم سہمے ہوئے ہوں گے اپنی اس کمائی کی بناء پر جو انہوں نے (زندگی بھر) کی تھی مگر وہ بہر حال ان پر آ کر رہے گا اور جنہوں نے ایمان لایا ہو گا اور انہوں نے کام بھی نیک کئے ہوں گے وہ بہشت کے عظیم الشان باغوں میں ہوں گے اور ان کو اپنے رب کے یہاں ہر وہ چیز ملے گی جو وہ چاہیں گے یہی ہے وہ بڑا فضل

۲۳۔۔۔     یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری دیتا ہے اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے (ایمان کے مطابق) نیک کام بھی کئے (ان سے) کہہ دو کہ میں (تبلیغ حق کے) اس کام پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی محبت کے اور جو کوئی بھلائی کمائے گا تو ہم اس کے لئے اس بھلائی کی خوبی کو اور بڑھاتے جائیں گے بلاشبہ اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی قدر داں ہے

۲۴۔۔۔     کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے جھوٹ باندھا ہے اللہ پر؟ سو (ان کا یہ کہنا سراسر باطل و مردود ہے ورنہ) اگر اللہ چاہتا تو مہر لگا دیتا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر اور اللہ مٹا دیتا ہے باطل کو اور حق کر دکھاتا ہے حق کو اپنے فرامین (اور ارشادات) کے ذریعے بے شک وہ پوری طرح جانتا ہے دلوں کے رازوں کو

۲۵۔۔۔     اور وہ وہی ہے جو توبہ قبول فرماتا ہے اپنے بندوں سے اور وہ درگزر فرماتا ہے ان کی (خطاؤں اور) برائیوں سے اور وہ جانتا ہے وہ سب کچھ جو تم لوگ کرتے ہو

۲۶۔۔۔     اور وہ قبول فرماتا ہے دعاء (و عبادت) ان لوگوں کی جو ایمان لائے اور انہوں نے کام بھی نیک کئے اور ان کو اور زیادہ دیتا ہے اپنے فضل (و کرم) سے اور جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر (و باطل) پر ان کے لئے بڑا ہی سخت (اور ہولناک) عذاب ہے

۲۷۔۔۔     اور اگر اللہ روزی کشادہ کر دیتا اپنے بندوں کے لئے تو یقیناً یہ بغاوت (و سرکشی) کا طوفان کھڑا کر دیتے اس کی زمین میں مگر وہ اتارتا ہے ایک (نہایت ہی مناسب) اندازے سے جتنی چاہتا ہے (اور جس کے لئے چاہتا ہے) بلاشبہ وہ اپنے بندوں سے پوری طرح باخبر اور ان کی ہر حالت پر نگاہ رکھنے والا ہے

۲۸۔۔۔     اور وہ وہی ہے جو اتارتا ہے بارش کو اس کے بعد کہ لوگ (نا امید و) مایوس ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ (ہر طرف) پھیلا دیتا ہے اپنی رحمت (اور اس کے آثار و نتائج) اور وہی ہے کارساز اور ہر تعریف کے لائق

۲۹۔۔۔     اور اس کی (قدرت کی) نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین (کی اس عظیم الشان کائنات) کا پیدا کرنا اور وہ تمام جاندار مخلوق جس کو اس نے پھیلا دیا ہے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) ان دونوں میں اور وہ جب چاہے ان کو اکٹھا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے

۳۰۔۔۔     اور جو بھی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تم کو (اے لوگوں !) وہ خود تمہاری اپنی اس کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں سے کی ہوتی ہے اور بہت سے (گناہوں سے) تو وہ درگزر فرما دیتا ہے

۳۱۔۔۔     اور تم ایسے نہیں ہو کہ عاجز کر دو (اپنے رب کو اس کی) زمین میں اور اللہ کے مقابلے میں نہ تمہارا کوئی یار ہو سکتا ہے نہ مددگار

۳۲۔۔۔     اور اس کی نشانیوں میں پہاڑوں جیسے وہ (عظیم الشان) جہاز بھی ہیں جو چلتے ہیں سمندر میں

۳۳۔۔۔     اگر وہ چاہے تو ساکن کر دے ہوا کو جس کے نتیجے میں یہ سب کھڑے کے کھڑے رہ جائیں سمندر کی پیٹھ پر بے شک اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو کمال درجے کا صابر اور شاکر ہو

۳۴۔۔۔     یا وہ ہلاک کر دے ان (پر سوار ہونے والوں) کو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں اور بہتوں سے وہ درگزر فرماتا ہے

۳۵۔۔۔     اور (اس وقت) معلوم ہو جائے ان لوگوں کو جو جھگڑتے ہیں ہماری آیتوں میں کہ ان کے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں

۳۶۔۔۔     سو (واضح رہے کہ) جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے (اے لوگوں !) وہ سب چند روزہ سامان ہے اس دنیاوی زندگی کا (اور بس) جب کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر بھی ہے اور کہیں زیادہ پائیدار بھی ان (خوش نصیبوں) کے لئے جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب ہی پر بھروسہ رکھتے ہیں

۳۷۔۔۔     جو بچتے (اور دور رہتے) ہیں بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے اور جب ان کو غصہ آ جائے تو وہ (عفو و) درگزر سے کام لیتے ہیں

۳۸۔۔۔     جو حکم مانتے ہیں اپنے رب کا اور قائم رکھتے ہیں (فریضہ) نماز کو اور جو اپنے (اہم) معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں اور وہ خرچ کرتے ہیں (ہماری رضاء و خوشنودی کے لئے) اس میں سے جو ہم نے ان کو دیا ہوتا ہے

۳۹۔۔۔     اور جب ان سے کوئی (ظلم اور) زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا (مقابلہ کرتے اور) بدلہ لیتے ہیں

۴۰۔۔۔     اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے پھر جو کوئی معاف کر دے اور اصلاح کر لے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے بے شک وہ پسند نہیں کرتا ظالموں کو

۴۱۔۔۔     اور جو بدلہ لیں اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں

۴۲۔۔۔     الزام تو بس ان لوگوں پر ہے جو دوسروں پر ظلم کرتے ہیں اور وہ ناحق طور پر زیادتیاں کرتے ہیں اللہ کی زمین میں ایسے لوگوں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۴۳۔۔۔     البتہ جو کوئی صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو بلاشبہ یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے

