دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ العَلق

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 آیت ۲ میں انسان کے عَلَقْ (خون کی پھُٹکی )  سے پیدا کیے جانے کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْعَلَقْ ہے اور اس کا دوسرا نام اِقْرَأ (پڑھ)  بھی ہے اس مناسبت سے کہ سورہ کا آغاز اسی لفظ سے ہوا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 مکی ہے اور پہلی وحی جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی وہ اس سورہ کی ابتدائی پانچ آیتیں تھیں۔ بقیہ آیتیں بعد میں اس وقت نازل ہوئیں جب کہ ابو جہل نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی اور آپؐ کی کھلی مخالفت پر اتر آیا۔ یہ ہے کہ یہ کتاب خالق کائنات کا فرمان ہے جو انسان کی رہنمائی کے لیے پیغمبر پر نازل ہوا ہے تاکہ وہ اس کی روشنی میں اپنے رب کی بندگی کرے اور اس کا قرب حاصل کرے لیکن انسان کا حال عجیب ہے بجاۓ اس کے کہ وہ اس سعادت کو حاصل کرتا اپنے رب سے سرکشی کرنے لگتا ہے اور پیغمبر کی مخالفت پر اتر آتا ہے۔ اس طرح اپنی عاقبت خراب کرتا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں قرآن پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اسی ضمن میں انسان کے خالق کی کرشمہ سازی کا ذکر کرتے ہوۓ جو اس کی تخلیق میں نمایاں ہے علم حقیقی کی دولت سے نوازے جانے کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔

 

آیت ۶ تا ۸ میں انسان کو اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ ان نعمتوں کی قدر کرنے کے بجاۓ الٹا اپنے رب سے سرکشی کرتا ہے درآں حال یہ کہ پہنچنا اسے اپنے رب ہی کے پاس ہے۔

 

آیت ۹ تا ۱۴ میں ان لوگوں کو سرزنش کی گئی ہے جو پیغمبر کی مخالفت پر تل گۓ تھے اور آپؐ کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کر رہے تھے۔

 

آیت ۱۵ تا ۱۸ میں سرکشوں کو انجام بد سے آگاہ کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۹ میں پیغمبر کو اور اس کے واسطے سے اہل ایمان کو ہدایت کی گئی ہے کہ ان سرکشوں کی بات نہ مانو اور اللہ کی بندگی میں لگے رہو۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھو۱*  اپنے رب کے نام سے ۲*  جس نے پیدا کیا۳*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیدا کیا انسان کو جمے ہوۓ خون سے ۴*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پڑھو۵*  اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۶*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۷*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا ۸*  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سرکشی کرتا ہے ۹*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بنا پر کہ وہ اپنے کو بے نیاز خیال کرتا ہے ۱۰*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جب کہ)  یہ بات یقینی ہے کہ تمہارے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانا ۱۱*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس شخص کو دیکھا جو روکتا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بندے کو جب کہ وہ نماز پڑھتا ہے ؟ ۱۲*  

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے سوچا اگر (بندہ)  ہدایت پر ہو۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا پرہیز گاری کا حکم دیتا ہو۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے سوچا اگر یہ (روکنے والا شخص)  جھٹلاتا اور منہ موڑتا ہو! ۱۳*  

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا اسے نہیں معلوم کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟۱۴*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبردار! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے ۱۵*  

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹی اور خطا کار پیشانی ! ۱۶*  

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس وہ بلا لے اپنی ٹولی کو ۱۷*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم بھی بلاتے ہیں عذاب کے فرشتوں کو ۱۸*  

