خزائن العرفان

سُوۡرَةُ القَمَر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ قمر مکّیہ ہے سوائے آیت سَیھُْزَمُ الْجَمْعُ کے، اس میں تین۳ رکوع، پچپن۵۵ آیتیں اور تین سو بیالیس ۳۴۲کلمے اور ایک ہزار چار سو تئیس ۱۴۲۳ حرف ہیں۔

(۱) پاس آئی قیامت اور (ف ۲) شق ہو گیا چاند (ف ۳)

۲                 اس کے نزدیک ہونے کی نشانی ظاہر ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے معجزہ سے۔

۳                 دو پارہ ہو کر شق القمر جس کا اس آیت میں بیان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے معجزاتِ باہرہ میں سے ہے، اہلِ مکّہ نے حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے ایک معجزہ کی درخواست کی تھی تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے چاند شق کر کے دکھایا، چاند کے دو حصّے ہو گئے اور ایک حصّہ دوسرے سے جدا ہو گیا اور فرمایا کہ گواہ رہو، قریش نے کہا محمّد ( مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم)جادو سے ہماری نظر بند کر دی ہے، اس پر انہیں کی جماعت کے لوگوں نے کہا کہ اگر یہ نظر بندی ہے تو باہر کہیں بھی کسی کو چاند کے دو حصّے نظر نہ آئے ہوں گے، اب جو قافلے آنے والے ہیں ان کی جستجو رکھو اور مسافروں سے دریافت کرو، اگر دوسرے مقامات سے بھی چاند شق ہونا دیکھا گیا ہے تو بے شک معجزہ ہے چنانچہ سفر سے آنے والوں سے دریافت کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے دیکھا کہ اس روز چاند کے دو حصّے ہو گئے تھے، مشرکین کو انکار کی گنجائش نہ رہی اور وہ جاہلانہ طور پر جادو ہی جادو کہتے رہے، صحاح کی احادیثِ کثیرہ میں اس معجزۂ عظیمہ کا بیان ہے اور خبر اس درجۂ شہرت کو پہنچ گئی ہے کہ اس کا انکار کرنا عقل و انصاف سے دشمنی اور بے دینی ہے۔

(۲) اور اگر دیکھیں (ف ۴) کوئی نشانی تو منہ پھیرتے  (ف ۵) اور کہتے  ہیں یہ تو جادو ہے  چلا آتا۔

۴                 اہلِ مکّہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صدق و نبوّت پر دلالت کرنے والی۔

۵                 اس کی تصدیق اور نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے سے۔

(۳) اور انہوں نے  جھٹلایا (ف ۶) اور اپنی خواہشوں کے  پیچھے  ہوئے  (ف ۷) اور ہر کام قرار پا چکا ہے  (ف ۸)

۶                 نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو اور ان معجزات کو جو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔

۷                 ان اباطیل کے جو شیطان نے ان کے دل نشین کیں تھیں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے معجزات کی تصدیق کی تو ان کی سرداری تمام عالَم میں مسلّم ہو جائے گی اور قریش کی کچھ بھی عزّت و قدر باقی نہ رہے گی۔

۸                 وہ اپنے وقت پر ہونے ہی والا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا دِین غالب ہو کر رہے گا۔

(۴) اور بیشک ان کے  پاس وہ خبریں آئیں (ف ۹) جن میں کافی روک تھی (ف ۱۰)

۹                 پچھلی امّتوں کی جو اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے کے سبب ہلاک کئے گئے۔

۱۰               کفر و تکذیب سے اور انتہا درجہ کی نصیحت۔

(۵) انتہاء کو پہنچی ہوئی حکمت پھر کیا کام دیں ڈر سنانے  والے۔

(۶)  تو تم ان سے  منہ پھیر لو (ف ۱۱) جس دن بلانے  والا (ف ۱۲) ایک سخت بے  پہچانی بات کی طرف بلائے  گا (ف ۱۳)

۱۱               کیونکہ وہ نصیحت و انداز سے پند پذیر ہونے والے نہیں۔ (وَکَانَ ھٰذَا قَبْلَ الْاَمْرِ بِالْقِتَالِ ثُمَّ نُسِخَ)

۱۲               یعنی حضرت اسرافیل علیہ السلام صخرۂ بیتُ المقدِس پر کھڑے ہو کر۔

۱۳               جس کی مثل سختی کبھی نہ دیکھی ہو گی اور وہ ہولِ قیامت و حساب ہے۔

(۷) نیچی آنکھیں کیے  ہوئے  قبروں سے  نکلیں گے  گویا وہ ٹڈی ہیں پھیلی ہوئی (ف ۱۴)

