تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ التّوبَة

نام

یہ سورت دو ناموں سے مشہور ہے۔ ایک التوبہ دوسرے البرأۃ۔ توبہ اس لحاظ سے کہ اس میں ایک جگہ بعض اہل ایمان کے قصوروں کی معافی کا ذکر ہے اور البرأۃ اس لحاظ سے کہ اس کے آغاز میں مشرکین سے بری الذمہ ہونے کا اعلان ہے۔

بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ

اس سورت کی ابتدا میں بسم اللہ نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجود مفسرین نے بیان کیے ہیں جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازی نے لکھی کہ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی اس لیے صحابہ کرام نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اس کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کا مزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جوں کا توں لینے اور جیسا دیا گیا تھا ویسا ہی اس کو محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول و اجزاء سورہ

یہ سورت تین تقریروں پر مشتمل ہے :

 

   ۱. پہلی تقریر آغاز سورت سے پانچویں رکوع کے آخر تک چلتی ہے۔ اس کا زمانۂ نزول ذی القعدہ ۹ھ یا اس کے لگ بھگ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امیر الحجاج مقرر کر کے مکہ روانہ کر چکے تھے کہ یہ تقریر نازل ہوئی اور حضور نے فوراً سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ان کے پیچھے بھیجا تاکہ حج کے موقع پر تمام عرب کے نمائندہ اجتماع میں اسے سنائیں اور اس کے مطابق جو طرزِ عمل تجویز کیا گیا تھا اس کا اعلان کر دیں۔

   ۲. دوسری تقریر رکوع ۶ کی ابتداء سے رکوع ۹ کے اختتام تک چلتی ہے اور یہ رجب ۹ھ  یا اس سے کچھ پہلے نازل ہوئی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غزوۂ تبوک کی تیاری کر رہے تھے۔ اس میں اہل ایمان کو جہاد پر اکسایا گیا ہے اور ان لوگوں کو سختی کے ساتھ ملامت کی گئی ہے جو نفاق یا ضعف ایمان یا سستی و کاہلی کی وجہ سے راہ خدا میں جان و مال کا زیاں برداشت کرنے سے جی چرا رہے تھے۔

   ۳. تیسری تقریر رکوع ۱۰ سے شروع ہو کر سورت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہے اور یہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر نازل ہوئی۔ اس میں متعدد ٹکڑے ایسے بھی ہیں جو انہی ایام میں مختلف مواقع پر اترے اور بعد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارۂ الٰہی سے ان سب کو یکجا کر کے ایک سلسلۂ تقریر میں منسلک کر دیا۔ مگر چونکہ وہ ایک ہی مضمون اور ایک ہی سلسلۂ واقعات سے متعلق ہیں اس لیے ربطِ میں کہیں خلل نہیں پایا جاتا۔ اس میں منافقین کی حرکات پر تنبیہ، غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے والوں پر زجر و توبیخ، اور اُن صادق الایمان لوگوں پر ملامت کے ساتھ معافی کا اعلان ہے جو ایمان میں سچے تو تھے مگر جہاد فی سبیل اللہ میں حصہ لینے باز رہے تھے۔

نزول ترتیب کے لحاظ سے پہلی تقریر سب سے آخر میں آنی چاہیے تھی لیکن مضمون کی اہمیت کے لحاظ سے وہی سب سے مقدم تھی اس لیے مصحف کی ترتیب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو پہلے رکھا۔

تاریخی پس منظر

زمانۂ نزول کے تعین کے بعد ہمیں اس سورت کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے جس میں سلسلۂ واقعات سے اس کے مضامین کا تعلق ہے اس کی ابتداء صلح حدیبیہ سے ہوتی ہے۔ حدیبیہ تک چھ سال کی مسلسل جدوجہد کا نتیجہ اس شکل میں رونما ہو چکا تھا کہ عرب کے تقریباً ایک تہائی حصے میں اسلام ایک منظور سوسائٹی کا دین، ایک مکمل تہذیب و تمدن اور ایک کامل با اختیار ریاست بن گیا تھا۔ حدیبیہ کی صلح جب واقع ہوئی تو اس دین کو یہ موقع بھی حاصل ہو گیا کہ اپنے اثرات نسبتاً زیادہ امن و اطمینان کے ماحول میں چہار طرف پھیلا سکے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مائدہ و سورۂ فتح)

اس کے بعد واقعات کی رفتار نے دو بڑے راستے اختیار کیے جو آگے چل کر نہایت اہم نتائج پر منتہی ہوئے۔ ان میں سے ایک تعلق عرب سے تھا اور دوسرے کا سلطنت روم سے۔

عرب کی تسخیر

عرب میں حدیبیہ کے بعد دعوت و تبلیغ اور استحکام قوت کی جو تدبیریں اختیار کی گئیں ان کی بدولت دو سال کے اندر ہی اسلام کا دائرۂ اثر اتنا پھیل گیا اور اس کی طاقت اتنی زبردست ہو گئی کہ پرانی جاہلیت اس کے مقابلے میں بے بس ہو کر رہ گئی۔ آخر کار جب قریش کے زیادہ پر جوش عناصر بازی ہارتی دیکھی تو انہیں یارائے ضبط نہ رہا اور انہوں نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑ ڈالا۔ وہ اس بندش سے آزاد ہو کر اسلام سے ایک آخری فیصلہ کن مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس عہد شکنی کے بعد ان کو سنبھلنے کا کوئی موقع نہ دیا اور اچانک مکہ پر حملہ کر کے رمضان ۸ھ میں اسے فتح کر لیا۔ (دیکھئے سورۂ انفال)

اس کے بعد قدیم جاہلی نظام نے آخری حرکت حنین کے میدان میں کی جہاں ہوازن، ثقیف، نضر، جشم اور بعض دوسرے جاہلیت پرست قبائل نے اپنی ساری طاقت لا کر جھونک دی تاکہ اس اصلاحی انقلاب کو روکیں جو فتح مکہ کے بعد تکمیل کے مرحلے پر پہنچ چکا تھا لیکن یہ حرکت بھی ناکام ہوئی اور حنین کی شکست کے ساتھ عرب کی قسمت کا قطعی فیصلہ ہو گیا کہ اسے اب دار الاسلام بن کر رہنا ہے۔ اس واقعے پر پورا ایک سال بھی نہ گزرنے پایا کہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے دائرے میں داخل ہو گیا اور نظام جاہلیت کے صرف چند پراگندہ عناصر ملک کے مختلف گوشوں میں باقی رہ گئے۔ اس نتیجہ کے حد کمال تک پہنچنے میں ان واقعات سے اور زیادہ مدد ملی جو شمال میں سلطنت روم کی سرحد پر اسی زمانے میں پیش آ رہے تھے۔ وہاں جس جرات کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ۳۰ ہزار کا زبردست لشکر لے کر گئے اور رومیوں نے آپ کے مقابلے پر آنے سے پہلو تہی کر کے جو کمزوری دکھائی اس نے تمام عرب پر آپ کی اور آپ کے دین کی دھاک بٹھا دی اور اس کا ثمرہ اس صورت میں ظاہر ہوا کہ تبوک سے واپس آتے ہی حضور کے پاس عرب کے گوشے گوشے سے وفد آنے شروع ہو گئے اور اسلام و اطاعت کا اقرار کرنے لگے۔ چنانچہ اس کیفیت میں قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ

    جب اللہ کی مدد آ گئی اور فتح نصیب ہوئی اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو رہے ہیں 

غزوۂ تبوک کے بعد

غزوہ تبوک کے موقع پر رومیوں کے میدان جنگ میں نہ آنے کے بعد مسلمانوں کو جو اخلاقی فتح حاصل ہوئی اس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مرحلے پر کافی سمجھا اور بجائے اس کے کہ تبوک سے آگے بڑھ کر سرحد شام میں داخل ہوتے، آپ نے اس بات کو ترجیح دی کہ اس فتح سے انتہائی ممکن سیاسی و حربی فوائد حاصل کریں۔ چنانچہ آپ نے تبوک میں ۲۰ دن ٹھیر کر ان بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو جو سلطنت روم اور دار الاسلام کے درمیان واقع تھیں اور اب تک رومیوں کو زیر اثر رہی تھیں، سلطنت اسلامی کا باج گذار اور تابع امر بنا لیا۔ اس سلسلے میں دومۃ  الجندل کے عیسائی رئیس اکیدر بن عبدالملک کندی، ایلہ کے عیسائی رئیس یوحن بن رؤبہ اور اسی طرح مقنا، جرباء اور اذرح کے نصرانی رؤسا نے بھی جزیہ ادا کر کے مدینہ کی تابعیت قبول کی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی حدود اقتدار براہ راست رومی سلطنت کی سرحد تک پہنچ گئے اور جن عرب قبائل کو قیاصرۂ روم اب تک عرب کے خلاف استعمال کرتے رہے تھے، اب ان کا بیشتر حصہ رومیوں کے مقابلے میں مسلمانوں کا معاون بن گیا۔ پھر اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سلطنت روم کے ساتھ ایک طویل کشمکش میں الجھ جانے سے پہلے اسلام کو عرب پر اپنی گرفت مضبوط کر لینے کا پورا موقع مل گیا۔ تبوک کی اس فتح بلا جنگ نے عرب میں ان لوگوں کی کمر توڑ دی جو اب تک جاہلیتِ قدیمہ کے بحال ہونے کی آس لگائے بیٹھے تھے، خواہ و علانیہ مشرک ہوں یا اسلام کے پردہ میں منافق بنے ہوئے ہوں۔ اس آخری مایوسی نے ان میں سے اکثر و بیشتر کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہنے دیا کہ اسلام کے دامن میں پناہ لیں اور اگر خود نعمت ایمانی سے بہرہ ور نہ بھی ہوں تو کم از کم ان کی آئندہ نسلیں بالکل اسلام میں جذب ہو جائیں۔ اس کے بعد جو ایک برائے نام اقلیت شرک و جاہلیت میں ثابت قدم رہ گئی، وہ اتنی بے بس ہو گئی تھی کہ اُ اصلاحی انقلاب کی تکمیل میں کچھ بھی مانع نہ ہو سکتی تھی جس کے لیے اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا تھا۔

مسائل و مباحث

اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنے کے بعد ہم باآسانی ان بڑے بڑے مسائل کا احصاء کر سکتے ہیں جو اس وقت درپیش تھے اور جن سے سورۂ توبہ میں تعرض کیا گیا ہے :

 

(۱) اب چونکہ عرب کا نظم و نسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آ گیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آ جانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دار الاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی

الف: عرب سے شرک کو قطعاً مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب ہو سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براءَت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

ب: کعبہ کا انتظام اہل ایمان کے ہاتھ میں آ جانے کے بعد یہ بالکل نامناسب تھا کہ جو گھر خالص خدا کی پرستش کے لیے وقف کیا گیا تھا اس میں بدستور شرک ہوتا رہے ور اس کی تولیت بھی مشرکین کے قبضہ میں رہے۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ کعبہ کی تولیت بھی اہل توحید کے قبضے میں رہنی چاہیے اور بیت اللہ کی حدود میں شرک و جاہلیت کی تمام رسمیں بھی بزور بند کر دینی چاہییں، بلکہ اب مشرکین اس گھر کے قریب پھٹکنے بھی نہ پائیں تاکہ اس بنائے ابراہیمی کے آلودۂ رک ہونے کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔

ج: عرب کی تمدنی زندگی میں رسوم جاہلیت کے جو آثار ابھی تک باقی تھے ان کا جدید اسلامی دور میں جاری رہنا کسی طرح درست نہ تھا اس لیے ان کے استیصال کی طرف توجہ دلائی گئی۔ نسی کا قاعدہ ان رسوم میں سب سے زیادہ بدنما تھا اس لیے اس پر براہ راست ضرب لگائی گئی اور اسی ضرب سے مسلمانوں کو بتا دیا گیا کہ بقیہ آثار جاہلیت کے ساتھ نہیں کیا کرنا چاہیے۔

 

(۲) عرب میں اسلام کا مشن پایۂ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے توا وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دینِ حق کا دائرۂ اثر پھیلایا جائے۔ اس معاملے میں روم و ایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سدِ راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی و تمدنی نظاموں میں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں ان کی خود مختارانہ فرمانروائی کو بزور شمشیر ختم کر دوں تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کر لیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انہیں اختیار دیا جا سکتا ہے وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔

 

(۳) تیسرا اہم مسئلہ منافقین کا تھا جن کے ساتھ اب تک وقتی مصالح کے لحاظ سے چشم پوشی و درگزر کا معاملہ کیا جا رہا تھا۔ اب چونکہ بیرونی خطرات کا دباؤ کم ہو گیا تھا بلکہ گویا نہیں رہا تھا اس لیے حکم دیا گیا کہ آئندہ ان کے ساتھ نرمی نہ کی جائے اور وہی سخت برتاؤ ان چھتے ہوئے منکرین حق کے ساتھ بھی ہو جو کھلے منکرین حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ یہی پالیسی تھی جس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانے میں سویلم کے گھر آگ لگوا دی جہاں منافقین کا ایک گروہ اس غرض سے جمع ہوتا تھا کہ مسلمانوں کو شرکت جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کرے اور اسی پالیسی کے تحت تبوک سے واپس تشریف لاتے ہی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد ضرار کو ڈھانے اور جلا دینے کا حکم دے دیا۔

 

(۴) مومنین صادقین میں اب تک جو تھوڑا بہت ضعفِ عزم باقی تھا اس کا علاج بھی ضروری تھا، کیونکہ اسلام عالمگیر جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہونے والا تھا اور اس مرحلے میں، جبکہ اکیلے مسلم عرب کو پوری غیر مسلم دنیا سے ٹکرانا تھا، ضعفِ ایمان سے بڑھ کر کوئی اندرونی خطرہ اسلامی جماعت کے لیے نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے جن لوگوں نے تبوک کے موقع پر سستی اور کمزوری دکھائی تھی ان کو نہایت شدت کے ساتھ ملامت کی گئی، پیچھے رہ جانے والوں کے اس فعل کو کہ وہ بلا عذر معقول پیچھے گئے بجائے خود ایک منافقانہ طرز عمل، اور ایمان میں ان کے نا راست ہونے کا ایک بین ثبوت قرار دیا اور آئندہ کے لیے پوری صفائی کے ساتھ یہ بات واضح کر دی گئی کہ اعلائے کلمۃ اللہ کی جدوجہد اور کفر و اسلام کی کشمکش ہی وہ اصل کسوٹی ہے جس پر مومن کا دعوائے ایمان پرکھا جائے گا۔ جو اس آویزش میں اسلام کے لیے جان و مال اور وقت و محنت صرف کرنے سے جی چرائے گا اس کا ایمان معتبر نہ ہو گا اور اس پہلو کی کسر کسی دوسرے مذہبی عمل سے پوری نہ ہو سکے گی۔

 

ان امور کو نظر میں رکھ کر سورۂ توبہ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے تمام مضامین باآسانی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔

ترجمہ و تفسیر

۱ اِعلان برأت ہے اللہ اور اُس کے رسُول کی طرف سے اُن مشرکین کو جن سے تم نے معاہدے کیے تھے۔ ۲ پس تم لوگ ملک میں چار مہینے اور چل پھر لو ۳ اور جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو، اور یہ کہ اللہ منکرینِ حق کو رُسوا کرنے والا ہے۔ اطلاعِ عام ہے اللہ اور کے رسول ؐ کی طرف سے حجِ اکبر کے دن ۴ تمام لوگوں کے لیے کہ اللہ مشرکین سے بری الذمّہ ہے اور اُس کا رسول ؐ بھی۔ اب اگر تم لوگ توبہ کر لو تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے اور جو منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو۔اور اے نبی ؐ، انکار کرنے والوں کو سخت عذاب کی خوشخبری سُنا دو، بجز اُن مشرکین کے جن سے تم نے معاہدے کیے پھر اُنہوں نے اپنے عہد کو پورا کرنے میں تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مُدتِ معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ ۵پس جب حرام مہینے گزر جائیں ۶ تو مشرکین کو قتل کرو جہاں پاؤ اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات میں اُن کی خبر لینے کے لیے بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں تو انہیں چھوڑ دو۔۷ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارے پاس آنا چاہے ( تاکہ اللہ کا کلام سُنے ) تو اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سُن لے۔ پھر اُسے اس کے مامن تک پہنچا دو، یہ اِس لیے کرنا چاہیے کہ یہ لوگ علم نہیں رکھتے۔ ۸ ؏ ١
 

۱-جیسا کہ ہم سورہ کے دیباچہ میں بیان کر چکے ہیں، یہ خطبہ رکوع ۵ کے آخر تک سن ۹ ہجری میں اُس وقت نازل ہوا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ابو بکرؓ کو حج کے لیے روانہ کر چکے تھے۔ ان کے پیچھے جب یہ نازل ہوا تو صحابۂ کرام نے حضور سے عرض کیا کہ اسے ابوبکر کو بھیج دیا جائے تو کہ وہ حج میں اس کو سنا دیں۔ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ اس اہم معاملہ کا اعلان میری طرف سے میرے ہی گھر کے کسی آدمی کو کرنا چاہیے۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ کو اس خدمت پر مامور کیا، اور ساتھ ہی ہدایت فرما دی کہ حاجیوں کے مجمعِ عام میں اسے سنانے کے بعد حسبِ ذیل چار باتوں کا اعلان بھی کر دیں: (۱) جنت میں کوئی ایسا شخص داخل نہ ہو گا جو دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔ (۲) اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔ (۳) بیت اللہ کے گرد برہنہ طواف کرنا ممنوع ہے۔ (۴) جن لوگوں کے ساتھ رسول اللہ کا معاہدہ باقی ہے، یعنی جو نقضِ عہد کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ان کے ساتھ مدتِ معاہدہ تک وفا کی جائے گی۔

اس مقام پر یہ جان لینا ضروری بھی فائدے سے خالی نہ ہو گا کہ فتح مکہ کے بعد دَور اسلامی کا پہلا حج سن ۸ ہجری میں قدیم طریقے پر ہوا۔ پھر سن ۹ ہجری میں یہ دوسرا حج مسلمانوں نے اپنے طریقے پر کیا اور مشرکین نے اپنے طریقے پر۔ اس کے بعد تیسرا حج سن ۱۰ ہجری میں خالص اسلامی طریقہ پر ہوا اور یہی وہ مشہور حج ہے جسے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے دو سال حج کے لیے تشریف نہ لے گئے۔ تیسرے سال جب بالکل شرک کا استیصال ہو گیا تب آپؐ نے حج ادا فرمایا۔

۲-سورۂ انفال آیت ۵۸ میں گزر چکا ہے کہ جب تمہیں کسی قوم سے خیانت (نقضِ عہد اور غدّاری) کا اندیشہ ہو تو علی الاعلان ان کا معاہدہ اس کی طرف پھینک دو اور اسے خبردار کر دو کہ اب ہمارا تم سے کوئی معاہدہ باقی نہیں ہے۔ اس اعلان کے بغیر کسی معاہد قوم کے خلاف جنگی کارروائی شروع کر دینا خود خیانت کا مرتکب ہونا ہے۔ اسی ضابطۂ اخلاقی کے مطابق معاہدات کی منسوخی کا یہ اعلانِ عام اُن تمام قبائل کے خلا ف کیا گیا جو عہد و پیمان کے باوجود ہمیشہ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے رہے تھے، اور موقع پاتے ہی پاس عہد کو بالائے طاق رکھ کر دشمنی پر اتر آتے تھے۔ یہ کیفیت بنی کِنانہ اور بنی ضَمرہ اور شاید ایک آدھ اور قبیلہ کے سوا باقی تمام اُن قبائل کی تھی جو اس وقت تک شرک پر قائم تھے۔

اس اعلانِ  براءت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملًا خلافِ  قانون(Outlaw) ہو گیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیرِ حکم آ چکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم و فارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی صلی اللہ علیہ و سلم وفات پا جائیں تو یکایک نقضِ عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے اُن کی ساعتِ منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر اُلٹ دی اور اعلان براءت کر کے اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحۂ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اُس نظم و ضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا تھا۔

اس عظیم الشان تدبیر کی پوری حکمت اُسی وقت سمجھ میں آسکتی ہے جبکہ ہم اُس فتنۂ ارتداد کو نظر میں رکھیں جو اس واقعہ کے ڈیڑھ سال بعد ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات پر ملک کے مختلف گوشوں میں برپا ہوا اور جس نے اسلام کے نو تعمیر قصر کو یکلخت متزلزل کر دیا۔ اگر کہیں سن ۹ ہجری کے اِس اعلان براءت سے شرک کی منظم طاقت ختم نہ کر دی گئی ہوتی اور پورے ملک پر اسلام کی قوت ضابطہ کا استیلاء پہلے ہی مکمل نہ ہو چکا ہوتا، تو ارتداد کی شکل میں جو فتنہ حضرت ابو بکر کی خلافت کے آغاز میں اُٹھا تھا اُس سے کم از کم دس گنی زیادہ طاقت کے ساتھ بغاوت اور خانہ جنگی کا فتنہ اٹھتا اور شاید تاریخ اسلام کی شکل اپنی موجودہ صورت سے بالکل ہی مختلف ہوتی۔

۳-یہ اعلان ۱۰ ذی الحجہ سن ۹ ہجری کو ہوا تھا۔ اس وقت ۱۰ ربیع الثانی سن ۱۰ ہجری تک چار مہینہ کی مہلت ان لوگوں کو دی گئی کہ اس دوران میں اپنی پوزیشن پر اچھی طرح غور کر لیں۔ لڑنا ہو تو لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں، ملک چھوڑنا ہو تو اپنی جائے پناہ تلاش کر لیں، اسلام قبول کرنا ہو تو سوچ سمجھ کر قبول کر لیں۔

۴-یعنی ۱۰ ذی الحجہ جسے یوم النحر کہتے ہیں۔ حدیث صحیح میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ دیتے ہوئے حاضرین سے پوچھا یہ کونسا دین ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا یوم النحر ہے۔ فرمایا ھٰذا یوم الحج الاکبر۔ ’’ یہ حج اکبر کا دن ہے ‘‘۔ حج اکبر کا لفظ حج اصغر کے مقابلہ میں ہے۔ اہلِ عرب عمرے کو چھوٹا حج کہتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں وہ حج جو ذوالحجہ کی مقرر ہ تاریخوں میں کیا جاتا ہے، وہ حج اکبر کہلاتا ہے۔

۵-یعنی یہ بات تقویٰ کے خلاف ہو گی کہ جنھوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی ہے ان سے تم عہد شکنی کرو۔ اللہ کے نزدیک پسندیدہ صرف وہی لوگ ہیں جو ہر حال میں تقویٰ پر قائم رہیں۔

۶-یہاں حرام مہینوں سے اصطلاحی اشہُر حرُم مراد نہیں ہیں جو حج اور عُمرے کے لیے حرام قرار دیے گئے ہیں۔ بلکہ اس جگہ وہ چار مہینے مراد ہیں جن کی مشرکین کو مہلت دی گئی تھی۔ چونکہ اس مہلت کے زمانہ میں مسلمانوں کے لیے جائز نہ تھا کہ مشرکین پر حملہ آور ہو جاتے اس لیے اِنہیں حرام مہینے فرمایا گیا ہے۔

۷-یعنی کفرو شرک سے محض توبہ کر لینے پر معاملہ ختم نہ ہو گا بلکہ انہیں عملًا نماز قائم کرنی اور زکوٰۃ دینی ہو گی۔ اس کے بغیر یہ نہیں مانا جائے گا کہ انہوں نے کفر چھوڑ کر اسلام اختیار کر لیا ہے۔ اسی آیت سے حضرت ابوبکر ؓ نے فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں استدلال کیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد جن لوگوں نے فتنہ برپا کیا تھا ان میں سے ایک گروہ کہتا تھا کہ ہم اسلام کے منکر نہیں ہیں، نماز بھی پڑھنے کے لیے تیار ہیں، مگر زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ صحابۂ کرام کو بالعموم یہ پریشانی لاحق تھی کہ آخر ایسے لوگوں کے خلاف تلوار کیسے اٹھائی جا سکتی ہے ؟ مگر حضرت ابوبکرؓ نے اسی آیت کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ہمیں تو اِن لوگوں کو چھوڑ دینے کا حکم صرف اُس صورت میں دیا گیا تھا جبکہ یہ شرک سے توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، مگر جب یہ تین شرطوں میں سے ایک شرط اُڑائے دیتے ہیں تو پھر انہیں ہم کیسے چھوڑ دیں۔

۸-یعنی دورانِ جنگ میں اگر کوئی دشمن تم سے درخواست کرے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ اسے امان دے کر اپنے ہاں آ نے کا موقع دیں اور اسے سمجھائیں، پھر اگر وہ قبول نہ کرے تو اسے اپنی حفاظت میں اس کے ٹھکانے تک واپس پہنچا دیں۔ فقہ اسلامی میں ایسے شخص کو جو امان لے کر دار الاسلام میں آئے مُسامِن کہا جاتا ہے۔

 

مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں در انحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت د ے رہے ہیں۔ ۱۹ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہو گئے ۲۰ اور جہنّم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ اللہ کی مسجدوں کے آبادکار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ انہی سے یہ توقع ہے کہ سیدھی راہ چلیں گے، کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟۲۱ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا بڑا درجہ ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑنے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔ان کا ربّ انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں۔ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کُفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ اے نبی ؐ، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اللہ اور اس کے رسُول ؐ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، ۲۲ اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔ ؏ ۳
 

۱۹-یعنی جو مساجد خدائے واحد کی عبادت کے لیے بنی ہوں ان کے متولی، مجاور، خادم اور آباد کار بننے کے لیے وہ لوگ کسی طرح موزون نہیں ہو سکتے جو خدا کے ساتھ خداوندی کی صفات، حقوق اور اختیارات میں دوسروں کو شریک کرتے ہوں۔ پھر جبکہ وہ خود بھی توحید کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر چکے ہوں اور انہوں نے صاف صاف کہہ دیا ہو کہ ہم اپنی بندگی و عبادت کو ایک خدا کے لیے مخصوص کر دینا قبول نہیں کریں گے تو آخر انہیں کیا حق ہے کہ کسی ایسی عبادت گاہ کے متولی بنے رہیں جو صرف خد اکی عبادت کے لیے بنائی گئی تھی۔

یہاں اگر چہ بات عام کہی گئی ہے اور اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ عام ہے بھی لیکن خاص طور پر یہاں اس کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خانۂ کعبہ اور مسجد حرام پر سے مشرکین کی تولیت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس پر ہمیشہ کے لیے اہلِ توحید کی تولیت قائم کر دی جائے۔

۲۰-یعنی جو تھوڑی بہت واقعی خدمت انہوں نے بیت اللہ کی انجام دی وہ بھی اس وجہ سے ضائع ہو گئ کہ یہ لوگ اس کے ساتھ شرک اور جاہلانہ طریقوں کی آمیزش کرتے رہے۔ ان کی تھوڑی بھلائی کو ان کی بہت بڑی برائی کھا گئ۔

۲۱-یعنی کسی زیارت گاہ کی سجادہ نشینی، مجاوری اور چند نمائشی مذہبی اعمال کی بجا آوری، جس پر دنیا کے سطح بیں لوگ بالعموم شرف اور تقدس کا مدار رکھتے ہیں، خدا کے نزدیک کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتی۔ اصلی قدر و قیمت ایمان اور راہ خدا میں قربانی کی ہے۔ ان صفات کا جو شخص بھی حامل ہو وہ قیمتی آدمی ہے خواہ وہ کسی اونچے خاندان سے تعلق نہ رکھتا ہو اور کسی قسم کے امتیازی طرّے اس کو لگے ہوئے نہ ہوں۔ لیکن جو لوگ ان صفات سے خالی ہیں وہ محض اس لیے کہ بزرگ زادے ہیں، سجادہ نشینی ان کے خاندان میں مدتوں سے چلی آ رہی ہے اور خاص خاص موقعوں پر کچھ مذہبی مراسم کی نمائش وہ بڑی شان کے ساتھ کر دیا کرتے ہیں، نہ کسی مرتبے کے مستحق ہو سکتے ہیں اور نہ یہ جائز ہو سکتا ہے کہ ایسے بے حقیقت ’’موروثی‘‘ حقوق کو تسلیم کر کے مقدس مقامات اور مذہبی ادارے ان نالائق لوگوں کے ہاتھوں میں رہنے دیے جائیں۔

۲۲-یعنی تمہیں ہٹا کر سچی دینداری کی نعمت اور اُس کی علمبرداری کا شرف اور رشد و ہدایت کی پیشوائی کا منصب کسی اور گروہ کو عطا کر دے۔

 

اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے۔ ابھی غَزوہٴ حُنَین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو ۲۳)۔ اس روز تمہیں اپنی کثرتِ تعداد کا غَرّہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول ؐ پر اور مومنین پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اُتارے جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور منکرینِ حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو حق کا انکار کریں۔پھر (تم یہ بھی دیکھ چکے ہو کہ) اس طرح سزا دینے کے بعد اللہ جس کو چاہتا ہے توبہ کی توفیق بھی بخش دیتا ہے، ۲۴ اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اے ایمان لانے والو، مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد یہ مسجدِ حرام کے قریب نہ پھٹکنے پائیں۔۲۵ اور اگر تمہیں تنگ دستی کا خوف ہے تو بعید نہیں کہ اللہ چاہے تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اللہ علیم و حکیم ہے۔ جنگ کرو اہلِ کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں لاتے ۲۶ اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے ۲۷ اور دینِ حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں چھوٹے بن کر رہیں۔۲۸ ؏ ۴
 