۴۴۔۔۔     اور جس کو اللہ ہی گمراہ کر دے (اس کے خبث باطن کی بناء پر) تو اس کے لئے اس کے بعد کوئی چارہ ساز نہیں اور (کل قیامت میں) تم دیکھو گے کہ یہ ظالم لوگ جب اس عذاب کو خود دیکھ لیں گے تو کہیں گے (ہائے افسوس) کیا اب واپس جانے کی کوئی بھی صورت ہو سکتی ہے ؟

۴۵۔۔۔     اور تم ان کو دیکھو گے کہ جب ان کو دوزخ کے سامنے لایا جائے گا تو وہ ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اس کو نظریں بچا بچا کر کن اکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور (اس وقت) وہ لوگ جو کہ ایمان سے مشرف رہے ہوں گے کہیں گے بلاشبہ خسارے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے خسارے میں ڈال دیا اپنے آپ کو اور اپنے تعلق داروں کو آج قیامت کے دن آگاہ رہو کہ ظالم لوگ دائمی عذاب میں ہوں گے

۴۶۔۔۔     اور وہاں ان کے لئے نہ کوئی ایسے حامی ہوں گے (نہ مددگار) جو ان کی کوئی مدد کر سکیں اللہ کے مقابلے میں اور جس کو اللہ ہی ڈال دے گمراہی (کے ہولناک گڑھے) میں پھر اس کے لئے (نجات کی) کوئی سبیل ممکن نہیں

۴۷۔۔۔     بات مان لو اپنے رب کی (اے لوگوں !) قبل اس سے کہ آ پہنچے ایک ایسا (ہولناک) دن جس کے لئے ٹلنے کی پھر کوئی صورت نہ ہو گی اللہ کی طرف سے اس دن نہ تو تمہارے لئے کوئی پناہ کی جگہ ہو گی اور نہ ہی تمہارے لئے کسی انکار کی کوئی گنجائش

۴۸۔۔۔     پھر بھی اگر یہ لوگ منہ موڑے ہی رہیں تو (آپ ان کی فکر نہ کریں کہ) ہم نے آپ کو ان پر کوئی نگہبان بنا کر نہیں بھیجا آپ کے ذمے تو صرف (پیغام) پہنچا دینا ہے (اور بس) اور جب ہم چکھا دیتے ہیں اس (تنگ ظرف) انسان کو اپنی طرف سے کوئی رحمت تو یہ پھول جاتا ہے اور اگر کبھی ان کو کوئی تکلیف پہنچ جائے ان کے اپنے ان اعمال (اور کرتوتوں) کی بناء پر جو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں انجام دئیے ہوتے ہیں تو اس وقت یہ انسان بڑا ناشکرا ہوتا ہے

۴۹۔۔۔     اللہ ہی کے لئے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی وہ پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے عطاء کرتا ہے

۵۰۔۔۔     یا ان کو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں سے نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے بلاشبہ وہ سب کچھ جانتا پوری قدرت والا ہے

۵۱۔۔۔     کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر یا تو وحی کے طور پر یا پردے پیچھے سے یا وہ کوئی فرشتہ بھیج دے پھر وہ اس کے حکم سے القاء کرے جو کچھ کہ وہ چاہے بلاشبہ وہ بڑی ہی بلند شان والا بڑا ہی حکمت والا ہے

۵۲۔۔۔     اور اسی طرح ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف (اے پیغمبر !) وحی کی ایک عظیم الشان روح کی اپنے حکم سے (ورنہ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہ تو یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ہی ایمان (کی تفصیلات) کو مگر ہم نے بنا دیا اس روح کو ایک ایسا عظیم الشان نور جس کے ذریعے ہم ہدایت سے نوازتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں اور بلاشبہ آپ (اے پیغمبر !) راہنمائی کرتے ہیں سیدھے راستے کی

۵۳۔۔۔     یعنی اس اللہ کے راستے کی طرف جس کے لئے وہ سب کچھ ہے جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے آگاہ رہو کہ اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں سب کام

تفسیر

 

۳۔۔  یعنی جس طرح آپ سے پہلے کے پیغمبروں کی طرف وحی کی گئی اسی طرح آج آپ کی طرف بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس سورہ کریمہ اور اس کتاب حکیم کی وحی کی جا رہی ہے۔ یعنی دونوں کا مدعا ایک ہے کہ لوگوں کو راہ حق و ہدایت کی راہنمائی کی جائے۔ ان کو ان کے مآل و انجام کے بارے میں آگاہ اور خبردار کیا جائے سو وحی بھی ایک ہی رہی ہے اور طریقہ وحی بھی ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ تو پھر یہ منکرین و مکذبین آپ کی طرف سے پیش کی جانے والی اس وحی کے بارے میں اس طرح اچنبھا اور اعتراض کیوں کرتے ہیں؟ اور پھر اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے صفت عزیز و حکیم کے حوالہ و ذکر سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ عزت و حکمت کا سرچشمہ اب یہی اور صرف یہی کتاب عزیز و حکیم ہے۔ پس جو لوگ اس کے منکر و مکذب ہیں وہ سچی عزت اور حقیقی حکمت سے بہر حال محروم ہیں اور دوسری طرف اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو لوگ اس کے نازل کردہ اس کلام حکمت نظام کی تکذیب اور اس کا انکار کریں گے وہ اس کی گرفت و پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے کہ وہ بڑا ہی عزیز اور زبردست ہے کسی کی جان نہیں کہ اس کی راہ میں حائل اور مزاحم ہو سکے۔ یا اس کی گرفت و پکڑ سے بھاگ سکے۔ لیکن وہ اگر فوراً پکڑتا نہیں تو اس سے کسی کو دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئیے کہ یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ بڑا ہی حکیم بھی ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۶۔۔  اس آیت کریمہ میں ایک طرف تو مشرکین کو سخت قسم کی تہدید و وعید ہے، کہ جن لوگوں نے اس قسم کے واضح دلائل کے باوجود اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں، اور وہ تمام تر تنبیہ و تذکیر کے باوجود اپنی ضد سے باز نہیں آ رہے، تو ان کو اس حقیقت سے آگاہ رہنا چاہیئے، کہ وہ سب اللہ کی نگاہ میں ہیں اللہ پوری طرح ان کی نگرانی کر رہا ہے، کہ جونہی وہ اپنی مہلت پوری کر لیں وہ ان کو اپنے پنجہ قہر و غضب میں گرفتار کر لے۔ اور دوسری طرف اس میں پیغمبر کے لئے تسلی ہے کہ آپ ان کے ذمہ دار نہیں ہیں کہ ان کو راہِ راست پر ڈال کر ہی چھوڑیں۔ یہ کام نہ آپ کے بس میں ہے، اور نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے، آپ کے ذمے تو صرف تبلیغ حق کی ذمہ داری ہے، اور بس، اور وہ آپ نے پوری کر دی۔ اس کے بعد آپ کا ذمہ فارغ ہو گیا، اور اس کے بعد ان کے معاملہ ہمارے ذمے ہے، اور ان کا حساب ہم خود لیں گے اِنْ عَلَیْکَ اِلاَّ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ۔

