اس کا مضمون اور اندازِ بیان مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی سورتوں کا سا ہے، مگر ایک اشارہ اس میں ایسا موجود ہے جو پتہ دیتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ وہ تھا جب کفارِ مکّہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دشمنی پر تُل گئے تھے اور آپ ؐ کے خلاف ہر ظلم و زیادتی کو انہوں نے اپنے لیے حلال کر لیا تھا۔
اِس سورے میں ایک بہت بڑے مضمون کو چند مختصر جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے اور یہ قرآن کا کمالِ ایجاز ہے کہ ایک پورا نظریۂ حیات ، جسے مشکل سے ایک ضخیم کتاب میں بیان کیا جا سکتا تھا، اِس چھوٹی سی سورۃ کے چھوٹے چھوٹے فقروں میں نہایت مؤثر طریقہ سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کا موضوع دنیا میں انسان کی، اور انسان کے لیے دنیا کی صحیح حیثیت سمجھانا اور یہ بتانا ہے کہ خدا نے انسان کے لیے سعادت اور شقاوت کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں، اُن کو دیکھنے اور اُن پر چلنے کے وسائل بھی اُسے فراہم کر دیے ہیں ، اور اب یہ انسان کی اپنی کوشش اور محنت پر موقوف ہے کہ وہ سعادت کی راہ چل کر اچھے انجام کو پہنچتا ہے یا شقاوت کی راہ اختیار کر کے بُرے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔
سب سے پہلے شہر مکّہ اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر گزرنے والے مصائب اور پوری اولادِ آدم ؑ کی حالت کو اِس حقیقت پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے آرام گاہ نہیں ہے جس میں وہ مزے اڑانے کے لیے پیدا کیا گیا ہو، بلکہ یہاں اس کی پیدائش ہی مشقت کی حالت میں ہوئی ہے۔ اِس مضمون کو اگر سورۂ نجم کی آیت ۳۹ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعیٰ کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اِس کارگاہ دنیا میں انسان کے مستقبل کا انحصار اس کی سعی و کوشش اور محنت و مشقت پر ہے۔
اِس کے بعد انسان کی وہ غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ یہاں بس وہی وہ ہے اور اوپر کوئی بالاتر طاقت نہیں ہے جو اُس کے کام کی نگرانی کرنے والی اور اُس پر مواخذہ کرنے والی ہو۔
پھر انسان کے بہت جاہلانہ اخلاقی تصورات میں سے ایک چیز کو بطور مثال لے کر بتایا گیا ہے کہ دنیا میں اُس نے بڑائی اور فضیلت کے کیسے غلط معیار تجویز کر رکھے ہیں۔ جو شخص اپنی کبریائی کی نمائش کے لیے ڈھیروں مال لٹاتا ہے وہ خود بھی اپنی اِن شاہ خرچیوں پر فخر کرتا ہے اور لوگ بھی اسے خوب داد دیتے ہیں، حالانکہ جو ہستی اُس کے کام کی نگرانی کر رہی ہے وہ یہ دیکھتی ہے کہ اُس نے یہ مال کن طریقوں سے حاصل کیا اور کن راستوں میں کس نیت اور کن اغراض کے لیے خرچ کیا۔
اِس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو علم کے ذرائع اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے کر اُس کے سامنے بھلائی اور بُرائی کے دونوں راستے کھول کر رکھ دیے ہیں۔ ایک راستہ وہ ہے جو اخلاق کی پستیوں کی طرف جاتا ہے اور اُس پر جانے کے لیے کوئی تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی بلکہ نفس کو خوب لذّت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا راستہ اخلاق کی بلندیوں کی طرف جاتا ہے جو ایک دشوار گزار گھاٹی کی طرح ہے کہ اُس پر چلنے کے لیے آدمی کو اپنے نفس پر جبر کرنا پڑتا ہے۔ یہ انسان کی کمزوری ہے کہ وہ اِس گھاٹی پر چڑھنے کے بہ نسبت کھَڈ میں لُڑھکنے کو ترجیح دیتا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ گھاٹی کیا ہے جس سے گزر کر آدمی بلندیوں کی طرف جا سکتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریا اور فخر اور نمائش کے خرچ چھوڑ کر آدمی اپنا مال یتیموں اور مسکینوں کی مدد پر خرچ کرے، اللہ اور اس کے دین پر ایمان لائے، اور ایمان لانے والوں کے گروہ میں شامل ہو کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں حصہ لے جو صبر کے ساتھ حق پرستی کے تقاضوں کو پورا کرنے والا اور خلق پر رحم کھانے والا ہو۔ اِس راستے پر چلنے والوں کا انجام یہ ہے کہ آدمی اللہ کی رحمتوں کا مستحق ہو، اور اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار کرنے والوں کا انجام دوزخ کی آگ ہے جس سے نکلنے کے سارے دروازے بند ہیں۔
