پہلی ہی آیت کے فقرہ وَا نْشَقَّ الْقَمَر سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ القمر آیا ہے ۔
اس میں شقّ القمر کے واقعہ کا ذکر آیا ہے جس سے اس کا زمانہ نزول متعین ہو جاتا ہے ۔ محدثین و مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے مکہ معظمہ میں منیٰ کے مقام پر پیش آیا تھا۔
اس میں کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی پر متنبہ کیا گیا ہے جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلہ میں اختیار کر رکھی تھی۔ شق القمر کا حیرت انگیز واقعہ اس بات کا صریح نشان تھا کہ وہ قیامت جس کے آنے خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے تھے ، فی الواقع برپا ہو سکتی ہے ، اور اس کی آمد کا وقت قریب آ لگا ہے ۔ چاند جیسا عظیم الشان کرہ ان کی آنکھوں کے سامنے پھٹا تھا۔ اس کے دونوں ٹکڑے الگ ہو کر ایک دوسرے سے اتنی فور چلے گئے تھے کہ دیکھنے والوں کو ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا تھا۔ پھر آن کی آن میں وہ دونوں پھر مل گئے تھے ۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ نظام عالم ازلی و ابدی اور غیر فانی نہیں ہے ۔ وہ درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ بڑے بڑے ستارے اور سیارے پھٹ سکتے ہیں ۔ بکھر سکتے ہیں ۔ ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں ۔ اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جس کا نقشہ قیامت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے قرآن میں کھینچا گیا ہے ۔ یہی نہیں ، بلکہ یہ اس امر کا پتا بھی دے رہا تھا کہ نظام عالم کے درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے اور وہ وقت قریب ہے جب قیامت برپا ہو گی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حیثیت سے لوگوں کو اس واقعہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا، دیکھو اور گواہ رہو۔ مگر کفار نے اسے جادو کا کرشمہ قرار یا اور اپنے انکار پر جمے رہے ۔ اسی ہٹ دھرمی پر اس سورہ میں انہیں ملامت کی گئی ہے ۔
کلام کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا گیا کی یہ لوگ نہ سمجھانے سے مانتے ہیں ۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب قیامت فی الواقع برپا ہو جائے گی اور قبروں سے نکل کو یہ داورِ محشر کی طرف دوڑے جا رہے ہوں گے ۔
اس کے بعد ان کے سامنے قوم نوح، عاد،قوم لوط ،اور آل فرعون کا حال مختصر الفاظ میں بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی تنبیہات کو جھٹلا کر یہ قومیں کس درد ناک عذاب سے دو چار ہوئیں ، اور ایک ایک قوم کا قصہ بیان کرنے کے بعد بار بار یہ بات دہرائی گئی ہے کہ یہ قرآن نصیحت کا آسان ذریعہ ہے جس سے اگر کوئی قوم سبق لے کر راہ راست پر آ جائے تو ان عذابوں کی نوبت نہیں آسکتی جو ان قوموں پر نازل ہوئے۔ اب آخر یہ کیا حماقت ہے کہ اس آسان ذریعہ سے نصیحت قبول کرنے کے بجائے کوئی اسی پر اصرار کرے کہ عذاب دیکھے بغیر نہ مانے گا۔
اس طرح پچھلی قوموں کی تاریخ سے عبرتناک مثالیں دینے کے بعد کفار مکہ کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ جس طرزِ عمل پر دوسری قومیں سزا پا چکی ہیں وہی طرز عمل اگر تم اختیار کرو تو آخر تم کیوں نہ سزا پاؤ گے ؟ کیا تمہارے کچھ سُرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ تمہارے ساتھ دوسروں سے مختلف معاملہ کیا جائے ؟ یا کوئی خاص معافی نامہ تمہارے پاس لکھا ہوا آگیا ہے کہ جس جرم پر دوسرے پکڑے گئے ہیں وہی تم کرو گے تو تمہیں نہ پکڑا جائے گا؟ اور اگر تم اپنی جمیعت پر پھولے ہوئے ہو تو عنقریب تمہاری یہ جمیعت شکست کھا کر بھاگتی نظر آئے گی، اور اس سے زیادہ سخت معاملہ تمہارے ساتھ قیامت کے روز ہو گا۔ آخر میں کفار کو بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قیامت لانے کے لیے کیس بڑی تیاری کی حاجت نہیں ہے ۔ اس کا بس ایک حکم ہوتے ہی پلک جھپکاتے وہ برپا ہو جائے گی۔ مگر ہر چیز کی طرح نظام عالم اور نوع انسانی کی بھی ایک تقدیر ہے ۔ اس تقدیر کے لحاظ سے جو وقت اس کام کے لیے مقرر ہے اسی وقت پر وہ لوگا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جب کوئی چیلنج کرے اس کو قائل کرنے کے لیے قیامت لا کھڑی کی جائے ۔ اس کو آتے نہ دیکھ کر تم سرکشی اختیار کرو گے تو اپنی شامت اعمال کا نتیجہ بھگتو گے ۔ تمہارا کچّا چٹھا خدا کے ہاں تیار ہو رہا ہے جس میں تمہاری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ثبت ہونے سے رہ نہیں گئی ہے ۔