۲۳-جو لوگ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اعلان براءت کی خطرناک پالیسی پر عمل کرنے سے تمام عرب کے گوشے گوشے میں جنگ کی آگ بھڑک اُٹھے گے اور اس کا مقابلہ کرنا مشکل ہو گا، ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان اندیشوں سے کیوں ڈرے جاتے ہو، جو خدا اس سے بہت زیادہ سخت خطرات کے موقعوں پر تمہاری مدد کر چکا ہے وہ اب بھی تمہاری مدد کو موجود ہے۔ اگر یہ کام تمہاری قوت پر منحصر ہوتا تو مکہ ہی سے آگے نہ بڑھتا، ورنہ بدر میں تو ضرور ہی ختم ہو جاتا۔ مگر اس کی پشت پر تو اللہ کی طاقت ہے اور پچھلے تجربات تم پر ثابت کر چکے ہیں کہ اللہ ہی کی طاقت اب تک اس کو فروغ دیتی رہی ہے۔ لہٰذا یقین رکھو کہ آج بھی وہی اسے فروغ دے گا۔

غزوۂ حُنَین جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے شوال سن ۸ ہجری میں ان آیات کے نزول سے صرف بارہ تیرہ مہینے پہلے مکّے اور طائف کے درمیان وادی حُنَین میں پیش آیا تھا۔ اس غزوہ میں مسلمانوں کی طرف سے ۱۲ ہزار فوج تھی جو اس سے پہلے کبھی کسی اسلامی غزوہ میں اکٹھی نہیں ہوئی تھی اور دوسری طرف کفار اُن سے بہت کم تھے۔ لیکن اس کے باوجود قبیلۂ ہوازِن کے تیر اندازوں نے ان کا منہ پھیر دیا اور لشکرِ  اسلامی بُری طرح تِتّر بِتّر ہو کر پسپا ہوا۔ اس وقت صرف نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور چند مٹھی بھر جانباز صحابہ تھے جن کے قدم اپنی جگہ جمے رہے اور انہی کی ثابت قدمی کا نتیجہ تھا کہ دوبارہ فوج کی ترتیب قائم ہو سکی اور بالآخر فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی۔ ورنہ فتح مکہ سے جو کچھ حاصل ہوا تھا اس سے بہت زیادہ حنین میں کھو دینا پڑتا۔

۲۴-غزوۂ حنین میں فتح حاصل کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے شکست خوردہ دشمنوں کے ساتھ جس فیاضی و کریم النفسی کا برتاؤ کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں سے بیشتر آدمی مسلمان ہو گئے۔ اس مثال سے مسلمانوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ تم نے یہی کیوں سمجھ رکھا ہے کہ بس اب سارے مشرکین عرب تہس نہس کر ڈالے جائیں گے۔ نہیں، پہلے کے تجربات کو دیکھتے ہوئے تو تم کو یہ توقع ہونی چاہیے کہ جب نظامِ  جاہلیت کے فروغ و بقا کی کوئی امید ان لوگوں کو باقی نہ رہے گی اور وہ سہارے ختم ہو جائیں گے جن کی وجہ سے یہ اب تک جاہلیت کو چمٹے ہوئے ہیں تو خود بخود یہ اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لینے کے لیے آ جائیں گے۔

۲۵-یعنی آئندہ کے لیے ان کا حج اور ان کی زیارت ہی بند نہیں بلکہ مسجد حرام کے حدود میں ان کا داخلہ بھی بند ہے تاکہ شرک و جاہلیت کے اعادہ کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ ’’ناپاک‘‘ ہونے سے مراد یہ نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود ناپاک ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اعتقادات، ان کے اخلاق، ان کے اعمال اور ان کے جاہلانہ طریقِ  زندگی ناپاک ہیں اور اسی نجاست کی بنا پر حدودِ حرم میں ان کا داخلہ بند کیا گیا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ حج اور عمرہ اور مراسم جاہلیت ادا کرنے کے لیے حدود حرم میں نہیں جا سکتے۔ امام شافعی کے نزدیک اس حکم کا منشا یہ ہے کہ یہ مسجد حرام میں جاہی نہیں سکتے۔ اور امام مالک یہ رائے رکھتے ہیں کہ صرف مسجد حرام ہی نہیں بلکہ کسی مسجد میں بھی ان کا داخل ہونا درست نہیں۔ لیکن یہ آخری رائے درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود مسجد نبوی میں ان لوگوں کو آنے کی اجازت دی تھی۔

۲۶- ’’اگرچہ اہلِ کتاب خدا اور آخرت پر ایمان رکھنے کے مدعی ہیں لیکن فی الواقع نہ وہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں نہ آخرت پر۔ خدا پر ایمان رکھنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آدمی بس اس بات کو مان لے کہ خدا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خدا کو الٰہِ واحد اور ربِّ واحد تسلیم کر ے اور اس کی ذات، اس کی صفات، اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں نہ خود شریک بنے نہ کسی کو شریک ٹھہرائے۔ لیکن نصاریٰ اور یہود دونوں اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات میں بتصریح بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے ان کا خدا کو ماننا بے معنی ہے اور اسے ہرگز ایمان باللہ نہیں کہا جا سکتا۔ اسی طرح آخرت کو ماننے کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آدمی یہ بات مان لے کہ ہم مرنے کے بعد پھر اُٹھائے جائیں گے، بلکہ اس کے ساتھ یہ ماننا بھی ضروری ہے کہ وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ، اور کسی بزرگ سے منتسِب ہونا کام نہ آئے گا اور نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکے گا، خدا کی عدالت میں بے لاگ انصاف ہو گا اور آدمی کے ایمان و عمل کے سوا کسی چیز کا لحاظ نہ رکھا جائے گا۔ اس عقیدے کے بغیر آخرت کو ماننا لا حاصل ہے۔ لیکن یہود و نصاریٰ نے اسی پہلو سے اپنے عقیدے کو خراب کر لیا ہے۔ لہٰذا ان کا ایمان بالآخرت بھی مسلّم نہیں ہے۔

۲۷-یعنی اُس شریعت کو اپنا قانونِ زندگی نہیں بناتے جو اللہ نے اپنے رسول کے ذریعہ سے نازل کی ہے۔

۲۸-یعنی لڑائی کی غایت یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں اور دینِ حق کے پیرو بن جائیں، بلکہ اس کی غایت یہ ہے کہ ان کی خودمختاری و بالا دستی ختم ہو جائے۔ وہ زمین میں حاکم اور صاحبِ امر بن کر نہ رہیں بلکہ زمین کے نظامِ زندگی کی باگیں اور فرمانروائی و امامت کے اختیارات متبعینِ دینِ حق کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ ان کے ماتحت تابع و مطیع بن کر رہیں۔

جزیہ بدل ہے اُس امان اور اس حفاظت کا جو ذمیوں کو اسلامی حکومت میں عطا کی جائے گی۔ نیز وہ علامت ہے اس امر کی کہ یہ لوگ تابع امر بننے پر راضی ہیں۔ ’’ہاتھ سے جزیہ دینے ‘‘ کا مفہوم سیدھی طرح مطیعانہ شان کے ساتھ جزیہ ادا کرنا ہے۔ اور چھوٹے بن کر رہنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین میں بڑے وہ نہ ہوں بلکہ وہ اہلِ ایمان بڑے ہوں جو خلافتِ الٰہی کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ ابتداءً یہ حکم یہود و نصاریٰ کے متعلق دیا گیا تھا، لیکن آگے چل کر خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجوس سے جزیہ لے کر انہیں ذمّی بنایا اور اس کے بعد صحابہ کرام نے بالاتفاق بیرونِ عرب کی تمام قوموں پر اس حکم کو عام کر دیا۔

یہ جزیہ و ہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں اُنیسویں صدی عیسوی کے دَورِ مذلّت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اُس دَور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالاو برتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں کریں، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار و فرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو گی، فساد رونما ہو گا اور اہلِ ایمان کا فرض ہو گا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انہیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اُس آزادی کی قیمت ہے جو انہیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے، اور اس قیمت کو اُس صالح نظامِ حکومت کے نظم و نسق پر صَرف ہونا چاہیے جو انہیں اِس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔

 

یہودی کہتے ہیں کہ عُزَیر اللہ کا بیٹا ہے، اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ ۲۹ یہ بے حقیقت باتیں ہوتی ہیں جو وہ اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اُن لوگوں کی دیکھا دیکھی جو ان سے پہلے کُفر میں مبتلا ہوئے تھے۔ ۳۰ خدا کی مار اِن پر، یہ کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہیں انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے ۳۱ اور اسی طرح مسیح اِبنِ مریم کو بھی، حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحقِ  عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے۔ ۳۲ خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اے ایمان لانے والو، اِن اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔۳۳ دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور پہلوؤں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا۔۔۔۔ یہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، لو اب اپنی سمیٹی ہوئی دولت کا مزہ چکھو۔حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے ۳۴، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی ٹھیک ضابطہ ہے۔ لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو ۳۵ اور مشرکوں سے سب مِل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں ۳۶ اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے۔ نَسِی تو کُفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں۔ کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں۔۳۷ ان کے بُرے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرینِ حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ ؏ ۵
 

۲۹-عُزَیر سے مراد (عَزرا) ہیں جن کو یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ سن ۴۵۰ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے۔ اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت سلیمان ؑ کے بعد جو دَور ابتلاء بنی اسرائیل پر آیا اس میں نہ صرف یہ کہ توراۃ دنیا سے گم ہو گئی تھی بلکہ بابل کی اسیری نے اسرائیلی نسلوں کو اپنی شریعت، اپنی روایات اور اپنی قومی زبان، عبرانی تک سے نا آشنا کر دیا تھا۔ آخر کار انہی عزیر یا عزرا نے بائیبل کے پُرانے عہد نامے کو مرتب کیا، اور شریعت کی تجدید کی۔ اسی وجہ سے بنی اسرائیل ان کی بہت تعظیم کرتے ہیں اور یہ تعظیم اس حد تک بڑھ گئی کہ بعض یہودی گروہوں نے ان کو ابن اللہ تک بنا دیا۔ یہاں قرآن مجید کے ارشاد کا مقصود یہ نہیں ہے کہ تمام یہودیوں نے بالاتفاق عزرا کا ہن کو خدا کا بیٹا بنایا ہے بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ خدا کے متعلق یہودیوں کے اعتقادات میں جو خرابی رونما ہوئی وہ اس حد تک ترقی کر گئی کہ عزرا کو خدا کا بیٹا قرار دینے والے بھی ان میں پیدا ہوئے۔

۳۰-یعنی مصر، یونان، روم، ایران اور دوسرے ممالک میں جو قومیں پہلے گمراہ ہو چکی تھیں ان کے فلسفوں اور اوہام و تخیلات سے متاثر ہو کر ان لوگوں نے بھی ویسے ہی گمراہانہ عقیدے ایجاد کر لیے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو المائدہ حاشیہ ۱۰۱)۔

۳۱-حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتِم، جو پہلے عیسائی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے تو انہوں منجملہ اور سوالات کے ایک یہ سوال بھی کیا تھا کہ اس آیت میں ہم پر اپنے علماء اور درویشوں کو خد ا بنا لینے کا جو الزام عائد کیا گیا ہے اس کی اصلیت کیا ہے۔ جواب میں حضور نے فرمایا کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ جو کچھ یہ لوگ حرام قرار دیتے ہیں اسے تم حرام مان لیتے ہو اور جو کچھ یہ حلال قرار دیتے ہیں اسے حلال مان لیتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو ضرور ہم کرتے رہے ہیں۔ فرمایا بس یہی ان کو خد ا بنا لینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کی سند کے بغیر جو لوگ انسانی زندگی کے لیے جائز و ناجائز کی حدود مقرر کرتے ہیں وہ دراصل خدائی کے مقام پر بزعمِ خود متمکن ہوتے ہیں اور جو ان کے اس حقِ شریعت سازی کو تسلیم کرتے ہیں وہ انہیں خدا بناتے ہیں۔

یہ دونوں الزام، یعنی کسی کو خدا کا بیٹا قرار دینا، اور کسی کو شریعت سازی کا حق دے دینا، اس بات کے ثبوت میں پیش کیے گئے ہیں کہ یہ لوگ ایمان باللہ کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔ خدا کی ہستی کو چاہے یہ مانتے ہوں مگر ان کا تصورِ خدائی اس قدر غلط ہے کہ اس کی وجہ سے ان کا خدا کو ماننا نہ ماننے کے برابر ہو گیا ہے۔

۳۲-متن میں ’’الدین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ہم نے ’’جنس دین‘‘ کیا ہے۔ دین کا لفظ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں، عربی زبان میں اُس نظامِ زندگی یا طریقِ زندگی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کے قائم کرنے والے کو سند اور مُطاع تسلیم کر کے اس کا اتباع کیا جائے۔ پس بعثتِ رسول کی غرض اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ جس ہدایت اور دینِ حق کو وہ خدا کی طرف سے لایا ہے اسے دین کی نوعیت رکھنے والے تمام طریقوں اور نظاموں پر غالب کر دے۔ دوسرے الفاظ میں رسول کی بعثت کبھی اس غرض کے لیے نہیں ہوئی کہ جو نظامِ زندگی لے کر وہ آیا ہے وہ کسی دوسرے نظامِ زندگی کا تابع اور اس سے مغلوب بن کر اور اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائشوں میں سمٹ کر رہے۔ بلکہ وہ بادشاہِ ارض و سما کا نمائندہ بن کر آیا ہے اور اپنے بادشاہ کے نظامِ حق کو غالب دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر کوئی دوسرا نظامِ زندگی دنیا میں رہے بھی تو اسے خدائی نظام کی بخشی ہوئی گنجائشوں میں سمٹ کر رہنا چاہیے جیسا کہ جزیہ ادا کرنے کی صورت میں ذمیوں کا نظامِ زندگی رہتا ہے۔ (ملاحظہ ہو الزمر، حاشیہ ۳، المومن، حاشیہ ۴۳ – الشوریٰ حاشیہ ۲۰)

۳۳-یعنی ظالم صرف یہی ستم نہیں کرتے کہ فتوے بیچتے ہیں، رشوتیں کھاتے ہیں، نذرانے لوٹتے ہیں، ایسے ایسے مذہبی ضابطے اور مراسم ایجاد کرتے ہیں جن سے لوگ اپنی نجات اِن سے خریدیں اور اُن کا مرنا جینا اور شادی و غم کچھ بھی اِن کو کھلائے بغیر نہ ہو سکے اور وہ اپنی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کا ٹھیکہ دار  اِن کو سمجھ لیں۔ بلکہ مزید براں اپنی اِنہی اغراض کی خاطر یہ حضرات خلقِ خدا کو گمراہیوں کے چکر میں پھنسائے رکھتے ہیں اور جب کبھی کوئی دعوتِ حق اصلاح کے لیے اُٹھتی ہے تو سب سے پہلے یہی اپنی عالمانہ فریب کاریوں اور مکاریوں کے حربے لے لے کر اس کا راستہ روکنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

۳۴-یعنی جب سے اللہ نے چاند، سورج اور زمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آ رہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنا لیتے تھے، تاکہ جس ماہِ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے۔

۳۵-یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے۔

۳۶-یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۴ اِس آیت کی تفسیر کرتی ہے۔

۳۷-عرب میں نَسِی دو طرح کی تھی۔ اس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ جنگ و جدل اور غارت گری اور خون کے انتقام لینے کی خاطر کسی حرام مہینے کو حلال قرار دے لیتے تھے اور اس کے بدلے میں کسی حلال مہینے کو حرام کر کے حرام مہینوں کی تعداد پوری کر دیتے تھے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ قمری سال کو شمسی سال کے مطابق کرنے کے لیے اُس میں کبِیسہ کا ایک مہینہ بڑھا دیتے تھے، تاکہ حج ہمیشہ ایک ہی موسم میں آتا رہے اور وہ اُن زحمتوں سے بچ جائیں جو قمری حساب کے مطابق مختلف موسموں میں حج کے گردش کرتے رہنے سے پیش آتی ہیں۔ اس طرح ۳۳ سال تک حج اپنے اصلی وقت کے خلاف دوسری تاریخوں میں ہو تا رہتا تھا اور صرف چونتیسویں سال ایک مرتبہ اصل ذی الحجہ کی ۹ -۱۰ تاریخ کو ادا ہوتا تھا۔ یہی وہ بات ہے جو حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خطبہ میں فرمائی تھی کہ ان الزمان قد استدار کھیئتہ یوم خلق اللہ السمٰوٰت والارض۔ یعنی اِس سال حج کا وقت گردش کرتا ہوا ٹھیک اپنی اس تاریخ پر آگیا ہے جو قدرتی حساب سے اس کی اصل تاریخ ہے۔

اس آیت میں نَسی کو حرام اور ممنوع قرار دے کر جہلائے عرب کی ان دونوں اغراض کو باطل کر دیا گیا ہے۔ پہلی غرض تو ظاہر ہے کہ صریح طور پر ایک گناہ تھی۔ اُس کے تو معنی ہی یہ تھے کہ خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال بھی کر لیا جائے اور پھر حیلہ بازی کر کے پابندی قانون کی ظاہری شکل بھی بنا کر رکھ دی جائے۔ رہی دوسری غرض تو سرسری نگاہ میں وہ معصوم اور مبنی بر مصلحت نظر آتی ہے، لیکن درحقیقت وہ بھی خدا کے قانون سے بدترین بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عائد کردہ فرائض کے لیے شمسی حساب کے بجائے قمری حساب جن اہم مصالح کی بنا پر اختیار کیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کے بندے زمانے کی تمام گردشوں میں، ہر قسم کے حالات اور کیفیات میں اُس کے احکام کی اطاعت کے خوگر ہوں۔ مثلاً رمضان ہے، تو وہ کبھی گرمی میں اور کبھی برسات میں اور کبھی سردیوں میں آتا ہے، اور اہلِ ایمان اِن سب بدلتے ہوئے حالات میں روزے رکھ کر فرمانبرداری کا ثبوت بھی دیتے ہیں اور بہترین اخلاقی تربیت بھی پاتے ہیں۔ اسی طرح حج بھی قمری حساب سے مختلف موسموں میں آتا ہے اور ان سب طرح کے اچھے اور بُرے حالات میں خدا کی رضا کے لیے سفر کر کے بندے اپنے خدا کی آزمائش میں پورے بھی اُترتے ہیں اور بندگی میں پختگی بھی حاصل کرتے ہیں۔ اب اگر کوئی گروہ اپنے سفر اور اپنی تجارت اور اپنے میلوں ٹھیلوں کی سہولت کی خاطر حج کو کسی خوشگوار موسم میں ہمیشہ کے لیے قائم کر دے، تو یہ ایسا ہی ہے جیسے مسلمان کوئی کانفرنس کر کے طے کر لیں کہ آئندہ سے رمضان کا مہینہ دسمبر یا جنوری کے مطابق کر دیا جائے گا۔ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بندوں نے اپنے خدا سے بغاوت کی اور خودمختار بن بیٹھے۔ اسی چیز کا نام کفر ہے۔ علاوہ بریں ایک عالمگیر دین جو سب انسانوں کے لیے ہے، آخر کس شمسی مہینے کو روزے اور حج کے لیے مقرر کرے ؟ جو مہینہ بھی مقرر کیا جائے گا وہ زمین کے تمام باشندوں کے لیے یکساں سہولت کا موسم نہیں ہو سکتا۔ کہیں وہ گرمی کا زمانہ ہو گا اور کہیں سردی کا۔ کہیں وہ بارشوں کا موسم ہو گا اور کہیں خشکی کا۔ کہیں فصلیں کاٹنے کا زمانہ ہو گا اور کہیں بونے کا۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ نسی کی منسوخی کا یہ اعلان سن ۹ ہجری کے حج کے موقع پر کیا گیا۔ اور اگلے سال سن ۱۰ ہجری کا حج ٹھیک اُن تاریخوں میں ہُوا جو قمری حساب کے مطابق تھیں۔ اس کے بعد سے آج تک حج اپنی صحیح تاریخوں میں ہو رہا ہے۔

 

۳۸ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دُنیوی زندگی کا یہ سب سرو سامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔۳۹ تم نہ اُٹھو گے تو خدا تمہیں دردناک سزا دے گا،۴۰ اور تمہاری جگہ کسی اور گروہ کو اُٹھائے گا،۴۱ اور تم خدا کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے، وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ تم نے اگر نبی کی مدد نہ کی تو کچھ پروا نہیں،اللہ اُس کی مدد اُس وقت کر چکا ہے جب کافروں نے اسے نکال دیا تھا، جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ ’’غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘ ۴۲۔ اُس وقت اللہ نے اس پر اپنی طرف سے سکونِ قلب نازل کیا اور اس کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کا بول نیچا کر دیا۔ اور اللہ کا بول تو اُونچا ہی ہے، اللہ زبر دست اور دانا و بینا ہے۔۔۔۔نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل ۴۳، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔اے نبی ؐ اگر فائدہ سہل الحصُول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو یہ راستہ بہت کٹھن ہو گیا۔۴۴ اب وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہیں گے کہ اگر ہم چل سکتے تو یقیناً تمہارے ساتھ چلتے ! وہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال رہے ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ ؏ ٦
 

۳۸-یہاں سے وہ خطبہ شروع ہوتا ہے جو غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نازل ہوا تھا۔

۳۹-اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ عالم آخرت کے بے پایاں زندگی اور وہاں کے بے حد و حساب سازو سامان کو جب تم دیکھو گے تب تمہیں معلوم ہو گا کہ دنیا کے تھوڑے سے عرصۂ حیات میں لطف اندوزی کے جو بڑے سے بڑے امکانات تم کو حاصل تھے اور زیادہ سے زیادہ جو اسبابِ عیش تم کو میسر تھے وہ غیر محدود امکانات اور اس نعیم و ملکِ کبیر کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ اور اُس وقت تم کو اپنی اس ناعاقبت اندیشی و کم نگاہی پر افسوس ہو گا کہ تم نے کیوں ہمارے سمجھانے کے باوجود دنیا کے عارضی اور قلیل منافع کی خاطر اپنے آپ کو ان ابدی اور کثیر منافع سے محروم کر لیا۔ دوسرے یہ کہ متاعِ حیاۃِ دنیا آخرت میں کام آنے والی چیز نہیں ہے۔ یہاں تم خواہ کتنا ہی سر و سامان مہیا کر لو، موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہر چیز سے دست بردار ہونا پڑے گا، اور سرحدِ موت کے دوسری جانب جو عالَم ہے وہاں اِن میں سے کوئی چیز بھی تمہارے ساتھ منتقل نہ ہو گی۔ وہاں اِس کا کوئی حصہ اگر تم پا سکتے ہو تو صرف وہی جسے تم نے خدا کی رضا پر قربان کیا ہو اور جس کی محبت پر تم نے خدا اور اس کے دین کی محبت کو ترجیح دی ہو۔

۴۰-اسی سے یہ مسئلہ نکلا ہے کہ جب تک نفیر عام (جنگی خدمت کے لیے عام بلاوا) نہ ہو، یا جب تک کسی علاقے کی مسلم آبادی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم نہ دیا جائے، اس وقت تک تو جہاد فرض کفایہ رہتا ہے، یعنی اگر کچھ لوگ اسے ادا کرتے رہیں تو باقی لوگوں پر سے اس کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے۔ لیکن جب امام المسلمین کی طرف سے مسلمانوں کو جہاد کا عام بلاوا ہو جائے، یا کسی خاص گروہ یا خاص علاقے کی آبادی کو بلاوا دے دیا جائے تو، پھر جنہیں بلاوا دیا گیا ہو ان پر جہاد فرض عین ہے، حتیٰ کہ جو شخص کسی حقیقی معذوری کے بغیر نہ نکلے ا س کا ایمان تک معتبر نہیں ہے۔

۴۱-یعنی خدا کا کام کچھ تم پر منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہو گا ورنہ نہ ہو گا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل و احسان ہے کہ وہ تمہیں اپنے دین کی خدمت کا زرین موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤ گے۔

۴۲-یہ اُس موقع کا ذکر ہے جب کفارِ مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کا تہیہ کر لیا تھا اور آپؐ عین اس رات کو، جو قتل کے لیے مقرر کی گئی تھی، مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ مسلمانوں کی بڑی تعداد دو دو چار چار کر کے پہلے ہی مدینہ جا چکی تھی۔ مکہ میں صرف وہی مسلمان رہ گئے تھے جو بالکل بے بس تھے یا منافقانہ ایمان رکھتے تھے اور ان پر کوئی بھروسہ نہ کیا جا سکتا تھا۔ اس حالت میں جب آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے قتل کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آپ صرف ایک رفیق حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے، اور اس خیال سے کہ آپ کا تعاقب ضرور کیا جائے گا، آپ نے مدینہ کی راہ چھوڑ کر (جو شمال کی طرف تھی) جنوب کی راہ اختیار کی۔ یہاں تین دن تک آپ غارِ ثور میں چھپے رہے۔ خون کے پیاسے دشمن آپ کو ہر طرف ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اطراف مکہ کی وادیوں کا کوئی گوشہ انہوں نے ایسا نہ چھوڑا جہاں آپ کو تلاش نہ کیا ہو۔ اسی سلسلہ میں ایک مرتبہ ان میں سے چند لوگ عین اُس غار کے دہانے پر بھی پہنچ گئے جس میں آپ چھپے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ کو سخت خوف لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں میں کسی نے ذرا آگے بڑھ کر غار میں جھانک لیا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا اور آپ نے یہ کہہ کر حضرت ابوبکرؓ کو تسکین دی کہ ’’غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔

۴۳-ہلکے اور بوجھل کے الفاظ بہت وسیع مفہوم رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب نکلنے کا حکم ہو چکا تو بہرحال تم کو نکلنا چاہیے خواہ برضا و رغبت خواہ بکراہت، خواہ خوشحالی میں خواہ تنگ دستی میں، خواہ ساز و سامان کی کثرت کے ساتھ خواہ بے سر و سامانی کے ساتھ، خواہ موافق حالات میں خواہ ناموافق حالات میں، خواہ جوان و تندرست خواہ ضعیف و کمزور۔

۴۴-یعنی یہ دیکھ کر کہ مقابلہ روم جیسی طاقت سے ہے اور زمانہ شدید گرمی کا ہے اور ملک میں قحط برپا ہے اور نئے سال کی فصلیں جن سے آس لگی ہوئی تھی، کٹنے کے قریب ہیں، ان کو تبوک کا سفر بہت ہی گراں محسُوس ہونے لگا۔

 

اے نبی ؐ، اللہ تمہیں معاف کرے، تم نے کیوں انہیں رخصت دے دی؟ (تمہیں چاہیے تھا کہ خود رخصت نہ دیتے ) تاکہ تم پر کھُل جاتا کہ کون لوگ سچے ہیں اور جھوٹوں کو بھی تم جان لیتے۔ ۴۵ جو لوگ اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں وہ تو کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انہیں اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ متقیوں کو خوب جانتا ہے۔ ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردّد ہو رہے ہیں۔۴۶اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اُٹھنا پسند ہی نہ تھا ۴۷ اس لیے اس نے اُنھیں سُست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو بیٹھنے والوں کے ساتھ۔ اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے تو تمہارے اندر خرابی کے سوا کسی چیز کا اضافہ نہ کرتے۔ وہ تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے دوڑ دھُوپ کرتے، اور تمہارے گروہ کا حال یہ ہے کہ ابھی اُس میں بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو اُن کی باتیں کان لگا کر سُنتے ہیں، اللہ اِن ظالموں کو خوب جانتا ہے۔ اِس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا اُلٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ اِن کی مرضی کے خلاف حق آگیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔ ان میں سے کوئی ہے جو کہتا ہے کہ ’’مجھے رُخصت دے دیجیے اور مجھے فتنے میں نہ ڈالیے ‘‘ ۴۸۔۔۔۔ سُن رکھو! فتنے ہی میں تو یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں ۴۹ اور جہنم نے اِن کافروں کو گھیر رکھا ہے۔ ۵۰تمہارا بھلا ہوتا ہے تو انہیں رنج ہوتا ہے اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ منہ پھیر کر خوش خوش پلٹتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم نے پہلے ہی اپنا معاملہ ٹھیک کر لیا تھا۔ان سے کہو ’’ ہمیں ہر گز کوئی (بُرائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی ہمارا مولیٰ ہے، اور اہلِ ایمان کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ ۵۱‘‘ان سے کہو ’’ تم ہمارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے۔ ۵۲ اور ہم تمہارے معاملہ میں جس چیز کے منتظر ہیں وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے ؟ اچھا تو اب تم انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔‘‘ ان سے کہو ’’تم اپنے مال خواہ راضی خوشی خرچ کرو یا بکراہت ۵۳، بہرحال وہ قبول نہ کیے جائیں گے کیونکہ تم فاسق لوگ ہو۔‘‘ ان کے دیے ہوئے مال قبول نہ ہونے کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا ہے، نماز کے لیے آتے ہیں تو کَسمَساتے ہوئے آتے ہیں اور راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں تو بادل ناخواستہ خرچ کرتے ہیں۔اِن کے مال و دولت اور اِن کی کثرتِ اولاد کو دیکھ کر دھوکا نہ کھاؤ، اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ اِنہی چیزوں کے ذریعہ سے ان کو دنیا کی زندگی میں بھی مبتلائے عذاب کرے ۵۴ اور یہ جان بھی دیں تو اِنکارِ حق ہی کی حالت میں دیں۔۵۵وہ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہی میں سے ہیں، حالانکہ وہ ہر گز تم میں سے نہیں ہیں۔ اصل میں تو وہ ایسے لوگ ہیں جو تم سے خوف زدہ ہیں۔اگر وہ کوئی جائے پناہ پا لیں یا کوئی کھوہ یا گھُس بیٹھنے کی جگہ، تو بھاگ کر اُس میں جا چھُپیں۔۵۶اے نبی ؐ، ان میں سے بعض لوگ صدقات کی تقسیم میں تم پر اعتراضات کرتے ہیں۔اگر اس مال میں سے انہیں کچھ دے دیا جائے تو خوش ہو جائیں، اور نہ دیا جائے تو بگڑنے لگتے ہیں۔۵۷کیا اچھا ہو تا کہ اللہ اور رسول ؐ نے جو کچھ بھی انہیں دیا تھا اس پر وہ راضی رہتے ۵۸ اور کہتے کہ ’’ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، وہ اپنے فضل سے ہمیں اور بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی ہم پر عنایت فرمائے گا،۵۹ ہم اللہ ہی کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں۔۶۰‘‘ ؏ ۷
 

