پہلی آیت کے لفظ الْمُدَّثِّر کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی صرف نام ہے، مضامین کا عنوان نہیں ہے۔
اس کی پہلی سات آیات مکّہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ ہیں۔ بعض روایات جو بخاری، مسلم،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ ہیں حضرت جابر بن عبس اللہ سے منقول ہیں اُن میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کی اوّلین آیات ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوئیں۔ لیکن امّت میں یہ بات قریب قریب بالاتفاق مسلم ہیں کہ پہلی وحی جو حضورؐ پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ سے مَا لَمْ یَعْلَمْ تک ہے۔ البتہ صحیح روایات سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اِس وحی کے بعد کچھ مدّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، پھر اس وقفہ کے بعد جب از سرِ نو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اُس کا آغاز سُورہ مُدَّثِّر کی اِنہی آیات سے ہوا تھا۔ امام زُہرْیؒ اِس کی تفصیل یُوں بیان کرتے ہیں:
’ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی کا نزول بند رہا اور اُس زمانہ میں آپ پر اس قدر شدید غم کی کیفیت طاری رہی کہ بعض اوقات آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب کبھی آپ کسی چوٹی کے کنارے پر پہنچتے جبریل علیہ السّلام نمودار ہو کر آپ سے کہتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہو جاتا تھا اور وہ اضطراب کی کیفیت دُور ہو جاتی تھی۔‘(ابن جریر)
’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فَتْرۃُ الوحی(وحی بند رہنے کے زمانے) کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت دہشت زدہ ہو گیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھا ؤ، مجھے اُڑھاؤ۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اُڑھا دیا۔ اُس وقت اللہ نے وحی نازل کی یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّرُ ....۔ پھر لگا تار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا‘۔(بخاری۔ مسلم۔مُسنَد احمد۔ ابن جریر)۔
سوُرۃ کا باقی ماندہ حصہ آیت ۸ سے آخر تک اُس وقت نازل ہوا جب اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع ہو جانے کے بعد مکّہ میں پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا۔ اس کا مفصل واقعہ سیرت ابنِ ہشام میں بیان کیا گیا ہے جسے آگے چل کر ہم نقل کریں گے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو بھیجی گئی تھی وہ سورہ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل تھی جس میں صرف یہ فرمایا گیا تھا کہ :
’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا ہے جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘
یہ نزول وحی کا پہلا تجربہ تھا جو اچانک حضور ؐ کو پیش آیا تھا ۔ اِس پیغام میں آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کس کا رِ عظیم پر مامور ہوئے ہیں اور آگے کیا کچھ آپ کو کرنا ہے، بلکہ صرف ایک ابتدائی تعارف کرا کے آپ کو کچھ مدّت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا تا کہ آپ کی طبیعت پر جو شدید بار اِس پہلے تجربے سے پڑا ہے اس کا (اثر دُور ہو جائے اور آپ ذہنی طور پر آئندہ وحی وصول کرنے اور نبوت کے فرائض سنبھالنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقفہ کے بعد جب دوبارہ نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اِس سورہ کی ابتدائی سات آیتیں نازل کی گئیں اور ان میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ اٹھیں اور خلقِ خدا کو اُس روش کے انجام سے ڈرائیں جس پر وہ چل رہی ہے، اور اِس دنیا میں ، جہاں دوسروں کی بڑائی کے ڈنکے بج رہے ہیں، خدا کی بڑائی کا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ اب جو کام آپ کو کرنا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی پاکیزہ ہو اور آپ تمام دنیوی فائدوں سے قطع نظر کر کے کامل اخلاص کے ساتھ خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ پھر آخری فقرے میں آپ کی تلقین کی گئی کہ اِس فریضہ کی انجام دہی میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن پر آپ اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔
اس فرمانِ الہیٰ کی تعمیل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور قرآن مجید کی پے در پے نازل ہونے والی سورتوں کو آپ نے سنانا شروع کیا تو مکّہ میں کھلبلی مچ گئی اور مخالفتوں کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ چند مہینے اِس حال پر گزرے تھے کہ حج کا زمانہ آگیا اور مکّہ کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو ئی کہ اِس موقع پر تمام عرب سے حاجیوں کے قافلے آئیں گے ، اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِن قافلوں کی قیام گاہوں پر جا جا کر آنے والے حاجیوں سے ملاقاتیں کیں اور حج کے اجتماعات میں جگہ جگہ کھڑے ہو کر قرآن جیسا بے نظیر اور مؤثر کلام سنانا شروع کر دیا، تو عرب کے ہر گوشے تک ان کی دعوت پہنچ جائے گی اور نہ معلوم کون کون اِس سے متاثر ہو جائے۔ اس لیے قریش کے سرداروں نے ایک کانفرنس کی جس میں طے کیا گیا کہ حاجیوں کے آتے ہی اُن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔اِس پر اتفاق ہو جانے کے بعد ولید بن مُغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کے متعلق مختلف باتیں لوگوں سے کہیں تو ہم سب کا اعتبار جاتا رہے گا۔ اس لیے کوئی ایک بات طے کر لیجیے جسے سب بالاتفاق کہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا، نہیں ، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہیں، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، جیسی باتیں وہ گُنگناتے ہیں اور جس طرح کے فقرے وہ جوڑتے ہیں، قرآن کو ان سے کوئی دُور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کچھ اور لوگ بولے، انہیں مجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا وہ مجنون بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دیوانے اور پاگل دیکھے ہیں۔ اس حالت میں آدمی جیسی بہکی بہکی باتیں اور الٹی سیدھی حرکات کرتا ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ کون باور کرے گا کہ محمدؐ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ دیوانگی کی بڑ ہے یا جنون کے دورے میں آدمی یہ باتیں کر سکتا ہے؟ لوگوں نے کہا اچھا تو پھر ہم شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ، وہ شاعر بھی نہیں ہیں۔ ہم شعر کی ساری اقسام سے واقف ہیں۔ اِس کلام پر شاعری کی قسم کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا۔ لوگ بولے، تو ان کو ساحر کہا جائے۔ ولید نے کہا وہساحر بھی نہیں ہیں۔ جادوگروں کو ہم جانتے ہیں اور اپنے جادو کے لیے جو طریقے وہ اختیار کرتے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ یہ بات بھی محمد ؐ پر چسپا ں نہیں ہوتی ۔ پھر ولید نے کہا اِن باتوں میں سے جو بات بھی کرو گے لوگ اس کو ناروا الزام سمجھیں گے۔ خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت ہے، اس کی جڑ بڑی گہری اور اس کی ڈالیاں بڑی ثمر دار ہیں۔ اس پر ابو جہم ولید کے سر ہو گیا اور اس نے کہا تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہو گی جب تک تم محمد ؐ کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دو۔ پھر سوچ سوچ کر بولا قریب ترین بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم عرب کے لوگوں سے کہو یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو آدمی کو اُس کے بات، بھائی، بیوی بچو ں اور سارے خاندان سے جدا کر دیتا ہے۔ ولید کی اِس بات کو سب نے قبول کر لیا۔ پھر ایک منصوبے کے مطابق حج کے زمانے میں قریش کے وفود حاجیوں کے درمیان پھیل گئے اور انہوں نے آنے والے زائرین کو خبر دار کرنا شروع کیا کہ یہاں ایک ایسا شخص اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو بڑا جادوگر ہے اور اس کا جادو خاندانوں میں تفریق ڈال دیتا ہے، اُس سے ہوشیار رہنا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام خود ہی سارے عرب میں مشہور کر دیا(سیرۃ ابن ہشام، جلد اوّل، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹۔ اِس قصے کا یہ حصّہ کہ ابو جہل کے اصرار پر ولید نے یہ بات کہی تھی عِکْرِمہ کی روایت سے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے)۔
یہی واقعہ ہے جس پر اس سُورہ کے دوسرے حصّہ میں تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اُس کے مضامین کی ترتیب یہ ہے:
آیت ۸ سے ۱۰ تک منکرینِ حق کو خبر دار کیا گیا ہے کہ آج جو کچھ وہ کر رہے ہیں ا س کا بُرا انجام وہ قیامت کے روز دیکھ لیں گے۔
آیت ۱۱ سے ۲۶ تک ولید بن مُغِیرہ کا نام لیے بغیر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس شخص کو کیا کچھ نعمتیں دی تھیں اور اُنکا جواب اِس نے کیسی حق دشمنی کے ساتھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں اُس کی ذہنی کشمکس کی پُوری تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ ایک طرف دل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا، مگر دوسری طرف اپنی قوم میں اپنی ریاست و وجاہت کو بھی خطرے میں نہ ڈالنا چاہتا تھا ، اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ ایمان لانے سے باز رہا ، بلکہ کافی دیر تک اپنے ضمیر سے لڑنے جھگڑنے کے بعد آخر کار یہ بات بنا کر لا یا کہ خلقِ خدا کو اِس کلام پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لیے اِسے جادو قرار دینا چاہیے۔ اُس کی اِس صریح بد باطنی کا بے نقاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اپنے اِس کرتوت کے بعد بھی یہ شخص چاہتا ہے کہ اِسے مزید انعامات سے نوازا جائے، حالانکہ اب یہ انعام کا نہیں بلکہ دوزخ کا سزاوار ہو چکا ہے۔
اس کے بعد آیت ۲۷ سے۴۸ تک دوزخ کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس اخلاق اور کر دار کے لوگ اس کے مستحق ہیں۔
پھر آیات ۴۹۔۵۳ میں کفار کے مرض کی اصل جڑ بتا دی گئی ہے کہ وہ چونکہ آخرت سے بے خوف ہیں اور اِسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ قرآن سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے شیر سے ڈر کر جنگلی گدھے بھاگے جا رہے ہوں ، اور ایمان لانے کے لیے طرح طرح کی غیر معقول شرطیں پیش کرتے ہیں، حالانکہ خواہ ان کی کوئی شرط بھی پوری کر دی جائے، انکارِ آخرت کے ساتھ وہ ایمان کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔
آخر میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ خدا کو کسی کے ایمان کی کوئی ضرورت نہیں پڑ گئی ہے کہ وہ اس کی شرطیں پُوری کرتا پھرے۔ قرآن کو عام نصیحت ہے جو سب کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کر لے۔ خدا اِس کا مستحق ہے کہ لوگ اُس کی نافرمانی سے ڈریں، اور اسی یہ شان ہے کہ جو شخص بھی تقویٰ اور خدا ترسی کو رویّہ اختیار کر لے اسے وہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ پہلے کتنی ہی نافرمانیاں کر چکا ہو۔