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خبردار ! اس کی بات نہ مانو۱۹* اور سجدہ کرو۲۰*  اور قرب حاصل کرو۲۱*۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ابتدائی پانچ آیتیں پہلی وحی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوئی جب کہ آپؐ غار حرا میں جو مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر ہے عبادت خداوندی کی غرض سے معتکف تھے۔ یہ ماہ رمضان کی کوئی شب تھی اور اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔ سن عیسوی کے اعتبار سے یہ ۶۱۰ A .D.  کا واقعہ ہے۔ بخاری میں یہ واقعہ تفصیل سے بیان ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ غار حرا میں یکایک فرشتہ آپؐ کے سامنے نمودار ہوا اور اس نے کہا اِقْرَأ ’’پڑھو‘‘ آپؐ فرماتے ہیں کہ مجھے فرشتے نے پکڑ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی۔ پھر اس نے مجھے چھوڑا اور کہا ’’پڑھو‘‘ میں نے کہا ’’میں پڑھا ہوا نہیں ہو‘‘ اس نے دوسری مرتبہ مجھے دبایا یہاں تک کہ میرے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا ’’پڑھو‘‘ میں نے کہا ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ‘‘۔ اس نے تیسری مرتبہ مجھے دبایا یہاں تک کہ مریے لیے برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا اَقْرَأ بِاِسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ (پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا)  یہاں تک کہ اس نے مَالَمْ یَعْلَمْ تک کی آیتیں پڑھیں (بخاری بدء الوحی ، کتابُ التفسیر )  

 

اس طرح قرآن کے نزول کا آغاز ہوا اور آپؐ  نبوت سے سرفراز کیے گۓ۔ یہ معاملہ یکایک پیش آیا تھا۔ ا سے پہلے یہ بات آپؐ کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ آپؐ کو نبی بایا جانے والا ہے۔ البتہ نبوت سے پہلے بھی آپ خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہے اور یہ عبادت کا ذوق و شوق ہی تھا جو آپؐ کو غار حرا میں کھینچ لایا تاکہ آپؐ یکسوئی کے ساتھ عبادت میں منہمک ہو جائیں۔ جس فرشتہ کو آپؐ نے دیکھا وہ جبرئیل ہیں جو اللہ تعالیٰ کا کلام لے کر آۓ تھے۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم امّی تھے یعنی آپؐ نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا تھا اس لیے کلام الٰہی کو پڑھنے کے سلسلہ میں اشکال محسوس کیا۔ لیکن جب فرشتہ نے آپؐ کو تین مرتبہ دبایا تو آپؐ کا اشکال دور ہو گیا اور کلام الٰہی کے اخذ کرنے اور پڑھنے کی غیر معمولی صلاحیت پیدا ہو گئی۔

 

اس سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں پڑھنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس سے مراد قرآن کا پڑھنا ہے جو کتاب ہدایت ہے جو لوگ قرآن کے اولین مخاطب تھے ان کی زبان عربی تھی ور قرآن عربی ہی میں نازل ہو رہا تھا اس لیے پڑھنے کا حکم ان کے لیے سمجھ کر پڑھنے کے ہم معنیٰ تھا لیکن جن کی زبان عربی نہیں ہے ان کے لیے اس حکم کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ قرآن کے اصل متن کو پڑھتے ہوۓ اس کے معنیٰ و مفہوم کو بھی سمجھے کی کوشش کریں۔ جو کتاب ہدایت کے لیے نازل کی گئی ہے اس کو آدمی جب تک سمجھ کر نہیں پڑھے گا اس کی ہدایت اور خیر و برکت سے فائدہ کس طرح اٹھا سکے گا؟

 