۴۵-بعض منافقین نے بناوٹی عذرات پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے رخصت مانگی تھی، اور حضور ؐ نے بھی اپنے طبعی حِلم کی بنا پر یہ جاننے کے باوجود کہ وہ محض بہانے کر رہے ہیں ان کو رخصت عطا فرما دی تھی۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا اور آپ کو تنبیہ کی کہ ایسی نرمی مناسب نہیں ہے۔ رخصت دے دینے کی وجہ سے ان منافقوں کو اپنے نفاق پر پردہ ڈالنے کا موقع مل گیا۔ اگر انہیں رخصت نہ دی جاتی اور پھر یہ گھر بیٹھے رہتے تو ان کا جھوٹا دعوائے ایمان بے نقاب ہو جاتا۔

۴۶-اس سے معلوم ہوا کہ کفر اسلام کی کشمکش ایک کسوٹی ہے جو کھرے مومن اور کھوٹے مدعی ایمان کے فرق کو صاف کھول کر رکھ دیتی ہے۔ جو شخص اس کشمکش میں دل و جان سے اسلام کی حمایت کرے اور اپنی ساری طاقت اور تمام ذرائع اس کو سربلند کرنے کی سعی میں کھپا دے اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرے وہی سچا مومن ہے۔ بخلاف اس کے جو اس کشمکش میں اسلام کا ساتھ دینے سے جی چرائے اور کفر کی سر بلندی کا خطرہ سامنے دیکھتے ہوئے بھی اسلام کی سربلندی کے لیے جان و مال کی بازی کھیلنے سے پہلو تہی کر ے اس کی یہ روش خود اس حقیقت کو واضح کر دیتی ہے کہ اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔

۴۷-یعنی بادل نا خواستہ اٹھنا اللہ کو پسند نہیں تھا۔ کیونکہ جب وہ شرکت جہاد کے جذبے اور نیت سے خالی تھے اور ان کے اندر دین کی سربلندی کے لیے جاں فشانی کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی، تو وہ صرف مسلمانوں کی شرما شرمی سے بددلی کے ساتھ یا کسی شرارت کی نیت سے مستعدی کے ساتھ اُٹھتے اور یہ چیز ہزار خرابیوں کی موجب ہوتی جیسا کہ بعد والی آیت میں بتصریح فرما دیا گیا ہے۔

۴۸-جو منافق بہانے کر کر کے پیچھے ٹھیر جانے کی اجازتیں مانگ رہے تھے ان میں سے بعض ایسے بے باک بھی تھے جو راہِ خدا سے قدم پیچھے ہٹانے کے لیے مذہبی و اخلاقی نوعیت کے حیلے تراشتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص جَدّ بن قیس کے متعلق روایات میں آیا ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و  سلم کی خدمت میں آ کر عرض کیا کہ میں ایک حسن پرست آدمی ہوں، میری قوم کے لوگ میری اس کمزوری سے واقف ہیں کہ عورت کے معاملہ میں مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا۔ ڈرتا ہوں کہ کہیں رومی عورتوں کو دیکھ کر میرا قدم پھسل نہ جائے۔ لہٰذا آپ مجھے فتنے میں نہ ڈالیں اور اس جہاد کی شرکت سے مجھ کو معذور رکھیں۔

۴۹-یعنی نام تو فتنے سے بچنے کا لیتے ہیں مگر درحقیقت نفاق اور جھوٹ اور ریاکاری کا فتنہ بُری طرح ان پر مسلط ہے۔ اپنے نزدیک یہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے فتنوں کے امکان سے پریشانی و خوف کا اظہار کر کے یہ بڑے متقی ثابت ہوئے جا رہے ہیں۔حالانکہ فی الواقع کفر و اسلام کی فیصلہ کن کشمکش کے موقع پر اسلام کی حمایت سے پہلو تہی کر کے یہ اتنے بڑے فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں جس سے بڑھ کر کسی فتنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

۵۰-یعنی تقویٰ کی اس نمائش نے ان کو جہنم سے دُور نہیں کیا بلکہ نفاق کی اس لعنت نے انہیں جہنم کے چنگل میں اُلٹا پھنسا دیا۔

۵۱- ’’یہاں دنیا پرست اور خدا پرست کی ذہنیت کے فرق کو واضح کیا گیا ہے۔ دنیا پرست جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کے نفس کی خوشی بعض دنیوی مقاصد کے حصول پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ مقاصد اسے حاصل ہو جائیں تو وہ پھول جاتا ہے اور حاصل نہ ہوں تو اس پر مردنی چھا جاتی ہے۔ پھر اُس کا سہارا تمام تر مادّی اسباب پر ہوتا ہے۔ وہ سازگار ہوں تو اس کا دل بڑھنے لگتا ہے اور ناسازگار ہو تے نظر آئیں تو اس کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔ بخلاف اس کے خدا پرست انسان جو کچھ کرتا ہے اللہ کی رضا کے لیے کرتا ہے اور اس کام میں اس کا بھروسہ اپنی قوت یا مادّی اسباب پر نہیں بلکہ اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ راہِ حق میں کام کرتے ہوئے اس پر مصائب نازل ہوں یا کامرانیوں کی بارش ہو، دونوں صورتوں میں وہ یہی سمجھتا ہے کہ جو کچھ اللہ کی مرضی ہے وہ پوری ہو رہی ہے۔ مصائب اس کا دل نہیں توڑ سکتے اور کامیابیاں اس کو اتراہٹ میں مبتلا نہیں کر سکتیں۔ کیونکہ اوّل تو دونوں کو وہ اپنے حق میں خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور اسے ہر حال میں یہ فکر ہوتی ہے کہ خدا کی ڈالی ہوئی اس آزمائش سے بخیریت گذر جائے۔ دوسرے اس کے پیشِ نظر دنیوی مقاصد نہیں ہوتے کہ ان کے لحاظ سے وہ اپنی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ کر ے۔ اس کے سامنے تو رضائے الٰہی کا مقصدِ وحید ہوتا ہے اور اس مقصد سے اس کے قریب یا دور ہونے کا پیمانہ کسی دنیوی کامیابی کا حصول یا عدم حصول نہیں ہے بلکہ صرف یہ امر ہے کہ راہ خدا میں جان و مال کی بازی لگانے کا جو فرض اس پر عائد ہوتا تھا اسے اس نے کہاں تک انجام دیا۔ اگر یہ فرض اس نے ادا کر دیا ہو تو خواہ دنیا میں اس کی بازی بالکل ہی ہَر گئی ہو لیکن اسے پورا بھروسا رہتا ہے کہ جس خدا کے لیے اس نے مال کھپایا اور جان دی ہے وہ اس کے اجر کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ پھر دنیوی اسباب سے وہ آس ہی نہیں لگاتا کہ ان کی سازگاری اور ناسازگاری اس کو رنجیدہ کرے۔ اس کا سارا اعتماد خدا پر ہوتا ہے جو عالمِ اسباب کا حاکم ہے اور اس کے اعتماد پر وہ ناسازگار حالات میں بھی اُسی عزم و ہمت کے ساتھ کام کیے جاتا ہے جس کا اظہار اہلِ دنیا سے صرف سازگار حالات ہی میں ہوا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان دنیا پرست منافقین سے کہہ دو کہ ہمارا معاملہ تمہارے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ تمہاری خوشی و رنج کے قوانین کچھ اور ہیں اور ہمارے کچھ اور تم اطمینان اور بے اطمینانی کسی اور ماخذ سے لیتے ہو اور ہم کسی اور ماخذ سے۔

۵۲-منافقین حسب عادت اس موقع پر بھی کفر و اسلام کی اس کشمکش میں حصہ لینے کے بجائے اپنی دانست میں کمال دانشمندی کے ساتھ دور بیٹھے ہوئے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ اس کشمکش کا انجام کیا ہوتا ہے، رسول اور اصحاب رسول فتحیاب ہو کر آتے ہیں یا رومیوں کی فوجی طاقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا ہے کہ جن د و نتیجوں میں سے ایک کے ظہور کا تمہیں انتظار ہے، اہلِ ایمان کے لیے تو وہ دونوں ہی سراسر بھلائی ہیں۔ وہ اگر فتحیاب ہوں تو اس کا بھلائی ہونا تو ظاہر ہی ہے۔ لیکن اگر اپنے مقصد کی راہ میں جانیں لڑاتے ہوئے وہ سب کے سب پیوندِ خاک ہو جائیں تب بھی دنیا کی نگاہ میں چاہے یہ انتہائی ناکامی ہو مگر حقیقت میں یہ بھی ایک دوسری کامیابی ہے۔ اس لیے کہ مومن کی کامیابی و ناکامی کا معیار یہ نہیں ہے کہ اس نے کوئی ملک فتح کیا یا نہیں، یا کوئی حکومت قائم کر دی یا نہیں بلکہ اس کا معیار یہ ہے کہ اس نے اپنے خدا کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے اپنے دل و دماغ اور جسم و جان کی ساری قوتیں لڑا دیں یا نہیں۔ یہ کام اگر اس نے کر دیا تو درحقیقت وہ کامیاب ہے، خواہ دنیا کے اعتبار سے اس کی سعی کا نتیجہ صفر ہی کیوں نہ ہو۔

۵۳-بعض منافق ایسے بھی تھے جو اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تو تیار نہ تھے، مگر یہ بھی نہ چاہتے تھے کہ اس جہاد اور اس کی سعی سے بالکل کنارہ کش رہ کر مسلمانوں کی نگاہ میں اپنی ساری وقعت کھو دیں اور اپنے نفاق کو علانیہ ظاہر کر دیں۔ اس لیے وہ کہتے تھے کہ ہم جنگی خدمت کو انجام دینے سے تو اس وقت معذرت چاہتے ہیں، لیکن مال سے مدد کرنے کے لیے حاضر ہیں۔

۵۴-یعنی اس مال و اولاد کی محبت میں گرفتار ہو کر جو منافقانہ رویہ انہوں نے اختیار کیا ہے، اس کی وجہ سے مسلم سوسائیٹی میں یہ انتہائی ذلیل و خوار ہو کر رہیں گے اور وہ ساری شانِ ریاست اور عزّت و ناموری اور مشخیت اور چودھراہٹ، جو اب تک عربی سوسائٹی میں ان کو حاصل رہی ہے، نئے اسلامی نظام اجتماعی میں وہ خاک میں مل جائے گی۔ ادنیٰ ادنیٰ غلام اور غلام زادے اور معمولی کاشتکار اور چرواہے، جنہوں نے اخلاص ایمانی کا ثبوت دیا ہے، اس نئے نظام میں با عزّت ہوں گے، اور خاندانی چودھری اپنی دنیا پرستی کی بدولت بے عزت ہو کر رہ جائیں گے۔

اس کیفیت کا ایک دلچسپ نمونہ وہ واقعہ ہے جو ایک دفعہ حضرت عمر ؓ کی مجلس میں پیش آیا۔ قریش کے چند بڑے بڑے شیوخ، جن میں سُہَیل بن عَمرو اور حارِث بن ہِشام جیسے لوگ بھی تھے، حضرت عمر ؓ سے ملنے گئے۔ وہاں یہ صورت پیش آئی کہ انصار اور مہاجرین میں سے کوئی معمولی آدمی بھی آتا تو حضرت عمرؓ اسے اپنے پاس بلا کر بٹھاتے اور اِن شیوخ سے کہتے کہ اس کے لیے جگہ خالی کرو۔ تھوڑی دیر میں نوبت یہ آئی کہ یہ حضرات سرکتے سرکتے پائینِ مجلس میں پہنچ گئے۔ باہر نکل کر حارث بن ہشام نے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگوں نے دیکھا آج ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوا؟ سُہَیل بن عمرو نے کہا اس میں عمر کا کچھ قصور نہیں، قصور ہمارا ہے کہ جب ہمیں اِس دین کی طرف دعوت دی گئی تو ہم نے منہ موڑا اور یہ لوگ اس کی طرف دوڑ کر آئے۔ پھر یہ دونوں صاحب دوبارہ حضرت عمر ؓ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج ہم نے آپ کا سلوک دیکھا، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہے، مگر اب اس کی تلافی کی بھی کوئی صورت ہے ؟ حضرت عمر ؓ نے زبان سے کچھ جواب نہ دیا اور صرف سرحدِ روم کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ اب میدانِ جہاد میں جان و مال کھپاؤ تو شاید وہ پوزیشن پھر حاصل ہو جائے جسے کھو چکے ہو۔

۵۵-یعنی اس ذلت و رسوائی سے بڑھ کر مصیبت ان کے لیے یہ ہو گی کہ جن منافقانہ اوصاف کو یہ اپنے اندر پرورش کر رہے ہیں ان کی بدولت انہیں مرتے دم تک صدقِ ایمانی کی توفیق نصیب نہ ہو گی اور اپنی دنیا خراب کر لینے کے بعد یہ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوں گے کہ آخرت بھی خراب بلکہ خراب تر ہو گی۔

۵۶- ’’مدینہ کے یہ منافق زیادہ تر بلکہ تمام تر مالدار اور سن رسیدہ لوگ تھے۔ ابنِ کثیر نے البِدایہ و النِّہایہ میں ان کی جو فہرست دی ہے اس میں صرف ایک نوجوان کا ذکر ملتا ہے اور غریب ان میں سے کوئی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ مدینہ میں جائدادیں اور پھیلے ہوئے کاروبار رکھتے تھے اور جہاندیدگی نے ان کو مصلحت پرست بنا دیا تھا۔ اسلام جب مدینہ پہنچا اور آبادی کے ایک بڑے حصہ نے پورے اخلاص اور جوش ایمانی کے ساتھ اسلام قبول کر لیا، تو ان لوگوں نے اپنے آپ کو ایک عجیب مخمصہ میں مبتلا پایا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک طرف تو خود ان کے اپنے قبیلوں کی اکثریت بلکہ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں تک کو اس نئے دین نے ایمان کے نشے سے سرشار کر دیا ہے۔ ان کے خلاف اگر وہ کفر و انکار پر قائم رہتے ہیں تو ان کی ریاست، عزت، شہرت سب خاک میں ملی جاتی ہے حتیٰ کہ ان کے اپنے گھروں میں ان کے خلاف بغاوت برپا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ دوسری طرف اس دین کا ساتھ دینے کے معنی یہ ہیں کہ وہ سارے عرب سے بلکہ اطراف و نواح کی قوموں اور سلطنتوں سے بھی لڑائی مول لینے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اغراض نفسانی کی بندگی نے معاملہ کے اس پہلو پر نظر کرنے کی استعداد تو ان کے اندر باقی ہی نہیں رہنے دی تھی کہ حق اور صداقت بجائے خود بھی کوئی قیمتی چیز ہے جس کے عشق میں انسان خطرات مول لے سکتا ہے اور جان و مال کی قربانیاں گوارا کر سکتا ہے۔ وہ دنیا کے سارے معاملات و مسائل پر صرف مفاد اور مصلحت ہی کے لحاظ سے نگاہ ڈالنے کے خوگر ہو چکے تھے۔ اس لیے ان کو اپنے مفاد کے تحفظ کی بہترین صورت یہی نظر آئی کہ ایمان کا دعویٰ کریں تاکہ اپنی قوم کے درمیان اپنی ظاہری عزت اور اپنی جائدادوں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھ سکیں، مگر مخلصانہ ایمان نہ اختیار کریں تاکہ اُن خطرات و نقصانات سے دوچار نہ ہوں جو اخلاص کی راہ اختیار کرنے سے لازماً پیش آنے تھے۔ ان کی اسی ذہنی کیفیت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہ لوگ تمہارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ نقصانات کے خوف نے انہیں زبردستی تمہارے ساتھ باندھ دیا ہے۔ جو چیز انہیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں شمار کرائیں وہ صرف یہ خوف ہے کہ مدینہ میں رہتے ہوئے علانیہ غیر مسلم بن کر رہیں تو جاہ و منزلت ختم ہوتی ہے اور بیوی بچوں تک سے تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں۔ مدینہ کو چھوڑ دیں تو اپنی جائدادوں اور تجارتوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، اور ان کے اندر کفر کے لیے بھی اتنا اخلاص نہیں ہے کہ اس کی خاطر وہ ان نقصانات کو برداشت کرنے پر تیار ہو جائیں۔ اس مخمصے نے انہیں کچھ ایسا پھانس رکھا ہے کہ مجبوراً مدینہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، بادل نا خواستہ نمازیں پڑھ رہے ہیں اور زکوٰۃ کا ’’جرمانہ‘‘ بھگت رہے ہیں، ورنہ آئے دن جہاد اور آئے دن کسی نہ کسی خوفناک دشمن کے مقابلے اور آئے دن جان و مال کی قربانیوں کے مطالبے کی جو ’’مصیبت‘‘ ان پر پڑی ہوئی ہے اس سے بچنے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ اگر کوئی سُوراخ یا بل بھی ایسا نظر آ جائے جس میں انہیں امن ملنے کی امید ہو تو یہ بھاگ کر اس میں گھس بیٹھیں۔

۵۷-عرب میں یہ پہلا موقع تھا کہ ملک کے تمام اُن باشندوں پر جو ایک مقرر مقدار سے زائد مال رکھتے تھے، باقاعدہ زکوٰۃ عائد کی گئی تھی اور وہ ان کی زرعی پیداوار سے ان کے مویشیوں سے ان کے اموالِ  تجارت سے اُن کے معدنیات سے اور ان کے سونے چاندی کے ذخائر سے ۲-۱/۲ فی صدی، ۵ فی صدی، ۱۰ فی صدی کی مختلف شرحوں کے مطابق وصول کی جاتی تھی۔ یہ سب اموالِ زکوٰۃ ایک منظم طریقہ سے وصول کیے جاتے اور ایک مرکز پر جمع ہو کر منظم طریقہ سے خرچ کیے جاتے۔ اس طرح نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ملک کے اطراف سے اتنی دولت سمٹ کر آتی اور آپ کے ہاتھوں خرچ ہوتی تھی جو عرب کے لوگوں نے کبھی اس سے پہلے کسی ایک شخص کے ہاتھوں جمع اور تقسیم ہوتے نہیں دیکھی تھی۔ دنیا پرست منافقین کے منہ میں اس دولت کو دیکھ کر پانی بھر بھر آتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ اس بہتے ہوئے دریا سے ان کو خوب سیر ہو کر پینے کا موقع ملے، مگر یہاں پلانے والا خود اپنے اوپر اور اپنے متعلقین پر اس دریا کے ایک ایک قطرے کو حرام کر چکا تھا اور کوئی یہ توقع نہ کر سکتا تھا کہ اس کے ہاتھوں سے مستحق لوگوں کے سوا کسی اور کے لب تک جام پہنچ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم صدقات کو دیکھ دیکھ کر دلوں میں گھُٹتے تھے اور تقسیم کے موقع پر آپ کو طرح طرح کے الزامات سے مطعون کرتے تھے۔ دراصل شکایت تو انہیں یہ تھی کہ اس مال پر ہمیں دست درازی کا موقع نہیں دیا جاتا، مگر اس حقیقی شکایت کو چھپا کر وہ الزام یہ رکھتے تھے کہ مال کی تقسیم انصاف سے نہیں کی جاتی اور اس میں جانت داری سے کام لیا جاتا ہے۔

۵۸-یعنی مال غنیمت میں سے جو حصہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان کو دیتے ہیں اس پر قانع رہتے، اور خدا کے فضل سے جو کچھ یہ خود کماتے ہیں اور خدا کے دیے ہوئے ذرائع آمدنی سے جو خوشحالی انہیں میسر ہے اس کو اپنے لیے کافی سمجھتے۔

۵۹-یعنی زکوٰۃ کے علاوہ جو اموال حکومت کے خزانے میں آئیں گے ان سے حسب استحقاق ہم لوگوں کو اسی طرح استفادہ کا موقع حاصل رہے گا جس طرح اب تک رہا ہے۔

۶۰-یعنی ہماری نظر دنیا اور اس کی متاع حقیر پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے فضل و کرم پر ہے۔ اسی کی خوشنودی ہم چاہتے ہیں۔ اسی سے امید رکھتے ہیں۔ جو کچھ وہ دے اُس پر راضی ہیں۔

 

یہ صدقات تو دراصل فقیروں ۶۱ اور مسکینوں ۶۲ کے لیے ہیں اور اُن لوگوں کے لیے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں ۶۳، اور اُن کے لیے جن کی تالیفِ قلب مطلوب ہو۔۶۴ نیز یہ گردنوں کے چھُڑانے ۶۵ اور قرضداروں کی مدد کرنے میں ۶۶ اور راہِ خدا میں ۶۷ اور مسافر نوازی میں ۶۸ استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ ایک فریضہ ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دانا و بینا ہے۔ ان میں کچھ لوگ ہیں جو اپنی باتوں سے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص کانوں کا کچا ہے۔ ۶۹ کہو ’’ وہ تمہاری بھلائی کے لیے ایسا ہے ۷۰، اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور اہلِ ایمان پر اعتماد کرتا ہے ۷۱ اور سراسر رحمت ہے ان لوگوں کے لیے جو تم میں سے ایماندار ہیں۔ اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دُکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردناک سزا ہے۔ ‘‘یہ لوگ تمہارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تمہیں راضی کریں، حالانکہ اگر یہ مومن ہیں تو اللہ اور رسُول اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ یہ ان کو راضی کرنے کی فکر کریں۔کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ جو اللہ اور اُس کے رسول کا مقابلہ کرتا ہے اس کے لیے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا؟ یہ بہت بڑی رُسوائی ہے۔ یہ منافق ڈر رہے ہیں کہ کہیں مسلمانوں پر کوئی ایسی سُورت نازل نہ ہو جائے جو ان کے دلوں کے بھید کھول کر رکھ دے۔ ۷۲ اے نبی ؐ، ان سے کہو ’’اور مذاق اُڑاؤ، اللہ اُس چیز کو کھول دینے والا ہے جس کے کھُل جانے سے تم ڈرتے ہو۔‘‘ اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے، تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ۷۳ ان سے کہو ’’ کیا تمہاری ہنسی دل لگی اللہ اور اُس کی آیات اور اس کے رسول ہی کے ساتھ تھی؟اب عذرات نہ تراشو، تم نے ایمان لانے کے بعد کُفر کیا ہے، اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے۔ ۷۴‘‘ ؏ ۸
 

۶۱-فقیر سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اپنی معیشت کے لیے دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ یہ لفظ تمام حاجت مندوں کے لیے عام ہے خواہ وہ جسمانی نقص یا بڑھاپے کی وجہ سے مستقل طور پر محتاجِ اعانت ہو گئے ہوں، یا کسی عارضی سبب سے سر دست مدد کے محتاج ہوں اور اگر انہیں سہارا مل جائے تو آگے چل کر خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہوں، مثلاً یتیم بچے، بیوہ عورتیں، بے روزگار لوگ اور وہ لوگ جو وقتی حوادث کے شکار ہو گئے ہوں۔

۶۲-مَسکَنَت کے لفظ میں عاجزی، درماندگی، بے چارگی اور ذلت کے مفہومات شامل ہیں۔ اس اعتبار سے مساکین وہ لوگ ہیں جو عام حاجت مندوں کی بہ نسبت زیادہ خستہ حال ہوں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں کو مستحق امداد ٹھیرایا ہے جو اپنی ضروریات کے مطابق ذرائع نہ پا رہے ہوں اور سخت تنگ حال ہوں مگر نہ تو ان کی خود داری کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت دیتی ہو اور نہ ان کی ظاہری پوزیشن ایسی ہو کہ کوئی انہیں حاجت مند سمجھ کر ان کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ چنانچہ حدیث میں اس کی تشریح یوں آئی ہے کہ المسکین الذی لا یجد غنی یغنیہ ولا یفطن لہ فیتصد ق علیہ ولا یقوم فیسئال الناس۔ ’’ مسکین وہ ہے جو اپنی حاجت بھر مال نہیں پاتا، اور نہ پہچانا جاتا ہے کہ اس کی مدد کی جائے، اور نہ کھڑا ہو کر لوگوں سے مانگتا ہے۔ ‘‘ گویا وہ ایک ایسا شریف آدمی ہے جو غریب ہو۔

۶۳-یعنی وہ لوگ جو صدقات وصول کرنے اور وصول شدہ مال کی حفاظت کرنے اور ان کا حساب کتاب لکھنے اور انہیں تقسیم کرنے میں حکومت کی طرف سے استعمال کیے جائیں۔ ایسے لوگ خواہ فقیر و مسکین نہ ہوں، اُن کی تنخواہیں بہرحال صدقات ہی کی مد سے دی جائیں گی۔ یہ الفاظ اور اسی سورۃ کی آیت ۱۰۳ کے الفاظ خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے۔

اس سلسلہ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ذات اور اپنے خاندان (یعنی بنی ہاشم) پر زکوٰۃ کا مال حرام قرار دیا تھا، چنانچہ آپ نے خود بھی صدقات کی تحصیل کا کام ہمیشہ بلا معاوضہ کیا اور دوسرے بنی ہاشم کے لیے بھی یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ اگر وہ اس خدمت کو بلا معاوضہ انجام دیں تو جائز ہے، لیکن معاوضہ لے کر اس شعبے کی کوئی خدمت کرنا ان کے لیے جائز نہیں ہے۔ آپ کے خاندان کے لوگ اگر صاحبِ  نصاب ہوں تو زکوٰۃ دینا ان پر فرض ہے، لیکن اگر وہ غریب و محتاج یا قرض دار یا مسافر ہوں تو زکوٰۃ لینا ان کے لیے حرام ہے۔ البتہ اس امر میں اختلاف ہے کہ خود بنی ہاشم کی زکوٰۃ بھی بنی ہاشم لے سکتے ہیں یا نہیں۔ امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ لے سکتے ہیں۔ لیکن اکثر فقہاء اس کو بھی جائز نہیں رکھتے۔

۶۴-تالیف قلب کے معنی ہیں دل موہنا۔ اس حکم سے مقصود یہ ہے کہ جو لوگ اسلام کی مخالفت میں سرگرم ہوں اور مال دے کر ان کے جوش عداوت کو ٹھنڈا کیا جا سکتا ہو، یا جو لوگ کفار کے کیمپ میں ایسے ہوں کہ اگر مال سے انہیں توڑا جائے تو ٹوٹ کر مسلمانوں کے مدد گار بن سکتے ہوں، یا جو لوگ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہوں اور ان کی سابقہ عداوت یا ان کی کمزوریوں کو دیکھتے ہوئے اندیشہ ہو کہ اگر مال سے ان کی استمالت نہ کی گئی تو پھر کفر کی طرف پلٹ جائیں گے، ایسے لوگوں کو مستقل وظائف یا وقتی عطیے دے کر اسلام کا حامی و مددگار، یا مطیع و فرماں بردار، یا کم از کم بے ضرر دشمن بنالیا جائے۔ اس مد پر غنائم اور دوسرے ذرائع آمدنی سے بھی مال کرچ کیا جا سکتا ہے اور اگر ضرورت ہو تو زکوٰۃ کی مد سے بھی۔ اور ایسے لوگوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ فقیر و مسکین یا مسافر ہوں تب ہی ان کی مدد زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے، بلکہ وہ مالدار اور رئیس ہونے پر بھی زکوٰۃ دیے جانے کے مستحق ہیں۔

یہ امر تو متفق علیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں بہت سے لوگوں کو تالیفِ قلب کے لیے وظیفے اور عطیے دیئے جاتے تھے لیکن اس امر میں اختلاف ہو گیا ہے کہ آیا آپؐ کے بعد بھی یہ مد باقی رہی یا نہیں۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی رائے یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے سے یہ مد ساقط ہو گئی ہے اور اب مؤلفۃ القلوب کو کچھ دینا جائز نہیں ہے۔ امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ فاسق مسلمانوں کو تالیف قلب کے لیے زکوٰۃ کی مد سے دیا جا سکتا ہے مگر کفار کو نہیں۔ اور بعض دوسرے فقہا کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصّہ اب بھی باقی ہے اگر اس کی ضرورت ہو۔

حنفیہ کا استدلال اِس واقعہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے بعد عُیَینَہ بن حِصن اور اَقرَع بن حابِس حضرت ابوبکر ؓ کا پاس آئے اور انہوں نے ایک زمین آپ سے طلب کی۔ آپ نے ان کو عطیہ کا فرمان لکھ دیا۔ انہوں نے چاہا کہ مزید پختگی کے لیے دوسرے اعیانِ صحابہ بھی اس فرمان پر گواہیاں ثبت کریں۔ چنانچہ گواہیاں بھی ہو گئیں۔ مگر جب یہ لوگ حضرت عمر ؓ کے پاس گواہی لینے گئے تو انہوں نے فرمان کو پڑھ کر اسے ان کی آنکھوں کے سامنے چاک کر دیا اور ان سے کہا کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ و سلم تم لوگوں کی تالیف قلب کے لیے تمہیں دیا کر تے تھے مگر وہ اسلام کی کمزوری کا زمانہ تھا۔ اب اللہ نے اسلام کو تم جیسے لوگوں سے بے نیاز کر دیا ہے۔ اس پر وہ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس شکایت لے کر آئے اور آپ کو طعنہ بھی دیا کہ خلیفہ آپ ہیں یا عمرؓ؟ لیکن نہ تو حضرت ابوبکر ؓ ہی نے اس پر کوئی نوٹس لیا اور نہ دوسرے صحابہ میں سے ہی کسی نے حضرت عمر ؓ کی اس رائے سے اختلاف کیا۔ اس سے حنفیہ یہ دلیل لاتے ہیں کہ جب مسلمان کثیر التعداد ہو گئے اور ان کو یہ طاقت حاصل ہو گئی کہ اپنے بل بوتے پر کھرے ہو سکیں تو وہ سبب باقی نہیں رہا جس کی وجہ سے ابتداءً مؤلفۃ القلوب کا حصہ رکھا گیا تھا۔ اس لیے با  جماع صحابہ یہ حصہ ہمیشہ کے لیے ساقط ہو گیا۔