۷۔۔  اس آیت کریمہ میں یوم الجمع سے مراد ہے قیامت کا وہ یوم عظیم جس میں سب دنیا کو اکٹھا کیا جائے گا سو اس سے انذارِ عام کے بعد انذارِ خاص کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور قیامت کے دن کو یوم الجمع کے لفظ سے تعبیر کرنے میں اس اہم حقیقت کی تذکیر و یاد دہانی ہے کہ قیامت کے اس یوم حساب میں اللہ تعالیٰ اولین وآخرین سب کو جمع فرمائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ قُلْ اِنَّ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخَرِیْنَ۔ لَمَجْمُوْعُوْنَ اِلیٰ مِیْقَاتٍ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ (الواقعۃ۔۴٩۔۵٠) سو اس یوم عظیم میں اللہ تعالیٰ بلا استثناء سب کو اکٹھا کرے گا۔ عابدوں کو بھی اور انکے معبودوں کو بھی لیڈروں کو بھی اور ان کے پیروؤں کو بھی، حضرات انبیاء و رسل کو بھی، اور ان کے ساتھیوں کو بھی، کفار و مشرکین کو بھی اور ان کے حمایتیوں کو بھی۔ اور پھر وہ سب کی موجودگی میں، اور بھری عدالت میں، فیصلہ فرمائے گا کہ اللہ کے دین کے معاملے میں کس نے کیا کردار ادا کیا۔ کس نے حق کا ساتھ دیا، اور کس نے باطل کی حمایت کی۔ کس نے حق کے بارے میں اختلاف کیا، اس میں فساد ڈالا، اور کس نے اس کی وحدت و پاکیزگی کو قائم رکھنے کی کوشش کی، اور اس کے لئے قربانی پیش کی۔ اور اس کے نتیجے میں کون انعام کا مستحق ٹھہرے گا، اور کون سزا کا حقدار قرار پائے گا، اور یہ کہ کس کو کتنا اور کیا انعام دیا جائے، اور کس کو اس کے جرم کی کتنی اور کیا سزا دی جائے، اسی کے مطابق اس عدالت کبریٰ میں آخری اور کامل فیصلہ کیا جائے گا جو کہ کامل عدل و انصاف پر مبنی ہو گا جس کے مطابق اور اس کے نتیجے میں ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا۔ جو وہاں کی سدا بہارا نعمتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مستفید و فیضیاب ہوتا رہے گا۔ اور یہ اہل ایمان و یقین کا گروہ ہو گا، اللہ تعالیٰ ہمیں انہی میں سے کرے، اور محض اپنے فضل و کرم سے کرے، جبکہ دوسرا گروہ دوزخ میں داخل ہو گا، جو وہاں پر اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتا رہے گا، والعیاذباللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال، اور اپنی آخری شکل میں پورے ہوں، سو اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو یاد رکھنا اور ہمیشہ اور ہر مرحلے پر یاد رکھنا عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے، اور اس سے غفلت و لاپرواہی برتنا خساروں کا خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین،

۱۱۔۔  سو جب آسمانوں اور زمین کی اس حکمتوں اور نعمتوں بھری کائنات کو بھی اسی وحدہٗ لاشریک نے پیدا کیا۔ اور انسانوں اور چوپایوں کے جوڑوں کو بھی اسی نے وجود بخشا۔ اور ان سب کو ایک ایسے پُر حکمت نوعی نظام سے مربوط کر دیا جس سے یہ سب آگے نہایت پُر حکمت طریقے سے، اور اپنی نوعی خصوصیات کے ساتھ، آگے پھلتے پھولتے جا رہے ہیں اور ان میں سے کسی بھی چیز میں اور کسی کا بھی نہ کوئی عمل دخل ہے، اور نہ کسی بھی طرح کا کوئی اشتراک، اور ساجھے داری، تو پھر معبودِ برحق بھی وہی وحدہٗ ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے اور یہ کہ اس جیسی کوئی چیز نہ ہے نہ ہو سکتی ہے، اور وہی ہے جو ہر کسی کی سنتا اور سب کچھ دیکھتا ہے سو جب اس کی قدرت بھی بے مثال و لازوال ہے، اور اس کا علم بھی کامل اور سب پر محیط ہے، تو پھر ہر قسم کی عبادت و بندگی بھی اسی کا حق ہے، اور ہر کسی اور ہر قسم کی حاجت روائی اور مشکل کشائی بھی وہی کرتا ہے تو پھر اس کے سوا اور کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے یا اس کے لئے وسیلے اور واسطے گھڑنے کی ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۳۔۔  سو اس سے اس دین کا بھی ذکر و بیان فرما دیا گیا جس کی تعلیم و تلقین ان انبیائے کرام کو فرمائی گئی تھی اور اس ہدایت کا بھی جو اس دین کے متعلق ان انبیائے کرام کے پیروؤں کو فرمائی گئی، پس دین سے مراد ہے اللہ کا دین اور اللہ تعالیٰ کا دین ہمیشہ سے اسلام ہی رہا، جو کہ دین فطرت اور اس پوری کائنات کا دین ہے اور جو کہ شروع سے ایک ہی دین رہا ہے، اور جو کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول و معتبر اور پسندیدہ دین ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ یعنی دین تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام ہی ہے۔ یہی وہ دین حنیف ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت آدم کو دیا، اور یہی خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا، اس کے مبادی اور اساسات شروع سے لے کر آخر تک سب ہمیشہ ایک ہی رہی ہیں۔ اور اس کی اصل الاصول اور اہم بنیاد توحید خداوندی ہے، فرق اگر ہوا ہے تو جزئیات اور فروع میں ہوا ہے جس کو قرآن حکیم نے شریعۃ اور منہاج کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے، اور اس دین سے متعلق امتوں کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اس کو قائم رکھنا اور اس میں اختلاف اور تفرق نہ برپا کرنا، اسی اصولی اور بنیادی ہدایت کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا (اٰل عمران۔۱٠۳) یعنی تم لوگ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا، اور باہم متفرق نہ ہونا۔ اور قائم رکھنے سے مراد ہے کہ اس کی تعلیمات کو سچائی سے مانا اور اپنایا جائے اور ان پر دیانتداری اور راست بازی سے عمل کیا جائے۔ یہاں پر حضرات انبیائے کرام کا حوالہ اس طرح دیا گیا کہ سب سے پہلے اس سلسلہ مطہرہ کی ابتدائی اور آخری کڑی کا ذکر فرمایا گیا، یعنی حضرت نوح اور خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، اور پھر بیج کے انبیائے کرام میں سے تین جلیل القدر نبیوں کا ذکر فرمایا گیا، یعنی حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، اور حضرت عیسیٰ علیہم الصلوٰۃ والسلام، کیونکہ ان تینوں کی پیروی کے دعویدار اس وقت بھی دنیا میں موجود تھے، اور آج بھی ہیں، اس طرح حضرات انبیائے کرام کی پوری تاریخ کی طرف بھی ارشاد فرما دیا گیا اور ان کی امتوں کی طرف بھی۔ و الحمدللہ جل وعلا،

