تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المجَادلة

۱ ۔۔۔       ۱: اسلام سے پہلے مرد اگر اپنی عورت کو کہتا کہ تو میری ماں ہے تو سمجھتے تھے کہ ساری عمر کے لیے اس پر حرام ہو گئی پھر کوئی صورت ان کے ملنے کی نہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وقت میں ایک مسلمان (اوس بن الصامت) اپنی عورت (خولہ بنت ثعلبہ) کو یہ ہی کہہ بیٹھا۔ عورت حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پہنچی اور سب ماجرا کہہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے ابھی تک کوئی خاص حکم نہیں دیا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ تو اس پر حرام ہو گئی۔ اب تم دونوں کیونکر مل سکتے ہو۔ وہ شکوہ و زاری کرنے لگی کہ گھر ویران ہوتا ہے اولاد پریشان ہوتی ہے۔ کبھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے جھگڑتی کہ یا رسول اللہ! اس نے ان الفاظ سے طلاق کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ کبھی اللہ کے آگے رونے جھینکنے لگتی کہ اللہ! میں اپنی تنہائی اور مصیبت کی فریاد تجھ سے کرتی ہوں ، ان بچوں کو اگر اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مریں گے، اس کے پاس چھوڑوں تو یوں ہی (کسمپرسی میں ) ضائع ہو جائیں گے۔ اے اللہ! تو اپنے نبی کی زبان سے میری مشکل کو حل کر۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔ اور "ظہار" کا حکم اترا۔ (تنبیہ) حنفیہ کے نزدیک ظہار یہ ہے کہ اپنی بیوی کو محرمات ابدیہ (ماں بہن وغیرہ) کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دے جس کی طرف دیکھنا اس کو منع ہو۔ مثلاً یوں کہے "انتِ علیَّ کظہْرِ اُمِّی" (تو مجھ پر ایسی ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ) "ظہار" کے احکام کی تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جائے۔

۲:  یعنی اللہ تو سب ہی کچھ سنتا دیکھتا ہے۔ جو گفتگو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اور اس عورت کے درمیان ہوئی وہ کیوں نہ سنتا۔ بیشک وہ مصیبت زدہ عورت کی فریاد کو پہنچا۔ اور ہمیشہ کے لیے اس قسم کے حوادث سے عہدہ برآ ہونے کا راستہ بتلا دیا۔ جو آگے آتا ہے۔

۲ ۔۔۔      ۱: یعنی بیوی (جس نے اس کو جنا نہیں ) وہ اس کی واقعی ماں کیونکر بن سکتی ہے جو محض اتنے لفظ پر ہمیشہ کے لیے حقیقی ماں کی طرح حرام ہو جائے؟ ہاں آدمی جب اپنی بدتمیزی سے ایک جھوٹی نامعقول اور بیہودہ بات کہہ دے اس کا بدلہ یہ ہے کہ کفارہ دے، تب اس کے پاس جائے ورنہ نہ جائے۔ پر عورت اسی کی رہی، محض ظہار سے طلاق نہیں پڑ گئی۔

۲: یعنی جاہلیت میں جو ایسی حرکت کر چکے وہ معاف ہے۔ اب ہدایت آ چکنے کے بعد ایسا مت کرو۔ اگر غلطی سے کر گزرے تو توبہ کر کے اللہ سے معاف کرائے۔ اور عورت کے پاس جانے سے پہلے کفارہ ادا کرو۔

۳ ۔۔۔      ۱: یعنی یہ لفظ (اَنْتِ عَلیَّ کَظَہْرِ اُمِّی) کہا صحبت موقوف کرنے کو۔ پھر صحبت کرنا چاہیں تو پہلے ایک غلام آزاد کر لیں اس کے بعد ایک دوسرے کو ہاتھ لگائیں ۔( تنبیہ) حنفیہ کے ہاں کفارہ دینے سے پہلے جماع اور دواعی جماع دونوں ممنوع ہیں ۔ بعض احادیث میں ہے "اَمَرَہٗ اَنْ لَّا یَقْرُبَہَا حَتّیٰ یُکَفِّرُ۔"

