اس سورۃ کا نام المجادَلہ بھی ہے المجادِلہ بھی۔ یہ نام پہلی ہی آیت کے لفظ تجادِلک سے ماخوذ ہے۔ چونکہ سورۃ کے آغاز میں ان خاتون کا ذکر آیا ہے جنہوں نے اپنے شوہر کے ظہار کا قضیہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کر کے بار بار اصرار کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی صورت بتائیں جس سے ان کی اور ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے اصرار کو لفظ مجادلہ سے تعبیر فرمایا ہے، اس لیے یہی اس سورۃ کا نام قرار دیا گیا۔ اس کو اگر مجادَلہ پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے ’’بحث و تکرار‘‘ اور مُجادِلہ پڑھا جائے تو معنی ہوں گے ’’بحث و تکرار کرنے والی ‘‘۔
کسی روایت میں اس امر کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ مجادلہ کا یہ واقعہ کب پیش آیا تھا۔ اگر ایک علامت اس سورہ کے مضمون میں ایسی ہے جس کی بنا پر یہ بات تعین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اس کی زمانہ غزوۂ احزاب (شوال ۵ ھ ) کے بعد کا ہے۔ سورۂ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کے حقیقی بیٹا ہونے کی نفی کرتے ہوئے صرف یہ اشارہ فرما کر چھوڑ دیا تھا کہ وَمَاجَعلَ ازْوَاجَکُم الّیٰٔ تظٰھِرون منھنّ امّھتکم (اور اللہ نے تمہاری ان بیویوں کو جن سے تم ظِہار کرتے ہوئے تمہاری مائیں نہیں بنا دیا ہے )۔ مگر اس میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ظِہار کرنا کوئی گناہ یا جرم ہے، اور یہ بتایا گیا تھا کہ اس فعل کا شرعی حکم کیا ہے۔ بخلا اس کے اس سورہ میں ظِہار کا پورا قانون بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفصل احکام اس مجمل ہدایت کے بعد نازل ہوئے ہیں۔
اس سورۃ میں مسلمانوں کو ان مختلف مسائل کے متعلق ہدایت دی گئی ہیں جو اس وقت درپیش تھے۔
آغاز سورۃ سے آیت ۶ تک ظِہار کے شرعی احکام بیان کیے گئے ہیں، اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو پوری سختی کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ اسلام کے بعد بھی جاہلیت کے طریقوں پر قائم رہنا اور اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو توڑنا، یا ان کی پابندی سے انکار کرنا، یا ان کے مقابلہ میں خود اپنی مرضی سے کچھ اور قاعدے اور قوانین بنا لینا، قطعی طور پر ایمان کے منافی حرکت ہے، جس کی سزا دنیا میں بھی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت میں بھی اس پر سخت باز پرس ہونی ہے۔
آیات ۷ تا ۱۰ میں منافقین کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ وہ آپس میں خفیہ سرگرمیاں کر کے طرح طرح کی شرارتوں کے منصوبے بناتے تھے، اور ان کے دلوں میں جو بغض چھپا ہوا تھا اس کی بنا ر رسول ﷺ کو یہودیوں کی طرح ایسے طریقے سلام کرتے تھے جس سے دعا کے بجائے بددعا کا پہلو نکلتا تھا۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ منافقین کی یہ سرگوشیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، اس لیے تم اللہ کے بھروسے پر اپنا کام کرتے رہو۔ا ور اس کے ساتھ ان کو یہ اخلاقی تعلیم بھی دی گئی ہے کہ سچے اہل ایمان کا کام گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشیاں کرنا نہیں ہے، وہ اگر آپس میں بیٹھ کر تخلیے میں کوئی بات کریں بھی تو وہ نیکی اور تقویٰ کی بات ہونی چاہیئے۔
آیت ۱۱ تا ۱۳ میں مسلمانوں کو مجلسی تہذیب کے کچھ آداب سکھائے گئے ہیں اور بعض ایسے معاشرتی عیوب کو دور کرنے کے لیے ہدایات دی گئی ہیں جو پہلے بھی لوگوں میں پائے جاتے اور آج بھی پائے جاتے ہیں کہ کسی مجلس میں اگر بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے ہوں اور باہر سے کچھ لوگ آ جائیں تو پہلے سے بیٹھے ہوئے اصحاب اتنی سی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ ذرا سمٹ کر بیٹھ جائیں اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کر دیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد کے آنے والے کھڑے رہ جاتے ہیں، یا دہلیز میں بیٹھنے پر مجور ہوتے ہیں، یا واپس چلے جاتے ہیں، یا یہ دیکھ کر کہ مجلس میں ابھی کافی گنجائش موجود ہے، حاضرین کے اوپر سے پھاند تے ہوئے اندر گھستے ہیں۔ یہ صورتِ حال نبیﷺ کی مجلسوں میں اکثر پیش آتی رہتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ ہدایت فرمائیں کہ اپنی مجلسوں میں خود غرضی اور تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا کریں بلکہ بعد کے آنے والوں کو کھلے دل سے جگہ دے دیا کریں۔
اسی طرح ایک عیب لوگوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کے ہاں (خصوصاً کسی اہم شخصیت کے ہاں ) جاتے ہیں تو جم کر بیٹھ جاتے ہیں اور اس بات کا کچھ خیال نہیں کرتے کہ ضرورت سے زیادہ اس کا وقت لینا اس کے لیے باعث زحمت ہو گا۔ اگر وہ کہے کہ حضرت اب تشریف لے جائیے تو برا مانتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر اٹھ جائے تو بد اخلاقی کی شکایت کرتے ہیں۔ اشارے کنایے سے ان کو بتائے کہ اب کچھ دوسرے ضروری کاموں کے لیے اس کو وقت ملنا چاہئے تو سنی اَن سنی کر جاتے ہیں۔ لوگوں کے اس طرز عمل سے خود نبیﷺ کو بھی سابقہ پیش آتا تھا اور آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کے شوق میں اللہ کے بندے اس بات کا لحاظ نہیں کرتے تھے کہ وہ بہت زیادہ قیمتی کاموں کا نقصان کر رہے ہیں۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ تکلیف دہ عادت چھڑانے کے لیے حکم دیا کہ جب مجلس برخاست کرنے کے لیے کہا جائے تو اٹھ جایا کرو۔
ایک اور عجیب لوگوں میں یہ بھی تھا کہ ایک ایک آدمی آ کر خواہ مخواہ حضور سے تخلیہ میں بات کرنے کی خواہش کرتا تھا یا مجلس عام میں یہ چاہتا تھا کہ آپ کے قریب جا کر سرگوشی کے انداز میں آپ سے بات کرے۔ یہ چیز حضورﷺ کے لیے بھی تکلیف دہ تھی اور دوسرے لوگ جو مجلس میں موجود ہوتے، ان کو بھی ناگوار ہوتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو شخص بھی آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے۔ اس سے مقصود صرف یہ تھا کہ لوگوں کو اس بری عادت پر متنبہ کیا جائے تاکہ وہ اسے چھوڑ دیں۔ چنانچہ یہ پابندی بس تھوڑی دیر تک باقی رکھی گئی اور جب لوگوں نے اپنا طرز عمل درست کر لیا تو اسے منسوخ کر دیا گیا۔
آیت ۱۴ سے آخر سورہ تک مسلم معاشرے کے لوگوں کو جن میں مخلص اہل ایمان اور منافقین اور مذبذبین سب ملے جلے تھے، بالکل دو ٹوک طریقے سے بتایا گیا کہ دین میں آدمی کے مخلص ہونے کا معیار کیا ہے۔ ایک قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں، اپنے مفاد کی خاطر اس دین سے غداری کرنے میں کوئی تامل نہیں کرے جس پر ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اسلام کے خلاف طرح طرح کے شبہات اور وسوسے پھیلا کر اللہ کے بندوں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں، مگر چونکہ وہ مسلمانوں کے گروہ میں شامل ہیں، اس لیے ان کا جھوٹا اقرار ایمان ان کے لیے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی اور کا لحاظ تو درکنا، خود اپنے باپ، بھائی، اور اولاد اور خاندان تک کی پروا نہیں کرتے۔ ان کا حال یہ ہے کہ جو خدا اور رسول اور اس کے دین کا دشمن ہے اس کے لیے ان کے دل میں کوئی محبت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں صاف فرما دیا ہے کہ پہلی قسم کے لوگ چاہے کتنی ہی قسمیں کھا کھا کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین دلائیں، درحقیقت وہ شیطان کی پارٹی کے لوگ ہیں، اور اللہ کی پارٹی میں شامل ہونے کا شرف صرف دوسری قسم کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ وہی سچے مومن ہیں۔ ان ہی سے اللہ راضی ہے۔ فلاح وہی پانے والے ہیں۔
۔ یہاں سننے سے محض سن لینا نہیں ہے بلکہ فریاد رسی کرنا ہے، جیسے ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں اللہ نے دُعا سن لی اور اس سے مراد دعا قبول کر لینا ہوتا ہے۔
۲۔عام طور پر مترجمین نے ا مقام پر مجادلہ کر رہی تھی، فریاد کر رہی تھی، اور اللہ سن رہا تھا ترجمہ کیا ہے جس سے پڑھنے والے کا ذہن یہ مفہوم اخذ کرتا ہے کہ وہ خاتون اپنی شکایت سنا کر چلی گئی ہوں گی اور بعد میں کسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی آئی ہو گی، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس عورت کی بات ہم نے سن لی جو تم سے تکرار اور ہم سے فریاد کر رہی تھی، اور ہم اس وقت تم دونوں کی بات سن رہے تھے۔ لیکن اس واقعہ کے متعلق جو روایات احادیث میں آئی ہیں ان میں سے اکثر میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وقت وہ خاتون اپنے شوہر کے ظِہار کا قصہ سنا سنا کا بار بار حضورﷺ سے عرض کر رہی تھیں کہ اگر ہم دونوں کی جدائی ہو گئی تو میں مصیبت میں پڑ جاؤں گی اور میرے بچے تباہ ہو جائیں گے، عین اسی حالت میں رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس بنا پر ہم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ترجمہ حال کے صیغوں میں کیا جائے۔
