تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الذّاریَات

نام

پہلے ہی لفظ وَالذّٰرِیَات سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورۃ جس کی ابتدا لفظ الذاریات سے ہوتی ہے۔ 

زمانۂ نزول

مضامین اور انداز بیان سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ تکذیب و استہزاء اور جھوٹے الزامات تو بڑے زور شور کے ساتھ ہو رہا تھا، مگر ابھی ظلم و تشدد کی چکی چلنی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے یہ بھی اسی دور کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے جس میں سورہ ’’ق‘‘ نازل ہوئی ہے۔ 

موضوع اور مباحث

اس کا بڑا حصہ آخرت کے موضوع پر ہے، اور آخر میں توحید کی دعوت پیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ لوگوں کو اس بات پر بھی متنبہ کیا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بات نہ ماننا اور اپنے جاہلانہ تصورات پر اصرار کرنا خود انہی قوموں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے جنہوں نے یہ روش اختیار کی ہے۔

آخرت کے متعلق جو بات اس سورہ کے چھوٹے چھوٹے مگر نہایت پُر معنی فقروں میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ انسانی زندگی مآل و انجام کے بارے میں لوگوں کے مختلف اور متضاد عقیدے خود اس بات کا صریح ثبت ہیں کہ ان میں سے کوئی عقیدہ بھی علم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے قیاسات دوڑا کر اپنی جگہ جو نظریہ قائم کر لیا اسی کو وہ اپنا عقیدہ بنا کر بیٹھ گیا۔ کسی نے سمجھا کہ زندگی بعد موت نہیں ہو گی۔ کسی نے اس کو مانا تو تناسخ کی شکل میں مانا۔ کسی نے حیات بڑے اور اہم ترین بنیادی مسئلے پر، جس کے بارے میں آدمی کی رائے کا غلط ہو جانا اس کی پوری زندگی کو غلط کر کے رکھ دیتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے مستقبل کو برباد کر ڈالتا ہے، علم کے بغیر محض قیاسات کی بنا پر کوئی عقیدہ بنا لینا ایک تباہ کن حماقت ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا رہ کر ساری عمر جاہلانہ غفلت میں گزار دے اور مرنے کے بعد اچانک ایک ایسی صورت حال سے دو چار ہو جس کے لیے اس نے قطعاً کوئی تیاری نہ کی تھی۔ ایسے مسئلے کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنے کا بس ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ انسان کا آخرت کے متعلق جو علم خدا کی طرف سے اس کا نبی دے رہا ہے اس پر وہ سنجیدگی کے ساتھ غور کرے اور زمین و آسمان کے نظام اور خود اپنے وجود پر نگاہ ڈال کر کھلی آنکھوں سے دیکھے کہ کیا اس علم کے صحیح ہونے کی شہادت ہر طرف موجود نہیں ہے؟ اس سلسلے میں ہوا اور بارش کے انتظام کو، زمین کی ساخت اور اس کی مخلوقات کو، انسان کے اپنے نفس کو، آسمان کی تخلیق کو، اور دنیا کی تمام اشیاء کے جوڑوں کی شکل میں بنائے جانے کو آخرت کی شہادت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بتایا گیا ہے کہ سلطنت کائنات کا مزاج کس طرح ایک قانون مکافات کا  مقتضی نظر آ رہا ہے۔

اس کے بعد بڑے مختصر انداز میں توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمہارے خالق نے تم کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ وہ تمہارے بناوٹی معبودوں کی طرح نہیں ہے جو تم رزق لیتے ہیں اور تمہاری مدد کے بغیر جن کی خدائی نہیں چل سکتی۔وہ ایسا معبود ہے جو سب کا رزاق ہے، کسی سے رزق لینے کا محتاج نہیں، اور جس کی خدائی خود اس کے اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا مقابلہ جب بھی کیا گیا ہے کسی معقول بنیاد پر نہیں بلکہ اسی ضد اور ہٹ دھرمی اور جاہلانہ غرور کی بنیاد پر کیا گیا ہے جو آج محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ برتی جا رہی ہے۔ اور اس کی محرک بجز سر کشی کے اور کوئی چیز نہیں ہے۔ پھر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ ان سرکشوں کی طرف التفات نہ کریں اور اپنی دعوت و تذکیر کا کام کیے جائیں، کیونکہ وہ ان لوگوں کے لیے چاہے نافع نہ ہو، مگر ایمان لانے والوں کے لیے نافع ہے۔ رہے وہ ظالم جو اپنی سرکشی پر مصر رہیں، تو ان سے پہلے اسی روش پر چلنے والے اپنے حصے کا عذاب پا چکے ہیں اور ان کے حصے کا عذاب تیار ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
قسم ہے ان ہواؤں کی جو گرد اڑانے والی ہیں، پھر پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھانے والی ہیں(۱)، پھر سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی ہیں، پھر ایک بڑے کام (بارش ) کی تقسیم کرنے والی ہیں (۲)، حق یہ ہے کہ جس چیز کا تمہیں خوف دلایا جا رہا ہے (۳) وہ سچی ہے اور جزائے اعمال ضرور پیش آنی ہے (۴)۔
قسم ہے متفرق شکلوں والے آسمان کی(۵)، (آخرت کے بارے میں) تمہاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے (۶)۔ اس سے وہی برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے (۷)۔  مارے گئے قیاس و گمان سے حکم لگانے والے (۸)، جو جہالت میں غرق اور غفلت میں مدہوش ہیں(۹)۔ پوچھتے ہیں آخر وہ روز جزاء کب آئے گا؟ وہ اس روز آئے گا جب یہ لوگ آگ پر تپائے جائیں گے (۱۰)۔ (ان سے کہا جائے گا) اب چکھو مزا اپنے فتنے گا(۱۱)۔ یہ وہی چیز ہے جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے (۱۲)۔ البتہ متقی لوگ (۱۳) اس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے، جو کچھ ان کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے (۱۴)۔ وہ اس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے، راتوں کو کم ہی سوتے تھے (۱۵)۔ پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے (۱۶)، اور ان کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے (۱۷)۔
زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین لانے والوں کے لیے (۱۸)، اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں(۱۹)۔ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟ آسمان ہی میں ہے تمہارا رزق بھی اور وہ چیز بھی جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے (۲۰)۔پس قسم ہے آسمان اور زمین کے مالک کی، یہ بات حق ہے، ایسی ہی یقینی جیسے تم بول رہے ہو۔ع

 

۱۔ اس امر پر تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ الذاریات سے مراد پراگندہ کرنے والی اور گردو غبار اڑانے والی ہوئیں ہیں، اور اَلْحٰمِلٰتِ وِقْراً، (بھاری بوجھ اٹھانے والیوں) سے مراد وہ ہوائیں ہیں جو سمندروں سے لاکھوں کروڑوں گیلن پانی کے بخارات بادلوں کی شکل میں اٹھا لیتی ہیں۔ یہی تفسیر حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور مجاہد، سعید بن جبیر، حسن بصری، قتادہ اور سدی وغیرہ حضرات سے منقول ہے۔

۲۔ الجَارِیَا تِ یُسْراً  اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً کی تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک گروہ نے اس بات کو ترجیح دی ہے، یا یہ مفہوم لینا جائز رکھا ہے کہ ان دونوں سے مراد بھی ہوائیں ہی ہیں، یعنی یہی ہوائیں پھر بادلوں کو لے کر چلتی ہیں اور پھر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل کر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، جہاں جتنا حکم ہوتا ہے، پانی تقسیم کرتی ہیں۔ دوسرے گروہ نے الجَارِیَاتِ یُسْراً سے مراد سبک رفتاری کے ساتھ چلنے والی کشتیاں لی ہیں اور المُقَسِّمٰتِ اَمْراً سے مراد وہ فرشتے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اس کی مخلوقات کے نصیب کی چیزیں ان میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک روایت کی تو سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں فقروں کا یہ مطلب بیان کر کے فرمایا کہ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نہ سنا ہوتا تو میں اسے بیان نہ کرتا۔ اسی بنا پر علامۂ آلوسی اس خیال کا اظہار کتے ہیں کہ اس کے سوا ان فقروں کا کوئی اور مطلب لینا جائز نہیں ہے اور جن لوگوں نے کوئی دوسرا مفہوم لیا ہے انہوں نے بے جا جسارت کی ہے۔ لیکن حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اس کی بنیاد پر قطعیت کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع حضورؐ ہی نے ان فقروں کی یہ تفسیر فرمائی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحابہ و تابعین کی ایک معتد بہ جماعت سے یہی دوسری تفسیر منقول ہے، لیکن مفسرین کی ایک اچھی خاصی جماعت نے پہلی تفسیر بھی بیان کی ہے اور سلسلہ کلام سے وہ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ شاہ رفیع الدین صاحب، شاہ عبدالقادر صاحب اور مولانا محمود الحسن صاحب جے بھی اپنے ترجموں میں پہلا مفہوم ہی لیا ہے۔

۳۔ اصل میں لفظ تُوْعَدُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ اگر  وَعْد سے ہو تو اس کا مطلب ہو گا ’’جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے ‘‘۔ اور وَعید سے ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس چیز کا تم کو ڈراوا دیا جا رہا ہے ‘‘۔ زبان کے لحاظ سے دونوں مطلب یکساں درست ہیں۔ لیکن موقع و محل کے ساتھ دوسرا مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے، کیونکہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو کفر و شرک اور فسق و فجور میں غرق تھے اور یہ بات ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کبھی ان کو محاسبے اور جزائے اعمال سے بھی سابقہ پیش آنے والا ہے۔ اسی لیے ہم نے تُوْعَدُوْنَ کو وعدے کے بجائے وعید کے معنی میں لیا ہے۔