۲: یعنی کفارہ کی مشروعیت تمہاری تنبیہ و نصیحت کے لیے ہے کہ پھر ایسی غلطی نہ کرو۔ اور دوسرے بھی باز آئیں ۔  یعنی تمہارے احوال کے مناسب احکام بھیجتا ہے اور خبر رکھتا ہے کہ تم کس حد تک ان پر عمل کرتے ہو۔

 ۴ ۔۔۔      ۱: یعنی بیچ میں دم نہ لے۔  "بردہ" (غلام) آزاد کرنے کا مقدور نہ ہو، تب روزے رکھ سکتا ہے۔ اور روزے رکھنے سے مجبور ہو تب کھانا دے سکتا ہے۔ تفصیل کتب فقہ میں ملاحظہ کی جائے۔

۲: یعنی جاہلیت کی باتیں چھوڑ کر اللہ و رسول کے احکام پر چلو، جو مومن کامل کی شان ہے۔

۵ ۔۔۔     یعنی مومنین کا کام نہیں کہ اللہ کی باندھی ہوئی حدود سے تجاوز کریں ۔ باقی رہے کافر جو حدود اللہ کی پروا نہیں کرتے اور خود اپنی رائے و خواہش سے حدیں مقرر کرتے ہیں ۔ انہیں چھوڑیے کہ ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔ ایسے لوگ پہلے زمانہ میں بھی ذلیل و خوار ہوئے اور اب بھی ہو رہے ہیں ۔ اللہ کی روشن اور صاف صاف آیتیں سن لینے کے بعد انکار پر جمے رہنا اور خدائی احکام کی عزت و احترام نہ کرنا اپنے کو ذلت کے عذاب میں پھنسا نے کے مترادف ہے۔

۶ ۔۔۔      ۱: یعنی جو کام کیے تھے ان سب کا نتیجہ سامنے آ جائے گا کوئی ایک عمل بھی غالب نہ ہو گا۔

۲: یعنی ان کو اپنی عمر بھر کے بہت سے کام یاد بھی نہیں رہے، یا ان کی طرف توجہ نہیں رہی۔ لیکن اللہ کے ہاں وہ سب ایک ایک کر کے محفوظ ہیں ۔ وہ سارا دفتر اس دن کھول کر سامنے رکھ دیا جائے گا۔

