تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ العَلق

(سورۃ العلق ۔ سورہ نمبر ۹۶ ۔ تعداد آیات ۱۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     پڑھو اپنے اس رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا فرمایا ہے (اس ساری مخلوق کو)

۲۔۔۔     اس نے پیدا فرمایا انسان کو خون کی ایک حقیر قسم کی پھٹکی سے

۳۔۔۔     پڑھو اور آپ کا رب بڑا ہی کرم والا ہے

۴۔۔۔     جس نے سکھایا (پڑھایا انسان کو) قلم کے ذریعے

۵۔۔۔     اس نے سکھایا انسان کو وہ کچھ جو وہ نہیں جانتا تھا

۶۔۔۔     ہرگز نہیں بے شک انسان بڑا سرکش ہو جاتا ہے

۷۔۔۔     جب کہ وہ اپنے آپ کو غنی (اور بے نیاز) سمجھنے لگتا ہے

۸۔۔۔     بلاشبہ بالآخر لوٹنا (ہر کسی کو) بہرحال آپ کے رب ہی کی طرف ہے

۹۔۔۔     کیا تم نے دیکھا نہیں اس شخص کو جو روکتا ہے

۱۰۔۔۔     (اللہ تعالیٰ کے ) ایک عظیم الشان بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے

۱۱۔۔۔     بھلا دیکھو تو سہی کہ اگر وہ (عظیم الشان بندہ) راہ راست پر ہو

۱۲۔۔۔     یا وہ (دوسروں کو) پرہیزگاری کی تعلیم و تلقین کرتا ہو

۱۳۔۔۔     بھلا دیکھو تو سہی اگر یہ شخص حق کو جھٹلاتا اور (اس سے ) منہ موڑتا ہی چلا گیا

۱۴۔۔۔     کیا اسے یہ خبر نہیں کہ بے شک اللہ (سب کچھ جانتا) دیکھتا ہے ؟

۱۵۔۔۔     ہرگز نہیں اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کو ضرور گھسیٹیں گے اس کی پیشانی کے بالوں کے ذریعے

۱۶۔۔۔     ایسی پیشانی (کے بالوں ) سے جو کہ جھوٹی خطاکار ہے

۱۷۔۔۔     سو (اس موقع پر) وہ ضرور بلا لے اپنے حامیوں کی ٹولی کو

۱۸۔۔۔     ہم بھی بلا لیں گے عذاب کے فرشتوں کو

۱۹۔۔۔     ہرگز نہیں اس کی بات نہیں ماننا اور سجدہ کرتے جاؤ (اپنے رب کے حضور اور اس کا) قرب حاصل کرتے جاؤ

تفسیر

 

۷۔۔۔     سو اس آیت کریمہ سے منکر انسان کے کفر اور اس کی محرومی کے اصل سبب کو واضح فرما دیا گیا اور وہ ہے اس کا اپنی بے نیازی کا جھوٹا زعم اور گھمنڈ، اور آیت کریمہ کے شروع میں کَلاَّ کے حرف ردع و تردید سے ایسے لوگوں کی سخن سازیوں کی تردید فرما دی گئی، جو وہ حق کے بارے میں بگھارتے ہیں سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل بات وہ نہیں جو یہ لوگ بناتے اور ظاہر کرتے ہیں بلکہ اصل وجہ ایسے شخص کے انکار و تکذیب اور اس کی محرومی و بدبختی کی یہ ہے کہ یہ دنیاوی مال واسباب کی بناء پر اپنے رب سے بے نیاز بن گیا۔ اور اس کے آگے جھکنے اور اس کی طرف رجوع کرنے کے بجائے الٹا یہ باغی اور سرکش بن گیا۔ اور جس مال و دولت سے اس کو اس کے رب نے نوازا تھا اس کے شکر ادا کرنے کے بجائے یہ الٹا انکارِ حق اور کفران نعمت کا مرتکب بن گیا، اور اس پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ خواہ مخواہ کی سخن سازیوں سے کام لیتا ہے سو اپنے رب سے بے نیازی برتنا محرومیوں کی محرومی ہے و العیاذُ  باللہ۔ اور اس سے نیاز مندی اور عبادت و بندگی کا تعلق اور رجوع الی اللہ دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ ووسیلہ ہے، یہی چیز حضرت حق جَلَّ مَجْدُہٗ کا اس کے بندے پر حق بھی ہے اور یہی شکر نعمت کا تقاضا بھی، اور اسی سے بندے کا اپنے خالق و مالک، اور اس کی مخلوق سے صحیح تعلق قائم ہوتا ہے اور اس کو راہ حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے، و باللہ التوفیق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید، بکل حالٍ من الاحوال،

۱۹۔۔۔  اس سے پیغمبر کو اور آپ صلی اللہ علیہ کے واسطے سے آپ کی امت کے ہر فرد کو دو عظیم الشان ہدایتیں بھی ارشاد فرمائی گئیں اور اس کا نتیجہ بھی ذکر فرما دیا گیا۔ جن میں سے پہلی ہدایت یہ ارشاد فرمائی گئی کہ جو لوگ آپ کو اپنے رب کے آگے سجدہ کرنے سے روکیں ان کی بات کو کبھی خاطر میں نہیں لانا، کہ ایسی کوئی بھی بات کان دھرنے کے لائق نہیں بلکہ اس کے برعکس آپ بلکہ ہمیشہ اپنے رب کے حضور سجدے کرتے جاؤ کہ یہی چیز صبر و عزیمت سے سرفرازی اور نصرت و امداد خداوندی کے دروازے کھولنے کے لئے شہ کلید ہے، سو اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی بندے پر اپنے خالق و مالک کا حق بھی ہے اور اسی میں بندے کا بھلا بھی ہے۔ اور یہی چیز قرب خداوندی کے حصول اور اس سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ سجدہ میں ہوتا ہے اس لئے اس حالت میں وہ اس کے زیادہ لائق ہوتا ہے کہ اس کی دعاء قبول کی جائے، سو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا شخص کتنا بدبخت ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرنے سے روکے، اور منع کرے، والعیاذ باللہ العظیم، و باللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلیٰ مایحبُّ و یرید۔