۱۵۔۔  سو دین حق اور اس کے تقاضوں کی وضاحت کے بعد اس سے پیغمبر کو اس بارے بطورِ خلاصہ خاص ہدایات فرمائی گئی ہیں۔ جن میں سے پہلی اور سب سے اولین ہدایت یہ ہے کہ آپ اسی دین حق کے لئے دنیا کو دعوت دیتے رہیں، کہ دین حق جو کہ تقاضائے فطرت اور تمام انبیاء و رسل کا دین ہے، وہ بہر حال یہی دین ہے پس مخالفین جو منکرین جتنا بھی زور لگائیں ان کی پرواہ نہیں کرنا بلکہ آپ اسی راہ حق و ہدایت پر مستقیم و ثابت قدم رہیں جس کا آپ کو حکم کیا گیا ہے، اور یہ کہ اس راہ حق سے ہٹ کر ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہیں کرنا، کہ جن باتوں کو یہ لوگ دین اور نیکی کے نام سے کرتے ہیں، وہ دراصل ان کی اپنی خواہشات ہیں جن کو ان لوگوں نے ایسے خوشنما ناموں سے اپنا رکھا ہے۔ اور ان سے صاف طور پر کہہ دو کہ میں تو بہر حال اسی کتاب پر ایمان رکھتا ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے کہ صدق و صواب اور حق و ہدایت کی راہ وہی اور صرف وہی ہے جس کی تعلیم و تلقین اس کتاب حکیم میں فرمائی گئی ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، تسلیم کرے یا نہ کرے حق اور صدق بہر حال یہی اور صرف یہی ہے، اس لئے اس سے ہٹ کر تمہاری خواہشات کی پیروی کرنا مجھ سے ممکن نہیں، ہو اور یہ کہ مجھے اسی بات کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف قائم کروں کہ عدل و انصاف کو قائم کرنا دین حنیف کے مطالب جلیلہ میں سے ایک اہم مطلب ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی یہ پوری کائنات عدل و قسط کے تقاضوں ہی پر قائم، اور باقی ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے بندوں سے بھی، یہی مطلوب ہے کہ وہ بھی اپنے معاملات میں عدل و انصاف ہی سے کام لیں، اور اس کی واحد راہ اسی کتاب الٰہی کی تعلیمات مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہے، پس تم لوگ مجھ سے کبھی اس بات کی توقع نہیں رکھنا کہ میں اس راہ حق سے ہٹ کر تمہاری خواہشات کی پیروی کر سکتا ہوں بلکہ اس کے برعکس تم لوگ مجھ سے یہی جاننے کی کوشش کرو کہ تم میں سے کس کے ساتھ حق کتنا ہے اور باطل کتنا؟ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا سچا خالص اور بے آمیز دین کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہمیشہ تم لوگوں کے سامنے واضح رہنی چاہیئے، کہ اللہ ہی رب ہے ہمارا بھی اور وہی رب ہے تمہارا بھی، اسی کے حضور ہم اور تم سب کی پیشی ہونی ہے، اس کے سوا نہ کوئی مولیٰ و مرجع ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ اور یہ بات بھی تمہارے سامنے واضح رہنی چاہئیے کہ ہم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہوں گے، اور تم لوگ اپنے اعمال کے ذمہ دار ہوؤ گے، ہمارے ذمے حق و ہدایت کا پیغام پہنچانا تھا اور وہ ہم نے کر دیا۔ اور اس طرح ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے۔ اب آگے اس حق و ہدایت کو قبول کرنے اور اپنانے کی ذمہ داری تمہاری ہے۔ اسی مضمون کو سورہ یونس میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے وَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَلَکُمْ عَمَلُکُمْ اَنْتُمْ بِرِیْؤْنَ مِمَّا اَعْمَلُ وانابریء مما تعملون(سورہ یونس۔۴۱) آخر میں لَا حُجَّۃَ بَینَنَا وَبَیْنَکُمْ سے ایسے ہٹ دھرموں کو آخری جواب دیا گیا کہ اگر اس قدر توضیح و تفصیل اور رد و قد کے باوجود اگر تم لوگوں کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ اور تم لوگ حق بات سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہوتے، تو اب مزید طول کلام اور بحث مباحثہ کی ضرورت نہیں۔ اب ہمارا تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے، وہی ہم سب کو اکٹھا کر کے ہمارے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ اور اس حقیقت کو یاد رکھو کہ سب کا لوٹنا اسی کی طرف ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور بہر حال لوٹتا ہے، اور حال پر ہر کسی نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے، اور وہاں پر انسان کو اپنا ایمان و عمل ہی کام آ سکے گا، پس ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ وہاں کے لئے کیا سامان کر رہا ہے وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّاقَدَّمَتْ لِغَدٍ وَّاتَّقُواللّٰہَ، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلیٰ مایُحِبُّ و یرید،