واضح رہے کہ قرآن  پڑھنے کا یہ حکم عربوں یا مسلمانوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ اس حکم کا مخاطب ہر وہ انسان ہے جس تک یہ کتاب پہنچے کیونکہ یہ کتاب انسان کے خالق نے انسان کی ہدایت کے لیے نازل کی ہے۔ انسانوں کے کسی مخصوص گروہ کی ہدایت کے لیے نہیں اور چونکہ یہ قیامت تک کے لیے ہدایت ہے اس لیے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسان اس حکم کے مخاطب ہیں۔ اگر ایک دوست کے خط کو غیر زبان میں پاکر آدمی کے اندر اس کے سمجھنے کے لیے بے چینی پیدا ہوتی ہے تو اس سے کہیں زیادہ بے چینی آدمی کو بہ شرط یہ کہ اس کے اندر انسانیت زندہ ہو اپنے خالق کا ہدایت نامہ سمجھنے کے لیے ہوگی جو اگرچہ کہ اس کی اپنی زبان میں نہیں ہے مگر اس کو سمجھنے کے لیے وسائل مہیا کر دیے گۓ ہیں۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا نام لے کر قرآن پڑھو۔ بِسْم کی ’’ب‘‘ باۓ استعانت ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ قرآن پڑھنا خدا کی توفیق پر منحصر ہے لہٰذا اس کا آغاز کرتے ہوۓ اپنے رب سے مدد طلب کی جاۓ۔ اس حکم کی تعمیل کا طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے اور وہ ہے اور وہ ہے بِسْم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا چنانچہ سورہ فاتحہ جو قرآن کا دیباچہ ہے اور دیگر تمام سورتوں کا آغاز بجز سورہ توبہ کے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (اللہ رحمٰن و رحیم کے نام )  سے ہی ہوتا ہے۔

 

قرآن کو اللہ کے نام سے جو پیش کیا گیا ہے وہ در اصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ یہ کتاب لفظاً لفظاً اللہ کا کلام ہ۔ پیغمبر کا اپنا کلام نہیں اور یہ ہر طرح کی آمیزش سے پاک ہے۔ (مزید تشریح کے لی ملاحظہ ہو سورہ فاتحہ نوٹ ۱)

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جمے ہوۓ خون سے مراد استقرار حمل یعنی (Ovum)  کے Fertilize  ہونے کے بعد کی وہ حالت ہے جب کہ انسان اپنی تخلیق کے ابتدائی مرحلہ میں ہوتا ہے۔

 

یہاں اس کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ اتنی حقیر چیز سے انسان جیسی اشرف مخلوق کو بنا کر کھڑا کر دینا خالق کی عظیم قدرت ، کمال حکمت ، اس کی کرشمہ سازیوں اور بے انتہا نوازشوں پر دلالت کرتا ہے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اَقْرَأ یعنی پڑھنے کا حکم یہاں دو بارہ دیا گیا ہے جس سے تاکید بھی مقصود ہے اور قرآن کی اہمیت کا اظہار بھی کہ یہ اپنی نوعیت کی واحد کتاب ہے جو بار بار پڑھے جانے کے لائق ہے اور تمہیں یہ تاکیدی حکم دیا جا رہا ہے کہ اسے ایک بار نہیں بلکہ بار بار پڑھو۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’ اَکْرَم ‘‘ بیان ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑے شرف و عظمت والی ہستی ہے اور وہ بندوں کے حق میں نہایت محسن ہے یہاں اس صفت کے ذکر سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اپنی ذات کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہی شرف والا اور صاحب عظمت ہے۔ انسان کی تخلیق تو نہایت حقیر مادہ سے ہوئی ہے اس لیے اسے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح انسان کو یہ احساس دلانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ بہترین مخلوق بنا کراس کی رشد و ہدایت کا سامان کیا۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قلم علم کی اشاعت کا محفوظ اور اہم ترین ذریعہ ہے۔ یہ ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور اس نعمت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ قرآن کو ضبط تحریر میں لایا جاۓ چونکہ قرآن ایک ایسی قوم پر نازل کیا جا رہا تھا جو امی تھی اس لیے قلم (کتابت)  کی اہمیت واضح کی گئی تاکہ اب اسے اشاعت قرآن کی جو خدمت انجام دینا ہے اور اس میں تحریر و کتابت کا جو مقام ہے اسے وہ محسو کرے اور اس کے لیے مستعد ہو جاۓ چنانچہ آگے چل کر تعلیمی میدان میں اس نے جو ترقی کی اور قرآن کو ضبط تحریر میں لا کر اس کی اشاعت کے سلسلہ میں جو بیش بہا خدمات انجام دیں وہ اسی ہدایت ربّانی کے اثرات و نتائج تھے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ اس نے ایک حقیر ترین مادہ سے  بلند ترین صفات کی مخلوق کھڑی کر دی جس کی ایک ممتاز ترین صفت اس کا صاحب علم ہونا ہے۔