یہ خاتون جن کے معاملہ میں آیات نازل ہوئی ہیں قبیلہ خَزرَج کی خَولہ بنت ثعلبہ تھیں، اور ان کے شوہر اَوْس بن صامِت انصاری، قبیلہ اَوس کے سردار حضرت عبادہ بن صامِت کے بھائی تھے۔ ان کے ظہار کا قصہ آگے چل کر ہم تفصیل کے ساتھ نقل کریں گے۔ یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان صحابیہ کی فریاد کا بار گاہِ الٰہی میں مسموع ہونا اور فوراً ہم وہاں سے ان کی فریاد رسی کے لیے فرمان مبارک نازل ہو جانا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کو ایک خاص قدر و منزلت حاصل ہو گئی تھی۔ ابن ای حاتم و بیہقی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کچھ اصحاب کے ساتھ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں ایک عورت ملی اور اس نے ان کو روکا۔ آپ فوراً رک گئے۔ سر جھکا کر دیر تک اس کی بات سنتے رہے اور جب تک اس نے بات ختم نہ کر لی آپ کھڑے رہے۔ ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے عرض کیا امیر المومنین، آپ نے قریش کے سرداروں کو اس بڑھیا کے لیے اتنی دیر روکے رکھا۔ فرمایا جانتے بھی ہو یہ کون ہے؟ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہے۔ یہ وہ عورت ہے جس کی شکایت سات آسمانوں پر سنی گئی۔ خدا کی قسم، اگر یہ رات تک مجھے کھڑا رکھتی تو میں کھڑا رہتا، بس نمازوں کے اوقات پر اس سے معرت کر دیتا۔ ابن عبدالبر نے اِستعیاب میں قتادہ کی روایت نقل کی ہے کہ یہ خاتون راستہ میں حضرت عمرؓ کو ملیں تو آپ نے اِن کو سلام کیا۔ یہ سلام کا جواب دینے کے کہنے لگیں ’’اوہو، اے عمرؓ ایک وقت تھا جب میں نے تم کو بازار عکاظ میں دیکھا تھا۔ اس وقت تم عُمیر کہلاتے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلائے تھے۔ لاٹھی ہاتھ میں لیے بکریاں چراتے پھرتے تھے۔ پھر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ تم عمرؓ کہلانے لگے۔ پھر ایک وقت آیا تم امیر المومنین کہے جانے لگے۔ ذرا رعیت کے معاملہ میں اللہ سے ڈرتے رہو اور یاد رکھو کہ جو اللہ کی وعید سے ڈرتا ہے اس کے لیے دور کا آدمی بھی قریبی رشتہ داری کی طرح ہوتا ہے، اور جو موت سے ڈرتا ہے اس کے حق میں اندیشہ ہے کہ وہ اسی چیز کو کھودے گا جسے بچانا چاہتا ہے۔ ‘‘ اس پر جارودعَبْدِی، جو حضرت عمرؓ کے ساتھ تھے، بولے، اے عورت، تو نے امیر المومنینؓ کے ساتھ بہت زبان درازی کی۔ حضرت عمرؓ کو تو بدرجۂ اولیٰ سننی چاہیے۔ امام بخاریؒ نے بھی اپنی تاریخ میں اختصار کے ساتھ اس سے ملتا جلتا قصہ نقل کیا ہے۔
۳۔ عرب میں بسا اوقات یہ صورت پیش آتی تھی کہ شوہر اور بیوی میں لڑائی ہوتی تو شوہر غصے میں آ کر کہتا اَنتِ عَلَیّ کَظَہرِِِ اُمیّ۔ اس کے لغوی معنی تو یہ ہیں کہ ’’تو میرے اوپر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘،لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ’’تجھ سے مباشرت کرنا میرے لیے ایسا ہے جیسے میں اپنی ماں سے مباشرت کروں ‘‘۔ ا زمانے میں بی بہت سے نادان لوگ بیوی سے لڑ کر اس کو ماں، بہن، بیٹی سے تشبیہ دے بیٹھتے ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی گویا اب اسے بیوی نہیں بلکہ ان عورتوں کی طرح سمجھتا ہے جو اس کے لیے حرام ہیں۔ اسی فعل کا نام ظِہار ہے۔ ظَہر عربی زبان میں استعارے کے طور پر سواری کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً سواری کے جانور کو ظَہر کہتے ہیں، کیونکہ اس کی پیٹھ پر آدمی سوار ہوتا ہے چونکہ وہ لوگ بیوی کو اپنے اوپر حرام کرنے کے لیے کہتے تھے کہ تجھے ظَہر بنانا میرے اوپر ایسا حرام ہے جیسے اپنی ماں کو ظہر بنانا، اس لیے یہ کلمات زبان سے نکالنا ان کی اصطلاح میں ’’ظِہار‘‘ کہلاتا تھا۔ جاہلیت کے زمانہ میں اہل عرب کے ہاں یہ طلاق، بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید قطعِ تعلق کا اعلان سمجھا جاتا تھا، کیونکہ ان کے نزدیک اس کے معنی یہ تھے کہ شوہر اپنی بیوی سے نہ رف ازدواجی رشتہ توڑ رہا ہے بلکہ اسے ماں کی طرح اپنے اوپر حرام قرار دے رہا ہے۔ اسی بناء پر اہلِ عرب کے نزدیک طلاق کے بعد تو رجوع کی گنجائش ہو سکتی تھی، مگر ظِہار کے بعد رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا تھا۔
۴۔ یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیونکہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بناء پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی، اور اس کے بارے میں عقل اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔
۵۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرنا چاہئے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبردار رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیئے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور اَزواجِ نبیؐ کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ عورت کو جو اسکی بیوی رہ چکی ہے۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانون حکم نکلا کہ ظِہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔
۴۔ یہ ظہار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا پہلا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص منہ پھوڑ کر بیوی کو ماں سے تشبیہ دے دیتا ہے تو اس کے ایسا کہنے سے بیوی ماں نہیں ہو سکتی، نہ اس کو وہ حرمت حاصل ہو سکتی ہے جو ماں کو حاصل ہے۔ ماں کا ماں ہونا تو ایک حقیقی امر واقعہ ہے، کیوں کہ اس نے آدمی کو جنا ہے۔ اسی بنا پر اسے ابدی حرمت حاصل ہے۔ اب آخر وہ عورت جس نے اس کو نہیں جنا ہے، محض منہ سے کہہ دینے پر اس کی ماں کیسے ہو جائے گی، اور اس کے بارے میں عقل، اخلاق، قانون، کسی چیز کے اعتبار سے بھی وہ حرمت کیسے ثابت ہو گی جو اس امر واقعی کی بنا پر جننے والی ماں کے لیے ہے۔ اس طرح یہ بات ارشاد فرما کر اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے اس قانون کو منسوخ کر دیا جس کی رو سے ظہار کرنے والے شوہر سے اس کی بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا تھا اور وہ اس کے لیے ماں کی طرح قطعی حرام سمجھ لی جاتی تھی۔
۵۔ یعنی بیوی کو ماں سے تشبیہ دینا اول تو ایک نہایت ہی بیہودہ اور شرمناک بات ہے جس کا تصور بھی کسی شریف آدمی کو نہ کرنا چاہیے، کجا کہ وہ اسے زبان سے نکالے۔ دوسرے یہ جھوٹ بھی ہے۔ کیونکہ ایسی بات کہنے والا اگر یہ خبر دے رہا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے اب ماں ہو گئی ہے تو جھوٹی خبر دے رہا ہے۔ اور اگر وہ اپنا یہ فیصلہ سنا رہا ہے کہ آج سے اس نے اپنی بیوی کو ماں کی سی حرمت بخش دی ہے تو بھی اس کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے، کیونکہ خدا نے اسے یہ اختیارات نہیں دیے ہیں کہ جب تک چاہے ایک عورت کو بیوی کے حکم میں رکھے، اور جب چاہے اسے ماں کے حکم میں کر دے۔ شارع وہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہے، اور اللہ تعالیٰ نے جننے والی ماں کے ساتھ مادری کے حکم میں دادی، نانی، ساس، دودھ پلانے والی عورت اور ازواج نبیؐ کو شامل کیا ہے۔ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس حکم میں اپنی طرف سے کسی اور عورت کو داخل کر دے، کجا کہ اس عورت کو جو اس کی بیوی رہ چکی ہے۔۔۔۔۔ اس ارشاد سے یہ دوسرا قانونی حکم نکلا کہ ظہار کرنا ایک بڑا گناہ اور حرام فعل ہے جس کا مرتکب سزا کا مستحق ہے۔
۶۔ یعنی یہ حرکت تو ایسی ہے کہ اس پر آدمی کو بہت ہی سخت سزا ملنی چاہیے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اس نے اول تو ظہار کے معاملہ میں جاہلیت کے قانون کو منسوخ کر کے تمہاری خانگی زندگی کو تباہی سے بچا لیا، دوسرے اس فعل کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے وہ سزا تجویز کی جو اس جرم کی ہلکی سے ہلکی سزا ہو سکتی تھی، اور سب سے بڑی مہربانی یہ ہے کہ سزا کسی ضرب یا قید کی شکل میں نہیں بلکہ چند ایسی عبادات اور نیکیوں کی شکل میں تجویز کی جو تمہارے نفس کی اصلاح کرنے والی اور تمہارے معاشرے میں بھلائی پھیلانے والی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اسلام میں بعض جرائم اور گناہوں پر جو عبادات بطور کفارہ مقرر کی گئی ہیں وہ نہ محض سزا ہیں کہ عبادت کی روح سے خالی ہوں اور نہ محض عبادت ہیں کہ سزا کی اذیت کا کوئی پہلو ان میں نہ ہو، بلکہ ان میں یہ دونوں پہلو جمع کر دیے گئے ہیں، تاکہ آدمی کو اذیت بھی ہو اور ساتھ ساتھ وہ ایک نیکی اور عبادت کر کے اپنے گناہ کی تلافی بھی کر دے۔
۷۔ یہاں سے ظہار کے قانونی حکم کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ اس کی سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ظہار کے وہ واقعات نگاہ میں رہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک میں پیش آئے تھے، کیونکہ اسلام میں ظہار کا مفصل قانون انہی آیات اور ان فیصلوں سے ماخوذ ہے جو ان آیات کے نزول کے بعد حضورؐ نے پیش آمدہ واقعات میں صادر فرمائے۔
حضرت عبداللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اسلام میں ظہار کا پہلا واقعہ اوس بن صامت انصاری کا ہے جن کی بیوی خَوْلَہ کی فریاد پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ محدثین نے اس واقعہ کی جو تفصیلات متعدد راویوں سے نقل کی ہیں ان میں فروعی اختلافات تو بہت سے ہیں، مگر قانونی اہمیت رکھنے والے ضروری اجزاء قریب قریب متفق علیہ ہیں۔ خلاصہ ان روایات کا یہ ہے کہ حضرت اَوس بن صامت بڑھاپے میں کچھ چڑ چڑے بھی ہو گئے تھے اور بعض روایات کی رو سے ان کے اندر کچھ جنون کی سی لٹک بھی پیدا ہو گئی تھی جس کے لیے راویوں نے کَا نَ بِہٖ لَمَمٌ کے الفاظ استعمال کی ہیں۔ لَمَ عربی زبان میں دیوانگی کو نہیں کہتے بلکہ اس طرح کی ایک کیفیت کو کہتے ہیں جسے ہم اردو زبان میں ’’ غصے میں پاگل ہو جانے ’’ کے الفاظ سے تعبیر کرتے ہیں اس حالت میں وہ پہلے بھی متعدد مرتبہ اپنی بیوی سے ظہار کر چکے تھے، مگر اسلام میں یہ پہلا موقع تھا کہ بیوی سے لڑ کر ان سے پھر اس حرکت کا صدور ہو گیا۔ اس پر ان کی اہلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور سارا قصہ آپ سے بیان کر کے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، کیا میری اور میرے بچوں کی زندگی کو تباہی سے بچانے کے لیے رخصت کا کوئی پہلو نکل سکتا ہے؟ حضورؐ نے جو جواب دیا وہ مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ بعض روایات میں الفاظ یہ ہیں کہ ’’ ابھی تک اس مسئلے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے ‘‘۔ اور بعض میں یہ الفاظ ہیں کہ ’’میرا خیال یہ ہے کہ تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اور بعض میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا ’’تم اس پر حرام ہو گئی ہو‘‘۔ اس جواب کو سن کر وہ نالہ و فریاد کرنے لگیں۔ بار بار انہوں حضورؐ سے عرض کیا کہ انہوں نے طلاق کے الفاظ تو نہیں کہے ہیں، آپ کوئی صورت ایسی بتائیں جس سے میں اور میرے بچے اور میرے بوڑھے شوہر کی زندگی تباہ ہونے سے بچ جائے۔ مگر ہر مرتبہ حضورؐ ان کو وہی جواب دیتے رہے۔ اتنے میں آپ پر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوئی اور یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس کے بعد آپ نے ان سے کہا (اور بعض روایات کی رو سے ان کے شوہر کو بلا کر ان سے فرمایا) کہ ایک غلام آزاد کرنا ہو گا۔انہوں نے اس سے معذوری ظاہر کی، تو فرمایا دو مہینے کے لگاتار روزے رکھنے ہوں گے۔ انہوں نے عرض کیا کہ اوس کا حال تو یہ ہے کہ دن میں تین مرتبہ کھائیں نہیں تو ان کی بینائی جواب دینے لگتی ہے۔ آپ نے فرمایا پھر ۶۰ مسکینوں کو کھانا دینا پڑے گا۔ انہیں نے عرض کیا وہ اتنی مقدرت نہیں رکھتے، الا یہ کہ آپ مدد فرمائیں تب آپ نے انہیں اتنی مقدار میں سامان خوراک عطا فرمایا جو ۶۰ آدمیوں کی دو وقت کی غذا کے لیے کافی ہو۔ اس کی مقدار مختلف روایات میں مختلف بیان کی گئی ہے، اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جتنی مقدار حضورؐ نے عطا فرمائی اتنی ہی خود حضرت خولہ نے اپنے شوہر کو دی تاکہ وہ کفا رہ ادا کر سکیں (ابن جریر، مسند احمد، ابوداؤد، ابن ابی حاتم )۔
ظہار کا دوسرا واقعہ الَمہ بن صخر بَیاضی کا ہے۔ ان صاحب پر اعتدال سے کچھ زیادہ شہوت کا غلبہ تھا۔ رمضان آیا تو انہوں نے اس اندیشہ سے کہ کہیں روزے کی حالت میں دن کے وقت بے صبری نہ کر بیٹھیں رمضان کے اختتام تک کے لیے بیوی سے ظہار کر لیا۔ مگر اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور ایک رات بیوی کے پاس چلے گئے۔ پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ماجرا عرض کیا۔ آپ نے فرمایا ایک غلام آزاد کرو۔ انہوں نے کہا میرے پاس تو اپنی بیوی کے سوا کوئی نہیں جسے آزاد کر دوں۔ فرمایا دو مہینے کے مسلسل روزے رکھو۔ انہوں نے عرض کیا کہ روزوں ہی میں تو صبر نہ کر سکنے کی وجہ سے اس مصیبت میں پھنسا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا پھر ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ انہوں نے کہا ہم تو اس قدر غریب ہیں کہ رات بے کھائے سوئے ہیں۔ اس پر آپ نے بنی زَرَیق کے محصلِ زکوٰۃ سے ان کو اتنا سامان خوراک دلوایا کہ ۶۰ آدمیوں میں بانٹ دیں اور کچھ اپنے بال بچوں کی ضروریات کے لیے بھی رکھ لیں (مسند احمد، ابوداؤد۔ترمذی)۔
تیسرا واقعہ نام کی تصریح کے بغیر یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے ہی اس سے مباشرت کر لی۔ بعد میں حضورؐ سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے حکم دیا کہ اس سے الگ رہو جب تک کفارہ ادا نہ کر دو(ابوداؤد، ترمذی، نسائی۔ ابن ماجہ)۔
چوتھا واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو سنا کہ اپنی بیوی کو بہن کہہ کر پکار رہا ہے۔ اس پر آپ نے غصہ سے فرمایا’’ یہ تیری بہن ہے؟ ‘‘ مگر آپ نے اسے ظہار قرار نہیں دیا (ابوداؤد)۔
یہ چار معتبر واقعات ہیں جو مستند ذرائع سے احادیث میں ملتے ہیں اور انہیں کی مدد سے قرآن مجید کے اس حکم کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جو آگے کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔
۸۔ اصل الفاظ ہیں یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ پلٹیں اس بات کی طرف جو انہوں نے کہی‘‘۔ لیکن عربی زبان اور محاورے کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی میں بڑا اختلاف واقع ہو گیا ہے :
ایک مفہوم ان کا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ظہار کے الفاظ منہ سے نکل جانے کے بعد پھر ان کا اعادہ کریں۔ ظاہلر یہ اور بکیر بن الاشج، اور یحیٰ بن زیاد الْفَرّاء اسی کے قائل ہیں، اور عطاء بن ابی رباح سے بھی ایک قول اسی کی تائید میں منقول ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ایک دفعہ کا ظہار تو معاف ہے، البتہ آدمی اس کی تکرار کرے تب اس پر کفارہ لازم آتا ہے۔ لیکن یہ تفسیر دو وجوہ سے صریحاً غلط ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ظہار کو بیہودہ اور جھوٹی بات قرار دے کر اس کے لیے سزا تجویز فرمائی ہے۔ اب کیا یہ بات قابل تصور ہے کہ ایک مرتبہ جھوٹی اور بیہودہ بات آدمی کہے تو معاف ہو اور دوسری مرتبہ کہے تو سزا کا مستحق ہو جائے؟ دوسری وجہ اس کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہار کرنے والے کسی شخص سے بھی یہ سوال نہیں کیا کہ آیا اس نے ایک بار ظہار کیا ہے یا دو بار۔
دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں یہ حرکت کرنے کے عادی تھے وہ اگر اسلام میں اس کا اعادہ کریں تو اس کی یہ سزا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ظہار کرنا بجائے خود مستوجب سزا ہو اور جو شخص بھی اپنی بیوی کے لیے ظہار کے الفاظ منہ سے نکالے اس پر کفارہ لازم آ جائے، خواہ وہ اس کے بعد بیوی کو طلاق دے دے، یا اس کی بیوی مر جائے، یا اس کا کوئی ارادہ اپنی بیوی سے تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ فقہاء میں سے طاؤس، مجاہد، شعبی، زہری، سفیان ثوری اور قتادہ کا یہی مسلک ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد اگر عورت مر جائے تو شوہر اس وقت تک اس کی میراث نہیں پا سکتا جب تک کفارہ ادا نہ کر دے۔
تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ظہار کے الفاظ زبان سے نکالنے کے بعد آدمی پلٹ کر اس بات کا تدارک رکنا چاہے جو اس نے کہی ہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قالَ کے معنی ہیں کہنے والے نے اپنی بات سے رجوع کر لیا۔
چوتھا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو آدمی نے ظہار کر کے اپنے لی حرام کیا تھا اسے پلٹ کر پھر اپنے لیے حلال کرنا چاہے۔ بالفاظ دیگر عَادَلِمَا قَالَ کے معنی یہ ہے کہ جو شخص تحریم کا قال ہو گیا تھا وہ اب تحلیل کی طرف پلٹ آیا۔
اکثر و بیشتر فقہاء نے انہی دو مفہوموں میں سے کسی ایک کو ترجیح دی ہے۔
۹۔ بالفاظ دیگر یہ حکم تمہاری تادیب کے لیے دیا جا رہا ہے تاکہ مسلم معاشرے کے لوگ جاہلیت کی اس بری عادت کو چھوڑ دیں اور تم میں سے کوئی شخص اس بیہودہ حرکت کا ارتکاب نہ کرے۔ بیوی سے لڑنا ہے تو بھلے آدمیوں کی طرح لڑو۔ طلاق ہی دینا ہو تو سیدھی طرح طلاق دے دو۔ یہ آخر کیا شرافت ہے کہ آدمی جب بیوی سے لڑے تو اسے ماں بہن بنا کر ہی چھوڑے۔
۱۰۔ یعنی اگر آدمی گھر میں چپکے سے بیوی کے ساتھ ظہار کر بیٹھے اور پھر کفارہ ادا کیے بغیر میاں اور بیوی کے درمیان جب سابق زوجیت کے تعلقات چلتے رہیں، تو چاہے دنیا میں کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہو، اللہ کو تو بہر حال اس کی خبر ہو گی اللہ کے مواخذہ سے بچ نکلنا ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ہے۔
۱۱۔ یہ ہے ظہار کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم۔ فقہائے اسلام نے اس آیت کے الفاظ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلوں، اور اسلام کے اصول عامہ سے اس مسئلے میں جو قانون اخذ کیا ہے اس کی تفصیلات یہ ہیں :
(۱) ظہار کا یہ قانون عرب جاہلیت کے اس رواج کو منسوخ کرتا ہے جس کی رو سے یہ فعل نکاح کے رشتے کو توڑ دیتا تھا اور عورت شوہر کے لیے ابداً حرام ہو جاتی تھی۔ اسی طرح یہ قانون ان تمام قوانین اور رواجوں کو بھی منسوخ کرتا ہے جو ظہار کو بے معنی اور بے اثر سمجھتے ہوں اور آدمی کے لیے اس بات کو جائز رکھتے ہوں کہ وہ اپنی بیوی کا ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر بھی اس کے ساتھ حسب سابق زن و شَو کا تعلق جاری رکھے، کیونکہ اسلام کی نگاہ میں ماں اور دوسری محرمات کی حرمت ایسی معمولی چیز نہیں ہے کہ انسان ان کے اور بیوی کے درمیان مشابہت کا خیال بھی کرے، کجا کہ اس کے زبان پر لائے۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلامی قانون نے اس معاملہ میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ تین بنیادوں پر قائم ہے۔ ایک یہ کہ ظہار سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ عورت بدستور شوہر کی بیوی رہتی ہے۔ دوسرے یہ کہ ظہار سے عورت وقتی طور پر شوہر کے لیے حرام ہو جاتی ہے۔ تیسرے یہ یہ حرمت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک شوہر کفارہ ادا نہ کر دے، اور یہ کہ صرف کفارہ ہی اس حرمت کو رفع کر سکتا ہے۔
(۲) ظہار کرنے والے شخص کے بارے میں یہ امر متفق علیہ ہے کہ اس شوہر کا ظہار معتبر ہے جو عاقل و بالغ ہو اور بحالت ہوش و حواس ظہار کے الفاظ زبان سے ادا کرے۔ بچے اور مجنون کا ظہار معتبر نہیں ہے۔ نیز ایسے شخص کا ظہار بھی معتبر نہیں جو ان الفاظ کو ادا کرتے وقت اپنے ہوش و حواس میں نہ ہو، مثلاً سوتے میں بڑبڑائے، یا کسی نوعیت کی بیہوشی میں مبتلا ہو گیا ہو۔ اس کے بعد حسب ذیل امور میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے :
الف۔ نشے کی حالت میں ظہار کرنے والے کے متعلق ائمہ اربعہ سمیت فقہاء کی عظیم اکثریت کہ کہتی ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی نشہ آور چیز جان بوجھ کر استعمال کی ہو تو اس کا ظہار اس کی طلاق کی طرح قانوناً صحیح مانا جائے گا، کیونکہ اس نے یہ حالت اپنے اوپر خود طاری کی ہے۔ البتہ اگر مرض کی وجہ سے اس نے کوئی دوا پی ہو اور اس سے نشہ لاحق ہو گیا ہو، یا پیاس کی شدت میں وہ جان بچانے کے لیے شراب پینے پر مجبور ہوا ہو تو اس طرح کے نشے کی حالت میں اس کے ظہار و طلاق کو نافذ نہیں کیا جائے گا۔ احناف اور شوافع اور حنابلہ کی رائے یہی ہے اور صحابہ کا عام مسلک بھی یہی تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عثمانؓ کا قول یہ ہے کہ نشے کی حالت میں طلاق و ظہار معتبر نہیں ہے۔احناف میں سے امام طحاویؒ اور کَرْخیؒ اس قول کو ترجیح دیتے رہیں اور امام شافعیؒ کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے۔ مالکیہ کے نزدیک ایسے نشے کی حالت میں ظہار معتبر ہو گا جس میں آدمی بالکل بہک نہ گیا ہو، بلکہ وہ مربوط اور مرتب کلام کر رہا ہو اور اسے یہ احساس ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
ب۔ امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک ظہار صرف اس شورہ کا معتبر ہے جو مسلمان ہو۔ ذِمیوں پر ان احکام کا اطاق نہیں ہوتا، کیونکہ قرآن مجید میں اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْکُمْ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کا خطاب مسلمانوں سے ہے، اور تین قسم کے کفاروں میں سے ایک کفارہ قرآن میں روزہ بھی تجویز کیا گیا ہے جو ظاہر ہے کہ ذمیوں کے لیے نہیں ہو سکتا۔ امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک یہ احکام ذِمی اور مسلمان، دونوں کے ظہار پر نافذ ہوں گے، البتہ ذمی کے لیے روزہ نہیں ہے۔ وہ یا غلام آزاد کرے یا ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
ج۔ کیا مرد کی طرح عورت بھی ظہار کر سکتی ہے؟ مثلاً اگر وہ شوہر سے کہے کہ تو میرے لیے میرے باپ کی طرح ہے، یا میں تیرے لیے تیری ماں کی طرح ہوں، تو کیا یہ بھی ہو گا؟ ائمہ اربعہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار نہیں ہے اور اس پر ظہار ے قانونی احکام کا سرے سے اطلاق نہیں ہوتا۔ کیونکہ قرآن مجید نے صریح الفاظ میں یہ احکام صرف اس صورت کے لیے بیان کیے ہیں جبکہ شوہر بیویوں سے ظہار کریں (اَلَّذِیْنَ یُظَاھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآءِ ھِمْ) اور ظہار کرنے کے اختیارات اسی کو حاصل ہو سکتے ہیں جسے طلاق دینے کا اختیار ہے۔ عورت کو شریعت نے جس طرح یہ اختیار نہیں دیا کہ شوہر کو طلاق دیدے اسی طرح اسے یہ اختیار بھی نہیں دیا کہ اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام کر لے۔ یہی رائے سفیان ثوری، اسحٰق بن رائبویہ، ابو ثور اور لَیث بن سعد کی ہے کہ عورت کا ایس قول بالکل بے معنی اور بے اثر ہے۔ امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ظہار تو نہیں ہے۔ مگر اس سے عورت پر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، کیونکہ عورت کا سیے الفاظ کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھائی ہے۔ امام احمد بن حنبل کا مسلک بھی ابن قدامہ نے یہی نقل کیا ہے۔ امام اوزاعی کہتے ہیں کہ اگر شادی سے پہلے عورت نے یہ بات کہی ہو کہ میں اس شخص سے شادی کروں تو وہ میرے لیے ایسا ہے جیسے میرا باپ، تو یہ ظہار ہو گا، اور اگر شادی کے بعد کہے تو یہ قَسم کے معنی میں ہو گا جس سے کفارۂ یمین لازم آئے گا۔ بخلاف اس کے حسن بصری، زہری، ابراہیم نخعی، اور حسن بن زیاد لُؤْلُئِ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور ایسا کہ سے عورت پر کفارہ ظہار لازم آئے گا، البتہ عورت کو یہ حق نہ ہو گا کہ کفارہ دینے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے روک دے۔ ابراہیم نخعی اس کی تائید میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طلحہؓ کی صاحبزادی عائشہ سے حضرت زبیر کے صاحبزادے مصعب نے نکاح کا پیغام دیا۔ انہوں نے اسے رد کرتے ہوئے یہ الفاظ کہہ دیے کہ اگر میں ان سے نکاح کروں تو ھُوَ عَلَیَّ کَظَھْرِ اَبِیْ۔ (وہ میرے اوپر ایسے ہوں جیسے میرے باپ کی پیٹھ)۔ کچھ مدت بعد وہ ان سے شادی کرنے پر راضی ہو گئیں۔ مدینہ کے علماء سے اس کے متعلق فتویٰ لیا گیا تو بہت سے فقہاء نے جن میں متعدد صحابہ بھی شامل تھے، یہ فتویٰ دیا کہ عائشہ پر کفارہ ظہار لازم ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابراہیم نخعی اپنی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ اگر عائشہ یہ بات شادی کے بعد کہتیں تو کفارہ لازم نہ آتا، مگر انہوں نے شادی سے پہلے یہ کہا تھا جب انہیں نکاح کرنے یا نہ کرنے کا اختیار حاصل تھا اس لیے کفارہ ان پر واجب ہو گیا۔
(۳) جو عاقل و بالغ آدمی ظہار کے صریح الفاظ بحالت ہوش و حواس زبان سے ادا کرے اس کا یہ عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا کہ اس نے غصے میں، یا مذاق مذاق میں، یا پیار سے ایسا کہا، یا یہ کہ اس کی نیت ظہار کی نہ تھی۔ البتہ جو الفاظ اس معاملہ میں صریح نہیں ہیں، اور جن میں مختلف معنوں کا احتمال ہے، ان کا حکم الفاظ کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ ظہار کے صریح الفاظ کون سے ہیں اور غیر صریح کون سے۔
(۴)۔ یہ امر متفق علیہ ہے کہ ظہار اس عورت سے کیا جا سکتا ہے جو آدمی کے نکاح میں ہو۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ کیا غیر عورت سے بھی ظہار ہو سکتا ہے۔ اس معاملہ میں مختلف مسالک یہ ہیں :
حنفیہ کہتے ہیں کہ غیر عورت سے اگر آدمی یہ کہے کہ ’’ میں تجھ سے نکاح کروں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘، تو جب بھی وہ اس سے نکاح کرے گا کفارہ ادا کیے بغیر اسے ہاتھ نہ لگا سکے گا۔ یہی حضرت عمرؓ کا فتویٰ ہے۔ ان کے زمانہ میں ایک شخص نے ایک عورت سے یہ بات کہی اور بعد میں اس سے نکاح کر لیا۔حضرت عمرؓ نے فرمایا اسے کفارہ ظہار دینا ہو گا۔
مالکیہ اور حنابلہ بھی یہی بات کہتے ہیں، اور وہ اس پر یہ اضافہ کرتے ہیں کہ اگر عورت کی تخصیص نہ کی گئی ہو بلکہ کہنے والے نے یوں کہا ہو کہ تمام عورتیں میرے اوپر ایسی ہیں، تو جس سے بھی وہ نکاح کرے گا اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ یہی رائے سعید بن المسیب، عروہ بن زبیر، عطاء بن ابی رباح، حسن نصری اور اسحاق بن راہویہ کی ہے۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ نکاح سے پہلے ظہار بالکل بے معنی ہے۔ ابن عباس اور قتادہ کی بھی یہی رائے ہے۔
(۵)۔ کیا ظہار ایک خاص وقت تک کے لیے ہو سکتا ہے؟ حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ اگر آدمی نے کسی خاص وقت کی تعیین کر کے ظہار کیا ہو تو جب تک و وقت باقی ہے، بیوی کو ہاتھ لگانے سے کفارہ لازم آئے گا، اور اس وقت کے گزر جانے پر ظہار غیر مؤثر ہو جائے گا۔ اس کی دلیل سلمہ بن صخر بیاضی کا واقعہ ہے جس میں انہوں نے اپنی بیوی سے رمضان کے لیے ظہار کیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ وقت کی تعیین بے معنی ہے۔ بخلاف اس کے امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ ظہار جب بھی کیا جائے گا، ہمیشہ کے لیے ہو گا اور وقت کی تخصیص غیر مؤثر ہو گی، کیونکہ جو حرمت واقع ہو چکی ہے و ہ وقت گزر جانے پر آپ سے آپ ختم نہیں ہو سکتی۔
(۶)۔ مشروط ظہار کیا گیا ہو تو جس وقت بھی شرط کی خلاف ورزی ہو گی، کفارہ لازم آ جائے گا۔ مثلاً آدمی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ ’’ اگر میں گھر میں آؤں تو میرے اوپر تو ایسی ہے جیسے میری ماں کی بیٹھ‘‘۔ اس صورت میں وہ جب بھی گھر میں داخل ہو گا۔ کفارہ ادا کیے بغیر بیوی کو ہاتھ نہ لگا سکے گا۔
(۷)۔ ایک بیوی سے کئی مرتبہ ظہار کے الفاظ کہے گئے ہوں تو حنفی اور شافعی کہتے ہیں کہ خواہ ایک ہی نشست میں ایسا کیا گیا ہو یا متعدد نشستوں میں، بہر حال جتنی مرتبہ یہ الفاظ کہے گئے ہوں اتنے ہی کفارے لازم آئیں گے، الا یہ کہ کہنے والے نے ایک دفعہ کہنے کے بعد اس قول کی تکرار محض اپنے پہلے قول کی تاکید کے لیے کی ہو۔ بخلاف اس کے امام مالک اور امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ خواہ کتنی ہی مرتبہ اس قول کی تکرار کی گئی ہو، قطع نظر اس سے کہ اعادہ کی نیت ہو یا تاکید کی، کفارہ ایک ہی لازم ہو گا۔ یہی قول شعبی، طاؤس، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، اور اوزاعی رحمہم اللہ کا ہے حضرت علی کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر تکرار ایک نشست میں کی گئی ہو تو ایک ہی کفارہ ہو گا، اور مختلف نشستوں میں ہو تو جتنی نشستوں میں کی گئی ہو اتنے ہی کفارے دینے ہوں گے۔ قتادہ اور عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی ہے۔
(۸) دو یا زائد بیویوں سے بیک وقت اور بیک لفظ ظہار کیا جائے، مثلاً ان کو مخاطب کر کے شوہر کہے کہ تم میرے اوپر ایسی ہو جیسے میری ماں کی پیٹھ، تو حنفیہ اور شافعیہ کہتے ہیں کہ ہر ایک کو حلال مرنے کے لیے الگ الگ کفارے دینے ہوں گے۔ یہی رائے حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، عروہ بن زبیر، طاؤس، عطاء، حسن بصری، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، اور ابن شہاب زہری کی ہے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ اس صورت میں سب سے کے لیے ایک ہی کفارہ لازم ہو گا۔ ربیعہ، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور ابوٹور کی بھی یہی رائے ہے۔
(۹) ایک ظہار کا کفارہ دینے کے بعد اگر آدمی پھر ظہار کر بیٹھے تو یہ امر متفق علیہ ہے کہ پھر کفارہ دیے بغیر بیوی اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔
(۱۰)۔ کفارہ ادا کرنے سے پہلے اگر بیوی سے تعلق زن و شو قائم کر بیٹھا ہو تو ائمہ اربعہ کے نزدیک اگر چہ یہ گناہ ہے، اور آدمی کو اس پر استغفار کرنا چاہیے، اور پھر اس کا اعادہ نہ کرنا چاہیے، مگر کفارہ اسے ایک ہی دینا ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں جن لوگوں نے ایسا کیا تھا ان سے آپ نے نہیں دیا تھا کہ کفارہ ظہار کے علاوہ اس پر انہیں کوئی اور کفارہ بھی دینا ہو گا۔ حضرت عمرو بن عاص، قبیصہبن ذؤَیب سعید بن جبیر، زہری اور قتادہ کہتے ہیں کہ اس پر دو کفارے لازم ہوں گے۔ اور حسن بصری اور ابراہیم نخعی کی رائے یہ ہے کہ تین کفارے دینے ہوں گے۔ غالباً ان حضرات کو وہ احادیث نہ پہنچی ہوں گی جن میں اس مسئلہ پر حضورؐ کا فیصلہ بیان ہوا ہے۔
(۱۱)۔ بیوی کس کس سے تشبیہ دینا ظہار ہے؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے : عامر شعبی کہتے ہیں کہ صرف ماں سے تشبیہ ظہار ہے، باقی اور کسی بات پر اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مگ فقہاء امت میں سے کسی گروہ بے بھی ان سے اس معاملہ میں اتفاق نہیں کیا ہے، کیونکہ قرآن نے ماں سے تشبیہ کو گناہ قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ یہ نہایت بیہودہ اور جھوٹی بات ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن عورتوں کی حرمت ماں جیسی ہے ان کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا بیہودگی اور جھوٹ میں اس سے کچھ مختلف نہیں ہے، اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس کا حکم وہی نہ ہو جو ماں سے تشبیہ کا حکم ہے۔
حنفیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں تمام وہ عورتیں داخل ہیں جو نسب یا رضاعت، یا ازدواجی رشتہ کی بنا پر آدمی کے لیے ابداً حرام ہیں مگر وقتی طور پر جو عورتیں حرام ہوں اور کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں وہ اس میں داخل نہیں ہیں۔ جیسے بیوی کی بہن، اس کی خالہ، اس کی پھوپھی، یا غیر عورت جو آدمی کے نکاح میں نہ ہو۔ ابدی محرمات میں سے کسی عورت کے کسی ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دینا جس پر نظر ڈالنا آدمی کے لیے حلال نہ ہو، ظہار ہو گا۔ البتہ بیوی کے ہاتھ، پاؤں، سر، بال، دانت وغیرہ کو ابداً حرام عورت کی پیٹھ سے، یا بیوی کو اس کے سر، ہاتھ، پاؤں جیسے اجزائے جسم سے تشبیہ دینا ظہار نہ ہو گا کیونکہ ماں بہن کے ان اعضاء پر نگاہ ڈالنا حرام نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ تیرا ہاتھ میری ماں کے ہاتھ جیسا ہے، یا تیرا پاؤں میری ماں کے پاؤں جیسا ہے، ظہار نہیں ہے۔
شافعیہ کہتے ہیں کہ اس حکم میں صرف وہی عورتیں داخل ہیں جوق ہمیشہ حرام تھیں اور ہمیشہ حرام رہیں، یعنی ماں، بہن، بیٹی وغیرہ مگر وہ عورتیں اس میں داخل نہیں ہیں جو کبھی حلال رہ چکی ہوں، جیسے رضاعی ماں، بہن، ساس اور بہو، یا کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں،جیسے سالی۔ ان عارضی یا وقتی حرام عورتوں کے ماسوا ابدی حرمت رکھنے والی عورتوں میں سے کسی کے ان اعضا کے ساتھ بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہو گا جن کا ذکر بغرض اظہار اکرام و توقیر عادۃً نہیں کیا جاتا۔ رہے وہ اعضاء جن کا اظہار اکرام و توقیر کے کیا جاتا ہے تو ان تشبیہ صرف اس صورت میں ظہار ہو گی جبکہ یہ بات ظہار کی نیت سے کہی جائے۔ مثلاً بیوی سے یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں کی آنکھ یا جان کی طرح ہے، یا ماں کے ہاتھ، پاؤں یا پیٹ کی طرح ہے، یا ماں کے پیٹ یا سینے سے بیوی کے پیٹ یا سینے کو تشبیہ دینا، یا بیوی کے سر، پیٹھ یا ہاتھ کو اپنے لیے ماں کی پیٹھ جیسا قرار دینا، یا بیوی کو یہ کہنا کہ تو میرے لیے میری ماں جیسی ہے، ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے اور عزت کی نیت سے ہو تو عزت ہے۔
مالکیہ کہتے ہیں کہ ہر عورت جو آدمی کے لیے حرام ہو، اس سے بیوی کو تشبیہ دینا ظہار ہے، حتی کہ بیوی سے یہ کہنا بھی ظہار کی تعریف میں آتا ہے ہ تو میرے اوپر فلاں غیر عورت کی بیٹھ جیسی ہے، نیز وہ کہتے ہیں کہ ماں اور ابدی محرمات کے کسی عضو سے بیوی کو یا بیوی کے کسی عضو کو تشبیہ دینا ظہار ہے، اور اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اعضاء ایسے ہوں جن پر نظر ڈالنا حلال نہ ہو، کیونکہ مان کے کسی عضو پر بھی اس طرح کی نظر ڈالنا جیسی بیوی پر ڈالی جاتی ہے، حلال نہیں ہے۔
حنابلہ اس حکم میں تمام ان عورتوں کو داخل سمجھتے ہیں جو ابداً حرام ہوں، خواہ وہ پہلے کبھی حلال رہ چکی ہوں، مثلاً ساس، یا دودھ پلانے والی ماں رہیں وہ عورتیں جو بعد میں کسی وقت حلال ہو سکتی ہوں، (مثلاً سالی)، تو ان کے معاملہ میں امام احمد کا ایک قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ بھی ظہار ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ ان سے تشبیہ دینا ظہار کی تعریف میں آ جاتا ہے۔ البتہ بال، ناخن، دانت جیسے غیر مستقل اجزاء جسم اس حکم سے خارج ہیں۔
(۱۲)۔ اس امر میں تمام فقہاء کا اتفاق ہے کہ بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر میری ماں کی بیٹھ جیسی ہے ‘‘ صریح ظہار ہے کیونکہ اہل عرب میں یہی ظہار کا طریقہ تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ البتہ اس امر میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے کہ دوسرے الفاظ میں سے کون سے ایسے ہیں جو صریح ظہار کے حکم میں ہیں، اور کون سے ایسے ہیں جن کے ظہار ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قائل کی نیت پر کیا جائے گا۔
حنفیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ وہ ہیں جن میں صاف طور پر حلال عورت(بیوی) کو حرام عورت (یعنی محرمات ابدیہ میں سے کسی عورت) سے تشبیہ دی گئی ہو، یا تشبیہ ایسے عضو سے دی گئی ہو جس پر نظر ڈالنا حلال نہیں ہے، جیسے یہ کہنا کہ تو میرے اوپر ماں یا فلاں حرام عورت کے پیٹ یا ران جیسی ہے۔ ان کے سوا دوسرے الفاظ میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ اگر کہے کہ ’’تو میرے اوپر حرام ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ‘‘ تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ صریح ظہار ہے، لیکن امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک ظہار کی نیت ہو تو ظہار ہے اور طلاق کی نیت ہو تو طلاق۔ اگر کہے کہ ’’ تو میری ماں جیسی ہے یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنیفہ کا عام فتویٰ یہ ہے کہ یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق بائن، اور اگر کوئی نیت نہ ہو تو بے معنی ہے۔ لیکن امام محمد کے نزدیک یہ قطعی ہے۔ اگر بیوی کو ماں یا بہن یا بیٹی کہہ کر پکارے تو یہ سخت بیہودہ بات ہے جس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غصے کا اظہار فرمایا تھا، مگر اسے ظہار نہیں قرار دیا۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے اوپر ماں کی طرح حرام ہے ‘‘ تو یہ ظہار کی نیت سے ظہار ہے، طلاق کی نیت سے طلاق، اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ اگر کہے کہ ’’ تو میرے لیے ماں کی طرح یا ماں جیسی ہے ‘‘ تو نیت پوچھی جائے گی۔ عزت اور توقیر کی نیت سے کہا ہو تو عزت اور توقیر ہے۔ ظہار کی نیت سے کہا ہو تو ظہار ہے۔ طلاق کی نیت سے کہا ہو تو طلاق ہے۔ کوئی نیت نہ ہو اور یونہی یہ بات کہہ دی ہو تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بے معنی ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر ظہار کا تو نہیں مگر قسم کا کفارہ لازم آئے گا، اور امام محمد کے نزدیک یہ ظہار ہے۔
شافعیہ کے نزدیک ظہار کے صریح الفاظ یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے کہ تو میرے نزدیک، یا میرے ساتھ، یا میرے لیے ایسی ہے جیسی میری ماں کی پیٹھ۔ یا تو میری ماں کی پیٹھ کی طرح ہے۔ یا تیرا جسم، یا تیرا بدن، یا تیرا نفس میرے لیے میری ماں کے جسم یا بدن یا جنس کی طرح ہے۔ ان کے سوا باقی تمام الفاظ میں قائل کی نیت پر فیصلہ ہو گا۔
حنابلہ کے نزدیک ہر وہ لفظ جس سے کسی شخص نے بیوی کو یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو کو کسی ایسی عورت سے جو اس کے لیے حرام ہے، یا اس کے مستقل اعضاء میں سے کسی عضو سے صاف صاف تشبیہ دی ہو، ظہار کے معاملہ میں صریح مانا جائے گا۔
مالکیہ کا مسلک بھی قریب قریب یہی ہے، البتہ تفصیلات میں ان کے فتوے الگ الگ ہیں۔ مثلاً کسی شخص کی بیوی سے یہ کہنا کہ ’’ میرے لیے میری ماں جیسی ہے، یا میری ماں کی طرح ہے ‘‘ مالکیوں کے نزدیک ظہار کی نیت سے ہو تو ظہار ہے، طلاق کی نیت سے ہو تو طلاق اور کوئی نیت نہ ہو تو ظہار ہے۔ حنبلیوں کے نزدیک یہ بشرط نیت صرف ظہار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بیوی سے کہے کہ ’’ تو میری ماں ہے ‘‘ تو مالکیہ کہتے ہیں کہ یہ ظہار ہے اور حنابلہ کہتے ہیں کہ یہ بات اگر جھگڑے اور غصے کی حالت میں کہی گئی ہو تو ظہار ہے، اور پیار محبت کی بات چیت میں کہی گئی ہو تو کو یہ بہت ہی بری بات ہے لیکن ظہار نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کہے ’’ تجھے طلاق ہے تو میری ماں کی طرح ہے ‘‘ تو حنابلہ کے نزدیک یہ طلاق ہے نہ کہ ظہار، اور اگر کہے ’’ تو میری ماں کی طرح ہے تجھے طلاق ہے ‘‘ تو ظہار اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گے۔ یہ کہنا کہ ’’ تو میرے اوپر ایسی حرام ہے جیسی میر ی ماں کی بیٹھ‘‘ مالکیہ اور حنابلہ دونوں کے نزدیک ظہار ہے خواہ طلاق ہی کی نیت سے یہ لفاظ کہے گئے ہوں، یا نیت کچھ بھی نہ ہو۔