۱ ۔ یعنی چاند کا پھٹ جانا اس بات کی علامت ہے کہ وہ قیامت کی گھڑی ، جس کے آنے کی تم لوگوں کو خبر دی جاتی رہی ہے ، قریب آ لگی ہے اور نظام علام کی درہم برہم ہونے کا آغاز ہو گیا ہے ۔ نیز یہ واقعہ کہ چاند جیسا ایک عظیم کُرہ شق ہو کر دو ٹکڑے ہو گیا ، اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ جس قیامت کا تم سے ذکر کی جا رہا ہے وہ برپا ہو سکتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب چاند پھٹ سکتا ہے تو زمین بھی پھٹ سکتی ہے ، تاروں اور سیاروں کے مدار بھی بدل سکتے ہیں اور افلاک کا یہ سارا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے ۔ اس میں کوئی چیز ازلی و ابدی اور دائم و مستقل نہیں ہے کہ قیامت برپا نہ ہو سکے ۔
بعض لوگوں نے اس فقرے کا مطلب یہ لیا ہے کہ ’’ چاند پھٹ جائے گا‘‘۔ لیکن عربی زبان کے لحاظ سے چاہے یہ مطلب لینا ممکن ہو ، عبارت کا سیاق و سباق اس معنی کو قبول کرتے سے صاف انکار کرتا ہے ۔ اول تو یہ مطلب لینے سے پہلا فقرہ ہی بے معنی ہو جاتا ہے ۔ چاند اگر اس کلام کے نزول کے وقت پھٹا نہیں تھا، بلکہ وہ آئندہ کبھی پھٹنے والا ہے تو اس کی بنا پر یہ کہنا بالکل مہمل بات ہے کہ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی ہے ۔ آخر مستقبل میں پیش آنے والا کوئی واقعہ اس کے قرب کی علامت کیسے قرار پا سکتا ہے کہ اسے شہادت کے طور پر پیش کرنا ایک معقول طرز استدلال ہو۔ دوسرے ، یہ مطلب لینے کے بعد جب ہم آگے کی عبارت پڑھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتی ۔ آگے کی عبارت صاف بتا رہی ہے کہ لوگوں نے اس وقت کوئی نشانی دیکھی تھی جو امکان قیامت کی صریح علامت تھی مگر انہوں نے اسے جادو کا کرشمہ قرار دے کر جھٹلا دیا اور اپنے اس خیال پر جمے رہے کہ قیامت کا آنا ممکن نہیں ہے ۔اس سیاق و سباق میں اِنْشَقَّ الْقَمَرُ کے الفاظ اسی صورت میں ٹھیک بیٹھ سکتے ہیں جب کہ ان کا مطلب ’’ چاند پھٹ گیا ‘‘ ہو ۔’’ پھٹ جائے گا‘‘ کے معنی میں ان کو لے لیا جائے تو بعد کی ساری بات نے جوڑ ہو جاتی ہے ۔ سلسلہ کلام میں اس فقرے کو رکھ کر دیکھ لیجیے ، آپ کو خود محسوس ہو جائے گا کہ اس کی وجہ سے ساری عبارت بے معنی ہو گئی ہے :
’’قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ جائے گا۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں ، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ۔ انہوں نے جھٹلا دیا اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی کی‘‘۔
پس حقیقت یہ ہے کہ شق القمر کا واقعہ قرآن کے صریح الفاظ سے ثابت ہے اور حدیث کی روایات پر اس کا انحصار نہیں ہے ۔ البتہ روایات سے اس کی تفصیلات معلوم ہوتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ کب اور کیسے پیش آیا تھا۔ یہ روایات بخاری، مسلم ، ترمذی، احمد، ابو عوانہ، ابو داؤد طیالسی، عبدالرزاق، ابن جریر ، بیہقی، طبرانی،ل ابن مردویہ اور ابو نعیم اصفہانی نے بکثرت سندوں کے ساتھ حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت حذیفہ ، حضرت انس بن مالک اور حضرت جبیر بن مطعم سے نقل کی ہیں ۔ ان میں سے تین بزرگ، عینی حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت حذیفہ اور حضرت جبیر بن مطعم تصریح کرتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں ۔ اور دو بزرگ ایسے ہیں جو اس کے عینی شاہد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ یہ ان میں سے ایک (یعنی عبداللہ بن عباس) کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے ، اور دوسرے (یعنی انس بن مالک) اس وقت بچے تھے ۔ لیکن چونکہ یہ دونوں حضرات صحابی ہیں اس لیے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایسے سن رسیدہ صحابیوں سے سن کر ہی اسے روایت کیا ہو گا جو اس واقعہ کا براہ راست علم رکھتے تھے ۔