1: اِس سے پہلے ہم سورۂ قیامہ حاشیہ نمبر ۱ میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز ’’نہیں ‘‘ سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے کی بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا، تو اُس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ کفّارِ مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرزِ زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ، اور جب وقت آئے تو مر جاؤ۔ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خواہ مخواہ ہمارے اِس طرزِ زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اِس پر کبھی ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔
2: یعنی شہرِ مکّہ کی۔ اس مقام پر یہ بات کھولنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اِس شہر کی قسم کیوں کھائی جا رہی ہے۔ اہلِ مکّہ اپنے شہر کا پَس منظر خود جانتے تھے کہ کس طرح ایک بے آب و گیاہ وادی میں سُنسان پہاڑوں کے درمیان حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی ایک بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو یہاں لا کر بے سہار ا چھوڑ ا، کس طرح یہاں ایک گھر بنا کر ایسی حالت میں حج کی منادی کی جب کہ دور دور تک کوئی اُس منادی کا سننے والا نہ تھا، اور پھر کس طرح یہ شہر آخر کار تمام عرب کا مرکز بنا اور ایسا حرم قرار پایا کہ صدہا برس تک عرب کی سرزمینِ بے آئین میں اِس کے سوا امن کا کوئی مقام نہ تھا۔
3: اصل میں الفاظ ہیں اَنْتَ حِلٌّمبھِٰذَ ا الْبَلَدِ۔ اِس کے تین معنی مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اِس شہر میں مقیم ہیں اور آپ کے مقیم ہونے سے اِس کی عظمت میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ شہر حرم ہے مگر ایک وقت آئے گا جب کچھ دیر کے لیے یہاں جنگ کرنا اور دشمنانِ دین کو قتل کرنا آپ کے لیے حلال ہو جائے گا۔ تیسرے یہ کہ اِس شہر میں جنگل کے جانوروں تک کو مارنا اور درختوں تک کو کاٹنا اہلِ عرب کے نزدیک حرام ہے اور ہر ایک کو یہاں امن میسّر ہے، لیکن حال یہ ہو گیا ہے کہ اے نبی ؐ، تمہیں یہاں کوئی امن نصیب نہیں ، تمہیں ستانا اور تمہارے قتل کی تدبیریں کرنا حلال کر لیا گیا ہے۔ اگرچہ الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے، لیکن جب ہم آگے کے مضمون پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلے دو معنی اُس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے اور تیسرا مفہوم ہی اُس سے میل کھاتا ہے۔
4: چونکہ مُطقاً باپ اور اُس سے پیدا ہونے والی اولاد کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور آگے انسان کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے باپ سے مراد آدم علیہ السلام ہی ہو سکتے ہیں، اور ان سے پیدا ہونے والی اولاد سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو دنیا میں پائے گئے ہیں، اب پائے جاتے ہیں اور آئندہ پائے جائیں گے۔
5: یہ ہے وہ بات جس پر قسمیں کھائی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔ انسان کے مشقت میں پیدا کیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اِس دنیا میں مزے کرنے اور چین کی بنسری بجانے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اُس کے لیے یہ دنیا محنت اور مشقت اور سختیاں جھیلنے کی جگہ ہے اور کوئی انسان بھی اِس حالت سے گزرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ شہر مکّہ گواہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنی جان کھپائی تھی تب یہ بسا اور عرب کا مرکز بنا۔ اِس شہر مکّہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حالت گواہ ہے کہ وہ ایک مقصد کے لیے طرح طرح کی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں، حتیٰ کہ یہاں جنگل کے جانوروں کے لیے امان ہے مگر اُن کے لیے نہیں ہے۔ اور ہر انسان کی زندگی ماں کے پیٹ میں نطفہ قرار پانے سے لے کر موت کے آخری سانس تک اِس بات کی گواہ ہے کہ اُس کو قدم قدم پر تکلیف، مشقّت، محنت، خطرات اور شدائد کے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کو تم بڑی سے بڑی قابلِ رشک حالت میں دیکھتے ہو وہ بھی جب ماں کے پیٹ میں تھا تو ہر وقت اس خطرے میں مبتلا تھا کہ اندر ہی مر جائے یا اُس کا اسقاط ہو جائے۔ زچگی کے وقت اُس کی موت اور زندگی کے درمیان بال بھر سے زیادہ فاصلہ نہ تھا۔ پیدا ہوا تو اِتنا بے بس تھا کہ کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہ ہوتا تو پڑے پڑے ہی سِسک سِسک کر مر جاتا۔ چلنے کے قابل ہوا تو قدم قدم پر گِرا پڑتا تھا۔ بچپن سے جوانی اور بڑھاپے تک ایسے ایسے جسمانی تغیُّرات سے اس کو گزرنا پڑا کہ کوئی تغیُّر بھی اگر غلط سمت میں ہو جاتا تو اس کی جان کے لالے پڑ جاتے۔ وہ اگر بادشاہ یا ڈکٹیٹر بھی ہے تو کسی وقت اِس اندیشے سے اُس کو چین نصیب نہیں ہے کہ کہیں اس کے خلاف کوئی سازش نہ ہو جائے۔ وہ اگر فاتح عالم بھی ہے تو کسی وقت اِس خطرے سے امن میں نہیں ہے کہ اس کے اپنے سپہ سالاروں میں سے کوئی بغاوت نہ کر بیٹھے۔ وہ اگر اپنے وقت کا قارون بھی ہے تو اس فکر میں ہر وقت غلطاں و پیچاں ہے کہ اپنی دولت کیسے بڑھائے اور کس طرح اس کی حفاظت کرے۔ غرض کوئی شخص بھی بے غَل و غَش چَین کی نعمت سے بہرہ مند نہیں ہے، کیونکہ انسان پیدا ہی مشقّت میں کیا گیا ہے۔
6: یعنی کیا یہ انسان جو اِن حالات میں گھرا ہوا ہے، اِس غَرّے میں مبتلا ہے کہ وہ دنیا میں جو کچھ چاہے کرے، کوئی بالاتر اقتدار اُس کو پکڑنے اور اس کا سر نیچے کر دینے والا نہیں ہے ؟ حالانکہ آخرت سے پہلے خود اِس دنیا میں بھی ہر آن وہ دیکھ رہا ہے کہ اُس کی تقدیر پر کسی اور کی فرمانروائی قائم ہے جس کے فیصلوں کے آگے اس کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ زلزلے کا ایک جھٹکا، ہوا کا ایک طوفان، دریاؤں اور سمندروں کی ایک طغیانی اُسے ی بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ خدائی طاقتوں کے مقابلے میں وہ کتنا بل بوتا رکھتا ہے۔ ایک اچانک حادثہ اچھے خاصے بھلے چنگے انسان کو اپاہج بنا کر رکھ دیتا ہے۔ تقدیر کا ایک پلٹا بڑے سے بڑے با اقتدار آدمی کو عرش سے فرش پر لا گراتا ہے۔ عروج کے آسمان پر پہنچی ہوئی قوموں کی قسمتیں جب بدلتی ہیں تو وہ اُسی دنیا میں ذلیل و خوار ہو کر رہ جاتی ہیں جہاں کوئی اُن سے آنکھ ملانے کی ہمّت نہ رکھتا تھا۔ اِس انسان کے دماغ میں آخر کہاں سے یہ ہوا بھر گئی کہ کسی کا اس پر بس نہیں چل سکتا؟
7: اَنْفَقْتُ مَالاً لُّبَداً ’’میں نے ڈھیر سا مال خرچ کر دیا‘‘ نہیں کہا بلکہ اَھْلَکْتُ مَالاً لُّبَداً کہا جس کے لفظی معنی ہیں ’’میں نے ڈھیر سا مال ہلاک کر دیا‘‘، یعنی لُٹا دیا، یا اڑا دیا۔ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کہنے والے کو اپنی مال داری پر کتنا فخر تھا کہ جو ڈھیر سا مال اُس نے خرچ کیا وہ اُس کی مجموعی دولت کے مقابلے میں اتنا ہیچ تھا کہ اس کے لُٹا دینے یا اڑا دینے کی اُسے کوئی پروا نہ تھی۔ اور یہ مال اڑا دینا تھا کس مد میں ؟ کسی حقیقی نیکی کے کام میں نہیں، جیسا کہ آگے کی آیات سے خود بخود مترشح ہوتا ہے، بلکہ اپنی دولت مندی کی نمائش اور اپنے فخر اور اپنی بڑائی کے اظہار میں۔ قصیدہ گو شاعروں کو بھاری انعامات دینا۔ شادی اور غمی کی رسموں میں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی دعوت کر ڈالنا۔ جوئے میں ڈھیروں دولت ہار دینا۔ جُو جیت جانے پر اونٹ پر اونٹ کاٹنا اور خوب یار دوستوں کو کھلانا۔ میلوں میں بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ جانا اور دوسرے سرداروں سے بڑھ کر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا۔ تقریبات میں بے تحاشا کھانے پکوانا اور اِذن عام دے دینا کہ جس کا جی چاہے آئے اور کھائے، یا اپنے ڈیرے پر کھُلا لنگر جاری رکھنا کہ دور دور تک یہ شہرت ہو جائے کہ فلاں رئیس کا دستر خوان بڑا وسیع ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے نمائشی اخراجات تھے جنہیں جاہلیت میں آدمی کی فیاضی اور فراخ دلی کی علامت اور اس کی بڑائی کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ انہی پر ان کی تعریفوں کے ڈنکے بجتے تھے۔ انہی پر ان کی مدح کیے قصیدے پڑھے جاتے تھے۔ اور وہ خود بھی ان پر دوسروں کے مقابلے میں اپنا فخر جتاتے تھے۔