الفاظ ظہار کی اس بحث میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فقہاء نے اس باب میں جتنی بحثیں کی ہیں وہ سب عربی زبان کی الفاظ اور محاورات سے تعلق رکھتی ہیں، اور ظاہر ہے کہ دنیا کی دوسری زبانیں بولنے والے نہ عربی زبان میں ظہار کریں گے، نہ ظہار کرتے وقت عربی الفاظ اور فقروں کا ٹھیک ٹھیک ترجمہ زبان سے ادا کریں گے۔ اس لیے کسی لفظ یا فقرے کے متعلق اگر یہ فیصلہ کرنا ہو کہ وہ ظہار کی تعریف میں آتا ہے یا نہیں، تو اسے اس لحاظ سے نہیں جانچنا چاہیے کہ وہ فقہاء کے بیان کردہ الفاظ میں سے کس کا صحیح ترجمہ ہے، بلکہ صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا قائل نے بیوی کو جنسی(Sexual) تعلق کے لحاظ سے محرمات میں سے کسی کے ساتھ صاف صاف تشبیہ دی ہے، یا اس کے الفاظ میں دوسرے مفہومات کا بھی احتمال ہے؟ اس کی نمایاں ترین مثال خود وہ فقرہ ہے جس کے متعلق تمام فقہاء اور مفسرین کا اتفاق ہے کہ عرب میں ظہار کے لیے وہی بولا جاتا تھا اور قرآن مجید کا حکم اسی کے بارے میں نازل ہوا ہے، یعنی اَنْتِ عَلَیَّ کَظَھْرِ اُمِّیْ (تو میرے اوپر میری ماں کی پیٹھ جیسی ہے )۔ غالباً دنیا کی کسی زبان میں، اور کم از کم اردو کی حد تک تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس زبان میں کوئی ظہار کرنے والا ایسے الفاظ استعمال نہیں کر سکتا جو اس عربی فقرے کا لفظی ترجمہ ہوں۔ البتہ وہ اپنی زبان کے ایسے الفاظ ضرور استعمال کر سکتا ہے جن کا مفہوم ٹھیک وہی ہو جسے ادا کرنے کے لیے ایک عرب یہ فقرہ بولا کرتا تھا۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ ’’تجھ سے مباشرت میرے لیے ایسی ہے جیسے اپنی ماں سے مباشرت ‘‘، یا جیسے بعض جہلا بیوی سے کہہ بیٹھتے ہیں کہ ’’تیرے پاس آؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں تو اپنی ماں کے پاس جاؤں ‘‘۔
(۱۳) قرآن مجید میں جس چیز کو کفارہ لازم آنے کا سبب قرار دیا گیا ہے وہ محض ظہار نہیں ہے بلکہ ظہار کے بعد ’’غور‘‘ ہے۔ یعنی اگر آدمی صرف ظہار کر کے رہ جائے اور عَود نہ کرے تو اس پر کفارہ لازم نہیں آتا۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ عَود کیا ہے جو کفارہ کا موجب ہے؟ اس بارے میں فقہاء کے مالک یہ ہیں :
حنفیہ کہتے ہیں کہ عَود سے مراد مباشرت کا ارادہ ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محض ارادے اور خواہش پر کفارہ لازم آ جائے، حتیٰ کیہ اگر آدمی ارادہ کر کے رہ جائے اور عملی اقدام نہ کرے تب بھی اسے کفارہ دینا پڑے۔ بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس حرمت کو رفع کرنا چاہے جو اس نے ظہار کر کے بیوی کے ساتھ تعلق زن و شو کے معاملہ میں اپنے اوپر عائد کر لی تھی وہ پہلے کفارہ دے، کیونکہ یہ حرمت کفارہ کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔
امام مالکؒ کے اس معاملہ میں تین قول ہیں، مگر مالکیہ کے ہاں ان کا مشہور ترین اور صحیح ترین قول اس مسلک کے مطابق ہے جو اوپر حنفیہ کا بیان ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار سے جس چیز کو اس نے اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ وہ بیوی کے ساتھ مباشرت کا تعلق تھا۔ اس کے بعد عَودیہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ یہی تعلق رکھنے کے لیے پلٹے۔
امام احمد بن حنبلؒ کا مسلک بھی ابن قدامہ نے قریب قریب وہی نقل کیا ہے جو اوپر دونوں اماموں کا بیانکیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ظہار کے بعد مباشرت کے حلال ہونے کے لیے کفارہ شرط ہے۔ ظہار کرنے والا جو شخص اسے حلال کرنا چاہے وہ گویا تحریم سے پلٹنا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے حکم دیا گیا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے کفارہ دے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی شخص ایک غیر عورت کو اپنے لیے حلال کرنا چاہے تو اس سے کہا جائے گا کہ اسے حلال کرنے سے پہلے نکاح کرے۔
امام شافعؒی کا مسلک ان تینوں سے مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آدمی کا اپنی بیوی سے ظہار کرنے کے بعد اسے حسب سابق بیوی بنائے رکھنا، یا بالفاظ دیگر اسے بیوی کی حیثیت سے روکے رکھنا عَود ہے۔ کیونکہ جس وقت اس نے ظہار کیا اسی وقت گویا اس نے اپنے لیے یہ بات حرام کر لی کہ اسے بیوی بنا کر رکھے۔ لہٰذا اگر اس نے ظہار کرتے ہی فوراً اسے طلاق نہ دی اور اتنی دیر تک اسے روکے رکھا جس میں وہ طلاق کے الفاظ زبان سے نکال سکتا تھا، تو اس نے عَود کر لیا اور اس پر کفارہ واجب ہو گیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک سانس میں ظہار کرنے کے بعد اگر آدمی دوسرے ہی سانس میں طلاق نہ دے دے تو کفارہ لازم آ جائے گا، خواہ بعد میں اس کا فیصلہ یہی ہو کہ اس عورت کو بیوی بنا کر نہیں رکھنا ہے،اور اس کا کوئی ارادہ اس کے ساتھ تعلق زن و شو رکھنے کا نہ ہو۔ حتیٰ کہ چند منٹ غور کر کے وہ بیوی کو طلاق بھی دے ڈالے تو امام شافعیؒ کے مسلک کی رو سے کفارہ اس کے ذمہ لازم رہے گا۔
(۱۴)قرآن کا حکم ہے کہ ظہار کرنے والا کفارہ دے قبل اس کے کہ زوجین ایک دوسرے کو ’’مَس‘‘ کریں۔ ائمہ اربعہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت میں مس سے مراد چھونا ہے، اس لیے کفارہ سے پہلے صرف مباشرت ہی حرام نہیں ہے بلکہ شوہر کسی طرح بھی بیوی کو چھو نہیں سکتا۔ شافعیہ شہوت کے ساتھ چھونے کو حرام کہتے ہیں، حنابلہ ہر طرح کے تلذذ کو حرام قرار دیتے ہیں، اور مالکہ لذت کے لیے بیوی کے جسم پر بھی نظر ڈالنے کو ناجائز ٹھیراتے ہیں اور ان کے نزدیک صرف چہرے اور ہاتھوں پر نظر ڈالنا اس سے مستثنیٰ ہے۔
(۱۵) ظہار کے بعد اگر آدمی بیوی کو طلاق دے دے تو رجعی طلاق ہونے کی صورت میں رجوع کر کے بھی وہ کفارہ دیے بغیر اس کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔ بائن ہونے کی صورت میں اگر اس سے دوبارہ نکاح کرے تب بھی اسے ہاتھ لگانے سے پہلے کفارہ دینا ہو گا۔ حتیٰ کہ اگر تین طلاق دے چکا ہو، اور عورت دوسرے آدمی نکاح کرنے کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو، اور اس کے بعد ظہار کرنے والا شوہر اس سے از سر نو نکاح کر لے، پھر بھی کفارے کے بغیر وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔ کیونکہ وہ اسے ماں یا محرمات سے تشبیہ دے کر اپنے اوپر ایک دفعہ حرام کر چکا ہے، اور یہ حرمت کفارے کے بغیر رفع نہیں ہو سکتی۔ اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔
(۱۶) عورت کے لیے لازم ہے کہ جس شوہر نے اس کے ساتھ ظہار کیا ہے اسے ہاتھ نہ لگانے دے جب تک وہ کفارہ ادا نہ کرے۔ اور چونکہ تعلق زن و شو عورت کا حق ہے جس سے ظہار کر کے شوہر نے اسے محروم کیا ہے، اس لیے اگر وہ کفارہ نہ دے تو بیوی عدالت سے رجوع کر سکتی ہے۔ عدالت اس کے شوہر کو مجبور کرے گی کہ وہ کفارہ دے کر حرمت وہ دیوار ہٹائے جو اس نے اپنے اور اس کے درمیان حائل کر لی ہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو عدالت اسے ضرب یا قید یا دونوں طرح کی سزائیں دے سکتی ہے۔ یہ بات بھی چاروں مذاہب فقہ میں متفق علیہ ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ مذہب حححنفہ حنفی میں عورت کے لیے صرف یہی ایک چارہ کار ہے، ورنہ ظہار پر خواہ کتنی ہی مدت گزر جائے، عورت کو اگر عدالت اس مشکل سے نہ نکالے تو وہ تمام عمر معلق رہے گی، کیونکہ ظہار سے نکاح ختم نہیں ہوتا، صرف شوہر کا حق تمتّع سلب ہوتا ہے۔ ملکی مذہب میں اگر شورہ عورت کو ستانے کے لیے ظہار کر کے معلق چھوڑ دے تو اس پر ایلاء کے احکام جاری ہوں گے، یعنی وہ چار مہینے سے زیادہ عورت کو روک کر نہیں رکھ سکتا (احکام اِیلاء کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حواشی ۲۴۵ تا ۲۴۷ )۔ شافعیہ کے نزدیک اگر چہ ظہار میں احکام ایلاء تو صرف اس وقت جاری ہو سکتے ہیں جبکہ شوہر نے ایک مدت خاص کے لیے ظہار کیا ہو اور وہ مدت چار مہینے سے زیادہ ہو، لیکن چونکہ مذہب شافعی کی رو سے شوہر پر اسی وقت کفارہ واجب ہو جاتا ہے جب وہ عورت کو بیوی بنا کر رکھے رہے، اس لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ کسی طویل مدت تک اس کو معلق رکھے۔
(۱۷) قرآن اور سنت میں تصریح ہے کہ ظہار کا پہلا کفارہ غلام آزاد کرنا ہے۔ اس سے آدمی عاجز ہو تب دو مہینے کے روزوں کی شکل میں کفارہ دے سکتا ہے۔ اور اس سے بھی عاجز ہو تب ۶۰ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے۔ لیکن اگر تینوں کفاروں سے کوئی شخص عاجز ہو تو چونکہ شریعت میں کفارے کی کوئی اور شکل نہیں رکھی گئی ہے اس لیے اسے اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا جب تک وہ ان میں سے کسی ایک پر قادر نہ ہو جائے۔ البتہ سبت سے یہ ثابت ہے کہ ایسے شخص کی مدد کی جانی چاہیے تاکہ وہ تیسرا کفارہ ادا کر سکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت المال سے ایسے لوگوں کی مدد فرمائی ہے جو اپنی غلطی سے اس مشکل میں پھنس گئے تھے اور تینوں کفاروں سے عاجز تھے۔
۱۸۔ یہاں سے آیت ۱۹ تک مسلسل منافقین کے اس طرز عمل پر گرفت کی گئی ہے جو انہوں نے اس وقت مسلم معاشرے میں اختیار کر رکھا تھا۔ وہ بظاہر مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے، مگر اندر ہی اندر انہوں نے اہل ایمان سے الگ اپنا ایک جتھا بنا رکھا تھا۔ مسلمان جب بھی انہیں دیکھتے، یہی دیکھتے کہ وہ آپس میں سر جوٹے کھسر پسر کر رہے ہیں۔ انہیں خفیہ سرگوشیوں میں وہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ ڈالنے اور فتنے برپا کرنے اور ہر اس پھیلانے کے لیے طرح طرح کے منصوبے بناتے اور نئی نئی افواہیں گھڑتے تھے۔
