دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الانشراح

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 سورہ کا آغاز اَلَمْ نَشْرَحْ کے الفاظ سے ہوا ہے اس مناسبت سے یہ الفاظ اس سورہ کا نام قرار پاۓ ہیں۔

 

زمانۂ نزول

 

  مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس دور میں نازل ہوئی جب کہ آپؐ کے اندر منصب نبوت کی گراں بار ذمہ داریاں سنبھالنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا تھا جس کے نتیجہ میں مخالفتوں کے طوفان سے گزرنا آپؐ کے لیے آسان ہو گیا تھا۔ نبوت کا چرچا بھی عام ہو گیا تھا اور آپؐ کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کی ایک تعداد بھی آپؐ کے گرد جمع ہو گئی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ سورہ سابق سورہ (الضحٰی )  کا تکملہ ہے۔ سابق سورہ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ذہنی پریشانی کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان احسانات کا حوالہ دیا ہے جن سے اس نے اپنے نبی کو نوازا۔ اس سورہ میں شرح صدر کی عظیم نعمت سے سرفراز کیے جانے کا ذکر کرتے ہوۓ آپؐ کو اطمینان دلایا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ اور یہی اس سورہ کا مرکزی نقطہ ہے یعنی ہر مشکل کے بعد آسانی کی راہ کھلتی ہے گویا مشکلات ہمت نہیں ہونا چاہیے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۳ میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا ذکر ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شرح صدر کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور وہ بوجھ اتار دیا جو آپؐ کی کمر توڑ دے رہا تھا۔

 

آیت ۴ میں آپؐ کو یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ آپؐ کا آواز بلند کر دیا گیا ہے۔

 

 آیت ۵ اور ۶ میں اطمینان دلایا گیا ہے کہ راہ حق کی ہر مشکل آسانی کا پیش خیمہ ہے۔

 

آیت ۷ ور ۸ میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے کہ جب اپنے مشاغل سے تم فارغ ہو جاؤ تو اللہ کی عبادت میں سرگرم ہو جاؤ اور ای سے لَو لگاؤ کہ تمام غایتوں کی غایت یہی ہے۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے پیغمبر !)  کیا ہم نے تمہارا سینہ کھول نہیں دیا ؟ ۱*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم پر سے وہ بوجھ اتار نہیں دیا۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو تمہاری کمر توڑے دے رہا تھا ؟۲*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا ذکر بلند نہیں کیا۳* ؟

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو (دیکھو*  مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔ ۴*  

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جب تم فارغ ہو تو عبادت میں سرگرم ہو جاؤ۵*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب ہی سے لَو لگاؤ ۶*  

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شرح صدر (سینہ کھول دینے )  سے مراد اطمینان قلب اور عزم و حوصلہ کی وہ کیفیت ہے جو ایمان اور بصیرت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت قوت و طاقت کا سرچشمہ ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد راہ حق کی مشکلات کو برداشت کرنا، مخالفتوں کا سامنا کرنا اور مزاحم قوتوں سے ٹکر لینا آسان ہو جاتا ہے۔ سورہ انعام میں ارشاد ہوا ہے :

 

فَمَنْ یُرِدِاللہُ اَنْ یَّھْدِیُہٗ یَشْرَھْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ (الانعام۔ ۱۲۵ )  ’’ جس شخص کو اللہ ہدایت دینے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔ ‘‘

 