۴۔ یہ ہے وہ بات جس پر قسم کھائی گئی ہے۔ اس قسم کا مطلب یہ ہے کہ جس بے نظیر نظم اور باقاعدگی کے ساتھ بارش کا یہ عظیم الشان ضابطہ تمہاری آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے، اور جو حکمت اور مصلحتیں اس میں صریح طور پر کار فرما نظر آتی ہیں، وہ اس بات پر گواہی دے رہی ہیں کہ یہ دنیا کوئی بے مقصد اور بے معنی گھروندا نہیں ہے جس لاگوں کروڑوں برس سے ایک بہت بڑا کھیل بس یوں ہی الل ٹپ ہوئے جا رہا ہو، بلکہ  یہ در حقیقت ایک کمال درجے کا حکیمانہ نظام ہے جس میں ہر کام کسی مقصد اور کسی مصلحت کے لیے ہو رہا ہے۔ اس نظام میں یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ یہاں انسان جیسی ایک مخلوق کو عقل، شعور، تمیز اور تصرف کے اختیارات سے کر، اس میں نیکی و بدی کی اخلاقی جس پیدا کر کے، او اسے ہر طرح کے اچھے اور برے، صحیح اور غلط کاموں کے مواقع دے کر، زمین میں تُرکتازیاں کرنے کے لیے محض فضول اور لایعنی طریقے سے چھوڑ دیا جائے، اور اس سے کبھی یہ باز پرس نہ ہو کہ دل و دماغ اور جسم کی جو قوتیں اس کی دی گئی تھیں، دنیا میں کام کرنے کے لیے جو وسیع ذرائع اس کے حوالے کیے گئے تھے، اور خدا کی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات اسے دیے گئے تھے،انکو اس نے کس طرح استعمال کیا۔ جس نظام کائنات میں سب کچھ با مقصد ہے، اس میں صرف انسان جیسی عظیم مخلوق کی تخلیق کیسے بے مقصد ہو سکتی ہے ! جس نظام میں ہر چیز مبنی بر حکمت ہے اس میں تنہا ایک انسان ہی کی تخلیق کیسے فضول اور عبث ہو سکتی ہے؟ مخلوقات کی جو اقسام عقل و شعور نہیں رکھتیں ان کی  تخلیق کی مصلحت تواسی عالم طبعی میں پوری ہو جاتی ہے۔ اس لیے اگر وہ اپنی مدت عمر ختم ہونے کے بعد ضائع کر دی جائیں تو یہ عین معقول بات ہے، کیونکہ انہیں کوئی اختیارات دیے ہی نہیں گئے ہیں  کہ ان سے محاسبے کا کوئی سوال پیدا ہو۔ مگر عقل و شعور اور اختیارات رکھنے والی مخلوق، جس کے افعال محض عالم طبیعت تک محدود نہیں ہیں بلکہ اخلاقی نوعیت بھی رکھتے ہیں، اور جس کے اخلاقی نتائج پیدا کرنے والے اعمال کا سلسلہ محض زندگی کی آخری ساعت تک ہی نہیں چلتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس پر اخلاقی نتائج مترتب ہوتے رہتے ہیں، اسے صرف اس کا طبعی کام ختم ہو جانے کے بعد نباتات و حیوانات کی طرح کیسے ضائع کیا جا سکتا ہے؟ اس نے تو اپنے اختیار و ارادہ سے جو نیکی یا بدی بھی کی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک  بمعنی و انصاف جزاء اس کو لازماً ملنی ہی چاہیے، کیونکہ یہ اس مصلحت کا بنیادی تقاضا ہے جس کے تحت دوسری مخلوقات کے برعکس اسکو ایک ذی اختیار مخلوق بنایا گیا ہے۔ اس سے محاسبہ نہ ہو، اس کے اخلاقی اعمال پر جزاء و سزانہ ہو، اور اس کو بھی بے اختیار مخلوقات کی طرح عمر طبعی ختم ہونے پر ضائع کر دیا جائے، تو لامحالہ اس کی تخلیق سراسر عبث ہو گی، اور ایک حکیم سے فعل عبث کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

اس کے علاوہ آخرت اور  جزاء و سزا کے وقوع پر ان چار مظاہر کائنات کی قسم کھانے کی ایک اور وجہہ بھی ہے۔ منکرین آخرت زندگی بعد موت کو جس بنا پر غیر ممکن سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم جب مر کر خاک میں رل مل جائیں گے اور ہمارا ذرہ ذرہ جب زمین میں منتشر ہو جائے گا تو کیسے ممکن ہے کہ سارے منتشر اجزائے جسم پھر اکٹھے ہو جائیں اور ہمیں دو بارہ بنا کر کھڑا کیا جائے۔ اس شبہ کی غلطی ان چاروں مظاہر کائنات پر غور کرنے سے خود بخود رفع ہو جاتی ہے جنہیں آخرت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ سورج کی شعاعیں روئے زمین کے ان تمام ذخائر آپ پر اثر انداز ہوتی ہیں جن گی ان کی حرارت پہنچتی ہے۔ اس عمل سے پانی کے بے حد و حساب قطرے اڑ جاتے ہیں اور اپنے مخزن میں باقی نہیں رہتے۔ مگر وہ فنا نہیں  ہو جاتے بلکہ بھاپ بنکر ایک ایک قطرہ ہوا میں محفوظ رہتا ہے۔ پھر جب خدا کا حکم ہوتا ہے تو یہ ہوا ان قطروں کی بھاپ کو سمیٹ لاتی ہے،اس کو کثیف بادلوں کی شکل میں جمع کرتی ہے، ان بادلوں کے لے کر روئے زمین کے مختلف حصوں میں پھیل جاتی ہے، اور خدا کی طرف سے جو وقت مقرر ہے ٹھیک اسی وقت ایک ایک قطرے کو اسی شکل میں جس میں وہ پہلے تھا، زمین پر واپس پہنچا دیتی ہے۔ یہ منظر جو آئے دن انسان کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے، اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ مرے ہوئے انسانوں کے اجزائے جسم بھی اللہ تعالیٰ کے ایک اشارے پر جمع ہو سکتے ہیں اور ان انسانوں کو اسی شکل میں پھر اُٹھا کھڑا کیا جا سکتا ہے جس میں وہ پہلے موجود تھے۔ یہ اجزا خواہ مٹی میں ہوں، یا پانی میں، یا ہوا میں، بہر حال رہتے اسی زمین اور اس کے ماحول ہی میں ہیں۔ جو خدا پانی کے بخارات کو ہوا میں منتشر ہو جانے کے بعد پھر اسی ہوا کے ذریعہ سے سمیٹ لاتا ہے اور انہیں پھر پانی کی شکل میں برسا دیتا ہے، اس کے لیے انسانی جسموں کے بکھرے ہوئے اجزاء کو ہوا، پانی اور مٹی میں سے سمیٹ لاتا اور پھر سابق شکلوں میں جمع کر دینا آخر کیوں مشکل ہو؟ 

۵۔ اصل میں لفظ ذاتِالْحُبُکِ استعمال ہوا ہے۔ حبُک راستوں کو بھی کہتے ہیں۔ ان لہروں کو بھی کہتے ہیں جو ہوا چلنے ریگستان کی ریت اور ٹھیرے ہوئے پانی میں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اور گھونگھر والے بالوں میں جو لٹیں سی بن جاتی ہیں ان کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ یہاں آسمان کو حُبک والا یا تو اس لحاظ سے فرمایا گیا ہے کہ آسمان پر اکثر طرح طرح کی شکلوں والے بادل چھائے رہتے ہیں جن میں ہوا کے اثر سے بار بار تغیر ہوتا ہے اور کبھی کوئی شکل نہ خود قائم رہتی ہے، نہ کسی دوسری شکل سے مشابہ ہوتی ہے۔ یا اس بنا پر فرمایا گیا ہے کہ رات کے وقت آسمان پر جب تارے بکھرے ہوتے ہیں تو آدمی دیکھتا ہے کہ ان کی بہت سے مختلف شکلیں ہیں اور کوئی شکل دوسری شکل سے نہیں ملتی۔

۶۔ اس اقوال پر متفرق شکلوں والے آسمان کی قسم تشبیہ کے طور پر کھائی گئی ہے۔ یعنی جس طرح آسمان کے بادلوں اور تاروں کے جھرمٹوں کی شکلیں مختلف ہیں اور ان میں کوئی مطابقت نہیں پائی جاتی اسی طرح آخرت کے متعلق تم لوگ بھانت  بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک بات دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دنیا ازلی و ابدی ہے اور کوئی قیامت برپا نہیں ہو سکتی۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہو سکتا ہے، مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہو گئی، پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے، مگر اس کے ساتھ تناسُخ کو بھی ملاتا رہتا ہے، یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گناہ گار جہنم میں بھی جا کر سزا بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی کہاتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے جب تک انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے، اور اس کی حقیقی نجات (نِروان) یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہو جائے۔ کوئی آخرت اور جنت و جہنم کا قائل ہے، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے، اور اس بیٹے پر ایمان لا کر آدمی اپنے اعمال بد کے برے نتائج سے بچ جائے گا۔ کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزا و سزا، ہر چیز کو مان کر بعض سیسے بزرگوں کو شفیع تجویز کر لیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں، یا اللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے جچ سکتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے،بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں۔ یہ اختلاف اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہے وحی و رسالت سے بے نیاز ہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے،علم کے بغیر قائم کی ہے۔ ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہ راست علم کا کوئی ذریعہ ہوتا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ ہوتے۔

۷۔ اصل الفاظ ہیں یُؤْفَکْ عَنْہُ مَنْاُفِکَ اس فقرے میں عَنْہُ کی ضمیر کے دو مرجع ہو سکتے ہیں۔ ایک جزائے اعمال۔ دوسرے قول مختلف۔پہلی صورت میں اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ’’ جزائے اعمال کو تو ضرور پیش آنا ہے، تم لوگ اس کے بارے میں طرح طرح کے مختلف عقیدے رکھتے ہو، مگر اس کو ماننے سے وہی شخص برگشتہ ہوتا ہے جو حق سے پھرا ہوا ہے۔’’ دوسرے صورت میں مطلب یہ ہے کہ ’’ ان مختلف اقوال سے وہی شخص گمراہ ہوتا ہے جو دراصل حق سے برگشیہ ہے ‘‘

۸۔ ان الفاظ میں قرآن مجید ایک اہم حقیقت پر انسان کو متنبہ کر رہی ہے۔ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی اندازہ کرنا یا تخمینہ لگانا، دنیوی زندگی کے چھوٹے چھوٹے  معاملات میں تو کسی حد تک چل سکتا ہے، اگر چہ علم کا قائم مقام پھر بھی نہیں ہو سکتا، لیکن اتنا بڑا بنیادی مسئلہ کہ ہم اپنی پوری زندگی کے اعمال کے لیے کسی کے سامنے ذمہ دار و جواب دہ ہیں یا نہیں، اور ہیں تو کس کے سامنے، کب اور کیا جوابدہی ہمیں کرنی ہو گی، اور اس جوابدہی میں کامیابی و ناکامی کے نتائج کیا ہوں گے، یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ اس کے متعلق آدمی محض اپنے قیاس و گمان کے مطابق ایک اندازہ قائم کر لے اور پھر اسی جوئے کے داؤں پر اپنا تمام سرمایہ حیات لگا دے۔ اس لیے کہ یہ اندازہ اگر غلط نکلے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آدمی نے اپنے کو بالکل تباہ و برباد کر لیا۔ مزید براں یہ مسئلہ سرے سے ان مسائل میں سے ہے ہی نہیں جن کے بارے میں آدمی محض قیاس اور ظن و تخمین سے کوئی صحیح رائے قائم کر سکتا ہو۔کیونکہ قیاس ان امور میں چل سکتا ہے جو انسان کے دائرہ محسوسات میں شامل ہوں، اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کا کائی پہلو بھی محسوسات کے دائرے میں نہیں آتا۔لہٰذا یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کے بارے میں کوئی قیاسی اندازہ صحیح ہو سکے۔ اب رہا یہ سوال کہ بھی آدمی کے لیے ان ماورائے حس و ادراک مسائل کے بارے میں رائے قائم کرنے کی صحیح صورت کیا ہے، تو اس کا جواب قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ دیا گیا ہے، اور خود اس سورہ سے بھی یہی جواب مترشح ہوتا ہے کہ(۱) انسان براہ راست خود حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، (۲) حقیقت کا علم اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی ذریعہ سے دیتا ہے، اور (۳) اس علم کی صحت کے متعلق آدمی اپنا اطمینان اس طریقہ سے کر سکتا ہے کہ زمین اور آسمان اور خود اس کے اپنے نفس میں جو بے شمار نشانیاں موجود ہیں ان پر غائر نگاہ ڈال کر دیکھے اور پھر بے لاگ طرز پر سوچے کہ یہ نشانیاں آیا اس حقیقت کی شہادت دے رہی ہیں جو نبی بیان کر رہا ہے، یا ان مختلف نظریات کی تائید کرتی ہیں جو دوسرے لوگوں نے اس کے بارے میں پیش کیے ہیں؟ خدا اور آخرت کے متعلق علمی تحقیق کا یہی ایک طریقہ ہے جو قرآن میں بتایا گیا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی اپنے قیاسی اندازوں پر چلا وہ مارا گیا۔