۱۴               ہر طرف خوف سے حیران، نہیں جانتے کہاں جائیں۔

(۸) بلانے  والے  کی طرف لپکتے  ہوئے  (ف ۱۵) کافر کہیں گے  یہ دن سخت ہے۔

۱۵               یعنی حضرت اسرافیل علیہ السلام کی آواز کی طرف۔

(۹) ان سے  (ف ۱۶) پہلے  نوح کی قوم نے  جھٹلایا تو ہمارے  بندہ (ف ۱۷) کو جھوٹا بتایا اور بولے  وہ مجنون ہے  اور اسے  جھڑکا (ف ۱۸)

۱۶               یعنی قریش سے۔

۱۷               نوح علیہ السلام۔

۱۸               اور دھمکایا کہ اگر تم اپنے پند و نصیحت اور وعظ و دعوت سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے، سنگسار کر ڈالیں گے۔

(۱۰) تو اس نے  اپنے  رب سے  دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے۔

(۱۱) تو ہم نے  آسمان کے  دروازے  کھول دیے   زور کے  بہتے  پانی سے  (ف ۱۹)

۱۹               جو چالیس روز تک نہ تھما۔

(۱۲) اور زمین چشمے  کر کے  بہا دی  (ف ۲۰) تو دونوں پانی (ف ۲۱) مل گئے  اس مقدار پر جو  مقدر تھی (ف ۲۲)

۲۰               یعنی زمین سے اس قدر پانی نکلا کہ تمام زمین مثل چشموں کے ہو گئی۔

۲۱               آسمان سے برسنے والے اور زمین سے ابلنے والے۔

۲۲               اور لوحِ محفوظ میں مکتوب تھی کہ طوفان اس حد تک پہنچے گا۔

(۱۳) اور ہم نے  نوح کو سوار کیا (ف ۲۳) تختوں اور کیلوں وا لی پر کہ

۲۳               ایک کَشتی۔

(۱۴) ہماری نگاہ کے  روبرو بہتی (ف ۲۴) اس کے  صلہ میں (ف ۲۵) جس کے  ساتھ کفر کیا گیا تھا۔

۲۴               ہماری حفاظت میں۔

۲۵               یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے۔

(۱۵) اور ہم نے  اس  (ف ۲۶) نشانی چھوڑا تو ہے  کوئی دھیان کرنے  والا (ف ۲۷)

۲۶               یعنی اس واقعہ کو کہ کفّار غرق کر کے ہلاک کر دیئے گئے اور حضرت نوح علیہ السلام کو نجات دی گئی۔ اور بعض مفسّرین کے نزدیک تَرَکْنٰھَا کی ضمیر کَشتی کی طرف رجوع کرتی ہے۔ قتادہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کَشتی کو سرزمینِ جزیرہ میں اور بعض کے نزدیک جو دی پہاڑ پر مدّتوں باقی رکھا یہاں تک کہ ہماری امّت کے پہلے لوگوں نے اس کو دیکھا۔

۲۷               جو پند پذیر ہو اور عبرت حاصل کرے۔

(۱۶) تو کیسا ہوا میرا عذاب اور میری دھمکیاں۔

(۱۷) اور بیشک ہم نے  قرآن یاد کرنے  کے  لیے  آسان فرما دیا تو ہے  کوئی یاد کرنے  والا (ف ۲۸)

۲۸               اس آیت میں قرآنِ کریم کی تعلیم و تعلّم اور اس کے ساتھ اشتغال رکھنے اور اسکو حفظ کرنے کی ترغیب ہے اور یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ قرآن یاد کرنے والے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہوتی ہے اور اس کا حفظ سہل و آسان فرما دینے ہی کا ثمرہ ہے کہ بچّے تک اس کو یاد کر لیتے ہیں سوائے اس کے کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں ہے جو یاد کی جاتی ہو اور سہولت سے یاد ہو جاتی ہو۔

(۱۸) عاد نے  جھٹلایا (ف ۲۹) تو کیسا ہوا میرا عذاب اور میرے  ڈر دلانے  کے  فرمان (ف ۳۰)

۲۹               اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کو اس پر وہ مبتلائے عذاب کئے گئے۔

