احسن البیان

سُوۡرَةُ العَلق

١۔ یہ سب سے پہلی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اس وقت آئی جب آپ غار حرا میں مصروف عبادت تھے، فرشتے نے آ کر کہا، پڑھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، فرشتے نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر زور سے بھینچا اور کہا پڑھ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر وہی جواب دیا۔ اس طرح تین مرتبہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بھینچا (تفصیل کے لئے دیکھئے صحیح بخاریِ بدء الوحی، مسلم، باب بدء الوحی، اقرا) جو تیری طرف وحی کی جاتی ہے وہ پڑھ، جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا۔

۲۔مخلوقات میں سے بطور خاص انسان کی پیدائش کا ذکر فرمایا جس سے اس کا شرف واضح ہے۔

٣۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں تو قاری ہی نہیں اللہ نے فرمایا، اللہ بہت کرم والا ہے پڑھ، یعنی انسانوں کی کوتاہیوں سے درگزر کرنا اس کا وصف خاص ہے۔

٤۔قلم کا معنی ہے قطع کرنا، تراشنا، قلم بھی پہلے زمانے میں تراش کر ہی بنائے جاتے تھے۔ اس لیے آلہ کتابت کو قلم سے تعبیر کیا۔

١٠۔ مفسرین کہتے ہیں کہ روکنے والے سے مراد ابوجہل ہے جو اسلام کا شدید دشمن تھا۔

١١۔ یعنی جس کو یہ نماز پڑھنے سے روک رہا ہے، وہ ہدایت پر ہو۔

۱۲۔یعنی اخلاص، توحید، اور عمل صالح کی تعلیم، جس سے جہنم کی آگ سے انسان بچ سکتا ہے تو کیا یہ چیزیں (نماز، روزہ وغیرہ) ایسی ہیں کہ ان کی مخالفت کی جائے اور اس پر اس کو دھمکیاں دی جائیں۔

١٣۔ یعنی یہ ابوجہل اللہ کے پیغمبر کو جھٹلاتا ہو اور ایمان منہ سے پھیرتا ہو (مجھے بتلاؤ)

۱۴۔مطلب یہ ہے کہ یہ شخص جو مذکورہ حرکتیں کر رہا ہے کیا نہیں جانتا کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے وہ اس کو اسکی سزا دے گا۔

١٥۔ یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اور دشمنی سے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے، اس سے باز نہ آیا تو میں اس کی گردن پر پاؤں رکھ دونگا۔ (یعنی اسے روندوں گا اور یوں ذلیل کرونگا) نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ بات پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اسے پکڑ لیتے (صحیح بخاری)

۱۶۔ پیشانی کی یہ صفات بطور مجاز ہیں، جھوٹی ہے اپنی بات میں، خطاکار ہے اپنے فعل میں۔

۱۷۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوجہل گزرا تو کہ اے محمد!(صلی اللہ علیہ و سلم ) میں نے تجھے نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سخت دھمکی آمیز باتیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کڑا جواب دیا تو کہنے لگا اے محمد! (صلی اللہ علیہ و سلم ) تو مجھے کس چیز سے ڈراتا ہے ؟ اللہ کی قسم، اس وادی میں سب سے زیادہ میرے حمایتی اور مجسل والے ہیں، جس پر یہ آیت نازل ہوئی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں، اگر وہ اپنے حمایتیوں کو بلاتا تو اسی وقت ملائکہ عذاب اسے پکڑ لیتے۔ (ترمذی، تفسیر سورۂ اقرأ مسند أحمد ۳۲۹/۱ و تفسیر ابن جریر) اور صحیح مسلم کے الفاظ ہیں کہ اس نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی گردن پر پیر رکھنے کا رادہ کیا کہ ایک دم الٹے پاؤں پیچھے ہٹا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا بچاؤ کرنے لگا، اس سے کہا گیا، کیا بات ہے ؟ اس نے کہا کہ "میرے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے درمیان آگ کی خندق، ہولناک منظر اور بہت سارے پر ہیں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، اگر یہ میرے قریب ہوتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتے (کتاب صفۃ القیامۃ، باب ان الأنسان لیطغیٰ ) الزبانیۃ، داروغے اور پولیس۔ یعنی طاقتو لشکر، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