۱۸۔۔  ایسی دور کی گمراہی میں جہاں سے ان کی واپسی کی پھر کوئی صورت ممکن نہیں، سو قیامت کا انکار اور اس کے بارے میں شک کرنا، اور خواہ مخواہ کی حجت بازی سے کام لینا محرومیوں کی محرومی ہے، کہ اس کے بعد آدمی ایسا غافل اور لا پرواہ ہو جاتا ہے کہ حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ ایسے لوگوں کی فرصت حیات یونہی غفلت و لاپرواہی میں تمام ہو جاتی ہے اور یہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں اور ان کی آنکھیں اسی وقت کھلتی ہیں جبکہ کسب و عمل کا موقع ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور اس وقت ایسے لوگ خوب سنتے اور مانتے ہیں، مگر بے وقت کے ان کے اس سننے اور ماننے کا کوئی فائدہ ان کو بہر حال نہیں ہو سکتا، بلکہ اس وقت ہر ایک کا انجام اس کے سامنے آ چکا ہوتا ہے، جس سے کسی کے لئے کسی مفر اور گریز و فرار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی اور اس وقت ایسے لوگ ہمیشہ کے خسارے میں مبتلا ہو کر رہتے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۱۹۔۔  سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔ اسی لئے وہ ان کو اپنی رحمت سے نوازنے میں سبقت کرتا ہے۔ ان پر عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔ اسی لئے وہ نا فرمانوں کو ان کی نافرمانی کے باوجود فوراً نہیں پکڑنا۔ بلکہ ان کو ڈھیل پر ڈھیل دئے جاتا ہے۔ اور ان کے معاصی و ذنوب کے باوجود ان کو روزی دیتا ہے۔ تاکہ اگر وہ چاہیں تو اس فرصت و مہلت سے فائدہ اٹھا کر توبہ و اصلاح کر لیں۔ اور اس طرح اپنے اس رب رحمان و رحیم کی رحمت و عنایت کے سائے میں پھر سے لوٹ آئیں۔ اور اس کے برعکس جو اس سب کے باوجود ہوش کے ناخن نہ لیں، اور راہ راست پر نہ آئیں، وہ اپنے اس انجام کو پہنچ کر رہیں جس کا مستحق انہوں نے اپنے آپ کو بنا لیا ہوتا ہے، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ اور ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ مل سکے۔

۲۰۔۔  سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ انسان کے اپنے مال اور انجام کا اصل دارومدار اس کے اپنے ارادے اور نیت پر ہے۔ پس جو لوگ آخرت کی کھیتی چاہتے اور اسی کو اپنا اصل مقصد بناتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں اپنے رزق و فضل میں سے جو کچھ دینا چاہتا ہے وہ بھی دیتا ہے اور ان کی آخرت کی کھیتی میں بھی افزونی اور برکت دیتا ہے، اور اس کے برعکس جو لوگ دنیاوی زندگی ہی اس کو اپنا منتہائے مقصود بنا لیتے ہیں، ان کو دنیاوی زندگی میں وہی کچھ ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے، لیکن آخرت میں ایسوں کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ آخرت کی انہوں نے نیت کی ہی نہیں ہوتی۔ اس لئے وہاں پر ان کے لئے دوزخ کی آگ ہی ہو گی، جس میں ان کو ذلیل و خوار ہو کر داخل ہونا ہو گا۔ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۱٨ تا ۲٠ میں اس کی تفصیل اور تصریح فرمائی گئی ہے، سو عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ آخرت ہی کو اپنا اصل مقصد اور حقیقی نصب العین بنایا جائے، کہ وہیں کی زندگی اصل حقیقی اور اَبَدی زندگی ہے اور دنیاوی زندگی کے بارے میں کفایت اور ضرورت ہی پر اکتفاء کرے، دنیا کے لئے بقدر کفایت و ضرورت محنت کرے، اور اصل محنت اپنی آخرت کے لئے کرے، یہی صحت و سلامتی کی راہ، اور عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا اور دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید،

۲۳۔۔  یعنی میری یہ ساری محنت و مشقت، تگ و دو۔ اور دوڑ دھوپ، خود تم ہی لوگوں کے بھلے کے لئے ہے۔ میری ان تمام سرگرمیوں اور بے قراریوں کا محور و مرکز، اور ان کی اصل غرض و غایت، اور بنیادی مقصد یہ ہے کہ میں اس حق قربت و قرابت سے سبکدوش ہو سکوں، جو میرے اور تمہارے درمیان ہے تم لوگ میری قوم قبیلے اور میرے خاندان کے لوگ ہو۔ اس لئے میں اپنے اوپر یہ حق سمجھتا ہوں کہ حق و ہدایت اور علم و آگہی کی جس دولت سے مجھے سرفراز فرمایا گیا ہے، اس سے میں تم لوگوں کو بھی سرفراز و فیضیاب کروں، اور سب سے پہلے تم لوگوں کو اس سے آگاہ کروں، اور جس رحمت کی منادی سب دنیا کے لئے کرنے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی ہے، اس میں سب سے پہلے میں تم لوگوں کو شریک کروں، اور یہ اس لئے کہ حضرات انبیاء و رسل کی سنت ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز اپنے خاندان اور قبیلے ہی سے کیا ہے، جب تک ان لوگوں نے اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ان حضرات کو مایوس نہیں کر دیا، اس وقت تک انہوں نے ان سے توجہ نہیں ہٹائی۔ اور اسی سنت انبیاء و رسل کے مطابق حضرت امام الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کو اول اول صاف اور صریح طور پر یہ ہدایت فرمائی گئی وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ (الشعراء۲۱۴) یعنی آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خبردار کرو۔ اور آپ کے یہ قریبی قریش ہی تھے، جو پوری عرب دنیا میں ایک خاص اثر اور مقام رکھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سب کو سب سے پہلے خبردار کیا، اور خبردار کرتے ہی رہے، جب تک کہ انہوں نے اپنی تعدی اور ہٹ دھرمی سے آپ کو مایوس نہیں کر دیا۔ اور بالآخر جب نوبت اس حد تک پہنچ گئی کہ انہوں نے اپنی ہٹ دھرمی کی بناء پر حق کو سننے ماننے سے انکار ہی کی ٹھان لی۔ اور اس سے بھی بڑھ کر وہ اپنی بدبختی میں اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ پیغمبر کے قتل اور اخراج تک کے مشورے کرنے لگے، تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ نیز مودت فی القربی یعنی رشتہ داری کی محبت میں یہ بات بھی داخل اور شامل ہے کہ میرے اور تمہارے درمیان قرابت و رشتہ داری کا جو تعلق ہے تم لوگ کم از کم اس کا تو لحاظ کرو، کہ یہ تقاضائے عقل و فطرت ہے، یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ حق و ہدایت کی جو دعوت میں تم لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، تم دل و جان سے اس کو اپنا لیتے، اور اس طرح تم خود اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرتے، لیکن اس کی توفیق اگر تم لوگوں نہیں ملی تو کم از کم تم اس رشتہ داری کا تو پاس و لحاظ کرتے جو میرے اور تمہارے درمیان ہم قوم اور ہم قبیلہ ہونے کے اعتبار سے پائی جاتی ہے، یہ ظلم و ستم تم نہ کرو کہ پورے عرب میں سب سے بڑھ کر تم ہی لوگ میرے دشمن بن جاؤ، اور میرے درپے آزار ہو جاؤ، سو اس طرح اس ارشاد سے ان منکرین و مکذبین کے دلوں پر دستک دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی اس روش تکذیب و انکار سے باز آئیں، اور اپنے معاندانہ رویے کے بارے میں کچھ تو سوچیں سو یہ اس آیت کریمہ کا واضح اور متبادر مفہوم ہے اور یہی مروی و منقول ہے حضرت مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، اور عطاء بن دینار جیسے اکابر مفسرین کرام سے، اور یہی تفسیر ابن عباس کی ہے، جسے بکثرت راویوں کے حوالے سے امام احمد بخاری مسلم، اور ترمذی وغیرہ حضرت نے نقل کیا ہے۔ سو تعجب ہوتا ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارے اس دور کے بعض مفسرین کرام نے اس قول و احتمال کو ضعیف قرار دیا ہے، اور پھر اس کے لئے انہوں نے جو دلیل بیان کی وہ بذات خود بے بنیاد اور بالکل بودی اور کمزور ہے۔ والعیاذُ باللہ من کل زیغِ و ضلال،