 

’’وہ علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا ‘’ سے مراد غیب کی حقیقتوں کا وہ علم ہے جو وحی کے ذریعہ انسان کو دیا گیا۔ یہ حقیقی اور بنیادی علم ہے جو قرآن کی شکل میں انسان کو عطاء ہوا ہے اور اسی پر اس کے ارتقاء اور اس کی ابدی کامیابی کا دارو مدار ہے۔ گویا قرآن کا نزول انسان پر اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا احسان ہے چنانچہ سورہ رحمٰن میں اس کو اپنی رحمت کا سب سے بڑا فیضان قرار دیا ہے :

 

اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ ’’ رحمٰن نے قرآن سکھایا’’ اور اس کا ذکر انسان کی پیدائش کے ذکر سے پہلے کیا ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ (انسان کو پیدا کیا)  تاکہ واضح ہو کہ اس کی پیدائش کا مقصد ہدایت کا حصول ہے جس کا سرچشمہ قرآن ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی بجاۓ اس کے کہ انسان اللہ کی اس نعمت کی قدر کرتا اس سے سرکشی کرنے لگتا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس سرکشی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کو خدا سے بے نیاز خیال کرنے کے لیے آزاد رہے اس لیے اسے نہ خدا کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کی ہدایت کی۔ اور اگر اسے مال و دولت اور جاہ منصب بھی حاصل ہو تو پھر اس کے اندر متکبرانہ نفسیات بڑی تیزی سے پیدا ہونے لگتی ہیں اور وہ خدا کے خلاف سرکشی پر اتر آتا ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا سے بے نیازی اختیار کر کے کوئی شخص بھی اپنے کو عدالت خداوندی کی حاضری سے بچا نہیں سکتا۔ اہاں اسے معلوم ہو جاۓ گا کہ اس سرکشی کا کیا نتیجہ نکلا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم بعثت کے بعد جب مسجد حرام میں نماز ادا کرنے لگے تو ابو جہل نے جو بڑا سرکش تھا آپؐ کو نماز سے روکنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔

 

اس مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کے علاوہ آیت کا عمومی پہلو یہ ہے کہ جو شخص بھی جس کسی بندہ کو نماز سے جو بندگی رب کا اولین مظہر ہے روکتا ہے وہ ایک بے ہودہ حرکت کرتا ہے جو ہر طرح قابل مذمت ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں قرآن کے ہر مخاطَب کو یہ سوچنے کی دعوت دی گئی ہے کہ ایک طرف اللہ کا وہ بندہ ہے جو خود راہ راست پر ہے اور دوسروں کو خدا سے ڈرنے اور اس کی نا فرمانی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے اور دوسری طرف وہ شخص ہے جس کا کام حق کو جھٹلانا اور اس سے رو گردانی کرنا ہے تو بتاؤ ان میں سے کس کی روش صحیح ہے ؟ اور پھر اگر یہ جھٹلانے والا شخص اسلام دشمنی میں اندھا ہو کر اس نیک بندہ پر زیادتیاں کر رہا ہو اور اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہو تو اس کی یہ حرکت کیسی ہے ؟

 

پس منظر کے لحاظ سے ان آیات کا اشارہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو جہل کی طرف ہے مگر اپنے مفہوم کے لحاظ سے اس میں عمومیت ہے۔ جو شخص بھی اسلام دشمنی میں کسی نیک بندے کو راہ حق سے روکے اس کی یہ حرکت اسی طرح قابل مذمت ہے جس طرح کہ ابو جہل کی حرکت قابل مذمت تھی۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا یہ ظالمانہ حرکتیں کرنے والا شخص اس بات سے بے خبر ہے کہ اللہ یہ سب کچھ دیکھ رہا ہے اور جب وہ ظالم و مظلوم اور بد کردار و نیک کردار سب کو دیکھ رہا ہے تو وہ ظالم کو سزا کیسے نہیں دے گا اور مظلوم کی داد رسی کیسے نہیں کرے گا؟ کیا جس ہستی کی نظر اس کے بندوں اور ان کی تمام حرکات و سکنات پر ہو ، اس کے نزدیک اس کی بندگی کرنے والے اور اس کی بندگی سے روکنے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انصاف کا ایک دن برپا ہو۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سرکش اگر اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آیا تو وہ دن آتا ہے جب کہ فرشتے اس کی پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ سورہ رحمٰن میں مجرموں کے بارے میں فرمایا ہے کہ :