تمام روایات کو جمع کرنے سے اس کی جو تفصیلات معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ قمری مہینے کی چودھویں شب تھی۔ چاند ابھی ابھی طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ پھٹا اور اس کا ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ یہ کیفیت نس ایک ہی لحظہ رہی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم جڑ گئے۔ نبی صلی الہ علیہ و سلم اس وقت منیٰ میں تشریف فرما تھے ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا دیکھو اور گواہ رہو۔ کفار نے کہا محمد (صلی الہ علیہ و سلم( نے ہم پر جادو کر دیا تھا اس لیے ہماری آنکھوں نے دھوکا کھایا۔ دوسرے لوگ بولے کہ محمدؐ ہم پر جادو کر سکتے تھے ، تمام لوگوں پر تو نہیں کر سکتے تھے ۔ باہر کے لوگوں کو آنے دو۔ ان سے پوچھیں گے کہ یہ واقعہ انہوں نے بھی دیکھا ہے یا نہیں ۔ باہر سے جب کچھ لوگ آئے تو انہوں نے شہادت دی کہ وہ بھی یہ منظر دیکھ چکے ہیں ۔
بعض روایات جو حضرت انس سے مروی ہیں ان کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شق القمر کا واقعہ ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ پیش آیا تھا ۔ لیکن اول تو صحابہ میں سے کسی اور نے یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ دوسرے خود حضرت انس کی بھی بعض روایات میں مرتین(دو مرتبہ) کے الفاظ ہیں اور بعض میں فِرقیتن اور شقیتن (دو ٹکڑے ) کے الفاظ ۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید صرف ایک ہی انشقاق کا ذکر کرتا ہے ۔ اس بنا پر صحیح بات یہی ہے کہ یہ واقعہ صرف ایک مرتبہ پیش آیا تھا۔ رہے وہ قصے جو عوام میں مشہور ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا اور وہ دو ٹکڑے ہو گیا اور یہ کہ چاند کا ایک ٹکڑا حضورؐ کے گریبان میں داخل ہو کر آپ کی آستین سے نکل گیا، تو یہ بالکل ہی بے اصل ہیں ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس واقعہ کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ کیا یہ ایک معجزہ تھا جو کفار مکہ کے مطالبہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی رسالت کے ثبوت میں دکھایا تھا ؟ یا یہ ایک حادثہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے چاند میں پیش آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس کی طرف توجہ صرف اس غرض کے لیے دلائی کہ یہ امکان قیامت اور قرب قیامت کی ایک نشانی ہے ؟علماء اسلام کا ایک بڑا گروہ اسے حضورؐ کے معجزات میں شمار کرتا ہے اور ان کا خیال یہ ہے کہ کفار کے مطالبہ پر یہ معجزہ دکھایا گیا تھا۔ لیکن اس رائے کا مدار صر ف بعض ان روایات پر ہے جو حضرت انس سے مروی ہیں ۔ ان کے سوا کسی صحابی نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے ۔ فتح الباری میں ابن حجر کہتے ہیں کہ ’’ یہ قصہ جتنے طریقوں سے منقول ہوا ہے ان میں سے کسی میں بھی حضرت انس کی حدیث کے سوا یہ مضمون میری نگاہ سے نہیں گزرا کہ شق القمر کا واقعہ مشرکین کے مطالبہ پر ہوا تھا۔ ‘‘ (باب انشقاق القمر)۔ ایک روایت ابو نعیم اصفہانی نے دلائل لنبوۃ میں حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی اس مضمون کی نقل کی ہے ، مگر اس کی سند ضعیف ہے ، اور قوی سندوں سے جتنی روایات کتب حدیث میں ابن عباس سے منقول ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ علاوہ بریں حضرت انس اور حضرت عبداللہ بن عباس، دونوں اس واقعہ کے ہم عصر نہیں ہیں ۔ بخلاف اس کے جو صحابہ اس زمانے میں موجود تھے ، حضرت عبداللہ بنؓ مسعود ،حضرت حذیفہؓ ، حضرت جبیر بن مطعم، حضرت علیؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ مشرکین مکہ نے حضور کی صداقت کے ثبوت میں کسی نشانی کا مطالبہ کیا تھا اور اس پر شق القمر کا یہ معجزہ ان کو دکھایا گیا ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن مجید خود بھی اس واقعہ کو رسالت محمدی کی نہیں بلکہ قرب قیامت کی نشانی کے طور پر پیش کر رہا ہے ۔ البتہ یہ اس لحاظ سے حضور کی صداقت کا ایک نمایاں ثبوت ضرور تھا کہ آپ نے قیامت کے آنے کی جو خبریں لوگوں کو دی تھیں ، یہ واقعہ ان کی تصدیق کر رہا تھا۔