پس سینہ کا کھل جانا سراسر اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو شرح صدر کی نعمت سے سرفراز کیے جانے کا جو ذکر ہوا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تمام ذہنی اُلجھنوں کو دور کر دیا اور آپؐ کو وہ آہنی عزم،وہ وسعت حوصلہ اور وہ تور بصیرت عطا فرمایا جو نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے در کار تھا۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۃ الضحٰی کی آخری آیت میں نعمت رسالت کے اظہار و اعلان کی جو ہدایت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دی گئی ہے وہ ایک انبار اور کمر توڑ ذمہ داری تھی کیونکہ ایک ایسے ماحول میں جہاں لوگ جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے اور بت پرستی اور شرک جن کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا توحید و آخرت کی دعوت پیش کرنا اور خاص طور سے یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے کوئی آسان کام نہ تھا بلکہ سخت جاں گُسل کام تھا چنانچہ جوں ہی نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت کا آغاز فرمایا ہر طرف سے مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور آپؐ کی رسالت کا لوگوں نے نہ صرف انکار کیا بلکہ وہ خوب مذاق اڑانے لگے۔ دعوت و تبلیغ، اظہار حق، اور فرائض رسالت کی ادائیگی کی یہی وہ کمر توڑ ذمہ داری تھی جس کو ادا کرنے کی فکر میں آپؐ اس طرح ڈوبے رہتے کہ گویا کوہ غم آپؐ پر ٹوٹ پڑا ہے۔ بعد کے مرحلہ میں یہ کیفیت نہیں رہی کیونکہ شرح صدر نے زبردست تقویت کا سامان کیا، حوصلہ کی بلندی نے مشکل کام کو بھی آسان کر دیا نیز مخلص ساتھیوں کے فراہم ہو جانے سے دل کو اطمینان اور سکون نصیب ہوا۔ اسی اطمینان اور سکون کی کیفیت کو جا بعد کے مرحلہ میں پیدا ہوئی بوجھ اتار دینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دنیا میں عطا کیا گیا۔ رفع ذکر کا مطلب محض شہرت نہیں ہے بلکہ اس میں بڑی معنویت ہے اور بشارتوں کی ایک دنیا پوشیدہ ہے۔ اس کے چند پہلو یہ ہیں کہ آپؐ کا ذکر مبارک بلند سطح سے ہوگا، آپؐ کی رسالت کا چرچا عام ہوگا۔ آپؐ کا نام نہایت ادب و احترام کے ساتھ لیا جاۓ گا، آپ کی رسالت کی گواہی دیے بغیر کوئی شخص بھی اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اذان میں آپؐ کے نام کی صدا برابر گونجتی رہے گی، کوئی نماز آپؐ کے ذکر خیر سے خالی نہیں ہوگی، آپؐ دنیاۓ انسانیت کے نجات دہندہ کہلائیں گے ، کوئی آپؐ کو یتیموں کا والی کہے گا، تو کوئی غلاموں کا مولیٰ ، کہیں آپؐ کا تذکرہ معلم اخلاق اور مزکّی نفوس کی حیثیت سے ہوگا تو کہیں تاریخ ساز انقلابی شخصیت کی حیثیت سے ہوگا تو کہیں آپؐ سرور عالم کے لقب سے پکارے جائیں گے تو کہیں رحمۃ للعالمین کے لقب سے ، قومیں آپؐ کو ہادیٔ اعظم کے نام سے یاد کریں گی تو علماء اور فضلاء نور مجسم کے نام سے ، آپؐ کی سیرت دلوں پر نقش ہو گی اور آپؐ کی حیات طیبہ کے ذکر سے محفلیں مہک اٹھیں گی، آپؐ کی شان میں نعت پڑھنا لوگوں کے لیے باعث فخر ہوگا اور بَلَغَالْعُلیٰ بِکمالِہٖ جیسے کلمات زبان زد عام ہوں گے۔ اہل ایمان کو آپؐ سے گہری عقیدت ہو گی اور شب و روز آپؐ کی خدمت میں ہدیہ و درود و سلام پیش کرتے رہیں گے صلی اللہ علیہ و سلم اس آیت کے نزول کے وقت تو فرع ذکر کی ایک جھلک ہی دیکھی جا سکتی تھی لیکن بعد میں جب آفتاب عالم تب کی طرح اس کی صداقت روشن ہو گئی تو کسی کا انکار کی مجال نہ رہی الّا یہ کہ کسی نے اپنی آنکھیں ہی بند کر لی ہوں۔

 

موقع کلام کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ اطمینان دلانا مقصود ہے کہ اے نبی ! تمہارے مخالفین تمہیں کتنا ہی جھٹلائیں اور تمہارا کیسا ہی مذاق اڑائیں اللہ تعالیٰ نے تو تمہاری شان بلند کی ہے اور اپنے نیک بندوں میں تمہارے لیے کمال درجہ کی مقبولیت رکھ دی ہے چنانچہ تمہارے ذکر سے فضا گونج رہی ہے لہٰذا تم مخالفتوں کی کوئی پرواہ نہ کرو اور اطمینان رکھو کہ وہ تمہارا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ وہ اہم حقیقت ہے جس کو اصلاً ذہن نشین کرانا مقصود ہے۔ اس سورہ میں نیز سابق سورہ (الضحٰی )  میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی سے متعلق جن واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی، تکلیف کے بعد راحت اور مشکلات کے بعد آسانی کی راہ کھولتا ہے۔ اس حقیقت کو پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ مشکلات آئندہ بھی پیش  آ سکتی ہیں لیکن آپؐ پریشان نہ ہوں کیونکہ ہر مشکل آسانی کا پیش خیمہ ہے اور ہر دشواری سہولت کی ضمانت۔ ابتلاء کے ان مرحلوں سے گزر کر ہی آپؐ اس منزل کو پہنچ سکیں گے جہاں آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی۔

 

