تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الضّحیٰ

نام

پہلے ہی لفظ وَالضُّحیٰ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ 

زمانۂ نزول

اس کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ مکّۂ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور میں  نازل ہوئی ہے۔  روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک وحی کے نزول کا سلسلہ بند رہا تھا جس سے حضورؐ سخت پریشان ہو گئے تھے اور بار بار آپؐ کو یہ اندیشہ لاحق ہو رہا تھا کہ کہیں  مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں  ہو گیا جس کی وجہ سے میرا ربّ مجھ سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے مجھے چھوڑ دیا ہے۔  اس پر آپ ؐ کو اطمینان دلایا گیا  کہ وحی کے نزول کا سلسلہ کسی ناراضی کی بنا پر نہیں  روکا گیا تھا، بلکہ اس میں  وہی مصلحت کار فرما تھی جو روزِ روشن کے بعد رات  کا سکون طاری کرنے میں  کار فرما ہوتی ہے۔  یعنی وحی کی تیز روشنی اگر آپؐ پر برابر پڑتی رہتی تو آپؐ کے اعصاب اسے برداشت نہ کر سکتے،  اس لیے بیچ میں  وقفہ  دیا گیا تا کہ آپ ؐ کو سکون مل جائے۔  یہ کیفیت حضورؐ پر نبوت کے ابتدائی دور میں  گزرتی تھی جبکہ ابھی آپؐ کو وحی کے نزول کی شدّت برداشت کرنے کی عادت نہیں  پڑی تھی، اِس بنا پر بیچ بیچ میں  وقفہ دینا ضروری ہوتا تھا۔ اس کی وضاحت ہم سورۂ مدَّثِّر کے دیباچے میں  کر چکے ہیں۔  اور سورۂ  مُزَّمِّل حاشیہ ۵ میں  ہم یہ بھی بیان کر چکے ہیں  کہ نزولِ وحی کا کس قدر شدید بار آپ ؐ کے اعصاب پر پڑتا تھا۔ بعد میں  جب حضور ؐ کے اندر اس بار کو برداشت کرنے کا تحمُّل پیدا ہو گیا تو طویل وقفے  دینے کی ضرورت باقی نہیں  رہی۔

موضوع اور مضمون

اِس کا موضوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو تسلّی دینا ہے اور مقصد اُس پریشانی کو دور کرنا ہے جو نزولِ وحی کا سلسلہ رک جانے سے آپ ؐ کو لاحق ہو گئی تھی۔ سب سے پہلے روزِ روشن اور سکونِ شب کی قسم کھا کر آپؐ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ ؐ کے  ربّ نے آپ کو ہر گز نہیں  چھوڑا ہے اور نہ وہ آپؐ سے ناراض ہوا ہے۔  اس کے بعد آپؐ کو خوشخبری دی گئی ہے کہ دعوتِ اسلامی کے ابتدائی دور میں  جن شدید مشکلات سے آپ ؐ کو سابقہ پیش آ رہا ہے یہ تھوڑے دنوں  کی بات ہے۔  آپؐ کے لیے ہر بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہو تا چلا جائے گا اور کچھ زیادہ دیر نہ گزرے گی کہ اللہ تعالیٰ آپؐ پر اپنی عطا و بخشش کی ایسی بارش کرے گا  جس سے آپ ؐ خوش ہو جائیں  گے۔  یہ قرآن کی اُن صریح پیشین گوئیوں  میں  سے ایک  ہے جو بعد میں  حرف بحرف پوری ہوئیں ،  حالانکہ جس وقت یہ پیشین گوئی کی گئی تھی اُس وقت کہیں  دُور دُور بھی اِس کے آثار نظر نہ آتے تھے کہ مکّہ میں  جو بے یار و مددگار انسان پوری قوم کی جاہلیّت کے مقابلے میں  برسر پیکار ہو گیا ہے اُسے اِتنی حیرت انگیز کامیابی نصیب ہو گی۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم سے فرمایا ہے کہ تمہیں  یہ پریشانی کیسے لاحق ہو گئی کہ ہم نے تمہیں  چھوڑ دیا ہے اور  ہم تم سے ناراض ہو گئے ہیں۔  ہم تو تمہارے روزِ پیدائش سے مسلسل تم پر مہربانیاں  کرتے چلے آرہے ہیں ۔  تم یتیم پیدا ہوئے تھے،  ہم نے تمہاری پرورش  اور خبر گیری کا بہترین انتظام  کر دیا۔ تم ناواقفِ  راہ تھے،  ہم نے تمہیں   راستہ بتایا۔  تم نادار تھے،  ہم نے تمہیں  مالدار بنایا۔ یہ ساری باتیں  صاف بتا رہی ہیں  کہ تم ابتداء سے ہمارے منظورِ نظر  ہو اور ہمارا فضل و کرم مستقل طور پر تمہارے شاملِ حال ہے۔  اس مقام پر سورۂ طٰہٰ،  آیات ۳۷ تا ۴۲  کو بھی نگاہ میں  رکھا جائے جہاں  حضرت موسیٰ ؑ کو فرعون جیسے جبّار کے مقابلہ میں  بھیجتے وقت اللہ تعالیٰ نے اُن کی پریشانی دور کرنے کے لیے انہیں  بتایا ہے کہ کس طرح تمہاری پیدائش کے وقت سے ہماری مہربانیاں  تمہارے شامل حال رہی ہیں ،  اس لیے تم اطمینان رکھو کہ  اِس خوفناک مہم میں  تم اکیلے نہ ہو گے بلکہ ہمارا فضل  تمہارے ساتھ ہو گا۔

