١۔ گزشتہ سورت میں تین انعامات کا ذکر تھا، اس سورت میں مزید تین احسانات جتلائے جا رہے ہیں، سینہ کھول دینا ان میں پہلا ہے۔ اس کا مطلب ہے سینے کا منور اور فراخ ہو جانا، تاکہ حق واضح ہو جائے اور دل میں بھی سما جائے اسی مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے (فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یُّھْدِیَہ،یَشْرَحُ صَدْرَہ، لِلْاِ سْلَامُ) (سورہ انعام، ١٢٥) جس کو اللہ ہدایت سے نوازنے کا ارادہ کرے، اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے، یعنی وہ اسلام کو دین حق کے طور پر پہچان بھی لیتا ہے اور اسے قبول بھی کر لیتا ہے اس شرح صدر میں وہ شق صدر بھی آتا ہے جو معتبر روایات کی رو سے دو مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ہوا
٢۔ یہ بوجھ نبوت سے قبل چالیس سالہ دور زندگی سے متعلق ہے۔ اس دور میں اگرچہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گناہوں سے محفوظ رکھا، کسی بت کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سجدہ ریز نہیں ہوئے، کبھی شراب نوشی نہیں کی اور بھی دیگر برائیوں سے دامن کش رہے، تاہم معروف معنوں میں اللہ کی عبادت و اطاعت کا نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علم تھا نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے احساس و شعور نے اسے بوجھ بنا رکھا تھا اللہ نے اسے اتار دینے کا اعلان فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر احسان فرمایا۔
٤۔یعنی جہاں اللہ کا نام آتا ہے وہیں آپ کا نام بھی آتا ہے، مثلاً اذان، نماز، دیگر بہت سے مقامات پر، گزشتہ کتابوں میں آپ کا تذکرہ اور صفات کی تفصیل ہے۔ فرشتوں میں آپ کا ذکر خیر ہے آپ کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اطاعت قرار دیا اور اپنی اطاعت کے ساتھ آپ کی اطاعت کا بھی حکم دیا۔
٦۔یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اور صحابہ کرام کے لیے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت وآسانی سے نوازے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسے ساری دنیا جانتی ہے۔
٧۔ یعنی نماز سے، یا تبلیغ سے یا جہاد سے، تو دعا میں محنت کر، یا اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔
٨۔ یعنی اسی سے جنت کی امید رکھ، اسی سے اپنی حاجتیں طلب کر اور تمام معاملات میں اسی پر اعتماد اور بھروسہ رکھ۔