تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الانشراح

(سورۃ الشرح ۔ سورہ نمبر ۹۴ ۔ تعداد آیات ۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     کیا ہم نے کھول نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینے کو؟

۲۔۔۔     اور کیا ہم نے اتار نہیں دیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ بھاری بوجھ؟

۳۔۔۔     جو توڑے ڈال رہا تھا آپ کی کمر کو؟

۴۔۔۔     اور کیا ہم نے بلند نہیں کر دیا آپ کی خاطر آپ کے ذکر (و آوازہ) کو؟

۵۔۔۔     پس یقیناً تنگی (اور مشکل) کے ساتھ آسانی ہے

۶۔۔۔     یقیناً تنگی (اور مشکل) کے ساتھ آسانی ہے

۷۔۔۔     پس جونہی آپ فارغ ہوا کریں ریاضت میں لگ جایا کریں

۸۔۔۔     اور اپنے رب ہی کی طرف راغب (و رجوع) رہا کریں

تفسیر

 

۶۔۔۔     سو اوپر والی چار آیات میں ذکر فرمودہ چاروں اہم حقائق کے بعد فائے تفریع کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یقیناً تنگی کے بعد آسانی ہے۔ سو پہلے پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کی زندگی اور آپ کی ذات سے تعلق رکھنے والے یہ چاروں حقائق اس بات کے گواہ ہیں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور پھر اس بات کو تکرار کے ساتھ یعنی دو مرتبہ ذکر فرمایا گیا۔ اور یہ تکرار محض تاکید کے لئے نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس سے دراصل اس اہم حقیقت کو واضح کرنا مقصود و مطلوب ہے کہ اس دنیا میں عسر ویسر باہم لازم و ملزوم ہیں یہ نہیں کہ ایک گھاٹی کسی نے عبور کر لی تو پھر کسی دوسری گھاٹی سے اس کو کبھی سابقہ و واسطہ نہیں پڑے گا سو ایسے نہیں، بلکہ اس جہاں میں ہر مسافر کو اپنے سفر کے دوران نشیب و فراز سے سابقہ پیش آنا ہی دنیا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور اس ابتلاء و آزمائش کی حکمت قرآن حکیم میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اس طرح مخلص و منافق اور راست باز و ریاکار کے درمیان فرق و تمیز واضح ہوتا جائے، اور کوئی یہ شکایت نہ کر سکے کہ اس کے ساتھ کسی طرح کی کوئی بے انصافی کی گئی ہے ہر ایک کی اصل پوزیشن واضح ہو جائے اور ہر کسی پر عملی طور پر حجت قائم ہو جائے پس بندہ مومن کے ذمے ہے کہ وہ راہ حق پر صدق و اخلاص کے ساتھ چلتا جائے، اور راہ حق کا مسافر جب اپنی منزل مقصود کی طرف صدق و اخلاص کے ساتھ چل نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستے کی مشکلات اور صعوبتوں کو آسان کرتا جاتا ہے پس بندے کو چاہیے کہ وہ صدق و اخلاص اور عزم و ہمت کے ساتھ راہ حق پر چلتا جائے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے منزل مقصود تک پہنچ جائے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیِنَّہُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ و باللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلیٰ مایحب و یرید وہو الہا دی الی سواء السبیل، سبحانہ و تعالیٰ