معترضین اس پر دو طرح کے اعتراضات کرتے ہیں ۔اول تو ان کے نزدیک ایسا ہونا ممکن ہی نہیں ہے کہ چاند جیسے عظیم کرّے کے دو ٹکڑے پھٹ کر الگ ہو جائیں اور سینکڑوں میل کے فاصلے تک ایک دوسرے سے دور جانے کے بعد پھر باہم جڑ جائیں ۔ دوسرے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ واقعہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاتا، تاریخوں میں اس کا ذکر آتا ، اور علم نجوم کی کتابوں میں اسے بیان کیا جاتا۔ لیکن در حقیقت یہ دونوں اعتراضات بے وزن ہیں ۔ جہاں تک اس کے امکان کی بحث ہے ، قدیم زمانے میں تو شاید وہ چل بھی سکتی تھی، لیکن موجودہ دور میں سیاروں کی ساخت کے متعلق انسان کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کی بنا پر یہ بات بالکل ممکن ہے کہ ایک کرّہ اپنے اندر کی آتش فشانی کے باعث پھٹ جائے اور اس زبردست انفجار سے اس کے دو ٹکڑے دور تک چلے جائیں ، اور پھر اپنے مرکز کی مقناطیسی وقت کے سبب سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ آ ملیں ۔ رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لیے بے وزن ہے کہ یہ واقعہ اچانک بس ایک لحظہ کے لیے پیش آیا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ اس خاص لمحے میں دنیا بھر کی نگاہیں چاند کی طرف لگی ہوئی ہوں ۔ اس سے کوئی دھماکا نہیں ہوا تھا کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف منعطف ہوتی ۔ پہلے سے کوئی اطلاع اس کی نہ تھی کہ لوگ اس کے منتظر ہو کر آسمان کی طرف دیکھ رہے ہوتے ۔ پوری روئے زمین پر اسے دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا، بلکہ صرف عرب اور اس کے مشرقی جانب کے ممالک ہی میں اس وقت چاند نکلا ہوا تھا۔ تاریخ نگاری کا ذوق اور فن بھی اس وقت تک اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ مشرقی ممالک میں جن لگوں نے اسے دیکھا ہوتا وہ اسے ثبت کر لیتے اور کسی مؤرخ کے پاس یہ شہادتیں جمع ہوتیں اور وہ تاریخ کی کسی کتاب میں ان کو درج کر لیتا۔ تا ہم مالابار کی تاریخوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ اس رات وہاں کے ایک راجہ نے یہ منظر دیکھا تھا۔ رہیں علم نجوم کی کتابیں اور جنتریاں ، تو ان میں اس کا ذکر آنا صرف اس حالت میں ضروری تھا جبکہ چاند کی رفتار، اور اس کی گردش کے راستے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات میں اس سے کوئی فرق واقع ہوا ہوتا۔ یہ صورت چونکہ پیش نہیں آئی اس لیے قدیم زمانے کے اہل تنجیم کی توجہ اس کی طرف منعطف نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں رصد گاہیں اس حد تک ترقی یافتہ نہ تھیں کہ افلاک میں پیش آنے والے ہر واقعہ کا نوٹس لیتیں اور اس کو ریکارڈ پر محفوظ کر لیتیں ۔
۲ ۔ اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ معاذاللہ ، شب و روز کی جادوگری کا جو سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے چلا رکھا ہے ، یہ جادو بھی اسی میں سے ہے ۔ دوسرے یہ کہ یہ پکا جادو ہے ، بڑی مہارت سے دکھا یا گیا ہے ۔ تیسرے یہ کہ جس طرح اور جادو گزر گئے ہیں ، یہ بھی گزر جائے گا، اس کا کوئی دیر پا اثر رہنے والا نہیں ہے ۔
۳ ۔ یعنی جو فیصلہ انہوں نے قیامت کو نہ ماننے کا کر رکھا ہے ، اس نشانی کو دیکھ کر بھی یہ اسی پر جمے رہے ۔ قیامت کو مان لینا چونکہ ان کی خواہشات نفس کے خلاف تھا اس لیے صریح مشاہدے کے بعد بھی یہ اسے تسلیم کرنے پر راضی نہ ہوئے۔
۴ ۔ مطلب یہ ہ کہ یہ سلسلہ بلا نہایت نہیں چل سکتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں حق کی طرف بلاتے رہیں ، اور تم ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے باطل پر جمے رہو، اور ان کا حق پر ہونا اور تمہارا باطل پر ہونا کبھی ثابت نہ ہو۔ تمام معاملات آخر کار ایک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں ، اسی طرح تمہاری اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس کشمکش کا بھی لا محالہ ایک انجام ہے جس پر یہ پہنچ کر رہے گی۔ ایک وقت لازماً ایسا آنا ہے جب علی الاعلان یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ حق پر تھے اور تم سراسر باطل کی پیروی کر رہے تھے ۔ اسی طرح حق پرست اپنی حق پرستی کا، اور باطل پرست اپنی باطل پرستی کا نتیجہ بھی ایک دن ضرور دیکھ کر رہیں گے ۔