آخر میں  اللہ  تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو بتایا ہے کہ جو احسانات ہم نے تم پر کیے ہیں  ان کے جواب میں  خلق خدا کے ساتھ تمہارا کیا برتاؤ ہونا چاہیے،  اور ہماری نعمتوں  کا شکر تمہیں  کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
 قسم ہے روزِ روشن کی 1 اور رات کی جبکہ وہ سکون کے ساتھ طاری ہو جائے 2 (اے نبیؐ) تمہارے ربّ نے تم کو ہر گز نہیں  چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔ 3 اور یقیناً تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے،  4 اور عنقریب تمہارا ربّ تم کو اتنا دے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔  5 کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں  پایا اور پھر ٹھِکانا فراہم کیا؟ 6 اور تمہیں  ناواقفِ راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ 7 اور تمہیں  نادار پایا اور پھر مالدار کر دیا۔ 8 لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو، 9 اور سائل کو نہ جھِڑکو، 10 اور اپنے ربّ کی نعمت کا اظہار کرو۔ 11 ؏۱

 

1: یہاں  لفظ ضُحیٰ رات کے مقابلہ میں  استعمال ہوا ہے اس لیے اِس سے مراد روزِ روشن ہے۔  اِس کی نظیر سورۂ اَعراف کی یہ آیات ہیں۔  اَفَاَ مِنَ اَھْلُ الْقُرٰیٓ اَنْ یَّاتِیَھُمْ بَاْ سُنَا بَیَا تاً وَّھُمْ نَآئِمُوْنَ، اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُرٰیٓ اَنْ یَّا تِیَھُمْ بَاْسُنَا ضُحًی وَّھُمْ یَلْعَبُوْنَ(۹۸-۹۷) ’’کیا بستیوں  کے لوگ اِس سے بے خوف ہیں  کہ ان پر ہمارا عذاب رات کو آ جائے جبکہ وہ سورہے ہوں ؟ اور کیا بستیوں  کے لوگ اِس سے بے خوف ہیں  کہ ان پر ہمارا عذاب دن دِہاڑے آ جائے جبکہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ ‘‘ اِن آیات میں  بھی چونکہ ضحیٰ کا لفظ رات کے مقابلہ میں  استعمال ہوا ہے اس لیے اس سے مراد  چاشت کا وقت نہیں  بلکہ دن ہے۔

2: اصل میں  رات کے لیے لفظ سَجیٰ استعمال ہوا ہے جس میں  صرف تاریکی چھا جانے ہی کا نہیں  بلکہ سکوت اور سکون طاری ہو جانے کا مفہوم  بھی شامل ہے۔  رات کی اِس صفت کا اُس مضمون سے گہرا تعلق ہے جو آگے بیان ہو رہا ہے۔