۷ ۔۔۔      یعنی صرف ان کے اعمال ہی پر کیا منحصر ہے، اللہ کے علم میں تو آسمان و زمین کی ہر چھوٹی بڑی چیز ہے۔ کوئی مجلس، کوئی سرگوشی اور کوئی خفیہ سے خفیہ مشورہ نہیں ہوتا جہاں اللہ اپنے علم محیط کے ساتھ موجود نہ ہو جہاں تین آدمی چھپ کر مشورہ کرتے ہوں نہ سمجھیں کہ وہاں کوئی چوتھا نہیں سن رہا۔ اور پانچ کی کمیٹی خیال نہ کرے کہ کوئی چھٹا سننے والا نہیں ۔ خوب سمجھ لو تین ہوں یا پانچ یا اس سے کم زیادہ، کہیں ہوں ، کسی حالت میں ہوں ، اللہ تعالیٰ ہر جگہ اپنے علم محیط سے ان کے ساتھ ہے کسی وقت ان سے جدا نہیں ۔ (تنبیہ) مشورہ میں اگر صرف دو شخص ہوں تو بصورت اختلاف ترجیح دشوار ہوتی ہے۔ اسی لیے عموماً معاملات مہمہ میں طاق عدد رکھتے ہیں ۔ اور ایک کے بعد پہلا طاق عدد تین تھا پھر پانچ۔ شاید اس لیے ان دو کو اختیار فرمایا اور آگے "وَلَا اَدْنیٰ مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ" سے تعمیم فرما دی۔ باقی حضرت عمر کا شوریٰ خلافت کو چھ بزرگوں میں دائر کرنا (حالانکہ چھ کا عدد طاق نہیں ) اس لیے ہو گا کہ اس وقت یہ ہی چھ خلافت کے سب سے زیادہ اہل اور مستحق تھے۔ جن میں سے کسی کو چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ نیز خلیفہ کا انتخاب ان ہی چھ میں سے ہو رہا تھا تو ظاہر ہے جس کا نام آتا، اس کے سوائے رائے دینے والے تو پانچ ہی رہتے ہیں ۔ پھر بھی احتیاطاً حضرت عمر نے بصورت مساوات ایک جانب کی ترجیح کے لیے عبد اللہ بن عمر کا نام لے دیا تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۸ ۔۔۔      حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں بیٹھ کر منافق سرگوشیاں کرتے۔ مجلس والوں کا مذاق اڑاتے۔ ان پر عیب پکڑتے۔ ایک دوسرے کے کان میں اس طرح بات کہتا اور آنکھوں سے اشارے کرتا جس سے مخلص مسلمانوں کو تکلیف ہوتی۔ اور حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر کہتے۔ "یہ مشکل کام ہم سے کہاں ہو سکے گا۔" پہلے سورہ "نساء" میں اس طرح کی سرگوشیوں سے منع کیا جا چکا تھا۔ لیکن یہ موذی بے حیاء پھر بھی اپنی حرکتوں اور زیاد تیوں سے باز نہ آئے۔ اس پر یہ آیتیں اتریں ۔     یعنی اللہ نے تو آپ کو دوسرے انبیاء کے ساتھ یہ دعائیں دی ہیں ۔ "سَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ" اور "سَلَامٌ عَلَی عِبَادِہِ الَّذِیّنَ اصْطَفٰے"اور مومنین کی زبانوں سے "اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا الَّنِبُّی وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ َبَرَکَاتُہٗ۔" مگر بعض یہود جب آپ کے پاس آتے تو بجائے السَّلَامُ عَلَیْکَم کے دبی زبان سے "السَّامُ عَلَیْکَ" کہتے جس کے معنی ہیں "تجھے موت آئے۔" گویا اللہ نے جو سلامتی کی دعا، آپ کو دی تھی، اس کے خلاف بددعا دیتے تھے۔ پھر آپس میں کہتے کہ اگر یہ واقعی رسول ہے تو ایسا کہنے سے ہم پر فوراً عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس کا جواب دیا۔ "حسبہم جہنم" یعنی جلدی نہ کرو۔ ایسا کافی عذاب آئے گا جس کے سامنے دوسرے عذاب کی ضرورت نہ ہو گی۔ (تنبیہ) احادیث میں "یہود" کے متعلق آیا ہے کہ 'السلام" کی جگہ "السام" کہتے تھے۔ ممکن ہے بعض منافقین بھی ایسا کہتے ہوں گے۔ کیونکہ منافق عموماً یہودی تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی کہ جب کوئی یہودی یہ کہتا آپ جواب میں صرف "وعلیک" فرما دیتے۔ ایک مرتبہ عائشہ صدیقہ نے 'السام علیک" کے جواب میں یہودی کو "علیک السام واللعنۃ" کہا تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو کمال خلق سے یہ جواب پسند نہ آیا۔

۹ ۔۔۔      ۱: یعنی سچے مسلمانوں کو منافقین کی خو سے بچنا چاہیے۔ ان کی سرگوشیاں اور مشورے ظلم و عدوان اور اللہ و رسول کی نافرمانی کے لیے نہیں ، بلکہ نیکی اور تقویٰ اور معقول باتوں کی اشاعت کے لیے ہونے چاہئیں جیسا کہ سورہ "نساء" میں گزرا۔ "لَاخَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَجْوَاہُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْاِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاسِ" (نساء، رکوع۱۷'آیت ۱۱۴)

۲: یعنی سب کو اللہ کے سامنے جمع ہو کر ذرہ ذرہ کا حساب دینا ہے۔ اس سے کسی کا ظاہر و باطن پوشیدہ نہیں ۔ لہٰذا اس سے ڈر کر نیکی اور پرہیزگاری کی بات کرو۔