1: اوپر دیباچے میں ہم اِن آیات کے نزول کا جو پس منظر بیا ن کر آئے ہیں اس پر غور کرنےسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یٰاَیّھَُا الرَّسُوْلُ یا یٰاَیّھَُا النَّبِیُّ کہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے یٰاَیّھَُا المُدَّثِّرُ کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور ؐ یکا یک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھا ؤ ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّر کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس لطیف طرز خطاب سےخود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اَے مریے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہا گئے، تم پر تو ایک کارِ عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پُورے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔
2: یہ اُسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السّلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ اَنْذِر قَوْ مَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ عَذَاب اَلِیْم ۔’اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرا ؤ قبل اس کے کہ ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے‘۔(نوح۔۱۔)۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور تمہارے گرد وپ یش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اُن کو چَونکا دو۔ انہیں اُس انجام سے ڈرا ؤ جس سے یقیناً وہ دو چار ہوں گے اگر اِسی حالت میں مبتلا رہے ۔ انہیں خبر دار کر دو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پُرس نہ ہو۔
3: یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجام دینا ہوتا ہے ۔ اُس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں اُن سب کو نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیازی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔ اس مقام پر ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہو چکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیر تھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اُس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھو کا کام تھا۔ اسی لیے ’اٹھو اور خبر دار کرو‘ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ’اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔
4: یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اِن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو ’طہارت‘کا ہم معنی ہو۔بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپا کی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم اِن الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف سُتھرا رکھو۔ راہبانہ تصوّرات نے دنیا مین مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ مَیلا کُچیلا ہو اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت مَیل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حِس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی ہے مانوس ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اُس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔ تیسرا مفہوم اِس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس سُتھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ رئیسوں اور نوابوں کے لباس، مذہبی پیشہ وروں کے لباس، متکبّر اور بر خود غلط لوگوں کے لباس، چھچورے اور کم ظرف لوگوں کےلباس، بد قوار اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی بُرائی میں مبتلا نہیں ہے۔ چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس،ابراہیم نَخَعی، شَعبی، عطاء،مجاہد،قتادہ،سعیدبن جُبَیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاھر الثیاب و فلان طاھر الذیل،’فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے‘۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے بر عکس کہتے ہیں فلانٌ دَنِس الثیاب،’اس شخص کے کپڑے گندے ہیں‘ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔
5: گندگی سے مراد ہو قسم کی گندگی ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو، یا اخلاق و اعمال کی ، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا جاتا ہے۔
6: اصل الفاظ ہیں وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ اِن کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اِن کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کر دے غرضانہ نہ کرے۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حُسنِ سلوک محض اللہ کے یے ہو، اس میں کوئی شائبہ اِس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کے دنیوی فوائد حاصل ہوں۔ بالفاظِ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو، فائدہ حاصل کرنے کے لیے کو ئی احسان نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑااحسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتا ؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو۔ تیسرا مفہوم یہ ہے کہ تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو، مگر اپنی نگاہ میں اپنے کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر ، اور اس کام میں جان لڑا کر اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو۔
7: یعنی یہ کام جو تمہارے سُپر د کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے ، اپنے رب کی خاطر اِس پر صبر کرنا اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف، طمع، لالچ،دوستی، دشمنی،محبت ہر چیز تمہارے راستے میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔ یہ تھیں وہ اوّلین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اُس وقت دی تھیں جب اُس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اِس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اِس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہییں، اور یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبر دار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصّب میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ صَرع کے دَوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر اِن فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صَرع کے کسی دَورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟
8: جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، اِس سورہ کا یہ حصّہ ابتدائی آیات کے چند مہینے بعد اُس وقت نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عَلانیہ تبلیغِ اسلام شروع ہو جانے کے بعد پہلی مرتبہ حج کا زمانہ آیا اور سردارانِ قریش نے ایک کانفرنس کر کے یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کی ایک زبردست مہم چلائی جائے۔ اِن آیات میں کفار کی اِسی کاروائی پر تبصرہ کیا گیا ہے اور اِس تبصرے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا گیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ اچھا، یہ حرکتیں جو تم کرنا چاہتے ہو کر لو، دنیا میں اِن سے کوئی مقصد برا ری تم نے کر بھی لی تو اُس روز اپنے بُرے انجام سے کیسے بچ نکلو گے جب صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ (صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، الانعام، حاشیہ۴۷۔جلد دوم، ابراہیم،حاشیہ۵۷۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۷۸۔الحج،حاشیہ۱۔جلد چہارم،یٰس،حواشی۴۶۔۴۷۔الزُّمُر، حاشیہ۷۹۔جلد پنجم،ق،حاشیہ۵۲۔)۔9
: اِس ارشاد سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دن ایمان لانے والوں کے لیے ہلکا ہوگا اور اس کی سختی صرف حق کا انکار کرنے والوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ مزید بر اں یہ ارشاد اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ اُس دن کی سختی کافروں کے لیے مستقل سختی ہو گی، وہ ایسی سختی نہ ہوگی جس کے بعد کبھی اُس کے نرمی سے بدل جانے کی امید کی جا سکتی ہو۔
10: یہ خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اَے نبی، کفار کی اس کانفرنس میں جس شخص (ولید بن مغیرہ) نے تمہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام عرب سے آنے والے حاجیوں میں تمہیں جادوگر مشہور کیا جائے، اُس کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اُس سے نمٹنا اب میرا کام ہے، تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
11: اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ جب میں نے اُسے پیدا کیا تھا اُس وقت یہ کوئی مال اور اولاد اور وجاہت اور ریاست لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُس کا پیدا کرنے والا اکیلا میں ہی تھا، وہ دوسرے معبود، جن کی خدائی قائم رکھنے کے لیے یہ تمہاری دعوتِ توحید کی مخالفت میں اس قدر سر گرم ہے، اُس کو پیدا کرنے میں میرے ساتھ شریک نہ تھے۔12: ولید بن مغیرہ کے دس بارہ لڑکے تھے جن میں سے حضرت خالد بن ولید تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اِن بیٹوں کے لیے شُہود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو کہیں اپنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ اور سفر کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی ، ان کے گھر کھانے کو اتنا موجود ہے کہ ہر وقت باپ کے پا سموجود اور اس کی مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے سب بیٹے نامور اور با اثر ہیں، مجلسوں اور محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہو تے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اِس مرتبے کے لوگ ہیں کہ معاملات میں ان کی شہادت قبول کی جاتی ہے۔
13: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اِس پر بھی اس کی حرص ختم نہیں ہوئی۔ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی وہ بس اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ اُسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں۔ دوسرا مطلب حضرت حسن بصری اور بعض دوسرے بزرگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر واقعی محمدؐ کا یہ بیان سچاہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی جنت بھی ہو گی تو وہ جنّت میرے ہی لیے بنائی گئی ہے۔
14: یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جو کفارِ مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا۔ اس کی جو تفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلامِ الہیٰ ہونے کا قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست بر قرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود اُن تمام الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبُور کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور ؐ کو بدنام کیا جا سکتا ہو۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پُور ی تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے۔
15: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شخص بھی اس میں ڈالا جائے گا اسے وہ جلا کر خاک کر دے گی مگر مر کر بھی اس کا پیچھا نہ چھوٹے گا بلکہ وہ پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر جلا یا جائے گا۔ اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْییٰ ’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گیا‘(الاعلیٰ۔۱۳)۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے، اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔
16: یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیر ضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایا ں کر نے والی چیز دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بد نمائی اُسے سب سے زیادہ کھلتی ہے۔ اندرونی اعضاء میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بد نما ہو جائے، یا اس کے جسم کے کھلے حصّوں کی جلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص اُس سے گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شاندار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں ، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہر وش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھُلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلا کر کوئلے کی طرح سیاہ کر دی جائے گی۔
17: یہاں سے لے کر ’تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا‘ تک کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر اُن معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف ۱۹ ہو گی ، اس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف تو ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف ۱۹ کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا،’بھائیوں ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے؟‘بنی جُمحَ کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’۱۷ سے میں تو اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں۔
18: یعنی اُن کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں۔
19: کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اُس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں کے بارے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد وحساب مجرم جنوں اور انسانوں کو صرف ۱۹ سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداً فرداً ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فوراً کھل کر باہر آ جائے گا۔ ***** یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔
20: بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے ۱۹ فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق ااستہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء کی شانسے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہا یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا نظارہ ہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔
21: یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شکّ و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفا داری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، آیت۱۷۳۔جلد دوم، الانفال، آیت۲، حاشیہ ۲۔ التوبہ، آیات۱۲۴۔۱۲۵۔حاشیہ۱۲۵۔ جلد چہارم، الاحزابِ،آیت۲۲، حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الفتح آیت ۴، حاشیہ۷)۔
22: قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’دل کی بیماری‘سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶۷۲،۶۷۴، اور۶۸۰تا۶۸۲ پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں یہ معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کون سا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔
23: اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اِسے اللہ کا کلام تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی۔ بلکہ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔24: یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکلا کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، البقرہ،حواشی۲۰،۱۹،۱۶،۱۰۔النساء،حاشیہ۱۷۳۔الانعام،حواشی۹۰،۲۸،۱۷ جلد دوم، یونس،حاشیہ۱۳۔جلد سوم، الکہف، حاشیہ۵۴۔القصص،حاشیہ۷۱)۔
25: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کُرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدا ئی کا کارخانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصّور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔
26: یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔
27: یعنی یہ کوئی ہوا ئی بات نہیں ہے جس کا اِس طرح مذاق اُڑا یا جائے۔
28: یعنی جس طرح چاند ، اور رات اور دن اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عظیم نشانات ہیں اُسی طرح دوزخ بھی عظائمِ قدرت میں سے ایک چیز ہے۔ اگر چاند کا وجود غیر ممکن نہ تھا، اگر رات اور دن کا اس باقاعدگی کے ساتھ آنا غیر ممکن نہ تھا، تو دوزخ کا وجود، آخر کیوں تمہارے خیال میں غیر ممکن ہو گیا؟ اِن چیزوں کو چونکہ تم رات دن دیکھ رہے ہو اس لیے تمہیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ، ورنہ اپنی ذات میں یہ بھی اللہ کی قدرت کے نہایت حیرت انگیز معجزے ہیں ، جو اگر تمہارے مشاہدے میں نہ آئے ہوتے ، اور کوئی تمہیں خبر دیتا کہ چاند جیسی ایک چیز بھی دنیا میں موجود ہے، یا سورج ایک چیز ہے جس کے چھپنے سے دنیا میں اندھیرا ہو جا تا ہے، اور جس کے نکل آنے سے دنیا چمک اٹھتی ہے ،تو تم جیسے لوگ اِس بات کو سُن کر بھی اُسی طرح ٹھٹھے مارتے جس طرح دوزخ کا ذکر سُن کر ٹھٹھے مار رہے ہو۔
29: مطلب یہ ہے کہ اس چیز سے لوگوں کو ڈرا دیا گیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے۔
30: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔
31: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔
32: اس سے پہلے کئی مقامات پر قرآن مجدی میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہلِ جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے ہزاروں لوکھوں میل دُور ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کو کسی آلے کی مدد کے بغیر دیکھ سکیں گے اور ایک دوسرے سے براہِ راست گفتگو کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات۴۴تا ۵۰، حاشیہ۳۵۔ جلد چہارم، الصّافّات، آیات۵۰تا۵۷،حاشیہ۳۲۔