۹۔ یعنی انہیں کچھ پتہ نہیں ہے کہ اپنے ان غلط اندازوں کی وجہ سے وہ کس انجام کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ ان اندازوں کی بنا پر جو راستہ بھی کسی نے اختیار کیا ہے وہ سیدھا تباہی کی طرف جاتا ہے۔ جو شخص آخرت کا منکر ہے وہ سرے سے کسی جوابدہی کی تیاری ہی نہیں کر رہا ہے اور اس خیال میں مگن ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہو گی، حالانکہ اچانک وہ وقت آ جائے گا جب اس کی توقعات کے بالکل خلاف دوسری زندگی میں اس کی آنکھیں کھلیں گی، اور اسے معلوم ہو گا کہ یہاں اس کو اپنے ایک ایک عمل کی جواب دہی کرنی ہے۔ جو شخص اس خیال میں ساری عمر کھپا رہا ہے کہ مر کر پھر اسی دنیا میں واپس آؤں گا اسے مرتے معلوم ہو جائے گا کہ اس واپسی کے سارے دروازے بند ہیں، کسی نئے عمل سے پچھلی زندگی کے اعمال کی تلافی کا اب کوئی موقع نہیں،اور آگے ایک اور زندگی ہے جس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسے اپنی دنیوی زندگی کے نتائج دیکھنے اور بھگتنے ہیں۔ جو شخص اس امید میں اپنے آپ کو ہلاک کیے ڈالتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو جب پوری طرح مار دوں گا تو فنائے محض کی شکل میں مجھے عذاب ہستی سے نجات مل جائے گی، وہ موت کے دروازے سے گزرتے ہی دیکھ لے گا کہ آگے فنا نہیں بلکہ بقا ہے اور اسے اب اس امر کی جوابدہی کرنی ہے کہ کیا تجھے وجود کی نعمت اسی لیے دی گئی تھی کہ تو اسے بنانے اور سنوارنے کے بجائے مٹانے میں اپنی ساری محنتیں صرف کر دیتا؟ اسی طرح جو شخص کسی ابن اللہ کے کفارہ بن جانے یا کسی بزرگ ہستی کے شفیع بن جانے پر بھروسہ کر کے عمر پھر خدا کی نا فرمانیاں کرتا رہا اسے خدا کے سامنے پہنچتے ہی پتہ چل جائے گا کہ یہاں نہ کوئی کسی کا کفارہ ادا کرنے والا ہے اور نہ کسی میں یہ طاقت ہے کہ اپنے زور سے یا اپنی محبوبیت کے صدقے میں کسی کو خدا کی پکڑ سے بچا لے۔ پس یہ تمام قیاسی عقیدے در حقیقت ایک افیون ہیں جس کی پینگ میں یہ لوگ بے سدھ پڑے ہوئے ہیں اور انہیں کچھ خبر نہیں ہے کہ خدا اور نبیاء کے دیے ہوئے صحیح علم کو نظر انداز کر کے اپنی جس جہالت پر یہ مگن ہیں وہ انہیں کدھر لیے جا رہی ہے۔

۱۰۔ کفارہ کا یہ سوال کہ روز جزاء کب آئے گا، علم حاصل کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ طعن اور استہزاء کے طور پر تھا، اس لیے ان کو جواب اس اندازے سے دیا گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی شخص کو بد کرداریوں سے باز نہ آنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس سے کہیں کہ ایک روز ان حرکات کا را نتیجہ دیکھو گے، اور وہ اس پر ایک ٹھٹھا مار کر آپ سے پوچھے کہ حضرت، آخر وہ دن کب آئے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کا یہ سوال اس بُرے انجام کی تاریخ معلوم کرنے کے لیے نہیں بلکہ آپ کی نصیحتوں کا مذاق اڑانے کے لیے ہو گا۔ اس لیے اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ وہ اس روز آئے گا جب تمہاری شامت آئے گی۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ آخرت کے مسئلے پر اگر کوئی منکر آخرت سنجیدگی کے ساتھ بحث کر رہا ہو تو وہ اس کے موافق و مخالف دلائل پر تو بات کر سکتا ہے، مگر جب تک اس کا دماغ بالکل ہی خراب نہ ہو چکا ہو، یہ سوال وہ کبھی نہیں کر سکتا بتاؤ، وہ آخرت کس تاریخ کو آئے گی۔اس کی طرف سے یہ سوال جب بھی ہو گا طنز اور تمسخر کے طور پر ہی ہو گا۔ اس لیے کہ آخرت کے آنے کی تاریخ بیان کرنے اور نہ کرنے کا کوئی اثر بھی اصل بحث پر نہیں پڑتا۔ کوئی شخص نہ اس بنا پر آخرت کا انکار کرتا ہے کہ اس کی آمد کا سال، مہینہ اور دن نہیں بتایا گیا ہے، اور نہ یہ سن کر اس کی آمد کو مان سکتا ہے کہ وہ فلاں سال فلاں مہینے کی  فلاں تاریخ کو آئے گی۔ تاریخ کا تعین سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے کہ وہ کسی منکر کو اقرار پر آمادہ کر دے، کیونکہ اس کے بعد پھر یہ سوال پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ دن آنے سے پلے آخر کیسے یہ یقین کر لیا جائے کہ اس روز واقعی آخرت برپا ہو جائے گی۔

۱۱۔ فتنے کا لفظ یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ ایک معنی یہ ہیں کہ اپنے اس عذاب کا مزہ چکھو۔ دوسرے معنی یہ کہ اپنے اس فتنے کا مزہ چکھو جو تم نے دنیا میں بر پا کر رکھا تھا۔ عربی زبان میں اس لفظ کے ان دونوں مفہوموں کی یکساں گنجائش ہے۔

۱۲۔ کفار کا یہ پوچھنا کہ ’’آخر وہ روز جزا کب آئے گا‘‘ اپنے اندر خود یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اس کے آنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے؟ جب ہم اس کا انکار کر رہے ہیں اور اس کے جھٹلانے کی سزا ہمارے لیے لازم ہو چکی ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتا؟ اسی لیے جہنم کی آگ میں جب وہ تپ رہے ہوں گے اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ چیز جس کے لیے تم جلدی مچا رہے تھے۔ اس فقرے سے یہ مفہوم آپ سے آپ نکلتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ مہر بانی تھی کہ اس نے تم سے نافرمانی کا ظہور ہوتے ہی تمہیں  فوراً نہ پکڑ لیا اور سوچنے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے وہ تم کو ایک لمبی مہلت دیتا رہا۔ مگر تم ایسے احمق تھے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹا یہ مطالبہ کرتے رہے کہ یہ وقت تم پر جلدی لے آیا جائے۔ اب دیکھ لو کہ وہ کیا چیز تھی جس کے جلدی آ جا نے کا مطالبہ تم کر رہے تھے۔

۱۳۔ اس سیاق و سباق میں لفظ متقی صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی دی ہوئی خبر پر یقین لا کر آخرت کو مان لیا، اور وہ رویہ اختیار کر لیا جو حیات اخروی کی کامیابی کے لیے انہیں  بتایا گیا تھا، اور اس روش سے اجتناب کیا جس کے متعلق انہیں بتا دیا گیا تھا کہ یہ خدا کے عذاب میں مبتلا کرنے والی ہے۔

۱۴۔ اگر چہ اصل الفاظ ہیں اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبّھُُمْ، اور ان کا لفظی ترجمہ  صرف یہ ہے کہ ’’ لے رہے ہوں گے جو کچھ ان کے رب نے ان کو دیا ہو گا‘‘، لیکن موقع و محل کی مناسبت سے اس جگہ ’’لینے ‘‘ کا مطلب محض ’’لینا‘‘ نہیں بلکہ خوشی خوشی لینا ہے، جیسے کچھ لوگوں کو ایک سخی داتا مٹھیاں بھر بھر کر انعام دے رہا ہو اور وہ لپک لپک اسے لے رہے ہوں۔ جب کسی شخص کو اس کی پسند کی چیز دی جائے تو اس لینے میں آپ سے آپ بخوشی قبول کرنے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ اَلَمْ یَعْلَموٓا اَنَّ اللہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عَبَا دِہٖ سَیَأ خُذُ الصَّدَقَاتِ۔ (التوبہ۔۱۰۴)۔ ’’ کیا تم نہیں جانتے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے۔‘‘ اس جگہ صدقات لینے سے مراد محض ان کو وصول کرنا نہیں بلکہ پسندیدگی کے ساتھ ان کو قبول کرنا ہے۔

۱۵۔ مفسرین کے ایک گروہ  نے اس آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ وہ رات بھر سو کر گزار دیں اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ، کم یا زیادہ، ابتدائے شب میں یا وسط شب میں یا آخر شب میں، جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں صرف نہ کریں۔ یہ تفسیر تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرات ابن عباس، انس بن مالک، محمد الباقر، مطرف بن عبداللہ، ابولعالیہ، مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس وغیرہم سے منقول ہے۔ دوسرے گروہ نے اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ وہ اپنی راتوں کا زیادہ حصہ اللہ جل شانہ کی عبادت میں گزارتے تھے اور کم سوتے تھے۔ یہ قول حضرات حسن بصری، اَحنف بن قیس، اور ابن شِہاب زُہری کا ہے، اور بعد کے مفسرین و مترجمین نے اسی کو ترجیح دی ہے، کیونکہ آیت کے الفاظ اور موقع و محل کے لحاظ سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے۔ اسی لیے ہم نے ترجمے میں یہی معنی اختیار کیے ہیں۔

۱۶۔ یعنی وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اپنی راتیں فوق و فجور اور فواحش میں گزارتے رہے اور پھر بھی کسی استغفار کا خیال تک انہیں نہ آیا۔ اس کے برعکس ان کا حال یہ تھا کہ رات کا اچھا خاصا حصہ عبادت الٰہی میں صرف کر دیتے تھے اور پھر بھی پچھلے پہروں میں اپنے رب کے حضور معافی مانگتے تھے کہ آپ کی بندگی کا جو حق ہم پر تھا، اس کے ادا کرنے میں ہم سے تقصیر ہوئی۔ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ کے الفاظ میں ایک اشارہ اس بات کی طرف بھی نکلتا ہے کہ یہ پرسش انہی کو زیبا تھی۔ وہی اس شان عبودیت کے اہل تھے کہ اپنے رب کی بندگی میں جان بھی لڑائیں اور پھر اس پر پھولنے اور اپنی نیکی پر فخر کرنے کے بجائے گڑ گڑا کر اپنی کوتاہیوں کی معافی بھی مانگیں۔ یہ ان بے شرم گناہ گاروں کا رویہ نہ ہو سکتا تھا جو گناہ بھی کرتے تھے۔اور اوپر سے اکڑتے بھی تھے۔