۳۰               جو نزولِ عذاب سے پہلے آ چکے تھے۔

(۱۹) بیشک ہم نے  ان پر ایک سخت آندھی بھیجی (ف ۳۱) ایسے  دن میں جس کی نحوست ان پر ہمیشہ کے  لیے  رہی (ف ۳۲)

۳۱               بہت تیز چلنے والی، نہایت ٹھنڈی، سخت سناٹے والی۔

۳۲               حتّیٰ کہ ان میں کوئی نہ بچا، سب ہلاک ہو گئے اور وہ دن مہینہ کا پچھلا بدھ تھا۔

(۲۰) لوگوں کو یوں دے  مارتی تھی کہ گویا اکھڑی ہوئی کھجوروں کے  ڈنڈ (سوکھے  تنے ) ہیں

(۲۱) تو کیا کیسا ہوا  میرا  عذاب اور ڈر کے  فرمان۔

(۲۲) اور بیشک ہم نے  آسان کیا قرآن یاد کرنے  کے  لیے  تو ہے  کوئی یاد کرنے  والا۔

(۲۳) ثمود نے  رسولوں کو جھٹلایا (ف ۳۳)

۳۳               اپنے نبی حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کا انکار کر کے اور ان پر ایمان نہ لا کر۔

(۲۴) تو بولے  کیا ہم اپنے  میں کے  ایک آدمی کی تابعداری کریں (ف ۳۴) جب تو ہم ضرور گمراہ اور دیوانے  ہیں (ف ۳۵)

۳۴               یعنی ہم بہت سے ہو کر ایک آدمی کے تابع ہو جائیں، ہم ایسا نہ کریں گے کیونکہ اگر ایسا کریں۔

۳۵               یہ انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کا کلام لوٹایا، آپ نے ان سے فرمایا تھا کہ اگر تم نے میرا اتباع نہ کیا تو تم گمراہ و بے عقل ہو۔

(۲۵) کیا ہم سب میں سے  اس پر (ف ۳۶) بلکہ یہ (ف ۳۷) سخت جھوٹا اترونا (شیخی باز) ہے  (ف ۳۸)

۳۶               یعنی حضرت صالح علیہ السلام پر۔

۳۷               وحی نازل کی گئی اور کوئی ہم میں اس قابل ہی نہ تھا۔

۳۸               کہ نبوّت کا دعویٰ کر کے بڑا بننا چاہتا ہے، اللہ تعالی فرماتا ہے۔

(۲۶) بہت جلد کل جان جائیں گے  (ف ۳۹) کون تھا بڑا جھوٹا اترونا (شیخی باز)

۳۹               جب عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔

(۲۷) ہم ناقہ بھیجنے  والے  ہیں انکی جانچ کو (ف ۴۰) تو اے  صالح! تو راہ دیکھ (ف ۴۱) اور صبر کر (ف ۴۲)

۴۰               یہ اس پر فرمایا گیا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے آپ سے یہ کہا تھا کہ آپ پتھر سے ایک ناقہ نکال دیجئے، آپ نے ان کے ایمان کی شرط کر کے یہ بات منظور کر لی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ناقہ بھیجنے کا وعدہ فرمایا اور حضرت صالح علیہ السلام سے ارشاد کیا۔

۴۱               کہ وہ کیا کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے۔

۴۲               ان کی ایذا پر۔

(۲۸) اور انہیں خبر دے  دے  کہ پانی ان میں حصوں سے  ہے  (ف ۴۳) ہر حصہ پر وہ حاضر ہو جس کی باری ہے  (ف ۴۴)

۴۳               ایک دن ان کا، ایک دن ناقہ کا۔

۴۴               جو دن ناقہ کا ہے اس دن ناقہ حاضر ہو، اور جو دن قوم کا ہے اس دن قوم پانی پر حاضر ہو۔

(۲۹) تو انہوں نے  اپنے  ساتھی کو (ف ۴۵) پکارا تو اس نے  (ف ۴۶) لے  کر اس کی کونچیں کاٹ دیں (ف ۴۷) (۳۰) پھر کیسا  ہوا  میرا عذاب اور ڈر کے  فرمان (ف ۴۸)

۴۵               یعنی قدار بن سالف کو ناقہ کے قتل کرنے کے لئے۔

۴۶               تیز تلوار۔

۴۷               اور اس کو قتل کر ڈالا۔

(۳۱) بیشک ہم نے  ان پر ایک چنگھاڑ بھیجی (ف ۴۹) جبھی وہ ہو گئے  جیسے  گھیرا  بنانے  والے  کی بچی ہوئی گھاس سوکھی روندی ہوئی (ف ۵۰)