اس سے یہ اصولی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آدمی راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات سے پریشان اور دل گرفتہ نہ ہو بلکہ اطمینان رکھ کہ مشکلات کے بعد آسانیوں کا دور بھی آۓ گا اور آسانیوں کا دور اتنا قریب ہے کہ گویا ساتھ ہی چلا آ رہا ہے۔

 

’’ مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے ‘‘ یہ بات دو مرتبہ دہرائی گئی ہے تاکہ واضح ہو جاۓ کہ راہ حق میں مشکلات بار بار پیش آ سکتی ہیں لیکن ہر مشکل کے بعد بہ شرط یہ کہ آدمی ہمت نہ ہارے آسانی کی راہ لازماً کھلے گی۔ ایسے ہی حالات سے گزر کر اہل ایمان اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکتے ہیں یعنی اس مقام کو جہاں مشکلات کا گزر ہی نہیں اور جس کا اصطلاحی نام جنت ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فارغ ہونے کے مفہوم میں ہر طرح کے مشاغل سے فارغ ہونا شامل ہے لیکن یہاں خاص طور سے اشارہ دعوتی سرگرمیوں سے فارغ ہونے کی طرف ہے کیونکہ ما قبل سورہ کی آخری آیت : وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ میں دعوت و تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی ہدایت دی گئی تھی اور یہاں اسی سیاق میں فرمایا گیا ہے کہ ’’ جب تم فارغ ہو تو عبادت میں سرگرم ہو جاؤ‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی اور مشغولیت نہ رہے تو عبادت الہٰی ہی ہے چنانچہ اس ہدایت کی تعمیل میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا عبادت میں انہماک اس قدر بڑھ گیا تھا کہ طویل قیام لیل کی وجہ سے آپؐ کے پاؤں متورم ہو جاتے۔

 

عن عائشۃ رضی اللہ عنہا قالت : کان النبیّ صلی اللہ علیہ و سلم یقوم من اللیل حتی تتفطرقد ماہ، فل تلہ : لم تصنع ھذا یا رسول اللہ وقد غفرلک ما تقدم من ذنبک و ما تاخر ؟ قال : افلا اکون عبداً شکوراً۔ (بخاری مسلم)

 

حضرت عائشہ رضی عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم رات میں اتنا طویل قیام فرماتے کہ آپؐ کے قدم متورم ہو جاتے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپؐ اتنا طویل قیام کیوں فرماتے ہیں جب کہ آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دیے گۓ ہیں۔ فرمایا کیا میں شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں ‘‘۔

 

اس سے یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے ہ اسلام میں عبادت کا مقام کیا ہے۔ گو شریعت کے سب احکام اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن جو چیز تمام احکام پر فوقیت رکھتی ہے وہ عبادت ہی ہے یعنی نماز ، ذکر، دعا جیسی چیزیں کہ یہ عبادت مقررہ وقت پر بھی  مطلوب ہے اور اس وقت بھی جب کہ دوسری مصروفیتوں سے آدمی فارغ ہو۔ بالفاظ دیگر اہل ایمان کو سب سے زیادہ جس کام سے دلچسپی ہونی چاہیے اور جو کام مسلسل انجام دیتے رہنا چاہیے وہ عبادت الہٰی ہی ہے۔ اگر غذا اور پانی انسان کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے تو اس سے کہیں زیادہ ضروری سانس لینے کا عمل ہے۔ اگر ایک منٹ کے لیے آدمی سانس نہ لے تو وہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اسی طرح شرعی احکام خواہ وہ احکام دعوت و تبلیغ سے متعلق ہوں یا تعلیم و تربیت سے متعلق، انفرادی زندگی ے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے متعلق، اگر اسلامی زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی ضروری ہے تو اللہ کی عبادت و پرستش اس سے کہیں زیادہ ضروری۔ یہی وجہ ہے کہ دوسرے احکام کی تعمیل کے سلسلہ میں حالات کی مناسبت سے ذمہ داریوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن نماز مؤمن کی زندگی کا جز و لاینفک ہے اور اس کا جتنا اہتمام وہ کرتا ہے اتنا ہی اس کا تعلق اللہ سے مضبوط ہو جاتا ہے یہاں تک کہ نماز اس کے آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب ہی کی طرف متوجہ ہو جاؤ، اس کو زیادہ سے زیادہ یاد کرو ، اس سے استغفار کرو اور عاجزی کے ساتھ اس سے دعائیں مانگو۔

 

یہ ہدایت گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے دی گئی ہے مگر یہ سب کے لیے عام ہے اور اس سے جو اہم ترین حقیقت واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ تمام غایتوں کی غایت اللہ سے لَو لگانا یا بالفاظ دیگر تعلق باللہ ہے۔

 

***