8: یعنی کیا یہ فخر جتانے والا یہ نہیں سمجھتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو دیکھ رہا ہے کہ کن ذرائع سے اس نے یہ دولت حاصل کی، کن کاموں میں اسے کھپایا، اور کس نیت، کن اغراض اور کن مقاصد کے لیے اس نے یہ سارے کام کیے ؟ کیا وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے ہاں اِس فضول خرچی، اِس شہرت طلبی اور اس تفاخُر کی کوئی قدر ہو گی؟ کیا اس کا خیال ہے کہ دنیا کی طرح خدا بھی اس سے دھوکا کھا جائے گا؟
9: مطلب یہ ہے کہ کیا ہم نے اُسے علم اور عقل کے ذرائع نہیں دیے ؟ دو آنکھوں سے مراد گائے بھینس کی آنکھیں نہیں بلکہ وہ انسانی آنکھیں ہیں جنہیں کھول کر آدمی دیکھے تو اُسے ہر طرف وہ نشانات نظر آئیں جو حقیقت کا پتہ دیتے ہیں اور صحیح و غلط کا فرق سمجھاتے ہیں۔ زبان اور ہونٹوں سے مراد محض بولنے کے آلات نہیں ہیں بلکہ نفسِ ناطقہ ہے جو اِن آلات کی پشت پر سوچنے سمجھنے کا کام کرتا ہے اور پھر ان سے اظہار ما فی الضمیر کا کام لیتا ہے۔
10: یعنی ہم نے محض عقل و فکر کی طاقتیں عطا کر کے اسے چھوڑ نہیں دیا کہ اپنا راستہ خود تلاش کرے، بلکہ اس کی رہنمائی بھی کی اور اس کے سامنے بھلائی اور برائی ، نیکی اور بدی کے دونوں راستے نمایاں کر کے رکھ دیے تا کہ وہ خوب سوچ سمجھ کر ان میں سے جس کو چاہے اپنے ذمہ داری پر اختیار کر لے۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ دَھر میں فرمائی گئی ہے کہ’’ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اُسے راستہ دکھا دیا خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘(آیات ۳-۲)۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، الدھر، حواشی ۳ تا ۵۔
11: اصل الفاظ ہیں فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ۔ اِقتحام کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی سخت اور مشقّت طلب کام میں ڈالنا۔ اور عَقَبَہ اُس دشوار گزار راستے کو کہتے ہیں جو بلندی پر جانے کے لیے پہاڑوں میں سے گزرتا ہے۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دو راستے جو ہم نے اُسے دکھائے ان میں سے ایک بلندی کی طرف جاتا ہے مگر مشقّت طلب اور دشوار گزار ہے۔ اُس میں آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشوں سے اور شیطان کی ترغیبات سے لڑ کر چلنا پڑتا ہے۔ اور دوسرا آسان راستہ ہے جو کھڈوں میں اُترتا ہے، مگر اس سے پستی کی طرف جانے کے لیے کسی محنت کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ بس اپنے نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دینا کافی ہے، پھر آدمی خود نشیب کی طرف لڑھکتا چلا جاتا ہے۔ اب یہ آدمی جس کو ہم نے دونوں راستے دکھا دیے تھے، اِس نے اُن میں سے پستی کی جانب جانے والے راستے کو اختیار کر لیا اور اُس مشقت طلب راستے کو چھوڑ دیا جو بلندی کی طرف جانے والا ہے۔
12: اوپر چونکہ اُس کی فضول خرچیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو وہ اپنی بڑائی کی نمائش اور لوگوں پر اپنا فخر جتانے کے لیے کرتا ہے، اس لیے اب اس کے مقابلے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون سا خرچ اور مال کا کون سا مصرف ہے جو اخلاق کی پستیوں میں گرانے کے بجائے آدمی کو بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے، مگر اُس میں نفس کی کوئی لذت نہیں ہے بلکہ آدمی کو اس کے لیے اپنے نفس پر جبر کر کے ایثار اور قربانی سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی کسی غلام کو خود آزاد کرے، یا اس کی مالی مدد کرے تاکہ وہ اپنا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کر لے، یا کسی غریب کی گردن قرض کے جال سے نکالے، یا کوئی بے وسیلہ آدمی اگر تاوان کے بوجھ سے لد گیا ہو تو اس کی جان اُس سے چھُڑائے۔ اِسی طرح وہ خرچ یہ ہے کہ آدمی بھوک کی حالت میں کسی قریبی یتیم (یعنی رشتہ دار یا پڑوسی یتیم) اور کسی ایسے بے کس محتاج کو کھانا کھلائے جسے غربت و افلاس کی شدّت نے خاک میں ملا دیا ہو اور جس کی دستگیری کرنے والا کوئی نہ ہو۔ ایسے لوگوں کی مدد سے آدمی کی شہرت کے ڈنکے تو نہیں بجتے اور نہ ان کو کھلا کر آدمی کی دولت مندی اور دریا دلی کے وہ چرچے ہوئے ہیں جو ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کی شاندار دعوتیں کرنے سے ہوا کرتے ہیں، مگر اخلاق کی بلندیوں کی طرف جانے کا راستہ اِسی دشوار گزار گھاٹی سے ہو کر گزرتا ہے۔ اِن آیات میں نیکی کے جن کاموں کا ذکر کیا گیا ہے، ان کے بڑے فضائل رسول اللہ صلی علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں بیان فرمائے ہیں۔ مثلاً فَکُّ رَقَبَۃٍ(گردن چھُڑانے ) کے بارے میں حضور کی بکثرت احادیث روایات میں نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک حضرت ابو ہریرہ ؓ کی یہ روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا جس شخص نے ایک مومن غلام کو آزاد کیا اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلے میں آزاد کرنے والے شخص کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے بچا لے گا، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ، پاؤں کے بدلے میں پاؤں، شرمگاہ کے بدلے میں شرمگاہ (مُسنَد احمد، بخاری، مسلم، تِرْمِذی، نَسائی)۔ حضرت علی بن حسین ؓ (امام زین العابدین) نے اِس حدیث کے راوی سعد بن مَرجانہ سے پوچھا کیا تم نے ابو ہریرہ ؓ سے یہ حدیث خود سُنی ہے ؟ انہوں نے کہاں ہاں۔ اس پر امام زین العابدین نے اپنے سب سے زیادہ قیمتی غلام کو بلایا اور اُسی وقت اسے آزاد کر دیا۔ مسلم میں بیان کیا گیا ہے کہ اس غلام کے لیے اُن کو دس ہزار درہم قیمت مل رہی تھی۔ امام ابو حنیفہ اور امام شَعْبِی نے اِسی آیت کی بنا پر کہا ہے کہ غلام آزاد کرنا صدقے سے افضل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر صدقے پر مقدّم رکھا ہے۔ مساکین کی مدد کے فضائل بھی حضور ؐ نے بکثرت احادیث میں ارشاد فرمائے ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت ابوہریرہ کی یہ حدیث ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا السّاعی علی الارملۃ والمسکین کالساعی فی سبیل اللہ و احسبہ قال کا لقائم لا یفترو کالصائم لا یفطر ’’بیوہ اور مسکین کی مدد کے لیے دوڑ دھوپ کرنے والا ایسا ہے جیسے جہاد فی سبیل اللہ میں دوڑ دھوپ کرنے والا۔ (اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ) مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ حضور ؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ ایسا ہے جیسے وہ شخص جو نماز میں کھڑا رہے اور آرام نہ لے اور وہ جو پے درپے روزے رکھے اور کبھی روزہ نہ چھوڑے ‘‘ (بخاری و مسلم)۔ یتامیٰ کے بارے میں تو حضور ؐ کے بے شمار ارشادات ہیں۔ حضرت سہل ؓ بن سعد کی روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اور وہ شخص جو کسی رشتہ دار یا غیر رشتہ دار یتیم کی کفالت کیرے، جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ یہ فرما کر آپ نے شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو اٹھا کر دکھایا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھا‘‘(بخاری)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ حضور ؐ یا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ’’ مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے نیک سلوک ہو رہا ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں کسی یتیم سے برا سلوک ہو رہا ہو‘‘(ابن ماجہ۔ بخاری فی الادب المفرد)۔ حضر ت ابو اُمامہ کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’جس نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا اور محض اللہ کی خاطر پھیر ا اُس بچے کے ہر بال کے بدلے جس پر اس شخص کا ہاتھ گزرا اُس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی، اور جس نے کسی یتیم لڑکے یا لڑکی کے ساتھ نیک برتاؤ کیا وہ اور میں جنت میں اِس طرح ہوں گے۔ اور یہ فرما کر حضور ؐ نے اپنی دونوں انگلیاں ملا کر بتائیں (مُسند احمد۔ تِرْمِذی)۔ ابن عباس ؓ کا بیان ہے کہ سرکار ؓ رسالتماب نے ارشاد فرمایا’’جس نے کسی یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شامل کیا اللہ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی الّا یہ کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھا ہو جو معاف نہیں کیا جا سکتا‘‘(شرح السُّنہ)۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شکایت کی کہ میرا دل سخت ہے۔ حضور ؐ نے فرمایا ’’یتیم کے سر پر ہاتھ پھیر اور مسکین کو کھانا کھلا‘‘(مُسنَد احمد)۔
13: یعنی اِن اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل عملِ صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاں وہ مقبول ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اِس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابلِ قدر اور ذریعۂ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو۔ مثلاً سورۂ نساء میں فرمایا جو نیک اعمال کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ‘‘(آیت ۱۲۴)۔ سورۂ نحل میں فرمایا ’’جو نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو اُن کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے ‘‘(آیت ۹۷)۔ سورۂ مومن میں فرمایا ’’اور جو نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہاں اُن کو بے حساب رزق دیا جائے گا‘‘(آیت ۴۰)۔ قرآنِ پاک کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عملِ صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازماً اُس کے ساتھ ایمان کی شرط لگی ہوئی ہے۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’پھر وہ ایمان لایا‘‘ بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’پھر وہ اُن لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے ‘‘۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ ہر ایمان لانے والا اُن دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اِس سے اہلِ ایمان کی ایک جماعت بنے، ایک مومن معاشرہ وجود میں آئے، اور اجتماعی طور پر اُن بھلائیوں کو قائم کیا جائے جن کا قائم کرنا، اور اُن برائیوں کو مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے۔
14: یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اُس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں ۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں۔ جہاں تک صبر کا تعلق ہے، ہم اِس سے پہلے بارہا اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو استعمال کرتا ہے اُس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے، اور ایمان کے راستے پر قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہو سکتا ہے۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات، تکالیف، مصائب، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اوراس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذّتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخیریت نہیں گزر سکتا۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، اپنے معاشرے، اپنے ملک و قوم، اور دنیا بھر کے شیاطینِ جنّ و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید امتحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا۔ بخلاف اِس کے اگر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اِس ہمہ گیر امتحان میں سہارا دے رہے ہوں تو کامرانیاں اُس معاشرے کے قدم چومیں گی۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ایک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا۔ رہا رحم، تو اہلِ ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اُس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(الانبیاء۔۱۰۶)۔آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امّت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جَرِیر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لا یر حمُ اللہ ُ من لا یرحمُ النَّاسَ (بخاری و مسلم) اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔ حضرت عبد اللہ بن ؓ عَمْروبن العاص کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا: الراحمون یرحمہم الرحمٰن۔ ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء۔ (ابوداؤد، ترمذی) رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: لیس منّا من لم یر حم صغیر نا ولم یُوقِّر کبیرنا (ترمذی) وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے۔ ابو داؤد نے حضور ؐ کے اس ارشاد کو حضرت عبد ؓ اللہ بن عَمْرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے : من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منّا۔(ابوداؤد) جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صاد ق و مصدق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سُنا ہے : لا تُنزع الرّحمۃُ الا مِن شقیٍّ (مسند احمد، ترمذی) بدبخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے۔ حضرت عِیاض ؓ بن حِماد کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنّتی ہیں۔ ان میں سے ایک: رجل رحیم رقیق القلب لکل ذی قربیٰ و مسلم (مسلم) وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القلب ہو۔ حضرت نعمان ؓ بن پشیر کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: تری المؤمنین و تراحمہم و توادّ ھم و تعا طفہم کمثل الجسد اذا اشتکیٰ عضواً تداعیٰ لہ سائر الجسد بالسَّھْر و الحمّیٰ (بخاری و مسلم) تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدردی کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ؓ اشعری کہتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا: المؤمن للمؤمن کالبنیان یشدّ بعضہ بعضاً (بخاری و مسلم) مومن دوسرے مومن کے لیے اُس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصّہ دوسرے حصّے کو مضبوط کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عُمر حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں : المسلم اخو المسلم لا یظلمہ ولا یُسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرّج عن مسلم کُرْ بۃً فرّج اللہ عنہ کربۃً من کُرُبات یوم القامۃ و من ستر مسلماً سترہ اللہ یوم القیامۃ (بخاری و مسلم) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہو گا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا۔ اِن ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اِس آیت میں دی گئی ہے اُس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے۔
15: اِس سے پہلے ہم سورۂ قیامہ حاشیہ نمبر ۱ میں اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ کلام کا آغاز ’’نہیں ‘‘ سے کرنا اور پھر قسم کھا کر آگے کی بات شروع کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ لوگ کوئی غلط بات کہہ رہے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ نہیں، بات وہ نہیں ہے جو تم سمجھے بیٹھے ہو، بلکہ میں فلاں فلاں چیزوں کی قسم کھاتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ وہ بات کیا تھی جس کی تردید میں یہ کلام نازل ہوا، تو اُس پر بعد کا مضمون خود دلالت کر رہا ہے۔ کفّارِ مکہ یہ کہتے تھے کہ ہم جس طرزِ زندگی پر چل رہے ہیں اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، دنیا کی زندگی بس یہی کچھ ہے کہ کھاؤ پیو، مزے اڑاؤ، اور جب وقت آئے تو مر جاؤ۔ محمد( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خواہ مخواہ ہمارے اِس طرزِ زندگی کو غلط ٹھیرا رہے ہیں اور ہمیں ڈرا رہے ہیں کہ اِس پر کبھی ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہمیں جزا و سزا سے سابقہ پیش آئے گا۔
16: یعنی آگ اِس طرح اُن کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہو گی کہ اُس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا۔