3: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر وحی کا نزول بند رہا تھا۔ مختلف روایات میں  یہ مدّت مختلف بیان کی گئی ہے۔  ابن جُرَیج نے ۱۲ روز،  کَلْبِی نے ۱۵ روز، ابن عباس ؓ نے ۲۵ روز، سُدِّی اور مُقاتِل نے ۴۰ روز اس کی مدّت بیان کی ہے۔   بہرحال یہ زمانہ اِتنا طویل تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اِس پر سخت غمگین ہو گئے تھے اور مخالفین بھی آپ کو طعنے دینے لگے تھے،  کیونکہ حضور ؐ پر جو نئی سورت نازل ہوتی تھی اسے آپ ؐ لوگوں  کو سنایا کرتے تھے،  اس لیے جب اچھی خاصی مدت تک آپ ؐ نے کوئی نئی وحی لوگوں  کو نہیں  سُنائی  تو مخالفین نے سمجھ لیا کہ وہ سرچشمہ بند ہو گیا ہے جہاں  سے یہ کلام آتا تھا۔ جُنْدُب بن عبد اللہ البَجَلی کی روایت ہے کہ جب جبریل علیہ السلام کے آنے کا سلسلہ رک گیا تو مشرکین  نے کہنا شروع کر دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم) کو اُن کے ربّ نے چھوڑ دیا ہے ( ابن جریر،  طَبَرانی، عبد بن حُمَید، سعید بن منصور، ابن مَرْ دُوْیَہ)۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کی بیوی امّ جمیل نے،  جو حضور ؐ کی چچی ہوتی تھی اور جس کا گھر حضور ؐ  کے مکان سے متصل تھا، آپ سے کہا ’’معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہیں  چھوڑ دیا ہے ‘‘۔ عَو فی اور ابن جریر نے ابن عبار ؓ  کی روایت نقل کی ہے کہ کئی روز تک جبریل کی آمد رُک جانے سے حضور ؐ  پریشان ہو گئے اور مشرکین کہنے لگے کہ ان کا رب ان سے ناراض ہو گیا ہے اور اس نے انہیں  چھوڑ دیا ہے۔  قَتَادہ اور ضَحّاک کی مُرْسَل روایات میں  بھی قریب قریب یہی مضمون بیان ہوا ہے۔  اِس صورت حال میں  حضور ؐ کے شدید رنج  و غم کا حال بھی متعدد روایات میں  آیا ہے۔  اور ایسا کیوں  نہ ہوتا جبکہ محبوب کی طرف سے بظاہر عدمِ التفات،  کفر و ایمان کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے بعد اُسی ذریعۂ طاقت سے بظاہر محرومی جو اس جاں  گُسِل کشمکش کے منجدھار میں  آپ ؐ  کے لیے واحد سہارا تھا، اور اُس پر مزید دشمنوں  کی شَماتَت،  یہ ساری چیزیں  مل جل کر لا محالہ حضور ؐ کے لیے سخت پریشانی کا موجب ہو رہی ہوں  گی اور آپ ؐ کو بار بار یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کہیں  مجھ سے کوئی ایسا قصور تو نہیں   ہو گیا ہے کہ میرا ربّ مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اور اس نے مجھے حق و باطل کی اِس لڑائی میں  تنہا چھوڑ دیا ہو۔ اِسی کیفیت  میں  یہ سورۃ حضور ؐ کو تسلی دینے کے لیے نازل ہوئی۔ اِس میں  دن کی روشنی اور رات کے سکون کی قسم کھا کر حضور ؓ سے فرمایا گیا  کہ تمہارے  ربّ نے نہ تمہیں  چھوڑ دیا ہے اور نہ وہ تم سے ناراض ہوا ہے۔  اِس بات پر ان دونوں  چیزوں  کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح دن کا روشن ہونا اور رات کا تاریکی اور سکون لے  ہوئے چھا جانا کچھ اِس بنا پر نہیں  ہوتا کہ اللہ تعالیٰ دن کے وقت لوگوں  سے خوش اور رات کے وقت اُن سے ناراض ہو جاتا ہے،  بلکہ یہ دونوں  حالتیں  ایک عظیم حکمت و مصلحت کے تحت طاری ہوتی ہیں،  اُسی طرح تم پر کبھی وحی بھیجنا اور کبھی اُس کو روک لینا  بھی حکمت و مصلحت کی بنا پر ہے،  اِس کو کوئی تعلق اِس بات سے نہیں  ہے کہ جب اللہ تعالیٰ  تم سے خوش ہو تو وحی بھیجے،  اور جب وہ وحی نہ بھیجے تو اس کے معنی یہ ہوں  کہ وہ تم سے ناخوش ہے اور اس نے تمہیں  چھوڑ دیا ہے۔  اس کے علاوہ دوسری مناسبت اِس مضمون سے اِس قَسم کی یہ ہے کہ جس طرح دن کی روشنی اگر مسلسل آدمی پر طاری رہے تو وہ اسے تھکا دے،  اس لیے ایک وقتِ خاص تک دن  کے روشن رہنے کے بعد رات کا آنا ضروری ہے تاکہ اس میں  انسان کو سکون ملے،  اُسی طرح وحی کی روشنی اگر تم پر پے درپے پڑتی رہے تو تمہارے اعصاب اس کو برداشت نہ کر سکیں  گے،  اس لیے وقتاً فوقتا! فَتْرۃ (نزولِ  وحی کا سلسلہ رک جانے ) کا ایک زمانہ  بھی اللہ تعالیٰ نے مصلحت کی بنا پر رکھا ہے تاکہ وحی کے نزول سے جو بار تم پر پڑتا ہے اس کے اثرات زائل ہو جائیں  اور تمہیں  سکون حاصل ہو جائے۔  گویا آفتابِ وحی کا طلوع بمنزلۂ روز روشن ہے اور زمانۂ فَتْرۃ بمنزلۂ سکونِ شب۔