۱۹۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں دو اور تین کے بجائے تین اور پانچ کا ذکر کس مصلحت سے کیا گیا ہے؟ پہلے دو اور پھر چار کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ مفسرین نے اس کے بہت سے جوابات دیے ہیں، مگر ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یہ طرز بیان در اصل قرآن مجید کی عبارت کے ادبی حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اختیار کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو عبارت یوں ہوتی : مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوَی اثْنَیْنِ اِ لَّاھُوَثاَلِثھُُمْ وَلاَ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ھُوَرَابِعھُُمْ۔ اس میں نَجْو یَثْنَیْن بھی کوئی خوبصورت ترکیب نہ ہوتی اور ثالث اور ثلٰثَۃٍ کا یکے بعد دیگرے آنا بھی حلاوت سے خالی ہوتا۔ یہی قباحت اِلاَّ ھُوَرَابِعھُُمْ کے بعد وَلاَ اَرٰبَعَۃٍ کہنے میں بھی تھی۔ اس لیے تین اور پانچ سرگوشی کرنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد دوسرے فقرے میں اس خلا کو یہ کہہ کر بھر دیا گیا کہ وَلَٓا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَآ اَکْثَرَ اِلَّا ھُوَ مَعَھُمْ۔ سرگوشی کرنے والے خواہ تین سے کم ہوں یا پانچ سے زیادہ، بہر حال اللہ ان کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔
۲۰۔ یہ معیت در حقیقت اللہ جل شانہ کے علیم و خبیر، اور سمیع و بصیر اور قادر مطلق ہونے کے لحاظ سے ہے، نہ کہ معاذ اللہ اس معنی میں کہ اللہ کوئی شخص ہے جو پانچ اشخاص کے درمیان یک چھٹے شخص کی حیثیت سے کسی جگہ چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ دراصل اس ارشاد سے لوگوں کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ خواہ وہ کیسے ہی محفوظ مقامات پر خفیہ مشورہ کر رہے ہوں ان کی بات دنیا بھر سے چھپ سکتی ہے مگر اللہ سے نہیں چھپ سکتی اور وہ دنیا کی ہر طاقت کی گرفت سے بچ سکتے ہیں مگر اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکتے۔
۲۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کو اس روش سے منع فرما چکے تھے، اس پر بھی جب وہ باز نہ آئے تب براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عتاب نازل ہوا۔
۲۲۔ یہ یہود اور منافقین کا مشترک رویہ تھا۔ متعدد روایتوں میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ یہودی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے السام علیک یا ابا القاسم کہا۔ یعنی السلام علیک کا تلفظ کچھ اس انداز سے کیا کہ سننے والا سمجھے سلام کہا ہے، مگر دراصل انہوں نے سام کہا تھا جس کے معنی موت کے ہیں۔ حضورؐ نے جواب میں فرمایا و علیکم۔ حضرت عائشہ سے نہ رہا گیا اور انہوں نے کہا موت تمہیں آئے اور اللہ کی لعنت اور پھٹکار پڑے۔ حضورؐ نے انہیں تنبیہ فرمائی کہ اے عائشہ، اللہ کو بد زبانی پسند نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ، آپ نے سنا نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟ حضورؐ نے فرمایا اور تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا؟ میں ان سے کہہ دیا ’’اور تم پر بھی‘‘)بخاری،مسلم،ابن جریر،ابن ابی حاتم)۔ حضرت عبداللہ بن عباس کا بیان ہے کہ منافقین اور یہود، دونوں نے سلام کا یہی طریقہ اختیار کر رکھا تھا (ابن جریر)۔
۲۳۔ یعنی وہ اپنے نزدیک اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول نہ ہونے کی دلیل سمجھتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو جس وقت ہم انہیں اس طریقہ سے سلام کرتے اسی وقت ہم پر عذاب آ جاتا۔ اب چونکہ کوئی عذاب نہیں آتا، حالانکہ ہم شب و روز یہ حرکت کرتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ رسول نہیں ہیں۔
۲۴۔ اس سے معلوم ہوا کہ نجویٰ(آپس میں راز کی بات کرنا) بجائے خود ممنوع نہیں ہے، بلکہ اس کے جائز یا نا جائز ہونے کا انحصار ان لوگوں کے کردار پر ہے جو ایسی بات کریں، اور ان حالات پر ہے جن میں ایسی بات کی جائے، اور ان باتوں کی نوعیت پر ہے جو اس طریقے سے کی جائیں۔ جن لوگوں کا اخلاص، جن کی راست بازی، جن کے کردار کی پاکیزگی معاشرے میں معلوم و معروف ہو، انہیں کسی جگہ سر جوڑے بیٹھے دیکھ کر کسی کو یہ شبہ نہیں ہو سکتا کہ وہ آپس میں کسی شرارت کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ بخلاف اس کے جو لوگ شر اور بد کرداری کے لیے معروف ہوں ان کی سرگوشیاں ہر شخص کے دل میں یہ کھٹک پیا کر دیتی ہیں کہ ضرور کسی نئے فتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اسی طرح اتفاقاً کبھی دو چار آدمی باہم کسی معاملہ پر سرگوشی کے انداز میں بات کر لیں تو یہ قابل اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر کچھ لوگوں نے اپنا ایک جتھا بنا رکھا ہو اور ان کا مستقل و تیرہ یہی ہو کہ ہمیشہ جماعت مسلمین سے الگ ان کے درمیان کھسر پسر ہوتی رہتی ہو تو یہ لازماً خرابی کا پیش خیمہ ہے۔ اور کچھ نہیں تو اس کا کم سے کم نقصان یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں میں پارٹی بازی کی بیماری پھیلتی ہے۔ ان سب سے بڑھ کر جو چیز نجویٰ کے جائز و نا جائز ہونے کا فیصلہ کرتی ہے وہ ان باتوں کی نوعیت ہے جو نجویٰ میں کی جائیں۔ دو آدمی اگر اس لیے باہم سر گوشی کرتے ہیں کہ کسی جھگڑے کا تصفیہ کرانا ہے، یا کسی کا حق دلوانا ہے، یا کسی نیک کام میں حصہ لینا ہے، تو یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ کار ثواب ہے۔ اس کے برعکس اگر یہی نجویٰ دو آدمیوں کے درمیان اس غرض کے لیے ہو کہ کوئی فساد ڈلوانا ہے، یا کسی کا حق مارنا ہ، یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غرض بجائے خود ایک بُرائی ہے اور اس کے لیے نجویٰ بُرائی پر بُرائی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سلسلے میں آداب مجلس کی جو تعلیم دی ہے وہ یہ ہے کہ اذا کنتم ثلاثۃ فلا یتناجیٰ اثنان دون صا حبھما فان ذالک یحزنہٗ۔ ’’ جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو آدمی آپس میں کھسر پسر نہ کریں، کیونکہ یہ تیسرے آدمی کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘(بخاری۔ مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابو داؤد)۔ دوسری حدیث میں حضور کے الفاظ یہ ہیں فلا یتنا جیٰ اثنان دون الثالث الا باذنہ فان ذٰالک یحزنہٗ۔ ’’ دو آدمی باہم سرگوشی نہ کریں مگر تیسرے سے اجازت لے کر، کیونکہ یہ اس کے لیے باعث رنج ہو گا‘‘ (مسلم )۔ اسی نا جائز سر گوشی کی تعریف میں یہ بات بھی آتی ہے کہ دو آدمی تیسرے شخص کی موجودگی میں کسی ایسی زبان میں بات کرنے لگیں جسے وہ نہ سمجھتا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ نا جائز بات یہ ہے کہ وہ اپنی سرگوشی کے دوران میں کسی کی طرف اس طرح دیکھیں یا اشارے کریں جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان کے درمیان موضوع بحث وہی ہے۔
۲۵۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کو کچھ لوگوں کی سرگوشیاں دیکھ کر یہ شبہ بھی ہو جائے کہ وہ اسی کے خلاف کی جا رہی ہیں، تب بھی اسے اتنا رنجیدہ نہ ہونا چاہیے کہ محض شبہ ہی شبہ پر کوئی جوابی کار روائی کرنے کی فکر میں پڑ جائے، یا اپنے دل میں اس پر کوئی غم، یا کینہ، یا غیر معمولی پریشانی پرورش کرنے لگے۔ اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ اعتماد اس کے قلب میں ایسی قوت پیدا کر دے گا کہ بہت سے فضول اندیشوں اور خیالی خطروں سے اس کو نجات مل جائے گی اور وہ اشرار کو ان کے حال پر چھوڑ کر پورے اطمینان و سکون کو غارت کر دے، نہ کم ظرف ہوتا ہے کہ غلط کار لوگوں کے مقالے میں آپے سے باہر ہو کر خود بھی خلاف انصاف حرکتیں کرنے لگے۔
۲۶۔ اس کی تشریح سورہ کے دیباچے میں کی جاچکی ہے۔ بعض مفسرین نے اس حکم کو صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس تک محدود سمجھا ہے۔لیکن جیسا کہ امام مالکؒ نے فرمایا ہے، صحیح ات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام مجلسوں کے لیے یہ ایک عام ہدایت ہے۔ اللہ اور اس کے رسول نے اہل اسلام کو جو آداب سکھائے ہیں ان میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی مجلس میں پہلے سے کچھ لوگ بیٹے ہوں اور بعد میں مزید کچھ لوگ آئیں، تو یہ تہذیب پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں میں ہونی چاہیے کہ وہ خود نئے آنے والوں کو جگہ دیں اور حتیٰ الامکان کچھ سکڑ اور سمٹ کر ان کے لیے کشادگی پیدا کریں، اور اتنی شائستگی بعد کے آنے والوں میں ہونی چاہیے کہ وہ زبردستی ان کے اندر نہ گھسیں اور کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ بیٹھنے کی کوشش نہ کرے۔ حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لایقیم الرجل الرجل من مجلسہ فی جلس فیہ و لکن تفسحوا وتو سعوا۔ ’’ کوئی شخص کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے بلکہ تم لوگ خود دوسروں کے لیے جگہ کشادہ کرو‘‘۔ (مسند احمد،بخاری، مسلم)۔ اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یحل لرجل ان یفرق بین اثنین الا باذنہما۔ ’’ کسی شخص کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر دھس جائے’’(مسند احمد، ابو داؤد، ترمصی)۔
۲۷۔ عبدالرحمان بن زید بن اسلم کا بیان ہے ہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دیر تک بیٹھے رہتے تھے اور ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ آخر وقت تک بیٹھے رہیں۔ اس سے بسا اوقات حضورؐ کو تکلیف ہوتی تھی، آپ کے آرام میں بھی خلل پڑتا تھا اور آپ کے کاموں کا بھی حرج ہوتا تھا۔ اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ جب تم لوگوں سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جاؤ(ابن جریر و ابن کثیر)۔