۵ ۔ بالفاظ دیگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو۔ جب انہیں زیادہ سے زیادہ معقول طریقہ سے سمجھایا جا چکا ہے ، اور انسانی تاریخ سے مثالیں دے کر بھی بتا دیا گیا ہے کہ انکار آخرت کے نتائج کیا ہیں اور رسولوں کی بات نہ ماننے کا کیا عبرتناک انجام دوسری قومیں دیکھ چکی ہیں ، پھر بھی یہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے ، تو انہیں اسی حماقت میں پڑا رہنے دو۔ اب یہ اسی وقت مانیں گے جب مرنے کے بعد قبروں سے نکل کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ وہ قیامت واقعی برپا ہو گئی جسسے قبل از وقت خبردار کر کے راہ راست اختیار کر لینے کا مشورہ انہیں دیا جا رہا تھا۔
۶۔ دوسرا مطلب انجانی چیز بھی ہو سکتا ہے ۔ یعنی ایسی چیز جو کبھی ان کے سان گمان میں بھی نہ تھی ، جس کا کوئی نقشہ اور کوئی تصور ان کے ذہن میں نہ تھا، جس کا کوئی اندازہ ہی وہ نہ کر سکتے تھے کہ یہ کچھ بھی کبھی پیش آ سکتا ہے ۔
۷۔ اصل الفاظ ہیں خُشَّعاً اَبصَا رھُُمْ، یعنی ان کی نگاہیں خشوع کی حالت میں ہوں گی۔ اس کے کؑی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ان پر خوف زدگی طاری ہو گی۔ دوسرے یہ کہ ذلت اور ندامت ان سے جھلک رہی ہو گی کیونکہ قبروں سے نکلتے ہیں انہیں محسوس ہو جائے گا کہ یہ وہی دوسری زندگی ہے جس کا ہم انکار کرتے تھے ، جس کے لیے کوئی تیاری کر کے ہم نہیں آئے ہیں ، جس میں اب مجرم کی حیثیت سے ہمیں اپنے خدا کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ تیسرے یہ کہ وہ گھبرائے ہوئے اس ہولناک منظر کو دیکھ رہے ہوں گے جو ان کے سامنے ہو گا،اس سے نظر ہٹانے کا انہیں ہوش نہ ہو گا۔
۸ ۔ قبروں سے مراد وہی قبریں نہیں ہیں جن میں کسی شخص کو زمین کھود کر باقاعدہ دفن کیا گیا ہو۔ بلکہ جس ، جگہ بھی کوئی شخص مرا تھا، یا جہاں بھی اس کی خاک پڑی ہوئی تھی، وہیں سے وہ محشر کی طرف پکارنے والے کی ایک آواز پر اٹھ کھڑا ہو گا ۔
۹ ۔ یعنی اس خبر کو جھٹلا چکی ہے کہ آخرت برپا ہونی ہے جس میں انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا، اس نبی کی نبوت کو جھٹلا چکی ہے جو اپنی قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا تھا، اور نبی کی اس تعلیم کو جھٹلا چکی ہے جو یہ بتاتی تھی کہ آخرت کی باز پرس میں کامیاب ہونے کے لیے لوگوں کو کیا عقیدہ اور کیا عمل اختیار کرنا چاہیے اور کس چیز سے بچنا چاہیے ۔
۱۰ ۔ یعنی ان لوگوں نے محض نبی کی تکذیب ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ الٹا اسے دیوانہ قرار دیا ، اس کو دھمکیاں دیں ، اس پر لعنت ملامت کی بوچھاڑ کی، اسے ڈانٹ ڈپٹ کر صداقت کی تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی، اور اس کا جینا دوبھر کر دیا۔
۱۱ ۔ یعنی اللہ کے حکم سے زمین اس طرح پھوٹ بہی کہ گویا وہ زمین نہ تھی بلکہ بس چشمے ہی چشمے تھے ۔
۱۲ ۔ مراد ہے وہ کشتی جو طوفان کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق حضرت نوح نے بنا لی تھی۔
۱۳ ۔ اصل الفاظ ہیں جَزَاءً لِّمَنْکَانَ کُفِرَ ، یعنی ’’ یہ سب کچھ اس شخص کی خاطر بدلہ لینے کے لیے کیا گیا جس کا کفر کیا گیا تھا۔ ‘‘ کفر اگر انکار کے معنی میں ہو تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ نس کی بات ماننے سے انکار کیا گیا تھا‘‘ اور اگر اسے کفرانِ نعمت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ’’ جس کا وجود ایک نعمت تھا مگر اس کی ناقدری کی گئی تھی‘‘۔
۱۴ ۔ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم نے اس عقوبت کو ایک نشان عبرت بنا کر چھوڑ دیا ۔ لیکن ہمارے نزدیک زیادہ قابل ترجیح معنی یہ ہیں کہ اس کشتی کو نشان عبرت بنا دیا گیا ۔ ایک بلند و بالا پہاڑ پر اس کا موجود ہونا سینکڑوں ہزاروں برس تک لوگوں کو خدا کے غضب سے خبردار کرتا رہا اور انہیں یاد دلاتا رہا کہ اس سرزمین پر خدا کی نافرمانی کرنے والوں کی کیسی شامت آئی تھی اور ایمان لانے والوں کو کس طرح اس سے بچایا گیا تھا۔ امام بخاری ، ابن ابی حاتم، عبدالرزاق اور ابن جریر نے قتادہ سے یہ روایات نقل کی ہیں کہ مسلمانوں کی فتح عراق و الجزیرہ کے زمانے میں یہ کشتی جودی پر (اور ایک روایت کے مطابق ابقِردیٰ نامی بستی کے قریب) موجود تھی اور ابتدائی دور کے اہل اسلام نے اس کو دیکھا تھا۔ موجودہ زمانے میں بھی ہوائی جہازوں سے پرواز کرتے ہوئے بعض لوگوں نے اس علاقے کی ایک چوٹی پر ایک کشتی نما چیز پڑی دیکھی ہے جس پر شبہ کیا جاتا ہے کہ وہ سفینہ نوح ہے ، اور اسی بنا پر وقتاً فوقتاً اس کی تلاش کے لیے مہمات جاتی رہی ہیں ۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ ۴۷، ہود، حاشیہ ۴۶۔ جلد سوم، العنکبوت، حاشیہ ۲۵)۔