امام شافعی ؒ کا استدلال یہ ہے کہ تالیف قلب کے لیے کفار کو مال زکوٰۃ دینا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے فعل سے ثابت نہیں ہے۔ جتنے واقعات حدیث میں ہم کو ملتے ہیں ان سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور نے کفار کو تالیف قلب کے لیے جو کچھ دیا وہ مالِ  غنیمت سے دیا نہ کہ مال زکوٰۃ سے۔

ہمارے نزدیک حق یہ ہے کہ مؤلفۃ القلوب کا حصہ قیامت تک کے لیے ساقط ہو جانے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ بلا شبہ حضرت عمرؓ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ اگر اسلامی حکومت تالیف قلب کے لیے مال صرف کرنے کی ضرورت نہ سمجھتی ہو تو کسی نے اس پر فرض نہیں کیا ہے کہ ضرور ہی اس مد میں کچھ نہ کچھ صرف کرے۔ لیکن اگر کسی وقت اس کی ضرورت محسوس ہو تو اللہ نے اس کے لیے جو گنجائش رکھی ہے اسے باقی رہنا چاہیے۔ حضرت عمرؓ اور صحابۂ کرام کا اجماع جس امر پر ہوا تھا وہ صرف یہ تھا کہ ان کے زمانہ میں جو حالات تھے ان میں تالیف قلب کے لیے کسی کو کچھ دینے کی وہ حضرات ضرورت محسُوس نہ کرتے تھے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ صحابہؓ کے اجماع نے اُس مد کو قیامت تک کے لیے ساقط کر دیا جو قرآن میں بعض اہم مصالح دینی کے لیے رکھی گئی تھی۔

رہی امام شافعی کی رائے تو وہ اس حد تک تو صحیح معلوم ہوتی ہے کہ جب حکومت کے پاس دوسری مداتِ آمدنی سے کافی مال موجود ہو تو اسے تالیف قلب کی مد پر زکوٰۃ کا مال صرف نہ کرنا چاہیے۔ لیکن جب زکوٰۃ کے مال سے اس کام میں مدد لینے کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر یہ تفریق کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ فاسقوں پر اسے صرف کیا جائے اور کافروں پر نہ کیا جائے۔ اس لیے کہ قرآن میں مؤلفۃ القلوب کا جو حصہ رکھا گیا ہے وہ ان کے دعوائے ایمان کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ اسلام کو اپنے مصالح کے لیے ان کی تالیف قلب مطلوب ہے اور وہ اس قسم کے لو گ ہیں کہ ان کی تالیف قلب صرف مال ہی کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے۔ یہ حاجت اور یہ صفت جہاں بھی متحقق ہو وہاں امام مسلمین بشرط ضرورت زکوٰۃ کا مال صرف کرنے کا ازروئے قرآن مجاز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اگر اس مد سے کفار کو کچھ نہیں دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے پاس دوسری مدات کا مال موجود تھا۔ ورنہ اگر آپؐ کے نزدیک کفار پر اس مد کا مال صرف کرنا جائز نہ ہوتا تو آپؐ اس کی تشریح فرماتے۔

۶۵-گردنیں چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ غلاموں کی آزادی میں زکوٰۃ کا مال صرف کیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس غلام نے اپنے مالک سے یہ معاہدہ کیا ہو کہ اگر میں اتنی رقم تمہیں ادا کر دوں تو تم مجھے آزاد کر دو، اسے آزادی کی قیمت ادا کرنے میں مدد دی جائے۔ دوسرے یہ کہ خود زکوٰۃ کی مد سے غلام خرید کر آزاد کیے جائیں۔ ان میں سے پہلی صورت پر تو سب فقہا متفق ہیں لیکن دوسری صورت کو حضرت علیؓ، سعید بن جُبَیر، لَیث، ثَوری، ابراہیم نَخَعی، شَعبی، محمد بن سیرین، حنفیہ اور شافعیہ ناجائز کہتے ہیں اور ابن عباس، حسن بصری، مالک، احمد اور ابو ثَور جائز قرار دیتے ہیں۔

۶۶-یعنی ایسے قرض دار جو اگر اپنے مال سے اپنا پورا قرض چکا دیں تو ان کے پاس قدر نصاب سے کم مال بچ سکتا ہو۔ وہ خواہ کمانے والے ہوں یا بے روزگار اور خواہ عرفِ عام میں فقیر سمجھے جاتے ہوں یا غنی، دونوں صورتوں میں ان کی اعانت زکوٰۃ کی مد سے کی جا سکتی ہے۔ مگر متعدد فقہا کی رائے یہ ہے کہ جس شخص نے بد اعمالیوں اور فضول خرچیوں میں اپنا مال اڑا کر اپنے آپ کو قرضداری میں مبتلا کیا ہو اس کی مدد نہ کی جائے جب تک وہ توبہ نہ کر لے۔

۶۷-راہِ خدا لفظ عام ہے۔ تمام وہ نیکی کے کام جن میں اللہ کی رضا ہو، اس لفظ کے مفہوم میں داخل ہیں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس حکم کی رو سے زکوٰۃ کا مال ہر قسم کے نیک کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حق یہ ہے، اور ائمہ سلف کی بڑی اکثریت اسی کی قائل ہے کہ یہاں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے یعنی وہ جدوجہد جس سے مقصود نظام کفر کو ہٹانا اور اس کی جگہ نظام اسلامی کو قائم کرنا ہو۔ اس جدوجہد میں جو لوگ کام کریں ان کو سفر خرچ کے لیے، سواری لیے، آلات اور اسلحہ اور سر و سامان کی فراہمی کے لیے زکوٰۃ سے مدد دی جا سکتی ہے خواہ وہ بجائے خود کھاتے پیتے لوگ ہوں اور اپنی ذاتی ضروریات کے لیے ان کو مدد کی ضرورت نہ ہو۔ اسی طرح جو لوگ رضاکارانہ اپنی تمام خدمات اور اپنا تمام وقت، عارضی طور پر یا مستقل طور پر اس کام کے لیے دیدیں ان کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی زکوٰۃ سے وقتی یا استمراری اعانتیں دی جا سکتی ہیں۔

یہاں یہ بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ ائمہ سلف کے کلام میں بالعموم اس موقع پر غزُو کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قتال کا ہم معنی ہے۔ اس لیے لوگ یہ گمان کرنے لگے ہیں کہ زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی جو مد رکھی گئی ہے وہ صرت قتال کے لیے مخصوص ہے۔ لیکن درحقیقت جہاد فی سبیل اللہ، قتال سے وسیع تر چیز کا نام ہے اور اس کا اطلاق ان تمام کوششوں پر ہوتا ہے جو کلمۂ کفر کو پست کرنے اور کلمۂ خدا کو بلند کرنے اور اللہ کے دین کو ایک نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کے لیے کی جائیں، خواہ وہ دعوت و تبلیغ کے ابتدائی مرحلے میں ہوں یا قتال کے آخری مرحلے میں۔

۶۸-مسافر خواہ اپنے گھر میں غنی ہو، لیکن حالتِ سفر میں اگر وہ مدد کا محتاج ہو جائے تو اس کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جائے گی۔ یہاں فقہا نے یہ شرط لگائی ہے کہ جس کا سفر معصیت کے لئے نہ ہو صرف وہی اس آیت کی رو سے مدد کا مستحق ہے۔ مگر قرآن و حدیث میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے، اور دین کی اصولی تعلیمات سے ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص مدد کا محتاج ہو اس کی دست گیری کرنے میں اس کی گناہ گاری مانع نہ ہونی چاہیے۔ بلکہ فی الواقع گناہ گاروں اور اخلاقی پستی میں گرے ہوئے لوگوں کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ان کو سہارا دیا جائے اور حسنِ سلوک سے ان کے نفس کو پاک کرنے کی کوشش کی جائے۔

۶۹-منافقین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو جن عیوب سے متہم کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ حضورؐ ہر شخص کی سُن لیتے تھے اور ہر ایک کو اپنی بات کہنے کا موقع دیا کرتے تھے۔ یہ خوبی ان کی نگاہ میں عیب تھی۔ کہتے تھے کہ آپؐ کانوں کے کچے ہیں، جس کا جی چاہتا ہے آپؐ کے پاس پہنچ جاتا ہے جس طرح چاہتا ہے آپؐ کے کان بھرتا ہے، اور آپؐ اس کی بات مان لیتے ہیں۔ اس الزام کا چرچا زیادہ تر اس وجہ سے کیا جاتا تھا کہ سچے اہلِ ایمان اِن منافقین کی سازشوں اور ان کی شرارتوں اور ان کی مخالفانہ گفتگوؤں کا حال نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچا دیا کرتے تھے اور اس پر یہ لوگ سیخ پا ہو کر کہتے تھے کہ آپ ہم جیسے شرفا و معززین کے خلاف ہر کنگلے اور ہر فقیر کی دی ہوئی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں۔

۷۰-جواب میں ایک جامع بات ارشاد ہوئی ہے جو اپنے اندر دو پہلو رکھتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ فساد اور شر کی باتیں سننے والا آدمی نہیں ہے بلکہ صرف انہی باتوں پر توجہ کرتا ہے جن میں خیر اور بھلائی ہے اور جن کی طرف التفات کرنا امت کی بہتری اور دین کی مصلحت کے لیے مفید ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ایسا ہونا تمہارے ہی لیے بھلائی ہے۔ اگر وہ ہر ایک کی سُن لینے والا اور ضبط و تحمل سے کام لینے والا آدمی نہ ہوتا تو ایمان کے وہ جھوٹے دعوے اور خیر سگالی کی وہ نمائشی باتیں اور راہِ خدا سے بھاگنے کے لیے وہ عذرات لنگ جو تم کیا کرتے ہو انہیں صبر سے سنے کے بجائے تمہاری خبر لے ڈالتا اور تمہارے لیے مدینہ میں جینا دشوار ہو جاتا۔ پس اس کی یہ صفت تو تمہارے حق میں اچھی ہے نہ کہ بُری۔

۷۱-یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ ہر ایک کی بات پر یقین لے آتا ہے۔ وہ چاہے سنتا سب کی ہو مگر اعتماد صرف انہی لوگوں پر کرتا ہے جو سچے مومن ہیں۔ تمہاری جن شرارتوں کی خبریں اُس تک پہنچیں اور اس نے ان پر یقین کیا وہ بد اخلاق چغل خوروں کی پہنچائی ہوئی نہ تھیں بلکہ صالح اہلِ ایمان کی پہنچائی ہوئی تھیں اور اسی قابل تھیں کہ ان پر اعتماد کیا جاتا۔

۷۲-یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر سچا ایمان تو نہیں رکھتے تھے لیکن جو تجربات انہیں پچھلے آٹھ نو برس کے دوران میں ہو چکے تھے ان کی بنا پر انہیں اس بات کا یقین ہو چکا تھا کہ آپ کے پاس کوئی نہ کوئی فوق الفطری ذریعۂ معلومات ضرور ہے جس سے آپ کو ان کے پوشیدہ رازوں تک کی خبر پہنچ جاتی ہے اور بسا اوقات قرآن میں (جسے وہ حضورؐ کی اپنی تصنیف سمجھتے تھے ) آپ ان کے نفاق اور ان کی سازشوں کو بے نقاب کر کے رکھ دیتے ہیں۔

۷۳-غزوۂ تبوک کے زمانہ میں منافقین اکثر اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں کا مذاق اُڑاتے تھے اور اپنی تضحیک سے اُن لوگوں کی ہمتیں پست کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہیں وہ نیک تینی کے ساتھ آمادۂ جہاد پاتے۔ چنانچہ روایات میں اِن لوگوں کے بہت سے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ مثلاً ایک محفل میں چند منافق بیٹھے گپ لڑا رہے تھے۔ ایک نے کہا ’’اجی کیا رومیوں کو بھی تم نے کچھ عربوں کیطرح سمجھ رکھا ہے ؟ کل دیکھ لینا کہ یہ سب سورما جو لڑنے تشریف لائے ہیں رسیوں میں بندھے ہوئے ہوں گے۔ ‘‘ دوسرا بولا ’’مزا ہو جو اوپر سے سو سو کوڑے بھی لگانے کا حکم ہو جائے ؟‘‘ ایک اور منافق نے حضور کو جنگ کی سرگرم تیاریاں کرتے دیکھ کر اپنے یار دوستوں سے کہا ’’آپ کو دیکھیے، آپ روم و شام کے قلعے فتح کرنے چلے ہیں‘‘۔

۷۴-یعنی وہ کم عقل مسخر ے تو معاف بھی کیے جا سکتے ہیں جو صرف اس لیے ایسی باتیں کرتے اور ان میں دلچسپی لیتے ہیں کہ ان کے نزدیک دنیا میں کوئی چیز سنجیدہ ہے ہی نہیں۔ لیکن جن لوگوں نے جان بوجھ کر یہ باتیں اس لیے کی ہیں کہ وہ رسول اور اس کے لائے ہوئے دین کو اپنے دعوائے ایمان کے باوجود ایک مضحکہ سمجھتے ہیں، اور جن کے اس تمسخر کا اصل مدعا یہ ہے کہ اہل ایمان کی ہمتیں پست ہوں اور وہ پوری قوت کے ساتھ جہاد کی تیاری نہ کر سکیں، ان کو تو ہر گز معاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مسخرے نہیں بلکہ مجرم ہیں۔

 

منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک دوسرے کے ہم رنگ ہیں۔ بُرائی کا حکم دیتے ہیں اور بھلائی سے منع کرتے ہیں اور اپنے ہاتھ خیر سے روکے رکھتے ہیں۔۷۵ یہ اللہ کو بھُول گئے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ یقیناً یہ منافق ہی فاسق ہیں۔ ان منافق مردوں اور عورتوں اور کافروں کے لیے اللہ نے آتشِ دوزخ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، وہی ان کے لیے موزوں ہے۔ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے قائم رہنے والا عذاب ہے۔۔۔۔ ۷۶تم لوگوں کے رنگ ڈھنگ وہی ہیں جو تمہارے پیش روؤں کے تھے۔ وہ تم سے زیادہ زور آور اور تم سے بڑھ کر مال اور اولاد والے تھے۔ پھر انہوں نے دنیا میں اپنے حصّہ کے مزے لُوٹ لیے اور تم نے بھی اپنے حصّہ کے مزے اسی طرح لُوٹے جیسے انہوں نے لُوٹے تھے، اور ویسی ہی بحثوں میں تم بھی پڑے جیسی بحثوں میں وہ پڑے تھے، سوا ان کا انجام یہ ہوا کہ دنیا اور آخرت میں ان کا سب کیا دھرا ضائع ہو گیا اور وہی خسارے میں ہیں۔۔۔۔ ۷۷کیا اِن لوگوں کو اپنے پیش روؤں کی تاریخ نہیں پہنچی؟ نوح ؑ کی قوم، عاد، ثمود، ابراہیم ؑ کی قوم، مدیَن کے لوگ اور وہ بستیاں جنہیں اُلٹ دیا گیا ۷۸۔ اُن کے رسُول ان کے پاس کھُلی کھُلی نشانیاں لے کر آئے، پھر یہ اللہ کا کام نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا مگر وہ آپ ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ ۷۹مومن مر د اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں،نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اس کے رسُول ؐ کی اطاعت کرتے ہیں۔۸۰ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ ؏ ۹
 

۷۵-یہ تمام منافقین کی مشترک خصوصیت ہے۔ ان سب کو برائی سے دلچسپی اور بھلائی سے عداوت ہوتی ہے۔ کوئی شخص برا کام کرنا چاہے تو ان کی ہمدردیاں، ان کے مشورے، ان کی ہمت افزائیاں، ان کی اعانتیں، ان کی سفارشیں، ان کی تعریفیں اور مدح سرائیاں سب اس کے لیے وقف ہوں گی۔ دل و جان سے خود اس بُرے کام میں شریک ہوں گے، دوسروں کو اس میں حصہ لینے کی ترغیب دیں گے، کرنے والے کی ہمت بڑھائیں گے، اور ان کی ہر ادا سے یہ ظاہر ہو گا کہ اس برائی کے پروان چڑھنے ہی سے کچھ ان کے دل کو راحت اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی ہے۔ بخلاف اس کے کوئی بھلا کام ہو رہا ہو تو اس کی خبر سے ان کو صدمہ ہوتا ہے، اس کے تصور سے ان کا دل دکھتا ہے، اس کی تجویز تک انہیں گوارا نہیں ہوتی، اس کی طرف کسی کو بڑھتے دیکھتے ہیں تو ان کی روح بے چین ہونے لگتی ہے۔ ہر ممکن طریقہ سے اس کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ہر تدبیر سے یہ کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح وہ اس نیکی سے باز آ جائے اور باز نہیں آتا تو اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھر یہ بھی ان سب کا مشترک خاصہ ہے کہ نیکی کے کام میں خرچ کرنے کے لیے ان کا ہاتھ کبھی نہیں کھلتا۔ خواہ وہ کنجوس ہوں یا بڑے خرچ کرنے والے، بہر حال ان کی دولت یا تو تجوریوں کے لیے ہوتی ہے یا پھر حرام راستوں سے آتی ہے اور حرام ہی راستوں میں یہ جاتی ہے۔ بدی کے لیے چاہے وہ اپنے وقت کے قارون ہوں مگر نیکی کے لیے ان سے زیادہ مفلس کوئی نہیں ہوتا۔

۷۶-منافقین کا غائبانہ ذکر کرتے کرتے یکایک ان سے براہِ راست خطاب شروع ہو گیا ہے۔

۷۷-یہاں سے پھر ان کا غائبانہ ذکر شروع ہو گیا۔

۷۸-اشارہ ہے قومِ لوط کی بستیوں کی طرف۔

۷۹-یعنی ان کی تباہی و بربادی اس وجہ سے نہیں ہوئی کہ اللہ کو ان کے ساتھ کوئی دشمنی تھی اور وہ چاہتا تھا کہ انہیں تباہ کرے۔ بلکہ دراصل انہوں نے خود ہی اپنے لیے وہ طرزِ زندگی پسند کیا جو انہیں بربادی کی طرف لے جانے والا تھا۔ اللہ نے تو انہیں سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا پورا موقع دیا، ان کی فہمائش کے لیے رسول بھیجے، رسولوں کے ذریعہ سے ان کو غلط روی کے بُرے نتائج سے آگاہ کیا اور انہیں کھول کھول کر نہایت واضح طریقے سے بتا دیا کہ ان کے لیے فلاح کا راستہ کونسا ہے اور ہلاکت و بربادی کا کونسا۔ مگر جب انہوں نے اصلاح حال کے کسی موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا اور ہلاکت کی راہ چلنے ہی پر اصرار کیا تو لامحالہ ان کا وہ انجام ہونا ہی تھا جو بالآخر ہو کر رہا، اور یہ ظلم ان پر اللہ نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر کیا۔

۸۰- ’’جس طرح منافقین ایک الگ اُمت ہیں اسی طرح اہلِ ایمان بھی ایک الگ امت ہیں۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِ عمل میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے، مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوائے ایمان کی تکذیب کر رہا ہے۔ اوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مُشک اپنی صورت سے، اپنی خوشبو سے، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے۔ اسلام و ایمان کے عربی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک اُمت بنا رکھا ہے، مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگِ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق الایمان مسلمانوں کا کچھ اور۔ اسی وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مرد و زن ایک الگ جتھا بن گئے ہیں جن کو خدا سے غفلت، برائی سے دلچسپی، نیکی سے بُعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہلِ ایمان سے عملاً بے تعلق کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سچے مومن مرد و زن ایک دوسرا گروہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں، بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کے لیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑ اور منافقین کے گروہ سے توڑ دیا ہے۔

 

اے نبیؐ ۸۱، کفّار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ،۸۲ آخرِ کار ان کا ٹھکانا جہنّم ہے اور وہ بد ترین جائے قرار ہے۔ یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ ۸۳ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ ۸۴ یہ ان کا سارا غصّہ اسی بات پر ہے تاکہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ۸۵ ہے ! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آ جائیں تو انہی کے لیے بہتر ہے اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو اِن کا حمایتی اور مددگار ہو۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دولتمند کر دیا تو وہ بُخل پر اُتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ اُنہیں اس کی پروا تک نہیں ہے۔ ۸۶نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انہوں نے اللہ کے ساتھ کی، اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔کیا یہ لوگ جانتے نہیں ہیں کہ اللہ کو ان کے مخفی راز اور ان کی پوشیدہ سرگوشیاں تک معلوم ہیں اور وہ تمام غیب کی باتوں سے پوری طرح باخبر ہے ؟ (وہ خوب جانتا ہے اُن کنجوس دولت مندوں کو) جو برضا و رغبت دینے والے اہلِ ایمان کی مالی قربانیوں پر باتیں چھانٹتے ہیں اور ان لوگوں کا مذاق اُڑاتے ہیں جن کے پاس (راہِ خدا میں دینے کے لیے ) اُس کے سوا کچھ نہیں ہے جو وہ اپنے اوپر مشقت برداشت کر کے دیتے ہیں۔اللہ ۸۷ اِن مذاق اُڑانے والوں کا مذاق اُڑاتا ہے اور ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔ اے نبی ؐ، خواہ ایسے لوگوں کے لیے معافی کی درخواست کرو یا نہ کرو، اگر تم ستّر مرتبہ بھی انہیں معاف کر دینے کی درخواست کرو گے تو اللہ انہیں ہر گز معاف نہ کرے گا۔ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ کُفر کیا ہے، اور اللہ فاسق لوگوں کو راہِ نجات نہیں دکھاتا۔ ؏ ١۰
 

۸۱-یہاں سے وہ تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جو غزوۂ تبوک کے بعد نازل ہوئی تھی۔

۸۲-اس وقت تک منافقین کے ساتھ زیادہ تر درگزر کا معاملہ ہو رہا تھا، اور اسکے دو وجوہ تھے۔ ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کی طاقت ابھی اتنی مضبوط نہ ہوئی تھی کہ باہر کے دشمنوں سے لڑنے کے ساتھ ساتھ گھر کے دشمنوں سے بھی لڑائی مول لے لیتے۔ دوسرے یہ کہ ان میں سے جو لوگ شکوک و شبہات میں مبتلا تھے ان کو ایمان و یقین حاصل کرنے کے لیے کافی موقع دینا مقصود تھا۔ یہ دونوں وجوہ اب باقی نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں کی طاقت اب تمام عرب کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی اور عرب سے باہر کی طاقتوں سے کشمکش کا سلسلہ شروع ہو رہا تھا اس لیے ان آستین کے سانپوں کا سر کچلنا اب ممکن بھی تھا اور ضروری بھی ہو گیا تھا، تا کہ یہ لوگ بیرونی طاقتوں سے ساز باز کر کے ملک میں کوئی اندرونی خطرہ نہ کھڑا کر سکیں۔ پھر ان لوگوں کو پورے ۹ سال تک سوچنے، سمجھنے اور دین حق کو پرکھنے کا موقع بھی دیا جا چکا تھا جس سے وہ فائدہ اٹھا سکتے تھے اگر ان میں واقعی خیر کی کوئی طلب ہوتی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ مزید رعایت کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اس لیے حکم ہوا کہ کفار کے ساتھ ساتھ اب اِن منافقین کے خلاف بھی جہاد شروع کر دیا جائے اور جو نرم رویہ اب تک ان کے معاملہ میں اختیار کیا جاتا رہا ہے، اسے ختم کر کے اب ان کے ساتھ سخت برتاؤ کیا جائے۔

منافقین کے خلا ف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ دراصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی منافقانہ روش سے چشم پوشی اب تک برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے، اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے، اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، اس کو آئندہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرزِ عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے، اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، علانیہ اس کو ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کے لیے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازہ اس کے لیے بند رہے، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل میں بھی اس کے لیے احترام کا کوئی گوشہ نہیں۔ پھر اگر اُن میں سے کوئی شخص کسی صریح غداری کا مرتکب ہو تو اس کے جرم پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاَشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے۔

یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو اس مرحلہ پر مسلمانوں کو دی جانی ضروری تھی۔ اس کے بغیر اسلامی سوسائٹی کو تنزل و انحطاط کے اندرونی اسباب سے محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ کوئی جماعت جو اپنے اندر منافقوں اور غداروں کو پرورش کرتی ہو اور جس میں گھریلو سانپ عزت اور تحفظ کے ساتھ آستینوں میں بٹھائے جاتے ہوں، اخلاقی زوال اور بالآخر کامل تباہی سے دوچار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ نفاق کا حال طاعون کا سا ہے اور منافق وہ چوہا ہے جو اس وبا کے جراثیم لیے پھرتا ہے۔ اس کو آبادی میں آزادی کے ساتھ چلنے پھرنے کا موقع دینا گویا پوری آبادی کو موت کے خطرے میں ڈالنا ہے۔ ایک منافق کو مسلمانوں کی سوسائٹی میں عزت و احترام کا مرتبہ حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں آدمی غداری و منافقت پر دلیر ہو جائیں اور یہ خیال عام ہو جائے کہ اس سوسائٹی میں عزت پانے لیے اخلاص، خیر خواہی اور صداقت ایمانی کچھ ضروری نہیں ہے بلکہ جھوٹے اظہارِ  ایمان کے ساتھ خیانت اور بے وفائی کا رویہ اختیار کر کے بھی یہاں آدمی پھل پھول سکتا ہے۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مختصر سے حکیمانہ فقرے میں بیان فرمایا ہے کہ من و قر صاحب بد عۃ فقد اعان علیٰ ھدم الاسلام۔ ’’جس شخص نے کسی صاحبِ بدعت کی تعظیم و توقیر کی وہ دراصل اسلام کی عمار ت ڈھانے میں مدد گار ہوا‘‘۔

۸۳-وہ بات کیا تھی جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ؟ اس کے متعلق کوئی یقینی معلومات ہم تک نہیں پہنچی ہیں۔ البتہ روایات میں متعدد ایسی کافرانہ باتوں کا ذکر آیا ہے جو اس زمانہ میں منافقین نے کی تھیں۔ مثلاً ایک منافق کے متعلق مروی ہے کہ اس نے اپنے عزیزوں میں سے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر واقعی وہ سب کچھ برحق ہے جو یہ شخص (یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم) پیش کر تا ہے تو ہم سب گدھوں سے بھی بدتر ہیں‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تبوک کے سفر میں ایک جگہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی گم ہو گئی۔ مسلمان اس کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ اس پر منافقوں کے ایک گروہ نے اپنی مجلس میں بیٹھ کر خوب مذاق اڑایا اور آپس میں کہا کہ ’’یہ حضرت آسمان کی خبریں تو خوب سناتے ہیں، مگر ان کو اپنی اونٹنی کی کچھ خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے ‘‘۔

۸۴-یہ اشارہ ہے اُن سازشوں کی طرف جو منافقوں نے غزوۂ تبوک کے سلسلے میں کی تھیں۔ ان میں سے پہلی سازش کا واقعہ محدثین نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تبوک سے واپسی پر جب مسلمانوں کا لشکر ایک ایسے مقام کے قریب پہنچا جہاں سے پہاڑوں کے درمیان راستہ گزرنا تھا تو بعض منافقین نے آپس میں طے کیا کہ رات کے وقت کسی گھاٹی میں سے گزرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڈ میں پھینک دیں گے۔ حضور کو اس کی اطلاع ہو گئی۔ آپ نے تمام اہلِ لشکر کو حکم دیا کہ وادی کے راستہ سے نکل جائیں، اور آپ خود صرف عمّار بن یاسرؓ اور حُذَیفَہ بن یمانؓ کو لے کر گھاٹی کے اندر سے ہو کر چلے۔ اثنائے راہ میں یکایک معلوم ہوا کہ دس بارہ منافق ڈھاٹے باندھے ہوئے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ یہ دیکھ کر حضرت حذیفہؓ ان کی طرف لپکے تاکہ ان کے اونٹوں کو مار مار کر ان کے منہ پھیر دیں۔ مگر وہ دُور ہی سے حضرت حذیفہؓ کو آتے دیکھ کر ڈر گئے اور اس خوف سے کہ کہیں ہم پہچان نہ لیے جائیں فوراً بھاگ نکلے۔

دوسری سازش جس کا اس سلسلہ میں ذکر کیا گیا ہے، یہ ہے کہ منافقین کو رومیوں کے مقابلہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے وفادار ساتھیوں کے بخیریت بچ کر واپس آ جانے کی توقع نہ تھی، اس لیے انہوں نے آپس میں طے کر لیا تھا کہ جونہی اُدھر کوئی سانحہ پیش آئے اِدھر مدینہ میں عبد اللہ بن اُبَیّ کے سر پر تاجِ  شاہی رکھ دیا جائے۔

۸۵-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت سے پہلے مدینہ عرب کے قصبات میں سے ایک معمولی قصبہ تھا اور اَوس و خَزرَج کے قبیلے مال اور جاہ کے لحاظ سے کوئی اونچا درجہ نہ رکھتے تھے۔ مگر جب حضور وہاں تشریف لے گئے اور انصار نے آپ کا ساتھ دے کر اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا تو آٹھ نو سال کے اندر اندر یہی متوسط درجہ کا قصبہ تمام عرب کا دارالسلطنت بن گیا۔ وہی اوس و خزرج کے کاشتکار سلطنت کے اعیان و اکابر بن گئے اور ہر طرف سے فتوحات، غنائم اور تجارت کی برکات اس مرکزی شہر پر بارش کی طرح برسنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ اسی پر انہیں شرم دلا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر تمہارا یہ غصہ کیا اسی قصور کی پاداش میں ہے کہ اس کی بدولت یہ نعمتیں تمہیں بخشی گئیں!