۲۹۔۔  سو آسمانوں اور زمین کی یہ حکمتوں اور عبرتوں بھری کائنات اور اس کی تخلیق و تکوین حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کی قدرت و حکمت اور اس کی رحمت و عنایت اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے عظیم الشان دلائل اور نشانیوں میں سے ایک عظیم الشان دلیل اور نشانی ہے، اور فِیِہِمَا کی ضمیر تثنیہ میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ زندگی صرف کرہ ارضی ہی میں نہیں بلکہ آسمانوں میں بھی پائی جاتی ہے اب اس کی تفصیلات کیا ہیں تو اس کا علم حضرت خالق ہی کو ہے سبحانہ و تعالیٰ نیز اس میں اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ ان سب کو جب چاہے گا جمع کرنے پر بھی قادر ہے۔ کیونکہ جب وہ ان کے بکھیرنے پھیلانے پر قادر ہے تو ان کے سمیٹنے اور جمع کرنے پر کیوں قادر نہیں ہو گا؟ پس وہ ان سب کو ضرور جمع کرے گا، اور یہ ایک عام قاعدہ اور محسوس و مبصر حقیقت ہے کہ جو کسان اپنے کھیت میں تخم ریزی کرتا اور بیچ کو بکھیرتا پھیلاتا ہے، وہ اس کو ضائع کرنے کے لئے نہیں بکھیرتا پھیلاتا، بلکہ وہ اس کے حاصل کو ایک دن جمع بھی کرتا ہے اور اس کے لئے اس کو کسی طرح کی کوئی زحمت نہیں پیش آتی۔

۳۱۔۔  سو اس سے اس قانون مجازات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے جس کے مظاہر اس دنیا میں جا بجا۔ اور شب و روز کے ہر حصے میں، طرح طرح سے رونما ہوتے رہتے ہیں، سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس دنیا میں تم لوگوں کو جو بھی کوئی مصیبت اور پریشانی پیش آتی ہے وہ خود تمہارے اپنے ہی کئے کرائے کے نتیجے میں پیش آتی ہے اور تمہاری بہت سی بد عملیوں سے تو وہ درگزر فرماتا ہے، ورنہ تم اس دنیا میں ایک لمحہ بھی باقی نہ رہ سکو۔ سو ان میں تم لوگوں کے لئے تنبیہ و تذکیر کا بڑا سامان ہے کہ یہ دنیا کوئی بازیچہ اطفال نہیں، بلکہ اس میں ایک بڑا ہی پُر حکمت قانون مجازات رائج اور نافذ العمل ہے۔ سو اس میں تم لوگوں کے لئے یہ عظیم الشان درس عبرت و بصیرت ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک سزا و جزا دینے والا بھی ہے کہ یہ اس کے قانون عدل و انصاف کا تقاضا ہے، سو اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ ایک دن تم سب کو جمع کرے تاکہ تم سب کا مواخذہ ہو، اور ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بہ تمام و کمال پورے ہوں سو وہی دن قیامت کا یوم عظیم ہے جو کہ فصل و تمیز کا دن ہو گا، پس تم لوگوں کو آج جو ڈھیل ملی ہوئی ہے اس سے کبھی اس غلط فہمی میں نہ پڑنا کہ یہ ڈھیل ہمیشہ رہے گی۔ اور یہ کہ حضرت حق جَلَّ مَجْدَہٗ کو تمہارے خیر و شر سے کوئی تعلق نہیں۔ اور تم لوگ ہمیشہ اسی طرح دندناتے پھرو گے۔ سو نہیں ایسا نہیں اور ہرگز نہیں، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے کامل جزا و سزا کے لئے ایک خاص دن کو مقرر فرما رکھا ہے اور وہ یوم الفصل اپنے وقت پر بہر حال آ کر رہے گا۔ اور اس کے آنے کا وقت اس دنیاوی زندگی کے بعد ہے کیونکہ دنیا کی یہ زندگی کسب و عمل اور ابتلاء و آزمائش کا موقع ہے، نہ کہ جزا و سزا، اور بدلہ و انعام کا۔ جبکہ آخرت کا وہ جہاں جزا و سزا اور بدلہ و انعام کا جہاں ہوں گا۔ اور وَمَاکُنْتُمْ بِمُعْجِریْنَ فِی الْاَرْضِ سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جب اس زمین میں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی آفت نازل ہوتی ہے تو تم کسی بھی طرح اس کے قابو سے نہیں نکل سکتے اور نہ ہی ایسے موقع پر تمہارا اللہ کے مقابلے میں کوئی یار و مددگار ہو سکتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس طرح آسمان میں بھی اور قیامت کے دن میں بھی تمہارا کوئی ایسا شریک و شفیع اور یار و مددگار نہیں ہو سکتا، جو تمہیں اللہ کی گرفت و پکڑ سے بچا سکے۔ یا تمہاری کچھ بھی حمایت اور مدد کر سکے۔ یہاں پر یہ حقیقت بھی واضح رہنی چاہئیے کہ یہ خطاب کفار سے ہے، جن کو اس دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں پیش آتی ہیں وہ سب ان کے اپنے اعمال کی پاداش اور انہی کا نتیجہ ہوتی ہیں جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک جز و سزا دینے والا ہے، اس لئے وہ ایک ایسا یوم جزا وسزا بپا کرے گا جس میں ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ اور بدلہ ملے گا، اور اس میں ایسے تمام مجرمین کو ان کے جرائم کی پوری سزا ملے گی، جن سے وہ مالک الملک اس دنیا میں در گز فرما رہا ہے۔ اس آیت کریمہ کا تعلق حضرات انبیاء و رسل اور صدیقین و صالحین سے نہیں ہے۔ ان کو دنیا میں جو مصائب پیش آتے ہیں وہ ان کے اعمال کی سزا کے طور پر نہیں ہوتے۔ بلکہ ابتلاء و آزمائش کے طور پر ہوتے ہیں جن سے مقصود انکے صبر و استقامت کا امتحان ہوتا ہے، جس سے ان کو بلندی مراتب و درجات سے نوازا جاتا ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ مثلاً صحیح بخاری و مسلم وغیرہ کی ایک روایت میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ارشاد فرمایا مَایُصِیْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ وَّلَا وَصَبٍ وَّلَاہَمٍّ وَلَا حَزَنٍ وَلَا اَذًی وَلَا غَمٍّ حتّی الشوکۃ یُشاکُہَا اِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ خَطایاًہُ۔ یعنی مسلمان کو جو بھی کوئی رنج یا دکھ۔ یا فکر  یا غم، یا تکلیف یا پریشانی، پیش آتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کو جو کانٹا بھی چبھتا ہے اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں کو مٹاتا ہے سو اہل ایمان کی مصیبتوں اور تکلیفوں کا معاملہ الگ ہے۔ و الحمدللہ جل وعلا، بکل حال من الاحوال۔