۱۷۔ بالفاظِ دیگر، ایک طرف اپنے رب کا حق وہ اس طرح پہچانتے اور ادا کرتے تھے، دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا۔ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا، خواہ تھوڑا یا بہت، اس میں وہ صرف اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس بندہ خدا کا حق ہے جو ہماری مدد کا محتاج ہو۔ وہ بندوں کی مدد خیرات کے طور پر نہیں کرتے تھے کہ اس پر ان سے شکریہ کے طالب ہوتے اور ان کو اپنا زیر بار احسان ٹھیراتے، بلکہ وہ اسے ان کا حق سمجھتے تھے اور اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے تھے۔ پھر ان کی یہ خدمت خلق صرف انہی لوگوں تک محدود نہ تھی جو خود سائل بن کر ان کے پاس مدد مانگنے کے لیے آتے، بلکہ جس کے متعلق بھی ان کے علم میں یہ بات آ جاتی تھی کہ وہ اپنی روزی پانے سے محروم رہ گیا ہے اس کی مدد کے لیے وہ خود بے چین ہو جاتے تھے۔ کوئی یتیم بچہ جو بے سہارا رہ گیا ہو، کوئی بیوہ جس کا کوئی سر دھرا نہ ہو، کوئی معذور جو اپنی روی کے لیے ہاتھ پاؤں نہ مار سکتا ہو، کوئی شخص جس کا روز گار چھوٹ گیا ہو یا جس کی کمائی اس کی ضروریات کے لیے کافی نہ ہو رہی ہو، کوئی شخص جو کسی آفت کا شاکر ہو گیا ہو اور اپنے نقصان کی تلافی خود نہ کر سکتا ہو، غرض کوئی حاجت مند ایسا نہ تھا جس کی حالت ان کے علم میں آئی ہو اور وہ اس کی دستگیری کر سکتے ہوں، اور پھر بھی انہوں نے اس کا حق مان کر اس کی مدد کرنے سے دریغ کیا ہو۔

یہ تین صفات ہیں جن کی بنا پر اللہ تعالیٰ ان کو متقی اور محسن قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ انہی صفات نے ان کو جنت کا مستحق بنایا ہے۔ ایک یہ کہ آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے ہر اس روش سے پرہیز کیا جسے اللہ اور اس کے رسول نے اُخروی زندگی کے لیے تباہ کن بتایا تھا۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کا حق اپنی جان لڑا کر ادا کیا اور اس پر فخر کرنے کے بجائے استغفار ہی کرتے رہے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے اللہ کے بندوں کی خدمت ان پر احسان سمجھ کر نہیں بلکہ اپنا فرض اور ان کا حق سمجھ کر کی۔

اس مقام پر یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ اہل ایمان کے اموال میں سائل اور محروم کے جس حق  کا یہاں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد زکوٰۃ نہیں ہے جسے شرعاً ان پر فرض کر دیا گیا ہے، بلکہ یہ وہ حق ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کے بعد بھی ایک صاحب استطاعت مومن اپنے مال میں کود محسوس کرتا ہے اور اپنے دل کی رغبت سے اس کو ادا کرتا ہے بغیر اس کے کہ شریعت نے اسے لازم کیا ہو۔ ابن عباس، مجاہد اور زید بن اسلم وغیرہ بزرگوں نے اس آیت کا یہ مطلب بیان کیا ہے۔ در حقیقت اس ارشاد الٰہی کی اصل روح یہ ہے کہ ایک متقی و محسن انسان کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا کہ خدا اور اس کے بندوں کا جو حق میرے مال میں تھا، زکوٰۃ ادا کر کے میں اس سے بالکل سبکدوش ہو چکا ہوں، اب میں نے اس بات کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے لیا ہے کہ ہر ننگے، بھوکے، مصیبت زدہ آدمی کی مدد کرتا پھروں۔ اس کے بر عکس جو اللہ کا بندہ واقعی متقی و محسن ہوتا ہے وہ ہر وقت ہر اس بھلائی کے لیے جو اس کے بس میں ہو، دل و جان سے تیار رہتا ہے اور جو موقع بھی اسے دنیا میں کوئی نیک کام کرنے کے لیے ملے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ اس کے سوچنے کا یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ جو نیکی مجھ پر فرض کی گئی تھی وہ میں کر چکا ہوں، اب مزید نیکی کیوں کروں؟ نیکی کی قدر جو شخص پہچان چکا ہو وہ اسے بار سمجھ کر برداشت نہیں کرتا بلکہ اپنے ہی نفع کا سودا سمجھ کر زیادہ سے زیادہ کمانے کا حریص ہو اتا ہے۔

۱۸۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو آخرت کے امکان اور اس کے وجوب و لزوم کی شہادت دے رہی ہیں۔ زمین کا اپنا وجود اور اس کی ساخت، اس کا سورج سے ایک خاص فاصلے پر اور ایک خاص زاویے پر رکھا جانا، اس پر حرارت اور روشنی کا انتظام، اس پر مختلف موسموں کی آمد و رفت، اس کے اوپر ہوا اور پانی کی فراہمی، اس کے پیٹ میں طرح طرح کے بے شمار خزانوں کا مہیا کیا جانا، اس کی سطح پر ایک زر خیز چھلکا چڑھایا جانا، اس میں قسم قسم کی بے حد و حساب نباتات کا اگایا جانا، اس کے اندر خشکی اور تری اور ہوا کے جانوروں کی بے شمار نسلیں جاری کرنا، اس میں ہر نوع کی زندگی کے لیے مناسب حالات اور موزوں خوراک کا انتظام کرنا، اس پر انسان کو وجود میں لانے سے پہلے وہ تمام ذرائع و وسائل فراہم کر دینا جو تاریخ کے ہر مرحلے میں اس کی روز افزوں ضروریات ہی کا نہیں بلکہ اس کی تہذیب و تمدن کے ارتقاء کا ساتھ بھی دیتے چلے جائیں، یہ اور دوسری ان گنت نشانیاں ایسی ہیں کہ دیدۂ بینا رکھنے والا جس طرف بھی زمین اور اس کے ماحول میں نگاہ ڈالے وہ اس کا دامن دل کھینچ لیتی ہیں۔ جو شخص یقین کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہو اس کی بات تو دوسری ہے۔ وہ ان میں اور سب کچھ دیکھ لے گا، بس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے والی کوئی نشانی ہی نہ دیکھے گا۔ مگر جس کا دل تعصب سے پاک اور سچائی کے لیے کھلا ہوا ہے وہ ان چیزوں کو دیکھ کر ہر گز یہ تصور قائم نہ کرے گا کہ یہ سب کچھ کسی اتفاقی دھماکے کے کا نتیجہ ے جو کئی ارب سال پہلے کائنات میں اچانک برپا ہوا تھا، بلکہ اسے یقین آ جائے گا کہ یہ کمال درجے کی حکیمانہ صنعت ضرور ایک قادر مطلق اور دانا و بینا خدا کی تخلیق ہے، اور وہ خدا جس نے یہ زمین بنائی ہے نہ اس بات سے عاجز ہو سکتا ہے کہ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے، اور نہ ایسا نادان ہو سکتا ہے کہ اپنی زمین میں عقل و شعور رکھنے والی ایک مخلوق کو اختیارات دے کر بے نتھے بیل کی طرح چھوڑ دے۔ اختیارات کا دیا جانا آپ سے آپ محاسبے کا تقاضا کرتا ہے، جو اگر نہ ہو تو حکمت اور انصاف کے خلاف ہو گا۔ اور قدرت مطلقہ کا پایا جانا خود بخود اس بات کا ثبوت ہے کہ دنیا میں نوع انسانی کا کام ختم ہونے کے بعد اس کا خالق جب چاہے محاسبے کے لیے اس کے تمام افراد کو زمین کے ہر گوشے سے، جہاں بھی وہ مرے پڑے ہوں، اٹھا کر لا سکتا ہے۔

۱۹۔ یعنی باہر دیکھنے کی بھی حاجت نہیں، خود اپنے اندر دیکھو تو تمہیں اسی حقیقت پر گواہی دینے والی بے شمار نشانیاں مل جائیں گی۔ کس طرح ایک خورد بینی کیڑے اور ایسے ہی ایک خورد بینی انڈے کو ملا کر ماں کے ایک گوشۂ جسم میں تمہاری تخلیق کی بنا ڈالی گئی۔ کس طرح تمہیں اس تاریک گوشے میں پرورش کر کے بتدریج بڑھایا گیا۔ کس طرح تمہیں ایک بے نظیر ساخت کس جسم اور حیرت انگیز قوتوں سے مالا مال نفس عطا کیا گیا۔ کس طرح تمہاری بناوٹ کی تکمیل ہوتے ہی شکم مادر کی تنگ و تاریک دنیا سے نکال کر تمہیں اس وسیع و عریض دنیا میں اس شان کے ساتھ لایا گیا کہ ایک زبردست خود کار  مشین تمہارے اندر نصب ہے جو روز پیدائش سے جوانی اور بڑھاپے تک سانس لینے، غذا ہضم کرنے، خون بنانے اور رگ رگ میں اس کو دوڑانے، فضلات خارج کرنے، تحلیل شدہ اجزائے جسم کی جگہ دوسرے اجزاء تیار کرنے، اور اندر سے پیدا ہونے والی یا باہر سے آنے والی آفات کا مقابلہ کرنے اور نقصانات کی تلافی کرنے، حتیٰ کہ تھکاوٹ کے بعد تمہیں آرام کے لیے سلا دینے کا تک کا کام خود بخود کیے جاتی ہے بغیر اس کے کہ تمہاری توجہات اور کوششوں کا کوئی حصہ زندگی کی ان بنیادی ضروریات پر صرف ہو۔ ایک عجیب دماغ تمہارے کاسۂ سر میں رکھ دیا گیا ہے جس کی پیچیدہ تہوں میں عقل، فکر، تخیُّل، شعور، تمیز، ارادہ، حافظہ، خواہش، احساسات و جذبات، میلانات و رجحانات، اور دوسری ذہنی قوتوں کی ایک انمول دولت بھری پڑی ہے۔ بہت سے ذرائع علم تم کو دیے گئے ہیں جو آنکھ، ناک،کان اور پورے جسم کی کھال سے تم کو ہر نوعیت کی اطلاعات بہم پہنچاتے ہیں۔ زبان اور گویائی کی طاقت تم کو دے دی گئی ہے جس کے ذریعہ سے تم اپنے ما فی  الضمیر کا اظہار کر سکتے ہو۔ اور پھر تمہارے وجود کی اس پوری سلطنت پر تمہاری اَنا کو ایک رئیس بنا کر بٹھا دیا گیا ہے کہ ان تمام قوتوں سے کام لے کر رائیں قائم کرو اور یہ فیصلہ کرو کہ تمہیں کن راہوں میں اپنے اوقات،محنتوں اور کوششوں کو صرف کرنا ہے، کیا چیز رد کرنی ہے اور کیا قبول کرنی ہے، کس چیز کو اپنا مقصود بنانا ہے اور کس کو نہیں بنانا۔

یہ ہستی بنا کر جب تمہیں دنیا میں لایا گیا تو ذرا دیکھو کہ یہاں آتے ہی کتنا سرو سامان تمہاری پرورش، نشو نما، اور ترقی و تکمیل ذات کے لیے تیار تھا جس کی بدولت تم زندگی کے ایک خاص مرحلے پر پہنچ کر اپنے ان اختیارات کو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔

ان اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے زمین میں تم کو ذرائع دیے گئے۔ مواقع فراہم کیے گئے۔ بہت سی چیزوں پر تم کو تصرف کی طاقت دی گئی۔ بہت سے انسانوں کے ساتھ تم نے طرح طرح کے معاملات کیے۔ تمہارے سامنے کفر و ایمان، فسق و طاعت، ظلم و انصاف، نیکی و بدی، ح و باطل کی تمام راہیں کھلی ہوئی تھیں، اور ان راہوں میں سے ہر ایک کی طرف بلانے والے اور ہر ایک کی طرف لے جانے والے اسباب موجود تھے۔ تم میں سے جس نے جس راہ کو بھی انتخاب کی اپنی ذمہ داری پر گیا، کیوں کہ فیصلہ و انتخاب کی طاقت اس کے اندر ودیعت تھی۔ ہر ایک کے اپنے ہی انتخاب کے مطابق اس کی نیتوں اور ارادوں کو عمل میں لانے کے جو مواقع اس کو حاصل ہوئے ان سے فائدہ اٹھا کر کوئی بیک بنا اور کوئی بد، کسی نے ایمان کی راہ اختیار کی اور کسی نے کفر و شرک یا دہریت کی راہ لی، کسی نے اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکا اور کوئی بندگی نفس میں سب کچھ کر گزرا، کسی نے ظلم کیا اور کسی نے ظلم سہا، کسی نے حقوق ادا کیے اور کسی نے حقوق مارے، کسی نے مرتے دم تک دنیا میں بھلائی کی اور کوئی زندگی کی آخری ساعت تک بُرائیاں کرتا رہا، کسی نے حق کا بول بالا کرنے کے لیے جان لڑائی، اور کوئی باطل کو سر بلند کرنے کے لیے اہل حق پر دست درازیاں کرتا رہا۔