۸۶-اوپر کی آیت میں ان منافقین کی جس کافر نعمتی و محسن کُشی پر ملامت کی گئی تھی اس کا ایک اور ثبوت خود انہی کی زندگیوں سے پیش کر کے یہاں واضح کیا گیا ہے کہ دراصل یہ لوگ عادی مجرم ہیں، ان کے ضابطۂ اخلاقی میں شکر، اعترافِ نعمت، اور پاس عہد جیسی خوبیوں کا کہیں نام و نشان تک نہیں پایا جاتا۔

۸۷-غزوۂ تبوک کے موقع پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے چندے کی اپیل کی تو بڑے بڑے مال دار منافقین ہاتھ روکے بیٹھے رہے۔ مگر جب مخلص اہلِ ایمان بڑھ بڑھ کر چندے دینے لگے تو ان لوگوں نے اُن پر باتیں چھانٹنی شروع کیں۔ کوئی ذی استطاعت مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق یا اس سے بڑھ کر کوئی بڑی رقم پیش کرتا تو یہ اس پر ریاکاری کا الزام لگاتے، اور اگر کوئی غریب مسلمان اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر کوئی چھوٹی سے رقم حاضر کرتا، یا رات بھر محنت مزدوری کر کے کچھ کھجوریں حاصل کرتا اور وہی لا کر پیش کر دیتا، تو یہ اس پر آوازے کستے کہ لو، یہ ٹڈی کی ٹانگ بھی آ گئی ہے تاکہ اس سے روم کے قلعے فتح کیے جائیں۔

 

جن لوگوں کو پیچھے رہ جانے کی اجازت دے دی گئی تھی وہ اللہ کے رسول کا ساتھ نہ دینے اور گھر بیٹھے رہنے پر خوش ہوئے اور انہیں گوارا نہ ہُوا کہ اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کریں۔ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ ’’ اس سخت گرمی میں نہ نکلو۔‘‘ ان سے کہو کہ جہنّم کی آگ اس سے زیادہ گرم ہے، کاش انہیں اس کا شعور ہوتا۔ اب چاہیے کہ یہ لوگ ہنسنا کم کریں اور روئیں زیادہ، اس لیے کہ جو بدی یہ کماتے ہیں اس کی جزا ایسی ہی ہے (کہ انہیں اس پر رونا چاہیے )۔ اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ ’’اب تم میرے ساتھ ہر گز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیّت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو، تم نے پہلے بیٹھ رہنے کو پسند کیا تھا تو اب گھر بیٹھنے والوں کے ساتھ ہی گھر بیٹھے رہو۔‘‘ اور آئندہ ان میں سے جو کوئی مرے اس کی نمازِ جنازہ بھی تم ہر گز نہ پڑھنا اور نہ کبھی اس کی قبر پر کھڑے ہونا کیونکہ انہوں نے اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ساتھ کُفر کیا ہے اور وہ مرے ہیں اس حال میں کہ وہ فاسق تھے۔ ۸۸ ان کی مالداری اور ان کی کثرتِ اولاد تم کو دھوکے میں نہ ڈالے۔ اللہ نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ اِس مال و اولاد کے ذریعہ سے ان کو اسی دنیا میں سزا دے اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں۔جب کبھی کوئی سُورۃ اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول ؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحبِ مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں چھوڑ دیجیے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا گیا، اس لیے ان کی سمجھ میں اب کچھ نہیں آتا۔۸۹بخلاف اس کے رسولؐ نے اور ان لوگوں نے جو رسول ؐ کے ساتھ ایمان لائے تھے اپنی جان و مال سے جہاد کیا اور اب ساری بھلائیاں انہی کے لیے ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ ہے عظیم الشان کامیابی۔ ؏ ١١
 

۸۸-تبوک سے واپسی پر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ عبداللہ بن اُبیّ رئیس المنافقین مر گیا۔ اس کے بیٹے عبد اللہ بن عبد اللہ جو مخلص مسلمانوں میں سے تھے، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کفن میں لگانے کے لیے آپ کا کُرتا مانگا۔ آپ نے کمال فراخ دلی کے ساتھ عطا کر دیا۔ پھر انہوں نے درخواست کی کہ آپ ہی اس کی نمازِ جنازہ پڑھائیں۔ آپ اس کے لیے بھی تیار ہو گئے۔ حضرت عمر ؓ نے باصرار عرض کیا کہ یا رسول ؐ اللہ، کیا آپ اس شخص پر نماز جنازہ پڑھیں گے جو یہ اور یہ کر چکا ہے۔ مگر حضورؐ ان کی یہ سب باتیں سن کر مسکراتے رہے اور اپنی اُس رحمت کی بنا پر جو دوست دشمن سب کے لیے عام تھی، آپ نے اس بدترین دشمن کے حق میں بھی دعائے مغفرت کرنے میں تامل نہ کیا۔ آخر جب آپ نماز پڑھانے کھڑے ہی ہو گئے تو یہ آیت نازل ہوئی اور براہِ راست حکم خداوندی سے آپ کو روک دیا گیا۔ کیونکہ اب یہ مستقل پالیسی مقرر کی جا چکی تھی کہ مسلمانوں کی جماعت میں منافقین کو کسی طرح پنپنے نہ دیا جائے اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اس گروہ کی ہمت افزائی ہو۔

اسی سے یہ مسئلہ نکلا کہ فساق اور فجار اور مشہور بفسق لوگوں کی نماز جنازہ مسلمانوں کے امام اور سر بر آوردہ لوگوں کو نہ پڑھانی چاہیے نہ پڑھنی چاہیے۔ ان آیات کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ یہ ہو گیا تھا کہ جب آپ کو کسی جنازے پر تشریف لانے کے لیے کہا جاتا تو آپ پہلے مرنے والے کے متعلق دریافت فرماتے تھے کہ کس قسم کا آدمی تھا، اور اگر معلوم ہوتا کہ بُرے چلن کا آدمی تھا تو آپ اس کے گھر والوں سے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں اختیار ہے، جس طرح چاہو اسے دفن کر دو۔

۸۹-یعنی اگرچہ یہ بری شرم کے قابل بات ہے کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے، تندرست، صاحب مقدرت لوگ، ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود کام کا وقت آنے پر میدان میں نکلنے کے بجائے گھروں میں گھس بیٹھیں اور عورتوں میں جا شامل ہوں، لیکن چونکہ ان لوگوں نے خود جان بوجھ کر اپنے لیے یہی رویہ پسند کیا تھا اس لیے قانونِ فطرت کے مطابق ان سے وہ پاکیزہ احساسات چھین لیے گئے جن کی بدولت آدمی ایسے ذلیل اطوار اختیار کرنے میں شرم محسوس کیا کرتا ہے۔

 

بدوی عربوں ۹۰ میں سے بھی بہت سے لوگ آئے جنہوں نے عذر کیے تاکہ انہیں بھی پیچھے رہ جانے کی اجازت دی جائے۔ اِس طرح بیٹھ رہے وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے ایمان کا جھوٹا عہد کیا تھا۔ ان بدویوں میں سے جن جن لوگوں نے کفر کا طریقہ اختیار کیا ہے ۹۱ عنقریب وہ درد ناک سزا سے دوچار ہوں گے۔ ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو شرکتِ  جہاد کے لیے راہ نہیں پاتے، اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلُوصِ دل کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ؐ کے وفادار ہوں۔۹۲ ایسے محسنین پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ اسی طرح اُن لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آ کر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کر سکتا تو وہ مجبوراً واپس آ گئے اور حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسُو جاری تھے اور انہیں اس بات کا بڑا رنج تھا کہ وہ اپنے خرچ پر شریکِ جہاد ہونے کی مقدرت نہیں رکھتے۔ ۹۳البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہیں اور پھر بھی تم سے درخواستیں کرتے ہیں کہ انہیں شرکتِ جہاد سے معاف رکھا جائے۔ انہوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپّہ لگا دیا، اس لیے اب یہ کچھ نہیں جانتے (کہ اللہ کے ہاں ان کی روش کا کیا نتیجہ نکلنے والا ہے )۔ تم جب پلٹ کر ان کے پاس پہنچو گے تو یہ طرح طرح کے عذرات پیش کریں گے، مگر تم صرف کہہ دینا کہ ’’ بہانے نہ کرو، ہم تمہاری کسی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔ اللہ نے ہم کو تمہارے حالات بتا دیے ہیں۔ اب اللہ اور اس کا رسول تمہارے طرزِ عمل کو دیکھے گا۔ پھر تم اس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھلے اور چھُپے سب کا جاننے والا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔‘‘ تمہاری واپسی پر یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے صَرفِ نظر کرو۔ تو بے شک تم اِن سے صَرفِ نظر ہی کر لو،۹۴ کیونکہ یہ گندگی ہیں اور ان کا اصلی مقام جہنّم ہے جو ان کی کمائی کے بدلے میں انہیں نصیب ہو گی۔یہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے راضی ہو جاؤ، حالانکہ اگر تم ان سے راضی ہو بھی گئے تو اللہ ہر گز ایسے فاسق لوگوں سے راضی نہ ہو گا۔یہ بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اس دین کے حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے۔ ۹۵ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ان میں ایسے ایسے لوگ موجود ہیں جو راہِ خدا میں کچھ خرچ کرتے ہیں تو اسے اپنے اوپر زبر دستی کی چٹّی سمجھتے ہیں ۹۶ اور تمہارے حق میں زمانہ کی گردشوں کا انتظار کر رہے ہیں ( کہ تم کسی چکر میں پھنسو تو وہ اپنی گردن سے اس نظام کی اطاعت کا قلادہ اُتار پھینکیں جس میں تم نے انہیں کَس دیا ہے )۔ حالانکہ بدی کا چکر خود انہی پر مسلّط ہے اور اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے ہاں تقرّب کا اور رسول ؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں ! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا، یقیناً اللہ در گزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ؏ ١۲
 

۹۰-بدوی عربوں سے مراد مدینہ کے اطراف میں رہنے والے دیہاتی اور صحرائی عرب ہیں جنہیں عام طور پر بدو کہا جاتا ہے۔

۹۱-منافقانہ اظہار ایمان، جس کی تہ میں فی الواقع تصدیق، تسلیم، اخلاص اور اطاعت نہ ہو، اور جس کے ظاہری اقرار کے باوجود انسان خدا اور اس کے دین کی بہ نسبت اپنے مفاد اور اپنی دنیوی دلچسپیوں کو عزیز رکھتا ہو، اصل حقیقت کے اعتبار سے کفر و انکار ہی ہے۔ خدا کے ہاں ایسے لوگوں کے ساتھ وہی معاملہ ہو گا جو منکروں اور باغیوں کے ساتھ ہو گا، چاہے دنیا میں اس قسم کے لوگ کافر نہ ٹھیرائے جا سکتے ہوں اور ان کے ساتھ مسلمانوں ہی کا سا معاملہ ہوتا رہے۔ اس دنیوی زندگی میں جس قانون پر مسلم سوسائٹی کا نظام قائم کیا گیا ہے اور جس ضابطہ کی بنا پر اسلامی حکومت اور اس کے قاضی احکام کی تنقید کرتے ہیں، اس کے لحاظ سے تو منافقت پر کفر یا اشتباہِ  کفر کا حکم صرف انہی صورتوں میں لگایا جا سکتا ہے جبکہ انکار و بغاوت یا غداری و بے وفائی کا اظہار صریح طور پر ہو جائے۔ اس لیے منافقت کی بہت سی صورتیں اور حالتیں ایسی رہ جاتی ہیں جو قضائے شرعی میں کفر کے حکم سے بچ جاتی ہیں۔ لیکن قضائے شرعی میں کسی منافق کا حکمِ کفر سے بچ نکلنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ قضائے خداوندی میں بھی وہ اس حکم اور اس کی سزا سے بچ نکلے گا۔

۹۲- ’’اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ بظاہر معذور ہوں ان کے لیے بھی مجرد ضعیفی و بیماری یا محض ناداری کافی وجہ معافی نہیں ہے بلکہ ان کی مجبوریاں صرف اُس صورت میں ان کے لیے وجہ معافی ہو سکتی ہیں جبکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے سچے وفادار ہوں۔ ورنہ اگر وفاداری موجود نہ ہو تو کوئی شخص صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ادائے فرض کے موقع پر بیمار یا نادار تھا۔ خدا صرف ظاہر کو نہیں دیکھتا ہے کہ ایسے سب لوگ جو بیماری کا طبی صداقت نامہ یا بڑھاپے اور جسمانی نقص کا عذر پیش کر دیں، اُس کے ہاں یکساں معذور قرار دے دیے جائیں اور ان پر سے باز پرس ساقط ہو جائے۔ وہ تو ان میں سے ایک ایک شخص کے دل کا جائزہ لے گا، اور کے پورے مخفی و بظاہر برتاؤ کو دیکھے گا، اور یہ جانچے گا کہ اس کی معذوری ایک وفادار بندے کی سی معذرت تھی یا ایک غدار اور باغی کی سی۔ ایک شخص ہے کہ جب اُ س نے فرض کی پکار سُنی تو دل میں لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ ’’بڑے اچھے موقعے پر میں بیمار ہو گیا ورنہ یہ بلا کسی طرح ٹالے نہ ٹلتی اور خواہ مخواہ مصیبت بھگتنی پڑتی‘‘۔ دوسرے شخص نے یہی پُکار سُنی تو تِلمِلا اُٹھا کہ ’’ہائے، کیسے موقع پر اس کم بخت بیماری نے آن دبوچا، جو وقت میدان میں نکل کر خدمت انجام دینے کا تھا وہ کس بُری طرح یہاں بستر پر ضائع ہو رہا ہے ‘‘۔ ایک نے اپنے لیے تو خدمت سے بچنے کا بہانہ پایا ہی تھا مگر اس کے ساتھ اس نے دوسروں کو بھی اس سے روکنے کی کوشش کی۔ دوسرا اگرچہ خود بسترِ علالت پر مجبور پڑا ہوا تھا مگر وہ برابر اپنے عزیزوں، دوستوں اور بھائیوں کو جہاد کا جوش دلا تا رہا اور اپنے تیمار داروں سے بھی کہتا رہا کہ ’’ میرا اللہ مالک ہے، دوا دارو کا انتظام کسی نہ کسی طرح ہو ہی جائے گا، مجھ اکیلے انسان کے لیے تم قیمتی وقت کو ضائع نہ رکو جسے دین حق کی خدمت میں صرف ہونا چاہیے ‘‘۔ ایک نے بیماری کے عذر سے گھر بیٹھ کر سارا زمانۂ جنگ بد دلی پھیلانے، بری خبریں اڑانے، جنگی مساعی کو خراب کرنے اور مجاہدین کے پیچھے ان کے گھر بگاڑنے میں صرف کیا۔ دوسرے نے یہ دیکھ کر کہ میدان میں جانے کے شرف سے وہ محروم رہ گیا ہے، اپنی حد تک پوری کوشش کی کہ گھر کے محاذ (Home-front) کو مضبوط رکھنے میں جو زیادہ سے زیادہ خدمت اس سے بن آئے اسے انجام دے۔ ظاہر کے اعتبار سے تو یہ دونوں ہی معذور ہیں۔ مگر خدا کی نگاہ میں یہ دو مختلف قسم کے معذور کسی طرح یکساں نہیں ہو سکتے۔ خدا کے ہاں معافی اگر ہے تو صرف دوسرے شخص کے لیے۔ رہا پہلا شخص تو وہ اپنی معذوری کے باوجود غداری و نا وفاداری کا مجرم ہے۔

۹۳-ایسے لوگ جو خدمت دین کے لیے بے تاب ہوں، اور اگر کسی حقیقی مجبوری کے سبب سے یا ذرائع نہ پانے کی وجہ سے عملاً خدمت نہ کر سکیں تو ان کے دل کو اتنا سخت صدمہ ہو جتنا کسی دنیا پرست کو روزگار چھوٹ جانے یا کسی بڑے نفع کے موقع سے محروم رہ جانے کا ہوا کرتا ہے، ان کا شمار خدا کے ہاں خدمت انجام دینے والوں ہی میں ہو گا اگر چہ انہوں نے عملاً کوئی خدمت انجام نہ دی ہو۔ اس لیے کہ وہ چاہے ہاتھ پاؤں سے کام نہ کر سکے ہوں، لیکن دل سے تو وہ برسر خدمت ہی رہے ہیں۔ یہی بات ہے جو غزوہ ٔ تبوک سے واپسی پر اثنائے سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رفقا کو خطاب کرتے ہوئے فرمائی تھی کہ ان بالمدینۃ اقوامًا ما سرتم مسیرا ولا قطعتم وادیا الا کانو ا معکم۔ ’’ مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم نے کوئی وادی طے نہیں کی اور کوئی کوچ نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ ساتھ نہ رہے ہوں‘‘۔ صحابہؓ نے تعجب سے کہا ’’ کیا مدینہ ہی میں رہتے ہوئے ؟‘‘ فرمایا ’’ہاں، مدینے ہی میں رہتے ہوئے۔ کیونکہ مجبوری نے انہیں روک لیا تھا ورنہ وہ خود رکنے والے نہ تھے ‘‘۔

۹۴-پہلے فقرے میں صَرفِ نظر سے مراد درگزر ہے اور دوسرے فقرے میں قطع تعلق۔ یعنی وہ تو چاہتے ہیں کہ تم ان سے تعرض نہ کرو، مگر بہتر یہ ہے کہ تم ان سے کوئی واسطہ ہی نہ رکھو اور سمجھ لو کہ تم ان سے کٹ گئے اور وہ تم سے۔

۹۵-جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں یہاں بدوی عربوں سے مراد وہ دیہاتی و صحرائی عرب ہیں جو مدینہ کے اطراف میں آباد تھے۔ یہ لوگ مدینہ میں ایک مضبوط اور منظم طاقت کو اُٹھتے دیکھ کر پہلے تو مرعوب ہوئے۔ پھر اسلام اور کفر کی آویزشوں کے دوران میں ایک مدت تک موقع شناسی و ابن الوقتی کی روش پر چلتے رہے۔ پھر جب اسلامی حکومت کا اقتدار حجاز و نجد کے ایک بڑے حصّے پر چھا گیا اور مخالف قبیلوں کا زور اس کے مقابلہ میں ٹوٹنے لگا تو ان لوگوں نے مصلحتِ وقت اسی میں دیکھی کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ لیکن ان میں کم لوگ ایسے تھے جو اِس دین کو دینِ حق سمجھ کر سچے دل سے ایمان لائے ہوں اور مخلصانہ طریقہ سے اس کے تقاضوں کو پورا کرنے پر آمادہ ہوں۔ بیشتر بدویوں کے لیے قبولِ  اسلام کی حیثیت ایمان و اعتقاد کی نہیں بلکہ محض مصلحت اور پالیسی کی تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کے حصہ میں صرف وہ فوائد آ جائیں جو برسر اقتدار جماعت کی رکنیت اختیار کرنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔ مگر وہ اخلاقی بندشیں جو اسلام ان پر عائد کرتا تھا، وہ نماز روزے کی پابندیاں جو اس دین کو قبول کرتے ہی ان پر لگ جاتی تھیں، وہ زکوٰۃ جو باقاعدہ تحصیل داروں کے ذریعہ سے ان کے نخلستانوں اور ان کے گلّوں سے وصول کی جاتی تھی، وہ ضبط و نظم جس کے شکنجے میں وہ اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسے گئے تھے، وہ جان و مال کی قربانیاں جو لوٹ مار کی لڑائیوں میں نہیں بلکہ خالص راہِ خدا کے جہاد میں آئے دن ان سے طلب کی جا رہی تھیں، یہ ساری چیزیں ان کو شدت کے ساتھ ناگوار تھیں اور وہ ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے ہر طرح کی چالبازیاں اور بہانہ سازیاں کرتے رہتے تھے۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہ تھی کہ حق کیا ہے اور ان کی اور تمام انسانوں کی حقیقی فلاح کس چیز میں ہے۔ انہیں جو کچھ بھی دلچسپی تھی وہ اپنے معاشی مفاد، اپنی آسائش، اپنی زمینوں، اپنے اونٹوں اور بکریوں اور اپنے خیمے کے آس پاس کی محدود دنیا سے تھی۔ اس سے بالاتر کسی چیز کے ساتھ وہ اُس طرح کی عقیدت تو رکھ سکتے تھے جیسی پیروں اور فقیروں سے رکھی جاتی ہے کہ یہ ان کے آگے نذر و نیاز پیش کریں اور وہ اس کے عوض ترقی روزگار اور آفات سے تحفظ اور ایسی ہی دوسری اغراض کے لیے ان کو تعویذ گنڈے دیں اور ان کے لیے دعائیں کریں۔ لیکن ایسے ایمان و اعتقاد کے لیے وہ تیار نہ تھے جو ان کی پوری تمدنی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو اخلاق اور قانون کے ضابطہ میں کس دے اور مزید برآں ایک عالمگیر اصلاحی مشن کے لیے اُن سے جان و مال کی قربانیوں کا بھی مطالبہ کرے۔

ان کی اسی حالت کو یہاں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ شہریوں کی بہ نسبت یہ دیہاتی و صحرائی لوگ زیادہ منافقانہ رویہ رکھتے تھے اور حق سے انکار کی کیفیت ان کے اندر زیادہ پائی جاتی ہے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی گئی ہے کہ شہری لوگ تو اہلِ علم اور اہلِ حق کی صحبت سے مستفید ہو کر کچھ دین کو اور اس کی حدود کو جان بھی لیتے ہیں مگر یہ بدوی چونکہ ساری ساری عمر بالکل ایک معاشی حیوان کی طرح شب و روز رزق کے پھیر ہی میں پڑے رہتے ہیں اور حیوانی زندگی کی ضروریات سے بلند تر کسی چیز کی طرف توجہ کرنے کا انہیں موقع ہی نہیں ملتا۔ اس لیے دین اور اس کے حدود سے ان کے ناواقف رہنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہاں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دینا غیر موزوں نہ ہو گا کہ ان آیات کے نزول سے تقریباً دو سال بعد حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کے ابتدائی عہد میں ارتداد اور منعِ زکوٰۃ کا جو طوفان برپا ہوا تھا اس کے اسباب میں ایک بڑا سبب یہی تھا جس کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے۔

۹۶-مطلب یہ ہے کہ جو زکوٰۃ ان سے وصول کی جاتی ہے اسے یہ ایک جرمانہ سمجھتے ہیں۔ مسافروں کی ضیافت و مہمانداری کا جو حق ان پر عائد کیا گیا ہے وہ اُن کی بُری طرح کھَلتا ہے۔ اور اگر کسی جنگ کے موقع پر یہ کوئی چندہ دیتے ہیں تو اپنے دلی جذبہ سے رضائے الٰہی کی خاطر نہیں دینے بلکہ با دلِ ناخواستہ اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے دیتے ہیں۔

 

وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوتِ ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیّا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔ تمہارے گر دو پیش جو بدوی رہتے ہیں ان میں بہت سے منافق ہیں اور اسی طرح خود مدینہ کے باشندوں میں بھی منافق موجود ہیں جو نفاق میں طاق ہو گئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے، ہم ان کو جانتے ہیں۔۹۷ قریب ہے وہ وقت جب ہم ان کو دوہری سزا دیں گے، ۹۸ پھر وہ زیادہ بڑی سزا کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ کچھ اور لوگ ہیں جنہیں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے۔ ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد۔ بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے اے نبی ؐ، تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اور (نیکی کی راہ میں) انہیں بڑھاؤ، اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرو کیونکہ تمہاری دُعا ان کے لیے وجہ تسکین ہو گی، اللہ سب کچھ سُنتا اور جانتا ہے۔ کیا اِن لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ وہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور ان کی خیرات کو قبولیت عطا فرماتا ہے، اور یہ کہ اللہ بہت معاف کرنے والا اور رحیم ہے ؟اور اے نبی ؐ، اِن لوگوں سے کہہ دو کہ تم عمل کرو، اللہ اور اس کا رسول اور مومنین سب دیکھیں گے کہ تمہارا طرزِ عمل اب کیا رہتا ہے۔ ۹۹ پھر تم اُس کی طرف پلٹائے جاؤ گے جو کھُلے اور چھُپے سب کو جانتا ہے اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔۱۰۰کچھ دُوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھہرا ہوا ہے، چاہے اُنہیں سزا دے اور چاہے اُن پر از سرِ نو مہربان ہو جائے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم و دانا ہے۔ ۱۰۱کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض کے لیے کہ (دعوتِ حق کو) نقصان پہنچائیں، اور (خدا کی بندگی کرنے کے بجائے ) کُفر کریں، اور اہلِ ایمان میں پھُوٹ ڈالیں، اور (اس بظاہر عبادت گاہ کو) اُس شخص کے لیے کمین گاہ بنائیں جو اس سے پہلے خدا اور اُس کے رسول ؐ کے خلاف بر سرِ پیکار ہو چکا ہے۔ وہ ضرور قسمیں کھا کھا کر کہیں گے کہ ہمارا ارادہ تو بھلائی کے سوا دوسری چیز کا نہ تھا۔ مگر اللہ گواہ ہے وہ قطعی جھوٹے ہیں۔تم ہر گز اس عمارت میں کھڑے نہ ہونا۔ جو مسجد اول روز سے تقویٰ پر قائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں (عبادت کے لیے ) کھڑے ہو، اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اور اللہ کو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہی پسند ہیں۔۱۰۲پھر تمہارا کیا خیال ہے کہ بہتر انسان وہ ہے جس نے اپنی عمارت کی بنیاد خدا کے خوف اور اس کی رضا کی طلب پر رکھی ہو یا وہ جس نے اپنی عمارت ایک وادی کی کھوکھلی بے ثبات کگر  ۱۰۳ پر اُٹھائی اور وہ اُسے لے کر سیدھی جہنم کی آگ میں جا گری؟ ایسے ظالم لوگوں کو اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔۱۰۴یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے، ہمیشہ ان کے دلوں میں بے یقینی کی جڑ بنی رہے گی( جس کے نکلنے کی اب کوئی صورت نہیں) بجز اس کے کہ ان کے دل ہی پارہ پارہ ہو جائیں۔۱۰۵ اللہ نہایت با خبر اور حکیم و دانا ہے۔ ؏ ١۳
 

۹۷-یعنی اپنے نفاق کو چھپانے میں وہ اتنے مشاق ہو گئے ہیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی اپنی کمال درجے کی فراست کے باوجود ان کو نہیں پہنچا ن سکتے تھے۔

۹۸-دوہری سزا سے مراد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ دنیا جس کی محبت میں مبتلا ہو کر انہوں نے ایمان و اخلاص کے بجائے منافقت اور غداری کا رویہ اختیار کیا ہے، ان کے ہاتھ سے جائے گی اور یہ مال و جاہ اور عزت حاصل کرنے کے بجائے اُلٹی ذلت و نامرادی پائیں گے۔ دوسری طرف جس مشن کو یہ ناکام دیکھنا اور اپنی چال بازیوں سے ناکام کرنا چاہتے ہیں وہ ان کی خواہشوں اور کوششوں کے علی الرغم ان کی آنکھوں کے سامنے فروغ پائے گا۔

۹۹-یہاں جھوٹے مدعی ایمان اور گنہگار مومن کا فرق صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے۔ جو شخص ایمان کا دعویٰ کرتا ہے مگر فی الواقع خدا اور اس کے دین اور جماعت مومنین کے ساتھ کوئی خلوص نہیں رکھتا اس کے عدم اخلاص کا ثبوت اگر اس کے طرزِ عمل سے مل جائے تو اس کے ساتھ سختی کا برتاؤ کیا جائے گا۔ خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لیے وہ کوئی مال پیش کرے تو اسے رد کر دیا جائے گا۔ مر جائے تو نہ مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور نہ کوئی مومن اس کے لیے دعائے مغفرت کرے گا چاہے وہ اس کا باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ بخلاف اس کے جو شخص مومن ہو اور اس سے کوئی غیر مخلصانہ طرزِ عمل سرزد ہو جائے وہ اگر اپنے قصور کا اعتراف کر لے تو اس کو معاف بھی کیا جائے گا، اس کے صدقات بھی قبول کیے جائیں گے اور اس کے لیے دعائے رحمت بھی کی جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ کس شخص کو غیر مخلصانہ طرزِ عمل کے صدور کے باوجود منافق کے بجائے محض گناہ گار مومن سمجھا جائے گا، تو یہ تین معیاروں سے پرکھی جائے گی جن کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے :

(۱) وہ اپنے قصور کے لیے عذرات لنگ اور تاویلات و توجیہات پیش نہیں کرے گا، بلکہ جو قصور ہوا ہے اسے سیدھی طرح صاف صاف مان لے گا۔

(۲) اس کے سابق طرزِ عمل پر نگاہ ڈال کر دیکھا جائے گا کہ یہ عدم اخلاص کا عادی مجرم تو نہیں ہے۔ اگر پہلے وہ جماعت کا ایک صالح فرد رہا ہے اور اس کے کارنامۂ زندگی میں مخلصانہ خدمات، ایثار و قربانی، اور سبقت الی الخیرات کا ریکارڈ موجود ہے تو باور کر لیا جائے گا کہ اِس وقت جو قصور اس سے سرزد ہوا ہے وہ ایمان و اخلاص کے عدم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض ایک کمزوری ہے جو وقتی طور پر رونما ہو گئی ہے۔