4: یہ خوشخبری اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو ایسی حالت میں  دی تھی جبکہ چند مٹھی بھر آدمی آپ ؐ کے ساتھ تھے،  ساری قوم آپ ؐ کی مخالف تھی،  بظاہر کامیابی کے آثار دُور دُور کہیں  نظر نہ آتے تھے۔  اسلام کی شمع مکّہ ہی میں  ٹِمٹما رہی تھی اور اسے بجھا دینے کے لیے ہر طرف طوفان اٹھ رہے تھے۔  اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا کہ ابتدائی دور کی مشکلات سے آپ ذرا پریشان نہ ہوں ۔  ہر بعد کا دور پہلے دور سے آپ کے لیے بہتر ثابت ہو گا۔ آپ کی قوت، آپ کی عزت و شوکت اور آپ کی قدر و منزلت برابر بڑھتی چلی جائے گی اور آپ کا نفوذ و اثر پھیلتا چلا جائے گا۔ پھر یہ وعدہ صرف دنیا ہی تک محدود نہیں  ہے،  اِس میں  یہ وعدہ بھی شامل ہے کہ آخرت میں  جو مرتبہ آپ کو ملے گا وہ اُس مرتبے سے  بھی بدرجہا بڑھ کر ہو گا جو  دنیا میں  آپ کو حاصل ہو گا۔ طَبَرانی نے اَوسط میں  اور بیہقی  نے دلائی میں  ابن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا  ’’میرے سامنے وہ تمام فتوحات پیش کی گئیں  جو میرے بعد میری امت کو حاصل ہونے والی ہیں۔  اِس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ ارشاد نازل فرمایا کہ آخرت تمہارے لیے دنیا سے بھی بہتر ہے ‘‘۔

5: یعنی اگرچہ دینے میں  کچھ دیر لگے گی، لیکن وہ وقت دُور نہیں  ہے جب تم پر تمہارے ربّ کی عطا و بخشش کی وہ بارش ہو گی کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔   یہ وعدہ حضور ؐ کی زندگی ہی میں  اِ س طرح پورا ہوا کہ سارا ملکِ عرب جنوب کے سوا حل سے لے کر شمال میں  سلطنت روم کی شامی اور سلطنتِ فارس کی عراقی سرحدوں  تک،  اور مشرق میں  خلیجِ فارس سے لے کر مغرب میں  بحر احمر تک آپ ؐ کے زیرِ نگیں  ہو گیا، عرب کی تاریخ میں  پہلی مرتبہ یہ سرزمین ایک قانون اور ضابطہ کی تابع ہو گئی، جو طاقت بھی اِس سے ٹکرائی وہ پاش پاش ہو کر رہ گئی، کلمہ لَآ اِلٰہٰ اِلَّا اللہ ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ سے وہ پورا ملک گونج اٹھا جس میں  مشرکین اور اہلِ کتاب اپنے جھوٹے کلمے بلند رکھنے کے لیے آخرت دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے،  لوگوں  کے صرف سر ہی اطاعت میں  نہیں  جھک گئے بلکہ ان کے دل  بھی مسخّر ہو گئے اور عقائد، اخلاق اور اعمال  میں  ایک انقلاب عظیم برپا ہو گیا۔ پوری انسانی تاریخ میں  اِس کی نظیر نہیں  مِلتی کہ ایک جاہلیت میں  ڈوبی ہوئی قوم صرف ۲۳ سال کے اندر اتنی بدل گئی ہو۔ اِس کے بعد حضور ؐ کی برپا کی ہوئی تحریک اِس طاقت کے ساتھ اُٹھی کہ ایشیاء، افریقہ اور یورپ کے ایک بڑے حصّے پر وہ چھا گئی اور دنیا کے گوشے گوشے میں  اس کے اثرات پھیل گئے۔  یہ کچھ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول  ؐ کو دنیا میں  دیا، اور آخرت میں  جو کچھ دے گا اس کی عظمت کا تصوّر بھی کوئی نہیں  کر سکتا۔( نیز دیکھو جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ ۱۱۲)۔