اب کیا کوئی شخص جس کی ھیے کی آنکھیں بالکل ہی پھوٹ نہ گئی ہوں، یہ کہہ سکتا ہے کہ اس طرح کی ایک ہستی زمین پر اتفاقاً وجود میں آ گئی ہے؟ کوئی حکمت اور کوئی منصوبہ اس کے پیچھے کار فرما نہیں ہے؟ زمین پر اس کے ہاتھوں یہ سارے ہنگامے جو بر پا ہو رہے ہیں سب بے مقصد ہیں اور بے نتیجہ ہی ختم ہو جانے والے ہیں؟ کسی بھلائی کا کوئی ثمرہ اور کسی بدی کا کوئی پھل نہیں؟ کسی ظلم کی کوئی داد اور کسی ظالم کی کوئی باز پرس نہیں؟ اس طرح کی باتیں ایک عقل کا اندھا تو کہ سکتا ہے، یا پھر وہ شخص کہہ سکتا ہے جو پہلے سے قسم کھائے بیٹھا ہے کہ تخلیق انسان کے پیچھے کسی حکیم کی حکمت کو نہیں ماننا ہے۔ مگر ایک غیر متعصب صاحب عقل آدمی یہ مانے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انسان کو جس طرح، جن قوتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اس دنیا میں پیدا کیا گیا ہے اور جو حیثیت اس کو یہاں دی گئی ہے وہ یقیناً ایک بہت بڑا حکیمانہ منصوبہ ہے، اور جس خدا کا یہ منصوبہ ہے اس کی حکمت لازماً یہ تقاضا کرتی ہے کہ انسان سے اس کے اعمال کی باز پرس ہو، اور اس کی قدرت کے بارے میں یہ گمان کرنا درست نہیں ہو سکتا کہ جس انسان کو وہ ایک خورد بینی خلیے سے شروع کر کے اس مرتبے تک پہنچا چکا ہے اسے پھر وجود میں نہ لا سکے گا۔

۲۰۔ آسمان سے مراد یہاں علام بالا ہے۔ رزق سے مراد وہ سب کچھ جو دنیا میں انسان کو جینے اور کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اور مَاتُوْعَدُوْنَ  سے مراد قیامت، حشر و نشر، محاسبہ و باز پرس، جزا و سزا، اور جنت و دوزخ ہیں جن کے رونما رہنے کا وعدہ تمام کتب آسمانی میں اور اس قرآن میں کیا جاتا رہا ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ عالم بالا ہی سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ تم میں سے کس کو کیا کچھ دنیا میں دیا جائے، اور وہیں سے یہ فیصلہ بھی ہونا ہے کہ تمہیں باز پرس اور جزائے اعمال کے لیے کب بلایا جائے۔

 

اے نبیؐ(۲۱)، ابراہیمؑ کے معزز مہمانوں کی حکایت بھی تمہیں پہنچی ہے (۲۲)؟ جب وہ اس کے ہاں آئے تو کہا آپ کو سلام ہے۔ اس نے کہا ’’ آپ لوگوں کو بھی سلام ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ ناآشنا سے لوگ ہیں(۲۳)‘‘۔ پھر وہ چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گیا(۲۴)، اور ایک موٹا تازہ بچھڑا (۲۵) لا کر مہمانوں کے آگے پیش کیا۔ اس نے کہا آپ حضرات کھاتے نہیں؟ پھر وہ اپنے دل میں ان سے ڈرا(۲۶)۔ انہوں نے کہا ڈریے نہیں، اور اسے ایک ذی علم لڑکے کی پیدائش کا مژدہ سنایا(۲۷)۔ یہ سن کر اس کی بیوی چیختی ہوئی آگے بڑھی اور اس نے اپنا منہ پیٹ لیا اور کہنے لگی،’’بوڑھی، بانجھ! (۲۸)‘‘ انہوں نے کہا ’’یہی کچھ فرمایا ہے تیرے رب نے، وہ حکیم ہے اور سب کچھ جانتا ہے۔‘‘(۲۹)
ابراہیم نے کہا ’’ اے فرسادگان الہٰی، کیا مہم آپ کو در پیش ہے (۳۰)؟ انہوں نے کہا’’ ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں (۳۱) تاکہ اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسا دیں جو آپ کے رب کے ہاں حد  سے گزر جانے والوں کے لیے نشان زدہ ہیں ‘‘(۳۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر (۳۳) ہم نے ان سب لوگوں کو نکال لیا جو ابستی میں مومن تھے، اور وہاں ہم نے ایک گھر کے سوا مسلمانوں کا کوئی گھر نہ پایا(۳۴)۔ اس کے بعد ہم نے وہاں نس ایک نشانی ان لوگوں کے لیے چھوڑ دی جو درد ناک عذاب سے ڈرتے ہوں(۳۵)۔
اور )تمہارے لیے نشانی ہے ) موسیٰ کے قصے میں۔ جب ہم نے اسے صریح سند کے ساتھ فرعون کے پاس بھیجا(۳۶) تو وہ اپنے بل بوتے پر اکڑ گیا اور بولا یہ جادوگر ہے یا مجنوں ہے (۳۷)۔ آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سب کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ ملامت زدہ ہو کر رہ گیا (۳۸)۔
اور (تمہارے لیے نشانی ہے ) عاد میں، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا بھیج دی کہ سن چیز پر بھی وہ گزر گئی اسے بوسیدہ کر کے رکھ دیا(۳۹)۔
اور (تمہارے لیے نشانی ہے )ثمود میں، جب ان سے کہا گیا تھا کہ ایک خاص وقت تک مزے کر لو(۴۰) مگر اس تنبیہ پر بھی انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی۔ آخر کار ان کے دیکھتے دیکھتے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب (۴۱) نے  ان کو آ لیا۔ پھر نہ ان میں اٹھنے کی سکت تھی اور نہ وہ اپنا بچاؤ کر سکتے تھے (۴۲)۔  اور ان سب سے پہلے ہم نے نوحؑ کی قوم کو ہلاک کیا کیونکہ وہ فاسق لوگ تھے۔ع

 

۲۲۔ یہ قصہ قرآن مجید میں تین مقامات پر پلے گزر چکا ہے۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۳۵۳ تا ۳۵۵، ۵۰۹ تا ۵۱۱۔ جلد سوم، ص ۶۹۶۔

۲۳۔ سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود ان مہمانوں سے فرمایا کہ آپ حضرات سے کبھی پہلے شرف نیاز حاصل نہیں ہوا، آپ شاید اس علاقے میں نئے نئے تشریف لائے ہیں۔دوسرے یہ کہ ان کے سلام کا جواب دے کر حضرت ابراہیم نے اپنے دل میں کہا، یا گھر میں ضیافت کا انتظام کرنے کے لیے جاتے ہوئے اپنے خادموں سے فرمایا کہ یہ کچھ اجنبی سے لوگ ہیں، پہلے کبھی اس علاقے میں اس شان اور وضع قطع کے لوگ دیکھنے میں نہیں آئے۔

۲۴۔ یعنی اپنے مہمانوں سے یہ نہیں کہا کہ میں آپ کے لیے کھانے کا انتظام کرتا ہوں بلکہ انہیں بٹھا کر خاموشی سے ضیافت کا انتظام کرنے چلے گئے، تاکہ مہمان تکلفاً یہ نہ کہیں کہ اس تکلیف کی کیا حاجت ہے۔

۲۵۔ سورہ ہود میں عِجْلٍ حَنِیْذٍ (بھنے ہوئے بچھڑے ) کے الفاظ ہیں۔ یہاں بتایا گیا کہ آپ نے خوب چھانٹ کر موٹا تازہ بچھڑا بھنوایا تھا۔

۲۶۔ یعنی جب ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہ بڑھے تو حضرت ابراہیمؑ کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ اس خوف کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اجنبی مسافروں کا کسی کے گھر جا کر کھانے سے پرہیز کرنا، قبائلی زندگی میں اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ہو کسی برے ارادے سے آئے ہیں۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ ان کے اس اجتناب ہی سے حضرت ابراہیم سمجھ گئے کہ یہ فرشتے ہیں جو انسانی صورت میں آئے ہیں، اور چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا بڑے  غیر معمولی حالات میں ہوتا ہے اس لیے آپ کو خوف لا حق ہوا کہ کوئی خوفناک معاملہ در پیش ہے جس کے لیے یہ حضرات اس شان سے تشریف لائے ہیں۔

۲۷۔ سورہ ہود میں تصریح ہے کہ یہ حضرت اسحاق سے ان کو حضرت یعقوب علیہ السلام جیسا پوتا نصیب ہو گا۔

۲۸۔ یعنی ایک تو میں بوڑھی، اوپر سے بانجھ۔ اب میرے ہاں بچہ ہو گا؟ بائیبل کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر سو سال، اور حضرت سارہ کی عمر ۹۰ سل تھی (پیدائش،۱۸:۱۷ )۔

۲۹۔ اس قصے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جس بندے نے اپنے رب کی بندگی کا حق دنیا میں ٹھیک ٹھیک ادا کیا تھا، اس کے ساتھ عقبیٰ میں تو جو معاملہ ہو گا سو ہو گا، اسی دنیا میں اس کے یہ انعام دیا گیا کہ عام قوانین طبیعت کی رو سے جس عمر میں اس کے ہاں اولاد پیدا نہ ہو سکتی تھی، او ر اسے کی سن رسیدہ بیوی تمام عمر بے اولاد رہ کر اس طرف سے قطعی مایوس ہو چکی تھی، اس وقت اللہ نے اسے نہ صرف اولاد دی بلکہ ایسی بے نظیر اولاد دی و آج تک کسی کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ دنیا میں کوئی دوسرا انسان ایسا نہیں ہے جس کی نسل میں مسلسل چار انبیاء پیدا ہوئے ہوں۔ وہ صرف حضرت ابراہیم ہی تھے جن کے ہاں تین پشت تک نبوت چلتی رہی اور حضرت اسماعیل، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبی ان کے گھرانے سے اٹھے۔

۳۰۔ چونکہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا کسی بڑے اہم کام کے لیے ہوتا ہے، اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی آمد کا مقصد پوچھنے کے لیے خطب کا لفظ استعمال فرمایا۔ خَطْب عربی زبان میں کسی معمولی کام کے لیے نہیں بلکہ کسی امر عظیم کے لیے بولا جاتا ہے۔