۱۵ ۔ بعض لوگوں نے یَسَّرْنَا الْقُراٰنَ کے الفاظ سے یہ غلط مطلب نکال لیا ہے کہ قرآن ایک آسان کتاب ہے ، اسے سمجھنے کے لیے کسی علم کی ضرورت نہیں ، حتیٰ کہ عربی زبان تک سے واقفیت کے بغیر جو شخص چاہے اس کی تفسیر کر سکتا ہے اور حدیث و فقہ سے بے نیاز ہو کر اس کی آیات سے جو احکام چاہے مستنبط کر سکتا ہے ۔ حالانکہ جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آئے ہیں اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد کا مدعا لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ نصیحت کا ایک ذریعہ تو ہیں وہ عبرتناک عذاب جو سرکش قوموں پر نازل ہوئے، اور دوسرا ذریعہ ہے یہ قرآن جو دلائل اور وعظ و تلقین سے تم کو سیدھا راستہ بتا رہا ہے ۔ اس ذریعہ کے مقابلے میں نصیحت کا یہ ذریعہ زیادہ آسان ہے ۔ پھر کیوں تم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور عذاب ہی دیکھنے پر اصرار کیے جاتے ہو؟ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اپنے نبی کے ذریعہ سے یہ کتاب بھیج کر وہ تمہیں خبردار کر رہا ہے کہ جن راہوں پر تم لوگ جا رہے ہو وہ کس تباہی کی طرف جاتی ہیں اور تمہاری خیر کسی راہ میں ہے ۔ نصیحت کا یہ طریقہ اسی لیے تو اختیار کیا گیا ہے کہ تباہی کے گڑھے میں گرنے سے پہلے تمہیں اس سے بچا لیا جائے۔اب اس سے زیادہ نادان اور کون ہو گا جو سیدھی طرح سمجھانے سے نہ مانے اور گڑھے میں گر کر ہی یہ تسلیم کرے کہ واقعی یہ گڑھا تھا۔
۱۶ ۔ یعنی ایک ایسے دن جس کی نحوست کئی روز تک مسلسل جاری رہی ۔ سورہ حٰم لسجدہ، آیت ۱۶ میں فِیْ اَیَّا مٍ نَّحِسَتٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور سورہ الحاقہ آیت ۷ میں فرمایا گیا ہے کہ ہوا کا یہ طوفان مسلسل سات رات اور آٹھ دن جاری رہا ۔ مشہور یہ ہے کہ جس دن یہ عذاب شروع ہوا وہ بدھ کا دن تھا۔ اسی سے لوگوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ بدھ کا دن منحوس ہے اور کوئی کام اس دن شروع نہ کرنا چاہیے ۔ بعض نہایت ضعیف احادیث بھی اس سلسلے میں نقل کی گئی ہیں جن سے اس دن کی نحوست کا عقیدہ عوام کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے ۔ مثلاً اب مردویہ اور خطیب بغدادی کی یہ روایت کہ اخراربداء فی الشھر یوم نحس مستمر (مہینے کا آخری بدھ منحوس ہے جس کی نحوست مسلسل جاری رہتی ہے )۔ ابن ضوزی اسے موضوع کہتے ہیں ۔ ابن رجب نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ حافظ سخاوی کہتے ہیں کہ جتنے طریقوں سے یہ منقول ہوئی ہے وہ سب واہی ہیں ۔اسی طرح طبرانی کی اس روایت کو بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے کہ یوم الاربعاء یوم نحس مسقر (بدھ کا دن پیہم نحوست کا دن ہے ۔) بعض اور روایات میں یہ باتیں بھی مروی ہیں کہ بدھ کو سفر نہ کیا جائے، لین دین نہ کیا جائے، ناخن نہ کٹوائے جائیں ، مریض کی عیادت نہ کی جائے، اور یہ کہ جذام اور برص اسی روز شروع ہوتے ہیں ۔مگر یہ تمام روایات ضعیف ہیں اور ان پر کسی عقیدے بنا نہیں رکھی جا سکتی۔ محقق مناوِی کہتے ہیں : تو قی الا ر بعاء علی جھۃ الطیرۃ و ظن اعتقاد المنجمین حرام شدید التحریم، اذا الایام کلھا لِلہ تعالیٰ ، لا تنفع ولا تضر بذاتھا، ’’ بد فالی کے خیال سے بدھ کے دن کو منحوس سمجھ کر چھوڑ نا اور نجومیوں کے سے اعتقادات اس باب میں رکھنا حرام، سخت حرام ہے ، کیونکہ سارے دن اللہ کے ہیں ، کوئی دن بذاتِ خود نہ نفع پہنچانے والا ہے نہ نقصان‘‘ علامہ آلوسی کہتے ہیں ’’ سارے دن یکساں ہیں ، بدھ کی کوئی تخصیص نہیں ۔ رات دن میں کوئی گھڑی ایسی نہیں ہے جو کسی کے لیے اچھی اور کسی دوسرے کے لیے بری نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کسی کے لیے موافق اور کسی کے لیے نا موافق حالات پیدا کرتا رہتا ہے ‘‘۔