۱۰ ۔۔۔      یعنی منافقین کی کانا پھوسی (سرگوشی) اس غرض سے تھی کہ ذرا مسلمان رنجیدہ اور دلگیر ہوں اور گھبرا جائیں ۔ کہ نہ معلوم یہ لوگ ہماری نسبت کیا منصوبے سوچ رہے ہوں گے۔ یہ کام شیطان ان سے کرا رہا تھا۔ مگر مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اس کے قبضہ میں کیا چیز ہے۔ نفع و نقصان سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا حکم نہ ہو تو کتنے ہی مشورے کر لیں اور منصوبے گانٹھ لیں ، تمہارا بال بیکا نہ ہو گا۔ لہٰذا تم کو غمگین و دل گیر ہونے کے بجائے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔ (تنبیہ) احادیث میں ممانعت آئی ہے کہ مجلس میں ایک آدمی کو چھوڑ کر دو شخص کانا پھوسی کرنے لگیں ۔ کیونکہ وہ تیسرا غمگین ہو گا۔ یہ مسئلہ بھی ایک طرح آیہ ہذا کے تحت میں داخل ہو سکتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "مجلس میں دو شخص کان میں بات کریں تو دیکھنے والے کو غم ہو کہ مجھ سے کیا حرکت ہوئی جو یہ چھپ کر کہتے ہیں ۔"

۱۱ ۔۔۔      ۱: یعنی اس طرح بیٹھو کہ جگہ کھل جائے اور دوسروں کو بھی موقع بیٹھنے کا ملے۔

۲: یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری تنگیوں کو دور کرے گا اور اپنی رحمت کے دروازے کشادہ کر دے گا۔   حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔ "یہ آداب ہیں مجلس کے۔ کوئی آئے اور جگہ نہ پائے تو چاہیے سب تھوڑا تھوڑا ہٹیں تاکہ مکان حلقہ کا کشادہ ہو جائے۔ یا (اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوں اور) پرے ہٹ کر حلقہ کر لیں ۔ (یا بالکل چلے جانے کو کہا جائے تو چلے جائیں ) اتنی حرکت میں غرور (یا بخل) نہ کریں ۔ خوئے نیک پر اللہ مہربان ہے اور خوئے بد سے بیزار۔" (تنبیہ) حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر نور کی مجلس میں ہر شخص آپ کا قرب چاہتا تھا جس سے کبھی مجلس میں تنگی پیش آتی تھی۔ حتی کہ بعض مرتبہ اکابر صحابہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب جگہ نہ ملتی۔ اس لیے یہ احکام دیے گئے۔ تاکہ ہر ایک کو درجہ بدرجہ استفادہ کا موقع ملے، اور نظم و ضبط قائم رہے۔ اب بھی اس قسم کی انتظامی چیزوں میں صدر مجلس کے احکام کی اطاعت کرنا چاہیے۔ اسلام ابتری اور بدنظمی نہیں سکھلاتا بلکہ انتہائی نظم و شائستگی سکھلاتا ہے۔ اور جب عام مجالس میں یہ حکم ہے تو میدان جہاد اور صفوف جنگ میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ہو گا۔    یعنی سچا ایمان اور صحیح علم انسان کو ادب و تہذیب سکھلاتا اور متواضع بناتا ہے۔ اہل علم و ایمان جس قدر کمالات و مراتب میں ترقی کرتے ہیں ، اسی قدر جھکتے اور اپنے کو ناچیز سمجھتے جانتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ ان کے درجے اور زیادہ بلند کرتا ہے۔ "مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ۔" یہ متکبر بد دین یا جاہل گنوار کا کام ہے کہ اتنی سی بات پر لڑے کہ مجھے یہاں سے کیوں اٹھا دیا اور وہاں کیوں بٹھا دیا۔ یا مجلس سے اٹھ جانے کو کیوں کہا۔ افسوس کہ آج بہت سے بزرگ اور عالم کہلانے والے اسی خیالی اعزاز کے سلسلہ میں غیر مختتم جنگ آزمائی اور مورچہ بندی شروع کر دیتے ہیں ۔ "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔"    یعنی ہر ایک کو اس کے کام اور لیاقت کے موافق درجے عطا کرتا ہے اور وہ ہی جانتا ہے کہ کون واقعی ایماندار اور اہل علم ہیں ۔