۴۸               جو نزولِ عذاب سے پہلے میری طرف سے آئے تھے اور اپنے موقع پر واقع ہوئے۔

۴۹               یعنی فرشتہ کی ہولناک آواز۔

۵۰               یعنی جس طرح چرواہے جنگل میں اپنی بکریوں کی حفاظت کے لئے گھاس، کا نٹوں کا احاطہ بنا لیتے ہیں اس میں سے کچھ گھاس بچی رہ جاتی ہے اور وہ جانوروں کے پاؤں میں روند کر ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، یہ حالت ان کی ہو گئی۔

(۳۲) اور بیشک ہم نے  آسان کیا قرآن یاد کرنے  کے  لیے  تو ہے  کوئی یاد کرنے  والا۔

(۳۳) لوط کی قوم نے  رسولوں کو جھٹلایا۔

(۳۴) بیشک ہم نے  ان پر (ف ۵۱) پتھراؤ بھیجا (ف ۵۲)  سوائے   لو  ط کے  گھر والوں کے  (ف ۵۳) ہم نے  انہیں پچھلے  پہر (ف ۵۴) بچا لیا۔

۵۱               اس تکذیب کی سزا میں۔

۵۲               یعنی ان پر چھوٹے چھوٹے سنگریزے برسائے۔

۵۳               یعنی حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی دونوں صاحبزادیاں اس عذاب سے محفوظ رہیں۔

۵۴               یعنی صبح ہونے سے پہلے۔

(۳۵) اپنے  پاس کی نعمت فرما کر، ہم یونہی صلہ دیتے  ہیں  اسے  جو شکر کرے  (ف ۵۵)

۵۵               اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اور شکر گزار وہ ہے جو اللہ پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور ان کی اطاعت کرے۔

(۳۶) اور بیشک اس نے  (ف ۵۶)  انہیں ہماری گرفت سے  (ف ۵۷)  ڈرایا تو انہوں نے  ڈر کے  فرمانوں میں شک کیا (ف ۵۸)

۵۶               یعنی حضرت لوط علیہ السلام نے۔

۵۷               ہمارے عذاب سے۔

۵۸               اور ان کی تصدیق نہ کی۔

(۳۷) انہوں نے  اسے  اس کے  مہمانوں سے  پھسلانا چاہا (ف ۵۹) تو ہم نے  ان کی آنکھیں میٹ دی (چوپٹ کر دیں ) (ف ۶۰) فرمایا چکھو میرا  عذاب اور ڈر کے  فرمان (ف ۶۱)

۵۹               اور حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہمارے اور اپنے مہمانوں کے درمیان د خیل نہ ہوں، انہیں ہمارے حوالہ کر دیں اور یہ انہوں نے نیّتِ فاسد اور خبیث ارادہ سے کہا تھا اور مہمان فرشتے تھے، انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ آپ انہیں چھوڑ دیجئے، گھر میں آنے دیجئے، جبھی وہ گھر میں آئے تو حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک دستک دی۔

۶۰               فوراً وہ اندھے ہو گئے اور آنکھیں ایسی ناپید ہو گئیں کہ نشان بھی باقی نہ رہا، چہرے سپاٹ ہو گئے، حیرت زدہ مارے مارے پھرتے تھے، دروازہ ہاتھ نہ آتا تھا، حضرت لوط علیہ السلام نے انہیں دروازے سے باہر کیا۔

۶۱               جو تمہیں حضرت لوط علیہ السلام نے سنائے تھے۔

(۳۸) اور بیشک صبح تڑکے  ان پر ٹھہرنے  والا عذاب آیا (ف ۶۲)

۶۲               جو عذاب آخرت تک باقی رہے گا۔

(۳۹) تو چکھو میرا  عذاب اور ڈر کے  فرمان۔

(۴۰)  اور بیشک ہم نے  آسان کیا قرآن یاد کرنے  کے  لیے  تو ہے  کوئی یاد کرنے  والا۔

(۴۱) اور بیشک فرعون والوں کے  پاس رسول آئے  (ف ۶۳)

۶۳               حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام، تو فرعونی ان پر ایمان نہ لائے۔

(۴۲) انہوں نے  ہماری سب نشانیاں جھٹلائیں (ف ۶۴) تو ہم نے  ان پر (ف ۶۵) گرفت کی جو ایک عزت والے  اور عظیم قدرت والے  کی شان تھی۔