۳۴۔۔  سو اس سے قدرت کے بعض عظیم الشان مظاہر سے درس عبرت و بصیرت لینے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے کہ دیکھو قدرت کا یہ کس قدر عظیم الشان کرشمہ ہے کہ پہاڑوں جیسے عظیم الشان اور دیو ہیکل جہاز سمندر کے سینے کو چیرتے ہوئے اس پر دوڑتے ہیں، ورنہ وہ اگر چاہے تو ہوا کو روک دے تو یہ اس کی پشت پر ہی کھڑے کے کھڑے رہ جائیں، اور یا وہ ان کو ان کے مسافروں سمیت سمندر میں غرق کر دے اور کوئی ان کو بچا نہ سکے، سو اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لئے جو سفر زندگی میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات میں صبر و برداشت سے کام لیتا ہے، اور نعمتوں کے ملنے پر شکر سے، بحری جہازوں سے متعلق یہ تمثیل اگرچہ بنیادی طور پر بادبانی جہازوں سے متعلق ہے، کیونکہ نزول قرآن کے زمانے میں یہی جہاز دنیا میں موجود تھے، لیکن یہی تمثیل دور حاضر کے ترقی یافتہ، اور اسٹیم و بجلی وغیرہ سے چلنے والے جہازوں پر بھی پوری طرح منطبق ہوتی ہے، کیونکہ دور حاضر کے یہ ترقی یافتہ جہاز بھی اصل میں اللہ تعالیٰ ہی کی رحمت و عنایت سے چلتے ہیں، ورنہ یہ بھی تمام تر ترقی اور قوت کے باوجود معمولی کنکر پتھر کی طرح اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر کی تہ میں جا بیٹھتے ہیں، یا ایک بے جان لاشے کی طرح ہو جاتے ہیں جن کو دوسرے بڑے بڑے جہازوں کے ذریعے گھسیٹ کر ساحل پر لایا جاتا ہے، جیسا کہ آئے دن اخباروں میں اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل روس کی جدید ترین سائنسی آلات سے لیس ایک دیو ہیکل ایٹمی آبدوز اپنے عملے اور ایک سو اٹھارہ ماہر سائنسدانوں سمیت سمندر سے غرق ہو گئی، اور روس کی پوری دنیا سے مدد کی اپیل، اور سب کی بھرپور کوششوں کے باوجود اس کو نہ بچایا جا سکا، اور اس کے اندر کام کرنے والے روس کے وہ ماہر اور مایہ ناز سائنسدان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے انجام کو پہنچ کر رہے،