6: یعنی تمہیں  چھوڑ دینے اور تم سے ناراض ہو جانے کا کیا سوال، ہم تو اُس وقت سے تم پر مہربان ہیں  جب تم یتیم پدہا ہوئے تھے۔  حضور ابھی بطن مادر ہی میں  چھ مہینے کے تھے جب آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا اس لیے آپ دنیا میں  یتیم ہی  کی حیثیت سے تشریف لائے۔  مگر اللہ تعالیٰ نے ایک دن بھی آپ کو بے سہارا نہ چھوڑا۔ چھ سال کی عمر تک والدہ ماجدہ آپ کی پرورش کرتی رہیں۔  ان کی شفقت سے محروم ہوئے تو ۸ سال کی عمر تک آپ کے جد امجد نے آپ کو اس  طرح پالا کہ ان کو نہ صرف آپ سے غیر معمولی محبت تھی بلکہ اُن کو آپ پر فخر تھا اور وہ لوگوں  سے کہا کرتے تھے کہ میرا یہ بیٹا ایک دن دنیا میں  بڑا نام پیدا کرے گا۔ اُن کا بھی انتقال ہو گیا تو آپ  کے حقیقی چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمّے لی اور آپ کے ساتھ ایسی محبت کا برتاؤ کیا کہ کوئی باپ بھی اس سے زیادہ نہیں  کر سکتا،  حتیٰ کہ نبوت کے بعد جب ساری قوم آپ کی دشمن ہو گئی تھی اس وقت دس سال تک وہی آپ کی حمایت میں  سینہ سپر رہے۔