۶۴               جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دی گئیں تھیں۔

۶۵               عذاب کے ساتھ۔

(۴۳) کیا (ف ۶۶) تمہارے  کافر ان سے  بہتر ہیں (ف ۶۷) یا کتابوں میں تمہاری چھٹی لکھی ہوئی ہے  (ف ۶۸)

۶۶               اے اہلِ مکّہ۔

۶۷               یعنی ان قوموں سے زیادہ قوی و توانا ہیں، یا کفر و عناد میں کچھ ان سے کم سے ہیں۔

۶۸               کہ تمہارے کفر کی گرفت نہ ہو گی اور تم عذابِ الٰہی سے امن میں رہو گے۔

(۴۴) یا یہ کہتے  ہیں (ف ۶۹) کہ ہم سب مل کر بدلہ لے  لیں گے  (ف ۷۰)

۶۹               کفّارِ مکّہ۔

۷۰               سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے۔

(۴۵) اب بھگائی جاتی ہے  یہ جماعت (ف ۷۱) اور پیٹھیں پھیر دیں گے  (ف ۷۲)

۷۱               کفّارِ مکّہ کی۔

۷۲               اور اس طرح بھاگیں گے کہ ایک بھی قائم نہ رہے گا۔ شانِ نزول : روزِ بدر جب ابوجہل نے کہا کہ ہم سب مل کر بدلہ لیں گے، یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے زرہ پہن کر یہ آیت تلاوت فرمائی، پھر ایسا ہی ہوا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی فتح ہوئی اور کفّار کو ہزیمت ہوئی۔

(۴۶) بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے  (ف ۷۳) اور قیامت نہایت کڑوی اور سخت کڑوی (ف ۷۴)

۷۳               یعنی اس عذاب کے بعد انہیں روزِ قیامت کے عذاب کا وعدہ ہے۔

۷۴               دنیا کے عذاب سے اس کا عذاب بہت زیادہ اشدّ۔

(۴۷) بیشک مجرم گمراہ اور دیوانے  ہیں (ف ۷۵)

۷۵               نہ سمجھتے ہیں، نہ راہ یاب ہوتے ہیں، (تفسیر کبیر)

(۴۸) جس دن آگ میں اپنے  مونہوں پر گھسیٹے  جائیں گے  اور فرمایا جائے  گا، چکھو دوزخ کی آنچ۔

(۴۹) بیشک ہم نے  ہر چیز ایک اندازہ سے  پیدا فرمائی (ف ۷۶)

۷۶               حسبِ اقتضائے حکمت۔

 شانِ نزول : یہ آیت قَدریوں کے رد میں نازل ہوئی جو قدرتِ الٰہی کے منکِر ہیں اور حوادث کو کواکب وغیرہ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مسائلِ احادیث میں انہیں اس امّت کا مجوس فرمایا گیا اور ان کے پاس بیٹھنے اور ان کے ساتھ کلام شروع کرنے اور وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت کرنے اور مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک ہونے کی ممانعت فرمائی گئی اور انہیں دجّال کا ساتھی فرمایا گیا، وہ بدترین خَلق ہیں۔

(۵۰) اور ہمارا کام تو ایک بات کی بات ہے  جیسے  پلک مارنا (ف ۷۷)

۷۷               جس چیز کے پیدا کرنے کا ارادہ ہو وہ حکم کے ساتھ ہی ہو جاتی ہے۔

(۵۱) اور بیشک ہم نے  تمہاری وضع کے  (ف ۷۸) ہلاک کر دیے  تو ہے  کوئی دھیان کرنے  والا (ف ۷۹)

۷۸               کفّار پہلی امّتوں کے۔

۷۹               جو عبرت حاصل کریں اور پند پذیر ہوں۔

(۵۲) اور انہوں نے  جو کچھ کیا سب کتابوں میں ہے  (ف ۸۰)

۸۰               یعنی بندوں کے تمام افعال، حافظِ اعمال فرشتوں کے نوشتوں میں ہیں۔

(۵۳) اور ہر چھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے  (ف ۸۱)

۸۱               لوحِ محفوظ میں۔

(۵۴) بیشک پرہیزگار باغوں اور نہر میں ہیں۔

(۵۵)  سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے  بادشاہ کے  حضور (ف ۸۲)

۸۲               یعنی اس کی بارگاہ کے مقرّب ہیں۔