 

فَیُؤ خَذُ بِالنَّوَاصِیْ وَالْاَقْدَامِ (الرحمٰن ۴۱)  ’’ ان کی  پیشانیوں کے بال اور ان کی ٹانگیں پکڑ کر ان کو گھسیٹا جاۓ گا‘‘۔

 

سرکش بڑے گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کے دماغ میں یہ ہوا بھر جاتی ہے کہ وہ بڑے لوگ ہیں اس لیے ان کو قیامت کے دن یہ رسوا کن عذاب دیا جاۓ گا کہ فرشتے ان کی پیشانیوں کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے اور انہیں جہنم رسید کریں گے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹی اور خطا کار پیشانی اس لیے کہا کہ جو پیشانی اپنے خالق کے حضور نہ جھکی اور دوسروں کو بھی اس کے حضور جھکنے سے روکتی رہی اس کے جھوٹی اور خطا کار پیشانی ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ابو جہل کی اس دھمکی کی طرف کہ اس وادی میں میری ٹولی کے لوگ زیادہ ہیں۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر کسی کو اپنی ٹولی کے لوگوں پر ناز ہے تو وہ ان کو اپنی حمایت کے لیے بلا لے ہم بھی اپنی پولیس (زبانیہ)  یعنی دوزخ کے فرشتوں کو بلاتے ہیں پھر وہ دیکھ لے کہ اس کے اندر کتنا بل بوتا ہے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان سرکشوں کی باتوں میں نہ آؤ جو خداۓ واحد کی بندگی سے تمہیں روکنا چاہتے ہیں۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ کے معنیٰ جھکنے کے بھی ہیں اور ماتھا زمین پر ٹیک دینے کے بھی۔ یہاں سجدہ کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خداۓ واحد ہی کے آگے جھکو ، اسی کے آگے ماتھا ٹیکو اور اسی کے لیے نماز پڑھو۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

 

اَقْرَبُ مَا یَکُوْ نُ الْعَبْدُ مِنْ رَّ بِّہٖ وَھُوَ سَاجِدٌ  (مسلم کتاب الصلاۃ)  

 

’’ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے ‘‘۔

 

واضح ہوا کہ سجدہ جو نماز کا اہم ترین رکن ہے قرب الٰہی کا اہم ترین ذریعہ ہے کیونکہ سجدہ میں انسان اپنی پیشانی کو جو جسم کا اشرف ترین حصہ ہے زمین پر رکھ دیتا ہے اور خدا کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوۓ اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہے (سَبْحانَ رَبِّی الْاَعْلٰی)

 

اس سے پہلے کی آیت میں خطا کار پیشانی کا ذکر تھا جسے جہنم رسید کر دیا جاۓ گا۔ اس کے مقابل میں یہ آیت مؤمن کی پیشانی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کی بناء پر معزز قرار پاۓ گی۔

 

سورہ کی ابتداء قرآن پڑھنے کے حکم سے ہوئی تھی اور اختتام خدا کا قرب حاصل کرنے کے حکم پر ہوا ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ قرآن پڑھنے کا ثمرہ خدا کا قرب ہے۔ اس سے اونچا کوئی مقام نہیں جس کا انسان تصور کر سکے اور اس سے بلند کوئی غایت نہیں جو حاصل کی جا سکتی ہو۔

 

اس آیت پر سجدہ کرنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔ (مسلم کتاب المساجد)