۱۷ ۔ بالفاظ دیگر، حضرت صالح کی پیروی سے ان کا انکار تین وجوہ سے تھا۔ ایک یہ کہ وہ بشر ہیں ، انسانیت سے بالاتر نہیں ہیں کہ ہم انکی بڑائی مان لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ ہماری اپنی ہی قوم کے ایک فرد ہیں ۔ ہم پر ان کی فضیلت کی کوئی وجہ نہیں ۔ تیسرے یہ کہ اکیلے ہیں ، ہمارے عام آدمیوں میں سے ایک آدمی ہیں ، کوئی بڑے سردار نہیں ہیں جس کے ساتھ کوئی بڑا جتھا ہو، لاؤ لشکر ہو، خَدَم و حشم ہوں ،اور اس بنا پر ہم ان کی بڑائی تسلیم کر لیں ۔ وہ چاہتے تھے کہ نبی یا تو کوئی فوق البشر ہستی ہو، یا اگر وہ انسان ہی ہو تو ہمارے اپنے ملک اور قوم میں پیدا نہ ہوا ہو، بلکہ کہیں اوپر سے اتر کر آئے یا باہر سے بھیجا جائے،اور اگر یہبھی نہیں تو کم از کم اسے کوئی رئیس ہونا چاہیے جس کی غیر معمولی شان و شوکت کی وجہ سے یہ مان لیا جائے کہ رہنمائی کے لیے خدا کی نظر انتخاب اس پر پڑی ہے ۔ یہی وہ جہالت تھی جس میں کفار مکہ مبتلا تھے ۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت ماننے سے ان کا ناکار بھیہ اسی بنیاد پر تھا کہ آپ بشر ہیں عم آدمیوں کی طرح بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ، کل ہمارے ہی درمیان پیدا ہوئے اور آج یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مجھے خدا نے نبی بنایا ہے ۔
۱۸ ۔ اصل میں لفظ اَشِر استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ایسا خود پسند اور بر خود غلط شخص جس کے دماغ میں اپنی بڑائی کا سودا سما گیا ہو اور اس بنا پر وہ ڈینگیں مارتا ہو۔
۱۹ ۔ یہ تشریح ہے اس ارشاد کی کہ ’’ ہم اونٹنی کو ان کے لیے فتنہ بنا کر بھیج رہے ہیں ‘‘۔ وہ فتنہ یہ تھا کہ یکایک ایک اونٹنی لا کر ان کے سامنے کھڑی کر دی گئی اور ان سے کہہ دیا گیا کہ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن تم سب لوگ اپنے لیے اور اپنے جانوروں کے لیے پانی لے سکو گے ۔ اس کی باری کے دن تم میں سے کوئی شخص کسی چشمے اور کنوئیں پر نہ خود پانی لینے کے لیے آئے ، نہ اپنے جانوروں کو پلانے کے لیے لائے۔ یہ چیلنج اس شخص کی طرف سے دیا گیا تھا جس کے متعلق وہ خود کہتے تھے کہ یہ کوئی لاؤ لشکر نہیں رکھتا، نہ کوئی بڑا جتھا اس کی پشت پر ہے ۔
۲۰ ۔ ان الفاظ ان الفاظ سے خود بخود یہ صورت حال مترشح ہوتی ہے کہ وہاونٹنی ایک مدت تک ان کی بستیوں میں دندناتی پھری ۔ اس کی باری کے دن کسی کو پانی پر آنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ آخر کار اپنی قوم کے ایک من چلے سردار کو انہوں پکارا کہ تو بڑا جری اور بیباک آدمی ہے ۔ بات بات پر آستینیں چڑھا کر مارنے اور مرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے ، ذرا ہمت کر کے اس اونٹنی کا قصہ بھی پاک کر دیکھا۔ ان کے بڑھاوے چڑھاوے دینے پر اس نے یہ مہم سر کرنے کا بیڑا اٹھا لیا اور اونٹنی کو مار ڈالا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اس اونٹنی سے صخٹ مرعوب تھے ، ان کا یہ احساس تھا کہ اس کی پشت پر کوئی غیر معمولی طاقت ہے ، اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ ڈرتے تھے ، اور اسی بنا پر محض ایک اونٹنی کا مار ڈالنا، ایسی حالت میں بھی جب کہ اس کے پیش کرنے والے پیغمبر کے پاس کوئی فوج نہ تھی جس کا انہیں ڈر ہوتا، ان کے لیے ایک بڑی مہم سر کرنے کا ہم معنی تھا۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، الاعراف حاشیہ ۵۸۔ جلد سوم، الشعراء، حاشیہ ۱۰۴ ۔ ۱۰۵)۔
۲۱ ۔ جو لوگ مویشی پالتے ہیں وہ اپنے جانوروں کے باڑے کو محفوظ کرنے کے لیے لکڑیوں اور جھاڑیوں کی ایک باڑھ بنا دیتے ہیں ۔ اس باڑھ کی جھاڑیاں رفتہ رفتہ سوکھ کر جھڑ جاتی ہیں اور جانوروں کی آمد و رفت سے پامال ہو کر ان کا برادہ بن جاتا ہے ۔ قوم ثمود کی کچلی ہوئی بوسیدہ لاشوں کو اسی برادے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔
۲۲۔ اس قصے کی تفصیلات سورہ ہود (آیات ۷۷ تا ۸۳ ) اور سورہ حجر(آیات ۶۱ تا ۷۴) میں گزر چکی ہیں ۔ خلاصہ ان کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا فیصلہ فرمایا تو چند فرشتوں کو نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط کے ہاں مہمان آئے ہیں تو وہ ان کے گھر پر چڑھ دوڑے اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے ان مہمانوں کو بد کاری کے لیے ان کے حوالہ کر دیں ۔ حضرت لوط نے ان کی بے انتہا منت سماجت کی کہ وہ اس ذلیل حرکت سے باز رہیں ۔ مگر وہ نہ مانے اور گھر میں گھس کر زبر درستی مہمانوں کو نکال لینے کی کوشش کی۔ اس آخری مرحلے پر یکایک ان کی آنکھیں اندھی ہو گئیں ۔ پھر فرشتوں حضرت لوط سے کہا کہ وہ اور ان کے گھر والے صبح ہونے سے پہلے اس بستی سے نکل جائیں ، اور ان کے نکلتے ہی اس قوم پر ایک ہولناک عذاب نازل ہو گیا۔ بائیبل میں بھی یہ واقعہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے الفاظ یہ ہیں : ’’ تب وہ اس مرد یعنی لوط پر پل پڑے اور نزدیک آئے تاکہ کواڑ توڑ ڈالیں ۔ لیکن ان مردوں (یعنی فرشتوں ) نے اپنے ہاتھ بڑھا کر لوط کو اپنے پاس گھر میں کھینچ لیا اور دروازہ بند کر دیا اور ان مردوں کو جو گھر کے دروازے پر تھے ، کیا چھوٹے کیا بڑے ، اندھا کر دیا، سو وہ دروازہ ڈھونڈھتے ڈھونڈتے تھک گئے‘‘ (پیدائش ، ۱۹:۹۔۱۱)۔
۲۳ ۔ خطاب ہے قریش کے لوگوں سے ۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں آخر کیا خوبی ہے ، کون سے لعل تمہارے لٹکے ہوئے ہیں کہ جس کفر اور تکذیب اور ہٹ دھرمی کی روش پر دوسری قوموں کی سزا دی جا چکی ہے وہی روش تم اختیار کرو تو تمہیں سزا نہ دی جائے ؟
۲۴ ۔ یہ صریح پیش گوئی ہے جو ہجرت سے پانچ سال پہلے کر دی گئی تھی کہ قریش کی جمعیت ، جس کی طاقت کا انہیں بڑا زعم تھا، عنقریب مسلمانوں سے شکست کھا جائے گی۔ اس وقت کوئی شخص یہ تصور تک نہ کر سکتا تھا کہ مستقبل قریب میں یہ انقلاب کیسے ہو گا۔ مسلمانوں کی بے بسی کا حال یہ تھا کہ ان میں سے ایک گروہ ملک چھوڑ کر حبش میں پناہ گزیں ہو چکا تھا ، اور باقی ماندہ اہل ایمان شعب، ابی طالب میں محصور تھے جنہیں قریش کے مقاطعہ اور محاصرہ نے بھوکوں مار دیا تھا۔ اس حالت میں کون یہ سمجھ سکتا تھا کہ سات ہی برس کے اندر نقشہ بدل جانے والا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس کے شاگرد عکرمہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے ، جب سورہ قمر کی یہ آیت نازل ہوئی تو میں حیران تھا کہ آخر یہ کونسی جمعیت ہے جو شکست کھائے گی ؟ مگر جب جنگ بدر میں کفار شکست کھا کر بھاگ رہے تھے اس وقت میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم زرہ پہنے ہوئے آگے کی طرف جھپٹ رہے ہیں اور آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ سَیھُْزَمُ الْجَمْعُوَیُوَلُّوْ ناَ الدُّ بُرَ ،تب میری سمجھ میں آیا کہ یہ تھی وہ ہزیمت جس کی خبر دی گئی تھی (ابن جریر۔ ابن ابی حاتم)۔
۲۵ ۔ یعنی دنیا کی کوئی چیز بھی اَلَل ٹپ نہیں پیدا کر دی گئی ہے ، بلکہ ہر چیز کی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق وہ ایک مقرر وقت پر بنتی ہے ، ایک خاص شکل اختیار کرتی ہے ، ایک خاص حد تک نشو نما پاتی ہے ، ایک خاص مدت تک باقی رہتی ہے ، اور ایک خاص وقت پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اسی عالمگیر ضابطہ کے مطابق خود اس دنیا کی بھی ایک تقدیر ہے جس کے مطابق ایک وقت خاص تک یہ چل رہی ہے اور ایک وقت خاص ہی پر اسے ختم ہونا ہے ۔ جو وقت اس کے خاتمہ کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے نہ اس سے ایک گھڑی پہلے یہ ختم ہو گی، نہ اس کے ایک گھڑی بعد یہ باقی رہے گی۔ یہ نہ ازلی و ابدی ہے کہ ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ قائم رہے ۔ اور نہ کسی بچے کا کھلونا ہے کہ جب تم کہو اسی وقت وہ اسے توڑ پھوڑ کر دکھا دے ۔
۲۶ ۔ یعنی قیامت برپا کرنے کے لیے ہمیں کوئی بڑی تیاری نہیں کرنی ہو گی اور نہ اسے لانے میں کوئی بڑی مدت صرف ہو گی۔ ہماری طرف سے بس ایک حکم صادر ہونے کی دیر ہے ۔ اس کے صادر ہوتے ہی پلک جھپکاتے وہ برپا ہو جائے گی۔
۲۷ ۔ یعنی اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ کسی خدائے حکیم و عادل کی خدائی نہیں بلکہ کسی اندھے راجہ کی چوپٹ نگری ہے جس میں آدمیوں کچھ چاہے کرتا پھرے کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہیں ہے ، تو تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے انسانی تاریخ موجود ہے جس میں اسی روش پر چلنے والی قومیں پے در پے تباہ کی جاتی رہی ہیں ۔
۲۸ ۔ یعنی یہ لوگ اس غلط فہمی میں بھی نہ رہیں کہ ان کا کیا دھرا کہیں غیب ہو گیا ہے ۔ نہیں ، ہر شخص ، ہر گروہ اور ہر قوم کا پورا ریکارڈ محفوظ ہے اور اپنے وقت پر وہ سامنے آ جائے گا۔