خزائن العرفان

سُوۡرَةُ العَلق

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ اقراء اس کو سورۂ علق بھی کہتے ہیں مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱رکوع، انیس۱۹ آیتیں، بانوے۹۲ کلمے، دو سو اسّی ۲۸۰ حرف ہیں۔ اکثر مفسّرین کے نزدیک یہ سورت سب سے پہلے نازل ہوئی اور اس کی پہلی پانچ آیتیں مَالَمْ یَعْلَمْ تک غارِ حرا میں نازل ہوئیں فرشتے نے آ کر حضرت سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عرض کیا اِقْرَ اۡ یعنی پڑھئیے، فرمایا ہم پڑھے نہیں، اس نے سینہ سے لگا کر بہت زور سے دبایا، پھر چھوڑ کر اِقْرَاۡ کہا آپ نے وہی جواب دیا، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے مَالَمْ یَعْلَمْ تک پڑھا۔

(۱) پڑھو اپنے  رب کے  نام سے  (ف ۲) جس نے  پیدا کیا (ف ۳)

۲                 یعنی قراء ت کی ابتداء ادباً اللہ تعالیٰ کے نام سے ہو۔ اس تقدیر پر آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قراء ت کی ابتداء بسم اللہ کے ساتھ مستحب ہے۔

۳                 تمام خَلق کو۔

(۲) آدمی کو خون کی پھٹک سے  بنایا، پڑھو (ف ۴)

۴                 دوبارہ پڑھنے کا حکم تاکید کے لئے ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوبارہ قراء ت کے حکم سے مراد یہ ہے کہ تبلیغ اور امّت کے تعلیم کے لئے پڑھئیے۔

(۳) اور تمہارا رب ہی سب سے  بڑا کریم۔

(۴) جس نے  قلم سے  لکھنا سکھایا (ف ۵)

۵                 اس سے کتابت کی فضیلت ثابت ہوئی اور درحقیقت کتابت میں بڑے منافع ہیں،کتابت ہی سے علوم ضبط میں آتے ہیں گذرے ہوئے لوگوں کی خبریں اور ان کے احوال اور ان کے کلام محفوظ رہتے ہیں۔ کتابت نہ ہوتی تو دِین و دنیا کے کام قائم نہ رہ سکتے۔

(۵) آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا (ف ۶)

۶                 آدمی سے مراد یہاں حضرت آدم ہیں اور جو انہیں سکھایا اس سے مراد علمِ اسماء۔ اور ایک قول یہ ہے کہ انسان سے مراد یہاں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے جمیع اشیاء کے علوم عطا فرمائے۔ (معالم و خازن)

(۶) ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا  ہے۔

(۷) اس پر کہ اپنے  آپ کو غنی سمجھ لیا (ف ۷)

۷                 یعنی غفلت کا سبب دنیا کی محبّت اور مال پر تکبر ہے۔ یہ آیتیں ابوجہل کے حق میں نازل ہوئیں اس کو کچھ مال ہاتھ آگیا تھا تو اس نے لباس اور سواری اور کھانے پینے میں تکلّفات شروع کئے اور اس کا غرور و تکبر بہت بڑھ گیا۔

(۸) بیشک تمہارے  رب ہی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۸)

۸                 یعنی انسان کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ اسے اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے تو سرکشی و طغیان اور غرور و تکبر کا انجام عذاب ہو گا۔

(۹) بھلا دیکھو تو جو منع کرتا ہے ۔

(۱۰) بندے  کو جب وہ نماز پڑھے  (ف ۹)

۹                 شانِ نزول : یہ آیت بھی ابوجہل کے حق میں نازل ہوئی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز پڑھنے سے منع کیا تھا اور لوگوں سے کہا تھا کہ اگر میں انہیں ایسا کرتا دیکھوں گا تو ( معاذ اللہ) گردن پاؤں سے کچل ڈالوں گا اور چہرہ خاک میں ملا دوں گا، پھر وہ اسی ارادۂ فاسدہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے نماز پڑھتے میں آیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے قریب پہنچ کر الٹے پاؤں پیچھے بھاگا، ہاتھ آگے بڑھائے ہوئے جیسے کوئی کسی مصیبت کو روکنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے، چہرہ کا رنگ اڑ گیا، اعضاء کانپنے لگے، لوگوں نے کہا کیا حال ہے، کہنے لگا میرے اور محمّد (مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) کے درمیان ایک خندق ہے جس میں آگ بھری ہوئی ہے اور دہشت ناک پرند بازو پھیلائے ہوئے ہیں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کا عضو عضو جدا کر ڈالتے۔

(۱۱) بھلا دیکھو تو اگر وہ ہدایت پر  ہوتا ۔

(۱۲) یا پرہیز گاری بتاتا تو کیا خوب تھا۔

(۱۳) بھلا دیکھو تو اگر جھٹلایا (ف ۱۰) اور منہ پھیرا (ف ۱۱)

۱۰               نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو۔

۱۱               ایمان لانے سے۔

(۱۴)  تو کیا حال ہو گا کیا نہ جانا (ف ۱۲) کہ اللہ دیکھ رہا ہے  (ف ۱۳)

۱۲               ابوجہل نے۔

۱۳               اس کے فعل کو۔ پس جزا دے گا۔

(۱۵) ہاں ہاں اگر باز نہ آیا  (ف ۱۴)  تو ضرور ہم پیشانی کے  بال پکڑ کر کھینچیں گے  (ف ۱۵)

۱۴               سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ایذا اور آپ کی تکذیب سے۔

۱۵               اور اس کو جہنّم میں ڈالیں گے۔

(۱۶) کیسی پیشانی جھوٹی خطاکار۔

(۱۷) اب پکارے  اپنی مجلس کو (ف ۱۶)

۱۶               شانِ نزول : جب ابوجہل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو نماز سے منع کیا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اس کو سختی سے جھڑک دیا اس پر اس نے کہا کہ آپ مجھے جھڑکتے ہیں خدا کی قَسم میں آپ کے مقابل نوجوان سواروں اور پیدلوں سے اس جنگل کو بھر دوں گا، آپ جانتے ہیں کہ مکّہ مکرّمہ میں مجھ سے زیادہ بڑے جتھے اور مجلس والا کوئی نہیں ہے۔

(۱۸) ابھی ہم سپاہیوں کو بلاتے  ہیں (ف ۱۷)

۱۷               یعنی عذاب کے فرشتوں کو۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ اپنی مجلس کو بلا تا تو فرشتے اس کو بالاعلان گرفتار کرتے۔

(۱۹) ہاں ہاں، اس کی نہ سنو اور سجدہ کرو (ف ۱۸) اور ہم سے  قریب ہو جاؤ،  (السجدۃ۔۱۴)

۱۸               یعنی نماز پڑھتے رہو۔