۳۱۔ مراد ہے قوم لوط۔ اس کے جرائم اس قدر بڑھ چکے تھے کہ صرف ’’مجرم قوم‘‘ کا لفظ ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ اس سے مراد کون سی قوم ہے۔ اس سے پہلے قرآن مجید میں حسب ذیل مقامات پر اس کا ذکر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۵۱ تا ۵۳۔ ۳۵۵ تا ۳۵۹۔ ۵۱۰ تا ۵۱۵۔ جلد سوم، ص، ۱۷۰۔ ۵۲۶ تا ۵۳۰۔ ۵۸۶۔ ۵۸۷۔۵۹۴ تا ۵۹۸۔ جلد چہارم، الصافات، ص ۳۰۶۔

۳۲۔ یعنی ایک ایک پتھر پر آپ کے رب کی طرف سے نشان لگا دیا گیا ہے کہ اسے کس مجرم کی سرکوبی کرنی ہے۔ سورہ ہود اور الحجر میں اس عذاب کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ ان کی بستیوں کو تلپٹ کر دیا گیا اور اوپر سے پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے گئے۔ اس سے یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ شدید زلزلے کے اثر  سے پورا علاقہ الٹ دیا گیا، اور جو لوگ زلزلے سے بچ کر بھاگے ان کو آتش فشاں مادے کے پتھروں کی بارش نے ختم کر دیا۔

۳۳۔ بیچ میں یہ قصہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے یہ فرشتے کس طرح حضرت لوط کے ہاں پہنچے اور وہاں ان کے اور قوم لوط کے درمیان کیا کچھ پیش آیا۔ یہ تفصیلات سورہ ہود، الحجر اور العنکبوت میں گزر چکی ہیں۔ یہاں صرف اس آخری وقت کا ذکر کیا جا رہا ہے جب اس قوم پر عذاب نازل ہونے والا تھا۔

۳۴۔ یعنی پوری قوم میں، اور اس کے پورے علاقے میں صرف ایک گھر تھا جس میں ایمان و اسلام کی روشنی پائی جاتی تھی، اور وہ تنہا حضرت لوط علیہ السلام کا گھر تھا۔ باقی پوری قوم فسق و فجور میں ڈوبی ہوئی تھی، اور اس کا سارا ملک گندگی سے لبریز ہو چکا تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس ایک گھر کے لوگوں کو بچا کر نکال لیا اور اس کے بعد اس ملک پر وہ تباہی نازل کی جس سے اس بد کار قوم کا کوئی فرد بچ کر نہ جا سکا۔

اس آیت میں تین اہم مضامین بیان ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا قانون مکافات اس وقت تک کسی قوم کی کامل تباہی کا فیصلہ نہیں کرتا جب تک اس میں کچھ قابل لحاظ بھلائی موجود رہے۔ برے لوگوں کی اکثریت کے مقابلے میں اگر ایک قلیل عنصر بھی ایسا پایا جاتا ہو جو بدی کو روکنے اور نیکی کے راستے کی طرف بلانے کے لیے کوشاں ہو تو اللہ تعالیٰ اسے کام کرنے کا موقع دیتا ہے اور اس قوم کی مہلت میں اضافہ کرتا رہتا ہے جو ابھی خیر سے بالکل خالی نہیں ہوئی ہے۔ مگر جب حالت یہ ہو جائے کہ کسی قوم کے اندر آٹے میں نمک کے برابر بھی خیر باقی نہ رہے تو ایسی صورت میں اللہ کا قانون یہ ہے کہ جو دو چار نیک انسان اسکی بستیوں میں بُرائی کے خلاف لڑتے لڑتے تھک کر عاجز آ چکے ہوں انہیں وہ اپنی قدرت سے کسی نہ کسی طرح بچا کر نکال دیتا ہے اور باقی لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ کرتا ہے جو ہر ہوش مند مالک اپنے سڑے ہوئے پھلوں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔

دوسرے یہ کہ ’’مسلمان‘‘ صرف اسی امت کا نام نہیں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیرو ہے، بلکہ آپ سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کے پیرو بھی مسلمان ہی تھے۔ ان کے ادیان الگ الگ نہ تھی کہ کوئی دین ابراہیمی ہو اور کوئی موسوی اور کوئی عیسوی۔ بلکہ وہ سب مسلم تھے اور ان کا دین یہی اسلام تھا۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت جگہ جگہ اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش نہیں ہے مثال کے طور پر حسب ذیل آیات ملاحظہ ہوں: البقرہ، ۱۲۸، ۱۳۱،۱۳۳،۔ آل عمران، ۶۷۔ المائدہ،۴۴،۱۱۱۔ یونس، ۷۲،۸۴،۔یوسف، ۱۰۱۔الاعراف، ۱۲۸۔ انمل ۳۱،۴۲،۴۴۔

تیسرے یہ کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے الفاظ اس آیت میں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ اس آیت کو اگر سورہ حجرات کی آیت ۱۴ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو ان لوگوں کے خیال کی غلطی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ’’مومن‘‘ اور ’’مسلم‘‘ قرآن مجید کی دو ایسی مستقل اصطلاحیں ہیں جو ہر جگہ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوئی ہیں اور ’’مسلم‘‘ لازماً اُسی شخص کو کہتے ہیں جو ایمان کے بغیر محض بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ حجرات، حاشیہ ۷۳۱۔

۳۵۔ اس نشانی سے مراد بحیرۂ مُردار(Dead Sea) ہے جس کا جنوبی علاقہ آج بھی ایک عظیم الشان تباہی کے آثار پیش کر رہا ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کا اندازہ ہے کہ قوم لوط کے بڑے شہر غالباً شدید زلزلے سے زمین کے اندر دھنس گئے تھے اور ان کے اوپر بحیرۂ مُردار کا پانی پھیل گیا تھا، کیونکہ اس بحیرے کا وہ حصہ جو ’’للِّسان‘‘ نامی چھوٹے سے جزیرہ نما کے جنوب میں واقع ہے، صاف طور پر بعد کی پیداوار معلوم ہوتا ہے اور قدیم بحیرۂ مُردار کے جو آثار اس جزیرہ نما کے شمال تک نظر آتے ہیں وہ جنوب میں پائے جانے والے آثار سے بہت مختلف ہیں۔ اس سے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ جنوب کا حصہ پہلے اس بحیرے کی سطح سے بلند تھا، بعد میں کسی وقت دھنس کر اس کے نیچے چلا گیا۔ اس کے دھنسنے کا زمانہ بھی دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ معلوم ہوتا ہے، اور یہی تاریخی طور پر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط کا زمانہ ہے۔ ۱۹۶۵ ء میں آثار قدیمہ کی تلاش کرنے والی ایک امریکی جماعت کو للسان پر ایک بہت بڑا قبرستان ملا ہے جس میں ۲۰ ہزار سے زیادہ قبریں ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قریب میں کوئی بڑا شہر ضرور آباد ہو گا۔ مگر کسی ایسے شہر کے آثار آس پاس کہیں موجود نہیں ہیں جس سے متصل اتنا بڑا قبرستان بن سکتا ہو۔ اس سے بھی یہ شبہ تقویت پاتا ہے کہ جس شہر کا یہ قبرستان تھا وہ بحیرے میں غرق ہو چکا ہے۔ بحیرے کے جنوب میں جو علاقہ ہے اس میں اب بھی ہر طرف تباہی کے آثار موجود ہیں اور زمین میں گندھک، رال، کول تار اور قدرتی گیس کے اتنے ذخائر پائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ کسی وقت بجلیوں کے گرنے سے یا زلزلے کا لاوا نکلنے سے یہاں ایک جہنم پھٹ پڑی ہو گی (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الشعراء، حاشیہ ۱۱۴)۔

۳۶۔ یعنی ایسے صریح معجزات اور ایسی کھلی کھلی علامات کے ساتھ بھیجا جن سے یہ امر مشتبہ نہ رہا تھا کہ آپ خالق ارض و سما کی طرف سے مامور ہو کر  آئے ہیں۔

۳۷۔ یعنی کبھی اس نے آپؑ کو ساحر قرار دیا، اور کبھی کہا کہ یہ شخص مجنون ہے۔

۳۸۔ اس چھوٹے سے فقرے میں تاریخ کی ایک پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ذرا چشم تصور کے سامنے یہ نقشہ لے آئیے کہ فرعون اس وقت دنیا کے سب سے بڑے مرکز تہزیب و تمدن کا عظیم فرما نروا تھا جس کی شوکت و سطوت سے گرد و پیش کی ساری قومیں خوف زدہ تھیں۔ ظاہر بات ہے کہ وہ جب اپنے لشکروں سمیت اچانک ایک روز غرقاب ہوا ہو گا تو صرف مصر ہی میں نہیں، آس پاس کی تمام قوموں میں اس واقعہ کی دھوم مچ گئی ہو گی۔ مگر اس پر بجز ان لوگوں کے جن کے اپنے قریبی رشتہ دار غرق ہوئے تھے، باقی کوئی نہ تھا جوان کے اپنے ملک میں، یا دنیا کی دوسری قوموں میں ماتم کرتا یا ان کا مثیہ کہتا، یا کم از کم یہی کہنے والا ہوتا کہ افسوس، کیسے اچھے لوگ تھے جو اس حادثہ کے شکار ہو گئے۔ اس کے بجائے، چونکہ دنیا ان کے ظلم سے تنگ آئی ہوئی تھی، اس لیے ان کے عبرتناک انجام پر ہو شخص نے اطمینان کا سانس لیا، ہر زبان نے ان پر ملامت کی پھٹکار برسائی، اور جس نے بھی اس خبر کو سنا وہ پکار اٹھا کہ یہ ظالم اسی انجام کے مستحق تھے۔ سورہ دخان میں اسی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآءُ وَا لْاَرْضُ، ’’پھر نہ آسمان ان پر رویا نہ زمین ‘‘۔(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ دخان، حاشیہ ۲۵ )۔

۳۹۔ اس ہوا کے لیے لفظ عقیم استعمال ہوا ہے جو بانجھ عورت کے لیے بولا جاتا ہے، اور لغت میں اس کے اصل معنی یا بِس (خشک) کے ہیں۔ اگر اسے لغوی معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ لوگا یہ وہ ایسی سخت گرم و خشک ہو تھی کہ جس چیز پر سے وہ گزر گئی اسے سکھا کر رکھ دیا۔ اور اگر اسے محاورے کے مفہوم میں لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ بانجھ عورت کی طرح وہ ایسی ہوا تھی جو اپنے اندر کوئی نفع نہ رکھتی تھی۔ نہ خوشگوار تھی، نہ بارش لانے والی، نہ درختوں کو بار آور کرنے والی، اور نہ ان فائدوں میں سے کوئی فائدہ اس میں تھا جن کے لیے ہوا کا چلنا مطلوب ہوتا ہے۔ دوسرے مقامات پر بتایا گیا ہے کہ یہ صرف بے خیر اور خشک ہی نہ تھی بلکہ نہایت شدید آندھی کی شکل میں آئی تھی جس نے لوگوں کو اٹھا اٹھا کر پٹخ دیا، اور یہ مسلسل آٹھ دن اور سات راتوں تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قوم عاد کے پورے علاقے کو اس نے تہس نہس کر کے رکھ دیا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ حٰم السجدہ، حواشی نمبر ۲۰۔۲۱۔ الاحقاف، حواشی نمبر ۲۵ تا ۲۸)۔