7: اصل میں  لفظ ضَآلّاً استعمال ہوا ہے جو ضلالت سے ہے۔  عربی زبان میں  یہ لفظ کئی معنوں  میں  استعمال ہوتا ہے۔  اِس کے ایک معنی گمراہی کے ہیں ۔  دوسرے معنی یہ ہیں  کہ کوئی شخص راستہ نہ جانتا ہو اور ایک جگہ حیران کھڑا ہو کے مختلف راستے جو سامنے ہیں  ان میں  سے کِدھر جاؤں۔  ایک اور معنی کھوئے ہوئے کے ہیں،  چنانچہ عربی محاورے میں  کہتے ہیں  ضَلَّ المَآ عُ فِی اللَّبَنِ، پانی دودھ میں  گُم ہو گیا۔ اُس درخت کو بھی عربی میں  ضَالّہ کہتے ہیں  جو صحرا میں  اکیلا کھڑا ہو اور آس پاس کوئی دوسرا درخت نہ ہو۔ ضائع ہونے کے لیے بھی ضلال کا لفظ بولا جاتا ہے،  مثلاً کوئی چیز نا مواقف اور ناسازگار حالات میں  ضائع ہو رہی ہو۔ غفلت کے لیے بھی ضلال کا  لفظ استعمال ہوتا ہے،  چنانچہ خود قرآن مجید میں  اِس کی مثال موجود ہے کہ  لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی، (طٰہٰ۔۵۲)۔ ’’میرا ربّ نہ غافل ہوتا ہے نہ بھولتا ہے۔ ‘‘ اِن مختلف معنوں  میں  سے پہلے معنی  یہاں  چسپاں  نہیں  ہوتے،  کیونکہ بچپن سے قبلِ نبوّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے جو  حالات تاریخ میں  موجود ہیں  اِن میں  کہیں  اِس بات کا شائبہ تک نہیں  پایا جاتا کہ آپ ؐ کبھی بُت پرستی،  شرک یا دُہریّت میں  مبتلا ہوئے ہوں،  یا جاہلیّت کے جو اعمال،  رسم اور طور طریقے آپ ؐ کی قوم میں  پائے جاتے تھے ان میں  سے کسی میں  آپ ؐ ملوث ہوئے ہوں۔  اِس لیے لا محالہ  وَوَجَدَ کَ  ضَآلّاً  کے یہ معنی تو نہیں  ہو سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو عقیدے یا عمل کے لحاظ سے گمراہ پایا تھا۔  البتہ باقی معنی کسی نہ کسی طور پر یہاں  مراد ہو سکتے ہیں ،  بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک ایک اعتبار سے سب مراد ہوں۔  نبوّت سے پہلے حضور ؐ اللہ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کے قائل تو ضرور تھے،   اور آپ ؐ کی زندگی گناہوں  سے پاک اور فضائل اخلاق سے آراستہ بھی تھی،  لیکن آپ ؐ کو دینِ حق اور اس کے اُصول  اور احکام کا علم نہ تھا،  جیسا کہ قرآن میں  فرمایا گیا ہے  مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ (الشوریٰ، آیت ۵۲)۔ ’’تم نہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ ایمان کی تمہیں  کوئی خبر تھی‘‘۔ یہ معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں  کہ حضور ؐ ایک  جاہلی معاشرے میں  گُم ہو کر رہ گئے تھے اور ایک ھادی و رہبر ہونے کی حیثیت سے آپ ؐ کی شخصیت نبوت سے پہلے نمایاں  نہیں  ہو رہی تھی۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ جاہلیت کے صحراء میں  آپ ؐ  ایک  اکیلے درخت کی حیثیت سے کھڑے تھے جس میں  پھل لانے اور ایک پورا باغ کا باغ پیدا کر دینے کی صلاحیت تھی مگر نبوت سے پہلے یہ صلاحیت کام نہیں  آ رہی تھی۔ یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی قوتیں  آپ ؐ  کو عطا کی تھیں  وہ جاہلیت کے ناسازگار ماحول میں  ضائع ہو رہی تھیں ۔  ضلال کو غفلت کے معنی میں  بھی لیا جا سکتا ہے،  یعنی آپ ؐ اُن حقائق اور علوم سے غافل تھے جن سے نبوت کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو آگاہ فرمایا۔  یہ بات خود قرآن میں  بھی ایک جگہ ارشاد ہوئی ہے : وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ o لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ (یوسف۳) ’’ اور اگرچہ تم  اِس سے پہلے اِن باتوں  سے غافل تھے۔ ‘‘(نیز ملاحظہ ہو البقرہ آیت ۲۸۲، اور الشعراء آیت ۲۰)۔

8: نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کے لیے آپ کے والد ماجد نے میراث میں  صرف ایک اونٹنی اور ایک لونڈی چھوڑ ی تھی۔ اس طرح آپ کی زندگی کی ابتدا ء افلاس کی حالت میں  ہوئی تھی۔ پھر ایک وقت آیا کہ قریش کی سب سے زیادہ مالدار خاتون حضرت خَدَیجہ ؓ نے پہلے تجارت میں  آپ ؐ کو اپنے ساتھ شریک کیا،  اس کے  بعد انہوں  نے آپ ؐ سے شادی کر لی اور ان کے تمام تجارتی کاروبار کو آپ ؐ نے سنبھال لیا۔ اِس طرح آپ ؐ نہ صرف یہ کہ مال دار ہو گئے،   بلکہ آپ ؐ کی مالدار ی اِس نوعیت کی نہ تھی کہ محض بیوی کے مال پر آپ ؐ کا انحصار ہو۔ اُن کی تجارت کو فروغ دینے میں  آپ ؐ کی اپنی محنت و قابلیت کا بڑا حصّہ تھا۔

9: یعنی تم چونکہ خود یتیم رہ چکے ہو، اور اللہ نے تم پر یہ فضل فرمایا کہ یتیمی کی حالت میں  بہترین طریقے سے تمہاری دستگیری کی، اس لیے اس کا شُکرانہ یہ ہے کہ تمہارے ہاتھ سے کبھی کسی یتیم  پر ظلم اور زیادتی نہ ہونے پائے۔