(۳) اس کے آئندہ طرزِ عمل پر نگاہ رکھی جائے گی کہ آیا اس کا اعترافِ قصور محض زبانی ہے یا فی الواقع اس کے اندر کوئی گہرا احساسِ  ندامت موجود ہے۔ اگر وہ اپنے قصور کی تلافی کے لیے بے تاب نظر آئے اور اس کی بات بات سے ظاہر ہو کہ جس نقص ایمانی کا نقش اس کی زندگی میں ابھر آیا تھا اسے مٹانے اور اس کا تدارک کرنے کی وہ سخت کوشش کر رہا ہے، تو سمجھا جائے گا کہ وہ حقیقت میں نادم ہے اور یہ ندامت ہی اس کے ایمان و اخلاص کی دلیل ہو گی۔

محدثین نے ان آیات کی شان نزول میں جو واقعہ بیان کیا ہے اس سے یہ مضمون آئینہ کی طرح روشن ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ آیات ابو لُبابہ بن عبد المنذِر اور ان کے چھ ساتھیوں کے معاملہ میں نازل ہوئی تھیں۔ ابو لُبابہ ان لوگوں میں سے تھے جو بیعتِ عقبہ کے موقع پر ہجرت سے پہلے اسلام لائے تھے۔ پھر جنگ بدر، جنگ اُحُد اور دوسرے معرکوں میں برابر شریک رہے۔ مگر غزوۂ تبوک کے موقع پر نفس کی کمزوری نے غلبہ کیا اور یہ کسی عذر شرعی کے بغیر بیٹھے رہ گئے۔ ایسے ہی مخلص ان کے دوسرے ساتھی بھی تھے اور ان سے بھی یہ کمزوری سرزد ہو گئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لائے اور ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق اللہ اور رسول کی کیا رائے ہے تو انہیں سخت ندامت ہوئی۔ قبل اس کے کوئی باز پرس ہوتی انہوں نے خود ہی اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا اور کہا کہ ہم پر خواب و خور حرام ہے جب تک ہم معاف نہ کر دیے جائیں، یا پھر ہم مر جائیں۔ چنانچہ کئی روز وہ اسی طرح بے آپ و دانہ اور بے خواب بندھے رہے حتیٰ کہ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ آخر کار جب انہیں بتایا گیا کہ اللہ اور رسول نے تمہیں معاف کر دیا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ ہماری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ جس گھر کی آسائش نے ہمیں فرض سے غافل کیا اسے اور اپنے تمام مال کو خدا کی راہ میں دے دیں گے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سارا مال دینے کی ضرورت نہیں، صرف ایک تہائی کافی ہے، چنانچہ وہ انہوں نے اسی وقت فی سبیل اللہ وقف کر دیا۔ اس قصہ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ خدا کے ہاں معافی کس قسم کی کمزوریوں کے لیے ہے۔ یہ سب حضرات عادی غیر مخلص نہ تھے بلکہ ان کا پچھلا کارنامۂ زندگی ان کے اخلاص ایمانی پر دلیل تھا۔ ان میں سے کسی نے عذرات نہیں تراشے بلکہ اپنے قصور کو خود ہی قصور مان لیا۔ انہوں نے اعترافِ  قصور کے ساتھ اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ واقعی نہایت نادم اور اپنے اس گناہ کی تلافی کے لیے سخت بے چین ہیں۔

اس سلسلہ میں ایک اور مفید نکتے پر بھی نگاہ رہنی چاہیے جو ان آیات میں ارشاد ہوا ہے۔ وہ یہ کہ گناہوں کی تلافی کے لیے زبان اور قلبِ کی تو بہ کے ساتھ ساتھ عملی توبہ بھی ہونی چاہیے، اور عملی توبہ کی ایک شکل یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں مال خیرات کرے۔ اس طرح وہ گندگی جو نفس میں پرورش پا رہی تھی اور جس کی بدولت آدمی سے گناہ کا صدور ہوا تھا، دور ہو جاتی ہے اور خیر کی طرف پلٹنے کی استعداد بڑھتی ہے۔ گناہ کرنے کے بعد اس کا اعتراف کرنا ایسا ہے جیسے ایک آدمی جو گڑھے میں گر گیا تھا، اپنے گرنے کو خود محسوس کر لے۔ پھر اس کا اپنے گناہ پر شرمسار ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس گڑھے کو اپنے لیے نہایت بری جائے قرار سمجھتا ہے اور اپنی اسی حالت سے سخت تکلیف میں ہے۔ پھر اس کا صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں سے اس کی تلافی کی سعی کرنا گویا گڑھے سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنا ہے۔

۱۰۰-مطلب یہ ہے کہ آخر کار معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لیے بالفرض اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے نفاق کو چھپانے میں کامیاب ہو جائے اور انسان جن جن معیاروں پر کسی کے ایمان و اخلاص کو پرکھ سکتے ہیں ان سب پر بھی پورا اتر جائے تو یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ نفاق کی سزا پانے سے بچ نکلا ہے۔

۱۰۱-یہ لوگ ایسے تھے جن کا معاملہ مشکوک تھا۔ نہ ان کے منافق ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا نہ گناہ گار مومن ہونے کا ان دونوں چیزوں کی علامات ابھی پوری طرح نہ ابھری تھیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے معاملہ کو ملتوی رکھا۔ نہ اس معنی میں کہ فی الواقع خدا کے سامنے معاملہ مشکوک تھا، بلکہ اس معنی میں کہ مسلمانوں کو کسی شخص یا گروہ کے معاملہ میں اپنا طرزِ عمل اس وقت تک متعین نہ کرنا چاہیے کہ جب تک اس کی پوزیشن ایسی علامات سے واضح نہ ہو جائے جو علم غیب سے نہیں بلکہ حس اور عقل سے جانچی جا سکتی ہوں۔

۱۰۲-نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مدینے تشریف لے جانے سے پہلے قبیلۂ خزرج میں ایک شخص ابو عامر نامی تھا جو زمانہ جاہلیت میں عیسائی راہب بن گیا تھا۔ اس کا شمار علماء اہل کتاب میں ہوتا تھا اور رہبانیت کی وجہ سے اس کے علمی وقار کے ساتھ ساتھ اس کی درویشی کا سکہ بھی مدینے اور اطراف کے جاہل عربوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینے پہنچے تو اس کی مسیحیت وہاں خوب چل رہی تھی۔ مگر یہ علم اور یہ درویشی اس کے اندر حق شناسی اور حق جوئی پیدا کرنے کے بجائے الٹی اس کے لئے ایک زبردست حجاب بن گئی اور اس حجاب کا نتیجہ یہ ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تشریف آوری کے بعد وہ نعمت ایمان ہی سے محروم نہ رہا بلکہ آپ کو اپنی مشیخت کا حریف اور اپنے کاروبار درویشی کا دشمن سمجھ کر آپ کی اور آپ کے کام کی مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا۔ پہلے دو سال تک تو اسے یہ امید رہی کہ کفار قریش کی طاقت ہی اسلام کی مٹانے کے لئے کافی ہو گی۔ لیکن جنگ بدر میں جب قریش نے شکست فاش کھائی تو اسے یارائے ضبط نہ رہا۔ اسی سال وہ مدینہ سے نکل کھڑا ہوا اور اس نے قریش اور دوسرے عرب قبائل میں اسلام کے خلاف تبلیغ شروع کر دی۔ جنگ احد جن لوگوں کی سعی سے برپا ہوئی ان میں یہ بھی شامل تھا اور کہا جاتا ہے کہ احد کے میدان جنگ میں اسی نے وہ گڑھے کھدوائے تھے جن میں سے ایک میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم گر کر زخمی ہوئے۔ پھر جنگ احزاب میں جو لشکر ہر طرف سے مدینہ پر چڑھ آئے تھے۔ ان کو چڑھا لانے میں بھی اس کا حصہ نمایاں تھا۔ اس کے بعد جنگ حنین تک جتنی لڑائیاں مشرکین عرب اور مسلمانوں کے درمیان ہوئیں ان سب میں یہ عیسائی درویش اسلام کے خلاف شرک کا سرگرم حامی رہا۔ آخر کار اسے اس بات سے مایوسی ہو گئی کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کے سیلاب کو روک سکے گی۔ اس لئے عرب کو چھوڑ کر اس نے روم کا رخ کیا تاکہ قیصر کو اس ’’خطرے ‘‘ سے آگاہ کر ے جو عرب سے سر اٹھا رہا تھا۔ یہ وہی موقع تھا جب مدینے میں یہ اطلاعات پہنچیں کہ قیصر عرب پر چڑھائی کی تیاریاں کر رہا ہے اور اسی کی روک تھام کے لئے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو تبوک کی مہم پر جانا پڑا۔

ابو عامر راہب کی ان تمام سرگرمیوں میں مدینہ کے منافقین کا ایک گروہ اس کے ساتھ شریک سازش تھا اور آخری تجویز میں بھی یہ لوگ اس کے ہمنوا تھے کہ وہ اپنے مذہبی اثر کو استعمال کر کے اسلام کے خلاف قیصر روم اور شمالی عرب کی عیسائی ریاستوں سے فوجی امداد حاصل کرے۔ جب وہ روم کی طرف روانہ ہونے لگا تو اس کے اور ان منافقوں کے درمیان یہ قرارداد ہوئی کہ مدینہ میں یہ لوگ اپنی ایک الگ مسجد بنا لیں گے تاکہ عام مسلمانوں سے بچ کر منافق مسلمانوں کی علیٰحدہ جتھا بندی اس طرح کی جا سکے کہ اس پر مذہب کا پردہ پڑا رہے اور آسانی سے اس پر کوئی شبہہ نہ کیا جا سکے، اور وہاں نہ صرف یہ کہ منافقین منظم ہو سکیں اور آئندہ کاروائیوں کے لئے مشورے کر سکیں، بلکہ ابو عامر کے پاس سے جو ایجنٹ خبریں اور ہدایات لے کر آئیں وہ بھی غیر مشتبہ فقیروں اور مسافروں کی حیثیت سے اس مسجد میں ٹھہر سکیں۔ یہ تھی وہ ناپاک سازش جس کے تحت وہ مسجد تیار کی گئی تھی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔

مدینہ میں اس وقت دو مسجدیں تھیں۔ ایک مسجد قبا جو شہر کے مضافات میں تھی، دوسری مسجد نبوی جو شہر کے اندر تھی۔ ان دو مسجدوں کی موجودگی میں ایک تیسری مسجد بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی، اور وہ زمانہ ایسی احمقانہ مذہبیت کا نہ تھا کہ مسجد کے نام سے ایک عمارت بنا دینا بجائے خود کار ثواب ہو قطع نظر اس سے کہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ بلکہ اس کے برعکس ایک نئی مسجد بننے کے معنی یہ تھے کہ مسلمانوں کی جماعت میں خواہ مخواہ تفریق رونما ہو جسے ایک صالح اسلامی نظام کسی طرح گورا نہیں کر سکتا۔ اس لئے یہ مجبور ہوئے کہ اپنی علیٰحدہ مسجد بنانے سے پہلے اس کی ضرورت ثابت کریں۔ چنانچہ انہوں نے بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس تعمیر نو کے لئے یہ ضرورت پیش کی کہ بارش میں اور جاڑے کے راتوں میں عام لوگوں کو اور خصوصاً ضعیفوں اور معذوروں کو، جو اِن دونوں مسجدوں سے دور رہتے ہیں، پانچوں وقت حاضری دینی مشکل ہوتی ہے۔ لہٰذا ہم محض نمازیوں کی آسانی کے لئے یہ ایک نئی مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

ان پاکیزہ ارادوں کی نمائش کے ساتھ جب یہ مسجدِ ضرار بن کر تیار ہوئی تو یہ اشرار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے درخواست کی کہ آپ ایک مرتبہ خود نماز پڑھا کر ہماری مسجد کا افتتاح فرما دیں۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس وقت میں جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں اور ایک بڑی مہم درپیش ہے۔ اس مہم سے واپس آ کر دیکھوں گا۔ اس کے بعد آپ تبوک کی طرف روانہ ہو گئے اور آپ کے پیچھے یہ لوگ اس مسجد میں اپنی جتھا بندی اور سازش کرتے رہے، حتیٰ کے انہوں نے یہاں تک طے کر لیا کہ ادھر رومیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کا قلع قمع ہو اور ادھر یہ فوراً ہی عبداللہ ابن ابّی کے سر پر تاج رکھ دیں۔ لیکن تبوک میں جو معاملہ پیش آیا اس نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ واپسی پر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ کے قریب ذِی اَدَان کے مقام پر پہنچے تو یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت چند آدمیوں کو مدینہ کی طرف بھیج دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے پہلے وہ اس مسجدِ ضرار کو مسمار کر دیں۔

۱۰۳-متن میں لفظ ’’جُرُف‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق عربی زبان میں کسی ندی یا دریا کے اُس کنارے پر ہوتا ہے جس کے نیچے کی مٹی کو پانی نے کاٹ کاٹ کر بہا دیا ہو اور اوپر کا حصہ بے سہارا کھڑا ہو۔ جو لوگ اپنے عمل کی بنیاد خدا سے بے خوفی اور اس کی رضا سے بے نیازی پر رکھتے ہیں ان کی تعمیر حیات کو یہاں اُس عمارت سے تشبیہ دی گئی ہے جو ایسے ایک کھوکھلے بے ثبات کنارۂ دریا پر اُٹھائی گئی ہو۔ یہ ایک بے نظیر تشبیہ ہے جس سے زیادہ بہتر طریقہ سے اِس صورت حال کی نقشہ کشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی پوری معنویت ذہن نشین کر نے کے لیے یوں سمجھیے کہ دنیوی زندگی کی وہ ظاہری سطح جس پر مومن، منافق، کافر، صالح، فاجر، غرض تمام انسان کام کرتے ہیں، مٹی کی اُس اوپری تہ کے مانند ہے جس پر دنیا میں ساری عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ یہ تہ اپنے اندر خود کوئی پائیدار ی نہیں رکھتی، بلکہ اس کی پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے ٹھوس زمین موجود ہو۔ اگر کوئی تہ ایسی ہو جس کے نیچے کی زمین کسی چیز، مثلاً دریا کے پانی سے کٹ چکی ہو تو جو ناواقف انسان اس کی ظاہری حالت سے دھوکا کھا کر اس پر اپنا مکان بنائے گا اسے وہ اس کے مکان سمیت لے بیٹھے گی اور وہ نہ صرف خود ہلاک ہو گا بلکہ اس نا پائیدار بنیاد پر اعتماد کر کے اپنا جو کچھ سرمایہ ٔ زندگی وہ اس عمار ت میں جمع کرے گا وہ بھی برباد ہو جائے گا۔ بالکل اسی مثال کے مطابق حیاتِ دنیا کی وہ ظاہری سطح بھی جس پر ہم سب اپنے کارنامۂ زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں، بجائے خود کوئی ثبات و قرار نہیں رکھتی بلکہ اس کی مضبوطی و پائیداری کا انحصار اس پر ہے کہ اس کے نیچے خدا کے خوف، اُس کے حضور جوابدہی کے احساس اور اُس کی مرضی کے اتباع کی ٹھوس چٹان موجود ہو۔ جو نادان آدمی محض حیات دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کر لیتا ہے اور دنیا میں خدا سے بے خوف اور اس کی رضا سے بے پروا ہو کر کام کرتا ہے وہ دراصل خود اپنی تعمیر زندگی کے نیچے سے اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور اس کا آخری انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ بے بنیاد سطح، جس پر اس نے اپنی عمر بھر کا سرمایہ ٔ عمل جمع کیا ہے ایک دن یکایک گر جائے اور اسے اس کے پورے سرمایے سمیت لے بیٹھے۔

۱۰۴- ’’سیدھی راہ‘‘ یعنی وہ راہ جس سے انسان با مراد ہوتا اور حقیقی کامیابی کی منزل پر پہنچتا ہے۔

۱۰۵-یعنی ان لوگوں کو منافقانہ مکر و دغا کے اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر کے اپنے دلوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایمان کی صلاحیت سے محروم کر لیا ہے اور بے ایمانی کا روگ اس طرح ان کے دلوں کے ریشے ریشے میں پیوست ہو گیا ہے کہ جب تک ان کے دل باقی ہیں یہ روگ بھی ان میں موجود رہے گا۔ خدا سے کفر کرنے لیے جو شخص علانیہ بت خانہ بنائے، یا اس کے دین سے لڑنے کے لیے کھلم کھلا مورچے اور دمدمے تیار کرے، اس کی ہدایت تو کسی نہ کسی وقت ممکن ہے، کیونکہ اس کے اندر راستبازی، اخلاص اور اخلاقی جرأت کا وہ جوہر تو بنیادی طور پر محفوظ رہتا ہے جو حق پرستی کے لیے بھی اسی طرح کام آسکتا ہے جس طرح باطل پرستی کے کام آتا ہے۔ لیکن جو بزدل جھوٹا اور مکار انسان کفر کے لیے مسجد بنائے اور خدا کے دین سے لڑنے کے لیے خدا پرستی کا پر فریب لبادہ اوڑھے، اس کی سیرت کو تو نفاق کی دیمک کھا چکی ہوتی ہے۔ اس میں یہ طاقت ہی کہاں باقی رہ سکتی ہے کہ مخلصانہ ایمان کا بوجھ سہار سکے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے اُن کے نفس اور اُن کے مال جنّت کے بدلے خرید لیے ہیں۔۱۰۶ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں۔ اُن سے (جنّت کا وعدہ) اللہ کے ذمّے ایک پختہ وعدہ ہے تورات اور انجیل اور قرآن میں۔۱۰۷ اور کون ہے جو اللہ سے بڑھ کر اپنے عہد کا پورا کرنے والا ہو؟ پس خوشیاں مناؤ اپنے اُس سودے پر جو تم نے خدا سے چُکا لیا ہے، یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے ۱۰۸، اُس کی بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گُن گانے والے، اُس کی خاطر زمین میں گردش کرنے والے ۱۰۹، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدُود کی حفاظت کرنے والے ۱۱۰ ( اس شان کے ہوتے ہیں وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبی ؐ ان مومنوں کو خوشخبری دے دو۔نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھُل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔۱۱۱ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لیے جو دعائے مغفرت کی تھی وہ تو اُس کے وعدے کی وجہ سے تھی جو اُس نے اپنے باپ سے کیا تھا ۱۱۲ ، مگر جب اُس پر یہ بات کھُل گئی کہ اُس کا باپ خدا کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گیا، حق یہ ہے کہ ابراہیم ؑ بڑا رقیق القلب و خدا ترس اور بُرد بار آدمی تھا۔۱۱۳اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ لوگوں کو ہدایت دینے کے بعد پھر گمراہی میں مبتلا کرے جب تک کہ اُنہیں صاف صاف بتا نہ دے کہ اُنہیں کن چیزوں سے بچنا چاہیے۔ ۱۱۴ در حقیقت اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ اور یہ بھی واقعہ ہے کہ اللہ ہی کے قبضے میں آسمان و زمین کی سلطنت ہے، اسی کے اختیار میں زندگی و موت ہے، اور تمہارا کوئی حامی و مددگار ایسا نہیں ہے جو تمہیں اُس سے بچا سکے۔ اللہ نے معاف کر دیا نبی کو اور اُن مہاجرین و انصار کو جنہوں نے بڑی تنگی کے وقت میں نبی ؐ کا ساتھ دیا۔۱۱۵ اگرچہ اُن میں سے کچھ لوگوں کے دل کَجی کی طرف مائل ہو چلے تھے، ۱۱۶ (مگر جب اُنہوں نے اُس کجی کا اتباع نہ کیا بلکہ نبی ؐ کا ساتھ ہی دیا تو ) اللہ نے اُنہیں معاف کر دیا ۱۱۷، بے شک اُس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ اور اُن تینوں کو بھی اُس نے معاف کیا جن کے معاملے کو ملتوی کر دیا گیا تھا ۱۱۸۔ جب زمین اپنی ساری وسعت کے باوجود اُن پر تنگ ہو گئی اور اُن کی اپنی جانیں بھی اُن پر بار ہو نے لگیں اور انہوں نے جان لیا کہ اللہ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ خود اللہ ہی کے دامنِ رحمت کے سوا نہیں ہے، تو اللہ اپنی مہربانی سے اُن کی طرف پلٹا تاکہ وہ اُس کی طرف پلٹ آئیں، یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے۔ ۱۱۹ ؏ ١۴
 

۱۰۶-یہاں ایمان کے اُس معاملے کو جو خدا اور بندے کے درمیان طے ہوتا ہے، بیع سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایمان محض ایک مابعد الطبعیاتی عقیدہ نہیں ہے بلکہ فی الواقع وہ ایک معاہدہ ہے جس کی رو سے بندہ اپنا نفس اور اپنا مال خدا کے ہاتھ فروخت کر دیتا ہے اور اس کے معاوضہ میں خدا کی طرف سے اِس وعدے کو قبول کر لیتا ہے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں وہ اسے جنت عطا کرے گا۔ اس اہم مضمون کے تَضَمُّنات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیع کی حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے۔

جہاں تک اصل حقیقت کا تعلق ہے، اس کے لحاظ سے تو انسان کی جان و مال کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، کیونکہ وہی اُس کا اور اُن ساری چیزوں کا خالق ہے جو اُس کے پاس ہیں اور اسی نے وہ سب کچھ اسے بخشا ہے جس پر وہ تصرف کر رہا ہے۔ لہٰذا اس حیثیت سے تو خرید و فروخت کا کوئی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ نہ انسان کا اپنا کچھ ہے کہ وہ اُسے بیچے، نہ کوئی چیز خدا کی ملکیت سے خارج ہے کہ وہ اسے خریدے۔ لیکن ایک چیز انسان کے اندر ایسی بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کلیۃً اس کے حوالے کر دیا ہے، اور وہ ہے اس کا اختیار یعنی اس کا اپنے انتخاب و ارادہ میں آزاد ہونا (Free -will and freedom of choice) اس اختیار کی بنا پر حقیقت نفس الامری تو نہیں بدلتی مگر انسان کو اس امر کی خودمختاری حاصل ہو جاتی ہے کہ چاہے تو حقیقت کو تسلیم کرے ورنہ انکار کر دے۔ بالفاظِ دیگر اس اختیار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ انسان فی الحقیقت اپنے نفس کا اور اپنے ذہن و جسم کی قوتوں کا اور اُن اقتدارات کا جو اسے دنیا میں حاصل ہیں، مالک ہو گیا ہے اور اسے یہ حق مل گیا ہے کہ ان چیزوں جو جس طرح چاہے استعمال کرے۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اسے اس امر کی آزادی دے دی گئی ہے کہ خدا کی طرف سے کسی جبر کے بغیر وہ خود اپنی ذات پر اور اپنی ہر چیز پر خد ا کے حقوقِ  مالکانہ کو تسلیم کرنا چاہے تو کرے ورنہ آپ ہی اپنا مالک بن بیٹھے اور اپنے زعم میں یہ خیال کرے کہ وہ خدا سے بے نیاز ہو کر اپنے حدودِ اختیار میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سے بیع کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ دراصل یہ بیع اس معنی میں نہیں ہے کہ جو چیز انسان کی ہے خدا اسے خریدنا چاہتا ہے۔ بلکہ اس معاملہ کی صحیح نوعیت یہ ہے کہ جو چیز خدا کی ہے، اور جسے اس نے امانت کے طور پر انسان کے حوالے کیا ہے، اور جس میں امین رہنے یا خائن بن جانے کی آزادی اس نے انسان کو دے رکھی ہے، اس کے بارے میں وہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ تُو برضا و رغبت (نہ کہ بمجبوری) میری چیز کو میری ہی چیز مان لے، اور زندگی بھرا س میں خود مختار مالک کی حیثیت سے نہیں بلکہ امین ہونے کی حیثیت سے تصرف کرنا قبول کر لے، اور خیانت کی جو آزادی تجھے میں نے دی ہے اس سے خود بخود دست بردار ہو جا۔ اس طرح اگر تُو دنیا کی موجودہ عارضی زندگی میں اپنی خودمختاری کو (جو تیری حاصل کر دہ نہیں بلکہ میری عطا کر دہ ہے ) میرے ہاتھ فروخت کر دے گا تو میں تجھے بعد کی جاودانی زندگی میں اس کی قیمت بصورتِ جنت ادار کروں گا۔ جو انسان خدا کے ساتھ بیع کا یہ معاملہ طے کر لے وہ مومن ہے اور ایمان دراصل اسی بیع کا دوسرا نام ہے۔ اور جو شخص اس سے انکار کر دے، یا اقرار کرنے کے باوجود ایسا رویہ اختیار کرے جو بیع نہ کرنے کی صورت ہی میں اختیار کیا جا سکتا ہے، وہ کافر ہے اور اس بیع ہی سے گریز کا اصطلاحی نام کفر ہے۔

بیع کی اِس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب اس کے تَضمُّنات کا تجزیہ کیجیے :

(۱) اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو بہت بڑی آزمائشوں میں ڈالا ہے۔ پہلی آزمائش اس امر کی کہ آزاد چھوڑ دیے جانے پر یہ اتنی شرافت دکھاتا ہے یا نہیں کہ مالک ہی کو مالک سمجھے اور نمک حرامی و بغاوت پر نہ اُتر آئے۔ دوسری آزمائش اس امر کی کہ یہ اپنے خدا پر اتنا اعتماد کرتا ہے یا نہیں کہ جو قیمت آج نقد نہیں مل رہی ہے بلکہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں جس کے ادا کرنے کا خدا کی طرف سے وعدہ ہے، اس کے عوض اپنی آج کی خودمختاری اور اُس کے مزے بیچ دینے پر بخوشی راضی ہو جائے۔

(۲) دنیا میں جس فقہی قانون پر اسلامی سوسائٹی بنتی ہے اس کی رو سے تو ایمان بس چند عقائد کے اقرار کا نام ہے جس کے بعد کوئی قاضیِ شرع کسی کے غیر مومن یا خارج از ملت ہونے کا حکم نہیں لگا سکتا جب تک اس امر کا کوئی صریح ثبوت اسے نہ مل جائے کہ وہ اپنے اقرار میں جھوٹا ہے۔ لیکن خدا کے ہاں جو ایمان معتبر ہے اس کی حقیقت کہ ہے کہ بندہ خیال اور عمل دونوں میں اپنی آزادی و خودمختاری کو خدا کے ہاتھ بیچ دے اور اُس کے حق میں اپنے ادعائے ملکیت سے کلیۃً دست بردار ہو جائے۔ پس اگر کوئی شخص کلمۂ اسلام کا اقرار کرتا ہو اور صوم و صلوٰۃ وغیرہ احکام کا بھی پابند ہو لیکن اپنے جسم و جان کا، اپنے دل و ماغ اور بدن کی قوتوں کا، اپنے مال اور وسائل و ذرائع کا، اور اپنے قبضہ و اختیار کی ساری چیزوں کا مالک اپنے آپ ہی کو سمجھتا ہو اور ان میں اپنے حسب منشا تصرف کرنے کی آزادی اپنے لیے محفوظ رکھتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ دنیا میں وہ مومن سمجھا جاتا رہے، مگر خدا کے ہاں یقیناً قیے سے پہلے پہلے وہ اس مسجد ضِر وہ غیر مومن ہی قرار پائے گا کیونکہ اس نے خدا کے ساتھ وہ بیع کا معاملہ سرے سے کیا ہی نہیں جو قرآن کی رو سے ایمان کی اصل حقیقت ہے۔ جہاں خدا کی مرضی ہو وہاں جان و مال کھپانے سے دریغ کرنا اور جہاں اُس کی مرضی نہ ہو وہاں جان و مال کھپانا، یہ دونوں طرزِ عمل ایسے ہیں جو اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ مدعی ایمان نے یا تو جان و مال کو خدا کے ہاتھ بیچا نہیں ہے، یا بیع کا معاہدہ کر لینے کے بعد بھی وہ بیچی ہوئی چیز کو بدستور اپنی سمجھ رہا ہے۔

(۳) ایمان کی یہ حقیقت اسلامی رویۂ زندگی اور کافرانہ رویۂ زندگی کو شروع سے آخر تک بالکل ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے۔ مسلم جو صحیح معنی میں خدا پر ایمان لایا ہو، اپنی زندگی کے ہر شعبے میں خدا کی مرضی کا تابع بن کر کام کرتا ہے اور اس کے رویہ میں کسی جگہ بھی خود مختاری کا رنگ نہیں آنے پاتا۔ الّا یہ کہ عارضی طور پر کسی وقت اس پر غفلت طاری ہو جائے اور وہ خد ا کے ساتھ اپنے معاہدہ ٔ بیع کو بھول کر کوئی خود مختارانہ حرکت کر بیٹھے۔ اسی طرح جو گروہ اہلِ ایمان سے مرکب ہو وہ اجتماعی طور پر بھی کوئی پالیسی، کوئی سیاست، کوئی طرزِ تمدن و تہذیب، کوئی طریقِ معیشت و معاشرت اور کوئی بین الاقوامی رویّہ خدا کی مرضی اور اس کے قانونِ شرعی کی پابندی سے آزاد ہو کر اختیار نہیں کر سکتا۔ اور اگر کسی عارضی غفلت کی بنا پر اختیار کر بھی جائے تو جس وقت اسے تنبُّہ ہو گا اسی وقت وہ آزادی کا رویہ چھوڑ کر بندگی کے رویہ کی طرف پلٹ آئے گا۔ خدا سے آزاد ہو کر کام کرنا اور اپنے نفس و متعلقات نفس کے بارے میں خود یہ فیصلہ کرنا کہ ہم کیا کریں اور کیا نہ کریں، بہر حال ایک کافرانہ رویۂ زندگی ہے خواہ اس پر چلنے والے لوگ ’’مسلمان‘‘ کے نام سے موسوم ہوں یا ’’غیر مسلم‘‘ کے نام سے۔