۴۵۔۔  سو اس سے ان منکرین و مکذبین کے ہولناک انجام کی تصویر پیش فرما دی گئی، کہ یہ لوگ آج تو اپنی دنیاوی ترقی کے غرے اور تکبر کی بناء پر حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، اور الٹا عذاب الٰہی کا مذاق اڑا رہے ہیں، لیکن جس روز ان کو اس عذاب پر پیش کیا جائے گا تو اس روز یہ ذلت سے اپنے سر جھکائے ہوئے اس عذاب کی طرف کن اکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے، یعنی بالکل اسی طرح جس طرح کہ کسی گردن زدنی مجرم کو جب اس کے مقتل کی طرف لے جایا جاتا ہے، تو وہ اپنے مقتل اور جلاد کی تلوار کو کھلی اور سیدھی آنکھوں سے دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا، بلکہ خوف اور دہشت کے مارے وہ کن اکھیوں سے دیکھتا ہے، سو یہی حال حساب کے اس یوم عظیم میں ان منکروں اور متکبر بدبختوں کا ہو گا، اس وقت اہل ایمان ان لوگوں کی اس ذلت و خواری اور ہلاکت و تباہی کو دیکھ کر پکار اٹھیں گے کہ اصل اور حقیقی نامراد وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو بھی قیامت کے دن خسارے میں ڈالا، اور ساتھ ہی اپنے اہل و عیال اور تعلق داروں کو بھی۔ اپنے زور اور دباؤ سے، یا اپنی غلط تعلیم و تلقین سے۔ یہ لوگ دنیا میں اپنی دنیاوی ترقی اور کامیابی کی بناء پر تو ہم لوگوں کو خسارے میں سمجھتے تھے اور حق بات سننے اور ماننے اور اس پر کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے، حالانکہ دنیا کا خسارہ کوئی خسارہ نہیں تھا۔ کہ وہاں کی ہر چیز آنی جانی اور فانی اور وقتی تھی جبکہ آخرت کے اس جہاں کا یہ خسارہ جس میں آج یہ بدبخت لوگ مبتلا ہیں اصل اور حقیقی خسارہ ہے کہ اس سے نکلنے اور خلاصی پانے کی کوئی صورت اب ان کے لئے ممکن نہیں، اب ان کو ہمیشہ اسی دائمی عذاب میں رہنا ہو گا۔ دنیا کا ہر دکھ اور سکھ تو عارضی اور فانی تھا، لیکن یہاں کا یہ عذاب اب کسی بھی طور پر ان سے ٹالا نہیں جائے گا، سو یہی ہو گا سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ جو کہ خسران مبین ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۴۷۔۔  سو اس سے ان غافل منکرین و مکذبین کے ضمیروں کو جھنجھوڑتے ہوئے ان کو بطور زجر و تنبیہ دعوت حق کو قبول کرنے کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ تم لوگوں کے لئے اب بھی اصلاح احوال اور اپنی بگڑی بنانے کا موقع موجود ہے، اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنے رب کی دعوت کو قبول کر لو۔ اور اس طرح اپنی عاقبت بنانے کا سامان کر لو۔ قبل اس سے کہ حیات دنیا کی یہ فرصت محدود و مختصر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور تم لوگوں کو ہمیشہ کے عذاب اور دائمی خسارے میں مبتلا ہونا پڑے۔ کیونکہ تمہارے رب کی طرف سے جب وہ دن آ جائے گا جو اٹل ہے تو اس وقت تمہارا اس کو قبول کرنا نہ کرنا ایک برابر ہو گا، اس دن نہ تمہارے لئے کوئی پناہ ممکن ہو گی۔ اور نہ ہی تمہارے اندر اس دن کسی چیز کو رد کرنے کی کوئی طاقت ہو گی۔ بلکہ اس دن جو کچھ تمہارے سامنے آئے گا تمہیں بے چون و چرا اس کے آگے سر جھکا دینا پڑے گا۔ سو اس سے حیات دنیا کو اس فرصت محدود کی قدر و قیمت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کی اَبَدی زندگی کی کمائی اور وہاں کی فوز و فلاح سے سرفرازی کے لئے کوشش اور محنت کا موقع اسی میں، اور صرف اسی میں ہے، اس کے بعد اس کے لئے نہ کوئی موقع ہو گا، اور نہ کسی طرح یا کوئی امکان، جبکہ آج دنیاوی زندگی کی اس فرصت میں آخرت کی کمائی کے اس عظیم الشان اور حقیقی مقصد کے حصول اور اس سے سرفرازی کے لئے ہر قسم کے مواقع موجود ہیں، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،

۵۰۔۔  سو اس سے عقیدہ توحید کو اس طرح نکھار کر پیش فرما دیا گیا کہ شرک کے تمام مداخل و منافذ بند ہو جاتے ہیں، پہلی حقیقت تو اس ضمن میں یہ واضح فرمائی گئی کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کی ملکیت اور بادشاہی اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے لئے ہے، پس جس کو جو کچھ ملا یا ملتا ہے۔ یا ملے گا، وہ سب اسی وحدہٗ لاشریک کی طرف سے ہے، اسی طرح اولاد سے نوازنے کا معاملہ بھی اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، وہ جو چاہے پیدا کرے۔ جس کو چاہے بیٹے دے اور جس کو چاہے بیٹیاں دے۔ اور جس کو چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں سے نواز دے، اور جس کو چاہے بانجھ کر دے، وہی ہے جو پورا علم بھی رکھتا ہے، اور کامل قدرت بھی۔ پس اس کا ہر کام کمال قدرت سے ناشی اور کمال علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، تو جب اصل صورت حال یہ ہے اور اس کے کمال قدرت و حکمت کا عالم یہ ہے، اور سب کچھ اسی کی قدرت و حکمت اور عطاء و بخشش پر موقوف ہے تو پھر اس کے سوا اور کسی سے مانگنے اور اس کے آگے دست سوال دراز کرنے کی ضرورت اور تک ہی کیا ہو سکتی ہے؟ اور اسی سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جب اس کی ان صفات میں کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق بھی وہی واہب معلق ہے، جَلَّ جلالُہٗ وَعَمَّ نَوَالُہ، اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۳۔۔  سو اس سے پیغمبر کے فرض منصبی کی بھی وضاحت فرما دی گئی۔ اور اس کی عظمت شان کی بھی اور اس کے نتیجہ و انجام کی بھی سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کا کام اور ان کا منصب اور ان کی شان صراط مستقیم یعنی اس سیدھے راستے کی راہنمائی کرنا ہے جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہ، اور واحد اور عظیم الشان راہ ہے، پس آپ کا کام اس راہ کی راہنمائی کرنا اور اس کو اپنانے کی دعوت دینا، اور اس کی تعلیم و تلقین فرمانا ہے، اور بس، آگے لوگوں کو اس پر ڈال اور چلا دینا نہ آپ کے بس میں ہے، اور نہ ہی یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اصل دار و مدار لوگوں کی اپنی نیت اور ان کی طلب پر ہے، اور نیت و طلب کا تعلق چونکہ انسان کے دل سے ہے، اور دلوں کا حال اللہ وحدہٗ لاشریک ہی جانتا ہے، اور وہی جان سکتا ہے، کہ کس کے دل کی نیت کیا ہے، اور کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے، اور کون کس لائق ہے، اس لئے وہ اسی کے مطابق معاملہ اور فیصلہ فرماتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ، پس داعی کا کام یہ ہے کہ وہ دعوت حق کا فریضہ ادا کرنے کے بعد معاملہ اسی وحدہٗ لاشریک کے حوالے کر دے، اور صراط مستقیم کی یہ عظیم الشان راہ اس اللہ تک پہچانے والی واحد راہ ہے جو آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے، پس اس کی اس راہ کو صدق دل سے اپنانا دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اور واحد ذریعہ و وسیلہ ہے اور اس سے اعراض و روگردانی دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث، والعیاذُ باللہ العظیم۔ اور تمام امور کا رجوع بہر حال اللہ ہی کی طرف ہے اس لئے ہر کوئی دیکھ لے اور خود غور کر لے کہ وہ اس کے حضور حاضری کے لئے کیا سامان کر رہا ہے؟ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،