تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الانشراح

۱ ۔۔۔      کہ اس میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیے اور لوازم نبوت اور فرائض رسالت برداشت کرنے کو بڑا وسیع حوصلہ دیا کہ بے شمار دشمنوں کی عداوت اور مخالفوں کی مزاحمت سے گھبرانے نہ پائیں (تنبیہ) احادیث و سیر سے ثابت ہے کہ ظاہری طور پر بھی فرشتوں نے متعدد مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سینہ چاک کیا۔ لیکن مدلول آیت کا بظاہر وہ معلوم نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔

۳ ۔۔۔      وحی کا اترنا اول سخت مشکل تھا۔ پھر آسان ہو گیا۔ یا منصبِ رسالت کی ذمہ داریوں کو محسوس کر کے خاطر شریف پر گرانی گزرتی ہو گی۔ وہ رفع کر دی گئی۔ یا "وزر" سے وہ امورِ مباحہ مراد ہوں جو گاہ بگاہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قرین حکمت و صواب سمجھ کر لیتے تھے۔ اور بعد میں ان کا خلافِ حکمت یا خلاف اولیٰ ہونا ظاہر ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم بوجہ علو شان اور غایت قرب کے اس سے ایسے ہی مغموم ہوتے تھے جس طرح کوئی گناہ سے مغموم ہوتا ہے تو اس آیت میں ان پر مواخذہ نہ ہونے کی بشارت ہوئی۔ کذاروی عن بعض السلف۔ اور حضرت شاہ عبدالعزیز لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہمتِ عالی اور پیدایشی استعداد جن کمالات و مقامات پر پہنچنے کا تقاضا کرتی تھی۔ قلب مبارک کو جسمانی ترکیب یا نفسانی تشویشات کی وجہ سے ان پر فائز ہونا دشوار معلوم ہوتا ہو گا۔ اللہ نے جب سینہ کھول دیا اور حوصلہ کشادہ کر دیا، وہ دشواریاں جاتی رہیں اور سب بوجھ ہلکا ہو گیا۔

 ۴ ۔۔۔        یعنی پیغمبروں اور فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام بلند ہے۔ دنیا میں تمام سمجھدار انسان نہایت عزت و وقعت سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر کرتے ہیں ۔ اذان، اقامت، خطبہ، کلمہ و طیبہ اور التحیات وغیرہ میں اللہ کے نام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لیا جاتا ہے اور خدا نے جہاں بندوں کو اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہیں ساتھ کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی فرمانبرداری کی تاکید کی ہے۔

۶ ۔۔۔    یعنی اللہ کی رضا جوئی میں جو سختیاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے برداشت کیں اور رنج و تعب کھینچے۔ ان میں سے ہر ایک سختی کے ساتھ کئی کئی آسانیاں ہیں ۔ مثلاً حوصلہ فراخ کر دینا جس سے ان مشکلات کا اٹھانا سہل ہو گیا، اور ذکر کا بلند کرنا، جس کا تصور بڑی بڑی مصیبتوں کے تحمل کو آسان کر دیتا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ جب ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو روحانی راحت دی اور روحانی کلفت رفع کر دی جیسا کہ "الم نشرح" الخ سے معلوم ہوا تو اس سے دنیاوی راحت و محنت میں بھی ہمارے فضل و کرم کا امیدوار رہنا چاہیے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ بیشک موجودہ مشکلات کے بعد آسانی ہونے والی ہے اور تاکید مزید کے لئے پھر کہتے ہیں کہ ضرور موجودہ سختی کے بعد آسانی ہو کر رہے گی۔ چنانچہ احادیث و سیر سے معلوم ہو چکا کہ وہ سب مشکلات ایک ایک کر کے دور کر دی گئیں ۔ اور ہر ایک سختی اپنے بعد کئی کئی آسانیاں لے کر آئی۔ اب بھی عادۃً اللہ یہی ہے کہ جو شخص سختی پر صبر کرے اور سچے دل سے اللہ پر اعتماد رکھے اور ہر طرف سے ٹوٹ کر اسی سے لو لگائے۔ اسی کے فضل و رحمت کا امیدوار رہے، امتدادِ زمانہ سے گھبرا کر آس نہ توڑ بیٹھے ضرور اللہ اس کے حق میں آسانی کرے گا۔ ایک طرح کی نہیں ، کئی طرح کی، وفی الحدیث "لن یغلب عسر یسرین" وفیہ ایضا "لوجاالعسر فدخل ھٰذا الحجر لجاء الیسر حتی ید خل علیہ فیخرجہ"

۸ ۔۔۔        یعنی جب خلق کے سمجھانے سے فراغت پائے تو خلوت میں بیٹھ کر محنت کر، تاکہ مزید یسر کا سبب بنے۔ اور اپنے رب کی طرف (بلاواسطہ) متوجہ ہو (تنبیہ) خلق کو سمجھانا اور نصیحت کرنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اعلیٰ ترین عبادت تھی۔ لیکن اس میں فی الجملہ مخلوق کا توسط ہوتا تھا۔ مطلوب یہ ہے کہ ادھر سے ہٹ کر بلاواسطہ بھی متوجہ ہونا چاہئے۔ اس کی تفسیر اور کئی طرح کی گئی ہے۔ مگر اقرب یہی معلوم ہوتی ہے۔