۴۰۔ مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہے کہ اس سے مراد کون سی مہلت ہے۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ یہ اشارہ سورہ ہود کی اس آیت کی طرف ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ ثمود کے لوگوں نے جب حضرت صالح کی اونٹنی کو ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو خردار کر دیا گیا کہ تین دن تک مزے کر لو، اس کے بعد تم پر عذاب آ جائے گا۔ بخلاف اس کے حضرت حسن بصری کا خیال ہے کہ یہ بات حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی دعوت کے آغاز میں اپنی قوم سے فرمائی تھی اور اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم توبہ و ایمان کی راہ اختیار نہ کرو گے تو ایک خاص وقت تک ہی تم کو دنیا میں عیش کرنے کی مہلت نصیب ہو سکے گی اور اس کے بعد تمہاری شامت آ جائے گی۔ ان دونوں تفسیروں میں سے دوسری تفسیر ہی زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے، کیونکہ بعد کی آیت فَعَتَوْ ا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ (پھر انہوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتابی کی)یہ بتاتی ہے کہ جس مہلت کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے وہ سرتابی سے پہلے دی گئی تھی اور انہوں نے سرتابی اس تنبیہ کے بعد کی۔اس کے برعکس سورہ ہود والی آیت میں تین دن کی جس مہلت کا ذکر کیا گیا ہے وہ ان ظالموں کی طرف سے آخری اور فیصلہ کن سرتابی کا ارتکاب ہو جانے کے بعد دی گئی تھی۔

۴۱۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اس عذاب کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ کہیں اسے رَجْرہ (دہلا دینے والی اور ہلا مارنے والی آفت) کہا گیا ہے۔ کہیں اس کی صیحہ (دھماکے اور کڑکے ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔کہیں اس کے لیے طاغیہ (انتہائی شدید آفت) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اور یہاں اسی کو صاعقہ کہا گیا ہے جس کے معنی بجلی کی طرح اچانک ٹوٹ پڑنے والی آفت کے بھی ہیں اور سخت کڑک کے بھی۔ غالباً یہ عذاب ایک ایسے زلزلے کی شکل میں آیا تھا جس کے ساتھ خوفناک آواز بھی تھی۔

۴۲۔ اصل الفاظ ہیں مَاکَا نُوْا مُنْتَصِرِیْنَ۔ انتصار کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک معنی ہیں اپنے آپ کو کسی کے حملہ سے بچانا۔ اور دوسرے معنی ہیں حملہ کرنے والے سے بدلہ لینا۔

 

(۴۳) آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنا یا ہے اور ہم اس کی قدرت رکھتے ہیں(۴۴)۔ زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں (۴۵)۔ اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں(۴۶) شاید کہ تم اس سے سبق لو(۴۷)۔ پو دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبر دار کرنے والا ہوں۔ اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود، میں تمہارے لیے اس کی طرف سے صاف صاف خبردار کرنے والا ہوں(۴۸)
یونہی ہوتا رہا ہے، ان سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ ساحر ہے یا مجنون(۴۹)۔ کیا نا سب نے آپس میں اس پر کوئی سمجھوتہ کر لیا ہے۔؟ نہیں، بکہ ی سب سرکش لوگ ہیں(۵۰)۔ پس اے نبیؐ، ان سے رخ پھیر لو،تم پر کچھ ملامت نہیں (۵۱)۔ البتہ نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع(۵۲)۔
میں نے جِن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں(۵۳)۔ میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور ہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں (۵۴)۔ اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست(۵۵)۔ پس جن لوگوں نے ظلم کیا ہے (۵۶) ان کے حصہ کا بھی ویسا ہی عذاب تیار ہے۔ جیسا انہی جسے لوگوں کو ان کے حصے کامل چکا ہے، اس کے لیے یہ لوگ جلدی نہ مچائیں۔ آخر کو تباہی ہے کفر کرنے والوں کے لیے اس روز جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے۔ع

 

۴۳۔ آخرت کے حق میں تاریخی دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر اسی کے ثبوت میں آفاقی دلائل پیش کیے جا رہے ہیں۔

۴۴۔ اصل الفاظ ہیں وَاِنَّا لَمُوْ سِعُوْنَ۔ موسع کے معنی طاقت و مقدرت رکھنے والے کے بھی ہو سکتے ہیں اور وسیع کرنے والے کے بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ آسمان ہم نے کسی کی مدد سے نہیں بلکہ اپنے زور سے بنایا ہے اور اس کی تخلیق ہماری مقدرت سے باہر نہ تھی۔ پھر یہ تصور تم لوگوں کے دماغ میں آخر کیسے آ گیا کہ ہم تمہیں دو بارہ پیدا نہ کر سیکیں گے؟ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس عظیم کائنات کو ہم بس ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کر رہے ہیں اور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ ایسی زبردست خلاق ہستی کو آخر تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوں سمجھ رکھا ہے؟

۴۵۔ اس کی تشریح حاشیہ ۱۸ میں گزر چکی ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النمل، حاشیہ ۷۴۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ یٰس،حاشیہ ۲۹۔ الزخْرف، حواشی ۷ تا ۱۰۔

۴۶۔ یعنی دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول کے اصول پر بنائی گئی ہیں۔ یہ سارا کارخانہ علام اس قاعدے پر چل رہا ہے کہ بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے جوڑا لگتا ہے اور پھر ان کا جوڑ لگنے ہی سے طرح طرح کی ترکیبات وجود میں آتی ہیں۔ یہاں کوئی شے بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو، بلکہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ (مزید تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ ۳۱۔ الزخرف، حاشیہ ۱۲)۔

۴۷۔ مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کا تزویج کے اصول پر بنا یا جانا، اور دنیا کی تمام اشیاء کا زَوج زَوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے۔ اگر تم غور کرو تو اس سے خود تمہاری عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز کا ایک جوڑا ہے، اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی، تو دنیا کی یہ زندی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے؟ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے۔ وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔

آگے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگر چہ یہاں تک ساری بحث آخرت کے موضوع پر چلی آ رہی ہے، لیکن اسی بحث اور انہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود، کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کار فرمائی، یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ ایک خدائے حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے۔ اس لیے آگے انہی دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت پیش کی جا رہی ہے۔ علاوہ بریں آخرت کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا سے بغاوت کا رویہ چھوڑ کر اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے۔ وہ خدا سے اسی وقت تک پِھرا رہتا ہے جب گی ہو اس غفلت میں مبتلا رہتا ہے کہ میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال کا کوئی حساب مجھے کسی کو دینا نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی جس وقت بھی رفع ہو جائے، اس کے ساتھ ہی فوراً آدمی کے ضمیر میں یہ احساس ابھر آتا ہے کہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر وہ بڑی باری غلطی کر رہا تھا اور یہ احساس اسے خدا کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔اسی بنا پر آخرت کے دلائل ختم کرتے ہی معاً بعد یہ فرمایا گیا ’’پس دوڑو اللہ کی طرف‘‘۔

۴۸۔ یہ فقرے اگرچہ اللہ ہی کا کلام ہیں مگر ان میں متکلم اللہ تعالیٰ نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ گویا بات در اصل یوں ہے کہ اللہ اپنے نبی کی زبان سے کہلوا رہا ہے کہ دوڑو اللہ کی طرف، میں تمہیں اس کی طرف سے خبردار کرتا ہوں۔ اس طرز کلام کی مثال قرآن کی اولین سورۃ، یعنی سورہ فاتحہ میں موجود جس میں کلام تو اللہ تعالیٰ ہی کا ہے مگر متکلم کی حیثیت سے بندے عرض کرتے ہیں: اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّا کَ نَسْتَعِیْنُ، اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ جس طرح وہاں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ ’’ اے اہل ایمان تم اپنے رب سے یوں دعا مانگو‘‘، مگر فَحوائے کلام سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ ایک دعا ہے جو اللہ اپنے بندوں کو سکھا رہا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ ’’ اے نبی تم ان لوگوں سے کہو‘‘، مگر فحوائے کلام خود بتا رہا ہے کہ یہ توحید کی ایک دعوت ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ سورہ فاتحہ کے علاوہ اس طرز کلام کی اور بھی متعدد نظیریں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں کلام تو اللہ ہی کا ہوتا ہے مگر متکلم کہیں فرشتے ہوتے ہیں اور کہیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم،اور اس امر کی تصریح کے بغیر کہ یہاں متکلم کون ہے، سیاق عبارت سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ اپنا یہ کلام کس کی زبان سے ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ مریم ۶۴۔ ۶۵۔ الصافات ۱۵۹ تا ۱۶۷۔ الشوریٰ ۱۰۔

۴۹۔ یعنی آج پہلی مرتبہ ہی یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کی زبان سے آخرت کی خبر اور توحید کی دعوت سن کر لوگ اسے ساحر اور مجنون کہہ رہے ہیں۔ رسالت کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ جب سے نوع انسانی کی ہدایت کے لیے رسول آنے شروع ہوئے ہیں، آج تک جاہل لوگ اسی ایک حماقت کا پوری یکسانی کے ساتھ اعادہ کیے چلے جا رہے ہیں۔ جس رسول نے بھی آ کر خبر دار کیا کہ تم بہت سے خداؤں کے بندے نہیں ہو بلکہ صرف ایک ہی خدا تمہارا خالق و معبود اور تمہاری قسمتوں کا مالک و مختار ہے، جاہلوں نے شور مچا دیا کہ یہ جادوگر ہے جو اپنے افسوں سے ہماری عقلوں کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ جس رسول نے بھی آ کر خبر دار کیا کہ تم غیر ذمہ دار بنا کر دنیا میں نہیں چھوڑ دیے گئے ہو بلکہ اپنا کارنامۂ حیات ختم کرنے کے بعد تمہیں اپنے خالق و مالک کے سامنے حاضر ہو کر اپنا حساب دینا ہے اور اس حساب کے نتیجہ میں اپنے اعمال کی جزا و سزا پائی ہے، نادان لوگ چیخ اٹھے کہ یہ پاگل ہے، اس کی عقل ماری گئی ہے، بھلا مرنے کے بعد ہم کہیں دوبارہ بھی زندہ ہو سکتے ہیں؟

۵۰۔ یعنی یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہزارہا برس تک ہر زمانے میں مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگوں کا دعوت انبیاء کے مقابلے میں ایک ہی رویہ اختیار کرنا، اور ایک ہی طرح کی باتیں ان کے خلاف بنانا کچھ اس بنا پر تو نہ ہو سکتا تھا کہ ایک کانفرنس کر کے ان سب اگلی اور پچھلی نسلوں نے آپس میں یہ طے کر لیا ہو کہ جب کوئی نبی آ کر یہ دعوت پیش کرے تو اس کا یہ جواب دیا جائے۔ پھر ان کے رویے کی یہ یکسانی اور ایک ہی طرز جواب کی یہ مسلسل تکرار کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ طغیان و سرکشی ان سب کا مشترک وصف ہے۔ چونکہ ہر زمانے کے جاہل لوگ خدا کی بندگی سے آزاد اور اس کے محاسبہ سے بے خوف ہو کر دنیا میں شُتر بے مہار کی طرح جینے کے خواہاں رہے ہیں، اس لیے اور صرف اسی لیے جس نے بھی ان کو خدا کی بندگی اور خدا ترسانہ زندگی کی طرف بلایا اس کو وہ ایک ہی لگا بندھا جواب دیتے رہے۔