33: مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اوّلین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے، یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اُس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو ۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو ملتزم ہے ۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔
34: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو بھوک میں مبتلا دیکھنا اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کو کھانا نہ کھلانا اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا گناہ ہے کہ آدمی کے دوزخی ہونے کے اسباب میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
35: یعنی مرتے دم تک ہم اِسی روش پر قائم رہے یہاں تک کہ وہ یقینی چیز ہمارے سامنے آ گئی جس سے ہم غافل تھے۔ یقینی چیز سے مراد موت بھی ہے اور آخرت بھی۔
36: یعنی ایسے لوگ جنہوں نے مرتے دم تک یہ روش اختیار کیے رکھی ہو ان کے حق میں اگر کوئی شفاعت کرنے والا شفاعت کرے بھی تو اسے معافی نہیں مل سکتی۔ شفاعت کے مسئلے کو قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا ، کس حالت میں کی جاسکتی ہے اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی، کس کے لیے کی جا سکتی ہے اور کس کے لیے نہیں کی جا سکتی ، اور کس کے حق میں وہ نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا میں چونکہ لوگوں کی گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں ، اس لیے قرآن نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ،۲۵۵۔ الانعام،۹۴۔ الاعراف،۳۵۔یونس،۳۔۱۸۔ مریم،۸۷۔ طٰہٰ،۱۰۹۔ الانبیاء،۲۸۔ سبا،۲۳۔ الزُّمَر،۴۳۔۴۴۔ المومن،۱۸۔ الدُّخان،۸۶ ۔ النجم۲۶۔ النبا،۳۷۔۳۸۔ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں یہ آیات آئی ہیں ہم نے ان کی اچھی طرح تشریح کر دی ہے۔
37: یہ ایک عربی محاورہ ہے ۔جنگلی گدھوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے کہ خطرہ بھانپتے ہی وہ اِس قدر بد حواس ہو کر بھاگتے ہیں کہ کوئی دوسرا جانور اس طرح نہیں بھاگتا ۔ اس لیے اہلِ عرب غیر معمولی طور پر بد حواس ہو کر بھاگنے والے کو اُن جنگلی گدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو شیر کی بُو یا شکاریوں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ پڑے ہوں۔
38: یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی مقرر فرمایا ہے تو وہ مکہ کے ایک ایک سردار اور ایک ایک شیخ کے نام ایک خط لکھ کر بھیجے کہ محمد ؐ ہمارے نبی ہیں، تم ان کی پیروی قبول کرو، اور یہ خط ایسے ہوں جنہیں دیکھ کر انہیں یقین آ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے یہ لکھ کر بھیجے ہیں۔ ایک اور عام مقام پر قرآن مجید میں کفارِ مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’ہم نہ مانیں گے جب تک وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے‘(الانعام،۱۲۴)۔ایک دوسری جگہ ان کا یہ مطالبہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لا کر ہمیں دیں جسے ہم پڑھیں(بنی اسرائیل۔۹۳)۔
39: یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے یہ مطالبے پُورے نہیں کیے جاتے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں۔ انہوں نے سب چکھ اسی دنیا کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں ہے کہ اِس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں اِن کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اسی چیز نے اِن کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمّہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے معنی سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازماً دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو، اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور بُرا ہی نکلا کرتا ہو۔ اس لیے یہ اِس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابلِ غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اُس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا انجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً بُرا ہوگا۔ ایسا شخص تو اُن معقول دلائل اور اُن پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاشِ حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نتِ نئے مطالبے پیش کرے گا، حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈ نکالے گا۔ یہی بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ ’اے نبی، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اُتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھُو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے‘ (الانعام،۷)۔
40: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔
41: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔
42: یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اِس کی ضرورت ہے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو اُس سے اللہ کا کوئی نقصان ہوتا ہے،بلکہ یہ نصیحت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں۔
43: یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں ، جس وقت بھی وہ اپنی اِس روش سے باز آ جائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی جذبۂ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں درگزر ہی نہ کرے اور انہیں سزا دیے بغیر چھوڑے۔