۲۸۔ یعنی یہ نہ سمجھو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں دوسروں کو جگہ دینے کی خاطر اگر تم آپ سے کچھ دور جا بیٹھے تو تمہارا درجہ گر گیا، یا اگر مجلس برخاست کر کے تمہیں اٹھ جانے کے لیے کہا گیا تو تمہاری کچھ ذلت ہو گئی۔ رفع درجات کا اصل ذریعہ ایمان اور علم ہے نہ یہ کہ کس کو مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب بیٹھنے کا موقع ملا، اور کون زیادہ دیر تک آپ کے پاس بیٹھا۔ کوئی شخص اگر آپ کے قریب بیٹھ گیا ہو تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسے بڑا مرتبہ مل گیا۔ بڑا مرتبہ تو اسی کا رہے گا جس نے ایمان اور علم کی دولت زیادہ پائی ہے۔ اسی طرح کسی شخص نے اگر زیادہ دیر تک بیٹھ کر اللہ کے رسول کو تکلیف دی تو اس نے الٹا جہالت کا کام کیا۔ اس کے درجے میں محض یہ بات کوئی اضافہ نہ کر دے گی کہ اسے دیر تک آپ کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ اس سے بدر جہا زیادہ بلند مرتبہ اللہ کے ہاں اس کا ے جس نے آپ کی صحبت سے ایمان اور علم کا سرمایہ حاصل کیا اور وہ اخلاق سیکھے جو ایک مومن میں ہونے چاہییں۔
۲۹۔ حضرت عبداللہ بن عباس اس حکم کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ باتیں (یعنی تخلیہ کی درخواست کر کے ) پوچھنے لگے تھے حتیٰ کہ انہوں نے حضورؐ کو تنگ کر دیا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے یہ چاہا کہ اپنے نبی پر سے یہ بوجھ ہلکا کر دے (ابن جریر)۔ زید بن اسلم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو شخص بھی علیٰحدگی میں بات کرنے کی درخواست کرتا، آپ اسے رد نہ فرماتے تھے۔ جس کا جی چاہتا آ کر عرض کرتا کہ میں ذرا الگ بات کرنا چاہتا ہوں، اور آپ اسے موقع دے دیتے، یہاں تک کہ بہت سے لوگ ایسے معاملات میں بھی آپ کو تکلیف دینے لگے جن میں الگ بات کرنے کی کوئی حاجت نہ ہوتی۔ زمانہ وہ تھا جس میں سارا عرب مدینہ کے خلاف بر سر جنگ تھا۔ بعض اوقات کسی شخص کی اس طرح کی سرگوشی کے بعد شیطان لوگوں کے کان میں یہ پھونک دیتا تھا کہ یہ فلاں قبیلے کے حملہ آور ہونے کی خبر لایا تھا اور اس سے مدینہ میں افواہوں کا بازار گرم ہو جاتا تھا۔ دوسری طرف لوگوں کی اس حرکت کی وجہ سے منافقین کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو کانوں کے کچے ہیں، ہر ایک کی سن لیتے ہیں۔ ان وجوہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی لگا دی کہ جو آپ سے خلوت میں بات کرنا چاہے وہ پہلے صدقہ دے (احکام القرآن الابن العربی)۔ قتادہ کہتے ہیں کہ دوسروں پر اپنی بڑائی جتانے کے لیے بھی بعض لوگ حضور سے خلوت میں بات کرتے تھے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ حکم آیا تو حضورؐ نے مجھ سے پوچھا کتنا صدقہ مقرر کیا جائے؟ کیا ایک دینار؟ میں نے عرض کیا یہ لوگوں کی مقدرت سے زیادہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا نصف دینار؟ میں نے عرض کیا لوگ اس کی مقدرت بھی نہیں رکھتے۔ فرمایا پھر کتنا؟ میں نے عرض کیا جس ایک جَو برابر سونا۔ فرمایا : انک لذھید، یعنی تم نے تو بڑی کم مقدار کو مدورہ دیا (ابن جریر، ترمذی، مسند ابو یعلیٰ )۔ ایک دوسری روایت میں حضرت علیؓ فرمانے ہیں قرآن کی یہ ایک ایسی آیت ہے جس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ اس حکم کے آتے ہی میں نے صدقہ پیش کیا اور ایک مسئلہ آپ سے پوچھ لیا۔ (ابن جریر، حاکم، ابن المنذر، عبد بن حمید)۔
۳۰۔ یہ دوسرا حکم اوپر کے حکم کے ٹھوڑی مدت بعد ہی نازل ہو گیا اور اس نے صدقہ کے وجوب کو منسوخ کر دیا۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ صدقہ کا یہ حکم کتنی دیر رہا۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ایک دن سے بھی کم مدت تک باقی رہا پھر منسوخ کر دیا گیا۔ مقاتل بن حیّان کہتے ہیں دس دن تک رہا۔ یہ زیادہ سے زیادہ اس حکم کے بقا کی مدت ہے جو کسی روایت میں بیان ہوئی ہ۔
۳۱۔ اشارہ ہے مدینے کے یہودیوں کی طرف جنہیں منافقین نے دوست بنا رکھا تھا۔
۳۲۔ یعنی مخلصانہ تعلق ان کا نہاہل ایمان سے ہے نہ یہود سے۔ دونوں کے ساتھ انہوں نے محض اپنی اغراض کے لیے رشتہ جوڑ رکھا ہے۔
۳۳۔ یعنی اس بات پر کہ وہ ایمان لائے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنا ہادی و پیشوا مانتے ہیں اور اسلام و اہل اسلام کے وفادار ہیں۔
۳۴۔ مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنے ایمان اور اپنی وفاداری کی قَسمیں کھا کر مسلمانوں کی گرفت سے بچے رہتے ہیں، اور دوسری طرف اسلام اور اہل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف ہر طرح کے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تاکہ لوگ یہ سمجھ کر اسلام قبول کرنے سے باز رہیں کہ جب گھر کے بھیدی یہ خبریں دے رہے ہیں تو ضرور اندر کچھ دال میں کالا ہو گا۔
۳۵۔ یعنی یہ صرف دنیا ہی میں اور صرف انسانوں ہی کے سامنے جھوٹی قَسمیں کھانے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ آخرت میں خود اللہ جل شانہ کے سامنے بھی یہ جھوٹی قَسمیں کھانے سے باز نہ رہیں گے۔ جھوٹ اور فریب ان کے اندر اتنا گہرا اُتر چکا ہے کہ مر کر بھی یہ ان سے نہ چھوٹے گا۔
۳۶۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الصافات، حاشیہ ۹۳۔
۳۷۔ اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک بات اصولی ہے، اور دوسری امر واقعی کا بیان۔ اصولی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دین حق پر ایمان اور اعدائے دین کی محبت، دو بالکل متضاد چیزیں ہیں جن کا ایک جگہ اجتماع کسی طرح قابل تصور نہیں ہے۔ یہ بات قطعی ناممکن ہے کہ ایمان اور دشمنان خدا و رسول کی محبت ایک دل میں جمع ہو جائیں، بالکل اسی طرح جیسے ایک آدمی کے دل میں اپنی ذات کی محبت اور اپنے دشمن کی محبت بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ ایمان کا دعویٰ بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اس نے ایسے لوگوں سے محبت کا رشتہ بھی جوڑ رکھا ہے جو اسلام کے مخالف ہیں تو یہ غلط فہمی تمہیں ہر گز لاحق نہ ہونی چاہیے کہ شاید وہ اپنی اس روش کے باوجود ایمان کے دعوے میں سچا ہو۔ اسی طرح جن لوگوں نے اسلام اور مخالفین اسلام سے بیک وقت رشتہ جوڑ رکھا ہے وہ خود بھی اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں کہ وہ جر الواقع کیا ہیں، مومن ہیں یا منافق؟ اور جی الواقع کیا ہونا چاہتے ہیں، مومن بن کر رہنا چاہتے ہیں یا منافق؟ اگر ان کے اندر کچھ بھی راستبازی موجود ہے، اور وہ کچھ بھی یہ احساس اپنے اندر رکھتے ہیں کہ اخلاقی حیثیت سے منافقت انسان کے لیے ذلیل ترین رویہ ہے، تو انہیں بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے۔ ایمان تو ان سے دو ٹوک فیصلہ چاہتا ہے۔ مومن رہنا چاہتے ہیں تو ہر اس رشتے اور تعلق کو قربان کر دیں جو اسلام کے ساتھ ان کے تعلق سے متصادم ہوتا ہو۔ اسلام کے رشتے سے کسی اور رشتے کو عزیز تر رکھتے ہیں تو بہتر ہے کہ ایمان کا جھوٹا دعویٰ چھوڑ دیں۔
یہ تو ہے اصولی بات۔ مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں صرف اصول بیان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ اس امر واقعی کو بھی مدعیان ایمان کے سامنے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا ہے کہ جو لوگ سچے مومن تھے انہوں نے فی الواقع سب کی آنکھوں کے سامنے تمام ان رشتوں کو کاٹ پھینکا جو اللہ کے دین کے ساتھ ان کے تعلق میں حائل ہوئے۔ یہ ایک ایسا واقعہ تھا جو بدر و احد کے معرکوں میں سارا عرب دیکھ چکا تھا۔ مکہ سے جو صحابہ کرام ہجرت کر کے آئے تھے وہ صرف خدا اور اس کے دین کی خاطر خود اپنے قبیلے اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں سے لڑ گئے تھے۔ حضرت ابو عبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن جراح کو قتل کیا۔ حضرت مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا۔ حضرت ابو بکر اپنے بیٹے عبدالرحمان سے لڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔حضرت علی، حضرت حمزہ اور حضرت عبیدہ بن الحارث نے تربہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا جو ان کے قریبی رشتہ دار تھے۔ حضرت عمرؓ نے اسیران جنگ بدر کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے اور ہم میں سے ہر ایک اپنے رشتہ دار کو قتل کرے۔ اسی جنگ بدر میں حضرت مصعب بن عمیر کے سگے بھائی ابو عزیز بن عمیر کو ایک انصاری پکڑ کر باندھ رہا تھا۔ حضرت مصعب نے دیکھا تو پکار کر کہا ’’ ذرا مضبوط باندھنا، اس کی ماں بڑی مالدار ہے، اس کی رہائی کے لیے وہ تمہیں بہت سا فدیہ دے گی’‘۔ ابو عزیز نے کہا ’’ تم بھائی ہو کر یہ بات کہہ رہے ہو؟ ’’ حضرت مصعب نے جواب دیا ’’ اس وقت تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ یہ انصاری میرا بھائی ہے جو تمہیں گرفتار کر رہا ہے ‘‘۔ اسی جنگ بدر میں خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد ابو العاص گرفتار ہو کر آئے اور ان کے ساتھ رسول کی دامادی کی بنا پر قطعاً کوئی امتیازی سلوک نہ کیا گیا جو دوسرے قیدیوں سے کچھ بھی مختلف ہوتا۔ اس طرح عالم واقعہ میں دنیا کو یہ دکھا یا جا چکا تھا کہ مخلص مسلمان کیسے ہوتے ہیں اور اللہ اور اس کے دین کے ساتھ ان کا تعلق کیس ہوا کرتا ہے۔
دیلَمی نے حضرت معاذ کی روایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ دعا نقل کی ہے کہ : اللحم لا تجعل لفا جر (وفی روایۃٍ لفاسق)عَلَیَّ یداً ولا نعمۃ فیودہٗ قلبی فانی وجدت فیما اوحیت اِلیّ لا تَجِدُ قَوْماً یُّؤْ مِنُوْنَ بِاللہِ وَلْیَوْمِالْاٰخِرِ یُوَآدُّ وْ نَ مَنْ حَآ دَّ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۔ ’’ خدایا،کسی فاجر(اور ایک روایت میں فاسق) کا میرے اوپر کوئی احسان نہ ہونے دے کہ میرے دل میں اس کے لیے کوئی محبت پیدا ہو۔ کیونکہ تیری نازل کردہ وحی میں یہ بات بھی میں نے پائی ہے کہ اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور رسول کے مخالفوں سے محبت کرتے نہ پاؤ گے۔‘‘