اس ارشاد سے ایک اور اہم حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ ضلالت اور ہدایت، نیکی اور بدی ظلم اور عدل اور ایسے ہی دوسرے اعمال کے جو محرکات نفسِ انسانی میں بالطبع موجود ہیں ان کا ظہور ہمیشہ ہر زمانے میں اور زمین کے ہر گوشے میں ایک ہی طرح ہوتا ہے، خواہ ذرائع و وسائل کی ترقی سے اس کی شکلیں بظاہر کتنی ہی مختلف نظر آتی ہوں۔ آج کا انسان خواہ ٹینکوں اور ہوائی جہازوں اور ہائیڈروجن بموں کے ذریعہ سے لڑے اور قدیم زمانے کا انسان چاہے پتھروں اور لاٹھیوں سے لڑتا ہو، مگر انسانوں کے درمیان جنگ کے بنیادی محرکات میں سر مُو فرق نہیں آیا ہے۔ اسی طرح آج کا ملحد اپنے الحاد کے لیے دلائل کے خواہ کتنے ہی انبار لگاتا رہے، اس کے اس راہ پر جانے کے محرکات بعینہٖ وہی ہیں جو آج سے ۶ ہزار برس پہلے کے کسی ملحد کو اس طرف لے گئے تھے، اور بنیادی طور پر وہ اپنے استدلال میں بھی اپنے سابق پیشواؤں سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

۵۱۔ اس آیت میں دین کی تبلیغ کا ایک قاعدہ بیان فرمایا گیا ہے جس کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ ایک داعی حق جب کسی شخص کے سامنے معقول دلائل کے ساتھ اپنی دعوت صاف صاف پیش کر دے اور اس کے شبہات و اعتراضات اور دلائل کا جواب بھی دے دے تو حق واضح کرنے کا جو فرض اس کے ذمے تھا اس سے وہ سبکدوش ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ شخص اپنے عقیدہ و خیال پر جما رہے تو اس کی کوئی ذمہ داری داعی حق پر عائد نہیں ہوتی۔ اب کچھ ضرور نہیں کہ وہ اسی شخص کے پیچھے پڑا رہے، اسی سے بحث میں اپنی عمر کھپائے چلا جائے، اور اس کا کام بس یہ رہ جائے کہ اس ایک آدمی کو کسی نہ کسی طرح اپنا ہم خیال بنانا ہے۔ داعی اپنا فرض ادا کر چکا۔وہ نہیں مانتا تو نہ مانے۔ اس کی طرف التفات نہ کرنے پر داعی کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ تم نے ایک آدمی کو گمراہی میں مبتلا رہنے دیا، کیونکہ اب اپنی گمراہی کا وہ شخص خود ذمہ دار ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے یہ قاعدہ اس لیے بیان نہیں کیا گیا ہے کہ معاذ اللہ آپ اپنی تبلیغ میں بیجا طریقے سے لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے روکنا چاہتا تھا۔ در اصل اس کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایک داعی حق جب کچھ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معقول طریقے سے سمجھانے کا حق ادا کر چکتا ہے اور ان کے اندر ضد اور جھگڑالو  پن کے آثار دیکھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاتے اور اس پر الزام رکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ واہ صاحب، آپ اچھے دعوت حق کی علمبردار ہیں،ہم آپ سے بات سمجھنے کے لیے بحث کرنا چاہتے ہیں، اور آپ ہماری طرف التفات نہیں کرتے۔ حالانکہ ان کا مقصد بات کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ اپنی بحثا بحثی میں داعی کو الجھانا اور محض اس کی تضیع اوقات کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام پاک میں بالفاظ صریح یہ فرما دیا کہ ’’ ایسے لوگوں کی طرف التفات نہ کرو، ان سے بے التفاتی کرنے پر تمہیں کوئی ملامت نہیں کی جا سکتی‘‘۔ اس کے بعد کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ الزام نہیں دے سکتا تھا کہ جو کتاب آپ لے کر آئے ہیں اس کی رو سے تو آپ ہم کو اپنا دین سمجھانے پر مامور ہیں، پھر آپ ہماری باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے۔

۵۲۔ اس آیت میں تبلیغ کا دوسرا کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت عام کا سلسلہ برابر جاری رکھے تا کہ جہاں جہاں بھی ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جائے۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ اور انہی کو سمیٹ سمیٹ کر خدا کے راستے پر لا کھڑا کرنا اس کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ بیچ میں اولاد آدم کا جو فضول عنصر اس کو ملے اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے تجربے سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ یہ جنس کا سد ہے۔ اس کے کساد و فساد کا تجربہ ہو جانے کے بعد اسے پھر اپنا قیمتی وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے ہیں۔

۵۳۔ یعنی میں نے ان کو دوسروں کی بندگی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ میری بندگی تو ان کو اس لیے کرنی چاہیے کہ میں ان کا خالق ہوں۔ دوسرے کسی نے جب ان کو پیدا نہیں کیا ہے تو اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ یہ اس کی بندگی کریں، اور ان کے لیے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ ان کا خالق تو ہوں میں اور یہ بندگی کرتے پھریں دوسروں کی۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف جنوں اور انسانوں ہی کا خالق تو نہیں ہے۔ بلکہ سارے جہان اور اس کی ہر چیز کا خالق ہے، پھر یہاں صرف جنوں اور انسانوں ہی کے متعلق کیوں فرمایا گیا کہ میں نے ان کو اپنے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیا ہے؟ حالانکہ مخلوقات کا ذرہ ذرہ اللہ ہی کی بندگی کے لیے ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمین پر صرف جن اور انسان ایسی مخلوق ہیں جن کو یہ آزادی بخشی گئی ہے کہ اپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنا چاہیں تو کریں، درد وہ بندگی سے منہ بھی کوڑ سکتے ہیں، اور اللہ کے سوا دوسروں کی بندگی بھی کر سکتے ہیں۔ دوسری جتنی مخلوقات بھی اس دنیا میں ہیں وہ اس نوعیت کی کوئی آزادی نہیں رکھتیں۔ ان کے لیے سرے سے کوئی دائرہ اختیار ہے ہی نہیں کہ وہ اس میں اللہ کی بندگی نہ کریں یا کسی اور کی بندگی کر سکیں۔ اس لیے یہاں صرف جنوں اور انسانوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار کے حدود میں اپنے خالق کی اطاعت و عبودیت سے منہ موڑ کر، اور خالق کے سوا دوسروں کی بندگی کر کے خود اپنی فطرت سے لڑ رہے ہیں، ان کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ خالق کے سوا کسی کی بندگی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں اور ان کے لیے سیدھی راہ یہ ہے کہ جو آزادی انہیں بخشی گئی ہے اسے غلط استعمال نہ کریں بلکہ اس آزادی کے حدود میں بھی خود پنی مرضی سے اسی طرح خدا کی بندگی کریں جس طرح ان کے جسم کا رونگٹا رونگٹا ان کی زندگی کے غیر اختیاری حدود میں اس کی بندگی کر رہا ہے۔

عبادت کا لفظ اس آیت میں محض نماز روزے اور اسی نوعیت کی دوسری عبادات کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کا مطلب یہ لے لے کہ جن اور انسان صرف نماز پڑھنے اور روزے رکھنے اور تسبیح و تہلیل کرنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ یہ مفہوم بھی اگر چہ اس میں شامل ہے، مگر یہ اس کا پورا مفہوم نہیں ہے۔ اس کا پورا مفہوم یہ ہے کہ جن اور انسان اللہ سوا کسیاور کی پرستش،اطاعت، فرمانبرداری اور نیاز مندی کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہیں۔ ان کا کام کسی اور کے سامنے جھکنا، کسی اور کے احکام بجا لانا، کسی اور سے تقویٰ کرنا، کسی اور کے بنائے ہوئے دین کی پیروی کرنا، کسی اور کو اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھنا، اور کسی دوسری ہوتی کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلانا نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۶۳۔ الزمر، حاشیہ ۲۔ الجاثیہ، حاشیہ ۳۰۔

ایک اور بات جو ضمنی طور پر اس آیت سے صاف ظاہر ہوتی ہے  وہ یہ ہے کہ جن انسانوں سے الگ ایک مستقل مخلوق ہے۔ اس سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بالکل واضح ہو جاتی ہے جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انسانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو قرآن میں جن کہا گیا ہے۔ اسی حقیقت پر قرآن مجید کی حسب ذیل آیات بھی ناقابل انکار شہادت بہم پہنچاتی ہیں (الانعام،۱۰۰،۱۲۸۔ الاعراف ۳۸، ۱۷۹، ہود ، ۱۱۹، الفجر ، ۲۷ تا ۳۳۔ بنی اسرائیل،،۸۸۔ الکہف، ۵۰۔ السجدہ، ۱۳۔سبا، ۴۱۔ صٓ، ۷۵،۷۷۔ حٰم السجدہ، ۲۵۔ الاحقاف، ۱۸۔ الرحمٰن، ۱۵،۳۹،۵۶۔(اس مسئلے پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد،سوم، الانبیاء، حاشیہ ۲۱۔ النمل، حاشیہ ۲۳، ۴۵۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۲۴)۔

۵۴۔ یعنی میری کوئی غرض جِنوں اور انسانوں سے اٹکی ہوئی نہیں ہے کہ یہ میری عبادت کریں گے تو میری خدائی چلے گی اور یہ میری بندگی سے منہ موڑ لیں گے تو میں خدا نہ رہوں گا۔ میں ان کی عبادت کا محتاج نہیں ہو بلکہ میری عبادت کرنا خود ان کی اپنی فطرت کا تقاضا ہے، اسی کے لیے یہ پیدا کیے گئے ہیں، اور اپنی فطرت سے لڑنے میں ان کا اپنا نقصان ہے۔

اور یہ جو فرمایا کہ ’’ میں ان سے رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں‘‘، اس میں ایک لطیف تعریض ہے۔ خدا سے برگشتہ لوگ دنیا میں جن جن کی بندگی بجا لا رہے ہیں، وہ سب در حقیقت اپنے ان بندوں کے محتاج ہیں۔ یہ ان کی خدائی نہ چلائیں تو ایک دن بھی وہ نہ چلے۔ وہ ان کے رازق نہیں بلکہ الٹے یہ ان کو رزق پہنچاتے ہیں۔ وہاں ان کو نہیں کھلاتے بلکہ الٹے یہ ان کو کھلاتے ہیں۔ وہ ان کی جان کی محافظ نہیں بلکہ الٹے یہ ان کی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کے لشکر یہ ہیں جن کے بل پر ان کی خدائی چلتی ہے۔ جہاں بھی ان جھوٹے خداؤں کی حمایت کرنے والے بندے نہ رہے، یا بندوں نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا وہاں ان کے سب ٹھاٹھ پڑے رہ گئے اور دنیا کی آنکھوں نے ان کی کسمپرسی کا حال دیکھ لیا۔ سارے معبودوں میں اکیلا ایک اللہ جل شانہ ہی وہ حقیقت معبود ہے جس کی خدائی اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے، جو اپنے بندوں سے کچھ لیتا نہیں بلکہ وہی اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے۔

۵۵۔ اصل میں لفظ ’’متین‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں مضبوط اور غیر متزلزل، جسے کوئی ہلا نہ سکتا ہو۔

۵۶۔ ظلم سے مراد یہاں حقیقت اور، صداقت پر ظلم کرنا، اور خود اپنی فطرت پر ظلم کرنا ہے۔ سیاق و سبا خود بتا رہا ہے کہ یہاں ظلم کرنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو خداوند عالم کے سوا دوسروں کی بندگی کر رہے ہیں، جو آخرت کے منکر ہیں اور اپنے آپ کو دنیا میں غیر ذمہ دار سمجھ رہے ہیں، اور ان انبیاء کو جھٹلا رہے ہیں جنہوں نے ان کو حقیقت سے خبردار کرنے کی کوشش کی ہے۔

۵۷۔ یہ جواب ہے کفار کے اس مطالبہ کا کہ وہ یوم الجزا کہاں آتے آتے رہ گیا ہے، آخر وہ آ کیوں نہیں جاتا۔