10: اس کے دو معنی ہیں۔  اگر سائل کو مدد مانگنے والے حاجت مند کے معنی میں  لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کی مدد کر سکتے ہو تو کر دو، نہ کر سکتے ہو تو نرمی کے ساتھ معذرت کر دو، مگر بہر حال اُسے جھِڑکو نہیں۔  اِس معنی کے لحاظ سے یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے جواب میں  ہے کہ ’’تم نادار تھے پھر اُس نے تمہیں  مالدار کر دیا۔‘‘ اور اگر سائل کو پوچھنے والے،  یعنی دین کا کوئی مسئلہ یا حکم دریافت کرنے والے کے معنی میں  لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص  خواہ کیسا ہی جاہل اور اُجڈ ہو،  اور بظاہر خواہ کتنا ہی نا معقول طریقے سے سوال کرے یا اپنے ذہن کی اُلجھن پیش کرے،  بہر حال شفقت کے ساتھ اُسے جواب دو اور علم کا زعم رکھنے والے بد مزاج لوگوں  کی طرح اُسے جھِڑک کر دُور نہ بھگا دو۔ اِس معنی کے لحاظ سے یہ ارشاد اللہ تعالیٰ  کے اِس احسان کے جواب میں  ہے کہ  ’’ تم ناواقفِ راہ تھے پھر اُس نے تمہیں  ہدایت بخشی‘‘۔ حضرت ابو الدّردا ؓ،  حسن بصری ؒ،  صفیان ؒ ثوری اور بعض دوسرے بزرگوں  نے اِسی دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ ترتیبِ کلام کے لحاظ سے یہ ارشاد    وَوَجَدَ کَ  ضَآ لّاً فَھَدیٰ کے جواب میں  آتا ہے۔

11:  نعمت کا لفظ عام ہے جس سے مراد وہ نعمتیں  بھی ہیں  جو اس سورہ  کے نزول کے وقت تک اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ پاک کو عطا فرمائی تھیں ،  اور وہ نعمتیں  بھی جو بعد میں  اُس نے اپنے اُن وعدوں  کے مطابق آپ کو عطا کیں  جو اِس سورہ میں  اُس  نے کیے تھے اور جن کو اُس نے بدرجۂ  اَتم پورا کیا۔ پھر حکم یہ ہے کہ اے نبی ؐ ہر نعمت جو اللہ نے تم کو دی ہے اُس کا ذکر اور اُس کا اظہار کرو۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ نعمتوں  کے ذکر اور اظہار کی مختلف صورتیں  ہو سکتی ہیں  اور ہر نعمت اپنی نوعیت کے لحاظ سے اظہار کی ایک خاص صورت چاہتی ہے۔  مجموعی طور پر تمام نعمتوں  کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ زبان سے اللہ کا شکر ادا کیا جائے اور اس بات کا اقرار و اعتراف کیا جائے کہ جو نعمتیں  بھی مجھے حاصل ہیں  یہ سب اللہ کا فضل و احسان ہیں  ورنہ کوئی چیز بھی میرے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں  ہے۔  نعمتِ نبوت کا اظہار اس طریقہ سے ہو سکتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا حق ادا کیا جائے۔  نعمتِ قرآن کے اظہار کی صورت یہ ہے کہ لوگوں  میں  زیادہ سے زیادہ اُس  کی اشاعت کی جائے اور اس کی تعلیمات لوگوں  کے ذہن نشین کی جائیں۔  نعمتِ ہدایت کا اظہار اِس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ کی بھٹکی ہوئی مخلوق کو سیدھا راستہ بتایا جائے اور اس کام کی ساری تلخیوں  اور تُرشیوں  کو صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے۔  یتیمی میں  دستگیری کا جو احسان اللہ تعالیٰ نے کیا ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ یتیموں  کے ساتھ ویسے ہی احسان کا سلوک کیا جائے۔  نادار سے مالدار بنا دینے کا جو احسان اللہ نے کیا اُس کا اظہار یہی صورت چاہتا ہے کہ  اللہ کے محتاج بندوں  کی مدد کی جائے۔  غرض یہ ایک بڑی جامع ہدایت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات و احسانات بیان کرنے کے بعد  اِس مختصر سے فقرے میں  اپنے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو دی۔