(۴) اس بیع کی روسے خدا کی جس مرضی کا اتباع آدمی پر لازم آتا ہے وہ آدمی کی اپنی تجویز کردہ مرضی نہیں بلکہ وہ مرضی ہے جو خدا خود بتائے۔ اپنے آپ کسی چیز کو خدا کی مرضی ٹھیرا لینا اور اس کا اتباع کرنا خدا کی مرضی کا نہیں بلکہ اپنی ہی مرضی کا اتباع ہے اور یہ معاہدہ بیع کے قطعی خلاف ہے۔ خدا کے ساتھ اپنے معاہدہ بیع پر صرف وہی شخص اور وہی گروہ قائم سمجھا جائے گا جو اپنا رویہ زندگی خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی ہدایت سے اخذ کرتا ہو۔

یہ اس بیع کے تضمنات ہیں، اور ان کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات بھی خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس خرید و فروخت کے معاملہ میں قیمت (یعنی جنت) کو موجودہ دنیوی زندگی کے خاتمہ پر کیوں موخر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جنت صرف اِس اقرار کا معاوضہ نہیں ہے کہ ’’بائع نے اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ دیا‘‘۔ بلکہ وہ اِس عمل کا معاوضہ ہے کہ ’’بائع اپنی دنیوی زندگی میں اس بیچی ہوئی چیز پر خود مختارانہ تصرف چھوڑ دے اور خدا کا امین بن کر اس کی مرضی کے مطابق تصرف کرے ‘‘۔ لہٰذا یہ فروخت مکمل ہی اس وقت ہو گی جب کہ بائع کی دنیوی زندگی ختم ہو جائے اور فی الواقع یہ ثابت ہو کہ اس نے معاہدۂ بیع کرنے کے بعد سے اپنی دنیوی زندگی کے آخری لمحہ تک بیع کی شرائط پوری کی ہیں۔ اس سے پہلے وہ ازروئے انصاف قیمت پانے کا مستحق نہیں ہو سکتا۔

اِن امور کی توضیح کے ساتھ یہ بھی جان لینا چاہیے کہ اس سلسلہ ٔ بیان میں یہ مضمون کس مناسبت سے آیا ہے۔ اوپر سے جو سلسلۂ تقریر چل رہا تھا اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جنہوں نے ایمان لانے کا اقرار کیا تھا۔ مگر جب امتحان کا نازک موقع آیا تو ان میں سے بعض نے تساہل کی بنا پر، بعض نے اخلاص کی کمی کی وجہ سے، اور بعض نے قطعی منافقت کی راہ سے خدا اور اس کے دین کی خاطر اپنے وقت، اپنے مال، اپنے مفاد اور اپنی جان کو قربان کرنے میں دریغ کیا۔ لہٰذا ان مختلف اشخاص اور طبقوں کے رویّہ پر تنقید کرنے کے بعد اب ان کو صاف صاف بتایا جا رہا ہے کہ وہ ایمان، جسے قبول کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے، محض یہ مان لینے کا نام نہیں ہے کہ خدا ہے اور وہ ایک ہے، بلکہ دراصل وہ اس امر کا اقرار ہے کہ خدا ہی تمہارے نفس اور تمہارے مال کا مالک ہے، پس یہ اقرار کرنے کے بعد اگر تم اِس نفس و مال کو خدا کے حکم پر قربان کر نے سے جی چراتے ہو، اور دوسری طرف اپنے نفس کی قوتوں کو اور اپنے ذرائع کو خدا کے منشا کے خلاف استعمال کرتے ہو، تو یہ اس امر کی دلیل ہے کہ تم اپنے اقرار میں جھوٹے ہو۔ سچے اہلِ ایمان صرف وہ لوگ ہیں جو واقعی اپنا نفس و مال خدا کے ہاتھ بیچ چکے ہیں اور اسی کو ان چیزوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ جہاں اس کا حکم ہوتا ہے وہاں انہیں بے دریغ قربان کرتے ہیں، اور جہاں اس کا حکم نہیں ہوتا وہاں نفس کی طاقتوں کا کوئی ادنیٰ سا جز اور مالی ذرائع کا کوئی ذرا سا حصہ بھی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

۱۰۷-اس امر پر بہت اعتراضات کیے گئے ہیں کہ جس وعدے کا یہاں ذکر ہے وہ توراۃ اور انجیل میں موجود نہیں ہے۔ مگر جہاں تک انجیل کا تعلق ہے یہ اعتراضات بے بنیا د ہیں۔ جو اناجیل اس وقت دنیا میں موجود ہیں ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعدد اقوال ہم کو ایسے ملتے ہیں جو اس آیت کے ہم معنی ہیں، مثلاً:

 ’’مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب ستائے گئے ہیں، کیونکہ آسمان کی بادشاہت انہی کی ہے ‘‘ (متی ۱۰:۵)

 ’’جو کوئی اپنی جان بچاتا ہے اسے کھوئے گا اور جو کوئی میرے سبب اپنی جان کھوتا ہے اسے بچائے گا‘‘ (متی ۳۹:۱۰)

 ’’جس کسی نے گھروں یا بھائیوں یا بہنوں یا باپ یا ماں یا بچوں یا کھیتوں کو میرے نام کی خاطر چھوڑ دیا ہے اس کو سو گنا ملے گا اور ہمیشہ کی زندگی کا وارث ہو گا‘‘ (متی ۲۹:۱۹)

البتہ توراۃ جس صورت میں اس وقت موجود ہے اس میں بلاشبہ یہ مضمون نہیں پایا جاتا، اور یہی مضمون کیا، وہ تو حیات بعد الموت اور یوم الحساب اور اخروی جزا و سزا کے تصور ہی سے خالی ہے۔ حالانکہ یہ عقیدہ ہمیشہ سے دین حق کا جز و لاینفک رہا ہے۔ لیکن موجودہ توراۃ میں اس مضمون کے نہ پائے جانے سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ واقعی توراۃ اس سے خالی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود اپنے زمانۂ تنزل میں کچھ ایسے مادّہ پرست اور دنیا کی خوشحالی کے بھوکے ہو گئے تھے کہ ان کے نزدیک نعمت اور انعام کے کوئی معنی اس کے سوا نہ رہے تھے کہ وہ اسی دنیا میں حاصل ہو۔ اسی لیے کتاب الٰہی میں بندگی و اطاعت کے بدلے جن جن انعامات کے وعدے ان سے کیے گئے تھے ان سب کو وہ دنیا ہی میں اتار لائے اور جنت کی ہر تعریف کو انہوں نے فلسطین کی سرزمین پر چسپاں کر دیا جس کے وہ امیدوار تھے۔ مثال کے طور پر توراۃ میں متعدد مقامات پر ہم کو یہ مضمون ملتا ہے :

 ’’ سن اے اسرائیل ! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے۔ تو اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری طاقت سے خداوند اپنے خدا سے محبت کر‘‘ (استثناء ۶ : ۴ : ۵ )

اور یہ کہ:

 ’’کیا وہ تمہارا باپ نہیں جس نے تم کو خریدا ہے ؟ اسی نے تم کو بنایا اور قیام بخشا‘‘ (استثنا ء ۳۲ : ۶)

لیکن اس تعلق باللہ کی جو جزا بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ تم اُس ملک کے مالک ہو جاؤ گے جس میں دودھ اور شہد بہتا ہے، یعنی فلسطین۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ توراۃ جس صورت میں اس وقت پائی جاتی ہے اول تو وہ پوری نہیں ہے، اور پھر وہ خالص کلامِ الٰہی پر بھی مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سا تفسیری کلام خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ شامل کر دیا گیا ہے۔ اس کے اندر یہودیوں کی قومی روایات، اُن کے نسلی تعصبات، ان کے اوہام، ان کی آرزوؤں اور تمناؤں، ان کی غلط فہمیوں، اور ان کے فقہی اجتہادات کا ایک معتدبہ حصہ ایک ہی سلسلہ عبارت میں کلامِ الٰہی کے ساتھ کچھ اس طرح رَل مِل گیا ہے کہ اکثر مقامات پر اصل کلام کو اِن زوائد سے ممیز کرنا قطعاً غیر ممکن ہو جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ آلِ عمران، حاشیہ نمبر۲)۔

۱۰۸-متن میں لفظ التّآ ئِبُون استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’توبہ کرنے والے ‘‘ ہے۔ لیکن جس اندازِ کلام میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ توبہ کرنا اہلِ ایمان کی مستقل صفات میں سے ہے، اس لیے اس کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہ ایک ہی مرتبہ توبہ نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ اور توبہ کے اصل معنی رجوع کرنے یا پلٹنے کے ہیں، لہٰذا اس لفظ کی حقیقی روح ظاہر کرنے کے لیے ہم نے اس کا تشریحی ترجمہ یوں کیا ہے کہ ’’ وہ اللہ کی طرف بار بار پلٹتے ہیں‘‘۔ مومن اگر چہ اپنے پورے شعور و ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے نفس و مال کی بیع کا معاملہ طے کرتا ہے، لیکن چونکہ ظاہر حال کے لحاظ سے محسوس یہی ہوتا ہے کہ نفس اس کا اپنا ہے اور مال اُس کا اپنا ہے، اور یہ بات کہ اِس نفس و مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے ایک امر محسوس نہیں بلکہ محض ایک امر معقول ہے، اس لیے مومن کی زندگی میں بارہا ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں جبکہ وہ عارضی طور پر خدا کے ساتھ اپنے معاملۂ بیع کو بھول جاتا ہے اور اس سے غافل ہو کر کوئی خود مختارانہ طرزِ عمل اختیار کر بیٹھتا ہے۔ مگر ایک حقیقی مومن کی صفت یہ ہے کہ جب بھی اس کی یہ عارضی بھول دور ہوتی ہے اور وہ اپنی غفلت سے چونکتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ غیر شعوری طور پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی کر گزرا ہے تو اسے ندامت لاحق ہوتی ہے، شرمندگی کے ساتھ وہ اپنے خدا کی طرف پلٹتا ہے، معافی مانگتا ہے اور اپنے عہد کو پھر سے تازہ کر لیتا ہے۔ یہی بار بار کی توبہ اور یہی رہ رہ کر خدا کی طرف پلٹنا اور ہر لغزش کے بعد وفاداری کی راہ پر واپس آنا ہی ایمان کے دوام و ثبات کا ضامن ہے۔ ورنہ انسان جن بشری کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے ان کی موجودگی میں تو یہ بات اس کے بس میں نہیں ہے کہ خدا کے ہاتھ ایک دفعہ نفس و مال بیچ دینے کے بعد ہمیشہ کامل شعوری حالت میں وہ اس بیع کے تقاضوں کو پورا کرتا رہے اور کسی وقت بھی غفلت و نسیان اس پر طاری نہ ہونے پائے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ مومن کی تعریف میں یہ نہیں فرماتا کہ وہ بندگی کی راہ پر آ کر کبھی اس سے پھسلتا ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی قابلِ تعریف صفت یہ قرار دیتا ہے کہ وہ پھسل پھسل کر بار ابر اُسی راہ کی طرف آتا ہے، اور یہی وہ بڑی سے بڑی خوبی ہے جس پر انسان قادر ہے۔

پھر اس موقع پر مومنین کی صفات میں سب سے پہلے توبہ کا ذکر کرنے کی ایک اور مصلحت بھی ہے۔ اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آ رہا ہے اس میں روئے سخن اُن لوگوں کی طرف ہے جن سے ایمان کے منافی افعال کا ظہور ہوا تھا۔ لہٰذا ان کو ایمان کی حقیقت اور اس کا بنیادی مقتضیٰ بتانے کے بعد اب یہ تلقین کی جا رہی ہے کہ ایمان لانے والوں میں لازمی طور پر جو صفات ہونی چاہییں ان میں سے اوّلین صفت یہ ہے کہ جب بھی ان کا قدم راہِ بندگی سے پھسل جائے وہ فوراً اس کی طرف پلٹ آئیں، نہ یہ کہ اپنے انحراف پر جمے رہیں اور زیادہ دُور نکلتے چلے جائیں۔

۱۰۹-متن میں لفظ السَّا ئِحُونَ استعمال ہوا ہے جس کی تفسیر بعض مفسرین نے الصَّآ ئِمُونَ (روزہ رکھنے والے ) سے کی ہے۔ لیکن سیاحت کے معنی روزہ، مجازی معنی ہیں۔ اصل لغت میں اس کے یہ معنی نہیں ہیں۔ اور جس حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس لفظ کے یہ معنی ارشاد فرمائے ہیں، اس کی نسبت حضورؐ کی طرف درست نہیں ہے۔ اس لیے ہم اس کو اصل لغوی معنی ہی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔ پھر جس طرح قرآن میں بکثرت مواقع پر مطلقاً انفاق کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی خرچ کرنے کے ہیں اور مراد اُس سے راہِ  خدا میں خرچ کرنا ہے، اُسی طرح یہاں بھی سیاحت سے مراد محض گھومنا پھرنا نہیں ہے بلکہ ایسے مقاصد کے لیے زمین میں نقل و حرکت کرنا ہے جو پاک اور بلند ہو ں اور جن میں اللہ کی رضا مطلوب ہو۔ مثلاً اقامت دین کے لیے جہاد، کفر زدہ علاقوں سے ہجرت، دعوتِ دین، اصلاحِ خلق، طلبِ علمِ صالح، مشاہدۂ آثارِ الٰہی اور تلاشِ رزقِ  حلال۔ اس صفت کو یہاں مومنین کی صفات میں خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرنے کے باوجود جہاد کی پکار پر گھروں نے نہیں نکلتے تھے ان کو یہ بتایا جائے کہ حقیقی مومن ایمان کا دعویٰ کر کے اپنی جگہ چین سے بیٹھا نہیں رہ جاتا بلکہ وہ خدا کے دین کو قبول کر نے کے بعد اس کا بول بالا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے دنیا میں دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کرتا پھرتا ہے۔

۱۱۰-یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد، عبادات، اخلاق، معاشرت، تمدّن، معیشت، سیاست، عدالت اور صلح و جنگ کے معاملات میں جو حدیں مقرر کر دی ہیں وہ ان کو پوری پابندی کے ساتھ ملحوظ رکھتے ہیں، اپنے انفرادی و اجتماعی عمل کو انہی حدود کے اندر محدود رکھتے ہیں، اور کبھی ان سے تجاوز کر کے نہ تو من مانی کاروائیاں کرنے لگتے ہیں اور نہ خدائی قوانین کے بجائے خود ساختہ قوانین یا انسانی ساخت کے دوسرے قوانین کو اپنی زندگی کا ضابطہ بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا کے حدود کی حفاظت میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ ان حدود کو قائم کیا جائے اور انہیں ٹوٹنے نہ دیا جائے۔ لہٰذا سچے اہلِ ایمان کی تعریف صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ وہ خود حدود اللہ کی پابندی کرتے ہیں، بلکہ مزید برآں ان کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ دنیا میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کو قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی نگہبانی کرتے ہیں اور اپنا پورا زور اس سعی میں لگا دیتے ہیں کہ یہ حدیں ٹوٹنے نہ پائیں۔

۱۱۱- ’’کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازماً یہ معنی رکھتی ہے کہ اوّل تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اُس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہ گار ہو۔ لیکن جو شخص کھُلا ہُوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولاً غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہو جاتی ہے۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بے لاگ نہیں ہے، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کر لے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرور بخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اُس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بے لاگ ہو، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو‘‘ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ ’’ تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو‘‘۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابلِ معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔

یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دُنیوی تعلقات میں صلۂ رحمی، مُواساۃ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مد د کی جائے گی۔ حاجت مند آدمی کو بہرصورت سہارا دیا جائے گا۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جائے گی۔ یتیم کے سر پر یقیناً شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا۔ ایسے معاملات میں ہر گز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم۔

۱۱۲-اشارہ ہے اُس بات کی طرف جو اپنے مشرک باپ سے تعلقات منقطع کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے کہی تھی کہ سَلَامٌ عَلَیْکَ سَاَ سْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّہٗ کَانَ بِیْ حَفِیًّاo (مریم۔ آیت ۴۷) ’’آپ کو سلام ہے، میں آپ کے لیے اپنے ربّ سے دعا کروں گا کہ آپ کو معاف کر دے، وہ میرے اوپر نہایت مہربان ہے ‘‘۔ اور لَاَ سْتَغْفِرَ نَّ لَکَ وَمَا اَمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْ ءٍ (الممتحنہ آیت ۴) ’’ میں آپ کے لیے معافی ضرور چاہوں گا، اور میرے اختیار میں کچھ نہیں ہے کہ آپ کو اللہ کی پکڑ سے بچوا لوں‘‘۔ چنانچہ اسی وعدے کی بنا پر آنجناب نے اپنے باپ کے لیے یہ دُعا مانگی تھی کہ : وَاغْفِرْ لِاَ بِیْ اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَo وَلَا تُخْزِنِیْ یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ o یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ o اِلَّا مَنْ اَتَی اللہ َ بَقَلْبٍ سَلِیْمٍ o(الشعراء آیات ۸۶ تا ۸۹) ’’اور میرے باپ کو معاف کر دے، بے شک وہ گمراہ لوگوں میں سے تھا، اور اس دن مجھے رسوا نہ کر جبکہ سب انسان اٹھائے جائیں گے، جبکہ نہ مال کسی کے کچھ کام آئے گا نہ اولاد، نجات صرف وہ پائے گا جو اپنے خدا کے حضور بغاوت سے پاک دل لے کر حاضر ہوا ہو‘‘۔ یہ دعا اوّل تو خود انتہائی محتاط لہجے میں تھی۔ مگر اس کے بعد جب حضرت ابراہیم کی نظر اس طرف گئی کہ میں جس شخص کے لیے دعا کر رہا ہوں وہ تو خدا کا کھلم کھلا باغی تھا، اور اس کے دین سے سخت دشمنی رکھتا تھا، تو وہ اس سے بھی باز آ گئے اور ایک سچے وفادار مومن کی طرح انہوں نے باغی کی ہمدردی سے صاف صاف تبرّی کر دی، اگرچہ وہ باغی ان کا باپ تھا جس نے کبھی محبت سے ان کو پالا پوسا تھا۔

۱۱۳-متن میں اَوَّاہٌ اور حَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اَوَّاہٌ کے معنی ہیں بہت آہیں بھرنے والا، زاری کرنے والا، ڈرنے والا، حسرت کرنے والا۔ اور حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصّے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطر میں حد اعتدال سے تجاوز کر جائے۔ یہ دونو ں لفظ اس مقام پر دوہرے معنی دے رہے ہیں۔ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت کی کیونکہ وہ نہایت رقیق القلب آدمی تھے، اس خیال سے کانپ اٹھے تھے کہ میرا یہ باپ جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ اور حلیم تھے، اُس ظلم و ستم کے باوجود جو ان کے باپ نے اسلام سے ان کو روکنے کے لیے ان پر ڈھایا تھا۔ ان کی زبان اس کے حق میں دعا ہی کے لیے کھلی۔ پھر انہوں نے یہ دیکھ کر کہ ان کا باپ خدا کا دشمن ہے اس سے تبّری کی، کیونکہ وہ خدا سے ڈرنے والے انسان تھے اور کسی کی محبت میں حد سے تجاوز کر نے والے نہ تھے۔

۱۱۴-یعنی اللہ پہلے یہ بتا دیتا ہے کہ لوگوں کو کن خیالات، کِن اعمال اور کن طریقوں سے بچنا چاہیے، پھر جب وہ باز نہیں آتے اور غلط فکری و غلط کاری ہی پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی ہدایت و رہنمائی سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور اُسی غلط راہ پر انہیں دھکیل دیتا ہے جس پر وہ خود جانا چاہتے ہیں۔

یہ ارشاد ایک قاعدۂ کلیہ بیان کرتا ہے جس سے قرآن مجید کے وہ تمام مقامات اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہیں جہاں ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنا فعل بتایا ہے۔ خدا کا ہدایت دینا یہ ہے کہ وہ صحیح طریق فکر و عمل اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے سامنے واضح طور پر پیش کر دیتا ہے، پھر جو لوگ اس طریقے پر خود چلنے کے لیے آمادہ نہ ہوں انہیں اس کی توفیق بخشتا ہے۔ اور خدا کا گمراہی میں ڈالنا یہ ہے کہ جو صحیح طریقِ فکر و عمل اس نے بتا دیا ہے اگر  اس کے خلاف چلنے ہی پر کوئی اصرار کرے اور سیدھا نہ چلنا چاہے تو خدا اس کو زبردستی راست بیں اور راست رو نہیں بنا دیتا بلکہ جدھر وہ خود جانا چاہتا ہے اسی طرف اس کو جانے کی توفیق دے دیتا ہے۔

اس خاص سلسلہ ٔ کلام میں یہ بات جس مناسبت سے بیان ہوئی ہے وہ پچھلی تقریر اور بعد کی تقریر پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔ یہ ایک طرح کی تنبیہ ہے جو نہایت موزوں طریقہ سے پچھلے بیان کا خاتمہ بھی قرار پا سکتی ہے اور آگے جو بیان آ رہا ہے اس کی تمہید بھی۔

۱۱۵-یعنی غزوۂ تبوک کے سلسلہ میں جو چھوٹی چھوٹی لغزشیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ سے ہوئیں ان سب کو اللہ نے ان کی اعلیٰ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے معاف فرما دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے جو لغزش ہوئی تھی اس کا ذکر آیت ۴۳ میں گزر چکا ہے، یعنی یہ کہ جن لوگوں نے استطاعت رکھنے کے باوجود جنگ سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگی تھی ان کو آپ ؐ نے اجازت دے دی تھی۔

۱۱۶-یعنی بعض مخلص صحابہ بھی اس سخت وقت میں جنگ پر جانے سے کسی نہ کسی حد تک جی چرانے لگے تھے، مگر چونکہ ان کے دلوں میں ایمان تھا اور وہ سچے دل سے دینِ حق کے ساتھ محبت رکھتے تھے اس لیے آخر کار وہ اپنی اس کمزوری پر غالب آ گئے۔

۱۱۷-یعنی اب اللہ اس بات پر ان سے مؤاخذہ نہ کرے گا کہ ان کے دلوں میں کجی کی طرف یہ میلان کیوں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے کہ اللہ اُس کمزوری پر گرفت نہیں کرتا جس کی انسان نے خود اصلاح کر لی ہو۔

۱۱۸-نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب تبوک سے مدینہ واپس تشریف لائے تو وہ لوگ معذرت کرنے کے لیے حاضر ہوئے جو پیچھے رہ گئے تھے۔ ان میں ۸۰ سے کچھ زیادہ منافق تھے اور تین سچے مومن بھی تھے۔ منافقین جھوٹے عذرات پیش کرتے گئے اور حضور ان کی معذرت قبول کرتے چلے گئے۔ پھر ان تینوں مومنوں کی باری آئی اور انہوں نے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کر لیا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان تینوں کے معاملہ میں فیصلہ کو ملتوی کر دیا اور عام مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ جب تک خدا کا حکم نہ آئے، ان سے کسی قسم کا معاشرتی تعلق نہ رکھا جائے۔ اسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ (یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اِن تین اصحاب کا معاملہ اُن سات اصحاب سے مختلف ہے جن کا ذکر حاشیہ نمبر ۹۹ میں گزر چکا ہے۔ انہوں نے باز پرس سے پہلے ہی خود اپنے آپ کو سزا دے لی تھی)۔

۱۱۹-یہ تینوں صاحب کَعب بن مالک، ہِلال بن اُمیّہ اور مُرارہ بن رُبَیع تھے۔ جیسا کہ اوپر ہم بیان کر چکے ہین، تینوں سچے مومن تھے۔ اس سے پہلے اپنے اخلاص کا بارہا ثبوت دے چکے تھے۔ قربانیاں کر چکے تھے۔ آخر الذکر دو اصحاب تو غزوۂ بدر کے شرکاء میں سے تھے جن کی صداقت ایمانی ہر شبہ سے بالا تر تھی۔ اور اول الذکر بزرگ اگرچہ بدری نہ تھے لیکن بدر کے سوا ہر غزوہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہے۔ ان خدمات کے باوجود جو سُستی اِس نازک موقع پر جبکہ تمام قابل جنگ اہلِ ایمان کو جنگ کے لیے نکل آنے کا حکم دیا گیا تھا، اِن حضرات نے دکھائی اُس پر سخت گرفت کی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک سے واپس تشریف لا کر مسلمانوں کو حکم دے دیا کہ کوئی ان سے سلام کلام نہ کرے۔ ۴۰ دن کے بعد ان کی بیویوں کو بھی ان سے الگ رہنے کی تاکید کر دی گئی۔ فی الواقع مدینہ کی بستی میں ان کا وہی حال ہو گیا تھا کہ جس کی تصویر اس آیت میں کھینچی گئی ہے۔ آخر کار جب ان کے مقاطعہ کو ۵۰ دن ہو گئے تب معافی کا یہ حکم نازل ہوا۔

ان تینوں صاحبوں میں سے حضرت کعب بن مالک نے اپنا قصہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے جو غایت درجہ سبق آموز ہے۔ اپنے بڑھاپے کے زمانہ میں جبکہ وہ نابینا ہو چکے تھے، انہوں نے اپنے صاحبزادے عبد اللہ سے، جو ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چلا یا کرتے تھے، یہ قصہ خود بیا ن کیا:

غزوۂ تبوک کی تیاری کے زمانہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی مسلمانوں سے شرکتِ جنگ کی اپیل کرتے تھے، میں اپنے دل میں ارادہ کر لیتا تھا کہ چلنے کی تیاری کروں گا مگر پھر واپس آ کر سُستی کر جاتا تھا اور کہتا تھا کہ ابھی کیا ہے، جب چلنے کا وقت آئے گا تو تیا ہو تے کیا دیر لگتی ہے۔ اسی طرح بات ٹلتی رہی یہاں تک کہ لشکر کی روانگی کا وقت آگیا اور میں تیار نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا کہ لشکر کو چلنے دو، میں ایک دو روز بعد راستہ ہی میں اس سے جا ملوں گا۔ مگر پھر وہی سُستی مانع ہوئی حتیٰ کہ وقت نکل گیا۔

اس زمانہ میں جبکہ میں مدینے میں رہا میرا دل یہ دیکھ دیکھ کر بے حد کُڑھتا تھا کہ میں پیچھے جن لوگوں کے ساتھ رہ گیا ہوں وہ یا تو منافق ہیں یا وہ ضعیف اور مجبور لوگ جن کو اللہ نے معذور رکھا ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم تبوک سے واپس تشریف لائے تو حسبِ معمول آپؐ نے پہلے مسجد آ کر دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے ملاقات کے لیے بیٹھے۔ اس مجلس میں منافقین نے آ آ کر اپنے عذرات لمبی چوڑی قسموں کے ساتھ پیش کرنے شروع کیے۔ یہ ۸۰ سے زیادہ آدمی تھے۔ حضورؐ نے اُن میں سے ایک ایک کی بناوٹی باتیں سنیں۔ ان کے ظاہری عذرات کو قبول کر لیا، اور ان کے باطن کو خدا پر چھوڑ کر فرمایا خدا تمہیں معاف کرے۔ پھر میری باری آئی۔ میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔ ’’خدا کی قسم اگر میں اہلِ دنیا میں سے کسی کے سامنے حاضر ہوا ہوتا تو ضرور کوئی نہ کوئی بات بنا کر اس کو راضی کرنے کی کوشش کرتا، باتیں بنانی تو مجھے بھی آتی ہیں، مگر آپ کے متعلق میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اِس وقت کوئی جھوٹا عذر پیش کر کے میں نے آپ کو راضی کر بھی لیا تو اللہ ضرور آپ کو مجھ سے پھر ناراض کر دے گا۔ البتہ اگر سچ کہوں تو چاہے آپ ناراض ہی کیوں نہ ہوں، مجھے امید ہے کہ اللہ میرے لیے معافی کی کوئی صورت پیدا فرما دے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے پاس کوئی عذر نہیں ہے جسے پیش کر سکوں، میں جانے پر پوری طرح قادر تھا‘‘۔ اس پر حضور نے فرمایا ’’یہ شخص ہے جس نے سچی بات کہی۔ اچھا، اُٹھ جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے معاملہ میں کوئی فیصلہ کرے ‘‘۔ میں اٹھا اور اپنے قبیلے کے لوگوں میں جا بیٹھا۔ یہاں سب کے سب میرے پیچھے پڑ گئے اور مجھے بہت ملامت کی کہ تُو نے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا۔ یہ باتیں سن کر میرا نفس بھی کچھ آمادہ ہونے لگا کہ پھر حاضر ہو کر کوئی بات بنا دوں۔ مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ دو اور صالح آدمیوں (مراد بن ربیع اور ہلال بن امیہ) نے بھی وہی سچی بات کہی ہے جو میں نے کہی تھی، تو مجھے تسکین ہو گئی اور میں اپنی سچائی پر جما رہا۔

اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عام حکم دے دیا کہ ہم تینوں آدمیوں سے کوئی بات نہ کرے۔ وہ دونوں تو گھر بیٹھ گئے، مگر میں نکلتا تھا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، بازاروں میں چلتا پھرتا تھا اور کوئی مجھ سے بات نہ کرتا تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہ سرزمین بالکل بدل گئی ہے، میں یہاں اجنبی ہوں اور اس بستی میں کوئی بھی میرا واقف کار نہیں۔ مسجد میں نماز کے لیے جاتا تو حسبِ معمول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سلام کرتا تھا، مگر بس انتظار ہی کرتا رہ جاتا تھا کہ جواب کے لیے آپ کے ہونٹ جنبش کریں۔ نماز میں نظریں چرا کر حضور کو دیکھتا تھا کہ آپ کی نگاہیں مجھ پر کیسی پڑتی ہیں۔ مگر وہاں حال یہ تھا کہ جب تک میں نماز پڑھتا آپ میری طرف دیکھتے رہتے، اور جہاں میں نے سلام پھیرا کہ آپ نے میری طرف سے نظر ہٹائی۔ ایک روز میں گھبرا کر اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے یار ابو قَتَادَہ کے پاس گیا اور ان کے باغ کی دیوار پر چڑھ کر انہیں سلام کیا۔ مگر اس اللہ کے بندے نے سلام کا جواب تک نہ دیا۔ میں نے کہا ’’ابو قتادہ، میں تم کو خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں خدا اور اس کے رسول سے محبت نہیں رکھتا؟ ‘‘ وہ خاموش رہے۔ میں نے پھر پوچھا۔ وہ پھر خاموش رہے، تیسری مرتبہ جب میں نے قسم دے کر یہی سوال کیا تو انہوں نے بس اتنا کہا کہ ’’اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے ‘‘۔ اس پر میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور میں دیوار سے اتر آیا۔ انہی دنوں ایک دفعہ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شام کے نَبطیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہِ غَسّان کا خط حریر میں لپٹا ہوا مجھے دیا۔ میں نے کھول کر پڑھا تو اس میں لکھا تھا کہ ’’ہم نے سنا ہے تمہارے صاحب نے تم پر ستم توڑ رکھا ہے، تم کوئی ذلیل آدمی نہیں ہو، نہ اس لائق ہو کہ تمہیں ضائع کیا جائے، ہمارے پس آ جاؤ، ہم تمہاری قدر کریں گے ‘‘۔ میں نے کہا یہ ایک اور بلا نازل ہوئی، اور اسی وقت اس خط کو چولھے میں جھونک دیا۔

چالیس دن اس حالت پر گزر چکے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا آدمی حکم لے کر آیا کہ اپنی بیوی سے بھی علیٰحدہ ہو جاؤ۔ میں نے پوچھا کیا طلاق دے دوں؟ جواب ملا نہیں، بس الگ رہو۔ چنانچہ میں نے اپنی بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے چلی جاؤ اور انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔

پچاسویں دن صبح کی نماز کے بعد میں اپنے مکان کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنی جان سے بیزار ہو رہا تھا کہ یکایک کسی شخص نے پکار کر کہا ’’مبارک ہو کعب بن مالک!‘‘ میں یہ سنتے ہی سجدے میں گر گیا اور میں نے جان لیا کہ میری معافی کا حکم ہو گیا ہے۔ پھر تو فوج در فوج لوگ بھاگے چلے آرہے تھے اور ہر ایک دوسرے سے پہلے پہنچ کر مجھ کر مبارک باد دے رہا تھا کہ تیری توبہ قبول ہو گئی۔ میں اٹھا اور سیدھا مسجد نبوی کی طرف چلا۔ دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا ہے۔ میں نے سلام کیا تو فرمایا ’’تجھے مبارک ہو، یہ دن تیری زندگی میں سب سے بہتر ہے ‘‘ میں نے پوچھا یہ معافی حضور کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے ؟ فرمایا خدا کی طرف سے، اور یہ آیات سنائیں۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں صدقہ کر دوں۔ فرمایا ’’کچھ رہنے دو کہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے ‘‘۔ میں نے اس ارشاد کے مطابق اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیا، باقی سب صدقہ کر دیا۔ پھر میں نے خدا سے عہد کیا کہ جس راست گفتاری کے صلے میں اللہ نے مجھے معافی دی ہے اس پر تمام عمر قائم رہوں گا، چنانچہ آج تک میں نے کوئی بات جان بوجھ کر خلافِ واقعہ نہیں کہی اور خدا سے امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی مجھے اس سے بچائے گا‘‘۔

یہ قصہ اپنے اندر بہت سے سبق رکھتا ہے جو ہر مومن کے دل نشین ہونے چاہییں:

سب سے پہلی بات تو اس سے یہ معلوم ہوئی کہ کفر و اسلام کی کشمکش کا معاملہ کس قدر اہم اور کتنا نازک ہے کہ اس کشمکش میں کفر کا ساتھ دینا تو درکنار، جو شخص اسلام کا ساتھ دینے میں، بدنیتی سے بھی نہیں نیک نیتی سے، تمام عمر بھی نہیں کسی ایک موقع ہی پر، کوتاہی برت جاتا ہے اس کی بھی زندگی بھر کی عبادت گزاریاں اور دینداریاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں، حتیٰ کہ ایسے عالی قدر لوگ بھی گرفت سے نہیں بچتے جو بدر و احد اور احزاب و حنین کے سخت معرکوں میں جانبازی کے جو ہر دکھا چکے تھے اور جن کا اخلاص و ایمان ذرہ برابر بھی مشتبہ نہ تھا۔

دوسری بات، جو اس سے کچھ کم اہم نہیں یہ ہے کہ ادائے فرض میں تساہُل کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ بسا اوقات محض تساہُل ہی تساہل میں آدمی کسی ایسے قصور کا مرتکب ہو جاتا ہے جس کا شمار بڑے گناہوں میں ہوتا ہے، اور اس وقت یہ بات اسے پکڑ سے نہیں بچا سکتی کہ اس نے اس قصور کا ارتکاب بدنیتی سے نہیں کیا تھا۔

پھر یہ قصہ اُس معاشرے کی رُوح کو بڑی خوبی کے ساتھ ہمارے سامنے بے نقاب کرتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں بنا تھا۔ ایک طرف منافقین ہیں جن کی غداریاں سب پر آشکار ہیں مگر، مگر ان کے ظاہری عذر سُن لیے جاتے ہیں اور درگزر کیا جاتا ہے، کیونکہ ان سے خلوص کی امید ہی کب تھی کہ اب اس کے عدم کی شکایت کی جاتی۔ دوسری طرح ایک آزمودہ کار مومن ہے جس کی جاں نثاری پر شبہہ تک کی گنجائش نہیں اور وہ جھوٹی باتیں بھی نہیں بناتا، صاف صاف قصور کا اعتراف کر لیتا ہے مگر اس پر غضب کی بارش بر سا دی جاتی ہے، نہ اس پر کہ اس کے مومن ہونے میں کوئی شبہ ہو گیا ہے، بلکہ اس بنا پر مومن ہو کر اس نے وہ کام کیوں کیا جو منافقوں کے کرنے کا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ زمین کے نمک تو تم ہو، تم سے بھی اگر نمکینی حاصل نہ ہوئی تو پھر اور نمک کہاں سے آئے گا۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس سارے قضیہ میں لیڈر جس شان سے سزا دیتا ہے اور پیرو جس شان سے اس سزا کو بھگتّا ہے، اور پوری جماعت جس شان سے اس سزا کو نافذ کرتی ہے، اس کا ہر پہلو بے نظیر ہے اور یہ فیصلہ کر نا مشکل ہو جاتا ہے کہ کس کی زیادہ تعریف کی جائے۔ لیڈر نہایت سخت سزا دے رہا ہے مگر غصے اور نفرت کے ساتھ نہیں، گہری محبت کے ساتھ دے رہا ہے۔ باپ کی طرح شعلہ بار نگاہوں کا ایک گوشہ ہر وقت یہ خبر دیے جاتا ہے کہ تجھ سے دشمنی نہیں ہے بلکہ تیرے قصور پر تیری ہی خاطر دل دکھا ہے۔ تُو درست ہو جائے تو یہ سینہ تجھے چمٹا لینے کے لیے بے چین ہے۔ پیرو سزا کی سختی پر تڑپ رہا ہے مگر صرف یہی نہیں کہ اس کا قدم جادۂ اطاعت سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں ڈگمگاتا، اور صرف یہی نہیں کہ اس پر غرور نفس اور حمیت جاہلیہ کا کوئی دورہ نہیں پڑتا اور علانیہ استکبار پر اتر آنا تو درکنار وہ دل میں اپنے محبوب لیڈر کے خلاف کوئی شکایت تک نہیں آنے دیتا۔ بلکہ اس کے برعکس وہ لیڈر کی محبت میں اور زیادہ سرشار ہو گیا ہے۔ سزا کے ان پورے پچاس دنوں میں اس کی نظریں سب سے زیادہ بے تابی کے ساتھ جس چیز کی تلاش میں رہیں وہ یہ تھی کہ سردار کی آنکھوں میں وہ گوشۂ التفات اس کے لیے باقی ہے یا نہیں جو اس کی امیدوں کا آخری سہارا ہے۔ گویا وہ ایک قحط زدہ کسان تھا جس کا سارا سرمایۂ امید بس ایک ذرا سا لکّۂ ابر تھا جو آسمان کے کنارے پر نظر آتا تھا۔ پھر جماعت کو دیکھیے تو اس کے ڈسپلن اور اس کی صالح اخلاقی اسپرٹ پر انسان عَش عَش کر جاتا ہے۔ ڈسپلن کا یہ حال کہ اُدھر لیڈر کی زبان سے بائیکاٹ کا حکم نِکلا اِدھر پوری جماعت نے مجرم سے نگاہیں پھیر لیں۔ جلوت تو درکنار خلوت تک میں کوئی قریب سے قریب رشتہ دار اور کوئی گہرے سے گہرا دوست بھی اسے بات نہیں کرتا۔ بیوی تک اس سے الگ ہو جاتی ہے۔ خدا کا واسطہ دے دے کر پوچھتا ہے کہ میرے خلوص میں تو تم کو شبہ نہیں ہے، مگر وہ لوگ بھی جو مدت العمر سے اس کو مخلص جانتے تھے، صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم سے نہیں، خدا اور اس کے رسول سے اپنے خلوص کی سند حاصل کرو۔ دوسری طرف اخلاقی اسپرٹ اتنی بلند اور پاکیزہ کہ ایک شخص کی چڑھی ہوئی کمان اترتے ہی مردار خوروں کا کوئی گروہ اس کا گوشت نوچنے اور اسے پھاڑ کھانے کے لیے نہیں لپکتا، بلکہ اس پورے زمانۂ عتاب میں جماعت کا ایک ایک فرد اپنے اس معتوب بھائی کی مصیبت پر رنجیدہ اور اس کو پھر سے اٹھا کر گلے لگا لینے کے لیے بے تاب رہتا ہے اور معافی کا اعلان ہوتے ہی لوگ دوڑ پڑتے ہیں کہ جلدی سے جلدی پہنچ کر اس سے ملیں اور اسے خوشخبری پہنچائیں۔ یہ نمونہ ہے اُس صالح جماعت کا جسے قرآن دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس پس منظر میں جب ہم آیت زیرِ بحث کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان صاحبوں کو اللہ کے دربار سے جو معافی ملی ہے اور اس معافی کے اندازِ بیان میں جو رحمت و شفقت ٹپکی پڑ رہی ہے اس کی وجہ ان کا وہ اخلاص ہے جس کا ثبوت انہوں نے پچاس دن کی سخت سزا کے دوران میں دیا تھا۔ اگر قصور کر کے وہ اکڑتے اور اپنے لیڈر کی ناراضی کو جواب غصے اور عناد سے دیتے اور سزا ملنے پر اُس طرح بپھرتے جس طرح کسی خود پرست انسان کا غرور نفس زخم کھا کر بپھر ا کرتا ہے، اور مقاطعہ کے دوران میں ان کا طرزِ عمل یہ ہوتا کہ ہمیں جماعت سے کٹ جانا گوارا ہے مگر اپنی خودی کے بُت پر چوٹ کھانا گوارا نہیں ہے، اور اگر یہ سزا کا پورا زمانہ وہ اس دوڑ دھوپ میں گزارتے کہ جماعت کے اندر بددلی پھیلائیں اور بد دل لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ساتھ ملائیں تاکہ ایک جتھا تیار ہو، تو معافی کیسی، انہیں تو بالیقین جماعت سے کاٹ پھینکا جاتا اور اس سزا کے بعد ان کی اپنی منہ مانگی سزا ان کو یہ دی جاتی کہ جاؤ اب اپنی خودی کے بُت ہی کو پوجتے رہو، اعلاء کلمۃ الحق کی جدوجہد میں حصہ لینے کی سعادت اب تمہارے نصیب میں کبھی نہ آئے گی۔ لیکن ان تینوں صاحبوں نے اس کڑی آزمائش کے موقع پر یہ راستہ اختیار نہیں کیا، اگرچہ یہ بھی ان کے لیے کھلا ہوا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے وہ روش اختیار کی جو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں۔ اس روش کو اختیار کر کے انہوں نے ثابت کر دیا کہ خدا پرستی نے ان کے سینے میں کوئی بت باقی نہیں چھوڑا ہے جسے وہ پوجیں، اور اپنی پوری شخصیت کو انہوں نے راہِ خدا کی جدوجہد میں جھونک دیا ہے اور وہ اپنی واپسی کی کشتیاں اس طرح جلا کر اسلامی جماعت میں آئے ہیں کہ اب یہاں سے پلٹ کر کہیں اور نہیں جا سکتے۔ یہاں کی ٹھوکریں کھائیں گے مگر یہیں مریں گے اور کھپیں گے۔ کسی دوسری جگہ بڑی سے بڑی عزّت بھی ملتی ہو تو یہاں کی ذلت چھوڑ کر اسے لینے نہ جائیں گے۔ اس کے بعد اگر انہیں اٹھا کر سینے سے لگا نہ لیا جاتا تو اور کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا ذکر ایسے شفقت بھرے الفاظ میں فرماتا ہے کہ ’’ہم ان کی طرف پلٹے تاکہ وہ ہماری طرف پلٹ آئیں‘‘۔ ان چند لفظوں میں اِس حالت کی تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ آقا نے پہلے تو ان بندوں سے نظر پھیر لی تھی، مگر جب وہ بھاگے نہیں بلکہ دل شکستہ ہو کر اسی کے در پر بیٹھ گئے تو ان کی شان وفاداری دیکھ کر آقا سے خود نہ رہا گیا۔ جوش محبت سے بے قرار ہو کر وہ آپ نکل آیا تاکہ انہیں دروازے سے اٹھا لائے۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔مدینے کے باشندوں اور گرد و نواح کے بدویوں کو یہ ہر گز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسُول ؐ کو چھوڑ کو گھر بیٹھے رہتے اور اس کلی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے۔ اس لیے کہ ایسا کبھی نہ ہو گا کہ اللہ کی راہ میں بھوک پیاس اور جسمانی مشقت کی کوئی تکلیف وہ جھیلیں، اور منکرینِ حق کو جو راہ ناگوار ہے پر کوئی قدم وہ اُٹھائیں، اور کسی دُشمن سے (عداوتِ حق کا) کوئی انتقام وہ لیں اور اس کے بدلے ان کے حق میں ایک عملِ صالح نہ لکھا جائے۔ یقیناً اللہ کے ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کبھی نہ ہو گا کہ (راہِ خدا میں) تھوڑا یا بہت کوئی خرچ وہ اُٹھائیں اور ( سعیِ جہاد میں) کوئی وادی وہ پار کریں اور ان کے حق میں اسے لکھ نہ لیا جائے تا کہ اللہ ان کے اس اچھے کارنامے کا صلہ انہیں عطا کرے۔ اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہلِ ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبر دار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے ۱۲۰۔ ؏ ١۵

 

۱۲۰-اس آیت کا منشا سمجھنے کے لیے اِسی سورۃ کی آیت ۹۷ پیش نظر رکھنی چاہیے جس میں فرمایا گیا کہ:

 ’’بدوی عرب کفر و نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور ان کے معاملہ میں اس امر کے امکانات زیادہ ہیں کہ اُس دین کی حدود سے ناواقف رہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے ‘‘۔

وہاں صرف اتنی بات بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا کہ دار الاسلام کی دیہاتی آبادی کا بیشتر حصہ مرض نفاق میں اس وجہ سے مبتلا ہے کہ یہ سارے کے سارے لوگ جہالت میں پڑے ہوئے ہیں، علم کے مرکز سے وابستہ نہ ہونے اور اہلِ علم کی صحبت میسر نہ آنے کی وجہ سے اللہ کے دین کی حدود ان کو معلوم نہیں ہیں۔ اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ دیہاتی آبادیوں کو اس حالت میں پڑا نہ رہنے دیا جائے بلکہ ان کی جہالت کو دور کرنے اور ان کے اندر شعور اسلامی پیدا کرنے کا اب باقاعدہ انتظام ہونا چاہیے۔ اس غرض کے لیے یہ کچھ ضروری نہیں کہ تمام دیہاتی عرب اپنے اپنے گھروں سے نکل نکل کر مدینے آ جائیں اور یہاں علم حاصل کریں۔ اس کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ہر دیہاتی علاقے اور ہر بستی اور قبیلے سے چند آدمی نکل کر علم کے مرکزوں، مثلاً مدینے اور مکے اور ایسے ہی دوسرے مقامات میں آئیں اور یہاں دین کی سمجھ پیدا کریں، پھر اپنی اپنی بستیوں میں واپس جائیں اور عامۃ الناس کے اندر بیداری پھیلانے کی کوشش کریں۔

یہ ایک نہایت اہم ہدایت تھی جو تحریک اسلامی کو مستحکم کرنے کے لیے ٹھیک موقع پر دی گئی۔ ابتدا میں جبکہ اسلام عرب میں بالکل نیا نیا تھا اور انتہائی شدید مخالفت کے ماحول میں آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا، اس ہدایت کی کوئی ضرورت نہ تھی، کیونکہ اس وقت تو اسلام قبول کرتا ہی وہ شخص تھا جو پوری طرح اسے سمجھ لیتا تھا اور ہر پہلو سے اس کو جانچ پرکھ کر مطمئن ہو جاتا تھا۔ مگر جب یہ تحریک کامیابی کے مرحلوں میں داخل ہوئی اور زمین میں اس کا اقتدار قائم ہو گیا تو آبادیوں کی آبادیاں فوج در فوج اس میں شامل ہونے لگیں جن کے اندر کم لوگ ایسے تھے جو اسلام کو اس کے تمام مقتضیات کے ساتھ سمجھ بوجھ کر اس پر ایمان لاتے تھے، ورنہ بیشتر لوگ محض وقت کے سیلاب میں غیر شعوری طور پر بہے چلے آرہے تھے۔ نو مسلم آبادی کا یہ تیز رفتار پھیلاؤ بظاہر تو اسلام کے لیے سبب قوت تھا، کیونکہ پیروان اسلام کی تعداد بڑھ رہی تھی، لیکن فی الحقیقت اسلامی نظام کے لیے ایسی آبادی کسی کام کی نہ تھی بلکہ اُلٹی نقصان دہ تھی جو شعور اسلامی سے خالی ہو اور اس نظام کے اخلاقی مطالبات پورے کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ چنانچہ یہ نقصان غزوۂ تبوک کی تیاری کے موقع پر کھل کر سامنے آگیا تھا۔ اس لیے عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی کہ تحریک اسلامی کی توسیع جس رفتار کے ساتھ ہو رہی ہے اسی کی مطابق اس کے استحکام کی تدبیر بھی ہونی چاہیے، اور وہ یہ ہے کہ ہر حصۂ آبادی میں سے چند لوگوں کو لے کر تعلیم و تربیت دی جائے، پھر وہ اپنے اپنے علاقوں میں واپس جا کر عوام کی تعلیم و تربیت کا فرض انجام دیں یہاں تک کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں اسلام کا شعور اور حدود اللہ کا علم پھیل جائے۔

یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ تعلیم عمومی کے جس انتظام کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے اس کا اصل مقصد عامۃ الناس کو محض خواندہ بنانا اور ان میں کتاب خوانی کی نوعیت کا علم پھیلانا نہ تھا بلکہ واضح طور پر اس کا مقصدِ حقیقی یہ متعین کیا گیا تھا کہ لوگوں میں دین کی سمجھ پیدا ہو اور ان کو اس حد تک ہوشیار و خبردار کر دیا جائے کہ وہ غیر مسلمانہ رویۂ زندگی سے بچنے لگیں۔ یہ مسلمانوں کی تعلیم کا وہ مقصد ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود مقرر فرما دیا ہے اور ہر تعلیمی نظام کو اسی لحاظ سے جانچا جائے گا کہ وہ اس مقصد کو کہاں تک پورا کرتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام لوگوں میں نوشت و خواند اور کتاب خوانی اور دنیوی علوم کی واقفیت پھیلانا نہیں چاہتا۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام لوگوں میں ایسی تعلیم پھیلانا چاہتا ہے جو اوپر کے خط کشیدہ مقصد تک پہنچاتی ہو۔ ورنہ ایک ایک شخص اگر اپنے وقت کا آئن شتائن اور فرائڈ ہو جائے لیکن دین کے فہم سے عاری اور غیر مسلمانہ رویّۂ زندگی میں بھٹکا ہوا ہو تو اسلام ایسی تعلیم پر لعنت بھیجتا ہے۔

اس آیت میں لفظ لِیَتَفَقَّھُؤا فِی الدِّیْنِ جو استعمال ہوا ہے اس سے بعد کے لوگوں میں ایک عجیب غلط فہمی پیدا ہو گئی جس کے زہریلے اثرات ایک مدّت تک مسلمانوں کی مذہبی تعلیم بلکہ ان کی مذہبی زندگی پر بھی بُری طرح چھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو تَفَقُّہُ فِی الدِّیْنِ کو تعلیم کا مقصود بتایا تھا جس کے معنی ہیں دین کو سمجھنا، اس کے نظام میں بصیرت حاصل کرنا، اس کے مزاج اور اس کی رُوح سے آشنا ہونا، اور اس قابل ہو جانا کہ فکر و عمل کے ہر گوشے اور زندگی کے ہر شعبے میں انسان یہ جان سکے کہ کونسا طریقِ فکر اور کونسا طرزِ عمل روح دین کے مطابق ہے۔ لیکن آگے چل کر جو قانونی علم اصطلاحًا فقہ کے نام سے موسوم ہوا اور جو رفتہ رفتہ اسلامی زندگی کی محض صورت (بمقابلہ ٔ روح) کا تفصیلی علم بن کر رہ گیا، لوگوں نے اشتراکِ لفظی کی بنا پر سمجھ لیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جس کا حاصل کرنا حکم الٰہی کے مطابق تعلیم کا منتہائے مقصود ہے۔ حالانکہ وہ کُل مقصود نہیں بلکہ محض ایک جزوِ  مقصود تھا۔ اس عظیم الشان غلط فہمی سے جو نقصانات دین اور پیروانِ  دین کو پہنچے ان کا جائزہ لینے کے لیے تو ایک کتاب کی وسعت درکار ہے۔ مگر یہاں ہم اس پر متنبہ کرنے کے لیے مختصراً اِتنا اشارہ کیے دیتے ہیں کہ مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کو جس چیز نے روح دین سے خالی کر کے محض جسم دین اور شکل دین کی تشریح پر مرتکز کر دیا، اور بالآخر جس چیز کی بدولت مسلمانوں کی زندگی میں ایک نِری بے جان ظاہر داری، دین داری کی آخری منزل بن کر رہ گئی، وہ بڑی حد تک یہی غلط فہمی ہے۔

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو اُن منکرینِ حق سے جو تم سے قریب ہیں۔۱۲۱ اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں،۱۲۲ اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ ۱۲۳ جب کوئی نئی سُورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پوچھتے ہیں کہ ’’ کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا ؟‘‘ (اس کا جواب یہ ہے کہ ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سُورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں،البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا تھا اُن کی سابق نجاست پر (ہر نئی سُورت نے ) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا ۱۲۴ ہے اور وہ مرتے دم تک کُفر ہی میں مُبتلا رہے۔ کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟۱۲۵ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں۔جب کوئی سُورت نازل ہوتی ہے تو یہ لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں کہ کہیں کوئی تم کو دیکھ تو نہیں رہا ہے، پھر چُپکے سے نکل بھاگتے ہیں۔۱۲۶ اللہ نے ان کے دل پھیر دیے ہیں کیونکہ یہ ناسمجھ لوگ ہیں۔۱۲۷دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسُول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔۔۔۔اب اگر یہ لوگ تم سے منہ پھیرتے ہیں تو اے نبی ؐ، ان سے کہہ دو کہ ’’ میرے لیے اللہ بس کرتا ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہ مالک ہے عرشِ عظیم کا۔‘‘ ؏ ١٦
 

۱۲۱-آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دار الاسلام کے جس حصّے سے دشمنانِ اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اُس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اُسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن اگر آگے کے سلسلۂ کلام کے ساتھ ملا کر اِس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ ٔ تقریر کا آغاز ہوا تھا، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کریں اور اِن منافقوں کے معاملہ میں اُن نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو اُن کے اور اِن کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف ’’جہاد ‘‘ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ’’قتال‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں ’’کفار‘‘ اور ’’منافق‘‘ دو الگ لفظ بولے گئے تھے، یہاں ایک ہی لفظ ’’ کفار‘‘ پر اکتفا کیا گیا ہے، تاکہ اِن لوگوں کا انکارِ حق، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھُپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے۔

۱۲۲-یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہو جانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے۔ یہی بات رکوع ۱۰ کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ۔

۱۲۳-اس تنبیہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ان منکرینِ  حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقویٰ کے خلاف ہو گی، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہر حال تمہاری ہر کاروائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے۔

۱۲۴-ایمان اور کفر اور نفاق میں کمی بیشی کا کیا مفہوم ہے، اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ انفال، حاشیہ نمبر ۲۔

۱۲۵-یعنی کوئی سال ایسا نہیں گزر رہا ہے جبکہ ایک دو مرتبہ ایسے حالات نہ پیش آ جاتے ہوں جن میں ان کا دعوائے ایمان آزمائش کی کسوٹی پر کسا نہ جاتا ہو اور اس کی کھوٹ کا راز فاش نہ ہو جاتا ہو۔ کبھی قرآن میں کوئی ایسا حکم آ جاتا ہے جس سے ان کی خواہشات نفس پر کوئی نئی پابندی عائد ہو جاتی ہے، کبھی دین کا کوئی ایسا مطالبہ سامنے آ جاتا ہے جس سے ان کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے، کبھی کوئی اندرونی قضیہ ایسا رونما ہو جاتا ہے جس میں یہ امتحان مضمر ہوتا ہے کہ ان کو اپنے دنیوی تعلقات اور اپنے شخصی و خاندانی اور قبائلی دلچسپیوں کی بہ نسبت خدا اور اس کا رسول اور اس کا دین کس قدر عزیز ہے، کبھی کوئی جنگ ایسی پیش آ جاتی ہے جس میں یہ آزمائش ہوتی ہے کہ یہ جس دین پر ایمان لانے کا دعویٰ کر رہے ہیں ان کی خاطر جان، مال، وقت اور محنت کا کتنا ایثار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر صرف یہی نہیں کہ منافقت کی وہ گندگی جو ان کے جھوٹے اقرار کے نیچے چھپی ہوئی ہے کھل کر منظر عام پر آ جاتی ہے بلکہ ہر مرتبہ جب یہ ایمان کے تقاضوں سے منہ موڑ کر بھاگتے ہیں تو ان کے اندر کی گندگی پہلے سے کچھ زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

۱۲۶-قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم مسلمانوں کے اجتماع کا اعلان کراتے اور پھر مجمع عام میں اس سورہ کو خطبے کے طور پر سناتے تھے۔ اس محفل میں اہلِ ایمان کا حال تو یہ ہوتا تھا کہ ہمہ تن گوش ہو کر اس خطبے کو سنتے اور اس میں مستغرق ہو جاتے تھے، لیکن منافقین کا رنگ ڈھنگ کچھ اور تھا۔ وہ آ تو اس لیے جاتے تھے کہ حاضری کا حکم تھا اور اجتماع میں شریک نہ ہونے کے معنی اپنی منافقت کا راز خود فاش کر دینے کے تھے۔ مگر اس خطبے سے ان کو کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔ نہایت بددلی کے ساتھ اُکتائے ہوئے بیٹھے رہتے تھے اور اپنے آپ کو حاضرین میں شمار کرا لینے کے بعد انہیں بس یہ فکر لگی رہتی تھی کہ کسی طرح جلدی سے جدلی یہاں سے بھاگ نکلیں۔ ان کی اسی حالت کی تصویر یہاں کھینچی گئی ہے۔

۱۲۷-یعنی یہ بے وقوف خود اپنے مفاد کو نہیں سمجھتے۔ اپنی فلاح سے غافل اور اپنی بہتری سے بے فکر ہیں۔ ان کو احساس نہیں ہے کہ کتنی بڑی نعمت ہے جواس قرآن اور اس پیغمبر کے ذریعے سے ان کو دی جا رہی ہے۔ اپنی چھوٹی سی دنیا اور اس کی نہایت گھٹیا قسم کی دلچسپیوں میں یہ کنویں کے مینڈک ایسے غرق ہیں کہ اُس عظیم الشان علم اور اس زبردست رہنمائی کی قدرو قیمت ان کی سمجھ میں نہیں آتی جس کی بدولت یہ ریگستان عرب کے اس تنگ و تاریک گوشے سے اٹھ کر تمام عالم انسانی کے امام و پیشوا بن سکتے ہیں اور اس فانی دنیا ہی میں نہیں بلکہ بعد کی لازوال ابدی زندگی میں بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سرفراز ہو سکتے ہیں۔ اس نادانی و حماقت کا فطری نتیجہ یہ ہے کہ اللہ نے انہیں استفادہ کی توفیق سے محروم کر دیا ہے۔ جب فلاح و کامرانی اور قوت و عظمت کا یہ خزانہ مفت لٹ رہا ہوتا ہے اور خوش نصیب لوگ اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہوتے ہیں اس وقت ان بدنصیبوں کے دل کسی اور طرف متوجہ ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی کہ کس دولت سے محروم رہ گئے۔