۱۲ ۔۔۔      منافق بے فائدہ باتیں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کان میں کرتے کہ لوگوں میں اپنی بڑائی جتائیں اور بعض مسلمان غیر مبہم باتوں میں سرگوشی کر کے اپنا وقت لے لیتے تھے کہ دوسروں کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے مستفید ہونے کا موقع نہ ملتا تھا، یا کسی وقت آپ خلوت چاہتے تو اس میں تنگی ہوتی تھی۔ لیکن مروت و اخلاق کے سبب کسی کو منع نہ فرماتے۔ اس وقت یہ حکم ہوا کہ جو مقدرت والا آدمی حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے سرگوشی کرنا چاہے وہ اس سے پہلے کچھ خیرات کر کے آیا کرے۔ اس میں کئی فائدے ہیں ۔ غریبوں کی خدمت، صدقہ کرنے والے کے نفس کا تزکیہ، مخلص و منافق کی تمیز، سرگوشی کرنے والوں کی تقلیل، وغیر ذلک۔ ہاں جس کے پاس خیرات کرنے کو کچھ نہ ہو، اس سے یہ قید معاف ہے۔ جب یہ حکم اترا منافقین نے مارے بخل کے وہ عادت چھوڑ دی اور مسلمان بھی سمجھ گئے کہ زیادہ سرگوشیاں کرنا اللہ کو پسند نہیں ۔ اسی لیے یہ قید لگائی گئی ہے۔ آخر یہ حکم اگلی آیت سے منسوخ فرما دیا۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی صدقہ کا حکم دینے سے جو مقصد تھا، حاصل ہو گیا۔ اب ہم نے یہ وقتی حکم اٹھا لیا ہے چاہیے کہ ان احکام کی اطاعت میں ہمہ تن لگے رہو جو کبھی منسوخ ہونے والے نہیں ۔ مثلاً نماز و زکوٰۃ وغیرہ اسی سے کافی تزکیہ نفس ہو جائے گا۔ (تنبیہ) "فَاِذْلَمْ تَفْعَلُوا" سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم پر عام طور سے عمل کرنے کی نوبت نہیں آتی۔ بعض روایات میں حضرت علی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اس حکم پر امت میں سے صرف میں نے عمل کیا۔

۱ ۴ ۔۔۔       ۱: یہ لوگ منافق ہیں اور وہ قوم یہود ہے۔

۲: یعنی منافق نہ پوری طرح تم مسلمانوں میں شامل کیونکہ دل سے کافر ہیں ، اور نہ پوری طرح ان میں شریک کیونکہ بظاہر زبان سے اپنے کو مسلمان کہتے ہیں ۔ "مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لَا اِلیٰ ہٰؤُلآءِ وَلآاِلیٰ ہٰؤُلاَ ءِ۔"

۳: یعنی بے خبری اور غفلت سے نہیں ، جان بوجھ کر جھوٹی بات پر قسمیں کھاتے ہیں ۔ مسلمان سے کہتے ہیں ۔ "انہم لمنکم" کہ وہ تم میں سے ہیں اور تمہاری طرح سچے ایماندار ہیں ۔ حالانکہ ایمان سے کوئی دور کی نسبت بھی نہیں ۔

۱۵ ۔۔۔      ۱: جس کو دوسری جگہ فرمایا۔ "اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَّ النَّارِ" (نساء، رکوع۲۱)

۲: یعنی خواہ ابھی ان کو نظر نہ آئے لیکن نفاق کے کام کر کے وہ اپنے حق میں بہت برا بیج بو رہے ہیں ۔

۱۷ ۔۔۔      یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر مسلمانوں کے ہاتھوں سے اپنی جان و مال کو بچاتے ہیں اور اپنے کو مسلمان ظاہر کر کے دوستی کے پیرایہ میں دوسروں کو اللہ کی راہ پر آنے سے روکتے ہیں ۔ سو یاد رہے کہ یہ لوگ اس طرح کچھ عزت نہیں پا سکتے۔ سخت ذلت کے عذاب میں گرفتار ہو کر رہیں گے اور جب سزا کا وقت آئے گا، اللہ کے ہاتھ سے کوئی نہ بچا سکے گا۔ نہ مال کام آئے گا اور نہ اولاد، جن کی حفاظت کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے پھرتے ہیں ۔

۱۸ ۔۔۔      ۱:یعنی یہاں کی عادت پڑی ہوئی وہاں بھی نہ جائے گی۔ جس طرح تمہارے سامنے جھوٹ بول کر بچ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے ہوشیار ہیں اور بڑی اچھی چال چل رہے ہیں ، اللہ کے سامنے بھی جھوٹی قسمیں کھانے کو تیار ہو جائیں گے کہ پروردگارا! ہم تو ایسے نہ تھے، ویسے تھے۔ شاید وہاں بھی خیال ہو کہ اتنا کہہ دینے سے رہائی ہو جائے گی۔

۲:  بیشک اصل اور ڈبل جھوٹا وہ ہی ہے جو خدا کے سامنے بھی جھوٹ کہنے سے نہ شرمائے۔

۱۹ ۔۔۔      شیطان جس پر پوری طرح قابو کر لے اس کا دل و دماغ اسی طرح مسخ ہو جاتا ہے اسے کچھ یاد نہیں رہتا کہ خدا بھی کوئی چیز ہے۔ بھلا اللہ کی عظمت اور بزرگی و مرتبہ کو وہ کیا سمجھے۔ شاید محشر میں بھی جھوٹ پر قدرت دے کر اس کی بے حیائی اور حماقت کا اعلان کرنا ہو کہ اس ممسوخ کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ کے آگے میرا جھوٹ کیا چلے گا۔   شیطانی لشکر کا انجام یقیناً خراب ہے۔ نہ دنیا میں ان کے منصوبے آخری کامیابی کا منہ دیکھ سکتے ہیں ، نہ آخرت میں عذاب شدید سے نجات پانے کی کوئی سبیل ہے۔

۲۱ ۔۔۔  یعنی اللہ و رسول کا مقابلہ کرنے والے جو حق و صداقت کے خلاف جنگ کرتے ہیں سخت ناکام اور ذلیل ہیں ۔ اللہ لکھ چکا ہے کہ آخرکار حق ہی غالب ہو کر رہے گا اور اس کے پیغمبر ہی مظفر و منصور ہوں گے۔ اس کی تقریر پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے۔

۲۲ ۔۔۔       ۱: یعنی ایمان ان کے دلوں میں جما دیا اور پتھر کی لکیر کی طرح ثبت کر دیا۔

۲:  یعنی غیبی نور عطا فرمایا جس سے قلب کو ایک خاص قسم کی معنوی حیات ملتی ہے یا روح القدس ( جبرائیل) سے ان کی مدد فرمائی۔

۳: یعنی یہ لوگ اللہ کے واسطے سب سے ناراض ہوئے تو اللہ ان سے راضی ہوا۔ پھر جس سے اللہ راضی ہو اسے اور کیا چاہیے۔

۴: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ۔"یعنی جو دوستی نہیں رکھتے اللہ کے مخالف سے اگرچہ باپ بیٹے ہوں وہ ہی سچے ایمان والے ہیں ۔ ان کو یہ درجے ملتے ہیں ۔" صحابہ رضی اللہ عنہم کی شان یہ ہی تھی کہ اللہ و رسول کے معاملہ میں کسی چیز اور کسی شخص کی پروا نہیں کی، اسی سلسلہ میں ابو عبیدہ نے اپنے باپ کو قتل کر دیا۔ جنگ "احد" میں ابوبکر صدیق اپنے بیٹے عبدالرحمن کے مقابلہ میں نکلنے کو تیار ہو گئے، مصعب بن عمیر نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو، عمر بن الخطاب نے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو، علی بن ابی طالب، حمزہ، عبیدۃ بن الحارث نے اپنے اقارب عتبہ، شیبہ، اور ولید بن عتبہ کو قتل کیا اور رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ نے جو مخلص مسلمان تھے، عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم دیں تو اپنے باپ کا سر کاٹ کر خدمت میں حاضر کروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرما دیا۔فَرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُمْ وَرَضُواعَنْہُ ورزقنا اللہ حُبَّہُمْ واتباعہم واماتنا علیہ۔ آمین۔